معروف لکھاری بانو قدسیہ اور اشفاق احمد کی زندگی کی داستان با

ملکی اور غیر ملکی شخصیات کا تعارف اور اردونامہ کے ان کے ساتھ کیئے گئے انٹرویو پڑھنے کے لئے یہاں تشریف لائیں
Post Reply
میاں محمد اشفاق
منتظم سوشل میڈیا
منتظم سوشل میڈیا
Posts: 6107
Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: السعودیہ عربیہ
Contact:

معروف لکھاری بانو قدسیہ اور اشفاق احمد کی زندگی کی داستان با

Post by میاں محمد اشفاق »

بانو قدسیہ کی کہانی انکی اپنی زبانی
امید ہے آپ سب دوستوں کو پسند آئے گی دعاووں میں یاد رکھئے گا . میاں محمد اشفاق

Image

میرے آباؤ اجداد کا تعلق مشرقی پنجاب کے مشہور علاقے فیروزپور سے تھا۔ میں 28 نومبر 1928 کو فیروز پور میں پیدا ہوئیں۔ میرے والد بدالزمان چٹھہ ایک گورنمنٹ فارم میں ڈائریکٹر تھے 31 برس کی عمر میں میرے والد محترم وفات پا گئے تھے اس وقت میری والدہ ذاکرہ کی عمر 27 برس تھیں میر ایک بھائی پرویزچٹھہ تھا جن کو سب پیار سے ریزی کہتے تھے۔ ان کا اب انتقال ہو چکا ہے۔ ہماری زمینیں وغیرہ تھیں لیکن میرے والد کے انتقال کے بعد لوگوں نے میری والدہ سے زمینیں چھین لیں تھیں۔ میری ماں نے ان حالات میں ہمت نہ ہاری اور ہم دونوں بہن بھائیوں کی پرورش اچھے طریقے سے کرنے کیلئے بڑی سخت محنت کی۔ میری والدہ ہم دونوں بہن بھائیوں کو لے کر فیروزپور سے گورداس پور شفٹ ہو گئیں۔1936 میں میری والدہ دھرم مسالہ شفٹ ہو گئیں تھیں۔ میرا بچپن بڑا کرب میں گزرا۔ بچپن میں مجھے لکھنا پڑھنا بالکل بھی نہیں آتا تھا میں تو یہ سمجھتی تھی کہ شاید میں زندگی بھر کبھی لکھ پڑھ نہیں سکوں گی۔ میں نے 6 برس کی عمر میں اللہ کے حضور پہلا سجدہ کیا تھا باقاعدہ نماز پڑھی تھی پہلا روزہ 11 برس کی عمر میں رکھا تھا پھر باقاعدگی سے روزے رکھنا شروع کر دیئے تھے۔ مشرقی پنجاب کے مشہور علاقے دھرم مسالہ میں ہماری رہائش تھی ان دنوں میری والدہ ایجوکیشن کے شعبے کے ساتھ وابستہ تھیں۔ ان کی بڑی خواہش تھی کہ میں اپنی بیٹی اور بیٹے کو اچھی سے اچھی تعلیم دلاؤ ں اس خواہش کی تکمیل کیلئے انہوں نے مجھے دھرم مسالہ کے ایک سکول میں داخل کرا دیا۔ میرا سکول گھر سے تقریباً ڈھائی میل کے فاصلے پر تھا۔ میں پیدل سکول جایاکرتی تھی۔ سکول جاتے ہوئے راستے میں زندگی کے بارے میں سنجیدگی سے سوچتی تھی۔ روز یوں ہی سوچتے سوچتے ایک دن اچانک میں نے ایک کہانی جس کاعنوان ’’فاطمہ‘‘ رکھا وہ لکھ ڈالی، جس کو بعد میں ’’صبح کے تارے‘‘ کے نام سے پاکستان ٹیلی ویژن پر فلمایا بھی گیا۔ اس کے بعد پھر کہانیاں لکھنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ گورداسپور میں ہمارا گھر اُس سڑک پر واقع تھا جو پتن کی طرف جاتی تھی۔ اس گھر کا کالا پھاٹک عین سڑک پر کھلتا۔ پھر بائیں جانب چھوٹا سا کچن گارڈن تھا جس میں پودینہ، دھنیا، گاجریں، کھیرے اور دو چار بوٹے بیریوں کے نظر آتے۔ دوسری طرف ایک لیٹرین اور اُجاڑ صورت جگہ تھی جس کی دیکھ ریکھ کیلئے کسی کے پاس وقت نہ تھا۔ دونوں باغیچوں میں لمبا راستہ آگے چل کر ایک ڈیوڑھی میں کھلتا جس کے آگے پھر پھاٹک تھا اور اس کے دائیں بائیں دو کمرے تھے۔ ایک کمرہ تو ملازموں کے لیے مختص تھا اور دائیں جانب مہمان خانہ تصور کیا جاتا۔ اس کے بعد ایک کھلا صحن تھا جس میں بائیں ہاتھ باورچی خانہ، جس میں ہمارا خانساماں چراغ دین کام کرتا تھا۔ باورچی خانے اور صحن کے عین سامنے تین بڑے کشادہ کمرے غسلخانوں سمیت بنے تھے۔ ایک میں میری والدہ اور میں رہتے تھے اور دوسرے کمرے میں میرا بھائی ریزی رہا کرتا تھا۔ لاہور میں جس روز بی میتھس کے اے کورس کا پرچہ تھا کنیئرڈ کالج کے پچھواڑے آگ لگ گئی۔ ممتحن اعلیٰ نے ساری لڑکیوں سے پرچے اکٹھے کیے۔ ہمیں ایف سی کالج پہنچایا اور وہیں ہم کنیئرڈ کی لڑکیوں نے باقی پرچے دیئے۔ امتحان دے کر میں اور ریزی افراتفری میں گورداسپور پہنچے۔ امی انسپکٹرس آف سکولز تھیں، لیکن حالات کے پیش نظر انہوں نے کچھ دیر کے لیے دورے منسوخ کر دیئے تھے۔ گورداسپور ہندوستان کا حصہ بن گیا۔ ہندو اکثریت کو کشمیر تک راہداری مل گئی۔ گورداسپور کی مسلم آباد ی جان بچاتی گروہ در گروہ پتن کی طرف جانے لگی۔ میرے بھائی کے دل میں پاکستان کے تصور سے عملی محبت تھی۔ ایک روز اُس نے باہر جانے کے لیے باہر کا گیٹ کھولا تو چند بے آسرا غریب لوگوں کو ننگی تلواروں سے قتل کرنے کے عزم میں چند سکھ ٹوٹ پڑے۔ ریزی نے پھاٹک کھول کر ان چند نفوس کو اندر دھکیلا اور گیٹ لاک کر دیا۔ ریزی کو یہ عملی مدد اُس وقت بھی جاری رہی جب ہم عافیت کے ساتھ لاہور پہنچ چکے تھے۔ وہ قافلوں کی مدد کرنے کیلئے بسوں پر آیا کرتا۔ جو کچھ اُس سے بن پڑتی کرتا۔ اُس وقت جب سب لوگ جان بچانے کی فکر میں تھے یوں جان ہتھیلی پر رکھ کر قافلوں کے ساتھ آنے جانے کی رسم وفا میں نے صرف ریزی میں دیکھی۔ وہ اسی طرح جان چھڑکنے والوں میں شمار ہوا کرتا تھا۔ گورداسپور اب ہمارا گھر ایک طرح سے رفیوجی کیمپ بن گیا۔ ان لوگوں میں ایک زینب تھی جو پٹیالہ کے کسی تحصیلدار کی بیوی تھی اور جو بہت دیر میں کئی برس ہمارے گھر کھانا پکانے پر مامور رہی۔ اُس کے ساتھ اُس کا چھوٹا سا بیٹا لالو تھا اور جب ہم -24 ایس کینال میں رہتے تھے تو یہی لالو میرے ساتھ کالج جایا کرتا تھا۔ شاید ہم پتن والے گھر سے نکلنے کا نہ سوچتے اگر اایک واقعہ نہ ہو جاتا۔ ہمارے گھر سے عین محلق بائیں جانب ایک کھلی سی گراؤنڈ اور آرمی افسروں کی چند بیرکیں تھیں۔ یہاں اُن دنوں رونق تھی۔ پریڈ کی آواز بھی آتی تھی اور بگل بھی بجا کرتاتھا۔ ایک روز چراغ لمبا سا چہرہ لے کر میری والدہ کے پاس آیا ’’بی بی! ایک بات ہے۔۔۔ اب یہاں رہنا ٹھیک نہیں۔ آپ بوریا بستر سمیٹیں اور لاہور چلیں۔‘‘’’لیکن وجہ۔۔۔‘‘ ’’وجہ یہ ہے جی۔۔۔‘‘ اُس نے رازداری سے اِدھر اُدھر نظریں ڈرائیں۔ ’’میں نے اپنے کانوں سے سنا ہے جی۔ ساتھ والے فوجی افسر بات کر رہے تھے۔‘‘ ’’کیا بات کر رہے تھے فوجی افسر؟‘‘ ’’وہ جی کیسے عرض کروں وہ کہہ رہے تھے کہ چھوٹی بی بی کو اغوا کر کے بیرکوں میں لے جائیں گے۔‘‘ وہ تو یہ کہہ کر چلا گیا، لیکن امی سٹ پٹا گئیں۔ پاکستان آنے کا فیصلہ آناً فاناً ہو گیا۔ جب محافظ ہی لومڑی صفت ہو ں تو حفاظت کیا معنی۔۔۔ کو نوائے کبھی کا جا چکا تھا۔امی نے اپنا تمام اثر و رسوخ لگا کر ایک ٹرک لیا۔ اس میں وہ چند رفیوجی چڑھائے جو ہمارے گھر میں مقیم تھے۔ مجھے ایک رضائی میں لپیٹ کر ڈرائیور کے پیچھے والی روک کے ساتھ کھڑا کردیا۔ حکم تھا کہ کسی قیمت پر کبھی رضائی سے باہر سر نکال کر جھانکنا نہیں ہے۔ میرے بھائی کے پاس دھر مسالہ کی ایک ڈیزی گن تھی، جس میں وہ پرندے پھڑکایا کرتا تھا۔ اسی گن کو تو اُس نے ’’جھاکے‘‘ کے طور پر تھوڑا سا چھت سے نکال کر سارا سفر کسی فوجی کی سی مستعدی سے طے کیا۔ہم پر قاتلانہ حملہ ہوا جس میں ہمارے ساتھ ہجرت کرکے پاکستان آنے والے کچھ لوگ قتل ہو گئے لیکن اللہ نے ہمیں محفوظ رکھا۔ دو چار مرتبہ ٹرک کو راسے میں روکا گیا لیکن عافیت گزری اور ہم بالآخر یونیورسٹی کیمپس پہنچے۔ یہاں یونیورسٹی بند تھی۔ ہم ن یونیورسٹی کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر روٹی کے ساتھ کریلوں کا اچار کھایا جو چراغ کی عقلمندی سے ساتھ چلا آیا تھا۔ لاہور شہر ہمارے لیے اجنبی تھا اس لیے ہماری والدہ نے اپنی بہن فیروزہ خالہ کے گھر کو تلاش کیا۔ وہ لٹے پٹے لاہو کی مین فیروز پور روڈ پر رہتی تھیں۔ یہ گھر مسز گیلانی کا تھا جو سکول میں پوٹا ماچھا (خالہ فیروزہ) کے نیچے پڑھاتی تھیں۔ ہم ان کے گھر پہنچے۔ کچھ ہی دن گزرے تھے کہ میری والدہ کو لیڈی میکلیگن کالج کی پرنسپل بنا دیا گیا۔ یہ کالج اساتذہ تیار کرنے کی درسگاہ تھی۔ یہاں جے وی اور بی ٹی کی سندیں حاصل کر کے لڑکیاں پڑھانے کے قابل ہو جاتی تھیں۔ اس کے ساتھ ہی انڈر ٹریننگ ٹیچرز کے عملی کام کے لیے ایک باقاعدہ سکول بھی تھا، جس میں دسویں تک جماعتیں تھیں۔ ایک اور اضافی کام یہاں یہ جاری ہوا کہ سکول میں مہاجر، لاوراث چھوٹے بچوں کا کیمپ بھی کھول دیا گیا۔ یہاں بچوں کو مالی، طبی امداد ینے کے بعد ان کے وارثین کی تلاش کی جاتی یا پھر بچوں کے آرزو مند والدین کے حوالے کر دیا جاتا۔ کالج سے ملحق پرنسپل لاج تھا۔ کالج کا احاطہ ختم ہوتے ہی ایک بڑی پختہ دیوار تھی، جس میں ایک دروازہ کالج اور پرنسپل لاج کے درمیان کھلتا تھا۔ اس دروازے کو صرف پرنسپل لاج کی طرف سے زنجیری کنڈی لگ سکتی تھی۔ پرنسپل وِلا دو حصوں پر مشتمل تھا۔ ایک حصے میں پرنسپل اور دوسرے حصے میں ہیڈ مسٹریس رہا کرتی تھیں۔ قیام پاکستان کے دوران امریکن پرنسپل مس رائس واپس چلی گئیں اور ہیڈ مسٹریس بھی غائب ہو گئیں۔