ادبی طنز و مزاح

اردو نثری قلم پارے اس فورم میں ڈھونڈئے
nizamuddin
ماہر
Posts: 605
Joined: Fri Mar 27, 2015 5:27 pm
جنس:: مرد
Location: کراچی، پاکستان
Contact:

میبل اور میں

Post by nizamuddin »

علالت کے دوران میرا دل زیادہ نرم ہوجاتا ہے۔ بخار کی حالت میں کوئی بازاری سا ناول پڑھتے وقت بھی بعض اوقات میری آنکھوں سےآنسو جاری ہوجاتے ہیں۔ صحت یاب ہو کر مجھے اپنی اس کمزوری پر ہنسی آتی ہے لیکن اُس وقت اپنی کمزوری کا احساس نہیں ہوتا۔ میری بدقسمتی کہ ان ہی دنوں مجھے خفیف سا انفلوئنزا ہوا، مہلک نہ تھا، بہت تکلیف دہ بھی نہ تھا، تاہم گزشتہ زندگی کے تمام چھوٹے چھوٹے گناہ کبیرہ بن کر نظر آنے لگے۔ میبل کا خیال آیا تو ضمیر نے سخت ملامت کی، اور میں بہت دیر تک بستر پر پیچ وتاب کھاتا رہا۔ شام کے وقت میبل کچھ پھول لے کر آئی۔ خیریت پوچھی، دوا پلائی، ماتھے پر ہاتھ رکھا، میرے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے۔ میں نے کہا، (میری آواز بھرائی ہوئی تھی) "میبل مجھے خدا کے ليے معاف کر دو۔" اس کے بعد میں نے اپنے گناہ کا اعتراف کیا اور اپنے آپ کو سزا دینے کے ليے میں نے اپنی مکاری کی ہر ایک تفصیل بیان کردی۔ ہر اس کتاب کا نام لیا، جس پر میں نے بغیر پڑھے لمبی لمبی فاضلانہ تقریریں کی تھیں۔ میں نے کہا "میبل، پچھلے ہفتے جو تین کتابیں تم مجھے دے گئی تھیں، ان کے متعلق میں تم سے کتنی بحث کرتا رہا ہوں۔ لیکن میں نے ان کا ایک لفظ بھی نہیں پڑھا، میں نے کوئی نہ کوئی بات ایسی ضرور کہی ہوگی، جس سے میرا پول تم پر کھل گیا ہوگا۔"
کہنے لگی۔ "نہیں تو"۔
میں نے کہا۔ "مثلاً ناول تو میں نے پڑھا ہی نہ تھا، کریکٹروں کے متعلق جو کچھ بک رہا تھا وہ سب من گھڑت تھا۔"
کہنے لگی۔ "کچھ ایسا غلط بھی نہ تھا۔"
میں نے کہا۔ "پلاٹ کے متعلق میں نے یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ ذرا ڈھیلا ہے۔ یہ بھی ٹھیک تھا؟"
کہنے لگی۔ "ہاں، پلاٹ کہیں کہیں ڈھیلا ضرور ہے۔"
اس کے بعد میری گزشتہ فریب کاری پر وہ اور میں دونوں ہنستے رہے۔ میبل رخصت ہونے لگی تو بولی۔ "تو وہ کتابیں میں لیتی جاؤں؟"
میں نے کہا۔ "ایک تائب انسان کو اپنی اصلاح کا موقع تو دو، میں نے ان کتابوں کو اب تک نہیں پڑھا لیکن اب انہیں پڑھنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ انہیں یہیں رہنے دو۔ تم تو انہیں پڑھ چکی ہو۔"
کہنے لگی۔ "ہاں میں تو پڑھ چکی ہوں۔ اچھا میں یہیں چھوڑ جاتی ہوں۔"
اس کے چلے جانے کے بعد میں نے ان کتابوں کو پہلی دفعہ کھولا، تینوں میں سے کسی کے ورق تک نہ کٹے تھے۔ میبل نے بھی انہیں ابھی تک نہ پڑھا تھا!
مجھے مرد اور عورت دونوں کی برابری میں کوئی شک باقی نہ رہا۔
(پطرس بخاری کے مضمون ’’میبل اور میں‘‘ سے اقتباس)
آن لائن اردو انگلش ڈکشنری
[link]http://www.urduinc.com[/link]
nizamuddin
ماہر
Posts: 605
Joined: Fri Mar 27, 2015 5:27 pm
جنس:: مرد
Location: کراچی، پاکستان
Contact:

’’آب گم‘‘ از مشتاق احمد یوسفی سے اقتباس

Post by nizamuddin »

