منہ ول کعبے شریف

اردو نثری قلم پارے اس فورم میں ڈھونڈئے
نورمحمد
مشاق
مشاق
Posts: 3928
Joined: Fri Dec 03, 2010 5:35 pm
جنس:: مرد
Location: BOMBAY _ AL HIND
Contact:

Re: منہ ول کعبے شریف

Post by نورمحمد »

نئی قسط شئیر کرنے کا بہت بہت شکریہ . . . .جاری رکھئے گا
محمد
دوست
Posts: 403
Joined: Thu Oct 21, 2010 3:45 pm
جنس:: مرد

Re: منہ ول کعبے شریف

Post by محمد »

۔۔۔۔۔میں خانہ کعبہ کے اس غلاف کو تکتا چلا جا رہا تھا..
بہت بعد میں انکشاف ہوا کہ یہ جائز نہیں..
دوران طواف خانہ کعبہ کو نہیں دیکھتے..
کیوں نہیں دیکھتے..
جس کو دیکھنے آئے ہیں تو اسی کو کیوں نہیں دیکھتے۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔یہ نہیں کہ میں منہ اٹھائے صرف خانہ کعبہ کو ہی اپنی توجہ کا مرکز بنائے چلتا جا رہا تھا بلکہ میرے آگے پیچھے برابر میں جو لوگ..بچے بڑے بوڑھے..عورتیں لڑکیاں طواف میں مگن تھے.. میں ان کو بھی ایک منجمد مسکراہٹ کے ساتھ ایسے تکتا تھا جیسے ایک بچہ پہلی بار میلے میں آتا ہے تو اس میں شامل بے شمار لوگوں کو دیکھ کر حیرت اور خوشی میں مبتلا ہوتا ہے..کہ اچھا یہ بھی دیکھنے آئے ہیں.."میں بھی آیا ہوں" وہ سب کو بتانا چاہتا ہے۔۔۔۔۔


۔۔۔۔۔مجھے یاد آیا کہ روانگی سے پہلے میمونہ بیگم نے جو ہدایات دی تھیں، ان میں سرفہرست یہ تھی کہ طواف کہ پہلے تین چکر چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا کر سینہ تانے اکڑ کر سر اٹھا کر لگانے ہیں۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔میرے لیے ہرنوں کی مانند چلنا ذرا مشکل تھا..پھر سوچا کہ تخصیص تو نہیں کی گئی کہ کس عمر کے کیسے ہرن..عمر رسیدہ اور بھدے بدن کے ہرن بھی تو ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ میں ہو گیا..اپنی سست روی کو مہمیز دی، سینہ جہاں تک ہو سکتا تھا پھیلایا اور کندھے اونچے کر کے تیز چلنے لگا۔۔۔۔۔


۔۔۔۔۔میں ابھی تک اس گردش میں شامل ہو جانے..دھتکاے نہ جانے کے چاؤمیں چلتا جا رہا تھا..کہنیاں آگے پیچھے کرتا..کاندھے ہلاتا..پریڈ کرتا چلا جا رہا تھااور پھر یکدم مجھے خیال آیا اور میں نے اپنے آپ کو بہت لعن طعن کی کہ بھائی تارڑ کیا کر رہے ہو..ہونقوں کی مانند ادھر ادھر مشاہدہ کیے چلے جا رہے ہو اور کچھ نہیں کرنا؟..کچھ تو کرو..نہ کوئی دعا..نہ کوئی فریاد..نہ دامن پھیلایا.. نہ خیرات کے طالب ہوئے..نہ کوئی آہ وزاری، کوئی گریہ..کیسے گداگر ہو کہ ابھی تک گدڑی میں سے کشکول بھی نہیں نکالا..محض میلہ دیکھنے کو تو نہیں آئے..کچھ تو کرو..چنانچہ میں نے مشاہدہ ترک کیا اور جو کچھ عربی زبان میں یاد تھا..پوری کی پوری نمازبھی اور سبحان اللہ اور بسم اللہ..اور اللہم لبیک بھی پڑھنے لگا.. لیکن یہ ذخیرہ محدود تھا..چند قدموں میں ہی ختم ہو گیا..اب کیا کریں..پھر یاد آیا کہ گھر سے چلتے ہوئے کچھ احباب نے کچھ عزیزوں نے فرمائشیں کی تھیں..دعاؤں کی التجائیں کی تھیں کہ خانہ کعبہ میں، روضہ رسولؐ پر پہنچو تو ہمیں یاد رکھنا۔۔۔۔۔
[color]



۔۔۔۔۔ترک زائریں امڈے چلے آ رہے تھے..کسی حد تک فربہ اور گٹھے ہوئے بدنوں والے..بے حد منظم اور سنجیدہ..اپنی خواتین کو گھیرے میں لیے ہوئے..مجال ہے کوئی اور زائر پاس بھی پھٹک جائے..
ایرانی گروہ جو طواف میں مگن تھے ان کی تنظیم بھی بے مثال تھی..گروپ لیڈر سر جھکائے درزبان فارسی بلنداور رقت بھری آواز میں دعائیں پڑھتا جا رہا ہے اور بقیہ لوگ چلتے جاتے ہیں اور دہراتے جاتے ہیں..
سوڈانی، انڈونیشین، ملائیشیا والے..نائیجیرین..مراکو والے..سب کے سب ایک ترتیب ایک سلیقے سے رب کعبہ کی قربت میں سر جھکائے گردش میں ہیں..
اور صرف پاکستانی ہیں جو گمشدہ بھیڑیں ہیں..
ان کا کوئی والی وارث نہیں..
اگرچہ اپنے تئیں اسلام کے وارث ہیں۔ اپنے آپ کو اسلام کا قلعہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہتے ہیں لیکن ان کا کوئی والی وارث نہیں..یہ ملنگ بابے ہیں جن کا اتحاد اور تنظیم سے کوئی واسطہ نہیں..
میں بھی چونکہ ایک گمشدہ بھیڑ تھا، اسلیے کبھی کسی گروپ کی پیروی کرنے لگتا اور ان کا سربراہ جو کچھ پڑھ رہا ہوتا اسےدوہرانے لگتا اور کبھی کسی اور جانب رجوع اور ترکی میں اللہ کی ثنا کرنے لگتا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔جب میری عربی، فارسی خلاص ہو گئی..ترکی تمام ہو گئی تو میں بھی شدھ پنجابی میں درخواست گزار ہو گیا کہ تم نے بلایا ہے تو میں آ گیا ہوں..اب جو کرو سو تم کرو..
یا کہہ دو کہ تم نے نہیں بلایا تو ہم اپنی درخواست واپس لے لیتے ہیں۔
لیکن تم کیسے انکار کر سکتے ہو..
آپے پائیاں کنڈیاں تے آپے کھنچاں ایں ڈور۔۔۔۔۔


