پریوں کی تلاش قسط 7

اردو نثری قلم پارے اس فورم میں ڈھونڈئے
Post Reply
وارث اقبال
کارکن
کارکن
Posts: 69
Joined: Wed May 30, 2012 10:36 am
جنس:: مرد

پریوں کی تلاش قسط 7

Post by وارث اقبال »

میں اپنے پڑھنے والوں سے معذرت خواہ ہوں کہ میں کچھ لکھ نہیں سکا۔ میری کچھ ذاتی مصروفیت تھی ۔ انشااللہ اب جلد قسط آ جایا کرے گی۔ اپنے تاثرات ضرور دیجئے۔ ہم فی الحال کلر کہار جائیں گے۔
میں نے دل کی بات رکھی اور تو نے دنیا والوں کی
میری عرض بھی مجبوری تھی ان کا حکم بھی مجبوری
روک سکو تو پہلی بارش کی بوندوں کو تم روکو
کچی مٹی تو مہکے گی، ہے مٹی کی مجبوری
(محسن بھوپالی)
ہم اس ہوٹل سے تھوڑا سا کھانا کھاکر نکلے، یہاں کی سوغات پھینیو نیاں، مہندی اور پتیسہ خریدکر اپنی اگلی منزل کی طرف رواں دواں ہو گئے۔ چونکہ بچوں نے موسیقی کے تمام لوازمات پر قبضہ جما رکھا تھا اس لئے میں اپنا لیپ ٹاپ کھول کر غزلیں سننے لگا۔ پہلی غزل جس نے میرے کانوں کو چھوا وہ یہ تھی۔
پیار میں کیسی مجبوری۔
اس غزل کا ہر شعر مثالی ہے اور قابلِ ذکر ہے۔ میں نے بہت کوشش کی کہ میں منتخب اشعار ہی بیان کروں لیکن اس غزل کے ہر شعر کی اہمیت کے پیش ِ نظر پوری غزل لکھنے پر مجبور ہوں۔
چاہت میں کیا دنیا داری، عشق میں کیسی مجبوری
لوگوں کا کیا سمجھانے دو، ان کی اپنی مجبوری
جب تک ہنستاگاتا موسم اپنا ہے، سب اپنے ہیں
وقت پڑے تو یاد آ جاتی ہے مصنوعی مجبوری
مدت گذری اک وعدے پر آج بھی قائم ہیں محسن
ہم نے ساری عمر نباہی اپنی پہلی مجبوری
(محسن بھوپالی)
ہم اپنی مجبوریوں کے قیدی ہیں، آزاد ہوتے ہوئے بھی مقید ہیں۔ کبھی مصلحتیں ہمیں غلام بنا لیتی ہیں، کبھی سماج،کبھی رکھ کھاؤ اورکبھی دین برادری۔
انسان تو آزاد پیدا ہواتھا اُسے غلام بنا لیا گیا۔ لیکن یہ بھی ایک عجیب بات ہے کہ جہاں وہ زبردستی غلام بنایا جاتا ہے، ناچاہتے ہوئے غلامی کو قبول کرتا ہے وہاں خوشی سے بھی غلامی کو قبول کر لیتا ہے۔، اپنی مرضی سے غلامی کا طوق پہن لیتا ہے اور کبھی کبھی تو غلامی کے سپنے دیکھتے اس کی عمر گذر جاتی ہے۔
یہ غلامی محبت اور خواہشوں کی غلامی ہے۔ محبت کا لفظ اپنے اندر کئی معانی سموئے ہوئے ہے۔ محبت کسی عام سی شے سے بھی ہو سکتی ہے اور کسی خاص ہستی، شخص یا رشتے سے بھی۔ یہ معمولی بھی ہو سکتی ہے اور شدید بھی۔ انگریزی میں محبت کے لئے لفظ Love استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے معنی اسی کے حروف میں قید ہے۔
Land of Sorrow, Occen of Tears, Valley of Death and End of Life.
لیکن یہ غارت گر اتنی خطر ناک نہیں جتنا کہ اسے پیش کیا گیا ہے۔ آسکر و ائیلڈ تو یہ نصیحت کرتا ہے،
” محبت کو اپنے دل میں سنبھال کر رکھو۔ ایک زندگی جو اس کے بغیر گذرے وہ ایک ایسے باغ کی مانند ہے جس نے سورج کی ایک بھی کرن نہ دیکھی ہو اور اس اندھیرے نے پھولوں کے نصیب میں موت لکھ دی ہو۔“
میکس مولر نے تو یہ کہہ کرمحبت کو اور بھی ضروری قرار دے دیا ہے کہ جس طرح پھولوں کے کھِلنے کے لئے روشنی لازم ہے اُسی طرح انسان کو زندہ رہنے کے لئے محبت کی ضرورت ہے۔ یعنی انسان محبت کے بغیر زندہ ہی نہیں رہ سکتا۔ گویا محبت کسی ایک جذبہ کا نام نہیں ہے۔ یہ تو بہت سے جذبوں کا مجموعہ ہے جو انسان کے لئے حیات کی رمک کا باعث بنتے ہیں۔
خلیل جبران کی بات کئے بغیر اس موضوع سے ناانصافی ہے۔ وہ مشورہ دیتے ہیں۔
”جب محبت تمہیں اشارہ کرے اس کے پیچھے چلے جاؤ، چاہے اُس کے راستے کتنے ہی مشکل اور دشوارگزار کیوں نہ ہوں اور جب وہ تمہیں اپنے پروں میں لپیٹ لے تو خوشی سے لپٹ جاؤاور جب وہ تم سے بات کرے تو اس کا یقین کرلو، خواہ اُس کی آواز تمہارے تمام مرغوب خوابوں کو منتشر کردے۔۔۔ جس طرح نسیمِ شمالی باغیچہ کو ویران کر ڈالتی ہے، یاد رکھو کہ محبت تمہارے سر پر تاج رکھتی ہے تو ساتھ ہی تمہیں سولی پر بھی چڑھا دیتی ہے-“
یہ محبت ہی تھی جس میں ہم جکڑے ہوئے تھے اور پریوں کی تلاش میں ہر اس مقام تک پہنچنے کا قصد کئیے ہوئے تھے جس پر پریوں کے ہونے کا ذرا سا بھی شائبہ ہوتا۔

