وطن عزیز پاکستان کی چند ممتاز خصوصیات

اپنے ملک کے بارے میں آپ یہاں کچھ بھی شئیر کر سکتے ہیں
Post Reply
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

وطن عزیز پاکستان کی چند ممتاز خصوصیات

Post by چاند بابو »

*ایٹمی طاقت کا حامل، دنیا کا پہلا اور واحد مسلم ملک*
Image
28 مئی 1998ء کی تاریخ اِس لحاظ سے یادگار ہے کہ اُس روز پاکستان نے ایٹم بم کے اوّلین تجرباتی دھماکے کیے تھے اور یوں وہ ایٹمی طاقت کا حامل، عالمِ اسلام کا پہلا ملک بن گیا۔ علاوہ ازیں، دنیا بھر میں پاکستان وہ ساتواں ملک ہے جس کے پاس ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان نے تقریباً دو ہفتے قبل بھارتی ایٹمی دھماکوں کے جواب میں یہ ایٹمی تجربات کیے تھے۔ پاکستان کے ایٹمی دھماکوں پر دنیا کے نام نہاد امن پسند حلقوں کی جانب سے شدید اعتراضات کیے گئے لیکن دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان ایٹمی دھماکے نہ کرتا تو برصغیر کے علاوہ پورے ایشیاء میں طاقت کا توازن بھیانک طور پر بگڑ جاتا جس کا نتیجہ ایک ایسی تباہی کی شکل میں نکل سکتا تھا جس کا شاید کسی نے تصور بھی نہ کیا ہو۔ پاکستان کے ایٹمی دھماکوں سے نہ صرف برصغیر میں طاقت کا توازن بحال ہوا اور ایک بار پھر پائیدار امن کی اُمید روشن ہوئی تو دوسری جانب ایشیاء میں ایک منفرد منظر نامہ بھی سامنے آیا۔ پاکستان، چین اور بھارت ایسے تین ممالک ہیں جن کی سرحدیں آپس میں ملتی ہیں اور تینوں کے تینوں ہی ایٹمی طاقت ہیں۔ یہ معاملہ پوری دنیا میں کہیں پر بھی نہیں۔


*مار خور دنیا کا نایاب جانور*
Image
یہ بات تو ہم سب جانتے ہیں کہ مارخور پاکستان کا قومی جانور ہے، لیکن شاید یہ نہیں جانتے ہیں پاکستان کا یہ قومی جانور دنیا میں جانوروں کی نایاب ترین نوع ہے۔ مارخور کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ اُن 72 جانوروں میں شامل ہے جن کی تصاویر عالمی تنظیم برائے جنگلی حیات کے 1976ء میں جاری کردہ خصوصی سکہ جات کے مجموعے میں شامل ہے۔ جنگلی بکرے کی خصوصیات کا حامل یہ خوبصورت جانور گلگت بلتستان کی ٹھنڈی فضاؤں کے علاوہ کشمیر، چترال اور کیلاش کی سرسبز وادیوں میں پایا جاتا ہے۔ پاکستان کے علاوہ یہ قیمتی اور کم یاب نوع بھارت، افغانستان، ازبکستان اور تاجکستان کے کچھ علاقوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں بالغ مارخور کی تعداد 25 سو (ڈھائی ہزار) سے بھی کم ہے۔
مارخور پہاڑی علاقوں میں رہنا پسند کرتا ہے اور 600 سے 3600 میٹر کی بلندی تک پایا جاسکتا ہے۔ اِس کے قد و قامت میں نمایاں اِس کے مضبوط اور مڑے ہوئے سینگ ہیں جن کی لمبائی 143 سینٹی میٹر تک ہوسکتی ہے۔ جبکہ اِس کا وزن 104 کلو گرام تک ہوتا ہے اور اونچائی 102 سینٹی میٹر تک ہوتی ہے۔ مارخور کی تین اقسام مشہور ہیں جن میں استور مارخور، بخارائی مارخور اور کابلی مارخور شامل ہیں۔
مارخور پاکستان کی انٹیلی جینس ایجنسی آئی ایس آئی کا نشان بھی ہے۔ مارخور فارسی کے الفاظ کا مجموعہ ہے، جس میں ’مار‘ کے معنی سانپ اور ’خور‘ کے معنی ہیں کھانے والا۔ مارخور کے متعلق بہت سی لوک کہانیاں بھی مشہور ہیں۔ اِن مقامی لوک کہانیوں کے مطابق مارخور سانپ کو مار کر اُس کو چبا جاتا ہے، اور اُس جگالی کے نتیجے میں اِس کے منہ سے جھاگ نکلتا ہے جو نیچے گر کر خشک اور سخت ہوجاتا ہے اور جسے پھر سانپ کے کاٹنے پر تریاق کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔


*وادی کیلاش کا انوکھا قبیلہ*
Image
وادی کیلاش اپنی منفرد تہذیب، رنگا رنگ تہواروں اور حسین و دلکش مناظر کی بدولت دنیا بھر میں جُداگانہ مقام رکھتی ہے۔ کیلاش صوبہ خیبر پختونخوا، ضلع چترال میں کوہ ہندو کش کے دامن میں آباد ایک قبیلہ ہے، جس کا طرزِ رہائش اور رسومات، لباس اور رواج منفرد تسلیم کی جاتی ہے۔ دنیا بھر سے سیاح وادی کیلاش گھومنے اور کیلاش قبیلہ کی بودو باش دیکھنے پاکستان کا رُخ کرتے ہیں۔
وادی کیلاش کے تہوار اور رسمیں دلچسپ اور عجیب ہیں۔ بہار کی آمد کا استقبال وادی میں چِلم جوش کے تہوار سے کیا جاتا ہے۔ ہر سال 14 سے 16 مئی تک منعقد ہونے والے چِلم جوش کی تقریبات دیکھنے ہزاروں سیاح کیلاش کے برفیلے پہاڑوں تک پہنچتے ہیں۔ تہوار کے پہلے روز سب افراد کو بکری کا دودھ تقسیم کیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے نومولود بچوں کو دودھ پلایا جاتا ہے، پھر دوسرے بچوں کی باری آتی ہے، اِس کے بعد نوجوانوں، جوانوں اور بڑوں کو تھوڑا تھوڑا دودھ پینے کے لئے دیا جاتا ہے۔ تمام افراد کو دودھ پہنچا کر اِس تقریب کا باقاعدہ افتتاح ہوتا ہے۔ بعد ازاں قبیلے کے بزرگ کُھلے آسمان تلے روٹی پکاتے ہیں جسے تمام افراد میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اِس روٹی میں میوہ جات بھی ڈالے جاتے ہیں، جو یہاں کی ایک سوغات بھی ہے۔ روٹی کھانے کے بعد تمام مرد و خواتین مذہبی مقام ’جسٹک خان‘ کے سامنے سے گزر کر ایک مخصوص میدان میں آتے ہیں جہاں خواتین ڈھول کی تاپ پر ناچتی اور گاتی ہیں۔ کیلاش کی خواتین کا رنگ برنگا روایتی لباس بھی انہیں دوسروں سے مختلف بناتا ہے۔
اِس کے علاوہ وادی کیلاش میں جب کسی کی موت واقع ہوجاتی ہے تو سوگ کے بجائے جشن منایا جاتا ہے۔ میت کے سرہانے موسیقی بجانے کا انتظام کیا جاتا ہے۔ قبیلے کے تمام لوگ رقص کرتے ہیں اور اِس موقع پر روایتی پکوان پکا کر کھائے جاتے ہیں۔


*طویل ترین قوالی کا اعزاز*

پاکستانیوں نے یوں تو دنیا کے سامنے مختلف شعبہ جات میں اپنا لوہا منوایا ہے، جن میں ایک قوالی کا فن بھی ہے۔ پاکستان میں عزیز میاں قوال، نصرت فتح علی خان اور صابری خاندان قوالی کی دنیا میں اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں اور دنیا بھر میں بارہا اپنے فن کا مظاہرہ کرچکے ہیں۔
17 اپریل 1942ء کو جنم لینے والے عزیز میاں قوال پاکستان کے ایسے قوال ہیں جنہوں ںے جنوبی ایشاء سمیت دنیا بھر میں فنِ قوالی کے ذریعے پاکستان کا مثبت رخ پیش کیا۔ عزیز میاں کا منفرد لب و لہجہ اور انداز تو صدیوں تک یاد رکھا جائے تاہم قوالی کی تاریخ میں ’’طویل ترین قوالی‘‘ ریکارڈ کرانے کا سہرا بھی عزیز میاں کے سر ہی جاتا ہے۔
عزیز میاں کی قوالی ’’حشر میں پوچھوں گا‘‘ اب تک دنیا کی طویل ترین ریکارڈ کی جانے والی قوالی ہے۔ 155 منٹ دورانیے کی اِس قوالی کا ریکارڈ اب تک کوئی نہیں توڑ سکا۔ عزیز میاں غزلوں کو بھی قوالی کے انداز میں گایا کرتے تھے۔ عزیز میاں کا ایک اور کمال یہ کہ وہ اپنی قوالیاں خود لکھا کرتے تھے۔ حکومتِ پاکستان نے انہیں 1989ء میں تمغہ حسن کارکردگی سے بھی نوازا۔ عزیز میاں کا انتقال 6 دسمبر 2000ء میں ایران کے دارلحکومت تہران میں ہوا، لیکن اُن کا جسد خاکی ملتان میں دفنایا گیا۔


*اجرک پاکستان کی خوبصورت ثقافت*
Image
اجرک پاکستان کی روایتی سوغات ہے جو صدیوں پرانی تہذیب کا حصہ ہے۔ دریائے سندھ کنارے آباد وادی مہران کی خاص پہچان ایک مخصوص چادر اجرک بھی ہے۔ سرخ اور سیاہ رنگ میں چھپی ہوئی رنگین چادر سندھ میں عزت اور وقار کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ لوگ اِسے کاندھے پر اور گردن میں ڈالتے ہیں۔ خاص طور پر سندھ میں یہ خاص رواج ہے کہ گھر میں آئے مہمانوں کو عزت اور احترام سے نوازنے کے لیے اجرک پیش کی جاتی ہے۔
اجرک انتہائی قدیم ثقافت کا جزو ہے۔ موئن جو دڑو سے ملنے والے نوادرات میں کنگ پریسٹ کا مجسمہ بھی شامل ہے۔ جس کے ایک کاندھے پر ایک کپڑا اجرک سے مشابہہ ہے۔ فی زمانہ اجرک مختلف رنگوں میں دستیاب ہے لیکن سرخ رنگ اجرک کو علیحدہ ہی حُسن عطا کرتا ہے۔ اجرک کی چھپائی کیلئے پہلے مختلف جیومیٹریکل ڈیزائنوں کو لکڑی کے بلاکس پر منقش کیا جاتا ہے جسے بعد میں کپڑے پر چھاپ کر اجرک تیار کی جاتی ہے۔ اجرک کی تیاری کیلئے سندھ کے شہر مٹیاری، ہالا، بِھٹ شاہ، مورو، سکھر، کنڈیارو اور حیدر آباد مشہور ہیں۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: وطن عزیز پاکستان کی چند ممتاز خصوصیات

Post by چاند بابو »

دنیا کا سب سے کم عمر سول جج
Image
پاکستان وہ ملک ہے جہاں دنیا کے سب سے کم عمر شخص نے سول جج کا عہدہ سنبھالا۔ جولائی 1952ء میں محمد الیاس نے لاہور میں سول جج کا عہدہ سنبھالا تو اُن کی عمر صرف 20 سال اور 9 مہینے تھی۔ اگرچہ وہ سول جج بننے کا امتحان اِس سے بہت پہلے پاس کرچکے تھے لیکن ضابطے کی کارروائی کے باعث اُن کی تقرری اِس نتیجے کے 8 ماہ بعد عمل میں لائی گئی۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ یہ ریکارڈ آج تک قائم و دائم ہے۔

