ادبی طنز و مزاح

اردو نثری قلم پارے اس فورم میں ڈھونڈئے
اضواء
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 40424
Joined: Sun Aug 15, 2010 4:26 am
جنس:: عورت
Location: {الدمام}المملكةالعربيةالسعوديه

Re: ادبی طنز و مزاح

Post by اضواء »

h;a;h;a
ايسے ہی ہوتا ہے. اس طرح کے کاموں میں
[center]یہ بھی انداز ہمارے ہے تمہیں کیا معلوم
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
nizamuddin
ماہر
Posts: 605
Joined: Fri Mar 27, 2015 5:27 pm
جنس:: مرد
Location: کراچی، پاکستان
Contact:

ادیب لوگ

Post by nizamuddin »

یوں تو آپس کی روٹھ راٹھ، چھوٹی موٹی ناراضگیاں ہمارے درمیان درجنوں بار ویسے ہی ہوئیں جیسے ہر میاں بیوی کے درمیان ہونا چاہئے۔ لیکن ہماری اصل بڑی لڑائی ایک بار ہوئی۔ اسلام آباد میں ہم نے اپنے ڈرائنگ روم کے لئے قالین خریدنا تھا۔ میں نے بڑے شوق سے ایک قالین پسند کیا جس کی زمین سفید اور رنگین پھول تھے۔ عفت نے اسے یوں مسترد کردیا جیسے سبزی فروش کو الٹے ہاتھوں باسی پالک، مولی، گاجر اور گوبھی کے پھول لوٹا رہی ہو۔ مجھے بڑا رنج ہوا۔ گھر آکر میں نے سارا دن اس سے کوئی بات نہ کی۔
رات کو وہ کہنے لگی۔ ’’دیکھ تیرا منہ پہلے ہی بڑا گول ہے۔ جب تو ناراض ہوتا ہے تو یہ اور بھی گول مٹول ہوجاتا ہے۔ آج بھلا تو اتنا ناراض کیوں ہے؟‘‘
میں نے قالین کی بات اٹھائی۔
’’قالین تو نہایت عمدہ ہے۔‘‘ اس نے کہا۔ ’’لیکن ہمارے کام کا نہیں۔‘‘
’’کیوں؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’دراصل بات یہ ہے۔‘‘ وہ بولی۔ ’’جن لوگوں کے لئے یہ قالین بنا ہے ان میں سے کوئی ہمارے ہاں نہیں آتا۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ میں نے تلخی سے دریافت کیا۔
وہ اٹھ کر بیٹھ گئی اور اسکول کی استانی کی طرح بڑی وضاحت سے گن گن کر سمجھانے لگی کہ ’’ہمارے ہاں ابن انشا آتا ہے، وہ پھسکڑا مار کر فرش پر بیٹھ جاتا ہے۔ ایک طرف مالٹے دوسری طرف مونگ پھلی۔ سامنے گنڈیریوں کا ڈھیر۔ جمیل الدین عالی آتا ہے، آتے ہی فرش پر لیٹ جاتا ہے اور سگریٹ پر سگریٹ پی کر ان کی راکھ ایش ٹرے میں نہیں بلکہ اپنے اردگرد قالین پر بکھیرتا ہے۔ ممتاز مفتی ایک ہاتھ میں کھلے پان اور دوسرے ہاتھ میں زردے کی پڑیا لئے آتا ہے۔ اشفاق احمد قالین پر اخبار بچھا کر اس پر تربوز چیرنا پھاڑنا شروع کردیتا ہے۔ ملتان سے ایثار راعی آم اور خربوزے لے کر آئے گا۔ ڈھاکہ سے جسیم الدین کیلے اور رس گلوں کی ٹپکتی ہوئی ٹوکری لائے گا۔ وہ یہ سب تحفے لاکر بڑے تپاک سے قالین پر سجا دیتے ہیں۔ سال میں کئی بار ساٹھ سال کی عمر میں ممتاز حسین شاہ ایم بی اے انگلش کی تیاری کرنے آتا ہے اور فاؤنٹین پین چھڑک چھڑک کر اپنی پڑھائی کرتا ہے۔ صرف ایک راجا شفیع ہے۔ جب کبھی وہ مکئی کی روٹی، سرسوں کا ساگ اور تازہ مکھن اپنے گاؤں سے لے کر آتا ہے تو آتے ہی انہیں قالین پر نہیں انڈیلتا بلکہ بڑے قرینے سے باورچی خانے میں جاکر رکھ دیتا ہے۔ کیونکہ نہ وہ شاعر ہے، نہ ادیب، فقط ہمارے دوستوں کا دوست ہے۔‘‘
بات نہایت سچی تھی۔ چنانچہ ہم نے ایک نہایت میل خوردہ قالین خرید کر آپس میں صلح کرلی۔
(قدرت اللہ شہاب کے ’’شہاب نامہ‘‘ سے لیا گیا اقتباس)
آن لائن اردو انگلش ڈکشنری
[link]http://www.urduinc.com[/link]
nizamuddin
ماہر
Posts: 605
Joined: Fri Mar 27, 2015 5:27 pm
جنس:: مرد
Location: کراچی، پاکستان
Contact:

