بیادِ فیض : صد سالہ جشن ولادت کے سلسلہ میں فرانس میں سیمنار

ملکی اور غیر ملکی شخصیات کا تعارف اور اردونامہ کے ان کے ساتھ کیئے گئے انٹرویو پڑھنے کے لئے یہاں تشریف لائیں
Post Reply
نورمحمد
مشاق
مشاق
Posts: 3928
Joined: Fri Dec 03, 2010 5:35 pm
جنس:: مرد
Location: BOMBAY _ AL HIND
Contact:

بیادِ فیض : صد سالہ جشن ولادت کے سلسلہ میں فرانس میں سیمنار

Post by نورمحمد »

[center]فیض احمد فیض مشاعرہ
فیض احمد فیض کے صد سالہ جشن ولادت کے سلسلہ میں فرانس میں سیمنار

[center]دل ناامید تو نہیں ، ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام ، مگر شام ہی تو ہے[/center]

بیاد فیض کے عنوان سے یورپ بھر میں صدسالہ جشن کی تقریبات کا سلسلہ شریف اکیڈمی کےتعاون سے سیمینار اور مختلف مشاعروں کا اہتمام کیا جا رہا ہے اور اسی سلسلے کا ایک رنگا رنگ اور دلچسپ پروگرام پیرس کے وسط میں واقع ایک پاکستانی ریسٹورنٹ میں منعقد کیا گیا جس میں پاکستانی کمیونٹی کی چیدہ چیدہ شخصیات نے شمولیت کر کے پروگرام کی رونق کو دوبالا کیا۔

13 مارچ بروز اتوار سہ پہر تین بجے پروگرام کا آغاز تلاوتِ کلام پاک سے کیا گیا۔ اسکے بعد پیرس میں شریف اکیڈمی سے منسلک شاہدہ سمن شاہ، جو شاعری میں اپنا منفرد مقام رکھتی ہیں ، نے پروگرام کا باقاعدہ آغا ز کیا اور پروگرام کا ایجنڈا یوں پیش کیا:

1۔ پروگرام کے آغاز میں ایک علمی شمع روشن کی جائے گی جو اس بات کی علامت ھو گی کہ علم کی روشنی کو دنیا میں پھیلانا ہے
2۔ فیض احمد فیض پر ایک دستاویزی فلم پیش کی جائے گی
3۔ فیض احمد فیض کی شخصیت کے حوالے سے مقالہ جات پڑھے جائیں گے
4۔ تسلیم الہیٰ زلفی کی کتاب "" فیض احمد فیض بیروت میں "" کی تقریب رونمائی کی جائے گی
5۔ پیرس کی معروف خاتون صحافی شاہ بانو میر نے آخر میں ایک مفصل رپورٹ بعنوان فیض کےلیۓ ادنیٰ سی کاوش ہماری جانب سے اس عنوان سے ایک مفصل اور جامع رپورٹ پیش کی جائے گی

محترم شفیق مراد (جرمنی ) مقالہ اور شاعری
محترمہ فرزانہ فرحت ( انگلینڈ) مقالہ اور شاعری
محترم عدیل شاکر (ہالینڈ) شاعری
محترمہ اِرم بتول (سپین) مقالہ اور شاعری
میاں امجد( پیرس) مقالہ
محترمہ شاہ بانو میر( پیرس) مکمل جائزہ اور مقالہ
محترمہ ستارہ ملک (پیرس) غزلیات موسیقی
صاحبزادہ عتیق پیرس (پیرس) مقالہ
عاکف غنی (پیرس) شاعری
بیگم شمیم خان (پیرس) شاعری
محترمہ روحی بانو (پیرس) شاعری
یوسف خاں (پیرس) خصوصی شرکت

