آنگن کا پھول

اردو کے منتخب افسانے یہاں شیئر کریں
Post Reply
ساجد پرویز آنس
کارکن
کارکن
Posts: 13
Joined: Sun Apr 20, 2014 11:32 pm
جنس:: مرد

آنگن کا پھول

Post by ساجد پرویز آنس »

شانی دوڑتا ہوا گھر میں داخل ہوا-"امی ....امی یہ دیکھو میں کیا لایا ہوں"-شانی نے گھر میں داخل ہوتے ہی چلانا شروع کر دیا-اس کے دائیں ہاتھ میں گلاب کا پودا تھااور دوسری بغل میں بستہ تھا-
"میرا لال ...کیا چیز لایا ہے"؟
شانی کی ماں جو کہ برآمدے میں پڑی چارپائی پہ لیٹی تھی وہ اٹھ بیٹھی اس نے دوپٹہ سر پہ اوڑھتے ہوۓ پوچھا-
"امی یہ دیکھو....یہ گلبن ہے"-شانی چارپائی کے قریب آگیا اس نے بستہ دوسری چارپائی پہ پھینکا اور دونوں ہاتھوں سے گلاب کا پودا پکڑ کر اپنی ماں کے سامنے کردیا-
"یہ گلبن میرے بیٹے نے کہاں سے لیا ہے"؟شانی کی ماں نے گلاب کا پودا اس کے ہاتھ سے پکڑا اور اسے غور سے دیکھنے لگی-
"امی... رضوان جو ہمارا پڑوسی ہے اس نے یہ پودا خرید کے مجھے دیا ہے- آج سکول میں ایک نرسری والا آیا تھا-اس کے پاس سے مالی نے بھی سکول کیلئے پودے خریدے تھے-تب رضوان نے بھی گلاب کے دو پودے خرید لئے - ایک اس نے خود رکھ لیا جبکہ ایک اس نے مجھے دے دیا"-شانی بڑے فاتحانہ لہجے میں بول رہا تھاجیسے اسے بہت بڑی خوشی مل گئی ہو-
"اچھا اب تم پہلے کھانا کھا لو-اس کے بعد جو چاہے کرنا"-شانی کی ماں نے اس سے کہا-
"نہیں امی پہلے میں پودا لگاؤں گا اس کے بعد روٹی کھاؤں گا"- شانی نے بات پر زور دیتے ہوۓ کہا-اس کا جنون دیکھ کر شانی کی امی باورچی کھانے میں چلی گئ-
"امی کھرپا کدھر رکھا ھے"-شانی کی آواز گونجی-
"چلاتے کیوں ہو...ادھر ادھر دیکھ بھی لیا کرو- وہ تو پڑا ہے"-شانی کی ماں نے باورچی خانے سے باہر آکر شانی کو ڈانٹا اور پھر گھر کے ایک کونے میں پڑے ہوۓ کھرپے کی طرف اشارہ کیا-
ماں کا اشارہ پاتے ہی شانی تیزی سے کھرپے کی طرف لپکا-تب تک شانی کی ماں باورچی خانے میں واپس جا چکی تھی-شانی نے وہ کھرپا اٹھایا اور صحن کے درمیان میں آکر بیٹھ گیا-اس نے صحن کی سخت زمین پر کھدائی شروع کردی-
"میرے لال یہ تیرے بس کی بات نہیں-یہ زمین بہت سخت ہے-رات کو تیرے ابو آئیں گے تو میں ان سے کہہ دونگی کہ وہ تمہیں پودا لگانے کے لئے کھڈا کھود دیں"-شانی کی ماں نے باورچی خانے سے باہر آکر شانی کو سمجھایا لیکن شانی نے نفی میں سر ہلا دیا- "اٹھو! بیٹا چھوڑ دو-اچھے بچے ضد نہیں کرتے"-ماں نے شانی کو بازو سے پکڑ کر اٹھانے کی کوشش کی لیکن شانی نہ اٹھا-آخر اس کا جنون دیکھ کر ماں واپس باورچی خانے میں چلی گئ-
یہ نازک ہاتھ اور صحن کی سخت زمین ..
