سفرنامہ پریوں‌کی تلاش بارہویں قسط وارث اقبال

اردو نثری قلم پارے اس فورم میں ڈھونڈئے
Post Reply
وارث اقبال
کارکن
کارکن
Posts: 69
Joined: Wed May 30, 2012 10:36 am
جنس:: مرد

سفرنامہ پریوں‌کی تلاش بارہویں قسط وارث اقبال

Post by وارث اقبال »

صُبح کے درِیچے میں جھانک اے شبِ ہِجراں
کر دِیا تجھے ثابت، بے ثبات پِھر میں نے
(قتیل ؔ شفائی)
اب ہم پہاڑوں کے درمیان میں تھے۔ یہ علاقہ بہت ہی عجیب ہے، انڈیانا جونز کی فلموں کی کوئی سائیٹ یا کو بوائز کادیس۔
مٹی کے ان اونچے اونچے پہاڑوں پر لا تعداد شبیہات اور اشکال دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ایک جگہ بدھا کامجسمہ بھی نمایاں تھا جو پہاڑ کی چوٹی کو تراش کر بنایا گیاتھا۔ یہ شبیہات کئی لحاظ سے حیران کن ہیں۔ ایک تو یہ کہ ان میں سے اکثر سمجھ نہیں آتیں، دوسرا یہ کہ یہ بہت اونچائی پر بنائی گئی ہیں۔ بعض ایسی ہیں کہ سمجھ نہیں آتا کہ انسان اتنی اونچائی پر کیسے پہنچا ہو گا۔ سمجھ نہیں آتا کہ ان شبیہوں کو تراشنے والا کوئی انسان تھایا قدرت خود۔ تاریخ اس کا جواب تو دیتی ہے۔ لیکن یہ جواب بھی حتمی نہیں۔ کسی زمانے میں یہ علاقہ ہندو دھرم کا مرکز تھا۔ ان پہاڑوں کے اندر مندروں اور ہندو خانقاہوں کے آثار ابھی تک موجود ہیں۔ ہو سکتاہے کہ ان مندروں اور خانقاہوں کے لوگ یا طالب علم یہ شبیہات بناتے رہے ہوں۔ یا پھر یہ کہ چونکہ یہ مٹی کے پہاڑ ہیں اس لئے بارش یا موسم نے اْن پر جو نشان چھوڑے وہ ہمیں شبیہیں لگتی ہیں۔ جو دراصل ہیں نہیں لیکن یہ ہماری سوچ ہے جو انہیں شبیہہ کی صورت دے رہی ہے۔
تاہم حقیقت یہ تھی کہ یہاں پہنچ کر میرے ہم سفروں میں کچھ دلچسپی پیدا ہوئی۔
عابد کہنے لگے،
” بھائی جان اگر آپ کے پاس گن ہوتی تو ہم ان پہاڑوں کے اندر جاتے۔“
” ہم اب بھی جاسکتے ہیں تم جانے والے بنو۔“
”نہیں ذرا اسلحہ پاس ہو تو کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔“
”امریکہ کے پاس ایٹم بم ہے، مزائل ہیں، توپیں لیکن امریکن پھر بھی خوف میں ڈر میں کیوں رہتے ہیں۔ اسلحہ اگر حفاطت کرتا ہوتا تو ۹ نومبر کا واقعہ نہ ہوتا۔“
عابد ”جی۔۔۔۔“ کہہ کر سڑک پر متوجہ ہو گیا۔ جیسے وہ کہہ رہا ہو آپ سے بات کرنا ہی سو کا گھاٹا ہے۔
سڑک نہ ہونے کے برابر تھی۔ ا یک سڑک سے کئی سڑکیں یا پکڈنڈیاں نکل رہی تھیں جو کہیں جنگل نما جھاڑیوں میں جاکر گم ہو جاتیں یا پھر بل کھا کر کسی موڑ کی گود میں چھپ جاتیں۔ یہاں ہمیں ایک بار پھر ویرانی اور وحشت نے گھیر رکھا تھا۔تاہم اچانک کسی موڑ پر یا جھاڑیوں کے پیچھے سے کوئی اونٹ سوار برآمد ہوتا تو ہمیں آگے بڑھنے کا حوصلہ ملتا۔ جھاڑیوں اور چھوٹے درختوں کا سلسلہ اتنا گھنا اور دور تک پھیلاہوا تھا کہ اْس نے لکیر نما سڑک کو اس طرح چھپا رکھا تھا جس طرح کوئی ماں آندھی میں اپنے بچے کو اپنی چادر میں چھپا لیتی ہے۔
