ڈائنامائٹ کا شہنشاہ

دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ کچھ نیا، کچھ اچھوتا۔
Post Reply
میاں محمد اشفاق
منتظم سوشل میڈیا
منتظم سوشل میڈیا
Posts: 6107
Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: السعودیہ عربیہ
Contact:

ڈائنامائٹ کا شہنشاہ

Post by میاں محمد اشفاق »

اس کی دولت کا کوئی شمار نہ تھا۔ اسے یہ بھی اندازہ نہیں تھا کہ لوگ اس کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں، اسے تو بس اپنے کام سے کام تھا۔ ایک روز اچانک جب وہ بیدار ہوا تو اخبار پر نگاہ پڑتے ہی اس کی سٹی گم ہوگئی۔ اخبار میں اس کی موت کی خبر شائع ہوئی تھی۔ مختصر تعزیتی تبصرہ تیر کی طرح اس کے سینے میں پیوست ہو گیا۔ تبصرہ نگار نے لکھا تھا: "ڈائنامائٹ کا شہنشاہ جس نے اجتماعی موت کے مہلک ہتھیار سے دولت کے انبار اکٹھے کیے تھے، آخر کار موت سے ہمکنار ہوگیا۔ دنیا جہاں کی دولت سانسوں کا تسلسل قائم نہ رکھ سکی اور آخر کار سانس کی ڈوری ٹوٹ گئی۔"

Image

اخبار اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ اسے اپنے آپ سے نفرت ہونے لگی۔ شدید نفرت نے اسے ضمیر کی عدالت میں لا کھڑا کیا۔ کرسئ انصاف پر وہ خود براجمان تھا اور اپنے خلاف فیصلہ صادر فرما رہا تھا۔

"توگویا ۔۔۔۔ دنیا مجھے تباہی کا شہنشاہ تصور کرتی ہے۔" اس نے زیر لب دہرایا۔ "لیکن میں نے جو شے ایجاد کی ہے، اس کا افادی پہلو کیوں نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ تیز دھار آلے سے مظلوم کا گلا بھی کاٹا جا سکتا ہے اور جاں لیوا عذاب میں مبتلا مریض کا آپریشن بھی کیا جا سکتا ہے۔" اپنے خلاف اس کی جنگ مختصر ثابت ہوئی۔ اس نے زندگی کا سب سے بڑا اور عظیم الشان فیصلہ کر ڈالا۔۔۔۔ اسی وقت قلم سنبھالا اور اپنی وصیت لکھنے لگا: "میں جسے دنیا موت کا سوداگر کہتی اور سمجھتی ہے، اپنی ساری دولت دنیا میں امن و امان قائم کرنے والوں اور انسانی فلاح و بہبود کے علم برداروں کے لیے وقف کرتا ہوں۔"

یہ شخص سویڈن کے ان پڑھ مگر ذہین انجینئر ایمنیوئل نوبل کا بیٹا الفریڈ نوبل تھا جس نے ڈائنا مائٹ جیسی کارآمد اور مہلک شے ایجاد کی۔ دو روز پہلے اس کے خاندان کی مشترکہ فیکٹری میں دھماکا ہوا تھا جس میں اس کا بھائی ہلاک ہوگیا تھا لیکن غلط فہمی کی بنا پر اخبار نے الفریڈ کومردہ قرار دے دیا اور اسی غلط فہمی کے نتیجے میں نوبل انعام کی بنیاد رکھی گئی۔

اس کا باپ ایمنیوئل نوبل بدقسمتی سے مناسب تعلیم حاصل نہ کر سکا لیکن خدا نے اسے بڑا زرخیز ذہن عطا کر رکھا تھا۔ اس کی سوچ افق کے اس پار وہاں تک جاتی تھی جہاں عام آدمی کے ذہن کی پہنچ نا ممکن تھی۔ بعض لوگ اسے خبطی کہتے ہیں لیکن وہ ارادے کا سچا اور دھن کا پکا انسان تھا۔

