ڈھلوانہ کی ڈائن

شکاریات کے موضوع پر اردوکتب مفت ڈاونلوڈ کیجئے
Post Reply
انصاری آفاق احمد
مشاق
مشاق
Posts: 1263
Joined: Sun Oct 25, 2009 6:48 am
جنس:: مرد
Location: India maharastra nasik malegaon
Contact:

ڈھلوانہ کی ڈائن

Post by انصاری آفاق احمد »

[center]Image[/center]
اسلام علیکم
شکاریات کے موضوع کے شوقین حضرات کے لئیے
ڈھلوانہ کی ڈائن
مشرقی ہندوستان کے گھنے جنگلوں میںجب شکاریوں کوحیوانوںکے ساتھ ساتھ مافوق الفطرت طاقتوں سے بھی دو دو ہاتھ کرنے پڑے دور دراز دیہات میں جنم لینے والی شکار کی منفرد داستان
محمد اقبال قریشی ۔ دسمبر ۲۰۰۹ء
برطانیہ سے تعلق رکھنے والا ایس۔کے۔جیفری ﴿۱۹۵۰ئ ۔ ۱۸۷۵ئ﴾ پولیس انسپکٹر ہونے کے علاوہ ماہر شکاری بھی تھا۔ اس نے اپنی ملازمت کا بیشتر حصہ مشرقی ہندوستان میں منی پور‘ آسام‘ الموڑہ‘ کمائوں اور ترائی کے پر خطر جنگلوں میں بسر کیا۔ دراصل انہی وادیوں اور پہاڑی علاقوں میں ملنے والے بکثرت شکار نے اسے کہنہ مشق شکاری بنایا۔ تعلیم یافتہ ہونے کے باعث وہ اعلیٰ درجے کا داستان گو اور ادیب بھی تھا۔ یہی خصوصیات اسے اپنے نام ور معاصرین‘ جم کاربٹ اور کینتھ اینڈرسن کے مقابل لا کھڑاکرتی ہیں۔
لیکن کرنل جیفری کی ایک خوبی اسے ممتاز کرتی ہے۔ جم کاربٹ اور کینتھ اینڈرسن فقط شکاری تھے‘ انھیں درندوں اورآدم خوروں کی تلاش کے دوران ملنے والے انسانوں یا لاشوں کی داستانیں بُننے سے مطلق دلچسپی نہ تھی۔ کرنل جیفری اگر کوئی لاش ملتی تو وہ پولیس افسر ہونے کے ناتے یہ بات ضرور کھو جتا کہ آیا اسے کسی جانور نے ہلاک کیا ہے یا کسی نے قتل کر کے وہاں ڈال دیا۔ اس نے اپنی زندگی کے تمام بڑے بڑے واقعات و حوادث مختلف کتابوں کے بجائے اپنی اکلوتی شکاری تصنیف ’میری آپ بیتی: شکار اور شکاری‘ ﴿MyAutobiogrphy, Hunt and Hunter﴾میں قلمبند کیے۔
دوسری جنگِ عظیم کے اوائل میں شائع ہونے والی یہ کتاب اب نایاب ہے۔ خوش قسمتی سے میرے دادا کے زمانے کا ایک بوسیدہ مگر قیمتی نسخہ میرے کتب خانے کی زینت ہے۔ اس سے ہم وقتاً فوقتاً کرنل جیفری کی مہمات اور کارناموں کو اخذ کر کے آپ کی تفریح طبع کے لیے پیش کرتے رہتے ہیں اور کرتے رہے گے۔ ہمیں یقین ہے اس سے قبل اردو زبان میں ایسی کہانیاں آپ نے کم پڑھی ہوں گی۔ ﴿مترجم﴾
٭٭
کئی لوگ مجھ سے دریافت کرتے ہیں کہ اپنی چالیس سالہ شکاری زندگی میں جو ہندوستان کے مختلف جنگلوں میں گزری‘کیا میں نے کہیں کوئی بھوت بھی دیکھا؟ میں یہی جواب دیتا کہ بھوت پریت محض انسان کے تخیل کی پیداوار ہیں اور ان کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ تاہم میری شکاری زندگی میں کچھ ایسے واقعات ہیں جن میںمیرا بھوتوں سے ’آمنا سامنا‘ ہوتے ہوتے رہ گیا۔ آج ایک ایسا ہی واقعہ نذرِ قارئین ہے۔ میں جس زمانے کا ذکر کررہا ہوں تب ہندوستان میں جنگل زیادہ اور انسانی آبادیاں خال خال ہوا کرتی تھیں۔ کئی دیہات جنگلوں کے بیچ واقع تھے اور ان کے مابین بھی فاصلہ خاصا زیادہ تھا۔ بجلی کی سہولت نہ ہونے کے باعث گزرگاہیں سرشام ہی ویران ہو جایا کرتیں۔ ایسے میں اگر کوئی درندہ آدم خور ہو جاتا تو اسے زیر کرنا بڑا دِقت طلب کام ہوتا۔ اسی وجہ سے آدم خور کی وارداتوں کو کسی مافوق الفطرت قوت سے منسوب کر کے توہم پرست لوگ اکثر طرح طرح کے قصے گھڑ لیتے۔
یہ قصے جہاں مقامی باشندوں میںخوف و ہراس پھیلانے کا سبب بنتے وہیں شکاری کے کام میں بھی رکاوٹ ڈالتے۔ یہ حقیقت ہے کہ مقامی باشندوں کا تعاون حامل نہ ہو‘ توماہر سے ماہر شکاری بھی کسی جنگل میں اپنی مہم بخوبی سرانجام نہیں دے سکتا۔اگر ان لوگوں کے دلوں پر چڑیل یا بھوت پریت کی ہیبت مسلط ہو جاتی تو اول وہ تعاون پر آمادہ ہی نہیں ہوتے تھے اور اگر ہو بھی جاتے تو ان کی اوٹ پٹانگ حرکتیں شکاری کی توجہ منتشر کرنے کے علاوہ کچھ فائدہ نہ پہنچاتیں۔
میں اپنی شکاری زندگی کا ایک ایسا عجیب و غریب واقعہ رقم کر رہا ہوں جس کا آغاز موضع گلوانہ میں میرے تبادلے سے ہوا۔ میں نے تھانے کا انتظام سنبھالا تو معلوم ہواکہ ایسی درخواستوں سے ایک فائل بھری پڑی ہے جن کے سلسلے میں میرے پیش رو نے کوئی احکامات جاری نہیں کیے تھے۔ میں نے فائل کھولی تو اس میں کچھ انگریزی اور باقی مقامی زبان میں تحریر شدہ درخواستیں نظر آئیں۔ ان سب کا تعلق موضعکے مختلف دیہات سے تھا جن میں گزشتہ چھ ماہ کے دوران لاپتا ہونے والے افراد کی بابت نامکمل اندراجات تھے۔
عملے سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ گلوانہ سے بیس میل دور ایک قصبہ‘ پھلدارآباد ہے۔ اس کے اردگرد چھوٹی موٹی آبادیاں پھیلی ہوئی تھیں۔ ان آبادیوں کے درمیان واقع گھنے جنگلوں کے وسیع و عریض قطعے انہیں ایک دوسرے سے جدا کرتے ۔ یہ جنگل کسی زمانے میں چیتوں اور شیروں کی بہتات کے باعث بہترین شکار گاہ تصور کیے جاتے تھے۔
ان جنگلوں کے درمیان سے ایک گزرگاہ گزرتی تھی جس پر ایک پرانا مندر واقع تھا۔ اس کے کھنڈر شاید آج بھی وہاں موجود ہوں۔ اس مندر کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ آسیب زدہ ہے۔ دن کے اجالے میں تو قافلے اس گزر گاہ کو استعمال کر لیتیمگر شام کے سائے گہرے ہوتے ہی وہ علاقہ ویران اور سنسان ہو جاتا۔
فائل کی درخواستوں کے مطابق گزشتہ چھ ماہ کے دوران اس گزرگاہ کے آس پاس واقع دیہات سے بیس افراد لاپتا ہو چکے تھے۔ بیشتر کا تعلق پھلدار سے تھا۔ تھانے کے عملے نے بتایا کہ چونکہوہ علاقہ آسیب زدہ ہے‘ اس لیے تمام وارداتوں کو بھوتوں اور چڑیلوں کے کھاتے میں ڈال دیا گیا۔ میرے دستِ راست راجونے خیال ظاہر کیا کہ ان وارداتوں کی پشت پر کوئی شیر یا چیتا ہے ۔ میرا بھی یہی خیال تھا۔ میں نے اپنے شک کی تصدیق کی خاطر اس تھانے کا تمام ریکارڈ چھان مارا۔کسی آدم خور کی ہلاکت کے سلسلے میں پولیس کے ریکارڈ بڑی معاونت کرتے ہیں۔ روزنامچہ اگر درست لکھا گیا ہو‘ تو رپورٹ میں واردات کی تفصیل جزئیات کے ساتھ درج ہوتی ہے۔ شکاری اگر ذرا بھی توجہ سے کام لیتا تو اسے آدم خور کے بارے میںتفصیل باآسانی معلوم ہو جاتی۔
صد افسوس کہ تھانے کے رجسٹر میں آٹھ ماہ کی چند وارداتوں کا ذکر تھا جو شاید ایک آدم خور نے کی تھیں مگرانھیںبڑی خوبصورتی سے کسی مافوق الفطرت قوت کے کھاتے میں ڈال کر داخل دفتر کر دیا گیا۔ بعد ازاں میں نے اس سلسلے میں گلوانہ کے نمبردار سے رجوع کیا مگر کوئی قابلِ ذکر بات معلوم نہ ہو سکی۔ بالآخر میں نے راجو کے ہمراہ متاثرہ علاقوں کے دورے کا منصوبہ ترتیب دیا اور اپنے افسر اعلیٰ کو بھیج دیا۔ خلاف توقع تین روز بعد مجھے سرکار کی جانب سے وہاں جانے کا اجازت نامہ مل گیا۔
