" چار ویکینڈ کا دیس نکالا " غلام وارث اقبال

اردو کے منتخب افسانے یہاں شیئر کریں
Post Reply
وارث اقبال
کارکن
کارکن
Posts: 69
Joined: Wed May 30, 2012 10:36 am
جنس:: مرد

" چار ویکینڈ کا دیس نکالا " غلام وارث اقبال

Post by وارث اقبال »

 اردو افسانہ : " چار ویکینڈ کا دیس نکالا " غلام وارث اقبال
موسمِ بہار نے ہر طرف اپنے رنگ بکھیرنا شروع کر دئیے تھے۔ نہر کنارے سبنل کے درختوں سے جھڑے خزاں رسیدہ سرخ، جامنی اورپیلے رنگ کے پتے بھی بہار کے رنگوں میں شامل ہو گئےتھے۔ ان درختوں نے ساری رات خزاں رسیدہ پتوں کو ایک ایک کر کے چُن چُن کر نکالا تھا بالکل اُسی طرح جیسے چاند رات کی شام کو بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھنے والااپنے سر کے بالوں سے ایک ایک سفید بال چُن چُن کر نکال دیتاہے۔ سبز اور مٹیالے رنگ کی گھاس پر رنگ برنگ خزاں رسیدہ اُن پتوں کے حسن نے قہر برپا کر رکھاتھا جنہیں اُن کی شاخوں نے رات دھتکار دیا تھا۔ حُسن پرستوں کے دلوں کی دھڑکنیں اس وقت رک جاتیں جب ہوا کے جھونکےان کے رخسار چومتے اور وہ شرما کر ایک نا سمجھ آنے والی آواز نکالتے ہوئے ماحول میں سُر تال بکھیر دیتے۔

بہار ہو یا خزاں ، محسوس اُسے ہوتی ہے جس کے اندر ان میں سے کسی موسم نے پڑاؤ کر رکھا ہو۔ کمال کے اندر نا جانے آج کس موسم نے خیمے لگائے ہوئے تھےکہ وہ منہ میں کچھ بڑ بڑاتے، ہر کسی کو گھورتے اور ہر کسی سے آگے جانے کی کوشش کرتے ہوئے کچھ زیادہ ہی تیز موٹرسائیکل چلا رہا تھا۔
اُ س نے دائیں ہاتھ میں ایک اونی دستانہ پہنا ہوا تھا جبکہ بائیں ہاتھ کا دستانہ اپنی پینٹ کی جیب میں اس طرح ٹھونس رکھا تھا کہ اُس دستانے کا انگوٹھا جیب سے باہر جھانک کر کمال کی جلدیوں کی گواہی دے رہاتھا۔ ننگا ہاتھ جب سردی کی شکایت کرتا تو وہ بازو مروڑ کر اُسے کمر کے پیچھے چھپا لیتا۔

