انٹرویو راشد علی زئی

ملکی اور غیر ملکی شخصیات کا تعارف اور اردونامہ کے ان کے ساتھ کیئے گئے انٹرویو پڑھنے کے لئے یہاں تشریف لائیں
Post Reply
خاورچودھری
مدیر
مدیر
Posts: 202
Joined: Sun Mar 09, 2008 10:05 am

انٹرویو راشد علی زئی

Post by خاورچودھری »

شخصیت: راشد علی زئی
انٹرویو: خاور چودھری




اردونامہ: اپنے ابتدائی ایام کے حوالے سے بتائیں اور ادب میں آنے کے محرکات کیا تھے؟

راشد: میں نے جس شخصیت کی گود میں آنکھ کھولی علمی و ادبی دنیا اس شخصیت کو خواجہ محمد خان اسد کے نام سے بہ خوبی جانتی ہے۔ وہ ایک ادیب ، شاعر، مصنف اور موٴرخ تھے۔ ان کے پاس ایک بہت بڑا نادر و نایاب کتب پر مشتمل کتب خانہ( موسوم بہ میراکتب خانہ) تھا جوا نھوں نے صرف اور صرف اپنے ذوق و شوق کی خاطر جمع کر رکھا تھاکتابوں سے اُنہیں والہانہ عشق تھا ۔ پاک وہند کے بڑے بڑے سکالرز اور محققین و مصنفین اور شعراء و ادباء سے اُن کے گہرے مراسم و روابط تھے اور آئے دن کوئی نہ کوئی علمی و ادبی شخصیت اُن کی مہمان ہوا کرتی تھی ۔ میں نے جب ہوش سنبھالا تو والدِ محترم اکثر علمی و ادبی مجالس میں مجھے بھی اپنے ساتھ اُنگلی پکڑ کر لے جایا کرتے تھے ۔ ایسے علمی و ادبی ماحول میں میری پرورش ہوئی تو پھر ظاہر بات ہے کہ مجھ پہ بھی کچھ اثرات مرتب ہونا ہی تھے ۔ بچپن ہی میں پڑھائی کے سلسلہ میں میر اقیام شیرانوالہ گیٹ لاہور میں رہا ۔ وہاں چھوٹی سی عمر میں والدِ گرامی کی بدولت اور کچھ برادرِ اکبر کی وجہ سے مجھے احسان دانش ، احمد ندیم قاسمی ، ڈاکٹر وحید قریشی ، شورش کاشمیری اور ایسے ہی بے شمار لوگوں کے بڑے قریب رہنے اور اُنہیں دیکھنے کے مواقع میسر آئے ۔ اِس طرح میں نے ہوش سنبھالتے ہی قلم پکڑ لیا اور آٹھویں جماعت میں ہی میری پہلی تحریر چھپ گئی ۔ کچھ عرصہ بعد والدِ گرامی کی ارضِ اطہر میں اُن کی خواہش کے مطابق دورانِ حج رحلت ہوئی تو میں نے کتب خانہ کی تمام تر ذمہ داریاں سنبھال لیں اور پوری طرح کمرِ ہمت کَس کے علمی و ادبی میدان میں اُتر پڑا ۔ اِس کے بعد علم و ادب اور صحافت کی چوٹیوں کو دیکھنے اور عبور کرنے کی ناکام کوششیں کرتا رہا ۔ اِس دوران کچھ اخبارات و رسائل سے وابستہ رہا اور اپنے طور پر بھی اخبار و رسائل جاری کئے ۔ بہرحال کسی نہ کسی طور علم وادب کی اپنے تئیں خدمت میں مصروف رہا اور اب بھی کچھ نہ کچھ کرتا رہتا ہوں ۔