دنیا کا سب سے بلند پولو گراؤنڈ ’’مس جنالی‘‘
Image
1935 میں شندور کی اہم شخصیت نیت قبول حیات کاکاخیل نے برطانوی پولیٹیکل ایجنٹ میجر ای ایچ کاب کے حکم پر شندور میں سطح سمندر سے ساڑے بارہ ہزار فٹ کی بلندی پر ایک شاندار پولو گراؤنڈ تعمیر کیا۔ اِس پولو گراؤنڈ کو ’’مس جنالی‘‘ کا نام دیا گیا ہے جس کے معنی ’’چاندنی رات میں کھیلنے کی جگہ‘‘ کے ہیں۔ یہاں ہر سال موسم گرما میں گلگت اور چترال کی ٹیموں کے مابین پولو کا ٹورنامنٹ کھیلا جاتا ہے۔ اِس میلے سے لطف اندوز ہونے کے لیے نہ صرف مقامی بلکہ ملک کے دیگر حصوں سے بھی بڑی تعداد میں لوگ آتے ہیں۔

پاکستان کا ایک ایسا فاتح جو ہمیشہ ناقابل شکست رہا، کیا آپ جانتے ہیں وہ کون ہے؟
Image
’رستمِ زماں‘ کہلائے جانے والے غلام احمد عرف گاما پہلوان 1880ء میں امرتسر میں پیدا ہوئے۔ بعد ازاں لاہور میں قیام پذیر ہوئے۔ 15 اکتوبر 1910ء کو انہوں نے اپنی شاندار کارکردگی کے نتیجے میں جنوبی ایشیائی سطح پر ورلڈ ہیوی ویٹ چیمپئن شپ کا اعزاز اپنے نام کیا۔ پہلوانی کی تاریخ میں وہ واحد پہلوان ہیں جنہیں 50 سال سے زائد عرصے پر محیط کیریئر کے باوجود کوئی بھی چت نہیں کرسکا۔ گاما کو اصل شہرت اُس وقت ملی جب انہوں نے 19 سال کی عمر میں 7 فٹ بلند قامت ریسلنگ چیمپیئن میاں رحیم بخش سلطانی والا کو چیلنج کیا، جو گوجرانوالہ کے طویل قامت بٹ تھے، جبکہ گاما کا قد محض 5 فٹ 7 انچ تھا۔ اگرچہ بٹ ادھیڑ عمر کا تھا لیکن اِس کے باوجود یہی اُمید کی جارہی تھی کہ وہ گاما کو سیکنڈوں میں چت کردے گا لیکن معاملہ برعکس نکلا اور دونوں کے درمیان مقابلہ ٹکر کا رہا۔ گاما پہلوان 21 مئی 1960ء کو لاہور میں انتقال کرگئے۔ اِس حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز رشتے میں گاما پہلوان کی نواسی ہیں۔

کیا آپ پاکستان میں موجود عالمی ثقافتی ورثے کے متعلق جانتے ہیں؟
Image
ٹھٹھہ کے قریب واقع مکلی کا قبرستان دنیا بھر اپنی منفرد حیثیت کی وجہ سے مشہور ہے۔ 6 مربع میل رقبے پر پھیلے اِس قبرستان میں چودھویں سے اٹھارہویں صدی تک کی قبریں اور مقبرے موجود ہیں۔ قبروں اور مقبروں کی عمدہ نقش نگاری، بے مثال خطاطی اور اعلی کندہ کاری اپنی مثال آپ ہے۔ مکلی کے قبرستان کو یونیسکو نے سن 1981ء میں عالمی ثقافتی ورثے میں شامل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ کئی تہذیوں اور ثقافتوں کے امین مکلی قبرستان کو دیکھنے کے لئے ہر سال ہزاروں سیاح آتے ہیں۔

دنیا کا سب سے بڑا مصنوعی جنگل
Image
پاکستان میں موجود چھانگا مانگا دنیا کا سب سے بڑا مصنوعی جنگل قرار دیا جاتا ہے۔ برطانوی دورِ حکومت میں بنائے جانے والے اِس مصنوعی جنگل کا مقصد اُس وقت کے اسٹیم انجنوں کو لکڑی فراہم کرنا تھا۔ چھانگا مانگا کے جنگلات صوبہ پنجاب کے شہر لاہور سے 70 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہیں اور 12 ہزار ایکڑ کے وسیع رقبے پھر پھیلے ہوئے ہیں۔ چھانگا مانگا کے جنگلات لاہور اور ساہیوال کے درمیان قومی شاہراہ کے مشرقی حصے میں تقریباً 10 کلومیٹر پر پھیلے ہوئے ہیں۔ ایک بہت بڑا علاقہ ہونے کی وجہ سے اِس کا کچھ حصہ قصور ضلع جبکہ کچھ لاہور ضلع میں آتا ہے۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: وطن عزیز پاکستان کی چند ممتاز خصوصیات

Post by چاند بابو »

ایٹمی توانائی کے حوالے سے پاکستان کی خصوصی شہرت کیا ہے؟
Image
اگرچہ ایٹمی توانائی کا نام آتے ہی 1998ء میں پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کا خیال آتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے ایٹمی توانائی پر سنجیدہ پیش رفت 1960ء کے عشرے ہی سے شروع کردی تھی اور اٹامک انرجی کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر آئی ایچ عثمانی کی قیادت میں بڑے پیمانے پر ایٹمی سائنسدانوں اور انجینئروں کی بیرونِ ملک تربیت کا آغاز بھی کیا جاچکا تھا۔ اِن کوششوں کے نتیجے میں صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پورے عالمِ اسلام کے پہلے ایٹمی بجلی گھر ’’کراچی نیوکلیئر پاور پلانٹ‘‘ (KANUPP) کی تعمیر 1966ء میں شروع کردی گئی تھی۔ 90 میگاواٹ بجلی بنانے والے اِس ایٹمی بجلی گھر کی ٹیکنالوجی کینیڈا سے حاصل کی گئی تھی جبکہ تکنیکی طور پر یہ ’’پریشرائزڈ ہیوی واٹر ری ایکٹر‘‘ شمار کیا جاتا ہے۔
پیراڈائز پوائنٹ، کراچی کے مقام پر واقع کینپ نے 18 اکتوبر 1971ء سے قومی گرڈ کے لیے بجلی کی پیداوار شروع کردی تھی جبکہ متعدد بار مرمت اور جدت طرازی کے مرحلوں سے گزرنے کے بعد یہ آج تک بجلی بنا رہا ہے۔ اِس بجلی گھر کا افتتاح 7 دسمبر 1972ء کو ذوالفقار علی بھٹو نے کیا جو اس وقت صدرِ پاکستان کے عہدے پر فائز تھے۔

دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس
Image
ایدھی ایمبولینس سروس کی تعریف ساری دنیا کرتی ہے، جو ایک طرف تو دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس ہے تو دوسری جانب یہ دنیا کی سب سے بڑی غیر سرکاری اور خیراتی ایمبولینس سروس بھی ہے۔ 1951ء میں صرف ایک ایمبولینس سے آغاز کرنے والی اِس ایمبولینس سروس میں اِس وقت 1800 سے زیادہ گاڑیاں شامل ہیں جبکہ ہیلی کاپٹر ایمبولینس اِس کے علاوہ ہے۔ ایدھی فاؤنڈیشن کی یہ ایمبولینس سروس گزشتہ دو دہائیوں سے دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس کے مقام پر بھی فائز ہے جو اپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہے۔

پاکستان کی پہلی اور مسلم دنیا کی کم عمر ترین کوہِ پیما
Image
ثمینہ خیال بیگ پاکستان کی پہلی اور مسلم دنیا کی کم عمر ترین کوہ پیما خاتون ہیں۔ ثمینہ ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے والی واحد خاتون اور تیسری پاکستانی ہیں۔ ثمینہ بیگ نے 21 برس کی عمر میں پہلی بار ایورسٹ کی چوٹی سر کی۔
دنیا کے سات برِ اعظموں کے پہاڑوں (seven summits) پر قدم رکھنے والی پہلی مسلم خاتون ہونے کا اعزاز بھی ثمینہ بیگ کے پاس ہی ہے۔ ثمینہ بیگ 6 ہزار میٹر اونچی چاشکن پہاڑی بھی سر کرچکی ہیں۔ یہ کارنامہ انہوں نے 2011ء میں انجام دیا۔ 19 ستمبر 1990ء کو پیدا ہونے والی ثمینہ خیال بیگ گلگت بلتستان کے گاؤں گوجال شمشال میں پیدا ہوئیں اور 15 برس کی عمر سے اپنے بھائی کے ہمراہ کوہِ پیمائی کی تربیت لینے کا آغاز کیا۔

’سیاچن‘ دنیا کا بلند ترین محاذ جنگ
Image
سیاچن گلیشیر گلگت بلتستان میں سطح سمندر سے 22 ہزار فٹ بلندی پر واقع ہے۔ یہ گلیشئیرز بہت اسٹریٹیجک اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ اِس کے ایک جانب کشمیر اور دوسری جانب چین ہے۔ یہاں کا درجہ حرارت گرمیوں میں بھی منفی 30 ڈگری سینٹی گریڈ تک رہتا ہے جبکہ سردیوں کے موسم میں یہی درجہ حرارت منفی 58 تک پہنچ جاتا ہے۔
انتہائی سخت موسم کی وجہ سے یہاں انسان تو انسان جانوروں کے لیے زندگی کے آثار انتہائی معدوم رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان سے 1984ء تک کوئی یہ تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ یہاں کوئی فوجی عمل دخل ہوسکے گی لیکن جون 1984ء میں بھارت نے اِس کے شمال مغرب میں واقع تین پہاڑیوں پر قبضہ کرلیا، جس کے بعد پاکستان کو بھی اپنی خودمختاری اور سالمیت کو بچانے کے لیے اِس محاذ میں کودنا پڑگیا۔ یہ گلیشئیرز جتنے ٹھنڈے ہیں اُتنا ہی یہ محاذ گرم ہے۔ پاکستان نے کئی مرتبہ سیاچن کا مسئلہ حل کرنے کی پیشکش کی ہے لیکن بھارت کی ہٹ دھرمی ناصرف دونوں ممالک کو دفاعی اور مالی لحاظ سے نقصان پہنچا رہی ہے بلکہ اس سے ماحولیاتی آلودگی بھی بڑھ رہی ہے، جس کا براہِ راست اثر ہمارے دریاؤں میں پانی کی کمی کی صورت میں پڑ رہا ہے۔


دنیا کی سب سے گہری گوادر پورٹ
Image
گوادر بندرگاہ دنیا کی سب سے گہری بندرگاہ ہے جو پاکستان کے صوبے بلوچستان میں بحیرہ عرب پر واقع ہے۔ اس بندرگاہ کی ایک اہم ترین خاصیت یہ ہے کہ یہاں کا پانی گرم ہے، یہی وجہ ہے کہ قدرتی صلاحیت کے باعث چین کے علاوہ بہت سے ممالک اِس بندرگاہ پر سرمایہ کاری کے لیے دلچسپی دکھا چکے ہیں، جبکہ اسی پورٹ کے باعث خلیجی اور افریقی ممالک کے ساتھ براہِ راست رابطہ بھی ممکن ہوگیا ہے۔ دوسری جانب گوادر بندرگاہ پر پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت بننے والے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر دنیا کے سب سے بڑے مسافر بردار طیارے ’اے 380‘ کے اترنے کی بھی سہولت موجود ہوگی جو ایک منفرد اعزاز ہے۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: وطن عزیز پاکستان کی چند ممتاز خصوصیات