بچے

Post by nizamuddin »

بچوں سے کبھی کبھی نرمی سے بھی پیش آئیے۔ بچے سوال پوچھیں تو جواب دیجئے مگر اس انداز میں کہ دوبارہ سوال نہ کرسکیں۔ اگر زیادہ تنگ کریں تو کہہ دیجئے جب بڑے ہوگے سب پتا چل جائے گا۔ بچوں کو بھوتوں سے ڈراتے رہیئے۔ شاید وہ بزرگوں کا ادب کرنے لگیں۔ بچوں کو دلچسپ کتابیں مت پڑھنے دیجئے کیونکہ کورس کی کتابیں کافی ہیں۔
اگر بچے بیوقوف ہیں تو پروا نہ کیجئے، بڑے ہوکر یا تو جینئس بنیں گے یا اپنے آپ کو جینئس سمجھنے لگیں گے۔ بچے کو سب کے سامنے مت ڈانٹیئے۔ اس کے تحت الشعور پر برا اثر پڑے گا۔ ایک طرف لے جاکر تنہائی میں اس کی خوب تواضع کیجئے۔
بچوں کو پالتے وقت احتیاط کیجئے کہ ضرورت سے زیادہ نہ پل جائیں ورنہ وہ بہت موٹے ہوجائیں گے اور والدین اور پبلک کے لئے خطرے کا باعث ہوں گے۔
اگر بچے ضد کرتے ہیں تو آپ بھی ضد کرنا شروع کردیجئے۔ وہ شرمندہ ہوجائیں گے۔
ماہرین کا اصرار ہے کہ موزوں تربیت کے لئے بچوں کا تجزیۂ نفسی کرالینا زیادہ مناسب ہوگا۔ دیکھا گیا ہے کہ کنبے میں صرف دو تین بچے ہوں تو وہ لاڈلے بنادیئے جاتے ہیں لہٰذا بچے صرف دس بارہ ہونے چاہئیں تاکہ ایک بھی لاڈلہ نہ بن سکے۔ اسی طرح آخری بچہ سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے بگاڑ دیا جاتا ہے، چنانچہ آخری بچہ نہیں ہونا چاہئے۔
(’’تربیت اطفال‘‘ از شفیق الرحمٰن سے اقتباس)
آن لائن اردو انگلش ڈکشنری
[link]http://www.urduinc.com[/link]
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: ادبی طنز و مزاح

Post by چاند بابو »

ہاہاہاہاہا
بہت خوب محترم نظام الدین صاحب بہترین انتخاب پیش کرنے کا بہت بہت شکریہ.
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
nizamuddin
ماہر
Posts: 605
Joined: Fri Mar 27, 2015 5:27 pm
جنس:: مرد
Location: کراچی، پاکستان
Contact:

شاہی سواری

Post by nizamuddin »

انہیں اس گھوڑے سے پہلی نظر میں محبت ہوگئی ۔ اور محبت اندھی ہوتی ہے، خواہ گھوڑے سے ہی کیوں نہ ہو۔ انہیں یہ تک سجھائی نہ دیا کہ گھوڑے کی مدح میں اساتذہ کے جو اشعار وہ اوٹ پٹانگ پڑھتے پھرتے تھے، ان کا تعلق تانگے کے گھوڑے سے نہیں تھا۔ یہ مان لینے میں چنداں مضائقہ نہیں کہ گھوڑا شاہی سواری ہے۔ رعبِ شاہی اور شوکتِ شہانہ کا تصور گھوڑے کے بغیر ادھورا بلکہ آدھا رہ جاتا ہے۔ بادشاہ کے قد میں گھوڑے کے قد کا اضافہ کیا جائے تب کہیں وہ قدِ آدم نظر آتا ہے لیکن ذرا غور سے دیکھا جائے تو شاہی سواری میں گھوڑا دوسرے نمبر پر آتا ہے۔ اس لئے کہ بادشاہوں اور مطلق العنان حکمرانوں کی مستقل اور دلپسند سواری درحقیقت رعایا ہوتی ہے۔ یہ ایک دفعہ اس پر سواری گانٹھ لیں تو پھر انہیں سامنے کوئی کنواں، کھائی، باڑھ اور رکاوٹ دکھائی نہیں دیتی۔ جوشِ شہ زوری و شہ سواری میں نوشتہ دیوار والی دیوار بھی پھلانگ جاتے ہیں۔ یہ نوشتہ دیوار اس وقت تک نہیں پڑھ سکتے جب تک وہ Braille میں نہ لکھا ہو جسے وہ اپنا دربار سمجھتے ہیں، وہ دراصل ان کا محاصرہ ہوتا ہے جو انہیں یہ سمجھنے سے قاصر رکھتا ہے کہ جس منہ زور سر شور گھوڑے کو صرف ہنہنانے کی اجازت دے کر بآسانی آگے سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے، اسے وہ پیچھے سے قابو کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مطلب یہ کہ لگام کے بجائے دم مروڑتا ہے۔ مگر اس بظاہر مسکیں سواری کا اعتبار نہیں کہ یہ ابلق لقاسد ایک چال نہیں چلتی : اکثر یہ بدرکاب بنی اور بگڑ گئی۔
(مشتاق احمد یوسفی کی کتاب ’’آبِ گم‘‘ سے اقتباس)
آن لائن اردو انگلش ڈکشنری
[link]http://www.urduinc.com[/link]
nizamuddin
ماہر
Posts: 605
Joined: Fri Mar 27, 2015 5:27 pm
جنس:: مرد
Location: کراچی، پاکستان
Contact:

وجہ

Post by nizamuddin »

پھر کوئی پوچھ بیٹھا کہ آپ نے شادی کیوں نہیں۔۔۔؟
شادی کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ جوانی جہان گردی اور فیلڈ سروس کی نذر ہوگئی۔ ادھیڑ عمر کا ہوا تو پھر خیال چھوڑ دیا۔ دراصل محبت فقط نوعمروں کے لیے ہے۔ اس عمر میں ہر چیز خوامخواہ رنگین معلوم ہوتی ہے۔ ہر جذبے میں بے ساختگی ہوتی ہے اور بلا کا خلوص۔ محبوب ایک دفعہ مسکرا دے تو ہفتے مہینے خوشی خوشی گزر جاتے ہیں اور یقین ہو جاتا ہے کہ امتحان میں ضرور کامیابی ہوگی، مالی حالت بہتر ہو جائے گی ، دوست دشمن سب مہربان ہو جائیں گے اور محبوب کی بے رخی سے سب تہس نہس ہو جائے گا۔ آئرلینڈ کی وہ جھلمل جھلمل کرتی ندیاں ، وہ لہلہاتے کھیت ، شاداب کنج گھنے جنگل مجھے اب تک یاد ہیں۔ اگرچہ ان لڑکیوں کے نام اور چہرے یاد نہیں جو ان دنوں میرے ساتھ ہوا کرتیں ۔ پتہ ہی نہیں چلتاتھا کہ کب بادل آئے تھے اور کب بوندیں تھم گئیں۔ غروبِ آفتاب کے بعد اتنی جلدی چاند کیسے نکل آیا۔۔۔ذرا دیر پہلے گھپ اندھیرا تھا، دفعتاً یہ روشنی کہاں سے آگئی۔ وہ جگمگاتی صبحیں۔۔۔۔وہ رنگین شامیں ۔۔۔۔وہ مستی کے شب و روز۔۔۔۔محبت کی اصلی عمر وہی ہوتی ہے۔ اس کے بعد دکھاوا ہے۔ اگرچہ میں شادی کے قضیے سے بالکل مبرا ہوں اور تم لڑکوں کو بھی یہی مشورہ دوں گا کہ اپنی کمر پر زین نہ کسوانا لیکن اگر خدانخواستہ کبھی پھنسنے لگو تو جذبات کے دھارے میں مت بہہ جانا۔ ایسا چہرہ چننا جس کی کشش اور دلربائی دیرپا ہو۔ شاید تم نہیں جانتے کہ گزرتے ہوئے ایام چہروں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں اورمحض دس پندہ سال کا وفقہ چہروں میں کیسی کیسی تبدیلیاں لا سکتا ہے۔
(شفیق الرحمن کی کتاب دجلہ سے اقتباس)
آن لائن اردو انگلش ڈکشنری
[link]http://www.urduinc.com[/link]
nizamuddin
ماہر
Posts: 605
Joined: Fri Mar 27, 2015 5:27 pm
جنس:: مرد
Location: کراچی، پاکستان
Contact:

جذباتی افسانے

Post by nizamuddin »

