رسی

اردو کے منتخب افسانے یہاں شیئر کریں
Post Reply
وارث اقبال
کارکن
کارکن
Posts: 69
Joined: Wed May 30, 2012 10:36 am
جنس:: مرد

رسی

Post by وارث اقبال »

رسی غلام وارث اقبال
سیاہ کالی رات کسی کافر کی حکومت کی طرح ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ ۔۔ کسی بے حیا حسینہ کی سیاہ زلفوں کی طرح سیاہ رات۔۔۔۔۔۔ایسی سیاہ رات ، لگتا تھا کہ اُس نے کبھی سحر کا رُخِ زیبا چومنا تو درکنار دیکھا تک نہیں۔ ۔۔۔کبھی کسی چاند کے بوسے لینے تو درکنار اُس کےدرِ حسن پر سر جھکانےکامزا چکھا تک نہ تھا۔
یہ کالی سیاہ بھیانک رات ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ کسی غریب کے برے دنوں کی طرح بڑھتی ہی جارہی تھی ، پھیلتی ہی جا رہی تھی۔ اوپر سے کسی عیار ناگن جیسی تارکول کی سیاہ سڑک جو شیطان کی آنت کی طرح اس طرح دراز تھی کہ جیسے وہ بے منزل ہو بے نشان ہو ۔ اس سیاہ سڑک پر سیاہ ٹائروں کے چلنے کی آواز اور ٹرک کے سیاہ منہ میں دھنسے اُس کے سیاہ انجن کی ہیبت ناک آواز نے فضا میں ایک عجیب سی دہشت اور وحشت پیدا کر رکھی تھی۔ اور تو اور سنگِ میل بھی اس رات کا سیاہ لبادہ اوڑھے ہوئے تھے۔
ٹرک کے اگلے حصے کی چھت کے اوپر حمید سونے کی کوشش کررہا تھا لیکن اس کا تنگ دل کمبل کبھی اُس کے پیروں سے اُتر جاتا کبھی سر سے۔ اِسی کھینچا تانی میں کبھی کبھی اُ س کے پاؤں چھت کے ارد گرد لگے جنگلے سے ٹکرا جاتے۔ ابھی سونے کی کوششیں جاری تھیں کہ ٹرک کا کنڈکٹر بھی اوپر آ گیا۔ اُسے اوپر آتے دیکھ کر حمید نے پوچھا، ’’ اوے ! تم کدھر۔ ‘‘
کنڈکٹر نے اُ س کے کمبل میں گھستے ہوئے جواب دیا ،’’ سونے۔ ‘‘ یہ کہہ کر وہ کمبل میں گھس گیا۔
’’ اوئے پائی ادھر ایک ہاتھ کی جگہ میں کہاں تُو سوئے گا، کہاں میں ۔‘‘ حمید نے اُسے جھنجوڑتے ہوئے کہا۔
’’ کس نے کہا تم ادھر سوئے گا، ادھر ہم سوئے گا ۔ ‘‘ کنڈکٹر نے دوسری طرف کروٹ لیتے ہوئے کہا۔
’’ اوئے خان کے بچے۔۔۔۔۔ دیکھو مجھے سونے دو میں پہلے ہی بہت دکھی ہوں۔۔۔ میں نے سوچا تھا میں سو جاؤں تو شاید میرا دکھ کچھ کم ہو جائے۔ ‘‘
حمید نے باہر دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ اومیر خدایا ۔۔ تمہیں اس چھوٹی سی عمر میں کیا دکھ لگ گیا۔ ‘‘ کنڈکٹر اُٹھ کر بیٹھ گیا۔
’’ ہائے ! یار میرا چُنا جو بکنے جارہا ہے۔‘‘ حمید نے ایک آہ بھرتے ہوئے کہا۔
ائے بھائی تیرا نام کیا ہے۔ ‘‘ کنڈکٹر کو بھی نیند نہیں آرہی تھی اس لئے وہ حمید کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے کچھ وقت بتانا چاہ رہا تھا۔
