سفرنامہ پریوں کی تلاش چھٹی قسط

اردو زبان میں لکھے گئے مضامین پرمبنی کتب
Post Reply
وارث اقبال
کارکن
کارکن
Posts: 69
Joined: Wed May 30, 2012 10:36 am
جنس:: مرد

سفرنامہ پریوں کی تلاش چھٹی قسط

Post by وارث اقبال »

6۔۔تاریخ کا ابدی مکالمہ

مجھے دشمن سے بھی خوداری کی امید رہتی ہے
کسی کا بھی ہو سر قدموں میں سر اچھا نہیں لگتا

دریائے جہلم کے کنارے بسابھیرہ سرگودھا کی ایک مشہورتحصیل اور اس علاقے کا انتہائی مشہور تاریخی شہر ہے۔ کچھ عرصہ قبل یہ شہر تاریخ کے صفحات میں غبارِ راہ کی طرح دبا ہوا تھا لیکن موٹر وے بننے کے بعد یہ شہر ہر خاص و عام کی نظروں میں اس طرح آگیاکہ موٹر وے ا ور بھیرہ لازم وملزوم ہو گئے۔ قدیم ادوار میں جب دریائے جہلم اپنے کناروں سے باہر آنے کو ہوتا تو مسافر اس شہر کو جائے پناہ بناتے اور اْ س وقت تک رکتے جب تک جہلم انہیں پار جانے کی اجازت نہ دیتا۔ اسکندرِاعظم یونان سے چلا اور کامیابیوں پہ کامیا بیاں حاصل کرتا ہوا دریائے جہلم پہنچا تو یہ دریا اپنی تمام تر طاقتیں لے کر اس عظیم جنگجو کے سامنے سینہ سپر ہو گیا۔ اسکندر کو اپناخواب پورا کرنے کے لئے ہر صورت آگے بڑھنا تھا۔ لیکن ا س کے سامنے دو دشمن کھڑے تھے ۔۔ایک ٹھاٹھیں مارتا دریا اور دوسرا اْس دریا کے پار ہاتھیوں اور گھوڑوں کی ہمراہی میں، اپنے پورے شباب اور وجاہت کے ساتھ ہند کا مضبوط اور جری بادشاہ پورس۔ دریائے جہلم کے کنارے پڑاؤ کئے ہوئے اسکندر کئی دن صبح اُٹھ کر دریاکو دیکھتا رہا اور دریاکو مات دینے کی حکمت عملی بناتا رہا۔ جولائی کا مہینہ تھا، بارش تھی کہ رکنے کا نام ہی نہ لے رہی تھی۔ دریا کی طغیانی بڑھتی جا رہی تھی۔ سکندر کے ہمراہی سوچ رہے تھے کہ یہ وہ مقام ہے جس سے آگے اسکندر کا بڑھنا ناممکن ہے۔لیکن وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ مہمات کا شوقین یہ فوجی پورس پر قابو پانے کے بارے میں نہیں سوچ رہا تھا وہ تو یہ سوچ رہا تھا کہ پورس پر قابو پانے کے بعد آگے کہاں تک جانا ہے اور کیسے جانا ہے۔ ایک رات جب بادلوں نے روشنی کے تمام در بند کر دئیے اور آسمان نے اپنے سارے دریاؤں کے منہ کھول دئیے۔ جب آ ُسمان سے دریابرسنے لگے تو زمین کے دریاؤں کی قوت برداشت جواب دے گئی اور وہ بھی اپناپانی باہر اْگلنے لگے۔ ندی نالے اور جہلم کے رفیق دریاؤں نے اپنا سارا بوجھ جہلم پر ڈال دیا۔ اور پھر جہلم بھی جلال میں آگیا۔ جلال ایسا کہ میلوں تک رقبہ ہڑپ کر لیا۔ بڑے بڑے نامی گرامی تیراک بھی جب دریا کایہ روپ دیکھتے تو انہیں پسینہ آجاتا لیکن سکندر دریا کے جلال کو شکست دے کر اُس کے جلال سے فائدہ اٹھانا چاہتا تھا۔ اُس نے لشکر کو بڑھنے کا سندیسہ دیا لیکن لشکر نے لیت ولعل سے کام لیا۔ مگر وہ کہاں رکنے ولا تھا اپنے جیسے دیوانوں کا ایک دستہ لیا اور دریاکے ساتھ ساتھ چلنا شروع کردیا۔ کوئی بیس میل کا فاصلہ طے کرنے کے بعد وہ ا س مقام پر پہنچا جسے اس کے دل اور دماغ نے قبول کر لیا۔ یا شاید یہاں دریا کو غفلت میں پایا ۔۔گھوڑا دریا میں ڈالاہی تھا کہ دیکھا دیکھی شہر نما لشکر بھی پیچھے چل پڑا۔ راوی لکھتا ہے کہ پانی اْن کے سینوں سے اونچا تھا۔ لیکن وہ چلتے جا رہے تھے۔ عزم اور حوصلہ کے سامنے دریا کہاں ٹہرتے ہیں۔ دریا ئے جہلم نے بھی سرِ تسلیم خم کر کے یہ ثابت کر دیا کہ طاقت کا سرچشمہ طاقت نہیں جوش، ولولہ اور مستقل مزاجی ہے۔ صبح کا سورج طلوع ہونے کے لئے بےتاب تھا کہ اسکندر اپنے دشمن پر آسمانی بجلی بن کر ٹوٹ پڑا۔ ایسی تیرندازی کی کہ دشمن کے ہاتھی اور گھوڑے بوکھلاہٹ میں اپنے ہی ساتھیوں کو روندنے لگے، سپاہی اپنی ہی بنائی ہوئی خندقوں اور دلدلوں میں دھنسنے لگے۔ دونوں ا طراف کی افواج کے دستے بکھرتے رہے ، جمع ہوتے رہے ، سمٹتے رہے اورپھیلتے رہے۔ بڑے بڑے سورما تھکن سے چْور ہوگئے، دماغ اور جسم میں ہم آہنگی نہ رہی۔ گھوڑے اور ہاتھیوں کے پیروں نے دھرتی کا سینہ لہو لہو کر دیا، انسان اور جانور مولی گاجر کی طرح کٹنے لگے۔ ایک طاقت کا امیر جنگوں کے ماہر گھوڑے پر سوار تھا اور دوسری طاقت کا امیر تجربہ کار وفادار اور بہادر ہاتھی پر۔ مگر کبھی کبھی انسان کی طاقت اور اعتماد ہی اُ س کادشمن بن جاتا ہے۔۔۔۔ پورس جسے اپنے ہاتھیوں کی طاقت پر ناز تھا وہ طاقت یعنی ہاتھی اْس کی کمزوری بن گئے۔ ماہر تیر انداز اْنہیں دور سے ہی دیکھ سکتے تھے اس لئے وہ کچھ ہی دیر میں یونانی تیر اندازوں کے تیروں سے چھلنی ہو گئے۔ آسمانِ لازوال نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ پورس کا سدھایا ہوا ہاتھی اپنے مالک کا برچھیوں اور تیروں سے لدا جسم دیکھ کر بیٹھ گیا۔ اس کہانی کے مصنف لکھتے ہیں کہ وہ اپنے مالک کے جسم میں پیوستہ برچھیاں بھی اپنی سونڈ سے پکڑ پکڑ کر نکالتا رہا۔ لیکن اس کی وفاداری بھی کام نہ آئی ۔ طاقت ور حکمران پہاڑوں کی طرح ہوتے ہیں جب گرتے تو ریزہ ریزہ ہوجاتے ہیں۔ یہ عظیم حکمران خود تو چکنا چور نہ ہوا لیکن اُسے گرا دیکھ کر اُ سکی فوج کے حوصلے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئے۔ لہو پانی کی طرح بہنے لگا اور لاشوں کے انبار لگ گئے۔ پھر وہ گھڑی بھی آگئی جب ایک طاقت زیر ہوئی اور دوسری کو فتح نصیب ہوئی۔ یہی وہ موقع ہے جب تاریخ کا ابدی مکالمہ وقوع پذیر ہوتا ہے۔ ہند کا چھ فٹ سے زیادہ قد و قامت کا حامل سپوت لوہے سے جکڑا، برچھیوں اور تیروں کے زخموں سے چْور چْور، سینہ تانے ، چہرے پر سورماؤں کی مخصوص مسکراہٹ کی لڑیاں سجائے اپنے وطن پر حملہ آور دشمن اسکندر کے دربار میں لایاگیا۔ فتوحات، دولت اور زمین کا شوقین، متکبر اور اور فتح کے نشہ میں چْور اسکندر اپنے عارضی تخت پر پہلو بدل رہاتھا۔ پھر اْس نے سینہ تان کر لبوں پر فتح کی مسکراہٹ سجاکر اپنے قیدی سے پوچھا، ’’ بول تیرے ساتھ کیسا سلوک کیا جائے۔‘‘ زنجیروں میں جکڑا، زخموں سے چْور، کئی دن کا پیاسا اور بھوکا پورس کوئی عام شخص تو تھا نہیں جو کہہ دیتا، سائیں معاف کر دیں۔ وہ تو ایسا جنگجو تھاجو سب کچھ جنگ کی آگ میں جھونک آیا تھا۔ اُس نے اپنے زخمی سینہ کو پھلانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے اور لبوں پر نقلی سی مسکراہٹ لا تے ہوئے جواب دیا، ’’ وہی سلوک جو ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ کے ساتھ کرتاہے۔ ‘‘ میں نے بہت کوشش کی تھی کہ میں یہ واقعہ نہ لکھوں لیکن جب میں بھیرہ کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجبور ہو جاتا ہوں۔ اسکندر کا قیام وجہ بنا یا اسکندر کا باقاعدہ حکم بھیرہ شہر وجود میں آگیا۔ اگر پہلے سے موجود تھاتو تاریخ کے کم ازکم ایک صفحہ کا تو حقدار ہو گیا۔ اس امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ اسکندر سے بہت پہلے یہاں کوئی چھوٹا سا شہر موجود ہو۔ کیونکہ ایسی روایات بھی موجود ہیں کہ ۴۴۷ قبل مسیح میں کیدر نام کے ایک راجہ نے حملہ کر کے یہاں قبضہ کیا تھا۔ اسی طرح اس شہر کا ذکر آریاؤں کی ویدوں اور یونانی تاریخ میں بھی ملتا ہے ۔
یونانی تاریخ دانوں نے بھی بھیرہ کو ہی وہ مقام قرار دیا ہے جہاں سے اسکند نے ۳۲۶ قبل از مسیح میں دریائے جہلم کو پار کیا تھا۔ چینی سیاح فیکسین(Faxian)کے بھی یہاں رکنے کے آثار ملتے ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ وہ مقام نہیں جہاں سے اسکندر نے دریا عبور کیا تھا۔ میں تو اپنی عقل کے مطابق اتناہی کہوں گا کہ اسکندر سے مراد ایک فرد نہیں اسکندر سے مراد ایک لشکر ہے اور ایک لشکر فلموں میں دکھایا جانے ولا چند ہزار افرادکا لشکر نہیں بلکہ ایسا لشکر ہے جس میں کئی شہر شامل ہوتے تھے ، جس میں آٹا پیسنے والی چکی سے لے کر سوئی تک موجود ہوتی تھی۔ جب یہ لشکر چلتاہو گا تو کہاں اس کا منہ ہوتا ہوگا اور کہاں پاؤں۔ کس بستی میں یہ طبل جنگ بجاتا ہوگا اور کس بستی میں صفِ ماتم بچھتی ہوگی۔ اس لئے چند میل کا فاصلہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اسی جگہ سے کچھ میل دور اسکندر کا ہر دلعزیز گھوڑا بیو سیپھالس موت کی آغوش میں چلا گیا تو اْس نے اس کی یاد میں یہاں ایک شہربسانے کا حکم دیا۔ یہ شہر آج پھالیہ کے نام سے موجود ہے۔ اسکندر کے یونانی سوانح نگار اسکندر کے ایک وفادار کتے کا بھی ذکر کرتے ہیں جس کی موت اسی کسی علاقہ میں ہوئی وہاں بھی اسکندر نے شہر بسانے کا حکم دیا۔ بادشاہ لوگ بھی بڑے بادشاہ ہوتے ہیں۔ جو ان کی اطاعت میں چلا گیا بس امر ہو گیا۔ چاہے جہانگیر کا ہرن ہو یا سکندر کا گھوڑا ، کسی کی ملکہ ہو یا وزیر۔۔ اور جس نے اطاعت نامہ ماننے سے انکار کر دیا وہ باغی بناکر تہہ تیغ کر دیا جاتا ہے۔۔۔ کہیں بستے شہر راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دئیے جاتے ہیں اور کہیں راکھ کے ڈھیر پر نئے شہر بسا دئے جاتے ہیں۔ کون سا باپ کا مال ہے جس طرح دونوں ہاتھوں سے لوٹا جاتا ہے اُسی طرح دونوں ہاتھوں سے لٹایا جاتا ہے۔ یہ کسی ایک دور کی بات نہیں یہ قصہ ہر دور میں دہرایا جاتا ہے۔
وارث اقبال
کارکن
کارکن
Posts: 69
Joined: Wed May 30, 2012 10:36 am
جنس:: مرد

