جو چلے تو جاں سے گزرگئے!.....ڈاکٹرخالد محمود سومرو شہید

ملکی اور غیر ملکی شخصیات کا تعارف اور اردونامہ کے ان کے ساتھ کیئے گئے انٹرویو پڑھنے کے لئے یہاں تشریف لائیں
Post Reply
اعجازالحسینی
مدیر
مدیر
Posts: 10960
Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین
Contact:

جو چلے تو جاں سے گزرگئے!.....ڈاکٹرخالد محمود سومرو شہید

Post by اعجازالحسینی »

جو چلے تو جاں سے گزرگئے!
بھٹوخاندان کے راہنماؤں کے بعدشاید ہی لاڑکانہ کی داخلی سیاست پہ کوئی شخص اس قدراثراندازہواجتناکہ ڈاکٹرخالدمحمودسومروہوئے۔ان کے پیچھے نہ خاندان تھا اور نہ کوئی جماعت۔ ان کوبلکہ یہ چیلنج درپیش تھاکہ وہ اپنے زوربازوپہ پی پی کے پایۂ تخت میں اپنا وجود منوالیں۔ دوخصوصیتوںکے ساتھ وہ آگے بڑھے۔ ایک بے باکی اور دوسراسحربیانی۔ اپنی جماعت کے مزاج کے برعکس وہ ایک جارحانہ اسلوب کے ساتھ سیاست کے میدان میں اترے۔ یہی بے خوفی و بےباکی پھران کی گفتگو سے جھلکتی نظرآئی۔ آمروں کے دور میں وہ بابندِ سلاسل رہے یا پھرنظربند۔ نصیب میں رہائی ملتی توسماعتوں کواپنی معجزبیانی کااسیربنادیتے۔سماعتوں کو ان کے سحرسے آزادکرناہوتاتو خود ان کوسینٹرل جیل کااسیربنادیتے۔ اسٹیج پہ براجمان ہوتے تو حلم و جلال کا ایک زبردست امتزاج بکھیردیتے۔ شیریں سخن اپنی مثال آپ۔ شعلہ بیانی لاجواب۔الفاظ و حروف ہاتھ باندھے ان کی جناب میں پہنچتے۔ پل میں رلادیں اور پل میں ہنسا دیں۔ دھیمے سروں میں گفتگو شروع کرتے تو طنز ومزاح کادورچلتا۔ پھرمترنم گفتگو پہ آتے ،تومجمع ساکت۔ ایسے مدوجزرکے ساتھ لے اٹھاتے کہ ذوق عش عش کراٹھے۔کچھ دیرکو رکتے،اور پھراس قدروجد کے ساتھ اپنی گفتگوکا کلائمکس توڑتے کہ برف کی سلوں میں آگ لگ جائے۔اسی جلال کے ساتھ اسٹیج سے اترتے تومارے رعب کے ہاتھ ملانا مشکل ہوجاتا۔ مگرسلام کے جواب میں جب پوری توجہ آپ پہ مرکوزکرکے احوال پوچھتے،تویقین کرنامشکل ہوجاتاکہ وہی قہرڈانے والا لیڈر ہے؟انتہائی شفیق۔بے پناہ ملنسار۔عاجزی کے نفیس پیکر۔اعلی اقدار کے مالک۔ منجملہ خصوصیات کے ساتھ وہ لاڑکانہ کی سڑکوں پہ نکلے اوراپنے قدموں کے گہرے نقش چھوڑتے چلے گئے۔ ایسے نقش جس کے خوش گواراثرسے مخالف بھی خودکونہ نکال سکا۔
وقت اگرکچھ مہلت مزیددیتاتودنیا جان پاتی کہ ڈاکٹر خالد سومروپاکستان کے ان چند سیاسی راہنماؤں میں سے تھے،جوخالص عوامی سیاست پہ یقین رکھتے تھے۔ دم بدم ہرقدم وہ اپنے حلقے میں اپنے لوگوں کے ساتھ پائے جاتے۔ وہ اس بات کو جانتے تھے کہ سیاست کا مطلب انسانیت کی خدمت کے سوا کچھ نہیں۔ اسی بنیادپہ لاڑکانہ میں انہوں نے اپنا وہ مقام پیدا کرلیاجو لاڑکانہ کے منتخب نمائندوں اور وزراکے حصے میں بھی نہیں آیا۔ آپ لاڑکانہ کے کسی بھی مقام پہ کھڑے ہوکرایک رکشے والے سے کہیں ’’ڈاکٹرخالدسومروکے ہاں جاناہے‘‘ وہ اگلا سوال کیئے بغیرآپ کو خالدسومروکے گھرپہنچا دے گا۔ کسی خستہ سی گلی میں چھ انچ کی دوکان میں بیٹھے کسی اجرک فروش سے کہہ دیں ’’میں ڈاکٹرخالدسومروکے ہاں سے آیاہوں‘‘تو وہ جھٹ سے آپ کے احترام میں دست بستہ کھڑاہوجائے گا۔ ان کا یہی احترام لاڑکانہ کے اقلیتوں میں اور خاص طورسے ہندووں میں پایا جاتاہے۔ اس کی وجہ ڈاکٹرخالد سومروکا عصبیت سے پاک سیاسی جدوجہد کاایک سفر ہے۔ سیاسی گہماگہمیوں میں کبھی رواداری بردباری اور وسعت ظرفی پہ انہوں نے سمجھوتہ نہیں کیا۔ کم لوگ یہ جانتے ہیں ڈاکٹرخالد سومروہمیشہ الیکشن کے معرکے میں بے نظیربھٹوصاحبہ کے مقابلے میں اترے۔ یہ معرکہ وہ اس یقین کے باوجود لڑتے کہ میں ہارجاؤں گا۔لاڑکانہ میں بھٹو خاندان کوتقدس حاصل ہے۔ان کی حیثیت کو چلیلنج کرنے کو بدشگونی سے تعبیرکیاجاتاتھا۔پھربے نظیرصاحبہ کوچیلنج کرناصنم کدے کو ڈھادینے کے مترادف تھا۔کیاقوم پرست اور کیاخداپرست، کسی میں بھی مدمقابل آنے کی اخلاقی جرات نہیں تھی۔ڈاکٹرخالد محمودسومرونے بینظیرصاحبہ کوچیلنج کرکے اس تصورکوتوڑکے رکھ دیا۔تقدس کاایک بت جو لاڑکانہ کے وڈیروں نے تراشا تھا ،وہ پاش پاش ہوگیا۔ڈاکٹرصاحب کی بغاوت نے روایت ہی بدل ڈالی۔ بے نظیرصاحبہ کے مقابلے میں وہ چالیس پینتالیس ووٹ حاصل کرپاتے۔ ان کے سیاسی رفقا ان سے کہتے ’’میاں! چھوڑدویہ حلقہ کہیں اور سے کھڑے ہوجاؤتو جیت کرقومی اسمبلی پہنچ جاؤگے‘‘۔ وہ کہتے ’’میں محترمہ سے ملنے والی شکست کو کسی بھی فتح پرترجیح دوں گا‘‘۔پھروہ وقت بھی آیاکہ محترمہ کے مقابلے میں کھڑے ہونے والے ڈاکٹرخالد محمود سومروکے ووٹ چالیس ہزارسے تجاوزکرگئے۔ اسی کو ڈاکٹرصاحب اپنی فتح سے تعبیرکرتے۔تنہاکے مقابل جب لشکرنکلے توفتح یاب ہوکربھی لشکرنامرادٹھہرتاہے۔سیاسی اکھاڑے کا شایدہی کوئی پہلوان ہوجس نے معرکہ آرائی کے اس دھج کا لطف لیاہو۔ ظاہرہے صوبائی اسمبلی میں پہنچنا ان کے لیئے کوئی جوئے شیرلانے کے مترادف ہرگزنہیں تھا، مگرسیاسی جدودجہد نے انہیں جو مقام عطا کیاوہ کسی بھی سیاسی مقام سے آگے نکل چکاتھا۔ شرجیل میمن شرمیلا فاروقی اوراویس مظفرٹپی کی اسمبلی میں ڈاکٹرسومروکا بیٹھناعزت نفس کی سراسر پامالی تھی۔سو یہ سودانہوں نے نہیں کیا۔اپنی دنیااوراپنی اسمبلی انہوں نے بسائی۔وہ روزانہ کی بنیادپرلاڑکانہ کے کسی بھی منتخب نمائندے سے بڑھ کرعوامی مسائل سنتے اورحل کرتے۔ اپنے پورے سیاسی دورانیئے میں وہ سینیٹ منتخب ہوئے ،مگراپنے باقی رفقائے سیاست کی طرح وہ اسلام آبادکو پیارے نہیں ہوئے۔ہمحسب ِ روایت اپنے حلقے میں ہی پائے گئے۔ شام کی کچہری ان کا برسوں سے معمول رہا۔وہ مدرسے کےصحن میں بیٹھتے ۔ ڈھیروں کرسیاں رکھی ہوتیں۔ڈاکٹرصاحب کی نشست کی برابروالی نشست پہ ایک شخص لینڈلائن فون لیئے بیٹھا ہوتا۔ لوگ آتے جاتے۔اپنادکھڑاسناتے۔ڈاکٹرصاحب متعلقہ وزیریاآفیسرکوفون لگانے کاکہتے۔بات کرتے اور مسئلہ حل ہوجاتا۔ اپنے مسائل سنانے والوں میں مسلم غیرمسلم ، شیعہ سنی، حریف و حلیف سب شامل ہوتے۔مجھے رشک آیا یہ دیکھ کرکہ انسان کو ہمیشہ انہوں نے انسان کی نظرسے دیکھا۔انسان کا مسلک اور اس کا مذہب تلاش کرنے کی بیہودہ جسارت کبھی نہیں کی۔