کوئی شخص ایسا نظر آجائے جو حلیے اور چال ڈھال سے ذرا بھی گاہک معلوم ہو تو لکڑ منڈی کے دکاندار اس پر ٹوٹ پڑتے۔ بیشتر گاہک گرد و نواح کے دیہاتی ہوتے جو زندگی میں پہلی اور آخری بار لکڑی خریدنے کانپور آتے تھے۔ ان بیچاروں کا لکڑی سے دو ہی مرتبہ سابقہ پڑتا تھا۔ ایک اپنا گھر بناتے وقت دوسرے اپنا کریا کرم کرواتے سمے۔
قیام پاکستان سے پہلے جن پڑھنے والوں نے دلی یا لاہور کے ریلوے اسٹیشن کا نقشہ دیکھا ہے وہ اس چھینا جھپٹی کا بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں۔ 1945 میں ہم نے دیکھا کہ دلی سے لاہور آنے والی ٹرین کے رکتے ہی جیسے ہی مسافر نے اپنے جسم کا کوئی حصہ دروازے یا کھڑکی سے باہر نکالا، قلی نے اسی کو مضبوطی سے پکڑ کے سالم مسافر کو اپنی ہتھیلی پر رکھا اور ہوا میں ادھر اٹھالیا اور اٹھا کر پلیٹ فارم پر کسی صراحی یا حقے کی چلم پر بٹھادیا لیکن جو مسافر دوسرے مسافروں کے دھکے سے خودبخود ڈبے سے باہر نکل پڑے، ان کا حشر ویسا ہی ہوا جیسا اردو کی کسی نئی نویلی کتاب کا نقادوں کے ہاتھ ہوتا ہے۔ جو چیز جتنی بھی جس کے ہاتھ لگی، سر پر رکھ کر ہوا ہوگیا، دوسرے مرحلے میں مسافر پر ہوٹلوں کے دلال اور ایجنٹ ٹوٹ پڑتے۔ سفید ڈرل کا کوٹ پتلون، سفید قمیض، سفید رومال، سفید کینوس کے جوتے، سفید موزے، سفید دانت۔ اس کے باوجود محمد حسین آزاد کے الفاظ میں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ چنبیلی کا ڈھیر پڑا ہنس رہا ہے۔ ان کی ہر چیز سفید اور اجلی ہوتی، سوائے چہرے کے۔ ہنستے تو معلوم ہوتا توا ہنس رہا ہے۔
یہ مسافر پر اس طرح گرتے جیسے انگلستان میں رگبی کی گیند اور ایک دوسرے پر کھلاڑی گرتے ہیں۔ ان کی ساری تگ و دو کا مقصد خود کچھ حاصل کرنا نہیں بلکہ دوسروں کو حاصل کرنے سے باز رکھنا ہوتا تھا۔
مسلمان دلال ترکی ٹوپی سے پہچانے جاتے۔ وہ دلی اور یوپی سے آنے والے مسلمان مسافروں کو ٹونٹی دار لوٹے، مستورات، کثرتِ اطفال اور قیمے والے پراٹھے کے بھبکے سے فوراً پہچان لیتے اور ’’برادر ان اسلام السلام علیکم‘‘ کہہ کر لپٹ جاتے۔
مسلمان مسافروں کے ساتھ صرف مسلمان دلال ہی دھینگا مشتی کرسکتے تھے۔ جس دلال کا ہاتھ مسافر کے کپڑوں کے مضبوط ترین حصے پر پڑتا وہی اسے گھسیٹتا ہوا باہر لے آتا۔ جن کا ہاتھ لباس کے کمزور یا بوسیدہ حصوں پر پڑتا، وہ بعد میں ان کو بطور دستی رومال استعمال کرتے۔ نیم ملبوس مسافر قدم قدم پر اپنی ستر کشائی کرواتا۔ اسٹیشن کے باہر قدم رکھتا تو لاتعداد پہلوان جنہوں نے اکھاڑے کو ناکافی محسوس کرکے تانگہ چلانے کا پیشہ اختیار کرلیا تھا خود کو اس پر چھوڑ دیتے۔ اگر مسافر کے تن پر کوئی چیتھڑا اتفاقاً بچ رہا تو اسے بھی نوچ کر تانگے کی پچھلی سیٹ پر رامچندر جی کی کھڑاؤں کی طرح سجادیتے۔ اگر کسی کے چوڑی دار کے کمربند کا سرا تانگے والے کے ہاتھ لگ جاتا تو وہ غریب گرہ پر ہاتھ رکھے اسی میں بندھا چلا آتا۔ کوئی مسافر کا دامن آگے سے کھینچتا، کوئی پیچھے سے زلیخائی کرتا۔ آخری راؤنڈ میں ایک تگڑا سا tug of war تانگے والا سواری کا دایاں ہاتھ اور دوسرا مسٹنڈا اس کا بایاں ہاتھ پکڑ کے کھیلنے لگتے۔ لیکن قبل اس کے کہ ہر دو فریقین اپنے اپنے حصے کی ران اور دست اکھیڑ کر لے جائیں، ایک تیسرا پھرتیلا تانگے والا ٹانگے کے چرے ہوئے چمٹے کے نیچے بیٹھ کر مسافر کو یکلخت اپنے کندھوں پر اٹھا لیتا اور تانگے میں جوت کر ہوا ہوجاتا۔
(’’آب گم‘‘ از مشتاق احمد یوسفی سے اقتباس)
آن لائن اردو انگلش ڈکشنری
[link]http://www.urduinc.com[/link]
nizamuddin
ماہر
Posts: 605
Joined: Fri Mar 27, 2015 5:27 pm
جنس:: مرد
Location: کراچی، پاکستان
Contact:

محبت کے رمز

Post by nizamuddin »