Re: سفرنامہ پریوں کی تلاش ساتویں قسط

Post by وارث اقبال »

بے خوف شہر کی طرف
کتنا وہ قاتل ہے بے خوف و خطر
تیغ خون آلودہ دھوتا ہی نہیں
اس گلی میں جس طرح روتا ہوں میں
اس طرح تو کوئی روتا ہی نہیں
(جوش عظیم آبادی)
گاڑی کی خامی دور کردی گئی تھی ہم بھیرہ کی طر ف گامزن تھے۔ گاڑی کے درو بام میں یہ گیت گونج رہا تھا۔
میں تینوں سمجھواں کی، نہ تیرے باجھوں لگدا جی
میں تینوں سمجھواں کی، نہ تیرے باجھوں لگدا جی
ہم انٹر چینج کو چھوڑ کر ایک چھوٹی سی سڑک پر مُڑ گئے تھے جو ہمیں بھیرہ شہر لے جانے والی تھی۔ میں نے بھیرہ کے بارے میں تحقیق سے جتنا علم حاصل کیا تھا وہ سارے کا ساراعلم مجھے شدید بے چین کئے ہوئے تھا۔ لگتا تھا جیسے غبارے میں کچھ زیادہ ہی ہوا بھر دی گئی ہو۔ایک عجیب سا تاثر تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک عجیب سا خواب تھا۔ ایک شہر جس کے دروازوں کے باہر چوبدار نیزے لئے کھڑے ہوں گے۔ مرکزی دروازے کے اندر سے خوبصورت کنیزیں زرق برق لباس پہنے برآمد ہوں گی اور ہمارے ہاتھوں کو بوسہ دیں گی۔ عطر میں رچے بسے ان کے جسموں کی خوشبو ہماری تھکن اُتارنے کے لئے کافی ہوگی۔ وہ آنکھوں اور ابروؤں کے اشاروں سے ہماری رہنمائی کرتے ہوئے ہمیں بادشاہ کی خدمت میں پیش کریں گی۔ ہم بادشاہ کو اتناپسند آ جائیں گے کہ مرکزی دروازے کے اوپر کھڑے ہو کر ہمارا تعارف کروایاجائے گا۔ ہمیں خلعت عطا کی جائے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم بادشاہ کو پسند نہ آئے تو پھر اسی دروازے کی چھت ہماری آخری منزل ہو گی۔ اپنے ارد گرد نیزہ بردار، توانا نوجوانوں کا سوچ کر میری تو جان ہی نکل گئی۔ شکر ہے میں اُ س دور کا مسافر نہیں۔ مسافر بیچارے کو تو سفر کی صعوبت نے ہی بیچارہ بنادیا ہوتا ہے اوپر سے اُ س کی جان کی سلامتی مخدوش ہوجائے تو کون کرے ایسا سفر۔
ہم مسافر یونہی مصروفِ سفر جائیں گے
بے نشاں ہو گئے جب شہر تو گھر جائیں گے
جوہری بند کیے جاتے ہیں بازارِ سخن
ہم کسے بیچنے الماس و گہر جائیں گے
فیض آتے ہیں رہِ عشق میں جو سخت مقام
آنے والوں سے کہو ہم تو گزر جائیں گے
(فیض احمد فیض)

