آخری آدم خور: میسور کے پہاڑوں میں درندوں سے مقابلے کی روداد

شکاریات کے موضوع پر اردوکتب مفت ڈاونلوڈ کیجئے
Post Reply
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

آخری آدم خور: میسور کے پہاڑوں میں درندوں سے مقابلے کی روداد

Post by چاند بابو »

[center]آخری آدم خور[/center]
[center]میسور کے پہاڑوں میں خونخوار درندوں سے دوبدو مقابلے کی پُر تجسس روداد[/center]
محمد اقبال قریشی ۔ نومبر ۲۰۰۹ء

میں اپنی شکاری زندگی کے جس باب کو صفحہ قرطاس کی زینت بنانے چلا ہوں‘ وہ یادگار واقعہ ہے۔ مجھے ہندوستانی پولیس میں تعینات ہوئے چھٹا برس تھا‘ جب میرا تبادلہ ریاست میسور کے ضلع سموگا کر دیا گیا۔ میری تعیناتی شہر سموگا سے تین میل کی مسافت پر واقع قصبے تلگارتھی میں ہوئی۔ یاد رہے کہ میسور کا یہ جنگلی علاقہ صدیوں سے چیتوں کا مسکن رہا ہے۔ ان دنوںبھی وہاں کے جنگلوں میں چیتوں کی کثرت تھی۔ علاقے کی بیشتر آبادی ہندو تھی جو اپنے مردے جلاتے ہیں۔ یہ رسم کسی ندی یا دریا کے کنارے ادا کی جاتی۔ اس زمانے میں تلگارتھی کے کئی دیہات پہاڑیوں پر واقع تھے‘ ندی یا دریا ان سے کئی میل دور نیچے وادی میں بہتے تھے۔ یوں اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دیہاتیوںکو مردے جلانے کے لیے کس قدر دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہو گا۔ عام حالات میں ہندو اپنی یہ مذہبی رسم بڑے اہتمام سے ادا کرتے‘ لیکن جب کسی وبا کے باعث لوگ زیادہ تعداد میں مرنے لگتے‘ تو یہی رسم خاصی حد تک سادہ اور سہل بن جاتی۔ عموماً وہ مردے کے منہ میں سلگتا کوئلہ ڈالتے اور اسے چوبی تختے پر باندھ کر نیچے وادی میں پھینک دیتے۔ ۱۹۱۸ئ میں جب ان علاقوں میں انفلوئنزا پھیلا‘ تو تلگارتھی کے ہندوئوں نے یہی طریقہ آزمایا۔ انھیں خبر نہ تھی کہ یہ مذہبی رسم کچھ عرصے بعد ان کے لیے موت کا پیغام بن جائے گی۔
اُن وادیوں میں چیتوں کی بہتات تھی۔ دورانِ وبا انسانی لاشوں کی وافر دستیابی کے باعث کئی چیتے آدم خوری میں مبتلا ہو گئے۔ درندے عموماً مرا ہوا شکار نہیں کھاتے۔ لگتا ہے ان دنوں جنگل میں عام شکار کم تھا‘ اس لیے وہ انسانی لاشوں کی طرف متوجہ ہو گئے۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی وبا ختم ہوئی‘ اس سے کہیں زیادہ مہلک وبا آدم خور چیتوں کی شکل میں تلگارتھی کے گرد و نواح پر نازل ہو گئی۔ مجھے نہیں معلوم کہ آدم خوروں کی صحیح تعداد کیا تھی اور انھوں نے اپنی وارداتوں کا آغاز کیسے کیا۔ بہرحال میں نے سات ماہ کے دوران چھ آدم خور چیتے ہلاک کیے جو مخصوص علاقے میں خوف و ہراس پھیلائے ہوئے تھے۔ میرے ہاتھوںایک ہی مقام پر ہلاک ہونے والے آدم خوروں کی یہ ریکارڈ تعداد تھی۔ چھ آدم خوروں کی ہلاکت کے بعد علاقے میں ایک ماہ تک سکون رہا۔ دیہاتیوں سمیت میں بھی یہی سمجھا کہ شاید مردم خور بننے والے تمام چیتے جہنم واصل ہو چکے ہیں مگر یہ ہماری بھول تھی۔
ایک ماہ ہی گزرا تھا کہ ایک دن کوئی دیہاتی دوڑا دوڑا تھانے آیا اور پھولی ہوئی سانسوں کے درمیان مجھے بتایا کہ اس کے بھائی کو چیتا اٹھا لے گیا ہے۔ یہ خبر ملتے ہی میں اور راجو اُس کے ساتھ چل پڑے۔ راجو کے پاس شاٹ گن تھی جبکہ میرے پاس رائفل اور ٹارچ۔ شام کے سائے گہرے ہوتے جا رہے تھے اور ہم رات سے قبل ہی جائے وقوعہ کا معائینہ کرنا چاہتے تھے۔ مقررہ جگہ پہنچ کر ہم نے دیکھا کہ بستی سے ذرا ہٹ کر جنگل کے کنارے دو جھونپڑیاں واقع ہیں۔ ایک جھونپڑی کی دیوار پھٹی ہوئی تھی اور زمین پر کسی کے گھسیٹے جانے کے نشانات کے ساتھ ساتھ خون کے دھبے بھی واضح تھے۔ پھٹی ہوئی دیوار کی ہیئت دیکھ کر میں نے اندازہ لگایا کہ چیتا خاصاجسیم اور طاقتور ہے ۔
ہم دونوں نے دیہاتی کو وہیں رکنے کا اشارہ کیا اور چیتے کے نقوشِ پا اور خون کے نشانات کا معائینہ کرتے ہوئے جھونپڑے سے دور نکل آئے۔ فضا پر موت کا سکوت چھایا ہوا تھا مگر میری چھٹی حس مسلسل خطرے کی نشاندہی کر رہی تھی۔
جیسے ہی میں نے ٹارچ کی روشنی جنگل کی سمت پھینکی تیس گزدور جھاڑیوں میں پل بھر کے لیے دو آبگینے چمکے اور اگلے ہی لمحے خون آشام درندے کی غصیلی غراہٹیں خاموش فضا میں تلاطم برپا کر گئیں۔ ہم وہیں رک گئے۔ راجو نے اپنی شاٹ گن اور میں نے رائفل کندھے سے لگا لی‘ درندے کی طرف سے کسی بھی لمحے حملہ متوقع تھا۔ لیکن چیتاجست لگا کر جھاڑیوں سے نکل گیا۔ اس کا رُخ جنگل کی طرف تھا۔ اس کی محض جھلک ہی نظر آئی پھر وہ نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ ہمیں اتنا موقع نہیں ملا کہ اس پر گولی چلاتے۔