کون ہے جو پیار نہیں کرتا مگر کسی کو نہیں معلوم کہ اس کا مفہوم اور مقصود کیا ہے؟ ہر شخص اپنے طور پر اس کی تشریح کرتا ہے۔ کسی نے شیریں سے پیار کیا تو کسی نے شیریں کے نام پر اس کے باپ کی دولت پر نظر جمائی، کون زندہ رہ گیا، یہ سب جانتے ہیں۔
محبت کے بارے میں لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ بہت سوں کا کہنا ہے کہ محبت وہ بیماری ہے جو شادی کا کڑوا گھونٹ پینے ہی سے ختم ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں دل لگانے کا مشورہ بہت ہی چھوٹی عمر میں مل جاتا ہے۔ بزرگ کہتے ہیں۔
’’بیٹا دل لگا کر پڑھا کرو۔‘‘
دل لگانے کے بعد بھی کوئی پڑھ سکا ہے؟ جو لوگ انگریزی پڑھتے، لکھتے اور بولتے ہیں وہ اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ محبت کرنا کسی گڑھے میں گرنے جیسا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر انگریزی میں محبت کرنے کے لئے “Falling in Love” کی اصطلاح کیوں استعمال کی جاتی ہے؟
محبت چونکہ انسان کو کچل کر اس کا کچومر نکال دیتی ہے اس لئے انگریزی میں کسی کے لئے بے پناہ پیار کا اظہار کرنے کے لئے “Crush” کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے۔ جیسے گنے کو کرش کرکے جوس نکالا جاتا ہے۔ کسی کا دعویٰ ہے کہ اگر محبت کو ہٹادو تو یہ دنیا مقبرے جیسی دکھائی دے گی۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ محبت کے ہاتھوں کتنے مزار بنے ہیں، اس پر بھی کسی نے غور کیا؟
کہتے ہیں کہ محبت کرنے کے بعد کسی چیز کی خواہش نہیں رہتی، کوئی اور خواہش کرنے کے قابل ہی کب رہتے ہیں؟
(’’محبت کا پوسٹ مارٹم‘‘ از ایم ابراہیم سے اقتباس)
آن لائن اردو انگلش ڈکشنری
[link]http://www.urduinc.com[/link]
محمد شعیب
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 6565
Joined: Thu Jul 15, 2010 7:11 pm
جنس:: مرد
Location: پاکستان
Contact:

Re: ادبی طنز و مزاح

Post by محمد شعیب »

:clap: :clap:
:lol: :lol:
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: ادبی طنز و مزاح

Post by چاند بابو »

بہت خوب مزہ آ گیا پڑھ کر.
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
اضواء
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 40424
Joined: Sun Aug 15, 2010 4:26 am
جنس:: عورت
Location: {الدمام}المملكةالعربيةالسعوديه

Re: ادبی طنز و مزاح

Post by اضواء »

عمدہ ہے :clap: :clap:
[center]یہ بھی انداز ہمارے ہے تمہیں کیا معلوم
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
nizamuddin
ماہر
Posts: 605
Joined: Fri Mar 27, 2015 5:27 pm
جنس:: مرد
Location: کراچی، پاکستان
Contact:

مجھے میرے بزرگوں سے بچاؤ

Post by nizamuddin »

