خراٹوں کی مصیبت

طنزومزاح پر مبنی اردوکتب مفت ڈاونلوڈ
Post Reply
عبیداللہ عبید
ماہر
Posts: 512
Joined: Mon Dec 29, 2008 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: Pakistan

خراٹوں کی مصیبت

Post by عبیداللہ عبید »

[center]Image[/center]
۱۸۹۲ء کاواقعہ ہے‘ مسٹر بنجمن کے ہمراہ کشمیر کی سیاحت پر جانے کا اتفاق ہوا۔ مسٹر بنجمن کو میں اردو اور فارسی پڑھایا کرتا تھا۔ صاحبِ موصوف کو سیر و شکار کا خاص شوق تھا۔ مگر مجھے ایک اہم ذاتی کام کی وجہ سے صاحب بہادر کو وہیں چھوڑ کر واپس آنا پڑا۔

بارہ مولا سے آگے چل کر قریباًنصف رستے میں گڑھی کا پڑائو ہے جہاں شب باش ہونا پڑتا ہے۔ اس جگہ ایک ڈاک بنگلہ واقع ہے۔ یہ وہی ڈاک بنگلہ ہے جہاں انگریز سیاحوں کے ہاتھ سے ہندوستانی مسافروں کے لٹنے کی خبریں اخباروں میں گشت کرتی رہی ہیں۔ یہ مقام ہندوستانی مسافروں کے لیے خالی ازخطر نہیں‘ کیونکہ اکثر و بیشتر انگریز صاحبان اس ڈاک بنگلے میں کثرت کے ساتھ اترتے ہیں۔ اس صورت میں ہندوستانی مسافروں کو مجبوراً جگہ خالی کر کے کہیں اور جانا پڑتا ہے۔

جب میں اُس ڈاک بنگلہ پہنچا تو ایک طرف کے نسبتاً چھوٹے کمرے کی طرف خانساماں نے میری راہنمائی کی۔ میں اپنا سامان وہیں رکھ کر باہر برآمدے میں ٹہلنے لگا۔اتنے میں ایک نوجوان شخص کو تانگے سے اُترتے دیکھا جس کے سر پر دستار اور کلاہ تھی۔گلے میں کوٹ اور نیچے پاجامہ (افغانی تنبان) تھا۔ یہ شخص فصیح اردومیں گفتگو کرتا اور کسی طرح کاافغانی لہجہ اس کی آواز میں نہ پایا جاتا۔ آتے ہی خانساماں سے اس کی یوں بات چیت ہوئی:
جوان: کوئی کمرا خالی ہے؟

خانساماں: جی ہاں! ایک کمرے میں یہ صاحب (میری طرف اشارہ کر کے) اُترے ہوئے ہیں۔ باقی سب خالی ہیں۔ مگر ان میں بہت سے صاحب لوگ آنے والے ہیں۔
جوان: دیکھو جی! یہ قواعد ڈاک بنگلہ تم نے خود آویزاں کر رکھے ہیں۔ ان میں صاف لکھا ہے کہ جو مسافر پہلے آئے‘ وہ جس کمرے کو خالی پائے‘ اس میں ٹھہر سکتا ہے۔ لہٰذا تم مجھے میرے مطلوبہ کمرے میں ٹھہرنے سے نہیں روک سکتے۔

خانساماں: حضور! ہم تو کسی کو بھی نہیں روکتے‘ بس آپ کی بھلائی کے لیے عرض کرتے ہیں۔ بعد میں اگر دنگافساد ہوا تو حضور جانیں۔
جوان: ٹھیک ہے‘بعد کو ہم سمجھ لیں گے‘ تم کو اس سے واسطہ نہیں۔

میں اس جوان شخص کی جرأت اور بے خوفی دیکھ کر حیران ہوا کہ کسی دھمکی میں نہیں آ رہا… جبکہ لباس اور وضع سے وہ انگریزی تعلیم یافتہ نظر نہ آتا تھا۔ لیکن ایسے اِستغنا سے جواب دیتا گویا بڑا جلیل القدر شخص ہے۔ ہاتھ میں ایک نہایت موٹا ڈنڈا موجود تھا جو خدا جھوٹ نہ بلوائے تو کم از کم بیس سیرکا ضرور ہو گا۔ اُن کی اس وحشت ناک حرکت سے خیال کیا کہ شاید عقل کے پیچھے لٹھ لیے پھرتے ہیں۔

ہر چند خانساماں نے انھیں ایک چھوٹے کمرے میں فروکش ہونے کی پیشکش کی مگر وہ مطلق نہ مانا اور ڈٹ کر اپنا اسباب اسی بڑے کمرے میں رکھوایا جو تمام ڈاک بنگلہ میں سب سے وسیع اور دریا کی طرف خوبصورت فضا میں واقع تھا۔ سامان کے قریب وہ اپنے نوکر کو بٹھا‘ دریا کنارے سیر کے لیے اتنی دور جا پہنچاکہ ہماری نگاہ سے اوجھل ہو گیا۔جاتے ہوئے خانساماں کو حکم دے گیا کہ اپنے اسلامی برتنوں میں اس کے لیے پلائو‘ قورمہ اور بھنا ہوا مرغ تیار رکھنا۔