ایک دوسرادلچسپ پہلوان کے اپنے حریفوں کے بارے میں وہ خیالات ہیں ،جس کا وہ کسی بھی محفل میں برملا اظہارکرتے۔ مثلا آپ ان سے پسندیدہ سیاست دان کا پوچھتے تو جھٹ سے ذولفقارعلی بھٹوکانام لیتے۔ ذولفقارعلی بھٹوکی خوبیاں بیان کرتے ہوئے اس قدرجذباتی ہوجاتے کہ گمان گزرتا کہ شاید وہ کبھی پیپلزپارٹی کے جیالے رہ چکے ہیں۔ محترمہ بینظیربھٹوکے وہ براہ راست حریف تھے،مگرمحترمہ کی خوبیاں بیان کرتے وقت زبان کو ادنی درجے میں بھی بددیانتی کی ہوا لگنے نہ دیتے۔ اختلاف اورمخالفت کافرق صحیح معنوں میں ان کے ہاں نظرآتا۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ یا وفاق میں کسی بھی اعلی وزارت پہ فائز ان کے سخت سے سخت حریف کابھی لاڑکانہ سے گزرہوتاتولازمی وہ ڈاکٹرصاحب کے دولت کدے پہ حاضر ہوتا۔ورنہ کیایہ آسان کام تھاکہ جمعیت علمائے اسلام سندھ میں اپنے قدم جماسکے؟بلوچستان اورپختونخواکے مذہبی راہنماؤں کو جمعیت علمائے اسلام بنی بنائی مل گئی تھی۔ ان دوصوبوں میں جے یو آئی مذہب کدے کوراہنمامہیاکرتی ہے۔ اندرونِ سندھ وہ واحد مقام ہے جہاں جے یوآئی کے پیداہونے اور فروغ پانے میں ایک راہنماکاہاتھ تھا۔میرااحساس یہ ہے کہ خودجے یوآئی کے وابستگان کو بھی اس بات کاٹھیک سے اندازہ نہیں ہے کہ شب خون مارنے والوں نے ان سے کیاسرمایہ چھیناہے۔ وابستگان بھی محض ایک خطیب کوکھودینے کانوحہ پڑھ رہے ہیں۔سچ مگریہ ہے کہ وہ اپنے زورِ بازو پہ جینے والا ایک لیڈرتھا۔وہ اپناجہاں خود اپنے ہاتھوں سے تعمیرکرنے والاانسان تھا۔ ایک ایسا انسان جس نےدوسروں کے شکارپہ اپنا پیٹ نہیں پالا۔ سیاست کوجس نے عبادت سمجھ کرنبھایا۔ ایک جماعت یتیم نہیں ہوئی۔یہ رواداری ، وضع داری اوربلنداقدار کاایک جہان ویران ہواہے۔
مجھے رہ رہ کران کی ایک ادایاد آتی ہے۔ جب توجہ سے وہ کسی اجنبی کی بات دیرتلک سنتے،یہ اداکبھی نہیں بھولتا۔میں نہیں بھول پاتاوہ انداز،کہ جب کوئی پسماندہ حال شخص بھی سلام کیلئے ہاتھ بڑھاتا،توباقاعدہ رک کرجواب دیتے اور حال پوچھتے۔اس مرگِ ناگہاں کا یقین خودکودلانابہت مشکل ہے۔یہ عجیب لاشاہے جس نے دوہرے احساس میں مبتلا کردیاہے۔دکھ بھی فخربھی۔دکھ ایسا کہ کلیجہ منہ کو آتاہے۔فخرایساکہ کلیجے میں سکون اترآتاہے ۔ دعائے مغفرت کیلئے بے ساختہ ہاتھ بھی اٹھتے ہیں اورپھرکانپ سا جاتاہوں۔اس کومیرے دعاؤں کی کیاحاجت جس کے ہرقطرۂ خوں نے صبح کے سجدے میں سچائی کی اذان دی۔ جی ہاں! فجرکی سنتیں اداکرتے ہوئے ان کی جبینِ نیازابھی سجدہ ریزہوئی تھی کہ گیارہ گولیاں ان کی پشت میں اتاردی گئیں۔کیاکہنے۔کیاہی کہنے۔کس دھج سے یہ شخص مقتل میں گیا ۔ بخدامیرے پاس لفظ نہیں ہیں۔ایک رشک کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ان کی تصویرمیرے روبروہے۔لاڑکانہ میرے سامنے ہے۔ اورفیض احمد فیض یادآرہے ہیں
جورکے توکوہ گراں تھے ہم ،جو چلے تو جاں سے گزرگئے
رہِ یار ہم نے قدم قدم، تجھے یادگار بنادیا
بشکریہ فرنود عالم صاحب
Farnood Alam
[center]ہوا کے رخ پے چلتا ہے چراغِ آرزو اب تک
دلِ برباد میں اب بھی کسی کی یاد باقی ہے
[/center]

