چیونٹیوں کا رہن سہن اوراطلاعات کی فراہمی کا طریقہ کار

روزمرہ سائنس کی دنیا میں کیا جدت آ رہی ہے
Post Reply
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

چیونٹیوں کا رہن سہن اوراطلاعات کی فراہمی کا طریقہ کار

Post by چاند بابو »

[center]چیونٹیوں کے رہنے سہنے کا طریقہ کار اور ایک دوسرے کو اطلاعات کی فراہمی [/center]
[center]ایک سائنسی تحقیق[/center]

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے:

وَحُشِرَ لِسُلَیمٰنَ جُنُودُہ مِنَ الجِنِّ وَالاِنسِ وَالطَّیرِفَہُم یُوزَعُونَ حَتّٰی اِذَٓااَتَواعَلٰی وَادِالنَّملِ لا قَالَت نَملَۃٌ یّٰٓاَیُّھَا النَّملُ ادخُلُوا مَسٰکِنَکُم یَحطِمَنَّکُم سُلَیمٰنُ وَجُنُودُہ لا وَہُم لَا یَشعُرُونَ

ترجمہ: ’’ اورسلیمان کے لیے (کسی مہم کے سلسلہ میں )اس کے جنوں،انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کیے گئے اوران کی جماعت بندی کر دی گئی تھی۔ یہاں تک جب وہ چیونٹیوں کی ایک وادی پر پہنچے تو ایک چیونٹی بول اٹھی ،’’چیونٹیو!اپنے اپنے بلوں میں گھس جاؤ۔ایسانہ ہو کہ سلیمان اورا س کے لشکر تمہیں روند ڈالیں اورانہیں پتہ بھی نہ چلے‘‘ النمل ، 17-18