سمن شاہ کی تفصیلات کے بعد مقررین یکے بعد دیگرے سٹیج پر جلوہ گر ہوتے رہے اور فیض کی شاندار کارکردگی پر انکو اپنے بہترین الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے رہے ۔ سب سے پہلے محترمہ فرزانہ فرحت صاحبہ نے اپنی خوبصورت اور با وقار شخصیت کی طرح انتہائی بامعنی اور درد بھرا آرٹیکل پڑھا جس میں فیض کے اہل خانہ کی وہ تمام تکالیف جو دورِ اسیری میں جھیلیں، دلچسپ پیرائے میں یوں بیان کی گئیں کہ ہال میں موجود ہر فرد خود اپنی نگاہوں سے ان مناظر کو نہ صرف تصور کی آنکھ سے دیکھنے لگا بلکہ فیض کی بچیوں کا دکھ اور بیوی کا درد محسوس بھی کرنے لگا۔ فرزانہ فرحت صاحبہ بِلاشبہ سحر انگیز شخصیت اور انداز کی مالکہ ہیں۔ جِس جذباتی اور مؤثر انداز میں باریک بینی سے مشاہدہ پیش کیا، اِس اندازِ بیاں نے سننے والوں پر ایک سحر سا طاری کر دیا۔ حاضرین پورے انہماک سے انکے ساتھ فیض کے پابند سلاسل دور میں خود کو انکے ہمراہ محسوس کر تےرھے۔

فرزانہ کے بعد پیرس کمیونٹی کے ہر دلعزیز ماہر کالم نگار اور سیاسی بصیرت اور سوجھ بوجھ رکھنے والے کہنہ مشق سینیئر صحافی محترم میاں امجد صاحب، جو پاکستان پریس کلب کے جنرل سیکریٹری بھی ہیں اور عرصہ دراز سے پیرس میں تارکین وطن کیلیۓ بے باک اور مثبت صحافت کے علمبردار ہیں، ،کو دعوت دی گئی۔ محترم میاں امجد صاحب نے فیض کی فکر، انکی سوچ اور ان کے خیالات کو جدت پسندی اور سوچ کو ایک الگ ڈھب سے بہترین الفاظ کے قالب میں ڈھالا۔ انکا انداز بیاں بلاشبہ کسی تعریف کا محتاج نہیں۔ وہ شعلہ بیاں مقرر کے طور پر اپنی منفرد پہچان تو رکھتے ہیں لیکن آج ایک اور نئے روپ میں بھی اپنی شعلہ بیانی کالوہا منوا گئے۔

نازک سا سراپا، خوبصورت چہرہ، بلند قد و قامت، نازک سراپا اور روشن زہین چمکتی نگاہیں جو اپنی عمر سے بہت آگے دیکھتی ہیں اور خاص طور پر آج کی مہذب دنیا میں بھی ابھی تک پاکستان میں پِسی ہوئی عورت کی بے بسی کو جتنا خوبصورت بیان کرتی ہیں، ایسا کلام ناپید ہو رہا ہے۔ جی ہاں یہ ہیں ارم بتول صاحبہ جو بہت نو عمری میں ہی ادبی شخصیات کے زیر نگرانی اپنی ادبی علمی تعلیم کے مراحل طے کرتے ہوئے جب اساتذہ کے سامنے سبق سناتی ہیں تو اساتذہ بھی انگشتِ بدنداں رہ جاتے ہیں۔ ارم بتول اہل قلم کا نامور اور مضبوط ستون ہیں۔

فیض صاحب کی سوچ ۔۔خاص طور پر عورت کو وہ کیا سوچتے تھے اور کن بلندیوں پر دیکھنے کے متمنی تھے ۔۔ کو مکمل گرفت میں رکھتے ہوئے مناسب اور جامع انداز میں ارم بتول نے پیش کیا اور حاضرینِ محفل سے خوب داد وصول کی۔ فیض کی سوچ کو پِنپنے سے کوئی جبر، کوئی ظلم اور کوئی دباؤ نہی روک سکا۔ آج جب فیض ہم میں نہیں ہیں تو انکی سوچ کا عکس انکے یہ دیوانے اپنے اپنے انداز میں پیش کر کے گویا انکی روح کے سامنے سرخرو ہو رھے ہوں، بقول شاعر :

