میرا افسانہ

اردو کے منتخب افسانے یہاں شیئر کریں
Post Reply
وارث اقبال
کارکن
کارکن
Posts: 69
Joined: Wed May 30, 2012 10:36 am
جنس:: مرد

میرا افسانہ

Post by وارث اقبال »

میرا افسانہ قلم کے نشان غلام وارث اقبال
گرمی تھی کہ بڑھتی ہی جارہی تھی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے سڑکیں آگ اُگل رہی ہوں۔ اگرچہ سڑکوں پر گاڑیوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی لیکن جو موجود تھیں ان کے ٹائر گرمی کی وجہ سے پگھلے ہوئے تارکول سے نبردآزما تھے۔ لیکن ٹائروں نے بھی اس تارکول کو شکست دینے کی ٹھان رکھی تھی۔ چنا نچہ سڑکوں کے بیچوں بیچ گاڑیوں کے ٹائروں نے وہی لکیریں کھینچ دی تھیں جو منہ زور ٹریکٹر کیچڑ سے بھری دیہاتی سڑکوں پر کھینچ دیتے ہیں۔
بلال کھینچ کھینچ کر سائیکل چلا رہا تھا۔ جب وہ پیڈل پر آگے کی طرف زور دیتا تو پیڈل کا ایک حصہ نکل جاتا اور اُس کے پاؤں کا ٹخنہ سائیکل کے چمٹے میں جا کر لگتا تو درد کی ٹیس اُس کی ٹانگ میں سے ہوتی ہوئی کمر تک پہنچ جاتی۔ وہ ٹخنے کو سائیکل کے چمٹے کے ساتھ ہی رگڑ کر مکینک کو دو تین گالیاں دیتا جس نے کل دوپہر پیڈل کی مرمت کی تھی۔ پسینہ اُس کے سر کے بالوں سے اس طرح نکل رہا تھا جیسے کسی پہاڑ کی چوٹی کے پتھروں پر اُگے گھاس میں سے جھرنے کی مختلف پھواریں نکل رہی ہوں۔ یہ شبنمی قطرے گردن کی ندی میں داخل ہورہے تھے۔ یہ ندی کندھوں، گردن اور چہرے سے ہوتے ہوئے اپنے جیسی دوسری ندیوں کو ساتھ ملاتے اُس کے صحرا جیسے سینے پر جا کر دریا بن رہی تھی۔ کتنے ہی دریا اُ س کے اندر سے نکل کر اُ س کی پنڈلیوں اور ٹخنوں پر گر رہے تھے۔ باہر سے سورج ا ُس کا جسم جھلسا رہا تھا اور اندر وہ آتش فشاں دھک رہا تھا جس نے اُس کے اندر کی ہر عمارت، ہر پیڑ اور ہر وہ جگہ گرا دی تھی جس کے سائے میں بیٹھ کر کوئی ایک شگفتہ یا مثبت جذبہ سانس لے سکے۔
بلال ایک سرکاری دفتر میں ملازم تھا۔ اس کے چار بے ضرر سے بچے اور ایک،نیک صابر و شاکر بیوی تھی۔ جب سے شادی ہوئی تھی دونوں میاں بیوی وفا کا ہر امتحان اعزاز کے ساتھ پاس کرتے رہے تھے۔ کوئی شام ایسی نہ ہوتی جب اکٹھے کھانانہ کھاتے اور کوئی رات ایسی نہ ہوتی جب ایک دوسرے کی بانہوں کا لباس زیب ِتن نہ کرتے۔ لیکن اب وہ حالات نہیں رہے تھے۔ ہر طرح کا حربہ استعمال کر لیا لیکن تنخواہ ہر ماہ بے وفائی کر جاتی۔ کبھی کوئی شادی بیاہ آجاتاتو قیامت ٹوٹ پڑتی۔ تنگئی حالات کا یہ عالم تھا کہ جمع پونجی ختم ہوئی پھر زیور لتا اور اب دوست احباب بھی ادھار کی بھینٹ چڑھتے چلے جارہے تھے۔ شاید ہی کوئی دوست یا محب ایسابچا ہو جس سے اُ س نے ادھار نہ لیا ہو اور اب تو اُ س کے دوستوں نے ادھار دینے سے ناصرف انکار شروع کر دیا تھا بلکہ جگتیں کسنا بھی شیوہ بنا لیاتھا۔ ایک دن بازار میں اُسے اُس کا ہم جماعت ساجد جلیبی ،بد قسمتی سے اُ س وقت آن ملا جب بلال کی بیوی فاطمہ بھی ساتھ تھی۔ ساجد جلیبی نے نشتر چلاتے ہوئے کہا، ’’ بھابی! اللہ نے مجھے بہت بڑا دل دیا ہے میں تو یاروں بیلیوں کو ادھار دے کر اس طرح بھول جاتا ہوں جس طرح اللہ میاں غریبوں پر برے دن بھیج کر۔ ‘‘ رشید کے باپ نے بیگم کے سامنے ساجد کایہ طعنہ محسوس کرتے ہوئےجواب داغا، ’’ اوہ یار! یار بیلی اپنے برے وقت میں اپنے یار بیلیوں کے پاس ہی توجاتے ہیں گلی میں پھرتے آوارہ کتوں کے پاس تو نہیں جاتے۔ نا‘‘ ’’ میں نے تو اس سے کئی دفعہ کہا ہے چھوڑ نوکری سرکار کی، آجا میری جلیبیوں کی دکان پر دیکھنا کتنا کماتے ہو۔‘‘ ساجد جلیبی نے حملہ کا جواب دیتے ہوئے کہا ۔ گھر جاکر دونوں میاں بیوی میں جلیبیوں کی دکان کے حوالے سے ایسی تکرار شروع ہوئی کہ وہ جھگڑے میں بدل گئی اور وہ کچھ کھائے بغیر ہی سو گئے۔ اب یہ اکثر ہونے لگا تھا ، چھوٹی سی بات پر تکرار شروع ہوجاتی اور دونوں میاں بیوی کچھ کھائے پئیے بغیر مشرق مغرب کی طرف منہ کر کے سو جاتے۔ اس دوران سہمےبچے اپنی کاپیاں کتابیں بند کرتے اور سونے کا بہانا کر کے بستروں میں گھس کر کبھی اپنے ماں باپ کو اور کبھی ایک دوسرے کو دیکھتے دیکھتے سو جاتے۔
افلاس نے بچوں کو بھی تہذیب سکھا دی
سہمے ہوئے رہتے ہیں شرارت نہیں کرتے
ایک دن جب وہ دفتر سے آیا تو اُ س نےفاطمہ کو اُلٹیوں سے بے حال، ادھ موئی دیکھا تو اُ س کی جان ہی نکل گئی۔’’ کیا ہو افاطمہ،کوئی دوا دارو لیاکہ نہیں ، رشید کو ڈاکڑ کے پاس بھیج کر دوا منگوا لیتی۔‘‘ سوالات کی بارش تھمتے ہی فاطمہ نے اپنی نحیف سی آواز میں کہا، ’’ کچھ نہیں ہے شیدے کے ابا، بس مجھے پودینے کا قہوہ دے دے ، قاسم کی باری بھی میں پودینے کے قہوے سے ہی ٹھیک ہوتی تھی۔‘‘ ’’ نہیں فاطمہ نہئیں یہ کیا کیاتو نے۔ ‘‘ بلال نے اُس کے پیٹ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’ میں نے کیا ہے یا تونے، اور شیدے کے ابا جس روح نے آنا ہے ، اُ س نے تو آ کر ہی رہنا ہے۔ ‘‘ اُ س نے پیٹ کو دبا کر اُٹھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ لیکن بلال اسباب وعلل میں کھویا کھویا اٹھا اور قہوہ بنانے چلا گیا۔ قہوہ دے کر وہ ’’ ابھی آتا ہوں‘‘ کہہ کر باہر نکل گیا۔ سبھی دوستوں کے پاس گیالیکن کہیں سے آسرا نہ ملا۔
اگلے دن دفتر سے آتے ہوئے اُسے اپنا ایک پرانادوست نذیر ناجو یادآ گیا جو شہر سے باہر رہتا تھا۔ بس سوچا او رچل پڑا اُ س کی طرف۔
گرمی کی شدت اور سائیکل کی طبیعت کی خرابی کو نظر انداز کرتے ہوئےوہ چلتا جا رہا تھا۔ خو ش قسمتی سے ناجو گھر مل گیا۔ روح افزا کے ایک گلاس نے جب گرمی کی شدت کچھ کم کی تو بڑی مشکل سے یہ جملہ اُ س کے اندر سے باہر آیا۔ ’’ یار ناجو! تیری بھابھی پیٹ سے ہے، تھوڑے سے پیسے چاہئیں۔ بس یا رتو میرا وہ پانچ ہزار دے دے جو تو نےخالہ کی فوتگی پہ لیا تھا ۔‘‘ ’’ اوہ۱ بڑےعجیب وقت آئے ہو یار آج ہی میں نے شبیر کی کتابیں خریدی ہیں، ابھی بازار سے آیا ہی تھاکہ تُو آگیا۔‘‘ ناجو نے روح افزا کا ایک گھونٹ اندر اُگلتے ہوئے کہا۔ ناجو کی بات سُن کر رشید کا باپ خاموش ہو گیا ۔جیب سے سگریٹ کا پیکٹ نکالا اور ایک سگریٹ اپنے لئیے سلگایا اور ایک ناجو کے لئے۔ ایک لمبا سا کش لیا اور بولا، ’’ ناجو تجھے وہ رات تو بھول گئی ہو گی نہ جب تیری بھابھی نے اپنے کانوں سے جھمکے اتار کر تجھے دے دئیے تھے۔‘‘ ناجو یہ سُن کر اُس کے قریب ہو کر بیٹھ گیا اور اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا، ’’ یاربلال! میں تیرا احسان کیسے لوٹا سکتا ہوں، یقین مان بہت مجبور ہوں۔ اچھا ٹھہر تیری بھابی سے پو چھتا ہوں۔ یہ عورتیں مردوں سے چھپا کر کچھ نہ کچھ رکھ لیتی ہیں۔ رک میں آتا ہوں۔‘‘ ناجو اندر چلا گیا اور بلال سگریٹ کے لمبے لمبے کش لگا کراُسے کھانے کی کوشش کرنے لگا۔ تھوڑی ہی دیر میں ناجو مسکراتا ہوا کمرے میں داخل ہوا، ’’ میں نے کہا نہ یہ عورتیں کچھ بچا کر رکھ لیتی ہیں۔ برتنوں کی الماری میں کھانے کے ڈونگے میں چھپا کر رکھا تھایہ نوٹ ، تیری قسمت کا تھا کہاں چھپتا۔ یہ کہہ کر اُس نے پانچ سو کا ایک سبز نوٹ بلال کے ہاتھ میں تھما دیا۔ بلال نے وہ نوٹ پکڑا تو اُسے یوں لگا جیسے کسی نے کوئلوں سے بھری انگھیٹی اُ س کی ہتھیلی پر رکھ دی ہو۔ اُس کی بھنویں اکڑ گئیں اور اندر اُس کا کلیجہ اپنے آپ کو کھانے لگا،اُسے یوں لگا جیسے اُس کی آنکھوں سے آگ نکل رہی ہو۔ اُس کی انگلیاں اُس نوٹ پر آہستہ آہستہ چل رہی تھیں اور وہ نوٹ سگریٹ بننے لگا اور پھر اُس نے اُس سگریٹ کو دونوں ہتھیلیوں میں رکھ کرمزید باریک کر دیا۔ اُس بتی نما نوٹ پر دو تین دفعہ زبان پھیری اور اُسے ناجو کو تھماتے ہوئے کہا،’’ لے ، یہ لے لے یہ تیرے بڑے کام آئے گی۔‘‘ یہ کہہ کر وہ ناجو کو سکتے کے عالم میں چھوڑ کر اُس کے گھر سے باہرنکل آیا۔
اُس دن وہ سڑکوں پر ادھر ادھر آوارہ پھرتا رہا ۔ پھرتے ہوئے وہ ایک سائن بورڈ کے سامنے جاکر رک گیا۔ ’’ بالی آٹو ورکشاپ، یہاں نئے اور پرانے ٹائروں کی خرید و فروخت بھی ہوتی ہے۔ ہر قسم کی گاڑی کاکام تسلی بخش کیا جاتا ہے۔ پروپرائیٹر استاد بالی ‘‘ وہ بار بار بورڈ پڑھتا رہا ، اور اپنے دماغ کے بورڈ پر کچھ لکھتا رہا ، لکھتا رہااور مٹاتا رہا۔ پھر اُ س نے حتمی تحریر لکھی۔ ’’ پروپرائیٹر استاد رشید۔‘‘
گھر جا کر جب اُس نے فاطمہ کو اپنا یہ منصوبہ بتایا تو اُس بیچاری پر توآسمان ہی ٹوٹ پڑا ۔ ’’ تمہیں یاد ہے جب شیدا چھوٹا سا تھا تو تیری اماں کہا کرتی تھیں ۔ ’’ اے پتر میرا تے ڈی ایس پی بنے گا۔‘‘ پھر وہ شیدے کا معصوم گلابی پلپلا سا منہ چوم چوم کر گیلا کر دیتیں ، ’’ ٹھاٹھاں کر کے سارے ڈکیت مکاوئیں پُترا ، ٹھاٹھا کر کے۔ ‘‘ ابھی تو اُس کی انگلیوں کو قلم پکڑنے کی عادت بھی نہیں پڑی وہ پلاس کیسے پکڑیں گی۔ کبھی دیکھا ہے اُسے اسکول کاکام کرتے ہوئے ،اُس کی انگلیوں پر قلم کے نشان پڑ جاتے ہیں۔ پلاس تو اس کی کھال ہی ادھیڑ دے گا۔ کبھی دیکھا ہے جب اسکول سے آتا ہےکیسا لال سُوا ہوا ہوتا ہے۔پر تو کیا جانے اولادوں کا دکھ ، تجھے تو بیٹھے بٹھائے مل گئے چارپتر ، میری انتڑیوں سے پوچھ جس نے اپنا لہو دے کر پالا ہے۔۔ ‘‘ ماں اس کے سوا اور کیاکہہ سکتی تھی۔’’ اوہ !