جی چاہے تو شیشہ بن جا، جی چاہے پیمانہ بن جا
شیشہ پیمانہ کیا بننا، مے بن جا، مے خانہ بن جا
مے بن کر مے خانہ بن کر مستی کا افسانہ بن جا
مستی کا افسانہ بن کر ہستی سے بیگانہ بن جا
ہستی سے بیگانہ ہونا مستی کا افسانہ بننا
اس ہونے سے اس بننے سے اچھا ہے دیوانہ بن جا
دیوانہ بن جانے سے بھی دیوانہ ہونا اچھا ہے
دیوانہ ہونے سے اچھا خاک درجاناناں بن جا
خاک درِ جاناناں کیااہل دل کی آنکھ کا سرما
شمع کے دل کی ٹھنڈک بن جا، نور دل پروانہ بن جا
سیکھ ذہین کے دل سے جلنا کاہے کو ہر شمع پہ جلنا
اپنی آگ میں خود جل جائے تو ایسا پروانہ بن جا
ہم جہلم کے علاقے سے گزر رہے تھے۔ سڑک پر کئی بورڈ ہماری پچھلی طرف بھاگے جا رہے تھے۔ جیسے وہ بھی و ہ سب کچھ سمیٹنا چاہ رہے تھے جو ہم سمیٹ آئے تھے۔ ان میں ایک بورڈ نے مجھے اپنی نوجوانی کا دور یاد کروا دیا۔ یہ بورڈ اس علاقہ کی ایک مشہور اور تاریخی جگہ ٹلہ جوگیاں کے بارے میں تھا۔
میں جب تھرڈ ائیر میں تھا تو میں یہاں اپنے ہم جماعتوں کے ساتھ سیرکی غرض سے آیا تھا۔
اپنی خوبصورتی اور تاریخی اہمیت کے پیش نظر دیکھنے والا مقام ہے۔
ٹلہ جوگیاں جہلم شہر سے کوئی 25 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ پنجابی زبان میں ٹلہ کا مطلب چھوٹی پہاڑی یا ٹیلا ہے۔ اس ٹلہ نے انسانی تہذیب کے کئی ادوار دیکھے ہیں۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ یہ ٹلہ ایک سو سال قبل مسیح میں بسایا گیا تھا۔ اس ٹلہ کو اگر مذہبی رواداری کی علامت کہاجائے تو غلط نہ ہوگا۔ یہ وہ مقام ہے جو ہندو پاک کے تقریباً سبھی مذاہب کے لوگوں کے لئے دلچسپی کا حامل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ مہاتما بدھ کا یہاں سے گزر ہوا تو انہوں نے شیر کے ایسے سات بچے دیکھے جو بھوک سے نڈھال ہو کر موت کے قریب تھے۔ آس پاس اور قرب و جوار میں اُن بچوں کو کھلانے کے لئے کچھ نہ پا کر مہاتما نے اپنا جسم انہیں خوراک کے لئے پیش کر دیا۔بعد میں راجا کِنشک نے اس واقعہ کی یاد میں ایک اسٹوپا قائم کیا۔ ہزاروں سال پہلے جب بدھ مت ہند مت سے مات کھا گیا تو یہ مقام ہندوؤں کا مقدس مقام بن گیا۔ وہ یہاں سورج کی پوجا کیا کرتے تھے۔ تقسیم ِہند تک یہ مقام ہندو جوگیوں کا مسکن تھا۔ ان جوگیوں کی خصوصیت یہ تھی کہ یہ اپناکان چھدواتے تھے۔ اس لئے انہیں ’کن پھٹا ‘ بھی کہا جاتاتھا۔ ان کے جوگی نیپال سے پنجاب تک ہر جگہ پھیلے ہوئے تھے۔ وارث شاہ کی ہیر کا ہیرورانجھا عشق کے سنگلاخ راستوں کو پاٹتاہوا یہاں آیا، ایک گوروگورکھ ناتھ کی صحبت اختیا ر کی اور اسی کے ایک شاگرد بال ناتھ کے ہاتھوں کان میں بالا ڈلوایا۔
یہ مقام سکھوں کے لیے بھی مقدس ہے، روایت کے مطابق بابا گورونانک جی نے یہاں چلہ کاٹا تھا،مہاراجا رنجیت سنگھ نے ان کی یاد میں یہاں ایک سنگھی حوض بنوایا تھا۔ یہاں مسلمان جوگی بھی جوگ کے لئے آیا کرتے تھے۔ شہنشاہ جہانگیر کو بھی یہ مقام خاصا بھایا تھا اس لئے اُس کا بھی یہاں آنا جانا لگا رہتا تھا۔ غرض کیا تھی معلوم نہیں۔
جب انگریز یہاں آئے تو وہ بھی کسی سے پیچھے نہ رہے اور یہاں ایک تالاب بنا کر اس جگہ کی اہمیت میں اضافہ کیا تقریباً 3200 فٹ بلند اس مقام پر کئی ادوار کی عمارات موجود ہیں۔ یہ عمارات اور ان کا محلِ وقوع اس مقام کو قابلِ دید بناتے ہیں۔
Gorakhnath and Kanphata Yogi by George WestonBrigges
ہم سے کچھ ہی دور قلعہ رہتاس بھی واقع ہے۔ شیر شاہ سوری نے اپنی جرنیلی سڑک کو محفوظ بنانے اورہمایوں کا راستہ روکنے کیلئے ایک قلعہ رہتاس کی صورت میں مضبوط قلعہ تعمیر کروایا۔ شیر شاہ سوری کی فوج میں افغانی، ایرانی، ترکستانی اور ہندوستانی سبھی اقوام کے لوگ شامل تھے چنانچہ تین سو فٹ بلند ٹیلہ پر موجود اس قلعہ کے طرز ِ تعمیر میں بھی ان اقوام کے طرز تعمیر کی جھلک ملتی ہے۔ یہ اپنے دور کا ایسا جدیدعسکری مقام تھا جہاں سے دشمن کی فوج پر پگھلا ہوا سکہ انڈیلا جا سکتا تھااور گولے بھی برسائے جا سکتے تھے۔