وہ ٹریفک اشارہ پر تیز بریک لگا کر رکا اور کچھ بڑ بڑاتے ہوئے بالوں سےخالی سر سے ٹوپی اتارتے ہوئے جھاڑنے لگا۔ جتنی دیر وہ اشارہ پر رکا رہا اپنے سر پر ہاتھ پھیرتا رہا۔ جب اشارہ کھلاتو اس نے ٹوپی کو سرپررکھا ، اُسے نیچے کی طرف کانوں تک کھینچا، پیلے رنگ کے اونی سکارف سے ٹوپی کو ڈھک کر ٹھوڑی کے نیچے لا کر باندھااور اپنی منزل کی طرف اسی جوش اور جذبہ کے ساتھ رواں دواں ہو گیا۔ سڑک پر چونکہ ٹریفک زیادہ تھا اس لئیے اب وہ سڑک کے کنارے کے اندر گھُسے ہوئے اطمینان سے موٹر سائیکل چلا رہاتھا۔
یہ ویکینڈ بھی برباد ہی گیا۔ کیا ضرورت تھی بچوں کو شالیمار دکھانے کی اور سارے خاندان کو میرا ہی گھر ملا ہے شالیمار دکھانے کے لئے۔ بندہ ایک دن رہ لے دو دن رہ لے یہ کیا کہ ہفتہ بھردوسرے گھر پر بیٹھا رہے۔ وہ اپنی سوچوں میں مگن اپنے بھائی پرناراض ہو رہا تھا۔ جو جمعہ سے اپنے بچوں سمیت اُس کا مہمان تھا۔
اُسے اپنے اس ویکینڈ کے ضائع ہونے کا تو دکھ تھا ہی اصل دکھ ان پیسوں کے خرچ ہونے پر بھی تھا جو اُس نے گڑیا کے فراک کے لئے سنبھال کر رکھے تھے۔ گڑیا نے دو مہینے پہلے بازار میں ایک فراک دیکھی تھی۔ وہ اسے بہت پسند آئی تھی۔ گڑیا کو فراک اس لئیے پسند نہیں آئی تھی کہ وہ بہت خوبصورت تھی بلکہ جب سے اُس نے ٹی وی کے ایک اشتہار میں ایک بچی کووہ فراک پہنے بڑی سی گاڑی سے اُترتے ہوئے دیکھا تھا تب سے گڑیا خیالوں میں خود کو فراک پہنے گاڑی میں بیٹھتے دیکھتی رہتی۔فراک کے حصول کی خواہش نے جونک بن کر اُس کے ننھے سےدل کو جکڑ رکھا تھا۔
کمال جونہی گھر میں قدم رکھتا ، گڑیا باپ کے کندھوں پر سوار پر ہو جاتی اور فراک کا تقاضاکرتی ۔ کمال کچھ حساب کتاب کرتا اور کہتا ، ’’ بیٹا! آج نہیں ، اس ویکینڈ پہ۔۔ لادوں گا ۔۔ ضرور اس ویکینڈ پر ۔ ‘‘
’’ اس ویکینڈ پہ۔ بابا اتنی دور۔‘‘ گڑیا روٹھ جاتی ، ’’ آپ گندے بابا ہو میرے لئے ایک فراک نہیں لا سکتے بھائی کو روز سائیکل پر بٹھا کر دودھ پلانے بازار جاتے ہیں۔ ‘‘
ماں گڑیا کو ڈانٹتی اور کمال بیوی کو۔ یوں وہی ازلی کھچ کھچ شروع ہو جاتی۔ جس کا اختتام اس پر ہوتا کہ گڑیا رورو کر کمرے میں چلی جاتی اور کمال گھر سے باہر چلا جاتا۔ اور اس کی بیوی نصیبوں ماری برتن دھونے میں جُت جاتی، کمال نہ آتا تو کام نکال لیتی اور کمال کا انتظار شروع کر دیتی۔
کمال اپنے دوستوں کے پاس چلا جاتا۔تاش کھیلتا، پتوں کو خوب گالیاں دیتا اور اونچی اونچی آواز میں قہقہے لگاتا۔ جب اڈاا بند ہونے لگتا تو وہ اپنے سارے قہقہے وہیں پتوں میں چھوڑ کر اپنے دکھوں کا سکارف اُٹھاتا اور گھر کا رُخ کرتا۔
اُس کی بیوی کنڈی تو کھول دیتی لیکن اظہار کچھ اس طرح کرتی جیسے کب کی گہری نیند سے جاگی ہو۔ حالانکہ کمال کی غیر موجودگی میں اُس نے پرانے کپڑوں کو جوڑ جاڑ کر نئی فراک بنا ڈالی تھی۔ کمال کے سامنے کھانا اس طرح رکھاجاتا جس طرح کسی اجنبی کے سامنے۔
دو مہینے ہو گئے تھے ہر ویکینڈ پر گڑیا فراک کا تقاضاکرتی، نیاوعدہ سن کر روتی اور سو جاتی۔ کمال اور اس کی بیوی میں لڑائی ہوتی۔ یہ لڑائی کئی ہفتوں تک طول پکڑ لیتی لیکن کسی فرصت والے ویکینڈ پر حالات پھر سے ساز گار ہوجاتے۔
آج پہلی تایخ تھی اور کمال گھر سے تہیہ کر کے نکلا تھا کہ تنخواہ ملتے ہی سب سے پہلا کام یہی کرنا ہے۔