نہیں فاطمہ ایسا نہ سوچ وہ میرا بھی تو پُتر ہے۔اُ س کی رگوں میں میرا خون ہے ، اس کی تکلیف میری تکلیف ہے، یادنہیں وہ طوفانی رات جب شیدا بیمار تھا اور میں بارش اور آندھی اور ککر کی سردی میں دوا لینے چلا گیا تھا اور خود بیمار پڑ گیا تھا۔ مجھے بھی اس کی روئی جیسے کومل ہاتھ دکھتے ہیں ، مجھے بھی وہ پلاس دکھتا ہے جو روز میرے رشید کے کومل ہاتھوں پر چلے گا، پر تو ہی بتا میں کیا کروں، مجھے اب کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا۔ رشید قربانی دے کر اپنے باقی تینوں بہن بھائیوں کی زندگی بچائےگا ، ‘‘ ’’ نہیں شیدے کے ابے نہیں ، میں آپ گھر گھر جا کر کام کر لوں گی ، پر میں اپنے اس پھول کو کوئلوں کے سپرد نہیں کروں گی ۔ تجھے میری لاش سے گذر کر شیدے کو لے جانا ہو گا۔ ‘‘ کئی دن یا تنازعہ چلتا رہا، کئی دن دلائل ،تکرار وں اور طعنوں کے تیر چلتے رہے، کئی دن شہر کے اس گھر کی فضااداس رہی۔
پھر قیامت کا وہ دن بھی آگیا جب شیدے کی ماں نے اپنے شیدے کو نصیحتیں کرتے ہوئے تیار کیا ۔کئی دفعہ اُ س کے ہاتھ چومے، کئی دفعہ اُ سکے بالوں میں انگلیاں پھیریں ۔ ’’ دل تھوڑا نہ کرنا بس کچھ دنوں کی بات ہے جوں ہی حالات ٹھیک ہوئے میرا لال واپس آجائے گا۔‘‘ پھر فاطمہ نے اپنے اندر کے طوفان کو چھپا کر اپنے لال کی انگلی بلال کے ہاتھوں میں تھما دی۔ اور باپ دل پر پتھر رکھ کر وہ اُنگلی استاد بالی کے ہاتھ میں تھما آیا۔
وہ قہر کا دن تھا وہ رات قیامت کی رات ۔ بلال اپنے جگر کے ٹکڑے کی اُنگلی کسی اجنبی ہاتھوں میں دے کر ٹوٹ پھوٹ گیا تھا۔ اُسے یوں لگ رہا تھا جیسے اُ س نے بیٹا بیچ دیا ہو۔ وہ سڑکوں پر اس طرح پھر رہا تھا جیسے ببولوں میں گھرا ہوا شاپنگ بیگ ، کبھی کسی سڑک پر ، کبھی کسی گلی کے کونے پر، کبھی کسی ورکشاپ، پر کبھی کسی پارک کےاندر، اور کبھی کسی تھڑے پر۔ اُس کا جی چاہتا تھا توڑ دے ساری بتیاں ، نوچ لے سارے پھول ۔ مٹا دے جو اُس کے راستے میں آئے۔ وہ کبھی آسمان کی طرف دیکھتا، ’’ ربا آج تیری حلال کی کمائی سمٹ کر رائی بن گئی ہے، شرافت دیانت طعنہ، اور رگوں میں دوڑنے والا خالص خون ناخالص ہو گیا۔ کیاملا مجھے پُرکھوں کے راستے پر چل کر، کیا ملا مجھے قلم تھام کر ، بھلا کبھی قلم بھی راستہ بنا سکتی ہے کیا، جو خود ناتواں ہو وہ کسی کو کیا توانا کرے گی۔آج میرے بچوں پر زندگی تنگ ہو رہی ہے۔ ‘‘ کبھی وہ سائیکل کے ہینڈل پر مکے مارتے ہوئے کہتا، ’’ ربا کیسی تیری خدائی ہے ۔۔۔ کیسی کیسی کیسی۔‘‘ کبھی وہ فیصلہ کرتا، ’’ سب کھاتے ہیں نہ کمیشن ، انہیں کیا ہوا، نمازیں بھی پڑھتے ہیں روزے بھی رکھتے ہیں، گھر بار ہیں ، نہ فکر نہ فاقہ۔ میں کیوں کمیشن نہیں لیتا۔ بس شیدے دو مہینے کام کر لے پھر میں تمہیں واپس لے آؤں گا۔ ‘‘بلال نے سارے فیصلے کر لئیے تھے، سارے طریقے سوچ لئیے تھے ۔ اپنی زندگی کی ڈگر بدلنے کے اس نئے عہد نے اسے کچھ اطمینان دیا، یہی اطمینان لے کروہ گھرچلا گیا اور یہی اطمینان اُس نے فاطمہ میں منتقل کر دیا۔