اتنے میں شام ہو گئی۔ تھوڑی دیر میں تانگوں کی گھرگھراہٹ شروع ہوئی اور یکے بعد دیگرے چھے تانگے ڈاک بنگلہ کے احاطے میں داخل ہوئے۔اُن میں سے دس انگریز خواتین اور آٹھ جنٹلمین اُترے۔ اب احاطے میں شور و غل سنائی دیا۔ وہ خانساماں کو جھڑکنے لگے کہ تمام کمرے خالی کیوں نہیں رکھے گئے اور یہ کہ ’’دیسیوں‘‘ کو ان میں کیوں اُتارا گیا۔
’’ایک دم سب کو کمروں سے نکال دو‘‘ کا نادرشاہی حکم جاری ہو گیا۔ جب خانساماں نے حکم کی تعمیل میں ذرا تذبذب کیا تو دو صاحب بہادر خود آگے بڑھے اورسب سے پہلے اُس جوان شخص کے نوکر سے کہا ’’جھٹ پٹ اسباب باہر نکالو۔‘‘ ملازم دوڑا گیا اور قریباً آٹھ منٹ بعد واپس آ کر بیان کیا کہ اس کے مالک ابھی نمازپڑھنے میں بکنارِ دریا مصروف ہیں‘ تھوڑی دیر میں آتے ہیں۔

صاحب بہادروں نے دھمکایا ’’ڈیم مالک! جلدی اسباب نکالو۔‘‘
اس نے کہا ’’حضور ابھی چلے آتے ہیں۔‘‘
غرضیکہ ادھرپانچ سات منٹ کی مہلتِ تخلیہ کمرا کے لیے دے کر صاحب بہادروں کی یورش میرے کمرے پر ہوئی اور مزید لال سرخ چہرہ کر کے فرمایا ’’ویل! تم جلدی اپنا اسباب نکالو۔‘‘

میں انگریزوں کے تیور پہچاننے کا عرصہ سے عادی ہوں۔ اس لیے یہ سمجھ کر کہ ذرا چین چپڑ کی گئی تو بھی ’’ڈگ‘‘ سے تواضع کی جائے گی‘ دست بستہ عرض کیا ’’بہت اچھا غریب نواز! کمترین کو جس کمرے میں حکم ہو‘ چلا جائے۔‘‘
اس پر حکم صادر ہوا ’’ویل تم دیکھتا ہے کہ کوئی کمرا خالی نہیں‘ تم شاگرد پیشہ والی کوٹھڑی میں چلا جائو۔‘‘
بہت اچھا حضور کہہ کر میں اپنا اسباب اوربستر بندھوانے لگا۔ میرا ملازم محمدرمضان ایسا سٹپٹایا کہ اس کے رہے سہے حواس بھی غائب ہو گئے۔ اسباب باندھنے میں بیسیوں غلطیاں کر رہا تھا۔

اتنے میں دیکھا کہ دور سے وہی جوان مسافر چلا آ رہا ہے۔ میرا خیال تھا کہ حضرت کے ہوش و حواس اس زبردست جماعت کو دیکھ کر رفوچکر ہو جائیں گے اور وہ پہلی شیخی کرکری ہو جائے گی۔ مگر میں یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ جوان مذکور ایک ہاتھ میں وہی ڈنڈا (جسے تمام دنیا کے ڈنڈوں کا مورثِ اعلیٰ سمجھنا چاہیے )سنبھالے اور دوسرے ہاتھ میں تسبیح‘ منہ میں کچھ ورد کرتے عجیب تمکنت اور وقار کی چال سے آ رہے ہیں۔ چہرے سے ایسا استغنا برس رہا ہے گویا اس جہانِ فانی کی انھیں کچھ پروا ہی نہیں۔

جب حضرت جنٹل مینوں اور لیڈی صاحبان کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ اس جوان کا رعب کچھ یوں مجمع پر چھا گیا کہ وہ بولنا ہی بھول گئے۔ اُن کے چہرے اُس جوان رعنا کی وجاہت سے مرعوب نظر آتے تھے۔ یا تو اُس مجمع نے انگریزی میں شور و غل مچا رکھا تھا اور سب یہی کہتے تھے ’’ووئی وِل کک ہِم آئوٹ۔‘‘ (ہم اُسے لاتیں مار کر کمرے سے نکال دیں گے) مگر جب یہ جوان قریب پہنچا تو اِس سے بات کرنے کی کسی کو جرأت نہ ہوئی۔ جوان نے اہل مجمع میں سے کسی کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھا اور بے پروائی سے مجمع کے درمیان سے گزرتا اپنے کمرے کی جانب چل دیا۔

