میری ڈائری کا اک روق

اگر آپ کسی سے گپ شپ لڑانا چاہتے ہیں تو یہاں آیئے۔ اپنے دوستوں سے ملاقات کیجئے اور ڈھیروں باتیں کیجئے
ایم ابراہیم حسین
کارکن
کارکن
Posts: 166
Joined: Fri Oct 31, 2014 7:08 pm
جنس:: مرد

Re: میری ڈائری کا اک روق

Post by ایم ابراہیم حسین »

میاں محمد اشفاق wrote:آمین ثم آمین.
شئیر کرنے کا بہت بہت شکریہ محترم
آمد کا شکریہ اللہ آپ کو ہمیشہ خوش وسلامت رکھے آمین

Sent from my LenovoA3300-HV using Tapatalk
ایم ابراہیم حسین
کارکن
کارکن
Posts: 166
Joined: Fri Oct 31, 2014 7:08 pm
جنس:: مرد

Re: میری ڈائری کا اک روق

Post by ایم ابراہیم حسین »

ذندان سے ایک قیدی

رات کے دو بجے کسی کی بلند آواز میں رونے کی آواز سے ذندان کی کمزر در و دیوار کانپ رہی تھی ہم جو اس رات کے گزر جانے کا انتظار کر رہے تھے اس آواز نے ہماری تکلیف کو اور بڑھ دیا اور ہم اندر ہی اندر رونے لگے .....
ابھی ہم اس خوف سے باہر نہیں نکلے تھا کے زنجیر کے زمین پر رگڑنے کی خوفناک آواز پھر سے ذندان میں بلند ہوئی اس بار تو ہم سب قیدی ذندان کی سلاخوں سے لگ کر کھڑے ہو گے اور باہر اندھیرے میں اس آواز کو تلاش کرنے لگے ....
اچانک ایک طرف سے گرجتے ہوے سپاہی کی آواز آئی ہٹ جاو پیچھے اور اپنی باری کا انتظار کرو .....
میں جلدی سے پیچھے ہٹا اور دیوار سے کمر ٹیکتے ہوے بیٹھا اور باہر دیکھنے لگا کہ میرے سامنے سپاہی رب نواز نمودار ہوا بابا خدابخش کیا ہوا نیند نہیں آرہی....
میں نے دونوں ہاتھوں اپنی آنکھیں مسلتے ہوے کہا رب نواز یہ کس کی آواز تھی....
بابا خدابخش یہ نور محمد کی آواز تھی آج صبح کا سوج نکلنے سے پہلے اس کو سولی پر لٹکایا جائے گا تو وہی رو رہا ہے آج اس کو ذندان سے آزاد کیا جائے گا
ذندان میں پڑے قیدی کوئی ہنس کر اس کے رونے کا مزاق اڑا رہا تھا تو کوئی دیوار سے لگے خوف سے مرے جارہے تھے ...
اور میں صبح ہونے کا انتظار کرنے لگا خوف میں جانے کب آنکھ لگ گئ اور میری تہجد کی نماز بھی قضاء ہوگی.....
اچانک ذندان کا گھنٹہ بجنے لگا اور سب قیدیوں کو باہر نکالنے کے لیے ذندان کے دروازے کھلنے لگے .....
میں چونک کر اٹھا اور اپنی چادر لے کر قیدیوں کی قطار میں جا کھڑا ہوا
ہمیں ذندان کے صحن میں لایا گیا....!!!
اب ہمیں انتظار تھا کہ بتایا جائے کہ یہاں کیوں لایا گیا ہے میں یہی سوچ رہا تھا اور ایک طرف سے درد بھری آواز آئی ....
میں قیدیوں کی قطار کو چیرتا ہوا آگے آیا کان پہ ہاتھ رکھ کر آواز کو غور سے سننے کی کوشش کر رہا تھا یہ آواز بلند ہوتی ہوئی میری طرف آرہی تھی اور مجھے صاف سننے لگی تھی اس آواز کے بول کچھ اس طرح تھے ....
نا کر میں " میری " میں " میری کج نی سب جگ دا فریب اے بندیا بس نام اللہ دا باقی رہنا اے باقی سب فانی اے ...
یہ آواز نور محمد کی تھی اس کو ہمارے سامنے سے لیے جارہے تھے اور سولی پر لٹکانے کو تخت موت پر لاکر کھڑا کر دیا گیا...!!!
ایک سپاہی نے نور محمد کا پوار نام لیا اور پھر اس کے والد کا نام بتایا اور پھر جس وجہ سے اس کو سزائے موت سنائی بیان کیا
ہم سب قیویوں سے کہا کہ اس شخص کو ابھی سولی پر لٹکا دیا جائے گا اگر جانے انجانے میں نور محمد نے کسی کا دل دکھایا ہو تو اس کو معاف کر دے تاکہ اس کی موت کے بعد کی مشکلات میں کچھ آسانی ہوسکے ....
ہم سب خاموش اس سپاہی کی باتوں کو سن رہے تھے جو ہمیں یہ بتا رہا تھا کہ ہم اس کو معاف کر دے یہ بات اس مجرم کے مدعی بھی سن رہے تھے اور یہاں موجوں ہر شخص سن رہا تھا
میرے پیچھے سے ایک شخص آگے آیا اور کہنے لگا نہیں نہیں اس شخص کو میں کبھی معاف نہیں کرسکتا....
اس کے دو بول نے ذندان کے سب قیدیوں اور لوگوں کو چونکا دیا .....!
ایک سپاہی نے کہا بابا جی معاف کر دے اس شخص کا آخری وقت آگیا ہے اب آپ اور کیوں اس کی مشکلات میں اضافہ کرتے ہو یہ بزرگ کچھ دیر خاموش رہا .......
اتنے میں جس جرم میں اس کو سزائے موت سنائی گئی تھی اس کا مدعی عامر نے کہا بابا جی آپ کا اس نے کیا نقصان کیا جو آپ اس کو معاف نہیں کرسکتے مگر بزرگ پتھر بنا کر کھڑا رہا .....
اس کی خاموشی بڑتی جارہی تھی اور سب اس انتظار میں تھے کہ یہ بزرگ کوئی بات کرئے جس کا کوئی فصلہ سنایا جائے اور نور محمد کو سولی پر لٹکایا جائے ....
قاضی صاحب نے بزرگ کو اپنے پاس آنے کو کہا تو یہ بزرگ آگے بڑ گیا.....
قاضی صاحب نے ان سے پھر وہی سوال کیا کے جناب آپ اس کو معاف کر دے تاکہ اس کی سزا کو انجام دیا جائے ......!!!
بزرگ صاحب نے ہلکی سی مسکرہٹ کا اظہار کیا اور کہا قاضی صاحب میں اس کو اس وقت تک معاف نہیں کروں گا جب تک یہ مجھ سے خود نہ کہے کہ معاف کرو ....
قاضی صاحب نے نور محمد کو دیکھا اور کہا نور محمد تم ایک بار خود ان صاحب سے معافی طلب کرو اور سب قیدیوں اور موجود ہر شخص سے تو نور محمد نے ایک بار اللہ کا نام لیا

اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر کبیرا

اے مومینوں میں تم سب سے اپنی ہر اس خطا کی معافی چاہتا ہوں جو انجانے میں کی یہ جان بوجھ کر کی بعد اللہ اور اس کے رسول کے تم معاف کرنے والے ہو ....
اگر معاف کر دو تو مجھے موت کے بعد کا حساب دینے میں آسانی ہو جائے گی .....
ابھی اسکی بات کی گونج ختم نہ ہوئی تھی کہ اس ہجوم میں سے ایک نوجوان لڑکے کی آواز آئی جو کچھ یوں بیان ہوا .....
اے مرد مومن جا میں نے تجھے اپنا ہر وہ دکھ معاف کیا جس کی وجہ سے آج تجھے موت کا سامنا کرنا پڑا اللہ تجھے بخش دے اور مجھے صبر عطا کرئے ......
اس کے اس بول کے بعد بزرگ شخص نے اس کو کہا نور محمد______ تجھے نئی ذندگی مبارک ہو ......
تیری عبادت قبول ہوئی .....
اور نور محمد کو سزائے موت کے فرشِ تخت سے نیچے اتارا گیا اور اس کو آزاد کر دیا گیا
۔
خود بیتی ایک کہانی آپ کی نزر
۔
میری ڈائری کا اک روق
از ____ایم ابراہیم حسین


Sent from my LenovoA3300-HV using Tapatalk
nizamuddin
ماہر
Posts: 605
Joined: Fri Mar 27, 2015 5:27 pm
جنس:: مرد
Location: کراچی، پاکستان
Contact:

Re: میری ڈائری کا اک روق

Post by nizamuddin »

واہ جناب ...... بہت عمدہ شیئرنگ ہے
آن لائن اردو انگلش ڈکشنری
[link]http://www.urduinc.com[/link]
ایم ابراہیم حسین
کارکن
کارکن
Posts: 166
Joined: Fri Oct 31, 2014 7:08 pm
جنس:: مرد

Re: میری ڈائری کا اک روق

Post by ایم ابراہیم حسین »

nizamuddin wrote:واہ جناب ...... بہت عمدہ شیئرنگ ہے
شکریہ پیارے بھائی سلامت رہیں ہمیشہ آمین

Sent from my LenovoA3300-HV using Tapatalk
ایم ابراہیم حسین
کارکن
کارکن
Posts: 166
Joined: Fri Oct 31, 2014 7:08 pm
جنس:: مرد

Re: میری ڈائری کا اک روق

Post by ایم ابراہیم حسین »

مرد...!!!
چاہے جتنا بھی سخت مزاج " سنگدل " مطلبی کیوں نہ ہو پر اس کے دل میں عورت کی محبت ایسا گھر رکھتی ہے کہ جو اس کو انسان سے بندہ " بندے سے شیطان بناسکتی ہے ....

اکثر ایک جملہ پڑھا ہے سنا ہے .....

ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے ...!!!

پر یہ کسی نے نہیں کہا کہ....

ہر ناکام مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے ...!!!

عورت کی عزت اور مقام کا درجہ بہت بلند ہے جبھی تو اس کو مرد کےدل کے پاس والی پسلی سے پیدا کیا تاکہ اس کا دل پر اثر ذیادہ رہے اور یہ دل کو اپنا گھر بنا سکے.....

اب جو عورت مرد سے یہ شکوا کرتی ہے کہ وہ ناکام انسان ہے
تو اس کو ایک بار خود کو دیکھنا چاہئے کہ اس میں ایسا کونسے کردار کی کمی ہے جس کی وجہ مرد ناکام ہوا .....