Post by چاند بابو »

دنیا کی کم عمر ترین مائیکرو سافٹ پروفیشنل
Image
پاکستان سے تعلق رکھنے والی ارفع کریم 2 فروری 1995ء کو پنجاب کے ضلع فیصل آباد میں پیدا ہوئیں اور محض 9 برس کی عمر میں دنیا کی کم عمر ترین مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ ہونے کا اعزاز اپنے نام کیا۔ یہی وجہ تھی کہ اُنہیں مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ ایپلی کیشن کی سند خود مائیکرو سافٹ کے چیئرمین بل گیٹس نے دی جو اپنے آپ میں ایک بڑا اعزاز تصور کیا جاتا ہے۔ بل گیٹس نے ارفع کو پاکستان کا دوسرا چہرہ بھی قرار دیا تھا جبکہ ارفع کی خداداد صلاحیتوں کے باعث اُن کا نام نہ صرف پاکستان میں روشن ہوا۔ ارفع کی انہی خدمات کی وجہ سے انہیں صدارتی ایوارڈ پرائڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا گیا۔ بدقسمتی سے ارفع 22 دسمبر 2011ء کو مرگی کا دورہ پڑنے کے بعد کچھ روز کومے میں رہیں اور پھر 14 جنوری 2012ء کو محض 16 سال کی عمر میں اُن کا انتقال ہوگیا، لیکن البتہ کم عمر ترین مائیکرو سافٹ پروفیشنل ہونے کا عالمی ریکارڈ آج بھی اِنہی کے نام ہے۔


طویل عرصے تک ناقابل شکست رہنے والا کھلاڑی
Image
یہ بات کون نہیں جانتا ہے کہ پاکستان نے طویل عرصے تک اسکواش کورٹ میں راج کیا ہے جس کا سہرا بہرحال جان شیر خان اور جہانگیر خان کے سر جاتا ہے، کہ دنوں نے اپنے شاندار کھیل کے نتیجے میں بڑے بڑے ناموں کو چت کیے رکھا۔ یہ 1981ء سے 1986ء تک کا دور تھا جب جہانگیر خان مسلسل ناقابل شکست رہے، یعنی یہ عظیم کھلاڑی مسلسل پانچ ساتھ اور آٹھ ماہ تک کوئی ایک میچ بھی نہیں ہارے اور لگاتار 555 میچ جیت کر انہوں نے ایسا عظیم ریکارڈ قائم کیا جو آج تک کوئی کھلاڑی بھی توڑ نہیں سکا ہے۔ جہانگیر خان کی اسی زبردست کارکردگی کی بدولت ان کا نام گینس بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کیا گیا تھا۔ اگر 1982ء سے 1991ء تک کے دور کی بات کی جائے تو اِس دوران جہانگیر خان نے 6 مرتبہ ورلڈ اوپن اور 10 مرتبہ برٹش اوپن چیمپئن شپ جیتی۔

وہ عظیم ڈاکٹر جس کا گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں دو بار نام شامل ہوا
Image
اِس بات سے تو کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی ہے کیونکہ اِس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جبکہ ایسی ہی ایک مثال ڈاکٹر نعیم تاج ہیں جنہوں نے ایک بار نہیں بلکہ دو بار ایسے زبردست کارنامے سرانجام دے جس کے نتیجے نہ صرف دنیا حیران رہ گئی بلکہ دونوں مرتبہ اِن کا نام گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کیا گیا۔
پہلا کارنامہ ڈاکٹر نعیم تاج نے جنوری 2012ء میں سرانجام دیا جب انہوں نے جدید ٹیکنالوجی ’لیبروسکوپی‘ کی مدد سے 70 سالہ رشیدہ بی بی کا کامیاب آپریشن کیا جس کی مدد سے انہوں نے 25.5 سینٹی میٹر بڑا پتہ ناف کے ذریعے نکالا جس کے لیے انہوں نے محض 1 سینٹی میٹر کا کٹ لگایا۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ اِس سے پہلے اتنے بڑے سائز کا پتہ بذریعہ لیپروسکوپی نہیں نکالا گیا، اگرچہ بھارت میں ایسا ہوا تھا لیکن وہاں بھارتی ڈاکٹر نے 24 سینٹی میٹر کا پتہ نکالا تھا۔ اِس مایہ ناز ڈاکٹر نے دوسرا کارنامہ 27 ستمبر 2014ء کو اُس وقت انجام دیا جب انہوں نے محض چار سال اور 3 ماہ کے کم ترین عمر کے بچے کا ’لیروسکوپی‘ ٹیکنالوجی کے ذریعے کامیاب آپریشن کیا، یہاں یہ بات یاد رہے کہ اِس سے پہلے اِس ٹیکنالوجی کے ذریعے اتنی کم عمر کے بچے کا آپریشن پوری دنیا میں نہیں ہوا تھا۔

پاکستانی دنیا کی چوتھی ذہین ترین قوم
Image
پاکستانی دنیا کی چوتھی ذہین ترین قوم ہیں۔ یہ دعوی ہم اپنی طرف سے نہیں کررہے بلکہ عالمی سطح پر کئے گئے سروے کے مطابق یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستانی کسی بھی ترقی یافتہ ملک کے باشندوں سے کم ذیین نہیں۔ یورپی بزنس ایڈمینسٹریشن کے مطابق بنیادی سہولتوں کے فقدان اور غربت کے باوجود پاکستانیوں کا 125 ملکوں میں ذہانت اور قابلیت میں چوتھے نمبر پر آنا کسی اعزاز سے کم نہیں۔
کم عمر ترین مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ ایکسپرٹ ارفع کریم، اے لیول امتحانات میں 22 اے گریڈ لینے والے علی معین نوازش اور عالمی مقابلہ ریاضیات جیتنے والے موسیٰ فیروز کی مثالوں کو سامنے رکھ کر اِس پر یقین کرنا مشکل بھی نہیں کہ پاکستانی واقعی دنیا کی چھوٹی ذہین ترین قوم ہے۔


جنوبی ایشیا میں نمک کی قدیم ترین کان
Image
پاکستان میں کھیوڑہ کے مقام پر دنیا کی دوسری بڑی کان واقع ہے لیکن بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ جنوبی ایشیاء میں کوئلے کی قدیم ترین کان بھی یہی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب سکندرِ اعظم 322 قبل مسیح میں ہندوستان آیا تو اُس کے لشکر میں سپاہیوں نے دریافت کیا کہ اِس علاقے (کھیوڑہ) کے پتھر غیر معمولی طور پر نمکین ہیں؛ اور اِس طرح یہاں نمک کی کان دریافت ہوئی۔
کھیوڑہ میں نمک کی کان 110 مربع کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ہے جبکہ اِس میں 19 منزلیں ہیں جن میں سے 11 منزلیں زیرِ زمین واقع ہیں۔ کھیوڑہ کی کان سے ہر سال 3 لاکھ 25 ہزار ٹن نمک نکالا جاتا ہے۔ نمک کے علاوہ یہ کان اپنی اندرونی خوبصورتی اور آرائش کے لیے بھی خصوصی شہرت رکھتی ہے کیونکہ اِس میں نمکین پانی کے خوبصورت تالابوں کے علاوہ رنگین راہداریاں، دمکتے ستون اور ایک مسجد بھی ہے جسے نمک کی اینٹوں سے بنایا گیا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ کھیوڑہ میں کوئلے کی کان دنیا میں سب سے مشہور کان بھی ہے، تو یہ بالکل درست ہوگا۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: وطن عزیز پاکستان کی چند ممتاز خصوصیات

Post by چاند بابو »

دانتوں کا سب سے پہلا معالج پاکستان میں تھا
Image
ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے دریافت کیا ہے کہ دنیا میں آج سے تقریباً 9000 سال پہلے جس قدیم تہذیب میں دانتوں کی برما کاری (ڈرلنگ) اور علاج کا آغاز ہوا وہ ’’مہر گڑھ‘‘ ہے؛ اور جو بلوچستان، پاکستان میں واقع ہے۔ مہر گڑھ کی تہذیب موجودہ بلوچستان میں 7500 سے 9000 سال پہلے موجود تھی۔ 2001 میں ماہرین کی ایک ٹیم نے مہر گڑھ سے ملنے والے دو مردوں کی باقیات کا مطالعہ کرنے کے بعد بتایا کہ ان کے دانتوں میں باریک برموں سے سوراخ کیے جانے کے نشانات موجود تھے، جو یہ ظاہر کرتے تھے کہ مہر گڑھ میں آج سے لگ بھگ 9000 پہلے بھی دانتوں کا علاج کرنے والے ہوا کرتے تھے۔ اس دریافت پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا لیکن پھر 2006 میں ماہرینِ آثارِ قدیمہ کی ایک اور ٹیم نے مہر گڑھ سے ملنے والے 11 ڈھانچوں میں جبڑوں کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد ثابت کیا کہ یہ بات درست تھی۔ بالغ افراد کے ان ڈھانچوں کی ڈاڑھوں (molar teeth) میں بڑے ماہرانہ انداز سے باریک سوراخ کیے گئے تھے جو دندان سازی کے مخصوص اوزاروں کے بغیر ممکن ہی نہیں ہوسکتے تھے۔ ان ثبوتوں کی بنیاد پر آج ماہرین تسلیم کرتے ہیں کہ دنیا میں دانتوں کے علاج (ڈینٹسٹری) کی ابتداء مہر گڑھ سے ہوئی تھی؛ اور یہ منفرد قدیم تہذیب حال کے پاکستان میں وجود رکھتی تھی۔

دنیا میں سب سے زیادہ فلک بوس پہاڑ بھی یہیں ہیں!
Image
اس وقت دنیا بھر میں 109 پہاڑ ایسے ہیں جن کی اونچائی 7200 میٹر یا اس سے بھی زیادہ ہے؛ اور ان میں سے 43 پہاڑ پاکستان میں واقع ہیں۔ یعنی پاکستان وہ منفرد ملک ہے جس میں بلند ترین چوٹیوں والے پہاڑ سب سے زیادہ تعداد میں موجود ہیں۔ پاکستان میں پہاڑوں کی طویل پٹی شمال میں آزاد کشمیر، خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان سے ہوتی ہوئی شمال مغرب میں بلوچستان کے آخری کنارے تک چلی گئی ہے جہاں پاک ایران سرحد واقع ہے۔ کے ٹو اور نانگا پربت کے علاوہ پاکستان کی دیگر اہم پہاڑی چوٹیوں میں راکاپوشی، بتورا سر، چوغولیزا، تریور، پاسو سر، مومہل سر، ہراموش پیک، بالتورو کنگری، بلتستان پیک (کے 6) اور لپغار سر کے نام شامل ہیں۔ بلند ترین پہاڑی چوٹیوں کے باعث پاکستان ساری دنیا کے ممالک میں نمایاں ترین مقام رکھتا ہے اور اگر توجہ دی جائے تو کوہ پیمائی کا عالمی مرکز بھی بن سکتا ہے۔

نصرت فتح علی خان کا سنہری اعزاز
Image
شہنشاہ قوال نصرت فتح علی خان کی آواز کے سحر سے یہاں کون متاثر نہیں ہے؟ ان کا کمال یہ تھا کہ وہ صرف پاکستان میں ہی مقبول نہیں تھے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی لوگ نصرت فتح علی خان کو سننے کے لیے بے قرار رہتے تھے۔ اِسی مقبولیت کی وجہ سے انہوں نے دو ہالی ووڈ فلموں ’دی لاسٹ ٹیمپٹیشن‘ The Last Temptation اور ’کرسٹ اینڈ ڈیڈ مین واکنگ‘ Chirst and Dead Man Walking میں بھی اپنی آواز کا جگایا۔ لیکن اِن کا اصل اعزاز اور کارنامہ یہ ہے انہوں نے اپنی زندگی میں قوالیوں کے 125 البم ریکارڈ کروائے اور ہر البم میں کامیاب قوالیاں شامل تھی۔ یہی وہ اعزاز ہے جس کی وجہ سے اِن کا نام 2001ء میں گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کیا گیا۔