میں اگرچہ حقیقت کی دنیا میں واپس آگیاتھا لیکن پھر بھی میرا اندر کاغذی معلومات کو حقیقت کے روپ میں دیکھنے کے لئے بیتاب تھا۔ تاریخ نے بھیرہ کو کئی نام دئیے۔ کسی زمانے میں اسے جوبناتھ نگر کہا جاتاتھا۔ بعضے نے اسے بے راہ کہا، یعنی جہاں لوگ بھٹک جائیں۔ اور پھر حتمی طور پر اس شہر کانام بھیرہ مشہور ہو گیا۔ موجودہ نام بھیرہ سنسکرت زبان کے دو الفاظ سے مل کر بنا ہے،ایک ’بھے‘ اور دوسرا ’ہرا‘۔جس کا مطلب ہے ’’ ایسا مقام جہاں خوف کی کوئی گنجائش نہ ہو۔“
اس نام کی وجہ اس شہر کی جغرافیائی حیثیت تھی۔ ایک طرف دریا اور دوسری طرف گھنے جنگلات اس کے قدرتی حصار تھے۔ لیکن اس کے باوجود یہ شہر لُٹتا رہا۔
اسکندر کے زمانے کاشہر دریائے جہلم کی دائیں جانب تھا۔ یہ شہر وقت کی بے قدری کا ساتھ نہ دے سکا، جھگڑوں اور لشکروں کے حملوں کے سامنے کھڑا نہ رہ سکا۔ چونکہ ہر حملہ آور جہلم پر آتے ہی لوٹ مار کا بازار گرم کر دیتا۔ اس لئے مکینِ شہر شہر خالی کر کے دوسری جگہ منتقل ہو جاتے۔جو گھروں کے پیار میں وہاں سے نہ جاتے قتل کر دئیے جاتے۔ یوں برس ہا برس گزرتے گئے اور یہ شہر لُٹتا رہا، بستا رہا اور مٹتا رہا۔
مسلمانوں کی آمد کے وقت یہ شہر سرزمین ِ نمک کا حصہ سمجھا جاتا تھا جو کشمیر کے پاس تھی۔ بابر جب اس علاقہ میں آیا تو یہ شہر مغلائی تسلط میں چلا گیا۔
1540 میں شیر شاہ سُوری نے اس مقام کی افادیت اور بھیرہ کی کسمپرسی کا ادراک کرتے ہوئے نیا شہر تعمیر کرنے کا حکم دیا لیکن دریا کی دوسری طرف تاکہ بیرونی حملہ آوروں کو شہر پہنچنے سے پہلے دریا کی تُند و تیز لہروں کا مقابلہ کرناپڑے۔ یاد رہے کہ اُس وقت دریا اس طرح خشک اور بے زار نہیں ہوا کرتے تھے۔ اُن کاپانی ڈیموں اور بندوں کی قید سے آزاد تھا۔ اس لئے اُن کا مقابلہ کوئی آسان کام نہ تھا۔ شیر شاہ سوری نے یہاں ایک مسجدبھی بنوائی جسے دیکھنے کی چاہ میں ہم رواں دواں تھے۔
سڑک کے دونوں طرف گرمی سے نڈھال کھیت ماضی کی داستانیں سنانے کے لئے بے چین و بے قرار تھے۔
ہم اپنی گاڑی میں دبکے سڑک پر نظریں جمائے تھے کیونکہ ہمیں بتایا گیا تھاکہ سب سے پہلے آپ کو سیر شاہ سوری کی بنائی مسجد دکھائی دے گی۔
کچھ کھیتوں اور کچھ اینٹوں کے بھٹوں کی یادیں سمیٹتے ہوئے ہم آگے بڑھتے رہے۔
منزل پر پہنچ کر بھی ہم منزل پر نہیں پہنچے تھے۔ منزل سامنے تھی لیکن راہ گذر دھندلی تھی۔
ایک سڑک دائیں مڑ رہی تھی اور ایک بائیں اور سامنے اسکول تھا۔ بائیں طرف کھیتوں کے پار شیر شاہ سوری کی مسجد کی دیوار دکھائی دے رہی تھی لیکن راستہ موجود نہ تھا۔
ہمارے بائیں جانب جو سڑک جارہی تھی وہ اتنی تنگ تھی کہ لگتا تھاکہ وہ کسی محلہ میں جارہی ہو۔ اتنی مشہور اور اہم مسجد کی مرکزی سڑک اتنی تنگ نہیں ہو سکتی۔ یہی وہ بھول تھی جس کی وجہ سے ہم مسجد کے مینار اور پچھلا حصہ واضح طور پر دیکھنے کے باوجود اس کے مرکزی دروازہ تک پہنچ نہیں پا رہے تھے۔
خیر ہم مجبور تھے اس لئے بائیں جانب ہی مڑ گئے۔ اصولی طور پر مسجد کا مرکزی دروازہ ہمارے بائیں جانب ہی آنا چاہئے تھا لیکن جو ں ہی ہم آگے بڑھے تو تنگ سی گلیوں کا نہ ختم
ہو نے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔
بڑے بزرگ کہتے ہیں جب راستے آپس میں ملنے لگیں تو ایسے موقع پر کسی سے مشورہ کر لیناچاہئے۔ چنانچہ میں بھی گاڑی سے اُتر کر کچھ ہی دور پکوڑوں کی ایک ریڑھی پر چلا گیا۔ جہاں گرمی کا مارا ایک شخص اپنی ساری محرومیوں کا غصہ سگریٹ پر اُتار رہا تھا۔ اس کاکش اتنا لمباتھاکہ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ سگریٹ کا دھواں اُس کے پیروں کی ایڑیوں کو چھو رہا ہوگا۔ وہ شریف اورمہمان نواز مجھے دیکھتے ہی کھڑا ہو گیااور میری بات اطمینان سے سننے کے بعد تیل اور بیسن سے اُلجھے کپڑے کے ایک ٹکڑ ے پر اپنے چہرے کا پسینہ منتقل کرتے ہوئے سرگودھا کی مخصوص پنجابی میں گویاہوا۔ جس کا مطلب تھا،
”آپ بہت آ گے آ گئے ہیں مسجدپیچھے رہ گئی ہے، جہاں سے سڑک کی پہلی گلی اندر جاتی ہے وہاں سے اندر جائیں تو مسجد کا دروازہ ملے گا۔“
وہ بھی بھانپ گیا تھاکہ میں اجنبی ہوں اور اس کی زبان اچھی طرح نہیں سمجھ سکتا۔ اس لئے وہ اپنی طرف سے اپنی زبان کو بہت آسان کر کے بول رہاتھا۔ مجھے اتنی سی معلومات کی منتقلی کے دوران وہ جسم کے ہر حصہ کو کھجاچکاتھایاپسینہ صاف کر چکا تھا۔ پتہ نہیں اُس کے پکوڑے دن کا کتنے لٹر پسینہ پی کر وجود میں آتے ہوں گے۔ پکوڑوں کی خوشبو اندر اُتر ی تو میں نے اس واضح تضاد کی وجہ سے پکوڑوں کی طرف اس طرح دیکھا جیسے کوئی نوجوان پہلی دفعہ کسی ایسی دوشیزہ کو دیکھتا ہے جو اس کی طرف دیکھ کر مسکرائی ہو۔ میں نوجوان تو تھانہیں جو اس دوشیزہ کی پیش کش قبول کر لیتا۔ مسکرا کر شکریہ اداکیا اور اچھوں کی طرح اُ س کے پکوڑوں کی پیش کش ردکرتے ہوئے گاڑی کو واپس مڑنے کا اشارہ کرنے لگا۔
میں خود پیدل ہی مذکورہ گلی کی طرف چل پڑا۔ گلی میں پہنچا تو لگا لاہور کے اندرون شہر کی آج سے کوئی تیس سال پرانی کسی گلی میں آگیا ہوں۔ گلی اتنی ہی چوڑی تھی کہ ایک وقت میں ایک ہی گاڑی اندر جا سکتی تھی۔ ایک طرف سیمنٹ سے بنی دیوار اور لوہے کا گیٹ۔ دوسری طرف پرانی انیٹوں کی دیوار جس کے پیچھے ایک سے زیادہ نیم اور کیکر کے درخت تھے جنہوں نے گلی کو اتنا ٹھنڈارکھاہو اتھا کہ ہمیں گرمی کی شدت محسوس نہیں ہوئی۔ سڑک چھوٹی اور بڑی دونوں قسم کی اینٹوں سے بنی ہوئی تھی اور درمیان میں موہنجوڈارو طرز کی ایک لمبی مگر صاف نالی کو دیکھ کر اندازہوا کہ یہاں صفائی کا معقول انتظام موجود ہے۔ ہمیں اسی سڑک پر کچھ پیدل چلنا تھااس لئے چل پڑے۔ ہماری منزل ہمارےسامنے تھی۔
شاہکار شہر