ابھی موسم گرماکی بارشوں کا آغاز نہیں ہوا تھا۔ ندی نالے جن کی اس علاقے میں کثرت تھی‘ خشک پڑے تھے۔ میں پہلی بارش سے قبل پہنچنا چاہتا تھا لہٰذا سرکاری جیپ کا استعمال مناسب سمجھا۔ راجو کے علاوہ دو اردلی بھی میرے ساتھ تھے۔
دوپہر کے وقت ہم پھلدار پہنچ گئے۔ یہ دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی کہ اجالے میں بھی گائوں سنسان پڑا تھا۔ گھروں کے دروازے بند تھے اور گلیوں میں اِکادُکا مویشی اوربچے مٹر گشت کر رہے تھے۔ ہماری آمد کی اطلاع ملتے ہی گائوں کا نمبردار ہمارے استقبال کے لیے چلاآیا۔ اپنے مہمان خانے لے جا کر اس نے ہماری خوب خاطر تواضع کی۔ جب میں نے اسے اپنی آمد کا مقصد بتایا‘ تو وہ کچھ سراسیمہ نظر آنے لگا۔میرے استفسار پر اس نے بتایا:
’’صاحب! میں جانتا ہوں کہ آپ ایک ماہر شکاری ہیں مگر آپ اسے نہیں مار سکیں گے۔‘‘ وہ دہشت زدہ آواز میں گویا ہوا۔ ’’آپ یہی سمجھ رہے ہیں کہ ان وارداتوں کے پیچھے کسی درندے کا ہاتھ ہے مگر میں نے گزرگاہ پر خود اپنی آنکھوں سے ایک چڑیل کو کھڑے دیکھا ہے ۔‘‘
’’کیا مطلب ہے پٹیل صاحب۔‘‘ میں نے راجو کے چہرے پر خوف کی منڈلاتی پرچھائیں دیکھ کر پوچھا ۔
’’صاحب! میں سچ کہہ رہا ہوں۔‘‘ وہ بدستور اسی لہجے میں بولا ’’یقین نہ آئے تو آپ خود چل کر دیکھ لیجئے۔ چند روز قبل ہی ایک عورت لکڑیاں چننے وہاں گئی تھی مگر لوٹ کر نہیں آئی۔‘‘
’’کیا؟‘‘ میں نے اپنی نشست سے اچھل کر کہا۔ ’’تم نے اس گمشدگی کی رپورٹ تھانے میںکیوں درج نہیں کرائی؟‘‘
’’کوئی فائدہ نہیں صاحب۔‘‘ وہ تاسف سے بھرپور لہجے میں بولا ’’ سرکار کچھ نہیں کر سکتی۔‘‘
میں نے اسی وقت راجو کے ہمراہ مندر والی گزرگاہ کا معاینہ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ نمبردار کے روکنے کے باوجود ہم نے جیپ سے فالتو سامان اتروایا‘ اسے اردلیوں کی نگرانی میں چھوڑا اور جیپ مندر تک جانے والے راستے پر دوڑا دی۔ ایک گھنٹے کی کٹھن مسافت کے بعد ہم گزرگاہ کے وسط میں پہنچے‘ تو میں نے گاڑی روک لی۔ آگے بڑھنے سے قبل میں علاقیکا اچھی طرح معائنہ کرنا چاہتا تھا۔ راجو بھی میرے ساتھ ہی جیپ سے اترآیا۔ اس سے قبل میں نے رائفل کی دونوں نالیں بغور دیکھیں اور کارتوس لگا دیے۔راجو کے پاس میری آزمودہ تین سو پچھتر میگنم جبکہ میرے پاس چار سو پچاس ایکسپریس تھی۔
گزرگاہ کا بغور معاینہ کرنے کے بعد میں کچھ پریشان ہو گیا۔ وہاں کچی زمین پر ایک مادہ شیرنی کے پنجوں کے نشان بکثرت تھے مگر جس بات پر میں ششدر رہ گیا وہ انسانی قدموں کی موجودگی تھی۔ ان نشانات کی خاص بات یہ تھی کہ دایاں پائوں الٹا تھا۔ یہ دیکھ کر راجو کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ میری اپنی حالت غیر ہونے لگی۔انسانی قدموں کے وہ نشان جنگل کے اندر تک جا رہے تھے۔ الٹے قدموں والے ان نشانات کی کوئی توجیہہ میرے ذہن میں نہ آسکی۔
اس وقت سہ پہر ڈھل رہی تھی اور شام ہونے میں زیادہ دیرنہ تھی۔
’’کیاخیال ہے راجو۔‘‘ میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا ’’ان نشانات کا تعاقب کریں؟‘‘
’’ صاحب رات ہونے والی ہے۔‘‘ راجو نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا ’’پھرمجھے یقین ہے کہ یہ نشانات پچھل پیری کے ہی ہیں۔‘‘
پچھل پیری کی اصطلاح عام طور پر چڑیل کے لیے استعمال ہوتی ہے کیونکہ عام خیال یہی ہے کہ چڑیل کا داہنا پائوں الٹا ہوتا ہے۔ راجو نے جس قسم کے ماحول میں آنکھ کھولی تھی‘ وہاں بھوت پریت اور چڑیلوں کے تذکرے روزمرہ کا معمول تھے لہٰذا وہ پر اسرار نشانات دیکھ کر اس کا خوفزدہ ہو نافطری تھا۔
’’دیکھو راجو‘ تم نے اب تک میرے ساتھ درجن بھر درندے شکار کر ڈالے ہیں۔‘‘ میں نے اسے قائل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔’’ ان میں سے اکثر کو بھوت پریت کا شاخسانہ قرار دیاگیا مگر جب ہم نے معاملے کا کھوج لگایا‘ تو وہ مقامی باشندوں کے ذہن کی پیداوار ثابت ہوئے۔‘‘
’’مگر یہ نشانات؟‘‘ راجو نے خوف میں ڈو بی ہوئی آواز میں جواب دیا۔
’’مجھے یقین ہے ہم اس اسرار سے پردہ اٹھانے میں کامیاب ہو جائیں گے مگراس کے لیے ضروری ہے کہ ان نشانات کا تعاقب کیا جائے۔‘‘
اس نے میری بات کا جواب نہیں دیا اور ہراساں انداز میں کبھی راہ گزر کو دیکھتا تو کبھی اس کی نگاہیں جنگل کی طرف اٹھ جاتیں۔ اس سے قبل کہ میں مزید کچھ کہتا‘ ہوا کے دوش پر ایک ایسی آواز ابھری جسے سن کر راجو کا ہی نہیں میرا بھی رنگ فق ہو گیا۔ آواز جنگل کی طرف سے سنائی دی تھی۔
’’راجو یہ آواز!‘‘ میں نے مرتعش لہجے میں یوں کہا جیسے مجھے اپنی سماعت پر شُبہ ہو۔
’’یہ تو کسی بچے کے رونے کی آواز ہے صاحب۔‘‘ راجو نے سرسراتی ہوئی آواز میں جواب دیا۔
سرِ شام‘ گھنے جنگل کے سناٹے میں گونجنے والی وہ آواز کسی بھی ذی ہوش کے حواس گم کر دینے کے لیے کافی تھی مگر ہمارا معاملہ مختلف تھا۔ ہماری زندگی کے بیشتر شب و روز گھنے جنگلوں میں خونخوار درندوں سے نبرد آزما ئی کرتے ہوئے بسر ہوئے تھے‘ اسی لیے ہمارے حواس خطا نہ ہوئے۔ ہم فوراً جیپ میں سوار ہو گئیاوراس طرف چل پڑے جہاں سے آواز آئی تھی۔
کچھ لمحوں بعد رونے کی آواز موقوف ہو گئی مگر ہم محتاط انداز میں رائفلیں تھامے اور آس پاس نظریں دوڑاتے جنگل میں داخل ہو گئے۔ اونچے اونچے درختوں اور گنی جھاڑیوں کے درمیان بل کھاتی گزرگاہ پر ایک شیرنی کے پنجوں کے نشانات کے ساتھ ساتھ انسانی قدموں کے وہ عجیب و غریب نشانات بھی نظر آئے جو ہم پہلے دیکھ چکے تھے۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ درندے اور انسانی قدموں کے نشان زیادہ پرانے نہ تھے۔ عجیب الخلقت قدموں کے نشانات اپنی جگہ مگر شیرنی کے پنجوں کے نشانی دیکھ کر مجھے یقین ہو گیا کہ پھلدار اور گردونواح میں ہونے والی گمشدگیوں کی پشت پر ایک آدم خور شیر نی کا ہی ہاتھ ہے۔ ہمارا رخ اس جانب تھا جہاں ہمیں بتایا گیا تھاکہ متروک مندر کے کھنڈر واقع ہیں۔ پنجوں کے نشانات کا رخ بھی اسی طرف تھا۔
ایک ٹیلے کے قریب گزرگاہ دو حصوں میں منقسم ہو گئی۔ ایک راستہ دائیں جانب‘ سیدھ میں چلا گیا دوسرا ٹیلے کے اوپر سے چکر کاٹ کر جنگل کے گھنے حصے میں داخل ہو رہا تھا۔ ہم نے سیدھا چلنے کا فیصلہ کیا کیونکہ زمین پر موجود نشانات بھی اسی طرف جارہے تھے۔
تاریکی کے باعث زمین کا باریک بینی سے معاینہ ممکن نہ تھا۔ پھر بھی ہم آگے بڑھتے گئے۔ بڑھتے اندھیرے کے باعث نشانات بار بار کھو جاتے اور ہمیں رک کر دوبارہ سلسلہ ملانا پڑتا۔ خطرے سے مقابلے کے دبائو اور نقوشِ پا کی جستجو میں ہم سمت کا خیال نہ رکھ سکے۔ وہ نشانات ایک ایسی جگہ پہنچ کر اپنا وجود کھو بیٹھے جہاں گزرگاہ کے دونوں کناروں پربرگد اور پیپل کے درخت شاخیں لٹکائے جھوم رہے تھے۔ درختوں کی شاخوں سے گزرگاہ کے کناروں پرلپٹی اگی بیلیںہر لحظہ بڑھتی تاریکی میں خاصا ڈرائونا منظر پیش کر رہی تھیں۔
