میری ذاتی ڈائری

اگر آپ کسی سے گپ شپ لڑانا چاہتے ہیں تو یہاں آیئے۔ اپنے دوستوں سے ملاقات کیجئے اور ڈھیروں باتیں کیجئے
muhammad_ijaz
ماہر
Posts: 978
Joined: Fri May 22, 2009 8:59 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: میری ذاتی ڈائری

Post by muhammad_ijaz »

[center]"انسان کو ایک سال سے پرانے گناہوں کے بارے میں نہیں سوچنا چاہئے – اگر اللہ سے معافی مانگی ہے تو اللہ معاف کرنے پر قادر ہیں – اگر بندوں کے حق پورا کرنے میں کوتاہی ہو گئی ہے تو اس انسان سے معافی مانگ لینی چاہئیے جس کے معاملے میں قصور ہو گیا ہے

اسی طرح انسان کو ایک سال سے پرانی محرومی کے بارے میں بھی نہیں سوچنا چاہئیے - کیونکہ قرآن کا حکم ہے کہ اس چیز پر افسوس نہ کریں جو آپ سے چھین جائے یعنی یہ سمجھنا چاہئیے کہ اللہ نے اس نقصان میں ہمارے لئے کوئی بہتری رکھی ہے - اس لئے اس نقصان پر انا لللہ و انا الیہ راجعون پڑھنا چاہئیے - کیونکہ اللہ ہمارے نقصان دنیا اور آخرت میں پورے کرنے پر قادر ہیں

ہاں اپنے اوپر اللہ کی رحمتیں اور اپنی یا کسی کی نیکی جتنا ممکن ہو یاد رکھنا چاہیئے - کیونکہ تیسویں سپارے میں اللہ کا حکم ہے کہ اللہ کی نعمتوں کو بیان کریں "[/center]
muhammad_ijaz
ماہر
Posts: 978
Joined: Fri May 22, 2009 8:59 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: میری ذاتی ڈائری

Post by muhammad_ijaz »

[center]"بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پس اس کے والدین اسے یہودی نصرانی اور مجوسی بنا دیتے ہیں جیسے کہ جانور کہ پورے اعضاء والا جانور پیدا ہوتا ہے کیا تمہیں ان میں کوئی کٹے ہوئے عضو والا جانور معلوم ہوتا ہے پھر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اگر تم چاہو تو آیت (فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا) 30۔ الروم : 30) پڑھ لو (ترجمہ) یکسو ہو کر اپنا رخ اس دین کی سمت میں جما دو ، قائم ہو جاؤ اس فطرت پر جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے۔اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جا سکتی ، یہی بالکل راست اور درست دین ہے ، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں

بہت مکمل ، شاندار ، اہم آیت اور حدیث بیان ہوئی ہے – فطرت انسان کے بچپن سے شروع ہوتی ہے – آئیں اس کی حفاظت کے چند پہلو دیکھیں

مشہور ہے کہ بچے من کے سچے ہوتے ہیں – پھر ان کے والدین ، ان کا ماحول انہیں جھوٹ سکھا دیتا ہے – کوشش کرنی چاہیئے کہ جب ہم بچپن سے گزر کر عملی زندگی میں آئیں تو مجبوری سے زیادہ جھوٹ نہ بولیں – تاکہ ہمارا سچا بچپن قائم رہے

بچے اپنے بہن بھائیوں اور ساتھیوں کے خلاف دل میں بغض نہیں رکھتے – عارضی ناراض ہوتے ہیں پھر راضی ہو کر ایک دوسرے سے کھیلنے لگ جاتے ہیں – بڑے ہو کر بھی ایسا ہی کرنا چاہئیے – ہاں اگر بڑے ہو کر بہن بھائی اور ساتھی ہمارے ساتھہ لڑیں اور ہمارے خلاف دل میں بغض و زہر رکھیں ، تو چونکہ حدیث میں سانپ کے ڈسنے سے بچنے کا حکم آیا ہے ، اس لئے ان سے میل ملاقات کم کر دینا چاہئیے – ہاں سال میں ایک ملاقات ضرور کرنی چاہئیے

بچے پارک جانے کے شوقین ہوتے ہیں – بڑے ہو کر بھی فطرت کے ساتھہ یہ تعلق قائم رہنا چاہئیے

بچے نماز کے شوقین ہوتے ہیں – بڑے ہو کر بھی نماز کی عادت قائم رہنی چاہئیے

بچے ہنستے رہتے ہیں – بڑے ہو کر بھی اپنے لوگوں کے ساتھہ ہنسنا ، مسکرانا چاہئیے

بچے اپنے ساتھیوں کو کھلاتے پلاتے رہتے ہیں – بڑے ہو کر بھی اپنے دین دار ساتھیوں کو کھلانا پلانا چاہئیے – کیونکہ بے دین لوگوں میں لالچ کے چانس زیادہ ہوتے ہیں

بچے کہتے ہیں کہ بڑے ہو کر ڈاکٹر ، انجینئر بنیں گے – اللہ سے یہ امید ہمیشہ قائم رہنی چاہئے کہ اللہ ہمیں ضرور دنیا میں بڑے مقام پر پہنچائیں گے – اللہ سے دنیا ، آخرت دونوں کے بڑے مقام مانگنے چاہئیں

توفیق تو اللہ کے دینے سے ہی ہوتی ہے – اور اللہ اپنے ماننے والے اور نیک عمل کرنے والے لوگوں کو ہی اچھی توفیق دیتے ہیں
"[/center]
muhammad_ijaz
ماہر
Posts: 978
Joined: Fri May 22, 2009 8:59 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: میری ذاتی ڈائری

Post by muhammad_ijaz »

[center]"بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ

قرآن ترجمے کے ساتھہ بھی پڑھنا چاہئیے – اس کے بعد تفسیر کے ساتھہ بھی پڑھنا چاہئیے – اگر انسان پہلے ترجمہ مکمل کر لے – پھر مولانا مودودی کی تفسیر تفہیم القرآن مکمل پڑھ لے – اس کے بعد مشہور تفسیر ابن کثیر مکمل پڑھ لے – تو ان شاء اللہ میرے خیال سے یہ بہت اچھی ترتیب ہے

پہلے صرف قرآن کا ترجمہ مکمل پڑھنے سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کی نظر سے قرآن کے سب مضامین گزر جاتے ہیں – کئی ایسی الجھنیں جو انسان کو تنگ کرتی ہیں وہ حل ہو جاتی ہیں

اس کے بعد مولانا مودودی کی تفہیم القرآن مکمل پڑھنے سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کو قرآن کے مضامین کی سمجھہ آ جاتی ہے – انسان سمجھہ لیتا ہے کہ فلانی آیت کا کیا مطلب ہے اور فلانی آیت کا کیا مطلب ہے – میں جماعت اسلامی کا نمائیندہ نہیں ہوں اور نہ میں مولانا مودودی کا پیروکار ہوں – لیکن مولانا مودودی کی تفہیم القرآن اتنی شاندار اور اہم تفسیر ہے کہ اس کو پڑھنے والا اس کی اہمیت سے انکار نہیں کر سکتا – یہ کم اہمیت تو نہیں ہے کہ آج کے فرقہ پرستی کے دور میں انسان کو قرآن کے مضامین کی سمجھہ آ جائے – جب کہ کئی لوگ پریشان ہیں کہ وہ کون سا مسلک اختیار کریں – مولانا مودودی بھی انسان تھے – ان سے بھی علمی غلطی ہونا ممکن ہے – لیکن کسی کی علمی غلطی کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ اللہ اس انسان کو معاف نہیں کریں گے

اس کے بعد تفسیر ابن کثیر پڑھنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انسان حدیث کی روشنی میں قرآن سمجھہ لیتا ہے – اس تفسیر میں قرآن کی تشریح کے لئے حدیث اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اقوال و افعال کا حوالہ دیا گیا ہے – جس کی وجہ سے انسان کے دل سے آیت کے مطلب کے بارے میں ہر قسم کا شک و شبہ ختم ہو جاتا ہے - جس سے قرآن کی بات انسان کے دل پر پتھر کی لکیر کی طرح جم جاتی ہے – تفسیر ابن کثیر کو اللہ نے یہ عزت دی ہے کہ اس کو سب مسلمان مانتے ہیں اور سب علماء اپنی کتابوں میں اس تفسیر کے حوالے دیتے ہیں

