کیا ہم اس کے ذمہ دار نہیں ؟؟؟

اردو نثری قلم پارے اس فورم میں ڈھونڈئے
Post Reply
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

کیا ہم اس کے ذمہ دار نہیں ؟؟؟

Post by چاند بابو »

ابّا کے انتقال کے بعد مجھے جو سب سے بڑا بوجھ اٹھانا پڑا، وہ تھا پورے ہردوئی شہر کے سارے دوکانداروں، دفتروں میں کام کرنے والوں اور ہر محلے میں مقیم عمر رسیدہ لوگوں سے ملتے، راہ چلتے، خرید و فروخت کرتے سلام کرنا، ان کی کبھی نہ ختم ہونے والی ہمدردی کا سرجھکاکر متانت سے جواب دینا۔ حد یہ تھی کہ مجھے یتیم ہوئے سال گذر گیا ، میرے زخم بھر گئے، لیکن ان تمام لوگوں نے بلا تفریق مذہب و ملت اپنے سلوک میں ذرا بھی کمی نہیں آنے دی۔ پتہ نہیں ابا نے ان کے درمیان کس قدرمحبت لٹائی تھی اور اخوت کی کون سی روایت جاری کی تھی کہ اچانک ان کے بعد وہ سب مجھ کو ہی مع سود واپس کر رہے تھے۔
مجھے ایک کاپی خریدنے کے لئے بڑے چوراہے جانا ہے، لیکن راستہ میں ابراہیم ٹیلرماسٹر کی آواز پر رکنا ضروری ہے، دو قدم بعد خراد کے کارخانے سے مختار چچا کو اپنی خیریت بھی بتانا ہے اور انکے گلے کی خرابی پر تشویش بھی ظاہر کرنی ہے۔ چھوٹے چوراہے پر قطار سے ابا کے چاہنے والے پنساری دوکانداروں، پان فروشوں، سبزی فروشوں اور کپڑے کی دوکانوں میں بیٹھے سبھی لوگوں کو میرے لئے بنی انکی تشویش کا ازالہ کرنا ضروری تھا۔ یہ سب ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ تھا۔ ۔۔۔ کیسے لوگ تھے اور کیا زمانہ تھا۔۔۔محبت بھی بوجھ بن سکتی ہے اس کا تجربہ بھر پور ہو رہا تھا۔ کسی چھوٹی سے چھوٹی ضرورت کے لئے بھی مجھے واپس آنے کے لئے آدھا گھنٹہ چاہئے ۔ ابا نے اپنی وراثت میں دولت چاہے کم چھوڑی ہو ، لیکن پیار و اخوت کی بارش میں بھیگ بھیگ کر میرا برا حال تھا۔ یہ دنیا تھی جو میرے ابا نے میرے لئے چھوڑی تھی اس پر نہ تو تقسیم ملک کا کالا سایہ پڑا اور نہ ہی بدلتی تہذیب کے تند جھونکے اس کا رخ موڑ سکے۔
انٹرمیڈئیٹ تک تعلیم مکمل کرکے بالآخر مجھے ہردوئی سے باہر نکلنا پڑا۔
لکھنؤ میں الکٹرکل انجینیرنگ ڈپلوما کی تعلیم شروع ہوئی۔ تین سال گذرے، پھر دو سال اسی پالی ٹیکنک میں ڈمانسٹریٹر کی سروس کے بعدریلوےکے ڈیزیل انجن کارخانہ بنارس میں بطور جونیر انجینیر سروس کرلی۔ اس درمیان لگ بھگ چھہ سال ہردوئی سے ناتا صرف تیوہاروں تک سمٹ گیا ۔ صرف عید یا بقرعید پر ایک دو دن کے لئے جاتا تھا۔
ایسے ہی کسی موقع پر ہردوئی کی پرانی سڑکوں پر کسی ضرورت سے گذر رہا تھا۔ احتیاطاً نظریں نیچی کر رکھی تھیں کہ مبادہ کسی بزرگ سے نظریں ملیں اور میں پھر اسی جال میں پھنس جاؤں۔ راستہ کی بھیڑ، جو ان چھہ سالوں میں دو گنی ہو چکی تھی، کے درمیان سے گذرتے ہوئے سامنے سے آنے والی سواریوں سے بچنا ضروری تھا۔ آگے نظر اٹھی تو ایک کمزور لاغر سی ‘ کایا ’ دوسرے فوٹ پاتھ پر سامنے سے آتی ہوئی دکھی۔ کچھ کشش کا سبب ضرور تھا کہ میں بار بار اس طرف دیکھنے کو مجبور ہورہا تھا۔ آنکھیں ان کی بھی مجھے پہچاننے کی کوشش کر رہی تھیں۔۔۔ مستقلاً گھورتی آنکھیں۔۔۔۔
