حصہ اؤل
جم کاربٹ
مترجم:محمد منصور قیصرانی
۱۹۵۲ میں پہلی بار شائع ہوئی[/align]

اگر آپ ہندوستان کی تاریخ پڑھنا چاہتے ہیں یا پھر برطانوی راج کے عروج و زوال کی وجوہات تلاش کر رہے ہیں یا پھر یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کیسے برِصغیر دو دشمن ریاستوں میں تقسیم ہوا اور اس کے نتیجے میں دونوں ریاستوں اور انجام کار ایشیا میں کیوں تشدد ہوا تو آپ کو مایوسی ہوگی کہ اگرچہ میں نے پوری زندگی اس ملک میں گزاری ہے اور ان واقعات کو بہت قریب سے وقوع پذیر ہوتے دیکھا ہے مگر میں نے اتنا قریب سے مشاہدہ کیا ہے کہ میری رائے اس بارے غیرجانبدارانہ نہیں رہ سکتی۔
"میرا ہندوستان" میں، میں نے اس ہندوستان کے بارے بات کی ہے جو میں جانتا ہوں اور جس میں چالیس کروڑ انسان آباد ہیں اور ان میں نوے فیصد انتہائی سادہ، ایماندار، بہادر، وفادار اور جفاکش ہیں اور روزانہ عبادت کرتے ہیں اور انہیں اور ان کی ملکیت کا تحفظ حکومتِ وقت کا کام ہوتا ہے تاکہ وہ اپنی محنت سے لطف اندوز ہو سکیں۔ یہ لوگ بلاشبہ غریب ہیں اور انہیں "ہندوستان کی بھوکی عوام" کہا جاتا ہے اور ان کے درمیان میں نے زندگی گزاری ہے اور مجھے ان سے محبت ہے اور یہ کتاب میں ان لوگوں کے نام منسوب کرتا ہوں جو ہندوستان کے غریب ہیں۔
اجزا
۰۰۔ تعارف
۰۱۔ گاؤں کی رانی
۰۲۔ کنور سنگھ
۰۳۔ موٹھی
۰۴۔ قبل از سرخ فیتہ زمانہ
۰۵۔ جنگل کا قانون
۰۶۔ سلطانہ، ہندوستان کا رابن ہُڈ
۰۷۔ وفاداری
۰۸۔ بُدھو
۰۹۔ لالہ جی
۱۰۔ چماری
۱۱۔ موکمہ گھاٹ کے شب و روز
تعارف
انتساب پڑھ کر آپ شاید یہ پوچھیں کہ "ہندوستان کے غریب کون ہیں، جن کا ذکر ہو رہا ہے؟" "میرا ہندوستان سے کیا مراد ہے؟" یہ سوال مناسب ہیں۔ دنیا میں ہندوستانی کا لفظ ایک بہت بڑے جزیرہ نما علاقے کے لیے استعمال ہوتا ہے جو شمال سے جنوب دو ہزار میل سے زیادہ لمبا اور مشرق سے مغرب تک اتنا ہی چوڑا ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے تو شاید یہ لفظ اپنا مفہوم ادا کر دے مگر لوگوں کے حوالے سے ایسا کہنا ممکن نہیں۔ چالیس کروڑ انسان نسل، قبیلے اور ذات پات کے ذریعے یورپ سے کہیں زیادہ منقسم ہیں اور اس کے علاوہ مذہبی طور سے بھی ایک دوسرے سے انتہائی فرق ہیں۔ یہ نسل نہیں بلکہ مذہب تھا جس نے ہندوستان کی سلطنت کو دو ممالک یعنی پاکستان اور بھارت میں تقسیم کیا۔
اب میں اس کتاب کے عنوان کی وجہ تسمیہ بیان کرتا ہوں۔
"میرا ہندوستان" میں، میں نے دیہاتی زندگی اور اس سے متعلق امور کے بارے بات کی ہے اور اس میں ان مقامات کا تذکرہ ہے جہاں میں نے اپنی پوری زندگی بسر کی تھی اور جہاں میں نے کام کیا تھا اور ان سادہ لوح لوگوں کا بھی تذکرہ ملے گا جن کے درمیان میں نے لگ بھگ ستر سال بسر کیے۔ ہندوستان کے نقشے پر نظر ڈالیے۔ اس جزیرہ نما کا انتہائی جنوبی مقام راس کماری ہے اور پھر آپ اس سے اوپر دیکھتے جائیں حتیٰ کہ ہمالیہ کے عظیم الشان سلسلے تک پہنچ جائیں گے جو صوبجات متحدہ کے شمال میں ہے۔ یہاں آپ کو نینی تال دکھائی دے گا جو صوبجات متحدہ کے گرمائی صدر مقام کا درجہ رکھتا ہے اور اپریل سے نومبر تک یورپیوں اور امیر ہندوستانیوں سے بھرا رہتا ہے جو میدانی علاقوں کی گرمی سے جان چھڑانے یہاں پہنچ جاتے ہیں۔ سردیوں میں محض چند مستقل افراد رہتے ہیں اور ان میں سے میں بھی ایک تھا۔
اب اس پہاڑی مقام سے ہٹ کر اپنی نظریں دریائے گنگا پر دوڑائیں جو الہ آباد، بنارس اور پٹنہ سے ہوتا ہوا سمندر کو گامزن ہوتا ہے۔ یہاں آپ کو پٹنہ کے بعد موکمہ گھاٹ دکھائی دے گا جہاں میں نے ۴۱ سال کام کیا۔ میرے بیان کردہ واقعات انہی دو مقامات یعنی نینی تال اور موکمہ گھاٹ سے متعلق ہیں۔
بہت سارے پیدل راستوں کے علاوہ نینی تال تک باقاعدہ سڑک بھی جاتی ہے جس پر ہمیں فخر ہے کہ یہ پہاڑی سڑک پورے ہندوستان میں سب سے اچھی بنی ہوئی ہے اور سب سے اچھی طرح اس کی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ کاٹھ گودام میں جہاں ریل کی پٹڑی ختم ہوتی ہے، وہاں سے یہ سڑک شروع ہو کر بائیس میل تک گھنے جنگلوں سے گزرتی ہوئی ۴،۵۰۰ فٹ کی اونچائی چڑھتی اور آسان موڑوں پر گھومتی ہوئی نینی تال پہنچتی ہے۔ راستے میں بعض اوقات آپ کو شیر اور شیش ناگ بھی دکھائی دے سکتے ہیں۔نینی تال ایک کھلی وادی ہے جو مشرق سے مغرب کی سمت پھیلی ہوئی ہے اور اس کے تین جانب پہاڑ ہیں جن میں سب سے بلند پہاڑ چینا ہے جو ۸،۵۶۹ فٹ بلند ہے۔
اس کا نچلا سرا کھلا ہے جہاں سے سڑک آتی ہے۔ وادی میں ایک جھیل بھی ہے جو دو میل سے تھوڑی زیادہ جگہ گھیرے ہوئے ہے۔ اس جھیل میں پانی بالائی سرے سے سارا سال آتا ہے اور اضافی پانی سڑک والے سرے سے نکل جاتا ہے۔ وادی کے بالائی اور نچلے حصے پر بازار ہیں اور اطراف کی پہاڑیوں پر رہائشی گھر، چرچ، اسکول، کلب اور ہوٹل پھیلے ہوئے ہیں۔ جھیل کے کنارے پر بوٹ ہاؤس، ایک ہندو مندر اور ایک انتہائی مقدس مقام ہے جس کو میرا پرانا دوست اور برہمن پجاری سنبھالتا ہے۔
ماہرینِ ارضیات اس جھیل کی ابتدا کے بارے مختلف نظریات رکھتے ہیں۔ بعض کے مطابق یہ گلیشیر اور لینڈ سلائیڈ سے بنی ہے تو بعض اسے آتش فشانی عمل کا نتیجہ بتاتے ہیں۔ ہندو روایات کے مطابق یہ جھیل تین قدیم گیانیوں اتری، پلاستیا اور پُلاہا نے بنائی تھی۔ سکندا پران نامی مقدس کتاب میں درج ہے کہ یہ تین گیانی چینا کی ڈھال پر پہنچے اور انہیں پینے کو پانی نہ مل سکا۔ اس لیے انہوں نے یہاں گڑھا کھود کر تبت کی ایک مقدس جھیل مناسرور سے پانی یہاں منتقل کر دیا۔ ان کے جانے کے بعد نینی دیوی آئی اور اس جھیل کے پانیوں میں رہنے لگی۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس جھیل سے نکلی ہوئی مٹی پر جنگل اگ آئے اور پھر پانی اور سبزے کے باعث جانور اور پرندے بھی بڑی تعداد میں آ کر رہنے لگے۔ دیوی کے مندر سے چار میل کے دائرے میں میں نے بہت دیگر جانوروں کے علاوہ شیر، تیندوے، ریچھ اور سانبھر بھی دیکھے ہیں اور اسی علاقے میں ۱۲۸ مختلف اقسام کے پرندے بھی شمار کیے ہیں۔