اتنے میں گوروں کی جماعت میں ایک صاحب بہادر نے (جو بعد میں معلوم ہوا کہ کرنیل تھے) پیچھے سے آواز دی ’’بابو‘ بابو!‘‘
جوان نے پیچھے مڑ کر انگریزی میں کہا ’’میری توہین مت کیجیے۔ میں بابو نہیں ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اپنے کمرے میں چلا گیا۔ سبھی گوروں کے چہرے زرد پڑ گئے۔ میں اپنا

اسباب اٹھوا کر شاگرد پیشہ کے مکانات کی طرف جانے کو تھا۔ اچانک اسی جوان کا ملازم مجھے بلا کر اندر لے گیا۔ نوجوان نے میرا حال سن کر کہا ’’آپ ہرگز اُس طرف نہ جائیے‘ یہ کمرا خاص ہے اور یہیں قیام فرمائیے۔‘‘ مجھے یہ سن کر مزید حیرت ہوئی تاہم میں نے بخوشی اس کی پیشکش قبول کر لی۔

اتنے میں خانساماں نوجوان کا کھانا پکاکر میز پر لایا جس میں اس نے مجھے بھی شامل کر لیا۔ بھوک تو ویسے ہی چمکی ہوئی تھی۔ پھر سفر کی تکان مستزاد۔ غرض اُس دن کے پلائو‘ قورمہ‘ بھنے مرغ‘ انڈوں اور چائے کا ذائقہ کوئی میرے ہی دل سے پوچھے۔ ابھی ہم لوگ کھانے سے فارغ نہ ہوئے تھے کہ گوروں میں سے ایک صاحب (جو بعد میں معلوم ہوا کہ مغربی و شمالی علاقہ جات کے ایک ضلع میں کلکٹر تھے) کمرے میں تشریف لائے۔ وہ جوان اسی طرح کرسی پر بیٹھا کھانے میں مصروف رہا مگر میں اپنی عادت سے مجبور دفعتاً کھانا کھاتے کھڑاہو گیا۔ اب جوان اور کلکٹر کی گفتگو جو انگریزی میں ہوئی قابل شنید تھی:

کلکٹر صاحب: میں آپ سے معافی چاہتا ہوں کہ آپ کے کھانے میں مخل ہوا۔ وجہ صرف یہ ہے کہ ہم آٹھ مرد ہیں جن میں سے زیادہ تر فوجی افسر ہیں۔ دس لیڈی صاحبان بھی ہمارے ساتھ ہیں۔ ایک فوجی لیفٹیننٹ جو سخت بیمار ہو گیا ہے‘ وہ بھی ہمارا رفیق سفر ہے۔ پس آپ کی مہربانی ہو گی اگر ہماری خاطر آپ یہ کمرا خالی کر دیں۔
جوان: مجھے آپ کی تکلیف کا احسا س ہے۔ مگر آپ مجھے کیا ارشاد فرماتے ہیں کہ کمرا خالی کر کے خود رات کہاں بسر کروں؟
کلکٹر صاحب: آپ یا تو شاگرد پیشہ والے مکان میں چلے جائیں یا برآمدے میں گزارہ کر لیں۔

جوان: شاگرد پیشہ والے مکان میں جا کر رہنا تو میری طبع کے ویسے ہی خلاف ہے جیسا کہ آپ کی ’’فیلنگ‘‘ کے! باقی رہی برآمدے کی رہائش‘ آپ دیکھ لیجیے‘ میرے جسم کا سانچا ایسا مضبوط نہیں کیونکہ اہل قلم میں سے ہوں۔ میرے خیال میں بہادر اور مضبوط فوجی افسر جو کوہستانی معرکوں کے غالباً تجربہ کار ہوں گے‘ رات کے سرد موسم کی سختی کا میری نسبت زیادہ دلیری سے مقابلہ کر سکیں گے۔

کلکٹر صاحب: تو آپ کمرہ خالی نہیں کر سکتے؟
جوان: ہاں مجھے افسوس ہے کہ یہی ناگوار جواب اس کم بخت موقع پر دے سکتا ہوں جبکہ میں اور آپ یکساں عالم مسافرت میں ہیں۔
کلکٹر صاحب: تو پھر مشکل کا کوئی حل بتائیں؟

جوان: میرے پاس تو کوئی چارہ سوائے افسوس کے نہیں اور بجز زبانی ہمدردی کے اور کیا کر سکتا ہوں؟ خصوصاً جبکہ حد اعتدال سے بڑھی ہوئی ہمدردی میری صحت اور جان کو خطرہ میں ڈالتی ہے۔
کلکٹر صاحب: مجھے آپ سے ایسا روکھا پھیکا جواب سننے کی توقع نہ تھی۔ اگر آپ کے ساتھ خاندان کی عورتیں ہوتیں تو میں خود تکلیف اٹھا لینے میں تامل نہ کرتا۔ اگر آپ کا کوئی رفیق بیمار ہوتا تو میں اس کے لیے ہر قسم کی سہولت کا سامان پیدا کرتا۔
جوان: مگر لیڈی صاحبان اور بیمار لیفٹیننٹ صاحب کا انتظام تو ہو سکتا ہے ۔