آدم خور نے ابھی آدھا شکار ہی کھایا تھا۔ میں نے چاروں طرف نظریں دوڑائیں تاکہ چھپنے کی کوئی جگہ مل جائے جہاں ہم اس کی واپسی کا انتظار کر سکیں۔ ابھی ہم جائزہ لے ہی رہے تھے کہ معاً ایک دھاڑسنائی دی اور تیس چالیس گز دور جھاڑیاں یوں ہلنے لگیں جیسے طوفان آ رہا ہو۔ ہمارے دائیں جانب پانچ فٹ اونچی ایک گھنی جھاڑی تھی جو خاصی پھیلی ہوئی تھی۔ میں پنجوں کے بل اس کی طرف رینگنے لگا اور راجو کو جھونپڑیوں کی طرف بڑھنے کا اشارہ کیا۔
راجو جیسے ہی جھونپڑیوں کی قریب پہنچا ایک دیوہیکل چیتا سماعت پاش دھاڑ کے ساتھ اس پر حملہ آور ہو گیا۔ اس وقت میرے اور راجو کے درمیان بمشکل بیس پچیس گز کا فاصلہ تھا۔ جیسے ہی چیتا نشانے کی زد پر آیا میں نے یکے بعد دیگرے دو فائر کر دیے۔ اسی لمحے راجو کی شاٹ گن کا دھماکا بھی سنائی دیا۔ میں نے ایک پل کے لیے چیتے کو فضا میں قلابازی کھاتے دیکھا اور پھر وہ نظروں سے یوں اوجھل ہوگیا جیسے ہوا میں تحلیل ہو گیا ہو۔
دورانِ شکار اس قسم کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں لہٰذا مجھے کچھ زیادہ حیرت نہ ہوئی۔ تھوڑی دیر تک وہیں رک کر میں بھی جھونپڑے کی طرف بڑھا۔ یہ جھونپڑا چیتے کی دست برد سے محفوظ رہا تھا۔ اس میں دو عورتیں اور وہ مرد بیٹھا نظر آیا جو ہمیں بلا کر لایا تھا۔ تینوں سخت خوفزدہ تھے۔ ایک عورت اس کی بیوی تھی اور دوسری اس کے بھائی کی بیوہ جسے آدم خور نے ہلاک کر دیا تھا۔ ہم نے انھیں تسلی دی‘ تو ان کے اعصاب پرسکون ہوئے۔
بدقسمتی سے اس مقام پر گھاس اور خاردار جھاڑیوں کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ ادھ کھائی لاش کے قریب کوئی درخت بھی نہ تھا جس پر مچان بنائی جا سکتی۔ تھوڑی دیر بعد پورا چاند طلوع ہو گیا اور دور دور تک چاندنی نے گھاس کے قطعوں کو منور کر دیا۔ ہمارے پاس وافر مقدار میں گولیاں موجود تھیں اور ہمیں یقین تھا کہ آدم خور باقی ماندہ لاش کھانے ضرور واپس آئے گا۔ جھونپڑے میں موجود تینوں نفوس اب بھی دہشت زدہ تھے۔ہمارے اصرار کے باوجود وہ گائوں جانے پر تیار نہ ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ دن چڑھنے کے بعد ہی وہاں سے جائیں گے۔ اس دوران راجو نے لالٹین روشن کر دی۔ اب مجھے جھونپڑے کی دیوار کے ساتھ چھکڑے کا ایک پہیہ پڑا نظر آیا۔ قریب جا کردیکھا‘ تو وہ خاصا مضبوط اور وزنی تھا۔
اسے دیکھتے ہی مجھے ایک ترکیب سوجھی۔ وہ یہ کہ لاش کے قریب ایک گہرا گڑھا کھودکر اسے کمین گاہ بنا لیا جائے۔ خود کو محفوظ رکھنے کے لیے اس پر چھکڑے کا پہیہ رکھا جا سکتا تھا۔ یوں گڑھے کے اندر سے میں نہ صرف لاش پر نظر رکھتا بلکہ درندہ ادھر آتا‘ تو خاصی قریب سے اُسے نشانہ بھی بنا سکتا تھا۔
یہمنصوبہ راجو کوبھی پسند آیا۔ خوفزدہ مرد نے پہیے کے علاوہ ہمیں زمین کھودنے کا نہ صرف سامان مہیا کیا بلکہ کھدائی میں بھی ہماری مدد کی۔ کھدائیکے دوران نکلنے والی مٹی جھونپڑے کے آس پاس پھیلا دی گئی۔ طے یہ پایا کہ میں اس میں بیٹھ کر آدم خور کا انتظار کروں اور راجو شاٹ گن لیے جھونپڑے میں رہے ۔ دراصل اس امر کا قوی امکان تھا کہ آدم خور ادھ کھائی لاش کے بجائے جھونپڑے پر حملہ آور ہو جائے تاکہ تازہ شکار کر لے‘ ایسے میں راجو اسے نشانہ بنا سکتاتھا۔
ہوا کا گزر نہ ہونے کے باعث گڑھے میں اچھی خاصی گرمی تھی۔ میرے سر پرتاروں بھرا آسمان دلفریب منظر پیش کر رہا تھا۔ ایک گھنٹے کے جان لیوا انتظار کے بعد اچانک مجھے یوں محسوس ہوا جیسے کوئی قریب ہی کھڑا زور زور سے سانس لے رہا ہے۔ میں چوکنا ہو کر بیٹھ گیا اور رائفل پر اپنی گرفت مضبوط کر لی۔ میں خوامخواہ باہر جھانک کر اپنی کمین گاہ کا راز فاش نہیں کرنا چاہتا تھا۔ تھوڑی دیر بعد دبی دبی غراہٹیں سنائی دینے لگیں۔ مجھے یقین ہو گیا کہ آدم خود بچی کھچی لاش کھانے آ پہنچا۔ میں رائفل سیدھی کیے‘ آہستہ آہستہ پنجوں کے بل اوپر اٹھا اور ازحد احتیاط سے پہیہ سرکا کر باہر جھانکا‘ تو یہ دیکھ کر چونک گیا کہ ایک کے بجائے دو آدم خور وہاں موجود تھے۔ ایک لاش کو اگلے پنجوں میں دبائے خونخوار دانتوں سے نوچ رہا تھا جبکہ دوسرا کچھ فاصلے پر بیٹھا بڑے غور سے اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ ایسے رخ پر بیٹھا تھاکہ گڑھا بھی بخوبی دیکھ سکتا تھا لہٰذا اس نے میرا اوپر اٹھتا ہوا سر دیکھ لیا ۔

