سفرنامہ پریوں کی تلاش دسویں قسط وارث اقبال

اردو نثری قلم پارے اس فورم میں ڈھونڈئے
Post Reply
وارث اقبال
کارکن
کارکن
Posts: 69
Joined: Wed May 30, 2012 10:36 am
جنس:: مرد

سفرنامہ پریوں کی تلاش دسویں قسط وارث اقبال

Post by وارث اقبال »

تری چاہت کے بھیگے جنگلوں میں
مرا تن مور بن کر ناچتا ہے
میں اس کی دسترس میں ہوں مگر وہ
مجھے میری رضا سے مانگتا ہے
سڑک کو چھوڑ کر چلنا پڑے گا
کہ میرے گھر کا کچا راستہ ہے
(پروین شاکر)
کلر کہار کی جھیل سے ہم آہو باہو کے مزار پر پہنچے۔ کہا جاتا ہے کہ اس مزار کی زیارت کے لئے مور بھی آتے ہیں۔ اگر کوئی مور یہاں نہ آئے تو وہ اندھا ہو جاتا ہے۔ مزار کے راستہ میں ہمیں ابھی تک کوئی مور دکھائی نہیں دیا تھا۔ میں مزار میں فاتحہ پڑھنے کے بعد باہر مزار کے احاطہ میں آگیا لیکن مجھے کوئی مور دکھائی نہ دیا۔اگر ہم مزار کی طرف منہ کر کے کھڑے ہوں اور اپنی دائیں جانب دیکھیں تو ایک پہاڑی پر ایک خانقاہ دکھائی دیتی ہے۔ اگرچہ اس خانقاہ تک جانے کے پیدل راستے موجود ہیں لیکن چونکہ یہ جگہ بہت اونچی ہے اس لئے یہاں لوگوں کی سہولت کے لئے ایک لفٹ لگائی گئی ہے۔ میں اِس مزار اور اُس مزار کے درمیان تعلق بنانے کی کوشش کر رہاتھاکہ میرے بیٹے نے میری توجہ سڑک پر آتے ہوئے موروں کی طرف دلائی۔میں نے اپنے بچوں سے یہ کہا تھاکہ آپ نے موروں کو تنگ نہیں کرنا صرف ان کارویہ دیکھنا ہے۔ یہ موروں کا جوڑا تھا جو سڑک پر اس طرح چلا آرہاتھا جس طرح دو انسان چلتے ہیں۔ اس سڑک کے ارد گرد دکانیں بند تھیں وہ مور تھے،
سڑک تھی یا دور ہم۔
اُن موروں کے پیچھے ایک اور جوڑا آیااور پھر موروں کی قطاریں بندھ گئیںُن موروں نے مجھے پریشان بھی کیا اور حیران بھی۔ کوئی مور کسی سے آگے جانے کی کوشش نہیں کررہا تھا، کوئی مور اُڑ کر نہیں آرہاتھا۔ ہر مور کا سرجھکا ہو اتھا۔ جگہ تلاش کر کے ہم بھی موروں کی اس قطار میں شامل ہو گئے۔ ہم مزار کے اندر جا کر ایک برآمدے میں بیٹھ گئے۔ مور آتے مزار کے اندر جاتے، اندر تین چارچکر لگاتے، باہر آتے،دانہ دنکا چگتے، ٹہلتے،ادھر ادھر پھرتے، ایک درخت پر جا کر کچھ دیر بیٹھتے اورپھر وہاں سے جنگل کی طرف اُڑ جاتے۔ میں نے جتنے مور دیکھے اُن کا یہی رویہ تھا۔ میں نے مزار کے احاطہ میں کسی مور کو اُڑتے نہیں دیکھا۔
ہم مزار کے اس حصہ کے پیچھے گئے جہاں وہ درخت تھا جس پر مور بیٹھتے تھے۔ وہاں بہت سے مور دیکھنے کو ملے۔ جب ہم آگے جنگل میں گئے تو پتہ چلا کہ مور درختوں پر نہیں رہتے بلکہ گنجان آباد جنگل کی گنجان جھاڑیوں میں رہتے ہیں۔ ان موروں اور اس مزار کے بارے میں کئی سوال بھی اُٹھے۔
