سفرنامہ پریوں کی تلاش آ ٹھویں قسط وارث اقبال

اردو نثری قلم پارے اس فورم میں ڈھونڈئے
Post Reply
وارث اقبال
کارکن
کارکن
Posts: 69
Joined: Wed May 30, 2012 10:36 am
جنس:: مرد

سفرنامہ پریوں کی تلاش آ ٹھویں قسط وارث اقبال

Post by وارث اقبال »

ہماری گاڑی سسک سسک کر کلر کہار کا وہ موڑ کاٹ رہی تھی۔ جو اس سڑک پر آنے والی ہر گاڑی کا امتحانی مرکز ہے۔ جو گاڑی یہاں سے کامیاب ہو گئی وہ آگے جا کر سب پہاڑوں کو زیر کر سکتی ہے۔ یہ موڑ گاڑی کے ہوش اُڑا تا ہے، اُسے پسینے سے نہلاتاہے، ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کانوں کو ہاتھ لگوا دیتا ہے او ر آ ئندہ تیار ہوکر آنے کا سبق پڑھا کر جان چھوڑتا ہے۔ کچھ گاڑیاں تو ریں ریں کرتی ہیں، کچھ گھاں گھاں اور کچھ تو ایسی آوازیں نکالتی ہیں جن پر کوئی اسمِ صوت صادر ہی نہیں آتا یہ وہ جگہ ہے جہاں لوگ کھانا پیناتک بھول جاتے ہیں۔ چپس ہاتھ میں دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے اور پیپسی ا س امتحان سے سرخروئی کے بعد ہی مکمل ہوتی ہے۔ ٹرکوں کے ڈرائیور جن کا عطااللہ کے گیتوں اور غزلوں کے بغیر سفر کا ایک لمحہ بھی نہیں گذرتا وہ بھی میوزک بند کئے گاڑی کی چال میں کھو جاتے ہیں۔ بسوں میں بیٹھے ہوئے مسافروں کو پہلی دفعہ یہ بات سمجھ آتی ہے کہ ان کا بھی بوجھ ہے جسے اٹھانے سے یہ بس قاصر ہے۔ بس بیچاری اس طرح کُرلاتی ہے جیسے فائر لگی مرغابی۔ ہر پل یہی لگتا ہے کہ اب بند ہوئی کہ اب بند۔
کچھ چالاک اور تجربہ کار گاڑیاں جن میں زیادہ تر ٹرک ہوتے ہیں۔ ڈرائیور سے آرام کا وقت مانگ کر رک جاتی ہیں اور ڈرائیور سے خوب خدمت کرواتی ہیں۔
ہمارے سامنے ایک ٹرک رکا سستا رہاتھا۔ کچھ ہی فاصلہ پرا یک کوچ دھواں بکھیرتے ہوئے اس امتحان میں سرخروئی کی اپنی آخری کوششیں کر رہی تھی۔