۔۔۔۔۔ان تقدس سے لبریز مقامات پر حاضری کے بارے میں مختلف کلیشے ظہور پذیر ہوتے ہیں اور اگر آپ پر اس کلیشے کے مطابق اثر نہیں ہوتا..متوقع ردعمل بیان نہیں کیا جاتا تو آپ خارج ہو سکتے ہیں اور ان میں ایک کلیشے یہ بھی ہے کہ مکّہ..خانہ کعبہ ہیبت اور جلال ہیں..یہاں آکر انسان ان کی عظمت اور رعب تلے آکر دھاڑیں مار مار رونے لگتا ہے ..ان کی دہشت میں آجاتا ہے اور اپنے گناہوں کی معافیاں مانگتا فریاد کرنے لگتا ہے..لیکن مجھ پر..بے شک آپ مجھے خارج کریں لیکن میں جھوٹ تو نہیں بول سکتا..مجھ پر خانہ کعبہ کا یہ اثر ہرگز نہ ہوا، نہ میں ڈرا.. نہ کسی خوف کا شکار ہوا..نہ میری آنکھوں میں آنسو آئے بلکہ مجھے تو یوں محسوس ہوا جیسے میں اس کا مہمان ہوں..بلیا تو صاحب نے تھا تو اس کی مہربانی کا شکر گزار ہوتا ہوں لیکن صاحب بھی تو داد دے کہ بلاوے پر میں آگیا ہوں..
شکرئیے کا مستحق تو مہمان ہوتا ہے نہ کہ میزبان..اور یہ میزبان مجھے بہت مہربان اور احسان کرنے والا..نرم طبیعت اور معاف کر دینے والا لگا..تو اس سے کیا ڈرنا۔۔۔۔۔


۔۔۔۔۔طواف کی گردش میں آئے ہوئے سب کے سب بدن مردوں کے تو نہ تھے۔ عورتوں کے بھی تھے..عمر رسیدہ ، لاچار، اپنے بھاری بدن گھسیٹتی، بڑھاپے کی ماری ہوئی عورتوں اور..جوان جہان بھری پری عورتوں کے بھی تھے..اور اتنے ہجوم میں، اتنے ٹھنسے ہوئے پیک شدہ اژدہام میں وہ اور آپ یک بدن ہو جا تے ہیں..آپ کے بدن..پشت پر بھی اور سینے پر بھی ان بھری پری نوجوان عورتوں کے جسم ایک مسلسل اور نہایت قربت میں مس ہوتے ہیں، چھوتے ہیں، دبتے ہیں..ایک عورت چاہے آپ کہیں بھی ہوں کیسی ہی پوتر جگہ پر کیسا ہی پاکیزہ عمل کرنے میں مصروف ہوں، ایک عورت کے بدن کی ایسی جڑی ہوئی قربت آپ کو متاثر کیے بغیر نہیں رہ سکتی لیکن..
یہ تو دنیا کے..حسیات کے اور نفسیات کے فرائڈ کے جنسی اصولوں کے معاملے تھے..اور وہ دنیا ایسے کٹ کر باہر رہ جا تی تھی اور اس کے ساتھ اس کی تمام تر قدرتی حسیات بھی کہ اس عورت کے بدن کا لمس جو آپ کی پشت سے لگی اپنا بوجھ ڈالتی ہے..اور اسے آپ محسوس کر رہے ہیں یا اس خاتون کی پشت جوآپ کے آگے چلتی ہوئی رک جاتی ہے اور اس کے وجود کو اور آپ اپنے وجود کے ساتھ پیوست پاتے ہیں تو وہ عورت..وہ خاتون یا تو آپ کی ماں ہوتی ہے.. یا بیٹی..اس کے سوا کچھ نہیں۔ ریت کے ایک ذرے برابر بھی اور کچھ نہیں۔
جیسے آپ ماں سے لپٹ جاتے ہیں..جیسے بیٹی آپ سے لپٹ جاتی ہے..تو ریت کے ایک ذرے کے برابر بھی کچھ اور ہوتا ہے؟
یہ ایک حیرت ناک اور اچنبھے میں ڈال کر ایک عجیب سی مسرت سے ہمکنار کرنے والا تجربہ تھا..انسانی بدن کی خصلت بدل جائے..وہ تابع ہو جائے..اس مقام کی اخلاقیات کا اور دم نہ مارے..اور کا اور ہو جائے۔۔۔۔۔


۔۔۔۔۔ساتواں پھیرا مکمل ہوا اور اس سیاہ پٹی پر قدم رکھا جو حجر اسود تک چلی جاتی تھی تو ہم نے اس پتھر کو جسے میں چوم نہ سکا تھا، ہاتھ بلند کر کے الوداع کہا اور بہاؤ سے الگ ہو گئے..
میری زندگی کا پہلا طواف مکمل ہو گیا تھا..
نورمحمد
مشاق
مشاق
Posts: 3928
Joined: Fri Dec 03, 2010 5:35 pm
جنس:: مرد
Location: BOMBAY _ AL HIND
Contact:

Re: منہ ول کعبے شریف

Post by نورمحمد »

zub;ar zub;ar zub;ar
یاسر عمران مرزا
مشاق
مشاق
Posts: 1625
Joined: Wed Mar 18, 2009 3:29 pm
جنس:: مرد
Location: جدہ سعودی عرب
Contact:

Re: منہ ول کعبے شریف

Post by یاسر عمران مرزا »

اچھی تحریر ہے. اچھا لگ رہا ہے پڑھ کر.جاری رکھیں.
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: منہ ول کعبے شریف

Post by چاند بابو »

بہت خوب نئی قسط شئیر کرنے کا بہت بہت شکریہ۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
محمد
دوست
Posts: 403
Joined: Thu Oct 21, 2010 3:45 pm
جنس:: مرد

Re: منہ ول کعبے شریف

Post by محمد »