موڑ اُڑ کر بھی اس مزار کے احاطے میں آ سکتے تھے لیکن وہ سڑک پر چلتے ہوئے ایک لمبا چکر کاٹ کر سرجھکائے مزار کے احاطہ میں کیوں داخل ہورہے تھے؟
وہ پیدل چل کر کیوں آتے ہیں اُڑ کر کیوں نہیں؟
شاید آپ یقین نہیں کریں گے یا اسے محض مبالغہ آرائی سمجھیں گے۔ میں نے جو دیکھا لکھ دیا۔
اس مزار کے اندر ایک کتبہ موجود ہے جو اس مزار کے بارے میں رہنمائی کرتا ہے اس کتبہ کے مطابق اس علاقہ کے لوگوں کو ہندوؤں کے ظلم سے بچانے کے لئے حضرت غوثِ اعظم نے اپنے دوصاحبزادے بھیجے، جن کا نام آہو اور باہو تھا۔ یہ دونوں صاحبزادے ہندوؤں کے ساتھ جنگ کرتے ہوئے اس مقام پر تشریف لائے اور یہیں شہید ہو گئے۔ یہ انہی کے مزار ہیں۔ آہو اور باہو۔ میں جب اس علاقہ کے بارے میں تحقیق کرنے نکلا تو مجھے اس مزار کے حوالے سے بہت ہی حیران کن اورمتضاد معلومات ملیں۔
ہندوستان میں سلاطین کا دور شروع ہو چکا تھا۔ بڑے بڑے شہروں پر مسلمانوں کی حکومتیں قائم ہو چکی تھیں۔ مسلمان بزرگانِ دین اور علمائے کرام دین کی تبلیغ کے لئے ہندوستان آرہے تھے۔ ان بزرگانِ دین نے خانقاہیں بنا کردرس و تدریس اور تبلیغ ِ اسلام کا سلسلہ شروع کیاہوا تھا۔ ان مراکز میں دارالحکومت دہلی، لاہور اور ملتان اہم تھے۔ ملتان اور دہلی سے بہت سے بزرگانِ دین کلر کہار آتے جاتے رہتے۔ خاص طور پر ملتان کے علاقہ سے دریاؤں کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے کشمیر جانے والے بزرگ یہاں پہنچتے اور پڑاؤ کرتے۔ یہاں انہیں فطرت کے مختلف روپ بھی دیکھنے کو ملتے۔ کہا جاتا ہے کہ مشہور بزرگ سلطان باہو یہاں ایک مرتبہ اپنے ایک دوست کے پاس تشریف لائے۔ رمضان کا مہینہ تھا اور آپ ایک غار میں جا بیٹھے اور اپنے دوست کو بتا کر اسی غار کو اپنا مسکن بنا لیا۔ راوی لکھتا ہے کہ حضرت سلطان العارفین رحمتہ اللہ علیہ عبادت وریاضت کے لئے جنگل میں چلے گئے۔ کچھ عرصہ بعد ان کے دوست اپنے ساتھیوں کے ساتھ اُس جگہ پہنچے جہاں آپ موجود تھے۔ سب پریشان تھے کہ یہاں آپ کے خورو نوش کا انتظام کیسے ہوتا ہو گا۔ یہ لوگ اُس وقت حیران و پریشان ہو گئے جب ایک غیبی ہرن خورو نوش کا سامان لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ غیبی ہرن کا راز کھل چکا تھا اس لئے اس نے اپنے مالکِ حقیقی کے پاس جانے کی استدعا کی،
”اس کی التجا پر آپ رحمتہ اللہ علیہ نے نگاہ فرمائی جس کو وہ برداشت نہ کرسکا اورواصل بحق ہوا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ اس وقت وہاں ایک اور درویش بھی موجود تھا اس نے عرض کی کہ میں ایک عرصہ سے خدمت میں موجود ہوں مگر مجھ پر ایسی توجہ نہ کی گئی حضرت سلطان العارفین رحمتہ اللہ علیہ نے اس پر توجہ فرمائی تو وہ بھی۔۔۔ واصل بحق ہوا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے دونوں کے مزارات ساتھ ساتھ بنادیئے آپ رحمتہ اللہ علیہ کی نسبت کی وجہ سے وہ جگہ ''آہو باھُوؒ ''کے نام سے مشہور ہوگئی۔“
