ڈی این اے فنگر پرنٹنگ کیا ہے اور کیسے کی جاتی ہے؟

روزمرہ سائنس کی دنیا میں کیا جدت آ رہی ہے
Post Reply
علی خان
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 2628
Joined: Fri Aug 07, 2009 2:13 pm
جنس:: مرد

ڈی این اے فنگر پرنٹنگ کیا ہے اور کیسے کی جاتی ہے؟

Post by علی خان »

قصور میں زینب اور سات دوسری بچیوں کے قاتل کی گرفتاری ڈی این اے کے ذریعے ممکن ہوئی۔ اس موقعے پر بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں سوال اٹھنا شروع ہو گئے کہ ڈی این اے کے ذریعے کسی شخص کی شناخت کیسے کی جا سکتی ہے؟
ڈی این اے کو سمجھنے کے لیے عام طور پر جو مثال دی جاتی ہے وہ کسی مکان کے بلیو پرنٹ یا نقشے کی ہے جس پر عمل کر جسم کا پورا ڈھانچہ تعمیر کیا جاتا ہے۔ جیسے ہر مکان کا تعمیر کا نقشہ الگ ہوتا ہے، اسی طرح ہر انسان کے جسم کی تعمیر کے لیے الگ الگ نقشے ہوتے ہیں۔
اگر آپ کو کسی مکان کا نقشہ مل جائے تو اس کی مدد سے آپ اس گھر کو پہچان سکتے ہیں۔
جسم تعمیر کرنے اور اس کا نظام چلانے کے لیے ڈی این اے کی ہدایات ایک خاص زبان میں درج ہوتی ہیں۔ اس زبان کے حروفِ تہجی صرف چار ہوتے ہیں اور انھیں عام طور پر رومن حروف A, C, T, G کی شکل میں ظاہر کیا جاتا ہے۔ ایک انسان کا مجموعی ڈی این اے (جسے 'جینوم' کہا جاتا ہے) تین ارب الفاظ پر مشتمل ہوتا ہے۔ڈی این اے کے چار 'حروف' کسی زبان کے حروف کی طرح نہیں، بلکہ دراصل کیمیائی مرکبات ہیں جنھیں A, C, T, G کا نام دے دیا گیا ہے اور یہ جینوم میں ایک مخصوص ترتیب سے بار بار دہرائے جاتے ہیں۔ جس طرح اردو کے الفاظ کو ایک خاص ترتیب میں لکھنے سے ایک کتاب مرتب ہوتی ہے، اس طرح سے ڈی این اے کے ان مرکبات کی مخصوص تکرار سے کسی ایک مخصوص انسان کا جینوم تیار ہو جاتا ہے۔
اگر یہ ساری ہدایات مکمل طور پر لکھی جائیں تو اس سے عام سائز کی تقریباً پانچ ہزار کتابیں بن جائیں گی۔
جیسے کہ پہلے بتایا گیا، ہر انسان کی کتاب مخصوص ہوتی ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے ہر انسان کی انگلیوں کے نشان مخصوص ہوتے ہیں۔
ڈی این اے ٹیسٹنگ میں کیا ٹیسٹ کیا جاتا ہے؟
ڈی این اے کے بنیادی حروف چونکہ کیمیائی مرکبات پر مشتمل ہوتے ہیں، اس لیے لیبارٹری میں کیمیائی طریقوں سے ٹیسٹ کر کے کسی ملزم کو شناخت کیا جاتا ہے۔ اس عمل کو ڈی این اے فنگر پرنٹنگ بھی کہا جاتا ہے۔
اس مقصد کے لیے پہلا مرحلہ تو یہ ہوتا ہے کہ ملزم کے جسم کے کسی بھی حصے کا نمونہ مل جائے۔ یہ نمونہ اس کے بالوں، تھوک، جنسی رطوبت، خون یا جلد کے کسی ٹکڑے سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہ عمل انتہائی احتیاط سے کیا جاتا ہے کہ اسے کسی اور کا ڈی این اے آلودہ نہ کر دے۔ اگر نمونہ حاصل کرنے والے اہلکار کو چھینک بھی آ جائے تو اس کا ڈی این اے ملزم کے ڈی این اے کے ساتھ شامل ہو جائے گا۔
اس کے بعد ڈی این اے کو صاف کیا جاتا ہے، اور اگر اس کی مقدار کم ہے تو اسے پی سی آر کے ذریعے بڑھایا بھی جا سکتا ہے۔
پنجاب فورینسک لیبارٹری کے ایک عہدے دار نے بتایا کہ قصور میں متاثرہ لڑکیوں کے جسم سے ملزم کا ڈی این اے حاصل کرنا آسان نہیں تھا۔ ایک جگہ سے صرف تین سپرم ملے تھے، جب کہ ایک اور لڑکی کے جسم سے صرف تین نینوگرام (ایک گرام کا ایک اربواں حصہ) حاصل ہوا جسے حساس طریقے استعمال کر کے اس قابل بنا دیا گیا کہ اسے ٹیسٹ کیا جا سکے۔
تکرار کی مدد سے شناخت
ڈی این اے کے ان حصوں کو کیمیائی طور پر شناخت کرنا آسان ہوتا ہے جہاں بار بار ایک ہی حرف دہرایا گیا ہو۔ اسے شارٹ ٹینڈم ریپیٹ (STR) کہا جاتا ہے۔ کسی ایک ایس آر ٹی کی مثال کچھ یوں ہو گی:
ATATATATAT
اس مثال میں AT پانچ بار دہرایا گیا ہے۔ ڈی این اے ٹیسٹ کرنے والے آلات اس قسم کی تکرار کو آسانی سے پکڑ لیتے ہیں۔ چوں کہ ہر انسان کا ڈی این اے منفرد ہوتا ہے، اس لیے اس کے اندر پائی جانے والی تکراریں بھی منفرد ہوتی ہے۔ عام طور پر چار حروف کی تکرار زیادہ آسانی سے پکڑی جاتی ہے۔
قصور واقعے کی متاثرہ بچیوں کے جسم سے ملنے والے ڈی این اے کا جب ملزم علی عمران کے ڈی این اے سے تقابل کیا گیا تو معلوم ہوا کہ ان دونوں قسم کے نمونوں میں ایک ہی تکرار پائی جاتی ہے۔
اگر صرف چند تکرار کے نمونے ملتے ہوں تو ایسا اتفاقی طور پر بھی ہو سکتا ہے، لیکن اگر ایک درجن یا اس سے بھی زیادہ بار تکرار ہو بہو ایک جیسی ہو تو ایسے اتفاق کا امکان انتہائی کم ہوتا ہے۔
پولیس کے مطابق علی عمران کے ڈی این اے اور بچیوں کے جسم کے اندر سے ملنے والے ملزم کے ڈی این اے کے درمیان اتفاقی مماثلت کا امکان ایک کے مقابلے پر 178 کواڈریلین ہے۔ یعنی 178 کے بعد 15 صفر، یعنی 178,000,000,000,000,000,000
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر 178 کواڈریلین انسان موجود ہوں، تو ان میں سے دو کے ڈی این اے کے آپس میں ملنے کا امکان ہو سکتا ہے۔ لیکن چونکہ دنیا کی مجموعی آبادی اس رقم کے مقابلے پر دو کروڑ گنا سے بھی کم ہے اس لیے یہ بات پورے اعتماد سے کہی جا سکتی ہے کہ پولیس کو اس کا مطلوب شخص مل گیا ہے۔