روزگار کی تلاش میں وہ مصر پہنچا تو مصر کے گورنر محمد علی نے اسے اپنے ہاں ملازم رکھ لیا۔ برطانیہ کے شاہی مہمانوں کی آمد آمد تھی جب گورنر کے ایما پر نوجوان انجینئر نے اپنے فن کا مظاہرہ اس ذہانت سے کیا کہ مہمانوں کا دل جیت لیا۔ اس نے ایسا استقبالی دروازہ بنایا کہ بڑے بڑے معمار اسے دیکھ کر دنگ رہ گئے۔

ایمنیوئل کے زرخیز ذہن میں اس سے بھی بڑے بڑے منصوبے تھے لیکن وسائل کی کمی آڑے آ رہی تھی۔ اچانک اس کے ذہن میں اپنی ملکی فوج کے لیے کام کرنے کی امنگ پیدا ہوئی۔ اس نے ربر کا ہلکا پھلکا تھیلا ایجاد کیا جو فوج کی بہت سی مشکلات آسان کر سکتا تھا۔ لیکن افسوس کہ سویڈن کی فوج بھی قلاش نکلی اور موجد کی ساری منصوبہ بندی دھری کی دھری رہ گئی۔ اس زمانے میں نہر سویز کھودی جا رہی تھی۔ نہر کا کام سست رفتاری سے ہو رہا تھا۔ ایمنیوئل کسی ایسے دھماکا خیر مواد کے متعلق غور کرنے لگا جو کام کی رفتار کو بڑھا سکے۔ اس سے یہ بات بھی ثابت ہو جاتی ہے کہ الفریڈ نوبل کو ڈائنا مائٹ کا تصور ورثے میں ملا تھا۔ اس دور میں کام کی سست رفتاری کا یہ عالم تھا کہ شہنشاہ کلاڈیس نے تین میل لمبی نہر کا منصوبہ بنایا جو گیارہ برس میں مکمل ہوا جبکہ تیس ہزار مزدور کام میں جتے رہتے تھے۔ اس سے پیشتر پانچ میل لمبی پہاڑی سڑک ڈیڑھ صدی میں مکمل ہوئی تھی۔ کان کنی میں تو سست رفتاری کی حد نہیں تھی۔ دنیا کسی ایسے مادے کی تلاش میں تھی جس سے ان مشکلات پر قابو پایا جا سکے لیکن شاید ابھی قدرت انسانوں پر مہربان نہیں ہوئی تھی لہذا وہ سر توڑ کوشش کرنے کے باوجود کامیاب نہیں ہو رہے تھے۔ ایمنیوئل کے سر میں موجد کا دماغ تھا جو ہر پل بے چین رہتا۔ ایک روز وہ اپنے مکان کے پچھواڑے میں دھماکا خیز مواد پر تجربہ کر رہا تھا کہ اچانک کان پھاڑ دینے والا دھماکا ہوا جو اتنا شدید تھا کہ قریبی مکانوں کی کھڑکیوں کے شیشے چکنا چور ہوگئے۔ حکومت نے لوگوں کی شکایات پر موجد کے خلاف سخت کارروائی کی اور دھماکا خیز مواد سے "چھیڑ چھاڑ" پر پابندی لگا دی۔ ایمنیوئل اپنے ہم وطنوں کی کم ظرفی پر خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا اور آخر ایک روز اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر روس کی طرف ہجرت کرگیا۔ الفریڈ نوبل اس وقت صرف چار برس کا ہمیشہ بیمار رہنے والا کمزور سا بچہ تھا۔

الفریڈ کی ذہانت سکول کی تعلیم کے دوران میں پہلی بار کھل کر سامنے آئی تو اس کی ماں کیرولین حیرت کے سمندر میں ڈوب گئی۔ رفتہ رفتہ یہ حیرت فخر میں تبدیل ہونے لگی۔ الفریڈ جو بات سنتا، وہ اس کے ذہن میں نقش ہو جاتی۔ حد یہ کہ اس نے کتابوں میں لکھے ہوئے الفاظ نقل کرکے اپنی مہرباں ماں کے سامنے رکھ دیے۔

