طرحی غزل - سحرِ تعبیر و خواب سے نکلے

اگر آپ شاعر ہیں اور اپنی شاعری ہمیں بھی سنانا پسند کرتے ہیں تو یہاں لکھئے
Post Reply
شاہین فصیح ربانی
کارکن
کارکن
Posts: 13
Joined: Sun Feb 03, 2013 9:51 pm
جنس:: مرد

طرحی غزل - سحرِ تعبیر و خواب سے نکلے

Post by شاہین فصیح ربانی »

طرحی غزل

سحرِ تعبیر و خواب سے نکلے
درد سے، اضطرب سے نکلے

میں نے رکھا نہیں تو پھر کیسے
پھول اس کی کتاب سے نکلے

جو محبت کا درس دیتے تھے
وہ فسانے نصاب سے نکلے

بے خودی کا حصار، کیا کہنے
آگہی کے عذاب سے نکلے

حسرتِ انقلاب میں ڈوبے
خواہشِ انقلاب سے نکلے

عشق اپنی حدوں میں رہتا ہے
حسن اپنے حساب سے نکلے

کچھ ستم گر یہ چاہتے ہیں فصیح
ساری دنیا نہ خواب سے نکلے

شاہین فصیح ربانی
محمد شعیب
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 6565
Joined: Thu Jul 15, 2010 7:11 pm
جنس:: مرد
Location: پاکستان
Contact:

Re: طرحی غزل - سحرِ تعبیر و خواب سے نکلے

Post by محمد شعیب »

میں نے رکھا نہیں تو پھر کیسے
پھول اس کی کتاب سے نکلے
بہت خوب۔
ویسے اس شعر میں ایک تبدیلی سے یہ شعر اور بھی اچھا ہو سکتا ہے۔ وہ یہ کہ "میں نے رکھے نہیں" یعنی "رکھا" کی جگہ "رکھے"۔ کیونکہ شعر کے آخر میں "نکلے" جمع ہے۔ اس لئے "رکھے" بھی جمع ہونا چاہئیے۔
آپ کا کلام بہت ہی پسند آیا۔ شئرنگ کا شکریہ
Post Reply

Return to “آپ کی شاعری”