اردونامہ: کس صنف میں کام کیا ہے؟

راشد: ارے بھائی میرا کوئی بڑا کام نہیں ہے، میں نے تو بس تھوڑا بہت اپنے ذوق کی خاطر لکھاہے اور اس میں کسی صنف کا کوئی خاص امتیاز نہیں۔بس جب بھی کچھ لکھنا ہوتا ہے لکھ دیتا ہوں۔ جہاں تک میری دلچسپی کا تعلق ہے تو خطوط،تذکرہ اور سفرناموں سے ایک خاص لگاوٴ ہے۔اسی دلچسپی کے پیش نظر میں نے بے شمار شخصیات کے غیر مطبوعہ خطوط جمع کر رکھے ہیں۔ ایک زمانے میں ماہنامہ صدف کا یادگار خطوط نمبر شائع کرنے کا ایک بہت بڑا منصوبہ بنایا تھا اور اس سلسلہ میں اپنے ضلع کی اکثر علمی شخصیات کے درِ دولت پر حاضری دی۔ اس ضمن میں خوب بدنام بھی ہوا مگر میں نے امانت میں خیانت نہ کی اور آج بھی احباب گواہ ہیں کہ جس کسی کو بھی اپنے علمی کام کے سلسلے میں کسی خط یا حوالہ کی ضرورت پڑی تو میں نے فوراً وہ خط یا حوالہ بلا پس و پیش ضرورت مند کے حوالے کر دیا۔اب تو میں نے اپنے اس ذخیرہٴ مکتوبات کو محفوظ کرنے کی خاطر ایک سہ ماہی مجلے” مکتوبات“ کی تیاری کر لی ہے اور ان شاء اللہ بہت جلد یہ مجلہ قارئین کے ہاتھوں میں ہوگا۔

اردونامہ: افسانے لکھے، کل اور آج کے افسانے کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟

راشد: دیکھیں بھائی میں نے صرف چند افسانے لکھے ہیں اور میرا خیال ہے کہ اُس وقت تک چھچھ میں کسی نے افسانہ نہیں لکھا تھا۔خیر… اب بھی خاورچودھری کے علاوہ کون لکھ رہا ہے؟ بہ ہر حال میں نے جو چند افسانے لکھے ہیں وہ ایک طرح سے اپنی جذباتی کیفیت کا اظہار تھا۔آپ انھیں کسی حد تک وارداتی افسانے بھی کہہ سکتے ہیں۔مجھے چوں کہ شروع سے ہی خطوط سے دلچسپی رہی ہے اور میری اسی دلچسپی کی بہ دولت میرا پہلا افسانہ ہی ” خط کی سطر“ کے عنوان سے ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے اردو افسانے میں ایک ٹھہراوٴ اور تمکنت تھی۔ منظر نگاری اور اسلوب پر بھی خاص توجہ دی جاتی تھی۔اس ضمن میں پریم چند اور احمد ندیم قاسمی کے افسانوں کو میں شاہکار افسانے سمجھتا ہوں مگر جہاں تک موجودہ دور کا تعلق ہے تو آج کا افسانہ اپنی بلندی کی انتہا پر ہے اور ہمارے نئے لکھاریوں نے افسانے کو منظر نگاری وغیرہ کی قید سے نکال کر حقیقت کے زیادہ قریب کردیا ہے۔میرا خیال ہے کہ خاور چودھری نے اپنے افسانوی مجموعہ” چیخوں میں دبی آواز“ میں افسانے کو ایک نیا موڑ دیا ہے اور قاری کو سہولت کے ساتھ افسانے کی گہرائی تک اُترنے کا راستہ دکھا دیا ہے۔ ہمارے آج کے لکھنے والے خوب صورت افسانہ لکھ رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارا آج کا افسانہ کسی بھی زبان کے مقابلے میں برتری کے احساس سمیت رکھا جا سکتا ہے۔