ایمنیوئل اپنے بیٹوں پر فخر کرتا تھا لیکن چھوٹے لڑکے الفریڈ اور اس کے درمیان رفتہ رفتہ ذہنی رقابت کی دیوار حائل ہونے لگی۔ ایمنیوئل جس الجھن میں ہفتوں گرفتار رہتا، اس کا ذہین بیٹا الفریڈ اسے چٹکیوں میں دور کر دیتا۔

زار روس نپولین کو تباہ کرنے کے بعد طاقت کے بام عروج پر پہنچ چکا تھا۔ لیکن نپولین کا عزیز تخت فرانس پر براجمان ہوا تو سیاسی صورت حال اس قدر کشیدہ ہوگئی کہ روس کو اپنی بندرگاہیں محفوظ کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس طرح ایمنیوئل کی مائنز پھر منظر عام پر آئیں۔ زار روس کی رہائش تک جانے والا دریائی راستہ پانی میں مائنز بچھا کر بند کر دیا گیا۔ یہ مائنز ٹین کے ڈبوں میں گن کا ٹن بھر کر تیار کی جاتی تھیں۔ برطانوی بـحری جہاز پیٹرز برگ تک جانے کی جرات نہ کر سکے۔ ان مائنز کی تباہ کاری اتفاقیہ معلوم ہوئی۔ ایک برطانوی ملاح نے ایک عجیب و غریب ٹین کا ڈبہ پانی میں بہتا ہوا پایا۔ تیرتے ہوئے تباہ کن ڈبوں کی داستان اس نے سن رکھی تھی۔ ڈبے کو بحفاظت نکال کر اپنے کمانڈر کے جہاز پر لے گیا تاکہ ماہرین اس کا معائنہ کر سکیں۔ یہ تباہی کو گھر کے اندر مدعو کرنے والی بات تھی۔ متعدد نگاہوں کے سامنے ڈبے کا معائنہ شروع ہوا۔ ہر نگاہ میں تجسس تھا۔ ایک ماہر نے جرات کرکے ڈبے کوکھولنے کی کوشش کی تو وہ دھماکے سے پھٹ گیا اور وہ وہیں پرمرگیا۔ تماشائی حیران رہ گئے۔ برطانوی نیوی پھر ایسی مرعوب ہوئی کہ روسی ٹھکانوں تک پہنچنے کی جرات نہ کر سکی۔ راتوں رات ایمنیوئل کی فیکٹری کے نصیب جاگ اٹھے۔ مستولوں والی ہر شے کو بھاپ کی طاقت سے چلانے والا منصوبہ سامنے آیا۔ ایمنیوئل کو اس کا کوئی خاص تجربہ نہیں تھا لیکن اب اس کا پڑھا لکھا ہونہار شاگرد اور بیٹا الفریڈ نوبل موجود تھا لہذا اس نے پانچ سو ہارس پاور سے چلنے والے تین جہاز تیار کر دیے۔ اس کے فوراً بعد دو سو ہارس پاور کے پانچ جہاز بھی تیار ہوئے۔ اسی دوران روسی بحری فوج کو جدید جہازوں سے مسلح کرنے کا عظیم منصوبہ زیر عمل آیا۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ روسی نیوی کی جڑیں نوبل خاندان نے مضبوط کیں۔

دن رات کی مشقت نے الفریڈ کی صحت پر برا اثر ڈالا اور وہ بیمار ہوگیا۔ الفریڈ نے واپس اپنے وطن سویڈن جانے کو ترجیح دی۔

نائٹروجن گلیسرین کی دریافت کا سہرا اٹلی کے ایک کیمیا دان کے سر تھا۔ یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب الفریڈ صرف چودہ برس کا تھا۔ اٹلی کے ڈاکٹر اسکانیو نے نائٹرک ایسڈ (شورے کا تیزاب) کو گلیسرین میں ملایا تو گاڑھے تیل جیسی شے حاصل ہوئی جو بے حد دھماکا خیز ثابت ہوئی لیکن خطرناک بات یہ تھی کہ دھماکے کا تعین نہیں کیا جا سکتا تھا۔ گویا یہ ایسی بلا تھی جس کی چابی کا کسی کو علم نہیں تھا اور الفریڈ اس چابی تک پہنچنے کی کوششوں میں ہی مصروف تھا۔