اللہ کی مہربانی سے انٹرنیٹ سے یہ دونوں تفسیریں مفت دستیاب ہیں

دن میں آدھا پون گھنٹہ اس مطالعہ کے لئے مخصوص کیا جا سکتا ہے- اللہ کی رضا کے لئے – اپنے فائدے کے لئے
"[/center]
muhammad_ijaz
ماہر
Posts: 978
Joined: Fri May 22, 2009 8:59 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: میری ذاتی ڈائری

Post by muhammad_ijaz »

[center]"بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ

انسان کئی دفعہ کوئی نیکی کرنے کی نیت کرتا ہے – لیکن کسی پریشانی کی وجہ سےوہ نیکی نہیں کر سکتا – تو اللہ پھر بھی اس کو اس نیکی کا ثواب دے دیتے ہیں – جیسا کہ حدیث میں آیا ہے

----------

انسان کئی دفعہ ایک چھوٹے سفر پر جاتا ہے – اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ وہاں سے اللہ کی کوئی جائز نعمت حاصل کر لے گا – لیکن کسی وجہ سے وہ مطلوبہ نعمت حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے اور کل یا پرسوں دوبارہ آنے کی امید پر واپس آ جاتا ہے – گھر آ کر اللہ اسے کوئی ایسی نعمت دے دیتے ہیں جو آج انسان کے پروگرام میں نہیں ہوتی – تو یہ مالک کی رحمت ہوتی ہے کہ سفر والی امید بھی قائم رہتی ہے اور گھر میں اضافی نعمت بھی موجود ہوتی ہے

----------

بیٹے بیٹیاں سب اللہ کی رحمت ہیں – بیٹی والے والدین کے لئے نبی ﷺ نے بہت خوشخبری بتائی ہے – یعنی بیٹی کی اچھی پرورش اور دیکھہ بھال کرنے پر – یہ تو صرف اسلام ہی ہے جس نے بیٹی کو اتنی عزت دی ہے – بیٹی والوں کو کبھی بھی تنگ دل نہیں ہونا چاہئیے – بلکہ نبی ﷺ کی سنت سمجھہ کر بیٹی کی اچھی پرورش کرنی چاہئیے – نبی ﷺ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے جتنا پیار کرتے تھے وہ احادیث میں موجود ہے – لیکن بچوں کی اسلامی تربیت میں کوئی کمی نہیں کرنی چاہئیے – یہی سبق ہے نبی ﷺ کے اس مشہور فرمان کا کہ اگر ان کی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی چوری کرتیں تو وہ ان کے بھی ہاتھہ کاٹ دیتے – ظاہر ہے کہ نبی ﷺ نے یہ بات صرف دینی معاملات کی اہمیت کی مثال دینے کے لئے بیان فرمائی تھی – ورنہ چوری جیسے گھٹیا کاموں سے ان پاک ہستیوں کا ہرگز کوئی تعلق نہیں تھا

----------

کوئی بڑا نقصان ہو جائے تو ان لللہ و ان الیہ راجعون زیادہ بار پڑھنا چاہئیے – کیونکہ یہی قرآن کا حکم ہے کہ جب کوئی مصیبت ، تکلیف آئے تو ان لللہ و ان الیہ راجعون پڑھیں
"[/center]
muhammad_ijaz
ماہر
Posts: 978
Joined: Fri May 22, 2009 8:59 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: میری ذاتی ڈائری

Post by muhammad_ijaz »

[center]"بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ

دنیا میں جس طرح جرائم اور گناہ ہو رہے ہیں – اس سے شیطان یہ بات انسان کے دل میں ڈالتا ہے کہ اس دنیا کا کوئی مالک ، کوئی والی ، وارث نہیں ہے – اگر اس دنیا کا کوئی مالک ہوتا تو وہ اس دنیا کو یوں جرائم سے نہ بھرنے دیتا – جب کہ یہ بات درست نہیں ہے – کیونکہ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ جب شیطان نے اللہ سے کہا تھا کہ میں تیرے بندوں کو گمراہ کر دوں گا – تو اللہ نے فرمایا تھا کہ جو بھی تیری پیروی کرے گا تو میں تجھہ سے اور ان سے سب سے دوزخ کو بھر دوں گا – اس لئے جو لوگ بھی ہمیں جرائم اور گناہ کرتے نظر آ رہے ہیں ، وہ اپنے دوزخ میں گرنے کا انتظام کر رہے ہیں

اور دوسری بات یہ ہے کہ اللہ نے جن و انس کو پیدا کرنے کا مقصد آزمائش بتایا ہے – جیسا کہ سورہ الملک کی شروع کی آیات میں ہے – اور ہمیں نیکی ، بدی کرنے کا اختیار دیا ہے – اس لئے جو لوگ زمین کو جرائم اور گناہ سے بھر رہے ہیں وہ اللہ کے اسی اختیار کو استعمال کر رہے ہیں - اور اللہ کی اجازت کی وجہ سے اپنی موت یا قیامت تک اس اختیار کو استعمال کرتے رہیں گے

یاد رہے کہ جرم کرنے کا اختیار اللہ کی اجازت ہے ، اللہ کی رضا نہیں ہے – اللہ کی رضا صرف ایمان اور نیک اعمال کے لئے ہوتی ہے – جیسا کہ قرآن میں بار بار ایمان اور نیک اعمال کا حکم دیا گیا ہے

پھر شیطان وسوسہ ڈالتا ہے کہ اللہ تھرڈ پارٹی ہے – اور وہ صرف حالات ، واقعات دیکھتا ہے اور ایمان والوں کی مدد یا مجرموں کی پکڑ نہیں کرتا ہے – جب کہ یہ بات درست نہیں ہے – اللہ تھرڈ پارٹی نہیں ہے بلکہ فرسٹ پارٹی ہے – وہ سب جہانوں کا مالک ہے – اللہ نے ہمیشہ ایمان والوں کی مدد کی ہے – جیسا کہ قرآن میں ہے کہ ایمان والوں کی مدد کرنا اللہ پر فرض ہے – اللہ نے ہمیشہ اپنے نبیوں اور رسولوں سلام اللہ علیہم اجمعین کی مدد کی تھی – اور اپنے آخری نبی ﷺ کی بھی مدد کی اور ان کو غالب کیا – اور کافی عرصے تک مسلمان دنیا پر غالب رہے تھے – آج بھی جو لوگ اسلام پر انفرادی طور پر عمل کر رہے ہیں ، وہ جانتے ہیں کہ اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ، ایمان اور نیک اعمال والے لوگوں پر برستی ہیں

اسی طرح اللہ ہمیشہ اپنے مجرموں کو دنیا میں سزا دیتے رہے ہیں – آج بھی جو لوگ مجرموں کے اندرونی حالات جانتے ہیں ، انہیں پتا ہے کہ مجرم آج بھی اللہ کی پکڑ میں زندگی گزار رہے ہیں - اور موت کے وقت بھی فرشتے مجرموں کے چہروں اور پشتوں کو مارتے ہیں ، جیسا کہ قرآن میں بتایا گیا ہے – اور قیامت کے دن اللہ حق و باطل کے جھگڑے کا آخری فیصلہ کر دیں گے
"[/center]
muhammad_ijaz
ماہر
Posts: 978
Joined: Fri May 22, 2009 8:59 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: میری ذاتی ڈائری

Post by muhammad_ijaz »

[center]"بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ

صلہ رحمی یعنی رشتہ داروں سے نیک سلوک کرنا اسلام کا اہم حکم اور خصوصیت ہے – حدیث میں آیا ہے کہ جب اللہ نے رشتہ داری کو پیدا کیا تھا تو اس سے فرمایا تھا کہ جو تجھے قائم رکھے گا میں اس کے ساتھہ اپنا تعلق قائم رکھوں گا اور جو تجھے توڑے گا میں اس کے ساتھہ اپنا تعلق توڑ لوں گا – آج کل جس طرح اسلام کے دوسرے احکام کو توڑا جا رہا ہے اسی طرح صلہ رحمی کا بھی خیال نہیں رکھا جا رہا

