کرمو

اردو زبان میں لکھے گئے مضامین پرمبنی کتب
Post Reply
وارث اقبال
کارکن
کارکن
Posts: 69
Joined: Wed May 30, 2012 10:36 am
جنس:: مرد

کرمو

Post by وارث اقبال »

کرمو
بارش بارش ہوتی ہے سردی کی ہو یا گرمی کی ۔ جب نہیں آتی تو مانگ مانگ کر لانا پڑتی ہے اور جب آ کر نہیں جاتی تو ہاتھ جوڑ کر واپس بھیجنا پڑتی ہے۔ تین دن ہوگئے تھے ایسی برس رہی تھی کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ لگتا تھا کہ آسمان کا سارا پانی بہہ جائے گا، دریا اور سمندر اُچھل پڑیں گے اور سب پانی کی نذر ہو جائےگا۔
کوئی اسے طوفان کہہ رہا تھا ،کوئی قہرِ خداوندی اور کوئی گناہوں کی سزا۔
کوئی کہتا، ’’ جمعرات کی جھڑی ہے کچھ کر کے ہی تھمے گی۔‘‘
کوئی کہتا، ’’ شکر ہے موسم بدلا ۔‘‘
کوئی کہتا ،’’ کھل کر برس لے یہ ناک گلے تو ٹھیک ہوں گے نا۔ ‘‘
کوئی کہتا، ’’ فصل کے لئے بہت اچھی ہو گی۔ ‘‘
کسی کے لئے یہ بارش کچھ بھی ہو لیکن کرم دین کے لئے تو یہ قہر اور عذاب سے کم نہ تھی۔ جس کی جھونپڑی کی چھت سسک سسک کر چلانے پر آ گئی تھی۔ کرمو کے گھر کے سارے برتن روتی چھت کے سوراخوں کے نیچے رکھتے رکھتے ختم ہو گئے تھے۔ ایک سوراخ کے نیچے بالٹی آئی تو دوسرے کے نیچےدیگچی۔ جب برتن ختم ہو گئے تو وہ اپنے بچوں کو لے کر کبھی ایک کونے میں چھپ رہا تھا تو کبھی دوسرے میں۔ لیکن کوئی کونہ ایسا نہ تھا جہاں اُسے امان ملتی۔
جب سڑکیں دریا بننے لگیں،کھیت کھلیان تالابوں کا نقشہ پیش کرنے لگے، گٹروں کا پانی گھروں کے کمروں تک پہنچنے لگا تو مؤذنوں کو بھی خیال آیا اورمسجدوں سے اذانیں بلند ہونے لگیں۔ لیکن بارش کے فرشتوں کو تب بھی رحم نہ آیا شاید وہ کہہ رہے ہوں، ’’ پہلے سوئے ہوئے تھے کیا۔‘‘
جب آسمان کا سارا پانی نچڑ گیا اور آخری قطرہ بھی زمین تک پہنچ گیاتو سورج نے اپنا رُخِ زیبا دکھاناشروع کر دیا۔ لوگ اپنے اپنے کام پہ نکلے۔ کرمو نے اپنے بیٹے کو اُٹھایا اور جاکر سیٹھ لالہ کے گھر کے باہر لگی ہوئی ایک قطار میں لگ گیا۔
سیٹھ لالہ اُس بھٹہ کا مالک تھا جہاں کرمو کام کرتا تھا۔ کرمو چار نسلوں سے سیٹھ لالہ کے خاندان کا اطاعت گزار تھا۔ سیٹھ لالہ کا خاندان اتنا غریب نواز تھا کہ جب بھی کبھی کسی کو ضرورت پڑتی سیٹھ لالہ فوراً پوری کر دیتا۔ اُس کے پاس اُ س کے اطاعت گزاروں کے کھاتے موجود تھے۔ ادھر مال ضرورت مند کے ہاتھ میں ادھر کھاتے میں اندراج ۔ وہ تھا بڑا صاف گو، اُسی وقت بتا دیتا کہ کُل کتنا ہو گیاہے۔ یوں نہ ضرورت مندوں کی ضرورتیں ختم ہوتیں اور نہ ان کھاتوں کی بھوک مٹتی۔
’’ لالہ! بچہ بیمار ہو گیاہے اور چھت بھی خراب ہو گئی ہے۔۔۔‘‘ جب کرمو کی باری آئی تو اُ س نے آقا اور مولا کے حضور عرض کی۔
’’ تیرا بچہ میرا بچہ کرمیا… جا اس کا علاج کروا اور یہ ٹھیک ہو گا تو تُوٹھیک کام کر سکے گا نا۔۔ بتا کتنے میں گزارا ہو جائے گا۔‘‘ اُس نے کرموسے اپناہاتھ چھڑاتے ہوئے پوچھا۔
’’ حضور! پانچ ہزار ۔‘‘ کرمو نے مزید آگے بڑھتے ہوئے کہا،
’’ یہ تو بہت زیادہ ہیں۔۔۔۔‘‘ لالہ نے کچھ سوچا اور پھر اپنے پیچھے کھڑے ایک اور کارندے سے مخاطب ہوا۔
’’ اوے الہی بخش! تو اس طرح کر نا گاڈر اور ٹائیلیں ادھر سے اُٹھا کر کرمے کے گھر پہنچا۔۔ اس کی چھت تو پکی ہو نہ ۔۔۔ کیوں کرمیا ٹھیک ہے نا۔‘‘
’’ جی سائیں جو حکم ۔۔۔۔‘‘ کرمو کی سوچ اتنی کہاں کہ وہ سمجھتاا ور کچھ جواب دیتا۔
’’ اچھا یہ لو دو ہزار روپے بچے کا علاج ولاج کروا لو۔۔۔‘‘ لالہ نے دوہزار دیتے ہوئے کہا تو کرمو نے دعائیں دینا شروع کر دیں۔
