چاند کو گل کریں تو ہم جانیں!

اردوشاعری کی کتابیں پڑھیں اور ڈاونلوڈ کیجئے
Post Reply
علی عامر
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 5391
Joined: Fri Mar 12, 2010 11:09 am
جنس:: مرد
Location: الشعيبہ - المملكةالعربيةالسعوديه
Contact:

چاند کو گل کریں تو ہم جانیں!

Post by علی عامر »

فروری فیضؔ صاحب کو یاد کرنے کا مہینہ ہے۔ فیضؔ کا یوم پیدائش۔ تیس کی دہائی سے شروع ہونے والا فیضؔ کا شعری سفر ، لگتا ہے آج بھی جاری ہے۔ فیضؔ کے لکھے ہوئے کو وہ شہرت اور عوامی مقبولیت ملی جو کم کم تخلیق کاروں کو نصیب ہوتی ہے۔ مجید امجد کے برعکس‘ فیض احمد فیضؔ اپنی زندگی میں ہی ایک لیجنڈ کی حیثیت اختیار کر چکے تھے۔ وہ جہاں جاتے ان کی شخصیت کا کرزما لوگوں کو ان کے گرد لے آتا۔ اس دور میں جب انٹرنیشنل رابطے اتنے آسان نہ تھے۔ انٹرنیٹ‘ سوشل میڈیا اور گوگل نہ تھا‘ فیضؔ پاکستان کی سرزمین سے ایک ایسی ادبی شخصیت کی حیثیت سے ابھرے جنہیں ادب کے عالمی حلقوں میں بھی پذیرائی ملی۔ ایک طرف فیضؔ کو لینن ایوارڈ ملتا ہے تو دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ چلی کے عظیم نوبل انعام یافتہ شاعر پابلو نرودا کے ساتھ فیضؔ کی خط و کتابت بھی ہوتی اور فیضؔ کی ملاقاتیں بھی ہوتی ہیں۔ ایک تصویر میں دونوں پرانے دوستوں کی طرح ایک دوسرے کے کندھے پر ہاتھ رکھے مسکرا رہے ہیں۔ یہ تصویر دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ ایک ہی دور میں دو عظیم شاعر تھے۔ پابلو کو تو ادب کا نوبل انعام ملتا ہے مگر پاکستان کے فیض احمد فیضؔ اس سے محروم رہتے ہیں۔ پابلو کا تخلیقی کام بھی برازیلین سے انگریزی میں ترجمہ ہو کر دنیا تک پہنچتا تھا۔ ورنہ برازیلین زبان کو کون جانتا ہے۔ فیضؔ کی خاص خاص اردو شاعری بھی اس دور میں انگریزی میں ترجمہ ہوئی۔ مگر شاید اتنا کام نہیں ہوا جتنا ہونا چاہیے تھا۔ فیضؔ کی شاعری بھی پابلو نرودا کی شاعری کی طرح رومانس اور انقلابی خیالات کا ایک حسین امتزاج ہے۔ میں نے پابلو کی اہم نظموں کے تراجم بھی پڑھ رکھے ہیں۔کسی طور فیضؔ کا کام چلی کے اس شاعر سے کم نہ تھا۔ خیر فیضؔ کو اردو شاعری سے شغف رکھنے والوں کی طرف سے جو محبت‘ عقیدت اور مقبولیت نصیب ہوئی‘ وہ بھی کسی نوبل انعام سے کم نہیں۔ فیضؔ کے کلام میں کچھ ایسا جادو تھا کہ جس بھی گلوکار نے گایا وہ شہرت کے بام عروج تک پہنچا۔
فیضؔ کی شخصیت کے حوالے سے یہ تاثر قائم ہے کہ فیضؔ چونکہ سوشلسٹ اور مارکسسٹ تھے، سماجی انقلاب کی بات کرتے تھے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ فیضؔ دین سے دور تھے۔ یا پھر اسی خیال سے جڑا ایک ا ور تاثر یہ ہے کہ صرف مارکسزم پر یقین رکھنے والے اور سوشلسٹ خیال والے افراد... جن کے لیے ہم بائیں بازو یعنی لیفٹسٹ کی اصطلاح استعمال کرتے وہی فیضؔ کی شاعری پسند کرتے ہیں‘ وہی فیضؔ پر پسندیدگی کا حق رکھتے ہیں۔
پچھلے دنوں ایک صاحب نے کسی تقریب میں حیرت کا اظہار کیا کہ لاہور میں موجود فیضؔ گھر میں‘ نعتیہ مشاعرہ منعقد کیا گیا۔ میں نے انہیں جواب دیا کہ اگر آپ کو اس پر حیرت ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ فیضؔ کی شخصیت سے مکمل طور پر واقف نہیں۔ جتنا میں نے فیض احمد فیضؔ کے بارے میں پڑھا ہے اور ان کی زندگی کے واقعات جو مختلف افراد نے بیان کیے‘ انہیں جانا ہے اس کی روشنی میں یہ تاثر قائم کرنا مشکل نہیں کہ فیضؔ کی ذہنی ساخت میں مذہبی رنگ گہرا تھا۔ وہ قطعاً دہریہ نہیں تھے۔ جیسا کہ کچھ لوگ انہیں سمجھتے ہیں۔