یہ ایک بہت اہم سوال ہے کہ اکثر لوگ صلہ رحمی یعنی رشتے داروں سے نیک سلوک کا خیال کیوں نہیں رکھہ رہے – اس کی ایک وجہ تو لاعلمی ہے یعنی انہیں پتا نہیں ہے کہ رشتے داری کے کیا حق ہیں اور انہیں پورا کرنے کا کیا اجر ہے ، اور انہیں چھوڑنے کی کیا سزا ہے – یہ لاعلمی پسندیدہ چیز نہیں ہے اور اسلام کبھی بھی لاعلمی کی حمایت نہیں کرتا – ایک اور وجہ یہ ہے کہ آپ کے رشتے داروں میں سے کچھہ لوگوں کے پاس زیادہ پیسہ آ جاتا ہے – جس کی وجہ سے ان میں غرور و تکبر آ جاتا ہے - اس وجہ سے وہ رشتہ داروں کو چھوڑ دیتے ہیں – جب کہ قرآن و حدیث میں غرور و تکبر سے منع کیا گیا ہے – ایک اور وجہ آپ کی دین داری بھی ہوتی ہے – اگر آپ دین پر اللہ ، رسول ﷺ کے طریقے کے مطابق چل رہے ہیں ، تو جو رشے دار بے دین یا گمراہی کے رستے پر ہیں وہ آپ سے بغض رکھنے لگ جاتے ہیں

حدیث میں حکم ہے کہ جو رشتے دار آپ کے ساتھہ اچھا سلوک نہیں کرتے ، آپ ان کے ساتھہ بھی اچھا سلوک کریں – لیکن برائی یہاں تک پہنچی ہوئی ہے کہ اگر آپ کسی رشتے دار کے ساتھہ نیک سلوک بھی کرتے ہیں تو اس کے جواب میں اکثر آپ کو برا سلوک دیکھنا پڑتا ہے

چونکہ حدیث کے حکم کی وجہ سے برا سلوک کرنے والے رشتہ داروں سے تعلق مکمل نہیں توڑا جا سکتا – اس لئے ایسے رشتہ داروں سے سال میں ایک ملاقات کرنی ہی کافی ہے – تاکہ ہم قیامت کے دن کہہ سکیں کہ اللہ ہم تو ملاقات کے لئے ان کے پاس سفر کر کے جاتے تھے لیکن یہ لوگ ہم سے ملنے کے لئے سفر نہیں کیا کرتے تھے
"
[/center]
muhammad_ijaz
ماہر
Posts: 978
Joined: Fri May 22, 2009 8:59 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: میری ذاتی ڈائری

Post by muhammad_ijaz »

[center]"بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ

کچھہ رشتہ داروں کے خون سفید ہوتے ہیں – یعنی وہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو رشتہ داری کے حق ادا نہیں کرتے – وہ ایسے دنوں میں آپ سے ملنے آتے ہیں جب انہیں پتا ہوتا ہے کہ آپ کو مالی مسائل درپیش ہیں – وہ زبردستی آپ سے مہمانی کرا کے آپ کی مالی مشکلات میں اضافہ کرتے ہیں – اپنے گھر ہو سکتا ہے وہ خشک روٹی کھاتے ہوں لیکن آپ کے گھر آ کر وہ روغنی نان کھانا پسند کرتے ہیں – حالانکہ حدیث میں میزبان کو تنگی میں ڈالنے سے منع کیا گیا ہے

اللہ کرے آپ نے اپنے گھر میں دینی ماحول بنا رکھا ہو لیکن سفید خون والے رشتے داروں میں دین داری کی کمی ہوتی ہے – ان میں سے کوئی نماز پڑھتا ہے اور کوئی نہیں پڑھتا – کوئی اپنے موبائل پہ گانے لگا کر بیٹھا رہتا ہے – اور آپ کے گھر کی دینی پاکیزگی کا بھی خیال نہیں رکھتا – ہو سکتا ہے آپ کے گھر کی بچیاں بھی نماز ، سپارہ پڑھتی ہوں لیکن آنے والے ہٹے کٹے نوجوان رشتہ دار نماز ، سپارے سے محروم ہوتے ہیں

ایسے رشتہ دار اپنے شہر میں ہو سکتا ہے کبھی پکنک کے لئے نہ نکلتے ہوں لیکن آپ کے شہر میں آ کر وہ لازمی پکنک منانے جاتے ہیں – آپ اپنی مالی تنگی کی وجہ سے پکنک پر نہ جانا چاہتے ہوں گے لیکن وہ لوگ آپ کی مالی تنگی کا کوئی احساس نہیں کریں گے – بلکہ آپ کی مالی تنگی کو انجوائے کریں گے اور آپ کی مالی تنگی کا احساس ان کے لئے باعث سکون ہو گا

ایسے لوگوں کا دل کنجوس ہوتا ہے – مالی طور پر بھی اور اخلاقی طور پر بھی – مالی طور پر اس طرح کہ وہ آپ کے اتنے پیسے خرچ کرانا چاہتے ہوں گے جو وہ واپس جاتے وقت آپ کے بچوں کو دے کر جائیں گے – اور اخلاقی طور پر اس طرح کہ اگر ان کے کسی اثر و رسوخ کی وجہ سے آپ کا کوئی مسئلہ حل ہو سکتا ہو تو وہ اس طرح کی کسی نیکی کا نہیں سوچتے اور نہ کرتے ہیں – اگر آپ کو کوئی مسئلہ درپیش ہو تو وہ اتنی تسلی بھی نہیں دیتے کہ یہی کہہ دیں کہ اللہ آپ کا مسئلہ حل کرے

قطع رحمی یعنی رشتہ داروں سے برے سلوک کرنے والوں کو قرآن نے گناہ گار اور نقصان اٹھانے والے قرار دیا ہے
"
[/center]
muhammad_ijaz
ماہر
Posts: 978
Joined: Fri May 22, 2009 8:59 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: میری ذاتی ڈائری

Post by muhammad_ijaz »

[center]"بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ

مسجد کے کئی خطیب تو اپنی تقریر میں بس وقت ہی پاس کرتے ہیں – ان کی تقریر کا کوئی موضوع ہی نہیں ہوتا – شروع کوئی موضوع کریں گے ، ایک دو فقروں کے بعد ہی بات بدل کر کوئی اور موضوع شروع کر دیں گے – اور ہر دو چار فقروں کے بعد بس اسی طرح کریں گے – حالانکہ اتنے لوگ ان کے سامنے تقریر سننے کے لئے بیٹھے ہوتے ہیں – خطیب کو چاہئیے کہ مکمل تیاری کے ساتھہ تقریر کرے – کیونکہ خطیبوں کا ہمارے معاشرے میں بہت اہم کردار اور جگہ ہے – انہیں چاہئیے کہ اللہ ، رسول ﷺ کی باتیں بغیر ملاوٹ کے لوگوں کو بتائیں – لوگ ان کی بات سنتے ہیں – اگر مسجد کے خطیب اپنا کردار درست ادا کریں تو ہمارے معاشرے میں انقلاب آ سکتا ہے – کیونکہ اتنی زیادہ ماشاء اللہ مسجدیں ہیں اور پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہیں

مسجد کا مسلم معاشرے میں بہت اہم کردار ہوتا تھا – مسلم حکمران مسجد میں بیٹھہ کر ملک اور عوام کے فیصلے کرتے تھے - افسوس کہ اب مسجد کا وہ کردار ختم ہو گیا ہے – اب عوام بھی مسجدوں کو سال بعد روزوں میں ہی بھرتے ہیں – اور ایسے عوام کو ایسے ہی حکمران ملتے ہیں جو مسجدوں کو آباد کرنے والے نہیں ہوتے

مسجد میں سب سے پہلے بوڑھے لوگ آتے ہیں – اس کے بعد نوجوان لوگ آنا شروع ہوتے ہیں – جب کہ پہلے نوجوان لوگوں کو مسجد میں آنے والا ہونا چاہئیے – نبی ﷺ نے ایسے نوجوانوں کی تعریف فرمائی کہ جن کی جوانی اللہ کی عبادت میں گزرتی ہو اور انہیں قیامت کے دن عرش کے سائے کی خوش خبری عطا فرمائی

کئی مسجدوں میں کسی نماز کے بعد درس بھی دیا جاتا ہے – لیکن اکثر لوگ اس درس میں نہیں بیٹھتے – اور یوں نماز پڑھ کر بھاگ جاتے ہیں جیسے وہ بہت بڑے عالم ہیں اور انہیں سب کچھہ پتا ہے – یا جیسے انہیں درس کی ضرورت ہی نہیں ہے – حالانکہ جس درس میں اللہ ، رسول ﷺ کی باتیں بتائی جائیں ، تو ایسی مجلس کی تلاش میں اللہ کے فرشتے زمین میں پھرتے رہتے ہیں اور ایسی مجلس میں شرکت کرتے ہیں – اور جب اللہ کے پاس جاتے ہیں تو اللہ ایسی مجلس والوں کے لئے بڑی پیاری بشارتوں کا اعلان کرتے ہیں - جیسا کہ حدیث میں آیا ہے
"[/center]
muhammad_ijaz
ماہر
Posts: 978
Joined: Fri May 22, 2009 8:59 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: میری ذاتی ڈائری