عورت پر .... اور ___ مرد مگر..... کا تکرار نہیں چھوڑتے یہی ان دنوں کی ناکامی کا سبب ہے
۔
میری ڈائری کا اک ورق

از______ایم ابراہیم حسین

Sent from my LenovoA3300-HV using Tapatalk
ایم ابراہیم حسین
کارکن
کارکن
Posts: 166
Joined: Fri Oct 31, 2014 7:08 pm
جنس:: مرد

Re: میری ڈائری کا اک روق

Post by ایم ابراہیم حسین »

میری ذندگی میں کچھ لوگ ایسے بھی آئے جن کو آج یاد کر کہ میری آنکھ نم ہو جاتی ہے
جب یہ لوگ میرے ساتھ تھے تو میں ان کی قدر و اہمیت سمجھ نہیں سکا اور آج جب وہ میرے پاس نہیں ہیں تو ان کی باتوں کو یاد کر کہ خود کو ناکام انسان سمجھتا ہوں
گزرے وقت نے ایسا روشن کیا کہ میں انکو سمجھ کر سبق حاصل کرتا ہوں ......
۔
میری ڈائری کا اک ورق
۔
بابا محمد خان آئی ۔ آئی ۔ ایس ۔ سی کراچی
از _____ایم ابراہیم حسین

Sent from my LenovoA3300-HV using Tapatalk
ایم ابراہیم حسین
کارکن
کارکن
Posts: 166
Joined: Fri Oct 31, 2014 7:08 pm
جنس:: مرد

Re: میری ڈائری کا اک روق

Post by ایم ابراہیم حسین »

اک فقیر اک دنیا ۔ ۔ !!
۔
چہروں کو پڑھنا اور سمجھنا آج کی اس دنیا کا سب سے مشکل ترین علم ہوگیا ہے ۔ ۔ !
ہم ہزاروں لوگوں کی بھیڑ میں چلتے ہوے ایک ریوڑ کی طرح ہیں ۔ ۔
۔ جو ساتھ چل تو رہے ہیں پر ان کو ہنک کر آگے بڑایا جاتا ہے ۔
۔ انکو کسی کے پیچھے رہ جانے کا غم نہیں ہوتا ۔ ۔
۔ نہ ہی کسی کے آگے بڑ جانے کا ۔
بس جو ساتھ ہے اس کے ساتھ سر سے سر ملاتے ہوے آگے بڑھنا ہے ۔ ۔ !!!
میرے شہر اور گھر کے رستے میں میں ایک پاگل رہتا تھا اس کا کوئی ایک ٹھکانا نہیں تھا کبھی کہیں مل جاتا ہو کبھی کہیں ...
میں اکثر اسکو دیکھ کر اللہ سے اس کے لیے رحم کی دعا کرتا اور دو چار روپے دے دیتا تاکہ وہ کچھ کھا لے ....
ایک دن میں کہیں سے واپس آ رہا تھا جب قبرستان کے پاس سے گزرا تو دیکھا کہ وہ پاگل شخص قبرستان کی باہر والی دیوار سے سر لگا کر کوئی کتاب پڑھ رہا ہے ....
میں چونک گیا کہ پاگل کا کتاب پڑھنا عجب منظر دیکھا تھا اس کے پڑھنے کی آواز مجھے اس وقت آئی جب میں نے غور کیا کہ یہ کتاب پڑھ رہا ہے یہ دیکھ رہا ہے . . . .
۔ تو میں اس کے پاس چلا گیا یہ پاگل مجھے دیکھتے ہی ادھر ادھر کی فلمی باتیں کرنے لگا ۔ ۔ ۔
۔ میں نے اس کے ہاتھ سے کتاب چھین لی اور وہی روق جو کھلا ہوا تھا اس کے دونوں طرف کے پنے پڑھنے لگا تاکہ مجھے وہ الفاظ مل جائے جو ابھی سنے تھے .....
۔ اور ہوا وہی جو میں نے اس کو پڑھتے سنا تھا وہ لائن مل گی . . .
میں اس کے پاس بیٹھ گیا ۔ ۔ !!!

میرے پاس ایک برگر تھا وہ اس کو کھانے کو دیا اور وہی لائن پڑھ کر اس سے پوچھا میاں یہ لائن تم پڑھ رہے تھے تم تو پاگل ہو تو کتاب کا پڑھنا ۔ !!!

کیا میں ۔ ۔ ۔ کیا تم مجھ سے بات کرو گے ۔ ۔ ۔ ؟

۔ وہ پاگل شخص برگر کھاتے ہوے بولا جناب پاگل انسان ہوں میری اس گندگی سے تم نفرت نہیں کرو گے .....
میں نے اس کو کہا جو تم دیکھانا چاہتے ہو اس کو رہنے دو اور جو تم ہو وہ بتاو ۔ ۔ ۔ ۔
پاگل شخص نے برگر ختم کیا اور مجھے کہا جناب اب آپ نے دیکھ ہی لیا ہے کہ میں پاگل نہیں ہوں تو اور کیا پوچھنا چاہتے ہو مجھے میرے حال پر چھوڑ دو ۔ ۔ ۔
میں نے اس کو بڑی منت سماجت سے منالیا اور پھر ہم قبرستان سے اٹھ کر قریب فٹبال گراؤنڈ میں آ بیٹھے .....
یہاں روشنی اور ماحول اچھا تھا تو اس شخص نے اپنا نام بتایا ....