’’ ہمیشہ کا کُت خھانا آج مُکا ہی دینا ہے۔‘‘ یہ سوچتے ہوئے وہ اپنے دفتر میں داخل ہوا۔ اپنی بلتی سفید ٹوپی، سکارف اور دستانے ایک شاپنگ بیگ میں رکھ کرموٹر سائیکل کے ہینڈل کے ساتھ لٹکا کر ، سر پر ہاتھ پھیرپھیر کر بچے کھچے چند بالوں کو سیدھا کرتے ہوئےاپنے کمرے میں چلا گیا ۔
اُسے یہ چیزیں دفتر کے اندر لے جانا پسند نہیں تھا کیونکہ سب اُ س کا مذاق اُڑاتے تھے۔ ’’ بڑی ٹھنڈ اے بھئی۔ ‘‘ کوئی کہتا، ’’ٹھنڈ کیسے نہ ہو بچے جو بڑے ہوگئے ہیں ۔‘‘
کمال کو غصہ تو بہت آتا لیکن اپنے چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ سجائے سب کو سلام کر کے اپنی کُرسی پر بیٹھ جاتا ۔ یہ اُس کا روز کا معمول تھا۔ لیکن آج وہ کچھ زیادہ ہی چست تھا ۔ اس کی ڈیوٹی ٹوکن دینے کی تھی ،آج نہ تو وہ کسی سےلڑ رہا تھا اور نہ کسی سے الجھ رہا تھا بلکہ خوش ہونے کی ناکام کوشش کر رہا تھا ۔ وہ اپنے آپ کوکوشش کر کے مصروف بھی رکھے ہوئے تھا۔ وہ وقت گزارنا چاہتا تھا ۔ وہ وقت جو اُس کے اور اُ س کی تنخواہ کے درمیان حائل تھا۔ اُن لمحوں کا تصور کر کے خود ہی مسکرا دیتا جب گڑیا کے ہاتھ میں وہ فراک ہوگی۔ اُس کے چہرے پہ کیسے رنگ پھیلیں گے۔فراک پہن کر وہ پری لگے گی۔ جونہی اس کا ہاتھ ٹوکنوں سے فارغ ہوتا اس کا دماغ چل پڑتا۔
دکان بچیوں کے کپڑوں سے جگ مگ جگ مگ کررہی تھی۔ ہر طرف گوٹے کناریوں کی برسات تھی۔ دکان کی روشنیوں نے گوٹا کناریوں کو زندگی دے دی تھی جو اپنی طرف اُٹھنے والی ہر نظر کو خوش آمدید کہہ رہی تھیں ۔ ہر فراک مسکرا مسکرا کر ہر گاہک کو یہ بتا رہی تھی کہ میں بنی ہی آپ کی بیٹی کے لئے ہوں ۔ رنگ اس طرح بکھرےہوئے تھے جیسے گلستان میں بہار آئی ہو۔
کمال اُ س فراک کو ا س طرح دیکھ رہا تھا جیسے ابھی کھاجائے گا۔ اُسے گڑیا دکھائی دے رہی تھی جو فراک پہنے کہہ رہی ہو۔’’ شکریہ بابا آپ اچھے بابا ہو۔ ‘‘
’’ کیا چاہئیے میاں جی۔‘‘ کاؤنٹر سے جھانکتے ہوئے ایک لڑکے نے کمال کا استغراق اور انہماک دیکھ کر کہا۔
کمال نے کچھ کہے بغیر سامنے لٹکی ہوئی فراک کی طرف انگلی کرد ی۔ لڑکے نے ایک چھڑی سے ایک فراک کی طرف اشارہ کیا ،
’’ یہ ‘‘
کمال نے جواب دیا ، ’’ نہیں جی وہ سنہری اور لا لا ۔۔لال رنگ ، وہ جامنی والے کے ساتھ،‘‘
فراک اس کے سامنے تھی ۔ اُس نے فراک کو پیار کرنے والے انداز میں چھوا، اسے اُٹھا کر اُس کی پیمائش کا اندازہ کیا،
’’ کیسی لگےگی یہ گڑیا پر۔‘‘ اُس نے فراک کاکپڑا دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’ اوہ جی کمال!‘‘ دکاندار نےکچھ سمجھے بغیر ہی جواب دے دیا یا شاید اس کا معمول تھا۔ پتہ نہیں کتنے پیار کے مارے یہی جملہ بولتے ہوں گے بس نام کا فرق ہو گا۔
’’ ک ک کتنے کی ہے، ‘‘ کمال نے ہچکچاتے ہوئے دل کی بات پوچھ ہی لیا۔
’’ ایک ہزار کی ۔ ‘‘ دکاندارز نے ایک اور فراک کا لفافہ سیدھے کرتے ہوئے کہا۔
’’ کیا ، ایک ہزار کی ، پچھلے مہینہ تو سات سو کی تھی،‘‘ کمال جیسے پھٹ پڑا،۔
’’ نہیں بزرگو پچھلے مہینے بھی اتنے کی تھی آپ کوغلط فہمی ہوئی ہے۔ چلیں آپ نو سو دے دیں۔ ‘‘ دکاندارنے اپنا فنِ دکانداری دکھانے کی کوشش کی۔ لیکن کمال بھی بضد تھا۔ ’’ ارے بھی کیا قہر ہے ، خدا سے ڈرو، چھوٹی سی بچی کی فراک اور نو سو کی۔ ‘‘