یہ جنوں ہی تو تھا کہ جس نے ان نازک ہاتھوں میں سخت زمین کھودنے کی جستجو پیدا کر دی تھی-یہ ننھی سی جان صحن کی سخت زمین کھودنے میں مشغول تھی-یہ وہی نازک ہاتھ تھے جو زیادہ دیر قلم نہیں چلا پاتے تھے کہ تھک جاتے تھے مگ آج یہی وہ نازک ہاتھ سخت زمین میں گڑھا کھودنے کی سعی میں محو تھے-مہر گیتی فیروز اپنی منزل کی جانب گامزن تھا اور یہ شانی اپنی جستجو میں لگا تھا-پھر دھیرے دھیرے چراغ فلک کی روشنی ماند پڑنے لگی-وہ کسی اور سرزمین پر جلوہ افروز ہونے کی تیاری کر رہا تھا- ادھر شانی کی پییشانی سے پسینے کے قطرے گر رہے تھے اور خاک میں جزب ہو رہے تھے-شانی کے ہاتھ مٹی میں خاک جیسے ہو گئے مگر جب وہ ان ہی ہاتھوں سے چہرے پر سے پسینہ صاف کرتا تو اس کا چہرہ بھی رنگین ہوجا-بلآخر شانی نے "ہمت مرداں مدد خدا" کے اصول کے تحت گڑھا کھود ہی لیا-ابھی وہ گڑھا کھود کے فارغ ہی ہوا تھا کہ دروازے پہ دستک ہوئی-
"شانی بیٹا! ذرا باہر تو دیکھنا کہ دروازے پہ کون ہے"؟ شانی کی ماں نے باورچی خانے کے اندر سے آواز لگائی-
"اچھا امی جی"-شانی نے کھرپا ایک طرف پھینکا اور درورزے کی طرف بڑھا-
"اوہ....ابو جی آپ"-
شانی نے جیسے ہے دروازہ کھولا تو سامنے اس کا باپ کھڑا تھا-
"ہاہاہاہا....شانی تو نے یہ کیا حلیہ بنا رکھا ھے"؟ شانی کے باپ نے قہقہ مارتے ہوۓ کہا-
"ابو میں گلبن لگا رہا ہوں"-شانی نے کھڈے کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا-
"اچھا تو ہمارا بیٹا گلاب کا پودا لگا رہا ہے"-دونوں باپ بیٹا کھڈے کی طرف بڑھے-
"رضیہ! ذرا دیکھو تو ہمارا بیٹا کیا چیز لگا رہا ہے"- شانی کے ابو دلاور نے اپنی بیوی کو آواز دی-
"جی مجھے پتہ ہے-آپ ہی اس کی کچھ مدد کر دیں"-
رضیہ نے باورچی خانے کے اندر بیٹھے بیٹھے جواب دیا- "چلو بیٹا ہم یہ پودا مل لگاتے ہیں"-شانی کے باپ نے شانی کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوۓ کہا-
اس کے بعد دونوں باپ بیٹے نے مل کر گلبن لگایا-
"اب تو میرا بیٹا بہت خوش ہو گا"-دلاور نے شانی کی طرف دیکھا جو کہ پودے کو پانی دے رہا تھا-
"جی....ابو میں بہت خوش ہوں"-شانی نے پانی ڈالتے ڈالتے جواب دیا-
جیسے ہی شانی پانی ڈال کر واپس مڑا تو دلاور نے اسے اپنے دونوں ہاتھوں پہ اٹھا لیا اور اس کے مٹی سے رنگین گال کا بوسہ لے لیا-یہ ہوتا ہے اپنا خون جو مٹی میں رنگین ہو تب بھی اچھا لگتا ہے-
******
"شانی جلدی آؤ"-رضوان دوڑتا ہوا شانی کے گھر میں داخل ھوا- "کیوں رضوان بیٹا خریت تو ہے نا.... کس بات کی جلدی ہے تجھے...."رضیہ نے جب رضوان کو یوں دوڑتے ہوۓ دیکھا تو اس سے رہا نہ گیا اور پوچھ ہی لیا- "نہیں خالہ کچھ خاص بات نہیں"-اس کے بعد وہ دونوں دوڑتے ہوے باہر نکل گۓ-
"شانی دیکھو میرے گلبن پہ پھول کھلا ہے"-رضوان نے اپنے گھر میں موجود گلاب کے پودے کے قریب جا کر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوۓ کہا-رضوان کے گلبن پہ واقعی تازہ گلاب مسکرا رہا تھا-
رضوان کے گلبن پہ کھلے پھول کو دیکھ کر شانی کے دل میں اپنے گلبن پہ کھلے پھول کو دیکھنے کہ آرزو جاگ اٹھی-مگر تین ماہ گزر چکے تھے اور اس کے گلبن پے کوئی پھول نہیں کھلا تھا-رضوان کے پھول کو دیکھ کرجب وہ اپنے صحن میں آیا تو وہ اپنے گلبن کو حسرت بھری نگاھوں سےدیکھنے لگا-
"اے میرے خدا....اے زمین اور آسماں کے پیدا کرنے والے تو ہی ہے جس نے میرے ماں باپ کو پیدا کیا-تو ہی ہے جس نے مجھے بھی پیدا کیا-
