
علامہ جون ایلیا (14 دسمبر، 1937ء – 8 نومبر، 2002ء) برصغیر میں نمایاں حیثیت رکھنے والے پاکستانی شاعر، فلسفی، سوانح نگار اور عالم تھے۔ وہ اپنے انوکھے انداز تحریر کی وجہ سے سراہے جاتے تھے۔ وہ معروف صحافی رئیس امروہوی اور فلسفی سید محمد تقی کے بھائی، اور مشہور کالم نگار زاہدہ حنا کے سابق خاوند تھے۔ جون ایلیا کو عربی، انگریزی، فارسی، سنسکرت اور عبرانی میں اعلی مہارت حاصل تھی۔
[center]

نمونہ کلام:
[center]تم میرا دکھ بانٹ رہی ہو اور میں دل میں شرمندہ ہوں
اپنے جھوٹے دکھ سے تم کوکب تک دکھ پہنچاؤں گا
تم تو وفا میں سرگرداں ہو شوق میں رقصاں رہتی ہو
مجھ کو زوالِ شوق کا غم ہے میں پاگل ہو جاؤں گا
جیت کے مجھ کو خوش مت ہونا میں تو اک پچھتاوا ہوں
کھوؤں گا ، کڑھتا رہوں گا ، پاؤں گا ، پچھتاؤں گا
عہدِ رفاقت ٹھیک ہے لیکن مجھ کو ایسا لگتا ہے
تم میرے ساتھ رہو گی میں تنہا رہ جاؤں گا
شام کہ اکثر بیٹھے بیٹھے دل کچھ ڈوبنے لگتا ہے
تم مجھ کو اتنا نہ چاہوں میں شاید مر جاؤں گا
عشق کسی منزل میں آ کر اتنا بھی بے فکر نہ رہو
اب بستر پر لیٹوں گا میں لیٹتے ہی سو جاؤں گا[/center]
[center]

[center]سرکار! اب جنوں کی ہے سرکار کچھ سُنا
ہیں بند سارے شہر کے بازار کچھ سُنا
شہر قلندراں کا ہوا ہے عجیب طور
سب ہیں جہاں پناہ سے بیزار کچھ سُنا
مصروف کوئی کاتبِ غیبی ہے روز و شب
کیا ہے بھلا نوشتۂ دیوار کچھ سُنا
آثار اب یہ ہیں کہ گریبان شاہ سے
الجھیں گے ہاتھ برسرِ دربار کچھ سُنا
اہل ستم سے معرکہ آرا ہے اک ہجوم
جس کو نہیں ملا کوئی سردار کچھ سُنا
خونیں دِلان مرحلہ امتحاں نے آج
کیا تمکنت دکھائی سرِ وار کچھ سُنا
کیا لوگ تھے کہ رنگ بچھاتے چلے گئے
رفتار تھی کہ خون کی رفتار کچھ سُنا[/center]
[center]

[center]شہر کا کیا حال ہے پوچھو خبر
آسماں کیوں لال ہے پوچھو خبر
اب کے سینہ اس بدن افگار کا
کس بدن کی ڈھال ہے پوچھو خبر
کیوں ہے آخر اس گلی میں اژدہام
کون پُر احوال ہے پوچھو خبر
راہ میں اس شہسوار ناز کی
کس کا دل پامال ہے پوچھو خبر
یہ جو سناٹا ہے سارے شہر میں
کیا نیا جنجال ہے پوچھو خبر[/center]
[center]

[center]ٹھیک ہے خود کو ہم بدلتے ہیں
شکریہ مشورت کا چلتے ہیں
ہو رہا ہوں میں کس طرح برباد
دیکھنے والے ہاتھ ملتے ہیں
کیا تکلف کریںیہ کہنے میں
جو بھی خوش ہے ہم اس سے جلتے ہیں
ہے اُسے دُور کا سفر درپیش
ہم سنبھالے نہیں سنبھلتے ہیں
تم بنو رنگ،تم بنو خوش بُو
ہم تو اپنے سخن میں ڈھلتے ہیں
ہے عجب فیصلے کا صحرا بھی
چل نہ پڑیے تو پاؤں جلتے ہیں[/center]
[center]

[center]کون سُود و زیاں کی دنیا میں
دردِ غربت کا ساتھ دیتا ہے
جب مقابل ہوں عشق اور دولت
حسن دولت کا ساتھ دیتا ہے
ہے فصلیں اُٹھا رہا مجھ میں
جانے یہ کون آ رہا مجھ میں
جون مجھ کو جلا وطن کر کے
وہ میرے بِن بھلا رہا مجھ میں
مجھ سے اس کو رہی تلاش، اُمید
سو بہت دن چھپا رہا مجھ میں
تھا قیمت، سکوت کا آشوب
حشر سا اک بپا رہا مجھ میں
پسِ پردہ کوئی نہ تھا پھر بھی
ایک پردہ کھنچا رہا مجھ میں
مجھ میں آ کے گِرا تھا ایک زخمی
جانے کب تک پڑا رہا مجھ میں
اتنا خالی تھا اندروں میرا
کچھ دنوں تو خدا رہا مجھ میں[/center]
[center]

