پیر کامل از عمیره احمد

اردو زبان میں لکھی جانے والی اسلامی کتابیں، آن لائن پڑھئے اور ڈاونلوڈ کیجئے
Post Reply
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

پیر کامل از عمیره احمد

Post by ایکسٹو »

فیس بک کے صفحے سرفروش کی جانب سے عمیره احمد کا شہره آفاق ناول پیرکامل حاضر خدمت ہے۔



یہ ناول روزانہ اقساط میں سرفروش پیج پر پوسٹ کیا جا رھا ہے۔ تازه قسط کےلیے ھمارا پیج وزٹ کیجۓ۔
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: پیر کامل از عمیره احمد

Post by ایکسٹو »

پیر کامل
۔۔۔۔۔
قسط نمبر 1
"میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش؟" بال پوائنٹ ہونٹوں میں دبائے وہ سوچ میں پڑ گئی پھر ایک لمبا سانس لیتے ہوئے قدرے بے بسی سے مسکرائی
"بہت مشکل ہے اس سوال کا جواب دینا۔"
"کیوں مشکل ہے؟" جویریہ نے اس سے پوچھا۔
"کیونکہ میری بہت ساری خواہشات ہیں، اور ہر خواہش ہی میرے لئے بہت اہم ہے۔" اس نے سر جھٹکتے ہوئے کہا۔
وہ دونوں آڈیٹوریم کے عقبی حصے میں دیوار کے ساتھ زمین پر ٹیک لگائے بیٹھی تھیں۔
ایف ایس سی کلاسز میں آج ان کا آٹھواں دن تھا اور اس وقت وہ دونوں فری پیریڈ میں آڈیٹوریم کے عقبی حصے میں آکر بیٹھ گئی تھیں۔ نمکین مونگ پھلی کے دانوں کو ایک ایک کرکے کھاتے ہوئے جویریہ نے اس سے پوچھا۔
"تمہاری زندگی کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے امامہ؟"
امامہ نے قدرے حیرانی سے اسے دیکھا اور سوچ میں پڑ گئی۔
"پہلے تم بتاؤ، تمہاری زندگی کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے؟" امامہ نے جواب دینے کی بجائے الٹا سوال کردیا۔
"پہلے میں نے پوچھا ہے، تمہیں پہلے جواب دینا چاہیے۔" جویریہ نے گردن ہلائی۔
"اچھا۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے۔۔۔۔
مجھے اور سوچنے دو۔" امامہ نے فورا ً ہار مانتے ہوئے کہا۔ "میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش؟" وہ بڑبڑائی۔ "ایک خواہش تو یہ ہے کہ میری زندگی بہت لمبی ہو۔" اس نے کہا۔
"کیوں۔۔۔۔۔؟" جویریہ ہنسی۔
"بس پچاس، ساٹھ سال کی زندگی مجھے بڑی چھوٹی لگتی ہے۔۔۔۔۔ کم سے کم سو سال تو ملنے چاہیں انسان کو دنیا میں۔۔۔۔۔ اور پھر میں اتنا سب کچھ کرنا چاہتی ہوں۔۔۔۔۔ اگر جلدی مرجاؤں گی تو پھر میری زندگی کی ساری خواہشات ادھوری رہ جائیں گی۔" اس نے مونگ پھلی کا ایک دانہ منہ میں ڈالتے ہوئے کہا۔
"اچھا اور۔۔۔۔۔؟" جویریہ نے کہا۔
"اور یہ کہ میں ملک کی سب سے بڑی ڈاکٹر بننا چاہتی ہوں۔۔۔۔ سب سے اچھی آئی سپیشلسٹ۔ میں چاہتی ہوں جب پاکستان میں آئی سرجری کی تاریخ لکھی جائے تو اس میں میرا نام ٹاپ آف دالسٹ ہو۔" اس نے مسکراتے ہوئے آسمان کو دیکھا۔
"اچھا اور اگر کبھی تم ڈاکٹر نہ بن سکیں تو۔۔۔۔۔" جویریہ نے کہا۔ "آخر یہ میرٹ اور قسمت کی بات ہے۔"
"ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔ میں اتنی محنت کررہی ہوں کہ میرٹ پر ہرصورت آؤں گی۔ پھر میرے والدین کے پاس اتنا پیسہ ہے کہ میں اگر یہاں کسی میڈیکل کالج میں نہ جاسکی تو وہ مجھے بیرون ملک بھجوا دیں گے۔"
"پھر بھی اگرکبھی ایسا ہو کہ تم ڈاکٹر نہ بن سکو تو۔۔۔۔۔؟"
"ہوہی نہیں سکتا۔ یہ میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش ہے میں اس پروفیشن کے لئے سب کچھ چھوڑ سکتی ہوں۔ یہ میرا خواب ہے اور خوابوں کو بھلا کیسے چھوڑا یا بھلایا جاسکتا ہے۔ امپاسبل۔۔۔۔۔"
امامہ نے قطعی انداز میں سرہلاتے ہوئے ہتھیلی پر رکھے ہوئے دانوں میں سے ایک اور دانہ منہ میں ڈالا۔
"زندگی میں کچھ بھی ناممکن نہیں ہوسکتا۔۔۔۔۔۔ کبھی بھی کچھ بھی ہوسکتا ہے، فرض کرو کہ تم ڈاکٹر نہیں بن پاتیں تو؟ پھر تم کیا کرو گی؟ کیسے ری ایکٹ کرو گی؟" امامہ اب سوچ میں پڑ گئی۔
"پہلے تو میں بہت روؤں گی۔ بہت ہی زیادہ۔۔۔۔۔ کئی دن۔۔۔۔۔ اور پھر میں مر جاؤں گی۔
جویریہ بے اختیار ہنسی۔ "اور ابھی کچھ دیر پہلے تو تم کہہ رہی تھیں کہ تم لمبی زندگی چاہتی ہو۔۔۔۔۔ اور ابھی تم کہہ رہی ہو کہ تم مرجاؤ گی۔"
"ہاں تو پھر زندہ رہ کر کیا کروں گی۔ سارے پلانز ہی میرے میڈیکل کے حوالے سے ہیں۔۔۔۔۔ اور یہ چیز زندگی سے نکل گئی تو پھر باقی رہے گا کیا؟"
"یعنی تمہاری ایک بڑی خواہش دوسری بڑی خواہش کو ختم کردے گی؟"
"تم یہی سمجھ لو۔۔۔۔۔"
"تو پھر اس کا مطلب تو یہی ہوا کہ تمہاری سب سے بڑی خواہش ڈاکٹر بنناہے، لمبی زندگی پانا نہیں۔"
"تم کہہ سکتی ہو۔۔۔۔۔"
"اچھا۔۔۔۔ اگر تم ڈاکٹر نہ بن سکیں تو پھر مرو گی کیسے۔۔۔۔۔ خودکشی کرو گی یا طبعی موت؟" جویریہ نے بڑی دلچسپی سے پوچھا۔
"طبعی موت ہی مروں گی۔۔۔۔۔ خودکشی تو کر ہی نہیں سکتی۔" امامہ نے لاپروائی سے کہا۔
"اور اگر تمہیں طبعی موت آنہ سکی تو ۔۔۔۔۔میرا مطلب ہے جلد نہ آئی تو پھر تو تم ڈاکٹر نہ بننے کے باوجود بھی لمبی زندگی گزاروگی۔"
"نہیں، مجھے پتہ ہے کہ اگر میں ڈاکٹر نہ بنی تو پھر بہت جلد مرجاؤں گی۔ مجھے اتنا دکھ ہوگا کہ میں تو زندہ رہ ہی نہیں سکوں گی۔" وہ یقین کے ساتھ بولی۔
"تم جس قدر خوش مزاج ہو، میں کبھی یقین نہیں کرسکتی کہ تم کبھی اتنی دکھی ہوسکتی ہو کہ رو رو کر مر جاؤ اور وہ بھی صرف اس لئے کہ تم ڈاکٹر نہیں بن سکیں۔ لک فنی۔" جویریہ نے اس بار اس کا مذاق اڑانے والے انداز میں کہا۔
"تم اب میری بات چھوڑو، اپنی بات کرو، تمہاری زندگی کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے؟" امامہ نے موضوع بدلتے ہوئے کہا۔
"رہنے دو۔۔۔۔۔"
"کیوں رہنے دوں۔۔۔۔۔؟ بتاؤ نا؟"
"تمہیں برا لگے گا؟" جویریہ نے کچھ ہچکچاتے ہوئے کہا۔
امامہ نے گردن موڑ کر حیرانی سے اسے دیکھا۔ "مجھے کیوں برا لگے گا؟"
جویریہ خاموش رہی۔
"ایسی کیا بات ہے جو مجھے بری لگے گی؟" امامہ نے اپنا سوال دہرایا۔
"بری لگے گی۔" جویریہ نے مدھم آواز میں کہا۔
"آخر تمہاری زندگی کی سب سے بڑی خواہش کا میری زندگی سے کیا تعلق ہے کہ میں اس پر برا مانوں گی۔" امامہ نے اس بار قدرے الجھے ہوئے انداز میں پوچھا۔ "کہیں تمہاری یہ خواہش تو نہیں ہے کہ میں ڈاکٹر نہ بنوں؟" امامہ کو اچانک یاد آیا۔
جویریہ ہنس دی۔ "نہیں۔۔۔۔۔ زندگی صرف ایک ڈاکٹر بن جانے سے کہیں زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔" اس نے کچھ فلسفیانہ انداز میں کہا۔
"پہیلیاں بھجوانا چھوڑ دو اور مجھے بتاؤ۔" امامہ نے کہا۔
"میں وعدہ کرتی ہوں، میں برا نہیں مانوں گی۔" امامہ نے اپنا ہاتھ اسکی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
"وعدے کرنے کے باوجود میری بات سننے پر تم بری طرح ناراض ہوگی۔ بہتر ہے ہم کچھ اور بات کریں۔" جویریہ نے کہا۔
"اچھا میں اندازہ لگاتی ہوں، تمہاری اس خواہش کا تعلق میرے لئے کسی بہت اہم چیز سے ہے۔۔۔۔۔ رائٹ؟" امامہ نے کچھ سوچتے ہوئے کہا جویریہ نے سر ہلایا۔
"اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ میرے لئے کونسی چیز اتنی اہم ہوسکتی ہے کہ میں۔" وہ بات کرتے کرتے رک گئی۔
"مگر جب تک میں تمہاری خواہش کی نوعیت نہیں جان لیتی میں کچھ بھی اندازہ نہیں کرسکتی۔ بتا دو جویریہ۔۔۔۔۔ پلیز۔۔۔۔۔ اب تو مجھے بہت ہی زیادہ تجسس ہورہا ہے۔" اس نے منت کی۔
وہ کچھ دیر سوچتی رہی۔ امامہ غور سے اس کا چہرہ دیکھتی رہی، کچھ دیر کی خاموشی کے بعد جویریہ نے سر اٹھا کر امامہ کو دیکھا۔
"میرے پروفیشن کے علاوہ میری زندگی میں فی الحال جن چیزوں کی اہمیت ہے وہ صرف ایک ہی ہے اور اگر تم اس کے حوالے سے کچھ کہنا چاہتی ہو تو کہو میں برا نہیں مانوں گی۔" امامہ نے سنجیدگی سے کہا۔
جویریہ نے قدرے چونک کر اسے دیکھا، وہ اپنے ہاتھ میں موجود ایک انگوٹھی کو دیکھ رہی تھی۔ جویریہ مسکرائی۔
"میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ تم۔۔۔۔۔۔" جویریہ نے اسے اپنی خواہش بتائی۔ امامہ کا چہرہ ایک دم سفید پڑ گیا۔ وہ شاکڈ تھی یا حیرت زدہ۔۔۔۔۔ جویریہ اندازہ نہیں کرسکی۔ مگر اسکے چہرے کے تاثرات یہ ضرور بتا رہے تھے کہ جویریہ کے منہ سے نکلنے والے جملے اس کے ہر اندازے کے برعکس تھے۔
"میں نے تم سے کہا تھا نا تم برا مانو گی۔" جویریہ نے جیسے صفائی پیش کرنے کی کوشش کی مگر امامہ کچھ کہے بغیر اسے دیکھتی رہی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
معیز حلق کے بل چلاتا ہوا درد سے دوہرا ہوگیا،ا س کے دونوں ہاتھ اپنے پیٹ پر تھے۔ اس کے سامنے کھڑے بارہ سالہ لڑکے نے اپنی پھٹی ہوئی ٹی شرٹ کی آستین سے اپنی ناک سے بہتا ہوا خون صاف کیا اور ہاتھ میں پکڑے ہوئے ٹینس ریکٹ کوایک بار پھر پوری قوت سے معیز کی ٹانگ پر دے مارا۔ معیز کے حلق سے ایک بار پھر چیخ نکلی اور وہ اس بار سیدھا ہوگیا۔ کچھ بے یقینی کے عالم میں اس نے خود سے دو سال چھوٹے بھائی کو دیکھا جو اب بغیر کسی لحاظ اور مروت کے اسے اس ریکٹ سے پیٹ رہا تھا جو معیز کچھ دیر پہلے اسے پیٹنے کے لئے لے کرآیا تھا۔
اس ہفتے میں ان دونوں کے درمیان ہونے والا یہ تیسرا جھگڑا تھا اور تینوں بار جھگڑا شروع کرنے والا اس کا چھوٹا بھائی تھا۔ معیز اور اس کے تعلقات ہمیشہ ہی ناخوشگوار رہے تھے۔
ان کا جھگڑا بچپن سے لے کر اب سے کچھ پہلے تک صرف زبانی کلامی باتوں اور دھمکیوں تک ہی محدود رہتا تھا، مگر اب کچھ عرصے سے وہ دونوں ہاتھا پائی پر بھی اتر آئے تھے۔
آج بھی یہی ہوا تھا وہ دونوں اسکولسے اکٹھے واپس آئے تھے اور گاڑی سے اترتے ہوئے اس کے چھوٹے بھائی نے بڑی درشتی کے ساتھ پیچھے ڈگی سے اس وقت اپنا بیگ کھینچ کر نکالا جب معیز اپنا بیگ نکال رہا تھا۔ بیگ کھینچتے ہوئے معیز کے ہاتھ کو بری طرح رگڑ آئی۔ معیز بری طرح تلملایا۔
"تم اندھے ہوچکے ہو؟"
وہ اطمینان سے اپنا بیگ اٹھائے بے نیازی سے اندر جارہا تھا، معیز کے چلانے پر اس نے پلٹ کر اس کو دیکھا اور لاؤنج کا دروازہ کھول کر اندر چلا گیا۔ معیز کے تن بدن میں جیسے آگ لگ گئی، وہ تیز قدموں سے اس کے پیچھے اندر چلا آیا۔
"اگر دوبارہ تم نے ایسی حرکت کی تو میں تمہارا ہاتھ توڑ دوں گا۔" اس کے قریب پہنچتے ہوئے معیز ایک بار پھر دھاڑا۔ اس نے بیگ کندھے سے اتار کر نیچے رکھ دیا اور دونوں ہاتھ کمر پر رکھ کر کھڑا ہوگیا۔ "نکالوں گا۔۔۔۔ تم کیا کرو گے؟ ہاتھ توڑو گے؟ اتنی ہمت ہے؟"
"یہ میں تمہیں اس وقت بتاؤں گا جب تم دوبارہ یہ حرکت کرو گے۔" معیز اپنے کمرے کی طرف بڑھا۔
مگر اس کے بھائی نے پوری قوت سے اس کا بیگ کھینچتے ہوئے اسے رکنے پر مجبور کردیا۔
"نہیں تم مجھے ابھی بتاؤ۔" اس نے معیز کا بیگ اٹھا کر دور پھینک دیا۔ معیز کا چہرہ سرخ ہوگیا اس نے زمین پر پڑا ہوا اپنے بھائی کا بیگ اٹھا کر دور اچھال دیا۔ ایک لمحے کے انتظار کئے بغیر اس کے بھائی نے پوری قوت سے معیز کی ٹانگ پر ٹھوکر ماری۔ جواباً اس نے پوری قوت سے چھوٹے بھائی کے منہ پر مکا مارا جو اس کی ناک پر لگا۔ اگلے ہی لمحے اس کی ناک سے خون ٹپکنے لگا۔ اتنے شدید حملے کے باوجود اس کے حلق سے کوئی آواز نہیں نکلی تھی۔ اس نے معیز کی ٹائی کھینچتے ہوئے اس کا گلا دبانے کی کوشش کی۔ معیز نے جواباً اس کی شرٹ کو کالرز سے کھینچا اسے شرٹ کے پھٹنے کی آواز آئی۔ اس نے پوری قوت سے اپنے چھوٹے بھائی کے پیٹ میں مکا مارا اس کے بھائی کے ہاتھ سے اس کی ٹائی نکل گئی۔
"ٹھہرو میں تمہیں اب تمہارا ہاتھ توڑ کر دکھاتا ہوں۔" معیز نے اسے گالیاں دیتے ہوئے لاؤنج کے ایک کونے میں پڑے ہوئے ایک ریکٹ کو اٹھا لیا اور اپنے چھوٹے بھائی کو مارنے کی کوشش کی مگر اگلے ہی لمحے ریکٹ اس کے بھائی کے ہاتھ میں تھا۔ اس نے پوری قوت سے گھما کر اتنی برق رفتاری کے ساتھ اس ریکٹ کو معیز کے پیٹ میں مارا کہ وہ سنبھل یا خود کو بچا بھی نہیں سکا۔ اس نے یکے بعد دیگرے اس کی کمر اور ٹانگ پر ریکٹ برسا دیے۔
اندر سے ان دونوں کا بڑا بھائی اشتعال کے عالم میں باہر لاؤنج میں آگیا۔
"کیا تکلیف ہے تم دونوں کو۔۔۔۔۔ گھر میں آتے ہی ہنگامہ شروع کردیتے ہو۔" اس کو دیکھتے ہی چھوٹے بھائی نے اٹھا ہوا ریکٹ نیچے کرلیا تھا۔
"اور تم۔۔۔۔۔ تمہیں شرم نہیں آتی اپنے سے بڑے بھائی کو مارتے ہو۔" اس کی نظر اب اس کے ہاتھ میں پکڑے ریکٹ پر گئی۔
"نہیں آتی۔" اس نے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کہتے ہوئے ریکٹ ایک طرف اچھال دیا اور بڑی بے خوفی سے کچھ فاصلے پر پڑا ہوا اپنا بیگ اٹھا کر اندر جانے لگا۔ معیز نے بلند آواز میں سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اپنے چھوٹے بھائی سے کہا۔
"تم کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔" وہ ابھی تک اپنی ٹانگ سہلا رہا تھا۔
"sure why not”)ہاں کیوں نہیں(۔
ایک عجیب سی مسکراہٹ کے ساتھ سیڑھیوں کے آخری سرے پر رک کر اس نے معیز سے کہا۔ "اگلی بار تم بیٹ لے کر آنا۔۔۔۔۔ ٹینس ریکٹ سے کچھ مزہ نہیں آیا۔۔۔۔۔ تمہاری کوئی ہڈی نہیں ٹوٹی۔" معیز کو اشتعال آگیا۔
"تم اپنی ناک سنبھالو وہ یقیناً ٹوٹ گئی ہوگی۔"
معیز غصے کے عالم میں سیڑھیوں کو دیکھتا رہا، جہاں کچھ دیر پہلے وہ کھڑا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مسز سمانتھا رچرڈز نے دوسری رو میں کھڑکی کے ساتھ پہلی کرسی پر بیٹھے ہوئے اس لڑکے کو چوتھی بار گھورا۔ وہ اس وقت بھی بڑی بے نیازی سے کھڑکی سے باہر دیکھنے میں مصروف تھا۔ وقتاً فوقتاً وہ باہر سے نظریں ہٹاتا۔۔۔۔۔ ایک نطر مسز سمانتھا کو دیکھتا۔ اس کے بعد پھر اسی طرح باہر جھانکنے لگتا۔
اسلام آباد کے ایک غیر ملکی اسکول میں وہ آج پہلے دن اس کلاس کی بیالوجی پڑھانے کے لئے آئی تھیں۔ وہ ایک ڈپلومیٹ کی بیوی تھیں اور کچھ دن پہلے ہی اسلام آباد اپنے شوہر کے ساتھ آئی تھیں۔ ٹیچنگ ان کا پروفیشن تھا اور جس جس ملک میں ان کے شوہر کی پوسٹنگ ہوئی وہ وہاں سفارت خانہ سے منسلک اسکولز میں پڑھاتی رہیں۔
اپنے سے پہلے بیالوجی پڑھانے والی ٹیچر مسز میرین کی سکیم آف ورک کو ہی جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کلاس کے ساتھ کچھ ابتدائی تعارف اور گفتگو کے بعد دل اور نظام دوران خون کی ڈایا گرام رائٹنگ بورڈ پر بناتے ہوئے اسے سمجھانا شروع کیا۔
ڈایا گرام کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے اس لڑکے کو کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے دیکھا۔ پرانی تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے اپنی نظریں اس لڑکے پر مرکوز رکھتے ہوئے انہوں نے اچانک بولنا بند کردیا۔ کلاس میں یکدم خاموشی چھا گئی۔ اس لڑکے نے سر گھما کر اندر دیکھا۔ مسز سمانتھا رچرڈز سے اس کی نظریں ملیں۔ مسز سمانتھا مسکرائیں اور ایک بار پھر انہوں نے اپنا لیکچر شروع کردیا۔ کچھ دیر تک انہوں نے اسی طرح بولتے ہوئے اپنی نظریں اس لڑکے پر رکھیں، جواب اپنے سامنے پڑی نوٹ بک پر کچھ لکھنے میں مصروف تھا اس کے بعد مسز سمانتھا نے اپنی توجہ کلاس میں موجود دوسرے اسٹوڈنٹس پر مرکوز کرلی۔ ان کا خیال تھا وہ خاصا شرمندہ ہوچکا ہے دوبارہ باہر نہیں دیکھے گا مگر صرف دو منٹ کے بعد انہوں نے اسے ایک بار پھر کھڑکی سے باہر متوجہ دیکھا۔ وہ ایک بار پھر بولتے بولتے خاموش ہوگئیں۔ بلاتوقف اس لڑکے نے گردن موڑ کر پھر ان کی طرف دیکھا، اس بار مسز سمانتھا مسکرائیں نہیں، بلکہ قدرے سنجیدگی سے اسے دیکھتے ہوئے ایک بار پھر لیکچر دینا شروع کردیا۔ چند لمحے گزرنے کے بعد انہوں نے رائٹنگ بورڈ کو دیکھنے کے بعد دوبارہ اس لڑکے کو دیکھا تو وہ ایک بار پھر کھڑکی سے باہر کچھ دیکھنے میں مصروف تھا۔ اس بار غیر محسوس طور پر ان کے چہرے پر کچھ ناراضی نمودار ہوئی اور وہ کچھ جھنجھلاتے ہوئے خاموش ہوئیں اور ان کے خاموش ہوتے ہی اس لڑکے نے کھڑکی کے باہر سے اپنی نظریں ہٹا کر ان کی طرف دیکھا، اس بار اس لڑکے کے ماتھے پر بھی کچھ شکنیں تھیں۔ ایک نظر مسز سمانتھا کو ناگواری سے دیکھ کر وہ ایک بار پھر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔
اسکا انداز اس قدر توہین آمیز تھا کہ مسز سمانتھا رچرڈز کا چہرہ سرخ ہوگیا۔
"سالار! تم کیا دیکھ رہے ہو؟" انہوں نے سختی سے پوچھا۔
"nothing….."یک لفظی جواب آیا۔ وہ اب چبھتی ہوئی نظروں سے انہیں دیکھ رہا تھا۔
"تمہیں پتا ہے، میں کیا پڑھا رہی ہوں؟"
"hope so……" اس نے اتنے روڈ انداز میں کہا کہ سمانتھا رچرڈز نے یکدم ہاتھ میں پکڑا ہوا مارکر کیپ سے بند کرکے ٹیبل پر پھینک دیا۔
"یہ بات ہے تو پھر یہاں آؤ اور یہ ڈایاگرام بنا کر اس کو لیبل کرو۔" انہوں نے اسفنج کے ساتھ رائٹنگ بورڈ کو صاف کرتے ہوئے کہا۔ یکے بعد دیگرے لڑکے کے چہرے پر کئی رنگ آئے۔ انہوں نے کلاس میں بیٹھے ہوئے اسٹوڈنٹس کو آپس میں نظروں کا تبادلہ کرتے دیکھا۔ وہ لڑکا اب سرد نظروں کے ساتھ سمانتھا رچرڈز کو دیکھ رہا تھا، جیسے ہی انہوں نے رائٹنگ بورڈ سے آخری نشان صاف کیا وہ اپنی کرسی سے ایک جھٹکے کے ساتھ اٹھا۔ تیز قدموں کے ساتھ اس نے ٹیبل پر پڑا ہوا مارکر اٹھایا اور برق رفتاری کے ساتھ رائٹنگ بورڈ پر ڈایا گرام بنانے لگا پورے دو منٹ ستاون سیکنڈز کے بعد اس نے مارکر پر کیپ لگا کر اسے میز پر اسی انداز میں اچھالا، جس انداز میں سمانتھا رچرڈز نے اچھالا تھا اور سمانتھا کی طرف دیکھے بغیر اپنی کرسی پر آکر بیٹھ گیا۔ مسز رچرڈز نے اسے مارکر اچھالتے یا اپنی کرسی کی طرف جاتے نہیں دیکھا۔ وہ بے یقینی کے عالم میں رائٹنگ بورڈ پر تین منٹ سے بھی کم عرصہ میں بنائے جانے والی اس labelled ڈایاگرام کو دیکھ رہی تھیں جسے بنانے میں انہوں نے دس منٹ لئے تھے اور وہ ان کی ڈایاگرام سے زیادہ اچھی تھی۔ وہ کہیں بھی معمولی سی غلطی بھی نہیں ڈھونڈ سکیں۔ کچھ خفیف سی ہوتے ہوئے انہوں نے گردن موڑ کر ایک بار پھر اس لڑکے کو دیکھا وہ پھر کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وسیم نے تیسری بار دروازے پر دستک دی، اس بار اندر سے امامہ کی آواز آئی۔
"کون ہے؟"
"امامہ! میں ہوں۔۔۔۔۔ دروازہ کھولو۔" وسیم نے دروازے سے اپنا ہاتھ ہٹاتے ہوئے کہا۔ اندر خاموشی چھا گئی۔
کچھ دیر بعد دروازے کا لاک کھلنے کی آواز سنائی دی۔ وسیم نے دروازے کے ہینڈل کو گھما کر دروازہ کھول دیا۔ امامہ اس کی جانب پشت کئے اپنے بیڈ کی طرف بڑھی۔
"تمہیں اس وقت کیا کام آن پڑا ہے مجھ سے؟"
"آخر تم نے اتنی جلدی دروازہ کیوں بند کرلیا تھا۔ ابھی تو دس بجے ہیں۔۔۔۔۔" وسیم کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولا۔
"بس نیند آرہی تھی مجھے۔" وہ بیڈ پر بیٹھ گئی۔ وسیم اس کا چہرہ دیکھ کر چونک گیا۔
"تم رو رہی تھیں؟" بے اختیار اسکے منہ سے نکلا۔ امامہ کی آنکھیں سرخ اور سوجی ہوئی تھیں اور وہ اس سے نظریں چرانے کی کوشش کررہی تھی۔
"نہیں رو نہیں رہی تھی، بس سر میں کچھ درد ہورہا تھا۔" امامہ نے مسکرانے کی کوشش کی۔
وسیم نے اس کے پاس بیٹھتے ے ہوئے اس کا ہاتھ پکڑ کر ٹمپریچر چیک کرنے کی کوشش کی۔
"کہیں بخار تو نہیں ہے۔" اس نے کچھ تشویش بھرے انداز میں کہا اور پھر ہاتھ چھوڑ دیا۔" بخار تو نہیں ہے۔۔۔۔ پھر تم کوئی ٹیبلٹ لے لیتیں۔"
"میں لے چکی ہوں۔"
"اچھا تم سوجاؤ۔۔۔۔۔ میں باتیں کرنے آیا تھا مگر اب اس حالت میں کیا باتیں کروں گا تم سے۔" وسیم نے قدم باہر کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ امامہ نے اسے روکنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ خود بھی اٹھ کر اس کے پیچھے گئی اور وسیم کے باہر نکلتے ہی اس نے دروازے کو پھر لاک کرلیا۔ بیڈ پر اوندھے منہ لیٹ کر اس نے تکیے میں منہ چھپا لیا۔ وہ ایک بار پھر ہچکیوں کے ساتھ رو رہی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
تیرہ سال کا وہ لڑکااس وقت ٹی وی پر میوزک شو دیکھنے میں مصروف تھا، جب طیبہ نے اندر جھانکا۔ بے یقینی سے انہوں نے اپنے بیٹھے کو دیکھا اور پھر کچھ ناراضی کے عالم میں اندر چلی آئیں۔
"یہ کیا ہورہا ہے؟" انہوں نے اندر آتے ہی کہا۔
"ٹی وی دیکھ رہا ہوں۔" اس نے ٹی وی سے نظریں نہیں ہٹائیں۔
"ٹی وی دیکھ رہا ہوں۔۔۔۔۔ فار گاڈ سیک۔ تمہیں احساس ہے کہ تمہارے پیپرز ہورہے ہیں؟" طیبہ نے اس کے سامنے آتے ہوئے کہا۔
"سو واٹ۔۔۔۔۔" اس لڑنے اس بار کچھ خفگی سے کہا۔
"سو واٹ؟ تمہیں اس وقت اپنے کمرے میں کتابوں کے درمیان ہونا چاہیے نہ کہ یہاں اس بے ہودہ شو کے سامنے۔" طیبہ نے ڈانٹا۔
"مجھے جتنا پڑھنا تھا میں پڑھ چکا ہوں آپ سامنے سے ہٹ جائیں۔۔۔۔۔" اس کے لہجے میں ناگواری آگئی۔
"پھر بھی اٹھو اور اندر جاکر پڑھو۔" طیبہ نے اس طرح کھڑے کھڑے اس سے کہا۔
"نہ میں یہاں سے اٹھوں گا نہ اندر جاکر پڑھوں گا۔ میری اسٹڈیز اور پیپرز میرا مسئلہ ہیں۔ آپ کا نہیں۔"
"اگر تمہیں اتنی پروا ہوتی اسٹڈیز کی تواس وقت تم یہاں بیٹھے ہوتے؟"
"step aside" اس نے طیبہ کے جملے کو نظر انداز کرتے ہوئے بڑی بدتمیزی کے ساتھ ساتھ ہاتھ کے اشارے سے کہا۔
"آج تمہارے پاپا آجائیں تو میں ان سے بات کرتی ہوں۔" طیبہ نے اسے دھمکانے کی کوشش کی۔
"ابھی بات کرلیں۔۔۔۔۔ کیا ہوگا؟ پاپا کیا کرلیں گے۔ جب میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ مجھے جتنی تیاری کرنی ہے میں نے کرلی ہے تو پھر آپ کو کیا مسئلہ ہے؟"
"یہ تمہارے سالانہ امتحان ہیں۔ تمہیں احساس ہونا چاہیے اس بات کا۔" طیبہ نے یک دم اپنے لہجے کو نرم کرتے ہوئے کہا۔
"میں کوئی دوچار سال کا بچہ نہیں ہوں کہ میرے آگے پیچھے پھرنا پڑے آپ کو۔۔۔۔۔ میں اپنے معاملات میں آپ سے زیادہ سمجھدار ہوں، اس لئے یہ تھرڈ کلاس قسم کے جملے مجھ سے مت بولا کریں۔ ایگزامز ہورہے ہیں۔ اسٹڈیز پر دھیان دو،اس وقت تمہیں اپنے کمرے میں ہونا چاہیے۔"
"میں تمہارے فادر سے بات کروں گی۔"
"what a rubbish۔"
وہ بات کرتے کرتے غصے میں صوفہ سے اٹھ کر کھڑا ہوگیا ہاتھ میں پکڑا ہوا ریموٹ اس نے پوری قوت سے سامنے والی دیوار پر دے مارا اور پاؤں پٹختا ہوا کمرے سے نکل گیا۔ طیبہ کچھ بے بسی اور خفت کے عالم میں اسے کمرے سے باہر نکلتا ہوا دیکھتی رہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
فلو مینا فرانسس نے اپنے ہاتھ میں پکڑے پیکٹ میز پر رکھتے ہوئے ایک نظر ہال میں دوڑائی، پیپر شروع ہونے میں ابھی دس منٹ باقی تھے اور ہال میں موجود اسٹوڈنٹس کتابیں، نوٹس اور نوٹ بکس پکڑے تیزی سے صفحے آگے پیچھے کرتے ان پر آخری نظریں ڈال رہے تھے۔ ان کی جسمانی حرکات سے ان کی پریشانی اور اضطراب کا اظہار ہورہا تھا۔ فلو مینا فرانسس کے لئے یہ ایک بہت مانوس سین تھا پھر ان کی نظریں ہال کے تقریبا درمیان میں بیٹھے ہوئے سالار پر جاٹھہریں۔ پچیس اسٹوڈنٹس میں اس وقت وہ واحد اسٹوڈنٹ تھا جو اطمینان سے اپنی کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھا تھا۔ ایک ہاتھ میں اسکیل پکڑے آہستہ آہستہ اسے اپنے جوتے پر مارتے ہوئے وہ اطمینان سے ادھر اُدھر دیکھ رہا تھا، فلو مینا کے لئے یہ سین بھی نیا نہیں تھا۔ اپنے سات سالہ کیرئیر میں انہوں نے پیپرز کے دوران سالار کو اسی بے فکری اور لاپروائی کا مظاہرہ کرتے پایا تھا۔
نوبج کر دومنٹ پر انہوں نے سالار کے پاس سے گزرتے ہوئے اسے Mcq’s پر مبنی objective paper تھمایا، تیس منٹ کے بعد اسے وہ پیپر ان سے لینا تھا۔ نو بج کر دس منٹ پر انہوں نے سالار کو اپنی کرسی سے کھڑا ہوتے دیکھا۔ اس کے کھڑے ہوتے ہی ہال میں اس سے پیچھے موجود تمام اسٹوڈنٹس نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ وہ پیپر ہاتھ میں لئے فلو مینا فرانسس کی طرف جارہا تھا۔ فلو مینا فرانسس کے لئے یہ بھی نیا سین نہیں تھا۔ وہ پہلے بھی یہی کچھ دیکھتی آئی تھیں۔ تیس منٹ میں حل کیا جانے والا پیپر وہ آٹھ منٹ میں حل کرکے ان کے سر پر کھڑا تھا۔
"پیپر کو دوبارہ دیکھ لو۔" انہوں نے یہ جملہ اس سے نہیں کہا۔ وہ جانتی تھیں اس کا جواب کیا ہوگا۔ "میں دیکھ چکا ہوں۔" وہ اگر اسے ایک بار پھر پیپر دیکھنے پر مجبور کرتیں تو وہ ہمیشہ کی طرح پیپرز لے کر جاکر اپنی کرسی کے ہتھے پر رکھ کر بازو سینے پر لپیٹ کر بیٹھ جاتا۔ انہیں یاد نہیں تھا کبھی اس نے ان کے کہنے پر پیپر کو دوبارہ چیک کیا ہو اور وہ یہ تسلیم کرتی تھیں کہ اسے اس کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ اسکے پیپر میں کسی ایک بھی غلطی کو ڈھونڈنا بہت مشکل کام تھا۔
انہوں نے ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اس کے ہاتھ سے پیپر پکڑ لیا۔
"تم جانتے ہو سالار! میری زندگی کی سب سے بڑی تمنا کیا ہے؟" انہوں نے پیپر پر نظر ڈالتے ہوئے کہا۔ "کہ میں تمہیں تیس منٹ کا پیپر تیس منٹ کے بعد submit کرواتے ہوئے دیکھوں۔" وہ ان کی بات پر خفیف سے انداز میں مسکرایا۔ "آپ کی یہ خواہش اس صورت پوری ہوسکتی ہے میم اگر میں یہ پیپر 150 سال کی عمر میں حل کرنے بیٹھوں۔"
"نہیں میرا خیال ہے 150 سال کی عمر میں تم یہ پیپر دس منٹ میں کرو گے۔"
اس بار وہ ہنسا اور واپس مڑ گیا۔ فلو مینا فرانسس نے ایک نظر اس کے پیپر کے صفحات کو الٹ پلٹ کر دیکھا۔ ایک سرسری سی نظر بھی انہیں یہ بتانے کے لئے کافی تھی کہ وہ اس پیپر میں کتنے نمبر گنوائے گا۔۔۔۔۔ "زیرو۔"
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سلمیٰ نے اپنی بیٹی کے ہاتھوں میں گفٹ پیپر میں لپٹے ہوئے پیکٹ کو حیرانی سے دیکھا۔
"یہ کیا ہے امامہ؟ تم تو مارکیٹ گئی تھیں۔ شاید کچھ کتابیں لینی تھیں تمہیں؟"
"ہاں امی! مجھے کتابیں ہی لینی تھیں، مگر کسی کو تحفے میں دینے کے لئے۔"
"کس کو تحفہ دینا ہے؟"
"وہ لاہور میں ایک دوست ہے میری، اس کی سالگرہ ہے۔ اسی کے لئے خریدا ہے کورئیر سروس کے ذریعے بھجوا دوں گی کیونکہ مجھے تو ابھی یہاں رہنا ہے۔"
"لاؤ پھر مجھے دے دو یہ پیکٹ، میں وسیم کو دوں گی، وہ بجھوا دے گا۔"
"نہیں امی! میں ابھی نہیں بھجواؤں گی۔۔۔۔۔ ابھی اس کی سالگرہ کی تاریخ نہیں آئی۔" سلمیٰ کو لگا جیسے وہ یکدم گھبرا گئی ہو۔ انہیں حیرانی ہوئی۔ کیا یہ گھبرانے والی بات تھی؟
تین سال پہلے امامہ کی وجہ سے انہیں بہت زیادہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ انہیں اور ان کے شوہر ہاشم کو۔ وہ تب اپنی بیٹی کے بارے میں بہت فکر مند تھیں اور ہاشم ان سے زیادہ مگر پچھلے تین سال میں سب کچھ ٹھیک ہوگیا تھا۔ وہ دونوں اب اس کی طرف سے مکمل طور پر مطمئن تھے۔ خاص طور پر اسجد سے اس کی نسبت طے کرکے۔ وہ جانتی تھیں امامہ اسجد کو پسند کرتی ہے اور صرف وہی نہیں اسجد کو کوئی بھی پسند کرسکتا تھا۔ وہ ہرلحاظ سے ایک اچھا لڑکا تھا۔۔۔۔۔ وہ یہ بھی جانتی تھیں کہ وہ اسجد سے نسبت طے ہونے پر بہت خوش ہوئی تھی۔ اسجد اور اس کے درمیان پہلے بھی خاصی دوستی اور بے تکلفی تھی مگر بعض دفعہ انہیں لگتا جیسے وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت چپ ہوتی جارہی ہے۔ وہ پہلے ایسی نہیں تھی۔
"مگر اب وہ اسکول جانے والی بچی بھی تو نہیں رہی۔ میڈیکل کالج کی اسٹوڈنٹ ہے۔۔۔ پھر وقت بھی کہاں ہوتا ہے اس کے پاس۔" سلمی ٰہمیشہ خود کو تسلی دے لیتیں۔
وہ ان کی سب سے چھوٹی بیٹی تھی۔ بڑی دونوں بیٹیوں کی وہ شادی کرچکی تھیں۔ ایک بیٹے کی بھی شادی کرچکی تھیں جب کہ دو بیٹے اور امامہ غیر شادی شدہ تھے۔
"اچھا ہی ہے کہ یہ سنجیدہ ہوتی جا رہی ہے۔ لڑکیوں کے لئے سنجیدگی اچھی ہوتی ہے۔ انہیں جتنی جلدی اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہوجائے، اتنا ہی اچھا ہے۔" سلمیٰ نے ایک گہری سانس لیتے ہوئے امامہ سے نظریں ہٹالیں۔ وہ چھٹیوں میں گھر آئی ہوئی تھی اور جتنے دن وہ یہاں رہتیں ان کی نظریں اسی پر مرکوز رہتیں۔
"پتہ نہیں یہ ساجد کہاں رہ گیا جو بھی کام اس کے ذمے لگاؤ بس بھول ہی جاؤ۔" انہیں اچانک اپنے ملازم کا خیال آیا۔ جس کے پیچھے وہ لاؤنج میں آئی تھیں۔ بڑبڑاتے ہوئے وہ لاؤنج سے نکل گئیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جاری ہے
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: پیر کامل از عمیره احمد

Post by ایکسٹو »