http://www.sultan-bahoo.com/urdu/karama ... bahoo.html
خیر! ہم موروں کے دیدار کے بعد تختِ بابری کی طرف چل دئیے۔ یہ وہ جگہ ہے جس کے ماحول اور اس کی خوبصورتی کی ستائش بابر نے تزکِ بابری میں کچھ یوں کی ہے۔ ”بھیرہ سے سات کوس کے فاصلہ پر ایک پہاڑ واقع ہے۔ اس کو۔۔۔۔کتابوں میں ’کوہِ جودھا ‘ کہا گیاہے۔ بھیرہ سے چلے اور ظہر کے وقت کلر کہار میں اُترے یہاں چارں ا طراف گیہوں کے کھیت ہیں۔ یہ قابلِ دید مقام ہے۔ اسی میدان میں ایک تالاب بھی ہے۔ چونکہ جگہ عمدہ تھی اس لئے میں نے ایک باغ تیار کروایا اس کا نام
باغِ صفارکھا۔“
جھیل کے بالکل سامنے پی ٹی ڈی سی ہوٹل کے تقریباً ساتھ ہی کچھ اونچائی پر ایک چھوٹی سی پہاڑی ہے۔ کہا جاتا ہے اس پہاڑی پر بابر کاتخت بنایا گیاتھا۔ جس پر بیٹھ کر اس نے اپنی فوج سے خطاب کیا تھا۔ جب میں نے اس تخت پر کھڑے ہو کر یہ اندازہ کرنے کی کوشش کی کہ بابر کہاں کھڑا ہوا ہوگا اور کہاں اُس کی فوج ہو گی تو میں نے سامنے دیکھا ارد گرد دیکھا۔ سر سبز پہاڑوں پر حد نگاہ تک بابر کا لشکر پھیلا ہواتھا۔ جانے یہاں ایسے کتنے لشکر آئے ہوں گے، کتنوں نے یہاں پڑاؤ کیاہو گا، کتنے ان سرسبز پہاڑوں سے سبزہ اُڑاتے ہوئے آگے بڑھ گئے ہوں گے۔ لیکن ان پہاڑوں نے سب کے نشان مٹا دئیے۔اللہ تعالی نے ان پہاڑوں کو کتنی وسعتِ قلب عطا کی ہے کہ یہ بنانے والوں کو بھی اور بگاڑنے والوں کو بھی، سب کو پناہ دیتے ہیں۔ یہ ان پہاڑوں کی وسعت قلبی نہیں ہے یہ مالکِ برحق کی وسعتِ قلبی ہے کہ جو اُسے بھی پالتا ہے جو اُس کے وجود سے انکاری ہوتا ہے اور اُسے بھی جو اُس کے در پر اپنی جبینِ نیاز جھکا دیتا ہے۔ اُس پہاڑی پر کھڑے ہو کر فطرت کی وجاہت اور خوبصورتی میرے اندر ایک ہلچل مچا رہی تھی۔ ایک ہی سوچ سب سوچوں پر حاوی تھی اگر یہ منظر اتناخوبصورت ہے تو اس کو بنانے والا کتنا خوبصورت ہو گا۔ اگر یہ منظر اتنا وسیع وعریض ہے تو اس کا مالک کتناعظیم اور وسعتوں کا مالک ہوگا۔
پرندوں کی آوازیں ارد گرد کے ماحول میں سحر پیدا کر ر ہی تھیں۔ اس عالم میں دل لمحہ لمحہ خدائے لم یزل کی بارگاہ میں سر بسجود ہونے لگا، آنکھوں کی پتلیاں خود بخود قدرتِ الہی کے شاہکار کی حرمت کے سا منے جھکنے لگیں۔ پتہ نہیں کب رکوع ہوئے کب سجود اور کب بندگی کا شدیداحساس تن بدن میں سرایت کر گیا۔
میں کون ہو ں اے ہم نفساں، سوختہ جاں ہوں
اک آگ مرے دل میں ہے جوشعلہ فشاں ہوں