جب میں نے محسوس کیا کہ وہ میرے پاس آنے کے لئے فوٹ پاتھ کراس کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، تو میں خود ہی ان کی جانب چلا گیا۔ اس بیچ ان کا بایاں ہاتھ دھوتی کی کناری پکڑ چکا تھا اور میرے دماغ میں‘ گنیش جی’ کا لفظ بجلی کی مانند کَوند گیا۔ یہ تو میرے درجہ چھہ سات میں سناتن دھرم انٹر کالج کے ہندی ٹیچر شاستری جی ہیں۔ اس وقت یہ پستہ قد لیکن اچھی صحت اور بڑے پیٹ کی وجہ سے ہم لوگوں کے بیچ گنیش جی کے نام سے مشہور تھے۔ آج وقت کے تند جھونکوں نے انھیں ایکدم خستہ اور لاغر بنا دیا۔ نہایت ضعیف لگ رہے تھے۔
قریب پہونچنے پر جیسے ہی میرے ہاتھ سلام کے لئے بلند ہوئے، کانوں میں آواز آئی ‘‘ کیسے ہو ۔۔۔احتشام؟’’
مجھ پر گھڑوں پانی پڑ گیا۔ اُن سے میں تقریباً بارہ سال بعد مل رہاتھا اور پھر بھی انھوں نے میرا نام یاد رکھا۔
ان کا اگلا سوال تھا ـ ‘‘ بنارس سے کب آئے؟’’۔۔۔ اسکا مطلب تھا کہ وہ میرے بارے میں ساری جانکاری رکھتے تھے۔
اسکے بعد تو انھوں نے پُرانی یادوں اور ابا سے اپنے تعلقات بیان کرنے کا ایک لمبا سلسلہ شروع کردیا۔ بتایا کہ وہ پانچ سال پہلے اسکول سے سبکدوش ہو چکے ہیں۔ اُس وقت کے ہمارے کلاس ٹیچر بابو وجے شنکر کا انتقال ہو گیاہے۔
ہاں ! جب انھوں نے یہ بتایا کہ میرے ہسٹری ٹیچر اوم دت شرماؔ جی بھی اس دنیا میں نہیں رہے تو میرے منھ سے بے تحاشہ ‘‘ ہُرّ ا ’’ کی صدا نکلنے جارہی تھی جسے فوراً کسی طرح گلے میں ہی دبا دیا۔ در اصل میری پوری اسکولی زندگی میں کبھی کسی استاد نے مارا نہیں تھا، لیکن یہ ظالم شرما ؔ جی وہ شخص تھے جنھوں نے مجھے بھی نہیں بخشا۔ ان کے مرنے کی خبر سے میرے دل میں کہیں بند پڑے خوف نے اچانک دم توڑ دیا۔ بالآخر مجھے ضرر پہونچانے والی آخری ہستی بھی اس دنیا میں نہیں رہی۔
شاستری جی بیچارے سمجھ رہے تھے کہ مجھے اس خبر نے بہت صدمہ پہونچایا ہے۔ بولے ارے بیٹے اب تو ہم پکے پھل ہیں ، کون پہلے ٹپک جائے معلوم نہیں۔ جب تمہارے والدین بچھڑ گئے تو ہم سب بھی تیار ہیں۔ دل پر مت لینا۔ وغیرہ وغیرہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج اپنی زندگی کے آخری کنارے پر کھڑے ہوئے سوچتا ہوں میرے بزرگوں نے میرے لئے ورثہ میں کیا معاشرہ، کیا تہذیب اور کیا اخوت چھوڑی تھی۔ محبت کی وہ بارشیں تو اب بھائی بہنوں میں بھی عنقا ہیں، محلہ شہر کی تو بات دور کی ہے۔ اور پھر ہم آج دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے اپنے بچونکو کیا وراثت دے رہے ہیں؛ اس لٹی ہوئی دنیا کا ذمہ دار ہمارے علاوہ کون ہے۔ سلوک کس طرح سودے میں بدل گیا۔ بے لوس محبت ہم سے کہاں کھوگئی ۔آج کے معاشرہ میں بارودی بدبو اور گولیوں کا خوف کس نے پیدہ کیا۔ کیا ہم اس کے ذمہ دار نہیں ؟؟
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
علی خان
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 2628
Joined: Fri Aug 07, 2009 2:13 pm
جنس:: مرد

