آغاشورش کاشمیری :ایک عہدساز شخصیت

ملکی اور غیر ملکی شخصیات کا تعارف اور اردونامہ کے ان کے ساتھ کیئے گئے انٹرویو پڑھنے کے لئے یہاں تشریف لائیں
Post Reply
اعجازالحسینی
مدیر
مدیر
Posts: 10960
Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین
Contact:

آغاشورش کاشمیری :ایک عہدساز شخصیت

Post by اعجازالحسینی »

آغا شورش کاشمیری ایک مجموعہ صفات شخصیت تھے۔ صحافت، شعروادب، خطابت وسیاست ان چاروں شعبوں کے وہ شہسوار تھے۔ اشعار وادبی تراکیب کا استعمال وہ اس طرح کرتے تھے کہ انگوٹھی میں نگینہ جڑتے محسوس ہوتے تھے۔ فصیح و بلیغ اتنے کہ ان کے متعلق کہا جاسکتا ہے :

تم نے جادوگر اسے کیوں کہہ دیا

دہلوی ہے داغ ، بنگالی نہیں

آغا شورش نے ایک متوسط گھرانہ میں جنم لیا اور بمشکل میٹرک تک تعلیم حاصل کی ۔ زمانہ تعلیم میں روزنامہ ’’زمیندار‘‘پڑھنے کامعمول تھا۔ جس کے نتیجے میں ان کا ادبی ذوق پختہ ہوگیا اور وہ مولانا ظفر علی خان مرحوم کے گرویدہ ہوگئے۔ صحافت اور ادب میں ان کارنگ اختیار کیا۔ مولانا ظفر علی خان کی طرح آغا شورش بھی بدیہہ گوئی اور سیاسی نظمیں کہنے میں اتاروتھے۔ انھوں نے امیرشریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری اور مولانا ابوالکلام آزادؒ سے بھی کسبِ فیض کیا۔ خطابت میں وہ ان تینوں بزرگوں کارنگ رکھتے تھے۔ ایک خطیب میں جن اوصاف کا ہونا ضروری ہے وہ ان میں بدرجۂ اَتَم موجود تھے۔ وہ ان خطیبوں میں سے ایک تھے جن کی خطابت لوک داستانوں کی حیثیت اختیار کرگئی ہے ۔ لوگ آج بھی آغا شورش کی خطابت کاتذکرہ کرتے اور سردھنتے نظر آتے ہیں۔

آغا شورش نے اپنی عملی زندگی کا آغاز تحریک مسجد شہید گنج کے عوامی اجتماعات میں خطابت و صدارت سے کیا اور خورد سالی کی عمر میں حسین آگاہی چوک ملتان میں مجلس احراراسلام کے پلیٹ فارم سے انگریز کے خلاف ایک زبردست تقریر کی جس کے نتیجے میں انھیں پولیس کے بے پناہ تشدد اور پھر قید وبند کی آزمائشوں کانشانہ بننا پڑا لیکن ان کایہ ذوقِ جنوں پختہ تر ہوتا چلاگیا۔

زنداں میں بھی شورش نہ گئی اپنے جنوں کی

اب سنگ مداوا ہے اس آشفتہ سری کا

انگریزی دورِ حکومت میں تحریکِ آزادی میں حصہ لینے کے جرم میں انھیں مجموعی طورپر دس سال قید و بند کا سامنا کرنا پڑا۔ انھوں نے اپنی قربانیوں کاتذکرہ درج ذیل اشعار میں کیاہے۔