اب پورا پرنسل ولا ہمارے قبضہ قدرت میں تھا۔ میرے بھائی اُن دو کمروں میں منتقل ہو گئے، جو ہیڈ مسٹریس کے لیے مختص تھا، لیکن وہ ان کو استعمال نہ کرتے تھے۔ ایک چھوٹا کمرہ جس کا دروازہ برآمدے میں تھا، اسے گودام بنا لیا گیا۔ ریزی بھائی ہمارے ساتھ ہی کھاتے پیتے اور سوتے تھے۔ لمبے سے برآمدے کے پیچھے تین بڑے کمرے تھے۔ دائیں طرف پہلا کمرہ ڈائننگ روم، پھر ڈرائنگ روم، آخر میں بیڈروم۔ اس کے ساتھ ڈریسنگ روم اور غسل خانے کے علاوہ ایک گودام سے مشابہہ ایک اور کمرہ تھا، جس میں غیر ضروری چیزیں پڑی رہتیں۔ ہمارا زیادہ وقت برآمدے میں گزرتا تھاہمارے یہاں کالج کی پروفیسر، لڑکیوں کے والدین اور لواحقین، فسادات میں بچھڑے ہوئے ملاقاتی آتے رہتے۔ برآمدے کو آپ ایک طرح کا Visitors روم کہہ لیجئے۔ یہاں پاکستان کے حالیہ مسائل، سرکاری افسران کی مشکلات اور عوام کی بے چارگی، سیاست کے الجھاؤ، وسائل کی کمی اور نہ جانے کیا کچھ زیر بحث آتا۔ ابھی امن کی وہ شکل پیدا نہ ہوئی تھی، جہاں پہنچ کر لوگ گھروں کی زیبائش فرد کے لباس اور بچوں کی تعلیم کے پیچھے دیوانہ وار مسابقت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ابھی دولت کی پوجا سے لوگ قریب قریب ناآشنا تھے۔ میری والدہ کو کالج کی مشغولیات مصروف رکھتیں اور وہ زیادہ وقت اپنے دفتر اور سٹاف روم میں گزارتیں۔ میرے بھائی ریزی ابھی تک اپنے سوشل ورک میں مصروف تھے۔ وہ کبھی امرتسر سے مہاجروں کے کونوائے لاتے۔ کبھی جان ہتھیلی پر رکھ کر جالندھر اور لدھیانے کی طرف سے آنے والی لاوارت سی بسوں کے ساتھ ہوتے۔ ریزی بھائی نے کبھی ان سفروں میں اپنے لیے کوئی انتظام نہی کیا تھا۔ حتیٰ کہ کبھی کبھی وہ سارا دن کے بھوکے پیاسے گھر پہنچتے۔ اُن کے ساتھ مہاجروں کی کئی کہانیاں ہوتی تھیں، لیکن میری والدہ کے پاس ان کو سننے کا وقت نہ تھا۔ میں ویسے ہی کھلنڈی طبیعت کی مالک تھی۔ جب تک مسئلہ میرے جبڑے میں گھونسے مار کر مجھے متوجہ نہ کرے میں پریشان نہیں ہوتی۔ مجھے بھی ریزی کی کہانیوں سے کوئی سروکار نہ تھا۔ مجھے اپنا دل لگانے کیلئے پروفیسران میں بڑا درست راستہ مل گیا تھا۔ کالج کی جانب پختہ دیوار میں بنے ہوئے دروازے کو میں کھولتی اور کالج کے اوقات کے بعد ہاتھ میں بیڈمنٹن ریکٹ لے کر کالج میں چلی جاتی۔ عین پرنسپل ولا سے ملحق بیڈمنٹن کے کورٹس تھے۔ یہاں عموماً میرے ساتھ کوئی نہ کوئی کھیلنے پر آمادہ مل جاتا۔ پرنسپل کے دفتر اور پی اے کے کمرے سے ملحقہ دو کمرے سٹاف کی رہائش گاہ تھے۔ یہاں میں رات کا کھانا کھا کر چلی جاتی اور یہ پروفیسران کچھ مجھے پرنسپل کی بیٹی سمجھ کر اور کچھ وقت کئی کی خاطر میری دوستی کا دم بھرتی تھیں۔ ان میں سب سے پیش پیش جمیلہ ظفر تھیں۔ یہ میری ہم عمر، مزاج اور ہم مشغلہ ساتھی بن گئیں۔ جمیلہ کا مزاج ٹھنڈا میٹھا تھا۔ ان کا خاندان بھی مہاجر تھا۔ بہن بھائی سب راولپنڈی میں تھے۔رات گئے تک ہم باتیں کرتے ناچنے گانے کا شوق پالتے۔ اُن دنوں مجھے گانے کا اس قدر شوق تھا کہ آپی ملک نے میرا نام ’’کوئل‘‘ رکھ دیا تھا جو وقت کے ساتھ ساتھ صرف ’’کو‘‘ میں بدل گیا۔ جمیلہ ظفر کی شادی کچھ عرصہ بعد ڈاکٹرزیدی سے ہوگئی جو ایک بہت بڑے ہارٹ اسپیشلسٹ تھے۔ بدقسمتی سے زندگی نے وفا نہ کی اور جمیلہ بیوہ ہو گئیں۔۔۔! لیکن یہ بہت بعد کی باتیں ہیں۔ تب ہماری دوستی میں تیز چشمے کا سا بہاؤ تھا۔ اسی جوش کے تحت ہم نے کالج کے ہال میں ایک ناچ کو مرتب کیا جس میں میں نے زندگی کا رول کیا اور جمیلہ نے موت کا روپ دھارا۔ اس ٹیبلو نما ناچ میں یہ دکھانے کی کوشش کی گئی تھی کہ زندگی چاہے کیسی ہی کیوں نہ اترائے، کد کڑے مارے بالآخر موت اُسے سر کر لیتی ہے۔ جب کالج میں ڈرامہ ہوا تو ہمیشہ کی طرح میں نے ڈرامہ ڈائریکٹ کیا اور اسی میں یہ ناچ زندگی اور موت کے نام سے دکھایا گیا۔ جمیلہ سے میرا رابطہ ساری زندگی رہا۔ گو ہم دونوں رہین غم روزگار رہے لیکن ایک دوسرے کو طاق نسیاں میں رکھ کو بھولے بھی نہیں۔ دوسری دلآویز شخصیت اقبال ملک تھیں، جنہیں ہم سب آپی ملک کہتے تھے۔ یہ وائس پرنسپل تھیں اور عمر میں ہم سے بڑی تھیں۔ بڑی شفیق، سادہ طبیعت اور کام کر خاتون تھیں۔ وہ خود تو میرے اور ٹوٹو کے مشاغل میں حصہ نہ لیتیں، لیکن بڑی گرم جوشی سے تالیاں بجانے والوں میں شامل رہتیں۔ آپی ملک نے ساری عمر شادی نہ کی۔ پہلے وہ لیڈی میکلیگن کالج میں پڑھاتی تھیں۔ پھر ملتان میں گورنمنٹ کالج کی پرنسپل بن گئیں جہاں اُن دنوں میری والدہ انسپکٹر آف سکولز تھیں۔ ملتان میں والدہ نے زمینوں کے چکر میں پھنس کر استعفیٰ دینے کی کوشش کی تو آپی ملک وہ واحد رکاوٹ بن گئیں جنہوں نے انہیں استعفیٰ دینے نہیں دیا۔ امی کا ارادہ لینڈ لارڈ بننے کا تھا۔ وہ برج جوزا کی پیدائش تھیں۔ یہ عموماً بہت خیال پرست ہوتے ہوئے تو ام بچوں کی صورت ہمیشہ تضاد اور دوئی کا شکاررہتے ہیں۔ آپی ملک کے پاس ایک طرح سے امی کا گھر ہی بن گیا تھا۔ وہ زمینوں سے لوٹتیں تو آپی کے پاس ٹھہرتیں۔۔۔ دورے سے آتیں تو اپنے گھر میں قیام کرنے کے بجائے سیدھا آپی ملک کے پاس چلی جاتیں۔اس وقت یہ سان و گمان میں بھی نہ تھا کہ آپی ملک ملتان چلی جائیں گی۔ ابھی تو وہ وائس پرنسپل تھیں۔ ہمارے میں جمیلہ، آپی ملک کے علاوہ یہاں ایک معتبر پروفیسر امینہ ملک تھیں۔ دراز قد، گوری چٹی کشمیری خاتون، جن کی شادی بعد میں ادیب شفیق الرحمن سے ہوئی۔ اللہ نے انہیں بڑے خوبصورت دو بیٹے عطا کیے جن میں سے ایک بیٹے کا نیک انجام نہ ہوا اور اس کی خودکشی کے بعد شفیق الرحمن بھی زندہ نہ رہ سکے۔۔۔ لیکن ابھی یہ بکھیڑے قبضہ قدرت سے منظر عام تک نہ آئے تھے۔ امینہ آپا بیڈ منٹن سے لے کر گانا بجانا، پارٹی، ڈراموں میں شمولیت اور گپ بازی کی شوقین تھیں۔ ایک بار جب سکول میں مغل اعظم کا ڈرامہ سٹیج کرنے کی تیاریاں ہو رہی تھیں تو انہیں شہزادہ سلیم بنانے کی تجویز ہوئی۔ میرے ساتھ خصوصی رعایت ہوا کرتی تھیں اس لیے مجھے نور جہاں کا رول دیا گیا۔ افسوس چند ریہر سلوں کے بعد یہ ڈرامہ پتہ نہیں کیوں بغیر سٹیج کیے ڈراپ سین کو پہنچ گیا، لیکن عجیب بات تھی کہ ہمارا گروپ ملال آشنا نہیں تھا۔ جو ہو گیا وہ بھی ٹھیک، جو نہ ہو سکا وہ بھی قابل قبول۔اس گروپ میں ایک شخصیت انور کی بھی تھی۔ انور آرٹ کی پروفیسر تھیں اور ان کے والد سے میری والدہ کی جان پہچان تھی۔ انور رشید کے والد ملتان کے ڈی سی تھے اور ان ہی نے سب سے پہلے میرے بھائی کو اس کی خدمات کے عوض سات مربعے سرکاری زمین کے الاٹ کیے تھے اور پھر میری والدہ ہی مربعوں کی وجہ سے نناوے کے چکر میں پھنس گئی تھیں اور انہوں نے پورے تیس مربعے الاٹ کرا لیے تھے۔ لیکن ابھی انور صرف سویٹی تھی اور گروپ میں چینی کی طرح حلول کیے ہوئے تھی۔ وہ نہ بیڈمنٹن کھیلتی تھی نہ ناچتی گاتی تھی۔ اسے اپنی بہنوں کی طرح ڈراموں میں شرکت کا شوق بھی نہ تھا۔ پھر بھی کوئی محفل اس کے بغیر مکمل نہ تھی۔ یہ باتیں بیان کرنے سے فقط یہ بتانا مقصود ہے کہ میں کیسی بے فکری کی زندگی بسر کر رہی تھی۔ اس کا اندازہ آپ لگا سکتے ہیں لیکن میری والدہ یقیناًمیرے لیے پریشان تھیں۔ جسے میں خوش وقتی سمجھ رہی تھی اسے وہ تعطل سے تعبیر کر رہی تھیں۔۔۔ ایک روز ہمارے گھر زبیدہ آپا آگئیں۔ غالباً وہ لاہور کے ڈی سی کی بیگم تھیں اور امی سے کسی تقریب میں ملی ہوں گی۔ لمبے برآمدے میں آپا زبیدہ بیٹھی چائے پی رہی تھیں۔ وہ لاوارث بچوں کے سروے کرنے آئی تھیں۔ اس وقت میں کالج کی طرف سے ریکٹ لے کر وارد ہوئی۔ شاید میں لان میں بنے ہوئے ٹیوب ویل کا معائنہ کرنے چلی جاتی لیکن امی نے مجھے آواز دے کر بلا لیا۔ ’’یہ میری بیٹی قدسیہ ہے۔۔۔‘‘ آپا زبیدہ نے میرے سلام کا جواب خندہ پیشانی سے دیا۔ ’’آؤ بیٹھو۔۔۔ کیا کرتی ہے؟‘‘ امی نے تعارف کرایا بی اے کیا ہے، کنیئرڈ کالج سے۔ بیچاری کی فسٹ ڈویژن ماری گئی۔ بڑی افراتفری میں امتحان دیا ہے۔ اب کوئی ڈھنگ کا بندہ مل جائے تو بیاہ ڈالوں۔۔۔‘‘ پتہ نہیں کیوں آپا زبیدہ جھنجھلاہٹ سے بولیں’’ایویں شادی کرائیں گی۔ چھوٹی سی ہے۔۔۔ پہلے ایم اے کر لینے دیں آرام سے۔۔۔ کیا عمر ہے اس کی ؟‘‘ ’’انیس سال۔۔۔ ‘‘ امی نے بتایا۔ ’’ناں ناں مسز چٹھہ ناں ایسا ظلم نہ کریں۔ پلیز اسے ایم اے کرنے دیں۔ شادی کون سی بھاگی جاتی ہے۔ ذرا میچور ہو لینے دیں ساری عمر پڑی ہے شادی کیلئے‘‘ ’’اچھا ایم اے تو کرا دوں لیکن کنیئرڈ کالج میں تو صرف بی اے تک تعلیم ہے‘‘ ’’کنیئرڈ کالج کیوں؟ گورنمنٹ کالج بھیجیں۔ وہاں ایم اے اردو شروع کرنے کی تیاریاں ہور ہی ہیں۔ میں نے داخلہ لے لیا ہے۔ پطرس بخاری سارا کچھ دیکھ رہے ہیں۔ اچھی پڑھائی ہو گی۔ آپ بے فکر رہیں۔‘‘ امی کچھ متذبذت ہو کر بولیں ’’لیکن جب یہ کنیئرڈ میں پڑھتی تھی تو اس کے ریاضیات کے پروفیسر سرداری لعل کہا کرتے تھے کہ اسے ایم اے Mathematics کرنا چاہیے۔