[center]بارِ دنیا میں رہو غمزدہ یا شاد رہو
ایسا کچھ کر کے چلو دنیا کو بہت یاد رہو[/center]
پیرس میں پاکستان پریس کلب کے صدر اور بیحد فعال کامیاب کاروباری شخصیت کے علاوہ ایک نامور صحافی جن کے حصے میں کئی ایسے اعلیٰ اعزازات آئے ہیں جو شائد ہی کسی اور کے حصے میں آئے ہوں، بے باکی اور حد سے زیادہ پرفیکشن کی تلاش میں آئے دن پریشانیوں میں بھی گھرے رہتے ہیں، صاحبزادہ عتیق۔ عتیق کی ایک بات نے حاضرینِ محفل کے دل جیت لئے۔ جب آتے ہی بڑی بے خوفی سے یہ بیان کیا کہ جو مقالہ وہ پڑھنے جا رھے ہیں، فیض احمد فیض پر وہ انکی کاوش نہیں اور اگر یہ مقالہ کسی تعریف کے درجے کو پہنچے تو بِلاشبہ یہ تعریف انکی نہیں بلکہ لکھنے والے کی ھو گی۔ مدلل، ٹھوس اور جاندار شواہدات اور مثالوں سے مزین ضخیم مقالہ حاضرین محفل کو مبہوت کر گیا۔ حاضرین نے مکمل خاموشی اور پوری دلجمعی سے اس اعلیٰ شخصیت کی شاندار ادبی خدمات کے سفر کو پوری توجہ سے سنا اور اپنی علمی معلومات میں کئ گنا اضافہ کیا۔

یہاں شفیق مراد صاحب تشریف لاتے ہیں۔ شاندار شخصیت دل موہ لینے والا انداز بیاں اور پختہ سوچ کے ساتھ ایک بڑی اور دور رس سوچ جو انکے الفاظ خود بخود کھول رہے تھے۔ یورپ میں علمی ادبی کاوشوں کیلیۓ محدود وسائل میں رہ کر اکیڈمی کا قیام اور اس اکیڈمی کے تحت گمنام لوگوں کو لوگوں میں نہ صرف متعارف کروانا بلکہ زباں اور ملک کے نام کو بلند کرنے کی سوچ بِلاشبہ خال خال نظر آتی ہے ۔

اس موقعے پر پاکستان کمیونیٹی کے نامور ممبر یوسف خاں صاحب کو خاص طور پر دعوت کلام کیلیۓ بلایا جاتا ہے۔ انکی خوش نصیبی کہ وہ دورانِ قیام بیروت میں فیض صاحب کو ذاتی طور پر ملنے کا شرف حاصل کر چکے ہیں۔ فیض صاحب کا احترام انکی گفتگو میں نمایاں تھا اور تمام حاضرین نے بے ساختہ فیض کی سوچ کو تالیاں بجا کر داد دی۔ جب یوسف خاں صاحب نے بتایا کہ فیض صاحب نے انکو بطورِ خاص نصیحت کی کہ برخورداریہاں پڑہائی کر واور واپس پاکستان جانا، یاد رکھنا پاکستان کوآپ جیسے سپوتوں کی بہت ضرورت ہے۔ واہ بڑے لوگ بڑی باتیں ۔

اس موقعے پر شفیق مراد صاحب نے کتاب میں تحریر متن کو سمجھنے کیلیۓ محترم میاں امجد کو پھر سے دعوت سخن دی اور میاں صاحب نے ایک مختصر سےمقالہ کوکتاب میں درج موضوعات پر مشتمل تھا اسکو پڑھ کر سنایا اور یوں حاضرین کو ایک نئی کتاب کے بارے میں کچھ نئی معلومات بہم پہنچائیں ۔