وہ یکدم دھاڑکر پنجوں پر کھڑا ہو گیا اور مجھے لال انگارہ آنکھوں سے یوں گھورنے لگا کہ پل بھر کے لیے میرا دل دھڑکنا بھول گیا۔ میرے لیے یہ سوچنا دوبھر ہو گیا کہ اب کیا کروں۔ مجھے ایک نہیں دو آدم خوروں کا سامنا تھا۔ اگر ایک پر گولی چلاتا‘ تو دوسرا کود کر مجھ پر آ پڑتا۔ میرے اور ان کے درمیان فاصلہ بھی خطرناک حد تک کم تھا۔ میں رائفل تیار حالت میںتھامے سانس روک کر انتظار کرنے لگا کہ پہلے کون سا آدم خور حملہ کرتا ہے‘ لیکن ہوا اس کے برعکس۔
مزے سے لاش کی ہڈیاں چباتے اور گوشت نوچتے چیتے نے جب یہ دیکھا کہ دوسرا چیتا جارحانہ انداز میں اٹھ کھڑا ہوا ہے اور غرا رہا ہے‘ تو سمجھا کہ وہ اس پر حملہ کرنے لگا ہے۔ یہ مغالطہ میرے لیے کارآمد ثابت ہوا۔ لاش کھانے والے آدم خور نے دل دہلا دینے والی غراہٹوں کے ساتھ دوسرے چیتے پر حملہ کر دیا۔ دونوں آپس میں بے تحاشا لڑنے لگے۔یہ میرے لیے امداد غیبی ہی تھی۔ میں آہستہ سے پہیہ ایک طرف سرکا کر اٹھ کھڑا ہوا۔ اب میں دھڑ تک گڑھے سے باہر تھا۔ میں نے چیتوں کی طرف نظر دوڑائی تو بے تحاشا ہلتی ہوئی گھاس اور گرد کے بادل کے سوا کچھ دکھائی نہ دیا۔ بس غصیلی غراہٹیں ہی پتا دیتی تھیں کہ اُس طرف دو خون آشام درندے گتھم گتھا ہیں۔ میں گولی چلا سکتا تھا مگر یوں دونوں میں سے کوئی زخمی ہو کر فرار ہو جاتا جو میں نہیں چاہتا تھا۔ مجھے زیادہ دیر انتظار نہیں کرنا پڑا‘ کچھ دیر بعد غراہٹوں کی شدت میں کمی آ گئی جس کے ساتھ ہی ایک چیتے کی غراہٹیں دور ہوتی سنائی دیں۔ میں نے اندازہ لگا لیا کہ وہ پسپا ہو چکا ہے۔ اب میں رائفل کندھے سے لگا کر منتظر تھا کہ کب گرد کا بادل بیٹھے اور میں فاتح درندے کو نشانہ بنا لوں۔ چند ثانیے بعد درندہ گرد کے مرغولے میںسے نمودار ہوا۔
ہدف کو چند گز کے فاصلے پر دیکھ کر میں جوش اور خوشی سے بھر گیا میں نے یکے بعد دیگرے دو فائراس کی جانب جھونک دیے۔ ساکت فضا میں چارسو پچاس ایکسپریس کا کان پھاڑ دینے والا دھماکا ہوا۔ مگر یہ دیکھ کر میرے ہاتھ پیر پھول گئے کہ گولیوں سے آدم خور کا بال بھی بیکا نہیں ہوا۔ شاید میں عجلت میں تاک کر گولی نہ چلا سکا۔
اس سے قبل کہ میں رائفل بھرتا‘ آدم خور نے غضب ناک دھاڑ کے ساتھ میری جانب جست لگا دی۔ اسے خود پر حملہ آور ہوتے دیکھ کر میری جو حالت ہوئی وہ بیان سے باہر ہے۔ میں جلدی سے جھک کر گڑھے میں دبک گیا اور زندگی بھر کی مشاقی و مہارت بروئے کار لاتے ہوئے رائفل دوبارہ بھرنے لگا۔ عین اسی لمحے فضا شاٹ گن کے فائر سے گونج اٹھی۔
راجو کو شاید میرے گڑھے میں دبکنے ہی کا انتظار تھا۔ افسوس اس کی گولی بھی ضائع گئی کیونکہ عین اسی لمحے میں نے آدم خور کو اپنے اوپر سے جست لگاتے دیکھا۔ اسی لمحے پھر شاٹ گن کادھماکا سنائی دیا اور ساتھ ہی ایک ہولناک انسانی چیخ سے میں دہل گیا. وہ چیخ میرے ساتھی راجو کی تھی۔
بس پھر کیا تھا‘ میں اپنی جان کی پروا کیے بغیر اچھل کر گڑھے سے باہر نکلا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ دس گز دور لمبی لمبی گھاس بے تحاشا ہل رہی تھی۔ ساتھ ہی غراہٹوں اور انسانی کراہوں کی ملی جلی آوازیں سنائی دیں جیسے درندہ اور انسان آپس میں گتھم گتھا ہوں۔ جیسے ہی میں قطعہ گھاس کے قریب پہنچا میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔
ایک تنومند چیتا راجو سے لڑتے ہوئے اسے پھاڑ کھانے کے چکر میں تھا۔ راجو اس کے خوفناک دانتوں اور تیز نوکیلے پنجوں سے بچنے کی جان توڑ کوشش کر رہا تھا۔ اسی کوشش میں اس کی پگڑی کھل گئی اور لباس جگہ جگہ سے پھٹ گیا جس پر خون کے سرخ سرخ دھبے واضح نظر آ رہے تھے۔ یہ دیکھ کر میرا دل ڈوبنے لگا۔
میں جانتاتھا کہ راجو زیادہ دیر اس غیرمعمولی طاقتور لحیم شحیم چیتے کا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ میں اگر گولی چلاتا‘ تو چیتے سے زیادہ راجو کے نشانہ بننے کے امکانات تھے مگر یوں محو تماشا بھی تونہیں رہا جا سکتا تھا۔ میں نے چیتے کی توجہ ہٹانے کے لیے ایک ہوائی فائر کیا‘ سماعت پاش دھماکا گونجتے ہی چیتے نے فوراً خشمناک نگاہوں سے مجھے گھورا اور خون آلود دانت نکال کر غرایا۔ زخمی راجو کے حلق سے گھٹی گھٹی چیخیں برآمد ہو رہی تھیں۔ عین اس لمحے جب چیتا مجھ پرحملہ کرنے یا نہ کرنے کے شش و پنج میں مبتلا تھا‘ میں نے اس کی پیٹھ کا نشانہ لے کر گولی داغ دی۔ وہ میری پیشہ ورانہ مہارت کی کڑی آزمائش کا لمحہ تھا۔ چیتے کی پشت ایسے زاویے پر تھی کہ اگر میرا نشانہ خطا ہو جاتا تو گولی سیدھی راجو کے سینے میںاتر جاتی۔ خوش قسمتی میرے ساتھ تھی‘ گولی کھا کر چیتا خون آشام غراہٹ کے ساتھ اچھلا۔ اس دوران راجو نے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے زمین پر لیٹے لیٹے ہی لوٹ لگائی اور چیتے کی گرفت سے نکل آیا۔
چیتاجیسے ہی تڑپ کر گرا‘ میں نے تاک کر دوبارہ فائر کر دیا۔گولی نے اس کی پیشانی کا مہلک بوسہ لیا اور وہ کوئی آواز نکالے بغیر ڈھیر ہو گیا۔ میں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا اور دو مزید گولیاں اُس کے وجود میں اتار دیں۔ درندے کی موت کا اطمینان ہونے کے بعد میں تیزی سے راجو کی طرف بڑھا۔ بلاشبہ وہ بڑے مضبوط اعصاب کا مالک تھا۔ جب میں نے اسے تھاما تو اس کے زخموں سے خون ابل کر میرا لباس بھی تر کرنے لگا تاہم وہ چیتے کی موت پر خوش تھا۔ میں اسے اٹھا کر جھونپڑے میں لے گیا۔ خوش قسمتی سے اس کے زخم زیادہ سنگین نہ تھے‘ البتہ خون کا فی مقدار میں بہ گیا تھا۔
اس آدمی کی مدد سے میں نے راجو کو فوراً گائوں پہنچایا۔ صبح کاذب کا وقت تھا۔ گائوں والے رائفلوں کے دھماکوں اور چیتوں کی غراہٹیں سن کر پہلے ہی گھروں سے لاٹھیاں اور بلم لے کر نکل آئے تھے۔ ان میں میرے تھانے کے سپاہی بھی تھے۔ ضروری مرہم پٹی کے بعد راجو کو میسور کے فوجی ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ آدم خور درندوں کے پنجوں اور دانتوں میں خاص قسم کا زہر پیدا ہوتا ہے جس کے باعث زخم جلد نہیں بھرتے۔اگر بروقت علاج نہ کیا جائے‘ تو زہر سارے جسم میں پھیل کر ویسے اثرات پیدا کرتا ہے جیسے بائولے کتے کے کاٹنے سے ظاہر ہوتے ہیں۔
اگرچہ تلگارتھی کا ساتواں آدم خور میرے ہاتھوں جہنم واصل ہو چکا تھا مگر مجھے ایک پل قرار نہ تھا۔ ایک طرف مجھے راجو کی فکر تھی‘ تو دوسری طرف اس آدم خور چیتے کے متعلق تشویش جو میری آنکھوں کے سامنے سے فرار ہوا تھا۔ اگر راجو کے ساتھ حادثہ پیش نہ آتا‘ تو میںاسی رات اُس کے تعاقب میں نکل کھڑا ہوتا۔ اب مجھے آدم خور کی طرف سے جوابی حملے کا انتظار تھا۔ مجھے یقین تھا کہ وہ جلد یا بدیر کسی آبادی پر حملہ آور ہو گا۔
مجھے یہ بھی یقین تھا کہ تلگارتھی کی پہاڑیوں میں پایا جانے والا وہ آٹھواں آدم خور چیتا اسجتھے کا آخری رکن تھا جس کے باقی ساتھی میرے ہاتھوں جہنم واصل ہو چکے تھے۔ اس یقین کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ساتویں آدم خور کی ہلاکت کے بعد آس پاس کی آبادیوں سے کسی واردات کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔ لوگ تو اس خوش فہمی میں مبتلا ہو گئے کہ آدم خوروں کا صفایا ہو چکا۔ راجو کو ہسپتال میں دو ہفتے ہوئے تھے جب ایک روز علی الصباح مجھے آدم خور کی تازہ ترین واردات کی اطلاع ملی۔ میں ناشتے سے فارغ ہوا ہی تھا کہ ایک آدمی بھاگا بھاگا میرے پاس خبر لایا کہ آدم خور نے بالم کوٹ میں ایک آدمی کو ہلاک کر دیا ہے۔ بالم کوٹ وہاں سے تین میل دورتھا۔ میرے وہاں پہنچتے ہی اس بدنصیب کے بھائی نے مجھے حادثے کی تفصیل سنائی۔ مقتول کے گھرکی ایک کھڑکی پہاڑوں کی طرف کھلتی تھی۔ اس کا معمول تھا کہ وہ رات کو کھڑکی کے پاس بیٹھ کر حقہ پیا کرتا۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: آخری آدم خور: میسور کے پہاڑوں میں درندوں سے مقابلے کی روداد