میں ایک چھوٹا سا لڑکا ہوں ۔ ایک بہت بڑے گھر میں رہتا ہوں ۔ زندگی کے دن کاٹتا ہوں ۔ چونکہ سب سے چھوٹا ہوں اس لیے گھر میں سب میرے بزرگ کہلاتے ہیں ۔ یہ سب مجھ سے بے انتہا محبت کرتے ہیں ۔ انھیں چاہے اپنی صحت کا خیال نہ رہے ، میری صحت کا خیال ضرور ستاتا ہے ۔ دادا جی کو ہی لیجیے ۔ یہ مجھے گھر سے باہر نہیں نکلنے دیتے کیونکہ باہر گرمی یا برف پڑرہی ہے ۔ بارش ہورہی ہے یا درختوں کے پتے جھڑرہے ہیں ۔ کیا معلوم کوئی پتّہ میرے سر پر تڑاخ سے لگے اور میری کھوپڑی پھوٹ جائے ۔ ان کے خیال میں گھر اچھا خاصا قید خانہ ہونا چاہیے ۔ ان کا بس چلے تو ہر ایک گھر کو جس میں بچے ہوتے ہیں سنٹرل جیل میں تبدیل کرکے رکھ دیں ۔ وہ فرماتے ہیں بچوں کو بزرگوں کی خدمت کرنا چاہیے ۔ یہی وجہ ہے وہ ہر وقت مجھ سے چلم بھرواتے یا پاؤں دبواتے رہتے ہیں ۔
دادی جی بہت اچھی ہیں ۔ پوپلا منھ ، چہرے پر بے شمار جھریاں اور خیالات بے حد پرانے ۔ ہر وقت مجھے بھوتوں جنوں اور چڑیلوں کی باتیں سنا سنا کر ڈراتی رہتی ہیں ۔ ’’ دیکھ بیٹا مندر کے پاس جو پیپل ہے اس کے نیچے مت کھیلنا ۔ اس کے اوپر ایک بھوت رہتا ہے ۔ آج سے پچاس سال پہلے جب میری شادی نہیں ہوئی تھی میں اپنی ایک سہیلی کے ساتھ اس پیپل کے نیچے کھیل رہی تھی کہ یک لخت میری سہیلی بے ہوش ہوگئی ۔ اس طرح وہ سات دفعہ ہوش میں آئی اور سات دفعہ بے ہوش ہوئی ۔ جب اسے ہوش آیا تو اس نے چیخ کر کہا ’’بھوت‘‘ ! اور وہ پھر بے ہوش ہوگئی ۔ اسے گھر پہنچایا گیا جہاں وہ سات دن کے بعد مرگئی اور وہاں ، پرانی سرائے کے پاس جو کنواں ہے اس کے نزدیک مت پھٹکنا ۔ اس میں ایک چڑیل رہتی ہے ۔ وہ بچوں کا کلیجہ نکال کر کھا جاتی ہے ۔ اس چڑیل کی یہی خوراک ہے ۔ ‘‘
ماتا جی کو ہر وقت یہ خدشہ لگا رہتا ہے کہ پر ماتما نہ کرے مجھے کچھ ہوگیا تو کیا ہوگا؟ وہ مجھے تالاب میں تیرنے کے لیے اس لیے نہیں جانے دیتیں کہ اگر میں ڈوب گیا تو؟ پٹاخوں اور پھلجھڑیوں سے اس لیے نہیں کھیلنے دیتیں کہ اگر کپڑوں میں آگ لگ گئی تو؟ پچھلے دنوں میں کرکٹ کھیلنا چاہتا تھا۔ ماتا جی کو پتا لگ گیا۔ کہنے لگیں ، کرکٹ مت کھیلنا ۔ بڑا خطرناک کھیل ہے ۔ پرماتما نہ کرے اگر گیند آنکھ پر لگ گئی تو؟
بڑے بھائی صاحب کا خیال ہے جو چیز بڑوں کے لیے بے ضررہے چھوٹوں کےلیے سخت مضر ہے ۔ خود چوبیس گھنٹے پان کھاتے ہیں لیکن اگر کبھی مجھے پان کھاتا دیکھ لیں فوراً ناک بھوں چڑھائیں گے ۔ پان نہیں کھانا چاہیے ۔ بہت گندی عادت ہے ۔ سنیما دیکھنے کے بہت شوقین ہیں لیکن اگر میں اصرار کروں تو کہیں گے ، چھوٹوں کو فلمیں نہیں دیکھنا چاہیے۔ اخلاق پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔
بڑی بہن کو گانے بجانے کا شوق ہے ۔ ان کی فرمائشیں اس قسم کی ہوتی ہیں ’’ہارمونیم پھر خراب ہوگیا ہے اسے ٹھیک کرالاؤ۔ ستار کے دو تار ٹوٹ گئے ہیں اسے میوزیکل ہاؤس لے جاؤ۔ طبلہ بڑی خوفناک آوازیں نکالنے لگا ہے اسے فلاں دکان پر چھوڑ آؤ۔ ‘‘ جب انھیں کوئی کام لینا ہو تو بڑی میٹھی بن جاتی ہیں ۔ کام نہ ہو تو کاٹنے کو دوڑتی ہیں ۔ خاص کر جب ان کی سہیلیاں آتی ہیں اور وہ طرح طرح کی فضول باتیں بناتی ہیں ، اس وقت میں انھیں زہر لگنے لگتا ہوں ۔
لے دے کر سارے گھر میں ایک غمگسار ہے اور وہ ہے میرا کتّا ’’موتی‘‘۔ بڑا شریف جانور ہے ۔ وہ نہ تو بھوتوں اور چڑیلوں کے قصّے سنا کر مجھے خو ف زدہ کرنے کی کوشش کرتا ، نہ مجھے نالائق کہہ کر میری حوصلہ شکنی کرتا ہے اور نہ اسے جاسوسی ناول پڑھنے کا شوق ہے اور نہ ستار بجانے کا۔ بس ذرا موج میں آئے تو تھوڑا سا بھونک لیتا ہے ۔ جب اپنے بزرگوں سے تنگ آجاتا ہوں تو اسے لے کر جنگل میں نکل جاتا ہوں ۔ وہاں ہم دونوں تیتریوں کے پیچھے بھاگتے ہیں ۔ دادا جی اور دادی جی سے دور ۔ پتا جی اور ماتا جی سے دور ۔ بھائی اور بہن کی دسترس سے دور اور کبھی کبھی کسی درخت کی چھاؤں میں موتی کے ساتھ سستاتے ہوئے میں سوچنے لگتا ہوں ، کاش! میرے بزرگ سمجھ سکتے کہ میں بھی انسان ہوں ۔ یا کاش ، وہ اتنی جلدی نہ بھول جاتے کہ وہ کبھی میری طرح ایک چھوٹا سا لڑکا ہوا کرتے تھے ۔
(کنہیا لال کپور)
آن لائن اردو انگلش ڈکشنری
[link]http://www.urduinc.com[/link]
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: ادبی طنز و مزاح

Post by چاند بابو »

بہت ہی خوبصورت تحریر.
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
nizamuddin
ماہر
Posts: 605
Joined: Fri Mar 27, 2015 5:27 pm
جنس:: مرد
Location: کراچی، پاکستان
Contact:

مہربانی قسمت

Post by nizamuddin »

ہر چند کہ ہمارے گھر میں غربت کا خاصا آنا جانا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ پھر بھی ابا نے دل پر جبر کرکے مجھے ایف اے کرا ہی دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ میری خواہش تھی کہ میں ایم اے کرتا ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن ابا ایم اے کی بجائے ’’ایویں‘‘ میں زیادہ خوش تھے۔ میں نے کئی دفعہ ابا سے کہا کہ مجھے کوئی نوکری کرلینے دیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن ابا کا تو پلان ہی کچھ اور تھا ۔۔۔۔۔۔۔ ہر دفعہ جیسے ہی میں نوکری کا ذکر چھیڑتا ۔۔۔۔۔۔۔ ابا کا منہ عالم لوہار جیسا بن جاتا اور آنکھیں حسن جہانگیر جیسی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر وہ مسلسل ساڑھے تین منٹ مجھے پرانے ماڈل کی نئی گالیاں نکالتے اور بعد میں بڑی عزت سے سمجھاتے کہ ۔۔۔۔۔۔ ’’منحوس! یہ نوکری وغیرہ کی سوچے گا تو نہ خود کھا سکے گا نہ ہمیں کھلائے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔ آگے کی سوچ ۔۔۔۔۔۔ آگے کی ۔۔۔۔۔۔۔ میں تیری شادی کسی امیر کبیر لڑکی سے کرنا چاہتا ہوں تاکہ تیرے سسرال والے تجھے کاروبار بھی سیٹ کرکے دیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس طرح ان کی بیٹی اور تیرے والدین دونوں سکھی رہیں گے۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’سبحان اللہ‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔ ابا کا پلان سن کر میرے گھٹنوں میں ہارٹ اٹیک ہوتے ہوتے بچا ۔۔۔۔۔۔۔ ’’اے ابا! ۔۔۔۔۔ اتنی امیر لڑکی آخر مجھے ملے گی کیسے ۔۔۔۔۔۔‘‘ میں نے طلعت حسین کے انداز میں بڑا سیریس سوال کیا۔
’’ابے بھری پڑی ہے دنیا ایسی لڑکیوں سے ۔۔۔۔۔۔۔۔ بس تو دیکھتا جا ۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا دل کہتا ہے قسمت ہمارے دروازے پر دستک دینے ہی والی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
اچانک دروازے پر دستک ہوئی ۔۔۔۔۔!!
میں نے اٹھ کر دیکھا تو ہمیشہ کی طرح ابا کا کہا سچ پایا ۔۔۔۔۔۔۔ رشتے کرانے والی ’’ماسی قسمت‘‘ اندر داخل ہورہی تھی۔
(گل نوخیز اختر کے مزاحیہ ناول ’’ٹائیں ٹائیں فش‘‘ سے اقتباس)
آن لائن اردو انگلش ڈکشنری
[link]http://www.urduinc.com[/link]
محمد شعیب
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 6565
Joined: Thu Jul 15, 2010 7:11 pm
جنس:: مرد
Location: پاکستان
Contact:

Re: ادبی طنز و مزاح

Post by محمد شعیب »

پھر آگے کیا ہوا ؟ ہاہاہاہاہا
nizamuddin
ماہر
Posts: 605
Joined: Fri Mar 27, 2015 5:27 pm
جنس:: مرد
Location: کراچی، پاکستان
Contact:

کبوتر

Post by nizamuddin »

کبوتر بڑے کام کا جانور ہے۔ یہ آبادیوں میں، جنگلوں میں، مولوی اسماعیل میرٹھی کی کتاب میں، غرض یہ کہ ہر جگہ پایا جاتا ہے۔ کبوتر کی دو بڑی قسمیں ہیں (۱) نیلے کبوتر (۲) سفید کبوتر۔
نیلے کبوتر کی بڑی پہچان یہ ہے کہ وہ نیلے رنگ کا ہوتا ہے۔ سفید کبوتربالعموم سفید ہی ہوتا ہے۔ کبوتروں نے تاریخ میں بڑے بڑے کارنامے انجام دیئے ہیں، شہزادہ سلیم نے مسماۃ مہر النسا کو جب کہ وہ ابھی بے بی نورجہاں تھیں، کبوتر ہی پکڑایا تھا جو اس نے اڑا دیا اور پھر ہندوستان کی ملکہ بن گئی۔ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ اس سارے قصے میں زیادہ فائدے میں کون رہا؟ شہزادہ سلیم؟َ نور جہاں؟ یا وہ کبوتر؟ رعایا کا فائدہ ان دنوں کبھی معرض بحث میں نہ آتا تھا۔ پرانے زمانے کے لوگ عاشقانہ خط و کتابت کے لئے کبوتر ہی استعمال کرتے تھے۔ اس میں بڑی مصلحتیں تھیں۔ بعد میں آدمیوں کو قاصد بنا کر بھیجنے کا رواج ہوا تو بعض اوقات یہ نتیجہ نکلا کہ مکتوب الیہ یعنی محبوب قاصد سے ہی شادی کرکے بقیہ عمر ہنسی خوشی گزار دیتا۔ چند سال ہوئے ہمارے ملک کی حزب مخالف نے ایک صاحب کو الٹی میٹم دے کر والئی ملک کے پاس بھیجا تھا۔ الٹی میٹم تو راستے میں کہیں رہ گیا۔ دوسرے روز ان صاحب کے وزیر بننے کی خبر اخباروں میں آگئی۔ کبوتر کے ہاتھ یہ پیغام بھیجا جاتا تو یہ صورت حال پیش نہ آتی۔
(ابن انشا کے مضامین سے اقتباس)
آن لائن اردو انگلش ڈکشنری
[link]http://www.urduinc.com[/link]
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: ادبی طنز و مزاح

Post by چاند بابو »

بہت خوب

چاند بابو
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
nizamuddin
ماہر
Posts: 605
Joined: Fri Mar 27, 2015 5:27 pm
جنس:: مرد
Location: کراچی، پاکستان
Contact:

ناکام شاعر

Post by nizamuddin »

ایک دفعہ جون ایلیا نے اپنے بارے میں لکھا کہ میں ناکام شاعر ہوں۔
اس پر مشفق خواجہ نے انہیں مشورہ دیا۔ ’’جون صاحب! اس قسم کے معاملات میں احتیاط سے کام لینا چاہئے۔ یہاں اہلِ نظر آپ کی دس باتوں سے اختلاف کرنے کے باوجود ایک آدھ بات سے اتفاق بھی کرسکتے ہیں۔
آن لائن اردو انگلش ڈکشنری
[link]http://www.urduinc.com[/link]
nizamuddin
ماہر
Posts: 605
Joined: Fri Mar 27, 2015 5:27 pm
جنس:: مرد
Location: کراچی، پاکستان
Contact:

ٹائیں ٹائیں فش

Post by nizamuddin »

