مسلمانوں کا عروج و زوال

اردو زبان میں لکھی جانے والی اسلامی کتابیں، آن لائن پڑھئے اور ڈاونلوڈ کیجئے
Post Reply
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

مسلمانوں کا عروج و زوال

Post by ایکسٹو »

مسلمانوں کا عروج و زوال
تحریر :‎ ‎مدثرحسین
اسلام سے قبل عرب چھوٹے چھوٹے قبیلوں میں تقسیم تھے یہ قبائل آپس میں لڑتے رہتے تھے اسلام نے عربوں کو نئی جہت سے اجاگر کیا ان میں خود اعتمادی اور جوش پیدا کیا۔
حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم‎ ‎نے اپنے ساتھیوں کو خوداعتمادی کی دولت سے نوازا آپ کی آمد سے پہلے دنیا کے اندر برائی عروج پر تھی انسانیت کو چھوڑ کر دنیاداری کو ترجیح دی جاتی تھی لوگ ایک دوسرے کو حقارت کی نگاه سے دیکھتے تھے آپ صلی الله علیہ وسلم‎ ‎نے آ کر اس رسم و روایات کو ختم کیا اور لوگوں کے دلوں سے دنیا کی‎ ‎محبت اور ظلم و ستم کو نکال کر صرف الله کی محبت ڈالی اور ان کے دلوں کو پاک کیا‎ ‎اور ان کے سامنے ایک مشن رکھا ایک مقصد رکھا انسانیت کی فلاح کا اور الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم‎ ‎کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے کا۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ عرب کہ یہ بدو جو زمانہ جہالت میں آپس میں دست گریبا؎ں رہا کرتے تھے مگر حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم‎ ‎کی تعلیمات اور آپ کی صحبت کر اثر پا کر وہی بدو قیصر و کسری کو سر کرنے نکلے اور انہیں سر کر کے چھوڑا۔
عرصہ دراز تک عرب کی ان بدوؤں نے اہل دنیا پر حکمرانی‎ ‎کی اور جب تک یہ عربی حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم‎ ‎کی دی ہوئی تعلیمات پر عمل کرتے رہے دنیا پر حکمران رہے اور ان لوگوں نے اپنے نبی کی تعلیمات کو بھلا کر عیش و عشرت اور دنیا داری کو پسند کیا تو ان کی شان و شوکت ان سے چھین لی گئی۔ الله نے کفار کے دلوں میں جو مسلمانوں کی ہیبت‎ ‎اور رعب دبدبا بیٹھا رکھا تھا وه ختم کر دیا‎ ‎اور اس طرح عالم اسلام کے مسلمان کفار کے شکنجے میں آ گۓ ان کا قتل عام شروع ھو گیا ان کے کتب خانے جلا دیۓ گۓ ان کے علماء کو تہہ تیغ کر دیا گیا ان کی خلیفہ کی بیٹوں کو ان کے خلیفہ کے سامنے ننگا نچایا گیا بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی‎ ‎مسلمانوں کے سر‎ ‎کاٹ کر سروں کے مینار تعمیر کیا گۓ اتنے مسلمان قتل کۓ گۓ کہ دجلہ کا پانی خون سے سرخ ہو گیا۔
اس کی وجہ کیا تھی اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلمان اپنے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم‎ ‎کی تعلیمات کو چھوڑ کر دنیا کی عیش و عشرت میں پڑ گۓ تھے مسلمانوں کے علماء گمراه ہو چکے تھے اور انہوں نے لوگوں کو بھی گمراه کرنا شروع کر دیا تھا۔ مسلمانوں کے دلوں سے الله ڈر اور خوف نکل گیا تھا اور ان کے دل خدا کی یاد سے غافل ہو گۓ تھے ان میں شرم و حیا ختم ہو چکی تھی یہاں تک کہ وه اپنی سگی بہنوں کے ساتھ ہم بستری کرنے لگ گۓ تھے ان کے سامنے ان کی جوان بیٹیاں نگا ناچے کرتیں اور ان کے باپ ان کو داد عیش دیتے‎ ‎اور اپنے دوستوں کو خوش کرتے۔ امت مسلمہ‎ ‎‏ اپنے مسلمان ہونے کے مقصد کو بھول چکی تھی وه یہ بھول چکے تھے کہ انہوں نے آدھی سے زیاده دنیا پر حکمرانی کس مقصد کیلۓ قائم کی وه کس‎ ‎مقصد کیلۓ قیصر و کسری سے لڑے اور کس مقصد کیلۓ قیصر و کسری جیسی عظیم مملکتوں کو تہہ تیغ کر کے ان پر اسلام کا جھنڈا لہرایا۔ جب کسی قوم کے سامنے کو واضح مقصد ہی نہ رہے یا وه اپنے دین اور اپنے وطن کے مقصد کو پس پشت ڈال دے تو ایسی اقوام کو شکست فاش کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔
مسلمانوں کے پاس ایک مقصد تھا وه مقصد الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم‎ ‎کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے کا مقصد اور اس مقصد کیلۓ انہوں نے دنیا کے تمام نفع و نقصان اور عیش پرستی کو پس‎ ‎پشت ڈال کر بلا خوف و خطر قیصر و کسری جیسی سپریم پاورز سے ٹکرانے نکلے تو وه‎ ‎اپنے مقصد میں کامیاب ہو گے۔ اور جب انہی مسلمانوں نے الله اور اس کے رسول کے پیغام کو پس پشت ڈال کر دنیا کی عیش و عشرت سے لو لگائی تو انہی کے گھر انہی کے وطن میں ان کی لاشوں کے پشتے لگا دیۓ گۓ ان کے خون سے ندیاں نالے بہہ نکلے۔
آج پھر ہمارا یہی حال‎ ‎ہو رہا ہے تاریخ ایک بار پھر اپنے آپ کو دوھرا رہی ہے‎ ‎ہر طرف مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا ہے ان کے اپنے ہی گھروں میں ان کے اپنی ہی وطن میں ان کا جینا محال کر دیا گیا ہے‎ ‎اور پوری دنیا انہی کو حقارت کی نظر سے دیکھ رہی ہے‎ ‎پوری دنیا میں صرف مسلمان قوم ہی بدنام ہو رہی ہے‎ ‎ظلم کرنے والے بھی انہیں ظالم کہتے ہیں۔
کیا وجہ ہے کہ ہر طرف ھم سے ظلم و ستم کی دیوار میں پس رہے ہیں طرح طرح کے مصائب اور ظلم و ستم ھم پر ڈھاۓ جارہے ہیں دنیا ھمیں دہشت گرد کہہ رہی ہے اور ھم پھر بھی بے حسی کی تصویر بنے بیٹھے ہیں
اس کی وجہ ہمیں تاریخ واضح طور پر بتاتی ہے کہ ھم اپنا مسلمان ہونے کا مقصد بھولا بیٹھے ہم نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم‎ ‎اور آپ کے اصحابہ کی تعلیمات کو ترک کرکے اپنی تعلیمات ایجاد کر لیں‎ ‎ہیں الله کے ولیوں کا رستہ چھوڑ کر ھم نے اپنا رستہ اپنا لیا ہے‎ ‎جو راستہ ہمیں بظاہر تو بڑا پرآسائش اور خوشنما لگتا ہے لیکن در حقیقت کو کانٹوں کا جال ہے جس رستے پر ہر طرف کانٹے ہی کانٹے ہیں تکلیفیں ہی تکلیفیں ہیں کیا کوئی شخص مجھے یہ بتا سکتا ہے کہ وه آج کے دور میں اپنے گھر خوش ہے۔
ہر شخص ذہنی اور عصابی تناؤ کا‎ ‎شکار ہو کر زندگی بسر کر رہا ہے ان کے گھر اور دلوں کا سکون سب غارت ہو چکا ہے۔
میرے بھائیو اس کی وجہ یہی ہے کہ ھم نے الله کو بھلا کر دنیا سے لو لگا لیا ھم نے دنیا کی آسائشوں کو ہی سب کچھ سمجھ لیا‎ ‎اور ان آسائشوں کے حصول کیلۓ ھم نے اپنے چین سکھ سب کچھ قربان کر دیا مگر دنیا کی ہوس‎ ‎پھر بھی پوری نہ ہوئی۔‎ ‎یہاں پر مجھے اقبال کر یہ شعر شدت سے یاد آ رہا ہے کہ
وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہو کر