کلکٹر صاحب: وہ کس طرح؟
جوان: لیڈی صاحبان کی رہائش کے لیے کافی کمرے موجود ہیں۔ ایک ایک کمرے میں دو دو خواتین آرام کر سکتی ہیں۔ لیفٹیننٹ صاحب کو آپ میرے کمرے میں آرام کے لیے

بھیج دیجیے۔
کلکٹر صاحب: (کسی قدر چیں بہ چیں ہو کر) بہت اچھا صاحب! میں اتنا بھی غنیمت سمجھتا ہوں۔ آپ کے مزاج میں اس قدر ہمدردی ہے کہ آپ ایک بیمار کواپنے کمرے میں پنا دیتے ہیں۔ میں لیفٹیننٹ کو ابھی یہاں بھیج دیتا ہوں۔
تھوڑی دیر میں لیفٹیننٹ صاحب (جوواقعی بیمار لگتے تھے) ہمارے کمرے میں داخل ہوئے اور ایک کوچ پر دراز ہو گئے۔ اب صرف ایک کوچ باقی رہ گئی تھی۔ اس پر اُس جوان مذکور نے مجھے لٹایا اور خود فرش پر ایک طرف بستر بچھا لیٹ گیا۔ میں نے ہرچند اصرار کیا کہ میں فرش پر لیٹنے کا عادی ہوں مگر اُس نے میری ایک نہ سنی اور یہ کہہ کر

آپ مہمان عزیز ہیں‘ خود فرش پر ہی گزارہ کیا۔
ہمیں لحاف اوڑھ کر لیٹے پندرہ منٹ گزرے ہوں گے کہ صاحب بہادر کی چارپائی سے خررر‘ خررر‘ خررر کی آواز آنے لگی۔ یہ صاحب بہادر کے خراٹوں کی آواز تھی جو پہلے دھیمے سُر سے شروع ہوئی مگر بعد میں شدید دھماکے دار آوازوں میں بدل گئی۔ ایسی آواز کہ الامان والحفیظ۔ بلامبالغہ یہی معلوم ہوتا تھا کہ ریلوے انجن چل رہا ہے۔ اب میرے جوان ساتھی کی حالت قابل دید تھی۔ وہ بہت بے چین تھا۔ لحاف سے سر نکال کر اس نے میری طرف دیکھا اور میں نے اُس کی طرف۔ بالآخر وہ بولا :
جوان: حضرت اس کم بخت کے خراٹوں نے تو ناک میں دم کر دیا۔

بندہ: بالکل صاحب ! طبیعت کابرا حال ہے۔
جوان: اُفوہ! خوب یاد آیا۔ میں نے آج رات نماز عشا نہیں پڑھی۔ چناںچہ جناب باری سے اسی بات کی سزا تجویز ہوئی کہ جس نیند کی خاطر میں نے آج نماز اور وظیفہ چھوڑ دیا‘ اُسی سے محروم کر دیا جائوں۔ لیجیے میں تو نماز اور وظیفے پڑھنے اٹھتا ہوں۔ اس کے بعد جوان مذکور نے وضو کیا اور نماز عشا سے فارغ ہو کر بعدازاں ذکرجہر لاالہ الا اللہ

شروع کر دیا۔ جوان اپنی گردن دائیں طرف لے جا کر لاالہ تو کسی قدر آہستہ آواز سے کہتا مگر الااللہ اس زور شور کے ساتھ نعرہ مار کر بولتا کہ تمام کمرا گونج اٹھتا۔ حتیٰ کہ پہلے دو تین مرتبہ تو میں بھی تھرا اُٹھا۔ اللہ اکبر! نعرہ کیا تھا ایک شیر کی دھاڑ یا رعد کی گرج تھی۔

اُس جوان نے ابھی دس بارہ ہی نعرے لگائے ہوں گے کہ لیفٹیننٹ صاحب بھی ہڑبڑا کر جاگ اٹھے۔ خراٹوں کی بلا سے تو نجات ملی مگر ان کی خونخوار آنکھیں اور جوش غضب سے تمتمایا چہرہ دیکھ کر مجھے ایک اور بلائے عظیم سے سابقہ پڑنے کا اندیشہ ہوا۔ لیفٹیننٹ اپنی کوچ پر بیٹھ جوان کو آوازیں دینے لگے۔ مگر وہ میرا شیر برابر گرج اور کڑک نکالنے میں مصروف رہا۔ یعنی جو مصیبت ہم دونوں پر خراٹوں کی وجہ سے گزری تھی‘ اب اسی میں لیفٹیننٹ صاحب گرفتار تھے۔ وہ تنگ آ کر کبھی لیٹ جاتا‘ کبھی کروٹیں بدلتا‘ کبھی اٹھ بیٹھتا اور کبھی تنگ آ کر جوان کو پکارنا شروع کردیتا۔ جواب میں اسے سوائے اللہ اکبر کے پُرزور نعرہ کے اور کچھ سنائی نہ دیتا۔