اردونامہ: احوال و آثار مرتب کی۔ کیا رسپونس ملا؟

راشد: میں نے والد گرامی سے متعلق اپنی مرتبہ کتاب” خواجہ محمد خان اسد، احوال و آثار“ مسلسل تیرہ سال کی محنت اور لگن کے بعد شائع کی۔ اس کی ترتیب کے ضمن میں بعض تلخ تجربات بھی ہوئے۔ بہ ہرحال کتاب کی اشاعت کے بعد اس پروردگار کی رحمت سے مجھے اپنی توقع سے بھی بہت زیادہ رسپونس ملا۔ملک کے کونے کونے سے لوگوں نے کتاب کو سراہا اورچوٹی کے رسائل و جرائد نے تبصرے شائع کیے۔ ملک کی ادبی تاریخ کا کوئی ایسابڑانام نہیں ہے جس نے کتاب کو پسندیدگی کی نظر سے نہ دیکھا ہو۔ٹی وی اور اخبارات نے بھی کتاب کو پذیرائی بخشی۔بیرون ملک بھی بعض رسائل اور شخصیات نے تبصروں اور تاثرات سے نوازا۔ مجھے حیرت ہوتی ہے یہ سلسلہ کئی برس گزرنے کے باوجود آج بھی کسی نہ کسی صورت جاری ہے۔میرا خیال ہے کہ اس ضمن میں والد محترم کا روحانی تصرف بھی کسی نہ کسی صورت مصروف عمل ہے۔

اردونامہ: آپ نے شاعری میں صرف غزل کو ہی کیوں اہمیت دی؟

راشد: آپ بہ خوبی جانتے ہیں کہ تمام اصناف سخن میں غزل ہر دور کی مقبول ترین صنف سخن رہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کی بڑی وجہ غزل کا وسیع کینوس ہے۔آپ دیکھیں آج کی غزل کہاں سے کہاں تک پہنچ گئی ہے اب یہ محبوب کے خال و خد سے آزاد ہو کر کون و مکاں کی وسعتوں کو چھو رہی ہے۔ اور ہر موضوع آزادی کے ساتھ برتا جا رہا ہے۔ہردور میں اس میں تجربات ہوئے ہیں۔ جب کہ اس کے مقابلے میں دوسری تمام اصناف میں اظہار کی راہ میں موضوع کی پابندی حائل ہو جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ غزل اپنے وسعتوں کی بہ دولت آج بھی نمایاں ہے۔

اردونامہ: مقامی طور پر بھر پور ادبی فضا کیوں نہیں قائم ہو سکی؟

راشد: ارے بھائی آپ کا کیا مطلب ہے؟ چار دنوں میں یہاں بھر پور علمی و ادبی فضا قائم ہو جائے؟ جن بڑے شہروں کی ادبی فضا کی بات آپ کرتے ہیں اس کے لیے برسوں درکار ہیں۔یہ ماحول اور فضا بنانے کے لیے پتہ مارنا پڑتا ہے۔آج سے کچھ عرصہ پہلے یہاں بے شک بڑے بڑے مشاعرے ہوئے ہیں۔عبدلحئی خاکی، توقیر علی زئی،عبدالرشید شیدا، عبدالودود مخلص اور عبدالحمید خان عابد وغیرہ نے والد گرامی خواجہ محمد خان اسد کی سرپرستی میں نوجوانوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کی بھر پور کوشش کی اور یہ لوگ مسلسل محنت بھی کرتے رہے۔اس کے باجود مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ پورے چھچھ سے گنتی کے چند شاعر دستیاب ہوا کرتے تھے مگر آج میں آپ کو بتاوٴں چھچھ میں کم ازکم میرے علم کی حد تک صرف شعراء کی تعداد پینسٹھ کے قریب ہے۔اس وقت چھچھ کے دیہات ویسہ میں ادبی تنظیم” نوائے چھچھ “ کام کر رہی ہے،اسی طرح جلالیہ میں ایک تنظیم” قندیل“ مصروف عمل ہے،غورغشتی میں بھی ایک ادبی تنظیم موجود ہے،نرتوپہ میں مشاعرے ہو رہے ہیں اور لالہ رفیق وردگ ،زمان صابر اور اقبال ساغر وغیرہ شاعری میں خوب اضافہ کررہے ہیں۔حضرو میں’ ’ کاروان ادب“ اور اسد اکیڈمی کی خدمات و مصروفیات سے آپ بہ خوبی آگاہ ہیں۔خاور چودھری نے بھی ایک علمی و ادبی ادارے سحرتاب پبلی کیشنز کی بنیاد رکھی ہوئی ہے۔اسی طرح ان کی چار پانچ کتابیں شائع ہوئیں اور وہ ” بزم علم وفن“ کے بھی جنرل سیکرٹری ہیں۔ میں خود ایک علمی ادارے” پاکستان رائٹرز گلڈ“ کا رکن ہوں۔اس کے علاوہ نواز شاہد کی کتابیں بھی اسی دور میں شائع ہوئی ہیں۔ اور پھر حکیم خان حکیم کا مجموعہ بھی آپ کے سامنے ہے۔اس طرح بے شمار نوجوان مصروف عمل ہیں۔ہاں_____! یہ بات ہے کہ ان سب نوجوانوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا ضروری ہے۔پھر خود بہ خود علمی و ادبی فضا بن جائے گی اور یہ ہم سب کے مل کر کرنے کا کام ہے۔