ناراض نہ ہوں ، میاں جی ، آپ خود سجھدار ہیں ، اس پر بنا کام بھی تو دیکھیں نا ۔۔۔۔ چلیں آٹھ سو دے دیں۔‘‘ دکاندار نے ایک اور پتا پھینکا۔
’’ نہیں آٹھ سو بھی بہت زیادہ ہیں۔‘‘ کمال نے کچھ نرم انداز میں جواب دیا۔
’’ چلیں ! میری نہ آپ کی ساڑھے سات سو دے دیں۔ یہ لیں ۔‘‘ یہ کہہ کر دکاندار فراک پیک کرنے لگا۔
’’آپ اسے سائیڈ پر رکھ لو ابھی تو کھانے کی بریک ہوئی تھی تو میں آ گیا ، سوچا چلو دیکھ لوں کہ فراک بک تو نہیں گئی۔ ‘‘
دکاندار کو تو کمال کی یہ حرکت اتنی بری لگی کہ اس نے وہ فراک کمال سے چھینی اور دوسرے کاؤنٹر پر کھڑے ہوئے ایک بچے کی طرف پھنکتے ہوئے کہا، ’’ اوے دتے ڈسپلے کر دے۔ ‘‘
کمال نے اسے یقین دلانے کی کوشش کی ، ’’ یار میں شام کو ضرور آؤں گا، آج مجھے تنخواہ مل جائے گی ، تم اس فراک کو سائیڈ پر رکھ لو۔ ‘‘
’’ اوہ! نکال لیں گے جی ہمیں کونسا لنڈی کوتل جانا پڑنا ہے۔ ‘‘ دکاندار نے بے زار ہوتے ہوئے کہا۔
کمال کے پاس وہاں رکنے کا کوئی جواز نہ تھا ویسے بھی کھانے کا وقفہ ختم ہونے والا تھا اس لئیے وہ دکان سے نکلا اور دفتر کی طرف چل پڑا، سکارف کا ایک کونہ اس کے دانتوں میں تھا وہ اسے مستقل چبائے جا رہا تھا۔ لگتا تھا جیسے غصہ سے بھرے دانت سکارف سے جھگڑرہے ہوں۔
دفتر کے دروازے میں داخل ہوتے ہوئے اس نے ایک گالی نکالی اور کہا،’’ مردود کہیں کا۔۔ ‘‘
پتہ نہیں یہ گالی اس نے کس کو دی تھی ، خود کو یا سماج کو لیکن سچ تو یہ تھا کہ اس کا اطلاق دونوں پر ہو رہا تھا۔ غصہ اور مسکراہٹ لئے وہ اپنی کرسی پر بیٹھ گیا ۔ ٹوکن لینے ولا تو کوئی نہیں تھا اس لئےوہ کرسی پر گھومنے لگا۔ گھومنے والی یہ کرسی اس کے نئے باس نے اپنے دفتر سےاس وقت نکالی تھی جب انہوں نے اس دفتر کا پہلا دورہ کیا تھا۔ کمال ایک دن پچھلی گلی میں گیاتو اس کی نظر اس کرسی پر پڑی ۔ اس نے اسٹور کیپر سے پوچھ کر وہ اٹھا لی ۔ اس پر بیٹھ کر اُسے بہت اچھا لگا تھا۔ اورا س نے اپنے دو ستوں کو اس پر بٹھایا اور پوچھا،
’’ یار مجھے اس کی کوئی ایک خامی بتادوجو صاب نے اسے نکال دیا۔ ‘‘ اس کے ایک دوست نے اسے جواب میں کہا تھا،
’’ ابے نالائق، بیوی اور کرسی اپنی اپنی۔ ‘‘ دوسرے دوست نے اس میں اضافہ کر دیا ،
’’ نہیں بھیا ! نیا دفتر، نئی کرسی اورنئی بیوی ۔ وہ ہماری طرح تھوڑی ہی ہے جو ایک کو لے کر بیٹھا رہے۔ ابے وہ صاب ہے۔ ‘‘
کمال نے لاحول پڑھا۔
ناجانے کیوں کمال ان باتوں کو یاد کر کے کچھ ہلکا پھلکا ہو گیاتھا۔ اس نے گھومتے ہوئے اپنی کرسی کی طرف دیکھا تو اس میں کوئی خامی نہ ملی اور پھر نہ جانے کیوں ا س کی توجہ اپنی گھر والی کی طرف چلی گئی ، ’’ کوئی نہیں یار ۔ ‘‘
اس نے آہ بھری ۔ ’’ بس لڑا نہ کر یار۔‘‘
کرسی پر گھومتے ہوئےوہ سامنے دیوار پر لگی خستہ حال گھڑی کی طرف دیکھنےلگا۔ اس گھڑی میں یہی کمال تھا اپنی ایک سوئی کھونے کے باوجود چل رہی تھی۔ دفتر کے لوگ بھی ایسے ماہر تھے کہ یہ ٹیڑھی ہو یا سیدھی وہ وقت دیکھ ہی لیتے۔
اُس کی نگاہیں دروازے کا وقتا فوقتا نامکمل طواف کرتیں۔ کہ کب خورشید داخل ہو اور نوید سنائے ۔ لیکن خورشید نمودار تو ہوتا لیکن بناکچھ کہے مسکرا کر گذرجاتا۔
پھر اس نے اپنی قمیض کے کالر کابٹن کھولا جو اس نے صبح سختی سے بند کیاتھا۔ جب اس نے اس دفتر میں نوکری شروع کی تھی تو وہ ٹائی باندھا کرتا تھا ۔ اب ٹائی تو چھوڑ دی تھی لیکن اس کی یہ عادت آج بھی قائم تھیکہ کالر ک ابٹن ضرور بند کئے رکھتا۔