دین و مذہب عاشقوں کے قابلِ پُرسش نہیں
یہ ادھر سجدہ کریں ابرو جدھر اس کی ہلے
(میر تقی میر)

امتحانی مرکز

گھڑی کی چھوٹی سوئی چھ کے ہندسہ کی رفیق بننے کے قریب ہی تھی اور بڑی دوکے قریب۔ جہلم میں دفن داستانوں کو خیر باد کہہ کرہم کوہِ نمک کے دشوار گذارپہاڑوں میں سفر کر رہے تھے۔
میں کھڑکی سے باہرکسی قلعہ کی فصیل نما پہاڑوں کو دیکھ رہا تھا۔ تاریخ کے اوراق کھل رہے تھے۔ اونچے نیچے پہاڑوں پر چڑھتے اترتے لشکر دکھائی دے رہے تھے۔ کبھی دارا واسکندر کے پیادے اور سوار لشکر پہاڑوں کے اوپر نمایاں ہوتے اور پھر انہی پہاڑوں میں چھپ جاتے۔ کبھی تیمورو ابدالی کے لشکر کا جنون ان پہاڑوں کی خوبصورتی کو روندتا چلا جاتا۔ کبھی منگولوں کے لشکر کے گھوڑوں کی ٹاپوں کی وحشت ناک آوازیں ان وادیوں میں گونجتیں۔ کبھی یہاں کے قبیلوں کی آپس کی لڑائیوں کی وجہ سے بچوں اور عورتوں کی چیخیں فضا میں وحشت پھیلا دیتیں۔
آہ! کہاں گئے وہ جاہ و جلال اور کہاں گئے وہ میلوں تک پھیلے ہوئے لشکر، کہاں گئیں وہ رعنائیاں اور کہاں گئیں وہ قوتیں۔ سب کو وقت کا ڈریگن نگل گیا۔ اس زمین کا دہن بہت کشادہ ہے۔ یہ لشکر وں کے لشکر نگل جاتی ہے اور اس کا بطن اتنا گہرا ہے کہ صدیاں بھی اس میں کھو کر رہ جاتی ہیں۔ یہی اس دنیا، اس جہاں اور اس مکاں کی حقیقت ہے۔ مجھے عالم ادراک میں وہ کسان بھی دکھائی دے رہا ہے جس کی کٹیا کسی حملہ آور نے گرائی ہو گی اور مجھے وہ شہنشاہ بھی یاد آرہاہے جو اپنے جیسے کسی شاہ کے کٹے سر کو دیکھ کر خوش ہو کر کہہ رہا ہو گا،
” کہاں گئی تمہاری اکڑ، کہاں گئی تمہاری وہ طاقت جس پر تمہیں ناز تھا، آج میرے سامنے تن کے بغیر پڑے ہو۔“ لیکن افسوس تو یہ کہ نہ شاہ رہا نہ شہنشاہ، نہ لٹنے والاکسان رہا نہ حملہ آور۔ سب کچھ یوں ختم ہو گیا جیسے چند سال۔قرطاس ارضی نے کئی بار یہ سب کچھ دیکھا مگر حیران ہے کہ یہ سلسلہ ویسے ہی موجود ہے آج بھی کسان کی کٹیا حملہ آور کی زد میں ہے اور آج بھی ایک شاہ دوسرے شاہ کے دربار میں مصلحتوں کی زنجیریں پہنے کھڑا ہے۔ کیا بدلا نہ سورج نہ چاند، نہ سمندر نہ پہاڑ۔
ہاں بدل گیا تو زمین کا حُسن جسے عمارتوں کے بوجھ اور غلاظتوں کے ڈھیر نے متغیر کر دیا۔ کل بھی میر نے یہ دیکھا تھا اور آج بھی یہی دیکھ رہا ہے۔
کل پاؤں ایک کاسۂ سر پر جو آگیا
یکسر وہ استخوان شکستوں سے چور تھا
کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ بے خبر!
میں بھی کبھو کسو کا سرِ پُر غرور تھا
بانوری چکوری کرے دنیا سے چوری چوری چندا سے پیار
ایسے میں آکے صنم دل میں سما جا اب تو آجا