’’ اوئے نہ نہ۔۔۔ اے سارا اللہ کا دیا ہوا ہے ۔۔۔ میں کمینہ کون ہووے ۔۔۔ تیرے پیسے ہیں۔۔ تو ہی واپس کرے گا نا ۔۔۔۔ اوئےچیمیا! دس کُل حساب۔‘‘ اُس نے اپنے قریب ہی بیٹھے ایک کھاتا بردار کو حکم دیا۔
’’ یہ بیس ہزارڈال کے کل تین لکھ ہو گیاہے۔‘‘ چیمہ نے بتایا تو کرمو کے منہ سے فوراً نکلا، ’’ تین لکھ جی۔ ‘‘
پھر اُس نے خود ہی حساب کیا اور خود ہی جواب دیا۔ ’’ کاکو کی شادی ۔۔۔۔۔۔ ریشماں کی بیماری۔۔۔۔ اچھا ٹھیک اللہ سلامت رکھے میری زندگی وی ۔۔۔‘‘ لالہ نے جملہ مکمل نہیں ہونے دیا جیسے اُس نے سوچا ہو یہ کیا دعا ہوئی اپنی کربوں ماری زندگی ہمیں دے رہا ہے، ’’ نہیں اس کی ضرورت نہیں بس اپنا اور اپنی گھر والی کا خیال رکھنا۔۔‘‘
’’ اللہ آپ کو سلامت رکھے آپ کی نسلوں کو آباد رکھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ کرمو کو نہیں پتہ تھا کہ لالہ سیٹھ کو دی جانے والی ساری دعائیں اُس کی اپنی نسلوں کے لئے بددعائیں ہیں۔
غریب کے لئے نہ بارش اچھی نہ دھوپ۔ کھل کر برسنے کے بعد دھوپ بھی کھل کر برس رہی تھی۔ اینٹوں کے بھٹے کے پیچھے دور تک کچی اینٹیں اس طرح ترتیب سے رکھی گئی تھیں جیسے کسی گاہک کے لئے سجا کر رکھی گئی ہوں ۔ بعض جگہوں پر تو اُ ن کے مختلف ڈیزائن بنائے گئے تھے انہی ڈیزائنوں میں کرمو کا خاندان تھوڑی تھوری دوری میں اینٹیں بنانے میں مصروف تھا۔ اُن کے سروں اور سورج کی تیز آگ کے درمیان فقط دوپٹے اور صافے تھے۔
کرمو کی جوان بیٹی صغراں اپنی ماں کےقریب ہی بیٹھی اینٹیں تھوپ رہی تھی۔ وہ اینٹیں کم تھوپتی گرمی دانوں سے بھرے جسم کو زیادہ کھرچتی۔ گرمی دانے بارش کی بعد کی دھوپ میں آگ کے انگارے بن گئے تھے۔
بیٹی کو اپناجسم کھرچتے دیکھ کر ماں کی ممتا جاگ گئی۔
’’ کیوں ماس اُتار رہی ہے اپنا۔۔اس مرجانے پر پانی کے دو ڈبے کیوں نہیں ڈال لیتی۔‘‘
’’ پانی بھی کون سا نزدیک ہے ۔۔۔ سب چھوڑ کر جاؤں نہر پر۔۔۔خود ہی ٹھیک ہوجائے گا۔ ‘‘ اُس نے اپنے دوپٹا نما کپڑے کے ٹکڑے سے منہ صاف کرتے ہوئے کہااور دوپٹہ سر سے منہ کی طرف کھینچ کر اپنے چہرے کو سورج کی ظالم آگ سے بچانے کی کوشش کی ۔ مگر ململ کا دوپٹۃ کیا کرتا سورج اُس کے اندر سے آکر چٹکیاں کاٹ رہا تھا۔
ماں اپنی بیٹی اور سورج کی اس جنگ کو دیکھ رہی تھی۔ دوپٹہ کیا حفاظت کرتا۔۔ اس لیر نے کیا حفاظت کرنی ہے۔۔ اس نے سوچا اور ایک نیا مشورہ داغ دیا۔
’’ چل جا لالہ کے ڈیرے پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ ماںکاجملہ چھین کر وہ بولی
’’ نہ میں نہ وہاں جاؤں ۔۔۔۔بڑے کتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ ۔۔۔۔‘‘
ماں نے نے ایک ہلکے سے انداز میں ’’ ہوں ‘‘ کہا اور ڈائی میں مٹی ڈالنے لگی۔ جیسے وہ خود بھی کتوں سے ڈر کر بھاگی ہو یا شاید شکار رہی ہو۔
ماں۔۔۔۔ وہ دیکھو بھائی بھی آ گیاہے۔‘‘ صغراں نے اچانک بھائی کو باپ کے پاس بیٹھا دیکھ کر کہا۔
’’ پتہ نہیں تمہیں اس آستانے سے کیا ملتا ہے۔۔۔نہ گھر کا خیال نہ بہن بھائیوں کا۔۔۔۔‘‘
کرمو اپنے بڑے بیٹے بوٹے کو سمجھا رہا تھا۔جو دو دن گھر سے باہر رہنے کے بعد گھر لوٹا تھا۔
’’ اسے کہو جائے اپنے اُس سائیں کی بغل میں بیٹھ جائے۔۔۔۔نکال اس حرام خور کو۔۔ نہ گھر کا پتہ نہ باہر کی فکر۔۔۔۔ ایسے ناہنجار کو تو کنجر بھی اپنے پاس نہ رکھیں۔ ‘‘
اُس کی ماں نے اُسے باپ کے پا س بیٹھا دیکھ کردور ہی سے لعنت ملامت شروع کر دی۔
’’ اس حرام خور کو تو یہ بھی پتہ نہیں کہ جوان بہن بیٹھی ہے کب تک ساکھ مہلت پہ مہلت دیتے رہیں گے۔ ‘‘
دونوں باپ بیٹا نے اُ س کی لے دے کو نظرانداز کر دیا۔