اردونامہ: مقامی ادیبوں کا مستقبل کیا ہے؟

راشد: آپ مقامی ادیبوں کی بات کرتے ہیں۔۔۔ ارے میرے بھائی ! آپ مجھے بتائیں کے اس ملک کے بڑے بڑے قدآور ادیبوں کو مستقبل کیا ہے؟ ہمارے مقامی ادیبوں نے تو کبھی کوئی دعوٰ ی ہی نہیں کیا ہے ۔یہ تو حکومتی ایوانوں کی سازشوں سے بے خبر اور کاسہ لیسی کی ادبی خدمات سے بے نیاز تخلیق فن میں مصروف ہیں اور اگر ان کی تخلیقات میں جان ہوئی تو ان کا مستقبل تابناک ہی ہوگا۔یہ تو ہر جگہ اور ہر ادب میں ہوتا ہے کہ اکثرگونج دار آوازیں دیہات اور مضافاتی علاقوں سے اٹھا کرتی ہیں۔اس لیے مجھے علاقہ میں موجودہ بھرپور تخلیقی آوازوں کو سنتے ہوئے یقین ہے کہ ہمارے علاقہ کے ادیبوں کا مستقبل یقینا روشن ہے۔

اردونامہ: کوئی ایسا منصوبہ جس پر کام کرنا چاہتے ہوں؟

راشد: میں نے کئی موضوعات پر کام شروع کر رکھا ہے مگر اکثرکام میری اپنی ہی وجہ سے ادھورے پڑے ہیں۔میری سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ میں چھچھ کے ایک ایک ذرے کو تاریخ کے صفحات میں محفوظ کر دوں۔ اور دہلی والوں کی طرح یہاں کا ایک ریڑھی بان بھی میری بہ دولت زندہٴ وجاوید ہوجائے۔بس یہی میرا منصوبہ اور اسی حوالے سے کا م کرنے کی خواہش ہے۔

اردونامہ: آپ کا شمار مقامی صحافت کے بانیوں میں ہوتا ہے،بھرپور کامیابی کیوں نہ ہوئی؟

راشد: میں جب ساتویں آٹھویں جماعت میں اپنے برادرِ بزرگ صالح محمد خان کے پاس شیرانوالہ گیٹ لاہور میں زیرتعلیم تھا تواس وقت وہ ہفت روزہ ” خدام الدین“ کے مدیر معاون تھے۔ان کو رسالہ کی ترتیب و تہذیب کرتے دیکھتا تو مجھے ایک عجیب سا احساس ہوتا۔اسی احساس کے تحت میں نے خدام الدین کے بچوں کے صفحہ کے لیے لکھنا شروع کردیا۔یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ بچوں کے صفحہ کا اضافہ برادرِ محترم نے میری خاطرسے ہی کیا تھا۔اس کے بعدوقتاً فوقتاً مختلف اخبارات و رسائل میں کچھ نہ کچھ لکھتا رہا۔پھر ایک طویل مدت بعد روالپنڈی سے شائع ہونے والے ایک ماہنامہ”رنگت“ اور” ڈپلومیٹ“ کے مدیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔اسی دوران ایک ہفت روزہ”انقلاب“ کا بھی مدیر رہا۔اس کے بعدجب حضرو سے 1998ء میں ہفت روزہ ” حضرو“ شروع ہوا تو میں اور خاور چودھری ساتھ ساتھ تھے۔” ہفت روزہ حضرو“ سے علیحدگی کے کچھ عرصہ بعد ہفت روزہ” رنگ ِ صدف“ کا اجراء کیا اور ایک عرصہ تک اس اخبار کو بھرپور طریقے سے چلایا۔آخر ایک حادثہ کے بعد مجھے یہ اخبار بند کرنا پڑا۔اس تمام عرصہ میں مقامی صحافت میں میں نے ایک بھر پور کردار ادا کیا ہے اور مجھے بحمداللہ میری توقعات سے زیادہ رسپونس ملا ہے۔ اور آج بھی علاقائی مذہبی اور سیاسی اورصحافتی حلقوں میں ایک عزت اور احترام ملتا ہے۔