مجھے اس امر پر حیرت تھی کہ اس بچے کے رونے کی آواز دوبارہ ہماری سماعت سے نہیں ٹکرائی تھی اب میں نے رائفل کی نال پر لگی ٹارچ روشن کر لی ۔روشنی میں نظر آیا کہ قدموں کے نشانات جنگل میں داخل ہوکر نظروں سے اوجھل ہو رہے ہیں۔ ہم پھر ان کے پیچھے پیچھے چل پڑے۔ آخرتھوڑی دور آگے جا کر ویران مندر کے کھنڈر ہمارے سامنے آ گئے۔
ابھی ہم مندر کا سیاہ ہیولا دیکھ ہی رہے تھے کہ اچانک دو مختلف آوازیں سن کر ہمارے کان کھڑے ہو گئے اور رائفلیںبے اختیار کندھوں سے آ لگیں۔ پہلی آواز گھوڑے کی ہنہناہٹ کی تھی جس کے فوراً بعد بچے کے رونے کی آواز دوبارہ فضا کو مرتعش کر گئی۔ دونوں آوازیں مندر کے اندر سے ابھری تھیں۔
میں نے راجو کو اشارہ کیا اور ہم دونوں ایک دوسرے کی پیٹھ سے پیٹھ جوڑے اطراف کا بغور جائزہ لیتے مندر کی طرف بڑھنے لگے۔ اب راجو نے بھی اپنی ٹارچ روشن کر لی۔ بچے کے رونے کی آواز تسلسل کے ساتھ ابھر رہی تھی۔ جیسے ہی ہم مندر کے احاطے میں داخل ہوئے ہمیں حیرت کا شدید جھٹکا لگا. احاطے کے اندر ایک بت ایستادہ تھا جس کے قدموں میں ایک بچہ ہاتھ پائوں مارتا ہوابلک بلک کر رو رہا تھا۔ اس سے کچھ فاصلے پر ایک اعلیٰ نسل کا گھوڑا بے چینی سے زمین پر کھرُمار تا دکھائی دیا۔ ہم دونوں شدید حیرانی کے عالم میں کبھی بچے پر ٹارچ کی روشنی پھینکتے تو کبھی گھوڑے پر جو ہماری آمد کے باعث مزید بے چین ہو گیا تھا۔ آس پاس کسی اور ذی روح کا نام و نشان تک نہ تھا۔ میں اس ویرانے میں معصوم بچے اور سازو سامان سے آراستہ گھوڑے کی موجودگی کا کوئی جواز تلاش نہ کر سکا۔ ’’وہ دیکھیے صاحب۔‘‘ دفعتاً راجو نے ٹھٹھک کر اپنی ٹارچ کی روشنی بچے سے کچھ فاصلے پر ڈالی اور میں بھی ٹھٹھکے بغیر نہ رہ سکا۔ زمین پر خون کے دھبوں کے ساتھ کسی کے گھسیٹے جانے کے واضح نشانات نظر آ رہے تھے۔ مندر کے احاطے کی دیوار ایک طرف سے ٹوٹی ہوئی تھی‘ وہ نشانات اسی طرف جا کر جنگل میں غائب ہو رہے تھے۔ ہمارابڑے پراسرار چکر سے پالا پڑ گیا تھا۔ ابھی ہم اس غیر یقینی صورت حال سے دو چار تھے کہ جنگل کے وسط سے ایک انسانی چیخ گونج کر بکھرتی چلی گئی۔
خوف کے مارے راجو کی گھگھی بندھ گئی۔ چیخ سن کر بچہ بھی زور و شور سے رونے لگااور مجھے بھی اپنے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوتے ہوئے محسوس ہوئے۔ وحشیانہ چیخوں کی آواز کے ساتھ ہی آس پاس کے درختوں پر لنگور وغیرہ کانوں کے پردے پھاڑ ڈالنے والی چیخیں نکالتے ہوئے اچھل کود کرنے لگے۔راجو کے چہرے سے تحیر اور فکر مندی ہویدا تھی۔ میری اپنی حالت اس سے کچھ مختلف نہ تھی۔ ’’میرے خیال میں بچے اور گھوڑے کو پھلدار لے چلتے ہیں۔‘‘ میں نے راجو کے کان میں کہا ’’ان دونوں اور چیخوں کے اسرار سے کل اجالے ہی میں پردہ اٹھ سکتا ہے۔‘‘
راجو نے میری رائے سے اتفاق کیا۔ اس نے آگے بڑھ کر بچہ اٹھایا اور واپس ہو لیا۔ میں گھوڑے کی لگام تھامے محتاط انداز میں ٹارچ کی روشنی میں ادھر ادھر نگاہیں دوڑاتا اس کے پیچھے پیچھے چل دیا۔ گھوڑے نے جب دیکھا کہ ہم نے بچے یا اسے نقصان نہیں پہنچایا تو اس نے کوئی مزاحمت نہ کی۔
پندرہ بیس منٹبعد ہم اپنی جیپ تک پہنچ گئے۔ گائوں واپس پہنچے تو نمبردار بے چینی سے اپنے ساتھیوں کے ساتھ منتظر تھا۔ وہ سب گائوں کے باہر الائو روشن کیے چارپائیوں پر بیٹھے تھے۔ بعض نے کلہاڑیاں اور بلم تھام رکھے تھے۔
ہماری روداد سن کر نمبر دار بھی متحیر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ میں نے اسے وحشیانہ چیخوں اور الٹے قدموں کے نشانات کے بارے میں جان بوجھ کر نہیں بتایا کہ مبادا اس کی توہم پرستی زور پکڑ لے۔ بچہ اور گھوڑا نمبردار کے حوالے کرنے کے بعد ہم دونوں کھانا کھا کر سوگئے۔ اگلی صبح ہم ضروری سازو سامان سے لیس ہو کر جنگل میں جانے کے لیے تیار تھے۔میں نے بچے اور گھوڑے کے سلسلے میں نمبردار کو ہدایت کر دی تھی کہ وہ آس پاس کے دیہات میں اپنے آدمی بھیج کر ان کے ورثا کا کھوج لگائے۔
ایک گھنٹے بعد ہم دوبارہ اس مندر میں موجود تھے جہاں گزشتہ شام محیر العقول واقعات پیش آئے تھے۔ دن کے اجالے میں جب ہمیں مندر کے احاطے کا بغور جائزہ لینے کا موقع ملا‘ تو ہم پر ایک انکشاف ہوا. گرد آلود فرش پر گھسیٹے جانے اور خونی چھینٹوں کے ساتھ ساتھ شیرنی کے پنجوں کے نشانات بھی بکثرت تھے۔ان نشانات کے درمیان الٹے قدم والے نشان پا بھی دکھائی دئیے۔ خون کے چھینٹوں کا تعاقب کرتے ہوئے ہم مندرسے نکل کر گھنی جھاڑیوں کے جھنڈ تک پہنچ گئے۔ اس مقام پر درخت اگر چہ زیادہ نہیں تھے لیکن وہ خاصے تناور تھے اور ان کی گنجان شاخیں نیچے تک جھکی ہوئی تھیں۔ ہم ایک ایک جھنڈ کا بغور جائزہ لیتے آہستہ آہستہ آگے بڑھے۔ہمیں خطرہ تھا کہ کسی بھی لمحے شیرنی ہم پر حملہ کر سکتی ہے۔
دفعتہً بیس پچیس گز دور‘ جھاڑیوں کے ایک جھنڈ پر بکثرتمکھیاں اڑتی نظر آئیں۔ ذرا اور آگے بڑھے تو ان کی بھنبھناہٹ صاف سنائی دینے لگی۔ لاش خواہ انسان کی ہو یا کسی حیوان کی‘ اگرتا دیر جنگل میں پڑی رہے تو گوشت خور مکھیاں بکثرت اس پر ٹوٹ پڑتی ہیں۔ لیکن تعجب خیز بات یہ ہے کہ اگر شیر کسی جانور کو ہلاک کرے‘ تو اس کی موجودگی میں کوئی مردار خور جانور تو درکنار گوشت خور مکھیاں بھی لاش کے قریب نہیں پھٹکتیں۔
عموماً شیر آدھا جانور کھا کر باقی ماندہ جھاڑ جھنکار سے چھپا دیتا ہے جو اس بات کی واضح علامت ہے کہ شیر نے دوبارہ اسے کھانا ہے۔ لیکن اگر شیر کا واپسی کا کوئی ارادہ نہ ہو تو وہ لاش چھپانے کی زحمت نہیں کرتا‘ یہ ایک طرح سے گدھوں‘ سیاہ گوشوں اور دوسرے مردار خوروں کے لیے دعوت عام ہوتی ہے۔
جھنڈ پر گوشت خور مکھیاں بکثرت دیکھ کر میں نے یہی اندازہ لگایا کہ شیر نی وہاں موجود نہیں۔ قریب پہنچنے پر ہمیں جھاڑی کے اندر پڑی ایک لاش نظر آ گئی لیکن اس کی حالت اس قدر خراب تھی کہ پہلی نظر میں اس پر گوشت اور خون کے ملغوبے کا گمان گزرتا تھا۔ ارد گردجا بجا ہڈیاں اور بال بکھرے ہوئے تھے۔
شیرنی نے جو کسر چھوڑ دی وہ گوشت خور مکھیوں اور دوسرے مردار خوروں نے پوری کر دی تھی۔ ہم نے اطراف کا جائزہ لے کر اطمینان کر لیا کہ وہاں آدم خور موجود نہیں‘ غالباً وہ گزشتہ رات پیٹ بھر کر جا چکی تھی۔ مجھے اس بات پر دلی تاسف ہوا کہ ہمارے سامنے پڑی ہوئی باقیات کسی عورت کی لاش کی تھیں۔ اس کا فقط ایک پائوں اور بایاں ہاتھ سلامت رہ گئے تھے۔ مخروطی انگلیوں والے مر مریں ہاتھ دیکھ کر میرے دل پر گھونسا سا لگا۔ جانے کیوں مجھے لگا کہ وہ خاصی خوبصورت عورت ہو گی۔زرق برق لباس کے چیتھڑے دیکھ کر ہمیں احساس ہوا کہ اس کا تعلق کسی متمول گھرانے سے ہے۔