’’ یار میرا چُنا۔ ‘‘ یہ کہہ کر اُس نے اپنی بائیں طرف نیچے منہ کر کے پُکارا۔
’’ میلا چُنا کیسا ہے۔۔۔۔تھکا تو نہیں۔ ‘‘
نیچے سے اُسے آواز سنائی دی ، ’’ میں ۔۔۔ں۔۔۔ں‘‘
’’ اوئے تیرا خیر۔۔ تُو ایک بکرے سے پیار کرتے ہو۔ ‘‘
حمید نے ہولے سے ’’ ہاں ‘‘ کہا جیسے کوئی لڑکی اظہارِ محبت میں ہاں کہہ رہی ہو۔
’’ یہ بکرا نہیں ہے یہ میری جان ہے، یہ چھوٹا سا تھا ہمارے ہمسائیوں کے گھر ، اُس کی ۔۔۔۔ نا۔۔۔۔ ماں مر گئی۔ تو میں نے بے بے سے پانچ سو روپے لے کر یہ خرید لیا۔‘‘
’’ اوئے ! بکری کا بچہ پانچ سو روپے میں۔۔۔ بہت ستھرا مل گیابھائی۔‘‘ کنڈکٹر نے حیرانی کا اظہار کیا
’’ ہاں مرنے ولا تھا نا۔۔۔۔ وہ تومیں تھا جو گود میں لے کر اُنگلی پر دودھ لگا کر اسے دودھ پلاتا تھا۔‘‘ حمید نے اندھیرے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ ہوں۔‘‘ کنڈکٹرنے اندھیرے میں اُ س کی آنکھوں کی طرف دیکھا۔
’’ پتہ ہے بے بےسے میں نے وعدہ کیا تھا کہ میں اِسے بچوں کی طرح پالوں گا۔ پیغمبر نے بھی تو اپنے بچے کو قربانی کے لئے پیش کردیا تھا۔۔۔۔ پتہ ہے تمہیں۔ ‘‘
’’ ہاں اتنا بھی ہم کافر نئیں۔۔۔وہ بچہ بھی پیغمبر تھا۔ ۔‘‘ کنڈکٹر نے حمید کی باتوں میں دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے جواب دیا۔
’’ پتہ ہے میں اسے بکری کا دودھ پلاتا تھا۔۔۔پھر جب اس نے شٹالا کھانا شروع کر دیا تو میں نے اپنے گھر کے پیچھے ایک کھیت بنایا جہاں میں شٹالا ُاگاتا تھا، اسے میں وہ خالص شٹالاکھلاتا تھا۔‘‘
’’ شٹالا کیاہوتا ہے۔ ‘‘ کنڈکٹر نے حمید کی بات کاٹتے ہوئے پوچھا۔
’’ وہ پٹھے ہوتے ہیں۔ ۔۔۔۔‘‘
کنڈکٹر کو سمجھ تو نہ آیا لیکن پھر بھی اُ س نے ہاں میں سر ہلا دیا۔
’’ بے بے بھی اس کا بہت خیال رکھتی تھیں۔ گھی والی روٹی پکا کر اُس پر مکھن لگا کر کھلاتی تھی۔۔۔۔۔۔ یہ اتنا حرامی ہےبے بے کے علاوہ کسی کے ہاتھ سے روٹی نہیں کھاتا تھا۔ اور پتہ ہے جیسے بےبےکے پاس کاکو اور منُی بیٹھ کر کھاناکھاتےتھے یہ بھی ویسے ہی بےبے کے پاس بیٹھ کر کھانا کھاتا تھا۔ ۔۔۔ ایک دفعہ یہ بیمار ہو گیا تو ہم اسے شاہ جی کہ مزار پر لے کر گئے وہاں چھوٹے شاہ جی نے ایک رسی دی اور کہا یہ ہمیشہ اس کی گردن میں ڈالے رکھنا۔ وہ دن گیا آج کا دن آیا چُنا کبھی بیمار نہیں ہوا۔ ‘‘
’’ اچھا ۔۔۔۔ تو تم لوگ اس کو بیچتے کیوں ہو۔ ‘‘ کنڈکٹر نے حمید کی باتوں میں دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا۔