سورس: Link
میں آج زد میں ہوں خوش گماں نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں .
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: ڈی این اے فنگر پرنٹنگ کیا ہے اور کیسے کی جاتی ہے؟

Post by چاند بابو »

بہت خوب علی بھیا نہایت شاندار معلومات شیئر کرنے کا بہت بہت شکریہ، میں ابھی کل سوچ ہی رہا تھا کہ اس بارے میں معلومات کہیں سے اکٹھی کروں اور اردونامہ پر دوستوں سے شیئر کروں، اور آج آپ نے میری مشکل آسان کر دی۔
جزاک اللہ
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
محمد شعیب
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 6565
Joined: Thu Jul 15, 2010 7:11 pm
جنس:: مرد
Location: پاکستان
Contact:

Re: ڈی این اے فنگر پرنٹنگ کیا ہے اور کیسے کی جاتی ہے؟

Post by محمد شعیب »

شئرنگ کے لئے بہت بہت شکریہ
نادرا کے ڈیٹا بیس میں بھی ڈی این اے ریکارڈ شامل کیا جانا چاہئیے
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: ڈی این اے فنگر پرنٹنگ کیا ہے اور کیسے کی جاتی ہے؟

Post by چاند بابو »

جب اس کی ڈیٹابیس کو نیشنل ڈیٹابیس قرار دیا جائے گا اور اداروں کا اس تک رسائی دی جائے گی تب یہ بھی شاید ہو جائے کیونکہ دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک میں‌ یہ کام ہو رہا ہے۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Post Reply

Return to “روزمرہ سائنس”