تخلیق کا دیوتا

اردو کے منتخب افسانے یہاں شیئر کریں
Post Reply
انور جمال انور
کارکن
کارکن
Posts: 118
Joined: Wed Sep 26, 2012 12:08 am
جنس:: مرد

تخلیق کا دیوتا

Post by انور جمال انور »

،،،،،،،، تخلیق کا دیوتا ،،،،،،

تخلیق کا دیوتا جب روٹھ جاۓ تو کبھی کبھی عمر گزر جاتی ھے مگر وہ نہیں مانتا ،،،،
بہت پہلے ایک سینئیر کے کہے گئے الفاظ کانوں میں گونجے تو وہ پہلی بار حقیقی پریشانی میں مبتلا ہوا ،، اب تک یہی سمجھ رہا تھا کہ عارضی رکاوٹ ھے دور ہو جاۓ گی مگر گذشتہ دس دنوں کی سر توڑ کوشش کے باوجود وہ ایک لفظ بھی نہ لکھ سکا تھا .

کیا تخلیق کا دیوتا واقعی روٹھ چکا ھے ؟ اس نے اپنے آپ سے سوال کیا ،،
اگر ایسا ہوا تب وہ بھوکا مر جاۓ گا اس کا تو روزگار ہی قلم سے جڑا ہوا ھے ،، شاید غلطی اسی کی تھی ، پچھلی کہانی کے پیسے وصول کرتے ہی اس نے قلم چھوڑ ریسٹ شروع کر دی تھی ،،، ریسٹ کے نام پر جی بھر کے عیاشی کی ،، آۓ دن اپنے دوستوں کو ٹی پارٹی یا ڈنر پہ مدعو کرتا ،،، ان کے ساتھ شرابیں پیتا اور بتاتا کہ کیسے ایک عام سی کہانی میں اس نے دل کو چھو لینے والے تاثرات ڈالے کہ وہ لاکھوں میں فروخت ہوئی ،،،

مگر اب جبکہ اس کے پاس دوسری کہانی کا آرڈر تھا وہ ایک لفظ بھی نہیں لکھ پا رہا تھا .

وہ کمرے میں اکیلا تھا ، ٹیبل پر نئی کہانی کی پہلے سے لکھی ہوئی دو قسطیں پڑی تھیں ،، تیسری قسط وہ شررع ہی نہیں کر پا رہا تھا،،،،،، شاید اس لیے ،،،کہ ،،، تخلیق کا دیوتا اس سے روٹھ چکا تھا اسے ایک لفظ بھی عطا کرنے کیلیئے تیار نہیں تھا ،،،
اب کیا ہوگا ؟ ،،،،،،، اس نے بے چين ہو کر ایل ایم سگریٹ کی نئی ڈبی کھولی

بہت پہلے کہے گئے ایک سینئیر قلمکار دوست کے الفاظ ایک بار پھر اسے سنائی دیۓ ،،،
تخلیق کے دیوتا کو منانے کے لیے ضروری ھے کہ خود کو بالکل خالص کر کے فطرت سے ہم آہنگ کر دیا جاۓ ، تخلیق کا دیوتا سیاہ رات کے اندھیرے میں جگنو کی چمک دیکھ کر نہال ہوتا ھے ،، اسے پورے چاند سے دلچسپی ھے ، وہ دریا کے کنارے بیٹھ کر پانی کے بہاؤ کو تکتا ھے یا ساحل کی ٹھنڈی ریت پر چلنے والے پیروں کے نشان کا پیچھا کرتا ھے وہ باغ میں گلاب کے پھولوں کی خوشبو کے آس پاس ہی کہیں ہوتا ھے ،،، اس کے بہت سارے ٹھکانے ہیں ،،، وہ محبت کے کئی ایک رویوں میں بھی پایا جاتا ھے ،،،،