پیر کامل
۔۔۔۔۔
قسط نمبر 2
یہ نیو ائیر نائٹ تھی۔ نیا سال شروع ہونے میں تیس منٹ باقی تھے۔ دس لڑکوں پر مشتمل چودہ پندرہ سال کے لڑکوں کا وہ گروپ پچھلے دو گھنٹے سے اپنے اپنے موٹر سائیکلز پر شہر کی مختلف سڑکوں پر اپنے کرتب دکھانے میں مصروف تھا، ان میں سے چند نے اپنے ماتھے پر چمکدار بینڈز باندھے ہوئے تھے جن پر نئے سال کے حوالے سے مختلف پیغامات درج تھے۔ وہ لوگ ایک گھنٹہ پہلے پوش علاقے کی ایک بڑی سپر مارکیٹ میں موجود تھے اور وہاں وہ مختلف لڑکوں پر آوازیں کستے رہے تھے۔
اپنی بائیکس پر سوار اب مختلف پر چکر لگا رہے تھے، ان کے پاس فائر کریکرز موجود تھے جنہیں وہ وقتافوقتا چلا رہے تھے۔ پونے بارہ پر وہ جم خانہ کے باہر موجود تھے جہاں پارکنگ لاٹ گاڑیوں سے بھر چکا تھا۔ یہ گاڑیاں ان لوگوں کی تھیں جو جم خانے میں نئے سال کے سلسلے میں ہونے والی ایک پارٹی میں آئے تھے۔ ان لڑکوں کے پاس بھی اس پارٹی کے دعوتی کارڈ موجود تھے، کیونکہ ان میں سے تقریباً تمام کے والدین جم خانہ کے ممبر تھے۔
وہ لڑکے اندر پہنچے تو گیارہ بج کر پچپن منٹ ہورہے تھے چند منٹوں بعد ڈانس فلور سمیت تمام جگہوں کی لائٹس آف ہوجانی تھیں اور اس کے بعد باہر لان میں آتش بازی کے ایک مظاہرہ کے ساتھ نیا سال شروع ہونے پر لائٹس آن ہونا تھیں اور اس کے بعد تقریباً تمام رات وہاں رقص کے ساتھ ساتھ شراب پی جاتی، جس کا اہتمام نئے سال کی اس تقریب کے لئے جم خانہ کی انتظامیہ خاص طور پر کرتی تھی۔ لائٹس آف ہوتے ہی وہاں ایک طوفان بدتمیزی کا آغاز ہوجاتا تھا اور وہاں موجود لوگ اسی "طوفان بدتمیزی" کے لئے وہاں آئے تھے۔
پندرہ سالہ وہ لڑکا بھی دس لڑکوں کے اس گروپ کے ساتھ آنے کے بعد اس وقت ڈانس فلور پر راک بیٹ پر ڈانس کررہا تھا، ڈانس میں اس کی مہارت قابل دید تھی۔
بارہ بجنے میں دس سیکنڈ رہ جانے پر لائٹس آف ہوگئیں اور ٹھیک بارہ بجے لائٹس یکدم دوبارہ آن کردی گئیں۔
اندھیرے کے بعد سیکنڈز گننے والوں کی آوازیں اب شور اور خوشی کے قہقہوں اور چیخوں میں بدل گئی تھیں چند سیکنڈز پہلے تھم جانے والا میوزک ایک بار پھر بجایا جانے لگا۔ وہ لڑکا اب اپنے دوستوں کے ساتھ باہر پارکنگ میں آگیا جہاں بہت سے لڑکے اپنی اپنی گاڑیوں کے ہارن بجا رہے تھے۔ ان ہی لڑکوں کے ساتھ بئیر کے کین پکڑے وہ وہاں موجود ایک گاڑی کی چھت پر چڑھ گیا۔ اس لڑکے نے گاڑی کی چھت پر کھڑے کھڑے اپنی جیکٹ کی جیب سے بئیر کا ایک بھرا ہوا کین نکالا اور پوری قوت سے کچھ فاصلے پر کھڑی ایک گاڑی کی ونڈاسکرین پر دے مارا۔ ایک دھماکے کے ساتھ گاڑی کی ونڈاسکرین چور چور ہوگئی وہ لڑکا اطمینان کے ساتھ اپنے بائیں ہاتھ میں پکڑا کین پیتا رہا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ پچھلے آدھے گھنٹے سے کامران کو وڈیو گیم کھیلتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ اسکرین پر موجود اسکور میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہورہاتھا، شاید اس کی وجہ وہ مشکل ٹریک تھا جس پر کامران کو گاڑی ڈرائیو کرنی تھی۔ سالار لاؤنج کے صوفوں میں سے ایک صوفے پر بیٹھا اپنی نوٹ بک پر کچھ لکھنے میں مصروف تھا، مگر وقتاً فوقتاً نظر اٹھا کر ٹی وی اسکرین کو بھی دیکھ رہا تھا جہاں کامران اپنی جدوجہد میں مصروف تھا۔
ٹھیک آدھ گھنٹہ بعد اس نے نوٹ بک بند کرکے سامنے پڑی میز پر رکھ دی۔ پھر منہ پر ہاتھ رکھ کر جماہی روکی۔ دونوں ٹانگیں سامنے پڑی میز پر رکھ کر اور دونوں ہاتھوں کی انگلیاں سر کے پیچھے باندھے وہ کچھ دیر اسکرین کو دیکھتا رہا، جہاں کامران اپنے تمام چانسز ضائع کرنے کے بعد ایک بار پھر نیا گیم کھیلنے کی تیاری کررہا تھا۔
"کیا پرابلم ہے کامران؟" سالار نے کامران کو مخاطب کیا۔
"ایسے ہی۔۔۔۔ نیا گیم لے کر آیا ہوں مگر اسکور کرنے میں بڑی مشکل ہورہی ہے۔" کامران نے بے زاری سے کہا۔
"اچھا مجھے دکھاؤ۔" اس نے صوفے سے اٹھ کر ریمورٹ کنٹرول اس کے ہاتھ سے لے لیا۔
کامران نے دیکھا۔ پہلے بیس سیکنڈ میں ہی سالار اسے جس اسپیڈ پر دوڑا رہا تھا اس اسپیڈ پر کامران اب تک نہیں دوڑا پایا تھا۔ جو ٹریک اسے بہت مشکل لگ رہا تھا وہ سالار کے سامنے ایک بچگانہ چیز محسوس ہورہا تھا۔ ایک منٹ بعد وہ جس اسپیڈ پر گاڑی دوڑا رہا تھا اس اسپیڈ پر کامران کے لئے اس پر نظریں جمانا مشکل ہوگیا جب کہ سالار اس اسپیڈ پر بھی گاڑی کو مکمل طور پر کنٹرول کئے ہوئے تھا۔
تین منٹ کے بعد کامران نے پہلی بار گاڑی کو ڈگمگاتے اور پھر ٹریک سے اتر کر دھماکے کے ساتھ تباہ کرتے دیکھا۔ کامران نے کچھ مسکراتے ہوئے مڑ کر سالار کو دیکھا۔ گاڑی کیوں تباہ ہوئی تھی، وہ جان گیا تھا ریمورٹ اب سالار کے ہاتھ کے بجائے میز پر پڑا تھا اور وہ اپنی نوٹ بک اٹھائے کھڑا ہورہا تھا۔ کامران نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ "بہت بورنگ گیم ہے۔" سالار نے تبصرہ کیا اور کامران کی ٹانگوں کو پھلانگتے ہوئے لاؤنج سے باہر نکل گیا۔ کامران ہونٹ بھینچے سات ہندسوں پر مبنی اس اسکور کو دیکھ رہا تھا جو اسکرین کے ایک کونے میں جگمگا رہا تھا۔ کچھ نہ سمجھ میں آنے والے انداز میں اس نے بیرونی دروازے کو دیکھا جس سے وہ غائب ہوا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ دونوں ایک بار پھر خاموش تھے، اسجد کو الجھن ہونے لگی۔ امامہ اتنی کم گو نہیں تھی جتنی وہ اس کے سامنے ہوجاتی تھی۔ پچھلے آدھے گھنٹے میں اس نے گنتی کے لفظ بولے تھے۔
وہ اسے بچپن سے جانتا تھا۔ وہ بہت خوش مزاج تھی۔ ان دونوں کی نسبت ٹھہرائے جانے کے بعد بھی ابتدائی سال میں اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اسجد کو اس سے بات کرکے خوشی محسوس ہوتی تھی۔ وہ بلا کی حاضر جواب تھی، مگر پچھلے کچھ سالوں میں وہ یک دم بدل گئی تھی اور میڈیکل کالج میں جاکر تو یہ تبدیلی اور بھی زیادہ محسوس ہونے لگی تھی۔ اسجد کو بعض دفعہ یوں محسوس ہوتا جیسے اس سے بات کرتے ہوئے وہ حد درجہ محتاط رہتی ہے۔ کبھی وہ الجھی ہوئی سی محسوس ہوتی اور کبھی اسے اس کے لہجے میں عجیب سی سرد مہری محسوس ہوتی۔ اسے لگتا وہ جلد از جلد اس سے چھٹکارا پاکر اس کے پاس سے اٹھ کر چلی جانا چاہتی ہے۔
اس وقت بھی وہ ایسا ہی محسوس کررہا تھا۔
"میں کئی بار سوچتا ہوں کہ میں خوامخواہ ہی تمہارے لئے یہاں آنے کا تردو کرتا ہوں۔۔۔۔۔ تمہیں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہوگا کہ میں آؤں یا نہ آؤں۔" اسجد نے ایک گہری سانس لے کر کہا۔ وہ اس کے بالمقابل لان چئیر پر بیٹھی دور باؤنڈری وال پر چڑھی ہوئی بیل کو گھور رہی تھی۔ اسجد کی شکایت پر اس نے گردن ہلائے بغیر اپنی نظریں بیل سے ہٹاکر اسجد پر مرکوز کردیں۔ اسجد نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا مگر وہ خاموش رہی تو اس نے لفظوں میں کچھ ردوبدل کے ساتھ اپنا سوال دہرایا۔
"تمہیں میرے نہ آنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا امامہ۔۔۔۔۔ کیوں ٹھیک کہہ رہا ہوں میں؟"
"اب میں کیا کہہ سکتی ہوں اس پر؟"
"تم کم از کم انکار تو کرسکتی ہو۔ میری بات کو جھٹلا سکتی ہو کہ ایسی بات نہیں ہے میں غلط سوچ رہا ہوں اور۔۔۔۔۔"
"ایسی بات نہیں ہے۔ آپ غلط سوچ رہے ہیں۔" امامہ نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔ اس کا لہجہ اب بھی اتنا ہی ٹھندا اور چہرہ اتنا ہی بے تاثر تھا جتنا پہلے تھا، اسجد ایک ٹھنڈی سانس لے کر رہ گیا۔
"ہاں، میری دعا اور خواہش تو یہی ہے کہ ایسا نہ ہو اور میں واقعی غلط سوچ رہا ہوں مگر تم سے بات کرتے ہوئے میں ہر بار ایسا ہی محسوس کرتا ہوں۔"
"کس بات سے آپ ایسا محسوس کرتے ہیں؟" اس بار پہلی بار اسجد کو اس کی آواز میں کچھ ناراضی جھلکتی ہوئی محسوس ہوئی۔
"بہت سی باتوں سے۔ تم میری کسی بات کا ڈھنگ سے جواب ہی نہیں دیتیں۔"
"حالانکہ میں آپ کی ہر بات کا ڈھنگ سے جواب دینے کی بھرپور کوشش کرتی ہوں۔۔۔۔۔ لیکن اب اگر آپ کو میرے جواب پسند نہ آئیں تو میں کیا کرسکتی ہوں۔"
اسجد کو اس بار بات کرتے ہوئے وہ کچھ مزید خفا محسوس ہوئی۔
"میں نے یہ کب کہا کہ مجھے تمہارے جواب پسند نہیں آئے۔ میں تو صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ میری ہر بات کے جواب میں تمہارے پاس۔۔۔۔۔ ہاں اور نہیں کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ بعض دفعہ تو مجھے لگتا ہے میں اپنے آپ سے باتیں کررہا ہوں۔"
"اگر آپ مجھ سے یہ پوچھیں گے کہ تم ٹھیک ہو؟" تو میں اس کا جواب ہاں یا نہیں میں ہی دوں گی۔ ہاں اور نہیں کے علاوہ اس سوال کا جواب کسی تقریر سے دیا جاسکتا ہے تو آپ مجھے وہ دے دیں۔ میں کر دوں گی۔" وہ بالکل سنجیدہ تھی۔
"ہاں اور نہیں کے ساتھ بھی تو کچھ کہا جاسکتا ہے۔۔۔۔۔ اور کچھ نہیں تم جواباً میرا حال ہی پوچھ سکتی ہو۔"
"میں آپ کا کیاحال پوچھوں، ظاہر ہے اگر آپ میرے گھر آئے ہیں، میرے سامنے بیٹھے مجھ سے باتیں کررہے ہیں تو اس کا واضح مطلب تو یہی ہے کہ آپ ٹھیک ہیں ورنہ آپ اس وقتاپنے گھر بستر پر پڑے ہوتے۔"
"یہ فارمیلٹی ہوتی ہے امامہ۔۔۔۔۔"
"ارے اپ جانتے نہیں ،میں فارمیلیٹیز پر یقین نہیں رکھتی۔ آپ بھی مجھ سے میرا حال نہ پوچھا کریں۔ میں بالکل مائنڈ نہیں کروں گی۔" اسجد جیسے لاجواب ہوگیا۔
"ٹھیک ہے فارمیلیٹیز کو چھوڑو، بندہ کوئی اور بات کرلیتا ہے۔ کچھ ڈسکس کرلیتا ہے۔ اپنی مصروفیات کے بارے میں ہی کچھ بتا دیتا ہے۔"
"اسجد! میں آپ سے کیا ڈسکس کروں۔۔۔۔۔ آپ بزنس کرتے ہیں۔ میں میڈیکل کی اسٹوڈنٹ ہوں۔۔۔۔۔ آپ سے میں کیا پوچھوں، اسٹاک مارکیٹ کی پوزیشن؟ ٹرینڈ bullish تھا یا bearishانڈیکس میں کتنے پوائنٹس کا اضافہ ہوا؟ یا اگلی کنسائنمنٹ کہاں بھیج رہے ہیں؟ اس بار گورنمنٹ نے آپ کو کتنی ریبیٹ دی؟" اس کا لہجہ اب بھی اتنا ہی سرد تھا۔ "یا آپ سے اناٹومی ڈسکس کروں، کون سے عوامل انسان کے جگر کو متاثر کرسکتے ہیں۔ بائی پاس سرجری میں اس سال کون سی نئی تکنیک استعمال کی گئی ہے۔ دل کی دھڑکن بحال کرنے کے لئے کتنے سے کتنے وولٹ کا الیکٹرک شاک دیا جاسکتا ہے۔ تو ہم دونوں کی مصروفیات تو یہ ہیں اب ان کے بارے میں ڈسکشن سے آپ اور میں محبت اور بے تکلفی کی کون سی نئی منزلیں طے کریں گے وہ میری سمجھ سے باہر ہے۔"
اسجد کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ اب وہ اس لمحہ کو کوس رہا تھا جب اس نے امامہ سے شکایت کی تھی۔
"اور بھی تو مصروفیات ہوتی ہیں انسان کی۔" اسجد نے قدرے کمزور لہجہ میں کہا۔
"نہیں پڑھائی کے علاوہ میری تو اور کوئی مصروفیات نہیں ہیں۔" امامہ نے قطعیت سے سرہلاتے ہوئے کہا۔
"پہلے بھی تو ہم دونوں آپس میں بہت سی باتیں کرتے تھے۔" امامہ نے اس کی بات کاٹ دی۔
"پہلے کی بات چھوڑیں، اب میں وقت ضائع کرنا افورڈ نہیں کرسکتی۔ حیرت مجھے آپ پر ہورہی ہے، آپ بزنس مین ہوکر اتنی امیچور اور ایموشنل سوچ رکھتے ہیں۔ آپ کو تو خود بہت پریکٹیکل ہونا چاہیے۔"
اسجد کچھ بول نہ سکا۔
"ہم دونوں کے درمیان جو رشتہ ہے وہ ہم دونوں جانتے ہیں۔ اب اگر آپ میری پریکٹیکل اپروچ کو بے التفاتی، بے نیازی، ناراضی سمجھیں تو میں کیا کرسکتی ہوں۔ میں آپ کے ساتھ یہاں بیٹھی ہوں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ میں اس رشتے کو اہمیت دیتی ہوں ورنہ کوئی اجنبی تو اس طرح یہاں میرے ساتھ بیٹھ کر چائے نہیں پی سکتا۔" وہ ایک لمحے کے لئے رکی۔ "اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ آپ کے آنے یا نہ آنے سے مجھے کوئی فرق پڑے گا یا نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم دونوں ہی بہت مصروف رہتے ہیں۔ ہم ماڈرن ایج کی پیداوار ہیں نہ میں کوئی ہیر ہوں نہ آپ رانجھے کے قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں کہ میرے لئے گھنٹوں یہ فریضہ سرانجام دیں۔ سچ یہی ہے کہ فرق واقعی نہیں پڑتا کہ ہم دونوں ملیں یا نہ ملیں، باتیں کریں یا نہ کریں۔ ہمارا رشتہ وہی رہے گا جو اب ہے یا آپ کو لگتا ہے اس میں کوئی تبدیلی آسکتی ہے؟"
اگر اسجد کے ماتھے پر پسینہ نہیں آیا تھا تو اس کی واحد وجہ دسمبر کا مہینہ تھا ان دونوں کی عمر میں آٹھ سال کا فرق تھا مگراس وقت پہلی بار اسجد کو یہ فرق اٹھارہ سال کا محسوس ہوا۔ وہ اسے اپنے سے اٹھارہ سال بڑی لگی تھی۔ دو ہفتے پہلے وہ انیس سال کی ہوئی تھی مگراس وقت اسجد کو لگ رہا تھا جیسے وہ ٹین ایج سے سیدھی ادھیڑ عمری میں چلی گئی تھی اور خود وہ ایک بار پھر پری ٹین میں آگیا تھا۔ وہ اس کے بالمقابل ٹانگ پر ٹانگ رکھتے اسجد کے چہرے پر نظریں جمائے اسی بے تاثر انداز میں اس کے جواب کی منتظر تھی۔ اسجد نے کرسی کے ہتھے پر ٹکے اس کے ہاتھ میں منگنی کی انگوٹھی کو دیکھا اور کھنکھار کر اپنا گلا صاف کرنے کی کوشش کی۔
"تم بالکل ٹھیک کہہ رہی ہو، میں صرف اس لئے ڈسکشن کی بات کررہا تھا کہ ہمارے درمیان انڈراسٹینڈنگ ڈویلپ ہوسکے۔"
"اسجد! میں آپ کو بہت اچھی طرح سمجھتی اور جانتی ہوں اور یہ جان کر مجھے بہت افسوس ہوا کہ آپ سمجھتے ہیں کہ ہمارے درمیان ابھی بھی کسی انڈراسٹینڈنگ کو ڈویلپ کرنے کی ضرورت ہے۔ میرا خیال تھا ہم دونوں کے درمیان اچھی خاصی انڈراسٹینڈنگ ہے۔"
وہ اسجد کا دن نہیں تھا، اسجد نے اعتراف کیا۔
"اور اگر آپ کو یہ خیال ہے کہ اناٹومی اور بزنس کو ڈسکس کرکے ہم کوئی انڈراسٹینڈنگ ڈویلپ کرلیں گے تو ٹھیک ہے، آئندہ ہم یہی ڈسکس کرلیا کریں گے۔" امامہ کے لہجے میں لاپروائی کا عنصر واضح تھا۔
"تم کو میری بات بری لگی ہے؟"
"بالکل بھی نہیں۔۔۔۔۔ میں کیوں برا مانوں گی؟" اس کے لہجے میں موجود حیرت کے عنصر نے اسجد کو مزید شرمندہ کیا۔
"شاید میں نے غلط بات کی ہے۔ "شاید نہیں یقیناً" اس نے تینوں لفظوں پر باری باری زور دیتے ہوئے کہا۔
"تم جانتی ہو میرے نزدیک یہ رشتہ کتنی اہمیت کا حامل ہے۔ میرے بہت سے خواب ہیں۔ اس رشتے کے حوالے سے، تمہارے حوالے سے۔" اسجد نے ایک گہرا سانس لے کر کہا۔ امامہ بے تاثر چہرے کے ساتھ اسی بیل کو دیکھ رہی تھی۔
"شاید اس لئے میں ضرورت سے زیادہ حساس ہوجاتا ہوں۔ مجھے اس رشتے کے حوالے سے کوئی خوف نہیں ہے۔ میں جانتا ہوں، یہ رشتہ ہم دونوں کی مرضی سے ہوا ہے۔"
وہ اس کے چہرے پر نظریں جمائے بڑے جذب سے کہہ رہا تھا اور یکدم ہی اسے ایک بار پھر یہ احساس ہونے لگا تھا جیسے وہ وہاں موجود نہیں تھی۔ اس کی بات نہیں سن رہی تھی۔ اسجد کو لگا وہ ایک بار پھر خود سے باتیں کررہا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ایک بہت بڑی کوٹھی کے عقب میں موجود انیکسی سے میوزک کی آواز باہر لان تک آرہی تھی۔ باہر موجود کوئی بھی شخص انیکسی کے اندر موجود لوگوں کی قوت برداشت پر حیرانی کا اظہار کرسکتا تھا لیکن وہ انیکسی کے اندر موجود لوگوں کی حالت دیکھ لیتا تو وہ اس حیران کن قوت برداشت کی وجہ جان جاتا۔ انیکسی کے اندر موجود چھ لڑکے جس حالت میں تھے اس حالت میں اس سے زیادہ تیز اور بلند میوزک بھی ان پر اثر انداز نہ ہوسکتا تھا اور جہاں تک ساتویں لڑکے کا تعلق تھا تو وہ ایسی کسی چیز سے متاثر نہیں ہوتا تھا۔
انیکسی کا وہ کمرہ اس وقت دھویں کے مرغولوں اور عجیب قسم کی بو سے بھرا ہوا تھا، قالین پر ایک مشہور ریسٹورنٹ سے لائے گئے کھانے کے کھلے ہوئے ڈبے اور ڈسپوزیبل پلیٹیں چمچے بھی پڑے تھے۔ قالین پر کھانے پینے کی بچی کچی چیزیں اور ہڈیاں بھی ادھر ادھر پھینکی گئی تھیں۔ سوفٹ ڈرنک کی پلاسٹک کی بوتلیں بھی ادھر اُدھر لڑھک رہی تھیں۔ کیچپ کی بوتلوں سے نکلنے والی کیچپ قالین کو کچھ اور بدنما بنا رہی تھی۔ وہ سات لڑکے اسی قالین پر ایک دوسرے سے کچھ فاصلے پر براجمان تھے۔ ان کے سامنے قالین پر بئیر کے خالی کینز کا ایک ڈھیر بھی لگا ہوا تھا اور تفریح کا یہ سلسلہ وہیں تک نہیں رکا تھااس وقت وہ ان ڈرگرز کو استعمال کرنے میں مصروف تھے جن کا انتظام ان میں سے ایک نے کیا تھا۔
پچھلے دو ماہ میں وہ تیسری بار اس ایڈونچر کے لئے اکٹھے ہوئے تھے اور ان تین مواقع پر وہ چار مختلف قسم کی ڈرگز استعمال کرچکے تھے۔ پہلی بار انہوں نے وہ ڈرگ استعمال کی تھی جو ان میں سے ایک کو اپنے باپ کے دراز سے ملی تھی۔ دوسری بار انہوں نے جو ڈرگ استعمال کی تھی وہ انہوں نے اپنے ایک اسکول فیلو کے توسط سے اسلام آباد کے ایک کلب سے خریدی تھی اور اس بار وہ جو ڈرگ استعمال کررہے تھے وہ انہوں نے ایک ٹرپ پر راولپنڈی کی ایک مارکیٹ میں ایک افغان سے خریدی تھی۔ تینوں مواقع پر انہوں نے ان ڈرگز کے ساتھ الکوحل کا استعمال کیا تھا جس کا حصول ان کے لئے مشکل نہیں تھا۔
اس وقت بھی ان سات لڑکوں میں سے چھے لڑکے پوری طرح نشے میں تھے۔ ان میں سے ایک ابھی بھی کانپتے ہاتھوں کے ساتھ ڈرگ کو سونگھنے کی کوشش کررہا تھا جبکہ دو لڑکے سگریٹ پیتے ہوئے باقی لڑکوں کے ساتھ ٹوٹی پھوٹی گفتگو کررہے تھے۔ صرف ساتواں لڑکا مکمل طور پر ہوش میں تھا اس لڑکے کا چہرہ pimples/مہاسوں سے بھرا ہوا تھا اور اس کے گلے میں موجود ایک سیاہ تنگ ڈوری میں تین چار تانبے کی عجیب سی شکلوں کے زیورات پروئے ہوئے تھے۔ ایلوس پریسلے اسٹائل کے کالرز والی ایک چیکرڈ ڈارک بلو شرٹ کے ساتھ ایک بے ہودہ سی سرمئی جینز پہنے ہوئے تھا جس کے دونوں گھٹنوں پر میڈونا کا چہرہ پینٹ کیا گیا تھا۔
اس نے آنکھیں کھول کر اپنی دائیں طرف موجود لڑکوں پر ایک اچٹتی نظر ڈالی۔ اس کی آنکھیں سرخ ہورہی تھیں مگر اس سرخی کے باوجود وہ ایسا کوئی تاثر نہیں دے رہی تھیں کہ وہ باقی لڑکوں کی طرح مکمل طور پر نشے کی گرفت میں تھا۔ چند منٹ انہیں دیکھنے کے بعد اس نے سیدھے ہوتے ہوئے ڈبیا میں موجود باقی ڈرگ کون میں ڈال دی اور ایک چھوٹے سے سٹرا کے ساتھ اسے سونگھنے لگا، کافی دیر کے بعد اس نے اسٹرا کو ایک طرف پھینک دیا اور اپنے ہاتھ کی پور پر تھوڑی سی ڈرگ رکھ کر زبان کی نوک کے ساتھ کچھ دلچسپی، تجسس مگر احتیاط کے ساتھ اسے چکھا۔ دوسرے ہی لمحے اس نے برق رفتاری کے ساتھ اپنے بائیں جانب تھوکا، ڈرگ یقینا بہت اچھی کوالٹی کی تھی۔ اس کی آنکھیں اب پہلے سے زیادہ سرخ ہورہی تھیں مگر ابھی بھی وہ اپنے ہوش و حواس میں تھا۔ اس کے چہرے کے تاثرات سے اندازہ ہورہا تھا کہ وہ اپنی سرگرمی سے کچھ زیادہ محظوظ نہیں ہوا۔ ایک دو منٹ کے بعد اس نے اپنے پاس قالین پر پڑے ہوئے بئیر کے can سے چند گھونٹ لیتے ہوئے ڈرگ کے ذائقے کو صاف کرنے کی کوشش کی۔ can رکھنے کے بعد وہ چند منٹ تک کون میں موجود ڈرگ کو دیکھتا رہا، دوسرے چھ لڑکےاس وقت تک نشے میں پوری طرح دھت کارپٹ پر اوندھے سیدھے پڑے تھے مگر وہ اب بھی اسی طرح بیٹھا تھا، can میں موجود بئیر کے گھونٹ لیتے ہوئے وہ پرسوچ انداز میں ان سب کو دیکھتا رہا۔ اس کی آنکھیں اب متورم ہورہی تھیں مگر ان میں موجود چمک بتا رہی تھی کہ وہ ابھی بھی مکمل طور پر نشے میں نہیں ہے۔
یہ اس کے ساتھ تیسری بار ہوا تھا۔ پہلی دوبار ڈرگ استعمال کرنے کے بعد وہ اسی طرح بیٹھا رہا تھا، جبکہ اس کے دوست بہت جلد نشے میں دھت ہوئے تھے۔ رات کے پچھلے پہر وہ ان لوگوں کو اسی حالت میں چھوڑ کر خود گھر آگیا تھا۔ آج بھی وہ یہی کرنا چاہتا تھا۔ کمرے کے اندر موجود ڈرگ کی بو سے اب پہلی بار وہ الجھنے لگا اس نے کھڑا ہونے کی کوشش کی اور وہ لڑکھڑایا۔ اپنی لڑکھڑاہٹ پر قابو پاتے ہوئے وہ سیدھا کھڑا ہوگیا۔ نیچے جھک کر اس نے کاپٹ سے کی رنگ ، والٹ اور کریڈٹ کارڈ اٹھائے پھر آگے بڑھ کر اس نے اسٹیریو کو بند کردیا۔ اپنی متورم اور سرخ آنکھوں سے اس نے کمرے میں ایک نظر دوڑائی۔ یوں جیسے وہ کوئی چیز یاد کرنے کی کوشش کررہا ہو پھر وہ کمرے کے دروازے کی طرف بڑھ گیا۔
ایک بار پھر نیچے بیٹھ کر اس نے جاگرز پہنے اور ان کے تسموں کو ٹخنوں کے گرد لپیٹ کر گرہ باندھی پھر دروازے کا لاک کھول کر وہ باہر نکل گیا۔ روشنی سے یکدم وہ کوریڈور کی تاریکی میں آگیا تھا۔ اندھیرے میں اپنا راستہ ڈھونڈتے ہوئے وہ انیکسی کے بیرونی دروازے کو کھولتا ہوا باہر لان میں آگیا۔ انیکسی کی سیڑھیاں اترتے ہوئے اسے اپنی ناک سے کوئی چیز بہتی محسوس ہوئی۔ بایاں ہاتھ اٹھا کر اس نے اپنے اوپری ہونٹ پر رکھا اس کی انگلیاں چپچپانے لگی تھیں۔ اس نے ہاتھ اٹھاتے ہوئے اپنی انگلیوں کو انیکسی کی بیرونی لائٹ کی روشنی میں دیکھا۔ اس کی پوروں پر خون کے قطرے لگے ہوئے تھے۔ اس نے اپنی ٹراؤزر کی جیب ٹٹولتے ہوئے اندر سے ایک رومال برآمد کیا اور اپنی پوروں پر لگا ہوا خون صاف کیا اس کے بعد اسی رومال کے ساتھ اس نے اپنے ناک سے چمکنے والا خون صاف کیا اسے اپنے حلق میں کوئی چیز چبھتی ہوئی محسوس ہوئی۔ اس نے کھنکار کر اپنا گلا صاف کرنے کی کوشش کی۔ اسے اب اپنے سینے میں بھی گھٹن کا احساس ہونے لگا۔ چند گہرے سانس لے کر اس نے اس گھٹن کو کم کرنے کی کوشش کی۔ وہیں کھڑے کھڑے اس نے دو تین بار نیچے تھوکا اور ایک بار پھر سیڑھیاں اترنے کے لئے قدم بڑھایا۔ وہ یکدم ٹھٹھک گیا۔ اس کے ناک میں عجیب سی سنسناہٹ ہوئی اور پھر یکدم کوئی چیز پوری قوت سے بہنے لگی۔ وہ بے اختیار کمر کے بل جھک گیا۔ ایک دھار کی صورت میں اس کی ناک سے نکلنے والا خون سیڑھیوں پر گرنے لگا تھا۔ ماربل پر پھسلتا ہوا خون، وہ اسے دیکھتا رہا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
گالف کلب میں تقریب تقسیم انعامات منعقد کی جارہی تھی۔ سولہ سالہ سالار سکندر بھی انڈر سکسٹین کی کیٹیگری میں seven under par کے اسکور کے ساتھ پہلی پوزیشن کی ٹرافی وصول کرنے کے لئے موجود تھا۔
سکندر عثمان نے سالار سکندر کا نام پکارے جانے پر تالیاں بجاتے ہوئے اس ٹرافی کیبنٹ کے بارے میں سوچا، جس میں اس سال انہیں کچھ مزید تبدیلیاں کروانی پڑیں گی۔ سالار کو ملنے والی شیلڈزاور ٹرافیز کی تعداد اس سال بھی پچھلے سالوں جیسی ہی تھی۔ ان کے تمام بچے ہی پڑھائی میں بہت اچھ تھے مگر سالار سکندر باقی سب سے مختلف تھا۔ ٹرافیز، شیلڈز اور سرٹیفکیٹس کے معاملے میں وہ سکندر عثمان کے باقی بچوں سے بہت آگے تھا۔ 150 آئی کیو لیول کے حامل اس بچے کا مقابلہ کرنا ان میں سے کسی کے لئے ممکن تھا بھی نہیں۔
فخریہ انداز میں تالیاں بجاتے ہوئے سکندر عثمان نے دائیں طرف بیٹھی ہوئی اپنی بیوی سے سرگوشی میں کہا۔ "یہ گالف میں اس کی تیرھویں اور اس سال کی چوتھی ٹرافی ہے۔"
"ہر چیز کا حساب رکھتے ہو تم۔" اس کی بیوی نے مسکراتے ہوئے جیسے قدرے ستائشی انداز میں اپنے شوہر سے کہا، جس کی نظریں اس وقت مہمان خصوصی سے ٹرافی وصول کرتے ہوئے سالار پر مرکوز تھیں۔
"صرف گالف کا اور کیوں، وہ تم اچھی طرح جانتی ہو۔" سکندر عثمان نے اپنی بیوی کو دیکھا جو اب سیٹ کی طرف جاتے ہوئے سالار کو دیکھ رہی تھیں۔
" I bet اگر یہ اس وقت اس مقابلے میں شرکت کرنے والے پروفیشنل کھلاڑیوں کےسیاتھ کھیل رہا ہوتا تو بھی اس وقت اس کے ہاتھ میں یہی ٹرافی ہوتی۔" سکندر عثمان نے بیٹے کو دور سے دیکھتے ہوئے کچھ فخریہ انداز میں دعویٰ کیا۔ سالار اب اپنی سیٹ کے اطراف میں موجود دوسری سیٹوں پر موجود دوسرے انعامات حاصل کرنے والوں سے ہاتھ ملانے میں مصروف تھا۔ ان کی بیوی کو سکندر عثمان کے دعویٰ پر کوئی حیرانی نہیں ہوئی کیونکہ وہ جانتی تھیں سالار کے بارے میں یہ ایک باپ کا جذباتی جملہ نہیں تھا۔ وہ واقعی اتنا ہی غیر معمولی تھا۔
اسے دو ہفتے پہلے اپنے بھائی زبیر کے ساتھ اسی گالف کورس پر اٹھارہ ہول پر کھیلا جانے والا گالف کا میچ یاد آیا۔ rough میں اتفاقاً گر جانے والی ایک بال کو وہ جس صفائی اور مہارت کے ساتھ واپس گرین پر لایا تھا اس نے زبیر کو محو حیرت کردیا وہ پہلی بات سالار کے ساتھ گالف کھیل رہا تھا۔ "مجھے یقین نہیں آرہا۔" اٹھارہ ہول کے خاتمہ تک کسی کو بھی یہ یاد نہیں تھا کہ اس نے یہ جملہ کتنی بار بولا تھا۔
rough سے کھیلی جانےوالی اس شاٹ نے اگر اسے محو حیرت کیا تھا تو سالار سکندر کے putters نے اسے دم بخود کردیا تھا۔ گیند کو ہول میں جاتے دیکھ کر اس نے کلب کے سہارے کھڑے کھڑے صرف گردن موڑ کر آنکھوں ہی آنکھوں میں سالار سکندر اور اس ہول کے درمیان موجد فاصلے کو ماپا تھا اور جیسے بے یقینی سے سرہلاتے سالار کو دیکھا۔
"آج سالار صاحب اچھا نہیں کھیل رہے۔" زبیر نے مڑ کر بے یقینی کے عالم میں اپنے پیچھے کھڑے کیڈی کو دیکھا جو گالف کارٹ پکڑے سالارکو دیکھتے ہوئے بڑبڑا رہا تھا۔
"ابھی یہ اچھا نہیں کھیل رہا؟" زبیر نے استہزائیہ انداز میں کلب کے کیڈی کو دیکھا۔
"ہاں صاحب ورنہ بال کبھی rough میں نہ جاتی۔" کیڈی نے بڑے معمول کے انداز میں انہیں بتایا۔ "آپ آج یہاں پہلی بار کھیل رہے ہیں اور سالار صاحب پچھلے سات سال سے یہاں کھیل رہے ہیں۔میں اسی لئے کہہ رہا ہوں کہ آج وہ اچھا نہیں کھیل رہے۔"
کیڈی نے زبیر کی معلومات میں اضافہ کیا اور زبیر نے اپنی بہن کو دیکھا جو فخریہ انداز میں مسکرا رہی تھیں۔
"اگلی بار میں پوری تیاری کے ساتھ آؤں گا اور اگلی بار کھیل کی جگہ کا انتخاب بھی میں کروں گا۔" زبیر نے کچھ خفت کے عالم میں اپنی بہن کے ساتھ سالار کی طرف جاتے ہوئےدیکھ۔
" any time any place)کسی بھی وقت کسی بھی جگہ(" انہوں نے سالار کی طرف سے اپنے بھائی کو پراعتماد انداز میں چیلنج کرتے ہوئے کہا۔ "میں تمہیں اس ویک اینڈ پر ٹی اے اور ڈی اے کے ساتھ کراچی بلوانا چاہتا ہوں۔" انہوں نے سالار کے قریب پہنچ کر ہلکے پھلکے انداز میں کہا۔ سالار مسکرایا۔
"کس لئے۔۔۔۔۔؟"
"میرے behalf پر تمہیں کراچی چیمبر آف کامرس کے صدر کے ساتھ ایک میچ کھیلنا ہے میں اس بار الیکشنز میں اس سے ہارا ہوں، مگر وہ اگر کسی سے گالف کا میچ ہار گیا تو اسے ہارٹ اٹیک ہوجائے گا اور وہ بھی ایک بچے کے ہاتھوں so let’s settle the scores" وہ اپنے بھائی کی بات پر ہنسی تھیں، مگر سالار کے ماتھے پر چند بل نمودار ہوگئے تھے۔
"بچہ؟" اس نے انکے جملے میں موجود واحد قابل اعتراض لفظ پر زور دیتے ہوئے اسے دہرایا۔ "میرا خیال ہے انکل! مجھے کل آپ کے ساتھ اٹھارہ ہولز کا ایک اور گیم کرنا پڑے گا۔"
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اسجد دروازہ کھول کر اپنی ماں کے کمرے میں داخل ہوا۔
"امی! آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔"
"ہاں کہو۔۔۔۔۔ کیا بات ہے؟"
اسجد صوفے پر بیٹھ گیا۔ "آپ ہاشم انکل کی طرف نہیں گئیں؟"
"نہیں کیوں خاص بات ہے؟"
"ہاں امامہ اس ویک اینڈ پر آئی ہوئی ہے۔"
"اچھا۔۔۔۔۔ آج شام کو چلیں گے۔۔۔۔۔ تم گئے تھے وہاں؟" شکیلہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"ہاں۔ میں گیا تھا۔"
"کیسی ہے وہ۔۔۔۔۔ اس بار تو خاصے عرصے کے بعد آئی ہے۔" شکیلہ کو یاد آیا۔
"ہاں دو ماہ کے بعد۔۔۔۔۔" شکیلہ کو اسجد کچھ الجھا ہوا لگا۔
"کوئی مسئلہ ہے؟"
"امی مجھے امامہ پچھلے کافی عرصے سے بہت بدلی بدلی لگ رہی ہے۔" اس نے ایک گہرا سانس لیتے ہوئے کہا۔
"بدلی بدلی؟ کیا مطلب۔"
"مطلب تو میں شاید آپ کو نہیں سمجھا سکتا، بس اس کا رویہ میرے ساتھ کچھ عجیب سا ہے۔" اسجد نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
"آج تو وہ ایک معمولی سی بات پر ناراض ہوگئی۔ پہلے جیسے کوئی بات ہی نہیں رہی اس میں۔۔۔۔۔ میں سمجھ نہیں پارہا کہ اسے ہوا کیا ہے۔"
"تمہیں وہم ہوگیا ہوگا اسجد۔۔۔۔۔ اسکا رویہ کیوں بدلنے لگا۔۔۔۔۔ تم کچھ زیادہ ہی جذباتی ہوکر سوچ رہے ہو۔" شکیلہ نے اسے حیرانی سے دیکھا۔
"نہیں امی! پہلے میں بھی یہی سمجھ رہا تھا کہ شاید مجھے وہم ہوگا ہے لیکن اب خاص طور پر آج مجھے اپنے یہ احساسات وہم نہیں لگے ہیں۔ وہ بہت اکھڑے سے انداز میں بات کرتی رہی مجھ سے۔"
"تمہارا کیا خیال ہے، اس کا رویہ کیوں بدل گیا ہے؟" شکیلہ نے برش میز پر رکھتے ہوئے کہا۔
"یہ تو مجھے نہیں پتا؟"
"تم نے پوچھا اس سے؟"
"ایک بار نہیں کئی بار۔۔۔۔۔"
"پھر۔۔۔۔۔۔؟"
"ہر بار آپ کی طرح وہ بھی یہی کہتی ہے کہ مجھے غلط فہمی ہوگئی ہے۔" اس نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
"کبھی کہتی ہے اسٹڈیز کی وجہ سے ایسا ہے۔۔۔۔۔۔ کبھی کہتی ہے اب وہ میچور ہوگئی ہے اس لئے۔۔۔۔۔۔"
"یہ ایسی کوئی غلط بات تو نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے واقعی یہ بات ہو۔" شکیلہ نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
"امی! بات سنجیدگی کی نہیں ہے۔ مجھے لگتا ہے وہ مجھ سے کترانے لگی ہے۔" اسجد نے کہا۔
"تم فضول باتیں کررہے ہو اسجد! میں نہیں سمجھتی کہ ایسی کوئی بات ہوگی، ویسے بھی تم دونوں تو بچپن سے ایک دوسرے کو جانتے ہو، ایک دوسرے کی عادات سے واقف ہو۔"
شکیلہ کو بیٹے کے خدشات بالکل بے معنی لگے۔
"ظاہر ہے۔ عمر کے ساتھ کچھ تبدیلیاں آہی جاتی ہیں، اب بچے تو رہے نہیں ہو تم لوگ۔۔۔۔۔ تم معمولی معمولی باتوں پر پریشان ہونے کی عادت چھوڑ دو۔۔۔۔۔" انہوں نے بیٹے کو سمجھاتے ہوئے کہا۔
"ویسے بھی ہاشم بھائی اگلے سال اسکی شادی کردینا چاہتے ہیں۔ وہ کہہ رہے تھے کہ وہ بعد میں اپنی تعلیم مکمل کرتی رہے گی۔ کم از کم وہ تو اپنے فرض سے سبکدوش ہوجائیں۔" شکیلہ نے انکشاف کیا۔
"انکل نے ایسا کہا؟" اسجد کچھ چونکا۔
"کئی بار کہا ہے۔۔۔۔۔ میرا خیال ہے وہ لوگ تو تیاریاں بھی کررہے ہیں۔" اسجد نے ایک اطمینان بھرا سانس لیا۔
"ہوسکتا ہے امامہ اسی وجہ سے قدرے پریشان ہو۔"
"ہاں ہوسکتا ہے۔۔۔۔۔ بہرحال یہ ہی صحیح ہے۔ اگلے سال شادی ہوجانی چاہیے۔" اسجد نے کچھ مطمئن ہوتے ہوئے کہا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ سولہ سترہ سال کا ایک دبلا پتلا مگر لمبا لڑکا تھا، اس کے چہرے پر بلوغت کا وہ گہرا رواں نظر آرہا تھا جسے ایک بار بھی شیو نہیں کیا گیا تھا اور اس روئیں نے اس کے چہرے کی معصومیت کو برقرار رکھا تھا۔ وہ اسپورٹس شارٹس اور ایک ڈھیلی ڈھالی شرٹ پہنے ہوئے تھا۔ اس کے پیروں میں کاٹن کی جرابیں اور جاگرز تھے، چیونگم چباتے ہوئے اس کی آنکھوں میں ایک عجیب طرح کی بے چینی اور اضطراب تھا۔
وہ اس وقت ایک پرہجوم سڑک کے بیچوں بیچ ایک ہیوی ڈیوٹی موٹر سائیکل پر بیٹھا ہوا تیزی سے تقریبا ً اسے اڑائے لے جارہا تھا۔ وہ کسی قسم کے ہیلمٹ کے بغیر تھا اور بہت ریش انداز میں موٹر سائیکل کو چلا رہا تھا۔ اس نے دو دفعہ سگنل توڑا۔۔۔۔۔ تین دفعہ خطرناک طریقے سے کچھ گاڑیوں کو اوور ٹیک کیا۔۔۔۔۔ چار دفعہ بائیک چلاتے چلاتے اس کا اگلا پہیہ اٹھا دیا اور کتنی ہی دیر دور تک صرف ایک پہیے پر بائیک چلاتا رہا۔۔۔۔۔۔ دو دفعہ دائیں بائیں دیکھے بغیر اس نے برق رفتاری سے اپنی مرضی کا ٹرن لیا۔۔۔۔۔ ایک دفعہ وہ زگ زیگ انداز میں بائیک چلانے لگا، چھ دفعہ اس نے پوری رفتار سے بائیک چلاتے ہوئے اپنے دونوں پاؤں اٹھا دئیے۔
پھر یکدم اسی رفتار سے بائیک چلاتے ہوئے اس نے ون وے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس لین کو توڑا اور دوسری لائن میں زناٹے کے ساتھ گ گھس گیا، سامنے سے آتی ہوئی ٹریفک کی بریکیں یکدم چرچرانے لگیں۔۔۔۔۔ اس نے فل اسپیڈ پر بائیک چلاتے ہوئے یکدم ہینڈل پر سے اپنے ہاتھ ہٹا دیے۔ بائیک پوری رفتار کے ساتھ سامنے سے آنے والی گاڑی کے ساتھ ٹکرائی، وہ ایک جھٹکے کے ساتھ ہوا میں بلند ہوا اور پھر کسی چیز پر گرا۔۔۔۔۔ اسے اندازہ نہیں ہوا۔ اس کا ذہن تاریک ہوچکا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جاری ہے ۔
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: پیر کامل از عمیره احمد

Post by ایکسٹو »