حجر اسود سے رخصت چاہ کر ہم مقام ابراہیمؑ کی قربت میں نفل ادا کرنے کے لیے کھڑے ہو گئے کہ یہی دستور تھا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔جو لوگ احرام میں تھے اور عمرہ ادا کرنے کی نیت سے آئے تھے وہ مقام ابراہیم کے پاس نفل ادا کر کے صفا اور مروہ کی جانب سعی کرنے کی خاطر چلے گئے...
اور ہم صحن کعبہ میں اطمینان سے گھومنے لگے کہ اس میلے میں گھومنے کا بھی عجیب لطف تھا...درمیان میں طواف جاری تھا اور ارد گرد کا جو حصہ خالی تھا وہاں لوگ بیٹھے تھے...باتیں کر رہے تھے...عبادت کر رہے تھے...تلاوت میں محو تھے...بچے دوڑتے پھرتے تھے...مائیں بچوں کو دودھ پلا رہی تھیں اور کچھ لوگ ہجوم سے الگ کسی ستون کی آڑ میں...
کسی کونے میں اپنے آپ میں...اپنے آپ میں جو رب تھا، اس میں اور سامنے جو اس کا گھر تھا،اس میں غرق بیٹھے تھے...یہ وہ تھے جو سب سے بےخبر تھے اور خانہ کعبہ میں تنہا تھے...
"والد صاحب تھک تو نہیں گئے؟"
"نہیں یار..."
"میرا خیال ہے کہ تھک گئے ہیں، آرام کرنا چاہتے ہیں؟"
"کہا جو ہے کہ نہیں تھکا...ایک اور طواف کر کے دکھاؤں؟..."
وہ دونوں مسکرانے لگے...
دراصل ان کو خدشہ تھا کہ یہ جو ابّا ہے جو گھنٹی بجنے پر گھر کا گیٹ کھولنے کی جاتا ہے...واپس آتا ہے تو دھڑام سے صوفے پر گر جاتا ہے
کہ تھک گیا ہوں تو یہ ابّا جو زقندیں لگاتا پھرتا ہے تو یقیناً کسی بھی لمحے تھکن سے ڈھے جائے گا اور ہمیں مصیبت میں ڈال دے گا...
یونہی شوخ ہو رہا ہے...کہتا ہے کہ اور طواف کر کے دکھاؤں۔۔۔۔۔


۔۔۔۔۔ان چہروں میں ایک قزاق بابا بھی تھے...
چھریرے بدن کو ایک فرغل یا لمبے چوغے میں متحرک کرتے تھے...سر پر ایک مخروطی قزاقی ٹوپی...نہایت بے دریغ سفید داڑھی...
اگر پہنے ہوئے ہوتےتو یقیناً گھٹنوں تک آتے فل بوٹ پہنے ہوئے ہوتے...یہاں تو ظاہر ہے ننگے پاؤں...چوکڑیاں بھرتے ہوئے آتے اور پل بھر میں گزر جاتے...
مجھے طواف کرنے والوں کے ہجوم میں دور سے ان کی قزاقی ٹوپی نظر آجاتی اور میں انتظار کرتا کب وہ میرے سامنے سے گزرتے ہیں...چھاتی تانے...
جیسے اب بھی اپنے وطن قازقستان کی وسیع چراگاہوں میں گھڑ سوار ہیں...نہایت راضی...رضامند...چوکڑیاں بھرتے پل بھر میں گزر جاتے...
اور اتنے خوش وخرم جیسے ابھی ابھی ان کے خیمے میں ایک پوتا پیدا ہوا ہے...
ایک چہرہ اس خاتون کا تھا جو شاید شامی تھی، شایدترک تھی...اردنی بھی ہو سکتی تھیں۔
وہ ایک بچہ گاڑی دھکیلتی طواف میں چلتی تھیں اور ظاہر ہے اس بچہ گاڑی یا پریم میں ایک بچہ بھی تھا جو انہی کا ہو سکتا تھا...
ایک ماں جائے کو ہی یہ اعزاز نصیب ہو سکتا ہے کہ اس ماں اسے طواع پر لے آئے...اتنا تردد کرے...پہلے پھیرے کے دوران میں نے دیکھا کہ بچہ ہمک رہا ہے...کلکاریاں مارتا اپنی پریم میں اچھل رہا ہے...قابو میں نہیں آتا اور اس کی ماں دعائیں مانگنے یا رب کے گھر پر نظر رکھنے کی بجائے اس پر رکھ رہی ہے اور اس سےباتیں کر رہی ہے...
اس کے ہمکنے پر فدا ہوتی پریم پر جھکی لب سکیڑ کر جیسے اسے چوم رہی ہے...جیسے وہ دونوں ایک پارک میں سیر کرنے کے لیے آئے ہوں۔
یہ پہلے چکر کا منتظر تھا...
اور جب ایک مدت کے بعد وہ دونوں پھر نمودار ہوئے تو بچہ قدرے سنجیدہ ہو چکا تھا...
کچھ حیران تھا...اچھل کود میں دلچسپی نہ رکھتا تھا...سست پڑ چکا تھا...
اور جب وہ دونوں تیسری بار دکھائی دیئے...میرے سامنے آئے تو بچہ سو چکا تھا اور وہ خاتون پریم دھکیلتی زیرلب دعائیں دوہرا رہی تھی...
دو سیاہ پوش افغان میاں بیوی...مرد سیاہ پگڑی میں...تنا ہوا...سیدھا ایک بلند شجر کی مانند...اور اس کے برابر میں اس کی بیوی...
گوٹے کناری سے مزین ایک سیاہ بڑے گھیرے والے گھاگھرے میں چلتی، کالی چادر میں لپٹی ہوئی...لیکن چہرہ کھلا...آنکھوں میں سرمے کے انبار...رخساروں پر نقش و نگار...
دونوں بلند قامت ایک خاص رفتار سے بڑھتے چلے جا رہے تھے...اور آخری پھیرے تک ان کی رفتار میں کوئی فرق نہیں آیا...
ایک پاکستانی بابا اور بابی بھی تھے...
نہایت عمر رسیدہ ہونے کے باوجود نوخیز جوانی کی مست چال چلتے تھے...
کبھی بابا جی اپنی دھن میں آگے نکل جاتے...اور کبھی بابی اپنے نیم خمیدہ بدن میںایک جنگل بیلے میں کودتی ہرنی کی پھرتی بھرتی بابا جی اورٹیک کر لیتی...
وہ دونوں سفید کھدر کے کرتوں اور تہبند میں ملبوس تھے...البتہ بابا جی کے سر پر کھدر کی ایک پگڑی بھی تھی...وہ دونوں آخری پھیرے تک تازہ دم یونہی قلانچیں بھرتے رہے...
سب سے دلچسپ چہرہ ایک درمیانی عمر کے خوش شکل زائر کاتھا...
وہ شخص باقاعدہ ایک شوخ میلے رنگ کے جوگنگ سوٹ میں ملبوس تھے، خوش شکل بھی اور خوش بدن بھی...
اور چھوٹے چھوٹے قدم دھرتے ایک خاص سر میں جوگ کر رہے تھے، البتہ پاؤں میں ظاہر ہے جوگر نہیں تھے سرخ جرابیں تھیں...
میرا قیاس کہتا تھا کہ موصوف مقامی ہیں مکہ کے باسی ہیں اور ورزش کے شوقین ہیں۔
چنانچہ کسی پارک وغیرہ میں جانے کی بجائے ادھر آنکلتے ہیں،شوق بھی پورا ہو جاتا ہے اور ثواب کے اکاؤنٹ میں بھی سات چکر لکھے جاتے ہیں...ہم خرما و ہم ثواب وغیرہ...
ایک افریقی جنٹل مین نہایت رنگا رنگ لبادے میں نہایت شاہانہ انداز میں اپنی دراز قامتی پر نازاں چلتے تھے۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔ان طواف کرنے والوں کو دیکھتے دیکھتے...انہیں نظر میں رکھتے...
کبھی لونگ شاٹ میں مشاہدہ کرتے اور کبھی کلوزاپ میں جاتے...ان کی بے پروائی اور وارفتگی کو کسی حد تک حسد سے محسوس کرتے..
.اور یہ بھی دیکھتے کہ ان میں کسی ایک چہرے پر بھی ثواب کا لالچ یا بخشش کی تمنا بظاہر نہ تھی...نہ کوئی ڈر تھا اور نہ اس کی کوئی ہیبت جو نیچے صحن میں گھر بنائے بیٹھاتھا...
وہ سب کے سب اگر گھومتے تھے...تیز چلتے تھے...کبھی دوڑتے...کبھی تھکن سے مغلوب قدم گھسیٹتے تھے تو محبت کے مارے ہوئے بے غرض اپنی خوشی اور اپنی مرضی سے ایسا کرتے تھے...میں نے ایسے شانت اور مطمئن چہرے کم ہی دیکھے تھے۔۔۔۔۔
اضواء
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 40424
Joined: Sun Aug 15, 2010 4:26 am
جنس:: عورت
Location: {الدمام}المملكةالعربيةالسعوديه