’’ دیکھ پُتر بیس ہزار اینٹیں دینی ہیں اور چار دن ہیں۔۔۔۔ ونگار منگوا کہیں سے ورنہ پیسے کٹ جانے ہیں۔ ‘‘
’’ ونگاری بھی تو پیسے لیتے ہیں وہ کہاں سے دیں گے۔۔۔۔ ‘‘
’’ ہیں کچھ میرے پاس۔۔۔‘‘
جب کرمو کی بیوی نے خو د کو نظرا نداز ہوتے دیکھا تو وہ بھی انہیں کے پاس چلی آئی۔
’’ اماں تو صغراں کی فکر نہ کر۔۔۔میں پیر سائیں سے کہوں تو وہ سارا لیڑا لتا اپنے گھر سے نکال کر مجھے دے دیں۔ ‘‘ بوٹے نے ماں کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کو شش کی لیکن وہ تو پتہ نہیں کب کا پلا ہو اغصہ نکالنے آئی تھی۔
’’ بس رہن دے رہن دے دیکھے ہیں بڑے سائیں ۔۔۔۔۔۔۔‘‘
پھر وہ کرمو سے مخاطب ہو کر بولی ، ’’ کرمیا بس اب دیر نہ کر جلدی کوئی انتظام کر لے یہ نہ ہو پکی پکائی فصل صور اُجاڑ جائیں ۔۔ پھر ہاتھ ملتا رہ جائے گا۔ ‘‘
’’ اچھا میں صبح ہی پیر سائیں کے آستانے پر جاتاہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
اگلے دن دونوں باپ بیٹا آستانے سے خالی ہاتھ واپس لوٹے۔۔۔۔۔۔ دونوں کے ہاتھ خالی تھے لیکن دماغ پیر سائیں کی باتوں سے بھرا ہوا تھا۔
پیر سائیں نے پہلے تو کہا کہ بندش ہے کسی نے کچھ کیاہے ۔ بندش توڑنے کے لئے اُس نے کچھ تعویذ دئیے۔لیکن جب کرمو نے مالی امداد کےلئے اصرار کیاتو پیر سائیں جلال میں آ گئے،
’’ تم مسلی کے مسلی ہی رہے۔ تمہیں یہ نہیں پتہ کہ آستانوں پہ آ کر دعائیں کرتے ہیں ، بزرگوں سے فیض لینے کے لئے اُن کی خدمت کرتے ہیں ۔۔۔ ہم یہاں کوئی نوٹوں کی گڈیاں لے کر بیٹھے ہیں۔ جا وہاں سےپیر سائیں کا نمک چاٹ لے اور گھر بھی لے جا۔ ہانڈی میں ڈال دینا اللہ رزق میں برکت دے گا۔‘‘
بوٹے کو باقی ساری باتیں تو ہضم ہو گئی تھیں یہ مسلی والی بات ہضم نہ ہوئی تھی۔۔۔۔۔جب اُس کا دماغ جواب دینے سے قاصر ہو گیا تو اُس نے ابے سے پوچھ ہی لیا۔
’’ ابا یہ مسلی ہونا گالی کیوں ہے۔۔۔میرے بھی دو ہاتھ۔۔ پیر سائیں کے بھی دو۔۔۔ میری بھی دو آنکھیں ۔۔۔ اُن کی بھی دو سارا وجود ایک جیسا۔۔۔ ضرورتیں ایک جیسی تو پھر ایک طرف گالی اور دوسری طرف قصیدہ کیوں۔۔۔۔‘‘
’’ بیٹا یہ تقدیر کے فیصلے ہیں ۔۔۔وہ ۔۔وہ ۔۔ہیں اور ہم ہم ۔۔۔۔ زمین زمین ہوتی ہے اور آسمان آسمان۔ ‘‘
’’ ایسا نہیں ہے ابا مجھے بتایا ہے سب کچھ اُ س بابو نے جو آستانے پہ آیا تھا۔ ‘‘
’’ ہیں ۔۔ کیا بتایا تھا۔‘‘
’’ بہت کچھ ۔۔۔۔ بس یہی کہ یہ سب چور ہیں ، ڈاکو ہیں ۔۔۔۔ کہاں سے اُٹھ کر آئے۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چُوڑے مُسلی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غاصب ۔۔‘‘
بوٹا ایک پڑھے لکھے نوجوان کی طرح اپنے باپ کو تاریخ بتا رہا تھا اور باپ کے جسم کے روئے روئے میں ہلچل مچی ہوئی تھی کیونکہ وہ تاریخ کے اوراق پر گرے ہوئے لہوسے واقف بھی تھا اور اُسے اس بات کا ادراک بھی تھا کہ ان اوراق کا ایک ایک لفظ خونی قہر سے کم نہیں۔۔جو اِن اوراق پر لکھے ہوئے حرفوں کی صداقت کی کھوج میں نکلا وہ واپس نہ آیا۔۔۔
اُس نے بوٹے کو روکتے ہوئے کہا،
’’ نہ اوئے بوٹے ایسی باتیں نہ کر ۔۔۔ او یہ باتیں اونچی آواز میں کرنے کی نہیں ۔۔۔۔گائے کے گلے میں اس لئیے رسی ہوتی ہے کہ اُس نے رسی کوقبول کر لیا ہوتا ہے اور رسی کو وہ قبول کرتا ہے جو لڑنے کی طاقت نہ رکھتا ہو۔۔۔۔۔۔۔ اس لئیے اس رسی کو ، اس غلامی کو اپنا مقدر سمجھ ۔۔۔‘‘
’’ اب مجھے ہوش آگئی ہے ابا ۔۔۔ اور میں تجھے بتا دوں میں تو یہ رسی توڑ کر رہوں گا۔۔۔۔‘‘ بوٹے نے دانت پیستے ہوئے کہا۔
’’ ایسانہیں سوچتے بیٹا۔۔۔ اپنے بھائی کو دیکھ اور اپنی بہن کو ۔۔۔۔۔‘‘