’’ ہائے ! ہم نے تو سوچا تھا کہ ہم اسے اللہ کی راہ میں قربان کریں گے لیکن کیا کریں وہ مُنی کی شادی ہے نا۔۔۔۔ پیسے کم تھے اس لئے بے بے نے کہا کہ اُسے بیچ کر مُنی کا فرنیچر بنائیں گے۔ ہم سب نے بہت کوشش کی ۔۔ میں تو بے بے کی بات کو سمجھ گیا تھا۔ لیکن مُنی بڑی مشکل سے سمجھی وہ تو رو رو کر بے بے سے کہہ رہی تھی اگر چُنے کو بیچ کر میری شادی کرنی ہے تو نہ کرو۔۔۔۔۔۔۔۔ پر کیا کریں یار ۔۔۔۔ ۔۔ ‘‘
’’ اوے یار تو نے تو مجھے میری کہانی سُنا دی۔۔۔۔۔۔ میرے لالے نے تو۔۔۔۔۔۔ ہمارا گھر بیچ کر بہن کو جُدا کیا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔ جب ہمارا باجی کا شادی ہوا تو ہم باجی کو جدا کر کے رو ہی رہے تھے اس بات پر بھی رو رہے تھے اب ہمارا گھر بھی چھن جائے گا۔ یہ بہنیں کیوں ہوتی ہیں۔ ‘‘ کنڈکٹر نے اپنی بھیگی آ نکھوں کو صا ف کرتے ہوئے کہا۔
’’ یار بہنوں کا تو قصور نہیں ہمارا اپنا قصور ہے ۔۔۔۔۔۔۔میں نے تو فیصلہ کیا ہے میں نے شادی کی تو بس دو کپڑوں میں کرنی ہے نہ دینا ہے نہ لینا۔‘‘
حمید نے کمبل میں پاؤں گھسیڑتے ہو ئے کہا۔
رات پچھلے پہر میں داخل ہو گئی تھی۔ یہ پہر ایسا عجیب پہر ہوتا ہے کہ جس کے دوران انسان کو کانٹوں پر بھی نیند آجاتی ہے۔ کنڈکٹر اور حمید باتیں کرتے کرتے نیند کی آغوش میں جا چکے تھے۔ چُنا اپنے ساتھیوں کے ساتھ ٹرک کے ہچکولے جھیلتے ہوئے سوچوں میں مگن تھا ۔ آج وہ جگالی بھی نہیں کر رہا تھا۔۔۔۔۔ کیسے کرتا ۔۔۔نہ نیم کےدرخت کا قرب ، نہ بے بے کے خراٹوں کی آوازیں، نہ چوکیدار کی ’’ جاگتے رہو کی آواز ، نہ شام کو حمید کے پانی کے چھڑکاؤ کے بعد مٹی کی مہک ، نہ نیم پرایک پنچھی کے بچوں کی کبھی کبھی سنائی دینے والی ،دھیمی دھیمی چُوں چُوں کی آوازیں اور نہ کھرلی میں پڑے ہوئے شٹالے پر اوس کے گرنے کے بعد بکھرنے والی خوشبو۔ کچھ بھی تونہیں تھا وہ جگالی کیسے کرتا۔
منڈی میں بیٹھے ہوئے تین دن ہو گئے۔ حمید چُنے کو بیچنا بھی چاہتا تھا لیکن جب کوئی خریدار آجاتا تو اُس کا دل بیٹھ جاتا۔ اُس نے اپنے ساتھ آئے ہوئے ایک دوست کو کہہ رکھا تھا ، ’’ میں اپنے چُنے کے بھاؤ تاؤ نہیں کرسکتا، تُوہی اِسے بیچ دینا، بس جو خریدے اُسے اتنا ضرور کہنا کہ ہم اپنے چُنے کو اُن کے گھر خود چھوڑ کے آئیں گے۔ اور سنو ! اگر وہ لے جانے کے کرائے کی بات کریں تو کہناہم خود دے دیں گے۔ ‘‘
اُس نے اب چُنے کے گلے میں ایک مالا اور منہ پر ایک تاج سجا دیا، ’’ دیکھ یار چُنا کتناخوبصورت لگ رہا ہے۔۔۔ اللہ کے پاس جانا ہے نہ ۔۔ اس نے تو سج سجا کے جائے۔ ‘‘