محمد ساجد والد ۔ ۔ ۔

اور پھر اس نے اپنا آباہی گاؤں اور اس شہر میں کتنا عرصہ کس طرح گزارا وہ سب بتایا .......
اس کے پاگل پن کی وجہ اس کے ساتھ ہونے والے کچھ واقعیات تھے ......
گھر میں ایک ایک کر کہ ماں باپ اور بھائی کی موتیں ہوئی اور یہ شخص اکیلا ہوگیا اور جو لوگ باقی تھے انھوں نے سازشیں کر کہ اس کا سب کچھ ہتھیا لیا تھا ....
اب یا تو یہ ان سے لڑتا اور وہ سب کچھ واپس لیتا یہ پھر ان سے سازش کر کہ وہ سب کچھ واپس لیتا جو اس کا تھا .....
پر جب خون ہی خون کا دشمن ہو جائے اور گھر کے فرد ہی گھر کی دیواریں گرانا شروع کر دے تو ایک دن چھت گر ہی جاتی ہے چاہے وہ کتنی ہی مضبوط کیوں نا ہو ....

اس شخص کی داستان سن کر میرے من میں عجیب غریب خیال آنے لگے .....

تو اس شخص نے کہا جناب میں پاگل ہوں مست ہوں لوگ یہ سمجھ کر کھانا کھلا دیتے ہیں اور رہنے کو قبرستان جو ہمیشہ رہے گا رہی بات اس دنیا کے لوگوں کی تو یہ تو ہے ہی
" اندھے " گونگے " بہرے "

انسان تو کب کا مر گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ وہ جو انسان انسان کو دیکھ کر اس کے دکھ کا احساس کر لیا کرتا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ آج تو صرف اُس انسان کا دُکھ دُکھ ہوتا ہے جس سے تم کو مطلب ہے اب چاہے وہ کوئی غیر ہو یہ آپ کا خون ہی کیوں نہ ہو ۔ ۔ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ دوستی اُس سے کی جاتی ہے جو فائدہ دے سکتا ہے یہ جس کے ساتھ بیٹھے آپ کی عزت دگنی ہوتی ہو .....
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ! رشتہ بھی وہی پائدار ہے جو فائدےمن ہو یہ آپ کا بوجھ اٹھاسکتا ہے .....

" میں پورا دن پاگل بن کر یہ جھوٹے رشتے بنتے ٹوٹتے دیکھ کر خود کو پاگل ہی سمجھتا ہوں کیوں کہ میرے میں ان جیسی کوئی ایک بات بھی نہیں "

اور پھر اس شخص نے اجات لی اور ایسا گم ہوا کہ مجھے اس سے جھوٹی ہمدردی کرنے کا موقع بھی نہیں ملا
آج بھی قبرستان کے پاس سے گزرتا ہوں تو اس کی ہر وہ بات یاد آجاتی ہے جو شاید سچ ہی تھی
۔
از_____قلم ایم ابراہیم حسین
۔
خود بیتی
۔
میری ڈائری کا اک ورق


Sent from my LenovoA3300-HV using Tapatalk
ایم ابراہیم حسین
کارکن
کارکن
Posts: 166
Joined: Fri Oct 31, 2014 7:08 pm
جنس:: مرد

Re: میری ڈائری کا اک روق

Post by ایم ابراہیم حسین »

میں ایک شام کام سے واپس آرہا تھا تو رستے میں ایک شخص ملا جو بہت ہی ضعیف عمر تھا ____اس کے کندھے پر ایک تھیلا تھا _____جو دیکھنے میں وذنی معلوم ہورہا تھا تو میں نے اخلاقی فرض نبھاتے ہوے بابے سے وذن اٹھانے کی اجاذت مانگی....!!!
" بابے " نے میں میری طرف مسکراتے ہوئے دیکھا اور کہا ...!!!
رہنے دو بچہ تم کام سے تھکے آ رہے ہو اور نجانے تمہاری منزل کہا ہے ۔ ۔ ۔!!!
" یہ میرا بوجھ ہے جو میرے نصیب میں اٹھانا ہے کوئی نہیں میں اس کو لیکر اپنی منزل تک پہنچ جاؤں گا شکریہ اللہ تمہارا بھلا کریں "
میں نے " بابے " سے تھیلا پکڑا اور کہا بابا جی آپ بتائیں کہا جانا ہے میں چھوڑ آتا ہوں ....!!
آج ویسے بھی کام تو ملا نہیں یونہی خالی ہاتھ واپس جارہا ہوں۔ ۔ ۔ !!
" بابے " نے کہا تو ٹھیک ہے تم وہ سامنے والے گاؤں تک لے چلو اور میں اس کے بدلے میں تمہیں دس روپے دونگا "
میں نے " بابے " کو پیسوں سے انکار کرتے ہوے تھیلا کندھے پہ اٹھایا اور آگے آگے چل پڑا ۔ ۔ ۔ ۔
گاوں دیکھنے میں تو نزدیک نظر آ رہا تھا پر جب بوجہ کندھے پر آیا تو گاؤں جیسے مجھ سے دور ہوتا جارہا تھا۔ ۔ ۔
اس دوران " بابے" نے میرا خیال بٹانے کے لیے میرا نام اور کام پوچھا ۔ ۔ ۔ ؟

میں چلتے چلتے " بابے " کو بتانے لگ گیا ۔ ۔ ۔

بابا جی میں مزدوری کرتا ہوں جو مل جائے صبح گھر سے شہر آ جاتا ہوں اور شہر کے داخلی رستے پہ آ بیٹھتا ہوں کوئی نہ کوئی کام مل جاتا ہے ۔ ۔