میں نے اٹھ کر دیکھا تو ہمیشہ کی طرح ابا کا کہا سچ پایا ۔۔۔۔۔ رشتے کرانے والی ’’ماسی قسمت‘‘ اندر داخل ہورہی تھی۔ مجھے دیکھتے ہی اس کا چہرہ کھل اٹھا۔
’’اے بیٹے اچھا ہوا جو تو مل گیا ۔۔۔۔۔ بڑی شاندار خبر لائی ہوں آج تو ۔۔۔۔۔‘‘
’’شاندار خبر ۔۔۔۔۔۔ میرا خیال ہے تیرے خاوند کی ڈیوٹی پھر سے رات کی ہوگئی ہوگی۔۔۔۔۔۔‘‘ ابا نے چارپائی پر لیٹے لیٹے ہانک لگائی اور ماسی کے دانتوں تلے سپاری مزید تیزی سے ریزہ ریزہ ہونے لگی۔ اس نے دانت پیستے ہوئے بات ان سنی کی اور میری طرف دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’نوراں کدھر ہے؟‘‘
میں نے آواز دی ۔۔۔۔۔ ’’اماں۔۔۔۔ ماسی آئی ہے۔‘‘
’’آرہی ہوں‘‘ ۔۔۔۔۔ اماں نے سیڑھیوں کے نیچے قائم ’’ٹو اِن ون‘‘ باورچی خانے سے آواز لگائی۔ ٹو ان ون میں نے اس لئے کہا ہے کہ خورد و نوش کے فرائض سے نمٹنے کے بعد اکثر یہ باورچی خانہ بطور غسل خانہ بھی استعمال ہوتا تھا۔ سامنے والے حصے کی طرف چارپائی کھڑی کرلی جاتی تھی۔ ابا نے جدید غسل سے لطف اندوز ہونے کے لئے انوکھا طریقہ نکال رکھا تھا ۔۔۔۔۔۔ وہ سرکاری پانی کی ٹونٹی کے ساتھ ٹیوب لگادیتے اور دوسرا سرا غسل خانے والی چارپائی کے بان میں سے نکال دیتے ۔۔۔۔۔۔ یوں ہر دفعہ وہ تازہ شاور لیتے تھے۔ سردیوں کے دنوں میں ہم اکثر دوپہر کو نہاتے تھے کیونکہ پانی بہت ٹھنڈا ہوتا تھا ۔۔۔۔۔۔ تاہم ابا پانی کی بالٹی بھر کر دھوپ میں رکھ دیتے ۔۔۔۔۔ ان کا مشاہدہ تھا کہ پانی اس طرح سے بھی گرم کرکے نہایا جاسکتا ہے۔
اماں ماسی قسمت کے پاس آکر بیٹھ گئی۔
’’اے بہن ۔۔۔۔۔ بڑی خاص خبر لائی ہوں۔۔۔۔۔‘‘ ماسی نے ابا کا جملہ آنے کے ڈر سے نہ صرف آواز آہستہ رکھی بلکہ جملے میں بھی خاطر خواہ تبدیلی کرلی۔
’’میری کمیٹی تو نہیں نکل آئی ؟؟‘‘ اماں نے غربت کا عالمی مظاہرہ کیا۔۔۔!!
’’اے نہیں ۔۔۔۔۔۔ اس سے بھی بڑی خبر ہے۔۔۔۔۔‘‘ ماسی نے عینک درست کرتے ہوئے کن اکھیوں سے ابا کی طرف دیکھا جو چارپائی کی ادوائن میں پھنسے لاپرواہی سے ہاتھ ہلاتے ہوئے نورجہاں کا گیت پٹھانے خان کی آواز میں گانے کی کوشش کررہے تھے۔
’’خالی خبر ہے یا خوشی کی خبر ہے؟‘‘ ۔۔۔۔۔ اماں نے یکدم چونک کر پوچھا۔
’’اے ہے ۔۔۔۔۔ اللہ خیر کرے خوشی کی خبر ہے ۔۔۔۔۔‘‘ ماسی نے اپنی مسکراہٹ چھپائی اور اماں کے حلق سے طویل سانس نکل گئی۔
’’تو بتاؤ پھر۔۔۔‘‘
ماسی نے کچھ لمحے توقف کیا ۔۔۔۔۔ پھر میری طرف دیکھا ۔۔۔۔۔ میں بظاہر سائیکل کا چمٹا صاف کررہا تھا لیکن میرے تمام ’’حواس ضروریہ‘‘ اسی طرف تھے۔
’’بات یہ ہے کہ ۔۔۔۔۔ فریدہ کی بیٹی نے ۔۔۔۔۔ بی اے کرلیا ہے۔ آج اس کا نتیجہ تھا ۔۔۔۔ پورے کالج میں فشٹ آئی ہے۔‘‘
’’تو پھر ؟؟‘‘ اماں نے قہر آلود نظروں سے ماسی کو گھورا ۔۔۔۔۔!!!
’’پھر کیا ۔۔۔۔۔۔ لڑکی بہت اچھی ہے ۔۔۔۔ باپ بھی فیکٹری میں فورمین ہے ۔۔۔۔۔۔ لوگ بھی بہت شریف ہیں۔‘‘
’’تو ہم کیا دہشت گرد ہیں ۔۔۔۔۔‘‘ اماں کڑکی۔
’’نن ۔۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔۔ میں نے یہ کب کہا ۔۔۔۔۔۔ میں تو کہہ رہی تھی کہ اپنا کمالا پتر بھی بڑا ہوگیا ہے ۔۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔‘‘
’’اچھا ۔۔۔۔۔ تو رشتہ لے کر آئی ہے ۔۔۔۔۔۔‘‘ اماں ساری بات سمجھ گئی ۔۔۔۔۔ اور میں بھی سمجھ گیا کہ اب کیا ہوگا ۔۔۔۔۔ اماں ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔۔۔۔ ابا کے کانوں تک آوازیں تو نہیں پہنچی تھیں تاہم اماں کے اٹھنے کا ایکشن دیکھ کر وہ اندازہ لگا چکے تھے کہ سبزی میں کچھ کالا ہے ۔۔۔۔۔۔ انہوں نے فوراً اپنے گیت کو لگام دی اور ہمہ تن چوکنے ہوگئے۔
’’بات سن ۔۔۔۔۔۔ ہم نے اپنے لڑکے کا رشتہ ایرے غیروں میں نہیں کرنا ۔۔۔۔۔۔ دوبارہ اس سلسلے میں آنے کی ضرورت نہیں ۔۔۔۔۔۔ کمالے کا رشتہ ہم جیسے بڑی ذات کے راجپوتوں میں ہوگا۔‘‘ اماں نے گردن اکڑائی۔
’’راج ۔۔۔۔۔ پوت ۔۔۔۔۔‘‘ بے اختیار میرا ہاتھ سائیکل کی گھنٹی سے پھسل گیا ۔۔۔۔۔۔ مجھے اچھی طرح یاد تھا کہ ابا نے بتایا تھا، ہم شیخ ہیں ۔۔۔۔۔۔ ابا کی چارپائی میرے قریب تھی ، میں نے سرگوشی کی ۔۔۔۔۔ ’’ابا ۔۔۔۔۔ کیا ہم راجپوت ہیں؟؟‘‘
’’کیا کہا ۔۔۔۔۔ جن بھوت ہیں۔۔۔۔‘‘ ابا چونکے ۔۔۔۔۔’’ابے ہوش کر ۔۔۔۔ اس غریب گھر میں جن بھوت کہاں سے آگئے، یہاں سے تو چڑیلیں بھی پردہ کرکے گزرتی ہیں۔‘‘
’’جن بھوت نہیں ابا ۔۔۔۔ راج پوت ۔۔۔۔۔ راجپوت ۔۔۔۔۔ کیا ہم راجپوت ہیں؟‘‘ میں نے زچ ہوکر ابا کے کان کے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا۔
’’یہ کس نے کہا؟‘‘ ابا سیدھے ہوئے۔
’’اماں کہہ رہی ہے۔۔۔۔۔‘‘
’’ہوسکتا ہے وہ اپنی جگہ ٹھیک کہہ رہی ہو ۔۔۔۔۔‘‘ ابا نے سر ہلایا۔
’’دیکھ نوراں ۔۔۔۔۔ رشتہ بہت اچھا ہے ۔۔۔۔۔ ہاتھ سے نکل جائے گا۔‘‘ ماسی قسمت نے آخری کوشش کی۔
’’ماسی ۔۔۔۔ رشتہ نکلے نہ نکلے ۔۔۔۔ تو ضرور نکل جا ۔۔۔۔۔ ورنہ میرا دماغ چل گیا تو ۔۔۔‘‘ اماں نے چپل اٹھالی۔
ماسی نے تمام تر خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا برقعہ سمیٹا ۔۔۔۔۔۔ میری طرف دیکھ کر پان کی پیک زور سے زمین پر تھوکی ۔۔۔۔۔ اور منہ بناتی ہوئی چلی گئی۔
(گل نوخیز اختر کے ناول ’’ٹائیں ٹائیں فش‘‘ سے اقتباس)
آن لائن اردو انگلش ڈکشنری
[link]http://www.urduinc.com[/link]
nizamuddin
ماہر
Posts: 605
Joined: Fri Mar 27, 2015 5:27 pm
جنس:: مرد
Location: کراچی، پاکستان
Contact:

عاشق

Post by nizamuddin »

[center]عاشق[/center]

دوسرے کو پریشان کرنے کے دو ہی طریقے ہیں، یا تو اس کی ناکامیوں کا ذکر کرو جو اس میں ہیں یا اس کی ان خوبیوں کا ذکر کرو جو اس میں نہیں ہیں۔
اور عاشق یہی کرتا ہے۔ وہ محبوب کا نقشہ کھینچ رہا ہو تو لگتا ہے محبوب کی کھنچائی کررہا ہے۔ جیسے ناگن زلفیں، یعنی بالوں کی جگہ لٹکتے ہوئے سانپ۔ چاند چہرہ، یعنی چاند کی طرح گڑھوں اور داغ دھبوں والا۔ پھر ہرنی جیسی چال، یعنی چوپایوں کی طرح چلنا۔ شاید وہ اسی لئے کہتا ہے کہ اس کے محبوب جیسا پوری دنیا میں کوئی نہیں۔
عاشق نے ہمیشہ محبوب کو ملزم سمجھا۔ اس پر اپنے اسپیئر پارٹس کی چوری کا الزام ، دل، جگر، نیند وغیرہ کی گمشدگی کا پرچہ بھی محبوب کے نام کٹوایا۔ یہاں تک کہ اسے سرعام قاتل کہا۔
عورت کے لئے اس شخص کو محبت کا یقین دلانا جس سے محبت نہیں کرتی، اس شخص کی نسبت آسان ہوتا ہے جس سے وہ محبت کرتی ہے۔
عشق میں عورت نے ہر قسم کے حالات کا مردانہ وار مقابلہ کیا اور اس کا نام ہمیشہ مردوں سے پہلے آیا جیسے سسی پنوں، ہیر رانجھا، سوہنی مہینوال، لیلیٰ مجنوں وغیرہ۔
مرد کم ہی چوٹی کے عاشق گزرے ہیں۔ اکثر عورتیں ہی عاشق ہوتی ہیں۔
دولت سے محبت نہیں ملتی اور غربت سے محبوبہ نہیں ملتی۔
سب سے قیمتی عاشق فلموں میں ملتے ہیں کیونکی عشق کرنے سے انہیں محبوبہ نہیں معاوضہ ملتا ہے۔، شاید اسی لئے وہ سچا عشق کرتے ہیں۔
(ڈاکٹر یونس بٹ کی کتاب ’’شیطانیاں‘‘ سے اقتباس)
آن لائن اردو انگلش ڈکشنری
[link]http://www.urduinc.com[/link]
اریبہ راؤ
کارکن
کارکن
Posts: 183
Joined: Tue Jun 09, 2015 3:28 am
جنس:: عورت