کم ترین عمر میں ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والے پاکستانی کھلاڑی
Image
کرکٹ وہ واحد کھیل ہے جو ہمیشہ سے ہی پاکستانیوں میں انتہائی مقبول رہا ہے، یہی ہے کہ ہے کم ترین عمر میں ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والے پانچ ابتدائی کھلاڑیوں میں سے چار کا تعلق پاکستان سے ہے۔ سب سے کم عمر میں ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والے کھلاڑی حسن رضا تھے جنہوں نے محض 14 برس اور 227 دن کی عمر میں اپنا پہلا میچ 1996ء میں زمبابوے کے خلاف کھیلا تھا۔ حسن رضا کو دیکھ کر خیال ہورہا تھا کہ شاید قومی ٹیم کو طویل عرصے کے لیے ایک اچھا کھلاڑی مل گیا ہے لیکن بدقسمتی سے محض 7 ٹیسٹ میچ کھلانے کے بعد اِس نوجوان کھلاڑی کو ٹیم سے باہر کردیا گیا اور اُس کے بعد دوبارہ موقع نہیں دیا گیا۔ اِس وقت حسن رضا 34 برس کے ہیں اور مسلسل اِس اُمید کے ساتھ ڈومیسٹک کرکٹ کھیل رہے ہیں کہ شاید اِن کو ایک بار پھر آزمایا جاسکے
حسن رضا سے پہلے یہ اعزاز مشتاق محمد کے پاس تھا جنہوں نے 15 برس اور 224 دن کی عمر میں ویسٹ انڈیز کے خلاف 1959 میں اپنا پہلا میچ کھیلا تھا۔ مشتاق محمد نے اپنے کیرئیر میں 57 ٹیسٹ میچوں میں 39 کی اوسط سے 3643 رنز بنائے جس میں دس سنچریاں اور 19 نصف سنچریاں شامل ہیں۔
اِسی طرح عاقب جاوید اور آفتاب بلوچ نے بھی کم ترین عمر میں ٹیسٹ کرکٹ کھیلی ہے۔ دونوں کھلاڑیوں نے بالترتیب 16 سال اور 189 دن کی عمر اور 16 سال اور 221 دن کی عمر میں پہلا ٹیسٹ میچ کھیلا تھا۔

دنیا کی سب سے کم عمر نوبل انعام یافتہ
Image
اِس بات سے کوئی انکار کر ہی نہیں سکتا کہ نوبل انعام کا حصول نہ صرف انسان کے لیے ایک خواب ہے بلکہ رہتی دنیا تک انسان کے لیے سب سے بڑا اعزاز بھی ہے، اور جب یہ اعزاز انسان کو کم ترین عمر میں مل جائے تو یہ کتنی اہمیت اور خوشی کی بات ہے اِس کا جواب صرف ملالہ یوسفزئی ہی دے سکتی ہیں کیونکہ محض 17 سال کی عمر میں یہ باہمت لڑکی اِس ایوارڈ کی مستحق ٹھہری تھی۔ یہ 10 اکتوبر 2014ء کی بات ہے جب ملالہ کو بچوں اور کم عمر افراد کی آزاد اور تمام بچوں کو تعلق کے حق کے بارے میں جدوجہد کرنے اِس انعام سے نوازا گیا تھا۔ لیکن یہ سفر جتنا آسان معلوم ہورہا ہے اتنا نہیں کیونکہ یہاں تک پہنچنے کے لیے ملالہ کو بہت تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔ جب پاکستان میں طالبان مسلسل دہشت گرد کارروائیوں میں مصروف تھے اور یہاں کے قبائلی علاقوں میں تعلیمی اداروں کو نقصان پہنچا رہے تھے اُس دور میں بھی یہ بچی اپنی دیگر ساتھیوں کے ساتھ تعلیم کے حصول میں مصروف تھی اور اِسی جسارت کی سزا اُس کو یوں ملی کہ 9 اکتوبر 2012ء کو اسکول جاتے ہوئے اِس کو دہشتگردوں نے گولی ماردی۔ خوش قسمتی سے ملالہ زندگی کی بازی نہیں ہاری اور جیسے ہی کچھ طبیعت بہتر ہوئی تو اُسے فوری طور پر برمنگھم کے کوئین الزبتھ ہسپتال بھیج دیا گیا جہاں وہ مکمل صحتیاب ہوئی۔ لیکن صحتیاب ہونے کے بعد وہ دوبارہ پاکستان نہیں آئی اور وہیں رہ کر بچوں کی تعلیم کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرتی رہی۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: وطن عزیز پاکستان کی چند ممتاز خصوصیات

Post by چاند بابو »

کوئٹہ میں جبلِ نور القرآن
Image
پاکستان کے خوبصورت شہر کوئٹہ کے مغربی بائی پاس کے قریب ایک چھوٹی پہاڑی کو’جبلِ نورالقرآن‘ کا نام دیا گیا ہے۔
یہاں سینکڑوں میٹر طویل سرنگیں کھود کر ضعیف اور ناقابلِ مطالعہ قرآن مجید کے لاکھوں نسخے احتیاط سے رکھے گئے ہیں۔ اِن قرآنی نسخوں کو صاف بوریوں میں رکھا گیا ہے اور اب بڑھتے بڑھتے اِن کی تعداد لاکھوں میں پہنچ چکی ہے۔ اِس کے علاوہ یہاں قدیم اور نایاب قرآن مجید کے نسخے بھی موجود ہے۔ جبلِ نورالقرآن میں 600 سال پرانے ایسے نایاب نسخے بھی موجود ہیں جنہیں بڑی توجہ اور مہارت سے ہاتھ سے لکھا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے جبلِ نورالقرآن کے تمام انتظامات چند درد مند حضرات نے اپنے بل پوتے پر سنبھال رکھے ہیں۔ اِن حضرات میں حاجی مظفر علی اور عبدالصمد لہڑی سرِ فہرست ہیں۔

کوہستان آرک، پاکستان کا ارضیاتی عجوبہ
Image
اگر آپ نے کبھی کوہستان آرک کا نام نہیں سنا تو ہم بتائے دیتے ہیں۔ پورے سیارہ زمین پر یہ واحد مقام ہے جہاں کرہ ارض کا اوپری حصہ قشر (کرسٹ) اور نچلا حصہ مینٹل باہم ملتا دکھائی دیتا ہے ورنہ عام حالات میں یہ سینکڑوں کلومیٹر نیچے ہوتا ہے۔
میسا چیوسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کے پروفیسر اولیور جیگوز نے کوہستان آرک پر تحقیق کی ہے۔ ماہرین کے مطابق خود کوہستان آرک کا مطالعہ نہ صرف زمینی ارتقاء کو ظاہر کرتا ہے بلکہ اِس پر تحقیق سے نظامِ شمسی کے سیاروں کی پیدائش اور ظہور کو جاننے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔ مندرجہ ذیل تصویر میں اولیور جیگوز کوہستان آرک کے پاس موجود ہیں۔


بدر اول پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ
Image
پاکستان نے اپنا پہلا مصنوعی سیارچہ (سیٹلائٹ) بدر اول 16 جولائی 1990ء کو خلا میں روانہ کرکے مصنوعی سیارچہ بنانے والے پہلے اسلامی ملک کا اعزاز حاصل کیا۔ بدر اول ایک چھوٹا تجرباتی سیٹلائٹ تھا جس کا مقصد پاکستانی سائنسدانوں اور انجینیئروں کے تجربے اور خود اعتمادی میں اضافہ کرنا تھا۔ اِس سیٹلائٹ کو وائس اور ڈیٹا کمیونکیشن کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ اِس کا وزن 52 کلو گرام تھا اور اِسے چینی راکٹ لانگ مارچ ٹو ای (2E) کے ذریعے نچلے زمینی مدار (لو ارتھ آربٹ) میں بھیجا گیا تھا۔

بلوچی تھیریم، سب سے بڑا زمینی ممالیہ
Image
بلوچی تھیریم دو لفظوں سے مل کر بنا ہے؛ بلوچی بلوچستان کا مختصر نام اور تھیریم کے معنی درندے کے ہیں۔ یہ جانور کروڑوں سال پہلے بلوچستان میں موجود تھا اور اِسے زمین کا سب سے بڑا ممالیہ کہا جاتا ہے۔ انگریز ماہرِ ارضیات و معدومیات سر کلائیو فورسٹر کوپر نے 1910ء میں پہلے اِس کی بعض ہڈیاں دریافت کی تھیں۔ پھر 1990ء کے عشرے میں فرانس کے مشہور ماہرِ معدومیات اور حیوانیات ڈاکٹر جین لوپ ویلکم نے کئی ماہ کی محنت اور کھوج کے بعد اِس عظیم الجثہ جاندار کی مکمل لیکن ایک سے زائد جانوروں کا کمپوزٹ ڈھانچہ دریافت کرلیا۔ اب سے ڈھائی سے ساڑھے تین کروڑ سال قبل بلوچی تھیریم ڈیرہ بگٹی کی اطراف بکثرت پائے جاتے تھے اور یہ علاقہ ایک گھنے جنگل جیسا تھا۔ ایک بالغ بلوچی تھیریم 5 میٹر اونچا اور 20 ٹن وزنی تھا یعنی آج کے پانچ ہاتھیوں سے زائد وزنی جانور تھا۔

ایک منٹ میں 5 بھارتی جنگی جہاز تباہ کرنے والے ایم ایم عالم
Image
اسکواڈرن لیڈرمحمد محمود عالم (ایم ایم عالم) پاک فضائیہ کے لڑاکا ہوا باز تھے۔ انہوں نے 1953ء میں پاک فضائیہ میں کمیشن لیا اور ملک کے دفاع میں بھرپور انداز میں اپنا کردار ادا کیا۔ ایم ایم عالم کو 1965ء کی جنگ کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا جب انہوں نے ایک منٹ سے بھی کم وقت میں بھارت کے پانچ ہنٹر جنگی طیارے مار گرانے کے باعث عالمی شہرت حاصل ہے۔ ایم ایم عالم کی بہادری کو سراہتے ہوئے حکومتِ پاکستان نے انہیں ستارہ جرات سے نوازا تھا جبکہ ایم ایم عالم کا یہ کارنامہ ناصرف پاک فضائیہ کی تاریخ میں ایک سنہرا باب ہے بلکہ جنگی ہوا بازی کی تاریخ کا ایک ریکارڈ بھی ہے۔ قوم کے یہ جانباز اور بہادر سپاہی 1982ء میں ایئر کموڈور کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے۔ اگرچہ یہ بہادر سپاہی 18 مارچ 2013ء کو جہان فانی سے کوچ کرگئے لیکن رہتی دنیا تک دشمن کے دلوں میں دھاک بٹھا گئے۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: وطن عزیز پاکستان کی چند ممتاز خصوصیات

Post by چاند بابو »