مرجھا کے کالی جھیل میں گرتے ہوئے بھی دیکھ
سورج ہوں میرا رنگ مگر دن ڈھلے بھی دیکھ
کاغذ کی کترنوں کو بھی کہتے ہیں لوگ پھول
رنگوں کا اعتبار ہی کیا سونگھ کے بھی دیکھ
عالم میں جس کی دھوم تھی اس شاہکار پر
دیمک نے جو لکھے کبھی وہ تبصرے بھی دیکھ
(شکیب جلالی)
ہم گلی میں کوئی ایک منٹ کی مسافت تک گئے ہوں گے کہ ہمیں بائیں طرف ایک چھوٹا سا صحن اور دائیں طرف مسجد کا مرکزی دروازہ دکھائی دیا۔ صحن کے بائیں جانب کچی دیوار کے ساتھ نیم اور کیکر کے سایہ تلے دو چارپائیوں پرتین مولانا لیٹے باتوں میں مصروف تھے۔ ہمیں دیکھ کر کچھ سُکڑ گئے۔ اُن کا سکڑنا ہی ہمارا استقبال تھا۔
انہیں دیکھ کر مجھے فورا ًیہ احساس ہوا کہ پتہ نہیں یہاں عورتوں کو جانے اور فوٹو گرافی کی اجازت ہو گی یا نہیں۔ لیکن میرا وہم محض خدشہ نکلاجب ہم مرکزی دروازے کے اندر داخل ہوئے تو ہمیں دیواروں پر آراستہ کچھ تصاویر نے خوش آ مدید کہا۔ مسجد کے اندر داخل ہوئے تو سرنگ نما کھلی اور ٹھنڈی ڈیوڑھی ملی جس میں چار دروازے تھے۔ ایک میں دفتر دوسرے میں عجائب گھر اور باقیوں پر تالا پڑا تھا۔
مقفل کمروں کو نظر انداز کرتے ہوئےہم عجائب گھر میں داخل ہوئے تو ہم نے اپنے ذوق کی تسکین کا کافی سامان موجود پایا۔ ا یک دیوار پرایک بڑا سا فریم آویزاں تھا جس میں بھیرہ کی مختصر تاریخ درج تھی۔ یہاں بھیرہ کے بارے میں انگریز ی میں لکھا ہوا ایک بہت بڑا پوسٹر بھی موجود تھا۔ جو اس شہر کی نمایاں خصوصیات کے بارے میں معلومات فراہم کر رہا تھا۔ ایک الماری تھی جس میں پرانے برتن اور کپڑے رکھے گئے تھے جن پر رہنمائی کے لئے اشارات بھی رقم تھے۔ لیکن یہ اشیا اپنے دور کے بارے میں بتانے سے قاصر تھیں۔ایک الماری کے اوپر موجود ایک نقارہ اپنی بے چارگی اور کسمپرسی کا اظہار کر رہا تھا۔
جب میں بچوں کو نقارہ کے استعمال کے مواقع کے بارے میں بتا رہاتھا تو مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے نقارہ مجھ سے کہہ رہا ہو کہ بس یہ آخری نسل ہو گی جو مجھے دیکھ رہی ہے باقی تو میری تصاویر ہی دیکھ کر گذارا کیاکریں گے۔ دوسری طرف میں اپنے قرطاس ِ ذہن پر وہ منظر بھی دیکھ رہا تھا کہ ایک شخص نقارہ بجا رہاہے اور شہر کے لوگ بھاگتے ہوئے مسجد کی طرف آ رہے ہیں۔ روزہ کھلنے کا وقت ہو گیا ہے۔ آ ج بادشاہ کا اہم فرمان بھی سنایا جانا ہے۔ یوں لگ رہا ہے جیسے سارا شہرمسجد کی طرف بھاگا آ رہا ہے۔
میں یہ بھی سوچ رہا تھا کہ اگر یہ نقارہ ختم ہو گیا تو آنے والی نسلوں کو ابراہیم ذوق کے اس شعر کی کس طرح سمجھ آئے گی۔
عزیزو! اس کو نہ گھڑیال کی صدا سمجھو
یہ عمرِ رفتہ کی اپنی صدائے پا سمجھو
بجا کہے جسے عالم اسے بجا سمجھو
زبانِ خلق کو نقارہ ٔ خدا سمجھو

پھر میرے دماغ نے خود ہی جواب دیا کہ آج کی نسل کو کو ن سا اس شعر کا مطلب سمجھ آیا ہے جو آنے والی نسل کو سمجھ آجائے گا۔ آج کی نسل نے اس شعر سے کیا سیکھ لیا ہے جو آنے والی نسل نہ سیکھ سکے گی۔
ایک اور چیز قابلِ توجہ تھی، چھت پر ٹنگا ہوا ہاتھ سے چلانے والا بڑا سا پنکھا۔۔۔۔ پنکھیا نما۔ اس پنکھے نے چوڑائی میں کمرے کی چھت کو گھیر رکھا تھا۔ اس کے ساتھ ایک رسی بندھی تھی اس رسی کو کھینچ کر اس پنکھے کو ہلاتے تو ہوا پورے کمرے میں پہنچتی تھی۔ یہ پنکھا اپنے دور کا عکاس تو تھا ہی ساتھ ساتھ یہ بھی بتارہا تھا کہ کل بھی اسی طرح گرمی پڑا کرتی تھی۔
قفل بند ایک الماری میں کچھ کتابوں کے مخطوطات تھے۔ جو غیر معروف بھی تھے اور جنہیں پڑھنا بھی خاصا مشکل تھا۔کل کے کسی عہدکاایک صندوق بھی ایک کونے میں رکھاگیاتھا جس کی ترکیب اور بناوٹ کمال تھی۔ لکڑی کے ٹکڑوں کو کاٹ کر ڈیزائن بنایا گیا تھا۔ مزے کی بات یہ تھی کہ یہ تھا تو ایک صندوق لیکن بوقتِ ضرورت میز کے طور پر بھی استعمال ہو سکتا تھا۔
مسجد کے اندر داخل ہوئے توسامنے سفید رنگ کی پُر وجاہت مسجد سفید گلاب کی طرح مسکرا رہی تھی۔ جس میں پاکیزگی، مسکراہٹ، شگفتگی، جمال، کمال اور شان سب کچھ واضح تھا۔ عمارتیں اپنے بنانے والوں کے مزاج، فطرت، کردار اور طبیعت کی آئینہ دار ہوتی ہیں۔ یہ مسجد اُس کے بنانے والے کے شگفتہ مزاج، عوام کے لئے ہمدردو مونس طبیعت اور محنتی کردار کی شخصیت کا آئینہ دار ہے۔ اس کا وسیع صحن اس کے بنانے والے کی وسعت ِ نظر کا غمازہے۔اس کے چاروں اطراف متوازن اونچائی کے حامل، اسلامی فنِ تعمیر کے عین مطابق بنائے گئے چاروں مینار اس کا تصور دیکھنے والے کے کردار کی بلندی اور پاکیزگی کا اظہار کر رہے ہیں۔مسجد کے سامنے صحن کے وسط میں وضو کے لئے ایک تالاب بنا یا گیا ہے جس کی دونوں جانب ایک ایک بارہ دری بھی بنائی گئی ہے۔ بارہ دری کے ستونوں پر چھت ڈالی گئی ہے۔ مسجد کے اندر نمازکے لئے ایک وسیع وعریض اور لمباہال موجود ہے۔ جس میں تین گنبد ہیں جن کی اندرونی چھت پر خوبصورت گُل کاری اور نقاشی کے آثار ابھی تک موجود ہیں۔
ان آثار کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اُس دور کے مزدور اپنے کام میں کتنے ماہر، مشاق اور محنتی تھے۔ لیکن افسوس کہ اُس شاہ کانام تو اس مسجد میں جگہ جگہ لکھا ہوا تھا۔ جس نے عوام کے پیسے کو استعمال کر کے مسجد بنانے کاحکم دیا لیکن کسی مزدور کے نام کا نام ونشان نہ تھا۔ مزدور چاہے میرے دور کا ہو یا اُس دور کا پیدا ہی اپنا پسینہ بیچنے کے لئے ہوتا ہے۔
اس گنبد کی بے چارگی اور شکستگی کودیکھ کر اربابِ اختیار کی بے حسی سامنے آتی ہے۔ جگہ جگہ سے اکھڑا ہوا پلستر یہاں آنے والے صاحبانِ ثروت کی روحوں میں رچی بسی
بے حسی کی گواہی دیتا ہے۔
بقول امجد اسلام امجد
کچھ ایسی بے حسی کی دھند سی پھیلی ہے آنکھوں میں
ہماری صورتیں دیکھیں تو آئینے بھی ڈر جائیں
اور بقول زیب غوری
بے حسی پہ مری وہ خوش تھا کہ پتھر ہی تو ہے
میں بھی چُپ تھا کہ چلوسینے میں خنجر ہی تو ہے
بات گنبد کی ہو رہی تھی جس کے نیچے کئی دروازوں کا حامل ایک وسیع ہال ہے جس کے کئی دروازے ہیں۔ اس ہال کی دیواروں کو بھی دو نمبر پینٹ سے ڈھکا ہو اتھا۔ دکھ تویہ تھا کہ یہ پینٹ بھی اُکھڑا ہوا تھا جو نہیں اُکھڑا تھا وہ اُکھڑا اُکھڑا تھا۔ ہوا کے لئے حد سے زیادہ چوڑے دریچے ہیں جن کی صفائی شاید گزشتہ کسی عید پر ہی کی گئی تھی۔
شیر شاہ سوری نے یہ مسجد بنانے کے لئے شاید اسی علاقہ کے لوگوں کا زر اور محنت استعمال ہو گی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اُس نے اس زمین پر بسنے والوں کی خدمت میں ایک شاہکار پیش کیا تھا۔ اس مسجد کا کونہ کونہ اُ س بادشاہ کی لگن اور شوق کا گواہ ہے۔ لیکن افسوس کہ اس کا شوق اس مسجد کی حالتِ زار کو دیکھ کر روز جیتا اور روز مرتا ہو گا۔ اس مسجد کے متولیوں نے شیر شاہ سوری کے نام کے ساتھ رحمتہ اللہ تو لگا دیا لیکن اس مسجد کو وہ شان نہ دے سکے جس کی وہ مستحق تھی۔
مسجد کے صحن سے باہر آئیں تو صحن کے کناروں پر سرخ و سفید لبادہ اوڑھے انتہائی خوبصورت محرابوں کے لمبے سلسلوں کے پیچھے لاتعداد کمرے ہیں جو علمائے کرام و طلبا کے ٹہرنے اور ترسیل و حصولِ علم کی جگہ ہے۔
شیر شاہ سوری کے اس شاہکار کو میلا کرنے میں سب سے زیادہ کردار سکھوں کا ہے۔ جن سے حسِ جمالیات اُسی طرح دور تھی جس طرح چنگیز خان سے حسِ تعمیر۔ خوبصورتی، حُسن کی پذیرائی اور تعمیری و تعمیراتی خوبیاں انہیں چُھو کر بھی نہیں گزری تھیں۔ اگر سکھوں کا دور ہماری دھرتی کے بطن سے جنم نہ لیتا تو یہ اور اس طرح کے دیگر شاہکار انمول ہیروں کی مانند بیرونی لوگوں کو اپنے دیدار کے لئے آنے پر مجبور کر دیتے۔ سکھوں نے اگر کوئی اچھے کام کئے تھے تو وہ اپنی جگہ لیکن جو سلوک انہوں نے یہاں کی مسجدوں کے ساتھ کیا شاید ہی کسی اور قوم نے کسی عبادت گاہ کے ساتھ کیاہو اور شاید ہی یہ دھرتی ان کا یہ جرم کبھی معاف کرسکے۔
مسجد سے نکل کا ہم گاڑی میں بیٹھے اور دوبارہ اسی گلی کی نکڑ پر آ گئے جہاں سے چند گلیاں آگے پکوڑوں والا موجود تھا۔ جس نے ہمیں وہاں سے گذرتے ہوئے دیکھا تو انتہائی والہانہ انداز میں گاڑی تک بھاگ کر آیا اور اپنی زبان میں ہم سے پوچھا کہ کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی۔ میں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے اندرون بھیرہ شہر کے بارے میں پوچھا لیکن نہ اسے میری پنجابی سمجھ آئی نہ مجھے اُس کی۔ پھر میں نے اردو میں بات کی تو اُ س نے انتہائی اچھے طریقہ سے ہمیں سمجھادیا کہ آپ شہر کے بالکل قریب ہیں۔ یہاں مجھے اردو زبان پر رشک آرہا تھا کہ پاکستان میں رابطہ کی واحد زبان اردو ہے۔ اگرچہ حکومتوں اور اشرافیہ نے ہندوؤں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اسے مٹانے کی ہزارہا کوششیں کیں۔ اگرچہ بانی پاکستان قائداعظم نے مارچ1948 کو ڈھاکہ میں ہونے والے جلسے میں بڑے واضح انداز میں فرمایا تھا۔
”اس صوبے کے لوگوں کوحق پہنچتا ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ اس صوبے کی زبان کیا ہو گی۔ لیکن میں آپ کو واضح طور پر بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی، صرف اردو اور اردو کے سوا کوئی زبان نہیں۔''