محترم شفیق مراد کی جانب سے پیرس کی نامور قلمکار اور پاکستان پریس کلب کی چئیر پرسن محترمہ شاہ بانو میرکو تسلیم الہٰی زلفی کی کتاب پر اظہار رائے کیلیۓ دعوت دی گئی۔ اپنے مختصر سے خطاب میں شاہ بانو میر نے تسلیم زلفی کی کتاب میں شامل عنوانات اور اس کتاب کی روح کو مختصر انداز میں پیش کیا جس سے سامعین بہت محظوظ ہوئے۔

نفسا نفسی ہے، میں ہی میں ہے اور کوئی دوجا نہیں۔ ایسے میں مراد صاحب کی جانب سے اکیڈمی کے معرض وجود میں آنے سے اب تک اسکی ادبی خدمات کے تذکرے نے تارکینِ وطن کے سر فخر سے بلند کر دیے کہ دیارِغیر میں بھی کوئی نہ کوئی جوت، کوئی نہ کوئی لو اورکوئی نہ کوئی کرن ضرور جلتی بجھتی دکھائی دیتی ہے۔۔ شفیق مراد صاحب جیسے اعلیٰ سوچ رکھنے والوں کی صورت۔ شفیق صاحب ان چند خوش نصیب افراد میں سے ایک ہیں جو اپنی بات کہنے کا ہنر جانتے ہی نہیں بلکہ اسکو زہنوں پر نقش کرنے کا سلیقہ بھی جانتے ہیں ۔شفیق صاحب نے بیاد فیض کی اس باوقار تقریب میں حکومتِ پاکستان سے اعزاز یافتہ کتاب"" فیض احمد فیض بیروت میں "" کو بہت احترام سے کسی اہم دستاویز کی طرح فیض کے دیوانوں نے خوبصورت گفٹ پیپر میں ملفوف اِس کتاب کو ربن کی رسمی علامت میں محصور کر رکھا تھا جس کو شفیق مراد صاحب نے محترمہ فرزانہ فرحت صاحبہ اور پروگرام کی منتظمہ محترمہ شاہدہ سمن شاہ کے ہمراہ حاضرین کی بھرپور تالیوں میں اسکا رِبن کاٹ کر باقعدہ رونمائی کی ۔

جگمگاتی ہوئی اپنے اندر لاتعداد وسعت اور جنون کی انتہا کو چھوتی ہوئی اچھوتے انداز میں تحریر کردہ یہ کتاب اپنی مثال آپ ہے
اتنا عرصہ گذرنے کے باوجود فیض کے اس دیوانے کی جانب سے انکی خدمت میں یہ خراج تحسین ہے یا خراج عقیدت کتاب اور تحریر کا رشتہ دنیا کا مخلص ترین رشتہ ہے جس میں آپ کسی کو اپنی سوچیں اپنا وقت اپنے جزبات اپنے احساسات میں ڈوب کر سموتے ہیں اور پھر جو لکھتے ہیں تو وہ شاہکار بن جاتا ہے تسلیم زلفی کی اس کتاب کی طرح امر ہو جاتا ہے ۔

""فیض احمد فیض بیروت میں""، جو تسلیم الہیٰ زلفی صاحب کے قلم کا شاہکار ہے، کی تقریب رونمائی پر ہال تالیوں سے گونج اٹھا جو ایک بہت خوبصور ت لمحہ تھا۔ فیض کے جانے کے بعد بھی لوگ ان کی یاد، ان کے پیغام اور ان کے مقصد کو لیکر چل رہے ہیں تو یہ شعر بے ساختہ یاد آتا ہے :
[center]ہم نے سوکھی شاخوں پے لہو چھڑکا تھا
پھول اب بھی نہ کھلتے تو قیامت ہوتی[/center]
یوں یہ پروگرام خوبصورت انداز میں بہت سی حسین و جمیل یادیں دے کر کامیابی سے اختتام پذیر ہؤا۔
( شفیق مراد، شفیق اکیڈمی )
Post Reply

Return to “ادبی شخصیات کا تعارف نامہ”