" بابے " نے پھر پوچھا ۔ ۔ ؟

پھر بھی کس قسم کا کام اور لوگوں کو کس طرح پتہ چلتا ہے کہ تم کام کی تلاش میں بیٹھے ہو ۔ ۔ ؟

میں نے " بابے " کو پھر سے بتایا کہ بابا جی جو شہر کا داخلی رستہ ہے میں اس کے ایک طرف ہوکر بیٹھ جاتا ہوں اور شہر میں ہر آنے والے شخص کو دیکھ کر انداذہ کرتا ہوں کہ یہ شہر کس لیے آیا ہے اور پھر اگر کوئی سامان کے ساتھ آئے تو اس سے پوچھ لیتا ہوں کہ وہ یہ سامان اتارنے یہ لدھنے کی مدد چاہتا ہے اسی طرح لوگوں کا سامان گاڑیوں سے اتارنا اور لادنے کا وہ مجھے مول دیتے ہیں بس یہی میری مزدوری ہے اور روزگار

" بابے " نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا اس طرف وہ آخر میں جو گھر ہے وہ میرا ہے ۔ ۔ ۔

میں اس گھر کی طرف چل دیا اور کچھ دوری پہ " بابے " کا گھر آگیا اور تھیلے کو گھر کے ایک طرف رکھ دیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

" بابے " نے مجھے پانی پلایا اور بیٹھنے کو کہا ......

" میں بھی تھک گیا تھا تو زمین پر بچھی چٹائی پر بیٹھ گیا "

" بابے " نے پھر اپنا سوال دہرایا .....

اور پوچھا بچے جس دن تمہیں مزدوری نہیں ملتی تو تم کس طرح گزارا کرتے ہو.....

مجھے " بابے " کے سوال نے ہمدرد ہونے کا احساس دلایا تو میں بتانے پر مجبور ہوگیا ۔ ۔ ۔

تو میں بابے کو اپنا حالِ ذندگی بتانا شروع کر دیا ۔ ۔ ۔

بابا جی جس دن مزدوری ملتی ہے میں اس میں سے کچھ روپے چھپا لیتا ہوں اور جس دن مزدوری نہیں ملتی اس دن وہ روپے گھر لے جاتا ہوں اس طرح گزر بسر ہو جاتا ہے شکر ہے اللہ کا ۔ ۔ ۔

" بابے " نے مجھے کہا بچے تم ساتھ کوئی اور کام کیوں نہیں کرتے جس سے تمہاری آمدنی میں اضافہ ہو ۔ ۔ ۔ ؟

بابا جی میں کوئی اور کام نہیں جانتا جو کر سکوں۔ ۔

" بابے " نے میرا حوصلہ بڑایا اور کہا ۔ ۔

میں تمہیں ایک کام دیتا ہوں کیا تم کرنا پسند کرو گے۔ ۔ ۔ ؟

جی بابا جی کیوں نہیں میں مزدوری کرنے کو ہر وقت تیار ہوں

اچھا تو سنو ۔ ۔ ۔ !!!

تم کل سے اپنی مزدوری پر جاؤ پر جب تک تم کو کوئی مزدوری نہیں ملتی اس وقت تک تم شہر کے بازار گلیوں میں سے کاغذ چنا کرو اور اس کو ایک جگہ اکٹھا کرتے رہا کرو اور شام کو گھر آتے وقت ساتھ لے آؤ مجھے پہنچا کر اس کا مول میں تمہیں ساتھ ساتھ دیتا رہوں گا ۔ ۔

جی بابا جی میں کل صبح سے یہ بھی کر لیا کروں گا انشاءاللہ

شاباش ۔ ۔ ۔ !!!!

اچھا بابا جی اب مجھے اجاذت دیں میں گھر جاوں بچے انتظار کر رہے ہوں گے .....