‘‘ ’’مس متھائی کہتی تھی امی کہ میں اکنامکس میں ایم اے کرلوں۔‘‘ میں نے اضافہ کیا۔ ’’چلو جی اس بات کو جانے دیں مسز چٹھہ۔۔۔ وہ پاکستان سے پہلے کی باتیں ہیں۔ اب تو اردو قومی زبان ہے پاکستان حقیت ہے۔ ہم نے انگریز اور ہندو کی غلامی سے آزادی حاصل کی ہے۔ آپ تو خود بڑی Educationist ہیں۔ محب وطن ہیں۔ مہاجروں کی خدمت کرتی ہیں۔ آپ کو تو پتہ ہی ہے کہ اردو کے بغیر پاکستانی کی شناخت ممکن نہیں۔۔۔ وطن کا تصور اردو سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ہم نے سندھ میں سندھی، بلوچستان میں بلوچی، پنجاب میں پنجابی اور صوبہ سرحد میں پشتو کو اولین ترجیح دی تو ہماری شناخت بھی اتنے ہی حصوں میں بٹ جائے گی۔‘‘ ’’نہیں بابا! تو بات کو کہاں سے کہاں لے گئی۔۔۔ مجھے تو صرف اس قدر فکر ہے کہ گورنمنٹ کالج میں Co-education ہے اور ۔۔۔میں‘‘ ’’جی جی کیسا فکر؟‘‘ ’’اس نے جب بی اے کا امتحان دیا تو بڑے مشکل حالات تھے۔ جس روز کاکی کا حساب کا پرچہ تھا کنیئرڈ کالج میں کچھ فسادات نے آگ لگا دی۔ پرنسپل نے فوراً لڑکیوں کو امتحان گاہ سے نکالا اور ایف سی کالج لے گئیں۔ وہاں ہی انہوں نے حساب کا پرچہ دیا۔‘‘ ’’پھر جی یہ تو حالات سب کے ہیں۔ پھر؟‘‘ ’’میرا کہنے کا مطلب ہے کہ میری بیٹی مخلوط تعلیم کو صرف اتنا جانتی ہے اس سے زیادہ اس کا Exposure نہیں ہے۔‘‘ پتہ نہیں امی کو میری نیت پر شبہ تھا یا وہ مخلوط تعلیم کے حوالے سے لڑکیوں کو غیر محفوظ سمجھتی تھیں۔ وہ کچھ چپ سی ہو گئیں اور حامی نہ بھری۔ امی کا تذبذب بھانپ کر زبیدہ آپا بولیں ’’لیجئے میں وہاں ہوں۔ مرغی کے پروں تلے قدسیہ رہے گی۔ آپ خدا کے لیے فکر نہ کریں‘‘ ریزی نے مزاحمت کی کیونکہ وہ خود ان دنوں گورنمنٹ کالج میں ایف ایس سی کر رہا تھا لیکن امی نے اُس کی پروا نہ کی۔ دوسری مزاحمت بابو محمد یعقوب کی طرف سے آئی۔ بابو محمد یعقوب ان دنوں لیڈی میکلیگن کالج میں ہیڈکلرک تھے۔ پی اے کا لفظ تو ابھی ایجاد نہ ہوا تھا، لیکن یوں سمجھئے کہ وہی صاحب کی تاریں کھینچنے والے اور اُسے پتلی کی طرح نچانے والی طاقت تھے۔ ایک اچھے Executive کے لیے ایک قابل پی اے نہایت اہم ہوتا ہے۔ اگر وہ آئین اور اصولوں کو زبانی Quote کر سکتا ہے۔ افسر کو نکلنے کے راستے بتا سکتا ہے۔ حدود میں رکھنے اور حدود کو سلیقے سے توڑنے کی ترکیبیں سمجھا سکتا ہے تو ایسا افسر بڑی جلدڈی نیک نامی کو پہنچ جاتا ہے۔ بابو محمد یعقوب جالندھر میں ہماری زمینوں کی دیکھ ریکھ کرتے تھے۔ جب 1936 میں میری والدہ جالندھر سے تبدیل ہو کر دھرمسالہ گئیں تو اُن کے پاس جالندھر شہر میں کچھ زمین تھی جس پر سٹروبیری، رس بھری اوردیگر پھلوں اور سبزیوں کی کاشت ہوتی تھی۔ بابو محمد یعقوب جالندھر کے سکول میں بھی امی کے ہیڈکلرک تھے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ اپنی زمینیں اور ہماری زمینوں کی دیکھ ریکھ بھی کرتے تھے۔ اب لیڈی میکلیگن میں بابو جی محمد ازسر نوامی کے ہیڈکلرم بن گئے۔ یہی بابو جی بہت بعد میں چشتیہ مسلک کے پیر بن گئے۔ ان کے دربان پر قوالی ہوتی تھی۔ لوگ نذارنے پیش کرتے تھے اور وہ اپنے مریدوں سے کہا کرتے تھے۔۔۔ ’’بھائی رجوع کرو۔ رجوع کرو۔ سب جواب مل جائیں گے۔ سب شکوک رفع ہو جائیں گے۔ تم صرف رجوع کرو۔‘‘ سنت نگر میں جہاں ان کا ڈیرہ بن گیا، بڑی محفلیں ہوئیں لیکن امی ریزی اور میں نے کبھی رجوع نہیں کیا۔۔۔ ہمارے لیے وہ ہمیشہ بابو جی رہے۔۔۔ امی جی کے شفیق ہیڈ کلرک۔ جب انہیں پتہ چلا کہ میں ایم اے اردو کرنے گورنمنٹ کالج جانا چاہتی ہوں تو انہوں نے چند رجسٹر اٹھائے امی کے دفتر کی چق اٹھائی اور مے آئی کم ان پلیز کہے بغیر اندر داخل ہوئے۔ ’’جی ایک عرض کرنا تھی۔۔۔ اگر آپ کے پاس وقت ہو۔‘‘ ’’جی بابو جی۔‘‘ ’’ویسے تو جی مجھے دخل دینے کی کوئی ضرورت نہیں لیکن میں چھوٹی بی بی کو تب سے جانتا ہوں جب میں دھر مسالے آیا کرتا تھا۔ وہ بہت بھولی روح ہے۔‘‘ ’’ایسی روح کی نگرانی کرنا پڑتی ہے۔‘‘ ’’بابو جی! میں نے ایسی تربیت کی ہے کہ وہ بھٹک نہیں سکتی۔‘‘ اب سامنے ایک افسر بول رہا تھا۔ بابو جی کچھ گھبرا گئے ’’ دیکھ لیجئے آپ بہتر سمجھتی ہیں۔ لیکن مخلوط تعلیم میں بیٹی کو بھیجنا میرا خیال ہے کہ ۔۔۔عقلمندی نہیں ہے۔‘‘ امی نے پتہ نہیں اندر کیامحسوس کیا لیکن معاملے کو Dismiss کر دیا اور تنخواہوں کے کاغذ سائین کرنے میں مشغول ہوگئیں۔ گورنمنٹ کالج میں داخلے کے لیے امی کو ڈاکٹر شیخ عنایت اللہ نے بھی منایا۔ وہ گورنمنٹ کالج میں پڑھاتے تھے۔ عربی کے سکالر تھے اور اردو ایم اے کے پہلے Batch میں عربی کی کلاس ان ہی کی ذمہ داری تھی۔ ایک روز وہ بی ٹی کی کلاس کو لیکچر دینے آئے تو بڑے ہال میں لیکچر کے بعد باتوں باتوں میں امی نے اُن سے ایم اے اردو کا ذکر کیا۔ ’’آپا جی آپ کیا سوچ رہی ہیں۔ فوراً قدسیہ کوداخل کرائیں۔ وقت بدل گیا ہے۔ اب لڑکیوں کا وقت بھی قیمتی ہے۔ پاکستان کو تعلیم یافتہ خواتین کی ضرورت ہے۔‘‘ ’’لیکن میں اُس کی شادی کرنا چاہتی ہوں۔‘‘ ’’ذرا سوچیں اگر آپ تعلیم یافتہ نہ ہوتیں۔۔۔ تو آج آپ بیوگی کے بعد بچوں کو لے کر کس کے پاس جاتیں؟ تعلیم تو جتنی ہو کم ہے۔ اس کی خاطر تو چین بھی جانا پڑے تو حکم سمجھ کے جانا چاہیے۔‘‘ فیصلہ بڑی آسانی سے ہو گیا۔ ہمارے گھر میں فیصلے عورتوں کے ہاتھ میں تھے۔ اس مایا مچھندر میں ریزی اور بابو جی کی آواز دب گئی۔ امی جی نے پرنسل کرامت صاحب کو فون کیا اور میں کالج پہنچ گئی۔ کچھ باتیں گویا مقدر کا حصہ ہوتی ہیں۔ مجھے گورنمنٹ کالج میں اشفاق احمد سے ملنا تھا۔ میرے مستقبل کا تعین، وقت، امکانات سب اس بات میں پوشیدہ تھے کہ میں گورنمنٹ کالج پہنچوں۔ اس مقام پر پہنچنے کے لیے مجھے بی اے کرایا گیا۔ حالانکہ 1947 میں جب پاکستان معرضِ وجود میں آیا، حالات دگرگوں تھے۔ جس روز میرا ریاضیات کا پرچہ تھا کنیئرڈ کالج کے اُس بلاک میں جو لب سڑک تھا، آگ لگ گئی۔ اصولاً تو کالج بند ہوجا نا چاہیے تھا لیکن مجھے ایم اے کرنا تھا۔ مجھے خاں صاحب سے ایک مقررہ مقام پر ملنا تھا اس لیے بی اے کا پرچہ دینا پڑا۔ اُس وقت کالج کی پرنسپل مس مکنیئر(Macnaire) تھیں۔ قریباً چھ فٹ اونچی لمبی، سخت قسم کی منظم خاتون نے بی اے کی لڑکیوں کو کمرہ امتحان سے نکالا۔ کالج بس میں سوار کیا۔ خود ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی اور سیدھی ایف سی کالج پہنچیں۔ یہاں لڑکے بی اے کے پرچے دے رہے تھے۔ انہوں نے ممتحن سے ساز باز کی۔ ہمیں بٹھایا اور خود بکریوں کا رکھوالا بن کر کمرہ امتحان میں بیٹھ گئیں۔۔۔ مخلوط تعلیم کا یہ پہلا منظر میری نگاہ نے دیکھا۔ ادھر اشفاق صاحب کو گویا حکم ملا کہ وہ ایم اے اردو کر لیں۔ وہ اس وقت تک منشی فاضل کر چکے تھے۔ مکتبہ جدید سے اُن کی کتاب ’’ایک محبت سو افسانے‘‘ چھپ رہی تھی اور انہیں ہرگز ایم اے اردو کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ وہ حب الوطنی کے سلسلے میں بڑی پرجوش تقاریر کر چکے تھے اورجانتے تھے کہ تبدیلی زندگی کا اہم حصہ ضرور ہے۔ فیصلہ میری تقدیر نے کیا یا میری والدہ نے۔ بہر کیف میں کالج پہنچی۔ پرنسپل آفس میں پروفیسر کرامت موجود تھے۔ اُن کی شخصیت میں بڑامیٹھا سا رُعت تھا۔ جیسے وہ پہلے آپ کی مان کر پھر اپنی منوانے کے عادی تھے۔ قیام پاکستان کے بعد تعلیم ایک بڑے انقلابی دور سے گزر رہی تھی۔ مسائل ان گنت تھے۔ وسائل کی کمی تھی۔ بھانت بھانت کے لوگ اپنے ذاتی مسائل میں الجھ کر اپنے آپ کو مظلوم سمجھنے میں مصروف تھے۔ ہر ایک کی انا اپنی شناخت کے چکر میں تھی۔ پرفیسر کرامت صاحب نے مجھے ہاتھ کے اشارے سے بیٹھنے کو کہا۔ میں ہرخوف زدہ انسان کی طرح کرسی پر آگے ہو کر بیٹھی۔ ’’آپ نے بی اے کہاں سے کیا؟‘‘ ’’کنیئرڈ کالج سے جی۔‘‘ ’’اور فسٹ ڈویژن آئی؟‘‘ سوال ہوا۔ ’’جی فسٹ ڈویژن ضرور آتی۔۔۔ لیکن جس روز میرا ریاضیات کا پرچہ تھا اُس دن جیل روڈ پر آگ لگ گئی۔ ہمیں بس میں بٹھا کر ایف سی کالج لے گئے۔ بڑی افراتفری میں ہنگامی سنٹر بنا۔۔۔ ہم لڑکیاں اتنی نروس تھیں کہ پرچے زیادہ اچھے نہیں ہوئے ورنہ تو جی۔۔۔‘‘ میں نے بار بار بتائی ہوئی حقیقت بیان کی۔ ’’اور بی اے میں کون کون سے سبجیکٹ لیے۔‘‘ میں لجاحت سے بولی’’ اے کورسMaths اور اکنامکس۔‘‘ ’’اور میتھس کون پڑھاتا تھا؟‘‘ ’’پروفیسر سرداری لعل۔‘‘ ’’اچھا اچھا۔۔۔ وہ تو ہمارے ہی پروفیسر ہیں اور اکنامکس۔‘‘ ’’مس متھائی۔‘‘ ’’جی۔‘‘ ’’ساؤتھ سے آئی ہیں۔ اُن کے بھائی نے اکنامکس پر بڑی معرکے کی کتاب لکھی ہے۔ وہی مس متھائی۔‘‘ ’’جی۔‘‘ ’’پھر بھائی اتنے قابل پروفیسروں سے پڑھ کر تم ایم اے اردو کر کے کیا کرو گی۔۔۔ یا Math میں ایم اے کرو یا Economics میں۔‘‘ ’’جی مجھے اردو کا شوق ہے۔ میں رائٹر بننا چاہتی ہوں۔‘‘ وہ ہلکا سا مسکرائے اور پھر کچھ وقفے کے بعد بولے’’ کیا تمہیں معلوم ہے کہ پطرس بخاری صاحب نے اس سبجیکٹ میں ایم اے کا اجراء کیا ہے، لیکن اب وہ یونیسکو چلے گئے ہیں۔ ہم کچھ تجرباتی سا کام کر رہے ہیں۔ ابھی پروفیسروں کا بھی انتخاب مکمل نہیں ہوا۔ بہر کیف تم برسر صاحب سے مل لو۔ فیس وغیرہ داخل کروا دو۔۔۔ فارم احتیاط سے بھرنا۔۔۔ تھینک یو۔‘‘ پرنسپل صاحب کھڑے ہو گئے یعنی مجھے برخاست کر دیا۔ میں نے دبی زبان میں شکریہ ادا کیا اور اُن کے کلرک کے پاس پہنچی۔ کھڑکی کے ساتھ لگ کر ایک نوجوان کھڑا تھا۔ گورا چٹا خوبصورت لڑکا جس نے کھڑکی کے ساتھ کہنی ٹیک رکھی تھی۔ جس وقت میں وہاں پہنچی وہ فوراً مؤدب انداز میں ایک طرف ہو گیا۔ نظریں نیچی رکھیں اور مجھ سے بات کرنے کی کوشش نہ کی۔ جب میں فیس دے چکی تو برسر صاحب نے تعارف کے انداز میں کہا ’’بی بی یہ اشفاق احمد ہیں۔ یہ آپ کے ساتھ ایم اے اردوکریں گے۔ ان کی فیس میں نے ابھی جمع کی ہے‘‘ یہ میرا اشفاق صاحب سے پہلا تعارف تھا۔۔۔ لیڈی میکلیگن سے گورنمنٹ کالج تک دو چوراہوں کا راستہ تھا۔ پہلے سیکریٹریٹ کو جانے والا چوک آتا۔ اس کے بعد وہ چوک جس پر بھنگیوں کی توپ نصب تھی۔ اگر مال روڈ کی طرف رخ کر کے دیکھیں تو دائیں ہاتھ وہ عمارت آتی جو بعد میں NCA کی درس گاہ بنی اور یہیں لاہور کا مشہور میوزم تھا۔ بھنگیوں کی توپ کے دائیں ہاتھ ایک چوک آتا جو انارکلی بازار کا سنگھم تھا۔ گورنمنٹ کالج کے عین سامنے چھوٹا سا باغ تھا اور یہی سڑک بائیں ہاتھ لڑکوں کے ہوسٹل کی طرف بھی جاتی تھی۔ گورنمنٹ کالج کا پھاٹک کھلتے ہی وہ پکی سڑک آتی جس کے بائیں ہاتھ نشیب میں اوول کی گراؤنڈ تھی، جس میں ہر سال سپورٹس ڈے منایا جاتا۔ لڑکیوں کا چاٹی ریس میں حصہ لینا ایک بڑا پر لطف Event تھا۔اوول سے دوسری جانب سائیکالوجی ڈیپارٹمنٹ تھا۔ پھریہ سڑک ذرا سی چڑھائی چڑھ کر پرنسپل آفس تک پہنچتی۔ پرنسپل صاحب کی کار پورچ میں کھڑ نظر آتی تو طالب علم خاموشی سے گزرتے ورنہ ہنسنا بولنا فقرے کسنا آوازیں دینا تو اس عمر کا خاصا ہے۔ پرنسپل کے دفتر کے ساتھ ہی بائیں طرف ایک چھوٹا سا لان تھا اور اس کے عین سامنے بھی کھلی جگہ تھی جس پر بعد میں اوپن ایئر تھیٹر تعمیر کیا گیا۔ اس لان سے ملحق سوئمنگ پول تھا جس میں سپورٹس کے دنوں میں بڑی جوش و خروش کی ریسیں ہوتیں۔ فقتھ ایئر کے آخر میں جب سوئمنگ Events ہوتے تو اس میں ایک ریس اپنی نوعیت کی اختراع تھی۔ ایک لڑکی سوئی دھاگہ پکڑ کر ٹینک کے آخری سرے پر بیٹھتی اور فری سٹائل میں تیرنے والا اُس تک پہنچتا۔ لڑکی سوئی میں دھاگہ پرو کر Contestant کو پکڑاتی۔ وہ اسے وپاس لے جا کر ریفری کو پکڑاتا۔ اگر سوئی سے دھاگہ نکل جاتا تو اُس کے نمبر کٹ جاتے۔ اُن دنوں جب ہمارا فقتھ ایئر ختم ہوا تو ریزی بھائی کا دوست بھی کالج میں پڑھتا تھا۔ ان کے ساتھ ہمارے گورداسپور سے مراسم چلے آتے تھے۔ میں نے اس کے ساتھ مل کر اس ریس میں شرکت کی اور ریاض فسٹ آیا۔ لیڈی میکلیگن سے دو راستے گورنمنٹ کالج کو جاتے تھے۔ ایک راستہ تو میں اوپر بیان کر چکی ہوں۔ دوسرا راستہ پرنسپل لاج کے سامنے سے گزر کر باہر نکلتا تھا۔ سامنے بہت بڑی گراؤنڈ تھی جس میں ہر سال انٹر کالجیئٹ مقابلے ہوتے تھے اوربڑی بڑی ٹرافیاں لڑکیوں کو ملتی تھیں۔ حسن اتفاق سے دو مرتبہ ان کھیلوں کی اناؤنسمنٹ کرنے کا مجھے موقع ملا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ میں اناؤنسمنٹ کرنے سے پہلے عموماً اشعار پڑھ کر ناظرین کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی تھی۔ مجھے یہ تو معلوم نہ تھا کہ Master of Ceremony کو کیا کرنا چاہیے چونکہ ایم اے کی وجہ سے اشعار سے واقیت تھی اس لیے میں نے ازخود یہ طریقہ رائج کر لیا تھا۔اس گراؤنڈ میں ملحق خواتین کے لیے سوئمنگ ٹینک تھا اور اس کے بعد سڑک پار کر کے ایم اے او کالج کی بلڈنگ آتی تھی۔ میں نے اس ٹینک کا بھی فائدہ اُٹھایا اور سوئمنگ سیکھی اور بالآخر مقابلے میں حصہ لے کر فسٹ آئی اور کلر ہولڈر بنی۔ میری والدہ مجھے اس محاصرے سے نکال کر سڑکوں کے حوالے نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن فیصلہ ہو جانے کے بعد انہوں نے ایک لفظ منہ سے نہ نکالا۔ جب ہم دھر مسالہ میں تھے تو دسویں کرنے کے بعد مجھے تعلیم حاصل کرنے کیلئے یا تو بوائز کالج بھیجنا پڑتا یا پھر لاہور میں داخلہ لینے کی ضرورت پیش آتی، لیکن میری والدہ مخلوط تعلیم کے حق میں نہ تھیں۔ انہوں نے چند معتبر لوگوں سے مل کر ایک چھوٹا سا پرائیویٹ کالج لوئر بازار میں کھول دیا۔ یہاں وہ تمام لڑکیاں داخل ہو گئیں جو لاہو جانے سے معذور تھیں۔ یہاں ہی موسیٰ کو چپڑاسی کی نوکری دی گئی۔ تبتی النسل، خاموش طبع، فربہی مائل درمیانے قد کا موسیٰ عموماً بے رنگ سے کپڑے پہنتا تھا۔ عجیب اتفاق ہے کہ موسیٰ نے امی کو تلاش کر لیا اور لیڈی میکلیگن آپہنچا۔ اسے فوراً چپڑاسی کی نوکری مل گئی اور اسی کو مجھے کالج لانے لے جانے کی ڈیوٹی دے دی گئی۔ موسیٰ نے کبھی میرا نام نہ لیا۔ ہمیشہ بی بی جی کہہ کر بستہ پکڑ لیتا۔ ہولے ہولے ایک دو قدم پیچھے چلتا لیکن جب ہم پرنسپل کرامت کے دفتر کے قریب پہنچتے تو یکدم موسیٰ میرے آگے آگے چلنے لگتا۔ گورنمنٹ کالج کے برآمدے بڑے بڑے خوبصورت اور گوتھک آرٹ کا نمونہ تھے۔ ایسا ہی ایک لمبا سا برآمدہ اردو کلاس کے سامنے بھی تھا۔ یہاں پہنچ کر عموماً موسیٰ کمرے کا دروازہ کھول کر ایک طرف ہٹ جاتا اور جب میں اندر داخل ہو جاتی تو دروازہ بند کر کے غائب ہو جاتا۔ اس کے بعد اوول کے گرد بنی ہوئی سڑک پر ہمیشہ ایک ہی بنچ پر بیٹھتا جو پرنسپل کے دفتر سے ذرا سی دور تھی۔ جس روز پہلے دن میں ایم اے اردو کی کلاس میں داخل ہوئی۔ میں تھوڑی سی نروس تھی۔ ہر نئی چیز عموماً ہیبت کا باعث بن جاتی ہے۔ کلاس کے کمرے میں ایک لمبی مستطیل میز بچھی تھی۔ اس کی لمبائی کے دونوں رخ پر کرسیاں تھیں۔ میز سے قریباً چار سیڑھیاں اُونچا ایک ڈانس تھا جس پر ایک روسٹرم اور دیوار کے ساتھ لمبا سا بلیک بورڈ ٹنگا تھا۔اس بلیک بورڈ پر عموماً عربی، فارسی اور انگریزی لکھی نظر آتی۔ بہت کم اردو کے الفاظ لکھے جاتے۔ پہلے دن کمرے میں کوئی پروفیسر موجود نہ تھا۔ لمبی میز پر سامنے کی طرف مولوی طوطا، قمر صاحب بیٹھے تھے۔ لڑکیوں کی پشت دروازے کی طرف تھی اور اس وقت یہاں آپا زبیدہ اور ذکیہ بیٹھی تھی۔ مجھے دیکھ کر آپا نے مجھے اپنے ساتھ والی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ابھی کاپیاں کتابیں رکھ کر سیٹل ہوہی رہی تھی کہ ایک خوبصورت گورا چٹا اطالوی شکل و صورت کا نوجوان اندر داخل ہوا۔ اُس نے لٹھے کی شلوار، نیلی لکیروں والا سفید کرتا اور پشاوری چپل پہن رکھی تھی۔ وہ بڑی ملائمت کے ساتھ آگے بڑھا اور مردانہ قطار میں مولوی طوطا کے ساتھ بیٹھ گیا۔ چند لمحے خاموش رہی۔ پھر نوجوان نے اپنا تعارف کرانے کے انداز میں کہا۔۔۔ ’’خواتین و حضرات ! میرا نام اشفاق احمد ہے۔ میں مشرقی پنجاب کے ضلع فیروپور سے آیا ہوں۔ ہمارے قصباتی شہر کا نام مکتسر ہے۔ میرے والد وہاں ڈنگر ڈاکٹر تھے۔ پھر رفتہ رفتہ حیوان ناطق کا علاج بھی کرنے لگے۔۔۔ ہم آٹھ بہن بھائی ہیں اور اس وقت میں موج دریا کے بالمقابل -1 مزنگ روڈ میں رہتا ہوں۔ میرے پاس ایک سائیکل ہے جس پر میں اس وقت آیا ہوں‘‘ یہ کہہ کر اشفاق احمد نے کلاس کے لڑکے لڑکیوں پر نظر دوڑائی۔ سب خاموش تھے۔ ابھی Orientation کی کلاسوں کا رواج نہ تھا۔ اپنا تعارف حدود اربعہ، ہسٹری بتاتے ہوئے شرماتے تھے۔ صرف اشفاق احمد نے سب کی سہولت کو مد نظر رکھ کر اپنا آپ تھالی میں رکھ کر پیش کر دیا۔ آپا زبیدہ اور مولوی طوطا نے غالباً اسے شوخی سمجھا۔ ذکیہ جو بلند شہر سے آئی تھی، اشفاق احمد جیسے صاحبِ حسن و جلال سے متاثر ہو گئی اور یہیں سے ہماری محبت کی کہانی شروع ہوئی جو شادی پر منتج ہوئی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ سب اس بات سے خوفزدہ تھے کہ کالج میں جا کر میں کہیں بہک نہ جائوں اور کسی سے محبت نہ کرنے لگوں میںپرعزم تھی ایسا نہ ہو گامگر ایسا ہی ہوا کیونکہ میرے مستقبل کے شوہر اشفاق احمد جو میرا وہاں انتظار کررہے تھے اور یہ تو کہنے کی ضرورت نہیں کہ جوڑے خدا ہی بناتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی سمجھ لیں کہ ہماری محبت کی کہانی میرے اور اشفاق احمد کے دردناک افسانوں سے بھی المناک ہے۔ مجھے تو ویسے ہی متاثر ہوتے دیرنہیں لگتی۔ لیکن میرے اندر بھی تھوڑا سا ردعمل پیدا ہوا۔ میں نے دل میں سوچا کہ مقابلہ سخت سہی لیکن میں محنت کروں گی اور بالآخر ضرور جیت جاؤں گی۔