ہم نے اس وقت سیاست میں قدم رکھا تھا


جب سیاست کاصلہ آہنی زنجیریں تھیں

سرفروشوں کے لیے دار و رسن قائم تھے


خان زادوں کے لیے مفت کی جاگیریں تھیں

بے گناہوں کا لہو عام تھا بازاروں میں


خونِ احرار میں ڈوبی ہوئی شمشیریں تھیں

رہنماؤں کے لیے حکمِ زباں بندی تھا


جرمِ بے جرم کی پاداش میں تعزیریں تھیں

جانشینانِ کلایو تھے خداوندِ مجاز


سرِ توحید کی برطانوی تفسیریں تھیں

حیف اب وقت کے غدار بھی رستم ٹھہرے


اور زنداں کے سزاوار فقط ہم ٹھہرے

آغا شورش نے ۱۹۴۹ء میں ہفت روزہ ’’چٹان‘‘ کااجراء کیا اور اسے بامِ عروج تک پہنچایا۔ ’’چٹان‘‘ ایک زمانہ میں مقبولِ عام پرچہ تھا اور لوگ اسے سیل پوائنٹ سے قطار میں لگ کر حاصل کیا کرتے تھے۔ حالاتِ حاضرہ پر ایک نظم ، کتابوں پر تبصرہ، مختلف قلمی ناموں سے ادبی کالم آغا شورش خود لکھتے تھے۔ ان کے علاوہ بھی کئی مضامین ان کے قلم سے نکلتے رہتے تھے۔ تحریروتقریر کے ذریعے غلط کارحکمرانوں ، سیاست دانوں کوٹوکنا، جعلی علماء اور پیروں کا محاسبہ کرنا، قادیانیت کا سیاسی تعاقب کرنا اور ان کی سازشوں کو بے نقاب کرنا ان کا دم آخر تک معمول رہا۔ اس حق گوئی کے نتیجے میں انھیں وقتاً فوقتاً جیل کا سامنا کرنا پڑا۔ صدر ایوب جیسے آمر کو انھو ں نے ۴۵ دن کی بھوک ہڑتال کرکے ہلادیا۔ آمر حکومت آخر کار ان کے سامنے جھکنے اور انھیں رہا کرنے پر مجبور ہوگئی۔ ’’چٹان‘‘ کاڈیکلریشن کئی بار منسوخ کیا گیا لیکن انھوں نے کبھی نفع نقصان کی پروا نہیں کی ۔

صدر ایوب کے دور کے خاتمہ پر انھوں نے ایک ’’ساقی نامہ‘‘ لکھا۔جو ہرآمر کے سیاہ دور کی روداد ہے ۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

خبر آ گئی راج دھاری گئے


تماشا دکھا کر مداری گئے

شہنشہ گیا ، نورتن بھی گئے


مصاحب اٹھے ، ہم سخن بھی گئے

سیاست کو زیر و زبر کرگئے


اندھیرے اجالے سفر کرگئے

بری چیز تھے یا بھلی چیز تھے


معمہ تھے لیکن بڑی چیز تھے

کئی جانِ عالم کا مرکب بھی تھے


کئی ان میں اولادِ مَرحَب بھی تھے

کئی نغز گوئی کا سامان تھے


کئی میر صاحب کا دیوان تھے

انھیں فخر تھا ہم خداوند ہیں


تناور درختوں کے فرزند ہیں

یکے بعد دیگر اتارے گئے


اڑنگا لگا ہے تو مارے گئے

وزارت ملی تو خدا ہوگئے


ارے! مغبچے پارسا ہوگئے

یہاں دس برس تک عجب دور تھا


کہ اس مملکت کا خدا اور تھا

آغا شورش نے عالمی حالات کی تبدیلی میں سامراجی کردار کا بھی خوب تجزیہ کیا ہے ۔ ان کی نظمیں قاری کوسوچنے پر مجبورکردیتی ہیں ۔ وہ ’’چچا سام‘‘ میں لکھتے ہیں:

اس کرّۂ ارضی پہ علم تیرا گڑا

اور نام بڑا ہے

لیکن تری دانش ہے سیاست میں ابھی خام

افسوس چچا سام

ویتنام ترے طرفہ نوادر میں ہے شہ کار

گو اس کو پڑی مار

کچھ اور بھی کمزور ممالک ہیں تہ دام

افسوس چچا سام

دولت تری مشرق کے لیے خنجر قاتل

اقوام ہیں بسمل

ڈالر ترا ڈالر نہیں دشنام ہے دشنام

افسوس چچا سام
آغا شورش کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ ۱۹۶۵ء کی جنگ کے دوران انھوں نے اعلیٰ معیار کے بیسیوں جہادی ترانے تحریرکیے جو کہ ریڈیو پاکستان سے نشر ہوکر افواج پاکستان کے حوصلے بلند کرتے رہے۔ ان ترانوں اور نظموں کا مجموعہ بعد میں ’’الجہاد والجہاد‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔
آغا شورش کاشمیری صحافت وسیاست میں بے ضمیر اور خوشامدی ٹولہ سے بہت بیزار رہتے تھے۔ اس گروہ کو وہ طنزاً ’’انجمن ستائش باہمی‘‘کے نام سے پکارتے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس ’’انجمن ستائش باہمی‘‘ کے ارکان نے آغا شورش سے خوفناک انتقام لیا ہے ۔ ادب وصحافت کی تاریخ کی کتابیں آغاشورش کے تذکرہ سے اسی طرح خالی ہیں جس طرح خوشامدی ’’ضمیر‘‘ سے خالی ہوتے ہیں۔
آغا شورش نے قادیانیت کے خلاف محاذ سنبھالا اور قادیانیوں کی سیاسی سازشوں کا وہ تن تنہا ۱۹۳۵ء سے ۱۹۷۴ء تک قلع قمع کرنے میں مصروف رہے۔ کبھی وہ حکمرانوں کو متوجہ کرتے تھے توکبھی تحریروتقریر کے ذریعے عوام الناس کوبیدار کرتے تھے۔ وہ مولانا محمدعلی جالندھریؒ کے ہم عصر اور بعض حوالوں سے ان سے سینئر تھے۔ انھوں نے جس خوبصورت انداز میں مولانا جالندھری کو قادیانی اندازِ ارتداد کی طرف متوجہ کیا وہ اِنہی کاحصہ تھا۔
اسلام کامتوالا ، پاکستان کاشیدائی، عقیدۂ ختم نبوت کامحافظ، خود فروشوں اور بے ضمیروں کا نقاد ۲۵؍ اکتوبر ۱۹۷۵ء کو اس دارِ فانی سے کوچ کرگیا۔ رہے نام اللہ کا

مولانامشتاق احمدچنیوٹی
بشکریہ نقیب ختم نبوت
[center]ہوا کے رخ پے چلتا ہے چراغِ آرزو اب تک
دلِ برباد میں اب بھی کسی کی یاد باقی ہے
[/center]

روابط: بلاگ|ویب سائیٹ|سکرائبڈ |ٹویٹر
علی عامر
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 5391
Joined: Fri Mar 12, 2010 11:09 am
جنس:: مرد
Location: الشعيبہ - المملكةالعربيةالسعوديه
Contact:

Re: آغاشورش کاشمیری :ایک عہدساز شخصیت

Post by علی عامر »

مضمون ۔۔۔کے اشتراک پر ممنون ہوں۔

شکریہ۔
بلال احمد
ناظم ویڈیو سیکشن
ناظم ویڈیو سیکشن
Posts: 11973
Joined: Sun Jun 27, 2010 7:28 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: آغاشورش کاشمیری :ایک عہدساز شخصیت

Post by بلال احمد »

شیئرنگ کے لیے شکریہ :inlove:
بڑی بے چین رہتی ہے طبیعت اب میری محسن
مجھے اب قتل ہونا ہے، مگر قاتل نہیں ملتا
اعجازالحسینی
مدیر
مدیر
Posts: 10960
Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین
Contact:

Re: آغاشورش کاشمیری :ایک عہدساز شخصیت

Post by اعجازالحسینی »

علی عامر wrote:مضمون ۔۔۔کے اشتراک پر ممنون ہوں۔

شکریہ۔
آپکا بھی شکریہ عامر بھائی
[center]ہوا کے رخ پے چلتا ہے چراغِ آرزو اب تک
دلِ برباد میں اب بھی کسی کی یاد باقی ہے
[/center]

روابط: بلاگ|ویب سائیٹ|سکرائبڈ |ٹویٹر
اعجازالحسینی
مدیر
مدیر
Posts: 10960
Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین
Contact:

Re: آغاشورش کاشمیری :ایک عہدساز شخصیت

Post by اعجازالحسینی »

بلال احمد wrote:شیئرنگ کے لیے شکریہ :inlove:

شکریہ بلال بھائی
[center]ہوا کے رخ پے چلتا ہے چراغِ آرزو اب تک
دلِ برباد میں اب بھی کسی کی یاد باقی ہے
[/center]

روابط: بلاگ|ویب سائیٹ|سکرائبڈ |ٹویٹر
اضواء
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 40424
Joined: Sun Aug 15, 2010 4:26 am
جنس:: عورت
Location: {الدمام}المملكةالعربيةالسعوديه

Re: آغاشورش کاشمیری :ایک عہدساز شخصیت

Post by اضواء »

رہے نام اللہ کا

الله اكبر!!!!!!!!!!!!!