جب اس جھیل کے بارے معلومات ہندوستان کے ابتدائی حکمرانوں کو ملیں اور چونکہ مقامی لوگ اپنی مقدس جھیل کا محلِ وقوع بتانے سے کتراتے تھے، ۱۸۳۹ میں ایک حاکم نے اس جھیل کو تلاش کرنے کا انوکھا طریقہ سوچا۔ اس نے ایک مقامی بندے کے سر پر بہت بھاری پتھر رکھا اور اسے کہا کہ وہ نینی تال جھیل پر پہنچ کر ہی اسے اتار سکے گا۔ کئی دن تک آس پاس پہاڑیوں میں پھرتے رہنے کے بعد اس بندے کی ہمت جواب دے گئی اور وہ ان لوگوں کو جھیل تک لے گیا۔جب میں بچہ تھا تو مجھے وہ پتھر دکھایا گیا۔ یہ پتھر بہت بڑا تھا اور اکیلا آدمی اسے نہ اٹھا پاتا۔ اس کا وزن اندازاً چھ سو پاؤنڈ ہوگا۔ جب میں نے اس پتھر کو دکھانے والے مقامی پہاڑی بندے سے کہا کہ یہ پتھر ایک آدمی سے تو نہیں اٹھ سکتا۔ تو اس نے جواب دیا، "بے شک پتھر بہت بڑا ہے مگر اُس دور کے لوگ بھی بہت مضبوط ہوتے تھے۔"
اپنے ساتھ اچھی دوربین لے کر میرے ساتھ چینا کی چوٹی کو چلیں۔ اس جگہ آپ کو نینی تال کے آس پاس پر طائرانہ نگاہ ڈالنےکا موقع مل جائے گا۔ سڑک کی چڑھائی کافی سخت ہے، اگر آپ پرندوں، درختوں اور پھولوں میں دلچسپی رکھتے ہوں تو تین میل کا یہ سفر طے کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی۔ اگر چوٹی پر پہنچ کر ان تین گیانیوں کی طرح آپ بھی پیاسے ہوں تو میں آپ کو پیاس بجھانے کے لیے انتہائی سرد چشمہ دکھاؤں گا۔ آرام کرنے اور کھانا کھانے کے بعد ہم شمال کا رخ کریں گے۔ ہمارے بالکل نیچے گہری اور گھنے جنگلات سے گھری وادی ہے جس میں دریائے کوسی بہتا ہے۔ اس دریا کے پیچھے پہاڑ پر چھجے سے ہیں جن پر مختلف دیہات آباد ہیں۔ انہی میں سے ایک پر الموڑہ کا قصبہ ہے اور ایک دوسرے پر رانی کھیت کا کینٹ ہے۔ ان کے پیچھے مزید چھجے ہیں جن میں سے سب سے بلند ڈنگر بقول کہلاتا ہے اور ۱۴٫۲۰۰ فٹ بلند ہے اور اس کے پیچھے انتہائی بلند مستقل برفپوش ہمالیہ کے پہاڑ موجود ہیں۔
یہاں ہم سے شمال کی جانب ساٹھ میل دور تری سول ہے اور اس کے مشرق اور مغرب میں ۲۳٫۴۰۶ فٹ بلند پہاڑ کئی سو میل تک چلے جاتے ہیں۔ تری سول کے مغرب میں جب برف نظروں سے اوجھل ہوتی ہے، میں سب سے پہلے گنگوتری گروپ آتا ہے، پھر گلیشیر اور پہاڑ دکھائی دیتے ہیں جو کیدار ناتھ اور بدری ناتھ کے مقدس مقامات ہیں۔
تری سول کے مشرق میں مزید پیچھے آپ کو نندہ دیوی (۲۵٫۶۸۹ فٹ) دکھائی دے گی جو ہندوستان کا سب سے اونچا پہاڑ ہے۔ہمارے سامنے دائیں جانب نندہ کوٹ ہے جو پراوتی دیوی کا تکیہ کہلاتا ہے۔ ان سے ذرا مشرق کی جانب پنچولی کی خوبصورت چوٹیاں ہیں جو "پانچ چولہوں" کے نام سے مشہور ہیں۔ طلوعِ آفتاب کے وقت جب چینا اور درمیان کی چوٹیاں ابھی تاریکی میں چھپی ہوتی ہیں، برفپوش چوٹیاں جامنی نیلے سے گلابی رنگ تک رنگ بدلتی جاتی ہیں اور جب سورج سب سے بلند چوٹی سے ابھرتا ہے تو گلابی رنگ بتدریج آنکھیں خیرہ کر دینے والے سفید رنگ میں بدل جاتا ہے۔ دن کے وقت پہاڑ سرد اور سفید دکھائی دیتے ہیں اور ہر چوٹی برفپوش ہوتی ہے مگر غروب ہوتے سورج سے پھر ان کا رنگ گلابی، سنہرا یا پھر سرخ ہو جاتا ہے۔
اب اپنا رخ موڑیں اور جنوب کا رخ کرتے ہیں۔ ہماری حدِ نگاہ پر تین شہر دکھائی دیں گے، بریلی، کاشی پور اور مراد آباد۔ ان تین شہروں میں نزدیک ترین کاشی پور ہے جو ہم سے سیدھا پچاس میل دور ہے۔ یہ تینوں شہر کلکتہ اور پنجاب کے درمیان چلنے والی ریلوے پر بسائے گئے ہیں۔ ریلوے اور پہاڑ کے دامن کے درمیان تین پٹیاں دکھائی دیں گی، پہلی پٹی مزروعہ زمین کی ہے جو بیس فٹ چوڑی ہے، پھر دس میل چوڑی گھاس کی پٹی آتی ہے جسے "ترائی" کہا جاتا ہے، تیسری پٹی دس میل چوڑی ، درختوں سے بھری اور"بھابھر" کہلاتی ہے۔ بھابھر کی پٹی سیدھی پہاڑ کے دامن تک جاتی ہے اور اس میں کئی جگہوں پر جنگل صاف کر کے زرخیزمٹی اور پہاڑی ندیوں کے چشموں کے پانی سے سیراب کر کے مختلف سائز کے دیہات بس گئے ہیں۔ ان دیہاتوں کا سب سے قریبی مجموعہ کالا ڈھنگی کہلاتا ہے جو نینی تال سے سڑک کے راستے پندرہ میل دور ہے اور ان دیہاتوں میں سب سے اوپر والا دیہات چوٹی ہلدوانی کہلاتا ہےجو ہمارا گاؤں ہ جس کے گرد تین میل لمبی سنگی دیوار ہے۔ اس گاؤں میں ہمارے گھر کی چھت درختوں کے درمیان دکھائی دیتی ہےاور ہمارا گھر نینی تال سے آنےو الی سڑک اور پہاڑوں سے گزرنےو الی سڑک کے سنگم پر ہے۔ یہ سارے پہاڑ ہی لوہے کے ذخائر سے مالا مال ہیں اور شمالی ہندوستان میں سب سے پہلے کالاڈھنگی میں لوہے کو نکالنے کا کام شروع ہوا۔ اس کے لیے لکڑی کو بطور ایندھن استعمال کیا جاتا تھا اور کماؤں کے بادشاہ جنرل سر ہنری ریمزے نے اس خیال سے کہیں یہ صنعت بھابھر کے سارے ہی جنگل نہ صاف کر جائے تو انہوں نے اسے یکسر بند کر ادیا۔ کالاڈھنگی اور چینا پر ہماری موجودگی کے درمیان چھوٹی پہاڑیاں ہیں جو سال کے درختوں سے بھری ہوئی ہیں اور یہ درخت ریلوے کو سلیپر مہیا کرتے ہیں اور ساتھ والی پہاڑی پر کھرپہ تال نامی چھوٹی سی جھیل ہے جو کھیتوں سے گھری ہوئی ہے اور یہاں ہندوستان کا بہترین آلو پیدا ہوتا ہے۔
دائیں جانب بہت دور سورج کی روشنی میں چمکتا ہوا دریائے گنگا دکھائی دیتا ہے اور بائیں جانب دریائے سردا چمک رہا ہے۔ جن مقامات سے دونوں دریا پہاڑوں سے نکلتے ہیں، کا درمیانی فاصلہ اندازاً دو سو میل بنتا ہے۔