Post by muhammad_ijaz »

[center]"بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ

کیا آپ جانتے ہیں کہ اگر آپ کو اپنے کسی بہن بھائی یا کسی اور انسان کی بہتری کی بہت فکر ہے – اور آپ چاہتے ہیں کہ اس کو دنیا ، آخرت میں بھلائیاں اور خوشیاں ملیں – تو وہ کیا چیز ہے جو آپ کے اس بہن بھائی یا کسی اور انسان کے اندر ہونی چاہئیے

وہ ہے نماز کی عادت

اگر کسی انسان کے اندر نماز کی عادت ہے تو سمجھیں اس کے پاس سب کچھہ ہے – کیونکہ نماز کے ذریعے اس کا تعلق سب جہانوں کے مالک سے جڑا رہتا ہے – اور اس نماز کی برکت سے اللہ انسان کے سب کام درست کرنے پر قادر ہیں

کسی نمازی آدمی کی برائیاں دیکھہ کر کبھی بھی نماز کو برا نہ سمجھیں یا نماز سے دور ہونے کی کوشش نہ کریں – کیونکہ نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ نماز اس طرح پڑھو جس طرح مجھے پڑھتے دیکھتے ہو – نبی ﷺ کی نماز کا طریقہ حدیث کی کتابوں میں محفوظ ہے – اور یہ حقیقت ہے کہ ہماری قوم کی اکثریت کی نماز نبی ﷺ کی سنت کے مطابق نہیں ہے – اکثر لوگوں کو نماز کی سب دعائیں ہی نہیں آتیں – اور باقی کسر ہمارے امام نکال دیتے ہیں جو ہمیں اتنی تیز نماز پڑھاتے ہیں کہ یہ نماز کی بجائے معاذ اللہ ورزش لگنے لگتی ہے – لیکن جب امام کے ساتھہ فرض نماز پڑھ لیں تو سنت نفل پڑھتے وقت لازمی مسنون دعاؤں کا خیال رکھنا چاہئیے

خود بھی پانچ وقت جماعت سے نماز پڑھیں اور اپنے عزیز بہن بھائیوں کو بھی اس کی تبلیغ کریں
"[/center]
muhammad_ijaz
ماہر
Posts: 978
Joined: Fri May 22, 2009 8:59 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: میری ذاتی ڈائری

Post by muhammad_ijaz »

[center]"بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ

اگر کسی انسان میں دین داری نہیں ہے تو وہ آپ کو کوئی بھی نقصان پہنچا سکتا ہے – یہاں تک کہ قریبی رشتے دار بھی - اسی لئے اسلام میں رشتے داری سے زیادہ دین داری اہم ہے – غزوہ بدر کے بارے میں مشہور ہے کہ کئی مسلمانوں نے اپنے کافر رشتے داروں سے لڑائی کی تھی – یعنی اگر کسی مسلمان کا رشتہ دار کافروں کے گروہ میں شامل تھا تو مسلمان نے اس کافر رشتہ دار سے لڑائی کی تھی – اسلام کا یہ وہ سبق ہے کہ جس کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا بہت ضروری ہے

اخبار میں روزانہ خبریں آتی رہتی ہیں کہ کس طرح قریبی رشتہ دار ایک دوسرے کو نقصان پہنچاتے رہتے ہیں – یہاں تک کہ ماں باپ ، بہن بھائی میں قتل تک بات پہنچ جاتی ہے – سبب کسی بات کا بھی ہو ، جائیداد کا یا کسی اور بات کا جھگڑا – سب کے پیچھے بنیادی وجہ یہی ہوتی ہے کہ ظالم انسان میں دین داری کی کمی ہوتی ہے – دین داری کی کمی نہ ہو تو وہ ایک دوسرے کے حق ادا کریں – انہیں پتا ہو کہ نبی ﷺ نے ماں باپ کی خدمت کر کے جنت نہ لینے والے کے لئے بددعا کی ہے - انہیں پتا ہو کہ چچا باپ کے برابر ہوتا ہے – انہیں پتا ہو کہ خالہ ماں کے برابر ہوتی ہے – انہیں پتا ہو کہ قوم کا ماموں انہی میں سے ہوتا ہے – انہیں پتا ہو کہ بڑا بھائی باپ کے برابر ہوتا ہے

دین داری کی کمی کی وجہ سے ہی ہمسایہ اپنے ہمسائے کو نقصان پہنچاتا ہے – اگر انہیں نبی ﷺ کا فرمان پتا ہو کہ جو اللہ اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہے تو اسے چاہئیے کہ اپنے ہمسائے سے نیک سلوک کرے – یہ فرمان گواہ ہے کہ ہسائے سے نیک سلوک نہ کرنے والے میں ایمان کی کمی ہوتی ہے

دین داری کی کمی کی وجہ سے دوست اپنے دوست کو نقصان پہنچاتا ہے – اسلام میں ویسے بھی صرف دین دار انسان کو ہی اپنا دوست بنانے کا حکم ہے – اس کو حب فی اللہ کا نام دیا جاتا ہے – حدیث میں ایسے لوگوں کے لئے قیامت کے دن عرش کے سائے کی خوش خبری سنائی گئی ہے جو اللہ کے لئے دوستی رکھتے ہیں – یعنی جن کی دوستی کی بنیاد اللہ کا دین ہوتا ہے

دین داری کی کمی کی وجہ سے ہی کاروباری ساتھی اپنے ساتھیوں کو نقصان پہنچاتے ہیں – جیسا کہ قرآن میں ان دو فرشتوں کا واقعہ ہے جو انسانوں کی شکل میں حضرت داؤد علیہ السلام سے اپنے جھگڑے کا فیصلہ کروانے آئے تھے – حضرت داؤد علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ اکثر ساجھی ایک دوسرے پر ظلم کرتے ہیں ، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے

اس لئے خود بھی استطاعت کے مطابق دین داری پر قائم رہیں اور بے دین لوگوں سے بچتے بھی رہیں"[/center]
muhammad_ijaz
ماہر
Posts: 978
Joined: Fri May 22, 2009 8:59 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: میری ذاتی ڈائری

Post by muhammad_ijaz »

[center]"بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ

اللہ سے قرآن و سنت والی سوچوں ، باتوں اور عمل کی توفیق بھی مانگنی چاہئیے اور ان کی کوشش بھی کرنی چاہئیے

اللہ سے شیطانی سوچوں ، باتوں اور عمل سے پناہ بھی مانگنی چاہئیے اور ان سے بچنے کی کوشش بھی کرنی چاہئیے

کیونکہ انسان کی سوچ ہی بات بنتی ہے اور انسان کی سوچ ہی عمل بنتی ہے

کسی انسان کو اللہ توفیق دیتے ہیں اور وہ نوجوانی سے ہی قرآن و سنت کے مطابق سوچتا ، بولتا اور عمل کرتا ہے – شیطان ایسے انسان کو بہکانے کی کوشش کرتا رہتا ہے اور اسے اسی طرح دلائل دیتا رہتا ہے جس طرح ہمارے باپ حضرت آدم علیہ السلام کو دیے تھے اور آخر انہوں نے منع کردہ درخت کا پھل کھا لیا تھا

کبھی شیطان کہتا ہے کہ شرافت کا زمانہ نہیں ہے – کبھی کہتا ہے کہ نیکی کا زمانہ نہیں ہے – حالانکہ نبی ﷺ نے فرمایا تھا کہ میں ایسا دین دے کر بھیجا گیا ہوں کہ جس کی راتیں بھی اس کے دن کی طرح روشن ہیں