الفریڈ ساری دنیا کے معاملات کو بھول کر اس بلا کو لگام دینے کے متعلق غور کرنے لگا۔ نائٹروجن گلیسرین بالکل ناقابل اعتبار شے تھی اور جس شے کا اعتبار نہ ہو اس سے چھیڑ چھاڑ مہنگی پڑتی ہے۔۔۔۔ پہلے اس نے اس شے کے متعلق دن رات پڑھنا شروع کیا حتی کہ وہ اس کی جزئیات سے واقف ہوگیا۔ پھر اپنے مطالعہ کی روشنی میں وہ قدم قدم آگے بڑھنے لگا۔

صبح اٹھ کر اس نے مکمل تیاری کی۔ پہلے اس نے نائٹروگلیسرین شیشے کی ایک ٹیوب میں ڈالی اور اس ٹیوب کو اچھی طرح بند کر دیا۔ پھر ایک دھات کی ٹیوب میں گن پاؤڈر رکھ کر شیشے کی ٹیوب اس کے اندر ڈال دی۔ اب نائٹرو گلیسرین کا گن پاؤڈر کے اندر ہوتے ہوئے بھی گن پاؤڈر سے براہ راست کوئی تعلق نہیں تھا۔ دھات کی ٹیوب میں اس نے ایک فیتہ لگا دیا اور فیتے کو آگ دکھا کر جب اس نے دریا کے بہتے پانی میں پھینکا تو اس کا دل سینے سے باہر آنے کی کوشش کر رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد کان پھاڑ دینے والا دھماکا ہوا اور اندازے سے کئی گنا زیادہ پانی اچھل کر دریا کے کنارے تک آ گیا۔

اس کا تجربہ کامیاب تھا لیکن اسے یہ خبر نہیں تھی کہ آخری مرحلہ ابھی باقی تھا۔ گویا ایک آنچ کی کسر ابھی بھی رہ گئی تھی۔

اس نے نئے سرے سے ہر شے کا جائزہ لیا اور بات کی تہہ تک پہنچ گیا۔ بات بالکل معمولی تھی لیکن اس کے ذہن میں نہیں آ رہی تھی۔۔۔۔ ہر شے اپنی جگہ پر ٹھیک تھی خامی صرف اس کی تیاری میں تھی۔۔۔۔ وہ نائٹروگلیسرین اور سارے مرکب کو اچھی طرح بند نہیں کر پا رہا تھا۔ اس طرح مرکب کا رشتہ بیرونی مداخلت سے پاک نہیں ہو رہا تھا۔ سادہ الفاظ میں وہ گن پاؤڈر کو اچھی طرح "سیل" نہیں کر پا رہا تھا اور شیشے کی نائٹروگلیسرین سے بھری ٹیوب کو مناسب دھچکا نہیں لگ رہا تھا لہذا وہ پھٹ نہیں پا رہی تھی۔ اس نے دھات کی ٹیوب کے دونوں سرے سیلنگ ویکس (Sealing Wax) سے اچھی طرح بند کر دیے۔ بیرونی ہوا کا رشتہ مکمل منقطع ہوگیا۔ وہ پراعتماد قدموں سے کھڑا ہوگیا اور نتیجے کا انتظار کرنے لگا۔ چند لمحوں کے بعد زبردست دھماکا ہوا۔ اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ رہا۔ اس نے دیو پر قابو پا لیا تھا۔ ایسا دیو جو چٹانوں، پہاڑوں کو روئی کے گالوں کی طرح اڑا سکتا تھا۔ دنیا میں انقلاب برپا ہونے والا تھا۔ اس نے فوراً اپنی ایجاد کو قانونی تحفظ دینے کے لیے سویڈن کی حکومت کو درخواست پیش کی۔ اس کی درخواست منظور ہوگئی۔ پھر فرانس، برطانیہ اور بلجیم کی حکومت نے بھی نائٹروگلیسرین پراڈکٹ کو تسلیم کر لیا۔ قانونی تحفظ مل جانے کے بعد وہ بھاگم بھاگ پیرس پہنچا۔ الفریڈ نے ایک بینک سے رابطہ قائم کیا اور اسے کام کرنے کے لیے کچھ رقم مل گئی۔
Image