شکریہ
[center]یہ بھی انداز ہمارے ہے تمہیں کیا معلوم
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
اعجازالحسینی
مدیر
مدیر
Posts: 10960
Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین
Contact:

Re: آغاشورش کاشمیری :ایک عہدساز شخصیت

Post by اعجازالحسینی »

آپکا بھی شکریہ :inlove:
[center]ہوا کے رخ پے چلتا ہے چراغِ آرزو اب تک
دلِ برباد میں اب بھی کسی کی یاد باقی ہے
[/center]

روابط: بلاگ|ویب سائیٹ|سکرائبڈ |ٹویٹر
علی عامر
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 5391
Joined: Fri Mar 12, 2010 11:09 am
جنس:: مرد
Location: الشعيبہ - المملكةالعربيةالسعوديه
Contact:

Re: آغاشورش کاشمیری :ایک عہدساز شخصیت

Post by علی عامر »

معروف کالم نویس جناب عرفان صدیقی کا کالم ملاحظہ فرمایئے.
آغا شورش کاشمیری مرحوم کو اللہ تعالیٰ کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ کیا دبدبہ اور طنطنہ رکھنے والا شخص تھا۔ اقتدار کے پجاری، شکم پرست حواری، حیا باختہ درباری اور قلم فروش لکھاری اس کے نام سے کانپتے تھے۔ کشمیر کی رعنائیوں میں گندھے، مردانہ وجاہت کے حامل، تنومند اور طویل القامت شخص کی بدن بولی میں ایسا جلال و جمال تھا کہ کسی کو اس کے مد مقابل کھڑا ہونے کا یارانہ تھا ۔ عطاء اللہ شاہ بخاری کے بعد وہ اس سر زمین کا سب سے بڑا خطیب تھا ۔ لفظ اس کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے۔ اس کی تقریر میں آبشاروں کا ترنم بھی تھا اور بجلیوں کا کڑکا بھی۔ بولتا تو لاکھوں کا مجمع پتھر کی مورتیوں میں ڈھل جاتا۔ میں نے خود اس کی خطابت کا سحر دیکھا ہے۔ لیاقت باغ کے اس جلسے کا منظر آج بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے جس کی صدارت نواب زادہ نصر اللہ خان مرحوم کررہے تھے اور جس میں آغا شورش ذوالفقار علی بھٹو پہ اس بری طرح برسے تھے کہ کئی روز جل تھل کا سماں رہا۔ یہ بوڑھا ہوتا ہوا شورش تھا جسے ذیابیطس نے ناتواں کر دیا تھا لیکن اس کی آواز میں آج بھی شیروں کی سی گرج تھی اور لفظ آج بھی اس کے حضور دست بستہ کھڑے تھے۔ وہ عشا کے بعد تقریر شروع کرتے تو فجر کی اذان تک مجمع جھومتا رہتا۔ اس جیسی کاٹ دار اور تاب دار زبان لکھنے والا صحافی شاید صدیوں میں پیدا ہو۔ وہ کسی کا تعاقب شروع کرتا تو اس وقت تک پیچھے پلٹ کے نہ دیکھتا جب تک مد مقابل کے پیرہن کا ایک ایک تار آوارہ خو ہواؤں کی نذر نہ ہوجاتا۔ اقتدار پرست فرزندان وقت ہوں یا مفادات کی چراگاہوں میں منہ مارتے سیاسی ملا، کوئی اس سے محفوظ نہ تھا۔ اس کے شعر کا تیکھا پن شاید ہی کسی دوسرے کو نصیب ہوا ہو۔ مولانا ظفر علی خان مرحوم نے اس کے بارے میں کہا تھا
شورش سے مرا رشتہ ہے اور وہ ازلی ہے..میں وقت کا رستم ہوں تو وہ ثانی سہراب
