عجیب و غریب اور پر اسرار

روزمرہ سائنس کی دنیا میں کیا جدت آ رہی ہے
Post Reply
علی عمران
کارکن
کارکن
Posts: 13
Joined: Wed Aug 19, 2009 6:22 pm

عجیب و غریب اور پر اسرار

Post by علی عمران »

ایسے واقعات جن کی سائنس آج تک توضیع پیش نہیں کر سکی
شہر کے لوگ کہاں غائب ہو گئے
نومبر 1930 میں اسکیمو کے شہر میں کوئی چیز خلافِ توقع دکھائی دیتی تھی۔ ایک پولیس مین جوئی بھی اسے محسوس کئے بغیر نہ رہ سکا۔ وہ صورتِ حال معلوم کرنے کے لیے ٹھہر گیا۔برف سے لدی ہوئی تند ہواؤں سے جو جھیل انجی کونی کے اوپر اٹھ رہی تھیں۔ جھونپڑیوں کے کھلے کواڑوں میں لگے چمڑے کے پردے لٹک رہے تھے۔ہر طرف ہو کا عالم تھا کسی کتے کے بھونکنے کی آواز بھی سنائی نہیں دیتی تھی اور نہ ہی کسی انسان کا پتہ چلتا تھا۔ ماحول پر گہرا اور پر اسرار سکون طاری تھا۔
جوئی نے خود سے پوچھا لوگ کہاں چلے گئے؟۔ یہ ایک سوال تھا جس کا کوئی جواب کبھی نہ دیا جا سکا۔
اسکیمو کے اس شہر میں جوئی کے کئی دوست تھے۔ یہ شہر ماؤنیٹر(چرچل)کے شمال میں پانچ سو میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ جوئی اس دن ٹینڈرا کے منجمد خطے سے گزرتے ہوئے اسکیمو کے شہر کی طرف مڑا تھا تاکہ وہ اپنے دوستوں سے ملاقات کر سکے۔ لیکن اس کا استقبال کرنے والا صرف گہرا اور پر اسرار سناٹا تھا۔ اس نے شمال مغربی ماؤنیٹر کو رپورٹ دیتے ہوئے کہا کہ وہ شہر کے ایک سرے پر آ کر ٹھہر گیا اور اپنی آمد کی اطلاع دینے کے لیے پکارنا شروع کر دیا لیکن اسے کوئی جواب نہیں ملا۔ اس نے جھونپڑی میں ہرن کے چمڑے سے بنی ہوئی چنی اٹھا کر بھی پکارا مگر کوئی جواب نہ ملا۔
سارے شہر میں اسی طرح کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ جوئی ایک گھنٹے تک اس شہر میں رہا تاکہ وہ شہریوں کی پر اسرار گمشدگی کے متعلق اندازہ لگا سکے۔ اس نے چولہوں پر پکانے کے برتن دیکھے۔ ایسا لگتا تھا کہ انہیں کئی ماہ پہلے آگ پر رکھا گیا تھا۔
جوئی کو ایک سؤر کی کھال سے بنے ہوئے بچوں کے ملبوسات بھی نظر آئے۔ ہاتھی دانت کی بنی ہوئی سوئیاں ابھی تک ان ملبوسات میں پیوست تھیں۔ جنہیں ماؤں نے جلدی میں سینا چھوڑ دیا تھا۔
دریا کے کنارے کشتیاں بھی موجود تھیں۔ ایک کشتی کے متعلق تو وہ جانتا تھا کہ یہ گاؤں کے سردار کی ہے۔یہ کشتیاں دریا کے پانی سے بوسیدہ ہو گئ تھیں۔ ان کی حالت سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ کافی عرصے سے وہاں رکھی گئی ہیں۔