پی ٹی ڈی سی کی مچان

موٹر وے بننے سے پہلے کلر کہار تاریخ کے صفحات میں چھپاہوا تھا لیکن موٹر وے انٹر چینج کے قیام کے بعد یہ مقام اس طرح ہمارے سامنے آگیا جیسے جنگلوں میں چھپا خزانہ ۔ یہ کہنا مبالغہ آرائی نہ ہو گا کہ موٹر وے پر موجود تمام انٹر چینجز میں کلر کہار اپنی خوبصورتی اور محلِ وقوع کے لحاظ سے موٹر وے پر سفر کرنے والوں کی اکثریت کا پسندیدہ انٹر چینج ہے۔
انٹر چینج سے تھوڑا سا نیچے اُتریں تو کلر کہار کی جھیل اس سرزمین پرآنے والوں کا استقبال کرتی ہے۔ یہ پورا پہاڑی سلسلہ پوٹوہار پلییٹو کہلاتا ہے۔اس کے پہاڑوں کی اوسط اونچائی تقریباً 2300 سے 2600 فٹ تک ہے۔ اس میں سب سے اونچی چوٹی سکیسر ہے جس کی اونچائی 3700 فٹ ہے۔ کہتے ہیں کہ کسی وقت یہاں سمندر تھا۔ کسی واقعہ میں انڈین پلیٹیں ایشیائی پلیٹوں کے ساتھ ٹکرائیں اور نمک کے پہاڑ وجود میں آ گئے۔
کلر کہار کوہ نمک کا ایک اہم مقام ہے۔ نمک کے ان پہاڑوں کا سلسلہ دریائے جہلم سے شروع ہوتا ہے اور دریائے سندھ تک چلتا جاتا ہے۔ دیگر معدنیات کے ساتھ ساتھ اس خطہ میں کوئلہ بھی پایاجاتا ہے۔ ویسے تو اس سلسلۂ کوہ کاہر گوشہ اور ہر کونہ خوبصورتی سے مالا مال ہے لیکن اس کی جھیلیں دیکھنے کے لائق ہیں۔
کچھ یہی وہ کھوج ہے جس کی وجہ سے ہم یہاں رکنے پر مجبور ہوئے۔

ہوائیں تیز تھیں یہ تو فقط بہانے تھے
سفینے یوں بھی کنارے پہ کب لگانے تھے
گمان تھا کہ سمجھ لیں گے موسموں کا مزاج
کھلی جو آنکھ توزد پہ سبھی ٹھکانے تھے
ہمیں بھی آج ہی کرنا تھا انتظار اس کا
اسے بھی آج ہی سب وعدے بھول جانے تھے
تلاش جن کو ہمیشہ بزرگ کرتے رہے
نہ جانے کون سی دنیا میں وہ خزانے تھے
(آشفتہ چنگیزی)