یہاں پہنچ کر مجھے احساس ہوا کہ ہم راستہ بھول گئے ہیں۔ لیکن میں کسی سے اظہار نہیں کررہا تھا اور اس انتظار میں تھا کہ کوئی انسان دکھائی دے تو اس سے راستہ پوچھوں۔ راستہ تو بھول چکے تھے لیکن میرا اندازہ اور تجربہ بتا رہاتھا کہ ہم اپنی منزل پر پہنچنے ہی والے تھے۔ گاڑی میں عابدہ پروین جو سنا رہی تھیں وہ اس وقت حسبِ حال تھا۔ لگتا تھا کہ شاعر واصف علی واصف نے یہ شاعری کی ہی ہمارے لئے تھی۔
میں نعرۂ مستانہ، میں شوخیٔ رِندانہ
میں تشنہ کہاں جاؤں، پی کر بھی کہاں جانا
میں پْھول ہوں، شبنم ہوں، میں جلوۂ جاناناں
میں واصف بسمل ہوں، میں رونقِ محفل ہوں
اِک ٹْوٹا ہوا دل ہوں، میں شہر میں ویرانہ
واصف علی واصفؔ کی یہ غزل سن کر میں خود اپنے آپ سے یہ سوال کرنے پر مجبور ہو گیا۔
میں کیاہوں، کیاچاہتا ہوں۔ لوگ تو اپنے بچوں کو رونق میلے دکھانے کے لئے نکلتے ہیں لیکن میں انہیں اس ویرانہ میں کیوں لایا ہوں۔ لوگ تو اپنے بچوں کو فلمیں دکھانے لے کرجاتے ہیں اور میں انہیں یہ پتھر دکھانے کیوں نکلا ہوں۔ لوگ اپنے بچوں کوآرام و آسائش کی جگہوں پر لے کر جاتے ہیں میں انہیں اس دشت میں کیوں لایا ہوں۔
پھر کسی پہاڑ کے پیچھے سے، کسی جھاڑ کے اندر سے، کسی پتھر کے نیچے سے بیک زبان یہ جواب ملتا ہے، تو دشت ہے دشت سے ملنے آیاہے، تو تنہائی ہے تنہائی سے رفاقت نبھانے آیا ہے، تو گداز ہے، پھولوں سے ملنے آیاہے۔تو یہاں کیوں نہ آئے یہ تیرا ہی تو ہے،تیرے مالک نے تیرے لئے ہی تو پیدا کیا ہے، تو کسی ویرانے یا دشت میں نہیں آیا۔بلکہ تُو تو اپنے مالک کے بنائے ہوئے شاہکار کے اندراترنے کے لئے آیا ہے۔
پہاڑ وں نے مجھے کہا،
”اپنا غصہ، اپنی نفرتیں، اپنے حسد، اپنی کدورتیں اور اپنے اندر کی گھٹن ہمیں دے دو اور یہاں سے پھولوں کی نرمی و گداز لے جاؤ، یہاں سے پھلوں کی شیرینی لے جاؤ۔ یہ سودا کوئی مہنگا تو نہیں۔“
میں نے سوچا، یہاں وہ علم ملتا ہے جو کسی یونیورسٹی میں نہیں ملتا۔ یہاں پاپی من چلا چلا کر کہتا ہے، میں ناہیں سب تو، اے خالقِ قدرت میں ناہئیں سب تو۔ میں تیرا عاجز، ناکارہ معمولی سا بندہ۔
یہاں میں حبیب جالب کو بھی نہیں بھول سکتا۔
پُھول کھِلے تو دل مُرجھائے، شمع جلے تو جان جلے
ایک تمہارا غم اپنا کر، کتنے غم اپنائے ہیں
ایک قیامت کا سنّاٹا، ایک بلا کی تاریکی
ان گلیوں سے دُور، نہ ہنستا چاند، نہ روشن سائے ہیں
پیار کی بولی بول نہ جالب ؔ! اس بستی کے لوگوں سے
ہم نے سُکھ کی کلیاں کھو کر، دُکھ کے کانٹے پائے ہیں
جب ہم جھاڑیوں کے چھپر نما جھنڈ سے نکلے تو سامنے ایک چھوٹے سے پُل کے پیچھے ایک باغ کو پایا تو سکون ملا کیونکہ یہی ہماری منزل تھی۔ جونہی ہم اُس پل پر پہنچے تو اس کے نیچے بہتے ہوئے نالی نما نالے نے ہمیں رکنے کا اشارہ کیا لیکن ہم نے اُس کی بات نہ مانی کیوں کہ مجھے پتہ تھا جہاں سے یہ پانی آرہا ہے وہاں ہم کچھ ہی دیر میں پہنچ جائیں گے۔ اور ایسا ہی ہوا ہم کچھ ہی دیر میں باغ کے اندر تھے۔