اردونامہ: کیا تنقیدی رویوں سے مطمئن ہیں؟

راشد: تنقید____ارے جناب آپ کس تنقید کی بات کرتے ہیں۔آج کل کانقادتومن تراحاجی بگویم تو مرا ملابگو پر پوری طرح عمل پیرا ہے۔کوئی کتاب،رسالہ یا اخبار اٹھا کر دیکھ لیجیے بڑے سے بڑے کسی رسالے میں کسی کتاب پر تبصرہ پڑھ لیجیے آپ کو ایک ہی توصیفی انداز ملے گا۔کہایہ جاتا ہے کہ نئے لکھاریوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ڈاکٹر جمیل جالبی سے لے کر ڈاکٹرمرزاحامد بیگ تک ایک ہی حال ہے۔یہ لوگ اب اپنے آپ کو دہرا کر زندہ رکھنے کے چکروں میں پڑے ہوئے ہیں اور پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے آج کے لکھاری میں بھی تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ کم ہے۔وہ بھی اکثر اوقات اپنی اور اپنی تخلیق کی تعریف کروانا چاہتا ہے۔اسی لیے وہ اپنے من پسند اور تعلق،واسطے والے نقاد سے لکھواتا ہے اور وہ نقاد تعلقات کومدنظر رکھتے ہوئے دوچار تعریفی صفحات گھسیٹ دیتا ہے۔یہی حال ہمارے ادبی رسائل کا بھی ہے کہ تذکرہ کے ذیل میں ایک تعارف نما ساتبصرہ لکھ دیاجاتا ہے۔ بہ ہر حال اس فضا کے باوجود بھی میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر سلیم اختر اور پروفیسر فتح محمد ملک بہت حد تک تنقید کی روایات برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ اور ہندوستان میں میں سمجھتا ہوں کہ پروفیسرآل احمد سرور سے بڑاناقد کوئی نہیں ہے۔

اردونامہ: موجودہ عہد میں کتاب کی کیا اہمیت ہے؟

راشد: کتاب ہر دور میں پڑھی اور لکھی جاتی رہی ہے اور رہے گی۔کتاب کی قیمتوں کی زیادتی کا رونا رونے کے باوجود آج بھی لوگ کتاب خریدتے ہیں اگر کتاب کی کھپت نہ ہوتی تو لوگ کتابیں لکھنا اور چھاپنا بند کر دیتے۔یورپی ممالک جن کی میڈیا بالخصوص الیکٹرونک میڈیا کی حیران کن ترقی کی ہم باتیں کرتے ہیں وہاں جا کر دیکھیں بے تحاشہ لوگ سفر وحضر میں آپ کو کتاب کے مطالعہ میں منہمک نظر آئیں گے۔یہی وجہ ہے کہ وہاں لائبریریوں نے بھی خوب ترقی کی ہے اور آج ہمارے ہاں بھی لائبریری سائنس باقاعدہ ایک مضمون بن چکا ہے۔ بہ ہر حال کتاب کی ایک اپنی حیثیت و اہمیت ہے جو ہمیشہ رہے گی۔

اردونامہ: علمائے چھچھ اور شعرائے چھچھ کے حوالے سے آپ کے کام کاتذکرہ سنا ہے۔وہ کام کہاں تک پہنچا؟