اب مشرق کی جانب رخ کرتے ہیں اور ہمارے سامنے موجود علاقہ وہ ہے جسے گزیٹیر میں "ساٹھ جھیلوں کی سرزمین" کہا جاتا ہے۔ میرے سامنے ہی ان میں سے بہت ساری جھیلیں مٹی بھر جانے سے ختم ہو گئی ہیں اور باقی بچنے والی جھیلوں میں نینی تال، ست تال، بھیم تال اور نکوچیا تال ہیں۔ نکوچیا تال سے آگے تکون شکل کی پہاڑی ہے جسے چوٹی کیلاش کہتے ہیں۔ اس مقدس پہاڑی پر دیوتا کسی پرندے یا جانور کی ہلاکت کو پسند نہیں کرتے اور آخری بار اس کی خلاف ورزی کرنے والا ایک فوجی جو جنگ سے چھٹی پر آیا ہوا تھا، اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک پہاڑی بکری ہلاک کرتے ہی پیر پھسل جانے کے سبب ہزار فٹ نیچے وادی میں گر کر ہلاک ہو گیا۔
چوٹی کیلاش کے بعد کالا آگر کی پہاڑی آتی ہے جہاں میں نے چوگڑھ کی آدم خور شیرنیوں کا دو سال تک پیچھا کیا تھا اور اس کے پیچھے پھر نیپال کے پہاڑ شروع ہو جاتے ہیں۔ اب ہم مغرب کو رخ کرتے ہیں۔ مگر اس سے پہلے ہم چند سو فٹ نیچے اترتے ہیں اور دیوپٹہ پہنچیں گے جو ۷٫۹۹۱ فٹ بلند پتھریلی چوٹی ہے اور چینا سے ملحق ہے۔ ہمارے بالکل نیچے گہری، وسیع اور گھنے جنگلات سے بھری ہوئی وادی ہے جو چینا اور دیوپٹہ کو ملانے والے مقام سے شروع ہوتی ہے اور دچوری سے کالاڈھنگی تک پھیلی ہوئی ہے۔ یہ وادی ہمالیہ کی کسی بھی دوسری وادی سے زیادہ نباتات اور حیوانات سے بھری ہوئی ہے اور اس خوبصورت وادی کے بعد پہاڑیاں دریائے گنگا تک چلی جاتی ہیں جس کے پانیوں کو سورج کی روشنی سو میل دور چمکتا ہوا دیکھ سکتے ہیں۔ دریائے گنگا کی دوسری جانب شوالک کا پہاڑی سلسلہ ہے جو ہمالیہ سے بھی قدیم تر ہے۔
[align=center]۰۱۔ گاؤں کی رانی[/align]
چینا پر بیٹھ کر ہم نے جن دیہاتوں کو دیکھا تھا، آئیے، ان میں سے ایک کی طرف چلتے ہیں۔ کھیتوں پر کھینچی ہوئی متوازی لکیریں کھیتوں کو ظاہر کرتی ہیں۔ ان میں سے بعض محض دس فٹ چوڑے ہیں اور انہیں پتھر کی دیواریں سہارا دیے ہوئے ہیں جن کی اونچائی تیس فٹ تک ہے۔ ان تنگ کھیتوں میں ہل چلانے کے لیے کہ جن کے ایک طرف پہاڑی اور دوسری طرف عمودی ڈھلوان ہو، کافی خطرناک کام ہے اور اس کے لیے چھوٹا ہل اور مقامی طور پر پائے جانے والے مویشی ہی استعمال ہوتے ہیں جو سخت جان اور مختصر جسامت کے ہوتے ہیں اور ان کو پہاڑی ڈھلوان پر چلنے کی عادت ہوتی ہے۔ وہ جفاکش لوگ جو ان کھیتوں کو بناتے اور کاشت کرتے ہیں، خود پتھر سے بنے گھروں کی قطاروں میں رہتے ہیں جن پر سلیٹ کی چھتیں ہوتی ہیں۔ یہ گھر بھابھر سے میدان کو جانے والی تنگ اور خستہ حال سڑک پر بنے ہوتے ہیں۔ اس دیہات کے لوگ مجھے پہچانتے ہیں کہ ایک بار جب انہوں نے ہرکارے کے ذریعے نینی تال سے مجھے تار بھجوایا تھا اور میں موکما گھاٹ سے فوراً ہی آدم خور سے ان کی جان بچانے پہنچ گیا تھا۔
مجھے اس طرح بلوانے کا سبب جو واقعہ بنا، وہ دوپہر کے وقت ان گھروں کے عین پیچھے ایک کھیت میں ہوا تھا۔ ایک عورت اپنی بارہ سالہ بیٹی کے ساتھ گندم کاٹ رہی تھی کہ اچانک شیر نمودار ہوا۔ لڑکی بچاؤ کے لیے اپنی ماں کی سمت بھاگی اور شیر نے اس پر پنجہ مار کر اس کا سر تن سے الگ کر دیا اور ابھی اس بچی کی لاش زمین پر نہیں گری تھی کہ شیر اسے اٹھا کر بھاگ گیا۔ اس بچی کا سر اس کی ماں کے قدموں کے پاس جا گرا۔ ہنگامی تار بھی ترسیل میں بہت وقت لگاتے ہیں اور مجھے ہزار میل سے زیادہ کا فاصلہ بذریعہ ریل طے کر کے آنا تھا اور آخری بیس میل کا پیدل سفر بھی تھا۔ سو تار کی روانگی سے میری آمد کے درمیان ایک ہفتہ گزر گیا تھا اور اس دوران آدم خور نے ایک اور شکار کر لیا تھا۔
اس بار ایک عورت اس کا شکار بنی جو اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ برسوں تک نینی تال میں ہمارے صحن سے ملحق ایک گھر میں رہتی تھی۔ یہ عورت کئی دوسری عورتوں کے ساتھ گاؤں کے اوپر پہاڑی پر گھاس کاٹ رہی تھی شیر نے حملہ کیا اور اس کی ساتھی عورتوں کے سامنے اٹھا کر بھاگ گیا۔ عورتوں کی ڈری ہوئی چیخوں کی آواز سن کر گاؤں سے مرد جمع ہوئے اور انہوں نے نہایت بہادری سے شیر کو بھگا دیا۔ ہندوستانیوں کے اعتبار سے کہ میں ان کا تار ملتے ہی پہنچ جاؤں گا، انہوں نے اس عورت کی لاش کو چادر میں لپیٹ کر ایک تیس فٹ اونچے درخت کی بالائی شاخ سے لٹکا دیا۔ بعد کے واقعات سے اندازہ ہوا کہ شیر کہیں پاس لیٹ کر یہ سب دیکھ رہا تھا کہ بصورتِ دیگر شیروں میں سونگھنے کی حس نہیں ہوتی اور وہ اس لاش کو کبھی تلاش نہ کر پاتا۔
جب ان عورتوں نے نینی تال یہ اطلاع دی، متوفیہ کا شوہر میری بہن میگی کے پاس آیا اور اسے اس واقعے کی اطلاع دی۔ اگلی صبح پو پھٹتے ہی میگی نے ہمارے کچھ آدمیوں کو اس لاش والے درخت مچان بنانے کو بھیج دیا کہ میں اس روز پہنچنے والا تھا۔ گاؤں سے مچان کا سامان لے کر یہ لوگ دیہاتیوں کے ساتھ لاش والے درخت کو پہنچے تو دیکھا کہ شیر نے اس درخت پر چڑھ کر کمبل پھاڑا اور لاش کو لے کر فرار ہو گیا تھا۔ ایک بار پھر انتہائی دلیری سے، کہ وہ سب غیر مسلح تھے، انہوں نے نشانات کا پیچھا کیا اور ادھ کھائی لاش تلاش کر کے اس کے ساتھ موجود درخت پر مچان باندھ دی۔ جونہی مچان مکمل ہوئی، نینی تال سے ایک شکار اتفاق سے وہاں آن پہنچا اور میرے ساتھیوں سے کہا کہ وہ میرا دوست ہے اور انہیں واپس بھیج کر خود مچان پر بیٹھ گیا۔ جب میرے آدمی واپس نینی تال پہنچے تو میں آ چکا تھا اور انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ بندہ اپنے بندوق بردار اور سامان اٹھانے والے بندے کے ساتھ مچان پر بیٹھ چکا ہے۔