جوئی کو ایک اور چیز نے بہت حیران کیا۔اسکیموؤں کی مشہورِ زمانہ بندوقیں دروازوں کے ساتھ کھڑی اپنے مالکوں کا انتظار کر رہی تھیں جو کبھی واپس نہیں آ سکے۔ ٹنڈرا کےانتہائی شمالی علاقوں میں بندوق کو بہت اہمیت دی جاتی ہے اور یہ فی الواقع زندگی کا بیمہ بھی سمجھی جاتی ہے۔کوئی اسکیمو ہوش و حواس کی حالت میں بلا بندوق کبھی لمبے سفر پر نہیں نکلتا تھا۔لیکن یہاں تو الٹا ہی معاملہ تھا۔ بندوقیں وہیں لٹکی ہوئی تھیں لیکن ان کے مالک غائب تھے۔
حیرت انگیز بات تو یہ تھی کہ کتے اپنی اپنی جگہ پر موجود تھے۔ حالانکہ اس لق و دق اور سنسان جگہ میں اسکیمو لوگ حفاظت کے لیے کتوں کو بھی ساتھ لے جاتے تھے۔
جوئی نے ایک خیمے سے سو گز کے فاصلے پر سات کتوں کو مرا ہوا پایا یہ کتے درختوں کی جڑوں سے بندھے ہوئے تھے۔ بعد میں کینیڈا کے ایک ماہرِ تشخیص الامراض کی تحقق سے پتہ چلا کہ وہ فاقہ کشی سے مرے تھے۔ اس معمہ کا سب سے پیچیدہ پہلو وہ قبریں تھیں جومردہ کتوں کی مخالف سمت میں خیمے کی ایک سمت بنی ہوئی تھیں۔ یہاں اسکیموں مروجہ طریقے سے اپنے مردے دفناتے تھے۔ ان قبروں کو وزنی سلوں سے ڈھانپا جاتا تھا۔ یہ تمام قبریں کھلی ہوئی تھیں اور ان میں سے مردے غائب تھے۔
ان قبروں کی تمام سلوں کو بڑی مہارت سے دو ڈھیروں کی شکل میں مجتمع کیا گیا تھا۔ قبریں کھولنا اسکیموؤں کے نزدیک سب سے قبیح فعل سمجھا جاتا ہے۔ اس لئے ان سے اس قسم کی توقع نہیں کی جا سکتی، علاوہ ازیں کوئی جانور بھی اتنی مہارت سے وزنی سلیں نہیں ہٹا سکتا تھا۔ جوئی نے ماہرین کو اس شہر میں آنے کی دعوت دی تاکہ اس پر اسرار معمے کے راز سے پردہ اٹھایا جا سکے۔
ماہرین یہاں کوئی دو ہفتے تک موجود رہے۔ اس پر اسرار معمے کو حل کرنے کے لئے جو شہادتیں بھی مل سکتی تھیں حاصل کیں۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اسکیمو پچھلے دو ماہ سے اس شہر میں نہیں آئے۔ یہ اندازہ برتنوں میں کھانے پینے کی اشیاء کو دیکھ کر لگایا گیا تھا۔
اسکیموؤں کے اس شہر میں تیس باشندے تھے اور وہ بلکل نارمل زندگی بسر کر رہے تھے لیکن کسی نامعلوم وجہ کی بنا پر وہ اس شہر سے چلے گئے اور پھر کبھی واپس نہیں آئے۔ وہ اس شہر سے اتنی افراتفری میں نکلے تھے کہ انے ساتھ بندوقیں اور کتے بھی نہ لے جا سکے۔
یہ فرض کر لیا گیا کہ وہ ٹنڈرا کے دوسرے علاقوں میں منتقل ہو گئے ہیں۔ لیکن بڑے بڑے ماہر جاسوس بھی ان کا سراغ نہ لگا سکے۔ مہینوں کی صبر آزما تحقیق و تفتیش کے بعد بھی کسی اسکیموں کا سراغ بی نہیں لگایا جا سکا۔ ماؤنٹنڈ کی پولیس نے اس معمے کو ناقابلِ حل قرار دے کر اپنی فائل میں ٹانگ لیا۔
وہ کر بھی کیا سکتے تھے؟۔
علی عمران
کارکن
کارکن
Posts: 13
Joined: Wed Aug 19, 2009 6:22 pm