Re: منہ ول کعبے شریف

Post by اضواء »

اللهم زيد و بارك ...

الله يجزاك خير و بارك الله فيك....
[center]یہ بھی انداز ہمارے ہے تمہیں کیا معلوم
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: منہ ول کعبے شریف

Post by چاند بابو »

جزاک اللہ شئیرنگ کا بہت بہت شکریہ۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
نورمحمد
مشاق
مشاق
Posts: 3928
Joined: Fri Dec 03, 2010 5:35 pm
جنس:: مرد
Location: BOMBAY _ AL HIND
Contact:

Re: منہ ول کعبے شریف

Post by نورمحمد »

v;g v;g نئی قسط شئیر کرنے کا بہت بہت شکریہ۔
محمد
دوست
Posts: 403
Joined: Thu Oct 21, 2010 3:45 pm
جنس:: مرد

Re: منہ ول کعبے شریف

Post by محمد »

"اب تو باندھا ہے دیر میں احرام"
یہ کہاں کبھی گمان گزرا تھا کہ کبھی اپنے آپ کو کفناؤں گا...
ایک روز آئے گا ایسا کہ کفن میں خود اپنے آپ کہ لپیٹوں گا اور بہ رضا و رغبت لپیٹوں گا اور پھر پرمسرت بھی ہوں گا جیسے ایک بچہ عید کے روز نئے نکور کپڑے پہن کر اتراتا پھرتا ہے...
یہ تو کھبی بھی گمان نہ آیا تھا ...
الگ الگ کمروں میں اپنے گرد احرام لپیٹے جا رہے تھے اور وہ لپٹتے نہ تھے... گر جاتے تھے... جو لباس پہلی بار پہنا جائے اس کے الٹے سیدھے کا پتا نہیں چلتا اور احرام کا یوں بھی نہ کوئی الٹا ہوتا ہے نہ سیدھا، اس لیے میں سلجوق اور سمیر کو پکارتا جو کسی اور کمرے میں احرام باندھنے میں مشغول تھے کہ بیٹا یہ نچلا حصہ تو پیٹ پر ٹھرتا ہی نہیں، کھسک جاتا ہے، کیا کروں؟
اور ادھر سے ہدایت کی جاتی تھی کہ ابّا جی سانس کھینچ کر اسے تہبند کی طرح باندھیں جیسے دادا جان باندھتے تھے اور پھر اس کے اوپر کمر کے گرد منی بیلٹ کس لیں اور پھر سانس نہ لیں کچھ عرصہ...
بلاآخر سفر حج شروع ہونے کہ تھا اور ہم اس سفر کے لیے مخصوص لباس پہنتے تو نہیں بلکہ اوڑھتے تھے اور باندھتے تھے...
ایک تفصیلی غسل اور صفائی ستھرائی کہ بعد اب میں احرام کے دو ٹکڑوں سے گتھم گتھا ہو رہا تھا... یعنی نہلایا نہیں گیا تھا خود نہایا تھا اور کفنایا نہیں گیا تھا خود کفن لپیٹ رہا تھا... چونکہ اس پہلے کفن پوشی کا کوئی تجربہ نہ تھا اس لیے الجھ رہا تھا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔میں نے بچہ لوگ کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے بمشکل سانس اندر کھینچا اور احرام کی چادر کو اپنے والد صاحب کی طرح... جیسے میں نے ہزاروں بار انہیں تہبند درست کرنے کے لیے اس کے بند کھول کر پھر سے باندھتے اور اڑستے دیکھا تھا، ویسے اس چادر کو پیٹ کے گرد باندھ لیا، پھر سانس روکے اس پر پیسوں کی پٹی خوب کس کر باندھی اور اپنے آپ کو مقفل کر لیا...
احرام کی دوسری چادر کا کوئی مسٔلہ نہ تھا، وہ تو ایک بکل کی مانند لپیٹنی تھی جو میں نے لپیٹ لی...
اس پیچیدہ عمل سے فراغت عاصل کر کے دو نفل پڑھے اور حج کی نیت کی... اللہ کو خبردار کیا کہ میں آرہا ہوں... یہ محض کاروائی تھی کیونکہ وہ تو پہلے سے ہی خبردار تھا، میرا منتظر تھا، بلاوہ بھیجنے والا منتظر تو رہتا ہے کہ دیکھیں یہ کمبخت آتا ہے کہ نہیں...
گھر سے نکلتے ہوئے بےخبری میں ایک قد آدم آئینے پر نگاہ پڑ گئی... میں ایک حریص پیٹو رومن لگ رہا تھا... ٹوگا باندھے... نیم سرخ آنکھوں والا ایک نیرو جو بنسری بجانے کا شوقین، روم کے جلنے کی مسرت میں!
احرام میں حرکت کرنے کی عادت نہیں ہو رہی تھی... کبھی بالائی چادر ڈھلک جاتی اور کبھی نچلا حصّہ کھسک کر گرنے کو آجاتا...
نیا جنم تھا...نیا لباس تھا...نومولود کو عادت کیسے ہوتی...
اور ہاں...اللہم لبیک...