راتیں تاریک تھیں کہ چاند نہیں تھا اور اندھیرا چھانے کے ایک گھنٹے بعد بندوق بردار نے شکاری سے شکایت کی کہ اس نے آدم خور کو لاش کیوں لے جانی دی اور گولی کیوں نہیں چلائی۔ شکاری کو اس بات پر یقین نہیں آیا کہ شیر آیا ہوگا، اس نے لالٹین جلا کر رسی سے نیچے لٹکایا تاکہ لاش کو دیکھ سکے کہ رسی اس کے ہاتھ سے چھوٹی اور جلتا ہوا لالٹین نیچے گر گیا اور وہاں جھاڑ جھنکار کو آگ لگ گئی۔ اس وقت ہمارے جنگل انتہائی خشک تھے اور مئی کا مہینہ تھا۔ انتہائی بہادری سے وہ نیچے اترا اور اپنے کوٹ سے آگ بجھانے کی کوشش کی کہ اسے آدم خور یاد آ گیا اور وہ واپس مچان پر لوٹ آیا۔نیچے اس کا مہنگا کوٹ جل رہا تھا۔
آگ کی روشنی سے صاف دکھائی دیا کہ لاش غائب تھی مگر اب شکاری کو شکار کی بجائے اپنے تحفظ اور سرکاری جنگل کو آگ سے ہونے والے نقصان کی فکر پڑ گئی تھی۔ تیز ہواؤں سے آگ درخت کی مخالف سمت بڑھنے لگی اور آٹھ گھنٹے بعد جب تیز بارش اور ژالہ باری سے آگ بجھی تو کئی مربع میل کا جنگل جل کر تباہ ہو چکا تھا۔ آدم خور کے سلسلے میں یہ اس شکاری کا پہلا اور آخری تجربہ تھا جس میں وہ پہلے زندہ جلنے اور پھر ٹھٹھر کر مرنے سے بال بال بچا۔ اگلی صبح جب وہ تھکا ہارا ایک راستے سے نینی تال لوٹ رہا تھا تو میں اس سے بے خبر دوسرے راستے سے وہاں جا رہا تھا۔
میری درخواست پر دیہاتی مجھے اس درخت کو لے گئے جہاں لاش لٹکائی گئی تھی اور میں شیر کی ہمت دیکھ کر حیران ہوا کہ شیر نے کتنی محنت سے لاش پائی ہوگی۔ پھٹا ہوا کمبل زمین سے کم از کم 25 فٹ اونچائی پر تھا اور درخت پر لگے ناخنوں کے نشانات اور نرم زمین کی حالت اور جھاڑیوں کی حالت سے اندازہ ہوا کہ شیر کم از کم بیس مرتبہ درخت سے گرا ہوگا کہ پھر اس نے جا کر کمبل پھاڑا اور لاش نکالی ہوگی۔
اس مقام سے شیر لاش کو نصف میل دور مچان والے درخت تک لے گیا تھا۔ آگے کے نشانات آگ سے مٹ گئے تھے۔ مگر اندازے سے شیر کی متوقع سمت کو چلنے پر ایک میل دور مجھے اس عورت کا جلا ہوا سر ملا۔ اس سے ایک سو گز آگے گھنا جنگل تھا جہاں تک آگ نہیں پہنچی تھی اور کئی گھنٹے تک میں اس میں شیر کو تلاش کرتا رہا مگر ناکام رہا (شکاری کی مچان پر آمد سے شیر کی ہلاکت تک پانچ مزید انسان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔)
شیر کی تلاش میں ناکام ہونے کے بعد میں شام گئے واپس اس دیہات آیا تو نمبردار کی بیوی میرے لیے کھانا تیار کر چکی تھی اور اس کی بیٹیوں نے تانبے کی پلیٹوں میں مجھے کھانا پیش کیا۔ سارا دن کچھ نہ کھانے کی وجہ سے مجھے سخت بھوک لگی تھی۔ کھانا کھانے کے بعد میں پلیٹوں کو دھونے کی نیت سے اٹھا ہی تھا کہ نمبردار کی بیٹیاں بھاگ کر آئیں اور ہنستے ہوئے یہ کہہ کر پلیٹیں لے لیں کہ سفید فام سادھو کی کھائی پلیٹوں کو دھونے سے ان جیسے برہمنوں کی ذات بھرشٹ نہیں ہوگی۔
نمبردار اب زندہ نہیں اور اس کی بیٹیاں شادی کے بعد اس گاؤں سے جا چکی ہیں مگر اس کی بیوی ابھی زندہ ہے اور ہماری آمد پر ہمارے لیے چائے لازمی بنائے گی جو پانی کی بجائے دودھ سے بنی ہوگی اور اس میں چینی کی بجائے گُڑ ہوگا۔ ڈھلوان سے اترتے ہوئے گاؤں والے ہمیں دیکھ لیں گے اور ہماری آمد سے قبل ہی قالین کا ایک ٹکڑا بچھا کر اس پر دو موڑھے رکھ دیے جائیں گے جن پر گڑھل کی کھالیں منڈھی ہوں گی۔ ان کے ساتھ کھڑی نمبردار کی بیوی ہمیں خوش آمدید کہے گی کیونکہ یہاں پردے کا رواج نہیں اور آپ اسے نظر بھر کر دیکھ سکتے ہیں کہ وہ بہت خوبصورت ہے۔ اس کے بال اب برف کی مانند سفید ہو گئے ہیں مگر جب میں نے پہلی بار دیکھا تھا، سیاہ کالے تھے اور اس کی گالیں جو اب سفید ہیں اور جھریوں سےپاک، تب سرخ ہوا کرتی تھیں۔ سو نسلوں سے برہمنوں کی بیٹی کی رگوں میں دوڑتا خون اتنا ہی خالص تھا جتنا کہ سو نسل قبل تھا۔
ہر انسان اپنی خالص نسل پر فخر کرتا ہے اور ہندوستان سے زیادہ خالص نسل کو کہیں اور عزت نہیں ملتی۔ اس گاؤں میں بہت ساری ذاتوں کے لوگ موجود ہیں مگر یہ خاتون ان سب پر حاکم ہے۔ مگر اس کی وجہ صرف اس کا برہمن ہوناہے جو ہندوستان میں سب سے معزز نسل سمجھی جاتی ہے۔
حالیہ برسوں میں زرعی اجناس کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے اس گاؤں میں بھی خوشحالی آئی ہے اور اس خاتون کو بھی پورا حصہ ملا ہے۔ اس کی گردن میں اس کے جہیز سے آیا سونے کے منکوں کا ہار موجود ہے۔ چاندی کے زیورات اس خاندان کے دیگر قیمتی سامان کی مانند چولہے کے ساتھ موجود سوراخ میں دفن ہیں مگر اب اس کی گردن میں ٹھوس سونے کے زیور ہیں۔ پہلے اس کے کان خالی ہوتے تھے مگر اب سونے کے کئی جھمکے اور بالیاں پہنے ہوئے ہے۔ اس کی ناک میں موجود چوڑی پانچ انچ چوڑی ہے اور اس کا وزن سہارنے کو اس کے دائیں کان سے سونے کی باریک زنجیر لٹکی ہوئی ہے۔ اس کا لباس دیگر اونچی ذات والی پہاڑی خواتین جیسا ہے جو ایک شال، گرم کپڑے سے بنے لباس پر مشتمل ہے۔ اس کے پاؤں ننگے ہیں کہ آج بھی ان پہاڑوں پر جوتے پہننے والے کو کم ذات سمجھا جاتا ہے۔
یہ بوڑھی خاتون اب گھر کے اندر جا کر ہمارے لیے چائے بنا رہی ہے اور جب تک وہ مصروف ہے، آئیے ہم بنیا کی دکان کو دیکھتے ہیں جو اس تنگ سی سڑک کی دوسری جانب ہے۔ بنیا میرا پرانا دوست ہے۔ اس نے ہمیں سلام کیا اور سگریٹ کا پیکٹ تھما کر واپس اپنی چوکی پر پالتی مار کر بیٹھ گیا جہاں اس کا سامانِ تجارت موجود ہے۔ اس کے پاس دیہاتیوں اور مسافروں کی ضرورت کی عام چیزیں رکھی ہیں جو آٹا، چاول، دال، گھی، نمک، دیہاتی مٹھائیاں(جو اس نے نینی تال کے بازار سے سستے داموں خریدی ہیں)، پہاڑی آلو جو بہترین ہیں، بہت بڑی اور تیز مولیاں، سگریٹ، ماچسیں، مٹی کے تیل کا ڈبہ اور اس کے عین ساتھ ہی ہلکی آنچ پر لوہے کی پتیلی میں دودھ کاڑھا جا رہا ہے جو سارا دن رکھا رہتا ہے۔