Re: عجیب و غریب اور پر اسرار

Post by علی عمران »

خزانہ جو آج بھی کنوئیں میں موجود ہے
برقی آلات نے ثابت کر دیا ہے کہ اوک آئی لینڈ میں ہزاروں ٹن خالص سونا موجود ہے لیکن یہ سونا آج تک نکالا نہیں جا سکا۔ اوک لینڈ کا یہ خزانہ اتنی ہوشیاری اور مضبوطی سے کنوئیں میں گاڑا گیا ہے کہ گذشتہ ڈیڑھ سو سال کی تگ و دو کے باوجود بھی نہیں نکالا جاسکا۔ بہت سے لوگوں نے اس کو نکالنے کی کوششیں کی ہیں۔ اس مقصد کے لئے جدید ترین سائنسی آلات بھی استعمال کیے گئے ہیں لیکن کامیابی نہیں ہو سکی۔
اوک آئی لینڈ نوواسکوٹا میں نیلے پانی کی خلیج ماؤں کے ساتھ ساتھ واقع ہے۔ اس میں چھوٹی چھوٹی چٹانیں اور ٹیلے ہیں۔ 1795 میں اتوار کی ایک روشن صبح کو سب سے پہلے تین آدمی ٹانی ڈوگن،ڈینی لگ کی نس،اور جیک سمتھ اس جزیرے میں داخل ہوئے انہیں بخوبی علم تھا کہ یہ جزیرہ جہازوں کے مسافروں اور بحری قزاقوں کا مسکن رہا ہے۔ بعض جہاز یہاں اس لیے ٹھہرتے تھے کہ ان کی صفائی کی ضرورت پڑتی تھی۔
روایت کے مطابق اس جزیرے میں سب سے پہلے بحری قزاقوں نے خیم نصب کیے تھے یہ لوگ فاراسکوٹی کے باشندوں سے تجارت بھی کرتے تھے او پھر وہ پر اسرار طریقے سے اس جزیرے سے غائب ہو گئے۔ بعض کو پھانسی دے دی گی تھی اور بعض آپس میں لڑ جھگڑ کر مر گئے۔ اس بات کی تصدیق ساحل کی ریت میں دبےہوئے پستولوں چاقوؤں اور سونے کے سکوں سے ہوتی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ شراب پیتے تھے اور اسی بدمستی میں ایک دوسرے کو قتل کر دیتے تھے۔
ٹانی ڈوگن نے سب سے پہلے اپنے ساتھیوں کو شاہ بلوط کے ایک غیر معمولی درخت کی طرف متوجہ کیا جس کی شاخوں سے لمبے لمبے رسے لٹک رہے تھے۔ یہ رسے زمین میں گڑھے ہوئے تھے۔ ایسا دکھائی دیتا تھا کہ کوئی چیز ان رسوں کی مدد سے کنوئیں میں لٹکائی گئی ہے جسے بعد میں احتیاط سے بند کر دیا گیا ہے۔
جزیرے کے یہ تینوں مسافر کئی سالوں تک دن رات اس کنوئیں کو کھودنے میں مصروف رہے۔ ان کا خیال تھا کہ بحری لٹیروں نے یہاں پر اپنی دولت چھپا رکھی ہے۔ جب اتنی تگ و دو کے بعد بھی وہ خزانے کو نہ پا سکے تو انہوں نے ڈاکٹر جان لنڈز کو صورتحال سے آگاہ کیا۔ چنانچہ اس نے کنوئیں کا معائنہ کیا اسے پنتیس فٹ کی گہرائی میں ناریل کے ریشوں کی ایک موٹی تہہ دکھائی دی۔ چنانچہ اسے یقین ہو گیا کہ اس کنوئیں میں کوئی نہ کوئی دفینہ ضرور موجود ہے۔
اس نے اپنے طور پر اس کنوئیں کی مزید کھدائی شروع کر دی جب ڈاکٹر جان لنڈز کے مزدوروں نےکنوئیں کومزید دس فٹ تک کھودا تو انہیں شاہ بلوط کی لکڑی سے بنی ہوئی تختوں کی ایک موٹی تہہ تہہ ملی جس کے نیچے ناریل کے ریشوں سے بنی ہوئی ایک اور تہہ ملی۔ اس سے اندازہ لگایا گیا کہ کنوئیں کی یہ بھرت دو ہزار میل دور ویسٹ انڈیز سے لائی گئی تھی۔ آٹھ فٹ کی مزید گہرائی پر ایک چپٹا پتھر ملا جس پر آڑھی ترچھی لکیریں تھیں۔ ابھی تک خزانے کی بازیابی کے کوئی آثار باقی نہیں تھے۔ ڈاکٹر لنڈز کا سرمایا بھی ختم ہونے کو تھا۔ چنانچہ آخری تدبیر کے طور پر اس نے ایک برما خریدا۔ جس کے استعمال سے کنواں ایک سو فٹ کی گہرائی تک پہنچ گیا۔ آخر کار برما پھوٹک پلستر اور سخت لکڑی سے راستہ بناتا ہوا ایک ایسی جگہ سے گزرا جہاں پر خالی کمرے کا گمان ہوتا تھا۔ مزید سوراخ کرنے پر نیچے سے پانی نکلا۔
یہ پانی کنوئیں میں آہستہ آہستہ چڑھنے لگا اس پانی کی سطح پر سونے کے چند ٹکڑے اور کاغذ کے پرزے ملے۔ یہ دیکھ کر جان لنڈز بہت خوش ہوا اور اس نے برمے کی مدد سے کنوئیں کی مزید کھدائی شروع کر دی۔ اس مرتبہ کنوئیں میں پانی اس قدر تیزی سے داخل ہوا کہ تین مزدور اس پانی میں ڈوب کر ہلاک ہو گئے۔
ڈکٹر لنڈز کا دیوالیہ نکل گیا تھا۔ تاہم نو سال کی پیہم کوششوں سے صرف اتنا پتہ چل سکا کہ کنوئیں میں سونا موجود ہے۔
برقی آلات سے یہ بات ثابت تو ہو گئی کہ کنوئیں میں سونا موجود ہے لیکن پانی نے خزانے تک پہنچنے کی ہر کوشش میں رکاوٹ کھڑی کر دی۔ یہ پان حیرت انگیز کاری گری سے بنی ہوئی زمین دوز سرنگوں کے ذریعے آتا تھا۔
خیال کیا جاتا ہےکہ یہ سونا اسی کنوئیں میں پڑا رہے گا کیونکہ 1957 میں امریکہ کے انجینئروں نے پوری تحقیق اور تفتیش کے بعد یہ بیان دیا تھا۔“کنوئیں میں بے شک ہزاروں ٹن خالص سونا موجود ہے لیکن یہ خزانہ کبھی حاصل نہیں کیا جا سکے گا“۔
شازل
مشاق
مشاق
Posts: 4490
Joined: Sun Apr 12, 2009 8:48 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: عجیب و غریب اور پر اسرار