وادی کے بیچوں بیچ

لایا ہے مرا شوق مجھے پردے سے باہر
میں ورنہ وہی خلوتی رازِ نہاں ہوں
جلوہ ہے مجھی سے لبِ دریائے سخن پر
صد رنگ مری موج ہے میں طبع رواں ہوں
(میر تقی میر)

یہاں سے دیکھا تو جھیل پر ابھی بھی کووں کا ناشتہ جاری تھا۔ مجھے جھیل کے پیچھے موٹر وے اور کوہِ سلیمان کا لمبا سلسلہ بھی دکھائی دے رہا تھا۔ کسی زمانہ میں اس جگہ کو کلیر کہار کہا
جاتا تھا اور یہ علاقہ کشمیر کے حکمرانوں کے زیرِ اطاعت تھا۔ابو ظفر ندوی تاریخ سندھ کے مطابق محمد بن قاسم کے حملہ کے بعد راجہ داہر کاا یک بیٹا کشمیر چلا گیا جہاں کے
حکمران نے اُسے کلر کہار کا علاقہ دے دیااور یوں اس نے یہاں آزاد حکومت کی بنیاد ڈالی اور یہ علاقہ کشمیر کی زیرِ اطاعت نہ رہا۔
دور کوئی بھی ہو حکمران کوئی بھی ہو یہ پہاڑ ی سلسلہ کشمیر اور ملتان کی حکومتوں کے درمیان سرحد ی فصیل کا کام بھی کرتا تھا۔
یہاں سے ہم واپس ہوٹل پہنچے، پراٹھوں اوراپنی اپنی پسند کے آملیٹ کا ناشتہ کیا، حسبِ ضرورت سامان سمیٹا، گاڑی میں رکھااور چل پڑے۔ ہماری منزل تھی جھیل کھبیکی۔ یو ں تو کلر کہار جھیلوں کی سرزمین ہے اور یہاں اوچھالی، جھالراور کھبیکی مشہور جھیلیں ہیں۔، لیکن ہم صرف کھبیکی اور اوچھالی تک ہی جانا چاہتے تھے۔
ہم خانقاہ سے گزرتے ہوئے ایک پہاڑی کی چڑھائی چڑھ رہے تھے۔ جس کی ایک طرف سرسبز جنگل تھاا ور دوسری طرف نیم سرسبز پہاڑیاں تھیں۔ ان پہاڑیوں پر کیڈٹ کالج کی عمارت بھی دکھائی دے رہی تھی۔ چند خطرناک موڑوں کے بعد سڑک ایک میدان میں داخل ہوئی۔ اس کے کناروں پر پتھروں سے چھوٹی سے فصیل بنائی گئی تھی۔ جبکہ دونوں جانب چھوٹی چھوٹی سرسبز پہاڑیاں تھیں۔ مجھے تو یوں لگا جیسے ہم زمین سے کسی بڑے سے تالاب میں اُتر گئے ہوں۔یہ ایک چھوٹی سی وادی تھی۔ جسے اپنے جیسی کئی وادیوں کا قرب بھی حاصل تھا۔ سڑک کی کسی نہ کسی جانب مہاجر پٹھانوں کے گھر ضرور دیکھنے کو ملتے جو جنگل سے لکڑی کاٹ کر کوئلہ بناتے ہیں۔ ان کے گھر خوبصورتی، محنت اور فطرت سے محبت کے آئینہ دار تھے۔ کوئی انہیں افغانی کہتا ہے،کوئی پٹھان اور کوئی کھوچہ، لیکن یہ ارد گرد کی ترقی، سیاست، سماج اور مذہب سب سے الگ ہیں۔
زمانے میں رہ کے رہے ہم اکیلے
ہمیں راس آئے نہ دنیا کے میلے
یہ اپنی ہی دنیا میں مگن ہیں۔ ان کا اپنا سماج ہے ان کے اپنے مسائل اور ترقی کے بارے میں ان کا اپنامفہوم۔ وہ جیسے کل تھے ویسے ہی آج ہیں۔
ایک چھوٹی سی چڑھائی کے بعد جب ہم نیچے اترے تو ہمارے سامنے پھر ایک کھلا میدان تھا، سڑک دور پہاڑ وں سے ٹکراتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی جبکہ اطراف میں گندم کے چھوٹے چھوٹے کھیت ہمارے ساتھ بھاگ رہے تھے۔ جنہیں ایک دوسرے سے الگ کرنے کے لئے پتھروں کی فصیلیں بنائی گئی تھیں۔ ان سب پتھروں کا رنگ سفید تھا۔ ماحول بھی خوش گوار تھا، مناظر بھی خوبصورت، چنانچہ ہم تصاویر بنانے کے لئے رک گئے۔ ہر کوئی اپنے اپنے انداز میں پوز بنا رہا تھا کہ ایک موٹر سائیکل سوار ہمارے قریب آکر رکا اور اس گیت کاپہلا شعر ہماری نظر کر کے چلا گیا۔