۔۔۔۔۔روڈ ٹو مکّہ...
ہم ایک مرتبہ پھر اس روڈ پر رواں تھے... آگے پیچھے آٹھ کوسٹر اتنے بے چین اور تیز رفتار جیسے ان میں سوار مسافر نہیں وہ خود حج کرنے کو جا رہے ہوں... ہمارے کوسٹر کا ڈرائیور کالے خان تھا... جو نہ تو بہت کالا تھا اور خان بھی واجبی سا تھا لیکن غضب کا ڈرائیور تھا... ایسا ماہر کہ پل صراط پر سے گزرنے کے لیے بےخطر اس کی خدمات حاصل کی جا سکتی تھیں...
اور یہ تو نہیں کہ روڈ ٹو مکّہ پر صرف ہم ہی ہم تھے... صرف ہمارے کوسٹر تھے... لگتا تھا کہ پورا جدّہ خالی ہو رہا ہے...
پورا سعودی عرب خالی کیا جا رہا ہے...
جیسے آبادیوں...شہروں اور قصبوں میں ابھی ابھی اعلان کیا گیا ہے کہ ایٹمی حملہ ہونے میں بس دو چار منٹ ہیں تو جان بچانے کے لیے نکل جاؤ... تو ایسے ہی ہر نفس، اپنے گھر اور کاروبار اور عشق ترک کر کے جان بچانے کے لیے نکل کھڑا ہوا ہے۔
ایسا بے پناہ اور گھنا ہجوم تھا روڈ ٹو مکّہ پر...
روڈ دکھائی نہ دیتی تھی...سب کو مکّہ دکھائی دیتا تھا...
کوسٹر، بسیں، ٹیکسیاں، پرائیویٹ کاریں، ٹرک، ٹریلر، جیپیں بے تاب اور بے چین اس خوف میں مبتلا کہ کہیں ہم پیچھے نہ رہ جائیں... اور اس حشر اور اژدہام میں کالا خان یوں نکلتا تھا جیسے مکھن سے بال نکلتا ہو... ایک ایسی روح کی مانند جو دیواروں کو پار کر جاتی ہے...
روڈ ٹو مکّہ میں رکاوٹیں بھی تھیں...
متعدد مقامات پر پولیس کی چیک پوسٹیں راستے میں حائل ہوتی تھیں۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔ان چیک پوسٹوں سے گزرتے ہوئے ہمارے دل رکتے تھے... اگرچہ رکتے تھے لیکن ان کی دھک دھک کی دھمک پورے کوسٹر میں سنائی دینے لگتی تھی... اس لیے کہ ہم سے بیشتر یہاں "وزیٹر ویزا" پر آئے تھے " حج ویزا" پر نہیں... بے شک اس ملاقاتی ویزے پر حج کر لینے پر کوئی پابندی نہیں تھی لیکن سعودی عرب میں قانون بدلتے دیر نہیں لگتی... کوئی ایک حکم کسی شاہانہ قصر سے کسی بھی لمحے جاری ہو کر ہمیں روک سکتا تھا کہ جدّہ واپس جاؤ... احرام اتار کر چکن بخاری کھاؤ... سوئمنگ پول میں ڈبکیاں لگا کر انڈین فلموں کے گانے دیکھو... ایشوریہ رائے کی ناف کے بارے میں رائے قائم کرو... مزے کرو اور حج کو بھول جاؤ...
ویسے ایک اعتراف بے جا نہ ہو گا...
اور یہ آنکھوں دیکھا حال ہے کہ سعودی پولیس بظاہر بہت بد تمیز اور سختی کرنے والی تھی لیکن وہ سوال جواب کرنے کے بعد... یہ بھی ثابت ہو جانے کے باوجود کہ جو لوگ پک اَپس میں اور ٹیکسیوں میں احرام باندھے بیٹھے ہیں، وہ غیر قانونی ہیں، ان کے پاس کچھ کاغذات نہیں ہیں ... وہ انہیں بھی روکتی تھی ... ڈراتی دھمکاتی تھی لیکن پھر جانے دیتی تھی...
صرف اس لیے کہ جو حج کی نیت سے آئے ہیں... حاضری دینے کے لیے آئے ہیں... انہیں اس سعادت سے محروم کر دینے سے گناہ ہو گا...
روڈ ٹو مکّہ...
اور پھر ہم یکدم ہم اس روڈ سے منہ موڑ کر... منقطع ہو کر... مکّہ سے روگردانی کرتے ہوئے ایک اور شاہراہ پر مڑ گئے جس نے ہمیں منٰی تک لے جانا تھا...
بس یہی موڑ تھا جو میری سمجھ میں نہیں آتا تھا... کہ اگر ہم حج پر آئے ہیں تو مکّہ کیوں نہیں جاتے...
حاجی لوگ مکّے نوں جاندے...
مکّہ سے منہ موڑ کر کہیں اور چلے جانا...کیسا حج ہے...لیکن یہی حج تھا...
مکّہ سے منہ موڑ لینا ہی حج تھا...
"اور تم جو حج کے لیے آئے ہو...
اپنی حیات کے خشک صحرا میں سے...
تمہارے لیے ایک چشمہ گنگنا رہا ہے...
بہت غور سے اپنے دل کی دھڑکن سنو...
تم اس چشمے کی گنگناہٹ سن لو گے..."
صرف مکّہ تک جانے کا فیصلہ کر لینا حج کی روح نہیں ہے...نہ ہی کعبہ اور قبلہ تمہاری منزل ہے... یہ محض تمہاری غلط فہمی تھی... حضرت ابراہیم تمہیں سکھاتے ہیں کہ حج کعبہ میں نہیں... حج کا آغاز تبھی ہوتا ہے جس لمحے تم کعبہ چھوڑ دیتے ہو... کہ یہ کعبہ ایک نشان منزل ہے... منزل نہیں...
کعبہ کو چھوڑ دو اور میں اسے چھوڑ کر تمہارے ساتھ چلنے لگوں گا... تم سے قریب ایسا آؤں گا کہ تم اپنی شہ رگ دھڑکتی محسوس کرو گے...
تو اگر وہ خود کہتا ہے کہ میرا گھر چھوڑ دو... اور میں تمہارے قریب آجاؤں گا... تو تم کیسے انکار کر سکتے ہو...
اس لیے ہمارے کوسٹر نے حکم کی تعمیل کی...مکّہ سے...خانہ کعبہ سے منہ موڑ کر منٰی کا رخ کیا...
افتخار
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 11810
Joined: Sun Jul 20, 2008 8:58 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: منہ ول کعبے شریف