یہ گیت کانوں کے لبوں کو چھو رہا تھا اور ہماری گاڑی کلر کہار کی حدود میں داخل ہو رہی تھی۔ نمک کی کانوں کی قربتوں میں بسنے والا چھوٹا سا خوبصورت اور تاریخی قصبہ کلر کہار۔
سورج نے آسمان کی بلندیاں چھوڑ کر زمین کے دامن میں سونے کی تیاری کر لی تھی۔ اُس کا تابناک چہرہ دن بھر کی تھکن کی وجہ سے پہلے مرجھایااور پھر ماند پڑ گیا۔ اب اُس کی آنکھوں میں جھانکا جا سکتا تھا، اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا جا سکتا تھا، اس کی تابناکی گم ہو چکی تھی اور تھکن کی وجہ سے اُس کے چہرہ پر کئی رنگ پھیل رہے تھے۔ زمین کی گود میں چھپنے کا شوق اُس کی آنکھوں سے عیاں تھا۔ اُس نے اپنے سارے رنگ آسمان پر بکھیر دئیے تھے، میں نے وہ رنگ سمیٹنے کی کوشش کی، مگر ناکام رہا۔ یہ وہ رنگ تھے جنہیں نہ چُنا جا سکتا تھا، نہ سمیٹا جا سکتا ہے اور نہ ہی گناجا سکتا تھا۔ انسانی علوم کی کتابوں میں نہ تو انہیں کوئی نام دیاگیاہے اور نہ ہی کوئی بیان ان کی خوبصورتی کا حق ادا کرسکتاہے۔ جونہی میں ان رنگوں میں سے کسی رنگ کو کوئی نام دینے کی کوشش کرتا تو یہ کسی ایسے رنگ میں بدل جاتا جو میرے علم کی حدود سے باہر تھا۔ یوں میں ایک مرتبہ پھر ان رنگوں کو نام دینے میں ناکام رہا۔
میرے ہم رکاب اونچی نیچی بل کھاتی سڑک کودیکھ دیکھ کر بے زار ہو گئے تھے۔ اُن کے پاس کھانے پینے کی تمام اشیا بھی ختم ہو چکی تھیں۔ چپڑ چپڑ اور موسیقی کی آوازوں کی جگہ خاموشی نے لے لی تھی۔ میں انہیں کلر کہار انٹر چینج کے آنے کی اُمیدیں دلا دلاکرجاگنے پر مجبور کر رہا تھا۔ موسم ابھی تک گرم تھا۔ میں نے گاڑی کے بند شیشوں سے باہر پہاڑوں کو دیکھا تو مجھے خوف کا شدید احساس ہونے لگا۔ وہی پہاڑ جو کچھ دیر پہلے میرے لئے زندگی، حسن اور خوبصورتی کا مجموعہ تھے اب خوف سے لپٹی دیواروں کی مانند تھے جن کی کھائیوں اور غاروں میں سوئے ہوئے جنوں اور چڑیلوں نے دن بھر آرام کے بعد اپنے نئے دن کی مصروفیات کاآغاز کر دیا تھا۔ میرے پاس اس خوف اور وحشت سے نکلنے کا یک ہی سہارا تھا ہیڈ فون جسے میں کانوں کو لگا کرموسیقی سے لطف اندوز ہونے کی کوشش کرنے لگا۔ لیکن مجھے یہ جن، بھوت اور چڑیلیں اس موسیقی پر رقص کرتے ہوئے دکھائی دینے لگے۔ وہ میرے ساتھ مکالمہ کرنا چاہتے تھے لیکن میں ا س موڈ میں نہیں تھا۔ وہ یہی شکوہ کر رہے تھے کہ برسوں سے کسی انسان نے ان کے ساتھ مکالمہ نہیں کیا۔ ایک نے تو یہاں تک کہہ دیاجس انسان نے خود کو بھلا دیا وہ ہم سے کیا بات چیت کرے گا۔
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: پریوں کی تلاش قسط 7