دنیا کی سب سے مستعد انٹیلی جنس ایجنسی
Image
پاکستان کی ’’انٹر سروسز انٹیلی جنس‘‘ (آئی ایس آئی) کو دنیا میں سب سے زیادہ مستعد، فعال اور چاق و چوبند انٹیلی جنس ایجنسی کا رُتبہ بھی حاصل ہے۔ 1948ء میں قائم ہونے والا یہ ادارہ ملکی سلامتی اور دفاع کے لیے کام کرتا ہے جس کی مرکزی ذمہ داریوں میں ملکی سلامتی کے لیے اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک ہونے والی سرگرمیوں پر نظر رکھنا اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنا شامل ہیں۔ یہ ایجنسی پاک افواج کے ساتھ تعاون و اشتراک سے کام کرتی ہے جبکہ اِن سے مختلف النوع معلومات کا تبادلہ بھی کرتی ہے۔ آئی ایس آئی کے سربراہ کا تقرر چیف آف 4دی آرمی اسٹاف کے مشورے پر وزیراعظم کی جانب سے کیا جاتا ہے۔ یہ ایجنسی دیگر ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں سے بھی رابطے میں رہتی ہے اور علاقائی و عالمی سلامتی سے متعلق معلومات کا تبادلہ کرتی رہتی ہے۔ آئی ایس آئی کا صدر دفتر اسلام آباد میں آبپارہ کے قریب واقع ہے۔ انٹیلی جنس کے عالمی ادارے آئی ایس آئی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تاہم پاکستان دشمن طبقہ آئے دن اِس ادارے پر اعتراضات کی بمباری کرتا رہتا ہے۔


صرف پاکستان میں پائی جانے والی نابینا ڈولفن
Image
بھلن مچھلی میٹھے پانی کی ڈولفنز کی ایسی قسم ہے جو صرف دریائے سندھ میں پائی جاتی ہے، مقامی زبان میں اسے بھلن کہا جاتا ہے۔ 19ویں صدی تک بھلن 3000 کلو میٹر طویل دریائے سندھ میں ہر جگہ موجود تھی لیکن ڈیمز اور بیراجوں کی تعمیر کی بدولت پانی کی کمی کے سبب اب یہ صرف دریا کے 619 کلومیٹر یعنی جنوبی پنجاب اور بالائی سندھ میں ہی پائی جاتی ہے۔
دریائے سندھ میں پائی جانے والی ڈولفن کی یہ قسم بنیادی طور پر نابینا ہوتی ہے لیکن یہ روشنی اور آواز کے ذریعے اپنے راستے اور شکار کا انتخاب کرتی ہے۔ حکومتی عدم توجیہی اور مقامی لوگوں میں اِس حوالے سے شعور کی کمی کی وجہ سے اِس کی تعداد دن بدن کم ہورہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنگلی حیات کے عالمی ادارے ورلڈ وائلڈ لائف نے اِسے تیزی سے معدوم ہوتے جانداروں کی فہرست میں شامل کررکھا ہے۔

دنیا میں سب سے زیادہ فٹ بال بنانے والا ملک
Image
اگر فٹبال کے کھیل میں پاکستانی شہر سیالکوٹ کو عالمی مرکز قرار دیا جائے تو یہ کچھ غلط بھی نہیں ہوگا کیونکہ دنیا بھر میں فروخت ہونے والی تقریباً 50 فیصد فٹ بالز یہیں پر بنتی ہیں اور بیرونِ ملک برآمد کی جاتی ہیں۔ محتاط اندازے کے مطابق فٹبالز کی عالمی مارکیٹ میں پاکستان کا حصہ کسی بھی صورت میں 40 فیصد سے کم نہیں جس کے بعد چین اور بھارت کا نمبر آتا ہے۔ دنیا کے مقبول ترین کھیل یعنی فٹبال کے لیے پاکستان میں ہر سال 4 سے 6 کروڑ گیندیں (فٹبالز) بنائی جاتی ہیں جو اپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہے۔ یہ بات بھی یقیناً دلچسپی سے پڑھی جائے گی کہ فٹبال کے سب سے بڑے برآمد کنندہ کا اعزاز پاکستان کے پاس کم از کم پچھلے 40 سال سے ہے۔

آلاتِ جراحی (سرجیکل انسٹرومنٹس) کا سب سے بڑا مرکز
Image
یہ بات بھی کسی شک سے بالاتر ہے کہ سرجری کے آلات برآمد کرنے میں پاکستان دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے جہاں سیالکوٹ اور وزیرآباد میں انتہائی نفیس آلاتِ جراحی بنائے جاتے ہیں۔ جراحی کے یہ آلات (سرجیکل انسٹرومنٹس) درجنوں ممالک میں سینکڑوں اداروں کو برآمد کیے جاتے ہیں جو انہیں اپنے ناموں سے فروخت کرتے ہیں۔ پاکستان میں آلاتِ جراحی (سرجیکل انسٹرومنٹس) کی صنعت قیامِ پاکستان کے فوراً بعد ہی پروان چڑھنا شروع ہوگئی تھی جبکہ ’’سرجیکل انسٹرومنٹس مینوفیکچررز ایسوسی ایشن آف پاکستان‘‘ 1958ء میں قائم کی جاچکی تھی۔ آج اِس ایسوسی ایشن کی رکن کمپنیوں کی تعداد 3600 سے زیادہ ہوچکی ہے جبکہ اس شعبے میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ افراد کام کررہے ہیں۔ پاکستان میں تیار ہونے والے سرجری کے آلات دنیا بھر میں سب سے بلند معیار کے حامل تصور کیے جاتے ہیں اور اِسی بناء پر دنیا بھر میں آلاتِ جراحی کی برآمدات میں پاکستان کا حصہ 50 فیصد سے زیادہ ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اِس شعبے میں عالمی طور پر سب سے زیادہ برآمدات کرنے والے ملک یعنی پاکستان کے اداروں کو صرف 35 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کی آمدنی ہوئی جبکہ سرجری کے آلات کی عالمی منڈی کا حجم 30 ارب ڈالر کے قریب ہے۔ اِس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان سے کم قیمت پر آلاتِ جراحی خریدنے والے بین الاقوامی ادارے انہیں مہنگے داموں پر فروخت کرتے ہیں اور یوں بہت کم خرچ پر زیادہ منافع اپنی جیب میں لگا لیتے ہیں، جس کے باعث پاکستانی ہنرمندوں کو اِن کا جائز حق نہیں ملتا۔


بلندی پر دنیا کی سب سے طویل پختہ سڑک
Image
بلند ترین پہاڑوں اور دشوار حالات میں تعمیر ہونے والے قراقرم ہائی وے کو دنیا کی سب سے طویل پختہ سڑک ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ آٹھواں عجوبہ کہلائے جانے والے قراقرم ہائی وے پاکستان سے لے کر چین تلک پھیلا ہوا ہے جو ایبٹ آباد موڑ پر حسن ابدال سے شروع ہوکر زن جیانگ، چین میں داخل ہوجاتا ہے۔ خنجراب بائی پاس (گلگت بلتستان) کی 16 ہزار 2 سو فٹ کی بلندی پر تعمیر شدہ 806 کلو میٹر طویل بائی پاس خوبصورت نظاروں سے مالا مال ہے۔ بہتا ہوا دریائے سندھ اور اونچے برفیلے پہاڑوں کے حسین مناطر قراقرم ہائی وے پر سفر کا لطف دوبالا کردیتے ہیں۔ گلگت بلتستان میں ہائی وے سے کے ٹو کی اونچی چوٹی کا نظارہ بھی کیا جاسکتا ہے۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: وطن عزیز پاکستان کی چند ممتاز خصوصیات

Post by چاند بابو »

آبادی کے لیے اقوامِ متحدہ کے فنڈ کی پہلی خاتون سربراہ
Image
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی مشیرِ خاص اور ایشیاء میں خصوصی نمائندہ برائے ایچ آئی وی/ ایڈز، 88 سالہ خاتون پاکستانی ڈاکٹر نفیس صادق ہیں جن کے بارے میں بہت کم پاکستانی جانتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ وہ اقوامِ متحدہ کے فنڈ برائے آبادی (یونائیٹڈ نیشنز فنڈ فار پاپولیشن) المختصر ’’یو این ایف پی اے‘‘ (UNFPA) کی پہلی خاتون سربراہ رہی ہیں جبکہ اُن کی سربراہی کا زمانہ 1987ء سے 2000ء تک پھیلا ہوا تھا۔ ڈاکٹر نفیس صادق پاکستان کے پہلے وزیرِ خزانہ محمد شعیب کی سب سے بڑی بیٹی ہیں جنہیں خاص طور پر خواتین کی صحت اور بہبودِ آبادی جیسے شعبوں میں بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عمر رسیدگی کے باوجود وہ آج بھی اقوامِ متحدہ سے وابستہ ہیں اور مختلف اہم طبّی فرائص انجام دے رہی ہیں۔

سب سے زیادہ ہاکی ورلڈ کپ جیتنے کا اعزاز
Image
اگرچہ موجودہ دور میں ہاکی کے میدان میں پاکستانی ٹیم کی کارکردگی قابل ذکر نہیں ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ماضی میں قومی ٹیم نے اِس کھیل میں راج کیا ہے اور سب سے زیادہ چار عالمی مقابلے جیتنے کا اعزاز اِسی ٹیم کے پاس ہے۔ ہاکی کے عالمی مقابلوں کا آغاز 1971ء میں ہوا تھا، جس کا انعقاد اُس وقت سے اب تک مسلسل ہر چار سال بعد ہورہا ہے۔ اِن مقابلوں میں پانچ ٹیمیں یعنی پاکستان، آسٹریلیا، ہالینڈ، جرمنی اور بھارت صف اول کی ٹیمیں تصور کی جاتی ہیں لیکن پاکستان کا مقابلہ اب تک کوئی ٹیم نہیں کرسکی۔ اگر عالمی مقابلے جتنے کی بات کی جائے تو پاکستان چار بار فتحیاب ہوکر سرِ فہرست رہا ہے۔ اِس کے علاوہ ہالینڈ اور آسٹریلیا نے تین بار عالمی مقابلے جیتے جبکہ جرمنی اور بھارت نے بالترتیب دو اور ایک بار عالمی مقابلے اپنے نام کیے۔ پاکستانی ٹیم نے پہلا ورلڈ کپ 1971ء میں جیتا تھا جس میں اُس نے اسپین کو 0-1 سے شکست دی۔ دوسرا ورلڈ کپ قومی ٹیم نے ہالینڈ کو 2-3 سے ہرا کر جیتا۔ پھر قومی ٹیم نے 1982ء کے ورلڈ کپ میں اپنے اعزاز کا دفاع کیا جس میں اُس نے مغربی جرمنی کو 1-3 سے ہرا کر لگاتار دوسرا اور مجموعی طور پر تیسرا ورلڈ کپ جیت لیا۔ جبکہ چوتھا اور آخری ورلڈ کپ قومی ٹیم نے 1994ء میں جیتا جس میں ہالینڈ کو پنالٹی کِکس کی بنیاد پر شکست دی۔

دو مرتبہ آسکر ایوارڈ حاصل کرنے والی واحد پاکستانی
Image
کسی بھی فلم ساز کے لیے یہی سب سے بڑا خواب ہوتا ہے کہ اُس کی بنائی ہوئی فلم آسکر ایوارڈ کے لیے منتخب ہوجائے، اور یہ جیت جانا تو بہت بڑے اعزاز کی بات ہے، لیکن جب دو مرتبہ کسی کی فلم آسکر ایوارڈ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے تو اِس سے بڑھ کر خوشی اور فخر کی بات کوئی اور ہو نہیں سکتی۔ شرمین عبید چنائی بھی اُنہی فلم سازوں کی فہرست میں شامل ہیں جن کی فلموں نے بین الاقوامی سطح پر اپنے اثرات مرتب کیے اور ایک نہیں بلکہ دو فلمیں آسکر ایوارڈ جیتنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ دونوں ہی فلمیں پاکستان میں خواتین کے ساتھ ہونے والے ظلم کی بنیاد پر بنائی گئی ہیں۔ 2012ء میں ’سیونگ فیس‘ Saving Face نے ایوارڈ جیتا۔ اِس ڈاکیومینٹری کی کہانی پاکستان میں خواتین پر تیزاب پھینکنے کے گرد گھومتی ہے جبکہ 2016ء میں آسکر ایوارڈ جیتنے والی فلم ’آ گرل ان دی ریور – دی پرنس ہف فارگیونیس‘ A Girl in the River – The Prince of Forgivneness کا موضوع پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل ہونے والی خواتین ہیں۔ شرمین عبید چنائی نے صرف آسکر ہی نہیں بلکہ چھ (6) مرتبہ ’ایمی ایوارڈ‘ Emmy Awards اور ایک (1) مرتبہ ’لکس اسٹائل ایوارڈ‘ Lux Style Award بھی جیتا ہے۔ 2012ء اِس حوالے سے شرمین عبید کے لیے بہت یادگار ثابت ہوا کہ اِسی سال انہیں پہلی مرتبہ آسکر ایوارڈ بھی ملا اور اِسی سال حکومت پاکستان نے ­شرمین عبید شنائی کو ہلالِ امتیاز سے نوازا جو پاکستان کا دوسرا بڑا سویلین ایوارڈ ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اُسی سال بین الاقوامی جریدے ’ٹائمز میگزین‘ نے شرمین عبید شنائی کا نام دنیا کی 100 طاقتوار خاتون میں شامل کیا۔