Post by افتخار »

zub;ar
سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: منہ ول کعبے شریف

Post by چاند بابو »

بہت خوب محمد بھیا نئی قسط شائع کرنے کا بہت بہت شکریہ۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Zarah-e-bey Nishan
کارکن
کارکن
Posts: 148
Joined: Fri Nov 27, 2009 9:10 pm

Re: منہ ول کعبے شریف

Post by Zarah-e-bey Nishan »

v;g
پڑھ کے مزا آیا ویسے بھی تارڈ صا حب میر ے پسند یدہ لکھنے والو میں سے ھیں
[center]کٹی اِک عمر بیٹھے ذات کے بنجر کناروں پر
کبھی تو خود میں اُتریں اور اسبابِ زیاں ڈھونڈیں[/center]
نورمحمد
مشاق
مشاق
Posts: 3928
Joined: Fri Dec 03, 2010 5:35 pm
جنس:: مرد
Location: BOMBAY _ AL HIND
Contact:

Re: منہ ول کعبے شریف

Post by نورمحمد »

بھئی ایک مسئلہ کا حل چاہیئے . . . .

میں نے یہ کتاب ڈاؤنلوڈ کی ہے الحمد اللہ اور مجھے اس کی پرنٹ نکالنی ہے مگر اس فائل میں ( پی ڈی ایف) پرنٹ کے آپشن کو لاک کیا گیا ہے - تو اب اسکی پرنٹ لینے کا کیا طریقہ ہے-

اگر کسی کو علم ہو تو ضرور آگاہ کریں -

شکریہ
محمد
دوست
Posts: 403
Joined: Thu Oct 21, 2010 3:45 pm
جنس:: مرد

Re: منہ ول کعبے شریف

Post by محمد »

نور بھائی یہاں چیک کر لیں.
شاید آ پ کا مسلہ حل ہو جا ئے.
نورمحمد
مشاق
مشاق
Posts: 3928
Joined: Fri Dec 03, 2010 5:35 pm
جنس:: مرد
Location: BOMBAY _ AL HIND
Contact:

Re: منہ ول کعبے شریف

Post by نورمحمد »

شکریہ بھائی - چیک کرکے بتا دوں گا- ان شاءاللہ
محمد
دوست
Posts: 403
Joined: Thu Oct 21, 2010 3:45 pm
جنس:: مرد

Re: منہ ول کعبے شریف

Post by محمد »