کشور ناہید نے فیض احمد فیضؔ کے ساتھ اپنی ملاقاتوں اور یادوں کے حوالے سے ایک خوبصورت مضمون لکھا ''مرے دل... مرے مسافر فیضؔ صاحب‘‘ اس مضمون میں ایک جگہ وہ لکھتی ہیں:
''جب لوگ ان کو سوویت یونین روس سے وابستگی کے باعث دہریہ کہتے تو انہیں بہت تکلیف ہوتی مگر پھر بھی وہ نہیں بولتے تھے۔ ہم لوگ بتاتے تھے کہ فیضؔ صاحب نے تو عربی میں ماسٹر کیا ہوا ہے‘ ابن انشاء کے لندن میں انتقال اور کراچی میں تدفین کے باعث لاہور کے ادیبوں نے اشفاق احمد صاحب کے دفتر کے لان میں فاتحہ خوانی کا اہتمام کیا۔ فیضؔ صاحب بیٹھے سیپارہ پڑھ رہے تھے‘ کچھ ضیاء الحق کے چہیتے ادیب آئے اور بے ساختہ بولے ''ارے فیضؔ صاحب کو عربی آتی ہے‘‘۔ اسی طرح ایک انٹرویو میں فیضؔ صاحب نے کہا ''پھر ہماری تو ساری کی ساری ذہنی تربیت خالص دینی ماحول میں ہوئی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ میری شاعری اور میرے دینی عقائد میں کوئی تضاد نہیں‘‘ فیضؔ صاحب نے اپنے کسی انٹرویو میں یہ انکشاف بھی کیا کہ وہ اپنے وقت کے جید علما سید سلیمان ندوی اور مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری سے ملاقات کا شرف حاصل کر چکے ہیں اور پھر کہا میں جن سے زیادہ قریب رہا اور جن کی مجلسوں میں اکثر بیٹھتا تھا وہ ذات مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری کی تھی۔
فیضؔ بہت نرم گو‘ بردبار اور میٹھے مزاج والے انسان تھے۔ مخالفین کی باتوں کو سن کر خاموش ہو جاتے۔ جواب دینا بھی گوارا نہیں کرتے تھے۔ اشفاق احمد صاحب نے فیض احمد فیضؔ کے شعری مجموعے شامِ شہرِ یاراں کا دیباچہ ملامتی صوفی کے نام سے لکھا‘ ایک پیرا گراف پڑھیے۔
''کبھی اکیلے بیٹھے بیٹھے سوچا کرتا ہوں کہ اگر فیضؔ صاحب ہوتے حضور سرورِ کائناتؐ کے زمانے میں‘ تو ضرور ان کے چہیتے غلاموں میں ہوتے اور جب کبھی کسی بدزبان‘ تندخو‘ بداندیش‘ یہودی دکاندار کی دراز دستی کی خبر پہنچتی تو حضورؐ کبھی کبھی ضرور فرماتے‘ آج وہاں فیضؔ کو بھیجو۔ یہ بھی دھیما ہے‘ صابر ہے اور بردبار بھی ہے۔ احتجاج نہیں کرتا‘ پتھر بھی کھا لیتا ہے‘ ہمارے مسلک پر عمل کرتا ہے‘‘۔
(ملامتی صوفی... دیباچہ شامِ شہرِ یاراں)
فیضؔ کی شاعری ہر دور میں Relevant رہی ہے۔ مگر امیدوا رجائیت وہ جذبہ ہے جو فیضؔ کی شاعری پڑھنے والوں کے اندر روشنی بھر دیتا ہے۔
درِ قفس پر اندھیرے کی مہر لگتی ہے
تو فیضؔ دل میں ستارے اترنے لگتے ہیں
اور پھر
شام فراق اب نہ پوچھ‘ آئی اور آ کے ٹل گئی
دل تھا کہ پھر بہل گیا‘ جاں تھی کہ پھر سنبھل گئی
بزم خیال میں ترے حسن کی شمع جل گئی
درد کا چاند بجھ گیا‘ ہجر کی رات ڈھل گئی
فیضؔ نے اپنا بہت خوبصورت تخلیقی کام اسیری کے دور میں کیا۔ ''زندان کی ایک شام‘‘ فیضؔ کی ایک ایسی باکمال نظم ہے جس کے ایک ایک لفظ میں امید کا کا جادو بولتا ہے۔
آخری چند مصرعے:
دل میں پیہم خیال آتا ہے
اتنی شیریں ہے زندگی اس پل
ظلم کا زہر گھولنے والے
کامراں ہو سکیں گے آج نہ کل
جلوہ گاہِ وصال کی شمعیں
وہ بجھا بھی چکے اگر تو کیا
چاند کو گل کریں تو ہم جانیں!