کبھی شیطان کہتا ہے کہ نیکی کے رستے پر چلنے والا انسان آج کل تنہا رہتا ہے – جب کہ قرآن نے نمازی لوگوں کو اپنا ساتھی اور دوست بنانے کا حکم دیا ہے - کبھی شیطان کہتا ہے کہ آج کا ماحول اور معاشرہ ٹھیک نہیں ہے – حالانکہ نبی ﷺ نے جس ماحول اور معاشرے میں دعوت دین دی تھی وہ آج سے بہت زیادہ خراب تھا – اسی لئے نبی ﷺ کے لئے جو اجر ہے وہ کسی اور انسان کے لئے نہیں ہے – پھر بھی رحمٰن رحیم مالک نے آج کے مسلمانوں پر وہ بوجھہ نہیں ڈالا جو اس امت کے ابتدائی لوگوں پر ڈالا تھا – جس کو انہوں نے بہترین طریقے سے ادا کیا اور اسی لئے نبی ﷺ نے اپنے ، صحابہ رضوان اللہ علیہم اور تابعین ، تبع تابعین رحمتہ اللہ علیہم کے زمانوں کو بہترین زمانہ قرار دیا – اور قرآن نے اصحاب کہف کی مثال دی جنہوں نے اپنا دین بچانے کے لئے دنیا کو چھوڑ کر غار میں پناہ لی تھی – اور رحمتہ اللعالمین ﷺ نے فتنے کے دور میں مسلمان کو گوشہ نشین ہونے کی اجازت دی اور فرمایا کہ عنقریب مسلمان کا بہترین مال بکریاں ہوں گی جن کو لے کر وہ پہاڑوں میں چلا جائے گا تاکہ اپنے دین کو فتنوں سے بچا لے

اس لئے کوشش کرنی چاہئیے کہ چاہے ساری دنیا اور معاشرہ خراب ہو جائے – لیکن آپ کی ذات اور گھر استطاعت کے مطابق دین داری پر قائم رہے

اور قرآن کے مطابق مدد تو صبر اور نماز سے ہی ہوتی ہے
"[/center]
muhammad_ijaz
ماہر
Posts: 978
Joined: Fri May 22, 2009 8:59 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: میری ذاتی ڈائری

Post by muhammad_ijaz »

[center]"بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ

کسی انسان کا رزق پردیس میں لکھا ہوتا ہے – ملک کے اندر- وہ وہاں اس شہر میں چلا جاتا ہے – پہلے وہاں اکیلا رہتا ہے – پھر اللہ اسے مالی گنجائش دیتے ہیں تو اپنے بیوی بچوں کو بھی وہیں اپنے ساتھہ شفٹ کر لیتا ہے – لیکن سال میں دو تین دفعہ اسے اپنے آبائی شہر کا بھی چکر لگانا پڑتا ہے – خاص کر عید کے موقعوں پر – کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اس کے بچے اپنے خالہ ، چچا وغیرہ رشتہ داروں کے ساتھہ عید کریں تو ان کے اداس ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے – اور صلہ رحمی جو کہ اسلام کا اہم حکم ہے وہ بھی پورا ہوتا رہتا ہے

چونکہ آزمائش کا قانون ہر جگہ پر اللہ نے رکھا ہوا ہے – اس لئے انسان کے ہر معاملے میں آزمائش ہوتی رہتی ہے – اس کا کوئی رشتہ دار اس کو فون بھی نہیں کرتا – کوئی رشتہ دار اس کو فون کرتا ہے لیکن اس کے ساتھہ ذہنی ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے انسان اس کے ساتھہ زیادہ بات نہیں کرتا – لیکن یہ دونوں رشتہ دار کبھی اتنی بات گوارا نہیں کرتے کہ پردیس کا چکر لگا کر اپنے کسی رشتہ دار سے مل آئیں – تاکہ ان کے ذمے جو رشتہ داری کا حق اللہ نے رکھا ہے وہ ادا ہوتا رہے – کچھہ رشتے دار انسان کو فون بھی کرتے ہیں اور کبھی کبھی ملنے بھی آتے ہیں ، لیکن صرف اپنے فائدے کے لئے – صرف اپنے سیر سپاٹے کے لئے – وہ اپنے اثر و رسوخ کو آپ کے فائدے کے لئے استعمال نہیں کرتے – وہ تو اتنے تنگ دل ہوتے ہیں کہ اتنا کہنا بھی گوارا نہیں کرتے کہ اللہ آپ کا مسئلہ حل کر دیں – صرف ایک آدھ رشتے دار ہوتا ہے جو انسان کے ساتھہ مخلص ہوتا ہے – جو انسان کا فائدہ بھی سوچتا ہے اور اس کے کام بھی آتا ہے – جس سے آپ اپنا مسئلہ شئر بھی کر سکتے ہیں اور جو آپ کے مسئلے کے حل کے لئے اللہ سے دعا بھی کرتا ہے - اور ایسا کام آنے والا رشتہ دار کوئی دین دار انسان ہی ہو سکتا ہے – کیونکہ کم دین والے یا بے دین رشتہ دار تو انسان کا کوئی فائدہ نہیں سوچتے

اس طرح کے رویوں کو دیکھہ کر انسان سوچتا ہے کہ اللہ نے جو اس کا رزق پردیس میں اور ایسے رشتہ داروں سے دور رکھا ہے تو درست ہی رکھا ہے – جن رشتہ داروں کو دور سے برداشت کرنا بھی مشکل ہوتا ہے ، ان کے قریب رہ کر گزارہ کرنا تو بہت مشکل اور ناپسندیدہ بات ہے

پھر انسان کے بچے بڑے ہو جاتے ہیں – اللہ اسے پردیس میں ہی بچوں کے دین دار لوگوں میں رشتے دے دیتے ہیں – جو کہ پہلے رشتے داروں جیسے نہیں ہوتے – اس طرح اللہ انسان کی اور اس کے بچوں کی تنہائی اور اداسی دور کر دیتے ہیں

پھر انسان اللہ سے آخرت کی بہتری کی امید لئے ہوئے اور آخرت سے ڈرتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے
بقول قرآن کہ جو کوئی بھی زمین پر ہے سب فانی ہے"
[/center]
muhammad_ijaz
ماہر
Posts: 978
Joined: Fri May 22, 2009 8:59 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: میری ذاتی ڈائری

Post by muhammad_ijaz »

[center]"بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ

کسی انسان کو اللہ شروع عمر سے ہی توفیق دیتے ہیں اور وہ قرآن و سنت کو پسند کرنے لگ جاتا ہے اور ان کے مطابق ہی سوچنے ، بولنے اور عمل کرنے لگتا ہے – پھر اللہ اس کو اس بات کا دنیاوی اجر بھی دیتے ہیں – اس کے رزق میں برکت دیتے ہیں – اس کی اولاد میں برکت دیتے ہیں – جیسے قرآن میں حضرت یوسف علیہ السلام کی مثال دی گئی ہے – اللہ نے انہیں دنیاوی اجر کے طور پر پہلے غلامی سے نجات دے کر عزیز مصر کے گھر جگہ دی – پھر جیل کی آزمائش کے بعد مصر کا وزیر خزانہ بنایا – حضرت یوسف علیہ السلام بڑے انسان تھے – ان کی آزمائشیں بھی بڑی تھیں – پھر ان کے دنیاوی اور اخروی اجر بھی بڑے تھے – ہم تو ان کے سامنے بہت چھوٹے ہیں – ہم پر اللہ نے وہ بوجھہ نہیں ڈالے جو ان پر ڈالے تھے – اس لئے ان کے اجر کے سامنے ہمارے اجر بھی چھوٹے ہیں

پھر ایسے انسان پر کوئی چھوٹی سی آزمائش آتی ہے – وہ انسان پریشان ہو جاتا ہے – اس آزمائش کو سمجھہ نہیں پاتا – اس وقت کو بہترین موقع سمجھہ کر شیطان ایسے انسان پر اپنے وسوسوں کے ساتھہ حملہ کر دیتا ہے – شیطان کہتا ہے کہ تجھے پہلے بھی تیری شرافت کی سزا ملتی رہی ہے – یہ مسئلہ اور پریشانی بھی تیری شرافت کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے – اس شیطانی حملے کے وقت قرآن کی تلاوت کام آتی ہے – اور انسان سوچتا ہے کہ یہ شیطان کا صاف جھوٹ ہے – پچھلی پریشانیوں سے اللہ انسان کو نجات دے چکے ہوتے ہیں – اور پرانے تنگ وقت کے بعد انسان کو آسان وقت دے چکے ہوتے ہیں – جیسا کہ سورہ الم نشرح میں ہے کہ بے شک تنگی کے بعد آسانی ہوتی ہے ، بے شک تنگی کے بعد آسانی ہوتی ہے

پھر شیطان نیا حملہ کرتا ہے کہ یہ شرافت کا زمانہ نہیں ہے – اس وقت حدیث کا علم انسان کے کام آتا ہے کہ زمانے کو برا کہنے سے نبی ﷺ نے منع فرمایا ہے