صغراں کے سسرالی اب دن مانگ رہے تھے۔کرمو پھر اپنے مالک لالہ سیٹھ کے حضور حاضر ہوا لیکن ا س دفعہ اُسے سننے کو صاف انکار ملا۔ البتہ لالہ نے پیش کش کر دی کہ صغراں کو ڈیرے پر بھیج دیا کرو جوخدمت وہ کرے گی اُس کا ماہانہ عوضانہ ادا کر دیا جائے
گا ۔
ہر طرف سے ناکام ہو کر کرمو نے ایک بڑا فیصلہ کیا۔ جو ا س وقت سارے مسئلوں کا حل تھا۔
کرمو کا ایک چچیرہ بھائی یہاں سے دو تین گاؤں دور ایک اور بھٹہ پر کام کرتاتھا ۔ وہ وہاں پہنچا اپنے بھائی کو ساری صورتِ حال بتائی اور وہاں کے بٹہ مالک سیٹھ عبداللہ کے پا س اپنی قیمت لگوانے کے لئے پہنچا۔ سیٹھ عبداللہ دوسرے بھٹہ مالکان کی نسبت اچھا انسان تھا، پانچ وقت کانمازی اور با پرہیز ۔ اسی لئےوہ بھٹہ یونین کا سربراہ بھی تھا۔

