
دریاے جہلم کے کنارے دو اطراف سے پہاڑوں میں گھری سرائے عالم گیر نامی چھوٹی سی وادی میں، لاہور کے ڈاکٹر غلام سرور ایک عظیم مقصدکے تحت اپنے کا م میں مگن ہیں۔ بڑے شہروں سے دور اس چھوٹی وادی میں قائم نیشنل سائنٹفک اینڈ ایجوکیشنل ریسرچ سینٹر کے ذریعے ڈاکٹر صاحب کامیابی کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھ چکے ہیں اور اس مرحلے میں ان کی جانب سے متعارف کرائی گئی کار صرف ایک پیالی پانی کے ذریعے کامیابی کے ساتھ ایک ہزار میل کا طویل سفر طے کرچکی ہے۔ برطانیہ کی مختلف جامعات سے اکنامی، انجینئرنگ اور ٹرانسپورٹ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کرنے والے ڈاکٹر غلام سرور نے عمر کے آخری حصے میں اپنے وطن کو سونا بنانے کا عزم کیا ہے اور وہ یہاں اپنے قائم کردہ مذکورہ ادارے میں بلامعاوضہ قوم کے بچوں اور بچیوں کو سائنسی فنون سکھانے اور نت نئی ایجادات کرنے میں مگن ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی صلاحیتوں کے بارے میں اس وقت پاکستانی میڈیا کو علم ہوا جب انہوں نے چند روز قبل اپنی ایجاد کردہ کار کو پانی سے ایک ہزار کلو میٹر تک چلا کر لوگوںکو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ اپنی اس ایجاد کی تفصیلات بتاتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ دراصل یہ ایجاد ان کی ہے بھی اور نہیں بھی۔ایسا یوں ہے کہ انہوں نے پاکستان میں پانی کے ذریعے ساٹھ فیصد تک فیول بچاتے ہوئے گاڑی کوکامیابی سے نہ صرف ایک ہزار میل تک چلایا ہے بلکہ وہ اپنے زیر استعمال دوکاروں میں مسلسل یہی کٹ استعمال کرتے ہوئے کامیابی سے پیٹرول کی بچت کررہے ہیں۔ اور یہ ایجاد اس لئے ان کی نہیں ہے کہ پانی کو توڑ کر اس سے ہائیڈروجن اورآکسیجن الگ کر کے گاڑیاں چلانے کی ابتدا1930ء سے ہی ہوچکی ہے جب برطانیہ کے ڈاکٹر براؤن نے یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ کس طرح پانی کو توڑ کر اس سے حاصل ہونے والی توانائی کوگاڑیاں چلانے کیلئے پیٹرول اور ڈیزل کے متبادل کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ چونکہ ڈاکٹر براؤن کا یہ نظریہ اپنے ارتقائی مراحل میں تھا اس لئے اس وقت تو اس پر عمل نہ ہوسکا لیکن 1960ء میں ایک بار پھر امریکہ کے کچھ سائنسدانوں کی جانب سے اس ریسرچ پرکام شروع کیا گیا اور نہایت کامیابی کے ساتھ گاڑی کو پانی پر چلاتے ہوئے فیول کی تین فیصد تک بچت کرڈالی۔ مذکورہ سائنسدانوںکی جانب سے جب اپنا یہ نظریہ حکومتی سطح پر پیش کیا گیا تو ابتدا میں آئل کی بڑی کمپنیوں کی جانب سے ان کے اس نظریے کو خطرناک قراردیا گیا کیونکہ بقول ان کے اس کٹ کے ذریعے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے بم تیارکئے جاسکتے ہیں۔ جب یہ سائنسدان اپنی ریسرچ سے باز نہ آئے تو اس ریسرچ پرکام کرنے والے 25 سائنسدانوں کے ایک گروپ کو خاموشی سے موت کی آغوش میں پہنچا دیا گیا۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں اپنی تین ڈاکٹریٹ کی ڈگریوں اور اس دوران برطانوی حکومت کے زیر انتظام وزارت ٹرانسپورٹ میں سائنٹسٹ آفیسر کے عہدے پر فائز رہنے کے دوران انہیںکافی حقائق معلوم ہوئے تھے۔ انہیں معلوم ہے کہ پاکستانی معیشت کمزور ہے اور دن بدن بڑھنے والے پیٹرول اور ڈیزل کے استعمال کی وجہ سے نہ صرف وطن عزیز میں فضائی آلودگی میں اضافہ ہورہا ہے بلکہ پیٹرول اور ڈیزل معیشت پر بھی ایک بھاری بوجھ ثابت ہورہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 2005ء میں ریٹائرمنٹ کے فوری بعد زندگی کے بقیہ ایام وہیں آسائش میں گزارنے کے بجائے انہوں نے اپنے ملک میں کٹھن زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا۔