کچھ عرصہ بعد جوان مذکور نے اپنے نعروں میں وقفہ کیا اور منہ میں آہستہ سے کچھ پڑھ کر صاحب بہادر سے مخاطب ہوا۔ یہ گفتگو ظاہر ہے انگریزی میں ہوئی:
جوان: آپ مجھ سے کچھ کہنا چاہتے تھے؟
لیفٹیننٹ صاحب: یہ آپ کیا کر رہے تھے؟
جوان: یہ ہمارے مذہب میں ایک طریقہ ہے۔
لیفٹیننٹ صاحب: آپ نے جواب کیوں نہیں دیا؟
جوان: ہمارے مذہب کے مطابق عبادت میں بولنا منع ہے۔ اب بھی آپ کے بولنے کے باعث میری مذہبی رسم میں مداخلت ہوئی۔ اب مجھے نہ بلائیے گا۔ میں کوئی جواب نہ دے سکوں گا۔

لیفٹیننٹ صاحب: (حیران و پریشان ہو کر) یہ آپ کی عبادت کب تک جاری رہے گی؟
جوان: بہت عرصہ نہیں‘ صرف دو گھنٹے اور عبادت کروں گا۔ بعدازاں دو تین گھنٹے سو کر پھر صبح کے وقت ایک آدھ گھنٹا اسی طرح عبادت کروں گا۔
لیفٹیننٹ صاحب: (سخت حیران و غم زدہ ہو کر) تو پھر ہمیں ساری رات آپ کی عبادت کے باعث جاگنا پڑے گا۔
جوان: نہیں میرے ساتھ جاگنے کی ضرورت نہیں‘ آپ شوق سے آرام فرمائیے اور ہاں اب مجھے نہ بلائیے گا۔

اس کے ساتھ ہی جوان مذکور پھر دُگنے زور کے ساتھ اللہ اکبر کے نعرے مارنے لگا۔ مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں ڈاک بنگلہ ہی نہ گر پڑے۔
ابھی ہمارے جوان دوست کو پانچ دس منٹ ہی نعرے لگاتے گزرے ہوں گے کہ لیفٹیننٹ صاحب سٹپٹا کر کوچ سے اُٹھے اور منہ میں بڑبڑانے کے بعد خانساماں اور بیرا کو آواز دی۔ رات کے بارہ بج چکے تھے۔وہ اپنے کمروں میں آرام کر رہے تھے۔ وہاں کون موجود تھا جو آواز سنتا؟ صاحب بہادر نے خود اپنی چارپائی اور بستر کمرے سے اٹھایا اور باہر لے جا کر برآمدے میں دراز ہو گئے۔

صاحب بہادر تو یوں رخصت ہوئے‘ نوجوان کچھ دیر نعرے لگاتا رہا پھرفارغ ہو کر دعا مانگی اور جانماز تہ کر کے رکھ دی۔ بعدازاں دروازے کی چٹخنیاں لگائیں اور خاموش اپنی چارپائی پربیٹھ گیا۔ اس وقت میری کیفیت نہ پوچھیے کہ مارے ہنسی کے برا حال تھا۔ پیٹ میں بل پڑ گئے۔ مگر آفرین ہے اس جوان مذکور کے‘ نہ ماتھے پر بل تھا اور نہ لب پر تبسم۔ اس کی متین‘ معقول اور ثقہ صورت چہرہ دیکھ کر اور بھی ہنسی آتی کہ عجب ستم ظریف شخص ہے۔ اسے اپنے مزاج پر کتنا قابو ہے۔ لبوں کو تبسم سے آشنا ہونے ہی نہیں دیتا بلکہ الٹا مجھ سے پوچھ رہا ہے کہ آخرآپ اس قدر ہنسے کیوں جا رہے ہیں؟

مجھے اس شخص کی جرأت‘ بہادری‘ حاضر جوابی اور ظریف مزاجی نے ایسا فریفتہ کر لیا کہ میں اس کا نام و نسب پوچھنے پر مجبور ہوگیا۔ معلوم ہوا کہ وہ معروف و مشہور شخصیت ہے اور ایک ہفتہ وار اخبار کاایڈیٹر بھی۔