بابے نے مجھے دس روپے دیے میں لاکھ منع کرتا رہا پر بابے نے زور زبردستی دیں دے
اب میں بہت خوش تھا اور گھر گیا اور صبح پہلے سے جلدی شہر آ گیا اور آکر کاغذ جمع کرنا شروع کر دیے اس دن مجھے مزدوری کو کام بھی بہت ذیادہ ملا پر میں نے صبح اور شام کو کچھ وقت میں کاغذ بھی جمع کئے اور شام کو گھر جاتے وقت وہ کاغذ بابے کو دے آیا بابے وہ کاغذ تول کر مجھے پچاس روپے دیے اور کہا بچے کوشش کرنا یہ روپے بچے رہے
میں نے بابے کی بات کو ذہن نشین کیا اور گھر چلا گیا اس طرح میں ہر روز کاغذ جمع کرنے لگا اس کی رقم کو الگ جمع کرتا رہا
ایک دن میں بازار میں کاغذ چن رہا تھا تو بابا جی آئے اور مجھے کہا بچے کاغذ جمع کرنا بند کرو اور یہ بتاو کہ تمہارے پاس اس وقت کتنی رقم ہے
میں نے بابے سے بابا جی جو رقم جمع کی ہے وہ تو گھر کے باہر والی دیوار کے سوراخ میں ہے میں نے کبھی گنتی نہیں کی بابے کہا اچھا یہ کاغذ اٹھاو اور چلو آج کا دن تم میرے ساتھ کام کرنا
میں نے کاغذ کا تھیلا اٹھایا اور بابے کے ساتھ چل دیا
پہلے بابے کے گھر گئے اور پھر بابے نے مجھے وہ رقم لانے کو بھج دیا میں نے رقم لاکر بابے کو دے دی
جب بابے نے وہ رقم گنتی کی تو وہ رقم بابے کے روز دیئے ہوے پیسوں سے ذیادہ تھی بابے نے مجھ سے پوچھا بچے یہ رقم بہت ذیادہ تم نے باقی کے روپے کہا سے لیے تو میں نے بابے کو بتایا کے میں اپنی مزدری سے روز کچھ نہ کچھ روپے اس میں شامل کردیا کرتا تھا اس طرح یہ ذیادہ ہوگے
بابا میری اس بات سے خوش ہوا اور مجھے کہنے لگا مجھے دو لکڑیاں جو بلکل گول اور سیدھی ہوں اور کچھ کیل چاہئے جاوں لے آؤ
میں جلدی سے بازار گیا اور لکڑی کے ٹال سے دو لکڑیاں خرید لی جیسے بابے مجھے کہا تھا اور کیل لیے کر گدھے پر لادھ کر بابے کے گھر پہنچ گیا
بابے اور میں نے اس لکڑیوں کا ایک بیلن بنایا جیسے گنے کا جوس نکالنے کو ہوتا ہے اور اس کو بابے کی تیار کی ہوئی جگہ پر نسب کر دیا
یہ کام ہم مکمل کرنے میں ہمیں چار دن لگ گئے
اور پھر پانچویں دن بابے مجھے کہا اب تم کو مزدوری کی تلاش نہیں کرنی کیوں کہ تم اور میں اب یہیں کام کیا کرے گے
بابے جو کاغد مجھ سے جمع کروانے تھے اس کو ایک تلاب میں پھنک رکھا تھا جو بلکل مٹی کی طرح گھل مل گئے تھے
اس ______ مواد کو ہم نے بیلن میں سے گزار کر پھر سے گتہ کی چار کی شکل دینا شروع کر دیا
یہ کام ہم پورا دن کرتے بابا مواد کو اٹھا کر بیلن میں سے گزارتے میں بیلن کو ہاتھ سے گھماتا اور گتے کی اس چادر کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بنا کر سورچ کی دھوپ پر رکھ دیتے یہ عمل دس دن مسلسل کرنے پر ہمارے پاس گتے کی چادر بہت ساری جمع ہوگی اور پھر ایک دن ہم اس گتے کو بیچنے کے لیے بازار لیکر گے جو بہت ہی اچھی قیمت میں فروخت ہوا
بابے نے وہ رقم لی اور ہم گھر واپس آگے
گھر پہنچ کر بابے نے وہ ساری رقم مجھے دے دی اور کہا بچے تمہارا خود کا کاروبار شروع ہوگیا ہے
اب تم ایک اور شخص کو ساتھ ملا لوں جو محنتی ہو اور مل کر کاغذ جمع کیا کرو پھر اس کا گتہ بنا کر بیچ دیا کرو
بس ایک بات میری یاد رکھنا اس کام میں تمہیں اس وقت نقصان نہیں ہوگا جب تک تمہارا پسینہ اس میں شامل ہے جس دن تم نے اس میں پسینہ ملانا بند کر دیا اس دن تم نقصان اٹھاو گے
اور ایک بات کام چھاؤں میں شروع کرنا اور چھاؤ میں بند کرنا
اور جو رقم ملے اس میں سے کچھ غریب اور مستحق کو ضرور پہنچاتے رہنا
آج سے یہ سب کچھ تمہارا ہے

بابے کا شروع کیا ہوا کام آج جدید دور کی مشین اور اعلی درجہ کا کاروبار بن چکا ہے اسلم کا پورا خاندان یہی کام کرتا ہے بلکے اس کے گاوں کے بہت سارے خاندان اس اس کام میں شامل ہو چکے ہیں
اسلم آج بھی خود محنت کرتا ہے اور بابے کی بنائی ہوئی مشین نشانی اور کہانی سنانے کو سمبھال کر رکھی ہوئے

از_____ایم ابراہیم حسین
۔ خود بیتی والد صاحب کے دوست محمد اسلم کراچی سے
میری ڈائری کا اک ورق

Sent from my LenovoA3300-HV using Tapatalk
ایم ابراہیم حسین
کارکن
کارکن
Posts: 166
Joined: Fri Oct 31, 2014 7:08 pm
جنس:: مرد

Re: میری ڈائری کا اک روق

Post by ایم ابراہیم حسین »

دراصل ہم کبھی خود کو دیکھتے ہی نہیں ۔ ۔!

جو سامنے ہو اس کو دیکھ کر اپنے بارے میں انداذہ کر لیا کرتے ہیں جیسے ہمارے سامنے آئینہ ہو تو اپنا عکس دیکھ کر اندذہ کیا کرتے ہیں ۔ ۔ !!!