منٰی... جو دو چار روز کا شہرہے...
برس کے بقیہ دنوں میں صحرا ہوتا ہے...بے آباد اور ویران ہوتا ہے...
اور جب آباد ہوتا ہے تو مکّہ اور مدینہ بھی اس کی جانب حسرت کی نگاہ کرتے ہیں۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔منیٰ خیمہ بستی...
لاکھوں کی تعداد میں سفید سفید خیمے... درمیان میں سیدھی ایک دوسری کو کاٹتی سڑکیں اور ان کے کناروں پر کوئی ایک بھی اینٹ روڑے کی پکی عمارت نہیں... سفید کپڑے کے مخروطی خیمے... لاکھوں کی تعداد میں۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔منیٰ ایک روشن شہر ہے...
دھوپ کا شہر ہے...
سورج اور لاکھوں سفید خیمے موابلے پر اتر آتے ہیں کہ دیکھیں کس میں کرنیں زیادہ روشن ہیں... اور پھر دھوپ کا سفید راج...ہر چٹان... ہر احرام ہر شے پر حاوی ہو جاتا ہے...
منیٰ نوکیلے برف رنگے لاکھوں اہراموں کا شہر ہے۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔"عرب نیوز" کے مطابق ہر روز پچاس لاکھ ڈبل روٹیاں منیٰ کے تندوروں میں سے نکلتی ہیں... یعنی ایک روز کی خوراک کے لیے فی حاجی یا حجن دو روٹیاں کچھ زیادہ نہیں...
اسی منیٰ میں تین شیطان بھی پائے جاتے ہیں...
پچیس لاکھ افراد کے لیے صرف تین شیطان بھی کچھ زیادہ نہیں...
یہ شیطان زائرین کی مانند صرف دو تین روز کے لیے یہاں آباد نہیں ہوتے بلکہ ہزاروں برسوں سے پیامبروں کے باپ ابراہیمؑ کے زمانے سے یہاں مستقل طور پر آباد ہیں... گھر بنائے بیٹھے ہیں اور اگر وہ یہ دعویٰ کریں کہ منیٰ ان کا شہر ہے تو وہ سچ کہتے ہیں... اور اگر وہ یہ کہیں کہ منیٰ صرف ان کی خاطر آباد ہوتا ہےتو بھی ہم انھیں جھٹلا نہیں سکتے...
یہ شیطان بہت طاقتور ہیں... ہزاروں برس صرف تین شیطان کروڑوں لوگوں کا مقابلہ کرتے آئے ہیں اور ابھی تک زیر نہیں ہو سکے... جوں کے توں کھڑے ہیں... ان کی استقامت میں کوئی شبہ نہیں...
لیکن اس برس بھی مقابلہ ہونا ہے...
ابھی ان کے گرد اور دور تک آباد جو سفید پوش حضرات ہیں، اپنی عبادات میں مگن ہیں... رب کے بھیجے ہوئے حرفوں پر جھکے اور دعاؤں میں غرق ہیں...
ابھی تو وہ آئے ہیں... پہلا دن ہے...اور ابھی وہ شیطان کے روبرو ہونے کا حوصلہ نہیں رکھتے... کیسے رکھیں کہ ان کے اندر اس کا ڈیرہ ہے... وہ اسے بے دخل کرنے کے ابھی قابل نہیں ہیں... اسی لیے وہ ابھی اُدھر کا رخ نہیں کرتے جدھر وہ براجمان ہیں، ان سے نظریں چراتے ابھی اپنے اپنے خیموں میں منہ چھپائے عبادتوں میں مگن ہیں اور اپنے لیے طاقت طلب کرتے ہیں تاکہ کسی روز وہ ان کا سامنا کر سکیں۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔فجر کے آثار خیمے کے دروازے سے اندر آتے آتے واضح ہو رہے تھے...
باہر سویر ہو رہی تھی اور منیٰ کے خیمہ شہر کے درمیان جو سینکڑوں گلی کوچے تھے ان میں ہزاروں متوقع حاجی حضرات ناشتے کی تاش میں سرگرداں تھے... آپ بے شک اپنی پوتر تا میں عرش کو چھو آئیں... مست ملنگ ہو جائیں... کچھ بھی ہو جائیں آپ صبح سویرے ایک ناشتے ،ایک کپ چائے اور اس کے بعد ایک غسل خانے کی ضرورت سے ماورا نہیں ہو سکتے... یہ سہولتیں مہیا نہ ہوں... آپ بے سہولت ہوجائیں تو نہ عبادت یاد رہتی ہے اور نہ یاد الٰہی ستاتی ہے... ہمارے خیمے برابر میں جو رہگزر تھی وہاں دو تین مقامات پر ناشتے کے بندوبست بھاپ اڑاتے نظر آئے اور درجنوں زائرین ہاتھ اٹھا اٹھا کر دکانداروں کو یوں متوجہ کر رہے تھے جیسے دعائیں مانگ رہے ہوں... میں نے ایک بنگالی ریستوران سے کافی ریال صرف کر کے جو کچھ خریدا وہ کچھ بھی ہو سکتا تھا لیکن ناشتا نہیں ہو سکتا تھا... شائد وہ انڈے تھے آملیٹ ہوتے ہوتے... یا میدہ تھا یا بھوسہ تھا ... اور اس کے ہمراہ گتے کے گلاس میں جو نیم جاشاندہ سا تھا وہ چائے تھی یا نہیں تھی یا کچھ اور تھا...
"سونے" کی ایک ڈلی حاصل کرنے کے لیے... ایک ایسے سکے کے حصول کے لیے آنے والے کے لیے جس پر "حج" کی مہر ثبت ہو، شکایت کرنا جائز نہیں، اس لیے میں بھی شکایت نہیں کرتا...
البتہ جب میں غسل خانوں کی جانب گیا، مناسب تفتیش کے بعد کہ وہاں رش کتنا ہے... کتنی دیر میں باری آتی ہے... کتنی دیر میں پانی آتا ہے تو وہاں شکایتوں کے دفتر کھلے تھے...
پچیس لاکھ زائرین کو سنبھال لینا کوئی معمولی بات نہیں جب کہ ان کے سینکڑوں مزاج ہوں، سینکڑوں ذائقے اور خصلتیں ہوں ... ایک دوسرے سے جدا آب و ہوا اور خوراک کے عادی ہوں... بے شک ایک امت ہوں لیکن ان کا جغرافیہ اور طبیعت تو جدا جدا تھی۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔حج کے دوران سعودی حکومت کے انتظامات کی داد نہ دینا زیادتی ہو گی... گھر میں چار مہمان آجائیں تو بھگدڑ مچ جاتی ہے تو پچیس لاکھ مہمانوں کو سنبھالنا جن میں ہزاروں مہمان بہت ہی بدتمیز اور بے ہودہ بھی ہوتے ہیں، انہیں برداشت کرنا ایک کارنامے سے کم نہیں اور صرف ایک برس نہیں ہر برس ایسے انتظامات کرنا قابل ستائش ہے...
بس یہ ہے کہ شاید اُن کا دھیان اس جانب نہیں گیا کہ منیٰ میں ہزاروں لوگوں کے حصے میں صرف ایک غسل خانہ آتا ہے... اگر دو چار آجاتے تو فراغت میں آسانیاں پیدا ہو سکتی تھیں... تو صرف اس جانب ان کا دھیان نہیں گیا...
منیٰ میں تعمیر کردہ محدود غسل خانوں کے گرد دباؤ میں آئے ہوئے جو ہجوم ہوتے ہوں، ان میں سے ہر شخص کی نفسیات پر فرائڈ ایک کتاب لکھ سکتا تھا...