جب بنیا اپنی چوکی پر بیٹھتا ہے تو اس کے گاہک پہنچ جاتے ہیں۔ سب سے پہلے ایک چھوٹا بچہ ہے جو اپنی چھوٹی بہن کے ساتھ آیا ہوا ہے۔ اس کے ہاتھ میں ایک پیسہ (ایک پیسہ بہت چھوٹی سی رقم ہے مگر اس میں مزید تین چھوٹے سکے یا تین پائیاں ہوتی ہیں۔ چار پیسے مل کر ایک آنہ بناتے ہیں، سولہ آنے کا ایک روپیہ بنتا ہے) ہے جس سے وہ مٹھائی خریدے گا۔ اس کے ہاتھ سے سکہ اٹھا کر بنیے نے ڈبے میں رکھا۔ پھر اس نے مٹھائیوں پر ہاتھ سے مکھیاں اور بِھڑ اڑائے اور پھر گڑ سے بنی ایک مٹھائی کا ٹکڑا اٹھا کر اسے دو حصوں میں توڑ کر دونوں بچوں کو ایک ایک حصہ تھما دیا۔
اگلی گاہک ایک اچھوت ذات کی عورت ہے جس کے پاس دو آنے ہیں۔ وہ ایک آنے کا آٹا لے گی جو موٹا پسا ہوا اور ہمارے پہاڑیوں کی عام خوراک ہے اور دو پیسے سے وہ سب سے سستی دال خریدے گی اور باقی کے دو پیسے سے وہ تھوڑا سا نمک اور ایک مولی لے گی اور پھر بنیے کو احترام سے سلام کر کے کہ سبھی بنیے کا احترام کرتے ہیں وہ اپنے گھر والوں کا کھانا بنانے چلی جائے گی ۔
جتنی دیر اس عورت نے سامان خریدا، سیٹیوں اور شور سے پتہ چلا کہ مال بردار خچروں کی قطار پہنچنے والی ہے جو مراد آبا دسے دستی کھڈیوں پر بنا کپڑا لا رہے ہیں۔ سخت چڑھائی کی وجہ سے خچر پسینے میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ جتنی دیر خچروں کو سانس لینے کا موقع ملا، اتنی دیر ان کے ساتھ موجود چار آدمی بنیے کے ساتھ رکھی بنچ پر بیٹھ گئے اور سگریٹ اور دودھ کا مزہ اٹھانے لگے۔ اس دکان پر دودھ سے زیادہ بہتر کوئی مشروب نہیں بکتا۔ پہاڑی علاقوں میں بنیے کی سینکڑوں دکانوں میں کسی کسی پر شراب بکتی ہے کہ ہمارے پہاڑی بالعموم شراب نہیں پیتے۔
میرے ہندوستان میں عورتیں کبھی شراب نہیں پیتیں۔ دیہاتوں میں کوئی اخبار نہیں آتے اور واحد خبر جو پہنچتی ہے، وہ نینی تال جانے والے کسی دیہاتی یا راہ گزرتے مسافروں سے آتی ہے جن میں مال بردار تاجر اہم ترین ہیں۔ پہاڑوں کو آنےو الے یہ تاجر دور دراز کے میدانی علاقوں کی خبریں اپنے ساتھ لاتے ہیں اور مہینہ یا دو بعد واپسی پر پہاڑوں کی خبریں ان کے ذریعے میدانی علاقوں تک پہنچتی ہیں۔
ہماری میزبان نے ہمارے لیے چائے بنا لی ہے۔ لبا لب بھرے ہوئے پیالے سے چائے پیتے ہوئے احتیاط کیجیے گا کیونکہ وہ بہت گرم ہے۔ اب لوگوں کی توجہ تاجروں سے ہٹ کر ہم پر مرکوز ہو چکی ہے اور واضح رہے کہ آپ کو چاہے پسند ہو یا نہ ہو، آپ کو اس گرم اور میٹھے مشروب کا آخری قطرہ تک پینا ہوگا کہ پورا گاؤں ہمیں دیکھ رہا ہے اور ہم ان کے مہمان ہیں۔ اگر آپ نے تھوڑی سی بھی چائے بچا دی تو یہ تاثر جائے گا کہ یہ چائے آپ کے معیار کے مطابق نہیں تھی۔
دوسرے تو شاید یہ غلطی کر جائیں، مگر ہم کسی بھی قیمت پر اس معزز خاتون کو چائے کی قیمت دینے کی کوشش نہیں کریں گے اور نہ ہی بنیے کو سگریٹ کی قیمت۔ یہ لوگ اپنی مہمان نوازی پر بہت فخر کرتے ہیں اور قیمت کا تذکرہ بھی ان کے لیے ذلت کا سبب ہوگی۔ یہ گاؤں ان ہزاروں دیہاتوں میں سے ایک ہے جو ہم نے چینا پر بیٹھ کر دوربین سے اس وسیع علاقے میں دیکھے تھے۔ میں نے اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ یہیں گزارا ہے اور ہر بار یہاں آتے ہوئے آپ کو ایسا ہی استقبال ملے گا اور روانگی پر دوبارہ جلد لوٹنے کی تاکید بھی کی جائے گی۔ یہی وہ جذبات ہیں جو ہندوستان کے لوگ خوشی خوشی ظاہر کرتے ہیں۔
[align=center]۰۲۔ کنور سنگھ[/align]
ذات کا ٹھاکر کنور سنگھ چاندنی چوک کا نمبردار تھا۔ یہ تو کہنا ممکن نہیں کہ وہ اچھا نمبردادر تھا کہ برا۔ میرے لیے اس کی اہمیت یہ تھی کہ کالاڈھنگی کا سب سے کامیاب چورشکاری تھا اور میرے بڑے بھائی ٹام سے لگاؤ رکھتا تھا۔ ٹام بچپن سے ہی میرا ہیرو ہے۔
کنور سنگھ نے مجھے ٹام کے بہت سارے واقعات سنائے ہیں کیونکہ وہ دونوں شکار پر برسوں تک ایک ساتھ جاتے رہے تھے۔ ان میں سے سب سے زیادہ مجھے ایک واقعہ پسندہے جو کنور سنگھ نے بہت مرتبہ سنایا ہے کہ کیسے میرے بھائی ٹام اور ایک بندہ ایلیس سے متعلق ہے۔ میرے بھائی نے اس بندے کو ایک مقابلے میں ایک پوائنٹ سے ہرایا تھا۔ یہ مقابلہ پورے ہندوستان میں رائفل کے بہترین نشانے سے متعلق تھا۔
ٹام اور ایلیس ایک بار گروپو کے جنگل میں شکار کھیل رہے تھے کہ ایک صبح ان کا سامنا ہو گیا۔ اس وقت کہرا اٹھنا شروع ہو گیا تھا۔ ان کی ملاقات والی جگہ کے سامنے کافی بڑا نشیب تھا جہاں علی الصبح سور اور ہرن عام ملتے تھے۔ ٹام کے ساتھ کنور سنگھ اور ایلیس کے ساتھ نینی تال کا ایک شکاری بدھو تھا۔ کنور سنگھ کو بدھو سے نفرت تھی کہ وہ کم ذات ہونے کے علاوہ جنگل سے متعلق امور سے قطعا ناواقف تھا۔
سلام دعا کے بعد ایلیس نے ٹام سے کہا کہ اگرچہ مقابلے میں وہ محض ایک پوائنٹ سے ہارا ہے مگر وہ آج دکھائے گاکہ وہ بہتر شکاری ہے۔ اس نے تجویز پیش کی کہ دونوں دو دو فائر کریں گے۔ قرعہ اندازی سے ایلیس جیتا اور اس نے پہلے فائر کرنے کا ارادہ کیا۔ احتیاط سے بڑھتے ہوئے اس نشیب پر پہنچے۔ ایلیس کے پاس مقابلے والی اعشاریہ 450 بور کی ہنری مارٹینی رائفل تھی جبکہ ٹا م کے پاس اعشاریہ 400 کی د ونالی ویسٹلی رچرڈز تھی۔ ٹام کو یہ فخر تھا کہ یہ رائفل پورے ہندوستان میں اس وقت تک چند ہی افراد کے پاس تھی۔ شاید انہوں نے بڑھتے ہوئے غلطی کی یا پھر ہوا کا رخ غلط تھا، جب وہ نشیب کو پہنچے تو وہ خالی تھا۔
نشیب کے قریبی جانب خشک گھاس کی پٹی تھی جس کے بعد والی گھاس جلی ہوئی تھی اور وہاں نئی گھاس اگ رہی تھی اور صبح اور شام کو جانور عام ملتے تھے۔ کنور سنگھ کا خیال تھا کہ ابھی اس پٹی میں شاید کچھ جانور ہوں۔ اس نے بدھو کے ساتھ مل کر اسے آگ لگا دی۔