دنیا کی قدیم ترین جامعہ
Image
ٹیکسلا میں موجود 2 سو صدی عیسوی میں تعمیر ہونے والی جولیاں کی خانقاہ کو دنیا کی قدیم ترین جامعہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ جہاں برصغیر ہندوستان، وسطی ایشیاء، جنوبی ایشیاء اور چین سے لوگ علم حاصل کرنے آیا کرتے تھے۔ ضلع ہری پور، خیبر پختونخوا میں پنجاب کی سرحد پر واقع ٹیکسلا شہر میں دنیا کی قدیم تہذیب کے آثار ملے ہیں، جس میں بدھ مت کی خانقاہ جولیاں بھی شامل ہے۔ وادی ٹیکسلا سے ملنے والی بدھ مت کی عبادت گاہوں کی زیادہ تر باقیات پہلی صدی عیسوی سے پانچویں صدی عیسوی تک کے زمانے سے تعلق رکھتی ہیں جنہیں 1980ء میں یونیسکو کی جانب سے عالمی ثقافتی ورثہ میں شامل کیا گیا۔
اسلام آباد سے تقریباً 35 کلومیٹر فاصلے پر موجود جولیاں کی خانقاہ 100 میٹر بلند اونچی پہاڑی پر واقع ہے۔ ٹیکسلا کی قدیم تہذیب کی باقیات کی تلاش کے لیے پہلی مرتبہ کھدائی برطانوی نو آبادیاتی دور میں آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا نے 1913ء میں شروع کی تھی جو 1934ء تک جاری رہی۔ پھر پاکستان بننے سے پہلے اور بعد میں بھی بہت سے مشہور یورپی اور پاکستانی ماہرین آثار قدیمہ یہاں کھدائی کرتے رہے، اور اب تک وادی ٹیکسلا میں کھدائی کے نتیجے میں تقریباﹰ دو درجن سے زیادہ اسٹوپے اور خانقاہیں دریافت ہو چکے ہیں۔

عالمی ایجنسی برائے ایٹمی توانائی میں بورڈ آف گورنرز کا بانی رُکن
Image
29 جولائی 1957ء میں جنیوا کے مقام پر اقوامِ متحدہ کے ایک خصوصی اجلاس میں ایٹمی توانائی کے پُرامن استعمال کے لیے ’’عالمی ایجنسی برائے ایٹمی توانائی‘‘ (آئی اے ای اے) کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ویسے تو ’’آئی اے ای اے‘‘ کے قیام سے متعلق دستاویز کی توثیق 56 ممالک نے کی تھی اور وہ سب کے سب اِس عالمی ادارے کے بانی ارکان قرار پائے مگر پاکستان اُن ممتاز ممالک میں شامل تھا جو اِس کے بورڈ آف گورنرز کے بانی ارکان بنے تھے۔ تب سے اب تک پاکستان کئی بار انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے بورڈ آف گورنرز کا ممبر رہ چکا ہے جو اقوامِ عالم میں کسی بھی ملک کے لیے ایک اہم اعزاز ہے۔ اِس سے ایٹمی توانائی کے پُرامن استعمال میں پاکستان کی دلچسپی بھی تاریخی طور پر ثابت ہوتی ہے۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: وطن عزیز پاکستان کی چند ممتاز خصوصیات

Post by چاند بابو »

دنیا کی سب سے کم عمر سرٹیفائڈ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ
Image
ویسے تو پاکستان کی ارفع کریم مرحوم کو دنیا کی سب سے کم عمر ترین مائیکرو سافٹ انجینیئر کا اعزاز حاصل ہے لیکن تعلیم کے میدان میں ایک اور اہم اعزاز بھی پاکستان کے پاس ہی ہے اور وہ اعزاز دنیا کی کم عمر ترین سرٹیفائڈ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہونے کا ہے۔ ایسوسی ایشن آف چارٹرڈ سرٹیفائڈ اکاؤنٹنٹس ایک بین الاقوامی ادارہ ہے جس سے سند لینے کے لیے 18 پرچوں میں کامیابی حاصل کرنا پڑتی ہے۔ یہ امتحان بھی برطانوی ہائی کمیشن کے زیرِ اہتمام برٹش کونسل لیتی ہے۔ کراچی کی سمیرا لاکھانی یونیورسٹی آف لندن سے قانون کی تعلیم حاصل کررہی ہیں لیکن اِس کے ساتھ ساتھ شہرِ قائد میں ہی ایک آڈٹ فرم کے ساتھ بھی منسلک ہیں۔ سمیرا نے 17 برس اور 8 ماہ میں اے سی سی اے کا امتحان پاس کیا ہے۔ یہ محض دعویٰ نہیں بلکہ بلکہ اے سی سی اے کی آفیشل ٹوئٹر اکاونٹ کے ذریعے اِس بات کا باقاعدہ اعلان بھی کیا گیا ہے۔ اگرچہ سمیرا کا خاندان سکھر سے تعلق رکھتا ہے، لیکن انہوں نے تعلیم کراچی سے ہی حاصل کی ہے۔

پاکستان کی منفرد پہچان ’ٹرک آرٹ‘
Image
یوں تو یہ جملہ ہم پاکستانی بہت ہی سنتے ہیں کہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں لیکن یہ محض ایک جملہ ہی نہیں بلکہ حقیقت بھی ہے۔ پاکستان میں مختلف قسم کے آرٹسٹ ہیں جن کی کاوشوں اور فن کی قابلیت کو دنیا بھر میں سراہا جاتا ہے لیکن پاکستان میں پائے جانے والے ’ٹرک آرٹ‘ کا ٹیلنٹ منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ ٹرک آرٹ کے حوالے سے پاکستان کی ایک الگ ہی پہچان ہے۔ اِس فن میں فنکار مختلف رنگوں سے کھیل کر رنگ برنگے اور منفرد نفیس ڈیزائن بناتے ہیں جن کی تعریف کیے بنا کوئی بھی نہیں رہ پاتا۔
ٹرک آرٹ سے نہ صرف پاکستان بلکہ برطانیہ اور امریکا سمیت دنیا بھر میں مسافر گاڑیوں اور در و دیوار کو بالکل دلہن کی طرح سجایا جاتا ہے۔ ٹرک آرٹ کے ماہرین نہ صرف دنیا بھر میں اپنے فن کا مظاہرہ کررہے ہیں بلکہ مختلف بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا نام روشن بھی کر رہے ہیں۔

ناول ’خدا کی بستی‘ کا منفرد کارنامہ
Image
اردو ادب کا شاہکار ناول ’خدا کی بستی‘ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اِس کتاب کے اب تک 50 ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں اور درجنوں زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ پاکستانی ادیب جناب شوکت صدیقی کی جانب سے نصف صدی قبل لکھے گئے ناول کو جو شہرت نصیب ہوئی اس کی مثال کم ہی دیکھنے میں آتی ہے۔ شوکت صدیقی کے اِس ناول پر مختلف جامعات میں تحقیقی مقالے بھی لکھے گئے ہیں۔ جب کہ اِس ناول کو 1960ء میں آدم جی ادب ایوارڈ کے علاوہ 2003ء میں کمالِ فن ایوارڈ سے بھی نوازا جاچکا ہے۔ خدا کی بستی قیام پاکستان کے بعد کے دشوار حالات کی کہانی ہے جس میں ہجرت کرکے آنے والوں کی آباد کاری، روزگار اور دیگر مسائل کا خوبصورتی سے احاطہ کیا گیا ہے۔ خدا کی بستی کی ڈرامائی تشکیل 1969ء میں ہوئی جس نے شہرت کی بلندیوں کو چھوا۔ جس روز یہ ڈرامہ نشر ہوتا تھا اُس روز شہروں کی سڑکیں سنسان ہوجایا کرتی تھیں۔ خدا کی بستی پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کو بھی پسند تھا یہی وجہ تھی کہ بھٹو صاحب نے پاکستان ٹیلی ویژن سے نشررِ مکرر کی درخواست کی لیکن ڈرامہ کی ریکارڈنگ محفوظ نہ ہونے کی وجہ سے 1974ء میں خدا کی بستی کی دوبارہ 13 اقساط میں ڈرامائی تشکیل کی گئی۔

جنوبی ایشیاء کا سب سے بڑا گردوں کی پیوندکاری کا مرکز
Image
سندھ انسٹیٹوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (SIUT) کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ جنوبی ایشیاء کا سب سے بڑا گردوں کی پیوند کاری کا مرکز ہے، یہی نہیں بلکہ SIUT کے آفیشل اعلامیے کے مطابق 2006ء میں 370 گردوں کی پیوند کاری کے آپریشن کے بعد اِس ادارے کو دنیا میں سب سے زیادہ گردوں کی پیوندکاری کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہوچکا ہے
SIUT کی بنیاد ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے 1970ء میں رکھی۔ ابتداء میں سندھ انسٹیٹوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن کا آغاز سول اسپتال کراچی کے ایک شعبہ کی حیثیت سے ہوا، لیکن بعد ازاں مخیر حضرات کے تعاون اور ڈاکٹر ادیب الحسن کی کوششوں سے گردوں کی پیوند کاری اور ڈائیلسسز کے لئے نئی عمارت کا قیام ممکن ہوسکا۔ 1991ء میں یہاں محض 10 سے 12 افراد کے گردوں کی پیوند کی جاتی تھی، لیکن اِس میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا اور گزشتہ برس یعنی 2016ء میں یہ تعداد 370 سالانہ تک پہنچ چکی ہے۔ 2003ء میں SIUT کے ڈاکٹرز کی ٹیم نے پاکستان میں جگر کی پیوندکاری کا پہلا تجربہ کیا اور 2004ء چائلڈ کئیر یونٹ کا قیام بھی عمل لایا گیا۔
ملک بھر سے مریضوں کی بڑی تعداد علاج کیلئے SIUT کا رخ کرتی ہے، جہاں مریضوں کا علاج جدید طریقوں کے ذریعے کیا جاتا ہے، ساتھ ساتھ یہاں ڈائلسسز، لیبارٹری کی سہولیات اور پیوند کاری سمیت گردوں کا تمام تر علاج مفت کیا جاتا ہے۔ صرف 2016ء میں یہاں پندرہ (15) لاکھ مریضوں کا مفت علاج کیا گیا ہے۔ انہی خدمات کی وجہ سے پاکستان سمیت پوری دنیا سے مخیر افراد اور فلاحی ادارے SIUT کو عطیات دیتے ہیں اور انہی عطیات کی بدولت تمام مریضوں کو طبی سہولیات بالکل مفت فراہم کی جاتی ہیں۔