کیا ہمہ جہت، ہمہ صفت شخص تھا کہ غربت کے ظلمت کدے میں آنکھ کھولی۔ نوعمری میں ہی سامراج شکن سیاست کی طرف نکل گیا۔ اپنی محنت، لگن اور جہد پیہم سے ان بلندیوں تک پہنچا جو صرف تیشہ فرہاد رکھنے والے کسی کوہکن کو میسر آتی ہیں۔ انگریز کے عہد ستم میں اس نے بیس عیدیں سامراج کی قید میں گزاریں
دس سال قید و بند میں دفنا چکا ہوں میں
یہ خدمت وطن کا صلہ پاچکا ہوں میں
برطانیہ سے روز نبرد آزما رہا
اس جرم بے خطا کی سزا پا چکا ہوں میں
کوندا ہوں مثل برق پس پردہ سحاب
ظلمات روزگار کو لرزا چکا ہوں میں
جب صبح آزادی طلوع ہوئی اور چمن آراستہ ہوا تو شورش کا اس میں کچھ حصہ نہ تھا۔ اس کے جنوں کی شورش پہلے کی طرح قائم رہی۔ اب نئے فرعون اس کی ضرب کلیمی کی زد میں تھے ایک بار پھر زندانوں کی کال کوٹھڑیاں اس کا مقدر ٹھہریں۔
مرے قلم نے مذاق حیات بدلا ہے
بلندیوں پہ اڑا ہوں سما سے کھیلا ہوں
بڑے بڑوں کی فضیلت کے بل نکالے ہیں
دراز دستی پیک قضا سے کھیلا ہوں
رہا ہوں قید مشقت میں دس برس شورش
ہر ایک حلقہ زنجیر پا سے کھیلا ہوں
تین چار روز قبل مجھے آغا صاحب کی یاد آئی اور بے طرح آئی۔ 35/برس قبل 24/اکتوبر 1975ء کو ان کا انتقال ہوا۔ ان کی برسی کا دن، کوڑے کے ڈھیر سے رزق چنتے بچے کی سالگرہ کی طرح چپ چاپ گزر گیا۔ پی ٹی وی میں ایک بڑے منصب پہ فائز ان کے صاحب زادے، آغا مسعود شورش کو بھی شاید یاد نہ آسکی۔ آتی بھی تو ان کے لئے سرکاری ٹی وی پر آغا صاحب جیسے بغاوت شعار پہ کوئی پروگرام کرنا ممکن نہ ہوتا۔ 24/اکتوبر ہی کے لگ بھگ میں نے کسی ٹی وی چینل پہ دیکھا کہ برسوں قبل رخصت ہو جانے والی کسی گلو کارہ کو خراج پیش کیا جا رہا ہے۔ پینتیس برس کس تیزی سے گزر گئے۔ آج وہ زندہ ہوتا تو کیسے کیسے کج کلاہوں اور سیاسی مداریوں کے ”دامان تقدیس“کی دھجیاں اڑا رہا ہوتا۔ ”ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے“ آغا صاحب کی ایک چھوٹی سی نظم کا عنوان ہے۔ ”ہمارے بعد“ کہتے ہیں۔
فضا میں رنگ ستاروں میں روشنی نہ رہے
ہمارے بعد یہ ممکن ہے زندگی نہ رہے
خیال خاطر احباب واہمہ ٹھہرے
اس انجمن میں کہیں رسم دوستی نہ رہے
فقیہہ شہر کلام خدا کا تاجر ہو
خطیب شہر کو قرآں سے آگہی نہ رہے
قبائے صوفی و ملا کا نرخ سستا ہو
بلال چپ ہو، اذانوں میں دلکشی نہ رہے
نوادرات قلم پر ہو محتسب کی نظر
محیط ہو شب تاریک روشنی نہ رہے
اس انجمن میں عزیزو یہ عین ممکن ہے
ہمارے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہے
مجھے آغا صاحب یہ خبر پڑھ کے بھی بہت یاد آئے کہ عزت مآب ڈاکٹر بابر اعوان نے عالی مرتبت چوہدری پرویز الٰہی سے ملاقات کی ہے۔ دونوں جماعتوں کے قائدین نے اشتراک و تعاون کے امکانات نو پہ غور کیا ہے۔ اشارہ دیا گیا ہے کہ مسلم لیگ (ق) پیپلزپارٹی کے ساتھ شریک اقتدار ہوسکتی ہے۔ آغا صاحب کا بڑا مشہور قول ہے۔ ”سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا“ وہ یہ جملہ اس مفہوم میں استعمال کرتے تھے کہ اقتدار کے کھیل میں محبت، خلوص، ہمدردی، ایثار اور قربانی جیسے جذبوں کا کوئی گزر نہیں۔
