وہ عورت (تحریر: سید‌حماد رضا بخاری)

اردو نثری قلم پارے اس فورم میں ڈھونڈئے
Post Reply
سید حماد رضا بخاری
کارکن
کارکن
Posts: 52
Joined: Sun Sep 13, 2015 3:50 pm
جنس:: مرد
Contact:

وہ عورت (تحریر: سید‌حماد رضا بخاری)

Post by سید حماد رضا بخاری »

وہ عورت

اکثر ملوں اورکارخانوں کی طرح ہماری فیکٹری بھی شہر سے دُورمضافات میں تھی۔ دوپہر کے وقت مجھے ایک ضروری کام سے ہیڈ آفس جانا تھا جو شہر کے عین مرکز میں واقع تھا۔ اُس دن سخت گرمی تھی، سورج آگ برسا رہا تھا، زمین یوں تپ رہی تھی کہ انڈہ توڑ کرسڑک پر پھینکو تو فرائی ھوجائے۔ میرا دل آفس سے نکلنے کو نہیں چاہ رہا تھا مگر جانا بھی ضروری تھا۔ میں نے آفس بوائے سے کہا کہ میری گاڑی سٹارٹ کرکے اے سی آن کردو۔ اتنے میں ، میں نے ضروری کاغذات سمیٹے اورتھوڑی دیر بعد گاڑی میں جا گھسا۔
سڑک سنسان پڑی تھی، ھُو کا عالم تھا جیسے کرفیو لگا ھوا ھو۔ لُو چل رھی تھی اور یوں لگ رہا تھا جیسےآگ برس رھی ھو۔ اچانک میری نظر دُور سڑک کنارے کھڑی ایک عورت پر پڑی۔ میں حیران ھوا کہ جھلسا دینے والی اس دوپہر میں یہ عورت گھر سے باھر کیسے آگئی؟ ذرا قریب پہنچ کر میں نے دیکھا کہ اُس نے پانچ چھ سال کے ایک بچے کو دونوں بازؤں پر اُٹھا رکھا تھا اور بچے کی گردن ایک طرف ڈھلکی ھوئی تھی۔ میں سمجھ گیا کہ اُس کا بچہ سخت بیمار ھے اور وہ اُسے ھسپتال لے جانا چاہتی ھے، کیونکہ وہ علاقہ ایک نئی آباد ھونے والی کالونی کا تھا اور وھاں کوئی ھسپتال نہیں تھا۔ اس راستے پر پبلک ٹرانسپورٹ بھی نہ ھونے کے برابر تھی اور دُور دُور تک کسی سواری کا کوئی نام ونشان نہیں تھا۔ مجھےاحساس ھوا کہ اگرمیں اس کی مدد کیے بغیر گزر گیا تو یہ سخت بے حسی اور بے رحمی کامظاھرہ ھوگا اور میرے اس عمل سے اللہ سخت ناراض ھوگا۔ چنانچہ اُس کے قریب پہنچ کرمیں رک گیا۔ اس سے پہلے کہ میں شیشہ نیچے کرکے اُس سے کچھ پوچھتا، اُس نے جلدی سے گاڑی کا پچھلا دروازہ کھولا اور بچے کو سیٹ پرڈال دیا، پھر تیزی سے اگلا دروازہ کھول کر میرے ساتھ والی پسنجر سیٹ پر بیٹھ گئی۔ اُس کے بیٹھتے ہی گاڑی میں عام قسم کی خوشبو پھیل گئی جو عموماً میک اپ کی مِلی جُلی اشیاء سے اُٹھتی ھے، یعنی محترمہ نے خوب میک اپ کر رکھا تھا۔ میں نے اُس کی طرف دیکھے بغیر اور کوئی بات کئے بنا گاڑی آگے بڑھا دی۔
پچھلی سیٹ پر ڈالا گیا بچہ اچانک اُٹھ کر بیٹھ گیا ،وہ سیٹ پر پڑی میری فائلوں کو اُلٹ پلٹ کرنے لگا پھرگاڑی میں اِدھر اُدھرچھیڑ چھاڑ کرنے لگا، کبھی چھت میں لگی لائٹ کو چھیڑتا کبھی دروازے کا شیشہ اُوپر نیچے کرنے لگتا۔ اُس کی یہ چُستی اورچالاکی دیکھ کر لگا کہ یہ بیمارتو بالکل نہیں ھے۔ عورت نے اُسے بالکل نہیں ٹوکاتھا اور میں سوچنے لگا یہ کیسی ماں ھے جو اپنے بچے کو سمجھاتی بھی نہیں؟
مجھے اپنے چہرے پر اُس عورت کی تیز اور چبھتی ہوئی نظروں کی تپش محسوس ھورھی تھی مگر میں نے ایک دفعہ بھی اُس کی طرف نہیں دیکھاتھا اور نہ ھی اُس سے ھمکلام ھوا تھا ۔ میں کوئی اپنی تعریف نہیں کررھا اور نہ ھی خود کو کوئی نیک وپارسا آدمی ثابت کرنے کے لئے ایسا کہہ رھا ھوں، میری عادت ھی کچھ ایسی ھے، میں کبھی بھی کسی خاتون کی طرف عامیانہ نظروں سے نہیں دیکھتا اور نہ ھی گھلنے ملنے کی کوششں کرتا ھوں، میرے نزدیک یہ سخت اوچھی اور گھٹیا حرکت ھے اور میں ایسی حرکتوں سے شدید نفرت کرتا ھوں۔