سانوں وی لے چل نال وے باؤ سوہنی گڈی والیا
اس ادھیڑ عمر آدمی کا رویہ انتہائی عجیب اور منفرد تھا۔ اس بیابان میں ہمیں وہ اپنے ہی دیس کا بھی لگا اورپیارا بھی۔
کچھ لوگ غیر ہوتے ہوئے بھی اپنے سے لگتے ہیں۔ وہ اپنے عمل، اپنی محبت اور اپنے اخلاص سے اپنے ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔
ایسے لوگ ہمارے ارد گرد موجود ہوتے ہیں، ہمیں مسکرا کر ملتے ہیں، ہمارے لباس کی تعریف کرتے ہیں، ا چھے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ جی آیاں نوں، ست بسم اللہ، خیر ہو، enjoy weekend وغیرہ۔ یہ لوگ سلاد کے پتوں کی طرح ہوتے ہیں۔بے وقعت، بے حیثیت۔ سلاد کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ سلاد کے بغیر بھی کھانا کھانا ہی ہوتا ہے۔ لیکن سلاد کھانے کے مزے کو بڑھا دیتی ہے۔ اُ سکے پتوں کی کڑواہٹ کھانے کے ساتھ مل کر مٹھاس میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ یہ لوگ بھی اپنے اندر کی کڑواہٹ کو اندر ہی رکھتے ہیں اور باہر لوگوں کی زندگیوں میں چند لمحوں کی مٹھاس گھول دیتے ہیں۔
صاف ستھری سڑک سانپ کی طرح بل کھاتے ہوئے اٹکھیلیاں کرتی پہا ڑوں میں جا کر گم ہو رہی تھی۔ پہاڑ کیا تھے کسی قلعہ کی فصیل تھے۔ جوں جوں ہم پہاڑوں کے قریب جارہے تھے ہمیں ان پر موجود بستیاں بھی دکھائی دینے لگی تھیں۔ کچھ ہی دیر میں یہ پہاڑ ہمارے دائیں جانب آ گئے اورہم ان پہاڑوں کے ساتھ کسی ایسے مسافر کی طرح دوڑ رہے تھے جس کی ریل چھوٹ رہی ہو۔
اس عالم میں مسعود رانا کے گائے ہوئے ایک گیت کے کچھ بول میرے لبوں پہ آگئے۔
ہم بھی مسافر تم بھی مسافر کون کسی کا ہوئے
کوئی ساتھ دے کہ نہ ساتھ دے یہ سفر اکیلے ہی کاٹ لے
کلر کہار سے منارہ اور منارہ سے کیل۔ ان دو قصبوں سے گذرتے ہوئے ہم کیل سے دائیں طرف تلہ کنگ روڈ پر ہو لئے۔ یہ کافی خوبصورت سڑک تھی لیکن اتنی ویران کہ ہم نے رکنا مناسب نہ سمجھا اور گاڑی تیز چلاتے ہو ئے کھبیکی جا کر سانس لیا۔
پاکستان کی مشہور جھیلوں میں سے ایک جھیل کھبیکی ہمارے سامنے تھی۔ یہ جھیل ڈھائی سے تین میل لمبی ہے۔ اسے چاروں اطراف سے سرسبز پہاڑوں نے گھیر رکھا ہے۔ دور پہاڑوں کو دھند نے ڈھانپ رکھا تھا۔ جس طرف سے ہم اس جھیل میں داخل ہوئے اس کاکچھ حصہ خشک ہو چکا تھا۔ اس لئے ہم گاڑی جھیل کے اندر لے گئے۔ اس کی سفید رنگ کی زمین سوکھ کر مچھلی کی کھال بن چکی تھی۔
جب ہم گاڑی سے باہر نکلے تو ہمیں احساس ہو ا کہ ہم کسی دلدل پر چل رہے تھے۔ جو کسی وقت بھی خطرناک ہو سکتی تھی۔ زمین اس طرح تھی جیسے کوئی فومی گدا۔ میرے بچے اس فومی جگہ پر چھلانگیں لگارہے تھے۔ میرا بھی دل چاہ رہا تھا کہ اس انمول تجربہ کے حصول میں شامل ہو جاؤں لیکن بسب دردِ کمر اپنی خواہش کو اندر ہی چھپا لیا۔میں جھیل کو لمبائی میں دیکھ رہا تھا اور اس کی لمبائی کا اندازہ کرنے کی کوشش کر رہاتھا۔ لیکن اس نے مجھے پلو نہ پکڑایا۔ بس سامنے جھیل کی باریک سی سطر پہاڑوں کی بانہوں کی پناہ میں چلی جا رہی تھی۔۔۔۔۔۔ ایک خوابیدہ پری شرم سے سمٹی ہوئی۔۔پہاڑوں کی پُرجلال کھلی ہوئی بانہیں۔۔۔ ایک پاک رابطہ۔۔ ایک پاک ملن۔۔۔۔۔