ہمارے سامنے دائیں جانب ایک سرکاری عمارت تھی۔ جو بنانے والوں نے تو شاندار بنائی ہو گی لیکن سنبھالنے والوں نے اس کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا تھا۔ دوملازم اپنی سائیکلوں سمیت دکھائی دئیے لیکن کچھ دیر بعد غائب ہوگئے۔ لگتا تھا یہاں کچھ ملازم ہیں ضرور اور وہ کچھ کام بھی کرتے ہیں لیکن حاضری لگا کر چلے جاتے ہیں۔باغ میں داخل ہوں تو ایک چھوٹے سے صاف پانی کے نالے پر بنے چھوٹے سے لکڑی کے پل سے گزرنا پڑتا ہے اس سے پہلے ایک بورڈ آپ کو ا س باغ کے حوالے سے کچھ معلومات فراہم کرتا ہے۔ یہ باغ 1933 میں بنایا گیا، یہاں تقریبا ہر قسم کا پھل دار درخت موجود ہے۔ اس کے علاوہ چھ قسم کی مچھلی اور آٹھ قسم کے جانور موجود ہیں۔ باغ کے اندر جا کر پتہ چلتا ہے کہ محکمہ زراعت خوشاب کے زیرِ سایہ چلنے والا یہ باغ ایک خوبصورت باغ ہے۔ جس کی محکمہ نے اچھی حفاظت بھی کر رکھی ہے۔ اس باغ کی شہرت کی وجہ اور اس باغ کی جان ایک چشمہ ہے جو چٹانوں کے اندر سے رستے ہوئے نکلتا ہے۔ صاف پانی کا ایسا چشمہ جو اپنے ماخذ کے ساتھ موجود ہو کم ہی دیکھنے کو ملتاہے۔ اس کے پانی کو چھوٹے چھوٹے نالوں کے ذریعے اس باغ کے ہر حصہ میں پہنچایا گیاہے۔ اس طرح یہ چشمہ باغ کی سیرابی کے بعد باغ سے باہر چلا جاتا ہے۔
اس باغ میں ایک ٹریک بھی بنایا گیا ہے جو باغ کے چاروں اطراف گولائی میں گھومتا ہے۔یہاں آکر ایک لمحہ کے لئے بھی احساس نہیں ہوا کہ ہم اتنا وحشت ناک سفر کر کے آئے تھے۔ ہم چونکہ اتنامشکل سفر کر کے یہاں پہنچے تھے ا س لئے یہاں رکنے کو جی چاہ رہا تھا، ہم سب اس باغ کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہونا چاہتے تھے، چشمہ کا صاف پانی کو دیکھ کر میرے بچوں کی رگِ تیراکی پھڑک رہی تھی، میں اس باغ کے ارد گرد ایک چکر لگانا چاہتا تھا اور میری مسز یہاں کے پھل چکھناچاہتی تھیں۔ لیکن راستے کی صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے میں اور عابد یہاں سے جلدی نکلنا چاہتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ یہاں صرف ایک گھنٹہ گزارنے کے بعدہم گاڑی میں بیٹھ کر واپسی کی طرف گامزن تھے۔

وہ دن جو ہمارا نہ تھا۔
کیا کِسی نے دستک دی پِھر کسی ستارے پر
رقص کرتے دیکھی ہے کائنات پِھر میں نے
شاید اِس طرح دُنیا میری رہ پہ چل نکلے
قریہ قریہ بانٹی ہے اپنی ذات پِھر میں نے
(قتیل ؔ شفائی)

جس طرح کے سفر پر ہم نکلے تھےایسے سفرمیں کبھی کبھی ایسے عجیب و غریب واقعات بھی رونما ہو جاتے ہیں جن کی ہر شخص اپنی اپنی تعبیریں نکالتاہے۔ ہم باغ سے نکل کر اُس نالے کے پل پر پہنچے جہاں سے آتے ہوئے ہم باغ میں داخل ہوئے تھے۔ اس پُل کے نیچے چشمے کا ہی پانی تھا جوبصورت نالہ بہہ رہا تھا۔ میں نے اُ س نالہ کے کنارے پرکھڑے ایک عمر رسیدہ شخص کو دیکھا جو ہمیں رکنے کا اشارہ کر رہا تھا۔ عابد نے پتہ نہیں اُسے دیکھا تھا یا نہیں لیکن میں اُسے دیکھ رہا تھاوہ ہمیں گاڑی کے پیچھے کی طرف دیکھنے کا اشارہ کر رہاتھا۔ میرے کہنے پر عابد نے گاڑی روکی اور میں اتر کر گاڑی کے پیچھے جا کر گاڑی کو دیکھنے لگا۔