کرمو خود کو اور اپنے خاندان کو پانچ لاکھ میں بیچ کر کافی خوش تھا ۔ اُسے یقین تھا کہ اگر وہ بوٹا اور اُس کی ماں مل کر رات دن کام کریں توچار پانچ سالوں میں یہ قرض اُتر جائے گا۔ لیکن جب اُسے بوٹے کی باتوں کا خیال آتا تو تو اُسے جھر جھر ی سی آ جاتی۔ دل میں ایک کانٹا ساچبھ جاتا۔
کرمو اپنی ملکیتی ہر شے بیچ باچ کر اپنے بیوی بچوں کے ساتھ نئے بھٹے پر منتقل ہو گیا۔پوارا خاندان دن رات کام میں جُت گیا ۔ صغراں کے دن بھی رکھ دئیے گئے۔
سیٹھ عبداللہ کے بھٹے سے کچھ ہی دور ایک فارم ہاؤس تھا ۔ اس فارم ہاؤس میں دو کمرے بھی بنے ہوئے تھے جو عام طور پر بند رہتے ۔ اس فارم کا مالک شہر میں رہتا تھا۔ کبھی کبھار یہاں آتا اور یہاں موجود ملازمین سے حساب کتاب کر کے واپس چلا جاتا۔ کبھی وہ خود نہ آتا تو اپنے بیٹے کو بھیج دیتا جو دو چار دن یہاں رہتا، لین دین کرتا اور چلا جاتا۔
جب یہ فارم ہا ؤس خالی ہوتا توبھٹہ پر کام کرنے والی عورتیں کبھی کبھار نل سے پانی لینے یا کپڑے دھونے یہاں چلی آتیں۔