ہماری خوش قسمتی تھی کہ موسم ہمارا ساتھ دے رہا تھا۔ ورنہ شاید گرمی میں ہم پگھل جاتے۔ جھیل کا پانی صاف ستھرا تھالیکن شفاف نہیں۔ شاید بارش کی وجہ سے پہاڑوں سے آنے والے پانی نے اسے گدھلا دیاتھا۔ کچھ مقامی پرندے دور جھیل کے بیچوں بیچ موسم سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ وہ اتنی دور تھے کہ ہمارے لئے ان کی پہچان ناممکن تھی، بس اُن کی حرکتوں سے اندازہ ہورہا تھا کہ پرندے ہیں۔ ان کی مسلسل اور والہانہ ڈبکیاں بتارہی تھیں کہ اس جھیل میں ان کی خوراک کا خاصا سامان موجود تھا۔ مجھے وہ بچے یاد آ گئے جو برسات کی پہلی بارش میں سڑک یا گلی کے پانی میں والہانہ ڈبکیاں لگاتے ہیں۔ یہ قانونِ فطرت ہے کہ فطرت فطرت کے لئےاپنی بانہیں کھول دیتی ہے۔ جھیل کے دوسرے کنارے مویشی چرنے میں مگن تھے۔ بڑے شریف، بڑے قانع۔ ان کے اندازِ خوراک خوری سے لگتاتھا کہ انہیں کل کی کوئی فکر نہیں۔ ان کے لئے آج ہی سب کچھ تھا۔ ان کا کوئی ساتھی رہزن نہیں تھا، ان میں کوئی فاتح یامفتوح نہیں تھا، اُن میں کوئی درد اور درد کا درماں نہیں تھا۔۔ اُن میں کوئی ظالم نہیں تھا، کوئی مظلوم نہیں تھا۔۔۔۔ کسی کی کٹیا برسات میں نہیں جلتی تھی۔۔۔۔ نہ کسی کی بیٹی کی عصمت خطرے میں تھی۔۔۔۔۔۔۔ آہ! ہم انسان۔۔۔۔ جن کا سب کچھ خطرے میں ہے۔۔۔۔۔ بلکہ میں یوں کہوں گا کہ جن کا سب کچھ ہمیشہ خطرے میں رہتا ہے۔۔ کبھی ان کا کلچر، کبھی ان کی خاندانی غیرت وہ حمیت، کبھی عزت نفس، کبھی انا، کبھی اسٹاک ایکسچینج، کبھی بستیاں، کبھی سرحدیں اور کبھی ان کا محبوب ، اکلوتا اور انمول مذہب۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے اس خطرے کی موجودگی پر کوئی خطرہ یا خوف یا اندیشہ یا سوچ یا فکر نہیں ہے بس یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیمیائی، ایٹمی اور طرح طرح کے ہتھیاروں کے ہونے کے باوجود انسان کیوں خطرے میں ہے۔۔۔ کیا یہ ہتھیار، اور ٹیکنالوجی بھی ایک بڑا خطرہ تونہیں۔
بات جانوروں کی ہو رہی تھی۔۔۔۔۔۔اُنہیں دیکھ کر مجھے یہ احساس ہو رہا تھاکہ اللہ نے ہمیں سکھانے کے لئے کتنی مثالیں پیدا کی ہیں لیکن ہمارے پاس ان سے سیکھنے کا وقت ہی نہیں۔ ہمارے پاس ذوق ہی نہیں ہے، ہمارے پاس شوق ہی نہیں ہے۔۔۔۔ شاید ہمارے دماغ اتنے بھرے ہوئے ہیں کہ اس علم کو سمانے کے لئے ان میں جگہ ہی نہیں۔
اُن مویشیوں کے پیچھے دور تک پھیلے ہوئے سحر انگیز پہاڑ تھے، جن کے اوپر ہم نے جانا تھا۔ دیکھنے کو وہ آسان سا پہاڑی سلسلہ تھا لیکن اصل میں انتہائی دشوار گذار تھا۔ ان پہاڑوں میں کھیوڑہ سے شروع ہونے والا نمک کا سلسلہ چھپا ہو اتھا۔
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: سفرنامہ پریوں کی تلاش دسویں قسط وارث اقبال