[center]جذباتی افسانے[/center]ترقی پسند افسانوں کے بعد جذباتی افسانے آتے ہیں۔ جذباتی افسانوں میں جذبات اور احساسات کی شدت کو نمایاں طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ مختلف جذبوں کے زیر اثر افسانے کے کردار عجیب و غریب حرکات کے مرتکب ہوتے ہیں۔ مثلاً ایک افسانے میں سریش کو جب پتہ چلتا ہے کہ وہ کسی وجہ سے نرملا سے شادی نہیں کرسکتا تو وہ نرملا کو اس طرح مخاطب کرتا ہے۔ ’’نرملا! تم آج سے میری بہن ہو۔‘‘ ’’تمہاری بہن؟‘‘ نرملا نے گھبرا کر کہا۔ ’’ہاں ہاں میری بہن۔‘‘ سریش نے بہن کے لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔ ’’میں سچ کہہ رہا ہوں۔ تم آج سے میری بہن ہو۔ کاش کہ تم عمر میں مجھ سے پانچ دس سال بڑی ہوتیں اور میں تمہیں ’’ماں‘‘ کہہ سکتا۔‘‘ اسی طرح ایک افسانے میں دو بھائی ایک ہی لڑکی سے محبت کرتے ہیں مگر جب چھوٹے بھائی کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا بڑا بھائی ان دونوں کی مشترکہ محبوبہ سے شادی کرنے کو تلا ہوا ہے تو وہ مندر میں دیوی یا دیوتا کے سامنے اس لڑکی کا ہاتھ اپنے بڑے بھائی کے ہاتھ میں دے کر خود سادھو بن کر زندگی گزارنے کا حلف اٹھاتا ہے۔ جذباتی افسانوں میں قہقہے، آنسو، سسکیاں، قسمیں، ہچکولے کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ عموماً انجام خودکشی ہوتا ہے اور محبت کے دیوتا کے سامنے عجیب و غریب قربانیاں دی جاتی ہیں۔
(کنہیا لال کپور کی کتاب ’’سنگ و خشت‘‘ سے اقتباس)
آن لائن اردو انگلش ڈکشنری
[link]http://www.urduinc.com[/link]
ایم ابراہیم حسین
کارکن
کارکن
Posts: 166
Joined: Fri Oct 31, 2014 7:08 pm
جنس:: مرد

Re: ادبی طنز و مزاح

Post by ایم ابراہیم حسین »

واہ کیا کہنے جناب آپ کے انتخاب کے
بہت خوب

Sent from my LenovoA3300-HV using Tapatalk
nizamuddin
ماہر
Posts: 605
Joined: Fri Mar 27, 2015 5:27 pm
جنس:: مرد
Location: کراچی، پاکستان
Contact:

پہلا پتھر

Post by nizamuddin »

مشتاق احمد یوسفی اپنی کتاب کا مقدمہ لکھتے ہوئے اپنا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں۔

نام:
سرورق پر ملاحظہ فرمائیے

۔خاندان:
سو پشت سے پیشہ آباء سپہ گری کے سوا سب کچھ رہا ہے۔

تاریخ پیدائش:
عمر کی اس منزل پر آپہنچا ہوں کہ اگر کوئی سن ولادت پوچھ بیٹھے تو اسے فون نمبر بتا کر باتوں میں لگا لیتا ہوں۔
اور یہ منزل بھی عجیب ہے۔ بقول صاحب “کشکول“ ایک وقت تھا کہ ہمارا تعارف بہو بیٹی قسم کی خواتین سے اس طرح کرایا جاتا تھا کہ فلاں کے بیٹے ہیں۔ فلاں کے بھانجے ہیں اور اب یہ زمانہ آگیا ہے کہ فلاں کے باپ ہیں اور فلاں کے ماموں۔ عمر رسیدہ پیش رو زبان حال سے کہہ رہے ہیں کہ اس کے آگے مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں۔

پیشہ:
گوکہ یونیورسٹی کے امتحانوں میں اول آیا، لیکن اسکول میں حساب سے کوئی طبعی مناسبت نہ تھی۔ اور حساب میں فیل ہونے کو ایک عرصے تک اپنے مسلمان ہونے کی آسمانی دلیل سمجھتا رہا۔
اب وہی ذریعہ معاش ہے۔ حساب کتاب میں اصولاً دو اور دو چار کا قائل ہوں۔ مگر تاجروں کی دل سے عزت کرتا ہوں کہ وہ بڑی خوش اسلوبی سے دو اور دو کو پانچ کرلیتے ہیں۔

پہچان :
قد: پانچ فٹ ساڑھے چھ انچ (جوتے پہن کر)
وزن: اوور کوٹ پہن کر بھی دبلا دکھائی دیتا ہوں۔ عرصے سے مثالی صحت رکھتا ہوں۔ اس لحاظ سے کہ جب لوگوں کو کراچی کی آب و ہوا کو برا ثابت کرنا مقصود ہو تو اتمام حجت کے لیے میری مثال دیتے ہیں۔

جسامت: یوں سانس روک لوں تو 38 انچ کی بنیان بھی پہن سکتا ہوں۔ بڑے لڑکے کے جوتے کا نمبر 7 ہے جو میرے بھی فٹ آتا ہے۔

حلیہ: اپنے آپ پر پڑا ہوں۔
پیشانی اور سر کی حد فاصل اڑ چکی ہے۔ لہذا منہ دھوتے وقت یہ سمجھ نہیں آتا کہ کہاں سے شروع کروں۔ ناک میں بذات کوئی نقص نہیں مگر دوستوں کا خیال ہے کہ بہت چھوٹے چہرے پر لگی ہوئی ہے۔