سکھوں کے امین

اسی اداس کھنڈر کے اُداس ٹیلے پر
جہاں پڑے ہیں نوکیلے سے سرمئی کنکر
جہاں کی خاک پہ شبنم کے بار بکھرے ہیں
شفق کی نرم کرن جس پہ جھلملاتی ہے
شکستہ اینٹوں پہ مکڑی کے جال ہیں جس جا
یہیں پہ دل کو نئے درد سے دوچار کیا
(شمیم کرہانی)
وہاں سے کچھ ہی دور ہمارے سامنے بھیرہ شہر کے آٹھ دروازوں میں سے ایک کے آثار دکھائی دے رہے تھے لیکن اس دروازے کو اشتہاروں اور بینروں نے آکٹوپس کی طرح یوں جکڑ رکھا تھا کہ نہ تو وہ اپنی شناخت بتانے کے قابل تھے نہ حیثیت۔ وقت کے بے رحم ہاتھوں نے ا سکی کچھ اس طرح عصمت دری کی تھی کہ نہ جمال رہا اور نہ ہی کمال۔ رہی سہی کسر دکانوں، ٹھیلوں اور دورِ جدید کی ایجاد چنکچی نے پوری کر دی تھی۔
یہ چنکچی رکشہ دروازے کے ارد گرد پھیلے ہوئے تھے۔ لگتا تھاکہ اس دروازے کی حفاظت کی ذمہ داری انہی کو سونپی گئی تھی۔ ان میں دو چارتو اس جارحانہ انداز میں کھڑے تھے کہ جو بھی قدم آگے بڑھائے گا اْس پر حملہ آور ہو جائیں گے۔میں نے گاڑی سے اْتر کر جونہی دروازے کی طرف بڑھنے کی کوشش کی تو یہ منحوس گھاں گھاں کرتے اس طرح میرے اوپر چڑھ دوڑے جس طرح بسنت کے آزاد دنوں میں ڈھانگے لئے لڑکے کٹی پتنگ پر ٹوٹ پڑتے تھے۔ اور وہ بیچاری، دکھی، ہواؤں اور مانجے لگی ڈوروں کی ماری اپناکوئی انگ تڑوانے کے بعد کسی نہ کسی کے ڈھانگے میں اٹکنے میں ہی عافیت جانتی۔
اس دروازے کو دیکھ کر مجھے سکھ یاد آگئے جنہوں نے ہماری مسجدوں کے ساتھ ایسا بھیانک سلوک کیا تھا کہ فطرت بھی خو ن کے آنسو روتی رہی۔لیکن ہم خوداپنی آثارِ قدیمہ کے ساتھ ان سے بھی بدتر رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ گویا ہم سکھوں کے امین ہونے کی ذمہ داری خوش اسلوبی سے نبھا رہے ہیں۔ جو کام سکھ ادھورا چھوڑ گئے تھے ہم وہ کام اپنے منطقی انجام تک پہچانے کی تگ و دو میں ہیں۔ پتہ نہیں ہمارا محکمہ آثارِ قدیمہ کس تہہ خانے میں خوابِ خرگوش کے مزے لے رہا ہے یا این جی او ز سے ملنے والی امداد ہضم کرنے کے لئے ہاجمولا چاٹ کر سویا ہو ا ہے۔
جب سے پاکستان بنا ہے اگر ذمہ دار افسران اور ادارے چند سو روپے بھی صرف کرتے رہتے تو ہمارے یہ آثارِ قدیمہ اپنی اصل شکل میں موجود ہوتے۔ لیکن شہروں سے حاصل ہونے والی کمائی اور این جی اوز کی طرف سے ملنے والی امداد چند بدکردار افسروں کے پیٹ میں جاتی رہی اورجارہی ہے۔
میرے ایک دوست نے ان بدکردار لوگوں کے لئے ایک بڑی خوبصورت سزا تجویز کی ہے وہ کہتا ہے کہ ان سب کو پکڑ کر ایک بہت ہی خوبصورت دعوت میں لایا جائے اور خوب کھانا کھلایا جائے۔ جب وہ کھا لیں تو انہیں جلو گھوٹا کھلادیا جائے۔ اور یہ عمل اس وقت تک دہرایاجائے جب تک یہ کسی فلش میں اوندھے گرے اور مرے ہوئے نہ ملیں۔
ابلیس بے چارے ہی کو بے کار نہ کوسو
انسان کے اندر بھی شیاطین بہت ہیں
بخشیش کی صورت انہیں دیتے رہو رشوت
سرکار کے دفتر میں مساکین بہت ہیں
( محشر بدایونی)
خیر اللہ کا احسان تھا کہ مجھے دروازے میں جھانکنے کا موقع مل ہی گیا۔ اندر ایک لمبا بازار دکھائی دیا۔ جس کے اندر جا کر واپس آنا جْوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ چنانچہ ہم اس درواز ے کے اندر ایک عدد گنجان بازار، ایک ٹرانسفارمر اور دروازے کے ’ ادھ پچدھے‘ حصہ کا دیدار کر کے آگے بڑھ گئے۔
تاریخ پنجاب کے مطا بق انگریز بادشاہ نے مسلمانوں کی اکثر مسجدیں اور حویلیاں سکھوں سے واگزار کروا نے کے بعد مسلمانوں کے حوالے کر دی تھیں۔ ان عمارات کی مرمت اور تزئین و آرائش کی خاطر باقاعدہ انجنئیرز بھی لگائے گئے تھے۔ لیکن افسوس کہ جن امرا اور نوابوں کی انگریز صاحبوں کے درباروں تک رسائی تھی انہوں نے اپنی حویلیاں اور محل سنوار لئے اور عوامی ملکیتیں عوام کی ملکیت میں چھوڑ دیں۔ تم جانو اورتمہارا کا م۔ رہی قیامِ پاکستان کے بعد کی صورتِ حال تو وہ تو انگریزی دور سے بھی بدتر رہی ہے۔
اس شہر میں مجھے شیر شاہ سْوری بہت یاد آرہا تھا۔ اْ س نے کسی مینار کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے آنے والے کل کے خواب تو ضرور دیکھے ہوں گے۔ اس نے مینار کے جھروکے سے جھانک کر اچھلتے کودتے، اٹکھیلیاں کرتے کتنے ہی ہرن دیکھے ہوں گے، اس نے مسجد کی طرف نمازیوں کی آتی قطاریں دیکھی تو ہوں گی، اس نے وہ بڑھیا بھی دیکھی ہو گی جو سر پر سونا لاد کر دہلی سے یہاں آئی اور اْ سے کسی نے آنکھ اْٹھاکر نہ دیکھا۔ اْس نے سوچا تو ہوگا کہ میں نے یہاں کے رہنے والوں کے لئے بہت کچھ کردیا ہے جو نہیں کر سکا وہ آنے والی نسل کرے گی۔ اْس نے مسجد کے باہر جنگل میں لہلہاتے کھیت اور ان میں ہل چلاتے ہوئے امن پسند لوگ بھی دیکھے ہوں گے۔ وہ یہ سوچ کر سینہ تانے مینار سے نیچے مسجد کے صحن میں آیا ہو گا کہ میرے اس وطن کا مسقبل کتناتابناک ہے۔ لیکن لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈھنڈو گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
تعبیر ہے جس کی حسرت و غم اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم
انگریزی سرکار نے اس شہر کی حفاظت کی غرض سے اس کی فصیل کے باہر ایک سڑک بنوائی تھی جسے سرکلر روڈ کہا جاتاہے۔ یہ سڑک کیا ایک گول یا بیضوی دائرہ ہے جس کے اندر شہر موجود ہے۔ ایک طرح سے یہ سڑک شہر کی حدبندی کا کام بھی کرتی ہے۔ آج بھی اگر ہم گوگل میپ پر دیکھیں تو بیضوی اندازمیں بنے اس شہر کے اردگرد سرکلر روڈ واضح دکھائی دیتی ہے۔
سو ملین کی ڈکیتی