فطرت کہاں بدلتی ہے، جن ہاتھوں کو حرام پکڑنے کی عادت نہ ہو وہ حرام کیسے پکڑ سکتے ہیں ۔ اُس کا عہد عہد ہی رہا، وقت نے اُس کی آہوں ، سسکیوں اور آنسوؤں کی ندیاں خشک کر دیں ،اُس کے اندر پکنے والا لاوا ٹھنڈا کر دیا اور شیدا استاد بالی کی ورکشاپ کا ایک پُرزا بن گیا۔
پٹرول پمپ کے ایک کونے میں ٹین سے بنی استاد بالی کی ورکشاپ میں نئے اور پرانے ٹائروں کے بیچ دسترخوان پر استاد بالی اور اُس کے شاگرد کھانا کھا رہے تھے۔ نان چنوں، ٹائروں اور گریس کی بُواس ورکشاپ کے ہر حصے میں پھیلی ہوئی تھی۔ استاد بالی اور اس کے شاگر د اس بوُ کے یا تو عادی ہوچکے تھے یا پھر اُسے نظرانداز کرتے ہوئے کھانے میں مگن تھے۔ دو گاڑیاں ورکشاپ سے باہر کھڑی تھیں جن میں دو ڈرائیور گرمی میں پچکے اورپسینے سے نہائے ورکشاپ میں کام کے شروع ہونے کاانتظار کر رہے تھے۔ استاد بالی اور اس کے شاگرد اطمینان سے کھانا کھانے میں مگن تھے۔ یہ ان کا روز کا معمول تھا، کھانا وہ اطمینان سے کھاتے۔نہ کھانا جلدی کھانے کی بے چینی اور نہ ہی کھانا ختم ہونے کا ڈر۔ استاد بالی اپنے شاگردوں سے کہا کرتا تھا، ’’ روٹی سکون سےاورپیٹ بھر کرکھایا کرو۔ ہم اتنی محنت اس روٹی کے لئے ہی تو کرتے ہیں، اگر وہ بھی سکون سے نہ کھائی تو اتنی محنت کا کیا فائدہ۔‘‘ کھانے کا اختتام چائے پر ہوتا تھااور پھر دسترخوان اُٹھا کر، جھاڑ کر ایک کونے میں رکھ دیا جاتا۔ بلا ل دفتر سے آتے ہوئے دور کھڑے ہو کر روز یہ منظر دیکھتا اور گھر آ کر فاطمہ کو شیدے کی قابلیت اور ہنر کے قصے سناتا۔

’’ رشید چل چھوڑ کام اور اپنا سبق یاد کر ابھی ماسٹر صاحب بھی آتے ہی ہوں گے۔‘‘ استاد بالی نے ایک گاڑی کا پہیہ کستے ہوئے کہا۔ ’’ جی استاد جی بس یہ پنکچر لگا دوں۔‘‘ رشید نے جواب دیا۔ سب رشید کو شیدا کہتے تھے لیکن استاد بالی اُسے ہمیشہ رشید کہہ کر پکارتا تھا۔ رشید کو اس ورکشاپ پر آئے ابھی ایک ہفتہ ہی ہوا تھا کہ استاد بالی نےاپنے شاگردوں سے کہا تھا ، ’’ مجھے اس کی آنکھوں میں وہ چمک دکھائی دیتی ہے جو میں پروفیسر امجد کی آنکھوں میں دیکھتا ہوں۔دیکھنا تم یہ بہت پڑھے گا اور بڑا افسر بنے گا ۔ اسے میں پڑھاؤں گا۔‘‘ رشید جب اس ورکشاپ میں آیا تھا تو اس نےیہی سوچا تھا کہ وہ استاد بالی بنے گا۔لیکن استاد بالی کے اعلان کے بعد کچھ ہی دنوں میں رشید خود کو افسر سمجھنے لگا تھا۔ افسر بننے کی خواہش اس دن تو اور بڑھ گئی جس دن اُس نے ایک ٹیوٹا کے اندر بیٹھے ایک صاحب کو دیکھا۔ اُس دن اُس نے اپنے میلے پلو سے اپنا چہرہ صاف کرتے ہوئے گاڑی کے شیشے میں خود کو دیکھ کر کہا ، ’’رشید ایک دن تمہارے پاس بھی ایسی ہی ایک گاڑی ہو گی ۔ ‘‘ اُ س نے اپنی شکل گاڑی کے شیشہ میں صاحب سے ملا کر دیکھی تھی۔ ’’میں بھی تو ایسا ہی ہوں بالکل ایسا۔ ‘‘