’’مجھے یقین ہے جناب وہ گھوڑا اسی عورت کی ملکیت تھا۔‘‘ راجو تاسف بھرے انداز میں بولا۔’’اور شاید وہ بچہ بھی۔‘‘
’’مگر شام گئے کوئی عورت اپنے بچے کو لے کر اس قدر پر خطر جنگل میں کیوں آئی؟‘‘ میں نے ہنکارا بھر کر جواب دیا۔
’’یہ تو اس بد نصیب کا کوئی اتا پتا معلوم ہونے کے بعد ہی معلوم ہو سکتا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر راجو نے ایک لکڑی سے لاش کو یوں الٹ پلٹ کر دیکھا جیسے اسے کسی شے کی تلاش ہو۔ بالآخر لاش کے نیچے سے سونے کا ایک جڑائو تعویز نکل آیاجس کی پشت پر ’’کامنی‘‘ کندہ تھا۔ میں نے تعویز رومال میں لپیٹ کر تھیلے میں رکھا اور راجو کے ہمراہ واپس مندر آ گیا۔ آس پاس کا بغور جائزہ لینے کے بعد ہم پر یہ انکشاف ہوا کہ شیرنی نے اپنے بیشتر شکار کھنڈر کے قریب ہی ہڑپ کیے تھے۔ جھاڑیوں میں جا بجا انسانی ہڈیاں اور لباس کے بوسیدہ چیتھڑے بکھرے پڑیتھے۔
’’مجھے یقین ہے یہ مندر آدم خور کا مستقل ٹھکانا ہے۔‘‘ میں نے رائے دی۔
’’لیکن صاحب وہ الٹے پائوں والے نقوش اور رات کو سنائی دینے والی چیخ؟‘‘ راجو جھر جھری لے کر بولا۔
اگر میں نے وہ چیخ نہ سنی ہوتی یا الٹے قدموں کے نشانات نہ دیکھے ہوتے‘ تو شاید میں بھی اس بات پر یقین نہ کرتا۔ مجھے خاموش پا کر راجو بولا:
’’صاب! یہاں ضرور کوئی ایسا چکر چل رہا ہے جو ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔‘‘
’’فی الحال ہم گائوں واپس چلتے ہیں۔‘‘ میں نے جواب دیا۔’’ خوراک اور وافر گولیاں لے کر ہم سرِشام مندر کے قریب کسی مضبوط درخت پر مچان بنائیں گے۔ مجھے یقین ہے اس طرح ہم نہ صرف آدم خور کو کیفر کردار تک پہنچا دیں گے بلکہ چڑیل کے اسرار سے بھی پردہ اٹھ جائے گا۔‘‘
مچان کے لیے ایک تناور درخت کا انتخاب کرنے کے بعد ہم واپس گائوں پہنچ گئے۔ نمبردار بے چینی سے ہمارا منتظر تھا۔ اس کے ساتھ ہی ہمیں ایک آدمی کھڑا نظر آیا‘ معمولی سے لباس میں ملبوس وہ شخص مجھے دیکھتے ہی میرے قدموں میں گر گیا۔ میں نے اسے اٹھایا تو وہ میرے ہاتھوں کو بوسے دینے لگا۔
’’ارے یہ کیا کر رہے ہو؟‘‘ میں نے بڑی مشکل سے خود کو چھڑاتے ہوئے کہا۔
’’جناب! یہ اس بچے کا باپ ہے جسے کل رات آپ جنگل سے نکال کر لائے تھے۔‘‘ نمبر دار نے وضاحت کی۔
’’تمہارا بچہ کیسے گم ہوا تھا؟‘‘ میں نے اسے اپنے ساتھ چارپائی پر بٹھاتے ہوئے کہا۔
’’صاحب! کوئی رات کے وقت اسے میری بیوی کے پہلو سے اٹھا کر لے گیا تھا۔‘‘ وہ گڑ گڑا کر بولا۔
بد قسمتی سے اس آدمی سے کوئی کام کی بات معلوم ہو سکی نہ ہی گھوڑے یا عورت کے بارے میں کچھ پتا چلا۔ اگر نمبر دار اسے وہاں سے نہ بھیجتا تو شاید غریب آدمی ممنونیت کے مارے وہیں بیٹھا رہتا۔ بچے کے ساتھ ساتھ نمبر دارنے گھوڑے کے مالک کا پتا چلانے کی کوششیں بھی کی تھیں مگر اس کا کوئی سراغ نہ ملا۔ ہم نے اسے عورت کی لاش کا بتایا‘ تووہ ششدر رہ گیا۔ہمارے ساتھ جا کر لاش دیکھنے پر نمبردار نے بتایا کہ یہ اس عورت کی نہیں جو چند دن پہلے غائب ہوئی تھی۔شاید شیرنی اسے جنگل کے گھنے حصے میں لے گئی تھی جہاں تک انسانوں کی رسائی مشکل تھی۔
بہر حال ہم نے سہ پہر کواپنا سازو سامان سنبھالا اور مندر پہنچ گئے۔ راجو نے بڑی احتیاط سے مندر کے احاطے میں واقع درخت پر مچان باندھی اور ہم دونوں اندھیرا پھیلنے سے قبل اس پر برا جمان ہو گئے۔ تاریکی پھیلتے ہی ہر طرف موت کا سا سکوت طاری ہو گیا۔ کبھی کبھی کہیں دور سے گیدڑوں کے چیخنے کی آوازیں سنائی دیتیں‘ تو خاموشی ٹوٹتی۔ ہماری کان کسی آہٹ پر لگے ہوئے تھے مگر دور تک شیر کی موجودگی کے آثار نظر نہ آئے۔
اصولاً جب شکاری مچان پر بیٹھتا ہے‘ تو قریب ہی ادھ کھائی انسانی لاش یا زندہ بچھڑے کی موجودگی ضروری ہے‘ اس کے بغیر شیر مچان کے نیچے نہیں آتا۔ مگر ہمارا معاملہ دوسرا تھا۔ ہم نے مچان ہی ایسی جگہ بنائی تھی جو ہمارے خیال میں شیرنی کی گزرگاہ تھی‘ اس لیے اسے پھانسنے کے لیے ہمیں کسی زندہ یا مردہ جاندار کی ضرورت نہ تھی۔ پھر مجھے ان پر اسرار نقوشِ پا کی بھی فکر لاحق تھی. میں پچھلی پیری کی حقیقت جاننے کے لیے بے تاب تھا۔
میرا ذہن اپنے خیالات میں الجھا ہوا تھا کہ راجو نے مجھے ہلکا سا ٹہوکا دیا۔ اسی وقتجنگل کے جنوبی حصے سے ایک مادہ چیتل کی آواز گونجتی سنائی دی ۔ میں نے محتاط ہو کر پہلو بدلا اور تاریکی میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کردیکھنے کی کوشش کرنے لگا۔ رات کاجل کی طرح سیاہ اور ڈرائونی تھی اور تاریکی اتنی کہ قریب کھڑے ہوئے درخت بھی اس کا حصہ بن گئے تھے۔
آسمان پر چاند ستاروں کی قندیلیں ضرور روشن تھیں لیکن گھنے جنگل کے باعث ان کی مدھم روشنی کسی کام کی نہ تھی۔ معاً مجھے لگا جیسے کوئی زندہ وجود کچھ فاصلے پر موجود ہے اور حالات کا جائزہ لے رہا ہے۔ رات کی تاریکی میں آدم خور درندے کی قوت سامعہ‘ شامعہ اور باصرہ اس قدر تیز ہو جاتی ہے کہ اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ انہی فطری ہتھیاروں کے باعث وہ عرصہ دراز تک شکاریوںسے بچا رہتا ہے۔ لیکن میری چھٹی حس نے بتایا کہ اس وقت جو کوئی بھی آس پاس موجود ہے‘ وہ کم از کم شیرنی نہیں۔ میں اچھی طرح جانتا تھا کہ شیر کی موجودگی میں ماحول میں کس قسم کی تبدیلیاں جنم لیتی ہیں۔ شاید راجو نے بھی یہ بات محسوس کر لی۔ اسی لمحے نا قابل بیان حد تک تیز بدبو کا بھبھکا میرے نتھنوں سے ٹکرایا۔ میں نے بے اختیار اپنی نظریں اس طرف گھمائیں جہاں سے بدبو آ ئی تھی۔ ادھرجھاڑیوں میں سر سراہٹ ہو رہی تھی جو وہاں کسی کی موجودگی کا پتا دیتی تھی۔ تا ہم کوئی جانور مثلاً گیدڑ بھی جھاڑی ہلا سکتا تھا‘ اس لیے میں دم سادھے بیٹھا رہا۔
دفعتہً ایک سیاہ ہیولا جھاڑی سے نکلا اور گھر ر گھرر کی آواز نکالتے ہمارے عین سامنے واقع درخت کی اوٹ میں چلا گیا۔ میں نے فوراً ٹارچ روشن کر دی مگر وہاں تو جیسے کچھ تھا ہی نہیں۔ اسے نظر کا فریب بھی قرار نہیں دیا جا سکتا تھاکیونکہ کوئی میری آنکھوں کے سامنے درخت کی اوٹ میں گیا تھا۔ راجو نے اسے دیکھ لیاتھا۔
’’صاحب یہ کیا تھا؟‘‘ اس کی سرسراتی ہوئی آواز میری سماعت میں پڑی۔
میں نے کوئی جواب نہ دیا اور ٹارچ کی روشنی اسی درخت پر ڈالے رکھی۔ اس دوران میرا دل طرح طرح کے وسوسوں کا شکار تھا۔ میری شکاری زندگی میں چند بارہی ایسا ہوا تھا کہ کوئی بھولا بھٹکا انسان عین اس لمحے جنگل میں آٹپکاجب میں مچان پر بیٹھا شیر کا انتظار کر رہا تھا۔ تب میں نے بڑی مشکل سے نہ صرف درندے کو کیفر کردار تک پہنچایا بلکہ اس شخص کی جان بھی بچالی ۔مجھے لگ رہا تھا کہ میں پھر ایسی ہی کھٹنصورت حال سے دو چار ہوں۔