پیر کامل
۔۔۔۔۔
قسط نمبر 3
وہ دونوں لڑکے اسٹیج پر ایک دوسرے کے بالمقابل روسٹرم کے پیچھے کھڑے تھے، مگر ہال میں موجود اسٹوڈنٹس کی نظریں ہمیشہ کی طرح ان میں سے ایک پر مرکوز تھیں، وہ دونوں ہیڈ بوائے کے انتخاب کے لئے کنویسنگ کررہے تھے اور وہ پروگرام بھی اس کا ایک حصہ تھا۔ دونوں کے روسٹرم پر ایک ایک پوسٹر لگا تھا، جن میں سے ایک پر ووٹ فارسالار اور دوسرے پر ووٹ فار فیضان لکھا تھا۔
اس وقت فیضان ہیڈ بوائے بن جانے کے بعد اپنے ممکنہ اقدامات کا اعلان کررہا تھا، جب کہ سالار پوری سنجیدگی کے ساتھ اسے دیکھنے میں مصروف تھا۔ فیضان اسکول کا سب سے اچھا مقرر تھا اوراس وقت بھی وہ اپنے جوش خطابت کے کمال دکھانے میں مصروف تھا اور اسی برٹش لہجے میں بات کررہا تھا جس کےلئے وہ مشہور تھا۔ بہترین ساؤنڈ سسٹم کی وجہ سے اس کی آواز اور انداز دونوں خاصے متاثر کن تھے۔ ہال میں بلاشبہ سکوت طاری تھا اور یہ خاموشی صرف اسی وقت ٹوٹتی جب فیضان کے اسپورٹرز اس کے کسی اچھے جملے پر داد دینا شروع ہوتے ہال یک دم تالیوں سے گونج اٹھتا۔
آدھ گھنٹہ کے بعد وہ جب اپنے لئے ووٹ کی اپیل کرنے کے بعد خاموش ہوا تو ہال میں اگلے کئی منٹ تالیاں اور سیٹیاں بجتی رہیں۔ ان تالیوں میں خود سالار سکندر بھی شامل تھا۔ فیضان نے ایک فاتحانہ نظر ہال پر اور سالار پر ڈالی اور اسے تالیاں بجاتے دیکھ کر اس نے گردن کے ہلکے اشارے سے اسے سراہا، سالار سکندر آسان حریف نہیں تھا، یہ وہ اچھی طرح جانتا تھا۔
اسٹیج سیکرٹری اب سالار کے لئے اناؤنسمنٹ کررہا تھا۔ تالیوں کی گونج میں سالار نے بولنا شروع کردیا۔
"گڈ مارننگ فرینڈز۔" وہ یک لحظہ ٹھہرا۔ "فیضان اکبر ایک مقرر کے طور پر یقیناً ہمارے اسکول کا اثاثہ ہیں۔ میں یا دوسرا کوئی بھی ان کے مقابلے میں کسی اسٹیج پر کھڑا نہیں ہوسکتا۔" وہ ایک لمحہ کے لئے رکا اس نے فیضان کے چہرے کو دیکھا۔ جس پر ایک فخریہ مسکراہٹ ابھر رہی تھی مگر سالار کے جملے کے باقی حصے نے اگلے لمحے اس مسکراہٹ کو غائب کردیا۔
"اگر معاملہ صرف باتیں بنانے کا ہو تو۔"
ہال میں ہلکی سی کھلکھلاہٹیں ابھریں۔ سالار کے لہجے کی سنجیدگی برقرار تھی۔
"مگر ایک ہیڈ بوائے اور مقرر میں بہت فرق ہوتا ہے۔ مقرر کو باتیں کرنی ہوتی ہیں۔ ہیڈ بوائے کو کام کرنا ہوتا ہے۔ دونوں کے درمیان talkerاورdoer کا فرق ہوتا ہے اور
Great talkers are not great doers۔" سالار کے سپورٹرز کی تالیوں سے ہال گونج اٹھا۔
"میرے پاس فیضان اکبر جیسے خوبصورت لفظوں کی روانی نہیں ہے۔" اس نے اپنی بات جاری رکھی۔ "میرے پاس صرف میرا نام ہے اور میرا متاثر کن ریکارڈ اور مجھے کنویسنگ کے لئے لفظوں کے کوئی دریا نہیں بہانے، مجھے صرف الفاظ کہنے ہیں۔" وہ ایک بار پھر رکا۔
"trust me and vote for me۔" )مجھ پر اعتماد کریں اور مجھے ووٹ دیں(۔
اس نے شکریہ ادا کرتے ہوئے جس وقت اپنے مائیک کو آف کیااس وقت ہال تالیوں سے گونج رہا تھا ایک منٹ چالیس سیکنڈز میں وہ اسی نپے تلے اورcalculated انداز میں بولا تھا، جو اس کا خاصا تھا۔۔۔۔۔ اور اسی ڈیڑھ منٹ نے فیضان کا تختہ کردیا تھا۔
اس ابتدائی تعارف کے بعد دونوں امیدواروں سے سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ سالار سکندر ان جوابات میں بھی اتنے ہی اختصار سے کام لے رہا تھا جتنا اس نے اپنی تقریر میں لیا تھا۔ اس کا سب سے طویل جواب چار جملوں پر مشتمل تھا جبکہ فیضان کا سب سے مختصر جواب بھی چار جملوں پر مشتمل نہیں تھا۔ فیضان کی فصاحت و بلاغب جو پہلے اس کی خوبی سمجھی جاتی تھی اس وقت اس اسٹیج پر سالار کے مختصر جوابات کے سامنے چرب زبانی نظر آرہی تھی اور اس کا احساس خود فیضان کو بھی ہورہا تھا جس سوال کا جواب سالار ایک لفظ یا ایک جملے میں دیتا، اس کے لئے فیضان کو عادتاً تمہید باندھنی پڑتی اور سالار کا اپنی تقریر میں اس کے بارے میں کیا ہوا یہ تبصرہ وہاں موجود اسٹوڈنٹس کو کچھ اور صحیح محسوس ہوتاکہ ایک مقرر صرف باتیں کرسکتا ہے۔
"سالار سکندر کو ہیڈ بوائے کیوں ہونا چاہیے؟" سوال کیا گیا۔
"کیونکہ آپ بہترین شخص کا انتخاب چاہتے ہیں۔" جواب آیا۔
"کیا یہ جملہ خود ستائشی نہیں ہے؟" اعتراض کیا گیا۔
"نہیں یہ جملہ خود شناسی ہے۔" اعتراض کو رد کردیا گیا۔
"خود ستائشی اور خودشناسی میں کیا فرق ہے؟" ایک بار پھر چبھتے ہوئے لہجے میں پوچھا گیا۔
"وہی جو فیضان اکبر اور سالار سکندر میں ہے۔" سنجیدگی سے کہا گیا۔
"اگر آپ کو ہیڈ بوائے نہ بنایا تو آپ کو کیا فرق پڑے گا؟"
"فرق مجھے نہیں آپ کو پڑے گا۔"
"کیسے۔۔۔۔۔؟"
"اگر بہترین آدمی کو ملک کا لیڈر نہ بنایا جائے تو فرق قوم کو پڑتا ہے، اس بہترین آدمی کو نہیں۔"
"آپ اپنے آپ کو پھر بہترین آدمی کہہ رہے ہیں۔" ایک بار پھر اعتراض کیا گیا۔
"کیا اس ہال میں کوئی ایسا ہے جو خود کو برے آدمی کے ساتھ equate کرے؟"
"ہوسکتا ہے ہو۔"
"پھر میں اس سے ملنا چاہوں گا۔" ہال میں ہنسی کی آوازیں ابھریں۔
"ہیڈبوائے بننے کے بعد سالار سکندر جو تبدیلیاں لائے گا اس کے بارے میں بتائیں۔"
"تبدیلی بتائی نہیں جاتی دکھائی جاتی ہے اور یہ کام میں ہیڈ بوائے بننے سے پہلے نہیں کرسکتا۔"
چند اور سوال کئے گئے پھر اسٹیج سیکرٹری نے حاضرین میں سے ایک آخری سوال لیا۔ وہ ایک سری لنکن لڑکا تھا جو کچھ شرارتی انداز میں مسکراتے ہوئے کھڑا ہوا۔
"اگر آپ میرے ایک سوال کا جواب دے دیں تو میں اور میرا پورا گروپ آپ کو ووٹ دے گا۔"
سالار اس کی بات پر مسکرایا۔ "جواب دینے سے پہلے میں جاننا چاہوں گا کہ آپ کے گروپ کے لوگ کتنے ہیں؟" اس نے پوچھا۔
"چھ۔۔۔۔۔" اس لڑکے نے کہا۔
سالار نے سرہلایا۔ "اوکے۔ سوال کریں۔"
"آپ کو کچھ حساب کتاب کرتے ہوئے مجھے بتانا ہے کہ اگر ہم 267895 میں 952852 کو جمع کریں پھر اس میں سے 399999 کو تفریق کریں پھر اس میں 929292 کو جمع کریں اور اسے۔۔۔۔۔" وہ سری لنکن لڑکا ٹھہر ٹھہر کر ایک کاغذ پر لکھا ہوا ایک سوال پوچھ رہا تھا۔ "چھ کے ساتھ ضرب دیں پھر اسے دو کے ساتھ تقسیم کریں اور جواب میں 492359 کو جمع کردیں تو کیا جواب آئے۔۔۔۔۔" وہ لڑکا اپنی بات مکمل نہ کرسکا۔
"8142473۔" بڑی برق رفتاری کے ساتھ سالار نے جواب دیا۔ اس لڑکے نے کاغذ پر ایک نظر دوڑائی اور پھر کچھ بے یقینی سے سرہلاتے ہوئے تالیاں بجانے لگا۔ فیضان اکبر کو اس وقت اپنا آپ ایک ایکٹر سے زیادہ نہیں لگا۔ پورا ہال اس لڑکے ساتھ تالیاں بجانے میں مصروف تھا۔ فیضان اکبر کو وہ پورا پروگرام ایک مذاق محسوس ہونے لگا۔
ایک گھنٹہ کے بعد جب وہ سالار سکندر سے پہلے اس اسٹیج سے اتر رہا تھا تو وہ جانتا تھا کہ وہ مقابلے سے پہلے ہی مقابلہ ہار چکا تھا۔ 150 کے آئی کیو لیول والے اس لڑکے سے اسے زندگی میں اس سے پہلے کبھی اتنا حسد محسوس نہیں ہوا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"امامہ آپا! آپ لاہور کب جائیں گی؟"
وہ اپنے نوٹس کو دیکھتے ہوئے چونکی۔ سر اٹھا کر اس نے سعد کو دیکھا۔ وہ سائیکل کی رفتار کو اب بالکل آہستہ کئے اس کے گرد چکر لگا رہا تھا۔
"کل۔۔۔۔۔ کیوں۔۔۔۔۔؟ تم کیوں پوچھ رہے ہو؟" امامہ نے اپنی فائل بند کرتے ہوئے کہا۔
"جب آپ چلی جاتی ہیں تو میں آپ کو بہت مس کرتا ہوں۔" وہ بولا۔
"کیوں۔۔۔۔۔؟" امامہ نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
"کیونکہ آپ مجھے بہت اچھی لگتی ہیں اور آپ میرے لئے بہت سے کھلونے لاتی ہیں اور آپ مجھے سیر کروانے لے کر جاتی ہیں اور آپ میرے ساتھ کھیلتی ہیں اس لئے۔" اس نے تفصیلی جواب دیا۔
"آپ مجھے اپنے ساتھ لاہور نہیں لے جاسکتیں؟" امامہ اندازہ نہیں کرسکی، یہ تجویز تھی یا سوال۔۔۔۔۔
"میں کیسے لے جاسکتی ہوں۔۔۔۔۔ میں تو خود ہاسٹل میں رہتی ہوں، تم کیسے رہو گے وہاں؟" امامہ نے کہا۔
سعد سائیکل چلاتے ہوئے کچھ سوچنے لگا پھر اس نے کہا۔ "تو پھر آپ جلدی یہاں آیا کریں۔"
"اچھا جلدی آیا کروں گی۔" امامہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔ "تم ایسا کیا کرو کہ مجھ سے فون پر بات کرلیا کرو۔ میں فون کیا کروں گی تمہیں۔"
"ہاں یہ ٹھیک ہے۔" سعد کو اس کی تجویز پسند آئی۔ سائیکل کی رفتا رمیں اضافہ کرتے ہوئے وہ لان کے لمبے لمبے چکر کاٹنے لگا۔ امامہ بے دھیانی کے عالم میں اسے دیکھنے لگی۔
وہ اس کا بھائی نہیں تھا، دس سالہ سعد پانچ سال پہلے ان کے گھر آیا تھا کہاں سے آیا تھا اس کے بارے میں وہ نہیں جانتی تھی، کیونکہ اسے اس کے بارے میں اس وقت کوئی تجسس نہیں ہوا تھا مگر کیوں لایا گیا تھا۔ یہ وہ اچھی طرح جانتی تھی۔ سعد اب دس سال کا تھا اور وہ گھر میں بالکل گھل مل گیا تھا۔ امامہ سے وہ سب سے زیادہ مانوس تھا۔ امامہ کو اس پر اکثر ترس آتا۔ ترس کی وجہ اس کا لاوارث ہونا نہیں تھا۔ ترس کی وجہ اس کا مستقبل تھا۔۔۔۔۔ اس کے دو چچاؤں اور ایک تایا کے گھر بھی اس وقت اسی طرح کے گود لئے ہوئے بچے پل رہے تھے۔ وہ ان کے مستقبل پر بھی ترس کھانے پر مجبور تھی۔
فائل ہاتھ میں پکڑے سائیکل پر لان میں گھومتے سعد پر نظریں جمائے وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی۔ اسے دیکھتے ہوئے وہ اسی طرح کی بہت سی سوچوں میں الجھ جاتی تھی مگر اس کے پاس کوئی حل نہیں تھا۔ وہ اس کے لئے کچھ نہیں کرسکتی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ چاروں اس وقت لاہور کے ریڈ لائٹ ایریا میں موجود تھے۔ ان کی عمریں اٹھارہ انیس سال کے لگ بھگ تھیں اور اپنے حلیے سے وہ چاروں اپر کلاس کے لگتے تھے مگر وہاں پر نہ ان کی عمر کوئی نمایاں کردینے والی چیز تھی نہ ہی ان کی اپرکلاس سے تعلق رکھنے کی امتیازی خصوصیت۔۔۔۔۔ کیونکہ وہاں پر ان میں سے بھی کم عمر لڑکے آتے تھے اور اپر کلاس اس علاقے کے مستقل کسٹمرز میں شامل تھی۔
چاروں لڑکے ریڈ لائٹ ایریا کی ٹوٹی ہوئی گلیوں سے گزرتے جارہے تھے، تین لڑکے آپس میں باتیں کررہے تھے، جب کہ صرف چوتھا قدرے تجسس اور دلچسپی سے چاروں طرف دیکھ رہا تھا، یوں لگ رہا تھا جیسے وہ پہلی بار وہاں آیا تھا اور ان تینوں کے ساتھ تھوڑی دیر بعد ہونے والی اس کی گفتگو سے یہ ظاہر ہوگیا تھا کہ وہ واقعی وہاں پہلی بار آیا تھا۔
گلی کے دونوں اطراف میں کھلے دروازوں میں بناؤ سنگھار کئے نیم عریاں کپڑوں میں ملبوس ہر عمر اور ہر شکل کی عورت کھڑی تھیں سفید۔۔۔۔۔ سانولی۔۔۔۔۔ سیاہ۔۔۔۔۔ گندمی۔۔۔۔۔ بہت خوبصورت۔۔۔۔۔ درمیانی۔۔۔۔۔ اور معمولی شکل و صورت والی۔
گلی میں ہر شکل اور عمر کا مرد گزر رہا تھا۔ وہ لڑکا وہاں سے گزرتے ہوئے ہر چیز پر غور کررہا تھا۔
"تم یہاں کتنی بار آئے ہو؟" چلتے چلتے اس لڑکے نے اچانک اپنے دائیں طرف چلنے والے لڑکے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
وہ لڑکا جواباً ہنسا "کتنی بار۔۔۔۔۔؟ یہ تو پتا نہیں۔۔۔۔۔ اب تو گنتی بھی بھول چکا ہوں، اکثر آتا ہوں یہاں پر۔" اس لڑکے قدرے فخریہ انداز میں کہا۔
"ان عورتوں میں مجھے کوئی اٹریکشن محسوس نہیں ہورہی۔"
" nothing special about them۔" اس نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
"اگر کہیں رات ہی گزارنی ہو تو کم از کمenvironment )ماحول( تو اچھا ہو۔ “its such a dirty, filthy place” )یہ تو بہت ہی گندی جگہ ہے(۔" اس نے گلی میں موجود گڑھوں اور کوڑے کے ڈھیروں کو دیکھتے ہوئے کچھ ناگواری سے کہا۔
"پھر گرل فرینڈز کے ہوتے ہوئے یہاں آنے کی کیا ضرورت ہے؟" اس نے اس بار اپنی بھنویں اچکاتے ہوئے کہا۔
"اس جگہ کا اپنا ایک چارم ہے۔ گرل فرینڈز اور یہاں کی عورتوں کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ گرل فرینڈز اس طرح کے ڈانس تو نہیں دکھا سکتیں جو ابھی کچھ دیر بعد تم دیکھو گے۔" تیسرا لڑکا ہنسا۔ "اور پھر پاکستان کی جس بڑی ایکٹریس کا ڈانس دکھانے ہم تمہیں لے جارہے ہیں وہ تو بس۔۔۔۔۔"
دوسرے لڑکے کی بات پہلے لڑکے نے کاٹ دیا۔ "اس کا ڈانس تو تم پہلے بھی دکھا چکے ہو۔"
"ارے وہ کچھ بھی نہیں تھا۔ بھائی کی شادی پر ایک مجرا کیا تھا۔۔۔۔۔ مگر یہاں پر تو بات ہی کچھ اور ہوتی ہے۔"
"وہ ایکٹریس تو ایک پوش علاقے میں رہتی ہے پھر یہاں کیوں آتی ہے؟" پہلے لڑکے نے کچھ غیر مطمئن انداز میں اس سے پوچھا۔
"یہ تم آج خود اس سے پوچھ لینا میں کبھی اس سے اس طرح کے سوال نہیں کرتا۔" دوسرے لڑکے کی بات پر باقی دونوں لڑکے ہنسے مگر تیسرا اسی طرح چبھتی ہوئی نظروں سے اسے دیکھتا رہا۔
ان کا سفر بالآخر اس گلی کے آخر میں ایک عمارت کے سامنے ختم ہوگیا، عمارت کے نیچے موجود دکان سے تینوں لڑکوں نے موتیے کے بہت سے ہار خریدے اور اپنی کلائیوں میں لپیٹ لئے۔ ایک ہار دوسرے لڑنے اس لڑکے کی کلائی میں بھی لپیٹ دیا جو وہاں آنے پر اعتراض کررہا تھا پھر ان لوگوں نے وہاں سے پان خریدے۔ تمباکو والا پان دوسرے لڑکے نے اس لڑکے کو بھی دیا جو شاید زندگی میں پہلی بار پان کھا رہا تھا۔ پان کھاتے ہوئے وہ چاروں اس عمارت کی سیڑھیاں چڑھنے لگے۔ اوپر پہنچ کر پہلے لڑکے نے ایک بار پھر تنقیدی نظروں سے چاروں طرف دیکھا اور پھر اس کے چہرے پر اطمینان کی ایک جھلک نمودار ہوئی۔ وہ جگہ بہت صاف ستھری اور خاصی حد تک آراستہ تھی۔
گاؤ تکیے اور چاندنیاں بچھی ہوئی تھیں اور باریک پردے لہرا رہے تھے، کچھ لوگ پہلے ہی وہاں موجود تھے۔ رقص ابھی شروع نہیں ہوا تھا ایک عورت لپکتی ان کی طرف آئی۔ اس کے چہرے پر ایک خوبصورت مصنوعی مسکراہٹ سجی ہوئی تھی اس نے دوسرے لڑکے کو مخاطب کیا پہلے لڑکے نے غور سے اس عورت کو دیکھا۔ ادھیڑ عمر کی وہ عورت اپنے چہرے پر بے تحاشا میک اپ تھوپے اور بالوں میں موتیے اور گلاب کے گجرے لٹکائے، شیفون کی ایک چنگھاڑتی ہوئی سرخ ساڑھی میں ملبوس تھی۔ جس کا بلاؤز اس کے جسم کو چھپانے میں ناکام ہورہا تھا مگر وہ جسم کو چھپانے کے لئے پہنا گیا بھی نہیں تھا۔ ان چاروں کو وہ ایک کونے میں لے گئی اور وہاں اس نے انہیں بٹھا دیا۔
پہلے لڑکے نے وہاں بیٹھتے ہی منہ میں موجود پان اس گلدان میں تھوک دیا، جو ان کے قریب موجود تھا کیونکہ پان منہ میں ہوتے ہوئے اس سے بات کرنا مشکل ہورہا تھا، پان کا ذائقہ بھی اس کے لئے کچھ زیادہ خوشگوار نہیں تھا۔ تینوں لڑکے وہاں بیٹھ مدھم آواز میں باتیں کرنے لگے جبکہ پہلا لڑکا اس ہال کے چاروں طرف موجود گاؤ تکیوں سے ٹیک لگائے ہوئے لوگوں کو دیکھتا رہا جن میں سے کچھ اپنے سامنے شراب کی بوتلیں اور نوٹوں کی گڈیاں رکھے بیٹھے تھے۔ ان میں سے اکثریت سفید لٹھے کے کلف لگے کپڑوں میں ملبوس تھی۔ اس نے عید کے اجتماعات کے علاوہ آج پہلی بار کسی اور جگہ پر سفید لباس پہننے والوں کا اتنا بڑا اجتماع دیکھا تھا۔ خود وہ اپنے ساتھیوں کی طرح سیاہ جینز اور اسی رنگ کی آدھے بازوؤں والی ٹی شرٹ میں ملبوس تھا۔ ان کی عمر کے کچھ اور لڑکے بھی وہاں انہیں کی طرح جینز اور ٹی شرٹس میں ملبوس تھے۔
تھوڑی دیر بعد ایک اور عورت اسی طرح چیختے چنگھاڑتے رنگوں والے کپڑوں میں ملبوس وہاں آکر ہال کے درمیان میں بیٹھ کر ایک غزل سنانے لگی تھی۔ اس کے ساتھ کچھ سازندے بھی تھے۔ دو غزلیں سنانے اور اپنے اوپر اچھالے جانے والے کچھ نوٹ اٹھا کر وہ خاصی خوش اور مطمئن واپس چلی گئی اور اس کے جانے کے فورا ً بعد ہی فلم انڈسٹری کی وہ ایکٹریس ہال میں داخل ہوئی اور ہال میں موجود ہر مرد کی نظر اس سے جیسے چپک کر رہ گئی تھی۔ اس نے ہال میں باری باری چاروں طرف گھوم کر ہر ایک کو سر کے اشارے سے خوش آمدید کہا تھا۔
سازندوں کو اس بار کسی تکلیف کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ کیسٹ پلئیر پر باری باری چند ہیجان انگیز گانے لگائے گئے تھے جن پر اس عورت نے اپنا رقص پیش کرنا شروع کیا تھا اور کچھ دیر پہلے کی خاموشی یکدم ختم ہوگئی تھی چاروں طرف موجود مرد اس عورت کو داد و تحسین پیش کرنے کے ساتھ ساتھ شراب نوشی میں مصروف تھے۔ ان میں سے کچھ جو زیادہ جوش میں آرہے تھے وہ اٹھ کر اس ایکٹرس کے ساتھ ڈانس میں مصروف ہوجاتے۔
ہال میں واحد شخص جو اپنی جگہ پر کسی حرکت کے بغیر بے تاثر چہرے کے ساتھ بیٹھا تھا وہ وہی لڑکا تھا مگر اس کے باوجود یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ وہ اس ایکٹریس کے رقص سے خاصا محظوظ ہورہا تھا۔
تقریباً دو گھنٹے کے بعد جب اس ایکٹریس نے اپنا رقص ختم کیا تو وہاں موجود آدھے سے زیادہ مرد اتنا غفیل ہوچکے تھے، واپس گھر جانا انکے لئے مسئلہ اس لئے نہیں تھا کیونکہ ان میں سے کوئی بھی گھرجانے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔ وہ سب وہاں رات گزارنے آئے تھے۔ ان چاروں نے بھی رات وہاں گزاری۔
اگلے دن وہاں سے واپسی پر گاڑی میں اس دوسرے لڑکے نے جماہی لیتے ہوئے پہلے لڑکے سے پوچھا، جو اس وقت لاپروائی سے گاڑی سے باہر دیکھنے میں مصروف تھا۔
"کیسا رہا یہ تجربہ؟"
"اچھا تھا۔۔۔۔۔" پہلے لڑکے نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
"بس اچھا تھا۔۔۔۔۔ اور کچھ نہیں۔۔۔۔۔ تم بھی بس۔۔۔۔۔" اس نے قدرے ناراضی کے عالم میں بات ادھوری چھوڑ دی۔
"کبھی کبھار جانے کے لئے اچھی جگہ ہے۔۔۔۔۔ اس کے علاوہ اور کیا کہہ سکتا ہوں۔۔۔۔۔ مگرsomething specialوالی کوئی بات نہیں ہے۔ میری گرل فرینڈ اس لڑکی سے بہتر ہے جس کے ساتھ میں نے رات گزاری ہے۔"
اس لڑکے نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ڈائننگ ٹیبل پر ہاشم مبین کی پوری فیملی موجود تھی۔ کھانا کھاتے ہوئے وہ سب آپس میں خوش گپیوں میں بھی مصروف تھے۔ موضوعِ گفتگو اس وقت امامہ تھی جو اس ویک اینڈ پر بھی اسلام آباد موجود تھی۔
"بابا۔۔۔۔۔ آپ نے یہ بات نوٹ کی کہ امامہ دن بہ دن سنجیدہ سے سنجیدہ ہوتی جارہی ہے۔" وسیم نے قدرے چھیڑنے والے انداز میں امامہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
"ہاں۔ یہ تو میں بھی پچھلے کئی ماہ سے نوٹ کررہا ہوں۔" ہاشم مبین نے وسیم کی بات پر بیٹی کے چہرے کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
امامہ نے چاولوں کا چمچہ منہ میں رکھتے ہوئے وسیم کو گھورا۔
"کیوں امامہ! کوئی مسئلہ ہے؟"
"بابا! یہ بڑی فضول باتیں کرتا ہے اور آپ بھی خوامخواہ اسکی باتوں میں آرہے ہیں۔ میں اپنی اسٹڈیز کی وجہ سے مصروف اور سنجیدہ ہوں۔ اب ہر کوئی وسیم کی طرح نکما تو نہیں ہوتا۔" اس نے اپنے ساتھ بیٹھے وسیم کے کندھے پر کچھ ناراضی سے ہلکا سا ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔
"بابا! آپ ذرا اندازہ کریں، میڈیکل کے شروع کے سالوں میں اس کا یہ حال ہے تو جب یہ ڈاکٹر بن جائے گی تب اس کا کیا حال ہوگا۔" وسیم نے امامہ کی تنبیہ کی پروا نہ کرتے ہوئے اس کا مذاق اڑایا۔ "سالوں گزر جایا کریں گے مس امامہ ہاشم کو مسکرائے ہوئے۔"
ڈائننگ ٹیبل پر موجود لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔ ان دونوں کے درمیان نوک جھونک ہمیشہ ہی رہتی تھی۔ بہت کم مواقع ہوتے تھے جب وہ دونوں اکٹھے ہوں اور ان کے درمیان آپس میں جھگڑا نہ ہو۔ مستقل بنیادوں پر ہوتے رہنے والے ان جھگڑوں کے باوجود امامہ کی سب سے زیادہ دوستی بھی وسیم کے ساتھ ہی تھی۔ اس کی وجہ شاید ان کی اوپر تلے کی پیدائش بھی تھی۔
"اور آپ تصور کریں۔۔۔۔۔" اس بار امامہ نے اسے اپنی بات مکمل کرنے نہیں دی، اس نے اس کے کندھے پر پوری قوت سے مکا مارا۔ وسیم پر کچھ زیادہ اثر نہیں ہوا۔
"ہمارے گھر میں ایک ڈاکٹر کے ہاتھ میں شفا کے سوا اور کیا کیا ہوسکتا ہے۔ آپ اس کا مظاہرہ دیکھ رہے ہیں اس سے آپ یہ اندازہ بھی لگا سکتے ہیں کہ آج کل کے ڈاکٹرز وارڈ میں مریضوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہوں گے۔ ملک میں بڑھتی شرحِ اموات کی ایک وجہ۔۔۔۔۔"
"بابا! اس کو منع کریں۔" امامہ نے بالآخر ہتھیار ڈالتے ہوئے ہاشم مبین سے کہا۔
"وسیم۔۔۔۔۔" ہاشم مبین نے اپنی مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے وسیم کو جھڑکا، وہ بڑی سعادت مندی سے فوراً خاموش ہوگیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اس نے پورے لفافے کو گرائنڈر میں خالی کردیا اور پھر اسے بند کرکے چلا دیا۔ خانساماں اسی وقت اندر آیا۔
"چھوٹے صاحب! لائیں، میں آپ کی مدد کردوں۔" وہ اس کی طرف بڑھا مگر اس نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روک دیا۔
"نہیں میں خود کرلیتا ہوں۔ تم مجھے دودھ کا ایک گلاس دے دو۔" اس نے گرائنڈر آف کرتے ہوئے کہا۔ خانساماں ایک گلاس میں دودھ لے کر اس کے پاس چلا آیا۔ دودھ کے آدھے گلاس میں اس نے گرائنڈر میں موجود تمام پاؤڈر ڈال دیا اور ایک چمچہ سے اچھی طرح ہلانے لگا پھر ایک ہی سانس میں وہ دودھ پی گیا۔
"کھانے میں آج کیا پکایا ہے تم نے؟" اس نے خانساماں سے پوچھا۔
خانساماں نے کچھ ڈشز گنوانی شروع کردیں۔ اس کے چہرے پر کچھ ناگواری ابھری۔
"میں کھانا نہیں کھاؤں گا، سونے جارہا ہوں، مجھے ڈسٹرب مت کرنا۔"
اس نے سختی سے کہا اور کچن سے نکل گیا۔
پیروں میں پہنی ہوئی باٹا کی چپل کو وہ فرش پر تقریباً گھسیٹ رہا تھا۔ اس کی شیو بڑھی ہوئی تھی اور آنکھیں سرخ تھیں۔ شرٹ کے چند ایک کے سوا سارے ہی بٹن کھلے ہوئے تھے۔
اپنے کمرے میں جاکر اس نے دروازے کو لاک کرلیا اور وہاں موجود جہازی سائز کے میوزک سسٹم کی طرف گیا اور کمرے میں بولٹن کا "when a man loves a woman" بلند آواز میں بجنے لگا۔ وہ ریموٹ لے کر اپنے بیڈ میں آگیا اور اوندھے منہ بے ترتیبی کے عالم میں لیٹ گیا۔
اس کا ریموٹ والا بایاں ہاتھ بیڈ سے نیچے لٹک رہا تھا اور مسلسل ہل رہا تھا۔ اس کے دونوں پاؤں بھی میوزک کے ساتھ گردش میں تھے۔
کمرے میں بیڈ اور اس کے اپنے حلیے کے علاوہ ہر چیز اپنی جگہ پر تھی، کہیں پر کچھ بھی بے ترتیب نہیں تھا۔ کہیں پر گرد کا ایک ذرہ تک نظر نہیں آرہا تھا۔ میوزک سسٹم کے پاس موجود دیواری شیلف میں تمام آڈیو اور وڈیو کیسٹس بڑے اچھے طریقے سے لگی ہوئی تھیں۔ ایک دوسری دیوار میں موجود ریکس پر کتابوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ کونے میں پڑی ہوئی کمپیوٹر ٹیبل سے عیاں تھا کہ اسے استعمال کرنے والا بہت آرگنائزڈ ہے۔ کمرے کی مختلف دیواروں پر ہالی وڈ کی ایکٹریسز اور وہاں کے بینڈز کے پوسٹرز لگے تھے۔ میوزک سسٹم جس دیوار کے ساتھ موجود تھا اسی دیوار کے ایک کونے میں دیوار پر ایک الیکٹرک گٹار لٹکایا گیا تھا اور اسی کونے میں ایک کی بورڈ بھی اسٹینڈ پر رکھا ہوا تھا۔ دیوار پر گٹار سے کچھ فاصلے پر piccolo، فلوٹ اورobue بھی لٹکائے گئے تھے اس کمرے کے مکین کو یقیناً میوزک سے گہری دلچسپی تھی۔ بیڈ کے بالکل سامنے والی دیوار میں موجود کیبنٹ میں ٹی وی موجود تھا اور اسی کیبنٹ کے مختلف خانوں میں مختلف ٹرافیز اور شیلڈز پڑی ہوئی تھیں۔
کمرے کا چوتھا کونا بھی خالی نہیں تھا وہاں دیوار پر مختلف ریکٹس لٹکے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک ٹینس کا تھا اور دو اسکواش کے، ان ریکٹس کو دیوار پر لٹکانے سے پہلے نیچے پوسٹرز لگائے گئے تھے اور پھر ریکٹس اس طرح لٹکائے گئے تھے کہ یوں لگتا تھا وہ ریکٹس ان کھلاڑیوں نے پکڑے ہوں ٹینس کے ریکٹ کے نیچے گبریلا سباٹینی کا پوسٹر تھا جب کہ اسکواش کے ایک ریکٹ کے نیچے جہانگیر خان کا پوسٹر تھا جب کہ دوسرے ریکٹ کے نیچے روڈنی مارٹن کا۔
کمرے میں واحد جگہ جہاں بے ترتیبی تھی وہ ڈبل بیڈ تھا، جس پر وہ لیٹا ہوا تھا۔ سلک کی بیڈ شیٹ بری طرح سلوٹ زدہ تھی اور اس پر ادھر ادھر چند پورنوگرافی کے غیر ملکی میگزین پڑے تھے جن میں پلے بوائے نمایاں تھا بیڈ پر ایک پیپر کٹر اور کاغذ کی کچھ چھوٹی چھوٹی کترنیں بھی پڑی ہوئی تھیں۔ یقیناً کچھ دیر پہلے وہ ان میگزینز سے تصویریں کاٹ رہا تھا۔ چیونگمز کے کچھ ریپرز بھی تڑے مڑے بیڈ پر ہی پڑے ہوئے تھے۔ ڈن ہل کا ایک پیکٹ اور لائٹر بھی ایش ٹرے کے ساتھ بیڈ پر ہی پڑا تھاجبکہ سلک کی سفید چمک دار بیڈ شیٹ پر کئی جگہ ایسے نشان تھے جیسے وہاں پر سگریٹ کی راکھ بھی تھی۔ کافی کا ایک خالی مگ بھی بیڈ پر پڑا ہوا تھا اور اسکے پاس ایک ٹائی اور رسٹ واچ بھی تھی۔ ان سب چیزوں سے کچھ فاصلے پر سرہانے ایک موبائل پڑا تھا جس پر یکدم کوئی کال آنے لگی تھی۔ بیڈ پر اوندھے منہ لیٹا ہوا وہ نوجوان اب شاید نیند کے عالم میں تھا کیونکہ موبائل کی بیپ پر اس نے سر اٹھائے بغیر اپنا دایاں ہاتھ بیڈ پر اِدھر اُدھر پھیرتے ہوئے جسے موبائل تلاش کرنے کی کوشش کی مگر موبائل اس کے ہاتھ کی رسائی سے بہت دور تھا۔ اس پر مسلسل کال آرہی تھی۔ کچھ دیر اسی طرح اِدھر اُدھر ہاتھ پھیرنے کے بعد اس کا ہاتھ ساکت ہوگیا شاید اب وہ واقعی سوچکا تھا کیونکہ اس کے تھرکتے پیر رک چلے تھے۔ موبائل پر اب بھی کال آرہی تھی۔ بیڈ سے باہر نکلے ہوئے اس کے بائیں ہاتھ میں پکڑا ہوا ریموٹ یک دم اس کی گرفت سے نکل کر نیچے کارپٹ پر گر پڑا۔ مائیکل بولٹن کی آواز ابھی بھی کمرے میں گونج رہی تھی۔ "when a man loves a woman۔" پھر یکدم کمرے کے دروازے پر کسی نے دستک دی اور پھر دستک کی یہ آواز بڑھتی ہی گئی۔ موبائل کی کال ختم ہوچکی تھی، دروازے پر دستک دینے والے ہاتھ بڑھتے گئے وہ بیڈ پر اوندھے منہ بے حس و حرکت پڑا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"ڈونٹ ٹیل می، امامہ! کیا تم واقعی انگیجڈ ہو؟"
زینب کو جویریہ کے انکشاف پر جیسے کرنٹ لگا۔ امامہ نے ملامتی نظروں سے جویریہ کو دیکھا جو پہلے ہی معذرت خواہانہ انداز میں اسے دیکھ رہی تھی۔
"اسے نہیں مجھے دیکھ کر بتاؤ، کیا تم واقعی انگیجڈ ہو؟" زینب نے اس بار اسے کچھ جھڑکتے ہوئے کہا۔
"ہاں، مگر یہ اس قدر غیر معمولی اور حیرت انگیز واقعہ تو نہیں کہ تم اس پر اس طرح ریکٹ کرو۔" امامہ نے بڑی رسانیت سے کہا۔ وہ سب لائبریری میں بیٹھی ہوئی تھیں اور اپنی طرف سے حتی المقدور سرگوشیوں میں باتیں کررہی تھیں۔
"مگر تمہیں ہمیں بتانا تو چاہیے تھا، آخر راز میں رکھنے کی کیا ضرورت تھی۔" اس بار رابعہ نے کہا۔
"راز میں تو نہیں رکھا، بس یہ کوئی اتنا اہم واقعہ نہیں تھا کہ تمہیں بتاتی اور پھر تم لوگوں سے میری دوستی تو اب ہوئی ہے جبکہ اس منگنی کو کئی سال گزر چکے ہیں۔" امامہ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا۔
"کئی سال سے کیا مراد ہے تمہاری؟"
"میرا مطلب ہے، دو تین سال۔"
"پھر بھی امامہ! بتانا تو چاہیے تھا تمہیں۔۔۔۔۔" زینب کا اعتراض ابھی بھی اپنی جگہ قائم تھا۔ امامہ نے مسکراتے ہوئے زینب کو دیکھا۔
"اب کروں گی تو اور کسی کو بتاؤں یا نہ بتاؤں تمہیں ضرور بتاؤں گی۔"
"ویری فنی۔" زینب نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔
"اور کچھ نہیں تو تم ہمیں کوئی تصویر وغیرہ ہی لاکر دکھا دو موصوف کی۔۔۔۔۔ ہے کون؟۔۔۔۔۔ نام کیا ہے؟۔۔۔۔۔ کیا کرتا ہے؟"
رابعہ ہمیشہ کی طرح ایک ہی سانس میں سوال درسوال کرڈالے۔
"فرسٹ کزن ہے۔۔۔۔۔ اسجد نام ہے۔" امامہ نے رک رک کر کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ "ایم بی اے کیا ہے اس نے اور بزنس کرتا ہے۔"
"شکل و صورت کیسی ہے؟" اس بار زینب نے پوچھا۔ امامہ نے غور سے اس کے چہرے کو دیکھا۔
"ٹھیک ہے۔"
"ٹھیک ہے؟ میں تم سے پوچھ رہی ہوں لمبا ہے؟ ڈارک ہے؟ ہینڈسم ہے؟" اس بار امامہ مسکراتے ہوئے کچھ کہے بغیر زینب کو دیکھتی رہی۔
"امامہ نے اپنی پسند سے یہ منگنی کی ہے۔۔۔۔۔ وہ اچھا خاصا گڈ لکنگ ہے۔" جویریہ نے اس بار امامہ کی طرف سے جواب دیتے ہوئے کہا۔
"ہاں۔ ہمیں اندازہ کرلینا چاہیے تھا، آخر وہ امامہ کا فرسٹ کزن ہے۔۔۔۔۔ اب امامہ! تمہارا اگلا کام یہ ہے کہ تم ہمیں اس کی تصویر لاکر دکھاؤ۔" زینب نے کہا۔
"نہیں، اس سے پہلے کا ضروری کام یہ ہے کہ تم ہمیں کچھ کھلانے پلانے لے چلو۔" رابعہ نے مداخلت کرتے ہوئے کہا۔
"فی الحال تو یہاں سے چلیں، ہاسٹل جانا ہے مجھے۔" امامہ یکدم اٹھ کر کھڑی ہوگئی تو وہ بھی اٹھ گئیں۔
"ویسے جویریہ! تم نے یہ بات پہلے کیوں نہیں بتائی؟" ساتھ چلتے ہوئے زینب نے جویریہ سے پوچھا۔
"بھئی، امامہ نہیں چاہتی تھی۔۔۔۔۔ اس لئے میں نے کبھی اس موضوع پر بات نہیں کی۔" جویریہ نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔ امامہ نے مڑ کر ایک بار پھر جویریہ کو گھورا، اس کی نظروں میں تنبیہ تھی۔
"امامہ کیوں نہیں چاہتی تھی۔۔۔۔۔ میری منگنی ہوئی ہوتی تو میں تو شور مچاتی ہر جگہ، وہ بھی اس صورت میں جب یہ میری اپنی مرضی سے ہوتی۔" زینب نے بلند آواز میں کہا۔
امامہ نے اس بار کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جاری ہے
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: پیر کامل از عمیره احمد

Post by ایکسٹو »