Post by چاند بابو »

حادثے والی رات وہ حسب معمول کھڑکی کے پاس بیٹھا تھا۔ اس کی بیوی دروازے کی دہلیز پر بیٹھی برتن دھو رہی تھی۔ اچانک کسی درندے کی خون آشام غراہٹ سن کر اس کے ہاتھ پیر پھول گئے۔ اگلے ہی لمحے درندے کی غصیلی غراہٹوں میں اس کے شوہر کی دہشت ناک چیخیں بھی مدغم ہو گئیں۔ اس مکان کا دروازہ چار فٹ چوڑی گلی میں کھلتا تھا جس کے دونوں جانب مکان تھے۔ درندے کی غراہٹیں اور آدمی کی چیخیں سن کر تمام گھروں کے دروازے بند ہو گئے۔ وہ عورت دوڑکراپنے دیور کے مکان پہنچی اور رو رو کر اُسے حادثے کا بتایا۔ دیور بلم سنبھال کر اپنے بھائی کی مدد کوپہنچا مگر وہاںخون کی چھینٹوں اور کھڑکی کے جھولتے پٹ کے سوا کچھ نہ تھا۔
زمین پر نشانات سے چھان بین کرنے پر معلوم ہوا کہ چیتا اپنے شکار کو گلی کے آخر تک گھسیٹتالے گیا۔ پھر اسے ہلاک کر کے ایک ندی کے کنارے ویران کھیتوں میں پہنچا۔ وہاں اس نے اُس بدنصیب کو ہڑپ کیا اور بچاکھچا حصہ چھوڑ کر غائب ہو گیا۔
اس قصبے میں آدم خور کییہ پہلی واردات تھی۔ تجربے کی بنیاد پر مجھے یقین تھا کہ آدم خور اسی گائوں پر دوبارہ شب خون ضرور مارے گا۔ چونکہ ہم نے لاش صبح صبح ہی دریافت کر لی تھی‘ اس لیے آدم خور کے استقبال کی تیاری کے لیے میرے پاس پورا دن تھا۔ وہاں پنجوں کے بے شمار نشانات دیکھ کر مجھے یہ سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ بستی پر حملہ آور ہونے سے قبل چیتے نے تین چار پھیرے لگا کر اطمینان کر لیا تھا کہ وہ مقام شکار کے لیے موزوں ہے یا نہیں۔
چیتے کی گزرگاہ کا تعین کر لینے کے بعد میں نے اس جگہ پولیس چوکی کی طرز پر مچان بنانے کا فیصلہ کیا۔ گائوں والوں کی مدد سے میں نے شام تک جو مچان تیار کی اس سے بہتر اور مضبوط مچان میں نے عمر بھر نہیں دیکھی تھی۔
پہلے زمین پر لکڑی کے تختوں کا ایک چبوترہ بنایا گیا‘ پھر اس کے گرد کئی بانس مضبوطی سے گاڑ دیے گئے۔ ان بانسوں کے ساتھ پہلے چبوترے سے چار فٹ بلند ایک دوسرا چبوترہ بنایا گیا اور اس سارے ڈھانچے کے گرد خاردار تار لپیٹ دی گئی۔ جب میں اوپری چبوترے پر سامان خور و نوش کے ساتھ رائفل سمیت براجمان ہو گیا‘ تو گائوں والوں نے میری ہدایت کے مطابق مچان کو چاروں طرف سے خشک گھاس اور پتوں سے یوں ڈھانپ دیا کہ قریب سے دیکھنے پربھی اس پر خشک گھاس کے ڈھیر کا گمان گزرتا تھا۔
بیٹھنے کے بعد میں نے چیتے پر گولی چلانے کے لیے گھاس میں ایک سوراخ بنا لیا۔ وہ چاندنی رات تھی اور مجھے برقی ٹارچ کی ضرورت نہ تھی۔ رات کے دس بجے سامنے والی پہاڑیوں سے بندروں کی شرارت بھری آوازیں سنائی دیں اور پھر ہر طرف موت کاسا سکوت چھا گیا۔
یکا یک تیز ہوا چل پڑی جس کے باعث درختوں کے پتوں کے ساتھ ساتھ میری کمین گاہ کو ڈھانپنے والی گھاس میں بھی کھڑ کھڑاہٹ ہونے لگی۔ میرا دل بری طرح دھڑکنے لگا۔ بندروں کی آوازیں سن کر میں جان گیا تھا کہ کوئی درندہ پہاڑوں سے اتر رہا ہے۔ رات کے اس پہر بھلا آدم خور کے علاوہ کون ہو سکتا تھا؟ لیکن لمحہ بہ لمحہ تیز ہوتی ہوا نے بھی میرے اوسان خطا کر دیے۔ مجھے یہ دھڑکا لگا تھا کہ کہیں ہوا میری مچان کی گھاس اڑا کر مجھے ظاہر کر دے۔
میرا دماغ انہی خدشات کی آماجگاہ بنا ہواتھا کہ اچانک مجھے تیز ہوا کے شورمیں دبی دبی غراہٹ سنائی دی‘ لیکن میں معلوم نہ کر سکا کہ وہ کس سمتسے آئی۔ میں اپنی جگہ ساکت و جامد بیٹھا آنکھیں پھاڑ پھاڑ کرسامنے دیکھتا رہا مگر کوئی ذی روح دکھائی نہ دیا۔ اسی لمحے غرانے کی آواز پہلے سے بلند سنائی دی۔ میں نے بے چینی سے پہلو بدلا اور تمام احتیاطی تدابیر بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے سر پر سے گھاس ہٹا کر اٹھ کھڑا ہوا۔
اگلے ہی لمحے مجھے یوں لگا جیسے قریب ہی کہیں بادل گرجا ہے ‘مگر یہ درندے کی گرج تھی جو میرے سر کے عین اوپر سنائی دی۔ میری چھٹی حس نے مجھے خبردار کرتے ہوئے کہا ’جلدی کرو ورنہ مارے جائو گے‘ میں برقی سرعت سے اس جانب گھوم گیا۔ عین اسی لمحے مجھے باڑ کا سہارا لیے ہوئے چیتے کا خوفناک سر نظر آ گیا۔ وہ مکار درندہ گھاس کی اوٹ لے کر عقب سے مجھ پر حملہ آور ہوا چاہتا تھا۔ اس کی انگارہ آنکھیں مجھ پر مرتکز تھیں ۔
میں نے یکے بعد دیگر دو فائر اس پر جھونک
دیے۔درندہ خون آشام گرج کے ساتھ الٹ کر دور جا پڑا۔ میں نے جلدی سے گھاس ہٹا کر نیچے جھانکا‘ دور دور تک کسی ذی روح کا نام و نشان نہ تھا۔ نہایت قریب سے چیتے کا سامنا کرنے پر میرا دل بری طرح دھڑک رہا تھا۔ یک لخت چبوترے کے نیچے کھڑکھڑاہٹ ہوئی اور ایک قد آور چیتا نکل کر پہاڑوں کی طرف بھاگ نکلا۔ میں نے اس پر یکے بعد دیگرے تین گولیاں چلائیں مگر تینوں خطا گئیں۔ تھوڑی دیر قبل میں جس کیفیت سے دو چار ہوا تھا اس نے میرے حواس بری طرح مختل کر دیے تھے۔ شاید اسی لیے میں درست نشانہ نہ لگا سکا اور آدم خور میری نظروں کے سامنے پہاڑوں میں روپوش ہو گیا۔ وہ رات میں نے مچان پر ہی گزاری۔ جب پو پھٹے گائوں سے لاٹھیوں اور کلہاڑیوں سے مسلح نوجوان پہنچے تو میں نیچے اترا۔ زمین کا معائینہ کرنے پر میں نے دیکھا کہ ایک جگہ چیتے کا خاصا خون اور کچھ فاصلے پر ایک نوکیلا دانت پڑا تھا۔ اس کا مطلب تھا کہ میری ایک گولی نے اس کا جبڑا زخمی کر ڈالا تھا۔