کمرے میں حبس بھی محسوس ہو رہا تھا۔ اس نے ’’ یعقوب سے پوچھا ۔ ’’ یار یعقوب ! آج مجھے گرمی لگ رہی ہے یا واقعی گرمی آ گئی ہے۔ ‘‘ یعقوب نے ہنستے ہوئے جواب دیا ، ’’ میں قربان جاؤں مالک کی قدرت پر سردی کو گرمی بنا دے گرمی کو سردی۔ بہار تو آگئی ہے ، نئے پھول کھل رہےہیں، میلے بھی شروع ہوگئے ہیں لیکن گرمی نہیں آئی۔ ‘‘ یعقوب کی عادت تھی کہ وہ ہر بات بہت لمبی کرتا تھا۔
’’ او یار!تم سے تو بات کرناہی فضول ہے، جونہی منہ لگایا گٹھیں کروانا شروع کر دیتے ہو۔ ‘‘ کمال یعقوب کی مزید خبر لیتا کہ خورشید کی آواز سن کر وہ کرسی سے اس طرح اٹھا جس طرح کرسی کاسپرنگ نکلا ہو۔
اکاؤنٹنٹ اسے دیکھ کر نہ حیران ہو انہ پریشان۔ ’’ اس دفعہ تو ادھار نہیں پکڑا سر آپ نے ،‘‘
’’ نہیں جی سر جی شکر ہے اللہ کا اس دفعہ تو بچے ہی ہوئے ہیں۔ ‘‘ کمال نے اُس کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے نوٹوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔ یہ لیں جی اپنے پیسے اور یہاں دستخط کر دیں۔ ‘‘
کمال نے اس کے ہاتھ سے تقریبا پیسے چھینتے ہوئے رجسٹر پر دستخط کر دئیے اور پیسے گننے لگا۔
ایک دفعہ گنے ، دو دفعہ گنے۔ ’’ یار ! یہ کچھ کم نہیں، ‘‘
’’ اوہ، مجھے بتانا یاد نہیں اس دفعہ کمپنی نے سب کا یک ایک ہزار روپیہ کاٹ لیاہے۔‘‘ اکاؤنٹنٹ نے رجسٹر پر کچھ دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ وہ کیوں جی۔‘‘ کمال نے خاصےغصہ میں پوچھا۔
’’ سیلاب زدگان کی مدد کے لئے۔ کیا واقعی آپ کو نہیں پتہ تھا۔‘‘ اکاؤنٹنٹ نے پوچھا۔
کمال کو اپنی آنکھوں کے سامنے رات کی ایک خبر دکھائی دینے لگی جس میں بتایا جا رہا تھا۔ ’’ ۔۔۔۔۔ کے وزیرنے۔۔۔۔ کروڑ روپے کا چیک سیلان زدگان کی مدد کے لئے صدر ِ پاکستان کو پیش کیا۔ ‘‘
اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیر اچھانے لگا، اسے یوں لگا جیسے اس کا دل سکڑ گیا ہو۔ اندر سپنوں کا مچھلی گھر ٹوٹا اور اس میں گڑیا کی فراک کی مچھلی تڑپنے لگی۔ اُ س نے دروازہ کھولا اور اپنے کمرے کی طرف بھاگا۔ اکاؤنٹنٹ اس کے پیچھے بھاگا۔
’’ آپ چاہئیں تو درخواست دے کر اپنے پیسے واپس بھی لے سکتے ہیں۔ ‘‘ اکاؤنٹنٹ نے اُس کا ہاتھ پکڑ کر انتہائی نرمی سے کہا۔ لیکن کمال نے اُس کے منہ پر اپنا دایاں ہاتھ رکھ کر کہا۔
’’ بھائی اب میں گڑیا کو انکار نہیں کر سکتا کس منہ سے انکار کروں۔ اب تو برباد ہو گئے چار ویکینڈ ، پورے چار ویکینڈ ، مجھے دیس نکالا ملنے والا ہے۔ چار ویکینڈ میں یہی سنتا رہوں گا، بابا آپ بہت گندے باباہیں، یار بتا چار ویکینڈ کوئی کم وقت ہوتا ہے، اگر کسی ڈنگر کے پیارے چار ویکینڈروٹھےرہیں تو وہ بھی مر جاتا ہے ۔ میں تو انسان ہوں۔ میں کس طرح قربان کروں گا اپنے چار ویکینڈ۔ ‘‘
اکاؤنٹنٹ کے سامنے کھڑا ایک اور شخص اونچی آواز میں یہ گنگناتے ہوئے ہنسنے لگا ’’ چار ویکینڈ، کیسے کٹیں گے چار ویکینڈ، ویسے کٹیں گے چار ویکینڈ جیسے کٹتے ہیں چار ویکینڈ ‘‘ اس کے قریب کھڑے اُس کے دوسرے ساتھیوں میں چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں۔
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: " چار ویکینڈ کا دیس نکالا " غلام وارث اقبال