کبھی وہ چُنے سے کئی گھنٹے باتیں کرتا رہتا، ’’ چُنے ڈرنا نہیں۔۔۔ اس دنیا سے سب نے جانا ہے آج تُوجائے گا کل ہم جائیں گے۔ بڑے بڑے بادشاہ نہ رہے ، ہم کیا ہیں۔ وہ ہمارے بڑے شاہ جی سب کا علاج کرتے تھے۔ رات کو سوئے سوئے چلے گئے۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ جو سب لوگ تجھے ادھر ادھر بھاگتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں ۔۔۔ انہیں پتہ ہی نہیں کہ یہ تو قطار میں لگے ہوئے ہیں۔۔۔۔ اپنی اپنی باری پر ان سب نے چلے جانا ہے۔
پھر وہ چُنے کی آنکھوں کے آنسو اپنی آستین سے صاف کرتا، ’’ اور دیکھو! جس گھر میں جاؤ گے اُسے اپناگھر سمجھ کر رہنا، جو ملے کھا لینا۔۔۔ بیچاروں کو تنگ نہ کرنا۔ ‘‘
پھر وہ وقت آ ہی گیا جب چُنا کسی اور کا ہو گیا۔ حمید اُسے اُس کے نئے گھر میں خود چھوڑنے گیا۔
نئے گھر کے دروازے پر کھڑا چُنا بڑا پیارا لگ رہا تھا۔۔۔۔۔ ایک بچے کے ہاتھ میں اُس کی رسی تھی ۔ معصوم بچے کے ساتھ کھڑے چُنے کی معصومیت اُس کے چہرے پر نمایا ں تھی۔ اُس کے پیروں میں پڑیں جھانجریں ، گلے میں پڑی مالا اور منہ پہ سجا تاج اُس کی خوبصورتی کو دوبالا کررہی تھی۔
’’ باؤ جی ! اُسے مارنا نہیں ۔۔ آپ جو دیں گے یہ کھائے گا۔۔۔ بس پانی ضرور پلانا یہ بڑا پیارا اور شریف جانور ہے۔ ‘‘ الوداعی ہدایات دینے کے بعد اُس نے چُنے کے ماتھے کو چوما ، ’’ اچھا چُنے رونا نہیں ، جو ملےکھا لینا۔۔۔۔یہ باؤ جی بہت اچھے ہیں۔۔۔ اور سنو رونانہیں۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
اپنے آنسوؤں کو ضبط کرتے ہوئے وہ وہاں سے نکلا اور منڈی میں آ کر ایک کھیت کے کنارے بیٹھ کر بہت رویا ۔۔ اتنے دنوں سے ضبط کئے آنسو آج جمعرات کی جھڑی بن کر برس رہے تھے۔
اُسےچُنے کی ایک ایک ادا یاد آ کر رُلا رہی تھی۔ جب وہ ہاتھ آگے کرتاتھاتو چُنا دور جاکر بھاگتا ہوا آتا تھا ْ۔۔۔ لگتا تھاکہ وہ زور کی ٹکر مارے گا لیکن وہ قریب آکر رک جاتا ۔۔۔۔ جب چُنا چھوٹا سا تھا تو وہ رات کو خاموشی سے حمید کی چارپائی پر چڑھ کر بیٹھ جاتا۔۔۔۔ کبھی وہ رات کو حمید کی چارپائی کے نیچے سو جاتا۔۔وہ اُس کی ہتھیلی پر رکھا نمک اور گڑ چاٹتا تو حمید کو گدگدی ہوتی۔۔ ’’ اوئے بے شرم ! شرارتیں تو نہ کر۔۔۔۔‘‘ پھر حمید اُسے گلے سے لگا لیتا اور اُس کا ماتھاچومتا۔۔۔۔۔۔ ایک دفعہ جب ایک ٹھیلے والا سستا شیمپو بیچ رہا تھا تو حمید نے اُس کے لئے ایک شیمپو لیا تھا ۔۔ اب وہ اُسے شیمپو سے ہی نہلاتا تھا۔۔۔۔۔۔۔ کسی نے بتایا کہ بادام دماغ کو تیز کرتے ہیں تو حمید نے اُسے روزانہ پانچ بادام کھلانا شروع کر دیئے۔
جب سے چُنا منڈی میں آیا تھا اُس نے باداموں کو منہ تک نہیں لگایا تھا بس عام سی گھاس چر کر پیٹ بھر لیتا۔۔۔۔ اُسے پتہ تھا ناکہ کچھ دنوں کے بعد اُسے بادام کھلانے والے اُ س کے پاس نہ ہوگا۔