میں نے ناشتے کے بعد گائوں والوں کو چوپال میں جمع کیا اور آدم خور کے خلاف ان کے جذبات ابھارتے ہوئے ان سے ہانکا کرنے کو کہا۔ پہلے تو آدم خور کی ہیبت کے باعث کوئی تیار نہ ہوا لیکن جب میں نے انہیں یقین دلایا کہ درندے کو کاری زخم آئے ہیں اور اب محض اسے ڈھونڈ کر جہنم واصل کرنا باقی ہے‘ توخاصی حیل و حجت کے بعد بارہ مضبوط و توانا نوجوان میرا ساتھ دینے پر آمادہ ہو گئے۔ جن شکاریوں کو پہاڑی جنگلات میں آدم خور چیتے یا شیر کے تعاقب میں نکلنے کا اتفاق ہوا ہے‘ وہ بخوبی جانتے ہوں گے کہ یہ مرحلہ جتنا دلچسپ اور امید و بیم کی کیفیت سے بھرپور ہوتا ہے‘ اس سے کہیں زیادہ خطرناک اور جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ زخمی ہونے کے بعد درندے کے غیض و غضب اور عیاری کی انتہا نہیں رہتی‘ وہ اپنے بچائو کے لیے جان پر کھیل جاتا ہے۔ اگر شکاری یا ہانکا کرنے والے ذرا بھی بزدلی دکھائیں تو ان میں سے کسی کی تکا بوٹی کر ڈالنا درندے کے لیے کچھ مشکل نہیں۔
تھوڑی دیر بعد ہانکا کرنے والے خالی ٹین گلے میں لٹکائے میرے دائیں بائیں نصف دائرے کی صورت پھیل کر آگے بڑھنے لگے جبکہ میں ان کے وسط میں چیتے کے خون اور پنجوں کے نشانات کا بغور جائزہ لیتا آگے بڑھتا رہا۔ پہاڑی علاقہ شروع ہونے سے قبل راہ میں خاصا گھنا اور دشوار گزار جنگل پڑتا تھا۔ اس کے علاوہ دور دور تک کوئی ایسا مقام نہ تھا جہاں چیتا پناہ لیتا۔ میں چونکہ تلگارتھی کے سات آدم خوروں کو بڑی کامیابی سے ٹھکانے لگاچکا تھا‘ اس لیے کچھ زیادہ ہی بے باک اور نڈر بن گیا۔ تا ہم مجھے علم تھا کہ یہ آخری آدم خور آسانی سے ہتھے چڑھنے والا نہیں۔ ہم جوں جوں آگے بڑھے جنگل دشوار گزار ہوتا گیا۔ آخر ہم ایسے مقام پر جا نکلے جہاں چھ چھ فٹ اونچی خار دار جھاڑیاں جا بجا راہ میں حائل تھیں۔ جب میں نے ان جھاڑیوں میں گھسنے کی کوشش کی‘ تو باریک کانٹوں نے میرے کپڑے تار تار کر دیے۔ میں نے اپنے ساتھیوں کو وہیں رکنے کا اشارہ دے دیا۔ رکتے ہی ان کے ٹین پیٹنے میں شدت آ گئی۔ ایک مقام پر چیتے کے بالوں کا گچھا اٹکا دیکھ کر میں ٹھٹک گیا۔ اس سے ذرا آگے کافی مقدار میں خون کے چھینٹے بھی نظر آئے۔
میں نے ساتھیوں سے کہا کہ ٹین پیٹنا بند کر دیں۔مجھے یقین تھا کہ مفرور چیتا انہی جھاڑیوں میں کہیں دبکا بیٹھا ہے۔تصدیق کے لیے میں نے مٹی کے چند ڈھیلے جھاڑیوں میں پھینکے‘ تو موذی درندہ ہولے سے غرایا۔ چیتے کی غراہٹیں سن کر میرے ساتھی آن واحد میں پلٹ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ مجھے ان سے ایسی ہی بزدلی کی توقع تھی۔ اب میں تنہا درندے کے مقابل تھا۔ مجھے کچھ اور نہ سوجھی تو جھاڑیوں میں دو تین فائر جھونک دیے۔ جنگل کا سکوت ان گنت پرندوں اور بندروں کی چیخوں سے درہم برہم ہو گیا۔ چند ہی ثانیے بعد ان آوازوں میں چیتے کی غراہٹیں اور دور ہوتی گرج بھی شامل ہو گئی۔ اگر خاردار جھاڑیاں میری راہ میں حائل نہ ہوتیں تو تلگارتھی کے آخری آدم خور کا قصہ اسی وقت تمام ہو جاتا۔ بہرحال میں اپنی ناکامی پر کفِ افسوس ملتا گائوں واپس پہنچا تو لوگوں نے مجھے گھیر لیا۔ مجھے ان سب کی بزدلی پر رہ رہ کر غصہ آ رہا تھا مگر میں جانتا تھا کہ ان کا بھاگ جانا فطری عمل تھا۔
میں سمجھتا تھا کہ زخمی چیتا زیادہ دیر بھوک برداشت نہ کرنے کے باعث جلد کسی نہ کسی انسان کی تلاش میں آبادی کا رخ کرے گا لیکن چار دن گزرنے کے باوجود اس کا کہیں نام و نشان نہ ملا۔ امیدو بیم کی یہ کیفیت حد درجہ اعصاب شکن اور حوصلہ پست کر دینے والی تھی۔ میں جلد از جلد اس کوفت سے نجات چاہتا تھا۔ جب ایک ہفتہ گزرنے کے باوجود چیتے کی کوئی خبر نہ ملی تو مجھے یقین ہو گیا کہ وہ زخموں کی تاب نہ لا کر مر گیا ہے۔
ایک روز میں نے گائوں والوں کو چوپال میں جمع کیا اوران پر زور دیا کہ چیتے کو تلاش کریں‘ کہیں نہ کہیں اس کی لاش مل جائے گی۔ مگر آدم خور کی ہیبت ان کے دلوں پر اس قدر مسلط تھی کہ کسی نے بھی میرا ساتھ دینے پر آمادگی ظاہر نہ کی۔ادھر میری رخصت کی معیاد ختم ہونے میں صرف چار دن رہ گئے تھے۔ اگر راجو زخمی نہ ہوا ہوتا‘ تو میں اس کے ہمراہ پہاڑوں کا رخ کر سکتا تھا مگر تنہا جانے میں کئی خطرات تھے۔ چیتوں کے علاوہ ان پہاڑوں میں دوسرے خطرناک درندوں اور زہریلے کیڑے مکوڑوں کی بھی بہتات تھی‘ اس لیے تنہا وہاں جانا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔
جب میری رخصت ختم ہونے میں دو دن باقی تھے تو ایک عجیب و غریب واقعہ پیش آیا۔ مجھے یہ اقرار کرنے میں کوئی عار نہیں کہ اگر وہ واقعہ رونما نہ ہوتا‘ تو شاید مجھے تلگارتھی کے آخری آدم خور سے دو دو ہاتھ کیے بغیر واپس لوٹنا پڑتا۔
میں گائوں سے باہر برگد تلے نمبردار کے ساتھ باتوں میں مصروف تھا کہ اُس نے میری توجہ پہاڑوں کی طرف مبذول کرائی۔ دور پہاڑوں کے دامن میں گرد کا بادل سا اڑتا نظر آ رہا تھا جو آہستہ آہستہ قریب ہو تا گیا۔ مزید قریب آنے پر ہمیں ایک گھوڑے کا ہیولا نظر آیا۔
جب وہ قریب آیا‘ تو میں اٹھ کھڑا ہوا۔ گھوڑے تو میں نے کئی دیکھے تھے مگر اس کی تو بات ہی کچھ اور تھی۔ وہ اس قدر شاندار جانور تھا کہ صاحبِ ذوق شاعر اس پر پورا دیوان تحریر کر سکتا تھا۔ گھوڑے کی پشت پر ایک شخص اوندھا پڑا تھا۔ اس کی پشت اور ٹانگوں پر جا بجا گہری خراشیں تھیں جن سے خون رس رہا تھا۔
میں نے نمبردار کی مدد سے زخمی کو گھوڑے کی پیٹھ سے اتارا اور چارپائی پر لٹا دیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد نمبردار گائوں کے حکیم کو بلا لایا جس نے زخمی کے زخم صاف کر کے ان پر مختلف جڑی بوٹیوں کا لیپ لگایا اور پٹی کر دی۔