Post by شازل »

بہت خوب
پراسرار واقعات جن کی توجہیہ سائنس پیش نہیں‌کرسکتی لیکن وہ دلوں میں بستے ہیں
رضی الدین قاضی
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 13369
Joined: Sat Mar 08, 2008 8:36 pm
جنس:: مرد
Location: نیو ممبئی (انڈیا)

Re: عجیب و غریب اور پر اسرار

Post by رضی الدین قاضی »

بہت خوب جناب علی عمران صاحب !
دنیا میں کئی پراسرار واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ ان میں سے کئی واقعات کو سائینس بھی نہیں سمجھ پاتی ہے۔
اسی لیئے وہ پر اسرار کہلاتے ہیں۔
:twisted: :twisted: :twisted: :twisted: :twisted: :twisted:
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: عجیب و غریب اور پر اسرار

Post by چاند بابو »

اسلام علیکم

علی عمران بہت بہت شکریہ دو عدد پراسرار واقعات شئیر کرنے کا۔
آپ کا طرزِ بیان کچھ ایسا ہی ہے پڑھنے والا ان مناظر میں کھو جاتا ہے واقعی آپ میں کمال کی واقعہ نویسی کا فن موجود ہے۔
باقی ان واقعات کے متعلق تھوڑا سا میں نے کوشش کی تھی کہ ان کی سچائی کے بارے میں جان سکوں تو پہلے واقعے کا تو میں باوجود کوشش کے کوئی سراغ نہیں پا سکا ایسا لگتا ہے جیسے لوگ غائب ہوئے تھے اسی طرح اس واقعہ کے متعلق انٹرنیٹ سے ہر قسم کی تحریر بھی مٹ گئی ہے۔ بہرحال چونکہ یہ واقعہ 1930 کا ہے اور ممکن ہے کہ اسکیمو کے شہر کو کوئی زیادہ اہمیت نہ دی گئی ہو اور بات آئی گئی ہو گئی ہو جیسا کہ پاکستان میں ہزاروں افراد اچانک لاپتہ ہو گئے لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔
دوسری طرف یہ بات بھی خارج از امکان نہیں کہ وہ افراد کسی سپر پاور کی بربریت کا نشانہ بن گئے ہوں شاید کسی تجربہ کی خاطر ہی۔

دوسرا واقعہ جو آپ نے اوسکا آئی لینڈ کے بارے میں بیان کیا ہے اس کے بارے میں انٹرنیٹ پر کافی مواد موجود ہے
‌‌The Treasure of Oak Island's Money Pit
لیکن مزے والی بات یہ ہے کہ یہ آئی لینڈ محض سیر و تفریح کے لئے ہے اور یہاں موجود سرنگوں کے ایک لمبے اور لامتناہی سلسلے کی وجہ سے یہاں شوقیہ خزانہ تلاش کرنے والے ہر سال ہزاروں کی تعداد میں ادھر رجوع کرتے ہیں لیکن ابھی تک کسی کو بھی کامیابی حاصل نہیں ہو سکی ہے۔
جو کہانی آپ نے بیان کی ہے وہ مجھے باوجود کوشش کے نہیں مل سکی ہے۔البتہ یہ ایک ویڈیو مجھے ملی ہے جس میں وہاں ایک کنویں پر کچھ اسی طرح کے آلات کم کرتے نظر آتے ہیں جیسے آپ کی کہانی میں بیان کیئے گئے ہیں۔

http://www.youtube.com/watch?v=oAa46S8cpLM

http://www.youtube.com/watch?v=sYzaF1XoZs4

بہرحال کچھ بھی ہو یہ بات اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ اب تک بے شمار ایسے واقعات ہو چکے ہیں سائنس جن کی توضیح پیش کرنے سے قاصر ہے۔
کبھی چاند کے ٹکڑے ہونے کی صورت میں تو کبھی چاہ آب زم زم کی وسعتِ ضرف کی صورت میں، کبھی انگلیوں سے پانی نکلنے کی صورت میں تو کبھی ایک ہی رات میں عالمِ بالہ کے سفر کی صورت میں