اے میرے پروردگار تیرے جنت کے باغوں میں پھولوں کی کمی نہیں ہے-تو نے جیسے رضوان کے گلبن پہ پھول کھلایا ہے ایسے ہی ایک پھول میرے گلبن پہ بھی کھلا دے
اے میرے خدایا! تجھ سے بہتر کوئی خالق نہیں ہے"- دوسرے دن شانی نماز فجر کے بعد مصلے پہ محو دعا تھا-رضیہ ایک طرف کھڑی اسے دیکھ رہی تھی اور اس کے من میں خوشی کے لڈو پھوٹ رہے تھے کہ اس کے جگر کا ٹکرا نماز پڑھنے کے بعد دعا مانگ رہا ہے- ماں خوش کیوں نہ ہو..... کیوں کہ نماز مومن پے فرض بھی ہے اور مسلمان کی شان اور پہچان بھی ہے- دعا مانگنے کے بعد شانی اٹھا اور سیدھا اپنے گلبن کے پاس گیا-اس نے گلبن کو پانی دیا اور اسے حسرت بھری نگاھوں دیکھنے لگا کہ کبھی اس پہ بھی پھول کھلے گا-
اس کے بعد شانی کا یہ روزانہ کا معمول بن گیا تھا کہ وہ صبح اٹھ کر نماز فجر ادا کرتا اور پھر جہان آفریں سے دعا کرتا کہ اس کے گلبن پے پھول کھلا دے- شاید ابھی اسکی دعاؤں کی قبولیت کا وقت نہیں آیا تھا یا پھر قدرت کو کچھ اور منظور تھا-لیکن اپنے گلبن پر پھول دیکھنے کا جنون دن بدن بڑھتا جا رہا تھا
******
"شانی دیکھو ... آؤ دیکھو آج پھر میرے گلبن پہ اک پھول کھلا ہے"-آج پھر ایک ہفتے بعد رضوان شانی کا زخم ہرا کرنے اور اس کے دل میں نہاں خواہش بیدار کرنے آگیا-شانی دل میں اک درد سا اٹھا مگر وہ بوجھل سے قدموں کے ساتھ رضوان کے گھر پہنج گیا-مگر آج رضوان کے گلبن پہ کھلے پھول کو دیکھ کر شانی کو کوئں دلی مسرت نہ ہوئی بلکہ اس کے ذہن میں یہ سوچ گردش کرنے لگی کہ آخر اس کے گلبن پہ پھول کیوں نہیں کھل رہا - ان ہی سوچوں میں گم شانی رضوان سے کوئی خوشی کا اظہار کیۓ بغیر پریشان سا اپنے گھر کی طرف بڑھا-
شانی کا مرجھایا ہوا چہرہ دیکھ کر رضیہ پریشان ہو گئ- مگر شانی نے کوئی جواب نہ دیا اور بستہ اتار کر ایک طرف پھینکا اور خود چارپائی پہ لیٹ گیا- رضیہ تیزی سے شانی کی طرف بڑھی اور جب اسے چھوا تو رضیہ کو پتہ چلا کہ شانی کو بخار چڑھا ہوا ہے کیونکہ اس کا جسم بری طرح تپ رہا تھا- رضیہ جلدی سے اٹھی اور ڈاکٹر کو بلانے چلی گئ-
مگر جب ڈاکٹر آیا تو اس نے بتایا کہ شانی کی جان تو جہان آفریں کے سپرد ہو گئ ہے-یہ سننا تھا کہ رضیہ کے منہ سے ایک دلخراش چیخ بلند ہوئی اور وہ گر کر وہیں بے ہوش ہوش ہو گئ-
*****
یہ ایک سہانی صبح تھی-رضیہ صبح سویرے اٹھی -جب وہ صحن میں آئی اور اس کی نگاہیں گلبن پے پڑیں تو اس کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے اور پھر یہ آنسو سسکیوں میں بدل گۓ پھر کچھ دیر بعد رضیہ اس گلبن پہ کھلے پھول کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہی تھی کہ اسی پھول کو دیکھنے کیلیۓ رضیہ کے دل کے آنگن کا پھول مرجھا گیا تھا-پھر نجانے کیا سوچ کے رضیہ گلبن کی طرف بڑھی اور وہ پھول توڑ کر گھر سے باہر نکل گئ-
کچھ دیر بعد رضیہ قبرستان میں ایک قبر کے نزدیک کھڑی تھی-اس نے وہ پھول قبر پہ ڈالا اور پھر اپنے ھاتھ دعا کیلیۓ بلند کئے -اس کے لب تھرتھرا رھے تھے اور آنکھوں سے آنسو رواں تھے-


_
Post Reply

Return to “اردو افسانہ”