اجنبی کے زخم دیکھ کر میں نے اندازہ لگایاکہ اس کی کسی چیتے کے ساتھ مڈ بھیڑ ہوئی ہے۔ پہاڑوں میں چونکہ چیتوں کی بہتات تھی اس لیے مجھے اس کی حالت دیکھ کر حیرانی نہیں ہوئی البتہ مجھے یقین ہو گیا کہ ان پہاڑوں میں مردم آزار چیتوں کا وجود ابھی تمام نہیں ہوا۔ یہ بھی بعید نہ تھا کہ گھڑ سوار پر اسی چیتے نے حملہ کیا ہو جو میرے ہاتھوں زخمی ہو کر بھاگ نکلا تھا۔
زخمی تاحال بے ہوش تھا۔ حکیم کے مطابق اس کی وجہ بکثرت خون بہ جاناتھی اور چند گھنٹوں بعد اسے ہوش آجانا تھا۔اجنبی سے فارغ ہو کر میں اس کے گھوڑے کی طرف متوجہ ہوا۔ گائوں والے بھی اس کا بڑے انہماک سے جائزہ لے رہے تھے۔ گھوڑادرخت کے نیچے باندھ دیا گیا تھا مگر وہ بار بار گردن موڑ کر اپنے مالک کی طرف دیکھتا تھا۔ یقینا وہ سدھایا ہوا اور اپنے مالک کا انتہائی وفادار تھا۔
اجنبی کے قبضے سے دو ایسی اشیا برآمد ہوئیں جنہوں نے مجھے اس کی طرف سے شک و شبے کا شکار کر دیا۔ ایک تو اس کے پہلو سے جھولتی تلوار جس کے دستے پر شیر کا سر کندہ تھا۔ دوسرے ایک چرمی تھیلی جس میں بیش قیمت لعل و جواہر بھرے تھے۔
میں نے فوراً تھانے سے تین سپاہی بلا بھیجے۔ مجھے شک تھا کہ وہ زخمی گھڑ سوار کوئی واردات کر کے آ رہا ہے اور ہیرے لوٹ کا مال تھا۔ میں نے سپاہیوں کو زخمی کی نگرانی پر مامور کر دیا۔ میں پھر گھوڑے کی طرف متوجہ ہوا۔ میرے قریب جانے پر اس نے منہ اٹھایا اور زور سے ہنہنایا۔ میں نے اسے چمکارا‘ قریب جا کر اس کی پیٹھ تھپکی اور اس کی لگام کھونٹے سے کھول کر تھام لی۔ گھوڑے نے ایک جھٹکے سے لگام میرے ہاتھ سے چھڑائی اور پھریری لے کر زخمی کی طرف بڑھ گیا۔ یہ دیکھ کر چارپائی کے گرد کھڑے لوگ ایک طرف ہٹ گئے۔
گھوڑا اپنے مالک کو سونگھنے لگا۔ اس کی طرف سے کوئی حرکت نہ ہونے پر وفادار حیوان کے حلق سے کرب ناک آوازیں نکلنے لگیں۔ وہ بار بار پچھلے سُم زمین پر مار کر بے چینی کا اظہار کرنے لگا۔ گائوں والوں کے لیے اس کی یہ حرکتیں بے معنی تھیں لیکن شکاری ہونے کے ناتے میں سمجھ گیا کہ گھوڑا کسی مخصوص مقام پر جانے کا اشارہ کر رہا ہے۔
میں نے فوراً اپنا سازو سامان تیار کیا‘ تلوار اور ہیروں کی تھیلی اردلی کی تحویل میں دی اور زخمی کا دھیان رکھنے کی تاکید کر کے اجنبی کے گھوڑے پر سوار ہو گیا۔ خلافِ توقع اس نے کسی قسم کی مزاحمت نہ کی۔ جیسے ہی میں نے اس کی لگامیں ڈھیلی چھوڑیں‘ وہ سبک رفتاری سے تلگارتھی کی پہاڑیوں کی جانب رواں دواں ہو گیا۔ چرنے اور پانی پینے کے بعد وہ تازہ دم ہو چکا تھا‘ اس لیے طوفانی رفتار سے زمین کو کچلتا آگے بڑھنے لگا۔
دوپہر کے وقت میں میدانی علاقہ پار کر کے ایک ایسی جگہ پہنچا جہاں وقفے وقفے سے چھوٹی بڑی چٹانیں راہ میں حائل ہونے لگیں۔ اب گھوڑے کی رفتار سے بھی تھکن جھلکنے لگی تھی۔ میں نے اسے تھوڑی دیر سستانے کا موقع دینے کی غرض سے لگامیں کھینچیں لیکن وہ نہیں رکا اور آگے بڑھتا رہا۔ میں سمجھ گیا کہ وہ تھکن اور پیاس کے باوجود جلد از جلد کسی خاص جگہ پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے۔پگڈنڈی نما راستے پر دوڑتے ہوئے اچانک گھوڑا ایک چٹان کے قریب خودبخود آہستہ ہو گیا۔
اس کے کان یوں متحرک ہو گئے‘ جیسے وہ کوئی آواز سننے کی کوشش کر رہا ہے۔ چٹان سے ایک راستہ بائیں جانب جاتا تھا‘ گھوڑا اسی پر گھوم گیا۔ آگے نشیبی علاقہ تھا۔ کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد وہ ایک جگہ رک گیا۔
سنگلاخ چٹانوں میں گھری ہوئی ایک چھوٹی سی سر سبز و شاداب وادی میرے سامنے تھی۔ تیس چالیس گز کے فاصلے پر پانی بلندی سے جھرنے کی صورت گر رہا تھا اور وہاں پیالے کی شکل کا تالاب بن گیا تھا۔ میں گھوڑے سے اتر آیا۔ وہ منظر اس قدر دلفریب تھا کہ میں پل بھر کے لیے مبہوت رہ گیا۔ درختوں پر بندر بڑی تعداد میں اودھم مچاتے پھر رہے تھے۔ ان کے چہرے سیاہ اور دمیں لمبی لمبی تھیں۔ تالاب میں خوش رنگ پرندے نہا رہے تھے۔ تالاب سے ذرا فاصلے پر قطار میں تین غار تھے‘ ان میں سے ایک کے دہانے پہنچ کر گھوڑا اپنے اگلے سم زور زور سے چٹانوں پر مارنے لگا۔ میں غور سے اس کا مشاہدہ کر ہی رہا تھا کہ دہانے پر ایک انسانی ہیولا نمودار ہوا۔ میں اپنی جگہ ہکا بکا کھڑا رہ گیا‘ وہ ایک سرو قد لڑکی تھی‘ نہایت پاکیزہ تاثرات والے چہرے کی مالک لڑکی۔ سب سے پہلے اس کی نظر گھوڑے پر پڑی‘ پھر اس کی متلاشی نگاہوں نے تالاب کا طواف کیا اور بالآخر مجھ پر آ کر ٹھہر گئیں۔ ایک انگریز کو اپنی جانب متوجہ پا کر اس کا رنگ فق ہو گیا۔ اگلے ہی لمحے وہ غار میں جا گھسی۔ جب دوبارہ باہر نکلی‘ تو اس کے ہاتھ میں خنجر چمک رہا تھا۔
میں نے رائفل کندھے سے لٹکائی اور دونوں ہاتھ اٹھا کر اس کی طرف بڑھنے لگا۔
’’رک جائو ورنہ میں اپنے آپ کو ختم کر لوں گی؟‘‘ وہ ہذیانی انداز میں چیخی۔
’’میں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچانا چاہتا۔‘‘ میں نے نرم لہجے میں کہا۔ وہ لمحہ بھر کے لیے ٹھٹکی‘ شاید ایک انگریز کی زبان سے مقامی بولی سن کر اسے حیرت کا دھچکا لگا تھا۔ ’’خدا کے لیے خنجر پھینک دو‘ میں تمہاری مدد کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’تم نے اکبر سلطان کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے؟‘‘ وہ بپھری ہوئی شیرنی کے مانند گرجی۔’’تم یقینا مجھے گرفتار کرنے آئے ہو۔‘‘