اُس کے اس بہروپ سے میرا ذہن کسی اورطرف چلا گیااور میں سوچنے لگا کہ یہ کوئی اچھی عورت نہیں ھے۔ تھوڑی دیر پہلے وہ سڑک پر ایک مجبور عورت کے روپ میں کھڑی تھی جس کا بچہ شدید بیمار تھا اور وہ اُسے طبی امداد کے لئےھسپتال لے جارھی تھی حالانکہ بچہ بالکل ٹھیک ٹھاک تھا۔ پھر اُس کا بچے کو پچھلی سیٹ پر بٹھانا اورخود آگے میرے ساتھ بیٹھ جانا، اور گہری نظروں سے میری طرف مسلسل یوں دیکھے جانا کہ نظروں کی تپش مجھے اپنے چہرے پر محسوس ھونے لگی، مجھے یقین سا ھونے لگا کہ یہ ویسی نہیں ھے جیسی سڑک پر دکھائی دے رھی تھی۔ اس عورت کے اب تک میں دو روپ دیکھ چکا تھا اور دونوں میں بہت تضاد تھا۔
تھوڑی دیر بعد شہر کا ایک مشہور اور مصروف چوک آگیا، سرخ بتی جل رھی تھی اس لئے مجھے رُکنا پڑا۔ یہاں سے دائیں بائیں اور سامنے ھرطرف ٹریفک رواں دواں تھی، مسافر کو جدھر بھی جانا ھو سواری آسانی سے دستیاب ھوجاتی ھے۔ میں نے ابھی تک اُس سے یہ نہیں پوچھا تھا کہ بی بی آپ کو جانا کہاں ھے ؟اور ابھی یہ سوچ ھی رہا تھا کہ وہ مجھ سے پوچھنے لگی،’’آپ کدھرجار ھے ھیں؟‘‘ میں نے پہلی مرتبہ زبان کھولی،’’ مجھے تو یہاں سے بائیں طرف جانا ھے، آپ کوکہاں جانا ھے؟‘‘ ’’میں نے ھسپتال جانا ھے، آپ مجھے یہیں کہیں اُتار دیں‘‘۔ اُس نے جواب دیا تو میں اپنے آپ میں سخت شرمندگی محسوس کرنا لگا کہ میں نے اُس کے بارے میں غلط رائے قائم کرلی تھی۔ وہ تو ھسپتال ھی جارہی تھی، یعنی اُس کا بچہ واقعی بیمار تھا۔‘‘ اسی ندامت کی وجہ سے میں نے کہا کہ میں آپ کو ھسپتال تک چھوڑ دیتا ھوں، بیٹھی رھیے۔‘‘ وہ شکریہ ادا کرکے اطمینان سے بیٹھ گئی۔ دیکھا میں نے اب بھی اُس کی طرف نہیں تھا۔
ھسپتال وھاں سے بہت قریب تھا، زیادہ سے زیادہ دو منٹ کی ڈرائیوو پر۔ میں نے گاڑی ھسپتال کی طرف موڑ دی۔ ھسپتال پہنچ کر جونہی میں نے بریک لگائے، تین لمبے چوڑے،تنومند آدمی جو شکل سے ھی غنڈے لگتے تھے اچانک نمودار ھوئے، جیسے وہ میرا ھی انتظار کررھے تھے۔ اُن میں سےایک گاڑی کے آگے کھڑا ھوگیا، دوسراپسنجر سیٹ والے دروازے کے پاس پہنچ گیا، تیسرا ڈرائیور سائیڈ والے دروازے کی طرف آیا یعنی میری طرف اور دروازہ کھولنے کے لئے ھاتھ دروازے کے ہینڈل تک لے گیا، گاڑی اندر سے لاک تھی اس لئے دروازہ کھلا نہیں۔ میرے ذھن میں بجلی کی طرح ایک خیال کوندا، میں سمجھ گیا کہ یہ اُن پیشہ ور عورتوں میں سے ایک ھے جو مختلف طریقوں سے شکار کرتی ھیں۔ اخبارات کے مطالعے اور زبانی گردش کرتی ھوئی خبروں کے مطابق ایسی عورتیں تین طریقوں سے شکار کرتی ھیں۔ پہلا طریقہ یہ ھے کہ کسی کار والے سے لفٹ لی، دوران سفر گھل مل گئیں، اُسے پھنسایا، عزت بیچی، مال کمایا اور چل دیں۔ دوسرا طریقہ بھی اسی سے ملتا جلتا ھے، تگڑی اسامی دیکھ کرگھل مل گئیں، دوستی بنائی، فون نمبروں کا تبادلہ کیا اورایک ھی بار مرغی ذبح کرکے کھانے کی بجائے، سونے کے انڈے حاصل کرنے کےلئے طویل المعیاد تعلق استوار کرلیا۔ تیسرا طریقہ نہایت خطرناک اور بھیانک ھوتاھے، اس کے مطابق وہ کار والے سے لفٹ لیتی ھیں، دروانِ سفر فری ھوتی ہیں خوب عشوہ گری دکھاتی ھیں، چھیڑ چھاڑ بھی ھوتی ھے اور پھر شکار کو پھنساکر کسی مخصوص جگہ پر لے جاتی ہیں جہاں اُن کے ساتھی غنڈے سادہ لباس پولیس والوں کا مصنوعی روپ دھار کر یا بسا اوقات ڈاکوؤں کے ھی روپ میں کار والے کو گھیر لیتے ھیں اور ڈرا دھمکا کر،بلیک میل کرکے یااسلحے وغیرہ کے زور پررقم، موبائل فون اور قیمتی اشیاء چھین لیتے ھیں۔ اس قسم کی وارداتوں میں بعض اوقات وہ کار والے کو کار سمیت اغوا بھی کرلیتے ھیں، پھر کسی سنسان جگہ پر لے جا کر اُسے اُتار دیتے ھیں اور کار لے کر رفوچکر ھوجاتے ھیں،سنا ھے کہ ایسی بعض وارداتوں میں کار والوں کو مزاحمت پر قتل بھی کیا گیا ھے۔ اس خیال سے میرے رونگٹے کھڑے ھو گئے اور میں نے چونک کر پہلی مرتبہ اُس عورت کی طرف دیکھا۔
میں نے دیکھا کہ اُس عورت نےغنڈوں کو آنکھ سے خفیف سا اشارہ کیا اور وہ حیران سے ھو کرغائب ھوگئے، جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ میں متعجب ھو کر عورت کی طرف دیکھنے لگا۔
’’آپ کے پاس کاغذ قلم ھے؟‘‘ عورت مسکراکربولی توجیسے میں ھوش کی دُنیا میں لوٹ آیا۔
’’ جی جی‘‘ میں نے جلدی سے کہا اور ڈیش بورڈ سے رائٹنگ پیڈ اور پینسل نکال کر اُس کی طرف بڑھا دی۔ اُس نے پیڈ پر کچھ لکھا اورکاغذ پھاڑ کر میرے طرف بڑھاتے ھوئے بولی، میرا نام شکیلہ ھے (یہ نام فرضی ھے ورنہ اُس نے کوئی اور نام بتایاتھا) اور یہ میرا فون نمبر ھے، کبھی مجھے خدمت کا موقع ضرور دیجئے گا، مجھے آپ کی خدمت کرکے بہت خوشی ھوگی، آپ بہت شریف انسان ھیں، راستے بھر آپ نے میری طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھا اور نہ ھی کوئی بات کی ورنہ لوگ تو پہلے فری ھوتے ھیں اور پھر حیلے بہانوں سے چھیڑچھاڑ کرتے اور چھوتے بھی ھیں۔‘‘
میں نے وہ کاغذ یوں پکڑا جیسا کوئی نہایت متبرک تعویذ ھو۔ ’’ جی بہت شکریہ آپ کا۔‘‘ میں نے چہرے پر زبردستی مسکراہت سجاتے ھوئے کہا۔
وہ مسکراتے ھوئے، بچے سمیت گاڑی سے اُترگئی، اور میں نے جلدی سے گاڑی آگے بڑھا دی۔ چند قدم آگے جاکر میں نے وہ ’’متبرک تعویذ‘‘ پھاڑ کر گاڑی سے باھر پھینک دیا اور اُس کے اس آخری روپ کے بارے میں سوچنےلگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(یہ ایک سچا واقعہ ھے جو کچھ دن پہلے میرے ساتھ پیش آیا۔ ھوسکتا ھے اس واقعہ سے کسی کو کوئی سبق حاصل ھوسکے۔ ویسے آپ کا اُس عورت کے بارے میں کیا خیال ھے؟ )
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: وہ عورت (تحریر: سید‌حماد رضا بخاری)

Post by چاند بابو »

اچھا واقعہ ہے یا کم ازکم اس کا انجام اچھا ہے.
اور شاید مصنف کی اچھی عادات کا انعام بھی.
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
سید حماد رضا بخاری
کارکن
کارکن
Posts: 52
Joined: Sun Sep 13, 2015 3:50 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: وہ عورت (تحریر: سید‌حماد رضا بخاری)

Post by سید حماد رضا بخاری »

بہت شکریہ محترم چاند بابو صاحب، اللہ سلامت رکھے.
Post Reply

Return to “نثر”