Post by چاند بابو »

بہت خوب.
بہت اچھا ہے. ویسے وارث اقبال صاحب کیا آپ نے محسوس نہیں کیا کہ آپ کے تمام افسانوں کا پلاٹ تقریبا ایک ہی ہے.
کچھ تبدیل کریں نا. ویسے اس پس منظر میں لکھنے میں آپ کو کمال مہارت حاصل ہے اب کوئی اور موضوع منتخب کر کے دکھایئے اپنے قلم کے جوہر.
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
وارث اقبال
کارکن
کارکن
Posts: 69
Joined: Wed May 30, 2012 10:36 am
جنس:: مرد

Re: " چار ویکینڈ کا دیس نکالا " غلام وارث اقبال

Post by وارث اقبال »

جب میں نے تین افسانے ایک ہی طرزمعاشرت کے اپ لوڈ کئیے تو مجھے احساس تھا. لیکن تیار یہی تھے . آگے آگے دیکھئے آپ کو کافی مخلتف ادب ملے گا.
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: " چار ویکینڈ کا دیس نکالا " غلام وارث اقبال

Post by چاند بابو »

جی بہت بہت شکریہ.
امید ہے کہ وہ بھی اتنے ہی اچھے ہوں گے.
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
nizamuddin
ماہر
Posts: 605
Joined: Fri Mar 27, 2015 5:27 pm
جنس:: مرد
Location: کراچی، پاکستان
Contact:

Re: " چار ویکینڈ کا دیس نکالا " غلام وارث اقبال

Post by nizamuddin »

بہت عمدہ جناب
آن لائن اردو انگلش ڈکشنری
[link]http://www.urduinc.com[/link]
ایم ابراہیم حسین
کارکن
کارکن
Posts: 166
Joined: Fri Oct 31, 2014 7:08 pm
جنس:: مرد

Re: " چار ویکینڈ کا دیس نکالا " غلام وارث اقبال

Post by ایم ابراہیم حسین »

بہت خوب
محترم وارث اقبال صاحب
سلامتی ہو

Sent from my LenovoA3300-HV using Tapatalk
Post Reply

Return to “اردو افسانہ”