اور شیطان ہمیشہ انسان کو قرآن و سنت سے روکنے کی کوشش کرتا ہے – لیکن جن لوگوں کے دل میں اللہ نے قرآن و سنت کی عزت اور لذت ڈال دی ہے – ان کے لئے ایسا کرنا بہت مشکل ہوتا ہے – اور پھر جب انسان یہ حدیث پڑھتا ہے کہ انسان کے اعمال کا دارومدار خاتمے پر ہوتا ہے ، یعنی موت کے قریبی وقت کے نیک اعمال انسان کے کام آتے ہیں اور موت کے قریبی وقت کی برائی انسان کو نقصان دیتی ہے ، تو انسان اللہ سے اپنے ایمان کی سلامتی کی دعائیں مانگتا ہے

اے اللہ – آپ ہم میں سے جس کو زندہ رکھیں تو اسلام پر زندہ رکھیں – اور آپ جسے ہم میں سے فوت کریں تو اسے ایمان پر فوت کریں - آمین"[/center]
muhammad_ijaz
ماہر
Posts: 978
Joined: Fri May 22, 2009 8:59 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: میری ذاتی ڈائری

Post by muhammad_ijaz »

[center]"بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ

اللہ کی رضا کی پیروی ہی سب سے بہتر چیز ہے – کیونکہ انسان کے سب سے بڑے خیرخواہ اللہ ہی ہیں – اس کا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے ہمیں انسان بنایا – پھر ہمیں حضرت محمد ﷺ کی امت میں سے پیدا کیا – اس نے قرآن و سنت کو ہماری رہنمائی کا ذریعہ بنایا – جو کہ اس کا سب سے بڑا احسان ہے – جیسا کہ قرآن میں ہے کہ بے شک اللہ نے مومنوں پر احسان کیا جو انہی میں سے رسول ﷺ کو مبعوث فرمایا جو

نمبر ایک - انہیں اللہ کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے ہیں

(اللہ کی آیتیں پڑھنا یعنی تلاوت قرآن کرنا انتہائی اہم چیز ہے - جن لوگوں کا زندگی میں کسی مشکل وقت سے واسطہ پڑا ہے وہ جانتے ہیں کہ جب انسان زندگی کے کسی موڑ پر پھنس جاتا ہے ، اسے سمجھہ میں نہیں آتا کہ وہ کیا کرے اور کیا نہ کرے ، اس وقت قرآن پاک کی ترجمے کے ساتھہ تلاوت انسان کو اس مشکل وقت سے نکالتی ہے اور انسان کی رہنمائی کرتی ہے)

نمبر دو - انہیں کتاب کی تعلیم دیتے ہیں

(کتاب یعنی قرآن کو معجزہ کہا جاتا ہے جو نبی ﷺ کو اللہ نے عطا فرمایا – قرآن کا یہ چیلنج آج بھی قائم ہے کہ کوئی اس جیسی دس آیات بھی نہیں بنا سکتا – کیونکہ قرآن نے جو انقلاب برپا کیا تھا ، وہ انقلاب کوئی اور کتاب نہیں لا سکتی)

نمبر تین - انہیں حکمت سکھاتے ہیں

(نبی ﷺ کی حدیث اور سنت کو حکمت کہا جاتا ہے – حکمت اتنی اہم چیز ہے کہ قرآن میں ہے کہ جس کو حکمت ملی تو اس کو خیر کثیر مل گئی – نبی ﷺ کی ساری زندگی حکمت و دانش کے واقعات سے بھری ہوئی ہے – لیکن آج مسلمانوں کی اکثریت حکمت و دانش سے دور ہے)

نمبر چار - انہیں پاک کرتے ہیں

(نبی ﷺ نے عرب کے بگڑے ہوئے معاشرے کو جس طرح پاکیزگی سکھائی تھی ، وہ تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہے – دنیا کی کوئی قوم دن میں پانچ دفعہ منہ نہیں دھوتی – صرف نمازی مسلمان وضو کی برکت سے دن میں پانچ دفعہ منہ دھوتے ہیں ، جو کہ ظاہری پاکیزگی بھی ہے – قرآن و سنت پر چلنے والوں کی سوچ پاک ہوتی ہے ، ان کی باتیں پاک ہوتی ہیں ، ان کے کام پاک ہوتے ہیں)

نبی ﷺ کی یہ چار خصوصیات جو قرآن میں کئی جگہ بیان کی گئی ہیں ، بہت زیادہ اہم ہیں اور ان سے استفادہ کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے"
[/center]
muhammad_ijaz
ماہر
Posts: 978
Joined: Fri May 22, 2009 8:59 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: میری ذاتی ڈائری

Post by muhammad_ijaz »

[center]"بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ


اللہ سے لغو یعنی فضول سوچوں ، باتوں اور کاموں سے پناہ مانگیں – کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ انسان کے اسلام کی خوبی ہے کہ وہ فضول چیزوں کو چھوڑ دے

اللہ سے شیطانی سوچوں ، باتوں اور کاموں سے پناہ مانگیں کیونکہ قرآن نے شیطان کو انسان کا کھلا دشمن قرار دیا ہے
----------
یہ بھی اللہ کی رحمت ہے کہ انسان کو اس کی موت کے وقت کا نہیں بتایا ہے – اگر انسان کو اپنی موت کا وقت پتا ہو تو وہ دنیاوی زندگی کے آرام کو بھول جائے – جیسے میرے ایک رشتے دار عین جوانی میں اس وقت فوت ہو گئے جب کہ وہ اپنے لئے نیا گھر تیار کر رہے تھے – اگر انہیں پتا ہوتا کہ وہ اس گھر کو نامکمل چھوڑ کر فوت ہو جائیں گے تو وہ گھر کی تعمیر کو چھوڑ کر اپنی موت کی پریشانی میں لگ جاتے
----------
جب دینی مدرسے والے بڑے بڑے اشتہار سڑک پر لگا دیتے ہیں کہ قربانی کی کھالیں ہمارے مدرسے کے مستحق طلباء کو دیں تو مدرسے کے طلباء کی عزت نفس ختم ہو جاتی ہے – وہ سوچتے ہیں کہ کیا وہ بھکاری ہیں کہ ان کے لئے لوگوں سے صدقہ خیرات مانگا جا رہا ہے – سب مسلک والے لوگ یہی کر رہے ہیں - لوگوں کے صدقہ خیرات سے پرورش پانے والے طلباء اس امت کی رہنمائی نہیں کر سکتے – کیونکہ ان کی تربیت لیڈر شپ کے لئے کی ہی نہیں گئی – بلکہ ان کی صدقہ خیرات مانگنے کی تربیت کی گئی ہے – اکثریت کی بات کر رہا ہوں ورنہ ایسے لوگ بھی ہیں جن کو اللہ نے خیرات مانگنے سے بچایا ہوا ہے – جو نبی ﷺ کی اس بات پر عمل کرتے ہیں کہ اوپر والا ہاتھہ نیچے والے ہاتھہ سے بہتر ہے
----------
جب اللہ آپ کو کوئی نعمت دیتے ہیں اور آپ قرآن کے حکم کے مطابق مشورہ اور خوب تحقیق کر کے کوئی چیز خریدتے ہیں مثال کے طور پر موبائل فون یا گاڑی – تو شیطان انسان سے کہتا ہے کہ ان لوگوں کی طرف دیکھو جن کے پاس تم سے مہنگے موبائل فون اور تم سے مہنگی گاڑی ہے – اس سے شیطان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ آپ کو اللہ نے جو نعمت دی ہے وہ آپ کو کم تر لگے – اور آپ حسرت اور احساس کمتری کا شکار ہو جائیں جس سے آپ اللہ کا زیادہ شکر ادا نہ کر سکیں – اور آپ ان لوگوں سے حسد کرنے لگ جائیں جن کے پاس آپ سے زیادہ مہنگے موبائل فون اور گاڑی ہے – اس موقع پر نبی ﷺ کی حدیث کا علم آپ کے کام آتا ہے کہ دنیا کے معاملے میں ان لوگوں کی طرف دیکھو جو آپ سے نیچے ہیں اور دین کے معاملے میں ان لوگوں کی طرف دیکھو جو آپ سے اوپر ہیں
----------[/center]
muhammad_ijaz
ماہر
Posts: 978
Joined: Fri May 22, 2009 8:59 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: میری ذاتی ڈائری

Post by muhammad_ijaz »