عظیم الشان منزل کا راستہ اسے مل گیا تھا لیکن ڈھیر سارا کام ابھی باقی تھا۔ ابھی وہ (Detonation) میں کامیاب ہوا تھا۔ اصل کامیابی یہ تھی کہ قلیل مقدار والے مواد سے زیادہ سے زیادہ سے زیادہ مواد کو تحریک دی جائے اور زیادہ شدت والا دھماکا میسر آ سکے۔ جیسے دیا سلائی کے معمولی شعلے سے سارے جنگل کو آگ لگائی جاتی ہے یا بھس میں چنگاری ڈالی جاتی ہے۔ آگ کے بہت بڑے الاؤ سے صرف ایک درخت کو جلانا تو کوئی کارنامہ تصور نہیں کیا جاتا۔ بعد میں الفریڈ کے اس اصول کو "پرائمری چارج" کا نام دیا گیا اور آج بھی دنیا میں اسی پر عمل کیا جا رہا ہے۔ حد یہ کہ ہائیڈروجن بم تک میں یہی اصول کارفرما ہے۔ گن پاؤڈر کی دریافت سے لے کر آج تک اس میدان میں الفریڈ کا یہ قدم سب سے بڑا تھا۔

ایک روز الفریڈ، سویڈن کے بہت بڑے سرمایہ دار اسمتھ سے مذاکرات کرنے گیا تھا۔ آسکر اور کیمیا دان ایرک تجربات میں مصروف تھے کہ اچانک دھماکے سے تمام درو دیوار لرز اٹھے اور الفریڈ کی تجربہ گاہ شعلوں کی لپیٹ میں آ گئی۔

دیکھتے ہی دیکھتے تجربہ گاہ جل کر راکھ ہوگئی۔ آسکر، ایرک، ملازم اور ایک مسافر چار آدمی سپرد موت ہوئے۔ الفریڈ کو اس المناک حادثے کی خبر ہوئی تو وہ بھاگم بھاگ واپس آیا۔

تحقیق سے پتا چلا کہ سارا قصور تجربہ کرنے والوں کا تھا۔ نائٹروگلیسرین کی صفائی کی جا رہی تھی لیکن درجہ حرارت کا خیال نہ رکھا گیا۔ نائٹرو گلیسرین 180 درجے سنٹی گریڈ پر دھماکے سے پھٹ جاتی ہے۔

قیامت خیز دھماکے کی خبر سارے شہر میں پھیل گئی۔ اس کوتاہی کی پاداش میں سزا بھی ہو سکتی تھی لیکن پولیس نے نائٹروگلیسرین کی تیاری پر پابندی لگانے کے بعد کیس رفع دفع کر دیا۔

ارب پتی اسمتھ دھماکے کی شدت کے پیش نظر مطلوبہ رقم خرچ کرنے پر تیار ہوا تو ہائی ایکسپلوسوز (High Explosives) کمپنی تشکیل دی گئی۔ اس کے ایک سو پچیس حصص تھے۔ تریسٹھ دو سرمایہ کاروں نے خریدے اور باسٹھ الفریڈ کی ملکیت قرار دیے گئے۔ الفریڈ نے نصف شیئرز اپنے باپ کے نام منتقل کر دیے۔ الفریڈ نے ایک وسیع و عریض جھیل کے عین درمیان فیکٹری لگائی اور سویڈن دنیا میں "ہائی ایکسپلوسوز" تیار کرنے والا پہلا ملک بن گیا۔ دولت فراوانی سے آنے لگی اور نوبل خاندان کے وارے نیارے ہو گئے۔