ٹیبل پر دو قسطیں پڑی تھیں ،، تیسری قسط وہ کیسے شروع کرے سوچ سوچ کر تھک گیا ،،
مسلہ یہ تھا کہ دوسری قسط میں اس نے ایک اہم کردار کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا اور اب اسے یوں لگ رہا تھا جیسے کہانی میں کچھ نہیں بچا ،،، اس کردار کے مرتے ہی سب کچھ ختم ہو گیا .,,,,
اف ! یہ کہانی آگے کیوں نہیں بڑھ رہی ،،، وہ تخلیق کے دیوتا کو منانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا ،،، آدھی رات کو چھت پر جا لیٹا اور غور و خوض کرنے لگا ،،، دائيں طرف سے چلنے والی ہوا ٹھنڈی اور فرحت بخش تھی ،، اس کی نظریں دور ستاروں ميں کہیں کھو گئيں ،،، اگلے کئی روز تک وہ ستاروں کی اوٹ میں چھپے تخلیق کے دیوتا کو پکارتا رہا ،،، مگر کہانی آگے نہ بڑھی ،، وہ جھنجھلا گيا کہ آخر اس نے اتنے اہم کردار کو مارا ہی کيوں ،،،کچھ کردار ایسے ہوتے ہیں جو پورے ایک گھر یا خاندان کو لے کر چل رھے ہوتے ہیں ،،، ان کے ختم ہوتے ہی کہانی بھی ختم ہو جاتی ھے ،،،،
نہیں ،،،، یہ نہیں ہو سکتا ،، ابھی صرف دو قسطیں ہوئی ہیں ،، اسے کم از کم بائیس قسطیں لکھنی ہیں ،،، مگر کیسے ،،، کہانی کو آگے لے جانے والا کردار تو مر چکا ھے ،،، اس نے تخلیق کے دیوتا کو ایک بار پھر آواز دی ،،،،،،،، کوئی جواب نہ آیا ،،
روٹھا ہوا دیوتا اس کے گرد کہانی کا جال بننے سے قطعی انکاری تھا ،، وہ صوفے پر لیٹ کر خالی نگاہوں سے چھت کو تکنے لگا ،،، اچانک اسے یاد آیا کہ وہ کافی عرصے سے خوبصورتی اور رومانس سے دور رہا ھے ،،، شاید اسی وجہ سے اس کا ذہن پراگندہ ہو رہا تھا ،،، تخلیق کا دیوتا ایسے ذہنوں کے پاس بھی نہيں پھٹکتا جن میں کرختگی آ چکی ہو ،،،
اس نے اٹھ کر ایم پی تھری پلئیر آن کیا ،،، لتا کی سریلی آواز اس پر جادو کرنے لگی ،،،اس کے دل میں اپنے جنس مخالف سے ملنے کی آرزو پیدا ہوئی ،،، کون ھے جو دو گھڑی کے لیے اس سے ملنا پسند کرے ،،، اس نے سوچا

اس نے ایک اداکارا کو فون کر کے شام کا ایک پہر مانگ لیا
ناکام اداکارا کام کی تلاش میں تھی ،، ایک رائیٹر سے ملاقات سود مند ثابت ہو سکتی تھی ،،،
شام کے وفت دونوں ایک ریسٹورنٹ میں جا ملے ،،، مگر یہ جھوٹ اور منافقت پر مبنی ملاقات تھی ،، رائیٹر نے جھوٹ بولا کہ وہ اپنے ایک پروڈیوسر دوست سے اس کی سفارش کرے گا ،، اداکارا نے بھی خوش ہو کے کہا کہ وہ اب بھی اس سے محبت کرتی ھے ،،، حالانکہ ایسا کچھ بھی نہیں تھا ،،،
تخلیق کا دیوتا اس سے مزيد روٹھ گیا کہ اس قسم کی تصنع بھری ملاقاتیں سراسر تخلیق کی موت ہوتی ہیں ،،، چيزیں تو خلوص سے خلق ہوتی ہیں ، حقیقی دوستی ، حقیقی تعلق سے خلق ہوتی ہیں

اس نے اداکارا سے اگلی ملاقات کینسل کر دی ،،، ہر روز شام کو سمندر کے کنارے بیٹھنے لگا ،،، اس نے اپنا تعلق سمندر کی لہروں سے جوڑ لیا اور من ہی من میں ان سے باتیں کرنے لگا ،،، ایک دن ادھیڑ بن کے دوران ایک فقیرنی کی آواز سن کر وہ چونکا ،،، یہ ایک چھوٹی سی آٹھ نو سالہ بچی تھی ،،، وہ سوچ رہا تھا کہ تیسری قسط کہاں سے شروع کرے جبکہ کردار مر چکا ھے ،، بچی نے اس کی طرف انگلی اٹھائی ،، کہا ،، ایک روپیہ دے دو ،،،

اسے مداخلت بری لگی مگر وہ کسی قسم کی کرختگی نہیں چاہتا تھا ،،، بچی خود سے دور کھڑی ہوئی ایک دوسری لڑکی کی طرف بھی پلٹ پلٹ کر دیکھ رہی تھی ،،،
دوسری لڑکی بھی میلی کچیلی سی تھی مگر عمر میں اس سے بڑی تھی ،، شاید پندرہ سولہ کی ہوگی ،،