مٹی سے بنا دنیا کا سب سے بڑا ڈیم
Image
یہ بات تو شاید ہر پاکستانی جانتا ہے کہ تربیلا ڈیم پاکستان کا سب سے بڑا ڈیم ہے جو لگ بھگ منگلہ ڈیم سے دگنی وسعت رکھتا ہے، جس کی مدد سے لاکھوں ایکڑ اراضی سیراب ہوسکتی ہے، لیکن اِس سے بھی بڑھ کر تربیلا ڈیم کی حیثیت یہ ہے کہ یہ مٹی سے بنا ہوا دنیا کا سب سے بڑا ڈیم ہے۔
تاریخ کے جھروکوں پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آزادی کے بعد یہ خدشہ پیدا ہوگیا تھا کہ اگر بھارت نے پانی بند کردیا یا سیلاب کے وقت پانی زیادہ چھوڑ دیا تو پاکستان کو پانی کی قلت کا بھی سامنا ہوسکتا ہے اور سیلاب کی کیفیت بھی طاری ہوسکتی ہے، اِنہی خطرے کے پیشِ نظر حکومت پاکستان نے بند بنانے کے لیے اٹک، کالاباغ اور تربیلا کے مختلف مقامات کا جائزہ لیا اور ماہرین سے مشورے اور مکمل تسلی کرنے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ بند تربیلا کے مقام پر دریائے سندھ پر بنایا جائے گا۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ بند کی تعمیر کے لیے فنڈ کہاں سے آئیں گے؟ انہی فنڈز کے حصول کے لیے عالمی بینک سے رابطہ کیا جس نے 1967ء کو فنڈ دینے کے لیے رضامندی کا اظہار کیا اور یوں بند کی تعمیر شروع ہوگئی۔ اگرچہ یہ بند 1971ء میں مکمل ہوگیا تھا لیکن اِس کا باقاعدہ آغاز 1977ء سے شروع ہوا۔
یہ مٹی سے بنا دنیا کا سب سے بڑا ڈیم پاکستان کے لیے سب سے بڑا ہائیڈل پاور اسٹیشن بھی ہے جو ساڑھے 3 ہزار میگاواٹ بجلی بھی پیدا کرتا ہے۔ اسلام آباد سے 50 کلومیڑ کے فاصلے پر ضلع صوابی، خیبر پختونخوا کے مقام پر واقع تربیلا ڈیم 485 فٹ اونچا اور 8 ہزار 9 سو 97 فٹ چوڑا ہے۔ تربیلا ڈیم کے قیام کا مقصد آب پاشی کے نظام کو بہتر کرنا اور سیلابی پانی کو روک کر ذخیرہ کرنا تھا، اور اب تک یہ ڈیم اپنے مقصد کو حاصل کرنے میں مسلسل کامیاب رہا ہے۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: وطن عزیز پاکستان کی چند ممتاز خصوصیات

Post by چاند بابو »

دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام
Image
جی ہاں، یہ بالکل ٹھیک بات ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام پاکستان میں ہی پایا جاتا ہے جہاں کی 43 فیصد آبادی کا پیشہ زراعت ہے اور ملک کے 47.03 فیصد رقبہ پر زراعت کی جاتی ہے۔ زرعی نظام کا بنیادی جزو پانی ہے اور قابلِ کاشت اراضی کو پانی فراہم کرنے کیلئے پاکستان میں نہری نظام تعمیر کیا گیا۔ دریائے سندھ پاکستان کے نہری نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ انگریز سرکار نے قریباً نصف صدی قبل مختلف مقامات پر دریائے سندھ سے نہریں نکال کر اور بند باندھ کر زرعی اراضی کو پانی فراہم کرنے کیلئے نہری نظام قائم کیا، جو آج دنیا میں سب سے بڑا نہری نظام مانا جاتا ہے۔ شاید اِسی سبب دریائے سندھ کو اباسین بھی کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں (دریاؤں کا باپ)۔
پاکستان میں موجود دنیا کے سب سے بڑے نہری نظام کے ذریعے 4 ملین ایکڑ زرعی زمین کو پانی فراہم کیا جاتا ہے جس پر گندم، چاول، پھل، سبزیاں، گنّا اور دیگر اجناس کاشت کی جاتی ہیں۔ اِس مقصد کیلئے دریائے سندھ پر تربیلا ڈیم کے علاوہ 85 چھوٹے بند، 19 بیراج، 45 نہریں، 12 رابطہ نہریں اور 7 لاکھ ٹیوب ویل قائم کئے گئے ہیں۔

ایشیاء کا پہلا لیپروسی کنٹرول ملک
Image
یہ 1958ء کی بات ہے جب پاکستان میں جذام کا مرض شدت اختیار کرنے لگا اور مریضوں کی مناسب دیکھ بھال، علاج اور آگاہی نہ ہونے کے باعث جذام پھیلنے کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔ اِسی دوران ایک جرمن خاتون رتھ فاؤ نے جب کوڑھ کے مرض میں مبتلا مریضوں کے متعلق ایک ڈاکیومینٹری فلم دیکھی تو لرز گئی اور انسانیت کی فلاح کی خاطر جرمنی سے کراچی چلی آئی۔ اِس حوصلہ مند خاتون نے کراچی ریلوے اسٹیشن میکلوڈ روڈ پر ایک چھوٹا سا جذام کنٹرول سینٹر قائم کیا اور اِس مرض میں مبتلا افراد کا علاج شروع کیا۔ بتدریج یہ سینٹر ترقی کرتا گیا اور 1965ء میں ایک اسپتال کی حیثیت اختیار کرگیا۔
جذام کے مرض کے خلاف رتھ فاؤ کی جانب سے شروع کی جانے والی مہم پاکستان میں جذام کے مرض کیخلاف اتنی زور و شور سے چلی کہ جذام کے علاج اور کنٹرول کیلئے 156 مراکز قائم ہوگئے۔ 1996ء میں پاکستان کو ’’لیپروسی کنٹرول‘‘ ملک قرار دیدیا گیا۔ یوں پاکستان ایشیاء کا پہلا ملک تھا جسے جذام سے پاک ملک قرار دے دیا گیا تھا، لیکن البتہ حالیہ برسوں میں اِس بیماری نے دوبارہ سر اُٹھایا ہے مگر اب یہ مکمل طور پر قابل علاج ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق پاکستان میں ہر سال اوسط 400 سے 500 نئے جذام کے مریض رجسٹرڈ ہوتے ہیں۔
اِس مرض کیخلاف کامیابی حاصل کرنے میں ڈاکٹر رتھ فاؤ کا کردار ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اُن کی اِسی خدمات کے صلے میں انہیں حکومتِ پاکستان نے 1988ء میں پاکستان کی شہریت عطا کی، جبکہ ہلال پاکستان، ستارہ قائداعظم، ہلال امتیاز اور جناح ایوارڈ بھی دیا گیا اور نشانِ قائداعظم سے بھی نوازا گیا۔ آغا خان یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹر آف سائنس کا ایوارڈ بھی دیا۔ 8 اگست 2017ء کو محسنِ پاکستان ڈاکٹر رتھ فاؤ سے جہاں سے سدھار گئیں۔

کم رقبے پر بھی سارے موسم
Image
رقبے کے اعتبار سے پاکستان دنیا کا 35واں بڑا ملک ہے جو 881,913 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ اپنی 20 کروڑ سے زیادہ آبادی کے ساتھ دنیا کا ساتواں سب سے گنجان آباد ملک بھی ہے لیکن بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ اپنے محلِ وقوع کے اعتبار سے پاکستان میں جتنے زیادہ اقسام کے موسم یعنی ماحولیاتی خطّے پائے جاتے ہیں، وہ اِس رقبے والے شاید کسی دوسرے ملک میں نہیں۔ پاکستان میں سطح سمندر سے لے کر 8 ہزار میٹر بلندی تک، ہر طرح کی آب و ہوا اور ماحول پائے جاتے ہیں۔ یہاں گرم صحرائی علاقے بھی ہیں اور میدانی علاقے بھی، سطح مرتفع بھی ہے اور بلند و بالا پہاڑی مقامات، خشک مقامات بھی ہیں اور ایسی جگہیں بھی کہ جہاں سال کے بیشتر حصے میں بارش یا برف باری ہوتی رہتی ہے۔ اِس متنوع فیہ ماحول کی مناسبت سے پاکستان میں نباتات (پودوں، درختوں، جھاڑیوں) اور جانوروں کی لاکھوں اقسام پائی جاتی ہیں جن پر تحقیق کرکے بیش بہا فائدے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں بایوٹیکنالوجی ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر ضابطہ خان شنواری اس بارے میں کہتے ہیں: ’’پاکستان اپنے ماحول اور نباتات و حیوانات (flora and fauna) کے اعتبار سے جس قدر مالا مال ہے، اِس پر تحقیق کرکے اور فائدے حاصل نہ کرکے بھی ہم دراصل کفرانِ نعمت ہی کے مرتکب ہورہے ہیں۔‘‘

ایشاء کی سب سے بڑی عارضی مویشی منڈی
Image
ہر سال کراچی میں قائم ہونے والی عارضی مویشی منڈی کو ایشیاء کی سب سے بڑی مویشی منڈی ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ عید قرباں کیلئے ذی الحج سے ایک ماہ قبل ہی کراچی میں سپر ہائی وے، سہراب گوٹھ پرعارضی منڈی قائم کی جاتی ہے جس میں ملک بھر سے مختلف جانور لائے جاتے ہیں۔ سات سو ایکڑ سے زائد رقبے پر محیط منڈی میں اعلیٰ نسل کے بکرے، گائے، دنبے اور اونٹ رکھے جاتے ہیں۔ یہاں اونٹوں کیلئے الگ حصہ مختص ہے جہاں تھر کے خاص اونٹ بھی لائے جاتے ہیں جن کے جسم پر خوبصورت نقش و نگار بنے ہوتے ہیں۔
گزشتہ برسوں کے اعداد و شمار کے مطابق اِس منڈی میں 3 لاکھ جانور لائے جاتے ہیں جن میں پونے دو لاکھ بڑے اور سوا لاکھ چھوٹے جانور لائے جاتے ہیں۔ یہاں لائے گئے جانور کی قیمت 20 ہزار سے 25 لاکھ کے درمیان ہوتی ہے۔ گزشتہ برسوں سے اِس منڈی میں کاروباری حضرات کی خاص دلچسپی کی بدولت ملک کے بہترین فارموں میں پلے اعلیٰ نسل کے جانور لائے جاتے ہیں، جن کا قد و قامت اور وزن کے تناسب سے قیمتوں میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ تجارتی مفادات بڑھنے کی وجہ سے منڈی میں جگہ کی قیمت بھی بڑھ گئی ہے۔ فارم ہاؤس کے جانور وی آئی پی ٹینٹ میں رکھے جاتے ہیں جن کا کرایہ ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے ہے۔ لوگ دور دراز سے اِن طویل القامت اور بھاری بھرکم جانوروں کو دیکھنے آتے ہیں جن کو دودھ، مکھن، دیسی گھی اور میوہ جات کھلا کر فروخت کیلئے پیش کیا جاتا ہے۔