پیر کامل
۔۔۔۔
قسط نمبر 4
"آپ کا بیٹا آبادی کے اس 5۔2 فیصد حصے میں شامل ہے، جو 150 سے زیادہ کا آئی کیو لیول رکھتے ہیں۔ اس آئی کیو لیول کے ساتھ جو کچھ وہ کررہا ہے وہ غیر معمولی سہی مگر غیر متوقع نہیں ہے۔" اس غیر ملکی اسکول میں سالار کو جاتے ہوئے ابھی صرف ایک ہفتہ ہوا تھا جب سکندر عثمان اور ان کی بیوی کو وہاں بلوایا گیا تھا۔ اسکول کے سائیکالوجسٹ نے انہیں سالار سکندر کے مختلف آئی کیوٹیسٹ کے بارے میں بتایا تھا جس میں اس کی پرفارمنس نے اس کے ٹیچرز اور سائیکالوجسٹ کو حیران کردیا تھا۔ اس اسکول میں وہ 150 کا آئی کیو لیول والا پہلا اور واحد بچہ تھا اور چند ہی دنوں میں وہ وہاں سب کی توجہ کا مرکز بن گیا تھا۔
سکندر عثمان اور ان کی بیوی سے ملاقات کے دوران سائیکالوجسٹ کو اس کے بچپن کے بارے میں کچھ اور کھوج لگانے کا موقع ملا۔ وہ کافی دلچسپی سے سالار کے کیس کو اسٹڈی کررہا تھا اور دلچسپی کی یہ نوعیت پروفیشنل نہیں ذاتی تھی۔ اپنے کیرئیر میں وہ پہلی بار اس آئی کیو کے بچے کا سامنا کررہا تھا۔
سکندر عثمان کو آج بھی وہ دن اچھی طرح یاد تھا۔ سالار اس وقت صرف دوسال کا تھا اور غیر معمولی طور پر وہ اس عمر میں ایک عام بچے کی نسبت زیادہ صاف لہجے میں باتیں کرتا تھا اور باتوں کی نوعیت ایسی ہوتی تھی کہ وہ اور ان کی بیوی اکثر حیران ہوتے۔
ایک دن جب وہ اپنے بھائی سے فون پر بات کرنے کے لئے فون کررہے تھے تو سالار ان کے پاس کھڑا تھا۔ وہ اس وقت ٹی وی لاؤنج میں بیٹھے تھے اور فون پر باتیں کرنے کے ساتھ ساتھ ٹی وی بھی دیکھ رہے تھے۔ کچھ دیر بعد انہوں نے فون رکھ دیا۔ ریسیور رکھنے کے فوراً بعد انہوں نے سالار کو فون کا ریسیور اٹھاتے ہوئے دیکھا۔
"ہیلو انکل! میں سالار ہوں۔" وہ کہہ رہا تھا انہوں نے چونک کر اسے دیکھا۔ وہ اطمینان سے ریسیور کان سے لگائے کسی سے باتوں میں مصروف تھا۔
"میں ٹھیک ہوں، آپ کیسے ہیں؟" سکندر نے حیرت سے اسے دیکھا۔ پہلے ان کے ذہن میں یہی آیا کہ وہ جھوٹ موٹ فون پر باتیں کررہا ہے۔
"پاپا میرے پاس بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے ہیں۔ نہیں، انہوں نے نہیں کیا میں نے خود کیا ہے۔" وہ اس کے اگلے جملے پر چونکے۔
"سالار! کس سے باتیں کررہے ہو؟" سکندر نے پوچھا۔
"انکل شاہنواز سے۔" سالار نے سکندر کو جواب دیا۔ انہوں نے ہاتھ بڑھا کر ریسیور اس سے لے لیا۔ ان کا خیال تھا کہ اس نے غلطی سے کوئی نمبر ملا لیا ہوگا یا پھر لاسٹ نمبر کو ری ڈائل کردیا ہوگا۔ انہوں نے کان سے ریسیور لگایا، دوسری طرف ان کے بھائی تھے۔
"یہ سالار نے نمبر ڈائل کیا ہے۔" انہوں نے معذرت کرتے ہوئے اپنے بھائی سے کہا۔
"سالار نے کیسے ڈائل کیا وہ تو بہت چھوٹا ہے۔" ان کے بھائی نے دوسری طرف کچھ حیرانی سے پوچھا۔
"میرا خیال ہے اس نے آپ کا نمبر ری ڈائل کردیا ہے۔ اتفاق سے ہاتھ لگ گیا ہو گا۔ ہاتھ مار رہا تھا سیٹ پر۔" انہوں نے فون بند کردیا اور ریسیور نیچے رکھ دیا۔ سالار جو خاموشی کے ساتھ ان کی گفتگو سننے میں مصروف تھا ریسیور نیچے رکھتے ہی اس نے ایک بار پھر ریسیور اٹھا لیا۔ اس بار سکندر عثمان اسے دیکھنے لگے، وہ بالکل کسی میچور آدمی کی طرح ایک بار پھر شاہنواز کا نمبر ڈائل کررہا تھا اور بڑی روانی کے ساتھ۔ وہ ایک لمحہ کے لئے دم بخود رہ گئے تھے۔ دو سال کے بچے سے انہیں یہ توقع نہیں تھی۔ انہوں نے ہاتھ بڑھا کر کریڈل دبا دیا۔
"سالار! تمہیں شاہنواز کا نمبر معلوم ہے؟ انہوں نے حیرانی کے اس جھٹکے سے سنبھلتے ہوئے کہا۔
"ہاں۔" بڑے اطمینان سے جواب دیا گیا۔
"کیا نمبر ہے؟" اس نے بھی روانی کے ساتھ وہ نمبر دہرا دیا۔ وہ اس کا چہرہ دیکھنے لگے انہیں اندازہ نہیں تھا کہ وہ گنتی کے اعداد سے واقف ہوگا اور پھر وہ نمبر۔۔۔۔۔
"تمہیں یہ نمبر کس نے سکھایا؟"
"میں نے خود سیکھا ہے۔"
"کیسے؟"
"ابھی آپ نے ملایا تھا۔" سالار نے ان کو دیکھتے ہوئے کہا۔
"تمہیں گنتی آتی ہے؟"
"ہاں۔"
"کہاں تک۔"
"ہنڈرڈ تک۔"
"سناؤ۔"
وہ مشین کی طرح شروع ہوگیا۔ ایک ہی سانس میں اس نے انہیں سو تک گنتی سنا دی۔ سکندر عثمان کے پیٹ میں بل پڑنے لگے۔
"اچھا۔ میں ایک اور نمبر ڈائل کرتا ہوں میرے بعد تم اسے ڈائل کرنا۔" انہوں نے ریسیور اس سے لیتے ہوئے کہا۔
"اچھا۔" سالار کو یہ سب ایک دلچسپ کھیل کی طرح لگا۔ سکندر عثمان نے ایک نمبر ملایا اور پھر فون بند کردیا۔ سالار نے فورا ریسیور ان سے پکڑ کر انہی کی روانی کے ساتھ وہ نمبر ملایا۔ سکندر عثمان کا سر گھومنے لگا۔ وہ واقعی وہی نمبر تھا جو انہوں نے ملایا تھا۔ انہوں نے یکے بعد دیگرے کئی نمبر ملائے اور پھر سالار سے وہی نمبر ملانے کے لئے کہا۔ وہ کوئی غلطی کئے بغیر وہی نمبر ملاتا رہا۔ وہ یقینا ً فوٹوگرافک میموری رکھتا تھا۔ انہوں نے اپنی بیوی کو بلایا۔
"میں نے اسے گنتی نہیں سکھائی، میں نے تو بس کچھ دن پہلے اسے چند کتابیں لاکر دی تھیں اور کل ایک بار ایسے ہی اس کے سامنے سو تک گنتی پڑھی تھی۔" انہوں نے سکندر عثمان کے استفسار پر کہا۔ سکندر عثمان نے سالار کو ایک بار پھر گنتی سنانے کے لئے کہا وہ سناتا گیا۔ ان کی بیوی ہکا بکا اسے دیکھتی رہیں۔
دونوں میاں بیوی کو یہ اندزہ ہوگیا تھا کہ ان کا بچہ ذہنی اعتبار سے غیر معمولی صلاحیتیں رکھتا ہے اور یہی وجہ تھی کہ ان دونوں نے اپنے باقی بچوں کی نسبت اسے جلد ہی اسکول میں داخل کروا دیا تھا اور اسکول میں بھی وہ اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کی وجہ سے بہت جلد ہی دوسروں کی نظروں میں آگیا تھا۔
"اس بچے کو آپ کی خاص توجہ کی ضرورت ہے، عام بچوں کی نسبت ایسے بچے زیادہ حساس ہوتے ہیں، اگر آپ اس کی اچھی تربیت کرنے میں کامیاب ہوگئے تو یہ بچہ آپ کے اور آپ کے خاندان کے لئے ایک سرمایہ ہوگا نہ صرف خاندان کے لئے بلکہ آپ کے ملک کے لئے بھی۔" سکندر عثمان اور ان کی بیوی اس غیر ملکی سائیکالوجسٹ کی باتیں بڑے فخریہ انداز میں سنتے رہے۔
اپنے دوسرے بچوں کے مقابلے میں وہ سالار کو زیادہ اہمیت دینے لگے تھے۔ وہ ان کی سب سے چہیتی اولاد تھا اور انہیں اس کی کامیابیوں پر فخر تھا۔
اسکول میں ایک ٹرم کے بعد اسے اگلی کلاس میں پروموٹ کردیا گیا اور دوسری ٹرم کے بعد اس سے اگلی کلاس میں اوراس وقت پہلی بار سکندر عثمان کو کچھ تشویش ہونے لگی۔ وہ نہیں چاہتے تھے سالار آٹھ دس سال کی عمر میں جونئیر یا سنئیر کیمبرج کرلیتا مگر جس رفتار سے وہ ایک کلاس سے دوسری کلاس میں جارہا تھا یہی ہونا تھا۔
"میں چاہتا ہوں آپ میرے بیٹے کو اب پورے ایک سال کے بعد ہی اگلی کلاس میں پروموشن دیں۔ میں نہیں چاہتا وہ اتنی جلدی اتنے ابنارمل طریقے سے اپنا اکیڈمک کیرئیر ختم کرلے۔ آپ اس کے سبجیکٹس اور ایکٹیوٹیز بڑھا دیں، مگر اسے نارمل طریقے سے ہی پروموٹ کریں۔"
ان کے اصرار پر سالار کو دوبارہ ایک سال کے اندر ڈبل یا ٹرپل پروموشن نہیں دیا گیا، اس کے ٹیلنٹ کو اسپورٹس اور دوسری چیزوں کے ذریعے چینجلائز کیا جانے لگا۔ شطرنج، ٹینس، گالف اور میوزک۔ وہ چار شعبے تھے جن میں اسے سب سے زیادہ دلچسپی تھی مگر اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ خود کو صرف ان چاروں چیزوں تک ہی محدود رکھتا تھا۔ وہ اسکول میں ہونے والے تقریباً ہر گیم میں شریک ہوتا تھا اگر کسی میں شریک نہیں ہوتا تھا تو اس کی وجہ صرف یہ ہوتی تھی کہ وہ گیم یا سپورٹ اسے زیادہ چیلنجنگ نہیں لگتا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"جویریہ! پروفیسر امتنان کے لیکچر کے نوٹس مجھے دینا۔" امامہ نے جویریہ کو مخاطب کیا جو ایک کتاب کھولے بیٹھی ہوئی تھی۔ جویریہ نے ہاتھ بڑھا کر اپنی ایک نوٹ بک اسے تھما دی۔ امامہ نوٹ بک کھول کر صفحے پلٹنے لگی۔ جویریہ ایک بار پھر کتاب کے مطالعے میں مصروف ہوگئی۔ کچھ دیر بعد اچانک اسے جیسے ایک خیال آیا تھا اس نے مڑ کر اپنے بستر پر بیٹھی ہوئی امامہ کو دیکھا۔
"تم نے لیکچر نوٹ کرنا کیوں بند کردیا ہے؟" اس نے امامہ کو مخاطب کیا۔ امامہ نے نوٹ بک سے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔
"مجھے کچھ سمجھ میں آئے تو میں نوٹ کروں۔"
"کیا مطلب؟ تمہیں پروفیسر امتنان کا لیکچر بھی سمجھ میں نہیں آتا۔" جویریہ کو جیسے حیرت ہوئی۔ "اتنا اچھا تو پڑھاتے ہیں۔"
"میں نے کب کہا کہ برا پڑھاتے ہیں، بس مجھے۔۔۔۔۔"
اس نے کچھ الجھے ہوئے لہجے میں بات ادھوری چھوڑ دی۔ وہ ایک بار پھر ہاتھ میں پکڑی نوٹ بک کو دیکھ رہی تھی۔ جویریہ نے غور سے اسے دیکھا۔
"تم آج کل کچھ غائب دماغ نہیں ہوتی جارہیں؟ ڈسٹرب ہوکسی وجہ سے؟" جویریہ نے اپنے سامنے رکھی کتاب بند کرتے ہوئے بڑے ہمدردانہ لہجے میں کہا۔
"ڈسٹرب؟" وہ بڑبڑائی۔ "نہیں، ایسی کوئی بات نہیں ہے۔"
"تمہاری آنکھوں کے گرد حلقے بھی پڑے ہوئے ہیں۔ کل رات کو شاید ساڑھے تین کا وقت تھا جب میری آنکھ کھلی اور تم اس وقت بھی جاگ رہی تھیں۔"
"میں پڑھ رہی تھی۔" اس نے مدافعانہ لہجے میں کہا۔
"نہیں، صرف کتاب اپنے سامنے رکھے بیٹھی ہوئی تھیں، مگر کتاب پر نظر نہیں تھی تمہاری۔" جویریہ نے اس کا عذر رد کرتے ہوئے کہا۔ "تمہیں کوئی مسئلہ تو نہیں ہے؟"
"کیا مسئلہ ہوسکتا ہے مجھے؟"
"پھر تم اتنی چپ چپ کیوں رہنے لگی ہو؟" جویریہ اسکی ٹال مٹول سے متاثر ہوئے بغیر بولی۔
"نہیں، میں کیوں چپ رہوں گی۔" امامہ نے مسکرانے کی کوشش کی۔ "میں تو پہلے ہی کی طرح بولتی ہوں۔"
"صرف میں ہی نہیں، باقی سب بھی تمہاری پریشانی کو محسوس کررہے ہیں۔" جویریہ سنجیدگی سے بولی۔
"کوئی بات نہیں ہے، صرف اسٹڈیز کی ٹینشن ہے مجھے۔"
"میں یقین نہیں کرسکتی ہم بھی تمہارے ساتھ ہیں، تمہیں ہم سے زیادہ ٹینشن تو نہیں ہوسکتی۔" جویریہ نے سرہلاتے ہوئے کہا۔ امامہ نے ایک گہرا سانس لیا، وہ اب زچ ہورہی تھی۔
"تمہارے گھر میں تو خیریت ہے نا؟"
"ہاں بالکل خیریت ہے۔"
"اسجد کے ساتھ تو کوئی جھگڑا نہیں ہوا؟"
"اسجد کے ساتھ جھگڑا کیوں ہوگا؟" امامہ نے اسی کے انداز میں پوچھا۔
"پھر بھی اختلافات تو ایک بہت ہی۔۔۔۔۔" جویریہ کی بات اس نے درمیان میں ہی کاٹ دی۔
"جب کہہ رہی ہوں کہ کوئی مسئلہ نہیں ہے تو تمہیں یقین کیوں نہیں آرہا۔ اتنے سالوں سے کون سی بات ہے جو میں نے تم سے شئیر نہیں کی یا جو تمہیں پتا نہیں ہے پھر بھی تم اس طرح مجھے مجرم سمجھ کر تفتیش کیوں کررہی ہو۔" وہ اب خفا ہورہی تھی۔
جویریہ گڑبڑا گئی۔ "یقین کیوں نہیں کروں گی، میں صرف اس لئے اصرار کررہی تھی کہ شاید تم مجھے اس لئے اپنا مسئلہ نہیں بتا رہیں کہ میں پریشان نہ ہوں اور تو کوئی بات نہیں۔"
جویریہ کچھ نادم سی ہوکر اس کے پاس سے اٹھ کر واپس اپنی اسٹڈی ٹیبل کے سامنے جابیٹھی۔ اس نے ایک بار پھر وہ کتاب کھول لی جسے وہ پہلے پڑھ رہی تھی۔ کافی دیر تک کتاب پڑھتے رہنے کے بعد اس نے ایک جماہی لی اور گردن موڑ کر لاشعوری طور پر امامہ کو دیکھا۔ وہ دیوار سے ٹیک لگائے اس کی نوٹ بک کھولے بیٹھی تھی مگر اس کی نظریں نوٹ بک پر نہیں تھیں وہ سامنے والی دیوار پر نظریں جمائے بیٹھی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اس نے گاڑی نہر کے پل سے کچھ فاصلے پر کھڑی کردی پھر ڈگی سے ایک بوری اور رسی نکالی۔ وہ بوری کو کھینچتے ہوئے اس پل کی طرف بڑھتا رہا۔ پاس سے گزرنے والے کچھ راہ گیروں نے اسے دیکھا مگر وہ رکے نہیں، اوپر پہنچ کر اس نے اپنی شرٹ اتار کر نہر میں پھینک دی۔ چند لمحوں میں اس کی شرٹ بہتے پانی کے ساتھ غائب ہوچکی تھی۔ ڈارک بلو کلر کی تنگ جینز میں اس کا لمبا قد اور خوبصورت جسم بہت نمایاں تھا۔
اس وقت اس شخص کی آنکھوں میں کوئی ایسا تاثر تھا جسے پڑھنا دوسرے کسی بھی شخص کے لئے ناممکن تھا۔ اس کی عمر انیس بیس سال ہوگی، مگر اس کے قدوقامت اور حلیے نے اس کی عمر کو جیسے بڑھا دیا تھا۔ اس نے رسی پل سے نیچے نہر میں لٹکانی شروع کردی، جب رسی کا سرا پانی میں غائب ہوگیا تو اس نے رسی کا دوسرا سرا بوری کے منہ پر لپیٹ کر سختی سے گرہیں لگانی شروع کردیں اوراس وقت تک لگاتا رہا جب تک کوائل ختم نہیں ہوگیا پھر پانی میں پڑا سرا واپس کھینچ کر اس نے اندازے سے تین فٹ کے قریب رسی چھوڑی اور اپنے دونوں پیر ساتھ جوڑتے ہوئے اس نے پیروں کے گرد رسی کو بہت مضبوطی کے ساتھ دو تین بل دئیے اور گرہ لگا دی۔ اب اس تین فٹ کے ٹکڑے کے سرے پر بڑی مہارت کے ساتھ اس نے دو پھندے بنائے پھر اچک کر پل کی منڈیر پر بیٹھ گیا۔ اپنا دایاں ہاتھ کمر کے پیچھے لے جاتے ہوئے اس نے بائیں ہاتھ کے ساتھ پہلے پھندے میں سے دایاں ہاتھ گزارا اور پھر بائیں ہاتھ کے ساتھ اس نے وہ پھندا کھینچ کر کس دیا۔ اس کے بعد اس نے کمر کے پیچھے دائیں ہاتھ کے ساتھ دوسرے پھندے میں سے بایاں ہاتھ گزارا اور دائیں ہاتھ سے اسے کس دیا۔
اس کے چہرے پر اطمینان بھری مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ ایک گہرا سانس لیتے ہوئے اس نے پشت کے بل خود کو منڈیر سے نیچے گرا دیا۔ ایک جھٹکے کے ساتھ اس کا سر پانی سے ٹکرایا اور کم تک کا حصہ پانی میں ڈوب گیا پھر رسی ختم ہوگئی۔ اب وہ اسی طرح لٹکا ہوا تھا کہ اس کے بازو پشت پر بندھے ہوئے تھے اور کمر تک کا دھڑ پانی کے اندر تھا۔ بوری میں موجود وزن یقینا ً اس کے وزن سے زیادہ تھا یہی وجہ تھی کہ بوری اس کے ساتھ نیچے نہیں آئی وہ اسی طرح لٹک گیا۔ اس نے اپنا سانس روکا ہوا تھا۔ پانی کے اندر اپنا سر جاتے ہی اس نے آنکھیں کھلی رکھنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ پانی گدلا تھااور اس میں موجود مٹی اس کی آنکھوں میں چبھنے لگی۔ اس نے آنکھیں بند کرلیں اس کے پھیپھڑے اب جیسے پھٹنے لگے تھے۔ اس نے یکدم سانس لینے کی کوشش کی اور پانی منہ اور ناک سے اس کے جسم کے اندر داخل ہونے لگا۔ وہ اب بری طرح پھڑپھڑا رہا تھا مگر نہ وہ اپنے بازوؤں کو استعمال کرکے خود کو سطح پر لا سکتا تھا اور نہ ہی اپنے جسم کو اٹھا سکتا تھا۔ اس کے جسم کی پھڑپھڑاہٹ آہستہ آہستہ دم توڑ رہی تھی۔
چند لوگوں نے اسے پل سے نیچے گرتے دیکھا اور چیختے ہوئے اس طرف بھاگے، رسی ابھی تک ہل رہی تھی، ان لوگوں کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کریں۔ پانی کے نیچے ہونے والی حرکت اب دم توڑ گئی تھی۔ اس کی ٹانگیں اب بالکل بے جان نظر آرہی تھیں۔ پل پر کھڑے لوگ خوف کے عالم میں اس بے جان وجود کو دیکھ رہے تھے پل پر موجود ہجوم بڑھ رہا تھا۔ نیچے پانی میں موجود وہ وجود ابھی بھی ساکت تھا۔ صرف پانی اسے حرکت دے رہا تھا۔ کسی پنڈولم کی طرح۔۔۔۔۔ آگے پیچھے۔۔۔۔۔ آگے پیچھے۔۔۔۔۔ آگے پیچھے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"امامہ! جلدی سے تیار ہوجاؤ۔" رابعہ نے اپنی الماری سے اپنا ایک سوٹ نکال کر بیڈ پر پھینکتے ہوئے کہا۔
امامہ نے قدرے حیرانی سے اسے دیکھا۔ "کس لئے تیار ہوجاؤں؟"
"بھئی، شاپنگ کے لئے جارہے ہیں، ساتھ چلو۔" رابعہ نے اسی تیز رفتاری کے ساتھ استری کا پلگ نکالتے ہوئے کہا۔
"نہیں، مجھے کہیں نہیں جانا۔" اس نے ایک بار پھر اپنی آنکھوں پر اپنا بازو رکھتے ہوئے کہا۔ وہ اپنے بستر پر لیٹی ہوئی تھی۔
"کیا مطلب ہے۔۔۔۔۔۔ مجھے کہیں نہیں جانا۔۔۔۔۔ تم سے پوچھ کون رہا ہے۔۔۔۔ تمہیں بتا رہے ہیں۔" رابعہ نے اسی لہجے میں کہا۔
"اور میں نے بتا دیا ہے، میں کہیں نہیں جارہی۔" اس نے آنکھوں سے بازو ہٹائے بغیر کہا۔
"زینب بھی چل رہی ہے ہمارے ساتھ، پورا گروپ جارہا ہے، فلم بھی دیکھیں گے واپسی پر۔" رابعہ نے پورا پروگرام بتاتے ہوئے کہا۔
امامہ نے ایک لحظہ کے لئے اپنی آنکھوں سے بازو ہٹا کر اسے دیکھا۔ "زینب بھی جارہی ہے؟"
"ہاں، زینب کو ہم راستے سے پک کریں گے۔" امامہ کسی سوچ میں ڈوب گئی۔
"تم بہت ڈل ہوتی جارہی ہو امامہ!" رابعہ نے قدرے ناراضی کے ساتھ تبصرہ کیا۔ "ہمارے ساتھ کہیں آنا جانا ہی چھوڑ دیا ہے تم نے، آخر ہوتا کیا جارہا ہے تمہیں۔"
"کچھ نہیں، بس میں آج کچھ تھکی ہوئی ہوں، اس لئے سونا چاہ رہی ہوں۔" امامہ نے بازو ہٹا کر اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
تھوڑی دیر بعد جویریہ بھی اندر آگئی اور وہ بھی اسے ساتھ چلنے کے لئے مجبور کرتی رہی۔ مگر امامہ کی زبان پر ایک ہی رٹ تھی۔ "نہیں مجھے سونا ہے، میں بہت تھک گئی ہوں۔" وہ مجبوراً اسے برا بھلا کہتے ہوئے وہاں سے چلی گئیں۔
رستے سے انہوں نے زینب کو اس کے گھر سے پک کیا اور زینب کو پک کرتے ہوئے جویریہ کو یاد آیا کہ اس کے بیگ کے اندر اس کا والٹ نہیں ہے، وہ اسے ہاسٹل میں ہی چھوڑ آئی تھی۔
"واپس ہاسٹل چلتے ہیں، وہاں سے والٹ لے کر پھر بازار چلیں گے۔" جویریہ کے کہنے پر وہ لوگ دوبارہ ہاسٹل چلی آئیں، مگر وہاں آکر انہیں حیرانی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ کمرے کے دروازے پر تالا لگا ہوا تھا۔
"یہ امامہ کہاں ہے؟" رابعہ نے حیرانی سے کہا۔
"پتا نہیں۔ کمرہ لاک کرکے اس طرح کہاں جاسکتی ہے۔ وہ تو کہہ رہی تھی کہ اسے سونا ہے۔" جویریہ نے کہا۔
"ہاسٹل میں تو کسی کے روم میں نہیں چلی گئی؟" رابعہ نے خیال ظاہر کیا وہ دونوں اگلے کئی منٹ ان واقف لڑکیوں کے کمروں میں جاتی رہیں جن سے ان کی ہیلو ہائے تھی، مگر امامہ کا کہیں پتا نہیں تھا۔
"کہیں ہاسٹل سے باہر تو نہیں گئی؟" رابعہ کو اچانک خیال آیا۔
"آؤ وارڈن سے پوچھ لیتے ہیں۔" جویریہ نے کہا۔ وہ دونوں وارڈن کے پاس چلی آئیں۔
"ہاں، امامہ ابھی کچھ دیر پہلے باہر گئی ہے۔" وارڈن نے انکی انکوائری پر بتایا۔ جویریہ اور رابعہ ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگیں۔
"وہ کہہ رہی تھی شام کو آئے گی۔" وارڈن نے انہیں مزید بتایا۔ وہ دونوں وارڈن کے کمرے سے نکل آئیں۔
"یہ گئی کہاں ہے؟ ہمارے ساتھ تو جانے سے انکار کردیا تھا کہ اسے سونا ہے اور وہ تھکی ہوئی ہےا ور اس کی طبیعت خراب ہے اور اب اس طرح غائب ہوگئی ہے۔" رابعہ نے الجھے ہوئے انداز میں کہا۔
رات کو وہ قدرے لیٹ واپس آئیں اور جس وقت وہ واپس آئیں۔ امامہ کمرے میں موجود تھی۔ اس نے مسکراتے ہوئے ان دونوں کا استقبال کیا۔
"لگتا ہے۔ خاصی شاپنگ ہوئی ہے آج۔" اس نے ان دونوں کے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے شاپرز کو دیکھتے ہوئے کہا۔
ان دونوں نے اس کی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہا، بس شاپرز رکھ کر اسے دیکھنے لگیں۔
"تم کہاں گئی ہوئی تھیں؟" جویریہ نے اس سے پوچھا۔ امامہ کو جیسے ایک جھٹکا لگا۔
"میں اپنا والٹ لینے واپس آئی تھی تو تم یہاں نہیں تھیں، کمرہ لاکڈ تھا۔" جویریہ نے اسی انداز میں کہا۔
"میں تم لوگوں کے پیچھے گئی تھی۔"
"کیا مطلب؟" جویریہ نے کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں کہا۔
"تمہارے نکلنے کے بعد میرا ارادہ بدل گیا تھا۔ میں یہاں سے زینب کی طرف گئی کیونکہ تم لوگوں کو اسے پک کرنا تھا، مگر اس کے چوکیدار نے بتایا کہ تم لوگ پہلے ہی وہاں سے نکل گئے ہو، پھر میں وہاں سے واپس آگئی۔ بس رستے میں کچھ کتابیں لی تھیں میں نے۔" امامہ نے کہا۔
"دیکھا۔ تم سے پہلے کہا تھا کہ ہمارے ساتھ چلو مگر اس وقت تم نے فورا انکار کردیا، بعد میں بے وقوفوں کی طرح پیچھے چل پڑیں۔ ہم لوگ تو مشکوک ہوگئے تھے تمہارے بارے میں۔" رابعہ نے کچھ اطمینان سے ایک شاپر کھولتے ہوئے کہا۔
امامہ نے کوئی جواب نہیں دیا، وہ صرف مسکراتے ہوئے ان دونوں کو دیکھتی رہی۔ وہ دونوں اب اپنے شاپر کھولتے ہوئے خریدی ہوئی چیزیں اسے دکھا رہی تھیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"تمہارا نام کیا ہے؟"
"پتا نہیں؟"
"ماں باپ نے کیا رکھا تھا؟"
"ٰ ماں باپ سے پوچھیں۔" خاموشی۔
"لوگ کس نام سے پکارتے ہیں تمہیں؟"
"لڑکے یا لڑکیاں؟"
"لڑکے؟"
"بہت سارے نام لیتے ہیں۔"
"زیادہ کون سا نام پکارتے ہیں؟"
"daredevil۔" خاموش۔۔۔۔۔
"اور لڑکیاں؟"
"وہ بھی بہت سے نام لیتی ہیں۔"
"زیادہ تر کس نام سے پکارتی ہیں؟"
"یہ میں نہیں بتا سکتا۔ it’s too personal )یہ بالکل ذاتی ہے(۔"
گہری خاموشی، طویل سانس پھر خاموشی۔
"میں آپ کو ایک مشورہ دوں؟"
"کیا؟"
"آپ میرے بارے میں وہ جاننے کی کوشش کیوں نہیں کرتے جو نہ آپ پہلے جانتے ہیں نہ میں۔ آپ کے دائیں طرف ٹیبل پر جو سفید فائل پڑی ہے اس میں میرے سارےparticularsموجود ہیں پھر آپ وقت ضائع کیوں کررہے ہیں؟"
سائیکوانالسٹ نے اپنے پاس موجود ٹیبل لیمپ کی روشنی میں سامنے کاؤچ پر دراز اس نوجوان کو دیکھا جو اپنے پیر مسلسل ہلا رہا تھا، اس کے چہرے پر گہرا اطمینان تھا اور یوں لگ رہا تھا جیسے وہ سائیکوانالسٹ کے ساتھ ہونے والی اس ساری گفتگو کو بے کار سمجھ رہا تھا۔ کمرے میں موجود ٹھنڈک، خاموشی اور نیم تاریکی نے اس کے اعصاب کو بالکل متاثر نہیں کیا تھا۔ وہ بات کرتے ہوئے وقتاً فوقتا ً کمرے میں چاروں طرف نظریں دوڑآ رہا تھا۔ سائیکوانالسٹ کے لئے سامنے لیٹا ہوا نوجوان ایک عجیب کیس تھا۔ وہ فوٹو گرافک میموری کا مالک تھا۔ اس کا آئی کیو لیول 150 کی رینج میں تھا۔ وہ تھرو آؤٹ، آؤٹ اسٹینڈنگ اکیڈمک ریکارڈ رکھتا تھا وہ گالف میں پریزیڈنٹس گولڈ میڈل تین بار جیت چکا تھا اور وہ۔۔۔۔۔ وہ تیسری بار خودکشی کی ناکام کوشش کرنے کے بعد اس کے پاس آیا تھا۔ اس کے والدین ہی اسے اس کے پاس لے کر آئے تھے اور وہ بے حد پریشان تھے۔
وہ ملک کے چند بہت اچھے خاندانوں میں سے ایک سے تعلق رکھتا تھا۔ ایسا خاندان جس کے پاس پیسے کی بھرمار تھی، چار بھائیوں اور ایک بہن کے بعد وہ چوتھے نمبر پر تھا۔ دو بھائی اور ایک بہن اس سے بڑے تھے۔ اپنی ذہانت اور قابلیت کی وجہ سے وہ اپنے والدین کا بہت زیادہ چہیتا تھا۔ اس کے باوجود پچھلے تین سال میں اس نے تین بار خودکشی کی کوشش کی۔
پہلی دفعہ اس نے سڑک پر بائیک چلاتے ہوئے ون وے کی خلاف ورزی کی اور بائیک سے ہاتھ اٹھا لئے، اس کے پیچھے آنے والے ٹریفک کانسٹیبل نے ایسا کرتے ہوئے اسے دیکھا تھا۔ خوش قسمتی سے گاڑی سے ٹکرانے کے بعد وہ ہوا میں اچھل کر ایک دوسری گاڑی کی چھت پر گرا اور پھر زمین پر گرا۔ اس کی کچھ پسلیاں ایک بازو اور ایک ٹانگ میں فریکچرز ہوئے، تب اس کے والدین کانسٹیبل کے اصرار کے باوجود اسے ایک حادثہ ہی سمجھے، کیونکہ اس نے اپنے ماں باپ سے یہی کہا تھا کہ وہ غلطی سے ون وے سے ہٹ گیا تھا۔
دوسری بار پورے ایک سال کے بعد اس نے لاہور میں خود کو باندھ کر پانی میں ڈوبنے کی کوشش کی۔ ایک بار پھر اسے بچا لیا گیا۔ پل پر کھڑے لوگوں نے اسے اس رسی سمیت باہر کھینچ لیا تھا جس کے ساتھ باندھ کر اس نے خود کو نیچے گرایا تھا۔ اس بار اس بات کی گواہی دینے والوں کی تعداد زیادہ تھی کہ اس نے خود اپنے آپ کو پانی میں گرایا تھا مگر اس کے ماں باپ کو ایک بار پھر یقین نہیں آیا۔ سالار کا بیان تھا کہ کچھ لڑکوں نے اس کی گاڑی کو پل کے پاس روکا اور پھر اسے باندھ کر پانی میں پھینک دیا، جس طرح وہ بندھا ہوا تھا اس سے یوں ہی لگتا تھا کہ اسے واقعی ہی باندھ کر گرایا گیا تھا۔ پولیس اگلے کئی ہفتے اس کے بتائے گئے حلیے کے لڑکوں کو پورے شہر میں تلاش کرتی رہی۔ سکندر عثمان نے خاص طور پر ایک گارڈ اس کے ساتھ تعینات کردیا جو چوبیس گھنٹے اس کے ساتھ رہتا تھا۔
مگر تیسری بار وہ اپنے ماں باپ کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونک سکا۔ خواب آور گولیوں کی ایک بڑی تعداد کو پیس کر اس نے کھا لیا تھا۔ گولیوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ معدہ واش کرنے کے باوجود اگلے کئی دن وہ بیمار رہا تھا۔ اس بار کسی کو بھی کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی۔ اس نے خانساماں کے سامنے ان گولیوں کے پاؤڈر کو دودھ میں ڈال کر پیا تھا۔
سکندر عثمان اور طیبہ سکندر شاکڈ رہ گئے تھے۔ پچھلے دونوں واقعات بھی انہیں پوری طرح یاد آگئے تھے اور وہ پچھتانے لگے تھے کہ انہوں نے پہلے اس کی بات پر اعتبار کیوں کیا۔۔۔۔۔ پورا گھر اس کی وجہ سے پریشان ہوگیا تھا، اس کے بارے میں اسکول، کالونی اور خاندان ہر جگہ خبریں پھیل رہی تھیں۔ وہ اس بار اس بات سے سے انکار نہیں کرسکا کہ اس نے خودکشی کی کوشش کی تھی، مگر وہ یہ بتانے پر تیار نہیں تھا کہ اس نے ایسا کیوں کیا تھا۔ بھائی، بہن، ماں یا باپ اس نے کسی کے سوال کا بھی جواب نہیں دیا تھا۔
سکندر اے لیولز کے بعد اس کے بڑے بھائیوں کی طرح اسے بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھجوانا چاہتے تھے، وہ جانتے تھے اسے کہیں بھی نہ صرف بڑی آسانی سے ایڈمیشن مل جائے گا بلکہ اسکالر شپ بھی۔۔۔۔۔ لیکن ان کے سارے پلانز جیسے بھک کرکے اڑ گئے تھے۔
اور اب وہ اس سائیکوانالسٹ کے سامنے موجود تھا، جس کے پاس سکندر عثمان نے اسے اپنے ایک دوست کے مشورہ پر بھجوایا تھا۔
"ٹھیک ہے سالار! بالکل ٹو دا پوائنٹ بات کرتے ہیں۔ مرنا کیوں چاہتے ہو تم؟" سالار نے کندھے اچکائے۔
"آپ سے کس نے کہا کہ میں مرنا چاہتا ہوں؟"
"خودکشی کی تین کوششیں کرچکے ہو تم۔"
"کوشش کرنے او رمرنے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔"
"تینوں دفعہ تم اتفاقاً بچے ہو ورنہ تم نے خود کو مارنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔"
"دیکھیں۔ جس کو آپ خودکشی کی کوشش کہہ رہے ہیں میں اسے خود کشی کی کوشش نہیں سمجھتا۔ میں صرف دیکھنا چاہتا تھا کہ موت کی تکلیف کیسی ہوتی ہے۔"
وہ اس کا چہرہ دیکھنے لگا جو بڑے پرسکون انداز میں انہیں سمجھانے کی کوشش کررہا تھا۔
"اور موت کی تکلیف تم کیوں محسوس کرنا چاہتے تھے؟"
"بس ایسے ہی curiosity تجسس سمجھ لیں۔" سائیکوانالسٹ نے ایک گہرا سانس لے کر اس 150 آئی کیو لیول والے نوجوان کو دیکھا، جو اب چھت کو گھور رہا تھا۔
"تو ایک بار خودکشی کی کوشش سے تمہارا یہ تجسس ختم نہیں ہوا۔"
"اوہ تب۔۔۔۔۔ تب میں بے ہوش ہوگیا تھا اس لئے میں ٹھیک سے کچھ بھی محسوس نہیں کرسکا۔ دوسری بار بھی ایسا ہی ہوا۔ تیسری بار بھی ایسا ہی ہوا۔" وہ مایوسی سے سرہلاتے ہوئے بولا۔
"اور اب تم چوتھی بار کوشش کرو گے؟"
"یقیناً میں محسوس کرنا چاہتا ہوں کہ درد کی انتہا پر جاکر کیسا لگتا ہے۔"
"کیا مطلب۔؟"
"جیسےjoy کی انتہا ecstasy ہوتی ہے مگر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ خوشی کی اس انتہا کے بعد کیا ہے، اسی طرح درد کی بھی تو کوئی انتہا ہوتی ہوگی، جس کے بعد آپ کچھ بھی سمجھ نہیں سکتے جیسے ecstasy میں اپ کچھ بھی نہیں سمجھ سکتے۔"
"میں نہیں سمجھ سکا۔"
"فرض کریں آپ ایک بار striptease دیکھ رہے ہیں، بہت تیز میوزک بج رہا ہے، آپ ڈرنک کررہے ہیں، آپ نے کچھ ڈرگز بھی لی ہوئی ہیں، آپ ناچ رہے ہیں پھر آہستہ آہستہ آپ اپنے ہوش و حواس کھو دیتے ہیں، آپecstasy (سرور) میں ہیں، کہاں ہیں؟ کیوں ہیں؟ کیا کررہے ہیں؟ آپ کو کچھ بھی پتا نہیں لیکن آپ کو یہ ضرور پتا ہوتا ہے کہ آپ جو کچھ بھی کررہے ہیں وہ آپ کو اچھا لگ رہا ہے۔ میں جب باہر چھٹیاں گزارنے جاتا ہوں تو اپنے کزنز کے ساتھ ایسے بارز میں جاتا ہوں۔ میرا پرابلم یہ ہے کہ ان کی طرح میںecstatic (مدہوش) نہیں ہوتا I never get wild with joy۔ مجھے ان چیزوں سے اتنی خوشی نہیں مل پاتی جتنی باقی لوگوں کو ملتی ہے اور یہی چیز مجھے مایوس کرتی ہے۔ میں نے سوچا کہ اگر سرور کی انتہا پر نہیں پہنچ سکتا تو شاید میں درد کی انتہا پر پہنچ سکوں لیکن وہ بھی نہیں ہوسکا۔" وہ خاصا مایوس نظر آرہا تھا۔
"تم اس طرح کی چیزوں میں وقت ضائع کیوں کرتے ہو، اتنا شاندار اکیڈمک ریکارڈ ہے تمہارا۔۔۔۔۔"
سالار نے اس بار انتہائی بیزاری سے اس سے کہا۔ "پلیز، پلیز اب میری ذہانت کے راگ الاپنا مت شروع کیجئے گا۔ مجھے پتا ہے میں کیا ہوں۔ تنگ آگیا ہوں میں اپنی تعریفیں سنتے سنتے۔" اس کے لہجے میں تلخی تھی۔ سائیکوانالسٹ کچھ دیر اسے دیکھتا رہا۔
"اپنے لئے کوئی گول کیوں نہیں سیٹ کرتے تم؟"
"میں نے کیا ہے۔"
"کیا؟"
"مجھے خودکشی کی ایک اور کوشش کرنی ہے۔" مکمل اطمینان تھا۔
"کیا تمہیں کوئی ڈپریشن ہے؟"
"ناٹ ایٹ آل۔"
"تو پھر مرنا کیوں چاہتے ہو؟" ایک گہرا سانس۔
"کیا آپ کو ایک بار پھر سے بتانا شروع کروں کہ میں مرنا نہیں چاہتا، میں کچھ اور کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔" وہ اکتایا۔
بات گھوم پھر کر پھر وہیں آگئی تھی۔ سائیکوانالسٹ کچھ دیر سوچتا رہا۔
"کیا تم یہ سب کسی لڑکی کی وجہ سے کررہے ہو؟"
سالار نے گردن موڑ کر حیرانی سے اسے دیکھا۔ "لڑکی کی وجہ سے؟"
"ہاں۔ کوئی ایسی لڑکی جو تمہیں اچھی لگتی ہو جس سے تم شادی کرنا چاہتے ہو؟" اس نے بے اختیار قہقہہ لگایا اور پھر ہنستا ہی گیا۔
"مائی گاڈ! آپ کا مطلب ہے کہ کسی لڑکی کی محبت کی وجہ سے میں خودکشی۔۔۔۔۔" وہ ایک بار پھر بات ادھوری چھوڑ کر ہنسنے لگا۔ "لڑکی کی محبت۔۔۔۔۔ اور خودکشی۔۔۔۔۔ کیا مذاق ہے۔" وہ اب اپنی ہنسی پر قابو پانے کی کوشش کررہا تھا۔
سائیکوانالسٹ نے اس طرح کے کئی سیٹنز اس کے ساتھ کیے اور ہر بار نتیجہ ڈھاک کے وہی تین پات رہا۔
"آپ اس کو تعلیم کے لئے بیرون ملک بھجوانے کے بجائے یہیں رکھیں اور اس پر بہت زیادہ توجہ دیں۔ ہوسکتا ہے یہ توجہ حاصل کرنے کے لئے یہ سب کرتا ہو۔"
اس نے کئی ماہ کے بعد سالار کے ماں باپ کو مشورہ دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسے باہر بھجوانے کے بجائے اسلام آباد کے ادارے میں ایڈمیشن دلوایا گیا۔ سکندر عثمان کو یہ اطمینان تھا کہ وہ اسے اپنے پاس رکھیں گے تو شاید وہ دوبارہ ایسی حرکت نہ کرے۔ سالار نے ان کے اس فیصلے پر کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا بالکل اسی طرح جس طرح اس نے ان کے اس فیصلے پر کسی خوشی کا اظہار نہیں کیا تھا کہ اسے بیرون ملک تعلیم کے لئے بھجوایا جائے گا۔
سائیکوانالسٹ کے ساتھ آخری سیشن کے بعد سکندر عثمان اسے گھر لے آئے اور انہوں نے طیبہ کے ساتھ مل کر اس سے ایک لمبی چوڑی میٹنگ کی۔ وہ دونوں اپنے بیڈروم میں بٹھا کر اسے ان تمام آسائشوں کے بارے میں بتاتے رہے جو وہ پچھلے کئی سالوں میں اسے فراہم کرتے رہے تھے۔ انہوں نے اسے ان توقعات کے بارے میں بھی بتایا جو وہ اس سے رکھتے تھے۔ اسے ان محبت بھرے جذبات سے بھی آگاہ کیا جو وہ اس کے لئے محسوس کرتے تھے۔ وہ بے تاثر چہرے کے ساتھ چیونگم چباتا باپ کی بے چینی اور ماں کے آنسو دیکھتا رہا۔ گفتگو کے آخر میں سکندر عثمان نے تقریباً تنگ آکر اس سے کہا۔
"تمہیں کس چیز کی کمی ہے؟ کیا ہے جو تمہارے پاس نہیں ہے یا جو تمہیں چاہیے۔ مجھے بتاؤ۔" سالار سوچ میں پڑ گیا۔
"اسپورٹس کار۔" اگلے ہی لمحے اس نے کہا۔
"ٹھیک ہے۔ میں تمہیں اسپورٹس کار باہر سے منگوا دیتا ہوں مگر دوبارہ ایسی کوئی حرکت مت کرنا جو تم نے کی ہے، اوکے؟" سکندر عثمان کو کچھ اطمینان ہوا۔
سالار نے سر ہلا دیا۔ طیبہ نے ٹشو سے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے جیسے سکون کا سانس لیا۔ وہ کمرے سے چلا گیا تو سکندر عثمان نے سگار سلگاتے ہوئے ان سے کہا۔
"طیبہ! تمہیں اس پر بہت توجہ دینی پڑے گی۔ اپنی ایکٹویٹیز کچھ کم کرو اور کوشش کرو کہ اس کے ساتھ روزانہ کچھ وقت گزار سکو۔" طیبہ نے سرہلادیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جاری ہے
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: پیر کامل از عمیره احمد

Post by ایکسٹو »

پیر کامل

۔۔۔۔۔۔

قسط نمبر 5

وسیم نے امامہ کو دور سے ہی لان میں بیٹھے دیکھ لیا۔ وہ کانوں پر ہیڈ فون لگائے واک مین پر کچھ سن رہی تھی۔ وسیم دبے قدموں اس کی پشت کی جانب سے اس کے عقب میں گیا اور اس کے پاس جاکر اس نے یکدم امامہ کے کانوں سے ہیڈفون کے تار کھینچ لیے۔ امامہ نے برق رفتاری سے واک مین کا اسٹاپ کا بٹن دبایا تھا۔

"کیا سنا جارہا ہے یہاں اکیلے بیٹھے؟" وسیم نے بلند آواز میں کہتے ہوئے ہیڈ فون کو اپنے کانوں میں ٹھونس لیا مگر تب تک امامہ کیسٹ بند کرچکی تھی۔ کرسی سے اٹھ کر کھڑے ہوکر اس نے ہیڈ فون کو اپنی طرف کھینچتے ہوئے وسیم سے کہا۔

"بدتمیزی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے وسیم! بی ہیو یور سلیف۔" اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہورہا تھا۔ وسیم نے ہیڈفون کے سروں کو نہیں چھوڑا، امامہ کے غصے کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔

"میں سننا چاہتا ہوں، تم کیا سن رہی تھیں۔ اس میں بدتمیزی والی کیا بات ہے، کیسٹ کو آن کرو۔"

امامہ نے کچھ جھنجھلاتے ہوئے ہیڈفون کو واک مین سے الگ کردیا۔ "میں تمہارے سننے کے لئے واک مین لے کر یہاں نہیں بیٹھی، دفع ہوجاؤ یہ ہیڈ فون لے کر۔"

وہ ایک بار پھر اپنی کرسی پر بیٹھ گئی، اس نے واک مین کو بڑی مضبوطی کے ساتھ اپنے ہاتھ میں جکڑا ہوا تھا۔

وسیم کو لگا جیسے وہ کچھ گھبرائی ہوئی ہے مگر وہ گھبرائے گی کیوں؟ وسیم نے سوچا اور اس خیال کو ذہن سے جھٹکتے ہوئے سامنے والی کرسی پر جاکر بیٹھ گیا۔ ہیڈفون کو اس نے میز پر رکھ دیا۔

"یہ لو، اپنا غصہ ختم کرو۔ واپس کررہا ہوں میں، تم سنو، جو بھی سن رہی ہو۔" اس نے بڑے صلح جویانہ انداز میں ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہا۔

"نہیں، اب مجھے نہیں سننا کچھ، تم ہیڈفون رکھو اپنے پاس۔" امامہ نے ہیڈفون کی طرف ہاتھ نہیں بڑھایا۔

"ویسے تم سن کیا رہی تھیں؟"

"کیا سنا جاسکتا ہے؟" امامہ نے اسی کے انداز میں کہا۔

"غزلیں سن رہی ہوگی؟" وسیم نے خیال ظاہر کیا۔

"تمہیں پتا ہے وسیم! تم میں بہت ساری عادتیں بوڑھی عورتوں والی ہیں؟"

"مثلاً۔"

"مثلاً بال کی کھال اتارنا۔"

"اور۔"

"اور دوسری کی جاسوسی کرتے پھرنا اور شرمندہ بھی نہ ہونا۔"

"اور تمہیں پتا ہے کہ تم آہستہ آہستہ کتنی خودغرض ہوتی جارہی ہو۔" وسیم نے ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا۔ امامہ نے اس کی بات پر برا نہیں مانا۔

"اچھا۔۔۔۔۔ تمہیں پتا چل گیا کہ میں خودغرض ہوں۔" اس بار اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔

"حالانکہ تم جتنے بے وقوف ہو میں یہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ یہ نتیجہ اخذ کرلو گے۔"

"تم اگر مجھے شرمندہ کرنے کی کوشش کررہی ہو تو مت کرو، میں شرمندہ نہیں ہوں گا۔" وسیم نے ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔

"پھر بھی ایسے کاموں کی کوشش تو ہر ایک پر فرض ہوتی ہے۔"

"آج تمہاری زبان کچھ زیادہ نہیں چل رہی؟" وسیم نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔

"ہوسکتا ہے۔"

"ہوسکتا ہے نہیں، ایسا ہی ہے۔ چلو اچھا ہے، وہ چپ شاہ کا روزہ تو توڑ دیا ہے تم نے جو اسلام آباد آنے پر تم رکھ لیتی ہو۔" امامہ نے غور سے وسیم کو دیکھا۔

"کون سا چپ شاہ کا روزہ؟"

"تم جب سے لاہور گئی ہو خاصی بدل گئی ہو۔"

"مجھ پر اسٹڈیز کا بہت بوجھ ہوتا ہے۔"

"سب پر ہوتا ہے امامہ! مگر کوئی بھی اسٹڈیز کوا تنا سر پر سوار نہیں کرتا۔" وسیم نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔

"چھوڑو اس فضول بحث کو، یہ بتاؤ تم آج کل کیا کررہے ہو؟"

"عیش۔" وہ اسی طرح کرسی جھلاتا رہا۔

"یہ تو تم پورا سال ہی کرتے ہو، میں آج کل کی خاص مصروفیت کا پوچھ رہی ہوں۔"

"آج کل تو بس دوستوں کے ساتھ پھر رہا ہوں۔ تمہیں پتا ہونا چاہیے کہ پیپرز کے بعد میری مصروفیات کیا ہوتی ہیں۔ سب کچھ بھولتی جارہی ہو تم۔" وسیم نے افسوس بھری نظروں سے کہا۔

"میں نے اس امید میں یہ سوال کیا تھا کہ شاید اس سال تم میں کوئی بہتری آجائے مگر نہیں، میں نے بے کار سوال کیا۔" امامہ نے اس کے تبصرے کے جواب میں کہا۔