پسند:
غالب، ہاکس بے ، بھنڈی
پھولوں میں، رنگ کے لحاظ سے سفید گلاب اور خوشبوؤں میں نئے کرنسی نوٹ کی خوشبو بہت مرغوب ہے۔ میرا خیال ہے کہ سرسبز تازہ تازہ اور کرارے کرنسی نوٹ کا عطر نکال کر ملازمت پیشہ حضرات اور ان کی بیویوں کو مہینے کی آخری تاریخوں میں سنگھایا جائے تو گرہستی زندگی جنت کا نمونہ بن جائے۔

پالتو جانوروں میں کتوں سے پیار ہے۔ پہلا کتا چوکیداری کے لیے پالا تھا۔ اسے کوئی چرا کر لے گیا۔ اب بربنائے وضع داری پالتا ہوں کہ انسان کتے کا بہترین رفیق ہے۔ بعض تنگ نظر اعتراض کرتے ہیں کہ مسلمان کتوں سے بلاوجہ چڑتے ہیں حالانکہ اس کی ایک نہایت معقول اور منطقی وجہ موجود ہے۔ مسلمان ہمیشہ سے ایک عملی قوم رہے ہیں۔ وہ کسی ایسے جانور کو محبت سے نہیں پالتے جسے ذبح کرکے کھا نہ سکیں۔

گانے سے بھی عشق ہے۔ اسی وجہ سے ریڈیو نہیں سنتا۔

چڑ:
جذباتی مرد، غیر جذباتی عورتیں، مٹھاس، شطرنج۔

مشاغل:
فوٹو گرافی، لکھنا پڑھنا

تصانیف:
چند تصویران بتاں، چند مضامین و خطوط

کیوں لکھتا ہوں:
ذزریلی نے اس کے جواب میں کہا تھا کہ جب میرا جی عمدہ تحریر پڑھنے کو چاہتا ہے تو ایک کتاب لکھ ڈالتا ہوں۔ رہا سوال کہ یہ کھٹ مٹھے مضامین طنزیہ ہیں یا مزاحیہ یا اس سے بھی ایک قدم آگے۔۔۔ یعنی صرف مضامین، تو یہاں صرف اتنا عرض کرنے پر اکتفا کروں گا کہ وار ذرا اوچھا پڑے، یا بس ایک روایتی آنچ کی کسر رہ جائے تو لوگ اسے بالعموم طنز سے تعبیر کرتے ہیں، ورنہ مزاح ہاتھ آئے تو بت، نہ آئے تو خدا ہے۔
آن لائن اردو انگلش ڈکشنری
[link]http://www.urduinc.com[/link]
میاں محمد اشفاق
منتظم سوشل میڈیا
منتظم سوشل میڈیا
Posts: 6107
Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: السعودیہ عربیہ
Contact:

Re: ادبی طنز و مزاح

Post by میاں محمد اشفاق »

v;g بہت ہی خوب
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: ادبی طنز و مزاح

Post by چاند بابو »

بہت خوب بہت ہی بہترین دیباچہ شئیر کرنے کا شکریہ.
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
nizamuddin
ماہر
Posts: 605
Joined: Fri Mar 27, 2015 5:27 pm
جنس:: مرد
Location: کراچی، پاکستان
Contact:

پتنگ بازی

Post by nizamuddin »

ہم پتنگ بازی کو کھیل مانتے ہیں کیونکہ بقول یوسفی ’’جہاں کھیل میں دماغ پر زور پڑا، کھیل کھیل نہیں رہتا، کام بن جاتا ہے۔‘‘ اور پتنگ بازی میں بوجھ دماغ کے بجائے کوٹھے پر پڑتا ہے۔ ہم نے ایک پتنگ باز سے پوچھا۔
’’یہ پیچ لڑانے کا کیا فائدہ ہوتا ہے؟‘‘
کہا۔ ’’کلائی مضبوط ہوتی ہے۔‘‘
پوچھا۔ ’’مضبوط کلائی کا فائدہ؟‘‘
کہا۔ ’’پیچ لڑانے میں آسانی ہوتی ہے۔‘‘
پیچ بھی سیاست کی طرح پرپیچ ہوتے ہیں مگر پتنگ بازی اور سیاست بازی میں یہ فرق ہے کہ ہمارے ہاں اول الذکر کے لئے ڈور اور آخر الذکر کے لئے بیک ڈور کی ضرورت پڑتی ہے۔ امریکا اور روس نے خلائی جہازوں کے ذریعے آسمان پر پہنچنے کی کوشش کی۔ ابھی وہ خدا تک پہنچنے کے لئے خلائی شٹل کا سہارا لینے کا منصوبہ بنارہے ہیں جبکہ ہم نے پتنگ بازی میں اتنی ترقی کرلی ہے کہ ہر سال بذریعہ ’’پتنگ‘‘ کئی لوگ خدا تک پہنچ جاتے ہیں۔
(ڈاکٹر یونس بٹ کی کتاب ’’جوک در جوک‘‘ سے اقتباس)
آن لائن اردو انگلش ڈکشنری
[link]http://www.urduinc.com[/link]
nizamuddin
ماہر
Posts: 605
Joined: Fri Mar 27, 2015 5:27 pm
جنس:: مرد
Location: کراچی، پاکستان
Contact:

موٹر سائیکل

Post by nizamuddin »

میرا دوست ’’ف‘‘ کہتا ہے محبت بڑا بے زبان جذبہ ہے، یعنی اظہار کے لئے زبان کا محتاج نہیں۔
’’ف‘‘ کہتا ہے میں موٹر سائیکل کے پیچھے بیٹھنے والے کے انداز سے اس کے چلانے والے کے ساتھ رشتے کا اندازہ لگا سکتا ہوں۔
اگر موٹر سائیکل کے پیچھے بیٹھی خاتون کے بجائے چلانے والا شرما رہا ہو تو سمجھ لیں وہ اس کی ’’اہل خانہ‘‘ ہے۔
اور اگر وہ اس طرح بیٹھے ہوں کہ دیکھنے والے شرما رہے ہوں تو سمجھ لیں ’’اہل کھانا‘‘ ہے۔
موٹر سائیکل کے پیچھے بیٹھنا بھی ایک فن ہے۔ خواتین منہ ایک طرف کرکے یوں بیٹھتی ہیں کہ جیسے ابھی اترنے والی ہوں۔ بلکہ بعض اوقات بیٹھی ہوئی نہیں بٹھائی ہوئی لگتی ہیں۔
کچھ خواتین تو خوفزدہ مرغی کی طرح پروں میں کئی بچے چھپائے ہوئے ہوتی ہیں۔ لگتا ہے سفر نہیں “suffer” کررہی ہیں۔
چند یوں بیٹھی ہوتی ہیں جیسے چلانے والے کی اوٹ میں نماز پڑھ رہی ہوں۔
بعض تو دور سے کپڑوں کی ایک ڈھیری سی لگتی ہیں۔ جب تک یہ ڈھیری اتر کر چلنے نہ لگے، پتا نہیں چلتا اس کا منہ کس طرف ہے؟
نئی نویلی دلہن نے خاوند کو پیچھے سے یوں مضبوطی سے پکڑ رکھا ہوتا ہے جیسے ابھی تک اس پر اعتبار نہ ہو۔
جبکہ بوڑھی عورتوں کی گرفت بتاتی ہے کہ انہیں خود پر اعتبار نہیں۔
جب میں کسی شخص کو سائیکل کے پیچھے بیٹھے دیکھتا ہوں جس نے اپنا جیسا انسان سائیکل میں جوت رکھا ہوتا ہے تو میرے منہ سے بددعا نکلتی ہے۔ مگر جب میں کسی کو موٹر سائیکل کے پیچھے آنکھیں بند کرکے چلانے والے پر اعتماد کئے بیٹھے دیکھتا ہوں تو میرے منہ سے اس کے لئے دعا نکلتی ہے کیونکہ اس سیٹ پر مجھے اپنی پوری قوم بیٹھی نظر آرہی ہوتی ہے۔
(ڈاکٹر یونس بٹ کی کتاب ’’شیطانیاں‘‘ سے اقتباس)
آن لائن اردو انگلش ڈکشنری
[link]http://www.urduinc.com[/link]
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: ادبی طنز و مزاح

Post by چاند بابو »

بہت خوب محترم
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
nizamuddin
ماہر
Posts: 605
Joined: Fri Mar 27, 2015 5:27 pm
جنس:: مرد
Location: کراچی، پاکستان
Contact:

کچھ عاشق کے بارے میں

Post by nizamuddin »

