اقبال کا کلام دریا برد کر دو

اردو کے بہترین ناول، افسانے پر ایک نظر، تبصرے، تجزیئے، تنقید
Post Reply
میاں محمد اشفاق
منتظم سوشل میڈیا
منتظم سوشل میڈیا
Posts: 6107
Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: السعودیہ عربیہ
Contact:

اقبال کا کلام دریا برد کر دو

Post by میاں محمد اشفاق »

میں اگرچہ اقبال کی صناعی کا بہت قائل ہوں تاہم میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اقبال کی شاعری کو بین کردینا چاہئے، اللہ کا شکر ہے کہ اس کی شاعری کا کچھ حصہ تو پہلے ہی سے چھپا کر رکھا گیا ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ اسے ہوا نہ لگنے پائے۔ مثلاً

اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگادو
کاخ امراء کے درو دیوار ہلا دو

جبکہ دوسری طرف ہمارے حاکم اور ہمارے سیاستدان جلسے جلوسوں میں

ایک ولولہ تازہ دیا تونے دلوں کو

والا شعر پورے تواتر سے استعمال کرتے ہیں اور عوام کو سمجھاتے ہیں کہ اقبال نے یہ شعر ان کی قیادت کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے کہا ہے مگر میں نے کسی سیاستدان اور کسی حاکم کی زبان سے اقبال کا یہ شعر

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہٴ گندم کو جلا دو

کبھی نہیں سنا اور یہ بہت اچھی بات ہے کیونکہ اگر پاکستان کے غریب جاگ اٹھے تو وہ کاخ امراء کے درو دیوار ہلا دیں گے جس کھیت کی ساری کمائی جاگیردار لے جاتا ہے ،وہ اس کھیت کے ہر خوشہٴ گندم کو جلانے کی بات کریں گے اور یوں سرمایہ دارانہ جمہوریت جو ہماری بقاء کی ضامن ہے ،خواہ مخواہ عوامی جمہوریت کے ہتھے چڑھ جائے گی اور یوں ہمارا مراعات یافتہ طبقہ ان ٹکے ٹکے کے لوگوں کی نظر کرم کا محتاج ہو کر رہ جائے گا۔

مگر اقبال کے کلام کے صرف اس حصے کو عوام سے چھپا چھپا کر رکھنے سے کام نہیں بنے گا بلکہ ضروری ہے کہ اقبال کا سارا کلام دریا برد کردیا جائے کیونکہ ہم جس ڈھب پر اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں اور یہ زندگیاں ہمیں بہت عزیز ہیں۔ اقبال اسے زندگی نہیں، موت قرار دیتا ہے اور یوں ہمارے جذبات کو ٹھیس پہنچاتا ہے، مثلاً ہم مطمئن ہیں اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کے گھرپیدا کیا بلکہ ہم اس کے دین کی پیروی کرتے ہوئے نماز، روزے میں کبھی غفلت نہیں برتتے لیکن اقبال اس کے باوجود ہمیں کچوکے دیتا رہتا ہے، وہ ہمارے ان نام نہاد ہی سہی مذہبی پیشواؤں کو بھی نہیں بخشتا جن کے ہم ہاتھ چومتے ہیں اور جنہوں نے ہمیں یقین دلا رکھا ہے کہ تم جتنی چاہو دنیا داری کرو، ہم تمہاری انگلی پکڑ کر اپنے ساتھ جنت میں لے جائیں گے اور داروغہ جنت بس منہ دیکھتا رہ جائے گا۔ اقبال کی ساری شاعری اس طرح کی باتوں سے بھری پڑی ہے ،مثلاً وہ کہتا ہے۔

رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے
وہ دل وہ آرزو باقی نہیں ہے
نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہیں تو باقی نہیں ہے
==================
میں جانتا ہوں جماعت کا حشر کیا ہوگا
مسائل نظری میں الجھ گیا ہے خطیب
==================
کس کومعلوم ہے ہنگامہ فردا کا مقام
مسجد و مکتب و میخانہ ہیں مدت سے خموش
==================
دل ہے مسلماں تیرا نہ میرا
تو بھی نمازی ، میں بھی نمازی
میں جانتا ہوں انجام اس کا
جس معرکے میں ملا ہوں غازی
==================
تیرا امام بے حضور تیری نماز بے سرور
ایسی نماز سے گزر، ایسے امام سے گزر
==================
نہ فلسفی سے نہ ملا سے ہے غرض مجھ کو
یہ دل کی موت وہ اندیشہ نظر کا فساد
==================
رہا نہ حلقہ صوفی میں سوز مشتاقی
فسانہ ہائے کرامات رہ گئے باقی
کرے گی داور محشر کو شرمسار اک روز
کتاب صوفی و ملا کی سادہ اوراقی
==================

وغیرہ وغیرہ…اور یہ وغیرہ وغیرہ میں نے اس لئے کہا ہے کہ اقبال کے کلام میں اس طرح کے اور بہت سے کچوکے ہیں جن سے وہ ہمارے دلوں کو زخمی کرتا ہے، صرف یہی نہیں بلکہ اس کے بعد ہمیں اپنی ساری عبادات بے معنی لگنے لگتی ہیں کیونکہ اس کے نزدیک ہم عبادات کی اصل روح سے بے گانہ ہوچکے ہیں۔

میں اگر اقبال کے کلام کو بین کرنے کی بات کرتا ہوں تو اس کی صرف یہی ایک وجہ نہیں جو میں نے ابھی بیان کی ہے بلکہ اس کی اور بھی بے شمار وجوہات ہیں، جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں خدا کے فضل و کرم سے ہمارے حاکم خدا ترس ہیں۔ انہیں ہر لمحہ عوام کی فلاح و بہبود کی فکر رہتی ہے، وہ پاکستان کی خود مختاری کی حفاظت ہر قیمت پر کرتے ہیں ملک کو خوشحال بنانے کی خاطر غیر ملکی امداد کے لئے وہ ہر دروازے پر جاکر دستک دیتے ہیں مگر اقبال ان کی ان کاوشوں کو خاطر ہی میں نہیں لاتا اور کہتا ہے۔

نگاہ فقر میں شان سکندری کیا ہے
خراج کی جو گدا ہو وہ قیصری کیا ہے
بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے
فلک نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنہیں
خبر نہیں روش بندہ پروری کیا ہے
کسے نہیں ہے تمنائے سروری لیکن
خودی کی موت ہو جس میں وہ سروری کیا ہے

خودی، خودی، خودی اقبال کی اس تکرار نے ہماری نیندیں حرام کی ہوئی ہیں، کیا خودی کے ذریعے عظیم الشان محلات کھڑے کئے جاسکتے ہیں، کیا خودی سے سوس اکاؤنٹس کا پیٹ بھرا جاسکتا ہے، کیا خودی سے اربوں کھربوں کے قرضے لئے جاسکتے ہیں، اقبال کی یہ سوچ ہماری قوم کے نوجوانوں کو گمراہ کررہی ہے اور ان کے دلوں میں ظل الٰہی کے خلاف باغیانہ خیالات جنم لینے لگتے ہیں ، لہٰذا اقبال کو بین کئے بغیر آنے والے حالات پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔


اقبال کی شاعری صرف ہمارے لئے خطرہ نہیں ہے بلکہ دنیا بھر میں جن ملکوں کے عاقل و بالغ ذہنوں نے اپنی خداداد صلاحیت کے بل بوتے پر آدھی دنیا کے وسائل پر قبضہ کیا ہوا ہے اور وہاں ڈمی حکمران مسلط کرکے وہ من مانی کرتے ہیں اقبال کا کلام ان کے لئے بھی خطرے کی گھنٹی ہے، وہ قوموں کی آزادی کی بات کرتا ہے اور اس کے پیغام میں اتنی کشش ہے کہ بہت سے اسلامی ملکوں نے غلامی کی زنجیریں اتار پھینکی ہیں۔ وہ سرمایہ داری نظام کا بھی دشمن ہے۔ دنیا میں جہاں جہاں اس نظام کے خلاف بغاوت ہوگی اقبال کی شاعری ان کے ہم رکاب ہوگی، آج بہت سے سرمایہ دار ملکوں کے عوام اس نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ اقبال تو کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ سے بھی الجھتا ہوا نظر آتا ہے، وہ جب دیکھتا ہے کہ یہ سیارہ جس میں ہم رہ رہے ہیں تباہی اور بربادی کی زد میں ہے، اللہ کی تخلیق یعنی انسان انسانیت کے مقام سے گرتا چلا جارہا ہے تو وہ خدا کو مخاطب کرکے کہتا ہے۔

اگر کج رو ہیں انجم آسماں تیرا ہے یا میرا؟
مجھے فکر جہاں کیوں ہو جہاں تیرا ہے یا میرا؟
اگر ہنگامہ ہائے شوق سے ہے لامکاں خالی
خطا کس کی ہے یارب لامکاں تیرا ہے یا میرا؟
اسی کو کب کی تابانی سے ہے تیرا جہاں روشن
زوال آدم خاکی زیاں تیرا ہے یا میرا؟

میں چونکہ شاعر نہیں، کالم لکھ رہا ہوں اور کالم کی بندشوں میں ایک بندش یہ بھی ہوتی ہے کہ یہ زیادہ طویل نہ ہو ،ورنہ میں آپ کو مزید دلائل سے اس امر کا قائل کرنے کی کوشش کرتا کہ دنیا میں امن اور پاکستان میں موجودہ نظام کو استحکام بخشنے کے لئے اقبال کی شاعری پر پابندی وقت کی اہم ضرورت ہے، مثلاً یہ شاعر یورپ کی ترقی کی ایک وجہ اس کی علم دوستی بھی بیان کرتا ہے، چنانچہ جب وہ اپنے بزرگوں کی کتابیں ان کی لائبریریوں میں دیکھتا ہے تو اس کا دل سی پارہ ہوجاتا ہے اور یوں یہ شاعر دنیا بھر کے مسلمانوں کو علم کے حوالے سے اپنے آباء کی پیروی پر مائل کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ وہ ایک بار پھر دنیا کی امامت کرسکیں، دوسرے لفظوں میں وہ ہمیں جاہل کہتا ہے، ہمیں علم دشمن کہتا ہے اور اس چیز کو ہمارے زوال کا باعث قرار دیتا ہے۔ یہ سراسر ہماری توہین ہے اور یوں مسلم امہ کی توہین کرنے والے اس شاعر کو بین کرنا ضروری ہے۔ اسی طرح کئی ایک مقامات پر اقبال خدا کے حضور خواہ مخواہ انسان کا وکیل بن کر پیش ہوتا ہے اور اس کا مقدمہ خدا کی عدالت میں پیش کرتا ہے۔

باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں
کار جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر
روز حساب جب میرا پیش ہو دفتر عمل
آپ بھی شرمسار ہو مجھ کو بھی شرمسار کر

یا وہ کہتا ہے

فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں جنوں میرا
یا اپنا گریباں چاک یا دامن یزداں چاک

خود اقبال کو بھی احساس ہے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے چنانچہ وہ خود ہی کہتا ہے۔

”کرتا کوئی اس بندہ گستاخ کا منہ بند“

اب اس کے بعد مجھے کچھ مزید کہنے کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے؟
اورآخر میں اقبال کی شاعری کو بیان کرنے کی چند وجوہات میں اسی کی زبان میں بیان کرکے آپ سے اجازت چاہتا ہوں۔

میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میںغلغلہ ہائے الاماں بت کدہ صفات میں
حور و فرشتہ ہیں اسیر میرے تخیلات میں
میری نگاہ سے خلل تیری تجلیات میں
گرچہ ہے میری جستجو دیرو حرم کی نقشبند
میری فغاں سے رستخیز کعبہ و سومنات میں
گاہ میری نگاہ تیز چیر گئی دل وجود
گاہ الجھ کے رہ گئی میرے توہمات میں
تونے یہ کیا غضب کیا مجھ کو بھی فاش کردیا
میں ہی تو ایک راز تھا سینہ کائنات میں

--------------------------------
اقبال کی شاعری پر پابندی ہونی چاہئیے بلکہ اس کی ساری شاعری سمندر میں پھینک دینی چاہئیے. اقبال ہمیں سونے نہی دیتا، نیند میں خلل ڈالتا ہے.
ابھی چند صدیاں ہی تو ہوئی ہیں سوئے ہوئے اور اقبال کہتا ہے کہ

معمار حرم، باز بہ تعمیر جہاں خیز
از خواب گراں، خواب گراں، خواب گراں خیز

اے حرم کو تعمیر کرنے والے (مسلمان) تو ایک بار پھراس (تباہ و برباد) جہان کو تعمیر کرنے کیلیے اٹھ کھڑا ہو، (لیکن تُو تو خوابِ غفلت میں پڑا ہوا ہے) اٹھ، گہری نیند سے اٹھ، بہت گہری نیند سے اٹھ۔.

اب بتائیں یہ کوئی کرنے والی بات ہے.

اور پھر اوپر سے اقبال مردار کھانے سے روکتا ہے. اور ساتھ یہ بھی کہتا ہے کہ
"اس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی"
یا پھر
"لیلی بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول"

اقبال بہت کچوکے لگاتا ہے ہمیں.

ہم نے ویسے تو بہت کوشش کی اقبال کی شاعری کو بوسیدہ کرنے کی. اس کا بےدریغ استعمال کیا ہر جگہ. جعمہ کا خطبہ ہو یا سیاسی تقریر، ہمارے سیاستدان ہوں یا مولوی، علما، دانشور، فقیر یا جرنلسٹ، وکیل ہو یا جج، استاد ہو یا شاگرد .. کسی کی تقریر اقبال کے شعر کے بغیر مکمل نہی ہوتی.....اپنی اپنی مرضی کے مفہوم نکالنے اور اس کے شعروں کو گڈمڈ کرنے کی بہت کوشش کی. حتیٰ کہ کلام اقبال کو ہم نے قوالیوں میں گا گا کر بوسیدہ کرنے کی کوشش کی. ٹیلی ویژن چینلوں پر اقبال کے اشعار گائے اور پڑھے جاتے ہیں اقبال کے نام پر بننے والے اداروں کے سربراہ سکرین پر آکر رٹی رٹائی تقریریں کرتے ہیں اور پھر

بپا ہم سال میں اک مجلس اقبال کرتے ہیں
پھر اْسکے بعد جو کرتے ہیں وہ قوال کرتے ہیں

اس سب کے باوجود بھی اقبال کا پیغام اپنی تاثیر نہی کھو رہا. اب ایک ہی حل ہے کہ اسے دریا برد کر دیا جاے. ورنہ یہ ہماری نیندیں حرام کرتا رہے گا.

تحریر غیرت مند پاکستانی

https://www.facebook.com/urdunama
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
sanisnow88
کارکن
کارکن
Posts: 57
Joined: Wed Jul 22, 2015 2:36 pm
جنس:: عورت

Re: اقبال کا کلام دریا برد کر دو

Post by sanisnow88 »

بہت خوب

Sent from my Nokia_X using Tapatalk
ایم ابراہیم حسین
کارکن
کارکن
Posts: 166
Joined: Fri Oct 31, 2014 7:08 pm
جنس:: مرد

Re: اقبال کا کلام دریا برد کر دو

Post by ایم ابراہیم حسین »

بہت خوب محترم
بہت ہی عمدہ موضوع بیان کیا آپ نے

Sent from my LenovoA3300-HV using Tapatalk
Post Reply

Return to “نقدونظر”