فکر دلداریٔ گلزار کروں یا نہ کروں
ذکرِ مرغانِ گرفتار کروں یا نہ کروں
قصۂ سازشِ اغیار کہوں یانہ کہوں
شکوۂ یارِ طرحدار کروں یا نہ کروں
جانے کس رنگ میں تفسیر کریں اہلِ ہوس
مدحِ زلف و لب و رخسار کروں یا نہ کروں
ہے فقط مرغِ غزلخواں کہ جسے فکر نہیں
معتدل گرمیئ گفتار کروں یا نہ کروں
(فیض احمد فیض)
میں جب یہ سطریں رقم کر رہا ہوں تو میں فیض سے کہیں زیادہ سنجیدہ اور سہما ہوا ہوں پتہ نہیں میرے اس احساس اور درد کی دوسرے کیا تعبیر دیں ۔ میرے لفظوں کے پیراہن میں سے کون سا باطل یاشیطانی بدن تلاش کر لیں۔ لیکن میں پھر بھی لکھ رہا ہوں کہ شاید کوئی بندۂ خدا میرے درد کو محسوس کرے اور کچھ ایسا کر دے کہ ہمارے بڑوں کا سرمایہ بچ جائےاور اُسی شان میں لوٹ آئے جس میں اُس کے معمار نے قائم کیاتھا۔
ہم ایک دروازے کا دیدار کرنے کے بعد سرکلر روڈ پر ہی دوسرے دروازے کی طرف بڑھے تو اس دروازے کو کچھ بہتر حالت میں پایا۔ محکمہ آثارِ قدیمہ نے یہاں کے کسی بااثر شخص کے کہنے پر اسے مرمت کر کے اس کی کچھ شکل و صورت تو نکالی تھی لیکن لوگوں نے اس پر اشتہارات کی بھرمار کر کے اس کی مت مار دی تھی۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ یہ تمام اشتہارات عرس، مذہبی محافل اور اکیڈمیز کے ہیں۔ یعنی اس دروازے کو جاہلوں یا ان پڑھوں سے اتنا خطرہ نہیں جتنا پڑھے لکھوں سے ہے۔ کچھ پڑھے لکھے ہیں جو ان مقامات کی مرمت و تزئین کے لئے دئیے گئے پیسے کھا جاتے ہیں اورکچھ ان کا چہرہ بگاڑ دیتے ہیں۔
ایک بینک میں ڈاکوؤں نے ڈاکہ ڈالنے کے بعد اپنے چھ جماعت پاس ڈاکو سے کہا جلدی کرو رقم گنو۔ اس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر جب رقم گنی تو وہ پورے دس ملین نکلی۔ انہوں نے وہ رقم لی اور بنک سے نکل گئے۔ ڈاکوؤں کے جانے کے بعد بینک مینجر نے بینک سپروائزر سے کہا،
” اس سے پہلے کہ پولیس آجائے پہلے اپنے 10 ملین نکال لیں۔“
سپر وائزر نے پوچھا،
”سر آپ پر جو ستر ملین کے غبن کا سچاالزام ہے اگر کہیں تو وہ بھی ا سی میں ڈال لوں۔“
مینجر نے ہاں میں گردن ہلا دی۔ شام کو ڈاکو خبر سن رہے تھے کہ بینک میں سو ملین کی ڈکیتی ہو گئی۔ تو بڑے ڈاکو نے سر پیٹتے ہوئے اپنے ساتھیوں سے آہوں اور ہچکیوں میں کہا،
”اسی لئیے میں تعلیم کی اہمیت پر زور دیتا ہوں تم میری ایک نہیں سنتے اگر اپنے بڑوں کا پیشہ زندہ رکھنا ہے تو کمبختو انہیں تعلیم دلاؤتاکہ وہ دس ملین کی نہیں سو ملین کی ڈکیتی کریں۔“
گلہ تو گھونٹ دیا اہلِ مدرسہ نے تیرا
کہاں سے آئے صدا لا إِلَہَ إِلاَّ اللَہ