حاصل کلام کچھ عرصہ گفتگو کے بعد آرام کیا اور خراٹوں کی بلا سے مخلصی پا کرمیٹھی نیند سوئے۔ علی الصباح تانگوں نے وہاں سے روانہ ہونا تھا۔ ہم لوگ سویرے سے تیار ہوئے اور بقچے سنبھال باہر نکلے۔ معلوم ہوا کہ رات والی پوری انگریز پارٹی کمرا طعام میں موجود ہے۔ اندر سے بلند صدائیں بات چیت کی سنائی دیتی تھیں۔ جوان مذکور اور اس بندہ ٔ درگاہ نے کان لگا کر سنا تو پتا چلا کہ اُسے خوب صلواتیں پڑ رہی تھیں۔

مجمع کے صاحب بہادر مع لیفٹیننٹ جنھیں رات کے وقت برآمدے کی سردی نے سخت پریشانی میں مبتلا کیا تھا‘ ٹھٹھر رہے تھے۔ جس شخص کے باعث یہ تکلیف انھیں نصیب ہوئی تھی‘ اس کو گالیاں دینے سے وہ کیسے باز رہ سکتے تھے؟ کوئی دانت پیستا تھا اور کوئی لچکچا کر رہ جاتا۔ گفتگو غضب سے پُر تھی۔

میں نے اپنے جوان ساتھی کے بشرہ اور قیافہ کو غور سے دیکھا تو حیران رہ گیا۔ اس کے چہرے سے یوں معلوم ہوتا تھا جیسے وہ کسی خاص حرکت کا مرتکب ہی نہیں ہوا۔ بڑے مزے سے مجھے کہا ’’آئو چلو ہم بھی اندر چل کر چائے پئیں۔‘‘ پہلے تو میں ہچکچایا کیونکہ میری طبیعت میں احتیاط بہت ہے۔ مگر جوان نے زور سے پکڑ کر مجھے اپنے ساتھ یوں گھسیٹا کہ اس کے ساتھ ہی کمرے میں داخل ہو گیا۔

ہمارے داخل ہوتے ہی سب حاضرین پر عالم خاموشی طاری ہو گیا۔ ایک دفعہ تو کن انکھیوں سے سب نے ہماری طرف دیکھا پھر منہ پھیر ایک دوسرے کو تکنے لگے۔ میز کے گرد چوکیاں بچھی ہوئی تھیں۔ معمولی چوکیوں پر صاحبان بہادر اور آرام کرسیوں پرلیڈی صاحبان تشریف فرما تھیں۔ ہر ایک کے آگے گلاس‘ چائے کے پیالے‘ بسکٹ اور اُبلے انڈے وغیرہ موجود تھے۔ شرابِ ناب نے انھیں کسی قدر گرما دیا تھا اور سب کچھ سُرور کے عالم میں تھے۔

اب ہمارے ’’ہیرو‘‘ کی سنیے‘ وہ میز کے ایک کونے کی طرف کمال بے پروائی اور استغنا سے ڈٹ گئے۔ اپنے قریب دوسری کرسی پر مجھے بٹھا دیا اور طرفہ حرکت یہ کی کہ وہ اپنا سوٹوں کا باوا آدم (ڈنڈا) بھی میز پر سامنے رکھ دیا۔ اُسے دیکھ کربعض لیڈی صاحبان مسکرائیں۔ ہمارے ہیرو نے خانساماں کو حکم دیا کہ چائے کی دو پیالیاں‘ چار اُبلے انڈے اور کچھ بسکٹ لائے۔ سب اشیا اسی وقت میز پر حاضر کر دی گئیں اور ہم دونوں کھانے میں مشغول ہو گئے۔

اس وقت ویسے تو خیریت تھی مگر کمرے میں سناٹے کاعالم تھا۔ اچانک ایک نیا منظر شروع ہوا۔ رات والے لیفٹیننٹ کی طرف میں نے دیکھا تو اُن کے چہرے سے خون ٹپکا پڑتا تھا۔ دیگر فوجی کرنیلوں اور میجروں کے چہروں سے بھی آشفتگی کے آثار نمایاں تھے۔ لیڈی صاحبان اس نوجوان کی حرکت کو حیرت و استعجاب سے دیکھ رہی تھیں۔ مگر یہ شیر اُسی طرح ڈٹا ہوا بسکٹ اور چائے اڑانے میں مشغول تھا۔ کسی کی طرف نہ دیکھتا‘ مجھ سے مخاطب ہو کر بولا ’’کیوں حضرت! اس وقت چائے نے خوب مزا دیا ہے۔‘‘

میں مارے ڈر کے سہما ہوا تھا کہ ابھی گھڑی دو میں مُرلیا باجے گی۔ میں جوان مذکور کی کسی بات کا جواب نہ دے سکا۔ صرف آہستہ سے ہوں ہاںاور غوں غاں کر کے ٹالتارہا۔ اتنے میں میرا اندیشہ صحیح ثابت ہوا۔ دفعتاً رات والے لیفٹیننٹ صاحب آنکھیں لال پیلی کر کے بڑے جوش غضب کے ساتھ جوان مذکور کی طرف مخاطب ہوئے اور سخت ڈانٹ پلائی۔ انگریزی میں دونوں کا جو کچھ مکالمہ ہوا ملاحظہ کیجیے:

لیفٹیننٹ صاحب: (دانت پیس کر) تم بڑے گستاخ ہو۔
جوان(بڑے تحمل اوروقار کے ساتھ) کیوں؟ کیا مجھ سے کوئی گستاخانہ حرکت سرزد ہوئی ہے؟
لیفٹیننٹ صاحب: (کچکچا کر) تم نے یہ ڈنڈا کیوں میز پر رکھ دیا؟

جوان: (اسی طرح بڑے وقار سے) معاف فرمائیے گا۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ آپ کو ڈنڈے کی صورت دیکھنے سے خوف محسوس ہوتا ہے۔ لیجیے حکم کی تعمیل کرتا ہوں (ڈنڈا میز سے اُٹھا کر نیچے رکھ دیا) آپ تسلی رکھیے‘ یہ ڈنڈا بغیر اشد اور قانونی ضرورت کے کبھی استعمال میں نہیں آتا۔
لیفٹیننٹ صاحب: تم نے رات بھی مجھے سخت تکلیف دی۔ ساری رات مجھے سردی میں باہر رہنا پڑا۔

جوان: (کمال حیرت کا چہرہ بنا کر بڑی سادگی سے) میں نے جناب والا (یورآنر) کو کوئی تکلیف نہیں دی۔ آپ نے خود ہی ہماری مصاحبت کو پسند فرمایا۔ پھر خود ہی اٹھ کر باہر چلے گئے جس کا مجھے افسوس ہے۔ میں اس وقت اپنی عبادت میں مشغول اور بول نہ سکتا تھا۔ ورنہ ضرور آپ کو باہر جانے سے روکتا۔
لیفٹیننٹ صاحب: ڈیم تمہاری عبادت‘ ایسی لغویات کا فائدہ کیا ہے ؟

جوان: (اسی صبر و تحمل اور سادگی سے چائے پیتے ہوئے) ہماری عبادت کا اور کوئی فائدہ آپ کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے مگر اتنا فائدہ تو ضرور آپ بھی تسلیم کریں گے کہ اگر کوئی خراٹے مار کر اپنے ساتھیوں کو تکلیف دے اور ان کی نیند حرام کر دے تو ایسے شخص کے ہاتھوں سے مخلصی ضرورنصیب ہو جاتی ہے۔
جوان مذکور کے منہ سے یہ آخری فقرہ نکلا تھا کہ کمرے میں ایک لطیف منظر نظر آیا۔ ایک لیڈی صاحبہ جو آرام چوکی پر تشریف فرما تھیں (اور جن کی نسبت بعد میں معلوم ہوا کہ وہ انہی لیفٹیننٹ صاحب کی زوجہ محترمہ ہیں) فقرہ سنتے ہی دفعتاً کھل کھلا کر ہنسیں۔ وہ مارے ہنسی کے ایسی بے تاب ہوئیں کہ چائے کی پیالی جو ان کے ہاتھ میں تھی‘ کپڑوں پر گر گئی۔

اب ستم یہ تھا کہ میم صاحبہ کی ہنسی رکنے میں نہیں آتی تھی۔ عجیب تماشا تھا۔ کئی منٹ تک ان کی ہنسی کا یہی عالم رہا۔ جب وہ ذرا وقفہ لیتی بھی تھیںتو صرف دو سیکنڈ کا… پھر ان کے قہقہے کا طویل سلسلہ شروع ہو جاتا۔ لیفٹیننٹ صاحب تو ان کے قہقہوں سے جھینپے جاتے جبکہ دوسرے انگریز اورلیڈی صاحبان حیران و متعجب ہو کر (مگر ذرا متبسم) میم صاحبہ کی طرف دیکھتے رہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ بڑی دیر بعد میم صاحبہ کی ہنسی نے دم لیا تو انھوں نے اپنے شوہر‘ لیفٹیننٹ صاحب سے مخاطب ہو کر فرمایا ’’ولیم! معلوم ہوتا ہے تم نے اس بے چارے جنٹل مین کو بھی اپنے خراٹوں سے تنگ کیا۔ اس نے اپنی مخلصی کا حیلہ اپنی عبادت کو بنا لیا۔‘‘ پھر میم صاحبہ نے حاضرین کو اپنے شوہر کے خراٹے مارنے کا سارا قصہ سنایا اور کہا ’’بعض اوقات میں بھی سخت تنگ ہو جایا کرتی ہوں۔‘‘

حاضرین کو ہمارے جوان ہیرو کی عجیب و غریب عبادت سے گھبرا کر کمرا چھوڑ جانے کا قصہ لیفٹیننٹ صاحب سنا ہی چکے تھے لیکن اس متن پر میم صاحبہ کے حاشیہ نے سونے پر سہاگہ کا کام کیا۔ اب فرمائیے کون تھوڑا ہنسے؟ تمام انگریزوں اور لیڈی صاحبان کا مارے ہنسی کے برا حال تھا۔ سب کے سب دیوارِ قہقہہ بن گئے اور بالاتفاق یہی کہتے کہ عجب زندہ دل شخص ہے اور عجیب تر اس کی ترکیب!