اس آئینے کا کیا قصور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !
قصور تو ہماری ہی نظر کا ہوتا ہے جو دیکھ کر محسوس کر کہ بھی جھوٹ بولتی ہے جو ہمیں دیکھنا ہوتا ہے یہ وہی دیکھاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ !
قصور ہماری نظر کا بھی نہیں ہوتا یہ دل کے ہاتھوں مجبور ہوتی ہے دل کو جو دیکھنا ہوتا ہے یہ اس پر مجبور کر دیتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ اصل میں ہم کبھی یہ بات پورے یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ ہم خود کو جانتے ہیں ۔ ۔ ۔
جب خود کو نہیں جان سکے تو دوسروں کہ بارے میں کیا پہچان رکھتے ہونگے ۔ ۔ ۔ ؟
ہمیں صرف وہی اچھا لگتا ہے جس کی ضرورت محسوس ہو اب وہ چاہے کسی کا پیار ہو یا کسی کا ساتھ ہو یہ .......
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ !!!!!
میں دن بھر رذق حلال کمانے کے لیے شہر سے شہر اور بہت دور تک کا سفر کرتا ہوں اور ملتا وہی ہے جو میرا نصیب ہوتا ہے پر پھر بھی میری رذق کی تلاش جاری رہتی ہے جب تک کے آخری سانس کا آنا بھی بند نا ہو جائے ۔ ۔ !
سفر کے دوران سینکڑوں لوگوں سے ملاقات اور حال احوال بھی ہوتا ہے جب کوئی دو لوگ ملتے ہیں تو ہیلو ہائے کے بعد اس کا حال پوچھا جاتا ہے اس سے کبھی کوئی ماضی یہ مستقبل کے بارے نہیں پوچھتا حال پوچھنے والا شخص آج کے جدید دور کے فیشن کو ایک قدم بڑھا کر حال تو پوچھ لیتا ہے پر حال جاننا نہیں چاہتا یہ سوال تو صرف بات کی شروعات کے لیے کیا گیا ہے اور جھوٹی ہمدردی جیتنے کے لیے ہے ۔ ۔
اب سوال سن کر دوسرا شخص مختصر وقت میں مختصر جواب دیتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

ہاں جی ٹھیک ہوں فٹ ہوں وغیرہ وغیرہ

جواب دیتے ہی یہ شخص بھی جھوٹی ہمدردی کا بھر پور استعمال کرتا ہوے سامنے والے سے حال پوچھتا ہے ۔ ۔ ۔
اور اس کا جواب بھی یہی ہوتا ہے جو آج کا فیشن بن بیٹھا اور پھر اپنے مطلب کی گفتگوں اور آخر میں جھوٹی ہمدردی کے ساتھ الگ ہو جاتے ہیں ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !
اور یونہی یہ سلسلا بھاگے چلے جا رہا ہے اور انسان اس کی دوڑ کو پہنچتے پہنچتے رہ جاتا ہے ...... !
دراصل انسان اپنی پہچان ہی کہیں کھو بیٹھا ہے کیونکہ اگر اس کی پہچان ہوتی تو اس کے پہچان والے لوگوں بھی ہوتے اور اگر یہ لوگ ہوتے تو حال پوچھ کر اس پر بتصرہ کرتے اور پھر نیک نصحیت دے کر بات کو نیا موڑ دیتے

مگر افسوس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ دنیا فانی کی دوڑ میں ہم خود کی پہچان بھول گئے ہیں اب کسی سے شکواہ کیا کیا جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔

حال بے حال ہوا اپنا آپ کیا

حال برا حال ہوا اپنا آپ کیا

محسوس ہو یہ نہیں کسی کو

ایسا کیا ہے حال اپنا آپ کیا

شکواہ کب ہے ہمدردی کا ابراہیم

جو بھی کیا حال اپنا آپ کیا

میری ڈائری کا اک موضوع " میرج حال " سے اقتباس
#از_______ایم ابراہیم حسین
میری ڈائری کا اک ورق

Sent from my LenovoA3300-HV using Tapatalk
اضواء
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 40424
Joined: Sun Aug 15, 2010 4:26 am
جنس:: عورت
Location: {الدمام}المملكةالعربيةالسعوديه

Re: میری ڈائری کا اک روق

Post by اضواء »

ماشاء الله ...
بهت خوب ..جاري ركهو اس سلسله كو ;fl;ow;er;
[center]یہ بھی انداز ہمارے ہے تمہیں کیا معلوم
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
ایم ابراہیم حسین
کارکن
کارکن
Posts: 166
Joined: Fri Oct 31, 2014 7:08 pm
جنس:: مرد

Re: میری ڈائری کا اک روق

Post by ایم ابراہیم حسین »

ابھی گھر سے باہر کچھ تازہ ہوا خوری کے لیے نکل ہی رہا تھا کہ ایک طرف سے کندھے پر کسی زور دار شہ کی آمد ہوئی آمد تو ہوئی گرفت اس قدر سخت معلوم ہوئی کہ بخدا ایک بار تو کلمہ جاری ہوگیا کہ آج تو آ گی اپنی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ لاحولا ولا قوة ا ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ارئے بڑے میاں______ نام تو پکار لیا ہوتا
یہاں ہماری سانس رک جانے والی تھی
لیجئے کوئی تیز دھار خنجر یہ پھر یوں کیجئے کہ دو بول بول کر ہی غضب کی ہمدردی کے ساتھ ایک ہاتھ سر پر رکھتے ہوے سینے کہ بلکل بیچ میں وہ خبر اتار دیجئے جس کو آپ جناب لیکر حاضر ہوے ہیں کیوںکہ ایسا ممکن ہی نہیں آپ سمجھانے کا انداز بدل کر گویا فرمایا کریں

لہٰذا ......!!!
آپ جناب اتنی سخت زحمت اپنی جان پر ظلم نہ ڈھایا کریں اب تو عادت ہماری بھی خراب ہوگی ہے جب تک آپ کی تکرار نہ سن لیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ شہر میں امن کی جنگ کہاں تک عروج پکڑ گئ وزیر سے مشیر کی خبریں تو خیر اب محلے کی بڑے چھوٹے سارے اسی خبردار خبریں خبرناک کے انتظار میں رہتے ہیں کہ آج ہَوا میں نمی کا تناسب کتنا ہے آیاکہ بارش میں کس حد تک پانی کے ذرات خون کے چھنٹے غبار صاف شفاف زمین کے سینے میں اترے گا

ارئے میاں ٹھہرو ۔۔۔۔۔۔ !