الفریڈ کے کاروبار نے بین الاقوامی حیثیت اس وقت اختیار کی جب مختلف کارخانے لگانے کے بعد ہیمبرگ میں ایک عظیم الشان فیکٹری لگائی گئی تاکہ دھماکا خیز ہتھیار ساری دنیا کو فراہم کیے جاسکیں۔ فن کان کنی اور شاہراؤں کی تعمیر میں الفریڈ کے مال کی مانگ میں بے پناہ اضافہ ہوگیا۔ اس سارے معاملے میں خطرناک مواد کی نقل و حرکت ایک مسئلہ تھی۔ لا علمی یا سستی کی بنا پر حادثات میں اضافہ ہوا لیکن کرۂ ارض پر سست رفتار سے ہونے والے کام، برق رفتاری سے ہونے لگے۔ فائدے کے مقابلے میں نقصانات کم تھے۔ اس کے باوجود الفریڈ محفوظ مواد کی تلاش میں تھا۔

وہ کوئی ایسی شے دریافت کرنا چاہتا تھا جو نائٹروجن گلیسرین کو مکمل طور پر جذب کرلے اور اس کی انفرادیت و وحدانیت کو بھی قائم رکھے۔ یہ چیز اتفاقیہ اسے معلوم ہوگئی۔۔۔۔ بالکل ایسے جیسے پنسلین ایجاد ہوگئی تھی۔ یہ ڈایاٹومائٹ (Diatomite) نامی مٹی جیسی شے تھی، پرانے زمانے میں گنبد بنانے، تیل پانی وغیرہ کو فلٹر کرنے اور کاغذ کی چمک کو بڑھانے کے کام آتی تھی (عرف عام میں اسے ڈیاٹم کہتے ہیں) اسی کی مناسبت سے الفریڈ نے اپنی ایجاد کو ڈائنامائٹ (Dynamite) کا نام دیا۔ اب گن پاؤڈر کا استعمال ترک کر دیا گیا اور ڈائنامائٹ کا بول بالا ہوگیا۔

الفریڈ کی زندگی میں وہ یادگار دن بھی آیا جب سویڈن کی سائنس اکیڈمی نے اس کی خدمات کا اعتراف کر لیا اور اسے سنہری تمغہ عطا کیا۔ لیکن اس تمغے میں اس کے باپ ایمنیوئل نوبل کو بھی شریک کیا۔ یہی وہ اکیڈیمی ہے جو الفریڈ نوبل کی وصیت کے مطابق سائنس، ادب، آرٹ اور انسانی فلاح و بہبود کے بہترین کارناموں پر نوبل انعام عطا کرتی ہے۔

ڈائنامائٹ کی ایجاد کے بعد کان کنی، شاہراہوں کی تعمیر اور پتھروں کا سینہ شق کرنے کی دنیا میں انقلاب آ گیا۔ یہ الگ بات کہ پاگل دنیا اسے جنگی مقاصد کے لیے بھی استعمال کرنے لگی۔ الفریڈ نوبل خاندان کے لیے ڈائنامائٹ سونے کی کان ثابت ہوئی لیکن لالچی لوگ بھی برساتی مینڈکوں کی طرح نکل کر ٹرانے لگے۔ لوگوں نے یہاں تک دعوی کر دیا کہ نائٹروگلیسرین الفریڈ نوبل خاندان کی نہیں، ان کی دریافت ہے۔

زندگی کے آغاز میں جب نوبل خاندان تیل کی ناکارہ کھیپ خرید بیٹھا تھا تو الفریڈ نے تیل صاف کرنے کا مناسب طریقہ ڈھونڈ نکالا تھا۔ آئل ریفائنری کے بعد الفریڈ کی تجویز پر پائپ لائن بچھائی گئی جس سے خام تیل (کروڈ آئل) کی نقل و حمل میں آسانی ہوگئی۔ اسی زمانے میں الفریڈنے دنیا کو تیل بردار جہازوں سے متعارف کرایا۔

ڈائنامائٹ کی ایجاد تو خیر اس کی شہرت کا باعث تھی، مصنوعی سلک بنانے کا نظریہ بھی الفریڈ ہی نے دنیا کو دیا۔ اس کے علاوہ گندھک کے تیزاب کی صفائی، لوہے کی صفائی جو بعد میں سٹیل ملز کے قیام کی بنیاد بنی اور ریفریجریشن کا سامان بنانے میں اس کے عظیم ذہن نے حیرت انگیز کارنامے انجام دیے۔ اس کا دماغ ایسی ایسی عجیب و بظاہر ناممکن باتیں سوچتا تھا کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ مثلاً بے آواز دھماکے کا تصور جب اس نے پیش کیا تو اسے دیوانے کی بڑ سمجھاگیا۔ جب اس کا عملی مظاہرہ اس نے کیا تو دنیا حیرت کے سمندر میں ڈوب گئی۔