زمانہ قدیم میں بعض لوگ قرآن مجید میں بیان کردہ اس طر ح کی باتوں کا ٹھٹھہ اڑاتے تھے کہ اس میں عجیب طرح کے قصے کہانیاں ہیں کہ جن کے متعلق انسان تصور بھی نہیں کر سکتا کہ یہ سچی ہوں گی مثال کے طور پر اسی آیت کو ہی لے لیں کہ جس میں بتایا گیا ہے کہ چیونٹیاں نہ صرف باتیں کرتی ہیں بلکہ ایک دوسرے کو اطلاعات بھی بہم پہنچاتی ہیں۔تاہم جدید تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ حشرات اور جانوروں میں سے چیونٹیوں کا رہن سہن انسان کے طرز زندگی کے ساتھ سب سے زیادہ مشابہت رکھتا ہے۔ جدید تحقیق کے نتیجے میں درج ذیل باتیں چیونٹیوں کے متعلق سامنے آئی ہیں۔
حشرات میں سب سے زیادہ معاشرت پسند چیونٹی ہے۔یہ انتہائی منظم معاشروں میں زندگی گزارتی ہے جنہیں بستیاں کہتے ہیں۔ان کا نظم وضبط اس درجہ کا ہے کہ تہذیب ِانسانی کے متماثل تہذیب کی دعویدارہو سکتی ہیں۔بچوں کی دیکھ بھال اور بستی کی حفاظت کرتی ہیں۔خوراک پیدا کرتی اورسنبھالتی ہیں اور پھر باقی سب کاموں کے ساتھ ساتھ جنگ سے بھی دو چار ہوتی اورکرتی ہیں۔ ایسی بستیاں بھی ہیں جہاں خیاطی،کاشتکاری اورمویشی پروری جیسے کام ہوتے ہیں۔ان کے مابین باہمی ابلاغ کانہایت موثر نظام موجود ہے۔ معاشرتی تنظیم ،تخصیص ِکار اورتقسیم کار کے حوالے سے کوئی دوسراجاندار ان کامقابلہ نہیں کرسکتا۔
ہوسکتاہے بظاہر سب چیونٹیاں ایک سی نظرآئیں لیکن طرزِزندگی اورجسمانی تنوع کے اعتبار سے انہیں مختلف ذیلی انواع میں تقسیم کیاجاتاہے۔ چیونٹیوں کی تقریباً 12000مختلف انواع ہیں۔ان کی بستی زیادہ تر مادہ چیونٹیوں پر مشتمل ہوتی ہے۔نر چیونٹیوں کی زندگی مختصر ہوتی ہے۔ ان کا کام صرف بالغ ہونے پر ملکہ کے ساتھ ملاپ کرناہے۔ تمام کارکن چیونٹیاں مادہ ہوتی ہیں۔ یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ثابت ہو گا کہ ان میں قربانی دینے کی صلاحیت ہم انسانوں سے کہیں زیادہ ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ان میں امیر غریب کی جنگ یا درجہ ومرتبہ کے حصول جیسی کوئی چیز نہیں جو انسانی معاشروں کا خاصا ہے۔ بہت سے سائنس دانوں نے ان کے سماجی روّیے پر برسوں تحقیق کی ہے لیکن ان کا ترقی یافتہ معاشرتی رویہ ان پر کھل نہیں سکا۔ واشنگٹن کے کارنیگی انسٹیٹیوٹ کے صدر ڈاکٹر کیریل پی ہیکسن نے برملا اعتراف کیا ہے کہ :
’’ساٹھ برس سے جاری تحقیق وتدقیق کے بعد بھی میں چیونٹیوں کے مفصل سماجی رویے کو بچشم حیرت دیکھ رہا ہوں۔ انہوں نے بو اور اعضا کی زبان کا ایک پیچیدہ نظام وضع کر رکھا ہے جو انہیں مکمل ابلاغ فراہم کرتاہے۔ چیونٹیاں حیوانی رویے کی ذیل میں ہمیں ایک اچھا رہنما خاکہ فراہم کرتی ہیں۔‘‘
ان کی کچھ بستیاں رقبے اورآبادی میں اتنی بڑی ہوتی ہیں کہ ان کی وضاحت کے لیے انہیں ایک بڑی ریاست مان کر کام کاآغاز کرناپڑتاہے۔ اس لیے ڈاکٹر پی ہیکسن کے نتائج سے اتفاق کرناپڑتاہے۔ بڑی بسیتوں کی ایک مثال افریقہ کے ایشی کاری ساحل پر ’’فارمیکا‘‘چیونٹی کی آبادیاں ہیں۔ ان میں سے ایک بستی کوئی 2.7مربع کلومیٹر پر محیط ہے جس میں کوئی 45,000گھروندے ہیں جو باہم منسلک ہیں۔
اس بستی میں 10لاکھ 80ہزار’’ ملکائیں ‘‘اور 30کروڑ0لاکھ کارکن چیونٹیاں ہیں۔ ایسی بسیتوں کو سپرکالونی (Super Colony)کانام دیاجاتا ہے۔ بستی کے اندر خوراک اور پیداواری آلات کے لین دین کا ایک منظم طریقہ رائج ہے۔ چیونٹیوں کی اتنے بڑے علاقے میں نظم وضبط برقرار رکھنے میں کامیابی ناقابلِ فہم ہے۔ ان کی بستی میں پولیس یا محافظوں کی ضرورت کبھی محسوس نہیں ہوتی۔ ملکہ کا فرض صرف نسل کی بقاہے ‘وہ بستی کی سربراہ ہیں۔ان کے ہا ں گورنر ہوتا ہے نہ رہنما۔ا س لیے ان کے ہاں درجہ بدرجہ اوپر سے نیچے چلنے والا کوئی سلسلہ احکام بھی نہیں۔