[center]"بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ


جب کوئی انسان قرآن و سنت کے مطابق اپنی استطاعت کے مطابق زندگی گزارتا ہے – وہ اس بات کی پرواہ نہیں کرتا کہ اس کا معاشرہ اسلامی ہے یا نہیں – وہ اس بات کی پرواہ نہیں کرتا کہ اس کے ماں باپ ، اس کے بہن بھائی ، اس کے رشتے دار ، اس کے دوست اس رستے پر اس کا ساتھہ دیتے ہیں یا نہیں – تو اللہ ایسے انسان کی قدر کرتے ہیں اور اس کو اجر دیتے وقت یہ نہیں دیکھتے کہ اس کو کتنا بے حساب اجر دیتے ہیں – لیکن انسان کو سارا اجر دنیا میں نہیں مانگنا چاہئیے بلکہ زیادہ اجر آخرت کے لئے بچا کر رکھنا چاہئیے – کیونکہ نبی ﷺ نے دعا فرمائی تھی کہ اے اللہ آل محمد ﷺ کا رزق بقدر کفایت کر دے – یعنی اتنا رزق کہ جس سے انسان دنیا میں محتاجی سے بچ کر اور اپنی ضرورتیں پوری کر کے زندگی گزار سکے
----------
بد تمیز ماں باپ کے بچے بھی بدتمیز ہوتے ہیں – یعنی جو انسان اپنے ماں باپ کا ادب نہیں کرتا تو اس کے بچے بھی اس کا ادب و احترام نہیں کرتے
----------
کچھہ لوگوں کو اللہ نے دنیا میں بہت مال دیا ہوتا ہے – گاڑی ، جائیداد ، بینک بیلنس – لیکن ان کے دل کنجوس ہوتے ہیں اور غنی نہیں ہوتے – (اور اللہ ، رسول ﷺ سے زیادہ سچی بات کسی کی نہیں ہو سکتی – نبی ﷺ نے فرمایا کہ غنا مال کے زیادہ ہونے کا نام نہیں ہے بلکہ اصل غنا دل کا غنی ہونا ہے –) تو ایسے لوگوں کو اللہ کھل کر خرچ کرنے کی توفیق نہیں دیتے – اس کا ثبوت اس وقت مل جاتا ہے جب وہ چند لوگوں کی دعوت کرتے ہیں – اور کھانے میں معمولی سی چیز پیش کر دیتے ہیں – اس طرح ان کے مال میں کوئی برکت بھی نظر نہیں آتی – کیونکہ لوگ وہ معمولی سی چیز کھا کر جلدی سے چلے جاتے ہیں
----------[/center]
muhammad_ijaz
ماہر
Posts: 978
Joined: Fri May 22, 2009 8:59 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: میری ذاتی ڈائری

Post by muhammad_ijaz »

[center]"بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ

ربنا اتنا فی الدنیا حسنہ و فی الاخرہ حسنہ و قنا عذاب النار – یہ دعا دین کی بہت اہم دعا ہے – یعنی مالک ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے آخرت میں بھی بھلائی دے اور آگ کے عذاب سے بچا – قرآن نے بھی اس دعا کی تعریف کی ہے اور حدیث میں بھی یہ دعا سکھائی گئی ہے – آج کی ڈائری کا موضوع یہ ہے کہ اگر آج کے دور میں دنیا میں بھلائی نہ ملے تو اس کے کیا نقصانات ہیں

نمبر ایک – سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ انسان کے دینی معاملات متاثر ہوتے ہیں – اگر آپ نے ہفتے میں دو یا تین دن ، ایک دو گھنٹے مسجد کے لئے مخصوص کئے ہوتے ہیں تو دنیاوی بھلائی کی کمی کی وجہ سے آپ کے لئے مسجد کا شیڈول پورا کرنا مشکل ہوجاتا ہے – اگر آپ نے اپنے شوق سے دو تین سپارے یاد کئے ہوتے ہیں تو دنیاوی بھلائی کی کمی کی وجہ سے ان یاد کئے ہوئے سپاروں کو دہرانا مشکل ہو جاتا ہے – اگر آپ قرآن و سنت کے مطابق سوچتے ، بولتے اور عمل کرتے ہیں تو دنیاوی بھلائی کی کمی کی وجہ سے آپ کے لئے اس چیز پر ہمیشہ قائم رہنا مشکل ہو جاتا ہے – آپ اللہ کے بارے میں نیک گمان رکھنا چاہتے ہیں ، جیسا کہ اللہ ، رسول ﷺ کا حکم ہے لیکن دنیاوی بھلائی کی کمی کی وجہ سے اللہ کے بارے میں نیک گمان رکھنا مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ شیطان اللہ کے بارے میں برے گمان انسان کے دل میں ڈالتا ہے – یہاں تک کہ کئی دفعہ کفریہ باتیں بھی انسان کے دل میں ڈالتا ہے جو کہ شیطان کا اصل مشن ہے - اور دنیاوی بھلائی کی کمی کی وجہ سے انسان شیطان کے بہکاوے میں آ جاتا ہے

نمبر دو – دنیاوی بھلائی کی کمی کی وجہ سے انسان کو اپنی اولاد کی درست تربیت کرنے میں مشکل آتی ہے – اولاد کو بہتر تعلیمی اداروں میں تعلیم دلانا مشکل ہوتا ہے – اولاد کے لئے بہتر دینی ماحول مہیا کرنا مشکل ہوتا ہے

نمبر تین - دنیاوی بھلائی کی کمی کی وجہ سے صلہ رحمی یعنی رشتہ داری کے حق ادا کرنے مشکل ہو جاتے ہیں – جب کہ اللہ کی رحمت لینے کے لئے صلہ رحمی بہت ضروری چیز ہے – کئی دفعہ رشتہ دار دوسرے شہروں میں رہتے ہیں – ان سے سال میں ایک دفعہ ملاقات کرنے کے لئے مالی گنجائش بہت ضروری چیز ہے

نمبرچار - دنیاوی بھلائی کی کمی کی وجہ سے انسان کے دوستوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے – انسان خود بھی کسی کو دوست بنانے میں جھجکتا ہے اور دوسرے لوگ بھی انسان کے قریب آنے سے رکتے ہیں – جس سے دین کا حب فی اللہ جیسا اہم حکم پورا ہونے سے رہ جاتا ہے

یاد رہے کہ دنیاوی بھلائی صرف دعا سے کبھی بھی نہیں ملتی – بلکہ اس کے لئے قرآن و سنت کی حدود میں رہ کر کوشش بھی کرنی پڑتی ہے - جیسا کہ سورہ الجمعہ میں حکم ہے کہ جب جمعہ کی نماز پڑھ لو تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو – اور قرآن میں دوسری جگہ ہے کہ اگر کوئی پانی کو بلائے کہ اس کے منہ تک پہنچ جائے تو پانی کبھی بھی انسان کے منہ تک نہیں پہنچ سکتا – اور نبی ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم اللہ پر توکل (بھروسہ) کرو جیسا کہ اس پر توکل کرنے کا حق ہے تو تمھیں اس طرح رزق ملے جس طرح پرندوں کو رزق ملتا ہے – صبح خالی پیٹ گھر سے نکلتے ہیں اور شام کو بھرے پیٹ واپس آتے ہیں یعنی بغیر پریشانی اور فکر کے انہیں رزق ملتا ہے – جب کہ گھونسلے سے نکل کر جانا بہرحال ان کے لئے بھی ضروری ہوتا ہے

اور آخرت کی بھلائی بھی ضروری ہے – کیونکہ آخرت کی بھلائی کے بغیر دنیا کی بھلائی کا کوئی فائدہ نہیں ہے

اللہ دونوں بھلائیاں عطا فرمائیں - آمین"[/center]
muhammad_ijaz
ماہر
Posts: 978
Joined: Fri May 22, 2009 8:59 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: میری ذاتی ڈائری

Post by muhammad_ijaz »

[center]"بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ

کئی دفعہ انسان کو خریداری کے لئے بازار جانا پڑتا ہے – کوئی مہنگی چیز خریدنے کے لئے – تو وہاں بے ایمان اور ایماندار ہر قسم کے دکان دار ہوتے ہیں – کوشش کرنی چاہئیے کہ جس دکان دار کے چہرے پر بے ایمان لکھا ہو اس سے خریداری نہ کریں – ہو سکتا ہے آپ حیران ہوں کہ کسی کے چہرے پر تو نہیں لکھا ہوتا کہ وہ بے ایمان ہے – لیکن جن لوگوں کو بازار میں خریداری سے واسطہ پڑا ہے وہ جانتے ہیں کہ کئی دکان داروں کے چہرے اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ وہ بے ایمان اور دھوکے باز انسان ہیں – ہو سکتا ہے کہ بے ایمان اور دھوکے باز انسان آپ کو باقی دکان داروں سے ہزار ، پانچ سو روپے سستی چیز دے رہا ہو لیکن اس چیز میں ایسے نقص بعد میں نکلیں گے کہ آپ اس خریداری پر پچھتانے لگ جائیں گے - اور ایسا انسان چیز بیچنے کے دوران بداخلاقی ، بدتمیزی بھی کرتا ہے – اس لئے اس کی بجائے کسی اور دکان سے چیز لے لیں ، چاہے آپ کو ہزار پانچ سو روپے زیادہ دینے پڑیں