نیچے سڑک کے عین درمیان میں بہتے ہوئے تیل کی ایک لمبی لکیر کافی دور تک جا رہی تھی۔ لگا جیسے یہ تیل ہماری گاڑی سے گرا تھا لیکن جب ہر طریقہ سے اطمینان کر لیا تو پتہ چلا کہ یہ تیل ہماری گاڑی سے نہیں گرا تھا۔ پھر بھی ہم ہر طرح سے اطمینان کرنے کے بعد گاڑی میں بیٹھے اور چل پڑے۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہاں وہ عمر رسیدہ شخص موجود نہیں تھا۔ لیکن میں نے اُس کی غیر موجودگی کو یکسر نظر انداز کر دیا۔
ہم اپنی منزل کی طرف گامزنِ سفر تھے، موسیقی جاری تھی اور کھانے پینے کی اشیا پر بھی ہاتھ صاف ہورہا تھا۔ ہم سب مصروف تھے لیکن عابد بے چین تھے اور گاڑی سے چھیڑ چھاڑ بھی کر رہے تھے۔ میں نے ان کی بے چینی دیکھ کر پوچھا، ” عابد کیا بات ہے، خیر تو ہے؟“
”گاڑی پک نہیں پکڑ رہی، بھائی جان۔“
میں نے کہا،
”تیل پانی چیک کر لو۔“
یوں ہم نے گاڑی روکی عابد اور میں اترے اور گاڑی کا چیک اپ شروع کیا، گاڑی اس مریض کی طرح تھی جو خود تو ایک لفظ نہ بولے لیکن اُس کے گھر والے بیماری کی نوعیت جاننے کے لئے اپنے اپنے طریقہ سے اُسے چیک کر رہے ہوں۔ ہمارے پاس کوئی اوزار تو تھا نہیں بس علامات کے ذریعے مریضہ کی بیماری تک پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ایسی صورتِ حال میں جب ڈاکٹرز کو کچھ سمجھ نہ آرہا ہو تو بس یہ کہہ کر جان چھڑاتے ہیں،
”ڈیپریشن ہے جی۔“
لیکن ہم تو اس وقت یہ بھی نہیں کہہ سکتے تھے۔ گاڑی نہ گرم تھی اورنہ ہی اس میں سے کوئی ناخوشگوار بو آ رہی تھی، میں نے خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کرایکسیلیٹر کو دبا کر چیک کیا، سب کچھ ٹھیک تھا۔ اپنا اطمینان کرنے کے بعد ہم دوبارہ گاڑی میں آ گئے۔ لیکن گاڑی کی وہی صورتِ حال تھی۔
عابد کہنے لگا، ”بھائی جان! لگتا ہے جیسے کوئی گاڑی کوپیچھےسے کھینچ رہا ہو۔“
ہم سب نے پیچھے مڑکر دیکھا۔ کچھ نہ تھا۔ میں نے عابد سے کہا،
”کسی سایہ دار جگہ پر گاڑی روکو اور اس کے ویل جیک لگا کر چیک کرو، کوئی ویل جیم نہ ہو۔“
عابد نے ایک اچھی اور گھنی سایہ دار جگہ گاڑی روکی تو ہم نے ایک ایک ویل کو جیک لگا کر چیک کیا۔ سب کچھ ٹھیک تھا۔ اس کام میں ہمیں کوئی آدھا گھنٹہ لگ گیا۔ لیکن گاڑی کی چلن درست نہ ہوئی جونہی اونچی جگہ آتی گاڑی اوپر چڑھنے سے انکار کر دیتی اور ہم سب گاڑی سے اترنے پر مجبور ہو جاتے۔
جب بچوں کو پتہ چلا کہ گاڑی کسی نامعلوم عارضہ میں مبتلا ہے تو وہ اپنے شگوفے چھوڑنے لگے۔
’’ لیں جی آگیا کہانی میں ٹوسٹ‘‘
’’ آج بکریوں کا دودھ پیناپڑے گا۔‘‘
’’ بچو گے تو پئیو گے۔‘‘
’’ اللہ اللہ کرو یار ۔۔۔ ایسی باتیں نہیں کرتے۔‘‘
’’ رات کہاں رہیں گے ماما۔‘‘
’’ اُ س پہاڑ کی غار میں۔‘‘
اس حالت میں ہمارا سفر ایک نیا رخ اختیار کر چکا تھا۔ کچھ دیر بعد تو مجھے یوں محسوس ہونے لگا جیسے میں صحرائے گوبی میں ہوں اور میرا اونٹ بیمار ہو گیا ہے۔ دور نزدیک نہ کوئی طبیب ہے نہ کوئی مسیحا۔
آہ!