مضمون نگار . سعدیہ قریشی
بشکریہ،روزنامہ دنیا ، لاہور
بلال احمد
ناظم ویڈیو سیکشن
ناظم ویڈیو سیکشن
Posts: 11973
Joined: Sun Jun 27, 2010 7:28 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: چاند کو گل کریں تو ہم جانیں!

Post by بلال احمد »

شیئرنگ کے لیے شکریہ عامر بھائی
بڑی بے چین رہتی ہے طبیعت اب میری محسن
مجھے اب قتل ہونا ہے، مگر قاتل نہیں ملتا
اضواء
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 40424
Joined: Sun Aug 15, 2010 4:26 am
جنس:: عورت
Location: {الدمام}المملكةالعربيةالسعوديه

Re: چاند کو گل کریں تو ہم جانیں!

Post by اضواء »

شئیرنگ پر آپ کا شکریہ
[center]یہ بھی انداز ہمارے ہے تمہیں کیا معلوم
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
محمد شعیب
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 6565
Joined: Thu Jul 15, 2010 7:11 pm
جنس:: مرد
Location: پاکستان
Contact:

Re: چاند کو گل کریں تو ہم جانیں!

Post by محمد شعیب »

شئرنگ کا شکریہ
محتسب کی خیر اونچا ہے اسی کے فیض سے
رند کا،ساقی کا،مےکا، خم کا، میخانے کا نام
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: چاند کو گل کریں تو ہم جانیں!

Post by چاند بابو »

شئیرنگ کا شکریہ عامر بھیا.
فیض کی بہت بڑا نام تھا اور ان کی شاعری کا مقام ایسا ہے کہ فیض کے بعد کوئی فیض کا ہم پلہ نہیں آسکا.

[center]متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خونِ دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے
زباں پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے
ہر ایک حلقۂ زنجیر میں زباں میں نے
[/center]
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Post Reply

Return to “اردوشاعری”