Re: کیا ہم اس کے ذمہ دار نہیں ؟؟؟

Post by علی خان »

میرے‌خیال سے ہم سے زیادہ ہمارے بڑے جو ڈالروں کا چکا چونڈ کے پیچے بھاگم بھاگ دوڑ رہیں ہیں. اس میں سب سے زیادہ انہی لوگوں کا ہاتھ ہے، کیونکہ اس ملک کی باک دوڑ ان ظالموں کے ہاتھ میں ہے، ہم انفرادی طور پر ذمہ دار ہیں، مگر یہ بے ضمیر لوگ اجتماعی طور پر ان سب مسائل کے ذمدار ہیں. یہ لوگ پورے معاشرے کی تباہی کے ذمہ دار ہیں.

ویسے ماجد بھائی بہت ہی نِرالی اور بہت ہی اعلیٰ پوسٹ کی ہے آپ نے. مجھے واقعی میں بہت پسند آئی.
اس پوسٹ پرمیری طرف سے شکریہ قبول کریں.
میں آج زد میں ہوں خوش گماں نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں .
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: کیا ہم اس کے ذمہ دار نہیں ؟؟؟

Post by چاند بابو »

پسند کرنے کا بہت بہت شکریہ اشفاق بھیا.
یہ میری اپنی تحریر نہیں مگر مجھے اس کے مصنف کا نام بھی نہیں مل سکا اس لئے بغیر نام کے شائع کر دی.
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
اضواء
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 40424
Joined: Sun Aug 15, 2010 4:26 am
جنس:: عورت
Location: {الدمام}المملكةالعربيةالسعوديه

Re: کیا ہم اس کے ذمہ دار نہیں ؟؟؟

Post by اضواء »

بہت ہی بہترین تحریر پئیش کرنے پر آپ کا بہت بہت شکریہ ۔۔۔۔
[center]یہ بھی انداز ہمارے ہے تمہیں کیا معلوم
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
بلال احمد
ناظم ویڈیو سیکشن
ناظم ویڈیو سیکشن
Posts: 11973
Joined: Sun Jun 27, 2010 7:28 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: کیا ہم اس کے ذمہ دار نہیں ؟؟؟

Post by بلال احمد »