[center]ہے فصیلیں اٹھا رہا مجھ میں
جانے یہ کون آ رہا مجھ میں
جون مجھ کو جلا وطن کر کے
وہ مرے بِن بھلا رہا مجھ میں
مجھ سے اُس کو رہی تلاشِ امید
سو بہت دن چھپا رہا مجھ میں
تھا قیامت سکوت کا آشوب
حشر سا اک بپا رہا مجھ میں
پسِ پردہ کوئی نہ تھا پھر بھی
ایک پردہ کھِنچا رہا مجھ میں
مجھ میں آ کے گرا تھا اک زخمی
جانے کب تک پڑا رہا مجھ میں
اتنا خالی تھا اندروں میرا
کچھ دنوں تو خدا رہا مجھ میں[/center]
[center]

تمہارا فیصلہ جاناں مجھے بے حد پسند آیا
پسند آنا ہی تھا جاناں
ہمیں اپنے سے اتنی دور تک جانا ہی تھا جاناں
بجا ہے خانماں سوز آرزوؤں ، تیرہ امّیدوں،
سراسر خوں شدہ خوابوں ، نوازش گر سرابوں،
ہاں سرابوں کی قَسم یک سر بجا ہے
اب ہمارا جان و دل کے جاوداں ، دل جان رشتے کو
اور اس کی زخم خوردہ یاد تک تو بے نیازانہ
بھُلا دینا ہی اچھا ہے
وہ سرمایا ، وہ دل سے بے بہا تر جاں کا سرمایا
گنوا دینا ہی اچھا ہے
زیانِ جاودانی کے گلہ افروز داغوں کو
بجھا دینا ہی اچھا ہے
تمہارا فیصلہ جاناں! مجھے بےحد پسند آیا۔ ۔ ۔
[center]

تم نے مجھ کو لکھا ہے، میرے خط جلا دیجے
مجھ کو فکر رہتی ہے آپ انہیں گنوا دیجے
آپ کا کوئی ساتھی دیکھ لے تو کیا ہو گا
دیکھیے میں کہتی ہوں یہ بہت بُرا ہو گا
O
میں بھی کچھ کہوں تم سے اے مری فروزینہ
زشکِ سروِ سیمینا
اے بہ نازُکی مینا
اے بہ جلوہ آئینہ
میں تمہارے ہر خط کو لوحِ دل سمجھتا ہوں
لوحِ دل جلا دوں کیا
سطر سطر ہے ان کی، کہکشاں خیالوں کی
کہکشاں لُٹا دوں کیا
جو بھی حرف ہے ان کا ، نقشِ جانِ شیریں ہے
نقشِ جاں مٹا دوں کیا
ان کا جو بھی نقطہ ہے، ہے سوادِ بینائی
میں انہیں گنوا دوں کیا
لوحِ دل جلا دوں کیا
کہکشاں لُٹا دوں کیا
نقشِ جاں مٹا دوں کیا
O
مجھ کو ایسے خط لکھ کر اپنی سوچ میں شاید
جرم کر گئی ہو تم
اور خیال آنے پر اس سے ڈر گئی ہو تم
جُرم کے تصور میں گر یہ خط لکھے تم نے
پھر تو میری رائے میں جُرم ہی کئے تم نے
اے مری فروزینہ!
دل کی جانِ زرّینا!
رنگ رنگ رنگینا!
بات جو ہے وہ کیا ہے
تم مجھے بتاؤ تو ۔۔۔۔۔
میں تمہیں نہیں سمجھا
تم سمجھ میں آؤ تو
جُرم کیوں کیے تم نے
خط ہی کیوں لکھے تم نے
[center]

[center]بیمار پڑوں تو پوچھیو مت
دل خون کروں تو پوچھیو مت
میں شدتِ غم سے حال اپنا
کہہ بھی نہ سکوں تو پوچھیو مت
ڈر ہے مجھے جنون نہ ہو جائے
ہو جائے جنوں تو پوچھیو مت
میں شدتِ غم سے عاجز آ کر
ہنسنے لگوں تو پوچھیو مت
آتے ہی تمھارے پاس اگر میں
جانے بھی لگوں تو پوچھیو مت[/center]
[center]

[center]کہاں ہے سمتِ گماں وہ جہانِ جاں پرور
کہ جس کی شش جہتی کا فسونِ چشم کشا
دلوں میں پھیلتا ہے منزلوں میں پھیلتا ہے
جہاں سخن ہے سماعت ، نظر ہی منظر ہے
جہاں حروف لبوں سے کلام کرتے ہیں
جہاں وجود کے معنی خرام کرتے ہیں[/center]
[center]

مجھ سے پہلے کے دن
اب بہت یاد آنے لگے ہیں تمہیں
خواب و تعبیر کے گم شدہ سلسلے
بار بار اب ستانے لگے ہیں تمہیں
دکھ جو پہنچے تھے تم سے کسی کو کبھی
دیر تک اب جگانے لگے ہیں تمہیں
اب بہت یاد آنے لگے ہیں تمہیں
اپنے وہ عہد و پیماں جو مجھ سے نہ تھے
کیا تمہیں مجھ سے اب کچھ بھی کہنا نہیں؟
[center]