چُنا بک چکا تھا،جوںجوں عید قریب آرہی تھی منڈی خالی ہوتی جارہی تھی۔ حمید کے سارے دوست اور جاننے والے ایک ایک کر کے اپنے اپنے گھروں کو جا چکے تھے ۔ حمید نے پیسے اپنے دوست کے ہاتھ ماں کو بھیج دئیے تھے۔ منڈی میں جو ایک دو بیوپاری رہ گئے تھے۔حمید سارا دن ان کے پاس بیٹھا باتیں کرتا رہتا۔ اُس کا ایک نیا دوست بن گیا تھا وہ اور اُس کا دوست شام کو منڈی کے پاس ہی گذرتی نہر میں پاؤں لٹکا کر بیٹھ جاتے ۔
نہر کنارے وہ اپنے دوست کو چُنے کی باتیں سناتا۔ ’’ جب پہلی دفعہ میں چُنے کو نہر پر لے کر گیا تھا تو چُنا نہر میں گھسنے سے بہت ڈر رہا تھا۔ پھر میں اُسے کندھوں پر بٹھا کر نہر میں کود گیا تھا۔ میں ڈبکی لگاتا تو چُنے کو بھی ڈبکی لگتی ۔ کچھ ہی دیر میں چُنے نے تیرنا بھی سیکھ لیاتھا ۔ چُنا جب تھوڑا سا بڑا ہوا تو اُس نے بکریوں کو گھورنا شروع کردیا ۔اُس کی شرارتیں دیکھ کر بےبے اُسے ڈنگر ڈاکٹر کے پاس لے گئیں اور پھر اُس کے ساتھ وہی ہوا جو دوسرے قربانی کے بکروں کے ساتھ ہو تا ہے ۔ اب یہ اتنا شریف ہو گیا کہ بکری کو دور سے آتےدیکھ کر ہی آنکھیں جھکا لیتا ہے۔ ‘‘
حمید کی یہ بات سن کر اُ س کا دوست خوب ہنسا ۔’’ تو اس کا مطلب ہے کہ اگر کسی کو شریف بنانا ہو تو ڈنگر ڈاکٹر کے پاس لے جائیں۔ ‘‘
حمید نے اُس کی بات پر توجہ دئیے بغیر بات جاری رکھی ، ’’ ایک دفعہ تو چُنے نے بکری کو دیکھ کر راستہ ہی بدل لیا تھا۔ لیکن پتہ نہیں مجھے یہ سب پسند نہیں تھا۔ ایک صلاحیت جو قدرت نے دی ہے وہ ہم کیوں چھینتے ہیں۔‘‘
آخر وہ دن آ ہی گیا جس کو عید کہتے ہیں۔ یہ حمید کی زندگی کی پہلی عید تھی جب اُس نے نہ نیا لباس زیبِ تن کیا تھا نہ نئے جوتے پہنے تھے۔ بلکہ آج تو اُس کا لباس کئی دنوں کا میلا تھا۔ اُس کے جوتے گوبر اور کیچڑ سے لتھڑے ہوئے تھے۔ اُس کا صافہ میل سے اٹا پڑا تھا۔ اُس کی داڑھی ، مونچھیں اور بال بڑھے ہوئے تھے۔ شاید مجنوں بھی اُس سے صاف ہو گا۔
آج وہ کچھ جلدی ہی بیدار ہو گیا تھا۔ نہر پر جا کر دو تین ڈبکیاں لگائیں اور چل پڑا اپنی منزل کی طرف، جہاں اُس کا چُنا تھا۔ وہ چُنے کی سوچ لئے اُس گلی میں پہنچا جہاں وہ گھر تھا جس میں چُنا بندھا ہوا تھا۔ لوگوں کو ایک ہی طرف جاتے دیکھ کر وہ بھی مسجد میں چلا گیا۔ اُس نے پورا وعظ سنا۔ مولوی صاحب قربانی کا واقعہ اور فلسفہ بیان کر رہے تھے۔ آج حمید کو قربانی سے متعلق وہ وہ باتیں بھی پتہ چلیں جو اُ س نے پہلے کبھی نہیں سنی تھیں۔ دعا میں اُس نے اللہ سے بہت دعائیں مانگیں۔۔۔۔ پتہ نہیں کیا کیا ۔۔۔۔مگر سب کا مرکز چُنا تھا۔