دنیا میں تین قسم کے عاشق ہیں۔ ایک وہ جو خود کو عاشق کہتے ہیں۔ دوسرے وہ جنہیں لوگ عاشق کہتے ہیں اور تیسرے وہ جو عاشق ہوتے ہیں۔ میرا دوست ’’ف‘‘ کہتا ہے عاشق دراصل آشک ہے کہ وہ اتنا محبوب سے پیار نہیں کرتا جتنا شک کرتا ہے۔
ہمارے ہاں جتنے بھی اچھے عاشق ملتے ہیں وہ کتابوں میں ہیں یا قبرستانوں میں۔ کسی عاشق کے بارے میں جاننے کے لئے کہ وہ سچا عاشق ہے یا نہیں، اس سے یہ پوچھو کہ کیا تم سچے عاشق ہو۔ اگر وہ اپنے منہ سے خود کو سچا کہے تو سمجھ لیں وہ جھوٹا ہے اور اگر وہ کہتا ہے نہیں تو بات واضح ہے۔
کامیاب عاشق وہ ہوتا ہے جو عشق میں ناکام ہو۔ کیونکہ جو کامیاب ہوجائے وہ عاشق نہیں خاوند ہوتا ہے۔ شادی سے پہلے وہ بڑھ کر محبوبہ کا ہاتھ پکڑتا ہے اپنی محبت کے لئے جبکہ شادی کے بعد وہ بڑھ کر بیوی کا ہاتھ پکڑتا ہے اپنے بچاؤ کے لئے۔ جو شخص یہ کہے کہ اس کی بیوی نے کبھی حکم عدولی نہیں کی، یہ وہی شخص ہے جس نے کبھی اپنی بیوی کو حکم ہی نہیں دیا۔ ویسے بھی محبوبہ میں سب سے بڑی خوبی یہی ہوتی ہے کہ بندے کو اسے طلاق نہیں دینی پڑتی۔
میرا دوست ’’ف‘‘ کہتا ہے عاشق ہونا اور بات ہے اور عاشق لگنا اور بات۔ حالانکہ عاشق لگنا کون سا مشکل ہے۔ ایک ہفتہ پانی بند رہے اور نائی دھوبی سے بندہ پرہیز کرے تو بڑے سے بڑے عاشق کا مقابلہ کرسکتا ہے۔ سچا عاشق وہ ہوتا ہے جو جتنی بار عشق کرتا ہے، سچا کرتا ہے۔
کہتے ہیں عاشق خوبصورت نہیں ہوتے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ جو خوبصورت ہوتے ہیں وہ عاشق نہیں ہوتے، لوگ ان پر عاشق ہوتے ہیں۔
دوسرے کو پریشان کرنے کے دو ہی طریقے ہیں یا تو اس کی ان خامیوں کا ذکر کرو جو اس میں ہیں یا اس کی خوبیوں کا ذکر کرو جو اس میں نہیں ہیں اور یہی عاشق کرتا ہے۔ وہ محبوب کا نقشہ کھینچ رہا ہو تو لگتا ہے محبوب کی کھنچائی کررہا ہے۔ جیسے ناگن زلفیں یعنی بالوں کی جگہ لٹکے ہوئے سانپ، سرو قد یعنی جوں جوں اوپر سے نیچے آتا پھیلتا جاتا ہے، چاند چہرہ یعنی چاند کی طرح گڑھوں اور داغ دھبوں والا، پھر ہرنی جیسی چال یعنی چارپایوں کی طرح چلنا۔ شاید وہ اسی لئے کہتا ہے کہ اس جیسا محبوب پوری دنیا میں نہیں۔
عاشق نے ہمیشہ محبوب کو ملزم سمجھا، اس پر اپنے اسپیئر پارٹس کی چوری کا الزام لگایا۔ دل ، جگر، نیند وغیرہ کی گمشدگی کا پرچہ بھی محبوب کے نام کٹوایا، یہاں تک کہ اس کو سرِعام قاتل کہا۔ اس دنیا میں جلسے جلوسوں کا بانی بھی عاشق ہی ہے کہ اس نے سب سے پہلے محبوبہ کا جلوس نکالا۔
عاشق، شاعر اور پاگل تینوں پر اعتبار نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہ خود کسی پر اعتبار نہیں کرتے۔ اس دنیا میں جس شخص کی بدولت عاشق کی تھوڑی بہت عزت ہے وہ رقیب ہے۔ جب رقیب نہیں رہتا تو اچھے خاصے عاشق اور محبوب میاں بیوی بن جاتے ہیں۔ کہتے ہیں رقیب اور عاشق کی بھی نہیں بنتی حالانکہ رقیب ہی تو دنیا کا واحد شخص ہوتا ہے جس سے اس کا اتفاق رائے ہوتا ہے، جسے عاشق پسند کرتا ہے وہ بھی اسے پسند کرتا ہے، جسے یہ منتخب کرتا ہے وہی اس کا انتخاب ہوتا ہے، یہی نہیں وہ بھی اس پر جان دیتا ہے جس پر عاشق۔ بلکہ سچا اور حقیقی عشق تو ہوتا ہی وہ ہے جس میں رقیب ہو۔
اس دنیا کا پہلا جرم ایک عاشق نے اپنے بھائی کا قتل کرکے کیا۔ یوں عشق اور جرم جڑواں بھائی ہیں۔ اس دنیا میں آدھے جھوٹ ناکام عاشقوں اور کامیاب عاشقوں یعنی خاوندوں نے بولے ہیں۔
عاشق وہ واحد فرد ہے جو محبوب کی ترقی نہیں چاہتا کہ کہیں یہ اس کی پہنچ سے دور نہ ہوجائے۔ ایک دوست عاشق بن سکتا ہے لیکن جو ایک بار عاشق بن جائے وہ پھر کبھی دوست نہیں بن سکتا۔
عشق اور لڑائی میں سب جائز ہے۔ اس سے اندازہ لگالیں کہ عشق کتنا جائز ہے۔ عشق وہ مرض ہے جس کا جوانی لیوا حملہ پہلی عمر میں ہوتا ہے۔ جوں جوں عمر بڑھتی ہے یہ مرض گھٹتا جاتا ہے۔ یوں بھی بوڑھا عاشق جوان عاشق سے زیادہ اچھا ہوتا ہے کہ بوڑھا عاشق صرف آپ کا حال خراب کرتا ہے اور جوان عاشق تو مستقبل بھی خراب کردیتا ہے۔ اس مرض سے نئی نسل کو بیزار کرنے کے لئے میری مرضی یہ ہے کہ اسے نصاب میں شامل کردیا جائے۔
مرد یہ کہہ کر عورت کا دل جیت سکتا ہے کہ میں تم سے عشق کرتا ہوں، بشرطیکہ وہ واقعی اس سے عشق نہ کرتا ہو۔ محبوبہ اس عاشق کو تو معاف کردیتی ہے جو موقع سے غلط فائدہ اٹھائے مگر اس کو معاف نہیں کرتی جو موقع سے فائدہ نہ اٹھائے۔
(ڈاکٹر یونس بٹ)
آن لائن اردو انگلش ڈکشنری
[link]http://www.urduinc.com[/link]
nizamuddin
ماہر
Posts: 605
Joined: Fri Mar 27, 2015 5:27 pm
جنس:: مرد
Location: کراچی، پاکستان
Contact:

گھونسلوں میں بیٹ

Post by nizamuddin »

اکبر الہٰ آبادی کاتبوں کی ’’غلط نوازیوں‘‘ سے بہت دل برداشتہ خاطر رہتے تھے۔ مولانا ظفر الملک علوی (ایڈیٹر ماہنامہ الناظر) کو ایک خط (مطبوعہ الناظر، یکم جنوری ۱۹۱۰ میں تحریر فرماتے ہیں۔
’’اپنے مسودار خود نہیں پڑھ سکتا۔ کاتب کو ہدایت میں نہایت دقت ہوتی ہے۔ کاتب صاحب ایسے ’’ذی استعداد‘‘ ہیں کہ ’’کونسلوں میں سیٹ‘‘ کو ’’گھونسلوں میں بیٹ‘‘ لکھ دیتے ہیں۔‘‘
آن لائن اردو انگلش ڈکشنری
[link]http://www.urduinc.com[/link]
nizamuddin
ماہر
Posts: 605
Joined: Fri Mar 27, 2015 5:27 pm
جنس:: مرد
Location: کراچی، پاکستان
Contact:

خودکشی کا جواز

Post by nizamuddin »

ایک عورت کے لئے اس سے بڑھ کر خودکشی کا جواز اور کیا ہوسکتا ہے کہ دوسری عورت نے بھی اسی کے رنگ اور ڈیزائن کے کپڑے پہنے ہوں!
(مستنصر حسین تارڑ)
آن لائن اردو انگلش ڈکشنری
[link]http://www.urduinc.com[/link]
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: ادبی طنز و مزاح

Post by چاند بابو »

ہاہاہاہاہا
واقعی یہ تو خودکشی کرنے کا مقام ہے.
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
ابو اسد
کارکن
کارکن
Posts: 17
Joined: Fri Nov 11, 2011 7:35 pm
جنس:: مرد

Re: ثقیل اردو

Post by ابو اسد »

nizamuddin wrote:پرانے زمانے کے ایک استاد صاحب بڑی ثقیل قسم کی اردو بولا کرتے تھے اور ان کی اپنے شاگردوں کو بھی نصیحت تھی کہ جب بھی بات کرنی ہو تو تشبیہات، استعارات، محاورات اور ضرب المثال سے آراستہ پیراستہ اردو زبان استعمال کیا کرو۔
ایک بار دوران تدریس یہ استاد صاحب حقہ پی رہے تھے۔ انہوں نے جو زور سے حقہ گڑگڑایا تو اچانک چلم سے ایک چنگاری اڑی اور استاد جی کی پگڑی پر جاپڑی۔
ایک شاگرد اجازت لے کر اٹھ کھڑا ہوا اور بڑے ادب سے گویا ہوا:
’’حضور والا! یہ بندۂ ناچیز حقیر فقیر، پرتقصیر ایک روح فرسا حقیقت حضور کے گوش گزار کرنے کی جسارت کررہا ہے۔ وہ یہ کہ آپ لگ بھگ نصف گھنٹہ سے حقِ حقہ نوشی ادا فرما رہے ہیں۔ چند ثانیے قبل ایک شرارتی آتشی پتنگا آپ کی چلم سے بلند ہوکر چند لمحے ہوا میں ساکت رہا اور پھر آپ کی دستار فضیلت پر براجمان ہوگیا۔ اگر اس فتنہ کی بروقت اور فی الفور سرکوبی نہ کی گئی تو حضور والا کی جان کو شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔‘‘
کیا؟ اتنی دیر استاد صاحب زندہ بھی تھے یا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: ادبی طنز و مزاح

Post by چاند بابو »

زندہ ہونا تو نہیں چاہئے تھا مگر شاید مرے بھی اتنے ہی سقیل طریقے سے ہوں. :P
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Post Reply

Return to “نثر”