سب سے پہلے غلام محی الدین کمرے میں آئے۔ انہوں نے اپنا تعارف آتے ہی انگریزی میں کرایا۔ بلیک بورڈ صاف کر کے کیپٹل لیٹرز میں اپنا نام لکھا۔ پھر روسٹرم پر آئے اور اپناتعارف جاری رکھا۔ کچھ دیر انگریزی میں بولنے کے بعد وہ اردو میں جاری ہو گئے۔ اُن کا لب و لہجہ اس بات کا غما

ایک روز صبح کے وقت جب اشفاق احمد خاں صاحب کالج آئے تو ان کے بائیں ہاتھ کی تیسری انگلی میں شادی کا چھلا تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ اس طرح شادی شدہ ہونے کا اعلان تمام لڑکیوں کو اور خاص کر مشنری سکول کی پڑھی لکھی لڑکی کو دُور باش رہنے کی لال جھنڈی دکھا دے گا۔۔۔ وہ کبھی کبھی نوٹس لینے سے پہلے چھلے انگلی میں گھما کر انگلی میں گھما کر ہاتھ میز پر بھی اعلانیہ انداز میں رکھ دیتے لیکن مجھ پر اس اعلان نے خاطر خواہ اثر نہ کیا۔ میں ایسا فقیر تھی جو مانگنے تو نکلے لیکن اپنی عزت نفس بچانے کیلئے کاسہ چھپائے رکھے۔ قرض مانگنے کی اشد ضرورت ہو لیکن ساتھ ہی یہ آرزو بھی پال رکھے کہ یہ قرض کبھی واپس نہ مانا جائے۔ بیٹی کا رشتہ خود ہاتھ جوڑ کر کرانے پر مجبور ہو لیکن مشہور یہ کر دے کہ لڑکے والوں نے پھیرے ڈال ڈال کر دہلیز توڑ دی ہے۔۔۔ میں وہ لڑکی تھی جو عاشق کو اغوا پر مجبور کر دیتی ہے اور چاہتی ہے کہ گھر والے، معاشرہ، قانون سب عاشق کو موردِ الزام ٹھہرائیں۔۔۔ ہنس ہنس کر یاری لگانے والی اور رو رو کر سارا کچا چٹھا بیان کرنے والی کا تضاد بڑا کربناک ہوتا ہے۔۔۔ ہم دونوں کے بنیادی تضادات نے ہماری شخصیت پر خوف کی مہر لگا دی تھی۔ اس خوف کا رنگ ہم دونوں میں یکساں نہ تھا۔ اشفاق احمدخاں کا خوف شام کی دھندلی روشنی سے مشابہ تھا، جس میں نظر تو سب کچھ آتا ہے لیکن واضح کچھ نہیں ہوتا۔ میرے خوف کا رنگ بسنتی تھا۔ سارے میں سرسوں کھلی تھی۔ مجھے سارا سچ سرسوں کے کھیل کی طرح نظر آتا تھا۔ اسے ماننے کی ضرورت بھی نہ تھی لیکن اس سے مقابلہ کرنے سے میں بدکتی تھی۔ میں ہر روز کسی معجزے کا انتظار کرتی اور پھر خوف کی چادر اورڑھ کر سو جاتی۔ اشفاق احمد خاں صاحب شام ڈھلے پر بجھکے مارتی لالٹین کے لیے تیل خریدنے جاتے، لیکن دکان پر پہنچ کر وہ دونی دیتے ہوئے خوفزدہ ہو جاتے اور اپنے آپ کو غالب کی طرح سمجھاتے کہ اب میری آرزو ہے کہ زندہ نہ رہوں۔ خواہش اور گریز آری کی صورت اُن کے انداز چلیت۔ نہ وہ خواہش کے میدان میں نبردآزمائی کرنے والے اہل تھے نہ مکمل طور پر بھاگ جانے کے اہل ہی۔۔۔ پہلے انہوں نے چھوٹے چھوٹے سفر اختیار کیے اور پھر اسی گریز کی خواہش نے انہیں روم پہنچا دیا۔ اپنی اس کیفیت کو سمجھنے کے لیے وہ نوٹس لکھا کرتے تھے جو اب ملے ہیں۔ اُن کی شادی کا چھلا تو آپ کو دکھایا نہیں جا سکتا کہ اب وہ عکسی مفتی کی ملکیت ہے اور وہ اسے اپنے بائیں ہاتھ کی تیسری انگلی میں شادی کی سمبل نہیں بلکہ اشفاق احمد سے وابستگی کے طور پر پہنتا ہے لیکن خوف کے متعلق اُن کی کاپی سے یہ خیالات برآمد ہوتے ہیں۔ فیصلے دو تھے اور دونوں پر عمل پیرا ہونا خطرناک بھی تھا اور نا ممکن بھی لیکن جب انسان اپنی بساط بھر دو فیصلے کر کے ان دونوں پر پورا اترنے کی کوشش کرتا ہے تو عموماً اسے دوہری ناکامی ملتی ہے۔اشفاق احمد خاں صاحب نے بھی محبت کو شطرنج کی بازی سمجھ کر بار بار مہرے بدلے۔ جب اشفاق صاحب کی انگوٹھی نے خاطر خواہ نتائج برآمد نہ کیے۔ کتابوں کا رابطہ بھی ٹھنڈا پڑ گیا۔ دونی بار بار مانگنے کا کھیل بھی پھیکا پڑ گیا تو انہوں نے ایک اور سو انگ بھرا۔ وہ ایک دن کلاس میں آئے اور مولوی طوطا سے کہنے لگے۔۔۔ ’’ کیا آپ نے اپنی اصلی عمر فارم میں بھری ہے؟‘‘ ’’ہاں تو اور کیا‘‘ ’’بڑی غلطی کی۔ آخر دو چار سال تو نوکری کی تلاش میں لگ جائیں گے۔ کیا پتہ ایم اے دو سالوں میں نہ ہو سکے پھر تو آپ سروس کے لیے Over age ہو جائیں گے۔‘‘ سارے طالب علم چوکنے ہو کر سننے لگے۔
’’میری عمر چھتیس سال ہےلیکن میں نے ساری باتوں کا پڑتا لگا کر سچ نہیں لکھا۔۔۔ یہ حکمت ہے۔ جھوٹ نہیں ہے‘‘ یہاں اُن کا مقصد ایک بار پھر لڑکیوں کو بڑھاپے کا خوف دلا کر بھگانا تھا۔ اب کبھی کبھی وہ کلاس میں کندھے پر مکیاں مارتے۔ اسپرو کی گولیاں پھانکتے۔۔۔ چلنے میں لنگڑانے کی ایکٹنگ کرتے۔ مجھ سے آپا زبیدہ نے ایک روز کہا۔۔۔ ’’اشفاق ! تو بوڑھا ہے، لیکن لگتا نہیں ہے۔۔۔ہے نا‘‘ میں چپ رہی۔ اس زمانے میں واقعی چھتیس برس کانوجوان بوڑھا لگتا تھا۔ مجھے سارے پروفیسراں ٹپی عمر کے ناکارہ بوڑھنے لگتے تھے لیکن خاں صاحب کے متعلق مجھے شبہ بھی نہ ہوا کہ وہ دوہرے فیصلے میں گھر کر یہ کھیل کھیلتے جا رہے ہیں۔ اُن کی عملی اور علمی مدد نے میری نالائقی کو اور مستحکم کر دیا تھا۔ اب بڑھاپا اُن کا نیا Defense mechanism بن گیا۔ اب بات بے بات بڑھاپے کا ذکر، بڑھاپے کا ڈھونگ، بڑھاپے کا رونا دھونا اعلانیہ اور اشارتاً ہونے لگا۔ اسی بڑھاپے کا ذکر انہوں نے اُن خطوں میں بھی کیا ہے جو انہوں نے اپنی بھانجی ناہید کو لکھے۔ اُسی کا فرد کو دیکھ کر جینا جس پر دم نکلے ان کا وطیرہ حیات بن گیا۔ وہ محبت کو انسان کی معراج بھی سمجھتے تھے اور اس محبت سے کنارہ کشی بھی چاہتے تھے۔ میری اور اشفاق احمد خاں صاحب کی شادی ہمارے دونوں گھرانوں کے لیے ایک لانیحل مسئلہ تھا۔ اشفاق احمد صاحب کے خاندان والے روایات کے پابند، سکندری طبیعتوں کے مالک، خود اعتماد لوگ تھے۔ اُن کے خاندان میں کبھی کسی نے روایات توڑ کر باہر کسی لڑکی سے شادی کا سوچا بھی نہ تھا۔ جب اشفاق احمد صاحب کی آوی جاوی کالج کے بعد -24 کنال پارک تک بڑھی تو گھر والے بے طور متوحش ہوئے۔ ان کے گھر میں ریڈ الرٹ جاری ہو گیا۔ گھر والے منہ سے تو کم بولے لیکن تیل اور تیل کی دھار دیکھتے رہے ان کا خیال تھا کہ اونٹ چاہے کسی کروٹ بیٹھے، ان کی روایات کو پامال کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا۔ ادھر جب میری والدہ نے اپنی معاملہ فہمی سے معاملے کا پڑتا لگایا تو ایک روز وہ چرخہ خرید لائیں۔ اسے برآمدے میں لگایا۔ ساتھ روئی کی پونیاں ایک ٹوکری میں رکھیں اور کہنے لگی ’’کاکی میں بی اے بی ٹی ہوں۔۔۔ انسپکٹرس آف سکولز ہوں، لیکن میں سمجھتی ہوں مسائل کے سوچنے ان کے کتربیونت کے لیے چرخہ سے اچھا کوئی مشغلہ نہیں۔ اتنی روئی کات لو کہ تمہارے کھیس تیار ہو جائیں اور تم اپنے شوہر کو دکھا سکوں کہ تم سلیقہ شعار بھی ہو اور پڑھی لکھی بھی‘‘ پھر میری امی نے مجھے چرخے کی ہتھی پکڑا پونی اٹھا کر دھاگے کو نہ ٹوٹنے دینے کا فن، مال پر نظر رکھنے کے گُر سکھائے۔ میں جلد ہی چرخہ کاتنے کا ہنر سیکھ گئی۔ کروشیے پر تو عبور حاصل نہ کر سکی جس میں میری والدہ ماہر تھیں اور اپنے ہاتھ سے انہوں نے بہت سی جالیاں، ٹوپیاں، میز پوش بنارکھے تھے لیکن مجھے ٹوٹو کا شوق پیدا ہو گیا اور میں گرہیں ڈالنے اور ان سے دوپٹے کی لیس بنانے میں ماہر ہو گئی۔ مجھے سلیقہ شعار بنانے کے دوران ایک روز انہوں نے کہا ۔۔۔ ’’میرے پاس اس وقت دو رشتے ہیں۔ بسوں کا سرکاری نیٹ ورک نیا نیا کھلا ہے وہ اس کا کرتا دھرتا ہے۔۔۔ دوسرے ایک کرنل صاحب ہیں۔ یہ رشتہ تمہاری سہیلی محمود منظور لائی ہے۔ فیصلہ کر لو۔ زبانی نہ بتا سکو تو محمودہ کے ذریعے بتا دینا‘‘ میں نے جرأت کر کے کہا ۔۔۔ ’’مجھے اگر شادی کرنا ہے تو اپنی مرضی کی کرنا ہو گی۔ اگر بوجوہ وہاں میری شادی نہ ہو سکی تو میں ساری عمرشادی نہیں کروں گی بلکہ نوکری کروں گی۔۔۔ لاہور کالج فار ویمن میں اردو کی لیکچرار بن جاؤں گی۔ کنیئرڈ میں پڑھا لوں گی۔‘‘ انہوں نے میری مرضی نہ پوچھی اور رسان سے بولیں ’’دیکھو کاکی! جب بھی آدمی اپنی مرضی کرتا ہے اُسے کچھ قیمت بھی ادا کرنا پڑتی ہے اچھی طرح کاتتے وقت سوچ لو۔۔۔ بھاری قیمت ادا کر لو گی؟‘‘ اشفاق صاحب کے والدین نے ان سے کہا کہ جہاں تم شادی کرنا چاہتے ہو وہاں پر ہم تمہیں شادی نہیں کرنے دیں گے۔ ہم تم کو قتل کر دیں گے لیکن تمہاری پسند کی شادی نہیں ہونے دیں گے۔