اس کھیل میں خون کے رشتے بھی معدوم ہوجاتے ہیں۔ آج وہ زندہ ہوتے تو دیکھتے کہ سیاست کی آنکھ میں حیا بھی نہیں ہوتی۔ لوگ ”چٹان“ کے تازہ شمارے کا انتظار کرتے جانے وہ اس ملاقات کے حوالے سے کیا کیا مضمون باندھتے، کیسی کیسی اچھوتی تشبیہات اور کیسے کیسے انوکھے استعارے تراشتے۔ سیاسی بازیگری کو کیسے کیسے شوخ و شنگ لفظوں کا جامہ رنگین پہناتے۔ جناب بابر اعوان کی شخصیت کے خد و خال کے لئے حرف و بیاں کی کیسی کیسی صنعتیں بروئے کار لاتے، چوہدری پرویز الٰہی کی شخصیت کی خاکہ کشی کے لئے کیسے کیسے شوخ رنگوں کی قوس و قزح بنتے۔ عباؤں اور قباؤں کے بخئے ادھیڑنا آغا جی کا محبوب مشغلہ تھا۔ کسی کو نشانے پہ رکھ لیتے تو اس کے پرکھوں کی قبریں بھی سلگ اٹھتیں۔
لرزاں ہیں میرے نام کی ہیبت سے کاسہ لیس
ارباب اقتدار کا نوکر نہیں ہوں میں
مجھ کو رہا ہے فن خوشامد سے احتراز
کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کا خوگر نہیں ہوں میں
کوئی آغا صاحب کا اسلوب کہاں سے لائے کہ اس تازہ سیاسی کروٹ پر طبع آزمائی کرے۔ میں نے لکھنا چاہا لیکن نہ لکھ سکا۔ ایک آدھ دن میں پھر کوشش کروں گا۔ آج کا کالم صحافت، خطابت اور سیاست کے اس شہسوار کی نذر جو زندگی بھر طوفانوں سے الجھتا، تند ہواؤں سے کھیلتا، دارو رسن کی رونقیں اجالتا، کجکلاہوں کی پگڑیاں اچھالتا، صاحبان جبہ و دستار کی قبائیں نوچتا اور پوری تمکنت سے اپنی درویشانہ خودی کے پھریرے لہراتا رہا۔ میں اس ملاقات کا ذکر آغا جی کے مشکبو تذکرے سے جوڑ کر ان کی روح کو مجروح نہیں کرنا چاہتا۔ آغا جی نے کہا تھا
ہم نے اس وقت سیاست میں قدم رکھا تھا
جب سیاست کا صلہ آہنی زنجیریں تھیں
سرفروشوں کے لئے دار و رسن قائم تھے
خان زادوں کے لئے مفت کی جاگیریں تھیں
بے گناہوں کا لہو عام تھا بازاروں میں
خون احرار میں ڈوبی ہوئی شمشیریں تھیں
از افق تا بہ افق خوف کا سناٹا تھا
رات کی قید میں خورشید کی تنویریں تھیں
جانشینیان کلایو تھے خداوند مجاز
سِرِّ توحید کی برطانوی تفسیریں تھیں
حیف اب وقت کے غدار بھی رستم ٹھہرے
اور زنداں کے سزاوار فقط ہم ٹھہرے
بشکریہ: روزنامہ جنگ
28-اکتوبر-2010ء
اعجازالحسینی
مدیر
مدیر
Posts: 10960
Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین
Contact:

Re: آغاشورش کاشمیری :ایک عہدساز شخصیت

Post by اعجازالحسینی »

بہت شکریہ عامر بھیا
[center]ہوا کے رخ پے چلتا ہے چراغِ آرزو اب تک
دلِ برباد میں اب بھی کسی کی یاد باقی ہے
[/center]

روابط: بلاگ|ویب سائیٹ|سکرائبڈ |ٹویٹر
Post Reply

Return to “ادبی شخصیات کا تعارف نامہ”