جب سوچیں اچھی ہوں تو اللہ بھی مدد کرتا ہے ۔ ایک دن اللہ نے ماسٹر سلیم کی شکل میں ایک فرشتہ بھیج دیا ۔ استاد بالی نے بات کی تو انہوں نےرشید کو پڑھانے کا وعدہ کر لیا ۔ ماسٹر سلیم وقت کے بہت پابند تھے وہ روز شام کو چھ بجے آتے اور رشید کو وہیں ایک کونے میں چٹائی پر بیٹھ کر پڑھاتے۔ اب رشیدکے ساتھ اس کے دوساتھی اور شامل ہو گئے تھے۔ استاد بالی کے دو بچے، انور اور نوید ۔ انور دسویں میں تھا اور نوید آٹھویں میں۔
اُستاد بالی جب اُسے انہماک سے پڑھتے ہوئے دیکھتاتو اُس کی سوچوں میں رشید افسر بن جاتا ۔ کبھی کبھی وہ اس سوچ میں پڑ جاتا کہ رشید کے ساتھ اس کا کیاتعلق ہے، وہ اُس کا بیٹا ہے یا بھائی۔ وہ اپنے بچوں کے بارے میں اتنا نہیں سوچتا جتنا اس بچے کے بارے میں۔ پھر اُسے یاد آیا کہ اُس کی اماں کہا کرتی تھیں کہ اُس کے پیدا ہونے سے ایک سال پہلے اُ س کا ایک بھائی تھا جو اللہ نے لے لیاتھا۔ یہ سوچتے ہی اُ س کے اوررشید کے درمیان کوئی نہ کوئی رشتہ پیدا ہو جاتا ۔یہی وجہ تھی کہ وہ دن بدن رشید کے بارے میں بہت جذباتی ہونے لگا تھا۔ اب تو اُس نے رشید کو صاحب بھی کہنا شروع کر دیاتھا۔ رشید صاحب۔ ایک دن ایک ڈرائیور نے رشید کو کسی بات پر تھپڑ مار دیا تو بالی نے اُس ڈرائیور کی پانے سے دھلائی کر دی۔ اس دران وہ یہی کہہ رہا تھا، ’’ تو نے میرے صاب پر ہاتھ اٹھایامیں تمہارے ہاتھ توڑ دوں گا ۔ ‘‘ ڈرائیوزمین پر گرا ہوا تھا اور بالی چیخ رہا ، ’’ مار سلوٹ او حرامی مار سلوٹ میرے صاب کو۔‘‘ اس دن اس نے وہ راز بھی کھول دیاجو اس خاص تعلق کی وجہ تھا، ’’ تمہیں پتہ ہےمیرا باپ مجھے افسر بنانا چاہتا تھا ، لیکن میری افسری کے راستے میں اُ س کا کینسر آگیا تھا ،اُس کا خواب پورا نہیں ہوا لیکن رشید صاب جی کرے گا میرے ابے کا خواب پورا۔ ‘‘
وقت کا گھوڑا سالوں کا سفر طے کرتا گیا اور رشید بھی پڑھائی کی منزلوں پر منزلیں مارتا کالج پہنچ گیا۔ اُس نے دو گھروں میں بچوں کو پڑھانا بھی شروع کردیا۔ ان ٹیوشنز سے وہ اتنا کمانے لگا کہ اپنے گھر والوں کو دے سکے اور اپنی پڑھائی کا بوجھ بھی اٹھا سکے۔ وہ اپنے ٹیوشنز کے کام اور پڑھائی میں اتنا مصروف ہو گیا کہ آہستہ آہستہ اُس نے ورکشاپ پر آنا ہی بند کردیا۔ اُستاد بالی کو جب اُس کی یاد ستاتی تو صلی یا رفیق سے کہتا ، ’’ او یار میرے صاب کو تو بلاؤ بڑے دن ہو گئے ہیں ملے ہوئے۔ اب تو مرنے لگا ہوں‘‘ اور رشید آجاتا اپنے کالج کے قصے سناتا، اپنی کامیابیوں کی داستا نیں بیان کرتا اور استاد بالی کو زندہ کر کے چلا جاتا۔
وقت کے ساتھ ساتھ رشید کے ورکشاپ پر آنے کا وقفہ بڑھتا چلا گیا۔ اورسالوں پر سال گزرتے رہے لیکن وہ ورکشاپ پر کبھی نہ آیا۔ ایک دن استاد بالی نے رفیق کو اُ س کے گھر بھیجا توپتہ چلااُس کے ابے کاتبادلہ پنڈی میں ہو گیا ہے اور وہ پنڈی چلا گیا ہے۔ یہ سن کر استاد بال بہت رویا تھا، بچوں کی طرح ۔۔۔۔ ’’ یار جاتے ہوئے اپنے استاد کو بتایاتک نہیں ۔ ‘‘ اُس کی یہ بات سُن کر رفیق نے کہا ، ’’ استاد جی ! دنیابڑی ہرجائی ہے۔ ‘‘ صلی نے ایک ٹائر کو مشین پر کستے ہوئے گنگنایا ، ’’ بے فیضاں دی اشنائی کولوں فیض کسے نہ پایا ، کیکر تے انگور چڑھایا ہر گچھا زخمایا ۔ ‘‘ استاد بالی نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا، ’’ اوے نئیں اوے ! میرا رشیدپتر ایسانہیں کر سکتا ، ضرور اُس کی کوئی مجبوری ہو گی ۔‘‘ وہ دن گیا اور آج کا دن آگیا، رشید کا نام اجنبی بن گیا۔ انسانی ذہن کو بھولنے کی عادت جو ٹہری ، آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل ، آہستہ آہستہ اس ورکشاپ کو رشید کی شکل بھی بھولنے لگی۔ اور پھر ایک وقت ایسا آگیا۔ سب بھول گئے کہ کوئی شیدا بھی تھا۔ اس شہر میں نئے آنے والی خوشبؤں میں شیدے کی خوشبو کہیں گم ہو کر رہ گئی۔ نئے دردوں نے استاد بالی کے دل میں شیدے کا درد کسی کونے میں چھپا دیا۔ اُ س کے سر کے سارے بالوں میں سفیدی نے ڈیرا ڈال لیا اور ناک پر ایک عینک بھی آگئی جس کے بازوؤں کے ساتھ بندھی ہوئی ڈوری استا دبالی کے کانوں کے باہر جھولتی رہتی۔
ایک دن استاد بالی ایک گاڑی کا ٹائر بدل رہا تھا کہ پولیس کی ایک گاڑی اُس کے پاس آ کر رکی۔ پولیس وردی میں ملبوس ایک افسر گاڑی سے باہر نکلا ۔ اس افسر نے استاد بالی کے پاس جا کر کہا، ’’ استاد جی ایک پنکجر لگوانا ہے۔‘‘ استاد بالی نے سر اوپر اُٹھایا اور کھڑا ہو کر بولا،’’ او صلی !چل جلدی صاب کی گاڑی کا ٹائر کھول۔‘‘ افسر بولا،’’ استاد جی پنکچر میں خود لگاؤں گا ۔ ‘‘
یہ کہہ کرافسر نے استاد بالی کو گلے لگا تے ہوئے کان میں کہا، ’’ مجھے پتہ تھا استاد تو نہیں پہچانے گا۔ میں تیرا رشید ہوں ، ایس پی رشید‘‘ بس یہ سننا تھا کہ استاد بالی کی آنکھوں سے آنسوؤں کی برسات شروع ہو گئی دونوں استاد شاگرد بچوں کی طرح رو رہے تھے۔ آنسوؤں اور آہوں کے اس جھکڑ میں کل کی کتاب کا ایک ایک صفحہ اس طرح کھلتا جا رہا تھا جس طرح آندھی میں رکھی کتاب۔ ’’ اوے میں نے تمہیں بہت تلاش کیا۔‘‘ ’’ استاد جی وقت نے اجازت ہی نہیں دی ۔ ‘‘ ’’ او ! یار بندا کوئی خط پتر ہی بھیج دیتا ہے۔ ‘‘ ہر دو تین منٹوں بعد یہ شکوہ شکایت بھی چل رہا تھا۔
’’ یار استاد ورکشاپ تو بڑی چمکا لی ہے ۔ ‘‘ رشید نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے پوچھا۔ اس سے پہلے کہ استاد جواب دیتا، صلی نے اپنی نحیف سی آواز میں حیران کن خبر سنائی۔ ’’ دکان کیسے نہ چمکتی یہ پٹرول پمپ جو استاد کا ہو گیا۔‘‘ رشید کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ حیرانی میں وہ بس اتناہی کہہ سکا ، ’’ مبارک ہو استادی جی لیکن ۔،۔۔۔ ‘‘ ’’ استاد بالی نے اُس کا ہاتھ تھاما اور بولا ، ’’ کر بھلا سو ہو بھلا،پُتر میں نے تیرے ساتھ ایک چھوٹی سی نیکی کی تھی اللہ نے مجھے اُ س کا اتنا بڑااجر دیا کہ مجھ سےسنبھالا نہیں جاتا ، نوید اور انور دونوں سعودیہ میں تیل کی فیکٹری میں انجئیر ہیں۔ یہ پڑول پمپ بک رہاتھا۔ نوید اُن دنوں یہا ں آیا ہواتھا، اُس نے یہ خرید کر مجھے دے دیا۔ اللہ نے بڑا احسان کیا ہے، پُتر اور مزے کی سن نوید کی اماں اب پاکستان میں نہیں رہتی، کہتی ہے پاکستان کا پانی راس نہیں۔ اپنی تو مٹی یہیں کی ہے اس لئیے باہر جانے کاسوچا ہی نہیں۔ لکھ پڑول پمپ کیوں نہ آ جائیں جو اس ورکشاپ نے دیا ہے وہ کسی نے نہیں دیا۔ اسی لئیے اس ورکشاپ کا ساتھ نبھا رہا ہوں۔ یہ ورکشاپ میں نے فیقے کے نام کر دی ہے، اور پٹرول پمپ کا سروس اسٹیشن صلی کو دے دیا ہے۔ بس اب میری ایک ہی خواہش ہے کہ اس پٹرول پمپ کی آمدنی سے ایک اسکول بناؤں، دیکھ کب منظوری ہوتی ہے۔‘‘