2005ء سے اب تک کی جانے والی تحقیق کے بعد اب اپنے زیر استعمال ان کی دوگاڑیاں ساٹھ فیصد فیول کی بچت کے ساتھ پانی پر چل رہی ہیں۔ سائنسی علوم اور اپنی تحقیقات سے ڈاکٹر صاحب کی وابستگی کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنے زیر استعمال دو کاروںکو کاٹ کر چار سے پانچ فٹ مزید لمبا کیا ہے تاکہ وہ اس میں اپنی چلتی پھرتی لیب قائم کرسکیں۔سفر کے دوران بھی وہ راتوں کو بیٹھ کر اپنی اس چلتی پھرتی لیب میں تحقیقی کام جاری رکھتے ہیں ۔تین ہزار سی سی کے بھاری انجن والی ان گاڑیوں کے فیول کی طلب پانی سے پوری کی جاتی ہے جو ایک ہزار کلو میٹر میںصرف ایک پیالی کی مقدار میں خرچ ہوتا ہے جبکہ تحقیق ابتدائی مراحل میں ہے اس بناء پر گاڑیاں ابھی چالیس فیصدپیٹرولیم فیول کھاتی ہیں۔اپنی تحقیق اور پانی سے گاڑیان چلانے کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر صاحب کا امت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا ’’نہایت سیدھی اورسادی سی بات ہے ۔ایک بیٹری کے ذریعے الیکٹرولائٹ کی مدد سے پانی کو توڑاجاتا ہے اور اس میں موجود ہائیڈروجن اور آکسیجن کو علیحدہ کردیاجاتا ہے۔یہ دونوں گیسز گاڑی کے ا نجن میں داخل ہوتی ہیں جہاں ہائیڈروجن عام فیول کے ساتھ مل کر ختم ہوجاتی ہے جبکہ سو فیصد خالص آکسیجن حیرت انگیز طو رپر گاڑی کے سائیلنسر سے خارج ہوکر فضاء کو مزید بہتر بنانے کا کام انجام دیتی ہے۔‘‘ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھاکہ نئی ٹیکنالوجی کی بدولت گاڑیاں جتنی زیادہ چلیں گی ماحول میں فضائی آلودگی کی مقدار اتنی ہی کم ہوگی کیونکہ گاڑی چلتے وقت کاربن کے بجائے آکسیجن کی بھاری مقدار خارج کرتی ہے۔پانچ سے چھ کلو گرام وزنی کٹ کے ساتھ منسلک پلاسٹک کی ٹینکی میں صرف دو لیٹر پانی ڈالا جاتا ہے جو ایک ہزار کلو میٹر کے بعد بھی حیرت انگیز طور پرصرف ایک چائے کی پیالی کی مقدار کم ہوتا ہے۔حیرت انگیز طور پر سی این جی کے برعکس پانی سے گاڑی چلاتے وقت گاڑی کے انجن کی پاور کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ جاتی ہے کیونکہ پیٹرولیم فیول سے حاصل ہونے والی طاقت 91فیصد جبکہ پانی سے حاصل ہونیو الی طاقت140فیصد ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ نہ تو سی این جی کی طرح گاڑی کے انجن پر دباؤ پڑتا ہے اور نہ گاڑی کا انجن جلد خراب ہونے کا خدشہ۔ڈاکٹر صاحب نے اپنی تجرباتی کٹ کے لئے گاڑی بھی خود ڈیزائن کی ہے جسے باہر سے درآمد کی گئی ایک ٹویوٹا کرولا ماڈل کی کار کو کاٹ کر بنایا گیا ہے۔اس کار کو درمیان سے بڑھا کر لیموزین کی شکل دی گئی ہے اور اس دوران انجن کی طاقت بڑھانے کیلئے دو ہزار سی سی کے بجائے تین ہزار سی سی کابڑا انجن لگایا گیا ہے۔ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ ان کی ایجاد کردہ کٹ کسی بھی عام گاڑی میں باآسانی لگائی جاسکتی ہے اور ابتدائی طور پر تیار کی جانے والی کٹ کو اگر مقامی طور پر کمرشل بنیادوں پر تیار کیاجائے تو اس مکمل کٹ کی قیمت بمشکل تیس سے چالیس ہزار روپے کے درمیان ہوگی۔ان کا کہنا تھا کہ ان کی جانب سے بغیر کسی مالی لالچ کے مذکورہ ٹیکنالوجی پر کام جاری ہے اور انہیں اللہ رب العزت سے قوی امید ہے کہ جلد ہی وہ ایک ایسی کٹ تیار کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے جو مکمل طور سے پانی کے ذریعے گاڑی کو چلانے کی صلاحیت کی حامل ہوگی۔مذکورہ کٹ میں پانی کو بیٹری کے ذریعے پیدا کئے گئے الیکٹرولائٹ سے توڑا جائے گا جبکہ گاڑی چلنے کے دوران خودکار انداز میں چلنے والے ایک آٹومیٹک چھوٹے جنریٹر سے گاڑی میں نصب کی گئی بیٹری، لائٹس اور دیگر برقی اشیاء کو چلایاجاسکے گا۔حیرت انگیز طو رپرپاکستان جیسے ملک میں اہم ترین ایجاد کے موجد ڈاکٹر غلام سرور کاکہنا ہے کہ انہوںنے کوئی ایسا خاص کا م نہیں کیا ہے بس ماضی میں کئے جانے والے تجربات کوایک بار پھر نئے اندازمیں پیش کیا ہے۔ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا چھوٹے سے خوبصورت قصبے میں بنائے گئے ریسرچ سینٹر میں بلامعاوضہ بغیر کسی لالچ کے قوم کے بچوں کو مفت تعلیم اور ریسرچ کے مواقع فراہم کئے جارہے ہیں اور وہ یہاں سولر انرجی سمیت کئی جہات میں تحقیقات کررہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اب تک کی جانے والی تحقیقات کے مطابق اگر سولر انرجی حاصل کرنے کے لئے مقامی طور پر آلات کی تیاری شروع کی جاسکے تو ان آلات کی قیمت فوری طور سے اسی فیصدتک کم کی جاسکتی ہے اور وطن عزیز کی ہر گلی اور گھر سولر انرجی کے ذریعے روشن کیاجاسکتا ہے۔انتہائی اہم اور گرانقدر تحقیقات کرنیو الے ادارے کے بانی ڈاکٹر غلام سرور سے حیرت انگیز طو رپر تاحال نہ تو کسی سرکاری ادارے نے رابطہ کیا ہے اور نہ ہی کسی مقامی یا غیر ملکی ایجنسی نے ان کے اس کام کو آگے بڑھانے کے عزم میں ان کاساتھ دینے کااعلان کیا ہے۔