بے چہرگی کا دکھ

اردو نثری قلم پارے اس فورم میں ڈھونڈئے
Post Reply
انور جمال انور
کارکن
کارکن
Posts: 118
Joined: Wed Sep 26, 2012 12:08 am
جنس:: مرد

بے چہرگی کا دکھ

Post by انور جمال انور »

..... بے چہرگی کا دکھ ....

میں نے لڑکوں اور لڑکیوں سے بلا تفریق محبت کی هے .... انہیں شدت سے چاہا ہے ... میں اوائل عمر میں خود بهی چاہا گیا ہوں ... چاہنے اور چاہے جانے کے تمام لطیف احساسات سے واقف ہوں اور چاہت کے اس درجے تک بهی جا پہنچا ہوں جہاں روحانیت کا تصور شروع ہو جاتا ہے.
آپ یقین نہیں کریں گے میں اس لڑکی کو کہ جس کی پوجا کرتا تها گلی سے گزرتے ہوئے اپنی اسی طاقت سے دروازے تک کهینچ لاتا تها
وہ دروازہ کهول کر گلی میں جهانکتی اور مجهے سامنے پا کر حیران ہو جاتی تهی ... دوسرے دن خط لکهتی کہ دیکه لو جب تم گلی میں آتے هو تو مجهے خود بخود علم ہو جاتا ہے ..... یہی نہیں جب کبهی میں پتنگ اڑانے کے بہانے چهت پر ہوتا تو اسے بهی اس کے گهر کی چهت پر کهینچ لیتا حالانکہ ہم دونوں کافی دوری پر تهے
میری اس کی محبت محض خطوط تک محدود رہی .... نہ اسے کبهی چهوا نہ روبرو باتیں کیں .. نجانے کونسی ڈور تهی جو دونوں کو باندھے رکهتی تهی ...
وہ نظروں کے سامنے ہوتی پهر بهی اسے یاد کرنے کا عمل جاری رہتا .. اس کی بے وفاقی یا جدائی کا سوچ کر آنکهیں چهلکنے لگتیں .یہ سب باتیں حقیقت تهیں ... مگر ایسی حقیقت جو صرف انہی دنوں کے حسین تصورات میں لپٹی اس دهند کی طرح تهی جسے وقت کا سورج جلد ہی زائل کر دینے والا تها
بیس پچیس برس بعد اسے دوبارہ دیکھا تو نگاہیں اس کا چہرہ قبول کرنے کو تیار نہ ہوئیں ..
وقت گزرا ہے بڑی دهول اڑا کر شاید
کس قدر گرد جمی ہے مرے دروازے پر
اس کی سیاہ زلفوں تلے اب نہ گهنی چهاوں کا عالم تها نہ رسیلے ہونٹوں کی سرخی گوری گوری رنگت پر نمایاں ہو رہی تهی .. نہ آنکھوں میں وہ گہرائیاں تهیں نہ گهنیری پلکوں پہ ستارے رقصاں تهے .. ایک بے ڈهنگے بے ڈول جسم پر رکها ہوا بے رنگ و نور چہرہ کوئی بهی کشش نہیں رکهتا تها.
میں تو مر کر بهی میری جان تجهے چاہوں گا ... دور تاریک خلاوں سے آتے ہوئے مہندی حسن کے بول اپنے کهوکهلے پن پر شرمندہ ہو کر بے آواز ہو چکے تهے ...آج چالیس پچاس برس بعد اس بڑهاپے میں یہ تحریر لکهتے ہوئے جبکہ کوئی محبوب ہی بچا ہے نہ محب عہد گزشتہ کی دل نوازیاں یاد آ رہی ہیں تو آج کی محرومیاں اور سوا ہو کر حسرت و یاس کے سمندر میں ڈبوئے دے رہی ہیں ... یہی سمجه میں آ رہا ہے کہ
سارے کا سارا کهیل حسن اور حسین چہرے کا ہوتا ہے .. وہ چہرہ جو بہاروں میں کهلے پهول کی طرح ہو .. وہ چہرہ جو شفق کی سرخی اور سحر کی سپیدی سے گوندها گیا ہو ...... وہ چہرہ جو سیاہ رات میں پورے چاند کی طرح چمکتا ہو اس کی بات ہی کچه اور ہے .. وہ چہرہ نہیں تو کچه بهی نہیں ... سب دعوے کهوکهلے سب باتیں بے معنی ..
تالاب سوکه چکا ہو تو وہ ہنس جو بقول شاعر تعلق کو نبهاتے ہوئے مر جاتے ہیں کے پاس اور باقی بچتا بهی کیا ہے اور ایک اور شاعر کے مطابق کہ ندی چڑھی ہوئ تهی تو ہم بهی تهے موج میں ........
پانی اتر گیا تو بہت ڈر لگا ہمیں ........ اے اللہ کاش جوانی اور خوبصورتی کی منہ زور ندی ہمیشہ چڑھی رہے اور پانی کبهی نہ اترا کرے .....
--------------------------
میاں محمد اشفاق
منتظم سوشل میڈیا
منتظم سوشل میڈیا
Posts: 6107
Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: السعودیہ عربیہ
Contact:

Re: بے چہرگی کا دکھ

Post by میاں محمد اشفاق »

آہا ..
انور بھائی کمال کر دیتا جے.
بہت خوب . بلکہ بہت ہی خوب m:a:z:a:a
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
Post Reply

Return to “نثر”