اس دھمکی کے بعد اشفاق صاحب بہت زیادہ پریشان تھے اور پھر انہوں نے اٹلی کے شہر روم جانے کا فیصلہ کیا۔وہاں سے وہ مجھے باقاعدگی کے ساتھ ڈبل خط لکھنے شروع کر دیئے ایک خط صبح اور دوسرا شام کے وقت۔ اور کئی خطوں میں یہ لکھا کہ ’’قدسیہ اگر تم نے کسی اور سے شادی کی تو میں تم دونوں کو قتل کر دوں گا۔ ان خطوط کو پڑھنے کے بعد میرے لیے بڑی مشکل پیدا ہو گئی تھی ان دنوں میری والدہ میری شادی ایک کرنل کے ساتھ کرناچاہتی تھیں۔ 16 دسمبر 1956 کو -455 این سمن آباد میں میری اور اشفاق احمد صاحب کی شادی بڑی سادگی سے ہوئی۔ اس دن میں نے پرانا سفید شلوار قمیض پہنا، قمیض تھوڑی سی پھٹی ہوئی تھی اشفاق صاحب معمولی لکیروں والے کرتے میں ملبوس تھے۔ مفتی جی، محمد حسین آرٹسٹ اور ڈیڈی جی براتی تھے۔ ریزی اور محمودہ اصغر میری والدہ سمیت مائیکہ والے تھے۔ نہ کوئی ڈھولک بجی نہ کوئی مہندی کی رسم ہی ہوئی۔ نکاح کے بعد اشفاق احمدخاں صاحب نے اپنی پاس بک میرے ہاتھوں میں چپ چاپ تھما دی۔ اس میں نو سو روپے جمع تھے۔ محمود اصغر کی شناخت کا ایک حوالہ خالدہ حسین ہے جو اس وقت چھوٹی سی خالدہ اصغر تھی۔ محمودہ اور خالدہ انجینئرنگ یونیورسٹی کے وائس چانسلر اصغر صاحب کی صاحب زادیاں تھیں۔ میں او رمحمود ڈرائنگ روم کے ساتھ والے کمرے میں تھیں۔ خاں صاحب، ڈیڈی جی، دونوں گواہان، ریزی بھائی اور امی ان کے ہمراہ تھے۔ جب نکاح کی اولیں لکھت پڑھت ہو گئی تو میری اجازت لینے ڈیڈی جی اندر آئے۔ تین مرتبہ انہوں نے مجھ سے سوال کیا کہ کیا واقعی میں اس نکاح پر رضا مند تھی؟ پھر میرے سائن کرائے۔ محمودہ کو میرا گواہ جان کر خاموشی سے اس کی طرف دیکھا اور شقو کو اندر بھیج دیا۔ خاں صاحب نے اپنی پاس بک مجھے دے کر کہا۔۔۔ ’’میں کوئی انگوٹھی وغیرہ نہیں لایا۔۔۔ بینک میں میرے نو سو روپے جمع ہیں، یہ تمہارے ہیں۔‘‘ مبارک سلامت کا کوئی شور بلند نہ ہوا۔ میز پر ایک ڈبے میں مٹھائی اور ایک میں پانچ چھ پیسٹریاں پڑی تھیں ۔مجھے ملے بغیر دولہا پارٹی رخصت ہو گئی۔ محمودہ نے مزید باتیں کرنے کے بجائے چپ چاپ رخصت ہونے کو ترجیح دی اور اپنی مورس سمیت غائب ہو گئی۔ ہم تینوں نے بھی کوئی تبصرہ نہ کیا اور خاموشی سے کھانا کھا کر سورہے۔ اب ہم دونوں میاں بیوی تھے۔ دو دن کے بعد مجھے اشفاق احمد خاں صاحب نے کہا۔ ’’قدسیہ! یہ چوڑیاں اُتار دو۔ تم عموماً ایسی شوخ چوڑیاں نہیں پہنتیں۔ کہیں اماں جی کو شک نہ ہو جائے۔‘‘ میں نے کوئی حجت نہ کی۔ بس چپ چاپ چوڑیاں اتار کر زینب کو دے دیں۔ امی نے کسی قسم کا تبصرہ نہ کیا۔ سامان باندھ کر ملتان جانے کی تیاری کرلی۔ جاتے وقت انہوں نے مجھ سے کہا۔ ’’قدسیہ! اب خوش ہو؟‘‘ ’’جی بہت خوش۔‘‘ ’’یاد رکھوں اپنی مرضی کا فیصلہ عموماً مہنگا پڑتا ہے۔ اس کی قیمت زیاد ہ ہوتی ہے۔ قیمت ادا کرتے وقت نہ حوصلہ ہارنا نہ کسی شخص سے شکایت کرنا۔‘‘ اس سے زیادہ تبصرہ اُن کی ڈکشنری میں نہ تھا۔ امی کے جانے کے بعد اشفاق احمدصاحب رات دیر گئے میرے پاس آتے، بڑی رازداری سے رات رہتے اور صبح صبح غائب ہو جاتے۔ میں نے اُن سے کبھی نہ پوچھا کہ ابھی کتنی دیر اور اس خبر کو صیغہ رازمیں رکھنے کا ارادہ ہے۔ بہرکیف وہ اور ڈیڈی جی مطمئن تھے اور میں اپنے طور پر بہت خوش تھی۔ اس شادی کی خبر جب پھیلی تو اشفاق صاحب کے والد محترم بابا جی نے اشفاق احمد صاحب کو کچھ نہ کہا۔ البتہ افتخار بھائی اور آپی جی کو گھر سے نکال دیا۔ اپنا بوریا بستر اٹھا کر اپنے بچوں سمیت ڈیڈی جی میری خالہ کے پاس -450 این سمن آباد آگئے۔ آپی جی بڑی ہمت والی ساتھ نبھانے والی خاتون تھیں۔ اُن کے بیٹے طارق، حارث اور عدنان کریسنٹ ماڈل سکول میں پڑھتے تھے۔ آپی جی نے بڑی محبت کا ثبوت دیا۔ اپنے بیٹے طارق کو میری گود بٹھا کر گود بھرائی کی رسم ادا کری اور اس طرح طارق بن افتخار میرا متبنّیٰ بن گیا۔ یہ نبھانے والے لوگ ہیں۔ طارق نے رسم کی لاج رکھی اور آج تک اس نے اپنے چچا اور میری ایسی عزت اور محبت کا مظاہرہ کیا جو اس رسم کی یاد دلاتا رہتا ہے۔ کچھ دیر تک ڈیڈی جی اور آپ میری خالہ کے پاس رہے۔ اتنابڑا حادثہ یا واقعہ رونما ہوا۔ گھر بدری کے باوجود آپی نے ہمت نہ ہاری اور بچوں کو اُسی زور شور سے پڑھاتی رہیں جیسے وہ -1 مزنگ روڈپر کمر بستہ رہتی تھیں۔ میری خالہ بھی بچوں کو حساب پڑھانے میں آپی جی کی مدد کرتی رہیں۔ ’’شادی کے بعد مفلسی نے مجھے اور اشفاق صاحب کو لکھنا پڑھنا سکھادیا تھا‘‘