"تمہیں پتا ہونا چاہیے کہ میں تم سے ایک سال بڑا ہوں، تم نہیں، اس لئے اب اپنی ملامتی تقریر ختم کردو۔" وسیم نے اسے کچھ جتاتے ہوئے کہا۔

"یہ ساتھ والوں کے لڑکے سے تعلقات کا کیا حال ہے؟" امامہ کو اچانک یاد آیا۔

"چُو چُو سے؟ بس کچھ عجیب سے ہی تعلقات ہیں۔" وسیم نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔ "بڑا عجیب سا بندہ ہے، موڈ اچھا ہے تو دوسرے کو ساتویں آسمان پر بٹھا دے گا، موڈ خراب ہے تو سیدھا گٹر میں پہنچا دے گا۔"

"تمہارے زیادہ تر دوست اسی طرح کے ہیں" امامہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔ "کند ہم جنس باہم جنس پرواز۔"

"نہیں، خیر ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے۔ کم از کم میری عادتیں اور حرکتیں چُوچُو جیسی تو نہیں ہیں۔"

"وہ تو باہر جانے والا تھا نا؟" امامہ کو اچانک یاد آیا۔

"ہاں جانا تو تھا مگر پتا نہیں میرا خیال ہے اس کے پیرنٹس نہیں بھجوا رہے۔"

"حلیہ بڑا عجیب سا ہوتا ہے اس کا۔ مجھے بعض دفعہ لگتا ہے ہپیوں کے کسی قبیلے سے کسی نہ کسی طرح اس کا تعلق ہوگا یا آئندہ ہوجائے گا۔"

"تم نے دیکھا ہے اسے؟"

"کل میں باہر سے آرہی تھی تو دیکھا تھا۔ وہ بھی اسی وقت باہر نکل رہا تھا، کوئی لڑکی بھی تھی ساتھ۔"

"لڑکی؟ جینز وغیرہ پہنی ہوئی تھی اس نے؟ وسیم نے اچانک دلچسپی لیتے ہوئے کہا۔

"ہاں۔"

"مشروم کٹ بالوں والی۔۔۔۔۔فئیر سی؟"

"ارسہ۔"" وسیم چٹکی بجاتے ہوئے مسکرایا۔ "اس کی گرل فرینڈ ہے۔"

"پچھلی دفعہ تو تم کسی اور کا نام لے رہے تھے۔" امامہ نے اسے گھورا۔

"پچھلی دفعہ کب؟" وسیم سوچ میں پڑ گیا۔

"سات آٹھ ماہ پہلے شاید تم سے اس کی گرل فرینڈ کی بات ہوئی تھی۔"

"ہاں تب شیبا تھی۔ اب پتا نہیں وہ کہاں ہے۔"

"اس بار تو گاڑی کے پچھلے شیشے پر اس نے اپنے موبائل کا نمبر بھی پینٹ کروایا ہوا تھا۔" امامہ ایک موبائل نمبر دہراتے ہوئے ہنسی۔

"تمہیں یاد ہے؟" وسیم بھی ہنسا۔

"میں نے زندگی میں پہلی بار اتنا بڑا موبائل نمبر کہیں لکھا دیکھا تھا اور وہ بھی گاڑی کے شیشے پر اس کے نام کے ساتھ، یاد تو ہونا ہی تھا۔" امامہ پھر ہنسی

"میں تو خود سوچ رہا ہوں اپنی گاڑی کے شیشے پر موبائل نمبر لکھوانے کا۔" وسیم نے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔

"کونسے موبائل کا۔ وہ جو تم نے ابھی خریدا بھی نہیں۔" امامہ نے وسیم کا مذاق اڑآیا۔

"میں خرید رہا ہوں اس ماہ۔"

"بابا سے جوتے کھانے کے لئے تیار رہنا۔ اگر تم نے موبائل کے نمبر کو گاڑی کے شیشے پر لکھوایا سب سے پہلا فون ان کا ہی آئے گا۔"

"بس اس لئے ہر بار میں رک جاتا ہوں۔" وسیم نے ایک ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے کہا۔

"یہ تمہارے لئے اچھا ہی ہے۔ بابا سے ہڈیاں تڑوانے سے بہتر ہے کہ بندہ اپنے جذبات پر کچھ قابو رکھے اور تمہارے لئے تو خطرات ویسے بھی زیادہ ہیں۔ سمیعہ کو پتا چلا نا اگر اس قسم کے کسی موبائل فون کا تو۔۔۔۔۔" وسیم نے اس کی بات کاٹ دی۔

"تو کیا کرے گی وہ، میں اس سے ڈرتا نہیں ہوں۔"

"میں جانتی ہوں تم اسے سے ڈرتے نہیں ہو، مگر چھ بھائیوں کی اکلوتی بہن سے منگنی کرنے سے پہلے تمہیں تمام نفع نقصان پر غور کرلینا چاہیے تھا جن کا سامنا تمہیں کسی ایسی ویسی حرکت کے بعد ہوسکتا ہے۔" امامہ نے ایک بار پھر اسکی منگیتر کا حوالہ دیتے ہوئے اس کا مذاق اڑایا۔

"اب کیا کیا جاسکتا ہے، بس میرے مقدر میں تھا یہ سب کچھ۔" وسیم نے ایک مصنوعی آہ بھرتے ہوئے کہا۔

"مجھے کبھی بھی موبائل فون نہیں خریدنا چاہیے کیونکہ یہ میرے کسی کام نہیں آسکے گا۔ کم از کم جہاں تک گرل فرینڈ کی تلاش کا سوال ہے۔" وہ ایک بار پھر کرسی جھلانے لگا۔

"دیر سے ہی سہی مگر بات تمہاری سمجھ میں آہی گئی۔" امامہ نے ہاتھ بڑھا کر میز سے ہیڈفون اٹھاتے ہوئے کہا۔

"ویسے تم سن کیا رہی تھیں؟" وسیم کو اسے ہیڈفون اٹھاتے دیکھ کر پھر یاد آیا۔

"ویسے ہی کچھ خاص نہیں تھا۔" امامہ نے اٹھتے ہوئے اسے جیسے ٹالا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

"آپ لاہور جارہے ہیں تو واپسی پر امامہ کے ہاسٹل چلے جائیں، یہ کچھ کپڑے ہیں اس کے، درزی سے لے کر آئی ہوں، آپ اسے دے آئیں۔" سلمیٰ نے ہاشم سے کہا۔

"بھئی۔ میں بڑا مصروف رہوں گا لاہور میں، کہاں آتا جاتا پھروں گا اس کے ہاسٹل۔" ہاشم کو قدرے تامل ہوا۔

"آپ ڈرائیور کو ساتھ لے کر جارہے ہیں، خود نہیں جاسکتے تو اسے بھیج دیجئے گا، وہ دے آئے گا یہ پیکٹ۔ سیزن ختم ہورہا ہے پھر یہ کپڑے اسی طرح پڑے رہیں گے۔ اس کا تو پتا نہیں اب کب آئے۔" سلمیٰ نے لمبی چوڑی وضاحت کی۔

"اچھا ٹھیک ہے، میں لے جاتا ہوں۔ فرصت ملی تو خود دے آؤں گا ورنہ ڈرائیور کے ہاتھ بھجوا دوں گا۔" ہاشم رضامند ہوگئے۔

لاہور میں انہوں نے خاصا مصروف دن گزارا۔ شام پانچ بجے کے قریب انہیں کچھ فرصت ملی اور تب انہیں اس پیکٹ کا بھی خیال آگیا۔ ڈرائیور کو پیکٹ لے جانے کا کہنے کے بجائے وہ خود امامہ کے ہاسٹل چلے آئے۔ اس کے ایڈمیشن کے بعد آج پہلی بار وہ وہاں آئے تھے۔ گیٹ کیپر کے ہاتھ انہوں نے امامہ کے لئے پیغام بھجوایا اور خود انتظار کرنے لگے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ جلد ہی آجائے گی مگر ایسا نہ ہوا، دس منٹ، پندرہ منٹ، بیس منٹ۔۔۔۔۔ وہ اب کچھ بیزار ہونے لگے۔ اس سے پہلے کہ وہ اندر دوبارہ پیغام بھجواتے انہیں گیٹ کیپر ایک لڑکی کے ساتھ آتا دکھائی دیا۔ کچھ قریب آنے پر انہوں نے اس لڑکی کو پہچان لیا وہ جویریہ تھی امامہ کی بچپن کی دوست اور اس کا تعلق بھی اسلام آباد سے ہی تھا۔

"السلام علیکم انکل!۔" جویریہ نے پاس آکر کہا۔

"وعلیکم السلام! بیٹا کیسی ہو تم۔"

"میں ٹھیک ہوں۔"

"میں یہ امامہ کے کچھ کپڑے دینے آیا تھا، لاہور آرہا تھا تو اس کی امی نے یہ پیکٹ دے دیا۔ اب یہاں بیٹھے مجھے گھنٹہ ہوگیا ہے مگر انہوں نے اسے بلایا نہیں۔" ہاشم کے لہجے میں شکوہ تھا۔

"انکل! امامہ ماکیٹ گئی ہے کچھ دوستوں کے ساتھ، آپ یہ پیکٹ مجھے دے دیں، میں خود اسے دے دوں گی۔"

"ٹھیک ہے، تم رکھ لو۔" ہاشم نے وہ پیکٹ جویریہ کی طرف بڑھا دیا۔

رسمی علیک سلیک کے بعد وہ واپس مڑ گئے۔ جویریہ بھی پیکٹ پکڑ کر ہاسٹل کی طرف چلی گئی مگر اب اس کے چہرے پر موجود مسکراہٹ غائب ہوچکی تھی، کوئی بھی اس وقت اس کے چہرے پر پریشانی کو واضح طور پر بھانپ سکتا تھا۔

ہاسٹل کے اندر آتے ہی وارڈن سے اس کا سامنا ہوگیا جو سامنے ہی کھڑی تھیں، جویریہ کے چہرے پر ایک بار پھر مسکراہٹ آگئی۔

"بات ہوئی تمہاری اس کے والد سے؟" وارڈن نے اسے دیکھتے ہی اس کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔

"جی بات ہوئی، پریشانی والا کوئی مسئلہ نہیں ہے، وہ اسلام آباد میں اپنے گھر پر ہی ہے، اس کے والد یہ پیکٹ لے کر آئے تھے، میرے گھر والوں نے میرے کچھ کپڑے بھجوائے ہیں۔ انکل لاہور آرہے تھے تو امامہ نے کہا کہ وہ لے جائیں۔ انکل نے غلطی سے یہاں آکر میرا نام لینے کے بجائے امامہ کا نام لے دیا۔" جویریہ نے ایک ہی سانس میں کئی جھوٹ روانی سے بولے۔

وارڈن نے سکون کا سانس لیا۔ "خدا کا شکر ہے ورنہ میں تو پریشان ہی ہوگئی تھی کہ مجھے تو وہ ویک اینڈ پر گھر جانے کا کہہ کر گئی ہے۔۔۔۔۔ تو پھر وہ کہاں ہے۔۔۔۔۔"

وارڈن نے مڑتے ہوئے کہا۔ جویریہ پیکٹ پکڑے اپنے کمرے کی طرف چلی آئی۔ رابعہ اسے دیکھتے ہی تیر کی طرح اس کی طرف آئی۔

"کیا ہوا۔۔۔۔۔ اسلام آباد میں ہی ہے وہ؟"

"نہیں۔" جویریہ نے مایوسی سے سر ہلایا۔

"مائی گاڈ۔" رابعہ نے بے یقینی سے اپنے دونوں ہاتھ کراس کرکے سینے پر رکھے۔ "تو پھر کہاں گئی ہے وہ؟"

"مجھے کیا پتا مجھ سے تو اس نے یہی کہا تھا کہ گھر جارہی ہے، مگر وہ گھر نہیں گئی، آخر گئی کہاں ہے؟ امامہ ایسی تو نہیں ہے۔" جویریہ نے پیکٹ بستر پر پھینکتے ہوئے کہا۔

"وارڈن سے کیا کہا تم نے؟" رابعہ نے تشویش بھرے انداز میں پوچھا۔

"کیا کہا؟ جھوٹ بولا ہے اور کیا کہہ سکتی ہوں۔ یہ بتا دیتی کہ وہ اسلام آباد میں نہیں ہے تو ہاسٹل میں ابھی ہنگامہ شروع ہوجاتا، وہ تو پولیس کو بلوا لیتیں۔" جویریہ نے ناخن کاٹتے ہوئے کہا۔

"اور انکل کو۔۔۔۔۔ ان کو کیا بتایا ہے؟" رابعہ نے پوچھا۔

"ان سے بھی جھوٹ بولا ہے، یہی کہا ہے کہ وہ مارکیٹ گئی ہے۔"

"مگر اب ہوگا کیا؟" رابعہ نے پریشانی کے عالم میں کہا۔

"مجھے تو یہ فکر ہورہی ہے کہ اگر وہ واپس نہ آئی تو میں تو بری طرح پکڑی جاؤں گی۔ سب یہی سمجھیں گے کہ مجھے اس کے پروگرام کا پتا تھا، اس لئے میں نے وارڈن اور اس کے گھروالوں سے سب کچھ چھپایا۔" جویریہ کی پریشانی بڑھتی جارہی تھی۔

"کہیں امامہ کو کوئی حادثہ ہی پیش نہ آگیا ہو؟ ورنہ وہ ایسی لڑکی تو نہیں ہے کہ اس طرح۔۔۔۔۔" رابعہ کو اچانک ایک خدشے نے ستایا۔

"مگر اب ہم کیا کریں۔ ہم تو کسی سے اس سارے معاملے کو ڈسکس بھی نہیں کرسکتے۔" جویریہ نے ناخن کترتے ہوئے کہا۔

"زینب سے بات کریں۔" رابعہ نے کہا۔

"فار گاڈ سیک رابعہ! کبھی تو عقل سے کام لے لیا کرو، اس سے کیا بات کریں گے ہم۔" جویریہ نے جھنجلا کر کہا۔

"تو پھر انتظار کرتے ہیں، ہوسکتا ہے وہ آج رات تک یا کل تک آجائے اگر آگئی تو پھر کوئی مسئلہ نہیں رہے گا اور اگر نہ آئی تو پھر ہم وارڈن کو سب کچھ سچ سچ بتا دیں گے۔" رابعہ نے سنجیدگی سے سارے معاملے پر غور کرتے ہوئے طے کیا۔ جویریہ نے اسے دیکھا مگر اس کے مشورے پر کچھ کہا نہیں۔ پریشانی اس کے چہرے سے چھلک رہی تھی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

جویریہ اور رابعہ رات بھر سو نہیں سکیں۔ وہ مکمل طور پر خوف کی گرفت میں تھیں۔ اگر وہ نہ آئی تو کیا ہوگا، یہ سوال ان کے سامنے بار بار بھیانک شکلیں بدل بدل کر آرہا تھا۔ انہیں اپنا کیرئیر ڈوبتا ہوا نظر آرہا تھا۔ انہیں اندازہ تھا کہ ان کے گھر والے ایسے معاملے پر کیسا ردعمل ظاہر کریں گے۔ وہ انہیں بری طرح ملامت کرتے، انہیں امامہ کے والد کو سب کچھ صاف صاف نہ بتانے پر تنقید کا نشانہ بناتے اور پھر وارڈن سے سارے معاملے کو چھپانے پر اور بھی ناراض ہوتے۔

انہیں اندازہ نہیں تھا کہ حقیقت سامنے آنے پر خود ہاشم مبین اور انکی فیملی کا ردعمل کیا ہوگا، وہ اس سارے معاملے میں ان دونوں کے رول کو کس طرح دیکھیں گے۔ ہاسٹل میں لڑکیاں ان کے بارے میں کس طرح کی باتیں کریں گی اور پھر اگر یہ سارا معاملہ پولیس کیس بن گیا تو پولیس ان کی اس پردہ پوشی کو کیا سمجھے گی، وہ اندازہ کرسکتی تھیں اور اسی لئے باربار ان کے رونگٹے کھڑے ہورہے تھے۔

مگر سوال یہ پیدا ہوتا تھا کہ وہ گئی کہاں۔۔۔۔۔ اور کیوں۔۔۔۔۔ وہ دونوں اس کے پچھلے رویوں کا تجزیہ کرنے کی کوشش کررہی تھیں۔ کس طرح پچھلے ایک سال سے وہ بالکل بدل گئی تھی، اس نے انکے ساتھ گھومنا پھرنا بند کردیا تھا، وہ الجھی الجھی رہنے لگی تھی، پڑھائی میں اس کا انہماک بھی کم ہوگیا تھا اور اس کی کم گوئی۔

"اور وہ جو ایک بار وہ ہمارے شاپنگ کے لئے جانے پر پیچھے سے غائب تھی، تب بھی وہ یقیناً وہیں گئی ہوگی جہاں وہ اب گئی ہے اور ہم نے کس طرح بے وقوفوں کی طرح اس پر اعتبار کرلیا۔" رابعہ کو پچھلی باتیں یاد آرہی تھیں۔

"مگر امامہ ایسی نہیں تھی، میں تو اسے بچپن سے جانتی ہوں۔ وہ ایسی بالکل بھی نہیں تھی۔" جویریہ کو اب بھی اس پر کوئی شک نہیں ہورہا تھا۔

"ایسا ہونے میں کوئی دیر تھوڑی لگتی ہے، بس انسان کا کردار کمزور ہونا چاہیے۔" رابعہ بدگمانی کی انتہا پر پہنچی ہوئی تھی۔

"رابعہ! اس کی مرضی سے اس کی منگنی ہوئی تھی، وہ اور اسجد ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے پھر وہ اس طرح کی حرکت کیسے کرسکتی ہے۔" جویریہ نے اس کا دفاع کرنے کی کوشش کی۔

"پھر تم بتاؤ کہ وہ کہاں ہے۔۔۔۔۔ میں نے تو مکھی بنا کر اسے کسی دیوار کے ساتھ نہیں چپکایا ہے، اس کے بابا اس سے ملنے یہاں آئے ہیں اور وہ اپنے گھر سے آئے ہیں، تو ظاہر ہے وہ گھر پر نہیں گئی اور ہم سے وہ یہی کہہ کر گئی تھی کہ وہ گھر جارہی ہے۔" رابعہ نے بے چارگی سے کہا۔

"ایسا بھی تو ہوسکتا ہے کہ اسے کوئی حادثہ پیش آگیا ہو۔ ہوسکتا ہے وہ اسی لئے گھر نہ پہنچ سکی ہو۔"

"وہ ہر بار یہاں سے فون کرکے اسلام آباد اپنے گھر والوں کو ا پنے آنے کی اطلاع دے دیتی تھی تاکہ اس کا بھائی اسے کوسٹر کے اسٹینڈ سے پک کرلے۔ اگر اس بار بھی اس نے اطلاع دی تھی تو پھر اس کے وہاں نہ پہنچنے پر وہ لوگ اطمینا ن سے وہاں نہ بیٹھے ہوتے، وہ یہاں ہوسٹل میں فون کرتے اور اس کے والد کے انداز سے تو ایسا محسوس ہوا ہے جیسے اس کا اس ویک اینڈ پر اسلام آباد کا کوئی پروگرام نہیں تھا۔" رابعہ نے اس کے قیاس کو مکمل طور پر رد کرتے ہوئے کہا۔

"ہاں۔ وہ کبھی بھی ایک ماہ میں دوبار اسلام آباد نہیں جاتی تھی مگر اس بار تو وہ دوسرے ہی ہفتے اسلام آباد جارہی تھی اور اس نے وارڈن سے خاص طور پر یہ کہہ کر اجازت لی تھی۔ کوئی نہ کوئی بات ضرور ہے، کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ ضرور غلط ہے۔" جویریہ کو پھر خدشات ستانے لگے۔

"اسکے ساتھ ساتھ ہم بھی بری طرح ڈوبیں گے۔ ہم سے بہت بڑی غلطی ہوئی جو ہم نے سب کچھ اس طرح کوراپ کیا، ہمیں صاف صاف بات کرنی چاہیے تھی اس کے والد سے کہ وہ یہاں نہیں ہے، پھر وہ جو چاہے کرتے، یہ ان کا مسئلہ ہوتا، کم از کم ہم تو اس طرح نہ پھنستے جس طرح اب پھنس گئے ہیں۔" رابعہ مسلسل بڑبڑارہی تھی۔

"خیر اب کیا ہوسکتا ہے، صبح تک انتظار کرتے ہیں اگر وہ کل بھی نہیں آئی تو پھر وارڈن کو سب کچھ بتا دیں گے۔" جویریہ نے کمرے کے چکر لگاتے ہوئے کہا۔

وہ رات ان دونوں نے اسی طرح باتیں کرتے جاگتے ہوئے گزار لی۔ اگلے دن وہ دونوں کالج نہیں گئیں۔ اس حالت میں کالج جانے کا کوئی فائدہ بھی نہیں ہوتا۔

امامہ ویک اینڈ پر ہفتہ کو واپسی پر نوبجے کے قریب آجایا کرتی تھی مگر وہ اس دن نہیں آئی۔ ان کے اعصاب جواب دینے لگے۔ ڈھائی بجے کے قریب وہ فق رنگت اور کانپتے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ اپنے کمرے سے وارڈن کے کمرے میں جانے کے لئے نکل آئیں، ان کے ذہن میں وہ جملے گردش کررہے تھے، جو انہیں وارڈن سے کہنے تھے۔

وہ وارڈن کے کمرے سے ابھی کچھ دور ہی تھیں جب انہوں نے امامہ کو بڑے اطمینان کے ساتھ اندر آتے دیکھا۔ اس کا بیگ اس کے کاندھے پر تھا اور فولڈر ہاتھوں میں، وہ یقیناً سیدھی کالج سے آرہی تھی۔

جویریہ اور رابعہ کو یوں لگا جیسے ان کے پیروں کے نیچے سے نکلتی ہوئی زمین یکدم تھم گئی تھی۔ ان کی رکی ہوئی سانس ایک بار پھر چلنے لگی تھی۔ کل کے اخبارات میں متوقع وہ ہیڈلائنز جو بھوت بن کر ان کے گرد ناچ رہی تھیں یکدم غائب ہوگئیں اور ان کی جگہ اس غصے اور اشتعال نے لے لی تھی جو انہیں امامہ کی شکل دیکھ کر آیا تھا۔

وہ انہیں دیکھ چکی تھی اور اب ان کی طرف بڑھ رہی تھی، اس کے چہرے پر بڑی خوشگوار سی مسکراہٹ تھی۔

"تم دونوں آج کالج کیوں نہیں آئیں؟" سلام دعا کے بعد اس نے ان سے پوچھا۔

"تمہاری مصیبتوں سے چھٹکارا ملے گا تو ہم کہیں آنے جانے کا سوچ سکیں گے۔" رابعہ نے تندوتیز لہجے میں اس سے کہا۔

امامہ کے چہرے کی مسکراہٹ غائب ہوگئی۔

"کیا ہوا رابعہ! اس طرح غصے میں کیوں ہو؟" امامہ نے قدرے تشویش سے پوچھا۔

"تم ذرا اندر کمرے میں آؤ پھر تمہیں بتاتی ہوں کہ میں غصے میں کیوں ہوں۔" رابعہ نے اسے بازو سے پکڑ لیا اور تقریباً کھینچتے ہوئے کمرے میں لے آئی۔ جویریہ کچھ کہے بغیر ان دونوں کے پیچھے آگئی۔ امامہ ہکا بکا تھی اور رابعہ اور جویریہ کے رویے کو سمجھ نہیں پارہی تھی۔

کمرے میں داخل ہوتے ہی رابعہ نے دروازہ بند کرلیا۔

"کہاں سے آرہی ہو تم؟" رابعہ نے مڑ کر انتہائی تلخ اور درشت لہجے میں اس سے پوچھا۔

"اسلام آباد سے اور کہاں سے۔" امامہ نے اپنا بیگ نیچے زمین پر رکھ دیا اسکے جواب نے رابعہ کو کچھ اور مشتعل کیا۔

"شرم کرو امامہ۔۔۔۔۔! اس طرح ہمیں دھوکا دے کر، ہماری آنکھوں دھول جھونک کر آخر تم ثابت کرنا کیا چاہتی ہو۔ یہ کہ ہم ڈفر ہیں۔ ایڈیٹ ہیں۔ پاگل ہیں۔ بھئی ہم ہیں۔ ہم مانتے ہیں۔۔۔۔۔ نہ ہوتے تو یوں تم پر اندھا اعتبار نہ کیا ہوتا تم سے اتنا بڑا دھوکا نہ کھایا ہوتا۔" رابعہ نے کہا۔

"مجھے تمہاری کوئی بات سمجھ میں نہیں آرہی۔ کونسا دھوکا۔۔۔۔۔ کیسا دھوکا، کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ تم آرام سے مجھے اپنی بات سمجھاؤ۔" امامہ نے بے چارگی سے کہا۔

"تم ویک اینڈ کہاں گزار کر آئی ہو؟" جویریہ نے پہلی بار گفتگو میں مداخلت کی۔

"تمہیں بتا چکی ہوں اسلام آباد میں، وہاں سے آج سیدھا کالج آئی ہوں اور اب کالج سے۔۔۔۔۔" رابعہ نے اسے بات مکمل نہیں کرنے دی۔

"بکواس بند کرو۔۔۔۔۔ یہ جھوٹ اب نہیں چل سکتا، تم اسلام آباد نہیں گئی تھیں۔"

"یہ تم کیسے کہہ سکتی ہو؟" اس بار امامہ نے بھی قدرے بلند آواز میں کہا۔

"کیونکہ تمہارے فادر یہاں آئے تھے کل۔" امامہ کا رنگ اڑ گیا۔ وہ کچھ بول نہیں سکی۔

"اب کیوں منہ بند ہوگیا ہے۔ اب بھی کہو اسلام آباد سے آرہی ہو۔" رابعہ نے طنزیہ لہجے میں کہا۔

"بابا یہاں۔ آئے تھے؟" امامہ نے اٹکتے ہوئے کہا۔

"ہاں آئے تھے، تمہارے کچھ کپڑے دینے کے لئے۔" جویریہ نے کہا۔

"انہیں یہ پتا چل گیا کہ میں ہاسٹل میں نہیں ہوں۔"

"میں نے جھوٹ بول دیا کہ تم ہاسٹل سے کسی کام سے باہر گئی ہو، وہ کپڑے دے کر چلے گئے۔" جویریہ نے کہا۔ امامہ نے بے اختیار اطمینان کا سانس لیا۔

"یعنی انہیں کچھ پتا نہیں چلا؟" اس نے بستر پر بیٹھ کر اپنے جوتے کے اسٹریپس کھولتے ہوئے کہا۔

"نہیں انہیں کچھ پتا نہیں چلا۔۔۔۔۔ تم منہ اٹھا کر اگلے ہفتے پھر کہیں روانہ ہوجانا۔ مائنڈ یو امامہ! میں اب وارڈن سے اس سلسلے میں بات کرنے والی ہوں۔ ہم تمہاری وجہ سے خاصی پریشانی اٹھا چکے ہیں۔ مزید اٹھانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ بہتر ہے تمہارے پیرنٹس کو تمہاری ان حرکتوں کے بارے میں پتا چل جائے۔" رابعہ نے دو ٹوک انداز میں اس سے کہا۔ امامہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔

"کون سی حرکتوں کے بارے میں۔۔۔۔۔ میں نے کیا کیا ہے۔"

"کیا کیا ہے؟ ہاسٹل سے اس طرح دو دن کے لئے گھر کا کہہ کر غائب ہوجانا تمہارے نزدیک کوئی بڑی بات نہیں ہے۔"

امامہ جواب دینے کے بجائے دوسرے جوتے کے بھی اسٹریپس کھولنے لگی۔

"مجھےو ارڈن کے پاس چلے ہی جانا چاہیے۔"

رابعہ نے غصے کے عالم میں دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔

جویریہ نے آگے بڑھ کر اسے روکا۔ "وارڈن سے بات کرلیں گے، پہلے اس سے تو بات کرلیں۔ تم جلد بازی مت کرو۔"

"مگر اس ڈھیٹ کا اطمینان دیکھو۔۔۔۔۔ مجال ہے ذرہ برابر شرمندگی بھی اس کے چہرے پر جھلک رہی ہو۔" رابعہ نے غصے میں امامہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

"میں تم دونوں کو سب کچھ بتا دوں گی۔ اتنا غصے میں آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا نہ ہی کسی غلط جگہ پر گئی ہوں اور ہاں بھاگی بھی نہیں ہوں۔" امامہ نے جوتوں کی قید سے اپنے پیروں کو آزاد کرتے ہوئے قدرے دھیمے لہجے میں کہا۔

"پھر تم کہاں گئی تھیں؟" اس بار جویریہ نے پوچھا۔

"اپنی ایک دوست کے ہاں۔"

"کونسی دوست؟"

"ہے ایک۔"

"اس طرح جھوٹ بول کر کیوں؟"

"میں تم لوگوں کے سوالوں سے بچنا چاہتی تھی اور گھر والوں کو بتاتی یا ان سے اجازت لینے کی کوشش کرتی تو وہ کبھی اجازت نہ دیتے۔"

"کس کے ہاں گئی تھیں؟ اور کس لئے؟" جویریہ نے اس بار قدرے تجسس آمیز انداز میں پوچھا۔

"میں نے کہا نا، میں بتا دوں گی۔ کچھ وقت دو مجھے۔" امامہ نے اس کی بات کے جواب میں کہا۔

"کوئی وقت نہیں دے سکتے تمہیں۔۔۔۔۔ تمہیں وقت دیں تاکہ تم ایک بار پھر غائب ہوجاؤ اور اس بار واپس ہی نہ آؤ۔" رابعہ نے اس بار بھی ناراضی سے کہا مگر پہلے کی نسبت اس بار اس کا لہجہ دھیماتھا۔

"تمہیں تو اس بات کا بھی احساس نہیں ہوا کہ تم نے ہماری پوزیشن کتنی آکورڈ بنا دی تھی، اگر تمہارے اس طرح غائب ہونے کا پتہ چل جاتا تو ہماری کتنی بے عزتی ہوتی۔ اس کا احساس تھا تمہیں؟" رابعہ نے اسی انداز میں کہا۔

"مجھے یہ توقع ہی نہیں تھی کہ بابا اس طرح اچانک یہاں آجائیں گے۔ اس لئے میں یہ بھی نہیں سوچ سکتی تھی کہ تم لوگوں کو کسی نازک صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ورنہ میں اس طرح کبھی نہ کرتی۔" امامہ نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔

"تم کم ازکم ہم پر اعتبار کرکے، ہمیں بتا کر جاسکتی تھی۔" جویریہ نے کہا۔

"میں آئندہ ایسا کبھی نہیں کروں گی۔" امامہ نے کہا۔

"کم از کم میں تمہارے کسی وعدے، کسی بات پر اعتبار نہیں کرسکتی۔" رابعہ نے دوٹوک انداز میں کہا۔

"مجھے اپنی پوزیشن کلئیر کرنے دو رابعہ! تم مجھے غلط سمجھ رہی ہو۔" امامہ نے اس بار قدرے کمزور انداز میں کہا۔

"تم کو احساس ہے کہ تمہاری وجہ سے ہمارا کیرئیر اور ہماری زندگی کس طرح داؤ پر لگ گئی تھی۔ یہ دوستی ہوتی ہے؟ اسے دوستی کہتے ہیں؟"

"ٹھیک ہے۔ مجھ سے غلطی ہوگئی۔ مجھے معاف کردو۔" امامہ نے جیسے ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا۔

"جب تک تم یہ نہیں بتاؤ گی کہ تم کہاں غائب ہوگئی تھیں، میں تمہاری کوئی معذرت قبول نہیں کروں گی۔" رابعہ نے دوٹوک انداز میں کہا۔

امامہ کچھ دیر اسے دیکھتی رہی پھر اس نے کہا۔

"میں صبیحہ کے گھر چلی گئی تھی۔" جویریہ اور رابعہ نے حیرانی سے ایک دوسرے کو دیکھا۔

"کون۔۔۔۔۔؟" ان دونوں نے تقریباً بیک وقت پوچھا۔

"تم لوگ جانتی ہو اسے۔" امامہ نے کہا۔

"وہ فورتھ ائیر کی صبیحہ؟" جویریہ نے بے اختیار پوچھا۔

امامہ نے سرہلایا۔ "مگر اس کے گھر کس لئے گئی تھیں تم؟"

"دوستی ہے اس سے میری۔" امامہ نے کہا۔

"دوستی۔۔۔۔۔؟ کیسی دوستی۔۔۔۔۔؟ چار دن کی سلام دعا ہے تمہارے ساتھ اس کی اور میرا خیال ہے تم تو اسے اچھی طرح جانتی بھی نہیں ہو پھر اس کے گھر رہنے کے لئے کیوں چل پڑیں؟" جویریہ نے اعتراض کرتے ہوئے کہا۔

"وہ بھی اس طرح جھوٹ بول کر۔۔۔۔۔ کم از کم اس کے گھر جاکر رہنے کے لئے تمہیں ہم سے یا اپنے گھر والوں سے جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں تھی۔" رابعہ نے اسی لہجے میں کہا۔

"تم اسے کال کرکے پوچھ لو کہ میں اس کے گھر پر تھی یا نہیں۔۔۔۔۔" امامہ نے کہا۔

"چلو یہ مان لیا کہ تم اس کے گھر پر تھیں مگر کیوں تھیں؟" جویریہ نے پوچھا۔

امامہ خاموش رہی پھر کچھ دیر بعد اس نے کہا۔ "مجھے اس کی مدد کی ضرورت تھی۔"

ان دونوں نے حیران ہوکر دیکھا۔ "کس سلسلے میں؟"

امامہ نے سر اٹھایا اور پلکیں جھپکائے بغیر دیکھتی رہی۔ جویریہ نے کچھ بے چینی محسوس کی۔ "کس سلسلے میں؟"

"تم اچھی طرح جانتی ہو۔" امامہ نے قدرے مدھم انداز میں کہا۔

"میں۔۔۔۔۔؟" جویریہ نے کچھ گڑبڑا کر رابعہ کو دیکھا جو اب بڑی سنجیدگی سے اسے دیکھ رہی تھی۔

"ہاں، تم تو اچھی طرح جانتی ہو۔"

"تم پہیلیاں مت بجھواؤ۔ سیدھی اور صاف بات کرو۔" جویریہ نے قدرے سخت لہجے میں کہا۔ امامہ سر اٹھا کر خاموشی سے اسے دیکھنے لگی پھر کچھ دیر بعد شکست خوردہ انداز میں اس نے سر جھکا دیا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

جاری ہے
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: پیر کامل از عمیره احمد

Post by ایکسٹو »

پیر کامل

۔۔۔۔۔۔

قسط نمبر 5

وسیم نے امامہ کو دور سے ہی لان میں بیٹھے دیکھ لیا۔ وہ کانوں پر ہیڈ فون لگائے واک مین پر کچھ سن رہی تھی۔ وسیم دبے قدموں اس کی پشت کی جانب سے اس کے عقب میں گیا اور اس کے پاس جاکر اس نے یکدم امامہ کے کانوں سے ہیڈفون کے تار کھینچ لیے۔ امامہ نے برق رفتاری سے واک مین کا اسٹاپ کا بٹن دبایا تھا۔

"کیا سنا جارہا ہے یہاں اکیلے بیٹھے؟" وسیم نے بلند آواز میں کہتے ہوئے ہیڈ فون کو اپنے کانوں میں ٹھونس لیا مگر تب تک امامہ کیسٹ بند کرچکی تھی۔ کرسی سے اٹھ کر کھڑے ہوکر اس نے ہیڈ فون کو اپنی طرف کھینچتے ہوئے وسیم سے کہا۔

"بدتمیزی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے وسیم! بی ہیو یور سلیف۔" اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہورہا تھا۔ وسیم نے ہیڈفون کے سروں کو نہیں چھوڑا، امامہ کے غصے کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔

"میں سننا چاہتا ہوں، تم کیا سن رہی تھیں۔ اس میں بدتمیزی والی کیا بات ہے، کیسٹ کو آن کرو۔"

امامہ نے کچھ جھنجھلاتے ہوئے ہیڈفون کو واک مین سے الگ کردیا۔ "میں تمہارے سننے کے لئے واک مین لے کر یہاں نہیں بیٹھی، دفع ہوجاؤ یہ ہیڈ فون لے کر۔"

وہ ایک بار پھر اپنی کرسی پر بیٹھ گئی، اس نے واک مین کو بڑی مضبوطی کے ساتھ اپنے ہاتھ میں جکڑا ہوا تھا۔

وسیم کو لگا جیسے وہ کچھ گھبرائی ہوئی ہے مگر وہ گھبرائے گی کیوں؟ وسیم نے سوچا اور اس خیال کو ذہن سے جھٹکتے ہوئے سامنے والی کرسی پر جاکر بیٹھ گیا۔ ہیڈفون کو اس نے میز پر رکھ دیا۔

"یہ لو، اپنا غصہ ختم کرو۔ واپس کررہا ہوں میں، تم سنو، جو بھی سن رہی ہو۔" اس نے بڑے صلح جویانہ انداز میں ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہا۔

"نہیں، اب مجھے نہیں سننا کچھ، تم ہیڈفون رکھو اپنے پاس۔" امامہ نے ہیڈفون کی طرف ہاتھ نہیں بڑھایا۔

"ویسے تم سن کیا رہی تھیں؟"

"کیا سنا جاسکتا ہے؟" امامہ نے اسی کے انداز میں کہا۔

"غزلیں سن رہی ہوگی؟" وسیم نے خیال ظاہر کیا۔

"تمہیں پتا ہے وسیم! تم میں بہت ساری عادتیں بوڑھی عورتوں والی ہیں؟"

"مثلاً۔"

"مثلاً بال کی کھال اتارنا۔"

"اور۔"

"اور دوسری کی جاسوسی کرتے پھرنا اور شرمندہ بھی نہ ہونا۔"

"اور تمہیں پتا ہے کہ تم آہستہ آہستہ کتنی خودغرض ہوتی جارہی ہو۔" وسیم نے ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا۔ امامہ نے اس کی بات پر برا نہیں مانا۔

"اچھا۔۔۔۔۔ تمہیں پتا چل گیا کہ میں خودغرض ہوں۔" اس بار اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔

"حالانکہ تم جتنے بے وقوف ہو میں یہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ یہ نتیجہ اخذ کرلو گے۔"

"تم اگر مجھے شرمندہ کرنے کی کوشش کررہی ہو تو مت کرو، میں شرمندہ نہیں ہوں گا۔" وسیم نے ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔

"پھر بھی ایسے کاموں کی کوشش تو ہر ایک پر فرض ہوتی ہے۔"

"آج تمہاری زبان کچھ زیادہ نہیں چل رہی؟" وسیم نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔

"ہوسکتا ہے۔"

"ہوسکتا ہے نہیں، ایسا ہی ہے۔ چلو اچھا ہے، وہ چپ شاہ کا روزہ تو توڑ دیا ہے تم نے جو اسلام آباد آنے پر تم رکھ لیتی ہو۔" امامہ نے غور سے وسیم کو دیکھا۔

"کون سا چپ شاہ کا روزہ؟"

"تم جب سے لاہور گئی ہو خاصی بدل گئی ہو۔"

"مجھ پر اسٹڈیز کا بہت بوجھ ہوتا ہے۔"

"سب پر ہوتا ہے امامہ! مگر کوئی بھی اسٹڈیز کوا تنا سر پر سوار نہیں کرتا۔" وسیم نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔

"چھوڑو اس فضول بحث کو، یہ بتاؤ تم آج کل کیا کررہے ہو؟"

"عیش۔" وہ اسی طرح کرسی جھلاتا رہا۔

"یہ تو تم پورا سال ہی کرتے ہو، میں آج کل کی خاص مصروفیت کا پوچھ رہی ہوں۔"

"آج کل تو بس دوستوں کے ساتھ پھر رہا ہوں۔ تمہیں پتا ہونا چاہیے کہ پیپرز کے بعد میری مصروفیات کیا ہوتی ہیں۔ سب کچھ بھولتی جارہی ہو تم۔" وسیم نے افسوس بھری نظروں سے کہا۔

"میں نے اس امید میں یہ سوال کیا تھا کہ شاید اس سال تم میں کوئی بہتری آجائے مگر نہیں، میں نے بے کار سوال کیا۔" امامہ نے اس کے تبصرے کے جواب میں کہا۔

"تمہیں پتا ہونا چاہیے کہ میں تم سے ایک سال بڑا ہوں، تم نہیں، اس لئے اب اپنی ملامتی تقریر ختم کردو۔" وسیم نے اسے کچھ جتاتے ہوئے کہا۔

"یہ ساتھ والوں کے لڑکے سے تعلقات کا کیا حال ہے؟" امامہ کو اچانک یاد آیا۔

"چُو چُو سے؟ بس کچھ عجیب سے ہی تعلقات ہیں۔" وسیم نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔ "بڑا عجیب سا بندہ ہے، موڈ اچھا ہے تو دوسرے کو ساتویں آسمان پر بٹھا دے گا، موڈ خراب ہے تو سیدھا گٹر میں پہنچا دے گا۔"

"تمہارے زیادہ تر دوست اسی طرح کے ہیں" امامہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔ "کند ہم جنس باہم جنس پرواز۔"

"نہیں، خیر ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے۔ کم از کم میری عادتیں اور حرکتیں چُوچُو جیسی تو نہیں ہیں۔"

"وہ تو باہر جانے والا تھا نا؟" امامہ کو اچانک یاد آیا۔

"ہاں جانا تو تھا مگر پتا نہیں میرا خیال ہے اس کے پیرنٹس نہیں بھجوا رہے۔"

"حلیہ بڑا عجیب سا ہوتا ہے اس کا۔ مجھے بعض دفعہ لگتا ہے ہپیوں کے کسی قبیلے سے کسی نہ کسی طرح اس کا تعلق ہوگا یا آئندہ ہوجائے گا۔"

"تم نے دیکھا ہے اسے؟"

"کل میں باہر سے آرہی تھی تو دیکھا تھا۔ وہ بھی اسی وقت باہر نکل رہا تھا، کوئی لڑکی بھی تھی ساتھ۔"

"لڑکی؟ جینز وغیرہ پہنی ہوئی تھی اس نے؟ وسیم نے اچانک دلچسپی لیتے ہوئے کہا۔

"ہاں۔"

"مشروم کٹ بالوں والی۔۔۔۔۔فئیر سی؟"

"ارسہ۔"" وسیم چٹکی بجاتے ہوئے مسکرایا۔ "اس کی گرل فرینڈ ہے۔"

"پچھلی دفعہ تو تم کسی اور کا نام لے رہے تھے۔" امامہ نے اسے گھورا۔

"پچھلی دفعہ کب؟" وسیم سوچ میں پڑ گیا۔

"سات آٹھ ماہ پہلے شاید تم سے اس کی گرل فرینڈ کی بات ہوئی تھی۔"

"ہاں تب شیبا تھی۔ اب پتا نہیں وہ کہاں ہے۔"

"اس بار تو گاڑی کے پچھلے شیشے پر اس نے اپنے موبائل کا نمبر بھی پینٹ کروایا ہوا تھا۔" امامہ ایک موبائل نمبر دہراتے ہوئے ہنسی۔

"تمہیں یاد ہے؟" وسیم بھی ہنسا۔

"میں نے زندگی میں پہلی بار اتنا بڑا موبائل نمبر کہیں لکھا دیکھا تھا اور وہ بھی گاڑی کے شیشے پر اس کے نام کے ساتھ، یاد تو ہونا ہی تھا۔" امامہ پھر ہنسی

"میں تو خود سوچ رہا ہوں اپنی گاڑی کے شیشے پر موبائل نمبر لکھوانے کا۔" وسیم نے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔

"کونسے موبائل کا۔ وہ جو تم نے ابھی خریدا بھی نہیں۔" امامہ نے وسیم کا مذاق اڑآیا۔

"میں خرید رہا ہوں اس ماہ۔"

"بابا سے جوتے کھانے کے لئے تیار رہنا۔ اگر تم نے موبائل کے نمبر کو گاڑی کے شیشے پر لکھوایا سب سے پہلا فون ان کا ہی آئے گا۔"

"بس اس لئے ہر بار میں رک جاتا ہوں۔" وسیم نے ایک ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے کہا۔

"یہ تمہارے لئے اچھا ہی ہے۔ بابا سے ہڈیاں تڑوانے سے بہتر ہے کہ بندہ اپنے جذبات پر کچھ قابو رکھے اور تمہارے لئے تو خطرات ویسے بھی زیادہ ہیں۔ سمیعہ کو پتا چلا نا اگر اس قسم کے کسی موبائل فون کا تو۔۔۔۔۔" وسیم نے اس کی بات کاٹ دی۔

"تو کیا کرے گی وہ، میں اس سے ڈرتا نہیں ہوں۔"

"میں جانتی ہوں تم اسے سے ڈرتے نہیں ہو، مگر چھ بھائیوں کی اکلوتی بہن سے منگنی کرنے سے پہلے تمہیں تمام نفع نقصان پر غور کرلینا چاہیے تھا جن کا سامنا تمہیں کسی ایسی ویسی حرکت کے بعد ہوسکتا ہے۔" امامہ نے ایک بار پھر اسکی منگیتر کا حوالہ دیتے ہوئے اس کا مذاق اڑایا۔