ہم کلر کہار رکنے کا پکا ارادہ کر چکے تھے اس لئے انٹر چینج کو چکر دے کر جھیل کے ساتھ ساتھ گولائی میں چلتے ہوئے۔ پی ٹی ڈی سی کے ہوٹل کی طرف رواں دواں تھے۔ ہماری دائیں جانب سڑک کے ساتھ ساتھ جھیل میں اُگی ہوئی جھاڑیاں تھیں اور بائیں جانب پہاڑوں کا سلسلہ۔ اس سڑک کی وجہ سے ہم جھیل کو قریب سے دیکھ سکتے تھے۔ لیکن جھیل پر بھی اندھیرے کی سیاہ چادر تن چکی تھی۔ جھیل سے دور گھروں اور سڑک پر روشن قمقموں کی روشنی کا عکس اس جھیل کے کناروں پر پڑ رہا تھا۔ اس کے علا وہ سب کچھ سیاہ تھا۔ لگتا تھا یہاں کوئی سیاہ میدان ہے۔
پی ٹی ڈی سی کے ہوٹل پہنچ کر بچوں نے کمرا پسند کیا، گاڑی سے سامان کمرے میں منتقل کیا گیااور پھر ہم سب ہوٹل کے ٹیرس پر آ گئے۔ جہاں دو خاندان پہلے ہی سے بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک کونے میں ایک گائیک اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ بیٹھا مہدی حسن کے گائے ہوئے گیت گا رہا تھا۔ ان کے پیچھے کلر کہار کے بارے میں ایک بڑی سی فلیکس آویزاں تھی اور اس سے کچھ ہی دور ایک کونے میں باربی کیو اپنے عروج پر تھا، جس کی خوشبو نے پورے ماحول کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ لگتا تھاجیسے اس ہوٹل کے سبھی مہمانوں نے بار بی کیو کا ہی آڈر دے رکھاتھا۔ ہوٹل کے مرکزی دروازے کے سامنے چار گاڑیوں اور نیچے پارکنگ میں چھ گاڑیوں کی موجودگی اس امر کی غماز تھی کہ ہوٹل میں کافی لوگ موجود تھے لیکن گرمی کی وجہ سے اپنے اپنے کمروں میں گھسے ہوئے تھے۔
بچوں کو اللہ نے یہ قابلیت دی ہوتی ہے کہ وہ فورا ًنئے ماحول میں ڈھل جاتے ہیں۔ میرے بچوں نے بھی رات کی اس تاریکی میں ہوٹل کی تسخیر کا کام شروع کر دیا۔ اگرچہ لوڈ شیڈنگ بھی ہورہی تھی لیکن اس کے باوجود وہ جاسوسوں کی طرح ہوٹل کے کونے کھدروں کا جائزہ لے رہے تھے۔ موسیقار ٹولی کے پیچھے وادی سون سکیسر کی معلوماتی فلیکس کا بھی مکمل مطالعہ کیا جا چکا تھا۔ جس کی جو بات انہیں سمجھ نہیں آتی تھی وہ آ کر مجھ سے پوچھ لیتے۔ یوں وہ کلر کہار کے مشہور مقامات کے ناموں اور موٹی موٹی خصوصیات سے کافی حد تک آگاہ ہو چکے تھے۔ جب بھی کوئی چیز مسخر ہوتی تو میرے یا اپنی ماں کے کان میں پھونک دی جاتی۔ یوں ہم دونوں میاں بیوی ٹیرس پر بیٹھے بیٹھے سارے ہوٹل اور اس کے مکمل محل وقوع سے واقف ہو گئے تھے۔
اس دوران ان پر یہ بات بھی آشکار ہوئی کہ گانے والوں کو پیسے دیں تو وہ ہماری مرضی کا گانا سناتے ہیں۔ چنانچہ مجھ سے پیسے لے کر چلے گئے لیکن مجھے کامل یقین تھاکہ ان کی فرمائش بوجہ تضادِ تمدن پوری نہیں ہوئی ہوگی۔ جب میں نے ان گائیکوں کی طرف کرسی کی اور انہیں سننا شروع کیا تو انہوں نے اپنے ساز ٹھیک کرنا شروع کر دئیے۔ میرا ایک سو رپیہ کا نوٹ پا کر انہوں نے اپنی انتہائی خوبصورت آواز میں مہدی حسن کی گائی ہوئی میر تقی میر کی یہ مشہور غزل سنانا شروع کر دی۔