اس لمحے جنگل کا چپہ چپہ گہرے سکوت میں غرق ہو گیا تھا۔ میں نے رائفل پر گرفت مضبوط کر لی۔ اس کا کندا میری ران پر ٹکا ہوا تھا۔ میں بڑی احتیاط سے‘ آہستہ آہستہ اسے کندھے تک لانے میں کامیاب ہوا۔ تقریباً دس منٹ یونہی گزر گئے۔ رات کا بڑا حصہ بیت چکا تھا اور سردی نقطۂ عروج پر تھی۔ معاً داہنی طرف سے خفیف سی آواز آئی اور اب میں نے اس پر اپنی سماعت مرتکز کر دی۔
یوں لگتا تھا جیسے کوئی جاندار خشک پتوں پر دبے پائوں چل رہا ہے۔ چند ثانیے بعد وہ آواز مزید واضح ہو گئی۔ اب میں اسے بخوبی پہچان سکتا تھا. آواز خشک پتوںپربھاری جسم والے جانور کے چلنے سے پیدا ہو رہی تھی۔ رات کے اس پہر آدم خور شیرنی کے علاوہ اور کون ہو سکتا تھا؟ پرندے‘ حشرات الارض اور مینڈک سبھی درندے کی موجودگی سے باخبر تھے ‘ اسی لیے انہوں نے چپ سادھ لی ۔
کچھ دیر بعد مچان کے بالمقابل پتوں کے چرچرانے کی آواز سنائی دی اور لمبی لمبی گھاس میں سے شیرنی کا بڑا ساسر برآمد ہوا۔ اس کی آبگینوں کے مانند دمکتی ہوئی آنکھیں مندر کی شکستہ دیوار کے اس شگاف پر مرکوز تھیں جہاں سے غالباً وہ احاطے میں داخل ہوا کرتی تھی۔ میں نے سانس روک لی۔ میں اس وقت گولی چلانے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا تھا جب تک کہ درندہ مکمل طور پر میرے سامنے آ جاتا۔ چند ثانیے ساکت رہنے کے بعد شیرنی دو چھلانگوں میں احاطے کے اندر آ گئی۔ احاطے کے اس حصے میں درختوں سے چھن کر آنے والی چاندنی نے سماں کچھ روشن کر رکھا تھا۔ میں مدہم روشنی میں یہ دیکھ کر کانپ اٹھا کہ شیرنی نے ایک انسانی لاش اٹھا رکھی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے درندے نے لاش زمین پر رکھی اور شڑپ شڑپ کی آوازوں کے ساتھ اس کا خون چاٹنے لگی۔ شیرنی شکار کو ہلاک کرنے کے بعد اس کا گوشت کھانے سے پہلے بھوک بڑھانے کی غرض سے خون چاٹتی ہے۔ اس وقت جن احساسات نے میرے وجود کا احاطہ کر لیا‘ انہیں الفاظ کی شکل دینا کم از کم میرے بس سے باہر ہے۔
لاش بھنبھوڑتے ہوئے آدم خور کی پشت میری جانب ہو گئی۔ میں نے سانس روک کر اس کی گردن کا نشانہ لے لیا۔ بد قسمتی سے جب میں نے ایک دم فائر کیا‘ تو میری انگلی پھسل گئی اور دونوں ٹرائگرایک ساتھ دب گئے۔ یوں دونوں نالیں ایک ساتھ فائر ہو گئیں۔
چار سو پچاس ایکسپریس رائفل کے زبردست دھکے سے وہی لوگ واقف ہیں جو بھاری رائفلیں استعمال کرتے رہے ہوں۔ دونوں کارتوس ایک ساتھ چلنے کی وجہ سے میرے شانے پر ایسی زبردست ضرب لگی کہ رائفل میرے ہاتھ سے نکل گئی اور میں خود کو سنبھالنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے دھڑام سے چاروں شانے چت زمین پر جا گرا۔
دھماکے کی آواز کے ساتھ ہی شیرنی کے حلق سے ایسی زبردست دھاڑ برآمد ہوئی کہ میرا دل لرز گیا۔جب اوسانبحال ہوئے‘ تو سامنے نظر آنے والے منظر نے میرے جسم میںسنسنی دوڑا دی .رائفل میری پہنچ سے دور پڑی تھی اور میں تیس گز کے فاصلے پر کھڑی شیرنی کو بے بسی اور خوف کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ دیکھ رہا تھا۔ اندازہ کیجیے. غیظ و غضب کی تصویر بنی آدم خور صرف تیس گز کے فاصلے پر تھی اور میں خالی ہاتھ زمین پر چت لیٹا ہوا تھا۔
مجھے یقین ہو گیا کہ میرا آخری وقت آ پہنچا مگر خدا بھلا کرے راجو کا کہ اس نے سنگین صورت حال میں بھی اپنے حواس بحال رکھے اور یکے بعد دیگرے دو فائر شیرنی کی جانب جھونک دیے۔ میرے فائر تو ضائع گئے ہی تھے مگر راجو کی گولیاں بھی شیرنی کا کچھ نہ بگاڑ سکیں۔ اب تو مجھے اپنی موت کاپکا یقین ہو گیا۔ اس دوران شیرنی چوکنے انداز میں میری جانب بڑھنے لگی۔
میں نے کھسک کر اپنی پشت درخت کے تنے سے لگا لی۔ادھر راجو بھی اپنی رائفل دوبارہ بھر چکا تھا۔ اس نے فائر کیا‘ تو اچانک درخت کی اوٹ سے نکل کر ایک سیاہ ہیولا اس کے اور شیرنی کے درمیان حائل ہو گیا۔ راجو کی چلائی ہوئی دونوں گولیاں شیرنی کو لگنے کے بجائے اس سیاہ ہیولے کے جسم سے آر پار ہو گئیں۔ اسی لمحے شیرنی ایک ہی جست میں احاطے کی دیوار پار کر کے گھنے جنگل میں روپوش ہو گئی۔ میرے اعصاب جو پہلے ہی آدم خور سے یوں اچانک آمنا سامنا ہو جانے پر تڑخ گئے تھے‘ اس عجیب و غریب منظر کی تاب نہ لا سکے اور آہستہ آہستہ میری آنکھیں بند ہوتی چلی گئیں۔اس کے بعد کیا ہوا؟ مجھے کچھ یاد نہیں‘بس یہ احساس باقی رہا کہ میرا ذہن اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبتا جا رہا ہے۔
٭٭
منہ پر ٹھنڈے پانی کے چھینٹے پڑتے ہی میں ہوش و حواس کی دنیا میں واپس لوٹ آیا۔ راجو نے میرا سر اپنی گود میں رکھا ہواتھا اور وہی میرے چہرے پر پانی کے چھینٹے مار رہا تھا۔ کچھ فاصلے پر میلے کچیلے چیتھڑوں میں ملبوس کسی انسان کی لاش پڑی تھی۔ اس سے اتنی شدید بدبو اٹھ رہی تھی کہ مجھے ابکائی آتی محسوس ہوئی۔ چند گھونٹ پانی پینے کے بعد میرے حواس درست ہوئے تو میں نے راجو کے ساتھ اس لاش کا معاینہ کیا۔
وہ ایک کوڑھی کی لاش تھی۔ وہ بد نصیب شخص کوڑھ جیسے بھیانک مرض کی آخری منزلیں طے کر رہا تھا کہ راجو کی چلائی ہوئی گولیوں کا نشانہ بن گیا۔ شاید وہ یہ سمجھا کہ راجو اسے گولی مار رہا ہے۔اس زمانے میں الموڑہ‘ کمائوں اور دوسرے دیہی علاقوں میں کوڑھ کثرت سے پھیلا ہوا تھا۔ طبی سہولیات نہہونے اور جہالت کے باعث لوگ مریض کا علاج معالجہ نہیں کراتے تھے‘ اس لیے مرض بڑھتا رہتا۔
کوڑھی کو عام طور پر اس کے رشتے دار بھی قبول نہ کرتے اور بے چارہ جنگلوں بیابانوں میں زندگی کے آخری ایام بسر کرنے پر مجبور ہو جاتا۔ اس وقت ہمارے سامنے ایسے ہی کسی کوڑھی کی لاش پڑی تھی۔ عجیب بات یہ تھی کہ غالباً پولیو کے باعث اس کا داہنا پائوں غیر فطری انداز میں مڑا ہوا تھا۔ مجھے یقین ہو گیا کہ الٹے قدموں کے وہ نشان اسی بدنصیب شخص کے تھے اور وہی راتوں کوتکلیف کے باعث جنگل میں چیختا بھی رہتا۔سادہ لوح دیہاتی اسے پچھل پیری سمجھ کر اس سے خائف ہو گئے۔نہایت بدبودار گوشت کی وجہ سے اس چلتی پھرتی لاش سے دیگر حیوان تو کیا شیر بھی قریب نہیں پھٹکتا تھا۔
’’میرے ہاتھ سے ظلم ہو گیا صاحب! ‘‘راجو کی درد میں ڈوبی آواز میری سماعت سے ٹکرائی ۔میں نے اس کی طرف نگاہ اٹھائی‘ توصبح کاذب کے ملگجے اجالے میں راجو کی آنکھوں سے آنسوئوں کی لڑیاں بہتی صاف دکھائی دیں۔
’’ارے بے وقوف‘ تو نے تو اس بد نصیب پر احسان کیا ہے۔‘‘ میں نے اس کا کندھا جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔ ’’ سسک سسک کر جینے سے یہ اندھی موت ہزار درجے بہتر ہے۔ہو سکتا ہے وہ بھی مرنا چاہتا تھا ورنہ ایسے موقع پرکبھی یہاں نہ آتا۔‘‘