سماعت کا یہ آلہ بھی کمبخت کان میں ٹھہرتا ہی نہیں میں تمہیں آج کی ایک بیحد کام کی خبر دیتا ہوں یقین مانو تمہیں اس کی خبر ہونا ایسا ہی ہے جیسے کہ رات کے اندھیر میں کسی کو روشن شمع کی ضرورت ہوتی ہے
۔
۔
میری ڈائری کا اک ورق
{ ذندان سے قیدی } سے اقتباس
ازقلم ایم ابراہیم حسین
ایم ابراہیم حسین
کارکن
کارکن
Posts: 166
Joined: Fri Oct 31, 2014 7:08 pm
جنس:: مرد

Re: میری ڈائری کا اک روق

Post by ایم ابراہیم حسین »

کردار کے نام میں بس کچھ حد تک تبدیلی کی ہے
۔
#ایک_اخبار_دو_یار_اور_ایک_کپ_چائے

رومی صاحب کیوں اداس بیٹھے ہو ۔ ۔ !!!
" کہیں نمک سمندر کی نزر تو نہیں ہوگیا " اشفاق طنز کرتے ہوے پاس آ بیٹھا دیجئے دوسرا پنہ اخبار کا کچھ ہم بھی ملک کی سرخیاں گھوم لیے
" پتہ نہیں کل کہاں چھوڑا آج کہاں ملے "
" ویسے کیا کہتے ہو آپ رومی صاحب "
کیا ہوا اشفاق بات تو پوری کرو .؟
" رومی صاحب کل رات قربت دس بجے چار پانچ لونڈے کہیں سے آ رہے تھے اُنھیں کسی نے بندوق کی نوک پہ لوٹ لیا اور لٹنے والوں نے بتایا ہے کہ وہ اکیلا تھا اور ہم پانچ "
میں نے بات کو کاٹتے ہوئے کہا " اشفاق یہ بات مجھے سے پوچھنے والے تھے مجھے تو تمہاری سمجھ نہیں آتی پوچھ مجھ سے رہے ہو خبر خود سنا رہے "
اور میں اس پر ہنس دیا ھاھاھا
میری ہنسی ابھی رکتی کہ
اشفاق پھر سے حیرانکن ہوتے ہوے سر پر ہاتھ رکھتے بولا ۔ ۔ !!!!!!!

" رومی صاحب اب تو بس جانے کا وقت آ گیا بس دعا کرنا "

میں چونک گیا اشفاق اشفاق کہتا اس کے چہرے کو گود سے اٹھا کر کرسی کی کمر سے لگ دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ !
اشفاق _______ ارئے رومی صاحب کیا کرتے ہو سارا بند جھنجھوڑ کر رکھ دیا کیا ہوا ہے آپ کو
" اشفاق مجھے بھلا کیا ہوگا تم نے کہا نا کہ اب جانے کا وقت آ گیا میں سمجھا کے مجھے چھوڑ کر چلے گئے "
" اللہ اللہ کرو رومی صاحب کسی باتیں کرتے ہو "
رومی صاحب آپ بھی کمال کرتے ہو وہ تو میں نے اس لیے کہا یہ خبر پڑھ کر حیران ہوگیا کہ جو کل رات پانچ لونڈو کو ایک اکیلے چور نے لوٹ لیا تھا
دراصل باقی چار اس ایک چور کے ہی دوست تھے سب نے ملکر ہی اس ایک اکیلے کو لوٹ لیا اور وہ بیچارہ سمجھتا رہا کے ہم یار لٹ گئے کیسا زمانہ آگیا ہے

رومی صاحب نے اشفاق سے اخبار لی اور کہا اشفاق تم بہت بھولے ہو آج کی کی نسل یہی کچھ کر رہی ہے اب وہ دوستیاں یاریاں کہاں رہ گئی ہیں کہ ایک کے لیے چائے آئی ہو اور دونوں آدھی آدھی پی لے بلکے آج کل کی نسل تو ایک لیے چائے آئی ہو تو اس کی اچھی خاصی عزت کا ستیاناس کر دیتے ہیں

چلو چائے پی کر آتے ہیں

اشفاق ہنس کر بولا رومی صاحب میرے لیے الگ سے چائے آنی چاہئے کیوں کہ میں نے ہی تو اس نسل کی بنیاد رکھی اور ایک زور دار قہقا لگا کر دونوں یار گھر میں داخل ہوگئے
۔
#یہ_زمانے_کو_کیا_ہوگیا_ہے
ازقلم ایم ابراہیم حسینhttp://cloud.tapatalk.com/s/57a0da0aadf ... .43.12.jpg


Sent from my LenovoA3300-HV using Tapatalk
شمشاد
کارکن
کارکن
Posts: 29
Joined: Mon Mar 10, 2008 9:03 pm

Re: میری ڈائری کا اک روق

Post by شمشاد »

اور بھی شیئر کرین
Post Reply

Return to “باتیں ملاقاتیں”