Post by چاند بابو »

شاید آپ یقین نہیں کریں گے یا اسے محض مبالغہ آرائی سمجھیں گے۔ میں نے جو دیکھا لکھ دیا۔
میں اس بات کا عینی شاہد ہوں کہ وہاں مور اڑ کر نہیں آتے۔
مگر شاید یہ کوئی اتفاق ہو مزید یہ کہ میرا جب وہاں جانا ہوا وہاں مور اتنی تعداد میں موجود نہیں تھے اور ناں ہی میں نے انہیں پیدل چل کر آتے ہوئے دیکھا۔
البتہ نیچے چشمے والی طرف اترنے پر چند ایک مور نظر آئے تھے جو وہاں سے مزار کی طرف بھی آئے پیدل۔
خیر خدا جانے اس بات میں کوئی اتفاق ہے یا کوئی راز۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
وارث اقبال
کارکن
کارکن
Posts: 69
Joined: Wed May 30, 2012 10:36 am
جنس:: مرد

Re: سفرنامہ پریوں کی تلاش دسویں قسط وارث اقبال

Post by وارث اقبال »

جی چاند بھائی میرے لئے بھی یہ حیرانی کی بات تھی۔ اور میں نے وہاں رک کر ان کا بغور مشاہدہ کیا تھا۔
Post Reply

Return to “نثر”