‌‌حٰم
2. اس کتاب کا اُتارا جانا خدائے غالب (اور) دانا (کی طرف) سے ہے
3. بےشک آسمانوں اور زمین میں ایمان والوں کے لئے (خدا کی قدرت کی) نشانیاں ہیں
4. اور تمہاری پیدائش میں بھی۔ اور جانوروں میں بھی جن کو وہ پھیلاتا ہے یقین کرنے والوں کے لئے نشانیاں ہیں
5. اور رات اور دن کے آگے پیچھے آنے جانے میں اور وہ جو خدا نے آسمان سے (ذریعہٴ) رزق نازل فرمایا پھر اس سے زمین کو اس کے مرجانے کے بعد زندہ کیا اس میں اور ہواؤں کے بدلنے میں عقل والوں کے لئے نشانیاں ہیں ( سورة الجاثية)
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
شازل
مشاق
مشاق
Posts: 4490
Joined: Sun Apr 12, 2009 8:48 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: عجیب و غریب اور پر اسرار

Post by شازل »

بہت خوب چاند بھائی
آپ نے تو خوب تحقیق کرڈالی
ماشاء اللہ
علی عمران
کارکن
کارکن
Posts: 13
Joined: Wed Aug 19, 2009 6:22 pm

Re: عجیب و غریب اور پر اسرار

Post by علی عمران »

پسند کرنے کا بہت بہت شکریہ۔۔۔۔

واہ چاند بھائی آپ نے تو کمال کر دیا۔ یقین جانیں کوئی اتنی محنت نہیں کرتا۔
جہاں تک بات ہے پہلے واقعے کی تو یہ ماؤنٹینڈ پولیس کی پرانی کرائم بکس سے لیا گیا ہے۔ اور یہ بکس انٹر نیٹ پر شائع نہیں ہوتیں ۔ لیکن یہ واقعہ مصدقہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شازل
مشاق
مشاق
Posts: 4490
Joined: Sun Apr 12, 2009 8:48 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: عجیب و غریب اور پر اسرار

Post by شازل »

شکریہ عمران صاحب
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: عجیب و غریب اور پر اسرار

Post by چاند بابو »

علی عمران wrote:پسند کرنے کا بہت بہت شکریہ۔۔۔۔

واہ چاند بھائی آپ نے تو کمال کر دیا۔ یقین جانیں کوئی اتنی محنت نہیں کرتا۔
جہاں تک بات ہے پہلے واقعے کی تو یہ ماؤنٹینڈ پولیس کی پرانی کرائم بکس سے لیا گیا ہے۔ اور یہ بکس انٹر نیٹ پر شائع نہیں ہوتیں ۔ لیکن یہ واقعہ مصدقہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت شکریہ علی عمران صاحب
میرا مقصد آپ کی بات کو جھٹلانا نہیں تھا بلکہ اس میں سے اصل حقیقت کا کھوج لگانا تھا اور حقیقت یہی ہے کہ اگر آپ کہتے ہیں کہ مصدقہ بات ہے تو تصدیق کہاں سے ہو سکتی ہے ہمیں بتایئے۔ :D
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
علی عمران
کارکن
کارکن
Posts: 13
Joined: Wed Aug 19, 2009 6:22 pm

Re: عجیب و غریب اور پر اسرار

Post by علی عمران »

اگر آپ کو تصدیق کرنی ہے تو خود پولیس کے پاس جانا ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اگر وہ ریکارڈ دکھا دیں تو سبحان اللہ۔۔۔۔۔ :P ورنہ اسی پر قناعت کر لیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ :lol:
علی عمران
کارکن
کارکن
Posts: 13
Joined: Wed Aug 19, 2009 6:22 pm

Re: عجیب و غریب اور پر اسرار

Post by علی عمران »

