افسانہ ایتھازاگورا

اردو کے منتخب افسانے یہاں شیئر کریں
Post Reply
جمیل اختر
کارکن
کارکن
Posts: 9
Joined: Sat Jan 17, 2015 6:54 pm
جنس:: مرد

افسانہ ایتھازاگورا

Post by جمیل اختر »


( اشاعت ،روزنامہ ایکسپریس نیوز گیارہ مئی ۲۰۱۵)

افسانہ : ایتھا زاگورا
مصنف : محمد جمیل اختر

"انواراحمد ڈائری لے آئے ؟"

"اوہ ابا جی آج دفتر میں کچھ مصروفیت اتنی ذیادہ تھی کہ ذہن سے ہی نکل گیا لیکن کل یاد سے لیتا آوں گا۔"

"مجھے پہلے ہی پتہ تھاتم نے بھول جانا ہے کبھی میری چیزیں یاد رہی ہیں تمہیں ؟"

اباجان ایسی بات نہیں دیکھیں میرے ذہن سے نکل گیا تھا میں عاشر کو کہتا ہوں وہ ابھی جاکے لے آتا ہے۔
"ایک ہی مشغلہ رہ گیا ہے ڈائری لکھنے کا تم چاہتے ہو وہ بھی نہ لکھوں ۔
اباجان ایسا ہرگز نہیں ہے میں ایسا بھلاکیو ں چاہوں گا۔
ایساہی ہے اور وہ تمہاری بہن کیا نام ہے اس کا۔۔۔۔ "انہوں نے سوچتے ہوئے کہا
جی نسرین ۔ انوار احمد نے بتایا
ہاں ہاں نسرین مجھے یاد ہے مجھے تو سب یاد ہے بس اسے میں ہی بھول گیا ہوں ۔ اس نے اب کبھی یاد نہیں کرنا مجھے ۔یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے جب اپنی اولاد ہی بھلادے، کراچی رہتی ہے کراچی بھلا کونسا ملک سے باہر ہے یہ نہیں کہ ایک فون کرکے باپ کی خیریت ہی پوچھ لے، اور مجھے تو یہ بھی لگتا ہے کہ اس نے تو اپنے بچوں کو میرا نام تک نہیں بتایا ہوگا ۔
نہیں اباجان ایسا ہرگز نہیں ہوگا آپ تھوڑا غلط سوچ رہے ہیں ۔
اچھا تو میں غلط سوچتا ہوں ، میں مختیار احمد اٹھارویں گریڈ کا آفیسر اب غلط سوچے گا۔
۔۔۔...............................................
یہ باتیں اب روز کا معمول تھیں ۔
نہیں مختیار احمد شروع سے ایسے نہیں تھے ، خوش لباس ، خوش گفتار۔
جتنا عرصہ وہ ملازم رہے بہت مصروف رہے اتنے مصروف کہ کبھی کبھی انہیں لگتا کہ انہیں خود اپنے آپ سے ملے بھی عرصہ ہوگیا ہے۔ بڑے لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا تو تھا ہی عام لوگ بھی اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں کے سلسلے میں ملنے کو بیقرار پھرتے ۔ مختیار احمد کا خیال تھا کہ یہ محفل یہ رونق یونہی آباد رہے گی لیکن یہ دنیا تو آباد رہنے کے لیئے بنی ہی نہیں ۔
ادھر وہ ریٹائر ہوئے ادھر میلے پہ رونق کم ہونے لگی ، پہلی بار انہیں معلوم ہوا کہ اس بھری دنیا میں تنہائی بھی ہوتی ہے۔
پہلی ملاقات چاہے تنہائی سے ہو کہ محفل سے ، انسان پریشان ضرور ہوتا ہے کیونکہ طبعیت اس کی عادی نہیں ہوتی اور انکی تنہائی سے کبھی ملاقات ہی نہیں ہوئی تھی۔
وہ پریشان رہنے لگے ، کئی کئی بارمرکزی دروازے پر جاکر اپنے نام کی لگی تختی کو دیکھتے اپنا نام لکھا دیکھ کر ایک عجیب سا سرور اور اطمینان انہیں ملتا۔ انواراحمد ایک بار اس بات پر جھگڑا بھی ہوا اصل میں انہیں شک ہوا تھا کہ ان کا بیٹا ان کا نام ہٹا کر اپنے نام کی تختی لگوانا چاہتا ہے ۔ انوار احمد نے لاکھ سمجھایا کہ وہ ایسا نہیں چاہتا لیکن مختیار صاحب نہ مانے مرکزی دروازے کے چکر بڑھا دئیے۔
ایک دو بار ڈاکیئے کو اس لیئے واپس بھیج دیا کہ اس غریب نہ پوچھ لیا تھا کہ کیا یہ انوار احمد صاحب کا گھر ہے انہوں نے کہا نہیں یہ تو مختیار احمد کا گھر ہے،،
تو کیا یہ دنیا انہیں بھلا د یگی؟؟؟
ایک ہی سوال جو انہیں اب دن رات پریشان رکھتا۔
مختیار احمد ۔ ایم اے انگلش ۔ اپنے گاوں کے پہلے اٹھارویوں گریڈ کے آفیسر کو یہ دنیا بھول جائے گی کیا؟
یہ سوال وہ خود سے بہت بار پوچھتے پھر اند ر ایک جواب آتا کہ۔
نہیں نہیں میں دنیا کو خود کو بھولنے نہیں دوں گا۔
انہوں نے مصروفیت کا ایک حل نکال لیا تھا ، وہ ڈائری لکھتے تھے اور سارا سارا دن لکھتے تھے ، یقیناًجتنی مصروف زندگی انہوں نے گزاری تھی ان کے پاس بہت سے قصے ہونگے لکھنے کو ۔
،
لیکن جب انکی وفات ہوئی اور انکی ساری ڈائریزجو کہ سینتیس تھیں ان کو کھولا گیا تو ہر صفحے پر ایک ہی بات لکھی تھی ۔
میں مختیار احمد ، ایم اے انگلش ، اپنے گاو ں کا پہلا اٹھارویں گریڈ کا آفیسر ، مجھے بہت سے لوگ جانتے ہیں ، اور مجھے کوئی بھی نہیں بھولا ۔۔۔
اور ایک ڈائری میں تو ہر صفحے پر صرف یہ لکھا تھا کہ، مجھے کوئی نہیں بھولا
مجھے کوئی نہیں بھولا۔

ختم شد

This story was based on Athazagoraphobia)

Athazagoraphobia
means the fear of forgetting or the fear of being forgotten or )ignored
یہ کہانی ایک فوبیا پر لکھی گئی ہے جس میں انسان کو خود کو بھلا دیئے جانے کا خوف ہوتا ہے
Post Reply

Return to “اردو افسانہ”