دن کے اجالے میں احاطے کا معاینہ کرنے پر انکشاف ہوا کہ ہماری چلائی ہوئی گولیوں میں سے کوئی ایک شیرنی کو زخمی کر گئی تھی کیونکہ خون کے نشانات جنگل میں خاصی دور تک چلے گئے تھے۔ شیر کے شکار کا سب سے خطرناک مرحلہ اسے تعاقب کر کے ہلاک کرنا ہے۔ مچان پر سے تو کوئی بھی درندہ بآسانی شکار کیا جا سکتا ہے مگر دو بدو مقابلے میں شکاری کی اپنی جان جانے کے امکانات بھی خاصے ہوتے ہیں۔ خصوصاً جب شیر زخمی ہو‘ تو خطرہ دو چند ہو جاتا ہے۔
ہم نے فوراً شیرنی کا تعاقب کرنا مناسب نہیں سمجھا اور گائوں واپس آ گئے۔ نمبر دار ہماری بپتا سن کر حیران پریشان ہو گیا۔ہمارے یقین دلانے کے باوجود وہ یہی سمجھتا رہا کہ جنگل اب بھی پچھل پیری سے آباد ہے۔ تا ہم جب اس نے دوسرے لوگوں کے ساتھ جا کر کوڑھی کی لاش دیکھی‘ تو ان سب کا خوف دور ہوا اور انھیں یقین ہو گیا کہ دیہات کے باشندوں کو ایک آدم خور شیرنی ہلاک کر رہی ہے ۔ہمارے استفسار پر اس نے بتایا کہ اس گھوڑے کے مالک کا تاحال کوئی سراغ نہیں مل سکا ۔
دو گھنٹے آرام کرنے کے بعد ہم نے تھانے سے شیر کے شکار میں استعمال ہونے والے سدھائے ہوئے گھوڑے منگوائے اور آدم خور کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے۔ یاد رہے جوں جوں آدم خور کا تجربہ بڑھے اس کی مکاری‘ چالاکی اور سفاکی بڑھتی جاتی ہے۔ اس کی حسیات اتنی قوی ہو جاتی ہیں کہ وہ دور سے شکاری کی بو پا لیتا ہے اور پھر ادھر کا رخ نہیں کرتا۔ ایسے میں اگر وہ شکاری کے ہاتھوں زخمی بھی ہو جائے تو معاملہ مزید گمبھیر ہو جاتا ہے۔
دوسری طرف زخمی آدم خور کو تلاش کر کے ہلاک کرنا بڑے دل گردے کا کام ہے۔ عام طور پر شکاری‘ شیرتلاش کرنے کے لیے ہانکا کراتے ہیں۔ چونکہ میںپہلے دو مرتبہ ہانکے کے دوران تلخ تجربات سے دو چار ہو چکا تھا‘ اس لیے میں نے تہیہ کر لیا تھا کہ آیندہ کبھی ہانکے کا سہارا نہیں لوں گا۔
ہم نے زخمی شیرنی کو تلاش کرنے کی مہم کا آغاز متروک مندرسیکیا۔ خاصی دور تک زخمی درندے کے خون کے نشانات ہماری رہنمائی کرتے رہے۔ پھلدرا کا وہ علاقہ خاصا زرخیز اور شاداب تھا۔ چھوٹے چھوٹے پہاڑ گھنے جنگلوں سے ڈھکے ہوئے تھے۔ جہاں جنگل ذرا چھدرا ہوتا‘ وہاں دلفریب مرغزار میلوں تک پھیلے نظر آتے۔ ان میں ہرن ‘ چیتل‘ سانبھر اور دوسرے چرند پرند بکثرت گھوم رہے ہوتے۔ کہیں کہیں شیر اور چیتے بھی محو استراحت دیکھنے کو ملے لیکن ان میں کوئی بھی ہمارا مطلوبہ درندہ نہ تھا‘ اس لیے ہم ان سے کنی کترا کر آگے بڑھتے رہے۔
جنگل سے نکل کر ہم ایک ناہموار علاقے میں پہنچ گئے۔ وہاں اونچے نیچے ٹیلوں کی بہتات تھی۔ وہیں ایک جگہ کچی زمین پر آدم خور کے نقوش پا صاف نظر آئے۔ گزشتہ شب شیرنی نے دس میل کا فاصلہ طے کیا تھا۔ اس کا مطلب تھا کہ وہ زیادہ زخمی نہیں ہوئی تھی‘ بصورت دیگر وہ اتنی طویل مسافت کبھی طے نہ کر پاتی۔
ایک ٹیلے کی بلندی پر پہنچ کر ہم نے گھوڑے روک لیے۔ دوپہر کی چمکتی دھوپ میں ہمارے سامنے دس پندرہ کچے مکانات پر مشتمل ایک بستی آ گئی تھی۔ شیر کے قدموں کے نشانات اسی بستی تک جا رہے تھے۔ اس کے پار سبزے سے ڈھکی اونچی نیچی پہاڑیاں تھیں جن کے پیچھے پھر گھنے جنگل کا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا۔
بستی پر چھایا موت کا سا سکوت اس کی ویرانی کا غماز تھا۔ ہم گھوڑوں کو دلکی چال چلاتے بستی میں لے گئے۔مکان ٹوٹے پھوٹے پتھروں اور گارے سے بنائے گئے تھے جن کی چھتیں گھاس پھوس اور لکڑی سے بنی ہوئی تھیں۔ مکانات کے سامنے دور تک کشادہ میدان تھا جس میں کہیں کہیں کھیت نظر آ ئے مگر اب وہ بنجر ہو چکے تھے۔ ہم نے ایک دوگھروںکے اندر جھانکا مگرٹوٹے پھوٹے گھڑوں اور پرانے کپڑوں کے سوا کچھ نظر نہ آیا۔ یوں لگتا تھا جیسے وہاں کے مکین ہنگامی حالات سے دو چار ہونے کے بعد شدید خوف و ہراس کی حالت میں بستی خالی کر گئے ہیں۔ آدم خور کے علاقہ واردات میں کسی بستی کا ایسا حشر معمول کی بات تھی۔ ہم پہلے بھی ایسی کئی بستیاں دیکھ چکے تھے‘ اس لیے زیادہ حیران نہ ہوئے۔ مجھے یقین تھا کہ اس بستی کے بدنصیب مکین آدم خور سے کم اور پچھل پیری سے زیادہ خائف تھے۔
گھروں کے درمیانی راستے پر جہاں کہیں نرم مٹی تھی‘ وہاں ہمیں شیرنی کے پنجوں کے نشانات صاف دکھائی دئیے۔ وہ گھاس کے میدان تک جا رہے تھے۔ ابھی ہم نشانات کے تعاقب میں آگے بڑھنے کا سوچ ہی رہے تھے کہ معاً جنگل میں شیر کی فلک شگاف گرج گونجی جس کے ساتھ ہی یکے بعد دیگرے رائفل کے دو دھماکے سنائی دیے۔ اگلے لمحے فضا پر یوں سکوت چھا گیا گویا کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ ہم دونوں ششدر کھڑے ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ وہ دھماکے شناخت کرنے میں مجھے بمشکل ایک پل لگا.تین سو پچھتر میگنم نامی رائفل اس زمانے میں یا تو پیشہ ور شکاریوں کے پاس ہوتی تھی یا پھر ڈاکوئوں اور جاگیرداروں کے پاس۔ بہر حال وہ خاص رائفل تھی اور کسی عام آدمی کے پاس اس کا ہونا محال تھا۔
ابھی ہم ان دھماکوں اور شیر کی گرج کے بارے میں سوچ ہی رہے تھے کہ گھاس کے میدان سے وہی آدم خور نکلتی دکھائی دی جس کی تلاش میں ہم صبح سے مارے مارے پھر رہے تھے۔ میں نے فوراً رائفل کندھے سے لگا لی اور اس کی دور بین میں دیکھا کہ شیرنی کی گردن سے خون کا دھارا بہہ رہا ہے۔ یہ زخم بلاشبہ تازہ تھا۔ وہ یوں اندھا دھند بستی کی طرف بھاگی چلی آ رہی تھی جیسے اس کے پیچھے کوئی بلا پڑی ہوئی ہے۔ شاید اس نے ابھی ہمیں نہیں دیکھا تھا۔
میں نے فوراً راجو کو اشارہ کیا اور ہم دونوں ایک مکان کی اوٹ میں اس طرح سے بیٹھ گئے کہ ہم تو شیرنی کو دیکھ سکتے تھے مگر ہمارا فوراً اس کی نظروں میں آ جانا ممکن نہ تھا۔ زخمی ہونے کے باوجود شیرنی اس قدر سرعت سے بھاگ رہی تھی کہ اس پر نظر نہیں ٹھہرتی تھی۔ جلدہی وہ میدان سے نکل کر کھیتوں میں داخل ہو گئی۔ جیسے اس کا زردی مائل وجود کھیتوں سے برآمد ہوا میں نے اسے اپنے نشانے کی زد پر لے لیا۔
چند قدم دوڑنے کے بعد شیرنی نے جست لگائی‘ ساتھ ہی اس کے حلق سے ایسی زبردست دھاڑ نکلی کہ پورا علاقہ لرز گیا۔ حواس خمسہ پر شدید گرج کے باعث جو اثر ہوتا ہے‘ اس کے زائل ہوتے ہی میں نے رائفل پر گرفت مضبوط کی اور شیر نی کے سر سے چند انچ آگے نشانہ لے کر لبلبی دبا دی۔ چار سو پچاس ایکسپریس کے دھماکے سے ماحول گونج اٹھا اور ساتھ ہی ہمیں شیر نی کا رخ بدلتا نظر آیا۔ دوسرے ہی لمحے وہ زمین پر گر لوٹنے لگی۔ اس کے حلق سے ایسی دہشت ناک آوازیں نکلیں کہ قریب اڑتے ہوئے پرندے تک خوفزدہ ہو کر دور نکل گئے۔اس دوران راجو نے بھی گولی داغ دی تھی۔