اعلی شیئرنگ ہے، چاند بھائی بہت اعلی

اشفاق بھائی میں آپ کی بات سے کسی حد تک اتفاق کرتا ہوں لیکن یہ بھی تو دیکھیں کہ حکمران ریاعا سے ہی بنتے ہیں، اگر رعایا نہ چاہے تو حکمران کیسے بن اور کیونکر بن سکتے ہیں؟؟ بلاشبہ ہم ہی اس کے ذمہ دار ہیں انفرادی بھی اور اجتماعی بھی، کیونکہ قطرہ قطرہ ہی دریا بنتا ہے، کیا ہمیں اپنی ذمہ داری کا احساس خود نہیں کرنا چاہیے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھرہم کیوں کسی کو قصور وار ٹھہراتے ہیں؟ ہمیں چاہیے کہ جو غلط ہے چاہے وہ اپنے لیے ہے یا پھر دوسروں کیساتھ ہے اس کی کھل کر نفی کریں اور ایسے فعل کی حوصلہ شکنی کریں لیکن اگر تو کسی کے گھر کو آگ لگی ہو تو ہم کان لپیٹ کر گزر جاتے ہیں اور جب اپنے گھر کو لگے تو شور مچاناشروع کردیتے ہیں، یہ تو خود غرضی ہوئی-
بڑی بے چین رہتی ہے طبیعت اب میری محسن
مجھے اب قتل ہونا ہے، مگر قاتل نہیں ملتا
شاہین اعوان
دوست
Posts: 292
Joined: Sat May 12, 2012 11:08 pm
جنس:: عورت

کیا ھم اس کے زمے دار نہیں

Post by شاہین اعوان »

اسلام و علیکم
بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرنے والی تحریر ھے
سوال یہ پیدا ھوتا ھے ؟ کہ اس سارے معاملے کو کس
طرح حل کیا جا سکتا ھے -سوچوں میں کس طرح ھم‌ آہنگی پیدا کی جاےً-کہ عوام اور حکومت کسی ایک نقطے پر ایک ھو جائیں -آخر کب تک ھم سب اپنی زمہ داریوں سے پہلو تہی کرتے رہیں گیےً - ھم کب اپنی ان زمے داریوں کا احساس کریں گیے جو ھمارے اجداد کی میراث ھیں -
علی خان
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 2628
Joined: Fri Aug 07, 2009 2:13 pm
جنس:: مرد

Re: کیا ہم اس کے ذمہ دار نہیں ؟؟؟

Post by علی خان »

بلال احمد wrote:

اشفاق بھائی میں آپ کی بات سے کسی حد تک اتفاق کرتا ہوں لیکن یہ بھی تو دیکھیں کہ حکمران ریاعا سے ہی بنتے ہیں، اگر رعایا نہ چاہے تو حکمران کیسے بن اور کیونکر بن سکتے ہیں؟؟

نہیں بلال اسمیں سراسر حکمرانوں کا ہاتھ ہے، بلال تم خود سوچوں %58 فیصد ووٹوں والی اسمبلی کسطرح پورے ملک کی نمائندگی صیحح طور پر کر سکتی ہے، ووٹ تو زیادہ تر وہ لوگ ڈالتے ہیں جو یا تو خود سیاسدان ہیں، یا پھر سیاسدانوں کے ٹولے سے تعلق ہوتا ہے، اور ایک اور بات ان %58 فیصد میں جعلی ووٹ بھی تم کو معلوم ہیں کہ کتنے ہیں. یہ انکی ذمہ داری ہے، کہ قوم کے مفاد میں فیصلے کریں، یہ بے غیرت حکمران تو قانون کو بھی اپنی جوتی کی نوک پر رکھتے ہیں، جب ایک ملک کے حکمران ایسے ہوں، تو پھر رعایا سے کیا گِلا،
باقی انفرادی طور پر ہم ایک اچھی قوم ہیں، کیونکہ یہی لوگ جب باہر کے ممالک میں جاتے ہیں، تو تمام لوگ بہت ہی اچھے طریقے سے وہا ں پر رہتے ہیں، مگر یہاں پر تو قانون ہے، مگر اس پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے کوئی بھی شخص قانون کا احترام نہیں کرتا ہے، کیونکہ وہ ڈر ہی اس دل میں‌ نہیں ہے، اور ایک اور بات قانون پرعمل درآمد لوگ کرتے نہیں، عمل درآمد کروانا پڑھتا ہے،
کیا صرف ہم ہی قانون کااحترام کریں گے، نہیں جناب پہلے حکمران کریں، قانون پر عمل درآمد ان لوگوں سے شروع ہو کر ہم لوگوں پر ختم ہوگا. جب تک یہ سب اسطرح ہے، کوئی بھی چیز اپنی جگہ پر نہیں آسکتی ہے، کوئی بھی دل سے قانون کا اخترام نہیں کر سکتا ہے..
میں آج زد میں ہوں خوش گماں نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں .
میاں محمد اشفاق
منتظم سوشل میڈیا
منتظم سوشل میڈیا
Posts: 6107
Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: السعودیہ عربیہ
Contact:

Re: کیا ہم اس کے ذمہ دار نہیں ؟؟؟

Post by میاں محمد اشفاق »

اسلام علیکم

بھائیو کیا ہم اس بات سے انکاری ہیں کہ ان سب وجوہات کی زمہ دار ہم عوام ہی ہیں ۔ کیا کوئی مخلص شخص سیاست میں آتا ہے یقننا نہیں اور اگر کوئی مخلص بن کر بھی آنا چاہے تو وہ کسی نا کسی پارٹی میں عہدیدار بن جاتا ہے جس پر پارٹی کے قانون لاگو ہوتے ہیں اس کی پارٹی جو بھی برے فیصلے کرے اس نے اس کی بھی تائید کرنی ہوتی ہے ۔ ہمیں سب سے پہے اپنے قوانین بدلنے ہوں گے خواہ وہ انفرادی ہوں یا اجتماعی تب ہی ہمارا معاشرا سدھر سکتا ہے اور جب ہمارا معاشرا سدھر جائے گا تو خواہ سیاستدان کتنا بھی بدخواہ ہو ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
علی خان
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 2628
Joined: Fri Aug 07, 2009 2:13 pm
جنس:: مرد

Re: کیا ہم اس کے ذمہ دار نہیں ؟؟؟

Post by علی خان »

میاں صاحب آپکی بات سر آنکھوں پر لیکن پارٹی کی ٹکٹ کے لئے بھی اپکو چندہ دینا ہوگا، جو یقینا بہت زیادہ ہوتا ہے، جسکی تاب کوئی بھی عام شحص نہیں رکھتا، سارا کیا دھرہ ہی ان حکمرانوں کا ہے، عام آدمی تو تب ہی کام کرسکے گا، جب اُسکو موقع ملے گا. اَب مسلہ ہی موقع کا ہے،
میں نے اُوپرکی پوسٹ میں ذکر کیا ہے، کہ ہم انفرادی طور پر ٹھیک ہیں،اب آپ اپنی مثال لے لیں، ابھی آپ سعودی عرب میں ہیں، کیا آپ وہاں کے قانون کی پاسداری نہیں کرتے ہیں، کیا آپ وہاں ضروری ڈاکومینٹس، سروس کارڈ، اِکاما، ڈرائیورنگ لائسنس، ورک پرمٹ کارڈ یہ تمام چیزیں اپنے پاس ہر وقت اور ہر جگہ لیئے ہوئے نہیں رہتے، کیا آپ پاکستان میں بھی ایسا کرتے ہیں، نہیں، کیونکہ یہاں اپکو پتہ ہے، کہ آگر یہ سب کچھ میرے پاس ہوبھی، اور پھر بھی شرطہ (پولیس) مجھے پکڑنا چاہے، یا ڈرائیونگ کی کسی غلطی پر مخالفہ (پرچہ) دینا چاہے، تو کوئی بھی نہیں روک سکتا، اور اگر روک سکتا ہے، تو وہ ہے بابائے قوم قائداعظم کی تصویر ( روپے). کیونکہ یہاں پرپوچھنے والا کوئی نہیں ہے. جسکی جتنی پہنچ ہے، وہ اُسی حد تک مال بنانے اور اس ملک کر تباہ وبرباد کرنے پر تُلا ہوا ہے.