دالیں پیدا کرنے والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک
Image
دالیں ہماری غذا کا اہم ترین حصہ ہیں۔ ماہرین غذائیت کے مطابق دالیں، گوشت کا نعم البدل ہیں اور پروٹین حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں۔ سب سے اہم ترین بات یہ کہ پاکستان دنیا بھر میں دالوں کی پیداوار میں بھارت کے بعد دوسرا بڑا ملک ہے۔
محکمہ زراعت پنجاب کے مطابق پاکستان میں 1.5 ہیکٹر رقبہ پر دالیں کاشت کی جاتیں ہیں جو کہ کُل زیرِ کاشت رقبہ کا 6.7 فیصد حصہ ہے۔ پاکستان میں تقریباً تمام ہی اقسام کی دالیں کاشت کی جاتی ہیں جن میں چنا، مونگ، مسور، ارہر قابلِ ذکر ہیں۔ ہمارے ملک میں مونگ کی دال کی مانگ زیادہ ہے اور اِس وجہ سے مونگ کی اوسط پیداوار تقریباً سات من فی ایکڑ ہے۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ میگنیشیم کی کمی دل کے امراض کا سبب بنتی ہے اور دالوں کے استعمال سے اِس کی کمی پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ دالوں میں موجود فائبر خون میں کولیسٹرول کا لیول کم کرتا ہے جبکہ دالیں شوگر کے مریضوں کے لئے بھی انتہائی مفید ہیں۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: وطن عزیز پاکستان کی چند ممتاز خصوصیات

Post by چاند بابو »

ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی، پی سی ایس آئی آر اور نیم
Image
پاکستان کے ممتاز کیمیاداں، مصور اور ادبی ناقد ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی نئی نسل کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ ڈاکٹر سلیم الزماں بھارتی ضلع بارہ بنکی میں 19 اکتوبر 1897ء کو پیدا ہوئے اور جرمنی میں یونیورسٹی آف فرینکفرٹ سے ڈاکٹریٹ کرنے کے بعد انڈین کونسل فار سائنس اینڈ انڈسٹریل ریسرچ سے وابستہ ہوئے۔ ہجرت کے بعد پاکستان کونسل فار سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ کی بنیاد رکھی اور ملک میں صنعتی ترقی کے لیے بہترین ادارے قائم کئے۔ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی نے اپنی زندگی میں 300 سے زائد تحقیقی مقالے لکھے اور 40 سے زائد ادویہ یا مرکبات کی پیٹنٹ اپنے نام کیں جن میں نیم سے حاصل ہونے والے اجزاء سرِفہرست ہیں۔ انہوں نے ہولرینا پودوں پر غیرمعمولی تحقیق کی جن سے دل، دماغ اور بلڈ پریشر کے امراض کی علاج کی راہیں ہموار ہوئیں۔ بین الاقوامی کمپنیوں نے اِس دریافت سے خطیر رقم کمائی۔ ڈاکٹر صاحب کی انہی خدمات کے نتیجے میں 1966ء میں انہیں ’بابائے ہولرینا کیمیا‘ کا خطاب دیا گیا۔ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی نے انتخابات میں استعمال ہونے والی انمِٹ سیاہی کا فارمولا بھی بنایا جو آج تک استعمال ہورہا ہے۔ ملک کو سائنسی بنیادوں پر اپنے پیروں پر کھڑا کرنے والا یہ درویش صفت سائنسداں جب 14 اپریل 1994ء کو اِس دنیا سے رخصت ہوا تو رہائش کے لیے اپنا ذاتی مکان تک نہ تھا۔

ڈیرہ غازی خان کی شاہراہِ حیرت
Image
ڈیرہ غازی خان سے فورٹ منرو جانے والی شاہراہ لگ بھگ 80 کلومیٹر طویل ہے لیکن ارضیاتی اور معدنی خزانوں سے مالا مال ہے۔ جیسے ہی آپ ڈیرہ غازی خان سے روانہ ہوتے ہیں تو پہلے اِس روڈ کے دونوں اطراف چھوٹی مشینیں دکھائی دیتی ہیں جو سڑک اور عمارات تعمیر کرنے والے اہم کنسٹرکشن مٹیریل کو چھوٹے پتھروں میں ڈھالتی ہیں۔ یہ معیاری مٹیریل عمارت، سڑکیں اور پل وغیرہ بنانے میں استعمال ہورہے ہیں۔ اسی پہاڑی سلسلے میں سیمنٹ بنانے کا اہم جزو جپسم بکثرت موجود ہے جو قریبی سیمنٹ فیکٹریوں کوفراہم کیا جارہا ہے۔ اِس کے علاوہ چونے کے پتھر کے اہم ذخائر بھی یہاں پائے جاتے ہیں۔
یہ علاقہ پاکستان بھر میں یورینیم کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے۔ اگرچہ اِس روڈ پر یورینیم کی کم مقدار والی سرمئی مٹی دکھائی دیتی ہے تاہم اِس سے قریب بغل چُور کے علاقے میں اعلیٰ یورینیم کے ذخائر موجود ہیں۔ اِس سے آگے بڑھیں تو اِسی روڈ پر تیل و گیس کے ذخائر بھی اپنی شان دکھاتے نظر آتے ہیں۔ ایک مقام پر پہاڑ کے درمیان میں کتھئی رنگ کی ایک پٹی دیکھی جاسکتی ہے جسے ’کے ٹی‘ یعنی (کرے ٹیشیئس-ٹیریٹری) باؤنڈری کہا جاتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جو اب سے ساڑھے چھ (6.5) کروڑ سال قبل ایک عظیم سانحے کی یاد دلاتا ہے جس سے ڈائنوسار صفحہ ہستی سے مٹ گئے تھے۔ اب تک کی تحقیق کے مطابق آسمان سے گرنے والے ایک شہابِ ثاقب کی وجہ سے ڈائنوسار ختم ہوئے تھے۔ کے ٹی باؤنڈری کے آثار پوری دنیا میں موجود ہیں لیکن فورٹ منرو میں یہ بہت اچھی طرح نمایاں ہیں۔ یہ روڈ دنیا کا ایک عجوبہ ہے جہاں ایک ہی مقام پر اتنی ساری معدنیات اور ارضیاتی خزانے موجود ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں ماربل، کوارٹز اور دیگر اہم معدنیات بھی بکثرت پائی جاتی ہیں۔

پاکستان کی ہوائی شاہراہ
Image
سندھ میں جھمپیر اور گھارو کے اطراف میں پاکستان کی سب سے تیز ہوا چلتی ہے جسے سندھ شاہراہِ باد (وِنڈ کوریڈور) کا نام دیا گیا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق یہاں اب تک 50 سے زائد ہوائی ٹربائن لگائی جاچکی ہیں اور ہر ٹربائن اوسطاً ایک سے ڈیڑھ میگا واٹ بجلی بناتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پہلے یہاں ترک کمپنی زورلو انرجی نے ٹربائن لگانے کا آغاز کیا اور اب قریباً تین چار کمپنیاں ٹربائن لگارہی ہیں۔ تمام تر سست رفتاری اور عدم تشہیر کے باوجود سندھ ونڈ کوریڈور کو دنیا بھر میں صاف اور سستی بجلی بنانے کا ایک اہم مرکز تسلیم کرلیا گیا ہے۔

قدیم مہر گڑھ کی قدیم ٹیکنالوجی جو آج بھی استعمال ہورہی ہے
Image
گزشتہ برس سائنسی حلقوں میں ایک خبر نے پاکستان کی زبردست اہمیت کو مزید اجاگر کیا۔ فرانس کے ماہرین نے اعلان کیا کہ بلوچستان میں سبی کے مقام پر مہر گڑھ کے آثار سے ایک پینڈنٹ نما شے 25 برس قبل دریافت ہوئی تھی۔ اب جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے معلوم ہوا ہے کہ یہ دنیا کا اولین نمونہ ہے جو دھات کاری (میٹالرجی) کی ایک خاص تکنیک ’لاسٹ ویکس کاسٹنگ‘ کے ذریعے بنایا گیا ہے۔
مندرجہ ذیل تصویر میں دکھائی دینے والی یہ چیز شاید نظرِ بد سے بچنے کے لیے یا پھر زیور کے طور پر بنائی گئی تھی۔ خالص تانبے سے بنی اِس شے کو پہلے موم سے بنایا گیا پھر اِس سخت موم کو نرم گارے کے دو ٹکڑوں کے درمیان سینڈوچ کی طرح دبا دیا گیا اور مٹی کے ٹھیکرے کو دھوپ میں سکھا کر سخت کردیا گیا تھا۔ اِس طرح موم خدوخال کا ایک سانچہ وجود میں آگیا ۔ آخری مرحلے میں ایک باریک سوراخ کرکے پگھلا ہوا تانبا اندر ڈالا گیا جس نے موم کو پگھلا کر غائب کردیا اور یوں تانبے کا بے جوڑ لیکن پیچیدہ پینڈنٹ وجود میں آگیا۔ یہ ٹیکنالوجی ’لاسٹ ویکس کاسٹنگ‘ کہلاتی ہے جو ’انویسٹمنٹ کاسٹنگ‘ کے نام سے اب بھی استعمال ہورہی ہے۔ یہاں تک کہ امریکی خلائی ادارہ ناسا بھی یہ تکنیک استعمال کررہا ہے۔

پاکستان میں عطیہ برائے سائنس کا دائرہ
Image
اگرآپ جامعہ کراچی میں واقع حسین ابراہیم جمال (ایچ ای جی) ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف کیمسٹری سے تین کلومیٹر کا ایک دائرہ کھینچیں تو اُس میں چار سے پانچ اہم سائنسی تحقیقی ادارے ایسے آجائیں گے جو مخیرحضرات کی جانب سے عطیہ کردہ رقم سے بنائے گئے ہیں اور اب تمام ادارے بین الاقوامی شہرت رکھتے ہیں۔ اِن اداروں میں سب سے پہلے خود ایچ ای جے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف کیمسٹری شامل ہے جو کراچی کے ایک صنعتکار لطیف ابراہیم جمال کی جانب سے 50 لاکھ روپے کی خطیر رقم سے (1970 کے عشرے میں) تعمیر کیا گیا۔ اب یہ ادارہ دنیا بھر میں کیمیا پر اعلیٰ ترین تحقیق کے حوالے سے مشہور ہے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران اس کے پہلو میں ایک اور مخیر پاکستانی کے عطیے سے ’’ڈاکٹر پنجوانی سینٹر فار مالیکیولر میڈیسن اینڈ ڈرگ ریسرچ‘‘ قائم کیا گیا۔ ان دونوں اداروں کو کچھ ہی عرصے میں یکجا کرکے ’’انٹرنیشنل سینٹر فار دی کیمیکل اینڈ بایولوجیکل سائنسز‘‘ (آئی سی سی بی ایس) قرار دے دیا گیا جو نہ صرف عالمِ اسلام بلکہ دنیا بھر میں حیاتی و کیمیائی تحقیق کا اہم مرکز بن چکا ہے۔ صرف ڈھائی سال کے قلیل عرصے میں یہاں کے ماہرین نے 24 کے قریب پیٹنٹ اپنے نام کی ہیں اور پاکستان بھر میں 350 سے زائد صنعتیں اِس ادارے کی تحقیقات سے فائدہ اٹھارہی ہیں۔
ایچ ای جے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے قریب ہی ڈاکٹر عبدالقدیر خان انسٹی ٹیوٹ آف بائیالوجی اینڈ جینیٹک انجینیئرنگ (کے آئی بی جے آئی) واقعہ ہے جسے پاکستان کے ممتاز ایٹمی سائنسداں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی ذاتی کاوشوں اور مالی امداد سے تعمیر کیا گیا ہے۔ اِسی طرح این ای ڈی یونیورسٹی میں کاوس جی ارتھ اسٹڈی سینٹر قائم کیا گیا ہے جسے ممتاز کالم نگار اور دانشور اردشیر کاوس جی کی ذاتی مالی مدد کے بعد قائم کیا گیا ہے۔ اِس مرکز میں زلزلہ برداشت کرنے والی عمارتوں اور مختلف مادوں پر بھی تحقیق کی جارہی ہے۔ یہ ادارے پاکستان میں عطیہ برائے سائنس کی زبردست مثال ہیں۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Post Reply

Return to “پاک وطن”