"اب کیا کیا جاسکتا ہے، بس میرے مقدر میں تھا یہ سب کچھ۔" وسیم نے ایک مصنوعی آہ بھرتے ہوئے کہا۔

"مجھے کبھی بھی موبائل فون نہیں خریدنا چاہیے کیونکہ یہ میرے کسی کام نہیں آسکے گا۔ کم از کم جہاں تک گرل فرینڈ کی تلاش کا سوال ہے۔" وہ ایک بار پھر کرسی جھلانے لگا۔

"دیر سے ہی سہی مگر بات تمہاری سمجھ میں آہی گئی۔" امامہ نے ہاتھ بڑھا کر میز سے ہیڈفون اٹھاتے ہوئے کہا۔

"ویسے تم سن کیا رہی تھیں؟" وسیم کو اسے ہیڈفون اٹھاتے دیکھ کر پھر یاد آیا۔

"ویسے ہی کچھ خاص نہیں تھا۔" امامہ نے اٹھتے ہوئے اسے جیسے ٹالا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

"آپ لاہور جارہے ہیں تو واپسی پر امامہ کے ہاسٹل چلے جائیں، یہ کچھ کپڑے ہیں اس کے، درزی سے لے کر آئی ہوں، آپ اسے دے آئیں۔" سلمیٰ نے ہاشم سے کہا۔

"بھئی۔ میں بڑا مصروف رہوں گا لاہور میں، کہاں آتا جاتا پھروں گا اس کے ہاسٹل۔" ہاشم کو قدرے تامل ہوا۔

"آپ ڈرائیور کو ساتھ لے کر جارہے ہیں، خود نہیں جاسکتے تو اسے بھیج دیجئے گا، وہ دے آئے گا یہ پیکٹ۔ سیزن ختم ہورہا ہے پھر یہ کپڑے اسی طرح پڑے رہیں گے۔ اس کا تو پتا نہیں اب کب آئے۔" سلمیٰ نے لمبی چوڑی وضاحت کی۔

"اچھا ٹھیک ہے، میں لے جاتا ہوں۔ فرصت ملی تو خود دے آؤں گا ورنہ ڈرائیور کے ہاتھ بھجوا دوں گا۔" ہاشم رضامند ہوگئے۔

لاہور میں انہوں نے خاصا مصروف دن گزارا۔ شام پانچ بجے کے قریب انہیں کچھ فرصت ملی اور تب انہیں اس پیکٹ کا بھی خیال آگیا۔ ڈرائیور کو پیکٹ لے جانے کا کہنے کے بجائے وہ خود امامہ کے ہاسٹل چلے آئے۔ اس کے ایڈمیشن کے بعد آج پہلی بار وہ وہاں آئے تھے۔ گیٹ کیپر کے ہاتھ انہوں نے امامہ کے لئے پیغام بھجوایا اور خود انتظار کرنے لگے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ جلد ہی آجائے گی مگر ایسا نہ ہوا، دس منٹ، پندرہ منٹ، بیس منٹ۔۔۔۔۔ وہ اب کچھ بیزار ہونے لگے۔ اس سے پہلے کہ وہ اندر دوبارہ پیغام بھجواتے انہیں گیٹ کیپر ایک لڑکی کے ساتھ آتا دکھائی دیا۔ کچھ قریب آنے پر انہوں نے اس لڑکی کو پہچان لیا وہ جویریہ تھی امامہ کی بچپن کی دوست اور اس کا تعلق بھی اسلام آباد سے ہی تھا۔

"السلام علیکم انکل!۔" جویریہ نے پاس آکر کہا۔

"وعلیکم السلام! بیٹا کیسی ہو تم۔"

"میں ٹھیک ہوں۔"

"میں یہ امامہ کے کچھ کپڑے دینے آیا تھا، لاہور آرہا تھا تو اس کی امی نے یہ پیکٹ دے دیا۔ اب یہاں بیٹھے مجھے گھنٹہ ہوگیا ہے مگر انہوں نے اسے بلایا نہیں۔" ہاشم کے لہجے میں شکوہ تھا۔

"انکل! امامہ ماکیٹ گئی ہے کچھ دوستوں کے ساتھ، آپ یہ پیکٹ مجھے دے دیں، میں خود اسے دے دوں گی۔"

"ٹھیک ہے، تم رکھ لو۔" ہاشم نے وہ پیکٹ جویریہ کی طرف بڑھا دیا۔

رسمی علیک سلیک کے بعد وہ واپس مڑ گئے۔ جویریہ بھی پیکٹ پکڑ کر ہاسٹل کی طرف چلی گئی مگر اب اس کے چہرے پر موجود مسکراہٹ غائب ہوچکی تھی، کوئی بھی اس وقت اس کے چہرے پر پریشانی کو واضح طور پر بھانپ سکتا تھا۔

ہاسٹل کے اندر آتے ہی وارڈن سے اس کا سامنا ہوگیا جو سامنے ہی کھڑی تھیں، جویریہ کے چہرے پر ایک بار پھر مسکراہٹ آگئی۔

"بات ہوئی تمہاری اس کے والد سے؟" وارڈن نے اسے دیکھتے ہی اس کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔

"جی بات ہوئی، پریشانی والا کوئی مسئلہ نہیں ہے، وہ اسلام آباد میں اپنے گھر پر ہی ہے، اس کے والد یہ پیکٹ لے کر آئے تھے، میرے گھر والوں نے میرے کچھ کپڑے بھجوائے ہیں۔ انکل لاہور آرہے تھے تو امامہ نے کہا کہ وہ لے جائیں۔ انکل نے غلطی سے یہاں آکر میرا نام لینے کے بجائے امامہ کا نام لے دیا۔" جویریہ نے ایک ہی سانس میں کئی جھوٹ روانی سے بولے۔

وارڈن نے سکون کا سانس لیا۔ "خدا کا شکر ہے ورنہ میں تو پریشان ہی ہوگئی تھی کہ مجھے تو وہ ویک اینڈ پر گھر جانے کا کہہ کر گئی ہے۔۔۔۔۔ تو پھر وہ کہاں ہے۔۔۔۔۔"

وارڈن نے مڑتے ہوئے کہا۔ جویریہ پیکٹ پکڑے اپنے کمرے کی طرف چلی آئی۔ رابعہ اسے دیکھتے ہی تیر کی طرح اس کی طرف آئی۔

"کیا ہوا۔۔۔۔۔ اسلام آباد میں ہی ہے وہ؟"

"نہیں۔" جویریہ نے مایوسی سے سر ہلایا۔

"مائی گاڈ۔" رابعہ نے بے یقینی سے اپنے دونوں ہاتھ کراس کرکے سینے پر رکھے۔ "تو پھر کہاں گئی ہے وہ؟"

"مجھے کیا پتا مجھ سے تو اس نے یہی کہا تھا کہ گھر جارہی ہے، مگر وہ گھر نہیں گئی، آخر گئی کہاں ہے؟ امامہ ایسی تو نہیں ہے۔" جویریہ نے پیکٹ بستر پر پھینکتے ہوئے کہا۔

"وارڈن سے کیا کہا تم نے؟" رابعہ نے تشویش بھرے انداز میں پوچھا۔

"کیا کہا؟ جھوٹ بولا ہے اور کیا کہہ سکتی ہوں۔ یہ بتا دیتی کہ وہ اسلام آباد میں نہیں ہے تو ہاسٹل میں ابھی ہنگامہ شروع ہوجاتا، وہ تو پولیس کو بلوا لیتیں۔" جویریہ نے ناخن کاٹتے ہوئے کہا۔

"اور انکل کو۔۔۔۔۔ ان کو کیا بتایا ہے؟" رابعہ نے پوچھا۔

"ان سے بھی جھوٹ بولا ہے، یہی کہا ہے کہ وہ مارکیٹ گئی ہے۔"

"مگر اب ہوگا کیا؟" رابعہ نے پریشانی کے عالم میں کہا۔

"مجھے تو یہ فکر ہورہی ہے کہ اگر وہ واپس نہ آئی تو میں تو بری طرح پکڑی جاؤں گی۔ سب یہی سمجھیں گے کہ مجھے اس کے پروگرام کا پتا تھا، اس لئے میں نے وارڈن اور اس کے گھروالوں سے سب کچھ چھپایا۔" جویریہ کی پریشانی بڑھتی جارہی تھی۔

"کہیں امامہ کو کوئی حادثہ ہی پیش نہ آگیا ہو؟ ورنہ وہ ایسی لڑکی تو نہیں ہے کہ اس طرح۔۔۔۔۔" رابعہ کو اچانک ایک خدشے نے ستایا۔

"مگر اب ہم کیا کریں۔ ہم تو کسی سے اس سارے معاملے کو ڈسکس بھی نہیں کرسکتے۔" جویریہ نے ناخن کترتے ہوئے کہا۔

"زینب سے بات کریں۔" رابعہ نے کہا۔

"فار گاڈ سیک رابعہ! کبھی تو عقل سے کام لے لیا کرو، اس سے کیا بات کریں گے ہم۔" جویریہ نے جھنجلا کر کہا۔

"تو پھر انتظار کرتے ہیں، ہوسکتا ہے وہ آج رات تک یا کل تک آجائے اگر آگئی تو پھر کوئی مسئلہ نہیں رہے گا اور اگر نہ آئی تو پھر ہم وارڈن کو سب کچھ سچ سچ بتا دیں گے۔" رابعہ نے سنجیدگی سے سارے معاملے پر غور کرتے ہوئے طے کیا۔ جویریہ نے اسے دیکھا مگر اس کے مشورے پر کچھ کہا نہیں۔ پریشانی اس کے چہرے سے چھلک رہی تھی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

جویریہ اور رابعہ رات بھر سو نہیں سکیں۔ وہ مکمل طور پر خوف کی گرفت میں تھیں۔ اگر وہ نہ آئی تو کیا ہوگا، یہ سوال ان کے سامنے بار بار بھیانک شکلیں بدل بدل کر آرہا تھا۔ انہیں اپنا کیرئیر ڈوبتا ہوا نظر آرہا تھا۔ انہیں اندازہ تھا کہ ان کے گھر والے ایسے معاملے پر کیسا ردعمل ظاہر کریں گے۔ وہ انہیں بری طرح ملامت کرتے، انہیں امامہ کے والد کو سب کچھ صاف صاف نہ بتانے پر تنقید کا نشانہ بناتے اور پھر وارڈن سے سارے معاملے کو چھپانے پر اور بھی ناراض ہوتے۔

انہیں اندازہ نہیں تھا کہ حقیقت سامنے آنے پر خود ہاشم مبین اور انکی فیملی کا ردعمل کیا ہوگا، وہ اس سارے معاملے میں ان دونوں کے رول کو کس طرح دیکھیں گے۔ ہاسٹل میں لڑکیاں ان کے بارے میں کس طرح کی باتیں کریں گی اور پھر اگر یہ سارا معاملہ پولیس کیس بن گیا تو پولیس ان کی اس پردہ پوشی کو کیا سمجھے گی، وہ اندازہ کرسکتی تھیں اور اسی لئے باربار ان کے رونگٹے کھڑے ہورہے تھے۔

مگر سوال یہ پیدا ہوتا تھا کہ وہ گئی کہاں۔۔۔۔۔ اور کیوں۔۔۔۔۔ وہ دونوں اس کے پچھلے رویوں کا تجزیہ کرنے کی کوشش کررہی تھیں۔ کس طرح پچھلے ایک سال سے وہ بالکل بدل گئی تھی، اس نے انکے ساتھ گھومنا پھرنا بند کردیا تھا، وہ الجھی الجھی رہنے لگی تھی، پڑھائی میں اس کا انہماک بھی کم ہوگیا تھا اور اس کی کم گوئی۔

"اور وہ جو ایک بار وہ ہمارے شاپنگ کے لئے جانے پر پیچھے سے غائب تھی، تب بھی وہ یقیناً وہیں گئی ہوگی جہاں وہ اب گئی ہے اور ہم نے کس طرح بے وقوفوں کی طرح اس پر اعتبار کرلیا۔" رابعہ کو پچھلی باتیں یاد آرہی تھیں۔

"مگر امامہ ایسی نہیں تھی، میں تو اسے بچپن سے جانتی ہوں۔ وہ ایسی بالکل بھی نہیں تھی۔" جویریہ کو اب بھی اس پر کوئی شک نہیں ہورہا تھا۔

"ایسا ہونے میں کوئی دیر تھوڑی لگتی ہے، بس انسان کا کردار کمزور ہونا چاہیے۔" رابعہ بدگمانی کی انتہا پر پہنچی ہوئی تھی۔

"رابعہ! اس کی مرضی سے اس کی منگنی ہوئی تھی، وہ اور اسجد ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے پھر وہ اس طرح کی حرکت کیسے کرسکتی ہے۔" جویریہ نے اس کا دفاع کرنے کی کوشش کی۔

"پھر تم بتاؤ کہ وہ کہاں ہے۔۔۔۔۔ میں نے تو مکھی بنا کر اسے کسی دیوار کے ساتھ نہیں چپکایا ہے، اس کے بابا اس سے ملنے یہاں آئے ہیں اور وہ اپنے گھر سے آئے ہیں، تو ظاہر ہے وہ گھر پر نہیں گئی اور ہم سے وہ یہی کہہ کر گئی تھی کہ وہ گھر جارہی ہے۔" رابعہ نے بے چارگی سے کہا۔

"ایسا بھی تو ہوسکتا ہے کہ اسے کوئی حادثہ پیش آگیا ہو۔ ہوسکتا ہے وہ اسی لئے گھر نہ پہنچ سکی ہو۔"

"وہ ہر بار یہاں سے فون کرکے اسلام آباد اپنے گھر والوں کو ا پنے آنے کی اطلاع دے دیتی تھی تاکہ اس کا بھائی اسے کوسٹر کے اسٹینڈ سے پک کرلے۔ اگر اس بار بھی اس نے اطلاع دی تھی تو پھر اس کے وہاں نہ پہنچنے پر وہ لوگ اطمینا ن سے وہاں نہ بیٹھے ہوتے، وہ یہاں ہوسٹل میں فون کرتے اور اس کے والد کے انداز سے تو ایسا محسوس ہوا ہے جیسے اس کا اس ویک اینڈ پر اسلام آباد کا کوئی پروگرام نہیں تھا۔" رابعہ نے اس کے قیاس کو مکمل طور پر رد کرتے ہوئے کہا۔

"ہاں۔ وہ کبھی بھی ایک ماہ میں دوبار اسلام آباد نہیں جاتی تھی مگر اس بار تو وہ دوسرے ہی ہفتے اسلام آباد جارہی تھی اور اس نے وارڈن سے خاص طور پر یہ کہہ کر اجازت لی تھی۔ کوئی نہ کوئی بات ضرور ہے، کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ ضرور غلط ہے۔" جویریہ کو پھر خدشات ستانے لگے۔

"اسکے ساتھ ساتھ ہم بھی بری طرح ڈوبیں گے۔ ہم سے بہت بڑی غلطی ہوئی جو ہم نے سب کچھ اس طرح کوراپ کیا، ہمیں صاف صاف بات کرنی چاہیے تھی اس کے والد سے کہ وہ یہاں نہیں ہے، پھر وہ جو چاہے کرتے، یہ ان کا مسئلہ ہوتا، کم از کم ہم تو اس طرح نہ پھنستے جس طرح اب پھنس گئے ہیں۔" رابعہ مسلسل بڑبڑارہی تھی۔

"خیر اب کیا ہوسکتا ہے، صبح تک انتظار کرتے ہیں اگر وہ کل بھی نہیں آئی تو پھر وارڈن کو سب کچھ بتا دیں گے۔" جویریہ نے کمرے کے چکر لگاتے ہوئے کہا۔

وہ رات ان دونوں نے اسی طرح باتیں کرتے جاگتے ہوئے گزار لی۔ اگلے دن وہ دونوں کالج نہیں گئیں۔ اس حالت میں کالج جانے کا کوئی فائدہ بھی نہیں ہوتا۔

امامہ ویک اینڈ پر ہفتہ کو واپسی پر نوبجے کے قریب آجایا کرتی تھی مگر وہ اس دن نہیں آئی۔ ان کے اعصاب جواب دینے لگے۔ ڈھائی بجے کے قریب وہ فق رنگت اور کانپتے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ اپنے کمرے سے وارڈن کے کمرے میں جانے کے لئے نکل آئیں، ان کے ذہن میں وہ جملے گردش کررہے تھے، جو انہیں وارڈن سے کہنے تھے۔

وہ وارڈن کے کمرے سے ابھی کچھ دور ہی تھیں جب انہوں نے امامہ کو بڑے اطمینان کے ساتھ اندر آتے دیکھا۔ اس کا بیگ اس کے کاندھے پر تھا اور فولڈر ہاتھوں میں، وہ یقیناً سیدھی کالج سے آرہی تھی۔

جویریہ اور رابعہ کو یوں لگا جیسے ان کے پیروں کے نیچے سے نکلتی ہوئی زمین یکدم تھم گئی تھی۔ ان کی رکی ہوئی سانس ایک بار پھر چلنے لگی تھی۔ کل کے اخبارات میں متوقع وہ ہیڈلائنز جو بھوت بن کر ان کے گرد ناچ رہی تھیں یکدم غائب ہوگئیں اور ان کی جگہ اس غصے اور اشتعال نے لے لی تھی جو انہیں امامہ کی شکل دیکھ کر آیا تھا۔

وہ انہیں دیکھ چکی تھی اور اب ان کی طرف بڑھ رہی تھی، اس کے چہرے پر بڑی خوشگوار سی مسکراہٹ تھی۔

"تم دونوں آج کالج کیوں نہیں آئیں؟" سلام دعا کے بعد اس نے ان سے پوچھا۔

"تمہاری مصیبتوں سے چھٹکارا ملے گا تو ہم کہیں آنے جانے کا سوچ سکیں گے۔" رابعہ نے تندوتیز لہجے میں اس سے کہا۔

امامہ کے چہرے کی مسکراہٹ غائب ہوگئی۔

"کیا ہوا رابعہ! اس طرح غصے میں کیوں ہو؟" امامہ نے قدرے تشویش سے پوچھا۔

"تم ذرا اندر کمرے میں آؤ پھر تمہیں بتاتی ہوں کہ میں غصے میں کیوں ہوں۔" رابعہ نے اسے بازو سے پکڑ لیا اور تقریباً کھینچتے ہوئے کمرے میں لے آئی۔ جویریہ کچھ کہے بغیر ان دونوں کے پیچھے آگئی۔ امامہ ہکا بکا تھی اور رابعہ اور جویریہ کے رویے کو سمجھ نہیں پارہی تھی۔

کمرے میں داخل ہوتے ہی رابعہ نے دروازہ بند کرلیا۔

"کہاں سے آرہی ہو تم؟" رابعہ نے مڑ کر انتہائی تلخ اور درشت لہجے میں اس سے پوچھا۔

"اسلام آباد سے اور کہاں سے۔" امامہ نے اپنا بیگ نیچے زمین پر رکھ دیا اسکے جواب نے رابعہ کو کچھ اور مشتعل کیا۔

"شرم کرو امامہ۔۔۔۔۔! اس طرح ہمیں دھوکا دے کر، ہماری آنکھوں دھول جھونک کر آخر تم ثابت کرنا کیا چاہتی ہو۔ یہ کہ ہم ڈفر ہیں۔ ایڈیٹ ہیں۔ پاگل ہیں۔ بھئی ہم ہیں۔ ہم مانتے ہیں۔۔۔۔۔ نہ ہوتے تو یوں تم پر اندھا اعتبار نہ کیا ہوتا تم سے اتنا بڑا دھوکا نہ کھایا ہوتا۔" رابعہ نے کہا۔

"مجھے تمہاری کوئی بات سمجھ میں نہیں آرہی۔ کونسا دھوکا۔۔۔۔۔ کیسا دھوکا، کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ تم آرام سے مجھے اپنی بات سمجھاؤ۔" امامہ نے بے چارگی سے کہا۔

"تم ویک اینڈ کہاں گزار کر آئی ہو؟" جویریہ نے پہلی بار گفتگو میں مداخلت کی۔

"تمہیں بتا چکی ہوں اسلام آباد میں، وہاں سے آج سیدھا کالج آئی ہوں اور اب کالج سے۔۔۔۔۔" رابعہ نے اسے بات مکمل نہیں کرنے دی۔

"بکواس بند کرو۔۔۔۔۔ یہ جھوٹ اب نہیں چل سکتا، تم اسلام آباد نہیں گئی تھیں۔"

"یہ تم کیسے کہہ سکتی ہو؟" اس بار امامہ نے بھی قدرے بلند آواز میں کہا۔

"کیونکہ تمہارے فادر یہاں آئے تھے کل۔" امامہ کا رنگ اڑ گیا۔ وہ کچھ بول نہیں سکی۔

"اب کیوں منہ بند ہوگیا ہے۔ اب بھی کہو اسلام آباد سے آرہی ہو۔" رابعہ نے طنزیہ لہجے میں کہا۔

"بابا یہاں۔ آئے تھے؟" امامہ نے اٹکتے ہوئے کہا۔

"ہاں آئے تھے، تمہارے کچھ کپڑے دینے کے لئے۔" جویریہ نے کہا۔

"انہیں یہ پتا چل گیا کہ میں ہاسٹل میں نہیں ہوں۔"

"میں نے جھوٹ بول دیا کہ تم ہاسٹل سے کسی کام سے باہر گئی ہو، وہ کپڑے دے کر چلے گئے۔" جویریہ نے کہا۔ امامہ نے بے اختیار اطمینان کا سانس لیا۔

"یعنی انہیں کچھ پتا نہیں چلا؟" اس نے بستر پر بیٹھ کر اپنے جوتے کے اسٹریپس کھولتے ہوئے کہا۔

"نہیں انہیں کچھ پتا نہیں چلا۔۔۔۔۔ تم منہ اٹھا کر اگلے ہفتے پھر کہیں روانہ ہوجانا۔ مائنڈ یو امامہ! میں اب وارڈن سے اس سلسلے میں بات کرنے والی ہوں۔ ہم تمہاری وجہ سے خاصی پریشانی اٹھا چکے ہیں۔ مزید اٹھانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ بہتر ہے تمہارے پیرنٹس کو تمہاری ان حرکتوں کے بارے میں پتا چل جائے۔" رابعہ نے دو ٹوک انداز میں اس سے کہا۔ امامہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔

"کون سی حرکتوں کے بارے میں۔۔۔۔۔ میں نے کیا کیا ہے۔"

"کیا کیا ہے؟ ہاسٹل سے اس طرح دو دن کے لئے گھر کا کہہ کر غائب ہوجانا تمہارے نزدیک کوئی بڑی بات نہیں ہے۔"

امامہ جواب دینے کے بجائے دوسرے جوتے کے بھی اسٹریپس کھولنے لگی۔

"مجھےو ارڈن کے پاس چلے ہی جانا چاہیے۔"

رابعہ نے غصے کے عالم میں دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔

جویریہ نے آگے بڑھ کر اسے روکا۔ "وارڈن سے بات کرلیں گے، پہلے اس سے تو بات کرلیں۔ تم جلد بازی مت کرو۔"

"مگر اس ڈھیٹ کا اطمینان دیکھو۔۔۔۔۔ مجال ہے ذرہ برابر شرمندگی بھی اس کے چہرے پر جھلک رہی ہو۔" رابعہ نے غصے میں امامہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

"میں تم دونوں کو سب کچھ بتا دوں گی۔ اتنا غصے میں آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا نہ ہی کسی غلط جگہ پر گئی ہوں اور ہاں بھاگی بھی نہیں ہوں۔" امامہ نے جوتوں کی قید سے اپنے پیروں کو آزاد کرتے ہوئے قدرے دھیمے لہجے میں کہا۔

"پھر تم کہاں گئی تھیں؟" اس بار جویریہ نے پوچھا۔

"اپنی ایک دوست کے ہاں۔"

"کونسی دوست؟"

"ہے ایک۔"

"اس طرح جھوٹ بول کر کیوں؟"

"میں تم لوگوں کے سوالوں سے بچنا چاہتی تھی اور گھر والوں کو بتاتی یا ان سے اجازت لینے کی کوشش کرتی تو وہ کبھی اجازت نہ دیتے۔"

"کس کے ہاں گئی تھیں؟ اور کس لئے؟" جویریہ نے اس بار قدرے تجسس آمیز انداز میں پوچھا۔

"میں نے کہا نا، میں بتا دوں گی۔ کچھ وقت دو مجھے۔" امامہ نے اس کی بات کے جواب میں کہا۔

"کوئی وقت نہیں دے سکتے تمہیں۔۔۔۔۔ تمہیں وقت دیں تاکہ تم ایک بار پھر غائب ہوجاؤ اور اس بار واپس ہی نہ آؤ۔" رابعہ نے اس بار بھی ناراضی سے کہا مگر پہلے کی نسبت اس بار اس کا لہجہ دھیماتھا۔

"تمہیں تو اس بات کا بھی احساس نہیں ہوا کہ تم نے ہماری پوزیشن کتنی آکورڈ بنا دی تھی، اگر تمہارے اس طرح غائب ہونے کا پتہ چل جاتا تو ہماری کتنی بے عزتی ہوتی۔ اس کا احساس تھا تمہیں؟" رابعہ نے اسی انداز میں کہا۔

"مجھے یہ توقع ہی نہیں تھی کہ بابا اس طرح اچانک یہاں آجائیں گے۔ اس لئے میں یہ بھی نہیں سوچ سکتی تھی کہ تم لوگوں کو کسی نازک صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ورنہ میں اس طرح کبھی نہ کرتی۔" امامہ نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔

"تم کم ازکم ہم پر اعتبار کرکے، ہمیں بتا کر جاسکتی تھی۔" جویریہ نے کہا۔

"میں آئندہ ایسا کبھی نہیں کروں گی۔" امامہ نے کہا۔

"کم از کم میں تمہارے کسی وعدے، کسی بات پر اعتبار نہیں کرسکتی۔" رابعہ نے دوٹوک انداز میں کہا۔

"مجھے اپنی پوزیشن کلئیر کرنے دو رابعہ! تم مجھے غلط سمجھ رہی ہو۔" امامہ نے اس بار قدرے کمزور انداز میں کہا۔

"تم کو احساس ہے کہ تمہاری وجہ سے ہمارا کیرئیر اور ہماری زندگی کس طرح داؤ پر لگ گئی تھی۔ یہ دوستی ہوتی ہے؟ اسے دوستی کہتے ہیں؟"

"ٹھیک ہے۔ مجھ سے غلطی ہوگئی۔ مجھے معاف کردو۔" امامہ نے جیسے ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا۔

"جب تک تم یہ نہیں بتاؤ گی کہ تم کہاں غائب ہوگئی تھیں، میں تمہاری کوئی معذرت قبول نہیں کروں گی۔" رابعہ نے دوٹوک انداز میں کہا۔

امامہ کچھ دیر اسے دیکھتی رہی پھر اس نے کہا۔

"میں صبیحہ کے گھر چلی گئی تھی۔" جویریہ اور رابعہ نے حیرانی سے ایک دوسرے کو دیکھا۔

"کون۔۔۔۔۔؟" ان دونوں نے تقریباً بیک وقت پوچھا۔

"تم لوگ جانتی ہو اسے۔" امامہ نے کہا۔

"وہ فورتھ ائیر کی صبیحہ؟" جویریہ نے بے اختیار پوچھا۔

امامہ نے سرہلایا۔ "مگر اس کے گھر کس لئے گئی تھیں تم؟"

"دوستی ہے اس سے میری۔" امامہ نے کہا۔

"دوستی۔۔۔۔۔؟ کیسی دوستی۔۔۔۔۔؟ چار دن کی سلام دعا ہے تمہارے ساتھ اس کی اور میرا خیال ہے تم تو اسے اچھی طرح جانتی بھی نہیں ہو پھر اس کے گھر رہنے کے لئے کیوں چل پڑیں؟" جویریہ نے اعتراض کرتے ہوئے کہا۔

"وہ بھی اس طرح جھوٹ بول کر۔۔۔۔۔ کم از کم اس کے گھر جاکر رہنے کے لئے تمہیں ہم سے یا اپنے گھر والوں سے جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں تھی۔" رابعہ نے اسی لہجے میں کہا۔

"تم اسے کال کرکے پوچھ لو کہ میں اس کے گھر پر تھی یا نہیں۔۔۔۔۔" امامہ نے کہا۔

"چلو یہ مان لیا کہ تم اس کے گھر پر تھیں مگر کیوں تھیں؟" جویریہ نے پوچھا۔

امامہ خاموش رہی پھر کچھ دیر بعد اس نے کہا۔ "مجھے اس کی مدد کی ضرورت تھی۔"

ان دونوں نے حیران ہوکر دیکھا۔ "کس سلسلے میں؟"

امامہ نے سر اٹھایا اور پلکیں جھپکائے بغیر دیکھتی رہی۔ جویریہ نے کچھ بے چینی محسوس کی۔ "کس سلسلے میں؟"

"تم اچھی طرح جانتی ہو۔" امامہ نے قدرے مدھم انداز میں کہا۔

"میں۔۔۔۔۔؟" جویریہ نے کچھ گڑبڑا کر رابعہ کو دیکھا جو اب بڑی سنجیدگی سے اسے دیکھ رہی تھی۔

"ہاں، تم تو اچھی طرح جانتی ہو۔"

"تم پہیلیاں مت بجھواؤ۔ سیدھی اور صاف بات کرو۔" جویریہ نے قدرے سخت لہجے میں کہا۔ امامہ سر اٹھا کر خاموشی سے اسے دیکھنے لگی پھر کچھ دیر بعد شکست خوردہ انداز میں اس نے سر جھکا دیا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

جاری ہے
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: پیر کامل از عمیره احمد

Post by ایکسٹو »

پیر کامل

۔۔۔۔۔۔

قسط نمبر 6

"بتاؤ نا۔ آخر تمہاری زندگی کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے؟" اس دن کالج میں امامہ نے جویریہ سے اصرار کیا۔

جویریہ کچھ دیر ا سکا چہرہ دیکھتی رہی۔ "میری خواہش ہے کہ تم مسلمان ہوجاؤ۔"

امامہ کو جیسے ایک کرنٹ سا لگا۔ اس نے شاک اور بے یقینی کے عالم میں جویریہ کو دیکھا۔ وہ دھیمے لہجے میں کہتی جارہی تھی۔

"تم میری اتنی اچھی اور گہری دوست ہو کہ مجھے یہ سوچ کر تکلیف ہوتی ہے کہ تم گمراہی کے راستے پر چل رہی ہو اور تمہیں اس کا احساس تک نہیں ہے۔۔۔۔۔ نہ صرف تم بلکہ تمہاری پوری فیملی۔۔۔۔۔ میری خواہش ہے کہ نیک اعمال پر اگر اللہ مجھے جنت میں بھیجے تو تم میرے ساتھ ہو لیکن اس کے لئے مسلمان ہونا تو ضروری ہے۔"

امامہ کے چہرے پر ایک کے بعد ایک رنگ آرہا تھا۔ بہت دیر بعد وہ کچھ بولنے کے قابل ہوسکی۔

"میں توقع نہیں کرسکتی تھی جویریہ کہ تم مجھ سے تحریم جیسی باتیں کرو گی۔ تمہیں تو میں اپنا دوست سمجھتی تھی مگر تم بھی۔۔۔۔۔" جویریہ نے نرمی سے اس کی بات کاٹ دی۔

"تحریم نے تم سے تب جو کچھ کہا تھا، ٹھیک کہا تھا۔" امامہ پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھتی رہی، اسے جویریہ کی باتوں سے بہت تکلیف ہورہی تھی۔

"اور صرف آج ہی نہیں، میں اس وقت بھی تحریم کو صحیح سمجھتی تھی مگر میری تمہارے ساتھ دوستی تھی اور میں چاہنے کے باوجود تم سے یہ نہیں کہہ سکی کہ میں تحریم کو حق بجانب سمجھتی ہوں۔ اگر وہ یہ کہتی تھی کہ تم مسلمان نہیں ہو تو یہ ٹھیک تھا۔ تم مسلمان نہیں ہو۔"

امامہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ کچھ بھی کہے بغیر وہ ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ جویریہ بھی اس کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔ امامہ کچھ بھی کہے بغیر وہاں سے جانے کی کوشش کی مگر جویریہ نے اس کا بازو پکڑ لیا۔

"تم میرا بازو چھوڑ دو۔۔۔۔۔ مجھے جانے دو، آئندہ کبھی تم مجھ سے بات تک مت کرنا۔" امامہ نے بھرائے ہوئے لہجے میں اس سے اپنا بازو چھڑانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔

"امامہ! میری بات سمجھنے کی کوشش کرو۔۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔"

امامہ نے اس کی بات کاٹ دی۔ "تم نے کتنا ہرٹ کیا ہے مجھے۔ جویریہ مجھے کم از کم تم سے یہ امید نہیں تھی۔"

"میں تمہیں ہرٹ نہیں کررہی ہوں۔ حقیقت بتا رہی ہوں۔ رونے یا جذبات میں آنے کے بجائے تم ٹھنڈے دل و دماغ سے میری بات سوچو۔۔۔۔۔ میں آخر تم کو بے کار کسی بات پر ہرٹ کیوں کروں گی۔" جویریہ نے اس کا بازو نہیں چھوڑا۔

"یہ تو تمہیں پتا ہی ہوگا کہ تم مجھے ہرٹ کیوں کررہی ہو، مگر مجھے آج یہ اندازہ ضرور ہو گیا ہے کہ تم میں اور تحریم میں کوئی فرق نہیں ہے بلکہ تم نے تو مجھے اس سے بھی زیادہ تکلیف پہنچائی ہے۔ اس سے میری دوستی اتنی پرانی نہیں تھی جتنی تمہارے ساتھ ہے۔" امامہ کے گالوں پر آنسو بہہ رہے تھےا ور وہ مسلسل اپنا بازو جویریہ کی گرفت سے آزاد کروانے کی کوشش کررہی تھی۔

"یہ تمہارا اصرار تھا کہ میں تمہیں اپنی زندگی کی سب سے بڑی خواہش بتاؤں۔ میں اسی لئے تمہیں نہیں بتا رہی تھی اور میں نے تمہیں پہلے ہی متنبہ کردیا تھا کہ تم میری بات پر بہت ناراض ہوگی مگر تم نے مجھے یقین دلایا تھا کہ ایسا کبھی نہیں ہوگا۔" جویریہ نے اسے یاد دلانے کی کوشش کی۔

"مجھے اگر یہ پتا ہوتا کہ تم میرے ساتھ اس طرح کی بات کرو گی تو میں کبھی تم سے تمہاری زندگی کی سب سے بڑی خواہش جاننے پر اصرار نہ کرتی۔" امامہ نے اس بار قدرے غصے سے کہا۔

"اچھا میں دوبارہ اس معاملے پر تم سے بات نہیں کروں گی۔" جویریہ نے قدرے مدافعانہ انداز میں کہا۔

"اس سے کیا ہوگا۔ مجھے یہ تو پتا چل گیا ہے کہ تم درحقیقت میرے بارے میں کیا سوچتی ہو۔۔۔۔۔ ہماری دوستی اب کبھی بھی پہلے جیسی نہیں ہوسکتی۔ آج تک میں نے کبھی تم پر اس طرح تنقید نہیں کی مگر تم مجھے اسلام کا ایک فرقہ سمجھنے کے بجائے غیر مسلم بنا رہی ہو۔" امامہ نے کہا۔

"میں اگر ایسا کررہی ہوں تو غلط نہیں کررہی۔ اسلام کے تمام فرقے کم از کم یہ ایمان ضرور رکھتے ہیں کہ حضورصلی اللہ علیہ وآل وسلم اللہ کے آخری رسول ہیں اور ان کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے۔" اس بار جویریہ کو بھی غصہ آگیا۔

"مائنڈ یور لینگویج۔" امامہ بھی بھڑک اٹھی۔

"میں تمہیں حقیقت بتا رہی ہوں امامہ ۔۔۔۔۔ اور میں ہی نہیں یہ بات سب لوگ جانتے ہیں کہ تمہاری فیملی نے روپے کے حصول کے لئے مذہب بدلا ہے۔"

"امامہ! میری باتوں پر اتنا ناراض ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ٹھنڈے دل و دماغ سے۔۔۔۔۔"

امامہ نے جویریہ کی بات کاٹ دی۔" مجھے ضرورت نہیں ہے تمہاری کسی بھی بات پر ٹھنڈے دل و دعاغ سے غور کرنے کی ۔میں جانتی ہوں حقیقت کیا ہے اور کیا نہیں۔۔۔۔۔"

"تم نہیں جانتیں اور یہی افسوس ناک بات ہے۔" جویریہ نے کہا امامہ نے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے اس بار بہت زور کے جھٹکے سے اپنا بازو چھڑالیا اور تیز قدموں کے ساتھ وہاں سے چل پڑی۔

اس بار جویریہ نے اس کے پیچھے جانے کی کوشش نہیں کی۔ وہ کچھ افسوس اور پریشانی سے اسے دور جاتے دیکھتی رہی۔ امامہ اس طرح ناراض نہیں ہوتی تھی جس طرح وہ آج ہوگئی تھی اور یہی بات جویریہ کو پریشان کررہی تھی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ہ سب کچھ اسکول میں ہونے والے ایک واقعے سے شروع ہوا تھا۔ امامہ اس وقت میٹرک کی اسٹوڈنٹ تھی اور تحریم اس کی اچھی دوستوں میں سے ایک تھی۔ وہ لوگ کئی سال سے اکٹھے تھے اور نہ صرف ایک ہی اسکول میں پڑھتے تھے بلکہ انکی فیملیز بھی ایک دوسرے کو بہت اچھی طرح جانتی تھیں۔ اپنی فرینڈز میں سے امامہ کی سب سے زیادہ دوستی تحریم اور جویریہ سے تھی مگر اسے حیرت ہوتی تھی کہ اتنی گہری دوستی کے باوجود بھی جویریہ اور تحریم اس کے گھر آنے سے کتراتی تھیں۔ امامہ ہر سال اپنی سالگرہ پر انہیں انوائیٹ کرتی اور اکثر وہ اپنے گھر پر ہونے والی دوسری تقریبات میں بھی انہیں مدعو کرتیں، وہ گھر سے اجازت نہ ملنے کا بہانہ بنا دیتیں۔ چند بار امامہ نے خود ان دونوں کے والدین سے اجازت لینے کے لئے بات کی، لیکن اس کے بے تحاشا اصرار کے باوجود ان دونوں کے والدین انہیں اس کے گھر آنے کی اجازت نہ دیتے۔ ان کے رویے پر کچھ شاکی ہوکر اس نے اپنے والدین سے شکایت کی۔

"تمہاری یہ دونوں فرینڈز سید ہیں۔ یہ لوگ عام طور پر ہمارے فرقہ کو پسند نہیں کرتے۔ اسی لئے ان دونوں کے والدین انہیں ہمارے گھر آنے نہیں دیتے۔"

ایک بار اس کی امی نے اس کی شکایت پر کہا۔

"یہ کیا بات ہوئی۔۔۔۔۔ ہمارے فرقے کو کیوں پسند نہیں کرتے۔" امامہ کو ان کی بات پر تعجب ہوا۔

"اب یہ تو وہی لوگ بتا سکتے ہیں کہ وہ ہمارے فرقے کو کیوں پسند نہیں کرتے۔۔۔۔۔ یہ تو ہمیں غیر مسلم بھی کہتے ہیں۔" اس کی امی نے کہا۔

"کیوں غیر مسلم کہتے ہیں۔ ہم تو غیر مسلم نہیں ہیں۔" امامہ نے کچھ الجھ کر کہا۔

"ہاں بالکل۔ ہم مسلمان ہیں۔۔۔۔۔ مگر یہ لوگ ہمارے نبی پر یقین نہیں رکھتے۔" اسکی امی نے کہا۔

"کیوں؟"

"اب اس کیوں کا میں کیا جواب دے سکتی ہوں۔ اب یہ لوگ یقین نہیں رکھتے۔ کٹر ہیں بڑے، یہ تو انہیں قیامت کے دن ہی پتا چلے گا کہ کون سیدھے رستے پر تھا۔ ہم یا یہ۔۔۔۔۔۔"

"مگر امی مجھ سے تو انہوں نے کبھی مذہب پر بات نہیں کی۔ پھر مذہب مسئلہ کیسے بن گیا۔۔۔۔۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے پھر دوسرے کے گھر آنے جانے سے کیا ہوتا ہے۔" امامہ ابھی بھی الجھی ہوئی تھی۔

"یہ بات انہیں کون سمجھائے۔۔۔۔۔ یہ لوگ ہمیں جھوٹا کہتے ہیں، حالانکہ خود انہیں ہمارے بارے میں کچھ پتا نہیں۔۔۔۔۔ بس مولویوں کے کہنے میں آکر ہم پر چڑھ دوڑتے ہیں، انہیں ہمارے بارے میں اور ہمارے نبی کی تعلیمات کے بارے میں کچھ پتا ہو تو یہ لوگ اس طرح نہ کریں۔ شاید پھر انہیں کچھ شعور آجائے۔۔۔۔۔ اور یہ لوگ بھی ہماری طرح راہ راست پر آجائیں۔ تمہاری فرینڈز اگر تمہارے گھر نہیں آتیں تو تمہیں پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ تم بھی ان کے گھر مت جایا کرو۔"

"مگر امی! انکی غلط فہمیاں تو دور ہونا چاہیں میرے بارے میں۔" امامہ نے ایک بار پھر کہا۔

"یہ کام تم نہیں کرسکتیں۔ ان لوگوں کے ماں باپ مسلسل اپنے بچوں کی ہمارے خلاف برین واشنگ کرتے رہتے ہیں۔ ان کے دلوں میں ہمارے خلاف زہر بھرتے رہتے ہیں۔"

"نہیں امی! وہ میری بیسٹ فرینڈز ہیں۔ ان کو میرے بارے میں اس طرح نہیں سوچنا چاہیے۔ میں ان لوگوں کو اپنی کتابیں پڑھنے کے لئے دوں گی، تاکہ ان کے دل سے میرے بارے میں یہ غلط فہمیاں دور ہوسکیں، پھر ہوسکتا ہے یہ ہمارے نبی کو بھی مان جائیں۔" امامہ نے کہا اس کی امی کچھ سوچ میں پڑ گئیں۔

"آپ کو میری تجویز پسند نہیں آئی؟"

"ایسا نہیں ہے۔۔۔۔۔ تم ضرور انہیں اپنی کتابیں دو۔۔۔۔۔ مگر اس طریقے سے نہیں کہ انہیں یہ لگے کہ تم اپنے فرقہ کی ترویج کے لئے انہیں یہ کتابیں دے رہی ہو۔ تم انہیں یہ کہہ کر کتابیں دینا کہ تم چاہتی ہو کہ وہ ہمارے بارے میں جانیں۔ ہم کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ سکیں اور ان سے یہ بھی کہنا کہ ان کتابوں کا ذکر وہ اپنے گھروالوں سے نہ کریں۔۔۔۔۔ ورنہ وہ لوگ زیادہ ناراض ہوجائیں گے۔" امامہ نے انکی بات پر سرہلادیا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اس کے چند دنوں بعد امامہ اسکول میں کچھ کتابیں لے گئی تھی۔ بریک کے دوران وہ جب گراؤنڈ میں آکر بیٹھیں تو امامہ اپنے ساتھ وہ کتابیں بھی لے آئی۔

"میں تمہارے اور جویریہ کے لئے کچھ لے کر آئی ہوں۔

"کیا لائی ہو دکھاؤ!۔" امامہ نے شاپر سے وہ کتابیں نکال لیں اور انہیں دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے ان دونوں کی طرف بڑھا دیا۔ وہ دونوں ان کتابوں پر نظر ڈالتے ہی کچھ چپ سی ہوگئیں۔ جویریہ نے امامہ سے کچھ نہیں کہا مگر تحریم یکدم کچھ اکھڑ گئی۔

"یہ کیا ہے؟" اس نے سردمہری سے پوچھا۔

"یہ کتابیں میں تمہارے لئے لائی ہوں۔" امامہ نے کہا۔

"کیوں؟"

"تاکہ تم لوگوں کی غلط فہمیاں دور ہوسکیں۔"

"کس طرح کی غلط فہمیاں؟"

"وہی غلط فہمیاں جو تمہارے دل میں، ہمارے مذہب کے بارے میں ہیں۔" امامہ نے کہا۔

"تم سے کس نے کہا کہ ہمیں تمہارے مذہب یا تمہارے نبی کے بارے میں کچھ غلط فہمیاں ہیں؟" تحریم نے بڑی سنجیدگی سے پوچھا۔

"میں خود اندازہ کرسکتی ہوں۔ صرف اسی وجہ سے تو تم لوگ ہمارے گھر نہیں آتے۔ تم لوگ شاید یہ سمجھتے ہو کہ ہم لوگ مسلمان نہیں ہیں یا ہم لوگ قرآن نہیں پڑھتے یا ہم لوگ محمد ﷺ کو پیغمبر نہیں مانتے حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔۔۔۔۔ ہم لوگ ان سب چیزوں پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم تو صرف یہ کہتے ہیں کہ محمد ﷺ کے بعد ہمارا بھی ایک نبی ہے اور وہ بھی اسی طرح قابل احترام ہے جس طرح محمد ﷺ۔" امامہ نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ وضاحت کرتے ہوئے کہا۔