جب گھاس کو خوب آگ لگ گئی تو پرندے گھاس سے فرار ہونے والے ٹڈوں اور دیگر حشرات کو کھانے کو جمع ہو گئے۔ اس وقت گھاس کی دوسری جانب حرکت دکھائی دی اور دو سور مخالف سمت جاتے ہوئے دکھائی دیے۔ آرام سے زمین پر گھٹنا ٹیک کر ایلیس نے رائفل اٹھائی اورنشانہ لے کر گولی چلائی۔ فوراً ہی پچھلے سور کی پچھلی ٹانگوں کے درمیان سے مٹی اڑتی دکھائی دی۔ ایلیس نے رائفل جھکا کر پتی کو دوسو گز پر اٹھایا اور خالی کارتوس نکال کر دوسری گولی چلائی۔ دوسری گولی سے اگلے سور کے سامنے سے دھول اڑتی دکھائی دی۔ سوروں کا رخ ایک جانب ہو گیا اور رفتار بھی تیز ہو گئی۔اب سور شکاریوں کے سامنےآڑے آ گئے۔
اب ٹام کی باری تھی اور اس نے گولی چلانے میں جلدی کرنی تھی کہ جنگل قریب تھا اور سور رائفل کی مار سے نکل رہے تھے۔ کھڑے کھڑے ٹام نے رائفل اٹھائی اور دو گولیاں چلائیں اور دونوں سور سر میں گولیاں کھا کر وہیں گر گئے۔یہاں پہنچ کر کنور سنگھ بتاتا ہےکہ اس نے شہر میں پلے کم ذات بدھو کو مخاطب کیا کہ جس کےتیل لگے بالوں کی بو سے بھی اسے نفرت تھی، "دیکھا؟ تم کہتے تھے کہ تمہارا صاحب میرے صاحب کو شکار کھیلنا سکھائے گا؟ اگر میرا صاحب تمہارے صاحب کے منہ پر کالک ملنا چاہتا تو ایک ہی گولی سے دونوں سور گراد یتا۔"
اب یہ کیسے ممکن ہو پاتا، اس بارے کنور سنگھ نے کبھی روشنی نہ ڈالی تھی اور نہ ہی میں نے کبھی پوچھا کیونکہ مجھے اپنے بھائی پر پورا بھروسہ تھا کہ اگر وہ چاہتا تو دونوں سور ایک ہی گولی سے مار لیتا۔ جب مجھے پہلی بندوق ملی تو کنور سنگھ سب سے پہلے اسے دیکھنے آیا۔ وہ علی الصبح پہنچا اور میں نے بڑے فخر سے اپنی دو نالی مزل لوڈر اسے تھمائی تو اس نے اشارتاً بھی دائیں نال میں موجود بڑے شگاف کی طرف توجہ نہیں کی اور نہ ہی تانبے کی تار کو دیکھا جو کندے کو نالی سے جوڑے رکھنے کے لیے استعمال کی گئی تھی۔ اس نے محض بائیں نال کی خوبیوں پر بات کی کہ یہ کتنی عمدہ ہے اور کتنا عرصہ مزید نکال سکے گی اور اس سے کیا کیا کام لیا جا سکتا ہے۔ پھر اس نے بندوق ایک طرف رکھ کر میری طرف رخ کیا اور یہ کہہ کر مجھے خوشی سے باغ باغ کر دیا، "اب تم لڑکے نہیں رہے بلکہ مرد بن گئے ہو۔ اس عمدہ بندوق کے ساتھ اب تم کسی جنگل میں کہیں بھی بلا خوف جا سکتے ہو، بس درخت پر چڑھنا سیکھ لو۔"اس وقت میری عمر آٹھ برس تھی۔پھر اس نے بتایا، "اب میں تمہیں بتاتا ہوں کہ جنگل میں جانے والے ہم شکاریوں کے لیے درخت پر چڑھنا کتنا ضروری فن ہے۔ ہار سنگھ اور میں ایک پچھلے سال اپریل میں شکار کھیلنے گئے تھے۔ اگر گاؤں سے نکلتے ہوئے لومڑی ہمارا راستہ نہ کاٹتی تو سب ٹھیک ہی ہوتا۔ ہار سنگھ کے بارے تمہیں علم ہے کہ اسے جنگل کے بارے زیادہ علم نہیں۔ جب میں نے لومڑی کو دیکھا تو واپس جانے کا مشورہ دیا۔ مگر وہ میری بات پر ہنسا اور بولا کہ بچگانہ بات ہے کہ لومڑی دیکھنے سے کوئی مشکل آئے گی۔سو ہم نے سفر جاری رکھا۔ جب ہم نکلے تو ستارے مدھم ہو رہے تھے۔ گروپو کے نزدیک میں نے پہلے چیتل پر گولی چلائی اور بغیر کسی وجہ کے خطا کی۔ پھر ہار سنگھ نے گولی سے ایک مور کا پر توڑا مگر ہم نے جتنی بھاگ دوڑ کی، مور گھاس میں گم ہو گیا۔ پھر ہم نے پورا جنگل چھان مارا مگر کوئی جانور یا پرندہ نہ دکھائی دیا۔ سو شام کو ہم منہ لٹکائے واپسی کا رخ کیا۔"
"چونکہ ہم دو گولیاں چلا چکے تھے، اس لیے ہمیں ڈر تھا کہ فارسٹ گارڈ ہماری واپس کے منتظر ہوں گے اور ہم نے راستہ چھوڑ کر ایک ریتلے نالے کا رخ کیا جو گھنے جھاڑ جھنکار اور خاردادر بانس کے جنگل سے ہو کر گزرتا ہے۔ ہم اپنی قسمت کو کوستے جا رہے تھے کہ اچانک ہمارے سامنے نالے سے شیر نکلا اور ہمارے سامنے کھڑا ہو گیا۔ کچھ دیر تک ہمیں دیکھتے رہنے کے بعد شیر واپس مڑ کر نالے سے باہر چلا گیا۔ تھوڑی دیر تک انتظار کرنے کے بعد ہم آگے بڑھے اور شیر پھر اچانک نالے میں نکل آیا اور اس بار ہمیں گھورنے کے علاوہ اس نے غرانا اور دم ہلانا بھی شروع کر دی۔ ہم پھر رک گئے اور کچھ دیر بعد شیر خاموش ہو کر نالے سے نکل گیا۔ تھوڑی دیر بعد ساتھ کے جنگل سے کافی مور شور مچاتے اڑے۔ شاید شیر نے انہیں ڈرایا ہوگا۔ ان میں سے ایک ہمارے سامنے دائیں جانب ہلدو کے درخت پر بیٹھ گیا۔ اسے دیکھتے ہی ہار سنگھ نے کہا کہ وہ اسے مارتا ہے تاکہ خالی ہاتھ گھر نہ جائیں۔ اس نے یہ بھی کہا کہ گولی کی آواز سے شیر بھی بھاگ جائے گا۔ قبل اس کے کہ میں روک پاتا، اس نے گولی چلا دی۔"
"اگلے لمحے جھاڑیوں سے شیر کی دہشت ناک غراہٹ ہماری جانب آتی سنائی دی۔ یہاں نالے کے کنارے کچھ کاجو کے درخت تھے اور میں نے ایک درخت کا رخ کیا اور ہار سنگھ نے دوسرے درخت کو چنا۔ میرا درخت شیر کے قریب تر تھا اور اس کی آمد سے قبل ہی میں درخت پر اونچا چڑھ گیا۔ ہار سنگھ نے بچپن میں درختوں پر چڑھنا نہیں سیکھا تھا اور جب وہ زمین پر کھڑا چھلانگ لگا کر شاخ پکڑنے کی کوشش کر رہا تھا کہ شیر پہنچ گیا اور اس نے جست لگائی۔"
"شیر نے نہ تو ہار سنگھ کو کاٹا اور نہ ہی پنجے مارے بلکہ اس نے پچھلی ٹانگوں پر کھڑے ہو کر درخت پر اگلے پنجے جما دیے اور ہار سنگھ شیر اور درخت کے درمیان پھنس گیا۔ پھر شیر نے درخت پر پنجے مارنا شروع کر دیے۔ شیر غراتا رہا اور ہار سنگھ چیختا رہا۔ میں اپنی بندوق ساتھ درخت پر لے گیا تھا اور اسے اپنے پیروں میں تھام کر میں نے اسے بھرا اور ہوا میں گولی چلا دی۔ اتنے قریب سے گولی کا دھماکہ سن کر شیر فرار ہو گیا اور ہار سنگھ زمین پر گر پڑا۔""
جب شیر چلا گیا تو کچھ دیر بعد میں خاموشی سے اترا اور ہار سنگھ کے پاس گیا۔ میں نے دیکھا کہ شیر کا ایک ناخن اس کے پیٹ پر ناف کے قریب لگا اور اس نے پیچھے تک چیر دیا تھا اور آنتیں وغیرہ باہر نکل آئی تھیں۔ اب مسئلہ پیدا ہو گیا۔ میں اسے چھوڑ کر نہیں جا سکتا تھا اور نہ ہی مجھے ایسے امور کا کوئی تجربہ تھا۔ سو میں یہ فیصلہ نہیں کر پایا کہ آیا تمام آنتیں وغیرہ اس کے کھلے پیٹ میں ڈال دوں یا پھر انہیں کاٹ دوں میں نے شیر کے ڈر سے سرگوشیوں میں ہار سنگھ سے مشورہ کیا تو اس نے کہا کہ یہ سب چیزیں اندر ڈال دینی چاہیئں۔