دیکھ تو دل کہ جاں سے اُٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
یوں اُٹھے آہ اُس گلی سے ہم
جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے
عشق اک میر بھاری پتھر ہے
کب یہ تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے
پی ٹی ڈی سی کے ٹیرس پر بیٹھنے کا اپنا ہی مزا ہے۔ زندگی کی الجھنوں اور مسائل سے آزاد، نہ کسی رشتہ دار کی بک بک، نہ کسی دوست کا شکوہ شکایت، نہ معیشت، نہ سیاست، نہ نفرت، نہ منافقت۔۔۔۔۔۔بس ہر طرف سکون ہی سکون۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ٹیرس پر بیٹھا جب نیچے دیکھتا تومجھے یو ں لگتا جیسے ہم رات گذارنے کے لئے کسی مچان میں بیٹھے ہوں۔ سامنے جھیل تھی، جس کے کناروں پر ارد گرد کی روشنیاں پڑ رہی تھیں۔ ہر روشنی ایک ستارہ کی مانند تھی اور ستاروں کا ملاپ ایک کہکشاں بن رہا تھا۔ دھیمی دھیمی ہوا جب جھیل کے پانیوں کےگالوں پر اپنے ہونٹ رکھتی تو وہ شرما کرجھرجھری لیتی اور یوں سارا کہکشاں تھرکنے لگتا۔ اس تھرکتے ہوئے کہکشاں کو دیکھ کر مجھے یو ں لگاجیسے کوئی حسینہ چاندی کے ستاروں سے اٹا اپنا سیاہ ریشمی دوپٹہ ہلا ہلا کر اپنے محبوب کوجھیل کنارے اپنی آمد کی اطلاع دے رہی ہو۔
کچھ ہی دور موٹر وے گذر رہی تھی۔ گزرنے والی گاڑیوں کی رنگ برنگی روشنیوں کاعکس اس جھیل کی جب چٹکی لیتا تو یہ جھلمل جھلمل کر اُٹھتی اور اس کے رخساروں پر حیا کے کتنے ہی رنگ پھیل جاتے۔ اس عالم میں مجھے اپنی جوانی کا وہ گیت یاد آگیا جو اس وقت میرا مشن یا ویژن اسٹیٹمنٹ تھا۔
جھلمل ستاروں کا آنگن ہو گا
رم جھم برستا ساون ہو گا
ایسا سندر سپنا اپنا جیون ہوگا
اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے کہ جس پہاڑ پر چڑھنے میں بڑی بڑی بسوں کی بس ہو جاتی ہے وہاں اللہ نے پانی کا اتنا بڑا ذخیرہ سنبھال کر رکھا ہے جو نہ تو اپنے کناروں سے باہر آتا ہے، نہ سوکھتا ہے اور نہ ہی ختم ہوتا ہے۔ حیاتِ ارضی فطرت کا یہ شاہکار ناجانے کب سے دیکھ رہی ہے۔
یہ مقام جسے کلر کہار کہا جاتا ہے آج کے جغرافیہ کے مطابق چکوال کی ایک یونین کونسل ہے۔ چکوال یہاں سے جنوب کی طرف پچیس کلو میٹر کے فاصلہ پر کوہِ سلیمان کے ایک لمبے پہاڑی سلسلے میں واقع ہے۔ اس کے ارد گرد پھیلی ہوئی وادی سون سیکسر ہے جس کی الگ ہی پہچان ہے۔ کلر کہار کی جھیل ایک قدرتی جھیل ہے جس کا منبع تازہ پانی ہے۔ جھیل کنارے ایک خوبصورت سیرگاہ اور پی ٹی ڈی سی کا ہوٹل ہے۔ پاکستان کے اکثر لوگ موسمِ سرما اور بہار میں اس جگہ کی سیر کے لئے آتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں دو بزرگوں سخی آہو باہو کی آخری آرام گاہ بھی موجود ہے۔ جہاں زائرین اور عقیدت مند وں کی بڑی تعدادحاضری دے کر اپنی نیاز مندی اور عقیدت کا اظہار کرتی ہے۔

کھلی آنکھوں میں سپنا جھا نکتا ہے
وہ سویا ہے کچھ کچھ جاگتا ہے
تری چاہت کے بھیگے جنگلوں میں
مرا تن مور بن کر ناچتا ہے
مجھے ہر کیفیت میں کیوں نہ سمجھے
وہ میرے سب حوالے جانتا ہے
(پروین شاکر)
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: سفرنامہ پریوں کی تلاش آ ٹھویں قسط وارث اقبال

Post by چاند بابو »

بہت خوب یہ قسط پڑھنے کا مزہ ہی آ گیا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ جن واقعات کا نقشہ آپ نے کھینچا ہے ہوبہو میں اسی عمل میں سے گزر چکا ہوں۔
البتہ جب میرا وہاں جانا ہوا تب ایک تو گرمی کی بجائے سردی تھی دوسرا رات کی بجائے دن تھا۔
اور نہ ہی اس وقت وہاں گائیک موجود تھے البتہ باقی تمام باتیں تمام مناظر تقریبا ویسے ہی تھے جیسے آپ نے بتائے ہیں سوائے اس شادابی کے جو سردیوں میں مرجھا جاتی ہے۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
وارث اقبال
کارکن
کارکن
Posts: 69
Joined: Wed May 30, 2012 10:36 am
جنس:: مرد

Re: سفرنامہ پریوں کی تلاش آ ٹھویں قسط وارث اقبال

Post by وارث اقبال »

شکریہ جی جوں جوں آپ گے بڑھیں گے نئے دبستان کھلیں گے۔
Post Reply

Return to “نثر”