اور تم خوار ہوے تارک قرآن ہو کر
آه ھم نے ایٹم بم بنا کر اسی کو سب کچھ سمجھ لیا اور اپنے نبی کو اور ان پر نازل‎ ‎ہونے والی‎ ‎اس پاک کتاب کو بھلا دیا‎ ‎جو کہ ھماری نجات کا ذریعہ تھی‎ ‎جس میں‎ ‎دنیا اور آخرت کی کامیابی کے سب طریقے درج تھے جس کے بارے میں صدیق اکبر رضی الله تعالی فرماتے ہیں کہ اگر میرے اونٹ کی مہار بھی گم ہو جاۓ تو میں وه بھی قرآن سے ڈھونڈتا ہوں۔
مگر ھم نزلہ کی دوا بھی سائنس میں ڈھونڈتے ہیں ھمارے دلوں کے اندر سے الله اور اس کے پاک کلام قرآن مجید کا یقین اٹھ گیا ہے ھم نے اس کو ایک بیکار سی چیز سمجھ کر گلافوں میں لپیٹ کر رکھ دیا ہے‎ ‎میرے بھائیو بات سوچنے والی ہے اگر اونٹ کی گم شده مہار قرآن سے ڈھونڈی جا سکتی ہے تو دنیا اور آخرت میں کامیابی کے حصول ھمیں قرآن سے میسر کیوں نہیں آتے۔۔۔؟
ارشاد خداوندی ہے۔
اے ابن آدم ایک تیری چاہت‎ ‎ہےاور ایک میری چاہت ہے مگر ہو گا وہی جو میری چاہت ہے‎ ‎پس اگر تو نے سپرد کر دیا اپنے آپ کو‎ ‎اسکے جو میری چاہت ہے‎ ‎تو وه بھی میں تجھ کو دے دوں گا جو تیری چاہت ہے۔ اگر تونے مخالفت کی اسکی جو میری چاہت ہے تو میں تھکا دوں گا تجھ کو اس میں جو تیری چاہت ہے‎ ‎پھر وہی ہو گا جو میری چاہت ہے۔
الله کی چاہت صرف اور صرف قرآن اور اس کے محبوب کی حیات مبارکہ اور آپکا اسوه حسنہ ہے جس کو ھم ترک کر چکے ہیں‎ ‎اس لیے تو الله ہمیں تھکا دیا ہے اس میں جو ھماری چاہت ہے۔ اسی وجہ سے ہمارے گھروں میں بے سکونی نہیں جاتی اور ھمیں ایک پل بھی سچی خوشی میسر نہیں آتی کیونکہ ھم تھک چکے ہیں اس میں جو ھماری چاہت ہے۔ لہذا ھمیں اپنی چاہت کو بدلنا ہو گا اور الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم‎ ‎کے بتاۓ ہو رستے پر چلنا ہو گا جس پر آپ صلی الله علیہ وسلم‎ ‎خود بھی چلے اور اپنے اصحابہ اکرام کو بھی چلایا اور انہی کے رستے کو جب مسلمانوں نے اپنایا‎ ‎ھر طرف سے کامیابی‎ ‎ان کا مقدر بنیں۔
تاریخ گواه ہے کہ ایک مسلمان سو پر بھاری پڑتا تھا مگر انہوں نے اپنی چاہت کو ختم کر دیا تھا وه اس چاہت پر چلے تھے جو الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم‎ ‎کی چاہت تھی اگر آج ھم بھی الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم‎ ‎کی چاہت پر چلنے لگ گۓ اور قرآن کو اپنی ہدایت و نجات کا ذریعہ بنا لیا تو یقین جانو الله ھمیں وه بھی دے گا جو ھماری چاہت ہے ورنہ ہو گا وہی جو اس کی چاہت ہے۔
۔
مدثرحسین بقلم خود

صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
اضواء
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 40424
Joined: Sun Aug 15, 2010 4:26 am
جنس:: عورت
Location: {الدمام}المملكةالعربيةالسعوديه

Re: مسلمانوں کا عروج و زوال

Post by اضواء »

شئیرنگ پر آپکا بہت بہت شکریہ....
[center]یہ بھی انداز ہمارے ہے تمہیں کیا معلوم
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
Post Reply

Return to “اسلامی کتب”