Post by چاند بابو »

ہربار آپ کہتے یہی ہیں‌کہ اگلی قسط جلد آ جائے گی مگر آتی نہیں ہے۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
وارث اقبال
کارکن
کارکن
Posts: 69
Joined: Wed May 30, 2012 10:36 am
جنس:: مرد

Re: پریوں کی تلاش قسط 7

Post by وارث اقبال »

میرا خیال ہے کہ آج کی سرگرمی کو سرہانے کی ضرورت ہے آج تو میں بہت کچھ اپ لوڈ کیا ہے۔ اصل میں میرے افسانوں کی کتاب چھپنے کے قریب ہے۔ میں اس میں مصروف رہاہوں۔ کتاب لکھنا اتنا مشکل نہیں جتنا چھپوانا۔ آپ یقین کیجئے کہ آپ کا ایک کومنٹ ہی میرے لئے سب کچھ ہے۔ لکھنے والا تو اپنی سوچ اور فکر کے مطابق مشقت کرتا ہے ۔پڑھنے والا اسے کس طرح دیکھتا ہے یہ اس کا حق ہے مگر اظہار ضروری ہے۔ میں کسی کو کیا کہوں میں خود بھی اس سلسلے میں کافی کاہل ثابت ہوا ہوں۔
Post Reply

Return to “نثر”