کچھ دیر بعد ہم دونوں اپنی رائفلیں شیر کے مچلتے وجود پر مرتکز کیے مکان کی اوٹ سے نکل آئے۔ ایک گولی شیرنی کے شانے کو چکنا چور کر گئی تھی جبکہ دوسری نے ریڑھ کی ہڈی کو شدید صدمہ پہنچایا تھا۔ یہ دونوں زخم اس قدر کاری تھے کہ شیرنی کا دوبارہ کھڑا ہونا ممکن نہتھا۔ وہ گردوغبار اڑاتی ماہی بے آب کے مانند تڑپ رہی تھی۔ میں نے رائفل لوڈ کی اور قدرے قریب جا کر اس پر خالی کر دی۔ چند منٹ بعد وہ ساکت ہو گئی. آدم خور بالآخر مر چکی تھی مگر ہمیں یقین نہ آیا‘ اسی لیے دیر تک اس کے قریب جانے کی ہمت نہ کرسکے۔ دس بارہ منٹ تک یہ دیکھنے کے بعد کہ شیرنی میں زندگی کی کوئی رمق موجود نہیں‘ ہم آہستہ آہستہ اس کے نزدیک گئے۔ شیرنی کے دانت اور پنجے گھسے ہوئے تھے۔ جلد بد رنگ اور خشک تھی۔ باریک بینی سے لاش کا جائزہ لینے کے بعد مجھے معلوم ہو گیا کہ شیرنیبڑھاپے کی وجہ سے آدم خور بنی تھی۔
ابھی ہم شیرنی کے معاینے سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ جنگل کی طرف سے گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز سنائی دی۔ تھوڑی دیر بعد ایکگھوڑاجنگل سے نکل کر ہماری طرف بڑھتا نظر آیا۔ دور سے دیکھنے پر لگتا تھا جیسے گھوڑے کی پیٹھ پر کوئی بوری لدی ہے۔ جوں جوں گھوڑا قریب آیا منظر واضح ہو گیا۔اس پر کوئی آدمی ڈھلکا پڑا تھا۔ سوار کی حالت خاصیخراب تھی۔ تقریباً تمام لباس خون رنگ ہو چکا تھا۔ کندھے اور پشت پر گہری خراشیں پڑی ہوئی تھیںجن سے ابھی تک خون بہ رہا تھا۔زخمی ہونے کے باوجودسوارکے حواس پوری طرح مختل نہ ہوئے تھے اور اس نے دونوں بازو گھوڑے کی گردن میں حمائل کر کے خود کو گرنے سے بچایا ہوا تھا۔ گھوڑے کی پشت پر بھی خراشیں نظر آ رہی تھیں۔
ہم نے سوار کو سنبھالا اوراسے فوراً گائوں لے آئے۔ راجو ہر قسم کے زخموں کی دیکھ بھال مہارت سے کر لیتا تھا۔ گائوں پہنچتے ہی اس نے سوار کے زخمصاف کرنے کے بعد ان پر مرہم پٹی کر دی۔ مجھے یقین تھا کہ سوار کی یہ حالتِ زار آدم خور کے ساتھ مڈ بھیڑ ہونے کے باعث ہوئی تھی۔
پورے علاقے میںیہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ آدم خور شیرنی چل بسی ہے ۔لوگ دور دور سے اسے دیکھنے آنے لگے۔ پھلدرا کے باسی تو اس قدر مسرور ہوئے کہ انھوں نے ہماری شان میں باقاعدہ جشن کا اہتمام کر ڈالا۔ کچھ دن بعدزخمی سوار کے زخم بھرنے لگے اور وہ بول چال کے قابل ہو گیا۔ ایک شام راجو کے ساتھ جا کر میں نے اس کی خیریت دریافت کی۔ ساتھ ہی میں یہ بھی جاننا چاہتا تھا کہ وہ کون ہے اور کہاں جا رہا تھا۔ ہمیں جنگل سے اس کی ۵۷۴ میگنم رائفل مل گئی تھی جو غالباً تب اس کے ہاتھوں سے چھوٹ کر گر پڑی جب شیرنی نے حملہ کیا تھا۔ میں پہلے ہی بیان کر چکا ہوں کہ وہ رائفل جاگیرداروں‘ ڈاکوئوں یا پھر شکاریوں کے پاس ہی ہوا کرتی تھی لہٰذا میں اس شخص کی حقیقت جاننے کے لیے بے تاب تھا۔
بڑے اصرار کے بعد وہ ہمیں اپنی آپ بیتی سنانے پر رضامند ہوا مگر اس نے میری حقیقت جاننے کے بعد مجھ سے وعدہ لیا کہمیں اس کی بابت جاننے کے بعد اسے آگے جانے سے نہیں روکوں گا۔ اس کی کہانی خاصی بے ربط تھی جسے سناتے سناتے وہ اکثر کھو جاتا‘ میں اپنے الفاظ میں اسے بیان کرتا ہوں۔
٭٭
وہ پھلدرا سے بیس میل دور واقع جاگیر‘ ڈھلوانہ کے جاگیردار کا اکلوتا بیٹا نرمل پانڈے تھا۔خاصی بڑی جاگیر کا اکلوتا وارث ہونے کے ناتے اس کی پرورش بڑے ناز و نعم میں ہوئی ۔ ساتھ ساتھ اسے سیر و شکار کا بھی شوق تھا۔ یوں تو اس کی زندگی میں ہر خوشی کی فراوانی تھی مگر شادی کے بعد اسے ایک دکھ نے آ لیا. یہ اولاد نہ ہونے کا دکھ تھا۔
اس کی بیوی حسن و جمال اور دولت و حشمت میں یکتا تھی مگر قدرت کو اس کی گود ہری کرنا منظور نہ تھا۔ جاگیردار کے ذاتی معالجین نے ہر طرح کے علاج معالجے آزما ڈالے مگر بے سود۔ آخر میاں بیوی نے جوتشیوں اور پنڈتوں کا سہارا لیا۔ دوماہ کی تلاش بسیار کے بعد ان کا پالا ایک ایسے جوتشی سے پڑا جس کا دعویٰ تھا کہ وہ نا ممکن کو ممکن بنا سکتا ہے۔ اس نے میاں بیوی کو ایک ایسا عمل بتایا جسے کرنے سے بقول اس کے انھیں زندگی میں ایک بار اولاد مل جاتی۔
لیکن میاں بیوی کو یہ عمل بالکل پسند نہ آیا کیونکہ کامیابی کی شرط یہ تھی کہ ایک دس ماہ کے بچے کے خون سے سر دھویا جائے۔ یہ شرط بیوی کے لیے مخصوص تھی۔
نرمل توایسا انسانیت سوزعمل کرنے پر راضی نہ ہوا لیکن اس کی بیوی چپکے چپکے دس ماہ کے بچے کی کھوج میں لگ گئی۔ بالآخر اس کے ملازم نے اسے بتایا کہ پھلدرا کے ایک گائوں میں ایک غریب کمہار کا بیٹا چند روز تک دس ماہ کا ہو جائے گا۔ جاگیردارنی کے لیے یہ بہت بڑی خبر تھی۔ اپنی گود بھرنے کے لیے وہ کسی کی گود اجاڑنے سے بھی نہ چونکی اور غریب کمہار کا بچہ اٹھوا لیا۔ چونکہ اسے خدشہ تھا کہ اس کا شوہرراہ کی رکاوٹ بن جائے گا‘اسی لیے اس نے عمل کی رات نرمل پانڈے کو نشہ آور دودھ پلا کر بے ہوش کیا اور بچہ لے کر وہاں سے نکل کھڑی ہوئی ۔اس کی منزل وہی سنسان مندر تھا جہاں وہ اپنا شقی القلب عمل کرنے سے قبل خود ہی آدم خور کا شکار بن گئی۔ نرمل کے ساتھ بعد میں جو حالات پیش آئے‘ وہ اسی کی زبانی سنیے:
٭٭
جیسے ہی مجھے ہوش آیامیں نے ملازموں سے اپنی بیوی کے بارے میں پوچھا ۔ انھوں نے بتایا کہ وہ اپنے رشتے داروں سے ملنے گئی ہے۔ لیکن میرا دل نہیں مانتا تھا کیونکہ وہ میرے بغیر کبھی کہیں نہ گئی تھی۔ بہر حال کچھ دن انتظار کرنے کے باوجود جب اس کی کوئی خبر نہ ملی تو میں نے اس کے رشتے داروں کے ہاں جانے کی ٹھانی۔ ابھی میں جنگلوںسے گزر رہا تھا کہ ایک زخمی شیرنی سے میری مڈ بھیڑ ہو گئی۔ اس کے بعد کے واقعات سے آپ بخوبی واقف ہیں۔‘‘
’’تم نے کہا تھا کہ میں تمہاری آپ بیتی سننے کے بعد تمہیں آگے جانے سے نہ روکوں گا‘ مگر مجھے افسوس ہے کہ تمہارے آگے جانے کا اب کوئی فائدہ نہیں۔‘‘ میں نے گمبھیر لہجے میں کہا‘ تو نرمل پانڈے نے مجھے چونک کر دیکھا۔
میں نے کچھ کہنے کے بجائے جیب سے کپڑے میں لپٹا ہوا خون آلود تعویذ نکالا اور اس کے سامنے رکھ دیا۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے تعویذ کو دیکھتا رہ گیا کیوں کہ اس پر نرمل کی بیوی کا نام کندہ تھا۔ ’’یہ کیا ہے؟‘‘ اس کے منہ سے فقط اتنا ہی نکل سکا۔
’’تمہاری بیوی ایک غریب کے بچے کا بلیدان دینا چاہتی تھی۔‘‘ میں نے سرسراتی ہوئی آواز میں جواب دیا۔ ’’مگر قدرت نے اسے آدم خور کا لقمہ بنا ڈالا۔‘‘
یہ کہہ کر میں نے اسے غم و اندوہ کی تصویر بنا چھوڑا اور راجو کے ساتھ کمرے سے نکل آیا۔
’’راجو۔‘‘ میں نے پائپ سلگاتے ہوئے کہا۔’’ شکر ہے کہ آدم خور کے ساتھ ساتھ ایک ڈائن بھی قدرت کے غیبی ہاتھ کا شکار ہو کر کیفر کردار کو پہنچ گئی۔‘‘
باشکریہ www.urdu-digest.com
یا اللہ تعالٰی بدگمانی سے بد اعمالی سےغیبت سےعافیت کے ساتھ بچا.
Image
اعجازالحسینی
مدیر
مدیر
Posts: 10960
Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین
Contact:

Re: ڈھلوانہ کی ڈائن

Post by اعجازالحسینی »

شکریہ آفاق بھائی
[center]ہوا کے رخ پے چلتا ہے چراغِ آرزو اب تک
دلِ برباد میں اب بھی کسی کی یاد باقی ہے
[/center]

روابط: بلاگ|ویب سائیٹ|سکرائبڈ |ٹویٹر
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: ڈھلوانہ کی ڈائن

Post by چاند بابو »

ارے واہ بہت شکریہ محترم آفاق بھیا
شکاریات میرا بہت پسندیدہ موضوع رہا ہے اور میں نے بہت سے لوگوں کی لکھی ہوئی شکاریات پر مبنی تحریریں پڑھی ہیں لیکن جو مزہ مجھے قمر نقوی کی کتابیں پڑھنے میں آیا ہے وہ کبھی نہیں آیا۔
ان کا لکھنے کا سٹائل ہی بہت دلکش ہے یہی نہیں شکاریات کے ساتھ ساتھ وہ قاری کو جنگل اور جنگلی جانوروں کی اتنی بیش قیمت معلومات مہیا کرتے ہیں کہ انتہا ہے۔

میں نے بلاشبہ ان کی کتابوں سے بہت زیادہ سیکھا ہے۔ گو کہ میں شکاری نہیں ہوں لیکن یہ ان کی کتابوں کی ہی وجہ ہے کہ کچھ نہ کچھ شکاریات کے بارے میں علم رکھتا ہوں۔

جنگلی جانوروں کے بارے میں بہت ہی باریک بینی سے جانتا ہوں نہ صرف ان کی عادات سے واقف ہوں بلکہ ان کے رہن سہن کے طور طریقوں سے بھی واقف ہوں۔

گو اس میں انٹرنیٹ کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے کہ میں نے جو کچھ پڑھا اس کی تصدیق یہاں سے کی اور آج الحمداللہ میں ہندوستان کے جنگلوں میں پائے جانے والے بے شمار جانوروں کے بارے میں بہت باریک بینی پر مبنی معلومات رکھتا ہوں۔ حتی کہ مجھے یہ بھی پتہ ہے کہ شیر کے پاؤں کے نشانات کیسے ہوتے ہیں اور برصغیر کے کن کن علاقوں میں کون کونسے جانور پائے جاتے ہیں اور مقامی زبانوں میں ان جانوروں کا کیا کہتے ہیں۔

اور شاید یہ بھی کہ کس جانور کے شکار کے لئے کونسا ہتھیار مناسب رہے گا۔

اوپر موجود تحریر میں سے بھی قمر نقوی کی تحریر جیسی بو آ رہی ہے ابھی میں نے اس کی پہلی چند لائنیں ہی پڑھی ہیں۔ انشااللہ پوری پڑھ کر رائے دوں گا۔

شئیر کرنے کا بہت بہت شکریہ ۔

اگر کچھ مزید ذخیرہ موجود ہو تو وہ بھی ضرور شئیر کیجئے گا۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
انصاری آفاق احمد
مشاق
مشاق
Posts: 1263
Joined: Sun Oct 25, 2009 6:48 am
جنس:: مرد
Location: India maharastra nasik malegaon
Contact:

Re: ڈھلوانہ کی ڈائن

Post by انصاری آفاق احمد »

اسلام علیکم
ماشاء اللہ جان کر خوشی ہوئی کہ شکار سے آپ کو دلچسپی ہے اور آپ بہت کچھ جانتے ہیں کیا عملی طور پر بھی آپ نے شکار کیا ہے.بڑے جنگلی جانوروں کا ؟؟؟ اگر ہاں تو اسکی روداد ضرور تحریر کریں.
اب آپ کی جانکاری کا امتحان .. شیر کا قد یا اسکی لمبائی کہاں سے کہاں تک شمار کی جاتی ہے ؟؟؟؟
یا اللہ تعالٰی بدگمانی سے بد اعمالی سےغیبت سےعافیت کے ساتھ بچا.
Image
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: ڈھلوانہ کی ڈائن

Post by چاند بابو »

السلام علیکم

محترم آفاق بھیا جیسا کہ میں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ میں نے خود سے کبھی شکار نہیں کیا ہے اور نہ ہی ہمارے اردگرد 300 کلومیٹر تک کوئی شکار دستیاب ہی ہے۔ میرا جو بھی علم ہے وہ تجربہ سے عاری ہے اور یہی وجہ ہے کہ اگر کبھی مجھے موقعہ ملا بھی تو شاید میں شکار نہ کر پاؤں کہ علم اور عمل میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے۔
بہرحال آپ کے سوال کا جواب ہے کہ شیر کہ نتھنوں سے لے کر اس کی دم کے آخری مہرے تک اس کی پیمائش کی جاتی ہے۔ :D
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
انصاری آفاق احمد
مشاق
مشاق
Posts: 1263
Joined: Sun Oct 25, 2009 6:48 am
جنس:: مرد
Location: India maharastra nasik malegaon
Contact:

Re: ڈھلوانہ کی ڈائن

Post by انصاری آفاق احمد »

اسلام علیکم
بلکل درست جواب اب میں آپ کی معلومات کا قائل ہوگیا مگر میرے سوال سے آپ مجھے اسمیں معلومات رکھنے والا ہرگز نہ سمجھ بیٹھنا...
یا اللہ تعالٰی بدگمانی سے بد اعمالی سےغیبت سےعافیت کے ساتھ بچا.
Image
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: ڈھلوانہ کی ڈائن

Post by چاند بابو »

معلومات تو آپ کے پاس بہرحال موجود ہیں جب ہی تو آپ نے خاصا ٹیکنیکل سوال کیا ہے ورنہ عام آدمی کو تو اس باریکی کے بارے میں کم ہی علم ہوتا ہے۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
شازل
مشاق
مشاق
Posts: 4490
Joined: Sun Apr 12, 2009 8:48 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: ڈھلوانہ کی ڈائن

Post by شازل »

بہت شکریہ
میرے خیال میں کینتھ اینڈرسن بھی شکاریات پر بہت کچھ لکھ چکے ہیں (اگر میں‌کچھ بھول نہیں‌رہا تو)
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: ڈھلوانہ کی ڈائن

Post by چاند بابو »

جی ہاں بالکل آپ درست کہہ رہے ہیں کینتھ اینڈرسن برصغیر میں شکاریات کے موضوع پر لکھنے والےچند ایک پہلے نمایاں افراد میں سے ایک ہیں۔ ہندوستان کے جنگلات کے آدم خور شیروں کو ہلاک کرنے میں انہوں نے بڑا نام کمایا ہے۔


ان کی کتاب “نو آدم خور اور ایک پاگل ہاتھی“ بہت مشہور کتاب ہے جو اردووکی پر بھی موجود ہے
یہ کئی کہانیوں پر مشتمل ہے، کتاب کے ا بواب درج ذیل ہیں۔

سیگور کا آدم خور
تگراٹھی کا شیر
پانا پتی کا پاگل ہاتھی
گملا پور کا آدم خور تیندوا
جولاگری کی آدم خور
ہوس درگا کا آدم خور
وادئی چملا کا آدم خور
بیرا پجاری
جالا ہالی کا قاتل

اردو ڈیجیٹل لائبریری پر اس کتاب کا لنک


[link]http://library.urduweb.org/index.php?ti ... B%8C%DB%81[/link]
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
شازل
مشاق
مشاق
Posts: 4490
Joined: Sun Apr 12, 2009 8:48 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: ڈھلوانہ کی ڈائن

Post by شازل »

بہت شکریہ
آپ بھی کسی انسائیکلوپیڈیا سےکیا کم ہیں
انصاری آفاق احمد
مشاق
مشاق
Posts: 1263
Joined: Sun Oct 25, 2009 6:48 am
جنس:: مرد
Location: India maharastra nasik malegaon
Contact:

Re: ڈھلوانہ کی ڈائن

Post by انصاری آفاق احمد »

اسلام علیکم
جزاک اللہ چاند بابو صاحب مگر آخری دو
بیرا پجاری
جالا ہالی کا قاتل
کی شائید تدوین نہیں ہوسکی ہے اسلئے یہ دستیاب نہیں وہاں.
یا اللہ تعالٰی بدگمانی سے بد اعمالی سےغیبت سےعافیت کے ساتھ بچا.
Image
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: ڈھلوانہ کی ڈائن

Post by چاند بابو »

میں نہیں جانتا میں نے تو صرف ان کا ٹائٹل صفحہ دیکھا تھا اب بات چلی تو وہی دوبارہ کھول کر آپ کو بتا دیا شاید وہ ابھی رہتی ہوں۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Post Reply

Return to “شکاریات”