Re: ادبی طنز و مزاح

Post by اریبہ راؤ »

nizamuddin wrote:ایک دفعہ جون ایلیا نے اپنے بارے میں لکھا کہ میں ناکام شاعر ہوں۔
اس پر مشفق خواجہ نے انہیں مشورہ دیا۔ ’’جون صاحب! اس قسم کے معاملات میں احتیاط سے کام لینا چاہئے۔ یہاں اہلِ نظر آپ کی دس باتوں سے اختلاف کرنے کے باوجود ایک آدھ بات سے اتفاق بھی کرسکتے ہیں۔
Hehehehe........ khoob kha.... :)

Sent from my EK-GC100 using Tapatalk
nizamuddin
ماہر
Posts: 605
Joined: Fri Mar 27, 2015 5:27 pm
جنس:: مرد
Location: کراچی، پاکستان
Contact:

جیل

Post by nizamuddin »

گزشتہ دنوں میرے ایک دوست کو غلطی سے پولیس پکڑ کر لے گئی۔ یاد رہے یہ غلطی میرے دوست کی نہیں پولیس کی تھی، لہٰذا اسے فوراً تین دن بعد چھوڑ دیا گیا۔ مجھے اس کی خوش قسمتی پر رشک آرہا تھا جسے بلاوجہ جیل میں رہنے کی سعادت نصیب ہوئی ورنہ یہاں جانے کے لئے تو بڑے بڑے لوگوں کو بھی گھنٹوں تقریریں، توڑ پھوڑ، مارکٹائی اور نہ جانے کیا کیا ناپسندیدہ فعل کرنے پڑتے ہیں، پھر کہیں جاکر انہیں جیل جانے کا موقع ملتا ہے۔
لیکن مجھے حیرانی ہوئی کہ لوگ اسے رہا ہونے کی مبارک باد دے رہے ہیں حالانکہ مبارک باد تو اسے اس بات کی دینی چاہئے تھی کہ اب وہ عام آدمی نہیں رہا کیونکہ جیل جانے والا انسانوں کے جم غفیر سے یکدم الگ ہوکر اپنی انفرادیت کا احساس دلاتا ہے۔ جیل جاتے ہی وہ اس قدر اہم ہوجاتا ہے کہ اس کی ملاقات کے لئے کئی کئی سفارشی رقعے لانا پڑتے ہیں، گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے، تب کہیں وہ جھروکوں سے جھلک دکھاتا ہے۔ جسے کبھی کسی نے آنکھ بھر کر نہیں دیکھا ہوتا اسے دیکھتے ہی آنکھیں بھر آتی ہیں۔
جیل جانا دراصل شریف ہونا ہے کہ شریف وہ ہوتا ہے جو جرم نہ کرے اور جرم ہمیشہ وہ کرتے ہیں جو جیل سے باہر ہوتے ہیں بلکہ جیل دنیا کا وہ خطہ ہے جہاں سب سے کم چوریاں، ڈاکے اور قتل ہوتے ہیں۔
یوں بھی اب ہمارے ہاں جیلوں میں اتنی جگہ نہیں، جتنے اس کے مستحق افراد۔ سو اب یہی حل ہے جو چند شریف شہری ہیں انہیں جیلوں میں بند کردیا جائے۔
(ڈاکٹر محمد یونس بٹ کی کتاب ’’شیطانیاں‘‘ سے اقتباس)
آن لائن اردو انگلش ڈکشنری
[link]http://www.urduinc.com[/link]
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: ادبی طنز و مزاح

Post by چاند بابو »

ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا
بہت خوب زبردست شیئرنگ ہے۔

چاند بابو
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
اضواء
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 40424
Joined: Sun Aug 15, 2010 4:26 am
جنس:: عورت
Location: {الدمام}المملكةالعربيةالسعوديه

Re: ادبی طنز و مزاح

Post by اضواء »

تو پھر جیل تو ہمت والے ہی جاتے ہے.. :( :P
[center]یہ بھی انداز ہمارے ہے تمہیں کیا معلوم
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
میاں محمد اشفاق
منتظم سوشل میڈیا
منتظم سوشل میڈیا
Posts: 6107
Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: السعودیہ عربیہ
Contact:

Re: ادبی طنز و مزاح

Post by میاں محمد اشفاق »

پوچها: آپ نے کس طرح اتنی لمبی ازدواجی رفاقت ہنسی خوشی گزار دی؟
کہنے لگے: هم نے پہلی رات ہی ایک معاہدہ کر لیا تها تها کہ اگر وہ غصہ کرتی ہے تو کچن میں چلی جایا کرے اور تب تک نا لوٹے جب تک مزاج بحال نا ہو جائے.
اور اگر میں غصے یا ناراض ہو جاتا ہوں تو باغ میں چلا جایا کرونگا اور تب تک نا لوٹونگا جب تک مزاج اچها ہو جائے.
.
بس یہی وجہ ہے کہ میں پچهلے پچاس سال سے باغ میں ہنسی خوشی زندگی گزار رہا ہوں.
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
Post Reply

Return to “نثر”