غریب الوطنی بڑی عجیب ہوتی ہے
یہاں فطرت ہی رفیق ہوتی ہے
پڑجاتے ہیں چھالے جب چل چل کر
تو فطرت ہی طبیب ہوتی ہے
وہ موڑ اور پکڈنڈیاں جن کی خوبصورتی سے ہم آتے ہوئے لطف ا ندوز ہو رہے تھے۔ وہی وحشت بکھیر رہے تھے۔ وہ راستے جو وحشت ناک تھے کرب ناک بن گئے تھے۔ جوں جوں ہم آگے بڑھ رہے تھے گاڑی کامزاج زیادہ خراب ہو تا جارہا تھا۔ اب ہمیں زیادہ پیدل چلنا پڑ رہا تھا۔ پہاڑی سڑک پر پیدل چلنا اتنا آسان نہیں۔ کہیں کہیں پیدل چلنے والے اتنے نڈھال ہو جاتے کہ کچھ دیر کے لئے گاڑی کو روکنا پڑتا۔ کہیں گاڑی چلنا بند کر دیتی تو پیدل چلنے والوں کو روکنا پڑتا۔
کوئی کسی کو چھوڑ کر آگے نہیں جا سکتا تھا۔ کھانے پینے کی اشیا کا بڑا حصہ تو باغ میں ہی ختم ہو گیا تھا، جو بچاتھا وہ راستے میں ختم ہو گیا۔ چونکہ ہم زیادہ کوک اور پیپسی پی رہے تھے اس لئے پیاس بھی زیادہ لگ رہی تھی۔ کوک اور پیپسی سے بات پانی پر پہنچی اور پھر پانی بھی ختم ہو گیا۔ سورج تھا کہ آگ کا گولا بنا ہو اتھا۔ درختوں اور پودوں میں سے ٹھنڈی ہو کر آنے والی ہوا سورج کی گرمی کی شدت کو کچھ کم کر رہی تھی۔ لیکن پیاس کاکیاکرتےحلق سوکھنا شروع ہوگئے پانی کی ایک بوند نہ تھی اور کھانے کو ایک ذرہ نہیں۔ شکر تو یہ تھا کہ ہم صبح ہوٹل سے جلدی نکلے تھے ورنہ ابھی تک شام ہو جاتی۔ یوں ہمارے پاس زادِ راہ میں سے اگر کچھ باقی بچا تھا تو وہ تھا وقت۔۔۔ جواس وحشت،مصیبت اور خوف میں واحد سہاراتھا۔ منزل کو دور پا کر اور اپنی سواری کی بیماری کو دیکھ کر میرے ذہن میں ایک سوال نے جنم لیا،
”اگر ہمیں یہاں اس ویرانہ میں رات بتانی پڑے تو ہم کیاکریں گے۔“
جواب ملا،
”نہیں، ہر گز نہیں۔ ہم یہاں نہیں رک سکتے ہمیں دوپہر ڈھلنے سے پہلے ہر صورت میں مین روڈ پر پہنچنا ہے۔ یا پھر افغانیوں کی بستی میں۔“
Post Reply

Return to “نثر”