[center]دن کے وقت رات[/center]
تاریخ بتاتی ہے کہ کئی ملکوں اور شہروں میں دن کے وقت اندھیرا چھا گیا۔ یہ کیوں اور کیسے ہوا؟ ماہرین فلکیات کے پیچیدہ حسابات کے مطابق زمین خلاء میں 18 ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گھوم رہی ہے۔ ماہرین کے نظریے کے مطابق خلاء بلکل خالی نہیں ہے بلکہ اس مں زمین کی حرکت اور دیگر تغیرات سے پیدا ہونے والے اربوں چھوٹے چھوٹے غیر شفاف ذرات ادھر ادھر گھوم رہے ہیں۔ اگر یہ یقین کر لیا جائے تو پھر دوپہر کے وقت اندھیرا چھانے کا مظاہرہ کسی حد تک سمجھ میں آ جاتا ہے۔
کائناتی گرد سورج کی روشنی کی راہ میں حائل ہو سکتی ہے جس کی وجہ سے روشنی زمین تک نہیں پہنچ پاتی نتیجتآ سورج کی روشنی دھندلی اور نمایاں طور پر کم ہو جاتی ہے۔ یہ غیر معمولی مظاہرہ کسی وقت بھی ظہور پذیر ہو سکتا ہے۔ ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ جب کبھی بھی عین دوپہر کے وقت اندھیرا چھایا وہ دن بادلوں سے مبرا تھا اور اس دن سورج گرہن کا بھی کوئی امکان نہ تھا۔
26 اپریل 1884 کو پیرسٹن(انگلینڈ) میں دوپہر 12 بجے کے قریب ڈرامائی طور پر اندھیرا چھا گیا۔ آسمان بلکل سیاہ ہو گیا تھا ایسا لگتا تھا متفائے بسیط پر کوئی بڑا سا سیاہ پردہ تان دیا گیا ہو۔ شہر کے لوگ پریشانی میں ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ جانور آرام کے لئے اپنی اپنی پناہ گاہوں کی طرف چلے گئے۔ عبادت گزار لوگ سجدے میں جھک گئے۔ اور پھر اندھیرا اسی تیزی سے چھٹ گیا جس تیزی سے چھایا تھا سورج کی روشنی دوبارہ زمین پر پڑنے لگی۔ اگرچہ اس مظاہرے کی کئی تعبیریں کی گئیں لیکن عوام کسی سے بھی مطمئن نہ ہو سکی۔ 12 اپریل 1889 کو اٹیکس(فرنی سوٹا)کے شہریوں کو بھی اسی طرح کی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ بھی اس کی تشریح نہ کر سکے۔
19 اگست 1763 کی صبح لندن بھی تاریکی میں ڈوب گیا۔ اس مرتبہ اندھیرا اتنا گہرا تھا کہ لوگوں نے لالٹینیں اور موم بتیاں روشن کر لیں۔ ماہرین فلکیات کے زائچوں کے مطابق اس روز سورج گرہن کا کوئی امکان نہیں تھا۔
19 مارچ 1886 کو اوشکائیش میں بھی ایسا ہی ہوا۔ دن کے 3 بجے نامعلوم وجوہ کی بنیاد پر سارا شہر تاریکی میں ڈوب گیا۔ یہ صورت تقریبآ 10 منٹ تک رہی۔ اس دوران آسمان پر سیاہی مائل دھبہ ہوا کے دوش پر مغرب سے مشرق کی طرف اڑتا ہوا دکھائی دیا۔ جب شہر میں سورج کی روشنی عود کر آئی تو پتہ چلا کہ مغرب کے شہروں کو بھی اسی قسم کی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
4 دسمبر 1904 کو ممفس(ٹینسن) کے لوگ معمول ک مطابق اپنا کام کر رہے تھے۔ صبح کے 10 بجے اچانک سورج غائب ہو گیا جس کی وجہ سے مکمل تاریکی چھا گئی۔ یہ تاریکی پندرہ منٹ تک چھائی رہی۔ تاریکی کے یہ 15 منٹ شہر کے لوگوں کے لئے خوف و ہراس کے لمحات تھے۔ شہر کے بعض حصوں میں تو لوگوں نے چیخنا چلانا شروع کر دیا تھا۔ بعض دیندار لوگ تو سجدے میں گر گئے انہیں یقین ہو گیا تھا کہ یہ قربِ قیامت کی نشانی ہے۔ شاید نفسیاتی وجوہ کی بنیاد پر اس قلیل الوقوع لیکن خوفناک مظاہرے کا ذمہ دار جنگل کی آگ ، غیر معمولی بادل اور دور کے ریگستانوں کی دھول کو ٹھہرایا گیا۔یہ تشریح بعض موقعوں پر تو تسلیم کر لی گئی مگر بعض دوسرے موقعوں پر یہ بلکل بیکار ثابت ہوئی۔ نتیجتآ قدرت کے اس پر اسرار مظاہرے کی تشریح متنازع ہی رہی۔
اسی طرح کا ایک واقع 24 ستمبر 1950 میں بھی پیش آیا جب تقریبآ تمام ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں سورج کا رنگ پر اسرار طور پر نیلا پڑ گیا ایسا لگتا تھا جیسے سورج کی روشنی کسی نیلے فلٹر سے چھن کر آ رہی ہے۔
26 ستمبر کو سکاٹ لینڈ اور انگلینڈ میں بھی سورج سبزی مائل نیلا دکھائی دیا۔ ڈنمارک میں یہ صورتِ حال کوئی 2 گھنٹے تک رہی۔ لوگ اس قدر خوفزدہ ہو گئے کہ انہیں یقین ہو گیا کہ قیامت آ گئی ہے چنانچ بنکوں کے سامنے اپنا ریسیونگ اکاونٹس نکلوانے کے لئے لوگوں کی لمبیلمبی قطاریں لگ گئیں۔
عوام کو یہ کہہ کر مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی کہ سورج کی یہ غیر معمولی کیفیت اس دھوئیں کی بدولت ہے جو البرٹا(کینیڈا) کے جنگل میں آگ لگنے کی وجہ سے فضا میں چھا گیا تھا۔ لیکن اس تشریح میں بھی ایک خامی تھی۔
اگر اس پر اسرار مظاہرے کا ذمہ دار دھواں ہی تھا تو وہ ایک ہی وقت میں امریکہ کے مشرقی حصوں کو بھی تاریک کر رہا تھا اور واشنگٹن کی طرف کے مغربی حصے کو بھی۔ یہ انوکھی ہوا تھی جو دھوئیں کو دو مخالف سمتوں میں پھیلا رہی تھی۔
علی عمران
کارکن
کارکن
Posts: 13
Joined: Wed Aug 19, 2009 6:22 pm