سو ہار سنگھ زمین پر لیٹا رہا اور میں نے سارے اندرونی اعضا اور ان سے چپکے گھاس پھونس اور ٹہنیاں اندر ڈال دیں اور پھر اپنی پگڑی سے اس کے پیٹ کو مضبوطی سے باندھ دیا تاکہ پھر نہ باہر نکل آئیں۔ پھر ہم سات میل طویل سفر پر روانہ ہو گئے۔ میں نے دونوں بندوقیں اٹھائی ہوئی تھیں جبکہ ہار سنگھ میرے پیچھے چل رہا تھا۔ ہم آہستہ آہستہ چل رہے تھے کہ ہار سنگھ نے پگڑی کو سنبھالا ہوا تھا۔ راستے میں ہی رات ہو گئی اور ہار سنگھ کا خیال تھا کہ ہم سیدھا کالاڈھنگی کے ہسپتال جائیں سو میں نے بندوقیں چھپا دیں اور ہم تین میل مزید سفر پر روانہ ہو گئے۔
جب ہم پہنچے تو ہسپتال بند ہو چکا تھا مگر ڈاکٹر بابو ساتھ ہی رہتا تھا اور ابھی سویا نہیں تھتا اور جب اس نے ہماری بپتا سنی تو اس نے مجھے تمباکو فروش الادیہ کو بلانے بھیج دیا جو کہ کالاڈھنگی کا پوسٹ ماسٹر بھی ہے اور اسے ہر ماہ حکومت سے پانچ روپے ملتے ہیں اور اس دوران ڈاکٹر نے لالٹین جلائی اور ہار سنگھ کو لے کر ہسپتال چلا گیا۔ جب میں الادیہ کے ساتھ واپس لوٹا تو ڈاکٹر نے ہار سنگھ کو چٹائی پر لٹا دیا تھا۔ پھر الادیہ نے لالٹین پکڑا اور میں نے ہار سنگھ کے زخم کے دونوں سرے تھامے اور ڈاکٹر نے اسے سینا شروع کر دیا۔ زخم سینے کے بعد جب میں نے ڈاکٹر کو دو روپے دیے تو اس شریف جوان نے لینے سے انکار کر دیا اور اس نے ہار سنگھ کو درد کُش دوا پلائی اور پھر ہم لوگ اپنے گھروں کو لوٹ آئے تو دیکھا کہ ہماری بیویاں بین کر رہی تھیں کہ شاید ہمیں ڈاکوؤں یا جنگلی درندوں نے مار دیا ہوگا۔ اس لیے صاحب، تمہیں اندازہ ہو گیا ہوگا کہ جنگل میں شکار کھیلنے کے لیے درخت پر چڑھنا جاننا کتنا اہم ہے، اگر ہار سنگھ کو بچپن میں کسی نے یہ بات سمجھائی ہوتی تو ہم پر یہ مصیبت نہ پڑتی۔
ابتدائی مزل لوڈر دور میں میں نے کنور سنگھ سے بہت کچھ سیکھا ہے جن میں سے ایک ذہنی نقشے بنانا بھی ہے۔ میں بہت بار کنور سنگھ کے ساتھ اور بہت مرتبہ اکیلا بھی ان جنگلوں میں شکار کھیلنے جاتا تھا کہ کنور سنگھ کو ڈاکوؤں کا خوف تھا اور کئی کئی ہفتے گاؤں سے باہر نہ نکلتا۔ جن جنگلوں میں ہم شکار کھیلتے تھے، وہ کئی سو مربع میل پھر پھیلا ہوا تھا۔ بہت مرتبہ میں سانبھر، چیتل یا سور مار کر آتا تو راستے میں کنور سنگھ کو بتا دیتا کہ شکار کہاں پڑا ہے۔ اس کا گاؤں میرے گھر کی نسبت جنگل سے تین میل قریب تر تھا۔
کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کنور سنگھ شکار کردہ جانور نہ اٹھا سکا ہو، چاہے جنگل میں وہ کہیں بھی پڑا ہو اور اسے میں کیسے چھپا کر آیا ہوں کہ گِدھ نہ دیکھ سکیں۔ ہم نے ہر غیرمعمولی درخت، چشمے، راستے اور نالے کا نام رکھا ہوا تھا۔ فاصلوں کا اندازہ کرنے کے لیے ہم نے مزل لوڈر کی گولی کا حساب رکھا ہوا تھا اور سمت کا تعین کرنے کے لیے ہم نے کاجو کے اس درخت کو مرکز مانا ہوا تھا جس پر ہار سنگھ پر حملہ ہوا تھا۔ اس شیرنی کے کچھ وقت قبل ہی بچے پیدا ہوئے تھے اور اسی وجہ سے وہ انسانی موجودگی سے پریشان تھی۔ کاجو کا یہ درخت ڈیڑھ فٹ موٹا تھا اور شیرنی نے غصے کے مارے اس کا ایک تہائی تنا تباہ کر دیا تھا۔
یہ درخت گروپو میں شکار کرنے والے تمام شکاریوں اور چور شکاریوں میں مشہور تھا اور 25 سال بعد جا کر جنگل کی آگ میں جل کر تباہ ہو گیا۔ ہار سنگھ کو ملنے والی ابتدائی طبی اور پھر ڈاکٹری امداد چاہے جیسی رہی ہو اور اس کے اندر جھاڑ جھنکار اور ٹہنیاں بھی چلی گئی تھیں، پھر بھی طویل عمر جیا۔ سمت نما کی چار سمتیں۔ جب میں نے کوئی جانور چھپایا ہوتا یا کنور سنگھ کو فضا میں گِدھ منڈلاتے دکھائی دیتے اور اندازہ ہوتا کہ شیر یا تیندوے نے جانور مارا ہوگا تو چاہے دن ہو یا رات، ہم پورے اعتماد کے ساتھ اسے تلاش کرنے نکل کھڑے ہوتے۔
جب میں سکول سے نکلا اور بنگال میں کام شروع کیا تو ہر سال محض تین ہفتے کے لیے کالاڈھنگی واپس آتا۔ ایک بار واپسی پر یہ دیکھ کر مجھے سخت تکلیف ہوئی کہ کنور سنگھ افیون کی لعنت کا شکار ہو چکا ہے۔ مسلسل ملیریا سے کمزور ہونے کے بعد یہ عادت مزید پختہ ہوتی گئی۔ اس نے کئی بار مجھ سے وعدہ کیا کہ اسے چھوڑ دے گا مگر ناکام رہا۔ جب ایک بار فروری میں کالاڈھنگی آیا تو یہ جان کر کوئی حیرت نہیں ہوئی کہ کنور سنگھ سخت بیمار ہے۔ رات کو میری آمد کی خبر سن کر اگلے روز کنور سنگھ کا سب سے چھوٹا بیٹا جو اٹھارہ برس کا تھا، بعجلت میرے پاس پہنچا کہ اس کا باپ مرنے والا ہے اور مرنے سے قبل مجھ سے ملنا چاہتا ہے۔
چاندنی چوک کے نمبردار ہونے کی حیثیت سے وہ حکومت کو چار ہزار روپے کا مالیانہ ادا کرتا تھا اور اہم بندہ شمار ہوتا تھا اور اس کا گھر پختہ اور سلیٹ کی چھت والا تھا جہاں میں بہت مرتبہ گیا ہوں۔ جب میں اس کے بیٹے کے ساتھ گھر کو گیا تو عورتوں کے بین کی آواز اس کے گھر کی بجائے اس ایک کمرے والے جھونپڑے سے آ رہی تھیں جو کنور سنگھ نے اپنے ایک ملازم کے لیے بنوایا تھا۔ اس کے بیٹے نے بتایا کہ اس کا باپ اس لیے یہاں منتقل ہوا ہے کہ گھر میں بچوں کے شور سے اس کی نیند خراب ہوتی تھی۔ ہمیں آتے دیکھ کر کنور سنگھ کا بڑا بیٹا باہر نکلا اور بولا کہ کنور سنگھ بے ہوش ہے اور چند منٹ میں مرنے والا ہے۔ میں نے دروازے میں قدم رکھا اور جب نیم تاریکی سے میری آنکھیں دیکھنے کے قابل ہوئیں تو دیکھا کہ پورے کمرے میں گہرا دھواں چھایا ہوا ہے اور کنور سنگھ زمین پر ننگا پڑا ہوا ہے اور اس پر ایک چادر پڑی تھی۔ اس کے بے جان ہاتھ کو اس کے پاس بیٹھے ایک بوڑھے آدمی نے تھاما ہوا تھا اور اس کے ہاتھ میں گائے کی دم تھی (ہندو مذہب میں مرتے ہوئےا نسان کو گائے، ترجیحاً کالی گائے کی دم پکڑائی جاتی ہے تاکہ مرنے کے بعد اس کی روح خون کا دریا عبور کر کے منصف تک پہنچ سکے۔ گائے کی دم تھامنے سے اس دریا کوعبور کرنے میں آسانی ہوتی ہے، اگر لواحقین ایسا کرنے میں ناکام رہیں تو متوفی کی روح ان سے انتقام لینے کے لیے بھٹکنے لگتی ہے)۔