اگست کے مہینے میں موسم نے نئی کروٹ لی تو سیر سپاٹے کا شوقین فارم ہاؤس کے مالک کا بیٹا اپنے دو دوستوں کے ساتھ یہاں آ کر رک گیا۔۔۔
وہ اور اُ س کےدوست سارا دن کمروں میں پڑےرہتے ، شام فارم ہاؤس کے پچھواڑے میں موجود سوئمنگ پُول میں گزارتے اوررات کو چہل قدمی کے لئے باہر نکلتے تو کبھی کبھار فارم ہاؤس کے مرکزی دروازے سے باہر بھی چلے آتے ۔ کچھ دیر وہاں گھومتےپھرتے اور پھر خاموشی سے واپس کمروں میں چلے جاتے۔ یوں اُن کا ہونا نہ ہونا ایک تھا۔

سہولت اور عیاشی کےدرمیان بہت کم فاصلہ ہوتاہے۔ سہولت کی سڑک چپکے سے عیاشی کے چوراہے سے مل جاتی ہےاور عیاشی سے نکلنے والے تمام راستے گناہ کی دلل میں غرق ہو جاتے ہیں۔
عیاشی کے سامان سوئمنگ پول کاشکار ہوئی صغراں جو خالی سوئمنگ پول دیکھ کر اپنے گرمی دانوں سے جنات حاصل کرنے کے لئے اس میں کود گئی تھی۔عین اُس وقت سوئمنگ پُول کے مہمان اور میزبان بھی وہاں آنکلے۔ عیاشی کے سامان کوگناہ میں تبدیل ہوتے کچھ وقت ہی لگا اور صغراں اس کا شکار بن گئی ۔
’’ میرا دل تو پہلے ہی کہتا تھاکہ آج کچھ ہونا ہی ہے، یہ لال آندھی ایسے ہی نہیں آتی ۔۔۔ کچھ نہ کچھ ہوتا ہے تو آتی ہے۔ مجھے کیا پتہ تھا نالا میری دھی کا ٹوٹنا ہے۔۔۔ کل موہئیے !تجھے ہی آخر آئی ہوئی تھی جس طرف منہ آتا چل پڑتی کیا ضرورت تھی ان کے ڈیرے پر جانے کی۔۔ جب تیل خود چل کر چنگاری کے پاس جائے گا تو بھانبڑ تو مچے گا ہی نا۔‘‘
صغراں نے ماں کو اپنے اوپر ٹوٹنے والی قیامت کی وا ردات سنائی تو ماں اُس کے زخم بھرنے کی بجائے اُسے ہی روندنے لگی۔
نی توں اُسی تلا میں مر کیوں نہ گئی ۔۔۔ چھال مار مرجاندی۔۔۔ ریل کی طرف چلی جاتی یا پرانی کھوئی میں چھلانگ لگا دیتی ۔۔ یہاں کیوں آئی ہے کالا منہ لے کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
ماں چیختی جا رہی تھی بولتی جا رہی تھی۔۔۔۔۔ دونوں ماں بیٹی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ بوٹا دوسرے کمرے میں سویا سب کچھ سن رہا ہے۔۔۔۔۔ اس نے بہن کی سسکیاں بھی سنیں اور مجبور ماں کی کُرلاہٹ بھی۔۔۔۔۔۔۔ وہ اپنی چاپائی سے اُٹھا لیکن اُٹھا نہ گیا اور پائینتی پہ گر گیا۔۔۔۔ چارپائی کی پائینتی کی رسیوں میں منہ دے کر وہ اس طرح رونے لگا کہ اُس کے آنسو اور آہیں اُس کے اپنے ہی کلیجے پر گرتی رہیں۔۔۔۔ جو باہر سنائی دے رہا تھاوہ کسی کونج کے رونے کی آواز تھی جو شکاری کا تیر کھا کر کسی درخت میں موت و حیات کے درمیان پھنسی ہو۔
کافی دیر آہ و بکا کے بعد وہ اُٹھا اور کمرے میں پاگلوں کی طرح پھرنے لگا ۔۔ کبھی پیٹیوں کے پاس جاتا تو کبھی انبار لگی رضائیوں پر جا گرتا۔۔۔۔ اُسے سمجھ نہیں آ رہی تھی وہ کیا کرے۔۔۔۔ اچانک اُ س کا ہاتھ ایک دارنتی پر پڑ گیا جو اُس کا باپ کچھ دیر پہلے ہی چارپائی پر چھوڑ گیا تھا۔۔۔۔۔وہ دارنتی لے کر باہر بھاگا۔۔۔۔۔۔ لیکن باہر نکلنے سے پہلے ہی اندر کی طرف لوٹا اور سیدھا ڈنگروں کے کمرے کی طرف بھاگا جہاں اُس کی ماں اور بہن بین ڈال رہی تھیں ۔۔۔۔۔۔
اُس نے پھڑاک سے دروازہ کھولا اور ا دارنتی لے کر بہن کی طرف اس طرح لپکا جیسے کوئی چیتا زخمی ہرن پر ۔۔۔
قریب تھا کہ دارنتی بہن کے سینے کے آرپار ہو جاتی ۔ ماں دارنتی اور صغراں کے درمیان دیوار بن گئی۔۔۔۔
’’ وے اس کلموہی کا کیا قصور ہے قصور تو اُن چوہدریوں کے منڈوں کا ہے۔۔۔۔ وے جے صور پڑ جائیں تو فصل کاکیا قصور۔۔۔۔‘‘
اُس نے دھکا دے کر بوٹے کو دور ہٹایا۔۔۔۔۔۔
’’ تو میرا بھی تو قصور نہیں ۔۔۔ ہم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں ۔۔۔‘‘ بوٹا دیوار میں ٹکریں مار نے لگا۔ وہ چیختا جا رہاتھا۔
’’ تو گھر آنے سے پہلے مر کیوں نہ گئی۔۔۔۔‘‘
’’ نہ اور بیبا،۔۔۔ نہ میرا پُتر ۔۔۔نہ میرالال ۔۔۔ بس صبر کر۔۔۔۔‘‘ ماں اُسے تسلیاں دے رہی تھی۔
کرمو نے بڑا درواز کھولا۔۔۔کمرے میں گیا۔۔۔ وہاں کسی کو بھی نہ پایا ۔۔۔۔ آوازیں سن کر ڈنگروں کے کمرے میں پہنچا،
اندر کا منظر دیکھا تو سب کچھ سمجھ گیا ، دماغ نے کیا سے کیا کہانیاں بنا ڈالیں۔۔۔ ہاتھ میں پکڑی خربوزوں کی گھٹری کھل گئی اور ہر طرف خربوزہ ہی خربوزہ ہو گیا۔۔۔۔۔ گھٹری کیا کھلی اُس کے جذبات کی سب گانٹھیں کھل گئیں ۔۔۔۔۔۔ اُس نے بیٹی کا گریبان پکڑ لیا۔۔۔۔۔ وہ اُس کا گلہ گھونٹ رہا تھااور ماں اُسے پیچھے سے پکڑ کر چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔
بوٹا چلارہا تھا۔۔۔۔ ’’ مار دے ابا اس حرام۔۔۔۔۔‘‘
’’ وے چھڈ دیو میری جواکڑی نوں ۔۔۔ اس کا کیا قصور ہے ۔ کیوں دونوں باپ بیٹا اس ملوک کے پیچھے پڑ گئے ہو۔۔۔‘‘
اُس کی تمام کوشیں ناکام ہو گئیں وہ بوٹے کاکرتا پکڑ کر چلائی، ’’ وے پُتر بچا لے میری رانی کو ۔۔۔۔ بچا یہ وحشی میری دھی کو مار دے گا۔۔ وے بچا لے میری دھی کو ۔۔۔‘‘
لیکن بوٹے پر کچھ اثر نہ ہوا۔۔۔ وہ بھاگی۔۔ کمرے کا دیوانوں کی طرح چکر لگایا ۔۔ کچھ سمجھ نہ ۔۔۔ اچانک نظر دارنتی پر پڑی ۔ وہ دارانتی پر لپکی اور دارنتی لے کر سیدھی کرمو کی پسلیوں کے سپرد کر دی۔