اس زمانے میں الفریڈ خیراتی مشاغل کی طرف مائل ہوا اور 70 لاکھ کراؤن سالانہ رفاہی کاموں میں خرچ کرنے لگا۔ بے شمار سوسائٹیوں نے اس کی خدمات کی سراہتے ہوئے تمغے وغیرہ عطا کیے۔ ان مین سویڈن کی اکیڈمی آف سائنس، رائل سوسائٹی آف لنڈن قابل ذکر ہیں۔

الفریڈ کی زندگی میں وہ لمحہ بڑا خوش گوار ثابت ہوا جب اسے پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری سے نوازا گیا۔ اس کے بعد اس نے نائٹروگلیسرین کو امن کے مقاصد کے لیے استعمال کرنے پر غور شروع کیا۔ مثلاً ربر یا چمڑے وغیرہ کا نعم البدل تیار کرنا وغیرہ۔ اس نے سائیکلوں میں گیئر لگانے کا نظریہ بھی پیش کیا۔

اس کے یہ سارے کام جاری تھے اور وہ ایک سے بڑھ کر ایک بہترین ایجاد کرتا چلا جا رہا تھا مگر ساری دنیا غلط فہمی کا شکار ہو چکی تھی اور اسے موت کا سوداگر کہنے لگی تھی۔ وہ کوئی ایسا کام کرنا چاہتا تھا جو اس کا داغ رسوائی دھو سکے۔ ظاہر ہے وہ کام ڈائنامائٹ کی ایجاد سے بڑا ہونا چاہیے تھا۔ پھر اس نے اپنی وصیت میں تبدیلی کرکے ساری جائیداد انسانی فلاح کے کام کرنے والوں کے لیے وقف کر دی۔ اس وقت اس کی عمر باسٹھ (62) برس تھی۔

اس کا انجام گوشۂ تنہائی میں ہوا۔ اس نے عمر کے 63 ویں برس میں قدم رکھا۔ وہ اٹلی والی تجربہ گاہ میں اپنے خیالات کو کاغذ پر منتقل کر رہا تھا کہ دماغ نے بغاوت کر دی۔ وہ کرسی سے لڑھک کر ایک طرف گر گیا۔

اس کے نوکر نے مالک کو اٹھا کر پلنگ کر لٹایا اور ڈاکٹر سے رابطہ قائم کیا گیا۔ ڈاکٹر آیا تو ایک عجیب و غریب مسئلے سے دوچار ہو گیا۔ الفریڈ کچھ کہنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن لا تعداد زبانوں کی مہارت کام نہیں آ رہی تھی۔ اسے اس وقت صرف مادری زبان یاد تھی۔ باقی زبانیں وہ یکسر بھول چکا تھا۔ ڈاکٹر اور نوکر دونوں اٹلی کے باشندے تھے اور سویڈن کی زبان نہیں جانتے تھے۔ اس نے دو ایک بار کچھ کہنے کی کوشش کی لیکن ڈاکٹر اور نوکر ایک دوسرے کو دیکھ کر مایوسی سے سر ہلانے لگے۔ الفریڈ نے سمجھنے سمجھانے کی آخری کوشش ترک کر دی اور کبھی نہ کھولنے کے لیے دونوں آنکھیں بند کر دیں۔

یہ 1896ء، دس دسمبر کا دن تھا۔ دوسرے روز اس کی لاش کو سویڈن لے جایا گیا۔ ایک وکیل نے وصیت پڑھ کر سنائی۔

یہ وصیت ہر لحاظ سے انوکھی تھی۔ پہلی بات یہ کہ الفریڈ نے خاندان کے ہر فرد کو جائیداد سے محروم کر دیا تھا اور ساری جائیداد بنی نوع انسان کی فلاح کے لیے وقف کر دی
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
Post Reply

Return to “دنیا میرے آگے”