کنور سنگھ کے سر کےپاس ایک انگیٹھی رکھی تھی جس میں اُپلےسلگ رہے تھے اور اس کے پاس بیٹھا پنڈت اشلوک پڑھتے ہوئے گھنٹی بجا رہا تھا۔ کمرے میں مرد اور عورتیں ٹھنسے ہوئے تھے اور بین کرتے ہوئے چلا رہے تھے، "چلا گیا، چلا گیا!" مجھے علم ہے کہ ہندوستان میں ہر روز اسی طرح انسان مرتے ہیں مگر میں نے ایسا نہیں ہونے دینا تھا۔ میں نے جلتی ہوئی انگیٹھی اٹھائی جو میری توقع سے زیادہ گرم تھی اور میرے ہاتھ جل گئے، اور اسے دروازے سے باہر پھینک دیا۔ پھر درخت کی چھال سے بنی رسی کاٹ کر گائے کو باہر نکالا جو وہیں فرش میں گڑے کھونٹےسے بندھی ہوئی تھی۔
میں نے یہ دونوں کام انتہائی خاموشی سے کیے اور سب لوگ مجھے دیکھنے اور سرگوشیاں کرنے لگے۔ جب میں نے پنڈت کا ہاتھ پکڑ کر اسے کمرے سے نکالا تو خاموشی چھا گئی۔ پھر دروازے پر کھڑے ہو کر میں نے سب کو کمرے سے باہر نکلنے کوکہا جس پر سب نے فوراً اور خاموشی سے عمل کیا۔ اس کمرے سے نکلنے والے افراد کی تعداد ناقابلِ یقین تھی۔ جب کمرہ خالی ہو گیا تو میں نے کنور سنگھ کے بڑے بیٹے کو تازہ اور گرم دودھ کی دو گڑویاں فوراً سے پیشتر لانے کو کہا۔ اس نے حیرتے سے مجھے دیکھا مگر جب میں نے اپنی بات دہرائی تو وہ بھاگ پڑا۔ پھر میں کمرے میں دوبارہ داخل ہوا اور کونے میں کھڑی چٹائی کھول کر کنور سنگھ کو اٹھا کر اس پر رکھا۔
بہت ساری تازہ ہوا کی فوری ضرورت تھی اور میں نے ایک چھوٹی کھڑکی دیکھی جو تختوں سے بند کی گئی تھی۔ میں نے تختے اکھاڑے اور فوراً تازہ ہوا کی گردش شروع ہو گئی جو جنگل سے آ رہی تھی۔ کمرے میں انسانی بو، اپلوں کا دھواں، جلتے گھی اور دیگر خوشبویات کا اثر کم ہونے لگا۔ جب میں نے کنور سنگھ کو اٹھایا تھا تو مجھے علم تھا کہ اس میں بہت تھوڑی جان بچی ہے کہ اس کی آنکھیں دھنسی ہوئی اور ہونٹ نیلے تھے اور سانس رک رک کرآ رہا تھا۔
تاہم تازہ ہوا سے جلد ہی اس کی حالت بہتر ہونے لگی اور سانس بحال ہونے لگا۔ پھر اس کے ساتھ چٹائی پر بیٹھ کرمیں نے دروازے کے باہر ہونے والی آوازوں کو سنا جو "مقتل گاہ" سے نکالے جانے والے لوگوں کی گفتگو تھی کہ مجھے احساس ہوا کہ کنور سنگھ نے آنکھیں کھول لی ہیں۔ سر موڑے بغیر میں نے بولنا شروع کیا، "چچا، وقت بدل گیا ہے اور تم بھی بدل گئے ہو۔ ایک وقت تھا جب تمہیں کوئی تمہارے گھر سے نکالنے کے بارے سوچ بھی نہیں سکتا تھا اور اب تم ملازم کے کمرے میں پڑے موت کے قریب ہو، جیسے تم کوئی کم ذات فقیر ہو۔ اگر تم نے میری بات پر توجہ دی ہوتی اور افیون چھوڑ دی ہوتی تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ اگر میں آج آنے میں چند منٹ کی تاخیر بھی کرتا تو اس وقت تم شمشان گھاٹ کو لے جائے جا رہے ہوتے۔ چاندنی چوک کے نمبردار اور پورے کالا ڈھنگی کے بہترین شکاری ہونے کی وجہ سے لوگ تمہاری عزت کرتے تھے۔ اب تمہاری عزت کوئی نہیں کرتا اور جب تم طاقتور تھے تو تم نے ہمیشہ بہترین خوراک کھائی اور اب جیسا کہ تمہارے بیٹے نے بتایا، سولہ دن سے تم نے کچھ نہیں کھایا۔ مگر تم ابھی نہیں مرو گے۔ تم ابھی بہت برس جیو گے اور اگرچہ ہم پھر کبھی شکار پر ایک ساتھ نہیں جا سکیں گے مگر میں اپنا شکار تمہارے ساتھ تقسیم کیا کروں گا۔ اب تم اس کمرے میں مقدس رسی تھامے اور پیپل کا پتہ ہاتھ میں لیے اپنے بڑے بیٹے کے سر کی قسم کھا کر کہو کہ تم اب افیون کے قریب بھی نہیں پھٹکو گے۔ اس بار تم اس قسم کو نہیں توڑو گے۔ اب جتنی دیر میں دودھ آتا ہے، ہم سگریٹ پیئں گے۔"
جتنی دیر میں بولتا رہا، کنور سنگھ کی نظریں میرے چہرے پر مرکوز رہیں اور پھر پہلی بار وہ بولا، "دم توڑتا بندہ کیسے سگریٹ پیے گا؟" میں نے جواب دیا، "موت کے بارے ہم بعد میں بات کریں گے کہ ابھی نہیں مرو گے۔ سگریٹ کیسے پینی ہے، یہ میں دکھاتا ہوں۔" یہ کہہ کر میں نے اپنا سگریٹ کیس کھولا اور دو سگریٹ نکالے۔ پھر ایک سگریٹ جلا کر اس کے ہونٹوں میں دبا دیا۔ اس نے ہلکا سا کش لگایا اور کھانسنے لگا۔ پھر لاغر ہاتھ سے اس نے سگریٹ منہ سے نکالا اور جب کھانسی کا دورہ تھما تو اس نے پھر سگریٹ ہونٹوں میں رکھ کر کش لینے شروع کر دیے۔ ابھی سگریٹ ختم نہیں ہوئے تھے کہ کنور سنگھ کا بیٹا کمرے میں دودھ کی پتیلی لیے داخل ہوا۔ اگر میں بڑھ کر پتیلی تھام نہ لیتا تو حیرت کے مارے اس کے ہاتھوں سے چھوٹ گئی ہوتی۔ اس کی حیرت بجا تھی کہ چند منٹ قبل وہ اپنے باپ کو مرتا چھوڑ کر گیا تھا اوراب وہ بستر پر لیٹا سگریٹ پی رہا تھا۔ چونکہ پتیلی سے دودھ پینا ممکن نہیں تھا، اس لیے میں نے اسے پیالہ لانے بھیج دیا۔جب پیالہ آیا تو میں نے کنور سنگھ کو گرم دودھ پلایا۔
میں رات گئے تک اس کمرے میں رکا رہا اور اس دوران کنور سنگھ نے پوری پتیلی دودھ کی پی لی تھی اور گرم بستر میں سکون سے سو رہا تھا۔ نکلنے سے پہلے میں نے اس کے بیٹے سے کہا کہ کسی کو اس کمرے کے قریب بھی نہ پھٹکنے دے اور باپ کے ساتھ بیٹھ جائے۔ جب بھی وہ نیند سے بیدار ہو، اسے دودھ پلاتا رہے۔اگر صبح میری واپسی پر کنور سنگھ زندہ نہ ہوا تو میں پورا گاؤں جلا دوں گا۔ اگلے روز سورج نکلنے والا تھا کہ میں چاندنی چوک پہنچا اور دیکھا کہ باپ بیٹا دونوں گہری نیند سو رہے تھے اور دودھ کی پتیلی خالی تھی۔ کنور سنگھ نے اپنے وعدے کا پاس رکھا اور اگرچہ وہ کبھی اتنی طاقت نہ پا سکاکہ شکار کو جا پاتا، مگر وہ اکثر میرے پاس آتا رہا اور چار سال بعد اپنے گھر اور اپنے بستر میں فوت ہوا۔