وہ عید کی نماز پڑھ کر اُس دروازے کے پاس جا کر بیٹھاجس کے اندر اُس کا چُنا موجود تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں دروازہ کھلا اور ایک بچہ چُنے کی رسی پکڑے باہر آیا۔ اُس بچے کے ہاتھ میں چُنا بہت معصوم سا دکھائی دے رہا تھا۔۔۔ایک معصوم کے ہاتھ میں اپنے چُنے کو دیکھ کر حمید بہت خوش ہوا۔ بچہ چُنے کو کھینچ رہا تھا لیکن چُنا آگے نہیں بڑھ رہا تھا۔ وہ تو چاہتا تھا کہ حمید اُس کے پاس آئے اُ س کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرے، اُسے پیار کرے ۔ حمید سے بھی رہا نہ گیا وہ نہ چاہتے ہوئے آگے بڑھا اور چُنے کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرنے لگا ۔ اُسے لگا جیسے اُس نے جلتے ہوئے کوئلوں پر ہاتھ رکھ دیا ہو ۔ ’’ اوے چُنے تُو اداس ہو گیا ہے۔۔ دیکھ یہ بھی تو اپناہی گھر ہے۔ ‘‘ اُ س نے اُ س کے گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے کہا۔ ’’ پتہ ہے آج تُو پیغمبر کے بکرے کے پاس جائے گا، وہاں تجھے اور بھی بہت سے بکرے ملیں گے، وہ بڑے معصوم اور پیارے ہوں گے ۔ تمہارا وہاں بڑا دل لگے گا۔ ۔۔۔۔۔ اور پتہ ہے وہاں تجھے نہ بے بے کی یاد آئے گی نہ میری۔۔۔ اوئے تیرے یار جو ہوں گے وہاں۔۔۔‘‘ وہ بولتا جا رہا تھا اور آنسوؤں کو پیتا جا رہا تھا۔ بچے نے اُسے ہاتھ سے پیچھے ہٹاتے ہوئے کہا، ’’ یہ تیرا نہیں ہے ہمارا ہے۔ جا یہاں سے۔۔ ‘‘
چُنا وہاں سے ہٹا اور دروازے کے سامنے ایک گٹر کے اوپر بنے چبوترے پر بیٹھ گیا۔ جب بچے نے اُسے وہاں بیٹھا دیکھا تو کہا، ’’ جاؤ یہاں سے ابھی ہم نے حلال نہیں کیا۔ تھوڑی دیر بعد آجانا۔ ‘‘
’’ حلال ‘‘ یہ لفظ اس طرح اُس کے دل پر گرا جس طرح قصائی کی چھری۔ اُس نے ضبط کیا اور کچھ دور جا کر بیٹھ گیا۔
کچھ ہی دیر میں ایک قصائی آیا ، چُنے کو اندر لے جایا گیا اور پھر گیٹ سے باہر چھوٹے سے بنے لان پر لٹا دیا ، قصائی نے اُ س کے گلے میں بندہی رسی چھری سے کاٹی اور دور پھینک دی۔ حمید آنکھیں بند کر کے بیٹھ گیا ۔ اُس کے کانوں میں چُنے کی آخری آواز پڑی تو اُس کی آنکھیں کھلیں لیکن پھر بند ہو گئیں ۔ وہ تاریکی کی گہرائیوں میں ڈوب گیا۔ ُس نے دیکھاکہ بے بے چُنےکو فیڈر سے دودھ پلا رہی ہے۔ چُنا اُس کے پیچھے پیچھے اور کبھی وہ چُنے کے پیچھے پیچھے بھاگ رہا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔ آج چُنے کو بخار ہے۔۔ اُسے گڑ اور سونف کا شربت پلایا جارہا ہے ۔ مُنی نے کتنی ضد کی تھی کہ چُنا نہ بکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ او بھائی جاؤ! ابھی گوشت تیار ہو رہا ہے کچھ دیر بعد آنا۔‘‘ اس آواز نے اُسے خیالوں سے باہرنکالا تو سامنے کچھ نہ تھا نہ چُنا نہ قصائی۔ ایک شخص خون کے تازہ تازہ دھبے دھو رہا تھا۔