کبھی آتش جوان تھا

ہم نے اس شہر کے ایک دروازے کی تنہائی کو دیکھتے ہوئے اُس کے اندر جانے کا فیصلہ کیا تو ہو کا عالم ملا۔ ہمیں لگا کہ اس شہرِ پر اسرار میں گھر تو ہیں لیکن مکین نہیں۔ لیکن ان بوسیدہ عمارتوں میں انسانی رہائش کے اثرات اور شواہد کافی واضح تھے۔ شاید یہاں کے لوگ ضرورت کے وقت ہی گھروں سے باہر نکلتے ہوں یا اس وقت اپنے روز مرہ امور کی انجام دہی کے لئے گھروں سے باہر تھے۔
یہاں گھروں کا اندازِ تعمیر مغلوں اور سکھوں کے ادوار کی عمارات سے ملتا جلتا تھا۔ ایک سے زیادہ منازل پر مشتمل یہ گھر اگرچہ مخدوش ہوچکے تھے لیکن ان کا اندازِ تعمیر بتارہا تھا کہ کبھی آتش جوان تھا۔
ہر گھر کا مرکزی دروازہ آج کل کے جدید کمروں کے دروازوں کے قد کاٹھ جیسا تھا۔ ہر دروازےسے پہلے ایک چبوترہ بنایاگیا تھا، چبوترہ کے درمیان تین چار سیڑھیاں تھیں اور پھر آگے لکڑی سے بنادروازہ تھا۔ یہ دروازہ ایک محراب میں بنا یا گیا تھا اور دروازہ کے ٹھیک اوپر ایک روشن دان تھا۔ کچھ اسی طرح کا انداز کھڑکیوں کا بھی تھا۔
عمارات چھوٹی اینٹ کی بنی ہوئی تھیں جن پر لکڑی کی چھت بنائی گئی تھی۔ جس طرح آج کل ٹیرس بنائے جاتے ہیں ان گھروں میں بھی لکڑی کے ٹیرس بنائے گئے تھے۔ لکڑی پر انتہائی عمدہ گلکاری کی گئی تھی۔ زیادہ تر عمارتوں کو پیلا رنگ کیا گیا تھا۔ عمارتوں کو پیلا رنگ کرنے کی روایت شاید سکھوں کے دور سے چلی آرہی تھی۔ تین تین تہوں کے اندر بنی ہوئی محرابوں میں کھڑکیا ں بنائی گئی تھیں۔ جن پر لکڑی کا خوبصورت کا م کیا گیا تھا۔ دیواروں پر رنگین اور دیدہ زیب گْل کاری کے آثار ابھی بھی بہت سی عمارات پر موجود ہیں۔
شہر کی سبھی عمارتوں کاا ندازِ تعمیر کافی حد تک ایک جیسا تھا۔ لگتا تھا جیسے یہ ساری عمارات ایک ہی وقت میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ بنائی گئی تھیں۔ ان عمارات میں سے بہت سی عمارات قیامِ پاکستان کے وقت کی نقل مکانی کی داستانیں بھی بیان کرتی ہیں۔ ہندوؤں اور سکھوں کی بنائی گئی بڑی بڑی حویلیاں جو یہاں کے مسلمانوں کے ہاتھ لگیں آج بھی رو رو کر اپنے بنانے والوں کے جذبہ اور شوق کو بیان کر رہی ہیں۔ سننے والے کان موجود ہوں تو ان حویلیوں میں قید کہانیاں سنی جا سکتی ہیں۔میں جب ان عمارتوں کے اصل مکینوں کے بارے میں سوچتاہوں تومیری روح تک کانپ اُٹھتی ہے۔
یہاں کہ مکینوں نے کیسے اپنے قدم باہر نکالے ہوں گے، نکالے بھی ہوں گے یا وہیں کہیں دفن کر دئیے گئے ہوں گے۔ کتنے ہوں گے جو اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے ان سپنوں کے محلات کے درو دیوار کے ساتھ لگ لگ کر روتے رہے ہوں گے، کتنے ہوں گے جنہیں رونے کی بھی مہلت نہ ملی ہو گی اور کتنے ہوں گے جو کسی صحن، کسی دالان یا کسی اندھیرے کنویں میں ابدی نیند سو گئے ہوں گے۔
اُف! جب شہروں پر مصیبت کا آسمان ٹوٹ پڑتا ہے تو دیواریں بھی پناہ نہیں دیتیں، چھتیں سایہ فراہم کرنے سے انکاری ہو جاتی ہیں اور دالان قبرستان بن جاتے ہیں۔ کنویں عصمتوں کے رکھوالے بن جاتے ہیں۔
مجھے سکھوںکا ابتدائی دور بھی یاد آرہا ہے جب انہوں نے لاہور شہر کو لوٹا تھا۔۔مسجدوں میں بدکاریاں کی تھیں۔ مسلمان شہریوں نے اپنی عزتیں اپنے ہاتھوں سے ذبح کر دی تھیں۔ اجتمائی قبروں کی کثرت اس قتل عام کی گواہ ہیں۔ کسی نے مقافاتِ عمل کو سمجھنا ہو تو پرانی عمارتوں کو دیکھ لے۔ یہاں آکر چند لمحے گزار لے۔
ان حویلیوں کو بٹنے کی ایسی عادت پڑ گئی ہے کہ آج یہ بٹتے بٹتے کمروں کی حد تک رہ گئی ہیں لیکن ابھی بھی ان کا جی نہیں بھرا مزیدبٹ رہی ہیں۔ لوگوں نے اپنی ضرورت کے مطابق ان میں تبدیلیاں کر لی ہے۔ لیکن ان کی مرمت آرائش اور زیبائش کی طرف توجہ نہیں دی۔
بھیرہ کے اندرون شہر کی جتنی عمارات میں نے دیکھیں ان سب کے رکھ رکھاؤ سے یہ واضح ہو رہاتھا کہ ان میں سے بہت سی ان کے مکینوں نے تعمیر نہیں کیں ورنہ وہ انہیں اپنی وراثت سمجھتے ہوئے ان کی قدر کرتے اور اس ورثہ کو سنبھال کر رکھتے۔ بے قدری اس قدر ہے کہ اگر کسی کھڑکی کا شیشہ ٹوٹ گیا تو وہاں گتہ لگا لیا گیا اور اگر گتہ ٹوٹ گیا تو دوسرا گتہ بھی لگانے کی زحمت گوارہ نہیں کی گئی۔ گتوں کے بوسیدہ ٹکڑے مکینوں کی کاہلی اور سستی کا رونا رو رہے ہیں۔ دنیا کا اعلیٰ ترین لکڑی کاکام اس بے دردی سے خراب کیاجارہا ہے کہ دل خون کے آنسو روتا ہے۔
میں ایک عمارت کے قریب رک کر اس کی بربادی کی وجوہات تلاش کرتا رہا، غربت، جہالت یا کم علمی۔ لیکن مجھے اس کی وجہ سوائے سستی اور کاہلی کے کچھ بھی سمجھ نہ آئی۔