ہمارے مکتب کی قربت میں جو چند غسل خانے اور پانی کے دس بارہ نل تھے وہاں جو حالتیں غیر ہوتی تھیں دھکم پیل ہوتی تھی اور "ایمرجنسی" ڈکلیئر ہوتی تھی اور اس کے سائرن بجتے تھے، ان کا تذکرہ قدرے دلچسپ ہے... یوں بھی منیٰ کے غسل خانوں کے بیان کے بغیر حج کی سائیکی سمجھ میں نہیں آسکتی...
الگ سے نہانے... صرف پیشاب کرنے یا فارغ ہونے کے لیے جدا جدا بندوبست نہ تھا... ایک ہی غسل خانے میں یہ سارے انتظامات کر دئیے گئے تھے... چنانچہ جو کوئی نصیب والا اندر جانے میں کامیاب ہو جاتا تھا تو باہر آنے کا نام نہ لیتا تھا... وہ کوشش کرتا تھا کہ یہ تینوں عمل خوش اسلوبی سے سر انجام پا جاویں... دروازے کے باہر ایک قطار لگی ہوئی ہے، بے چین اور بے اختیار ہوتے حضرات کی اور جو صاحب اندر گئے ہیں وہ وہیں مستقل اقامت اختیار کر چکے ہیں... وہاں آباد ہو چکے ہیں... آپ بے شک دستک دیں... نعرے لگائیں....فریاد کریں...اللہ رسولﷺ کے واسطے دیں وہ باہر نہیں آئیں گے... اور کیوں آئیں شاید انہیں دو روز کے بعد یہ سنہری موقع ملا ہے تو وہ آئیں گے تو اچھی طرح نہا دھو کر آئیں گے... اس انتظار کے دوران حاجی حضرات کیسے اور کیونکر فراغت کے دباؤ اور پانی کے بہاؤ کو برداشت کرتے ہیں، اس گتھی کو صرف آئن سٹائن ہی سلجھا سکتا تھا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔ایک صاحب کی بے چینی عروج پر ہے... حالت اضطراب میں ہیں...بار بار ناف کے زیریں حصے پر ہاتھ جما کر اپنے آپ کو بے اختیار ہونے سے بچا رہے ہیں... اور ان کے آگے ابھی تین چار متاثرین انہی کی حالت زار میں ہیں تو وہ صاحب اپنے آگے کھڑے امیدوار کی کمر پر ہلکے ہلکے کچوکے دیتے ہیں کہ بابا جلدی کرو... اور وہ بابا جلدی کیسے کریں، ان کے آگے بھی تو دو تین اضطراب کے پیکر پہلو بدلتے ہیں... تو ان بابا صاحب کو شاید گدگدیاں ہوتی تھیں تو جونہی ان کے پیچھے منتظر حاجی بابا ان کی کمر میں کچوکے دیتے تو وہ ذرا جھک سے جاتےتھے... قدرے لہک سے جاتے تھے... بالاخر انہوں نے پلٹ کر کہا "آپ کا کیا خیال ہے، میں یہاں رقص کرنے لیے آیا ہوں جو یوں گدگداتے چلے جا رہے ہیں..."
ایک اور صاحب بھی "ایمرجنسی" میں مبتلا ہیں اور خوش قسمتی سے ان کے اور لبِ بام کے بیچ صرف ایک حاجت مند کھڑے ہیں اور وہ غسل خانے کے تادیر بند آہنی دروازے پر ہاتھ رکھے آس لگائے کھڑے ہیں... یہ صاحب جو دوسرے نمبر پر ہیں اور ان کے پیچھے کھڑے ہیں، کچھ زیادہ ہی ایمرجنسی میں مبتلا ہیں تو ان سے منت کرتے ہیں کہ بھائی مجھے پہلے اندر جانے دو... مت پوچھو کہ کیا حال ہے میرا تیرے پیچھے... ان کی ٹھوڑی کو چھوتے ہوئے ایک عجیب سی لجاعت آمیز آواز نکالتے ہیں... کہ آآ...ہوہو...ڈن شان...الحمدللہ... کہ دونوں کی زبانیں الگ الگ ہیں... کہہ یہ رہے ہیں کہ بھائی جان ... ہم ایک امت ہیں... ایک بدن ہیں اور بدن کے جس حصے میں درد ہوتا ہے تو پوری امت کو درد ہوتا ہے... تو یہ درد سہا نہیں جا رہا۔ آپ مہربانی کرو... اپنی باری مجھے دے دو، میں سخت تکلیف میں مبتلا ہوں... یہ مصیبت یہیں کہیں خارج نہ ہو جائے... مجھے پہلے جانے دو، آپ کی مہربانی!
اور وہ صاحب جو غسل خانے کے آہنی دروازے پر ہاتھ رکھے اس کے کھلنے کے منتظر ہیں، ان کا ہاتھ ٹھوڑی سے ہٹا کر کہتے ہیں ،اور اپنی زبان میں کہتے ہیں "آہاآہا...ہوہو...سبحان للہ"
یعنی میں جو اتنی دیر سے کھڑا ہوں اور اپنے آپ کو روکے ہوئے ہوں... اپنی باری تمہیں دے دوں... گھاس چر گئے ہو کیا... میں امت کے لیے اتنی بڑی قربانی نہیں دے سکتا...
ایک اور حاجت مند... اور اس وقوعے کے چشم دید گواہ یوسف شاہ صاحب ہیں جو ہمارے ہم سفر تھے... برما میں پاکستان کے سفیر تھے اور پٹھان ہونے کے ناطت بُوباس سے عاری نہایت زندہ دل اور ہنس مکھ تھے۔
ان کا پسندیدہ موضوع بھی منیٰ کے غسل خانے تھے...
بقول ان کے ایک صاحب اپنی ناف کے زیریں حصے کو دونوں ہاتھوں سے کنٹرول کرتے ہوئے قطار میں اپنے آگے کھڑے حضرت سے درخواست کرتے ہیں کہ للہ... کرم کیجیے، مجھے پہلے جانے دیجیے کہ روانی آب ہوا ہی چاہتی ہے...
اور وہ صاحب پلٹ کر کہتے ہیں... آپ کے ہاں تو ہو ہی چاہتی ہے... ہمارے ہاں اس کا آغاز ہو چکا ہے... اور قطرہ قطرہ دریا مے شود ہوا جا رہا ہے۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔منیٰ میں یہ واحد شکایت تھی...
اگرچہ ہم نے کچھ تجربے اور کچھ ادھر ادھرتانک جھانک کر کے جان لیا تھا کہ اگر ہم نزدیکی پاکستان ہاؤس کے پہریدار سے نظر بچا ئے وہاں کے غسل خانوں تک پہنچ جائیں تو فراغت نسبتاً آسانی سے ہو سکتی تھی...
افتخار
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 11810
Joined: Sun Jul 20, 2008 8:58 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: منہ ول کعبے شریف

Post by افتخار »

اچھا موضوع ھے۔ استاد جاری رکھیں۔
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: منہ ول کعبے شریف

Post by چاند بابو »

نئی قسط شائع کرنے کا بہت بہت شکریہ بھیا جی۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
نورمحمد
مشاق
مشاق
Posts: 3928
Joined: Fri Dec 03, 2010 5:35 pm
جنس:: مرد
Location: BOMBAY _ AL HIND
Contact:

Re: منہ ول کعبے شریف

Post by نورمحمد »

شکریہ بھائی

مگر بہت دنوں کے بعد قسط لگی ہے - پھر بھی شکریہ
Post Reply

Return to “نثر”