Re: عجیب و غریب اور پر اسرار

Post by علی عمران »

[center]کیرو کے کارنامے[/center]
بوڑھے آدمی کی لاش آگ کے سامنے پڑی ہوئی تھی۔ وہ بلا شک و شبہ دم توڑ چکا تھا کمرہ بھی اس کے جسم کی طرح سرد تھا۔ سکاٹ لینڈ یارڈ کے سراغرسانوں کی تفتیش کے مطابق بوڑھے کوغیر متشددانہ طور پر لوہے کی سلاخوں سے ہلاک کیا گیا تھا۔ یہ ہتھیار کس نے استعمال کیا تھا؟ اس کا جواب ان کے پاس نہیں تھا۔ کمرے کی شکستہ حالت سے ہی اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ کسی دولت مند آدمی کی ملکیت نہیں ہے۔ اس لئے ڈاکہ زنی کا بھی کوئی امکان نہیں تھا۔ مقتول جھگڑالو قسم کا انسان بھی نہیں تھا علاوہ ازیں اس کا کوئی جانی دشمن بھی نہیں تھا۔
سکاٹ لینڈ یارڈ کے سراغ رساں واپس جانے کے لئے اپنے کیمرے اور فیتے باندھ رہے تھےکہ دروازے پر ایک خوش پوش جوان نمودار ہوا۔ سراغ رساں اسے اس کمرے میں لے گئے جہاں بوڑھے کی لاش موجود تھی۔ اجنبی نے ادھر ادھر دیکھے کے بعد خواہش ظاہر کی کہ اسے خون آلود ہاتوں کے وہ پرنٹ دکھائے جائیں جو دیوار پر نقش ہو چکے تھے۔ چنانچہ سراغ رسانوں نے اسے وہ پرنٹ دکھائے۔ اجنبی نے ایک پرنٹ کو نفرت آمیز نگاہوں سے دیکھا اور سراغ رسانوں کی طرف مڑتے ہوئے بولا۔ بوڑھے آدمی کا قاتل فرور مور ہے جس کی پینٹ کی بائیں جیب میں سونے کی چھوٹی سی گھڑی بھی ہے۔ اور وہ مقتول کا کوئی قریبی رشتے دار بھی ہے۔ سکاٹ لینڈ یارڈ کے سراغ رسانوں نے ان کا وقت ضائع کرنے پر اس خوش پوش بانکے نوجوان کے کان کھینچنے کا ارادہ کیا۔ لیکن چونکہ وہاں لندن کے اخبارات کے کئی نمائندے موجود تھے اس لئے وہ محض مسکرانے کے اور کچھ نہ کہہ سکے۔
یہ خوش پوش نوجوان کون تھا؟ جس نے دیوار پر خون آلود ہاتھوں کے پرنٹ دیکھ کر ہی قاتل کے متعلق انکشاف کر دیا تھا۔ یہ کیرو تھا۔ مشہور و معروف پامسٹ۔ اس نے بعد میں اپنا کاروباری کارڈ دکھاتے ہوئے اپنا تعارف کروایا۔
کیرو کے انکشافات دوسرے روز اخبارات میں شائع ہوئے اور پھر چوبیس گھنٹوں کے بعد پولیس قاتل کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ قاتل کا نام فرور مور ہی تھا اور وہ بوڑھے آدمی کا بیٹا تھا۔ علاوہ ازیں اس کی پتلون کی جیب سے ایک چھوٹی سی گھڑی بھی برآمد ہوئی جو سونے کی تھی۔
کیرو کا اصلی نام کاؤنٹ لوئیس ہامن تھا۔ وہ شاہراہوں پر دھوپ میں بیٹھ کر اپنے گاہکوں کے ہاتھ دیکھا کرتا تھا۔ اس طرح اس نے کافی رقم جمع کر لی تھی۔ وہ ہر ہفتے اچھی خاصی رقم بنک میں بھی جمع کرواتا تھا۔
صورتِ حال کی نزاکت کے پیشِ نظر 1893 میں کیرو نیویارک چلا گیا جہاں اس نے پارک ایونیو میں اپنا دفتر کھول لیا۔ اسے یہاں بھی بڑی کامیابی ہوئی۔ بے شمار لوگ اس کے پاس ہاتھ دکھانے کی غرض سے آیا کرتے تھے۔ جلد ہی اس کی شہرت کی گونج اخبارات میں بھی سنائی دینے لگی۔
اخبار نیویارک ورلڈ کی ایک خاتون نے پوچھا کہ کیا وہ اپنے فن کے متعلق امتحان دینے کو تیار ہے؟ کیرو کے لئے یہ لمحہ بہت نازک تھا۔ اس نے ایک لمحے کے توقف کے بغیر اس کا یہ چیلنج قبول کر لیا۔