ایسے دکان دار اللہ سے نہیں ڈرتے اور دھوکے سے ناقص چیز کو مہنگا بیچ لیتے ہیں – ہو سکتا ہے کہ بعد میں مارکیٹ میں آگ لگ جائے ، یا کوئی ہڑتال وغیرہ ہو جائے – اور ان کی اکثر کمائی ضائع ہو جائے یا کئی دن کمائی ہی نہ ہو – جیسا کہ اکثر مارکیٹوں میں ہوتا رہتا ہے - لیکن یہ ظالم اللہ کی پکڑ برداشت کر جائیں گے لیکن گاہک کو دھوکہ دینے سے باز نہیں آئیں گے

اور کئی دکان دار تو پیسے کے پجاری ہوتے ہیں – آپ انہیں اپنی جتنی مرضی مجبوری بتا دیں وہ ایک روپیہ بھی کم نہیں کرتے

اور اگر کسی بے ایمان اور دھوکے باز دکان دار نے سنت رسول ﷺ یعنی داڑھی رکھی ہوئی ہو تو یہ ظالم اس سنت کو بدنام کرانے کا باعث بھی بنتے ہیں – کیونکہ جس گاہک کے ساتھہ یہ دھوکہ کرتا ہے وہ سوچتا ہے کہ داڑھی رکھہ کر دکان دار دھوکہ دے رہا ہے

تیسویں سپارے میں لکھا ہوا ہے کہ ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لئے خرابی ہے – جو جب لوگوں سے لیتے ہیں تو پورا لیتے ہیں اور جب ان کو ناپ تول کر دیتے ہیں تو کمی کرتے ہیں

تجارت تو نبی ﷺ کا مبارک پیشہ تھا – صحابہ رضوان اللہ علیہم نے اس مبارک پیشے کے ذریعے دنیا میں اسلام کو پھیلایا تھا – لیکن آج مسلمان تاجروں کی اکثریت اس پیشے کے ذریعے اسلام کو بدنام کرانے میں لگی ہوئی ہے

اللہ پناہ میں رکھیں - آمین[/center]
muhammad_ijaz
ماہر
Posts: 978
Joined: Fri May 22, 2009 8:59 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: میری ذاتی ڈائری

Post by muhammad_ijaz »

[center]"بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ

اللہ ساری دنیا کو رزق دیتے ہیں – اس کا کوئی ذریعہ بھی اللہ ہی بناتے ہیں – آپ بھی اللہ سے امید لگاتے ہیں کہ وہ کسی ذریعے سے آپ کو ضرورت کا رزق دیں گے – آپ ایک سال انتظار کرتے ہیں کہ اللہ آپ کو اس ذریعے سے جو آپ نے اختیار کیا ہوتا ہے آپ کی ضرورت کا رزق دے دیں – اور اگر اللہ آپ کے حق میں بہتر سمجھتے ہیں تو وہ آپ کے اختیار کردہ ذریعے سے آپ کی ضرورت کا رزق دے دیتے ہیں – لیکن اگر اللہ کی مرضی نہیں ہوتی کہ وہ آپ کو آپ کے اختیار کردہ ذریعے سے ضرورت کا رزق دیں تو پھر صبر کرنا چاہئیے اور ان لللہ و ان الیہ راجعون پڑھنا چاہئیے – جیسا کہ قرآن کا حکم ہے- اور اسی رزق پر گزارہ کرنا چاہئیے جو اللہ آپ کو تھوڑا تھوڑا کر کے دے رہے ہیں – اور اللہ سے آخرت میں اس رزق کی محرومی دور کرنے کی امید رکھنی چاہئیے جو آپ کو درپیش ہے
----------
اللہ کے ماننے والوں کا تکبر سے کوئی تعلق نہیں ہے - تکبر تو اللہ کا حق ہے – مخلوق میں تکبر کرنا تو شیطان کا کام ہے – جب اللہ نے شیطان کو سجدے کا حکم دیا تو اس نے تکبر کیا – اور کہا کہ اللہ آپ نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا ہے – جیسا کہ قرآن میں کئی جگہ یہ واقعہ بیان کیا گیا ہے – اور نبی ﷺ نے فرمایا کہ جو انسان عاجزی اختیار کرتا ہے اللہ اس کو بلند کرتا ہے
----------
اللہ کے ماننے والوں کا دنیا کے معاملے میں حسد سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے – ہاں رشک کی اجازت نبی ﷺ نے دو باتوں میں دی ہے - ایک قرآن پڑھنے والے سے اور دوسرا اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے والے سے
----------
کئی دنوں سے مسجد کے امام صاحب نماز کے بعد درس ہی نہیں دے رہے – انہیں درس دینے سے دلچسپی ہی نہیں ہے – حالانکہ لوگ ان کے درس کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں – اللہ نے جو علم امام صاحب کو دیا ہے وہ لوگوں تک پہنچانا ان کی ذمہ داری ہے – کتنی اہم چیز سے غفلت برتی جا رہی ہے – درس نہ دینا بھی تو علم چھپانے میں ہی آتا ہے – اور قرآن نے اللہ کی نازل کردہ باتیں چھپانے سے منع کیا ہوا ہے
----------[/center]
muhammad_ijaz
ماہر
Posts: 978
Joined: Fri May 22, 2009 8:59 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: میری ذاتی ڈائری

Post by muhammad_ijaz »

[center]"بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ

پارک میں جائیں تو عجیب منظر ہوتا ہے – پارک میں آنے والے بچوں کے ساتھہ اگر باپ ہو تو ماں نہیں ہوتی اور اگر ماں ہو تو باپ نہیں ہوتا – اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر گھروں سے دین اسلام نکل چکا ہے – اس لئے میاں بیوی کے آپس کے نیک سلوک کم ہو چکے ہیں – اور لڑائی زیادہ ہو چکی ہے – کیونکہ اکثر میاں بیوی قرآن کی اس آیت پر عمل نہیں کرتے کہ میاں بیوی کو آپس میں سیدھی اور درست بات کرنی چاہئیے کیونکہ شیطان میاں بیوی میں لڑائی ڈالنا چاہتا ہے
----------
کئی مولانا حضرات نے دو تین مسجدیں بنائی ہوتی ہیں – جب کہ حالت یہ ہوتی ہے کہ ان سے ایک مسجد کا انتظام بھی درست نہیں چلایا جاتا
----------
یہ ایمان رکھنا چاہئیے کہ جس طرح اللہ نے قرآن کی حفاظت کی ہے اسی طرح اللہ نے سنت اور حدیث کی بھی حفاظت کی ہے – کیونکہ ایک بھی عبادت ایسی نہیں ہے جس کا طریقہ قرآن میں مکمل طور پر لکھا ہو – نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ – ان سب عبادتوں کے مکمل طریقے ہمیں سنت نبی ﷺ کے ذریعے ہی پتہ چلے ہیں
----------
ایک بے ایمان آدمی سے غلطی سے ایک چیز خریدی تھی – کئی دنوں سے اس چیز کے نقص برداشت کرنے پڑ رہے ہیں – اللہ کی پناہ ہے کہ آئیندہ کسی بے ایمان آدمی سے کوئی چیز خریدوں
----------
قرآن کے ماننے والے کسی نعمت کے ملنے پر اترانے اور فخر جتانے والے نہیں ہوتے کیونکہ قرآن نے کسی نعمت کے ملنے پر اترانے اور فخر جتانے سے منع فرمایا ہے
----------
ہر کام میں ، ہر معاملے میں اللہ اور رسول ﷺ کا فیصلہ ہی حتمی ہوتا ہے – جیسا کہ قرآن نے حکم دیا ہے کہ اگر تم میں کوئی اختلاف ہو جائے تو اللہ اور رسول ﷺ کی طرف رجوع کرو – اور اللہ اور رسول ﷺ کے فیصلے جاننے کا ذریعہ قرآن و حدیث و سنت ہی ہیں
----------
"
[/center]
Post Reply

Return to “باتیں ملاقاتیں”