طرحی غزل
سحرِ تعبیر و خواب سے نکلے
درد سے، اضطرب سے نکلے
میں نے رکھا نہیں تو پھر کیسے
پھول اس کی کتاب سے نکلے
جو محبت کا درس دیتے تھے
وہ فسانے نصاب سے نکلے
بے خودی کا حصار، کیا کہنے
آگہی کے عذاب سے نکلے
حسرتِ انقلاب میں ڈوبے
خواہشِ انقلاب سے نکلے
عشق اپنی حدوں میں رہتا ہے
حسن اپنے حساب سے نکلے
کچھ ستم گر یہ چاہتے ہیں فصیح
ساری دنیا نہ خواب سے نکلے
شاہین فصیح ربانی
سحرِ تعبیر و خواب سے نکلے
درد سے، اضطرب سے نکلے
میں نے رکھا نہیں تو پھر کیسے
پھول اس کی کتاب سے نکلے
جو محبت کا درس دیتے تھے
وہ فسانے نصاب سے نکلے
بے خودی کا حصار، کیا کہنے
آگہی کے عذاب سے نکلے
حسرتِ انقلاب میں ڈوبے
خواہشِ انقلاب سے نکلے
عشق اپنی حدوں میں رہتا ہے
حسن اپنے حساب سے نکلے
کچھ ستم گر یہ چاہتے ہیں فصیح
ساری دنیا نہ خواب سے نکلے
شاہین فصیح ربانی