کنیئرڈ کالج کے زمانے میں میں نے ڈرامہ بہت پڑھا برنارڈشا اور پوراشیکسپیئر پڑھ ڈالا مگر مجھے امریکی ڈرامہ نگار یوجین اونیل بطور فنکار بہت پسند آئے۔ شادی کے بعد ہم دونوں میاں بیوی کام میں جت گئے، شادی کے ایک سال بعد ہم نے ایک ادبی رسالے ’’داستان گو‘‘ کا اجرا کیا، اس زمانے میں ہم سمن آباد میں کرائے کے مکان میں رہتے تھے اور صبح سے شام تک کام کرتے تھے، اس کے علاوہ اشفاق احمد ریڈیو پر سکرپٹ رائٹر تھے ہم دونوں ریڈیو کیلئے ڈرامے لکھتے تھے، ’’داستان گو‘‘ کی تدوین کے ساتھ ساتھ ہم اس کی پرنٹنگ بھی اپنے ہاتھوں سے انجام دیتے تھے، رسالے کا سرورمیرے بھائی پرویز کے فن کا کمال ہوتا تھا جو ایک آرٹسٹ تھے، ’’داستان گو‘‘ کی اشاعت سلک سکرین پرنٹنگ سے کی جاتی تھی، بانو قدسیہ نے بتایا کہ ’’یہ بڑا خوبصورت ادبی رسالہ تھا، اس میں اکثر نامور ادیبوں کی پہلی کہانی ہم نے شائع کی تھی جن میں انور سجاد، ہری چرن چاولہ، رام لعل، جمیلہ ہاشمی، سرون کمار ورما اور د یوندر ستھیار تھی شامل ہیں، چار سال تک ہم نے ’’داستان گو‘‘ کا سلسلہ چلایا پھر اسے غریبی کے ہاتھوں بند کرنا پڑا کیونکہ یہ خسارے میں جا رہا تھا، اس زمانے میں ادبی رسالے میں اشتہاروں کی اشاعت کو شایان شان نہیں سمجھا جاتا تھا اور نہ ہی ایڈورٹائزمنٹ اتنی زیادہ ہوتی تھی، 1965ء میں ہمارے حالات قدرے بہتر ہونا شروع ہو گئے ’’تلقین شاہ‘‘ 1962ء سے جاری ہو، اس کے ساتھ ساتھ اشفاق احمد سرکاری جریدے ’’لیل و نہار‘‘ کے ایڈیٹر بن گئے تھے، 65ء کی جنگ کے دوران وہ ماڈل ٹاؤن آ گئے، ٹیلی ویژن نیا نیا ملک میں آیا تھا اس لیے ہم میاں بیوی ٹیلی ویڑن سے منسلک ہو گئے ہم دونوں ٹی وی کیلئے مسلسل لکھتے رہے، اشفاق احمد کی کوئی سیریز بنتی تواس کے بعد میری سیریل شروع ہو جاتی تھی ’’کیونکہ ہم گھر بنا رہے تھے تو ہمارے پاس کوئی جائیداد نہیں تھی، مربعے نہیں تھے، کوئی فیکٹری نہیں تھی‘‘ ٹی وی کے پہلے ایم ڈی اسلم اظہر تھے، انہوں نے اشفاق احمد کو ٹی وی کا سب سے پہلا پروگرام پیش کرنے کی دعوت دی ،’’اس پروگرام میں انہوں نے ٹیلی ویژن کو متعارف کرایا تھا‘‘ بانو قدسیہ نے بتایا ’’اشفاق صاحب ٹی وی کے پہلے اناؤنسر تھے، ان کا ریڈیو پر بہت وسیع تجربہ تھا، یہاں ایک اطالوی فلم بنی تھی اس کے بھی اشفاق صاحب مترجم تھے چنانچہ ٹی وی پر سب سے پہلا ڈرامہ ’’تقریب امتحان‘‘ ان ہی کا ہوا تھا‘‘ جبکہ میری کی ٹی وی پر پہلی سیریل ’’سدھراں‘‘ تھی، اشفاق احمد کی سیریز ’’ٹاہلی تھلے‘‘ تھی، مجھے پنجابی میں لکھنے کا تجربہ ریڈیو کے زمانے میں ہی ہوا، ریڈیو پرمیں نے 1965ء تک لکھا ہے بعدازاں ٹی وی نے مجھے بے حد مصروف کر دیا، میں نے ٹی وی کیلئے کئی سیریل اور طویل ڈرامے تحریر کئے جن میں ’’دھوپ جلی‘‘ اور ’’خانہ بدوش‘‘ جیسے ڈرامے شامل ہیں۔ ’’داستان گو‘‘ کے تجربے کے بعدہم نے ایک فلم ’’دھوپ سائے‘‘ بنائی جو باکس آفس پر فلاپ ہو گئی اور ایک ہفتے بعد سینما سے اتر گئی، یہ فلم بنانے کا خیال اس لیے آیا تھا کہ ہماری زندگی میں اپج اتنی زیادہ ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہمیشہ کوئی نیا کام کر کے دکھائیں جس لائن پر دوسرے لوگ جا رہے ہوں وہ ہمیں متاثر نہیں کرتی‘‘ ’’دھوپ سائے‘‘ کی کہانی میں نے لکھی تھی، ڈائریکشن کے علاوہ اس فلم کا سکرین پلے اشفاق احمدصاحب نے لکھا.