اس نے دس دس کے دو نوٹ نکالے ،، کہا ،، ایک تم رکھ لو ، ایک اسے دے دو ،، اور اب جاؤ یہاں سے ،،،

بچی نے ایک نوٹ تو لے لیا مگر دوسرے کے لیے تذبذب میں پڑ گئی ،، کہنے لگی ،، وہ بھیک نہیں لیتی ،،،،،،،،،،،
یہ دوسرا والا بھی میں لے لوں ،،،؟
ہاں لے لو ،، وہ چونکا ،، کون ھے وہ ؟
بچی دونوں نوٹ لے کر بھاگ گئی
وہ اٹھ کر ان کا پیچھا کرنے لگا کہ ممکن ھے کوئی نئی کہانی ہاتھ لگ جاۓ
بڑی لڑکی واقعی کسی سے بھیک نہیں مانگ رہی تھی

پھر دوسرے تیسرے چوتھے پانچویں اور چھٹے روز بعد وہ ان دونوں سے گھل مل گیا ،،،،

بڑی لڑکی اندرون سندھ سے آئی تھی ،،، اس کا باپ اچانک انتقال کر گیا تھا ، ماں
باپ کے مرنے کے بعد وہ یکہ و تنہا و بے یارومددگار تھی ،، سوچتی تھی کہ جانے اب اسے کیا کرنا چاہئیے ،،اس کی زندگی مصنف کی کہانی کی طرح رکی ہوئی تھی اور اسے اپنے باپ کے مرنے کا بےحد دکھ تھا ،، مرنے والے بعد کا لائحہ عمل کب دیتے ہیں ،،،،،، بس وہ تو مر جاتے ہیں اچانک ،،،، لواحقین اب کونسی ڈگر پہ چلیں ، یہ انہیں خود طے کرنا ہوتا ھے ،

یک لخت اسے خیال آيا کہ لڑکی کو آگے لے کر چلنا چاہئیے تاکہ اسے دیکھ کر شاید وہ بھی اپنی تیسری قسط شروع کر سکے ،،

لڑکی محنت مزدوری کر کے اپنا مستقبل سنوارنا چاہتی تھی ،،، اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اسے اپنے فلیٹ میں ماسی کے طور پر رکھ لے گا اور ایک معقول اجرت دے گا مگر اگلے روز اس نے یہ فیصلہ واپس لے لیا ،،،، لڑکی کے نین نقش اچھے تھے اگر وہ صرف سمندر کے پانی سے بھی منہ دھو لیتی تو اس کا ایمان بدل دیتی،،،، اس نے کوشش کر کے لڑکی کا روزگار ایک گارمنٹس فیکٹری سے جوڑ دیا ،،،

تیس دن کے بعد لڑکی اسے ڈھونڈتی ہوئی پائی گئی ،،، اس نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا ،،، دھلے ہوۓ ہاتھ پیر ،، کنگھی کیے بال ،،،،
واہ ،، تم نے تو ترقی کر لی ،، اس کے منہ سے بے اختیار نکلا ،،، لڑکی نے اس کے ہاتھ پر کچھ روپے رکھے ،، کہا ،، یہ آدھی تنخواہ آپ لے لو ،،، یہ سب آپ کی وجہ سے ہی ھے ،،
چل دفع ہو ،، اس نے پیار سے چپت لگائی ،، اور آئیندہ مجھے صرف اس وقت ڈھونڈنا جب کوئی پریشانی ہو ،،، ٹھیک ھے ؟

لڑکی چلی گئی ،،، وہ دیر تک اس کے قدموں کے نشان دیکھتا رہا ،، ہم دونوں وہی تھی جو ایک اہم کردار کے چلے جانے پر جمود کا شکار ہوگئے تھے ،،، مگر زندگی بہرحال آگے بڑھ جاتی ھے ،،، وہ نہیں رکتی ،،،، اس نے سوچا اور اپنے فلیٹ کی سیڑھیاں چڑھنے لگا ،،،
آج اسے اپنی کہانی کی آخری قسط لکھنی تھی ،،،

انور جمال انور
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: تخلیق کا دیوتا

Post by چاند بابو »

بہت خوب محترم انور جمال صاحب بہت بہترین افسانہ ہے.
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
انور جمال انور
کارکن
کارکن
Posts: 118
Joined: Wed Sep 26, 2012 12:08 am
جنس:: مرد

Re: تخلیق کا دیوتا

Post by انور جمال انور »

سلامت رھیں بھائی جان
Post Reply

Return to “اردو افسانہ”