حاضرین کے قہقہوں نے لیفٹیننٹ صاحب کو اور بھی کھسیاناکردیا۔ اس وقت تمام جنٹل مین اور لیڈیاں ہمارے نوجوان ہیرو سے مخاطب تھیں‘ مگر داد دیجیے اس شخص کی متانت‘ خودداری اور اپنے جذبات پر قادر الاختیاری کی کہ لبوں پر مسکراہٹ کی جھلک بھی نمودار نہ ہوئی۔ وہ بڑی متانت اور حلیم الطبعی سے مختلف سوالات کا جواب دیتا جاتا۔ بالخصوص صاحب کلکٹر بہادر اور لیفٹیننٹ کی میم صاحبہ تو نوجوان پر ایسے فدا معلوم ہوتے کہ علانیہ اش اش کر رہے تھے۔

گپ شپ جاری تھی کہ تانگے آ موجود ہوئے۔ ہم سب لوگ کمرے سے باہر نکلے۔ اس وقت ہمارے ہیرو کو جس قدر اپنی قابلیت پر ناز ہوتا‘ بجا تھا۔ سبھی انگریز مرد اور لیڈیاں اس کے گرد حلقہ کیے ہوئے کھڑی تھیں۔ سارا مجمع یک زبان ہو کر اس کی تعریف میں رطب اللسان تھا۔ پھر یکے بعد دیگرے بڑی گرم جوشی کے ساتھ اس سے مصافحہ کر کے وہ رخصت ہوئے۔

لیفٹیننٹ صاحب بھی کھسیانا چہرہ لیے تانگے میں جا بیٹھے۔ مگر واہ رے بے خوفی‘ ہمارے نوجوان ہیرو نے کس اخلاقی کمال کا ثبوت دیا۔ لیفٹیننٹ کے سامنے جا کر عجز سے مخاطب ہوئے اور کہا ’’میری کوئی حرکت اگر ناراضی کا سبب بنی ہے تو معافی کا خواستگار ہوں۔ آئیے رنجشوں کو دور کر کے دوستانہ مصافحہ کر لیں۔‘‘
لیکن لیفٹیننٹ صاحب نے ہاتھ نہیں ملایا اور کہا ’’نہیں! تم جنٹل مین نہیں ہو۔‘‘

جو کچھ میں نے بیان کیا‘ اگر یہ کوئی ناول یا قصہ ہوتا تو ناظرین کو ہمارے ہیرو کانام معلوم کرنے کی ایسی بے تابی نہ ہوتی۔ مگر چونکہ یہ میرا چشم دید سچا واقعہ ہے اور تمام حالات میں نے بے کم و کاست لکھے ہیں۔ اس لیے ناظرین ضرور اس نوجوان کا نام جاننا چاہیں گے۔ اس مضمون کے ہیرو ’’رفیق ہند‘‘ اخبار کے اڈیٹر‘ مولوی یا مسٹر محرم علی چشتی ہیں۔

وہ ’’عجیب مانوس‘‘اجنبی کبھی یاد آئے تو میں آج بھی حیرت میں ڈوب جاتا ہوں۔ اُس کی خوداعتمادی‘ طبیعت کااستحکام (اور وہ بھی اپنے انگریز آقائوں کے روبرو) کس قدر مضبوط تھا! ایسی کوئی دوسری مثال میری نظر سے نہیں گزری۔

[link]http://urdudigest.pk/kharaton-ki-museebat/[/link]
علی خان
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 2628
Joined: Fri Aug 07, 2009 2:13 pm
جنس:: مرد

Re: خراٹوں کی مصیبت

Post by علی خان »

واقعی جناب !

پڑھ کر خواشگوار یت کا احساس ہوا. بہت بہت شکریہ
میں آج زد میں ہوں خوش گماں نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں .
بلال احمد
ناظم ویڈیو سیکشن
ناظم ویڈیو سیکشن
Posts: 11973
Joined: Sun Jun 27, 2010 7:28 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: خراٹوں کی مصیبت

Post by بلال احمد »

بہت عمدہ اور دلچسپ منظرنامہ پیش گیا ہے،


بہت عمدہ عبید اللہ عبید صاحب v_v_f v_v_f
بڑی بے چین رہتی ہے طبیعت اب میری محسن
مجھے اب قتل ہونا ہے، مگر قاتل نہیں ملتا
Post Reply

Return to “طنزومزاح”