رشیدکچھ نہ کہہ سکا بس اپنے استاد کی طرف دیکھتا رہا۔ اُسے ایک بندے کی جگہ ایک دنیا دکھائی دے ر ہی تھی۔ وہ سوچ رہا تھا۔ اسے کس نے پڑھایا ، اس میں یہ ایمان کہاں سے آیا، اس کا اُستاد کون ہے، اس نے کہاں سے تعلیم پائی۔ کس خانقاہ سے یہ احساس پایا۔ پھر اُسے اس کا جواب خود ہی مل گیا۔ دنیا اس کی استاد ہے، حلال رزق نے اس کا اندر صاف رکھا ۔ جب اندر صاف ہو تو آسمانوں سے ایمان نازل ہوتا ہے۔ یہی ورکشاپ وہ خانقاہ ہے جس میں ہر دن ہر لمحہ اس شخص کی تربیت ہوتی گئی اور آج یہ شخص ایک سکالر اور ایک ولی بن گیا۔
کیونکہ اس نے بے علمی میں بھی علم کا دیا جلائے رکھاہے۔
ایک آواز نے اُسے خیالات کی دنیا سے باہر آنے پر مجبور کر دیا، ایک گول مٹول چہرے والا سانولا سا بچہ اُستاد بالی کے قریب کھڑا کہہ رہا تھا، ’’ اُستاد جی آج اُستانی جی نے جلدی چھٹی دے دی ہے ۔‘‘ استاد نے اس کا ہاتھ پکڑا اور بولا،’’ یہ عرفان ہے، میرا نیا رشید ۔۔۔ بتا اس کی آنکھوں میں وہی چمک نہیں جو پروفیسر امجد کی آنکھوں میں تھی۔۔۔۔‘‘ ’’ جی استاد جی۔‘‘ رشید نے عرفان کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا۔ عرفان کی انگلیوں میں وہی گداز تھا جو اُس کی انگلیوں میں ہو اکرتا تھا۔ اُسے فضا میں اپنی مرحومہ ماں کی آواز سنائی دی۔
’’ ابھی تو اُس کی انگلیوں کو قلم پکڑنے کی عادت بھی نہیں پڑی وہ پلاس کیسے پکڑیں گی۔ کبھی دیکھا ہے اُسے اسکول کاکام کرتے ہوئے ،اُس کی انگلیوں پر قلم کے نشان پڑ جاتے ہیں۔ پلاس تو اس کی کھال ہی ادھیڑ دے گا۔ کبھی دیکھا ہے جب اسکول سے آتا ہےکیسا لال سُوا ہوا ہوتا ہے۔۔‘‘ اُس کے منہ سے برجُستہ یہ جملہ نکلا، ’’ اماں! قلم کے نشان بڑے گہرے ہوتے جب ایک دفعہ بن جائیں تو مٹتے نہیں۔ ‘‘
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: میرا افسانہ

Post by چاند بابو »

بہت خوب، بہت ہی بہترین.
ہمیشہ کی طرح بہت بہترین افسانہ شئیر کرنے کا بہت بہت شکریہ.
لیکن اس کا عنوان بھی تو لکھیں نا.
اس کا کوئی بہترین سا عنوان لکھیں تاکہ میں اسے بھی صفحہ اول پر لگا سکوں.
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
وارث اقبال
کارکن
کارکن
Posts: 69
Joined: Wed May 30, 2012 10:36 am
جنس:: مرد

Re: میرا افسانہ

Post by وارث اقبال »

شکریہ جی
اس افسانہ کا نام ہے " قلم کے نشان "
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: میرا افسانہ

Post by چاند بابو »

معزرت چاہتا ہوں‌کہ پہلے میں افسانے کا نام نہیں دیکھ سکا حالانکہ پہلی لائن میں ہی نام لکھا گیا تھا.
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Post Reply

Return to “اردو افسانہ”