اخبار نیو یارک ورلڈ نے کیرو کے مقابلے کی خبر کو خوب اچھالا۔ امتحان کا دن قریب آ گیا اس دن مرہ امتحان میں کیرو ایک خاموش ترین انسان تھا۔ امتحان میں اسے نیویارک کی 13 مختلف شخصیتوں کے ہاتھوں کے پرنٹ دئیے گئے تاکہ وہ ان کی شناخت کر سکے۔ ان پر بظاہر کوئی نشان نہیں تھا جو شناخت میں ممدو و معاون ثابت ہو سکتا۔
ان پرنٹوں کے بارے میں صرف تین جج صاحبان ہی جانتے تھے۔ اور وہ چپ چاپ منہ لٹکائے ہوئے اس انتظار میں بیٹھے تھے کہ کب کیرو سے غلطی سر زد ہوتی ہے۔ کیرو ایک ایک پرنٹ کو اٹھاتا اور بغیر ہچکچاہٹ سرسری جائزے سے ہی بتا دیتا کہ وہ پرنٹ کس آدمی کے ہیں۔ کیرو تیرھویں اور آخری پرنٹ پر آ کر رک گیا۔ اس نے پرنٹ کو میز پر رکھا اور ججوں سے مخاطب ہوا“ میں اس پرنٹ والے آدمی کا نام نہیں بتاؤں گا“۔
یہ سن کر حاضرین کے چہرے پر گھبراہٹ کے آثار پیدا ہو گئے کہ وہ ہار رہا ہے۔ کیرو نے اپنا ہاتھ اوپر اٹھا کر حاضرین کو خاموش رہنے کی تلقین کی اور بولا میں اس آدمی کا نام اس لئے نہیں بتا رہا کہ وہ ایک قاتل ہے۔ اگر اس کا نام بتا دیا گیا تو وہ جیل میں ہی سخت روحانی کرب میں مبتلا ہو کر مر جائے گا۔ یہ پرنٹ ڈاکٹر ہنری مئیر کا تھا۔ جسے بیک وقت پاگل اور قاتل قرار دے کر جیل میں بند کر دیا گیا تھا۔ اخبارات نے کیرو کی دل کھول کر تعریف کی۔ اس کے ساتھ ہی ساری دنیا میں اس کی شہرت پھیل گئی۔ کیرو نے یورپ کا بھی کامیاب دورہ کیا۔ 1897 میں اس نے پیشن گوئی کی کہ زارِ روس اپنے آخری دن تنگی اور عسرت میں بسر کرے گا۔ علاوہ ازیں اس سے بیوی اور حکومت دونوں چھن جائیں گے۔ کیرو کی یہ پیشن گوئی 1917میں پوری ہوئی 1906 میں وہ اپنے پیشے سے ریٹائر ہو گیا۔
کیرو کو ایک گاہک کی رقم لوٹنے میں بدسلوکی کے جرم میں 13 ماہ قید کی سزا دی گئی۔ 1936 کی ایک صبح کو ہالی وڈ کی سٹرک کے کنارے اس کی لاش پڑی ہوئی ملی۔ وہ ہسپتال جاتے ہوئے فالج کا شکار ہو گیا تھا۔
کیرو کہا کرتا تھا کہ اسے اپنی ‌صلاحیتوں اور پیشن گوئیوں کی صداقت کا کبھی بھی یقین نہیں ہوا۔ آخری عمر میں اس کی یہ صلاحیت جواب دے گئی۔ اس کی حالت ایک ایسے جادوگر کی مانند ہو گئی تھی جو منتر بھول چکا ہو۔
شازل
مشاق
مشاق
Posts: 4490
Joined: Sun Apr 12, 2009 8:48 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: عجیب و غریب اور پر اسرار

Post by شازل »

میں نے [background=yellow]دن کے وقت رات[/background] کی پوسٹ اس وقت پڑھی ہے جوں ہی ٹائم ملتا ہے تو دوسرے واقعات بھی پڑھتا ہوں
آپ نے اچھا سلسلہ شروع کیا ہے
اس جاری رکھیے گا.
کسی زمانے میں اردو ڈائجسٹ اور سیارہ ڈائجسٹ جیسے رسائل کامطالعہ کرتا رہتا تھا اور انہی جیسے واقعات پڑھ لیتے تھے لیکن اب برسوں ان رسائل کو دیکھے ہو ئے انکھیں ترس گئی ہیں.
شکریہ
Post Reply

Return to “روزمرہ سائنس”