وقت ہر زخم کو مندمل کر دیاکرتاہے کرمو کا ظاہرزخم تو بھر گیالیکن اندر اُس کا زخم گلتا جا رہا تھا۔۔۔ اُسےفکر تھی تو بوٹے کی ۔ جو قسمیں اُٹھا اٹھا کر ۔۔۔۔۔۔ نہ چھوڑنے کی گردان رٹ رہا تھا۔
’’ میں پہلے ہی کہتا تھا دھی پر دھیان رکھ ۔۔ اس عمر کے یہ لشکارے۔۔۔۔۔ ٹھیک نہیں ہوتے۔۔۔‘‘ وہ ہر وقت سوچوں میں گم رہتا۔
’’ بوٹابڑا جذباتی ہے، کچھ بھی کر سکتا ہے۔۔‘‘ چناچہ اُس نے بوٹے پر نظر رکھناشروع کر دی ۔ بوٹا نہر پر جاتا کرمو بھی نہر پر چلا جاتا، بوٹا فارم ہاؤس کی طرف جاتا کرمو بھی فارم ہاؤس پہنچ جاتا۔ ایک دن تو بوٹے نے تنگ آ کر کہہ دیا تھا۔۔۔۔’’ ابا میں مرنے والا نہیں جب تک انہیں مار نہ دوں مروں گا نہیں۔مت میری فکر کیا کر۔۔۔۔‘‘
کچھ ایسی ہی صورت صغراں اور اُس کی ماں کی تھی۔ ماں ایک پل بھی اُسے خود سے جدا نہ کرتی ،
’’ کہیں یہ وحشی میری بیٹی کا مار ہی نہ دیں۔‘‘
کرمو اس ساری آنکھ مچولی سے تنگ آگیا تھا۔
ایک دن اُس نے سوچا آخر کوئی نہ کوئی تو حل نکالنا چاہئے۔ کوئی تو دوا تلاش کروں۔۔ کچھ تو کروں ۔‘‘
پھر خود ہی کہتا،
’’ میں کیا کر سکتا ہوں، آگ لگی ہے تو وقت ہی بجھائے گا۔۔۔ چنگاریاں کبھی تو راکھ میں دفن ہوں گی ۔۔۔۔۔ لیکن کبھی کبھی راکھ بھی توچنگاریوں کو ننگا کر دیتی ہے۔ آگ بھڑکانے کے لئے تو ایک چھوٹی سی چنگاری ہی کافی ہے۔۔۔ اللہ! بس اُ س چنگاری سے پناہ دینا۔۔‘‘
ایک دن اُس نے تنگ آکر سارا قصہ سیٹھ عبداللہ کے سامنے اُگل دیا۔۔۔۔ مگر سننے کو یہ ملا،
’’ بیٹیاں اور فصلیں ایک جیسی ہوتی ہیں، فصلوں کو چڑیوں سے بچانے کے لئے بھی کسان کو ئی نہ کوئی انتظام کرتا ہے۔ تُو نے فصل پکا کر کھلی چھوڑ دی۔۔۔۔بڑی پہنچ والے لوگ ہیں ۔۔۔ تو فکر نہ میں اُن کے ابے سے بات کرتاہوں۔‘‘
پھر ایک دن عبداللہ نے کرمو کو ڈیرے پر بلایا۔ سامنے دو معزز بیٹھے ہوئے تھے۔
’’ کرمیا ! یہ اُس لڑکی کے والد ہیں۔۔۔۔اللہ د ین۔۔۔۔۔‘‘ اس سے پہلے کہ سیٹھ عبداللہ بات مکمل کرتے۔ اللہ دین اُٹھ کر کھڑا ہو گیا۔
’’ دھیاں اور پگڑیاں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔۔۔۔۔ کس کا کیا قصور ہے۔۔۔ تو کہے گا۔۔ لڑکوں کا اور میں کہوں گا لڑکی کا۔۔بات لٹکتی رہے گی۔۔۔۔۔‘‘
’’ مگرجی۔۔۔‘‘
’’ آ ادھر بیٹھ۔‘‘ اللہ دین نے کرمو کو اپنے پاس بٹھاتے ہوئے اُس کی بات کاٹتے ہوئے کہا،
’’ جو ہو گیا سو ہو گیا۔۔۔۔ غلطی میری تھی جو میں نے انہیں یہاں بھیجا۔۔ مجھے کیا پتہ تھا یہاں کا ماحول اتنا خراب ہے۔۔۔‘‘
’’ مگر جی۔۔‘‘
’’ اب اگر مگر میں کیا رکھا ہے۔۔۔۔یہ لے اور بیٹی کے ہاتھ پیلے کر دے۔۔۔‘‘
اللہ دین نےنوٹوں کی گڈی جیب سے نکالتے ہوئے کہا،
’’ یہ نہیں ہوگا مجھ سے۔۔۔۔ میں بیٹی بیچ دوں جی۔۔۔ہم کمی سہی ۔۔۔ مسلی سہی لیکن اتنے بدبخت نہیں کہ بیٹیاں بیچتے پھریں ۔۔۔پگڑی کے بدلے بدلے پگڑی اور ناک کے بدلے ناک۔۔۔ مجھے منڈے چاہئیں۔۔۔‘‘ کرمو نے اپنا غصہ نکالنے کی کوشش کی۔
’’ میں تو تیری عزت کی فکر کر رہا ہوں اور تو میری پگ کو پیروں میں رولنے کی سوچ میں ہے۔۔۔۔میں کمیوں کو برابر بٹھا رہاہوں اور تو ہے کہ مجھ سے میری نسل مانگ رہا ہے۔ اپنی ذات پہچان، اپنی اوقات جان۔۔۔۔ شین کو جپھے نہ ڈال۔۔‘‘
اللہ دین نے کرموکو سمجھانے کی کوشش کی مگر کرمو سنی ان سنی کر کے منہ میں کچھ بڑ بڑاتے واپس چلا آیا۔