آئیے ہم چیونٹیوں کی بستی کے نظام کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔فرض کریں کہ آپ ایک بہت ہی بڑے اورمکمل نظم وضبط کے حامل فوجی ہیڈکوارٹر پر پہنچتے ہیں۔یوں لگتاہے کہ آپ اس میں داخل نہیں ہوسکیں گے کیونکہ گیٹ پر متعین گارڈکسی ایسے شخص کو اندر نہیں جانے دیتے جسے وہ جانتے نہیں۔ ا س عمارت کی حفاظت ایک ایسے حفاظتی نظام کے تحت کی جاتی ہے جس کی سختی سے جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔
اب فرض کریں کہ اچانک آپ کو اندرجانے کا راستہ مل جاتاہے۔ اندرون خانہ جاری کئی متحرک اورمنضبط سرگرمیاں آپ کو متوجہ کرلیتی ہیں۔ہزاروں سپاہی ایک لگے بندھے نظام میں اپناکام کررہے ہیں۔ جب آپ اس تنظیم کا رازجاننے کی کوشش کرتے ہیں توآپ کو پتہ چلتاہے کہ عمارت بنائی ہی اس طرح گئی ہے کہ اس کے باشندے آرام دہ ماحول میں کام کرسکیں۔ہر کام کے لیے علیحدہ شعبہ ہے جس کا ڈیزائن ،سہولت کار کو مدنظر رکھ کر تیار کیا گیاہے۔مثلاً عمارت اگرچہ زیر زمین تہہ خانوں اورکئی منزلوں پر مشتمل ہے لیکن سورج کی روشنی کی ضرورت ہے اس منزل کا محل وقوع ایسا ہے کہ زیادہ سے زیادہ روشنی اندر داخل ہو سکتی ہے اورجن شعبوں کو ایک دوسرے سے مسلسل واسطہ رہتاہے ایک دوسرے کے قریب بنائے گئے ہیں اوررسائی کو زیادہ سے زیادہ آسان بنایا گیا ہے۔ زاید از ضرورت سامان رکھنے کا شعبہ عمارت میں ایک طرف علیحدہ تعمیر کیا گیا ہے جہاں پر عام ضرورت کا سامان رکھا گیا ہے۔ اس کا محل وقوع ایسا ہے کہ ہر کسی کی رسائی آسانی سے ہو۔
ہیڈ کوارٹر کے خدوخال یہیں تک محدودنہیں ہیں۔ تمام تر وسعت کے باوجودعمارت کو یکساں طورپر گرم رکھاگیا ہے۔ بہت ترقی یافتہ مرکزی حرارتی مرکز کی وجہ سے عمارت کو تمام دن کسی بھی مطلوبہ درجہ حرارت پررکھاجاسکتاہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ساری عمارت کو بیرونی موسمی حالات ، چاہے وہ کتنے شدید ہوں،سے بچانے کے لیے حاجز دیواروں کے اندر بنایا گیا ہے۔
جب چیونٹیوں کے سب سے بڑے دشمن حملہ آور ہوتے ہیں تو لڑاکا چیونٹیاں پشت کے بل الٹی لیٹ کر بستی کے سوراخوں سے اوپر پرندوں کی طرف تیزاب فائر کرتی ہیں۔جنوبی رخ کی جانب گرین ہاؤس نامی خانے میں ملکہ چیونٹی کے انڈے رکھے جاتے ہیں۔اس خانہ کادرجہ حرارت 38سینٹی گریڈ رکھاجاتاہے۔ مرکزی دروازے اوربغلی دروازوں پر چوکیدار چیونٹیاں متعین ہوتی ہیں۔ خطرے کی صورت میں یہ اپنے سر سوراخوں میں پھنسا کر دروازے بندکردیتی ہیں۔ بستی کی رہائشی چیونٹیاں داخل ہوناچاہیں تو اپنے سر پر لگے بال نما انٹینا سے چوکیدار کے سر پر دستک دیتی ہیں اوردروازہ کھل جاتاہے۔ اگرانہیں اپنی اس دستک کا طریقہ بھول جائے توچوکیدار انہیں وہیں ہلاک کردیتاہے۔ اس میں ایک مردہ خانہ بھی ہو تاہے جس میں چیونٹیاں اناج کے دانوں کے غیر استعمال شدہ خول اورمردہ چیونٹیوں کے جسم رکھتی ہیں۔ محافظوں کے کمرے میں سپاہی چیونٹیاں 24گھنٹے تیاررہتی ہیں۔خطرے کا معمولی سااشارہ بھی ملے توفوراً جوابی عمل کرتی ہیں۔