روابط: بلاگ|ویب سائیٹ|سکرائبڈ |ٹویٹر
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: جو چلے تو جاں سے گزرگئے!.....ڈاکٹرخالد محمود سومرو شہید

Post by چاند بابو »

بہت شکریہ محترم اعجاز الحسینی صاحب بہت عرصہ بعد تشریف لانے اور ڈاکٹر خالد محمود سومرو شہید کے حالات زندگی پر روشنی ڈالنے پر.
اللہ پاک شہید کے درجات بلند فرمائے اور ان کی شہادت کے پیچھے کارفرما افراد کو بے نقاب فرمائے اور انہیں کیفرِ کردار تک پہنچائے آمین.
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
محمد شعیب
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 6565
Joined: Thu Jul 15, 2010 7:11 pm
جنس:: مرد
Location: پاکستان
Contact:

Re: جو چلے تو جاں سے گزرگئے!.....ڈاکٹرخالد محمود سومرو شہید

Post by محمد شعیب »

ڈاکٹر صاحب کی شہادت یقینا ایک بہت بڑا المیہ ہے. بندہ کو جب یہ خبر پہنچی تو یقین نہیں ہورہا تھا. ڈاکٹر صاحب تو ایک مخلص اور غیرمتنازع شخصیت تھی.
اللہ حضرت کو غریق جنت فرمائےاورورثاء کو صبرجمیل..
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: جو چلے تو جاں سے گزرگئے!.....ڈاکٹرخالد محمود سومرو شہید

Post by چاند بابو »

اصل مسئلہ ہی یہی ہے کہ دین یا پاکستان کے ساتھ مخلص افراد کو چن چن کر ہٹایا جا رہا ہے.
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Post Reply

Return to “ادبی شخصیات کا تعارف نامہ”