وہ رات کرمو پر بہت بھاری تھی۔۔۔۔ وہ سونے کی کوشش کرتا لیکن نوٹوں کی گٹی ۔۔۔ بھیانک بلا بن کر اُسے جگا دیتی ۔۔ وہ اُٹھتا، پانی پیتا پھر لیٹ جاتا۔۔۔۔۔۔
آدھی سے زیادہ رات گذر چکی تھی ۔۔ سونے جاگنے کی جنگ سے تنگ آ کر وہ اُٹھا۔۔۔ صغراں کی چارپائی کے قریب کھڑے ہو کر اُسے تکتا رہا۔۔۔اُس کا چہرہ سیاہ رات کی جھیل میں کسی کنول کی مانند دکھائی دے رہاتھا۔۔ اُسے صغراں پر بہت پیار آیا جی چاہا کہ آگے بڑھ کر اُس کا ماتھا چوم لے لیکن کچھ سوچ کربوٹے کی چارپائی کے گرد ایک چکر لگا کر باہر نکل گیا۔
گلی کی دھول کو پیروں سے ٹھوکریں مارتے ہوئے، لوہاروں کے کھیتوںمیں سے گزرتے ہوئے وہ نہر کو جانے والی پکڈنڈی پر ہو لیا۔
’’بیٹی تو گہنادی کہیں بیٹا نہ گنوا دوں۔۔۔یہ جگہ ہی چھوڑ دیں سندھ جا بسیں۔۔۔شاید وہاں حالات بدل جائیں۔‘‘
اب روز اُس کا معمول ہو گیا آدھی رات کو اٹھتا اور نہر کی جانب چلا جاتا اور فجر کے وقت واپس آجاتا۔
پھر ایک دن کرمو نہر کی طرف ایساگیا کہ واپس نہ لوٹا۔
پہلے تو سب نے سمجھا کہ آستانے پہ گیا ہے۔۔۔۔۔ پھر ادھر ادھر تلاش شروع کی ۔
دو دن گزر گئے تھے۔۔ ایک دن ایک پولیس والا آیا اور بوٹے کو پکڑ کر اپنے ساتھ تھانے لے گیا ۔
گھر میں کہرام مچ گیا ، سب نے سوچاتھانے میں کیوں۔۔۔
اور بوٹے نے سوچا، ان کو کیسے پتہ چل گیا۔۔۔ ابھی تو اُس نےکچھ کیا ہی نہیں۔
تھانے دار نے کچھ کاغذ سامنے رکھے اور بوٹے سے انگوٹھا لگانے کے لئے کہا ۔
’’ کاہے کو، کس بات پر انگوٹھا لگوا رہے ہو۔۔۔ ‘‘ بوٹے نے پریشان ہو کر پوچھا۔
’’باپ کی لاش پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کس کاباپ کس کی ۔۔۔۔۔ کس کی لاش۔ ‘‘
’’تو کرمو کا بیٹاہے نا۔۔۔۔‘‘
’’جی ہاں ۔‘‘
’’ وصول کر کرمو کی لاش۔ ‘‘ سپاہی نے حکم دیا
بوٹے کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا،
’’ لاش۔۔۔۔۔ کیاہو امیرے باپ کو ۔۔۔۔۔ کیسے مرا میرا ابا۔۔۔۔۔ نہر میں ڈوب گیا ۔۔۔۔ مجھے پہلے ہی ڈر تھا۔۔۔۔۔ وہ نہر پر جا کرکیوں بیٹھا رہتا تھا۔۔۔۔۔‘‘
بوٹے نے چیختے ہوئے کہا لیکن اُس کی چیخوں کو سپاہی کے جملوں نے ایسے کشید کیا جس طرح جوسر سیب کے حسن کو کشید کر لیتا ہے۔
’’ نہیں پولیس مقابلے میں ۔۔۔۔۔ تمہارا باپ اللہ دین کے گھر ڈکیتی کر کے لوٹا۔۔۔۔ تو پولیس مقابلے میں مارا گیا۔۔۔۔۔۔۔‘‘
اُس نے چھاتی پر ہاتھ مار کر اپنی ہچکیوں اور آہوں کو اپنے سینے کے اندر دفن کرتے ہوئے کہا،
نہیں ، نہیں میرا باپ ۔۔۔پولیس مقابلہ ۔۔۔۔۔۔۔ نہیں ایسے نہیں ہو سکتا۔۔۔۔۔۔مسلی کا باپ تو اینٹیں بناتا تھا، اینٹیں توڑتا نہیں تھا۔۔۔۔کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔ مسلی تو اپنی بھوک کا مقابلہ نہیں کرسکتا پولیس کا مقابلہ کیسے ۔‘‘
لیکن سپاہی نے کہا ،
’’ چل زیادہ شور نہ کر باپ کی لاش لےجا اور باقی بین گھر جا کر کرنا۔۔۔ چل شاباش ۔۔۔۔۔۔۔‘‘
جب وہ گھر پہنچا تو سناٹا تھا۔۔۔۔۔پھر کہرام ۔۔۔۔ پھر سیاپا۔۔۔۔۔۔مسلیوں نے اپنے بھائی کو دفن کیا۔۔۔۔۔۔اور دوسرے ہی دن بوٹا اپنے چھوٹے بھائی کو سمجھا رہا تھا۔۔۔۔۔۔
’’ بس محنت کرنی ہے۔۔تو اسکول جایا کر۔۔۔ خوب پڑھنا۔۔۔۔پھر مسلیوں کا منڈا بڑا افسر بنے گا۔۔۔۔اپنی فصلوں کی رکھوالی کرے گا۔۔۔ تو نے اینٹوں کو ہاتھ نہیں لگانا ، بس اینٹوں سے میں نمٹ لوں گا۔ تو ان جھوٹے مکاروں پر حکومت کرنا۔‘‘
وارث اقبال
محمد شعیب
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 6565
Joined: Thu Jul 15, 2010 7:11 pm
جنس:: مرد
Location: پاکستان
Contact:

Re: کرمو

Post by محمد شعیب »

شئرنگ کا شکریہ
میاں محمد اشفاق
منتظم سوشل میڈیا
منتظم سوشل میڈیا
Posts: 6107
Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: السعودیہ عربیہ
Contact:

Re: کرمو

Post by میاں محمد اشفاق »

واہ بہت ہی خوب جناب.
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
Post Reply

Return to “اردومضامین”