راشد: میں نے تذکرہ علمائے چھچھ اور شعرائے چھچھ کے علاوہ بھی اپنے لیے بے شمار بکھیڑے ڈال رکھے ہیں۔ان میں زیادہ تر کام ترتیب و تدوین کا ہے۔ان میں چھچھ کے کئی مرحوم شعراء کے مجموعہ ہائے کلام شامل ہیں۔جن میں محترم دوست توقیرعلی زئی کامجموعہ کلام” راستے میں شام“ چھچھ کے ایک بزرگ شاعر مرزا اقبال بیگ نعیم کے ” دہلیزِ غم“ کے علاوہ والد محترم خواجہ محمد خان اسد کا” حدیثِ دل“ منتظر اشاعت ہیں۔ اسی طرح مولانا عبدالقدوش ہاشمی کے مکاتیب کا ایک مجموعہ ترتیب وحواشی کے ساتھ مرتب کر رکھا ہے۔اس کے علاوہ بھی کئی مکمل اور ادھورے کام موجود ہیں۔میں یہاں تذکرہ علمائے چھچھ کا ذکر خاص طور پر کروں گا کہ میرے اس مسودے پرکس طرح ایک نامور شخصیت نے ہاتھ صاف کیا ہے اور میرے اپنے دوستوں اورعزیزوں نے میرا سارا کام اس محترم شخصیت کو جا کر دے دیا اور اس اللہ کے بندے نے کچھ تھوڑا بہت ادھر
ادھر کرکے سارے کا سارا مسودہ اپنے نام سے شائع کردیااور اس سے بھی زیادہ افسوس کی یہ بات ہے میرے پچھلے کئی سالوں کی تحقیق کے دوران جن مذہبی حلقوں نے میری بار بار کی درخواستوں اور یاد دہانیوں کے باوجود میرے ساتھ ذرہ بھر تعاون نہ کیا وہ لوگ اب دھڑا دھڑ اپنے باپ دادا کے ناموں کو محفوظ کروانے کی خاطر اس کتاب کے دوسرے ایڈیشن کے لیے نام نہادمرتب کومواد بھیج رہے ہیں۔
OOO
:roll:
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Post by چاند بابو »

خاور بھائی یہ تعارف استقبالیہ کے زمرے میں درست نہیں ہے اس لئے اسے کسی مناسب دھاگے میں لے جائیں۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
خاورچودھری
مدیر
مدیر
Posts: 202
Joined: Sun Mar 09, 2008 10:05 am

Post by خاورچودھری »

شکریہ چاند بابو
میں ڈھونڈتا رہا ہوں اسے کہاں پوسٹ‌کروں۔پھر اس سے موزوں مقام کوئی نظر نہ آیا۔ آپ بتا دیجیے وہاں‌منتقل کر دیتا ہوں۔ ویسے آپ نے یہ انٹرویو پڑھ لیاہے؟
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Post by چاند بابو »

لیجئے میں نے اس کے لئے ایک نیا دھاگہ ہی کھول دیا ہے اب تمام انٹریووز یہاں لگائیں۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
رضی الدین قاضی
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 13369
Joined: Sat Mar 08, 2008 8:36 pm
جنس:: مرد
Location: نیو ممبئی (انڈیا)

Post by رضی الدین قاضی »

خاور بھائی یہ اچھا سلسلہ شروع کیا ہے آپ نے ۔ راشد علی زئی سے ملاقات خوب رہی۔ بس ادبی شخصیات کے تعارف کا سلسلہ جاری رہنا چاہیئے۔
خاورچودھری
مدیر
مدیر
Posts: 202
Joined: Sun Mar 09, 2008 10:05 am

Post by خاورچودھری »

شکریہ چاند بابو
آج معروف افسانہ نگار اور شاعر کنٹرولر روالپنڈی بورڈ پروفیسر ملک محمد اعظم خالد سے وقت لیا ہے۔
کل کے لیے علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی کے شعبہ اردو کے استاد ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد سے ملاقات طے ہے۔
دراصل میں‌اخبارات میں‌لکھنے کے ساتھ ساتھ یہاں‌سے اپنا ہفت روزہ اخبار“ تیسرا رُخ “ بھی شائع کرتا ہوں۔ اس کے لیے ادیبوں اور سیاست دانوں‌سے ملتا رہتا ہوں۔ اگر آپ کو پسند ہوگا تو وہ انٹرویو ز یہاں بھی پیش کرتا رہوں گا۔
راشد علی زئی کا انٹرویو کل یعنی اتوار کو میرے اخبار میں شائع ہوگا۔
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Post by چاند بابو »