تحریم نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی کتابیں اسے واپس تھما دیں۔ "ہمیں تمہارے اور تمہارے مذہب کے بارے میں کوئی غلط فہمی نہیں ہے۔۔۔۔۔ ہم تمہارے مذہب کے بارے میں ضرورت سے زیادہ جانتے ہیں۔ اس لئے تم کو کوئی وضاحت پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔" اس نے بڑے روکھے لہجے میں امامہ سے کہا۔ "اور جہاں تک ان کتابوں کا تعلق ہے تو میرے اور جویریہ کے پاس اتنا بے کار وقت نہیں ہے کہ ان احمقانہ دعوؤں، خوش فہمیوں اور گمراہی کے اس پلندے پر ضائع کریں جسے تم اپنی کتابیں کہہ رہی ہو۔" تحریم نے ایک جھٹکے کے ساتھ جویریہ کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی کتابیں کھینچ کر انہیں بھی امامہ کے ہاتھ میں تھما دیا۔ امامہ کا چہرہ خفت اور شرمندگی سے سرخ پڑ گیا۔ اسے تحریم سے اس طرح کے تبصرے کی توقع نہیں تھی اگر ہوتی تو وہ کبھی اسے وہ کتابیں دینے کی حماقت ہی نہ کرتی۔

"اور جہاں تک اس احترام کا تعلق ہے تو اس نبی میں جس پر نبوت کا نزول ہوتا ہے اور اس نبی میں جو خودبخود نبی ہونے کی خوش فہمی میں مبتلا ہوجاتا ہے زمین اور آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ تم لوگوں کو اگر قرآن پر واقعی یقین ہوتا تو تمہیں اس کے ایک ایک حرف پر یقین ہوتا۔ نبی ہونے میں اور نبی بننے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔"

"تحریم! تم میری اور میرے فرقہ کی بے عزتی کررہی ہو۔" امامہ نے انکھوں میں امڈتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ کہا۔

"میں کسی کی بے عزتی نہیں کررہی۔ میں صرف حقیقت بیان کررہی ہوں، وہ اگر تمہیں بے عزتی لگتی ہے تو میں اس کے بارے میں کچھ نہیں کرسکتی۔" تحریم نے دو ٹوک انداز میں کہا۔

"روزہ رکھنے اور بھوکے رہنے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ قرآن پڑھنے اور اس پر ایمان لانے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ بہت سارے عیسائی اور ہندو بھی اسلام کے بارے میں جاننے کے لئے قرآن پاک پڑھتے ہیں تو کیا انہیں مسلمان مان لیا جاتا ہے اور بہت سے مسلمان بھی دوسرے مذہب کے بارے میں جاننے کے لئے دوسری الہامی کتابیں پڑھتے ہیں تو کیا وہ غیر مسلم ہوجاتے ہیں اور تم لوگ اگر حضور ﷺ کو پیغمبر مانتے ہو تو کوئی احسان نہیں کرتے۔ تم ان کی نبوت کو جھٹلاؤ گے تو اور کیا جھٹلاؤ گے، پھر تو انجیل کو بھی جھٹلانا پڑے گا۔ جس میں حضور ﷺ کی نبوت کی خوش خبری دی گئی ہے۔ پھر تو توریت کو بھی جھٹلانا پڑے گاجس میں ان کی نبوت کی بات کی گئی ہے، پھر قرآن پاک کو بھی جھٹلانا پڑے گا جو محمد ﷺ کو آخری نبی قرار دیتا ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اگر تمہارا نبی محمد ﷺ کی نبوت کو جھٹلاتا ہے تو وہ ان مناظروں کی کیا توجیہہ پیش کرتا جو وہ نبوت کا دعویٰ کرنے سے پہلے کئی سال عیسائی پادریوں سے محمد ﷺ کی نبوت اور اسلام کے آخری دین ہونے پر کرتا رہاتھا۔ اس لئے امامہ ہاشم! تم ان چیزوں کے بارے میں بحث کرنے کی کوشش مت کرو جن کے بارے میں تمہیں سرے سے کچھ پتا ہی نہیں ہے۔ تمہیں نہ اس مذہب کے بارے میں پتا ہے جس پر تم چل رہی ہو اور نہ اس کے بارے میں جس پر تم بات کررہی ہو۔"

تحریم نے دو ٹوک انداز میں کہا۔

"اور میں ایک چیز بتادوں تمہیں۔۔۔۔۔ دین میں کوئی جبر نہیں ہوتا۔۔۔۔۔ تم لوگ محمد ﷺ کی نبوت کے ختم ہونے کا انکار کرتے ہو تو ہمارے پیغمبر ﷺ کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔"

"مگر ہم محمد ﷺ کی نبوت پر یقین رکھتے ہیں۔" امامہ نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا۔

"تو پھر ہم بھی انجیل پر یقین رکھتے ہیں، اسے الہامی کتاب مانتے ہیں، حضرت عیسٰی علیہ السلام کی نبوت پر یقین رکھتے ہیں تو کیا ہم کرسچن ہیں؟ اور ہم تو حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت داؤد علیہ السلام کی نبوت پر بھی یقین رکھتے ہیں تو کیا پھر ہم یہودی ہیں؟" تحریم نے کچھ تمسخر سے کہا۔ "لیکن ہمارا دین اسلام ہے، کیونکہ ہم محمد ﷺ کے پیروکار ہیں اور ہم ان پیغمبروں پر یقین رکھنے کے باوجود نہ عیسائیت کا حصہ ہیں نہ یہودیت کا، بالکل اسی طرح تم لوگوں کا نبی ہے کیونکہ تم اس کے پیروکار ہو۔ ویسے تم لوگ تو ہمیں بھی مسلمان نہیں سمجھتے۔ ابھی تم اصرار کررہی ہو کہ تم اسلام کا ایک فرقہ ہو۔۔۔۔۔ جبکہ تمہارے نبی اور اس کے بعد آنے والے تمہاری جماعت کے تمام لیڈرز کا دعویٰ ہے کہ جو مرزا کی نبوت پر یقین نہیں رکھتا وہ مسلمان ہی نہیں ہے۔۔۔۔۔ تو اسلام سے تو تم لوگ تمام مسلمانوں کو پہلے ہی خارج کرچکے ہو۔"

"ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔۔۔ میں نے ایسا کب کہا ہے؟" امامہ نے قدرے لڑکھڑائے ہوئے لہجے میں کہا۔

"تو پھر تم اپنے والد سے ذرا اس معاملے کو ڈسکس کرو۔۔۔۔۔ وہ تمہیں خاصی اپ ٹو ڈیٹ انفارمیشن دیں گے اس بارے میں۔۔۔۔۔ تمہارے مذہب کے خاصے سرکردہ رہنما ہیں وہ۔۔۔۔۔" تحریم نے کہا۔ "اور یہ جو کتابیں تم ہمیں پیش کررہی ہو۔۔۔۔۔ انہیں خود پڑھا ہے تم نے۔۔۔۔۔ نہیں پڑھا ہوگا۔۔۔۔۔ ورنہ تمہیں پتا ہوتا ان سرکردہ رہنماؤں کے بارے میں۔"

جویریہ تحریم کی اس ساری گفتگو کے دوران خاموش رہی تھی، وہ صرف کن اکھیوں سے امامہ کو دیکھتی رہی تھی۔ "اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ محمد ﷺ اس کے آخری نبی ہیں اور میرے پیغمبر ﷺ اس پر گواہی دیتے ہیں کہ وہ اللہ کے آخری نبی ہیں اور میری کتاب مجھ تک یہ دونوں باتیں بہت صاف واضح اور دوٹوک انداز میں پہنچا دیتی ہے تو پھر مجھے کسی اور شخص کے ثبوت اور اعلان کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔۔ سمجھیں۔"

تحریم نے اپنے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔

"بہتر ہے تم اپنے مذہب کو یا ہمارے مذہب کو زیر بحث لانے کی کوشش نہ کرو۔ اتنے سالوں سے دوستی چل رہی ہے، چلنے دو۔۔۔۔۔"

"جہاں تک تمہارے گھر نہ آنے کا تعلق ہے تو ہاں یہ بالکل ٹھیک ہے کہ میرے والدین کو تمہارے گھر آنا پسند نہیں ۔ یہاں اسکول میں تم سے دوستی اور بات ہے۔ بہت سے لوگوں سے دوستی ہوتی ہے ہماری اور دوستی میں عام طور پر مذہب آڑے نہیں آتا لیکن گھر میں آنا جانا۔۔۔۔۔ کچھ مختلف چیز ہے۔۔۔۔۔ انہیں شاید میری کسی عیسائی یا یہودی یا ہندو دوست کے گھر جانے پر اعتراض نہ ہولیکن تمہارے گھر جانے پر ہے۔۔۔۔۔ کیونکہ وہ لوگ اپنے مذہب کو مانتے ہیں وہ اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہتے جس مذہب سے تعلق ہوتا ہے وہی بتاتے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جتنا تم لوگوں کو ناپسند کیا جاتا ہے اتنا ان لوگوں کو نہیں کیا جاتا کیونکہ تم لوگ صرف پیسے کے حصول اور اچھے مستقبل کے لئے یہ نیا مذہب اختیار کرکے ہمارے دین میں گھسنے کی کوشش کررہے ہو، مگر کرسچن، ہندو یا یہودی ایسا نہیں کرتے۔"

امامہ نے بے اختیار اسے ٹوکا۔ "کس پیسے کی بات کررہی ہو تم؟ تم ہماری فیملی کو جانتی ہو۔۔۔۔۔ ہم لوگ شروع سے ہی بہت امیر ہیں۔ ہمیں کونسا روپیہ مل رہا ہے اس مذہب پر رہنے کے لئے۔"

"ہاں تم لوگ اب بڑے خوشحال ہو، مگر شروع سے تو ایسے نہیں تھے۔ تمہارے دادا مسلمان تھے مگر غریب آدمی تھے۔ وہ کاشت کاری کیا کرتے تھے اور ایک چھوٹے کاشتکار تھے۔ ربوہ سے کچھ فاصلے پر ان کی تھوڑی بہت زمین تھی پھر تمہارے تایا نے اپنے کسی دوست کے توسط سے وہاں جانا شروع کردیا اور یہ مذہب اختیار کرلیا اور بے تحاشا امیر ہوگئے کیونکہ انہیں وہاں سے بہت زیادہ پیسہ ملا پھر آہستہ آہستہ تمہارے والد اور تمہارے چچا نے بھی اپنا مذہب بدل لیا پھر تم لوگوں کا خاندان اس ملک کے متمول ترین خاندانوں میں شمار ہونے لگا اور یہ کام کرنے والے تم لوگ واحد نہیں ہو زیادہ تر اسی طریقے سے لوگوں کو اس مذہب کا پیروکار بنایا جارہا ہے۔"

امامہ نے کچھ بھڑکتے ہوئے اس کی بات کو کاٹا "تم جھوٹ بول رہی ہو۔"

"تمہیں یقین نہیں آرہا تو تم اپنے گھر والوں سے پوچھ لینا کہ اس قدر دولت کس طرح آئی ان کے پاس۔۔۔۔۔ اور ابھی بھی کس طرح آرہی ہے۔ تمہارے والد اس مذہب کی تبلیغ کرتے ہیں۔ ہر سال لاکھوں ڈالرز آتے ہیں، انہیں غیر ملکی مشنز اور این جی اوز سے۔۔۔۔۔" تحریم نے کچھ تحقیر آمیز انداز میں کہا۔

"یہ جھوٹ ہے، سفید جھوٹ۔" امامہ نے بے اختیار کہا۔ "میرے بابا کسی سے کوئی پیسہ نہیں لیتے۔ وہ اگر اس فرقہ کے لئے کام کرتے ہیں، تو غلط کیا ہے۔ کیا دوسرے فرقوں کے لئے کام نہیں کیا جاتا۔ دوسرے فرقوں کے بھی تو علماء ہوتے ہیں یا ایسے لوگ جو انہیں سپورٹ کرتے ہیں۔"

"دوسرے فرقوں کو یورپی مشنز سے روپیہ نہیں ملتا۔"

"میرے بابا کو کہیں سے کچھ نہیں ملتا۔" امامہ نے ایک بار پھر کہا۔ تحریم نے اس کی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہا۔ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔

امامہ نے اسے جاتے ہوئے دیکھا پھر گردن موڑ کر اپنے پاس بیٹھی جویریہ کی طرف دیکھا۔

"کیا تم بھی میرے بارے میں ایسا ہی سوچتی ہو؟"

"تحریم نے غصہ میں آکر تم سے یہ سب کچھ کہا ہے۔ تم اس کی باتوں کا برا مت مانو۔" جویریہ نے اسے تسلی دینے کی کوشش کی۔

"تم ان سب باتوں کو چھوڑو۔۔۔۔۔ آؤ کلاس میں چلتے ہیں۔ بریک ختم ہونے والی ہے۔" جویریہ نے کہا تو وہ اٹھ کھڑی ہوگئی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اس دن وہ گھر واپس آکر اپنے کمرے میں بند ہوکر روتی رہی۔ تحریم کی باتوں نے اسے واقعی بہت دل برداشتہ اور مایوس کیا تھا۔

ہاشم مبین احمد اس دن شام کو ہی آفس سے گھر واپس آگئے ۔ واپس آنے پر انہیں سلمیٰ سے پتا چلا کہ امامہ کی طبیعت خراب ہے وہ اس کا حال احوال پوچھنےا س کے کمرے میں چلے آئے۔ امامہ کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ ہاشم مبین حیران رہ گئے۔

"کیا بات ہے امامہ؟" انہوں نے امامہ کے قریب آکر پوچھا

وہ اٹھ کر بیٹھ گئی اور کچھ بہانہ کرنے کی بجائے بے اختیار رونے لگی۔ ہاشم کچھ پریشان ہوکر اس کے قریب بیڈ پر بیٹھ گئے۔

"کیا ہوا۔۔۔۔۔ امامہ؟"

"تحریم نے آج اسکول میں مجھ سے بہت بدتمیز ی کی ہے۔" اس نے روتے ہوئے کہا۔

ہاشم مبین نے بے اختیار ایک اطمینان بھری سانس لی۔ "پھر کوئی جھگڑا ہوا ہے تم لوگوں میں؟"

"بابا! آپ کو نہیں پتا اس نے میرے ساتھ کیا کیا ہے؟" امامہ نے باپ کو مطمئن ہوتے دیکھ کر کہا۔

"بابا! اس نے۔۔۔۔۔" وہ باپ کو تحریم کے ساتھ ہونے والی تمام گفتگو بتاتی گئی۔ ہاشم مبین کے چہرے کی رنگت بدلنے لگی۔

"تم سے کس نے کہاتھا۔ تم اسکول کتابیں لے کر جاؤ، انہیں پڑھانے کے لئے؟" انہوں نے امامہ کو ڈانٹتے ہوئے کہا۔

"میں ان کی غلط فہمیاں دور کرنا چاہتی تھی۔" امامہ نے قدرے کمزور لہجے میں کہا۔

"تمہیں ضرورت ہی کیا تھی کسی کی غلط فہمیاں دور کرنے کی۔ وہ ہمارے گھر نہیں آتیں تو نہ آئیں۔ ہمیں برا سمجھتی ہیں تو سمجھتی رہیں، ہمیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔" ہاشم مبین نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔

"مگر اب تمہاری اس حرکت سے پتا نہیں وہ کیا سمجھے گی۔ کس کس کو بتائے گی کہ تم نے اسے وہ کتابیں دینے کی کوشش کی۔ خود اس کے گھر والے بھی ناراض ہوں گے۔ امامہ! ہر ایک کو یہ بتاتے نہیں پھرتے کہ تم کیا ہو۔ نہ ہی اپنے فرقہ کے بارے میں بحث کرتے ہیں اگر کوئی بحث کرنے کی کوشش بھی کرے تو ہاں میں ہاں ملا دیتے ہیں ورنہ لوگ خوامخواہ فضول طرح کی باتیں کرتے ہیں اور فضول طرح کے شبہات میں مبتلا ہوتے رہتے ہیں۔" انہوں نے سمجھایا۔

"مگر بابا! آپ بھی تو بہت سارے لوگوں کو تبلیغ کرتے ہیں؟" امامہ نے کچھ الجھے ہوئے انداز میں کہا۔ "پھر مجھے کیوں منع کررہے ہیں؟"

"میری بات اور ہے میں صرف ان ہی لوگوں سے مذہب کی بات کرتا ہوں جن سے میری بہت بے تکلفی ہوچکی ہوتی ہے اور جن کے بارے میں مجھے یہ محسوس ہو کہ ان پر میری ترغیب اور تبلیغ کا اثر ہوسکتا ہے۔ میں دوچار دن کی ملاقات میں کسی کو کتابیں بانٹنا شروع نہیں ہوجاتا۔" ہاشم مبین نے کہا۔

"بابا ان سے میری دوستی دوچار دن کی نہیں ہے۔ ہم کئی سالوں سے دوست ہیں۔" امامہ نے اعتراض کیا۔

"ہاں مگر وہ دونوں سید ہیں اور دونوں کے گھرانے بہت مذہبی ہیں۔ تمہیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے تھی۔"

"میں نے تو صرف انہیں اپنے فرقے کے بارے میں بتانے کی کوشش کی تھی تاکہ ہمیں وہ غیر مسلم تو نہ سمجھیں۔" امامہ نے کہا۔

"اگر وہ ہمیں غیر مسلم سمجھتے ہیں تو ہمیں بھی کیا فرق پڑتا ہے۔ وہ خود غیر مسلم ہیں۔" ہاشم مبین نے بڑی عقیدت سے کہا۔ "وہ تو خود گمراہی کے راستے پر ہیں۔"

"بابا وہ کہہ رہی تھی کہ آپ کو غیر ملکی مشنز سے روپیہ ملتا ہے۔ این جی اوز سے روپیہ ملتا ہے تاکہ آپ لوگوں کو ہمارے فرقہ کا پیروکار بنائیں۔"

ہاشم مبین نے تنفر سے گردن کو جھٹکا۔ "مجھے صرف اپنی جماعت سے روپیہ ملتا ہے اور وہ بھی وہ روپیہ ہوتا ہے جو ہماری اپنی کمیونٹی اندرون ملک اور بیرون ملک سے اکٹھا کرتی ہے۔ ہمارے پاس اپنے روپے کی کیا کمی ہے۔ ہماری اپنی فیکٹریز نہیں ہیں کیا اور اگر مجھے غیر ملکی منشز اور این جی اوز سے روپیہ ملے بھی تو میں بڑی خوشی سے لوں گا، آخر اس میں برائی کیا ہے۔ دین کی خدمت کررہا ہوں اور جہاں تک اپنے مذہب کی ترویج و تبلیغ کی بات ہے تو اس میں بھی کیا برائی ہے۔ اگر اس ملک میں عیسائیت کی تبلیغ ہوسکتی ہے تو ہمارے فرقے کی کیوں نہیں۔ ہم تو ویسے بھی اسلام کا ایک فرقہ ہیں۔ لوگوں کو راہِ ہدایت پر لانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔" ہاشم مبین نے بڑی تفصیل کے ساتھ بتایا۔

"مگر تم لوگوں سے اس معاملے پر بات مت کیا کرو۔ اس بحث مباحثے کا کوئی فائدہ ہنیں ہوتا۔ ابھی ہم لوگ اقلیت میں ہیں جب اکثریت میں ہوجائیں گے تو پھر اس طرح کے لوگ اتنی بے خوفی کے ساتھ اس طرح بڑھ بڑھ کر بات نہیں کرسکیں گے پھر وہ اس طرح ہماری تذلیل کرتے ہوئے ڈریں گے مگر فی الحال ایسے لوگوں کے منہ نہیں لگنا چاہیے۔"

"بابا! آئین میں ہمیں اقلیت اور غیر مسلم کیوں قرار دیا گیا ہے۔ جب ہم اسلام کا ایک فرقہ ہیں تو پھر انہوں نے ہمیں غیر مسلم کیوں ٹھہرایا ہے؟" امامہ کو تحریم کی کہی ہوئی ایک اور بات یاد آئی۔

"یہ سب مولویوں کی کارستانی تھی۔ اپنے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے وہ سب ہمارے خلاف اکٹھے ہوگئے تھے۔ ہماری تعداد بھی زیادہ ہوجائے گی تو ہم پھر اپنی مرضی کے قوانین بنوائیں گے اور اس طرح کی تمام ترمیمات کو آئین میں سے ہٹا دیں گے۔" ہاشم مبین نے پرجوش انداز میں کہا۔ "اور تمہیں اس طرح بے وقوفوں کی طرح کمرے میں بند ہوکر رونے کی ضرورت نہیں ہے۔"

ہاشم مبین نے اس کے پاس اٹھتے ہوئے کہا، امامہ انہیں وہاں سے جاتے ہوئے دیکھتی رہی۔

تحریم کے ساتھ وہ اس کی دوستی کا آخری دن تھا اور اس میں تحریم سے زیادہ خود اس کا رویہ وجہ تھا۔ وہ تحریم کی باتوں سے اس حد تک دل برداشتہ ہوئی تھی کہ اب تحریم کیساتھ د وبارہ پہلے جیسے تعلقات قائم رکھنا اس کے لئے مشکل ہوگیا تھا۔ خود تحریم نے بھی اس کی اس خاموشی کو پھلانگنے یا توڑنے کی کوشش نہیں کی۔

ہاشم مبین احمد احمدی جماعت کے سرکردہ رہنماؤں میں سے ایک تھے۔ ان کے بڑے بھائی، اعظم مبین احمد بھی جماعت کے اہم رہنماؤں میں سے ایک تھے۔ ان کے پورے خاندان میں سے چند ایک کو چھوڑ کر باقی تمام افراد بہت سال پہلےاس وقت قادیانیت اختیار کرگئے تھے جب اعظم مبین احمد نے اس کام کا آغاز یا تھا جن لوگوں نے قادیانیت اختیار نہیں کی تھی وہ باقی لوگوں سے قطع تعلق کرچکے تھےاپنے بڑے بھائی اعظم مبین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہاشم مبین نے بھی یہ مذہب اختیار کرلیا۔ اعظم مبین ہی کی طرح انہوں نے اپنے مذہب کے فروغ اور تبلیغ کے لئے کام کرنا بھی شروع کردیا۔ دس پندرہ سالوں میں وہ دونوں بھائی اس تحریک کے سرکردہ رہنماؤں میں شمار ہونے لگے۔ اس کی وجہ سے انہوں نے بے تحاشا پیسہ کمایا اور اس پیسے سے انہوں نے سرمایا کاری بھی کی مگر ان کی آمدنی کا بڑا ذریعہ تحریک کی تبلیغ کے لئے میسر ہونے والے فنڈز ہی تھے۔ ان کا شمار اسلام آباد کی ایلیٹ کلاس میں ہوتا تھا۔ بے تحاشا دولت ہونے کے باوجود ہاشم اور اعظم مبین کے گھر کا ماحول روایتی تھا۔ ان کی خواتین باقاعدہ پردہ کیا کرتی تھیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ ان خواتین پر ناروا پابندیاں یا کسی قسم کا جبر روا رکھا گیا تھا۔ اس مذہب کی خواتین میں تعلیم کا تناسب پاکستان میں کسی بھی مذہب کے مقابلے میں ہمیشہ ہی زیادہ رہا ہے ان لوگوں نے اعلی تعلیم بھی معروف اداروں سے حاصل کی۔

امامہ بھی اسی قسم کے ماحول میں پلی بڑھی تھی۔ وہ یقینا ً ان لوگوں میں سے تھی جو منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوتے ہیں اور اس نے ہاشم مبین کو بھی کسی قسم کے مالی مسائل سے گزرتے نہیں دیکھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس کے لئے تحریم کی یہ بات ناقابل یقین تھی کہ اس کے خاندان نے پیسہ حاصل کرنے کے لئے یہ مذہب اختیار کیا۔ غیر ملکی مشنز اور بیرون ملک سے ملنے والے فنڈز کا الزام بھی اس کے لئے ناقابلِ قبول تھا۔ وہ یہ بات اچھی طرح جانتی تھی کہ ہاشم مبین اس مذہب کی تبلیغ اور ترویج کرتے ہیں اور تحریک کے سرکردہ رہنماؤں میں سے ایک ہیں مگر یہ کوئی خلاف معمول بات نہیں تھی۔ وہ شروع سے ہی اس سلسلے میں اپنے تایا اور والد کی سرگرمیوں کو دیکھتی آرہی تھی۔ اس کے نزدیک یہ کام ایسا تھا جو وہ "اسلام" کی تبلیغ و ترویج کے لئے کررہے تھے۔

اپنے گھر والوں کے ساتھ وہ کئی بار مذہبی اجتماع میں بھی جاچکی تھی اور سرکردہ رہنماؤں کے لندن سے سیٹلائٹ کے ذریعے ہونے والے خطبات کو بھی باقاعدگی سے سنتی اور دیکھتی آرہی تھی۔ تحریم کے ساتھ ہونے والے جھگڑے سے پہلے اس نے کبھی اپنے مذہب کے بارے میں غور کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس کے لئے اپنا فرقہ ایسا ہی تھا، جیسے اسلام کا کوئی دوسرا فرقہ۔۔۔۔۔ اس کی برین واشنگ بھی اسی طرح کی گئی تھی کہ وہ سمجھتی تھی کہ صرف وہی سیدھے راستے پر تھے بلکہ وہی جنت میں جائیں گے۔

اگرچہ گھر میں بہت شروع میں ہی اسے باقی بہن بھائیوں کے ساتھ یہ نصیحت کردی گئی تھی کہ وہ بلاوجہ لوگوں کو یہ نہ بتائیں کہ وہ دراصل کیا ہیں۔ اسکول میں تعلیم کے دوران ہی وہ یہ بھی جان گئی تھی کہ 1974ء میں انہیں پارلیمنٹ نے ایک غیرمسلم اقلیت قرار دے دیا تھا وہ سمجھتی تھی کہ یہ مذہبی داؤ میں آ کر کیا جانے والا ایک سیاسی فیصلہ ہے، مگر تحریم کے ساتھ ہونےو الے جھگڑے نے اسے اپنے مذہب کے بارے میں غور کرنے اور سوچنے پر مجبور کردیا تھا۔

تحریم سے ہونے والے جھگڑے کے بعد ایک تبدیلی جو اس میں آئی وہ اپنے مذہب کا مطالعہ تھا۔ تبلیغی مواد کے علاوہ ان کتابوں کے علاوہ جنہیں اس مذہب کے ماننے والے مقدس سمجھتے تھے اس نے اور بھی بہت سی کتابوں کا مطالعہ کرنا شروع کردیا اور بنیادی طور پر اسی زمانے میں اس کی الجھنوں کا آغاز ہوا مگر کچھ عرصہ مطالعہ کے بعد اس نے ایک بار پھر ان الجھنوں اور اضطراب کو اپنے ذہن سے جھٹک دیا۔ میٹرک کے فوراً بعد اسجد سے اسکی منگنی ہوگئی وہ اعظم مبین کا بیٹا تھا۔ یہ اگرچہ کوئی محبت کی منگنی نہیں تھی مگر اسکے باوجود امامہ اور اسجد کی پسند اس رشتہ کا باعث بنی تھی۔ نسبت طے ہونے کے بعد اسجد کے لئے امامہ کے دل میں خاص جگہ بن گئی تھی۔

اپنی پسند کے شخص سے نسبت کے بعد اس کا دوسرا ٹارگٹ میڈیکل میں ایڈمیشن تھا اور اسے اس کے بارے میں زیادہ فکر نہیں تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اس کے باپ کی پہنچ اتنی ہے کہ اگر وہ میرٹ پر نہ بھی ہوئی تب بھی وہ اسے میڈیکل کالج میں داخل کروا سکتے ہیں اور اگر یہ ممکن نہ ہوتا تو بھی وہ بیرون ملک جاکر میڈیکل کی تعلیم حاصل کرسکتی تھی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

تم پچھلے کچھ دنوں سے بہت پریشان ہو، کوئی پرابلم ہے؟" وسیم نے اس رات امامہ سے پوچھا وہ پچھلے کچھ دن سے بہت زیادہ خاموش اور الجھی الجھی نظر آرہی تھی۔

"نہیں، ایسی تو کوئی بات نہیں ہے تمہارا وہم ہے۔" امامہ نے مسکرانے کی کوشش کی۔

"خیر وہم تو نہیں، کوئی نہ کوئی بات ہے ضرور۔ تم بتانا نہیں چاہتیں تو اور بات ہے۔" وسیم نے سر جھٹکتے ہوئے کہا۔ وہ امامہ کے ڈبل بیڈ پر اس سے کچھ فاصلے پر لیٹا ہوا تھا اور وہ اپنی فائل میں رکھے نوٹس الٹ پلٹ رہی تھی۔ وسیم کچھ دیر اس کے جواب کا انتظار کرتا رہا پھر اس نے ایک بار پھر اسے مخاطب کیا۔

"میں نے ٹھیک کہا نا، تم بتانا نہیں چاہتیں؟"

"ہاں میں فی الحال بتانا نہیں چاہتی۔" امامہ نے ایک گہرا سانس لے کر اعتراف کیا۔

"بتا دو، ہوسکتا ہے میں تمہاری مدد کرسکوں۔" وسیم نے اسے اکسایا۔

"وسیم! میں خود تمہیں بتا دوں گی مگر فی الحال نہیں اور اگر مجھے مدد کی ضرورت ہوگی تو میں خود تم سے کہوں گی۔" اس نے اپنی فائل بند کرتے ہوئے کہا۔

"ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی، میں تو صرف تمہاری مدد کرنا چاہتا تھا۔" وہ بیڈ سے اٹھ گیا۔

وسیم کا اندازہ بالکل ٹھیک تھا۔ وہ واقعی جویریہ کے ساتھ اس دن ہونے والے جھگڑے کے بعد سے پریشان تھی۔ اگرچہ جویریہ نے اگلے دن اس سے معذرت کرلی تھی مگر اس کی الجھن اور اضطراب میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔ جویریہ کی باتوں نے اسے بہت پریشان کردیا تھا۔ ایک ڈیڑھ سال پہلے تحریم کے ساتھ ہونے والا جھگڑا اسے ایک بار پھر یاد آنے لگا تھا اور اس کے ساتھ ہی اپنے مذہب کے بارے میں ابھرنے والے سوالات اور الجھنیں بھی جو اس نے اپنے مذہب کا تفصیلی مطالعہ کرنے کے بعد اپنے ذہن میں محسوس کی تھیں۔ جویریہ نے کہا تھا۔ "میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ کاش تم مسلمان ہوتیں۔"

"مسلمان ہوتی؟" وہ عجیب سی بے یقینی میں مبتلا ہوگئی تھی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

جاری ہے
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
بلال احمد
ناظم ویڈیو سیکشن
ناظم ویڈیو سیکشن
Posts: 11973
Joined: Sun Jun 27, 2010 7:28 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: پیر کامل از عمیره احمد

Post by بلال احمد »

پیارے بھائی ایکسٹو صاحب بہترین ناول شیئر کرنے پر بصد شکریہ ;fl;ow;er; ;fl;ow;er;
بڑی بے چین رہتی ہے طبیعت اب میری محسن
مجھے اب قتل ہونا ہے، مگر قاتل نہیں ملتا
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: پیر کامل از عمیره احمد

Post by ایکسٹو »

قسط نمبر 7

جویریہ نے کہا تھا۔ "میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ کاش تم مسلمان ہوتیں۔"

"مسلمان ہوتی؟" وہ عجیب سی بے یقینی میں مبتلا ہوگئی تھی۔ "کیا میں مسلمان نہیں ہوں؟ کیا میری بہترین دوست بھی مجھے مسلمان نہیں مانتی؟ کیا یہ سب کچھ صرف ایک پروپیگنڈہ کی وجہ سے ہے جو ہمارے بارے میں کیا جاتا ہے؟ آخر ہمارے ہی بارے میں کیوں یہ سب کچھ کہا جاتا ہے؟ کیا ہم لوگ واقعی کوئی غلط کام کررہے ہیں؟ کسی غلط عقیدے کو اختیار کر بیٹھے ہیں؟ مگر یہ کیسے ہوسکتا ہے، آخر میرے گھر والے ایسا کیوں کریں گے اور پھر ہماری ساری کمیونٹی ایسا کیوں کرے گی؟ اور شاید یہ ان سوالوں سے نجات پانے کی ایک کوشش تھی کہ ایک ہفتے بعد اس نے ایک بہت بڑے عالم دین کی قرآن پاک کی تفسیر خریدی۔ وہ جاننا چاہتی تھی کہ ان کے بارے میں دوسرے فریق کا موقف کیا ہے۔ قرآن پاک کا ترجمہ وہ اس سے پہلے بھی پڑھتی رہی تھی مگر وہ تحریف شدہ حالت میں تھا۔ اسے اس سے پہلے اس بات کا یقین نہیں تھا کہ جو قرآن پاک وہ پڑھتے ہیں اس میں کچھ جگہوں پر کچھ تبدیلیاں کی گئی ہیں مگر اس مشہور عالم دین کی تفسیر پڑھنے کے دوران اسے ان تبدیلیوں کے بارے میں معلوم ہوگیا جو ان کے اپنے قرآن میں موجود تھیں۔ اس نے یکے بعد دیگرے مختلف فرقوں کے اداروں سے شائع ہونے والے قرآن پاک کے نسخوں کو دیکھا۔ ان میں سے کسی میں بھی وہ تبدیلیاں نہیں تھی جو خود ان کے قرآن میں موجود تھیں جبکہ مختلف فرقوں کی تفاسیر میں بہت زیادہ فرق تھا جوں جوں وہ اپنے مذہب اور اسلام کا تقابلی مطالعہ کررہی تھی اس کی پریشانی میں اضافہ ہورہا تھا۔ ہر تفسیر آخری نبی پیغمبر اسلام ﷺ کو ہی ٹھہرایا گیا تھا۔ کہیں بھی کسی ظلیّ یا امتی نبی کا کوئی ڈھکا چھپا اشارہ بھی موجود نہیں تھا۔ مسیح موعود کی حقیقت بھی اس کے سامنے آگئی تھی۔ اپنے مذہبی رہنما کی جھوٹی پیش گوئیوں میں اور حقیقت میں ہونے والے واقعات کا تضاد اسے اور بھی زیادہ چبھنے لگا تھا۔ اس کے مذہبی رہنما نے نبوت کا دعویٰ کرنے سے پہلے جن پیغمبر کے بارے میں سب سے زیادہ غیر مہذب زبان استعمال کی تھی وہ خود حضرت عیسٰی علیہ السلام ہی تھے اور بعد میں نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے سے پہلے یہ بھی کہا تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روح کا حلول اس کے اندر ہوگیا ہے اور اگر اس عوے کی سچائی کو مان بھی لیا جاتا تو حضرت عیسٰی علیہ السلام اپنے دوبارہ نزول کے بعد چالیس سال تک زندہ رہتے اور پھر جب ان کا انتقال ہوا تو اسلام پوری دنیا پر غلبہ پاچکا ہوتا مگر ان رہنما کی وفات کے وقت دنیا میں اسلام کا غلبہ تو ایک طرف خود ہندوستان میں مسلمان آزادی جیسی نعمت کے لئے ترس رہے تھے۔ امامہ کو اپنے مذہبی رہنما کے گفتگو کے اس انداز پر بھی تعجب ہوتا جو اس نے اپنی مختلف کتابوں میں اپنے مخالفین یا دوسرے انبیائے کرام کے لئے اختیار کیا تھا۔ کیا کوئی نبی اس طرح کی زبان استعمال کرسکتا تھا جس طرح کی اس نبوت کے دعویٰ کرنے والے نے کی تھی۔

بہت غیر محسوس انداز میں اس کا دل اپنے مذہبی لٹریچر اور مقدس کتابوں سے اچاٹ ہونے لگا تھا۔ پہلے جیسا اعتقاد اور یقین تو ایک طرف اسے سرے سے ان کی صداقت پر شبہ ہونے لگا تھا۔ اس نے جویریہ سے یہ ذکر نہیں کیا تھا کہ وہ اب اپنے مذہب سے ہٹ کر دوسری کتابوں کو پڑھنے لگی تھی۔ اس کے گھر میں بھی کسی کو یہ اندازہ نہیں ہوا کہ وہ کس قسم کی کتابیں گھر لاکر پڑھ رہی تھی اس نے انہیں اپنے کمرے میں بہت حفاظت سے چھپا کر رکھا ہوا تھا۔ صرف ایک دن ایسا ہوا کہ وسیم اس کے کمرے میں آکر اس کی کتابوں میں سے کوئی کتاب ڈھونڈنے لگا۔ وسیم کے ہاتھ سب سے پہلے قرآن پاک کی وہی تفسیر لگی تھی اور وہ جیسے دم بخود رہ گیا تھا۔

"یہ کیا ہے امامہ؟" اس نے مڑ کر تعجب سے پوچھا۔ امامہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا اور دھک سے رہ گئی۔

"یہ۔۔۔۔۔ یہ۔۔۔۔۔ یہ قرآن پاک کی تفسیر ہے۔" اس نے یکدم اپنی زبان میں ہونے والی لڑکھڑاہٹ پر قابو پاتے ہوئے کہا۔

"میں جانتا ہوں مگر یہ یہاں کیا کررہی ہے۔ کیا تم اسے خرید کر لائی ہو؟" وسیم نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ پوچھا

"ہاں، میں اسے خرید کر لائی ہوں۔ مگر تم اتنا پریشان کیوں ہورہے ہو؟"

"بابا کو پتا چلے گا تو وہ کتنا غصہ کریں گے، تمہیں اندازہ ہے؟"

"ہاں، مجھے اندازہ ہے، مگر مجھے یہ کوئی اتنی قابل اعتراض بات نظر نہیں آتی۔"

"آخر تمہیں اس کتاب کی ضرورت کیوں پڑی؟" وسیم نے کتاب وہیں رکھ دی۔

"کیونکہ میں جاننا چاہتی ہوں کہ دوسرے عقائد کے لوگ آخر قرآن پاک کی کیا تفسیر کررہے ہیں۔ ہمارے بارے میں، قرآن کے حوالے سے ان کا نقطہ نظر کیا ہے۔" امامہ نے سنجیدگی سے کہا۔

وسیم پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھتا رہا۔

"تمہارا دماغ ٹھیک ہے؟"

"میرا دماغ بالکل ٹھیک ہے" امامہ نے پرسکون انداز میں کہا۔ "کیا برائی ہے۔ اگر میں دوسرے مذاہب کے بارے میں جانوں اور ان کے قرآن پاک کی تفسیر پڑھوں۔"

"ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے۔" وسیم نے ناراضی سے کہا۔

"تمہیں ضرورت نہیں ہوگی، مجھے ضرورت ہے۔" امامہ نے دوٹوک انداز میں کہا۔ "میں آنکھیں بند کرکے کسی بھی چیز پر یقین کی قائل نہیں ہوں۔" اس نے واضح الفاظ میں کہا۔

"تو یہ تفسیر پڑھ کر تمہارے شبہات دور ہوگئے ہیں؟" وسیم نے طنزیہ لہجے میں پوچھا۔

امامہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ "پہلے مجھے اپنے اعتقاد کے بارے میں شبہ نہیں تھا، اب ہے۔"

وسیم اسکی بات پر بھڑک اٹھا۔ "دیکھا، اس طرح کی کتابیں پڑھنے سے یہی ہوتا ہے۔ میں اسی لئے تم سے کہہ رہا ہوں کہ تمہیں اس طرح کی کتابیں پڑھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے لئے ہماری اپنی کتابیں کافی ہیں۔"

"میں نے اتنی تفاسیر دیکھی ہیں، قرآن پاک کے اتنے ترجمے دیکھے ہیں، حیرانی کی بات ہے وسیم! کہیں بھی ہمارے نبی کا ذکر نہیں ہے، ہر تفسیر میں احمد سے مراد محمد ﷺ کو ہی لیا جاتا ہے، ہمارے نبی کو نہیں اور اگر کہیں ہمارے نبی کا ذکر ہے بھی تو نبوت کے ایک جھوٹے دعوے دار کے طور پر۔" امامہ نے الجھے ہوئے انداز میں کہا۔

"یہ لوگ ہمارے بارے میں ایسی باتیں نہیں کریں گے تو اور کون کرے گا۔ ہمارے نبی کی نبوت کو مان لیں گے تو ہمارا اور ان کا تو اختلاف ہی ختم ہوجائے گا۔ یہ کبھی اپنی تفاسیر میں سچ نہیں شائع کریں گے۔" وسیم نے تلخی سے کہا۔

"اور جو ہماری تفسیر ہے، کیا ہم نے سچ لکھا ہے اس میں۔"

"کیا مطلب؟" وسیم ٹھٹکا۔

"ہمارے نبی دوسرے پیغمبروں کے بارے میں غلط زبان کیوں استعمال کرتے ہیں؟"

"وہ ان لوگوں کے بارے میں اپنی بات کرتے ہیں جو ان پر ایمان نہیں لائے۔" وسیم نے کہا۔

"جو ایمان نہ لائے کیا اسے گالیاں دینی چاہیں؟"

"ہاں غصہ کا اظہار تو کسی نہ کسی صورت میں ہوتا ہے۔" وسیم نے کندھے جھٹکتے ہوئے کہا۔

"غصے کا اظہار یا بے بسی کا؟" امامہ کے جملے پر وہ دم بخود اسے دیکھنے لگا۔

"جب حضرت عیسیٰ علیہ اسلام پر لوگ ایمان نہیں لائے تو انہوں نے لوگوں کو گالیاں تو نہیں دی۔ حضرت محمد ﷺ پر لوگ ایمان نہیں لائے تھے تو انہوں نے بھی کسی کو گالیاں نہیں دیں۔ محمد ﷺ نے تو ان لوگوں کے لئے بھی دعا کی جنہوں نے انہیں پتھر مارے، جو وحی قرآن پاک کی صورت میں حضرت محمد ﷺ پر نازل ہوئی ہے اس میں کوئی گالی نہیں ملتی اور جس مجموعے کو ہمارے نبی اپنے اوپر نازل شدہ صحیفہ کہتے ہیں وہ گالیوں سے بھرا ہوا ہے۔"

"امامہ! ہر انسان کا مزاج دوسرے سے مختلف ہوتا ہے، ہر انسان الگ طرح سے ری ایکٹ کرتا ہے۔" وسیم نے تیزی سے کہا۔ امامہ نے قائل نہ ہونے والے انداز میں سرہلایا۔

"میں ہر انسان کی بات نہیں کررہی ہوں۔ میں نبی کی بات کررہی ہوں جو شخص اپنے غصے پر قابو نہیں رکھ سکتا وہ نبوت کا دعوٰی کیسے کرسکتا ہے۔ جس شخص کی زبان سے گالیاں نکلتی ہوں اس کی زبان سے حق و صداقت کی بات نکل سکتی ہے؟ وسیم! مجھے اپنے مذہب اور عقیدے کے بارے میں الجھن سی ہے۔" وہ ایک لمحہ کے لئے رکی۔ "میں نے اتنی تفاسیر میں اگر کسی امتی نبی کا ذکر پایا ہے تو وہ حضرت عیسٰی علیہ السلام ہیں اور میں نہیں سمجھتی کہ ہمارے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام یا مسیح موعود ہیں۔"

"نہیں۔۔۔۔ یہ وہ نہیں ہیں، جن کے آنے کے بارے میں قرآن پاک میں ذکر ہے۔" اس بار اس نے اپنے الفاظ کی خود ہی پُرزور تردید کی۔

"تم اب اپنی بکواس بند کرلو تو بہتر ہے۔" وسیم نے ترش لہجے میں کہا۔ "کافی فضول باتیں کرچکی ہو تم۔"

"فضول باتیں؟" امامہ نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔ "تم کہہ رہے ہو میں فضول باتیں کررہی ہوں۔ مسجد اقصیٰ اگر ہمارے شہر میں ہے تو پھر جو اتنے سینکڑوں سالوں سے فلسطین میں مسجد اقصیٰ ہے وہ کیا ہے۔ ایک نام کی دو مقدس جگہیں دنیا میں بنا کر خدا تو مسلمانوں کو کنفیوز نہیں کرسکتا۔ مسلمانوں کو چھوڑو، یہودی، عیسائی ساری دنیا اسی مسجد کو قبلہ اول تسلیم کرتی ہے۔ اگر کوئی نہیں کرتا تو ہم نہیں کرتے، یہ عجیب بات نہیں ہے؟"