مندر جو کبھی بستا تھا۔گھنٹیوں کی آہیں۔

میں تجھے ڈھونڈنے نکلا گھر سے
اور اپنا ہی پتہ بھول گیا
اب نہ وہ تو ہے نہ میں
نہ وہ راستہ ہے نہ پیڑ
نہ وہ مندر ہے
نہ کٹیا
نہ چراغ
اب نہ وہ تو ہے نہ میں
اور وہ لوگ کہاں کیسے ہیں
میں جنہیں بھول کے خوش ہوں
جو مجھے یاد بھی آئیں
کیسی دیوار ہے یہ نیم فراموشی کی
آؤ دیوار گرائیں
(مصحف اقبال توصیفی)
یہاں ایک مندر کا ذکر ضرور کروں گا۔ جسے اپنے زمانے میں بنانے والوں نے بہت دل لگا کر بنایا ہوگا، قیمتی پتھر، قیمتی اور اعلیٰ طرزِ تعمیر، اور اعلیٰ آرائش و زیبائش۔ لیکن یہ مندر ناصرف بند پڑاہے بلکہ گندگی کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکا ہے۔
مانا کہ یہ اب عبادت گاہ نہیں، مانا کہ اس کے مکین یہاں نہیں رہے لیکن کیایہ عمارت عہدِ رفتہ کی ایک بوسیدہ کہانی سے بھی کم حیثیت نہیں رکھتی۔ کیایہ عمارت ہمیں یہاں کے رہنے والوں کے علم، ذوق اور ہنر کی بابت کچھ بھی علم مہیا نہیں کرتی۔ کیا یہ ہمیں یہ نہیں بتاتی کہ ہمارے گزرے کل کے لوگ کتنے ہنر مند اور خوبصورتی سے پیار کرنے والے تھے۔ افسوس یہ مندر اور اس سے ملحقہ باغ نشہ کرنے والوں کی آمجاگاہ بن چکا ہے۔
اس مندر کی گھنٹیاں خاموش ہیں۔ سسنے والوں کو سسکیاں سنائی دیتی ہیں ۔ یہ سسکیاں اس وجہ سے نہیں ہیں کہ یہ خاموش ہیں ۔ اس کی وجہ کچھ اور ہے۔ کوئی بھی عمارت بس عمارت ہوتی ہے۔ وہاں جو آ گیا وہ اُسی کی ہوگئی۔ آنے والے کا جو نظریہ یا فکر ہوئی اُ سنے وہ اختیار کر لی ۔ کیا اس مندر کو عمارت کا درجہ نہیں دیا جا سکتا۔کیا اس مندر میں کوئی اسکول نہیں بن سکتا، کیایہاں کوئی لائبریری نہیں بنائی جاسکتی یا یہ کسی یونین کا دفتر نہیں بن سکتا۔
میں یہ سب سوچ ہی رہا تھا کہ میری نظریں مندر کے اوپر بنے تاج کی سنہری پتیوں، مٹیالے رنگ کے پتھر پر بنائی گئی سبز پتیوں اور سرخ پھولوں پر جا کر جم گئیں۔ مجھے اپنے قرطاسِ ذہن پر اس مندر کی عمارت کے اندر بیٹھے ہوئے بچے کتب بینی میں مصروف دکھائی دے رہے تھے۔ ایک شخص سیڑھی لگا کر اس تاج کو صاف کر رہاتھا۔ پانچ چھ
بچے اس لائیبریری سے ملحقہ باغ میں کھیل رہے تھے، کچھ ایک کونے میں بیٹھے اسکول کا کام کر رہے تھے۔ ایک بابا جی بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے۔ ایک شخص ہنس ہنس کر فون پر باتیں کر رہا تھا۔
لیکن اچانک اس مندر کے قفل شدہ دروازہ کے بالکل سامنے سنبھال کر رکھے نسل در نسل گندگی کے ڈھیر سے اْٹھنے والے تعفن نے مجھے مستقبل کے خوبصورت خواب سے باہر آنے پر مجبور کر دیا۔ میں یہ سوچتے ہوئے اپنی گاڑی کی طرف چل پڑا کہ ہمارے صاحبانِ اقتدار و اختیار کو ایسے خواب کیوں نہیں آتے۔ کیا اس مندر کو ایک لائبریری بھی نہیں بنایا جا سکتا۔۔ کیااس ’ مرکز کفر ‘ کو دھو دھا کر، پاک صاف کر کے اس میں اسکول نہیں بنا یا جا سکتا۔ کیا یہ کسی بے گھر کے سر چھپانے کی جگہ بننے کی بھی حیثیت نہیں رکھتا۔۔۔ ہائے! ایسی سوچیں میرے حاکم اور میرے منتظم شہر کے اذہان پرکیوں دستک نہیں دیتیں۔
جہاں تک اس شہر کا تعلق ہے تو کیا کہ اس شہر کے باسیوں کو کسی نئے شہر میں منتقل کر کے اس شہر کو محفوظ نہیں کیا جا سکتا۔ یوں یہ شہر اس کے باسیوں کے لئے آمدن کا ایک معقول ذریعہ بھی بن سکتا ہے اور عہدِ رفتہ کی ایک خوبصورت یاد گار بھی۔
اس شہر کہ آٹھ دروازوں میں سے کچھ کو وقت کا اژدہا کھا چکا ہے جوموجود تھے ان میں سے چند ہم نے دیکھے، ایک دو جگہ اس شہر کی فصیل بھی دیکھی اور اس قیمتی وراثت کی حالتِ زار پر خون کے آنسو بہاتے ہوئے اس شہر ِ پارینہ سے باہر آگئے۔
کھانا کھانے کی غرض سے ایک ہوٹل کو عارضی قیام گاہ بنا کر وہاں بیٹھ گئے۔ میری مسز پسینہ پونچنے لگیں اور بچے ٹیب اور سیل فون سے کھیلنے لگے۔ عابد کو ایک کونے میں رکھا چھوٹا ساٹی وی مل گیا اور وہ خبریں سن کر اپنی تھکان اْتارنے لگا۔ اس چھوٹے سے ہوٹل کامالک ایک جوان لڑکا تھا جو اپنے صاف ستھرے بھورے کڑھائی والے کرتا شلوار، اْ ٹھنے بیٹھنے اور بول چال سے پڑھا لکھا لگ رہا تھا۔ میں نے اس سے اس شہر کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی تو اس نے یکسر لاعلمی کا اظہار کر دیا۔ پھر کچھ ہی دیر بعد میرے پاس آکر اپنی چھوٹی سی سیاہ داڑھی کو کان کے پاس سے کھجاتے ہوئے بولا،
”سر جی! یہاں ایک مسجد ہے جس میں ایک ایسی سرنگ ہے جو دریائے جہلم کے پار جاتی ہے۔ ادھر سر جی ایک گھر بھی ہیں جس پر پہرا ہے۔ لوگوں نے وہاں رونے کی اور ہنسنے کی آوازیں بھی سنی ہیں۔ سب لوگ کہتے ہیں کہ وہاں چڑیلیں رہتی ہیں۔“
میں نے سوچا یا ر ہم تو پریوں سے ملا قات کا ہدف لے کر نکلے تھے اور یہ صاحب ہمیں چڑیلیں دکھا رہے ہیں۔ میں حیران تھاکہ یہ وہ شہر ہے جس کے فن کار باقاعدہ ایک امتحان پاس کرنے کے بعد برمنگھم پیلس پرکام کرنے کے لئے گئے اور ایسا کام کیا کہ آج بھی لوگ ان کے ہنر کو دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں۔ لیکن آج اْن کاکوئی وارث موجود نہیں۔
دکھ تو یہ تھا کہ یہاں کے لوگوں کو شیعہ سنی مسئلوں کا بہت پتہ تھا۔ جب میں نے پرانے اخبارات دیکھے تو پتہ چلا کہ یہاں یہ مسئلہ کافی شدت سے موجود تھا۔
تاریخ بتاتی ہے کہ یہ شہر ہمیشہ حملہ آوروں کے زیرِ عتاب رہا۔ مسلمان حکومتوں کے دور میں بھی یہ شہرتاراج ہوتا رہا۔ اس لحاظ سے اس شہر کے لوگوں کو تو آزادی کی زیادہ قدر ہونی چاہئے۔ اس چھوٹے سے شہر کو ایک مثالی شہر ہونا چاہئے۔اور ہمارے نصاب میں اس شہر کی تاریخ کا مطالعہ شامل ہونا چاہئے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ قدیم ادوار سے عمومی طور پر اور اسلامی ادوار میں خصوصی طور پر یہ شہر علم و ادب کی آماجگاہ رہاہے۔ لوگ دوردور سے یہاں علم کے حصول کے لئے آتے۔ اس شہر سے جسٹس پیر کرم شاہ، جے سی آنند، احسان الحق پراچہ جیسی کئی اہم شخصیات نے جنم لیا۔ آج بھی یہاں کئی اسکول کالجز موجود ہیں۔ یہاں کے لوگ بزرگوں اور اولیائے کرام سے بہت عقیدت رکھتے ہیں۔ جن کے گدی نشینوں کے آستانے جا بجادیکھنے کو ملتے ہیں۔
اس علاقہ کے لوگوں کا رہن سہن، خوراک اور لباس ویسا ہی ہے جو پنجاب کے دیگر شہروں کے لوگوں کا ہے۔ البتہ یہاں جوزبان بولی جاتی ہے وہ پنجابی اور پوٹھواری کا خوبصورت ملاپ ہے۔
شیکسپئیر نے کہیں کہا تھا۔
I like this place and could willingly waste my time in it..
میں نے اس شہر سے بہت کچھ سیکھا۔ اگر مجھے یہاں دوبارہ آنے کا موقع ملا تو میں یہاں رہ کر اس کے بارے میں مزید بہت کچھ لکھ سکوں گا۔ میں یہ بھی چاہوں گا کہ لوگ بھیرہ انٹر چینج تک ہی محدود نہ رہیں۔ اندر شہر میں بھی جائیں، خاص طور پر بچوں کو تو یہاں ضرور لے کر جانا چاہئے۔ شاید اس طرح کبھی کسی شاہ کو اس عظیم اور قیمتی شہر کو محفوظ کرنے کا خیال بھی آ جائے۔

میں حیرت و حسرت کا مارا خاموش کھڑا ہوں ساحل پر
دریائے محبت کہتا ہے آ کچھ بھی نہیں پایاب ہیں ہم
(شاد عظیم آبادی)
وارث اقبال
کارکن
کارکن
Posts: 69
Joined: Wed May 30, 2012 10:36 am
جنس:: مرد

Re: سفرنامہ پریوں کی تلاش چھٹی قسط

Post by وارث اقبال »

میں حیرت و حسرت کا مارا خاموش کھڑا ہوں ساحل پر
دریائے محبت کہتا ہے آ کچھ بھی نہیں پایاب ہیں ہم
(شاد عظیم آبادی)
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: سفرنامہ پریوں کی تلاش چھٹی قسط

Post by چاند بابو »

چلئے شکر ہے دیر سے ہی سہی اگلی قسط پڑھنے کو ملی تو۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Post Reply

Return to “اردومضامین”