’’ اب تیرا یہاں کیا ہے۔۔۔چل مِیدے چل ۔۔۔۔۔ اب بس۔۔ ‘‘ یہ کہہ کر وہ اٹھا اور بند دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے آگے بڑھا۔ ابھی چند قدم ہی چلا تھا کہ کسی شے سے الجھا اور گرپڑا۔ اُٹھا اور پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک رسی اُس کے پیروں کے ساتھ چمٹی ہوئی تھی۔ اُس نے رسی اُٹھائی اور لپیٹ کر مٹھی میں بند کر لی۔
’’ چُنا نہ رہا ۔۔ تُوکب تک رہے گی۔۔۔ چُنا بھی فانی تُو بھی فانی ۔۔۔ ہم سب فانی۔۔ چُنابھی فانی ہم بھی فانی ۔۔۔ چُنا نہ رہا تو ہم کب رہیں گے۔۔۔ پتہ نہیں کتنے چُنے اپنی رسیاں چھوڑ کر یہاں سے چلے گئے۔۔۔۔ پتہ نہیں کتنی رسیاں اپنے چُنوں کی یاد میں روتی خاک ہو گئیں ۔ چُنابھی خاک ، اُ س کی رسی بھی خاک ، میں بھی خاک ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ چلتے پھرتے سب خاک۔۔۔ پتہ نہیں کب کس کی گردن سے اس دنیا کی رسی اُتر جائے۔ چل رسئیے گھر چلتے ہیں ۔۔خاک تو تُوبھی ہے خاک میں بھی ۔۔۔ دیکھیں کون پہلے خاک میں ملتا ہے۔ میں تو گنہگار سا شخص ہوں تو تو شاہ جی کی دی ہوئی پاک رسی ہے۔۔۔ پر رسی شاہ جی کی ہو یا شاہ عنایت کی ہٹی کی رسی ہی ہوتی ہے خاک۔۔۔ بس خاک۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان جیسے بے شمار خیالات کو لئے ہوئے وہ اپنے گاؤں پہنچ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک بکری کا بچہ ۔۔۔ اُ س کے گلے میں رسی۔۔۔ شاہ جی کی دی ہوئی رسی۔۔ اور ہاتھ حمید کا ۔۔۔۔۔۔۔ اب اُس نے اُس بکری کے بچے کا کوئی نام نہ رکھا کیونکہ اب وہ سیکھ چکا تھا۔
بوہتا پیار نہ کریں ، نہیں تے رُل جاویں گا
وارث اقبال
کارکن
کارکن
Posts: 69
Joined: Wed May 30, 2012 10:36 am
جنس:: مرد

Re: رسی

Post by وارث اقبال »

ایک مختلف موضوع پر لکھے گئے اس افسانہ پر آپ کی رائے کا انتظار ہے.
nizamuddin
ماہر
Posts: 605
Joined: Fri Mar 27, 2015 5:27 pm
جنس:: مرد
Location: کراچی، پاکستان
Contact:

Re: رسی

Post by nizamuddin »

وارث اقبال wrote: بوہتا پیار نہ کریں ، نہیں تے رُل جاویں گا
دلوں کے جذبات کو چھوتی ہوئی انوکھی تحریر ۔۔۔۔۔ شیئرنگ کا شکریہ
آن لائن اردو انگلش ڈکشنری
[link]http://www.urduinc.com[/link]
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: رسی

Post by چاند بابو »

بہت خوب واقعی ایک نیا موضوع منتخب کیا ہے.
بلکہ موضوع تو پرانا پیار محبت والا ہی ہے مگر اس بار اس کا انداز نرالہ ہے اور بہت ہی بہترین بھی.
جزاک اللہ.
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Post Reply

Return to “اردو افسانہ”