عمارت کی بیرونی دیوار گھاس پھونس اورچھوٹی چھوٹی ٹہنیوں سے بنائی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے بیرونی موسمی اثرات جیسے گرمی اورسردی وغیرہ عمارت کے اندرونی ماحول پر اثر انداز نہیں ہوتے۔ بچوں کی پرورش کے خانہ پر متعین چیونٹیاں ایک سفید میٹھی رطوبت پیداکرکے جسم میں جمع رکھتی ہیں۔بوقت ضرورت پیٹ کو اپنے انٹینا سے چھید کر بچوں کو کھلاتی ہیں۔ گوشت کا ذخیرہ جمع کرنے کے خانہ میں مکھیاں ،جھینگر ،دشمن چیونٹی اوردوسرے حشرات کو ہلاک کرنے کے بعد اس خانے میں رکھاجاتاہے۔ اناج خانے میں چیونٹیاں اناج کے بڑے ٹکڑوں کو کتر کر چھوٹے چھوٹے ذرات میں تبدیل کرتی ہیں۔ یہ موسم سرما میں بطور ڈبل روٹی استعمال ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ ایک شاہی کمرہ ہوتاہے جسں میں ملکہ انڈے دیتی ہے۔ اسے کھلانے اورصفائی کے ذمہ دار کارکن اسی جگہ ملکہ کے ساتھ قیام کرتے ہیں۔
اس صدی میں کی گئی تحقیقات سے پتہ چلتاہے کہ اس مخلوق میں ذرائع ابلاغ کا ناقابل یقین سلسلہ پایا جاتاہے۔ ’’نیشنل جیوگرافک ‘‘کی ایک اشاعت میں اسے یوں بیان کیا گیا ہے۔ ’’ہر چیونٹی ، بڑی ہو یا چھوٹی ‘کے دماغ میں حسی اعضا کا ایک نظام ہوتا ہے جوکئی ملین کے حساب سے کیمیائی اوربصری پیغام وصول کرتااورسمجھتاہے۔ اس کا دماغ پانچ لاکھ اعصابی خلیوں سے مل کر بناہے۔ اس کی آنکھیں بھی ایک سے زیادہ عدسوں سے مل کربنی ہیں۔سرسے نکلے ہوئے بال یعنی انٹینا وہی کام کرتے ہیں جو انسانی انگلیوں کی پوریں اورناک کرتی ہے۔ منہ کے نیچے دہانہ کے اندر کے ابھار ذائقہ محسوس کرتے ہیں۔اس کے بال کسی چیز کے ساتھ مس کرکے اسے پہچانتے ہیں‘‘۔
انہی حسی اعضا کی مدد سے چیونٹی کا بے مثال سلسلہ ابلاغ کام کرتاہے۔ و ہ ساری زندگی اس سے کام لیتی ہے۔ شکار کی تلاش اورتعاقب ،ساتھی کارکنوں سے رابطہ، بستی کی تعمیر اورحفاظت غرض یہ کہ ہر شعبہ ٔحیات میں انہی اعضا سے مدد لی جاتی ہے۔ ہم انسانوں کو حیران کردینے والا پانچ لاکھ اعصاب پر مشتمل یہ جال دو سے تین ملی میٹر کے جسم میں بنایاگیاہے۔ذہن میں رہے کہ پانچ لاکھ خلیوں پر مشتمل یہ نظام ایسی چیونٹی کے اندر موجود ہے جو انسانی جسم کا صرف دس لاکھواں حصہ ہے۔
چیونٹیوں کے مابین پیغام رسانی کیمیائی مادوں کے ذریعے ہوتی ہے۔ باہمی ابلاغ کے لیے جو کیمیائی مادے چیونٹیاں استعمال کرتی ہیں ان کا اجتماعی نام (Semio Chemical)ہے۔ ان کیمیائی مادوں کو دوبڑی قسموں میں تقسیم کیاجاتاہے۔فیرومونPheromones)اور ایلومونز (Allomones)۔
جب مختلف انواع کے درمیان پیغام رسانی کی ضرورت ہو تو ایلومون استعمال کیا جاتاہے۔ لیکن ایک نوع سے تعلق رکھنے والی چیونٹیاں آپس میں پیغام رسانی کے لیے فیرومون استعمال کرتی ہیں اوریہی سب سے زیادہ استعمال ہونے والا خامرہ یعنی ہارمون ہے۔ یہ خامرہ ان کے جسموں میں موجود بے نالی غدود (Endocrine Gland)بناتے ہیں۔ایک چیونٹی اسے خارج کرتی ہے تودوسری چیونٹیاں اسے سونگھ کر یا چکھ کر پیغام سمجھ جاتی ہیںاوراس کے مطابق ردعمل دیتی ہیں۔
چیونٹیا ں بستی میں نظم وضبط کے لیے ہدایات لینے اور دینے کے لیے ایک دوسرے کو انٹینا سے مس کرتی ہیں۔اس لیے کہا جاسکتاہے کہ ان کے مابین ایک انٹینا زبان بھی موجودہے۔ لیکن اس زبان کا استعمال محدود ہے۔ اسے کھانایا میٹنگ وغیرہ شروع ہونے کی اطلاع یا شرکت کے لیے استعمال کیا جاتاہے۔ یہ زبان زیادہ ترایک نوع کی چیونٹیاں اور ان میں سے بھی زیادہ تر کارکن استعمال کرتی ہیں۔
چیونٹیوں کی کچھ انواع دعوت دینے کے اس طریقے سے زیادہ کام لیتی ہیں۔ اس کی مثال (Bypo Ponera)نوع ہے۔ اس نسل کے دو کارکن آمنے سامنے آتے ہیں تو مدعو کرنے والی چیونٹی اپنا سر نوے درجے کے زاویے پر ایک طرف موڑ لیتی ہے اور اپنی دوست کے سر کے بالائی اورزیریں حصے کو اپنے انٹینے سے چھوتی ہے ،جسے دعوت دی جارہی ہے۔ وہ بھی یہی عمل دہراتی ہے۔ لیکن جب ایک گھروندے کی چیونٹیاں اس طرح مس کرتی ہیں تومقصد اطلاع دینا نہیں بلکہ دوسرے کے خارج کردہ ہارمون حاصل کرکے اطلاع لیناہو تا ہے۔ ایک چیونٹی دوسرے کے ہارمون لے لیتی ہے اورآگے بڑھ جاتی ہے۔ اب وہ اس قابل ہے کہ اس کے راستے کو سونگھ کر پہچانتی اوراس پرچلتی ہے۔ا س طرز ابلاغ کی ایک دلچسپ مثال اس وقت سامنے آتی ہے جب مس کیے جانے پر ایک چیونٹی اپنے جسم میں محفوظ شدہ خوراک نکا ل کر مس کرنے والی چیونٹی کو کھلاتی ہے۔