’’میں شکاری ہوں۔‘‘ میں نے رائفل اتار کر دور پھینکتے ہوئے کہا ’’اکبر سلطان میرے گائوں میں ہے‘ تم خود دیکھ لو‘ اس کا گھوڑا ہی مجھے یہاں لایا ہے۔‘‘
میرے یہ الفاظ اس پر اثر کر گئے۔ اس نے پھٹی پھٹی نگاہوں سے پہلے مجھے اور پھر گھوڑے کو دیکھا۔ اگلے ہی لمحے اس کے حلق سے ایک دلدوز چیخ نکل کر پہاڑوں میں گونجتی چلی گئی۔ عین اسی لمحے گھوڑا اپنی پچھلی ٹانگوں پر کھڑے ہو کر زور سے ہنہنایا۔ اس سے قبل کہ میں صورتحال کا درست اندازہ لگا پاتا‘ عقب سے چیتے کی غصیلی غراہٹ ابھری اور میں قطعی غیر ارادی طور پر پلٹ گیا۔ افسوس اس وقت تک چیتا عقبی چٹان سے میری جانب جست لگا چکا تھا۔ اس کی انگارہ آنکھیں‘کھلے پنجے اور خونخواردہانہ لمحہ بہ لمحہ میرے قریب آ رہے تھے۔ میں نے اپنے اوسان بحال رکھنے کی سر توڑ کوشش کی اور زمین پر پڑی رائفل کی طرف جست لگا دی۔
چیتے کا جسم اتنی قوت سے میرے بدن کے ساتھ ٹکرایا کہ میں رائفل تک پہنچنے سے قبل ہی اس کے وجود تلے دب کر کھردری زمین سے جا ٹکرایا۔ آنِ واحد میں درندہ مجھ سے لپٹ گیا۔ چیتے سے مڈ بھیڑ ہونے کا یہ میرا پہلا موقع نہیں تھا‘ میں جانتا تھا کہ حواس قابو میں رکھ کر میں خود کو درندے کی گرفت سے آزاد کرا سکتا ہوں۔ چیتامیرا داہنا شانہ جبڑوں سے بھنبھوڑنے لگا۔ اس نے میری دونوں رانیں مضبوطی سے اپنے پچھلے پنجوں میں جکڑ رکھی تھیں۔ میں نے دونوں پیر پوری قوت سے اٹھائے اور ان کے زور سے چیتے کا وزن ایک طرف ڈالنا چاہا۔
عین اسی لمحے فضا رائفل کے دھماکے سے گونج اٹھی اور گرم گرم خون کا فوارہ میرے چہرے پر پڑا۔ چیتے کے پیٹ کے چیتھڑے اڑ چکے تھے۔ میں نے فوراً دونوں پائوں سمیٹے اور زخمی چیتے کو پوری قوت سے ایک طرف اچھال دیا۔اسی لمحے رائفل دوسری مرتبہ گرجی اور چیتے کا سر پاش پاش کر گئی۔
میں نے زخموں سے چور اپنا وجود سمیٹا اور چٹان کے ایک ابھرے ہوئے کونے کا سہارا لے کر اٹھ کھڑا ہوا۔ لڑکی ہاتھ میں رائفل تھامے کسی فاتح جرنیل کے مانند کھڑی تھی۔ میں بائیں ہاتھ سے اپنا زخمی شانہ دبائے زمین پر ڈھیر ہو گیا۔ ساتھ ہی مجھے بے اختیار ابکائی آئی اور میں حواس سے بیگانہ ہوتا چلا گیا۔
٭٭
ہوش آنے پر میں نے خود کو پیال پر پڑے پایا۔ میرا زخم صاف کر کے پٹی کر دی گئی تھی۔ سرہانے وہی لڑکی متفکر انداز میں بیٹھی تھی۔ جیسے ہی میں نے آنکھیں کھولیں اس نے ایک برتن میرے منہ سے لگا کر نہایت شیریں سیال انڈیل دیا۔ کچھ دیر بعد مجھے اپنے اندر توانائی آتی محسوس ہوئی۔ لڑکی نے دو مرتبہ مجھے وہ سیال پلایا۔
’’اب بتائو اکبر سلطان کہاں ہے؟‘‘ جب میں اپنے حواسوں میں آیا تو اس نے مجھے سہارا دے کر بٹھاتے ہوئے پوچھا۔
’’وہ خیریت سے ہے۔‘‘ میں نے تکلیف بھری سسکاری کے ساتھ جواب دیا۔’’لیکن تم کون ہو اور ان خطرناک پہاڑوں میں کیا کر رہی ہو؟‘‘
’’کبھی ہم محلات میں رہا کرتے تھے۔‘‘ اس نے یاس بھرے لہجے میں جواب دیا۔ ’’مگر تمہاری حکومت نے ہمیں گھر سے بے گھر کر دیا۔ ہمیں ڈر ہے کہ اگر ہم کھلے بندوں رہنے لگے‘ تو انگریز سرکار ہمیں گرفتار کر کے موت کے گھاٹ اتار دے گی۔‘‘
میں حیرت سے اس کا منہ تکتا رہ گیا۔ میرے تصور میں اکبر سلطان سے برآمد ہونے والی شاہی مہر والی تلوار اور جواہرات گھوم گئے۔ مجھے یقین ہو گیا کہ ان دونوں کا تعلق میسور کے دلیرمسلمان حکمران‘ ٹیپو سلطان کے خاندان سے تھا۔ میں نے سناتھا کہ ۹۹۷۱ئ میں جب انگریزوں نے سرنگا پٹم پر قبضہ کیا‘ تو سلطان ٹیپو کے خاندان کو حراست میں لے لیا گیا۔ تاہم کچھ افرادہاتھ نہ آئے اور اب وہ روپوشی کی زندگی گزار رہے تھے۔ یہ تو میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ کوئی جوڑا یوں چیتوں کے درمیان بھی زندگی بسر کر رہا ہو گا۔
شاید یہ ان کے رگوں میں دوڑنے والے شاہی خون کی تاثیر تھی کہ انھوں نے ایسے کٹھن مقام پر سکونت اختیار کر لی۔ بعد ازاں لڑکی نے مجھے بتایا کہ وہ اپنے شوہر‘ اکبر سلطان کے ہمراہ کئی برس سے تلگارتھی کی پہاڑیوں میں رہ رہی ہے۔ خوراک کی ضرورت وہ جنگلی پھلوں اور شکار کے ذریعے پوری کر لیتے۔ جب کسی اور شے کی ضرورت ہوتی تو اکبر سلطان قیمتی پتھر سموگا کے ایک شناسا جوہری کے ہاتھ فروخت کر آتا۔ گزشتہ روز بھی وہ اسی غرض سے روانہ ہوا تھا کہ اس کا سامنا چیتے سے ہو گیا۔ یہ وہی چیتا تھا جس کا میں پیچھا کر رہا تھا۔ یہ جان کر مجھے ازحد خوشی ہوئی کہ تلگارتھی کا آخری آدم خور جہنم واصل ہو چکا ہے۔
میرے بہتیرے اصرار پر بھی لڑکی میرے ساتھ گائوں جانے پر تیار نہ ہوئی بلکہ اس نے مجھ سے وعدہ لیا کہ میں اس کے بارے میں کسی کوکچھ نہیں بتائوں گا اور اکبر سلطان کے زخم مندمل ہوتے ہی اسے واپس بھیج دوں گا۔
جب میں گائوں واپس پہنچا تو اکبر سلطان کو ہوش آ چکا تھا۔ میں نے اسے تنہائی میں ساری داستان سنائی اور اسے یقین دلایا کہ اگر وہ مجھے اپنے بارے میں سچ سچ بتا دے‘ تو میں اس کی مدد کروں گا۔ ٹھیک ایک ماہ بعد میری خصوصی سفارش اور گواہی تاجِ برطانیہ نے ان دونوں کو رسمی کارروائی کے بعد نہ صرف معاف کر دیا بلکہ وظیفہ مقرر کر کے دہلی میں ان کی رہائش کا انتظام بھی کیا۔ اس واقعے کو کئی برس گزر چکے ہیں مگر آج بھی میرے پاس محفوظ ٹیپو سلطان کی شاہی مہر والی تلوار مجھے اس کی یاد دلاتی رہتی ہے۔
بشکریہ اردوڈائجسٹ
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
انصاری آفاق احمد
مشاق
مشاق
Posts: 1263
Joined: Sun Oct 25, 2009 6:48 am
جنس:: مرد
Location: India maharastra nasik malegaon
Contact:

Re: آخری آدم خور: میسور کے پہاڑوں میں درندوں سے مقابلے کی روداد

Post by انصاری آفاق احمد »

اسلام علیکم
جزاک اللہ
ابھی مکمل نہیں پڑھا چیدہ چیدہ نظر دوڑائی ہے اتنے سے ہی بہت دلچسپ لگ رہی ہے.
یا اللہ تعالٰی بدگمانی سے بد اعمالی سےغیبت سےعافیت کے ساتھ بچا.
Image
رضی الدین قاضی
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 13369
Joined: Sat Mar 08, 2008 8:36 pm
جنس:: مرد
Location: نیو ممبئی (انڈیا)

Re: آخری آدم خور: میسور کے پہاڑوں میں درندوں سے مقابلے کی روداد

Post by رضی الدین قاضی »

تاریخی واقعہ شیئر کرنے کے لیئے بہت بہت شکریہ چاند بھائی۔
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: آخری آدم خور: میسور کے پہاڑوں میں درندوں سے مقابلے کی روداد

Post by چاند بابو »

انصاری آفاق احمد wrote:اسلام علیکم
جزاک اللہ
ابھی مکمل نہیں پڑھا چیدہ چیدہ نظر دوڑائی ہے اتنے سے ہی بہت دلچسپ لگ رہی ہے.
یہ سب آپ کے طفیل ہے کیونکہ میں تو جانتا ہی نہیں تھا کہ اردوڈائجسٹ انٹرنیٹ پر یونیکوڈ فانٹ میں دستیاب ہے۔ اسوقت اردوڈائجسٹ ہی واحد رسالہ ہے جو شکاریات کے موضوع پر مسلسل لکھتا ہے ، کبھی حکایت بھی اس موضوع پر بہت لکھتا تھا اور بہت اچھا لکھتا تھا لیکن اللہ جنت نصیب فرمائے ہمارے بزگوار عنایت اللہ مرحوم کو ان کے بعد ان کے بیٹے نے اس رسالے کا معیار جو انہوں نے بے حد بلند رکھا تھا گرا دیا۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Post Reply

Return to “شکاریات”