ایک سوال کے جواب میں بانو قدسیہ نے بتایا کہ میرے بڑے بیٹے ڈاکٹر انیق احمد خان نے اپنے والدین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایک ٹی وی سیریز ’’آب و دانہ‘‘ لکھی اور چند ڈرامے لکھے تھے، آج کل وہ ملک سے باہر مزید پڑھنے کیلئے گئے ہوئے ہیں، دو بیٹے ان کے ساتھ رہتے ہیں اور بزنس کرتے ہیں، بانو قدسیہ اپنے بچوں کے حوالے سے کہتی ہیں کہ ’’مجھے زندگی میں سب سے بڑا جو رنج ہے وہ یہی ہے کہ میں نے اپنے ساتھ اپنے بچوں کو بھی بہت رگیدا ہے، مجھے دہرا کام کرنا پڑتا تھا، گھر کے کام کے ساتھ ساتھ بچوں کو پڑھانے کا بھی، 1970ء میں ہمارا گھر ’’داستان سرائے‘‘ بن چکا تھا اور اس کیلئے ہم نے جو بینک سے قرضہ لے رکھا تھا اس کو اتارنے کیلئے میں اشفاق صاحب جتنا کام تو نہیں کر سکتی تھی مگر میری کوشش ہوتی تھی کہ میں بھی ان کا ہاتھ بٹاؤں۔۔۔ کوئی ایسے وسائل نہیں تھے اس لیے ہمیں خود ہی کام کرنا تھا اور کیا، میں اور اشفاق صاحب ایک بگھی میں جتے ہوئے دو گھوڑے ہیں جو اب تک بھاگے چلے آ رہے تھے، کبھی آرام کا وقت ہی نہیں آیا، میرے بیٹے پڑھے لکھے ہیں لیکن اداس لوگ ہیں کہ جو کام جوانی میں ان کے کرنے کے تھے وہ میری وجہ سے نہیں کر سکے کیونکہ میں باہر جا کر کہاں ان کی نگرانی کرتی، مجھے وقت چاہیے تھا، کام کیلئے تو میں انہیں گھر میں ہی رکھتی تھی، یہ ان کی مہربانی ہے کہ انہوں نے لڑکوں جیسی زندگی بسر نہیں، وہ میرے ساتھ ’’بیٹیوں‘‘ کی طرح پلے ہیں۔۔۔ بیٹی کے نہ ہونے کا ملال اس لئے نہیں ہے کہ یہ ایک بڑی ذمہ داری تھی، بیٹی کو بہت وقت دینا پڑتا، میں تھوڑی سی خود غرض عورت ہو، یہشاید آپ کو سن کر حیرانی ہو گی کہ میں نے اپنی زندگی کو ٹھیک رکھنے میں بڑا وقت صرف کیا، میرے بیٹے shy تھے وہ Dominate نہیں کر سکے ہیں‘‘۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں جنرل ضیا کا دور حکومت میرے اور اشفاق احمدصاحب کے فن کیلئے بے حد موافق تھا، اشفاق احمد ذاتی طور پر جنرل ضیا کے بے حد قریب تھے چنانچہ اس دور میں اشفاق احمد نے جنرل ضیا کے ’’سیاسی لائحہ عمل‘‘ کو اپنے روحانی فلسفے سے مربوط کیا اور روحانیت پر مبنی ڈرامے، افسانے لکھے، مجھ پر اس کا عکس پڑنا لازمی امر تھا۔ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت میں جب میرا ٹی وی سیریل ’’سورج مکھی‘‘ چل رہا تھا اور سات اقساط دکھائی جا چکی تھیں تو ٹی وی والوں نے مجھ سے کہا کہ آپ مزید نہ لکھیں کیونکہ انہیں ضیا دوستی کے باعث حکومت کے ’’ناپسندیدہ افراد‘‘ کی فہرست میں شامل کر لیا گیا تھا، اس دوران اشفاق احمد کو اردو سائنس بورڈ کی ڈائریکٹر شپ سے برخاست کر دیا گیا اور تلقین شاہ بین کر دیا گیا، بے نظیر کے پہلے دور حکومت میں انہیں ٹی وی پر دعوت ملی مگر وہ خود ہی نہ گئے۔ ایک سوال کے جواب میں بانو قدسیہ نے بتایا کہ سٹیج کیلئے میں نے 9 ڈرامے لکھے ہیں، ’’اندھے دن‘‘ کے نام سے ایک فلمی کہانی لکھی ہے، المیہ مشرقی پاکستان پر بھی میں نے ایک ٹی وی ڈرامہ لکھا تھا، اسے بھی بین کر دیا گیا تھا، اس ڈرامے میں ایک بنگالی کا کردار تھا جو دروازے کھڑکیاں پار کر کے ہر گھر میں جاتا ہے اور پوچھتا ہے کہ میں کون ہوں؟ میں کون ہوں؟ اس میں بنگالیوں کی شناخت کے مسئلے کو اجاگر کیا گیا تھا، اس سے قبل میں نے ایک ناول ’’پروا‘‘ لکھا تھا جس کا پس منظر مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کی یونٹی پر تھا، مجھے اُمید تھی کہ صدر ایوب کچھ کریں گے مگر ایسا نہ ہوا حالانکہ اس ناول میں ،میں نے ایوب خان کو ’’نجات دہندہ‘‘ بھی لکھا تھا۔ بانو قدسیہ نے تخلیقی انسپائریشن کے بارے میں کہا کہ ’’یہ پتا نہیں چلتا کہ وہ کہاں سے ملتی ہے، پتے کو کون بتاتا ہے کہ سبز ہو جا، پھول کو کون بتاتا ہے کہ سرخ ہو جا، اسی طرح تخلیقی انسپائریشن کا کچھ ٹھکانا نہیں۔ افراد سے ملتی ہے، حالات سے ملتی ہے، ماحول سے ملتی ہے، میں تجزیہ کرتی رہتی ہوں، میرا خیال ہے کہ تمام آرٹ ایک لاشعوری کوشش کا نتیجہ ہے، اس کا شعور سے تعلق نہیں ہے، یوں سمجھ لیجئے جیسے ایک بہت بڑا تالاب ہو، اس پر کبھی کبھار پتے نیچے سے ابھر کر اوپر آ جائیں، وہ تیرتے ہوں اور ان کو پکڑ لیا جائے جیسے کنول کے پھول اوپر کھلے ہوتے ہیں جڑیں بہت نیچے ہوتی ہیں‘‘بانو قدسیہ نے بتایا کہ مجھے پڑھنے لکھنے کا خمیر اشفاق احمد صاحب نے لگایا۔ انہوں نے بتایا کہ مجھے خوبصورت فلمیں پسند ہیں۔ آج کل کی فلمو ں کے بارے میں رائے ہے کہ جیسے ’’انسان گوشت پوست کا نہیں ٹین اور لوہے کا بنا ہوا ہے۔۔۔ مادہ پرست اور منطقی ہو گیا ہے، اس کا تعلق انٹرنیٹ سے زیادہ اور جذبات سے ذرا کم ہے‘‘، بانو قدسیہ نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ مجھے نور جہاں، فریدہ خانم، غلام علی، امانت علی، روشن آراء بیگم، سلامت علی اور نصرت فتح علی خان کی گائیکی اور موسیقی پسند ہے، ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں کمرشل ناول لکھنے والی خواتین کے بارے میں کوئی رائے نہیں دینا چاہتیں، ان کا کہنا ہے کہ ’’یہ دل آزاری کی باتیں ہیں جو میں نہ کرنا چاہوں گی، ان عورتوں کا ذکر کیجئے جنہوں نے کمپی ٹیشن کو مکمل طور پر قبول کیا ہے اور مردوں کے شانہ بشانہ کام کیا اور اب تک کر رہی ہیں جیسے قرۃ العین حیدر، عصمت چغتائی، کشور ناہید، فرخندہ لودھی، سائرہ ہاشمی اور جمیلہ ہاشمی اور دوسری خواتین کام کر رہی ہیں‘‘۔

[center]بانو قدسیہ اشفاق احمد کو یاد کرتے ہوئے![/center]
[center][utvid]http://www.youtube.com/watch?v=cJUy7vxL-d4[/utvid][/center]
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: معروف لکھاری بانو قدسیہ اور اشفاق احمد کی زندگی کی داستا

Post by چاند بابو »

بہت خوب میاں صاحب شئیرنگ کا بہت بہت شکریہ.
ویڈیو نظر نہیں‌ آ رہی ہے.
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
میاں محمد اشفاق
منتظم سوشل میڈیا
منتظم سوشل میڈیا
Posts: 6107
Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: السعودیہ عربیہ
Contact:

Re: معروف لکھاری بانو قدسیہ اور اشفاق احمد کی زندگی کی داستا

Post by میاں محمد اشفاق »

میرے پاس آ رہی ہے بلکہ میں‌نے چلا کہ بھی دیکھی ہے یو ٹیوب پر بھی میں نے اپ لوڈ کی ہے
www.youtube.com/watch?v=cJUy7vxL-d4
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: معروف لکھاری بانو قدسیہ اور اشفاق احمد کی زندگی کی داستا

Post by چاند بابو »

اچھا اچھا میں سمجھ گیا.
پاکستان میں یوٹیوب بند ہے اس لئے نظر نہیں آ رہی ہے.
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
میاں محمد اشفاق
منتظم سوشل میڈیا
منتظم سوشل میڈیا
Posts: 6107
Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: السعودیہ عربیہ
Contact:

Re: معروف لکھاری بانو قدسیہ اور اشفاق احمد کی زندگی کی داستا

Post by میاں محمد اشفاق »

اشفاق احمد بابا صاحبا کی آخری آرام گاہ

Image
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
شاہنواز
دوست
Posts: 290
Joined: Mon Mar 05, 2012 2:19 am
جنس:: مرد

Re: معروف لکھاری بانو قدسیہ اور اشفاق احمد کی زندگی کی داستا

Post by شاہنواز »

بہت خوب اشفاق صاحب بہت عمدہ کاوش ہے
اضواء
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 40424
Joined: Sun Aug 15, 2010 4:26 am
جنس:: عورت
Location: {الدمام}المملكةالعربيةالسعوديه

Re: معروف لکھاری بانو قدسیہ اور اشفاق احمد کی زندگی کی داستا

Post by اضواء »

تفصیلی معلومات کی شئیرنگ پر آپ کا شکریہ
[center]یہ بھی انداز ہمارے ہے تمہیں کیا معلوم
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
Post Reply

Return to “ادبی شخصیات کا تعارف نامہ”