بہت خوب خاور بھائی آپ تو ماشااللہ بڑے کام کی چیز ہو۔ بہت ہی خوب مجھے تو آج پتہ چلا ہے کہ آپ ایک اخبار بھی چلا رہے ہو۔ بالکل ٹھیک ہے خاور بھائی آپ جو بھی اپنے اخبار کے لئے کرتے ہیں اگر اردونامہ پر آنے کے قابل ہے تو یہاں بھی لے آیئے۔ اگر ضرورت محسوس ہو تو مجھے کہئے میں آپ کے موضوعات کی مناسبت سے اس میں‌اور فورم بنا دیتا ہوں تاکہ تمام اشیاء اپنی اپنی جگہ پر درست رکھی جا سکیں۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
رضی الدین قاضی
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 13369
Joined: Sat Mar 08, 2008 8:36 pm
جنس:: مرد
Location: نیو ممبئی (انڈیا)

Post by رضی الدین قاضی »

خاور بھائی بہت ہی خوشی ہوئی کہ راشد صاحب کی ملاقات سب سے پہلے اردو نامہ پر پیش کیا۔ بہت بہت شکریہ۔
خاورچودھری
مدیر
مدیر
Posts: 202
Joined: Sun Mar 09, 2008 10:05 am

Post by خاورچودھری »

لگتا ہے چاند بابو آپ نے اردو محفل پر میرا انٹرویو نہیں‌پڑھا اور نہ ہی اعجاز عبید صاحب کا سمت پڑھا ہے جس میں‌میرے حوالے سے خصوصی گوشہ شامل ہے۔ اپنے علاقے کی ویب پر میرا انٹرویو آیا ہے اس کا لنک یہ ہے۔
http://www.hazrocity.com/interview/Kh_Ch01.html
اسے دیکھ لیں‌میں‌کوشش کرتا ہوں سمت اور اردو محفل کا لنک بھی آپ کو دے دوں۔
Last edited by خاورچودھری on Tue Jul 22, 2008 6:07 pm, edited 1 time in total.
خاورچودھری
مدیر
مدیر
Posts: 202
Joined: Sun Mar 09, 2008 10:05 am

Post by خاورچودھری »

چاند بابو سمت کا لنک یہ رہا
http://samt.heroku.com
خاورچودھری
مدیر
مدیر
Posts: 202
Joined: Sun Mar 09, 2008 10:05 am

Post by خاورچودھری »

اردو محفل پر انٹرویو کا لنک یہ رہا
http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?t=13776
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Post by چاند بابو »

خاور بھائی بہت بہت شکریہ واقعی میں نے آپ کا تعارف پہلے نہیں دیکھا تھا اب تو ماشااللہ بہت گہری وابستگی رکھتے ہیں اردوادب کے ساتھ۔بہت خوب۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
رضی الدین قاضی
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 13369
Joined: Sat Mar 08, 2008 8:36 pm
جنس:: مرد
Location: نیو ممبئی (انڈیا)

Post by رضی الدین قاضی »

چاند بھائی اچھا ہوتا اگر خاور بھائی کے انٹریوز کو اس دھاگے میں لگا دیا جاتا تاکہ اراکین اردو نامہ خاور بھائی کی ادبی شخصیت سے واقیف ہو جائیں۔
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Post by چاند بابو »

ٹھیک ہے رضی بھائی میں ایسا کرتا ہوں۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
رضی الدین قاضی
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 13369
Joined: Sat Mar 08, 2008 8:36 pm
جنس:: مرد
Location: نیو ممبئی (انڈیا)

Post by رضی الدین قاضی »

شکریہ بھائی۔
خاورچودھری
مدیر
مدیر
Posts: 202
Joined: Sun Mar 09, 2008 10:05 am

Post by خاورچودھری »

چاند بابو
اور
رضی صاحب
شکریہ
Post Reply

Return to “ادبی شخصیات کا تعارف نامہ”