چیونٹیاں بذریعہ آواز بھی پیغام رسانی کرتی ہیں۔ان میں دو طرح کی آوازیں دو مختلف طریقوں سے پید اکی جاتی ہیں۔ایک آواز تھپتھپاہٹ نما ہے اوردوسری تیکھی آواز۔ تھپتھپاہٹ نما آواز پید اکرنے کے لیے چیونٹیاں زمین یا کسی اورچیز پر اپنے جسم کے کسی حصے سے دستک دیتی ہیں جبکہ تیز آواز پید اکرنے کے لیے جسم کا کوئی حصہ کسی دوسرے حصے سے رگڑا جاتاہے۔ دستک سے آواز پیدا کرنے کا طریقہ درختوں کے تنوں میں بنی بستیوں میں استعمال ہوتاہے۔
اس کی ایک مثال کارپینٹر چیونٹیاں یابڑھئی چیونٹیاں ہیں۔ جب انہیں یہ پتہ چلتاہے کہ کوئی خطرہ بستی کی طرف بڑھ رہاہے توگویا ڈھو ل پیٹنا شروع کردیتی ہیں۔خطرے کاادراک زمین کے ارتعاش، ہوا کی لہر یا جسمانی لمس سے کیاجاتاہے۔ پیغام دینے والی چیونٹی اپنے سر اورپیٹ کو زمین سے ٹکرانے لگتی ہے اوراس سے پیدا ہونے والا ارتعاش کئی ڈیسی میٹر دورتک محسوس ہوتاہے۔امریکہ کی کارپینٹر چیونٹیاں یابڑھئی چیونٹیاں اپنا سر یا پیٹ لکڑی کے ’’کمروں‘‘کی دیواروں سے ٹکرا کر 20سینٹی میٹر دورتک پیغام بھیج سکتی ہیں۔اگرجسامت کے تناسب سے دیکھا جائے تو چیونٹی کے لیے 20سینٹی میٹرانسانی حساب سے کوئی 60سے 70میٹر تک ہوتاہے۔
ایک اور سائنس دان پروفیسر رابرٹ ہیکلنگ نے بھی چیونٹیوں کے متعلق برسوں تحقیق کے بعد ان کی آوازوں کو ریکار ڈ کیا ہے اور کہا ہے کہ چیونٹیوں کی آواز کی فریکوئنسی ایک چیونٹی سے دوسری چیونٹی تک اور پھر ایک نوع کی چیونٹیوں سے دوسری نوع کی چیونٹیوں کے درمیان بدلتی رہتی ہے ۔ انہوں نے چیونٹیوں کی موقع ومحل کے لحاظ سے مثلا ً نارمل حالات، خطرے کے وقت اور کسی کیڑے پر حملہ کرنے کے دوران بولے جانے والی مختلف آوازوں کو ریکار ڈ کیا ہے(چیونٹیوں کی یہ آوازیں انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں) اور اپنی اس تحقیق کو 2006 ء میں شائع ہونے والے میگزین (Journal of Sound and Vibration)میں شائع کیا ہے۔سائنسدانوں کا خیال ہے کہ چیونٹیاں ایک دوسرے تک اپنی آواز پہنچانے کے لیے اپنے انٹینا کا استعمال کرتی ہیں ۔ وہ اپنے اس انٹینے کے ذریعے دوسری چیونٹی کے ارسال کردہ پیغام کو ناصرف کسی بھی جدید ریسیور کی طرح کمزور پہنچنے والے سگنلز کو مضبوظ بناتی ہیں بلکہ ان کو اس حد تک فلٹر بھی کرتی ہیں کہ وہ جان سکیں کہ یہ پیغام کس چیونٹی نے ارسال کیا ہے ۔
ان سارے مشاہدات کا حاصل کیا ہے ؟اس کا جواب سادہ اورایک ہی ہے۔ اگر ان جانوروں کو آگہی نہیں کہ وہ کیا کررہے ہیں تودراصل ا ن کے سارے افعال ہمیں کسی اورا رفع اوراعلیٰ ذہن سے متعارف کروانے کا ذریعہ ہیں۔جس خالق نے چیونٹی کو تخلیق کیا اوراس سے ایسے کام لیے جو بظاہر اس کی استطاعت سے بہت بڑے ہیں تودراصل وہ ان کے ذریعے اپنا وجود اوراپنی تخلیقی عظمت کا اظہار کر رہا ہے۔ چیونٹی دراصل ازلی القا کے تحت کام کررہی ہے اور اس سے جو کچھ سرزد ہورہا ہے دراصل اس کے خالق کی دانش کاعکاس ہے۔علاوہ ازیں جدید تحقیقات نے چیونٹیوں کے درمیان ذرائع ابلاغ کے ترقی یافتہ نیٹ ورک کی موجودگی کا انکشاف کرکے قرآن میں بیان کردہ اس واقعہ کی تصدیق کردی ہے کہ جس کاذکر مندرجہ بالا آیت کریمہ میں کیاگیا ہے ۔جو قرآن کی سچائی کی واضح دلیل ہے ۔