ایک سمپل سی بات: جب گھر کے بڑے اچھے اور باکردار ہوں، تو بچے اگر اچھے نہ ہوں تو بھی ایک ڈر کے ساتھ کوئی غلط کام کرتے ہیں. کیونکہ وہ سمجھتے ہیں، کہ یہ سب اُنکے بڑوں کے لئے ناقابل قبول ہے.
میں آج زد میں ہوں خوش گماں نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں .
میاں محمد اشفاق
منتظم سوشل میڈیا
منتظم سوشل میڈیا
Posts: 6107
Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: السعودیہ عربیہ
Contact:

Re: کیا ہم اس کے ذمہ دار نہیں ؟؟؟

Post by میاں محمد اشفاق »

اسلام علیکم اشفاق بھائی
میں آپکی بات کی90 فیصید تائید کرتا ہوں ، پیسہ ہر جگہ چلتا ہے خواہ وہ کوئی بھی ملک ہو کتنا بھی ترقی یافتہ ہو ، اگر ہم بات اپنے ہی ملک کی کریں تو کوئی بھی ناجائز کام ہو رہا ہو تو اسکے پیچھے کئی عوامل ہوتے ہیں جن میں سب سے زیادہ کسی بڑے آدمی کا ہاتھ ہوتا ہے اور وہ بڑا آدمی یا تو خود سیاستدان ہوتا ہے یا کسی سیاستدان کا ہم پلہ۔ اب رہی بات کے ہم انفرادی طور پر بھی ٹھیک ہیں یا نہیں یعنی ‌کہ میں سعودیہ میں ٹھیک ہوں پاکستان میں نہیں۔ اس کی مثال آپ اس طرح سے لے لیں کہ کوئی شخص اپنے گھر میں بہت ہی مار پیٹ گالی گلوچ اور گھر میں ہر کسی سے بدتمیزی سے پیش آتا ہے اور وہ ہی شخص گھر سے باہر ہر کسی سے نرم لہجے میں بات کرتا ہے اور ہر کسی کا خیال رکھتا ہے تو کیا آپ کے خیال سے وہ شخص اچھا ہو گا ۔ یقننا نہیں ۔۔۔ اگر ہم پاکستان میں ہی ٹھیک نہیں ہیں باہر جیسے بھی ہوں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس لھاظ سے تو میں جمہوریت کا ہی قائل نہیں ہوں جا آتا ہے لوٹ کر چلا جاتا ہے ۔پھر جو دوبارا آئے گا وہ بھی ایسا ہی کرے گا ۔ اور اس بات میں سب سے ذیادہ قصور ہمارا ہی ہے یعنی کہ ہم عوام ۔آپ آج بھی کئی ایسے افراد کو جانتے ہو گے جو زارداری صاحب کے لئے مر مٹنے کو تیار بیٹھے ہیں ، اور ایسے ہی کئی افراد نواز اور عمران اور مشرف کے لئے بھی ہیں ۔ بھائی جان جب تک ہاتھ مٹھی کی شکل اختیار نہیں کرتا کسی بھی مضبوط چیز کو نہیں توڑ سکتا ۔یعنی کہ جب تک ہم عوام ایک نہیں ہوں گے کچھ نہیں ہو گا اور مجھے تو کم از کم نہ حال میں ایسی کوئی صورت حال نظر آتی ہے اور نا ہی مستقبل میں کہیں نزدیک ابھی پاکستان کو اور امتحان دینے ہوں گے ۔ کیا کیا ؟ اللہ ہی جانے مگر ایک دن ایسا ضرور آئے گا جس دن پاکستان پوری دنیا میں اپنا نام روشن کرے گا یہ ہم نہیں تو ہماری آنے والی نسلیں دیکھیں گی۔
ہم پاکستانی کیا پوری امت مسلمہ ہی اس وقت بکھری ہوئی ہے اور آج ہم پر غیر مسلم حکومت کر رہے ہیں ۔ ان سب باتوں کی کئی وجوہات ہیں اگر ہم اپنے گریبان میں جانک سکیں تو خوب جان لیں گے۔

کوئی بات بری لگی ہو تو معافی کا درخواستگار ہوں۔
بندہ نا چیز
میاں محمد اشفاق
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
Post Reply

Return to “نثر”