چیونٹیوں کی انٹرنیٹ پر موجود آوازوں کے لنک

[center][mp3]http://home.olemiss.edu/~hickling/alarm.mp3[/mp3]

[mp3]http://home.olemiss.edu/~hickling/allswell.mp3[/mp3]

[mp3]http://home.olemiss.edu/~hickling/attack.mp3[/mp3]

[mp3]http://home.olemiss.edu/~hickling/distress.mp3[/mp3][/center]

طارق اقبال سوہدروی جدہ
موضوع اردومجلس فورم سے اقتباس کیا گیا
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
انصاری آفاق احمد
مشاق
مشاق
Posts: 1263
Joined: Sun Oct 25, 2009 6:48 am
جنس:: مرد
Location: India maharastra nasik malegaon
Contact:

Re: چیونٹیوں کا رہن سہن اوراطلاعات کی فراہمی کا طریقہ کار

Post by انصاری آفاق احمد »

اسلام علیکم
اچھی معلومات کے لئیے جزاک اللہ
یا اللہ تعالٰی بدگمانی سے بد اعمالی سےغیبت سےعافیت کے ساتھ بچا.
Image
رضی الدین قاضی
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 13369
Joined: Sat Mar 08, 2008 8:36 pm
جنس:: مرد
Location: نیو ممبئی (انڈیا)

Re: چیونٹیوں کا رہن سہن اوراطلاعات کی فراہمی کا طریقہ کار

Post by رضی الدین قاضی »

جزاک اللہ
اعجازالحسینی
مدیر
مدیر
Posts: 10960
Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین
Contact:

Re: چیونٹیوں کا رہن سہن اوراطلاعات کی فراہمی کا طریقہ کار

Post by اعجازالحسینی »

بہت خوب چاند بابو
[center]ہوا کے رخ پے چلتا ہے چراغِ آرزو اب تک
دلِ برباد میں اب بھی کسی کی یاد باقی ہے
[/center]

روابط: بلاگ|ویب سائیٹ|سکرائبڈ |ٹویٹر
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: چیونٹیوں کا رہن سہن اوراطلاعات کی فراہمی کا طریقہ کار

Post by چاند بابو »

پسندیدگی کا بہت بہت شکریہ۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Post Reply

Return to “روزمرہ سائنس”