"امامہ! میں ان معاملات پر تم سے بحث نہیں کرسکتا۔ بہتر ہے تم اس مسئلے کو بابا سے ڈسکس کرو۔" وسیم نے اکتا کر کہا۔ "ویسے تم غلطی کررہی ہو، اس طرح کی فضول بحث شروع کرکے۔ میں بابا کو تمہاری یہ ساری باتیں بتا دوں گا اور یہ بھی کہ تم آج کل کیا پڑھ رہی ہو۔" وسیم نے جاتے جاتے دھمکانے والے انداز میں کہا۔ وہ کچھ سوچ کر الجھے ہوئے انداز میں اپنے ہونٹ کاٹنے لگی۔ وسیم کچھ دیر ناراضی کا اظہار کرکے کمرے سے باہر چلا گیا۔ وہ اٹھ کر کمرے میں ٹہلنے لگی۔ وہ ہاشم مبین سے ڈرتی تھی اور جانتی تھی کہ وسیم ان سے اس بات کا ذکر ضرور کرے گا۔ وہ ان کے ردعمل سے خوفزدہ تھی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

وسیم نے ہاشم مبین کو امامہ کے ساتھ ہونے والی بحث کے بارے میں بتا دیا تھا مگر اس نے بہت سی ایسی باتوں کو سنسر کردیا تھا جس پر ہاشم مبین کے بھڑک اٹھنے کا امکان تھا۔ اس کے باوجود ہاشم مبین دم بخود رہ گئے تھے۔ یوں جیسے انہیں سانپ سونگھ گیا ہو۔

"یہ سب تم سے امامہ نے کہا ہے؟" ایک لمبی خاموشی کے بعد انہوں نے وسیم سے پوچھا۔ اس نے اثبات میں سر ہلادیا۔

"اسے بلا کر لاؤ۔" وسیم کچھ جھجکتے ہوئے ان کے کمرے سے نکل گیا۔ امامہ کو خود بلا کر لانے کی بجائے اس نے ملازم کے ہاتھ پیغام بھجوا دیا اور خود اپنے کمرے میں چلا گیا۔ وہ امامہ اور ہاشم مبین کی گفتگو کے دوران موجود رہنا نہیں چاہتا تھا۔

ہاشم مبین کے کمرے کے دروازے پر دستک دیکر وہ اندر داخل ہوئی تواس وقت ہاشم اور ان کی بیگم بالکل خاموش بیٹھے تھے۔ ہاشم مبین نے اسے جن نظروں سے دیکھا تھا اس نے اس کے جسم کی لرزش میں کچھ اور اضافہ کردیا۔

"بابا۔۔۔۔۔ آپ نے۔۔۔۔۔ مجھے۔۔۔۔ بلوایا تھا۔" کوشش کے باوجود وہ روانی سے بات نہیں کہہ سکی۔

"ہاں، میں نے بلوایا تھا۔ وسیم سے کیا بکواس کی ہے تم نے؟" ہاشم مبین نے بلاتمہید بلند آواز میں اس سے پوچھا۔ وہ اپنے ہونٹوں پر زبان پھیر کر رہ گئی۔ "کیا پوچھ رہا ہوں تم سے؟" وہ ایک بار پھر دھاڑے۔ "شرم سے ڈوب مرنا چاہیے تمہیں، خود گناہ کرتی ہو اور اپنے ساتھ ہمیں بھی گناہگار بناتی ہو۔" امامہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ "تمہیں اپنی اولاد کہتے ہوئے مجھے شرم آرہی ہے۔ کونسی کتابیں لائی ہو تم؟" وہ مشتعل ہوگئے تھے۔ "جہاں سے یہ کتابیں لے کر آئی ہو، کل تک وہیں دے آؤ۔ ورنہ میں انہیں اٹھا کر پھینک دوں گا باہر۔"

"جی بابا!۔" اس نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے صرف اتنا ہی کہا۔

"اور آج کے بعد اگر تم نے جویریہ کے ساتھ میل جول رکھا تو میں تمہارا کالج جانا بند کردوں گا۔"

"بابا۔۔۔۔۔ جویریہ نے مجھ سے کچھ نہیں کہا۔ اس کو تو کچھ پتا ہی نہیں ہے۔" اس بار امامہ نے قدرے مضبوط آواز میں احتجاج کیا۔

"تو پھر اور کون ہے جو تمہارے دماغ میں یہ خناس بھر رہا ہے؟" وہ بری طرح چلائے۔

"میں۔۔۔۔۔ خود۔۔۔۔۔ ہی۔" امامہ نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔

"ہوکیا تم، اپنی عمر دیکھو اور چلی ہو تم عقیدے جانچنے، اپنے نبی کی نبوت کو پرکھنے۔" ہاشم مبین کا پارہ پھر ہائی ہوگیا۔ "اپنے باپ کی شکل دیکھو جس نے ساری عمر تبلیغ میں گزار دی۔ کیا میں عقل کا اندھا ہوں یا پھر تم مجھ سے زیادہ عقل رکھتی ہو۔ جمعہ جمعہ چار دن ہوئے ہیں تمہیں پیدا ہوئےا ور تم چل پڑی ہو اپنے نبی کی نبوت کو ثابت کرنے۔" ہاشم مبین اب اٹھ کر کھڑے ہوگئے۔ "تم منہ میں سونے کا چمچ لے کر اسی نبی کی وجہ سے پیدا ہوئی ہو، جس کی نبوت کو آج تم جانچنے بیٹھ گئی ہو۔ وہ نہ ہوتا تو سڑک پر دھکے کھا رہا ہوتا ہمارا سارا خاندان اور تم اس قدر احسان فراموش اور بے ضمیر ہوچکی ہو کہ جس تھالی میں کھاتی ہو اسی میں چھید کررہی ہو۔"

ہاشم مبین کی آواز پھٹ رہی تھی۔ امامہ کی آنکھوں سے بہنے والے آنسوؤں کی رفتار میں اور اضافہ ہوگیا۔

"بند کرو یہ لکھنا پڑھنا اور گھر بیٹھو تم! یہ تعلیم حاصل کررہی ہو جو تمہیں گمراہی کی طرف لے جارہی ہے۔"

ان کے اگلے جملے پر امامہ کی سٹی گم ہوگئی۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ اسے گھر بٹھانے کی بات کریں گے۔

"بابا۔۔۔۔۔ آئی ایم سوری۔" انکے ایک جملے نے اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا تھا۔

"مجھے تمہارے کسی ایکسکیوز کی ضرورت نہیں ہے۔ بس کہہ دیا کہ گھر بیٹھو، تو گھر بیٹھو۔"

"بابا۔۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔ میرا۔۔۔۔۔ میرا یہ مطلب تو نہیں تھا۔ پتا نہیں وسیم۔۔۔۔۔ اس نے آپ سے کس طرح بات کی ہے۔" اس کے آنسو اور تیزی سے بہنے لگے۔ "پھر بھی میں آپ سے کہہ رہی ہوں کہ میں آئندہ ایسا کچھ نہیں پڑھوں گی نہ ہی ایسی کوئی بات کروں گی۔ پلیز بابا!۔" اس نے منت کی۔

ان معذرتوں کا سلسلہ وہیں ختم نہیں ہوا تھا، اگلے کئی دن تک وہ ہاشم مبین سے معافی مانگتی رہی اور پھر تقریباً ایک ہفتے کے بعد وہ نرم پڑ گئے تھے اور انہوں نے اسے کالج جانے کی اجازت دے دی تھی مگر اس ایک ہفتے میں وہ اپنے پورے گھر کی لعنت ملامت کا شکار رہی تھی۔ ہاشم مبین نے اسے سخت قسم کی تنبیہ کے بعد کالج جانے کی اجازت دی تھی مگر اس ایک ہفتے کے دوران ان لوگوں کے رویے نے اسے اپنے عقیدے سے مزید متنفر کیا تھا۔ اس نے ان کتابوں کو پڑھنے کا سلسلہ روکا نہیں تھا۔ بس فرق یہ تھا کہ پہلے وہ انہیں گھر لے آتی تھی اور اب وہ انہیں کالج کی لائبریری میں پڑھ لیا کرتی تھی۔

ایف ایس سی میں میرٹ لسٹ پر آنے کے بعد اس نے میڈیکل کالج میں ایڈمیشن لے لیا تھا۔ جویریہ کو بھی اسی میڈیکل کالج میں ایڈمیشن مل گیا تھا، ان کی دوستی میں اب پہلے سے زیادہ مضبوطی آگئی تھی اور اس کی بنیادی وجہ امامہ کے ذہن میں آنے والی تبدیلی تھی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

صبیحہ سے امامہ کی پہلی ملاقات اتفاقاً ہوئی تھی۔ جویریہ کی ایک کزن صبیحہ کی کلاس فیلو تھی اور اسی کے توسط سے امامہ کی اس سے شناسائی ہوئی۔ وہ ایک مذہبی جماعت کے اسٹوڈنٹ ونگ سے منسلک تھی اور ہفتے میں ایک بار وہ کلاس روم میں اسلام سے متعلق کسی نہ کسی ایک موضوع پر لیکچر دیا کرتی تھی۔ چالیس پچاس کے لگ بھگ لڑکیاں اس لیکچر کو اٹینڈ کیا کرتی تھیں۔

صبیحہ نے اس دن ان سے متعارف ہونے کے بعد انہیں بھی اس لیکچر کے لئے انوائٹ کیا ۔ وہ چاروں ہی وہاں موجود تھیں۔

"میں تو ضرور آؤں گی، کم از کم میری شرکت کے بارے میں آپ تسلی رکھیں۔" جویریہ نے صبیحہ کی دعوت کے جواب میں کہا۔

"میں کوشش کروں گی، وعدہ نہیں کرسکتی۔" رابعہ نے کچھ جھینپی ہوئی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔

"میرا آنا ذرا مشکل ہے کیونکہ میں اس دن کچھ مصروف رہوں گی۔" زینب نے معذرت کرتے ہوئے کہا۔

صبیحہ مسکراتے ہوئے امامہ کو دیکھنے لگی جو اب تک خاموش تھی۔ امامہ کا رنگ کچھ فق ہوگیا۔

"اور آپ؟ آپ آئیں گی؟" امامہ کی نظر جویریہ سے ملی جو اسے ہی دیکھ رہی تھی۔

"ویسے اس بار کس موضوع پر کریں گی آپ؟" اس سے پہلے کہ امامہ کچھ کہتی، جویریہ نے صبیحہ کی توجہ اپنی طرف مبذول کرلی۔ شاید ایسا اس نے دانستہ طور پر کیا تھا۔

"اس بار اسراف کے بارے میں بات ہوگی۔ اس ایک عادت کی وجہ سے ہمارا معاشرہ کتنی تیزی سے زوال پذیر ہورہا ہے اور اس کے سدباب کے لئے کیا کیا جاسکتا ہے۔ اسی موضوع پر گفتگو ہوگی۔" صبیحہ نے جویریہ کو تفصیل سے بتایا۔

"آپ نے بتایا نہیں امامہ! آپ آرہی ہیں؟" جویریہ سے بات کرتے کرتے صبیحہ ایک بار پھر امامہ کی طرف متوجہ ہوگئی۔ امامہ کا رنگ ایک بار پھر بدلا۔ "میں۔۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔۔ دیکھوں گی۔" اس نے جھجکتے ہوئے کہا۔

"مجھے بہت خوشی ہوگی اگر جویریہ کے ساتھ آپ تینوں بھی آئیں۔ اپنے دین کی بنیادی تعلیمات کے بارے میں ہمیں روز نہیں تو کبھی کبھار کچھ علم حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ صرف میں ہی لیکچر نہیں دیتی ہوں ہم جتنے لوگ بھی اکٹھے ہوتے ہیں ان میں سے کوئی بھی اس موضوع پر گفتگو کرنے کے لئے آزاد ہوتا ہے جسے ہم نے منتخب کیا ہوتا ہے اور اگر آپ میں سے بھی کوئی کسی خاص موضوع کے حوالے سے بات کرنا یا کچھ بتانا چاہے تو ہم لوگ اسے بھی ارینج کرسکتے ہیں۔" صبیحہ بڑی سہولت سے بات کررہی تھی پھر کچھ دیر بعد جویریہ اور اس کی کزن کے ہمراہ ان کے کمرے سے باہر چلی گئی۔

کوریڈور میں صبیحہ نے جویریہ سے کہا۔ "آپ کم ازکم امامہ کو تو ساتھ لے آئیں۔ مجھے لگا ہے کہ وہ آنا چاہ رہی ہیں۔"

"اس کا عقیدہ بالکل الگ ہے، وہ کبھی بھی ایسی محفلوں میں شرکت نہیں کرے گی۔" جویریہ نے سنجیدگی سے اسے بتایا۔ صبیحہ کچھ حیران ہوئی۔

"آپ کو چاہیے کہ آپ انہیں اسلام کا مطالعہ کرنے کی دعوت دیں۔ ہوسکتا ہے اس طرح وہ صحیح اور غلط کا فرق کرسکیں۔" صبیحہ نے چلتے ہوئے کہا۔

"میں ایک بار ایسی کوشش کرچکی ہوں۔ وہ بہت ناراض ہوگئی تھی اور میں نہیں چاہتی کہ ہم دونوں کی اتنی لمبی دوستی اس طرح ختم ہو۔" جویریہ نے کہا۔

"اچھے دوست وہی ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کو گمراہی سے بچائیں اور آپ پر بھی فرض ہے کہ آپ ایسا ہی کریں۔" صبیحہ نے کہا۔

"وہ ٹھیک ہے مگر کوئی بات سننے پر بھی تیار نہ ہو تو؟"

"تب بھی صحیح بات کہتے رہنا فرض ہے۔ ہوسکتا ہے کبھی دوسرا آپ کی بات پر غور کرنے پر مجبور ہوجائے۔" صبیحہ اپنی جگہ درست تھی۔ اس لئے وہ صرف مسکرا کر رہ گئی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

"تم جاؤ گی اس کا لیکچر سننے؟" صبیحہ کے نکلنے کے بعد زینب نے رابعہ سے پوچھا۔

"نہیں، میرا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ میں ایسے لیکچر ہضم نہیں کرسکتی۔" رابعہ نے اپنی کتابیں اٹھاتے ہوئے لاپروائی سے کہا۔ امامہ، زینب اور جویریہ کے برعکس وہ قدرے آزاد خیال تھی اور زیادہ مذہبی رجحان بھی نہیں رکھتی تھی۔

"ویسے میں نے صبیحہ کی خاصی تعریف سنی ہے۔" زینب نے رابعہ کی بات کے جواب میں کہا۔

"ضرور سنی ہوگی، بولتی تو واقعی اچھا ہے اور میں نے تو یہ بھی سنا ہے کہ اس کے والد بھی کسی مذہبی جماعت سے منسلک ہیں۔ ظاہر ہے پھر اثر تو ہوگا۔" رابعہ نے اس کی معلومات میں اضافہ کیا۔

امامہ ان سے کچھ دور ایک کونے میں اپنی کتابیں لئے بیٹھی بظاہر ان کا مطالعہ کرنے میں مصروف تھی مگر ان دونوں کی گفتگو بھی ان تک پہنچ رہی تھی۔ اس نے شکر کیا کہ ان دونوں نے اسے اس گفتگو میں گھسیٹنے کی کوشش نہیں کی۔

تین دن کے بعد امامہ مقررہ وقت پر ان لوگوں سے کوئی بہانہ بنا کر لیکچر اٹینڈ کرنے چلی گئی۔ رابعہ، جویریہ اور زینب تینوں ہی اس لیکچر میں نہیں گئیں پھر اس کا رادہ بدل گیا۔ امامہ نے ان لوگوں کو نہیں بتایا کہ وہ صبیحہ کا لیکچر اٹینڈ کرنے جارہی تھی۔

صبیحہ، امامہ کو دیکھ کر کچھ حیران ہوئی تھی۔

"مجھے بہت خوشی ہورہی ہے آپ کو یہاں دکھ کر۔ مجھے آپ کے آنے کی توقع نہیں تھی۔" صبیحہ نے اس سے گرم جوشی سے ملتے ہوئے کہا۔

یہ پہلا قدم تھا اسلام کی جانب جو امامہ نے اٹھایا تھا۔ اس سارے عرصے میں اسلام کے بارے میں اتنی کتابیں تفاسیر اور تراجم پڑھ چکی تھی کہ کم از کم وہ کسی بھی چیز سے ناواقف اور انجان نہیں تھی۔ اسراف کے بارے میں اسلامی اور قرآنی تعلیمات اور احکامات سے بھی وہ اچھی طرح واقف تھی مگر اس کے باوجود صبیحہ کی دعوت کو رد کرنے کے بجائے قبول کرلینے میں اس کی پیش نظر صرف ایک ہی چیز تھی۔ وہ اپنے مذہب سے اسلام تک کا وہ فاصلہ طے کرنا چاہتی تھی جو اسے بہت مشکل لگتا تھا۔

اور پھر وہ صرف پہلا اور آخری لیکچر نہیں تھا۔ یکے بعد دیگرے وہ اس کا ہر لیکچر اٹینڈ کرتی رہی۔ وہی چیزیں جنہیں وہ کتابوں میں پڑھتی رہی تھی اس کے منہ سے سن کر پراثر ہوجاتی تھیں۔ اس کی صبیحہ سے عقیدت میں اضافہ ہوتاجارہا تھا۔ صبیحہ نے اسے یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ اس کے عقیدے کے بارے میں جانتی تھی مگر امامہ کو اس کے پاس آتے ہوئے دو ماہ ہوئے تھے جب صبیحہ نے ختم نبوت پر ایک لیکچر دیا۔

"قرآن پاک وہ کتاب ہے جو حضرت محمدﷺ پر نازل ہوئی۔" صبیحہ نے اپنے لیکچر کا آغاز کیا۔ "اور قرآن پاک میں ہی اللہ نبوت کا سلسلہ حضرت محمد ﷺ پر ختم کردیتے ہیں۔ وہ کسی دوسرے نبی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رکھتے۔ اگر کسی نبی یعنی حضرت عیسٰی علیہ السلام کا دوبارہ نزول کا ذکر ہے بھی تو وہ بھی ایک نئے نبی کی شکل میں نہیں ہے بلکہ ایک ایسے نبی کا دوبارہ نزول ہے جن پر نبوت حضرت محمد ﷺ سے بہت پہلے نازل کردی گئی تھی اور جن کا دوبارہ نزول ان کی اپنی امت کے لئے نہیں بلکہ حضرت محمدﷺ کی امت کے لئے ہی ہوگا اور آخری نبی حضرت محمد ﷺ ہی رہیں گے۔ کسی بھی آنے والے دور میں یا کسی بھی گزر جانے والے دور میں یہ رتبہ اور فضیلت کسی اور کو نہیں دی گئی کیا یہ ممکن ہے کہ اللہ ایک پیغمبر کو یہ ربتہ اور درجہ عطا کرتا اور پھر اسے اس سے چھین کر کسی دوسرے شخص کو دے دیتا ہے۔

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

"بات میں اللہ سے بڑھ کر سچا کون ہے۔"

"تو کیا یہ ممکن ہے کہ وہ اپنی بات کو خود ہی رد کردیتا اور پھر اگر اللہ کی اس بات کی گواہی حضرت محمد ﷺ خود دیتے ہیں کہ ہاں وہ اللہ کے آخری رسول ﷺ ہیں اور ان کے بعد دوبارہ کوئی نبی نہیں آئے گا تو پھر کیا ہمارے لئے کسی بھی طور پر یہ جائز اور مناسب ہے کہ ہم کسی دوسرے شخص کے نبوت کے دعوے پر غور تک کریں؟ انسان اللہ کی مخلوقات میں سے وہ واحد مخلوق ہے جسے عقل جیسی نعمت سے نوازا گیا اور یہ ایسی مخلوق ہے جو اسی عقل کو استعمال کرکے سوچنے پر آئے تو خود اللہ کے وجود کے لئے ثبوت کی تلاش شروع کردیتی ہے پھر اس سلسلے کو یہیں پر محدود نہیں رکھتی، بلکہ اسے پیغمبروں کی ذات تک دراز کردیتی ہے۔ پہلے سے موجود پیغمبروں کی نبوت کے بارے میں سوال کرتی ہے پھر انہیں پیغمبر مان لیتی ہے اور اس کے بعد قرآن کے واضح احکامات کے باوجود زمین پر مزید پیغمبروں کی تلاش شروع کردیتی ہے اور اس تلاش میں یہ بات فراموش کردیتی ہے کہ نبی بنتا نہیں تھا، بنایا جاتا تھا، اسے مبعوث کیا جاتا تھا اور ہم انسانی evolution کی ان آخری دہائیوں میں کھڑے ہیں جہاں مزید نبیوں کی آمد کا سلسلہ اس لئے ختم کردیا گیا کیونکہ انسان کے لئے ایک دین اور ایک نبی کا انتخاب کرلیا گیا۔

اب کسی نئے عقیدے کی ضرورت نہیں بلکہ صرف تقلید کی ہے، صرف تقلید یعنی پریکٹس۔۔۔۔۔ اس ایک، آخری اور مکمل دین کی جسے پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ پر ختم کردیا گیا ہے اب وہ ہر شخص خسارے میں رہے گا، جو دین کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کے بجائے تفرقے کی راہ اختیار کرے گا۔ اگر ہماری اعلیٰ تعلیم اور ہمارا شعور ہمیں دین کے بارے میں صحیح اور غلط کی تمیز تک نہیں دے سکتے تو پھر ہم میں اور اس جانور میں کوئی فرق نہیں، جو سبز تازہ گھاس کے ایک گٹھے کے پیچھے کہیں بھی جاسکتا ہے، اس بات کی پرواہ کئے بغیر کہ اس کا ریوڑ کہاں ہے۔"

چالیس منٹ کے اس لیکچر میں صبیحہ نے کسی اور غلط عقیدے یا فرقے کا ذکر بھی نہیں کیا تھا۔ اس نے جو کچھ کہا تھا بالواسطہ کہا تھا۔ صرف ایک چیز بلاواسطہ کہی تھی اور وہ حضرت محمد ﷺ کی ختم نبوت کا اقرار تھا۔ "اللہ کے آخری پیغمبر حضرت محمد ﷺ تھے جنہوں نے چودہ سو سال پہلے مدینہ میں وفات پائی۔ چودہ سو سال سے پہلے مسلمان ایک امت کے طور پر اسی ایک شخص کے سائے میں کھڑے ہیں۔ چودہ سو سال بعد بھی ہمارے لئے وہ ایک آخری نبی ﷺ ہیں جن کے بعد کوئی دوسرا نبی بھیجا گیا نہ بھیجا جائے گا اور ہر وہ شخص جو کسی دوسرے شخص میں کسی دوسرے نبی کا عکس تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے اسے ایک بار اپنے ایمان کا ازسر نو جائزہ لے لینا چاہیے۔ شاید یہ کوشش اسے اس عذاب سے بچا دے جس میں وہ اپنے آپ کو مبتلا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔"

امامہ ہر لیکچر کے بعد صبیحہ سے مل کر جایا کرتی تھی۔ اس لیکچر کے بعد وہ صبیحہ سے نہیں ملی۔ ایک لمحہ بعد وہاں رکے بغیر وہ وہاں سے چلی آئی۔ عجیب سے ذہنی انتشار میں مبتلا ہوکر وہ کالج سے باہر نکل کر پیدل چلتی رہی۔ کتنی دیر فٹ پاتھ پر چلتی رہی اور اس نے کتنی سڑکیں عبور کیں، اسے اندازہ نہیں ہوا۔ کسی معمول کی طرح چلتے ہوئے وہ فٹ پاتھ سے نیچے نہر کے کنارے بنی ہوئی ایک بنچ پر جاکر بیٹھ گئی۔ سورج غروب ہونے والا تھا اور اوپر سڑک پر گاڑیوں کے شور میں اضافہ ہوگیا تھا۔ وہ چپ چاپ نہر کے بہتے ہوئے پانی کو دیکھتی رہی۔

ایک لمبی خاموشی کے بعد اس نے بڑبڑاتے ہوئے خود سے پوچھا۔

"آخر میں کر کیا رہی ہوں اپنے ساتھ کیوں اپنے آپ کو الجھا رہی ہوں، آخر کس یقین کی کھوج میں سرگرداں ہوں اور کیوں؟ میں اس سب کے لئے تو یہاں لاہور نہیں آئی۔ میں تو یہاں ڈاکٹر بننے آئی ہوں۔ مجھے آئی اسپیشلسٹ بننا ہے۔ پیغمبر۔۔۔۔۔ پیغمبر۔۔۔۔۔ پیغمبر۔۔۔۔۔ میرے لئے ہر چیز وہاں کیوں ختم ہوجاتی ہے۔"

اس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا۔

"مجھے اس سب سے نجات حاصل کرنی ہے، میں اس طرح اپنی اسٹڈیز پر کبھی توجہ نہیں دے سکتی۔ مذہب اور عقیدہ میرا مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔ صحیح یا غلط جو میرے بڑوں نے دیا وہی ٹھیک ہے۔ میں اب صبیحہ کے پاس نہیں جاؤں گی۔ میں مذہب یا پیغمبر کے بارے میں کبھی نہیں سوچوں گی۔کبھی بھی نہیں۔" وہاں بیٹھے بیٹھے اس نے طے کیا تھا۔

رات کو آٹھ بجے وہ واپس آئی تو جویریہ اور رابعہ کچھ فکرمند سی تھیں۔

"بس ایسے ہی مارکیٹ چلی گئی تھی۔" اس نے ستے ہوئے چہرے کے ساتھ انہیں بتایا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

"ارے امامہ! تم تو بہت عرصے بعد آئی ہو نا، آخر آنا کیوں چھوڑ دیا تم نے۔" بہت دنوں بعد ایک بار پھر صبیحہ کے پاس پہنچ گئی۔ صبیحہ کا لیکچر شروع ہونے والا تھا۔

"مجھے آپ سے کچھ باتیں کرنی ہیں، آپ اپنا لیکچر ختم کرلیں، میں باہر بیٹھ کر آپ کا انتظار کررہی ہوں۔" امامہ نے اس کی بات کا جواب دینے کے بجائے اس سے کہا۔

ٹھیک پنتالیس منٹ کے بعد جب صبیحہ اپنا لیکچر ختم کرکے باہر نکلی تو اس نے امامہ کو باہر کوریڈور میں ٹہلتے پایا۔ وہ صبیحہ کے ساتھ دوبارہ اسی کمرے میں آن بیٹھی جو اب خالی تھا۔ صبیحہ خاموشی سے اس کی طرف سے بات شروع کرنے کا انتظار کرتی رہی۔

امامہ چند لمحے کسی سوچ میں ڈوبی رہی پھر اس نے صبیحہ سے کہا۔

"آپ کو پتا ہے میں کس مذہب سے ہوں؟"

"ہاں، میں جانتی ہوں، جویریہ نے مجھے بتایا تھا۔" صبیحہ نے پرسکون انداز میں کہا۔

"میں آپ کو بتا نہیں سکتی میں کس حد تک فرسٹریٹڈ ہوں۔ میرا دل چاہتا ہے میں دنیا چھوڑ کر کہیں بھاگ جاؤں۔" اس نے کچھ دیر کے بعد صبیحہ سے کہنا شروع کیا۔ "میں۔۔۔۔۔ میں۔" اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑ لیا۔ "مجھے پتہ ہے کہ۔۔۔۔۔" اس نے ایک بار پھر اپنی بات ادھوری چھوڑ دی پھر خاموشی۔ "مگر میں اپنا مذہب نہیں چھوڑ سکتی۔ میں تباہ ہوجاؤں گی، میرے ماں باپ مجھے مار ڈالیں گے۔ میرا کیرئیر، میرے خواب، سب کچھ ختم ہوجائے گا۔ میں نے تو سرے سے عبادت کرنا تک چھوڑ دی ہے مگر پھر بھی پتا نہیں کیوں مجھے سکون نہیں مل رہا ہے۔ آپ میری صورت حال کو سمجھیں۔ مجھے لگ رہا ہے یہ سب کچھ غلط ہے اور صحیح کیا ہے، مجھے نہیں معلوم۔"

"امامہ! تم اسلام قبول کرلو۔" صبیحہ نے اس کی بات کے جواب میں صرف ایک جملہ کہا۔

"یہ میں نہیں کرسکتی، میں آپ کو بتا رہی ہوں۔ میں کتنے مسائل کا شکار ہوجاؤں گی۔"

"تو پھر میرے پاس کس لئے آئی ہو؟" صبیحہ اسی پرسکون انداز میں کہا۔ وہ اس کا منہ دیکھنے لگی پھر اس نے بے بسی سے کہا۔

"پتا نہیں میں آپ کے پاس کس لئے آئی ہوں؟"

"تم صرف یہی ایک جملہ سننے آئی ہو جو میں نے تم سے کہا ہے۔ میں تمہیں کوئی دلیل نہیں دوں گی، کیونکہ تمہیں کسی سوال کے جواب کی تلاش نہیں ہے۔ ہر سوال کا جواب تمہارے اندر موجود ہے۔ تم سب جانتی ہو، بس تمہیں اقرار کرنا ہے۔ ایسا ہی ہے نا۔"

امامہ کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔ "مجھے لگ رہا ہے میرے پاؤں زمین سے اکھڑ چکے ہیں۔ میں جیسے خلا میں سفر کررہی ہوں۔" اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔

صبیحہ نے اس کی بات کا جواب نہیں دیا۔ وہ بسم اللہ پڑھ رہی تھی۔ امامہ گیلی آنکھوں کے ساتھ اسکا چہرہ دیکھنے لگی۔

"کہیں کچھ بھی نظر نہیں آتا صبیحہ! کچھ بھی نہیں۔" اس نے اپنے ہاتھوں کی پشت سے اپنے آنسوؤں کو صاف کیا۔

"لاالہ الا اللہ۔" صبیحہ کے لب آہستہ آہستہ ہلنے لگے۔ امامہ دونوں ہاتھوں سے چہرہ ڈھانپ کر بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور وہ روتے ہوئے صبیحہ کے پیچھے کلمے کے الفاظ دہرا رہی تھی۔ "محمد رسول اللہ" امامہ نے اگلے الفاظ دہرائے۔ اس کی آواز بھرا گئی۔

امامہ کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا اسے اتنا رونا کیوں آرہا تھا۔ اسے کوئی پچھتاوا، کوئی افسوس نہیں تھا مگر پھر بھی اسے اپنے آنسوؤں پر قابو پانا مشکل ہورہا تھا۔ بہت دیر تک روتے رہنے کے بعد اس نے جب سر اٹھایا تو صبیحہ اس کے پاس ہی بیٹھی ہوئی تھی۔ امامہ گیلے چہرے کے ساتھ اسے دیکھ کر مسکرا دی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

رابعہ اور جویریہ ایک دوسرے کا منہ دیکھ رہی تھیں اور امامہ اپنے پاؤں کے انگوٹھے کے ساتھ فرش کو رگڑتے ہوئے کسی سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی۔

"تمہیں یہ سب کچھ ہمیں پہلے ہی بتا دینا چاہئے تھا۔" جویریہ نے ایک طویل وقفے کے بعد اس خاموشی کو توڑا۔ امامہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا اور پرسکون انداز میں کہا۔

"اس سے کیا ہوتا؟"

"کم از کم ہم تمہارے بارے میں کسی غلط فہمی کا شکار تو نہ ہوتے اور تمہاری مدد کرسکتے تھے ہم دونوں۔"

امامہ سر جھٹکتے ہوئے عجیب سے انداز میں مسکرائی۔ "اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔"

"مجھے تو بہت خوشی ہے امامہ! کہ تم نے ایک صحیح راستے کا انتخاب کیا ہے۔ دیر سے سہی مگر تم غلط راستے سے ہٹ گئی ہو۔" جویریہ نے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے نرم لہجے میں کہا۔ "تم اندازہ نہیں کرسکتیں کہ میں اس وقت تمہارے لئے اپنے دل میں کیا محسوس کررہی ہوں۔" امامہ چپ چاپ اسے دیکھتی رہی۔

"تمہیں اگر ہم دونوں کی طرف سے کسی بھی مدد کی ضرورت ہو تو ہچکچانا مت، تمہاری مدد کرکے ہمیں خوشی ہوگی۔"

"مجھے واقعی تم لوگوں کی مدد کی بہت ضرورت ہے، بہت زیادہ ضرورت ہے۔" امامہ نے کہا۔

"میری وجہ سے اگر تم نے اپنے مذہب کی اصلیت جانچ کر اسے چھوڑ دیا ہے تو۔۔۔۔۔" جویریہ کہہ رہی تھی۔

"امامہ اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔ "تمہاری وجہ سے؟" اس نے جویریہ کا چہرہ دیکھتے ہوئے سوچا۔ اس کا ذہن اسے کہیں اور لے جارہا تھا۔

دھند میں اب ایک اور چہرہ ابھر رہا تھا۔ وہ اسے دیکھتی رہی، وہ چہرہ آہستہ آہستہ واضح ہورہا تھا، زیر آب ابھرنے والے کسی نقش کی طرح۔۔۔۔۔ چہرہ اب واضح ہوگیا تھا۔ امامہ مسکرائی وہ اس چہرے کو پہچان سکتی تھی۔ اس نے اس چہرے کے ہونٹوں کو ہلتے دیکھا۔ آہستہ آہستہ وہ آواز سن سکتی تھی۔ وہ آواز سن رہی تھی۔

قطرہ مانگے جو تو اسے دریا دے دے

مجھ کو کچھ اور نہ دے اپنی تمنا دے دے

"میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ تم لوگ کسی کو کچھ نہ بتاؤ، زینب کو بھی نہیں۔" اپنے سر کو جھٹکتے ہوئے اس نے جویریہ اور رابعہ سے کہا تھا۔ ان دونوں نے اثبات میں سر ہلادیا۔

کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا

اس کی دولت ہے فقط نقشِ کف پا تیرا

پورے قد سے میں کھڑا ہوں تو یہ تیرا ہے کرم

مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیرا

لوگ کہتے ہیں کہ سایہ تیرے پیکر کا نہ تھا

میں تو کہتا ہوں جہاں بھر پہ ہے سایہ تیرا

وہ اس آواز کو پہچانتی تھی۔ یہ جلال انصر کی آواز تھی

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

جاری ہے
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: پیر کامل از عمیره احمد

Post by ایکسٹو »

قسط نمبر 8

امامہ میڈیکل کالج میں چند روز ہوئے تھے جب ایک ویک اینڈ پر اسلام آباد آنے بعد اس نے رات کو زینب کے گھر لاہور فون کیا۔

"بیٹا! میں زینب کو بلاتی ہوں، تم ہولڈ رکھو۔" زینب کی امی فون رکھ کر چلی گئیں۔ وہ ریسیور کان سے لگائے انتظار کرنے لگی۔

کچھ نہیں مانگتا ہوں شاہوں سے یہ شیدا تیرا
اس کی دولت ہے فقط نقشِ کفِ پا تیرا

مردانہ آواز میں فون پر سنائی دینے والی وہ نعت امامہ نے پہلے بھی سنی تھی مگراس وقت جو کوئی بھی اسے پڑھ رہا تھا وہ کمال جذب سے اسے پڑھ رہا تھا

پورے قد سے کھڑا ہوں تو یہ تیرا ہے کرم
مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیرا

اسے اندازہ نہیں تھا کہ کسی مرد کی آواز اتنی خوب صورت ہوسکتی ہے۔ اس قدر خوب صورت کہ پوری دنیا اس آواز کی قید میں لگے۔ امامہ نے اپنا سانس روک لیا یا شاید وہ سانس لینا بھول گئی۔

لوگ کہتے ہیں کہ سایہ تیرے پیکر کا نہ تھا

میں کہتا ہوں جہاں بھر پہ ہے سایہ تیرا

انسان کی زندگی میں کچھ ساعتیں سعد ہوتی ہیں۔ شبِ قدر کی رات میں آنے والی اس سعد ساعت کی طرح جسے بہت سے لوگ گزر جانے دیتے ہیں، صرف چند اس ساعت کے انتظار میں ہاتھ اٹھائے اور جھولی پھیلائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ اس ساعت کے انتظار میں جو چلتے پانی کو روک دے اور رکے ہوئے پانی کو رواں کردے، جو دل سے نکلنے والی دعا کو لبوں تک آنے سے پہلے مقدر بنا دے۔

امامہ ہاشم کی زندگی میں وہ سعد ساعت شبِ قدر کی کسی رات کو نہیں آئی تھی۔ نہ اس نے اس سعد ساعت کے لئے ہاتھ اٹھائے تھے نہ جھولی پھیلائی تھی پھر بھی اس نے زمین و آسمان کی گردش کو کچھ دیر کے لئے تھمتے دیکھا تھا۔ پوری کائنات کو ایک گنبد ِبے در میں بدلتے دیکھا تھا جس کے اندر بس ایک ہی آواز گونج رہی تھی۔

دست گیری میری تنہائی کی تو نے ہی تو کی

میں تو مر جاتا اگر ساتھ نہ ہوتا تیرا

وہ اندھیروں سے بھی دزانہ گزر جاتے ہیں

جن کے ماتھے پہ چمکتا ہے ستارا تیرا

آواز بہت صاف اور واضح تھی۔ امامہ بت کی طرح ریسیور ہاتھ میں لئے بیٹھی رہی۔

"ہیلو امامہ!" دوسری طرف زینب کی آواز گونجی اور وہ آواز میں گم ہوگئی۔ چند لمحوں کے لئے زمین کی رکی ہوئی گردش دوبارہ بحال ہوگئی۔

"ہیلو امامہ! آواز سن رہی ہو میری؟" وہ ایک جھٹکے سے ہوش کی دنیا میں واپس آئی۔

"ہاں، میں سن رہی ہوں۔"

"میں نے سوچا لائن کٹ گئی۔" دوسری طرف سے زینب نے کچھ مطمئن ہوتے ہوئے کہا۔ امامہ اگلے چند منٹ اس سے بات کرتی رہی مگر اس کا دل و دماغ کہیں اور تھا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

جلال الدین انصر زینب کا بڑا بھائی تھا اور امامہ غائبانہ طور پر اس سے واقف تھی۔ زینب اس کی کلاس فیلو تھی اور اس سے امامہ کا تعارف وہیں میڈیکل کالج میں ہواتھا۔ چند ماہ میں ہی یہ تعارف اچھی خاصی دوستی میں بدل گیا۔ اس تعارف میں اسے یہ پتا چلا کہ وہ لوگ چار بھائی بہن تھے۔ جلال سب سے بڑا تھا اور ہاؤس جاب کررہا تھا۔ زینب کے والد واپڈا میں انجینئر تھے اور ان کا گھرانہ کافی مذہبی تھا۔

اسلام آباد سے واپسی پر اس نے زینب سے نعت پڑھنے والے اس شخص کے بارے میں پوچھا۔

"زینب! اس رات میں نے تمہیں فون کیا تو کوئی نعت پڑھ رہا تھا، وہ کون تھا؟" اس نے اپنے لہجے کو حتی الامکان نارمل رکھتے ہوئے کہا۔

"وہ۔۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔۔ جلال بھائی تھے۔۔۔۔۔ ایک مقابلہ میں حصہ لینے کے لئے وہ نعت یاد کررہے تھے۔ فون کوریڈور میں ہے اور ان کے کمرے کا دروازہ کھلا تھا اس لئے آواز تم تک پہنچ گئی۔" زینب نے تفصیل سے بتایا۔

"بہت اچھی آواز ہے ان کی۔"

"ہاں،آواز تو بہت اچھی ہے ان کی۔ قرات تو نعت سے بھی زیادہ خوبصورت کرتے ہیں۔ بہت سے مقابلوں میں انعام بھی لے چکے ہیں۔ ابھی بھی کالج میں ایک مقابلہ ہونے والا ہے تم اس میں انہیں سننا۔"

زینب تب یہ نہیں جانتی تھی کہ امامہ کس مذہب کی تھی، وہ جس طرح پردے کا خیال رکھتی تھی زینب کا خیال تھا کہ وہ کسی مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتی ہے۔ خود زینب بھی خاصے مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتی تھی اور چادر اوڑھا کرتی تھی۔

دو تین دن کے بعد امامہ جلال انصر کی نعت سننے کے لئے اپنی فرینڈز کو بتائے بغیر کلاسز بنک کرکے نعتوں کے اس مقابلے میں چلی گئی تھی۔

جلال انصر کو اس دن پہلی بار اس نے دیکھا تھا۔ کمپئیر نے جلال انصر کا نام پکارا اور امامہ نے تیز ہوتی ہوئی دھڑکنوں کے ساتھ زینب سے مشابہت رکھنے والے عام سی شکل و صورت اور داڑھی والے ایک چوبیس پچیس سالہ لڑکے کو اسٹیج پر چڑھتے دیکھا۔ اسٹیج پر سیڑھیاں چڑھنے سے لے کر روسٹرم کے پیچھے آکر کھڑے ہونے تک امامہ نے ایک بار بھی اپنی نظر جلال انصر کے چہرے سے نہیں ہٹائی۔ اس نے اسے سینے پر ہاتھ باندھتے اور آنکھیں بند کرتے دیکھا۔

کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا

اس کی دولت ہے فقط نقشِ کفِ پا تیرا

امامہ کو اپنے پورے وجود میں ایک لہر سی دوڑتی محسوس ہوئی۔ ہال میں مکمل خاموشی تھی اور صرف اس کی خوبصورت آواز گونج رہی تھی۔ وہ کسی سحر زدہ معمول کی طرح بیٹھی اسے سنتی رہی۔ اس نے کب نعت ختم کی، کب وہ اسٹیج سے اتر کر واپس ہوا، مقابلے کا نتیجہ کیا نکلا، اس کے بعد کس کس نے نعت پڑھی، کس وقت سارے اسٹوڈنٹ وہاں سے گئے اور کس وقت ہال خالی ہوگیا امامہ کو پتا نہیں چلا۔

بہت دیر کے بعد اسے یکدم ہوش آیا تھا۔ اس وقت اپنے اردگرد دیکھنے پر اسے احساس ہوا کہ وہ ہال میں اکیلی بیٹھی تھی۔

"میں نے کل تمہارے بھائی کو نعت پڑھتے سنا۔" امامہ نے اگلے دن زینب کو بتایا۔

"اچھا۔۔۔۔۔ انہیں پہلا انعام ملا ہے۔" زینب نے اس کی بات پر مسکرا کر اسے دیکھا۔

"بہت خوبصورت نعت پڑھی تھی انہوں نے۔" کچھ دیر کی خاموشی کے بعد امامہ نے پھر اس موضوع پر بات کی۔

"ہاں! وہ بچپن سے نعتیں پڑھتے آرہے ہیں۔ اتنے قرات اور نعت کے مقابلے جیت چکے ہیں کہ اب تو انہیں خود بھی ان کی تعداد یاد نہیں ہوگی۔" زینب نے تفاخر سے کہا۔

"ان کی آواز بہت خوب صورت ہے۔" امامہ نے پھر کہا۔ "ہاں خوبصورت تو ہے مگر ساری بات اس محبت اور عقیدت کی ہے، جس کے ساتھ وہ نعت پڑھتے ہیں۔ انہیں حضورﷺ سے عشق ہے۔ اتنی محبت کہ جس کی کوئی حد نہیں۔ قرات اور نعت کے علاوہ انہوں نے کبھی کوئی اور چیز نہیں پڑھی، حالانکہ اسکول اور کالج میں انہیں بہت مجبور کیا جاتا رہا مگر ان کا ایک ہی جواب ہوتا کہ میں جس زبان سے حضرت محمد ﷺ کا قصیدہ پڑھتا ہوں اس زبان سے کسی اور شخص کا قصیدہ نہیں پڑھ سکتا۔ محبت تو ہم بھی حضور ﷺ سے کرتے ہیں مگر جیسی بھائی کرتے ہیں ویسی محبت تو ہم میں سے کوئی بھی نہیں کرسکتا۔ پچھلے دس سالوں میں ایک بار بھی انہوں نے نماز قضا نہیں کی۔ ہر ماہ ایک قرآن پاک پڑھتے ہیں۔ تم تو نعت کی تعریف کررہی ہواگر ان سے تلاوت سن لو تو۔"

وہ بڑے فخر سے بتا رہی تھی۔ امامہ چپ چاپ اسے دیکھ رہی تھی۔ اس نے زینب سے اس کے بعد کچھ نہیں پوچھا۔

اگلے دن وہ صبح کالج جانے کے لئے تیار ہونے کی بجائے اپنے بستر میں گھسی رہی۔ جویریہ نے خاصی دیر کے بعد بھی اسے بستر سے برآمد نہ ہوتے دیکھ کرجھنجھوڑا۔

"اٹھ جاؤ امامہ! کالج نہیں جانا کیا۔ دیر ہورہی ہے۔"

"نہیں، آج مجھے کالج نہیں جانا۔" امامہ نے دوبارہ آنکھیں بند کرلیں۔

"کیوں؟" جویریہ کچھ حیران ہوئی۔

"میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔" امامہ نے کہا۔

"آنکھیں تو بہت سرخ ہورہی ہیں تمہار، رات کو سوئیں نہیں تم؟"

"نہیں، نیند نہیں آئی اور پلیز اب مجھے سونے دو۔" امامہ نے اس کے کسی اور سوال سے بچپن کے لئے کہا۔ جویریہ کچھ دیر اسے دیکھتے رہنے کے بعد اپنا بیگ اور فولڈر اٹھا کر باہر نکل گئی۔

اس کے جانے کے بعد امامہ نے آنکھیں کھول دیں۔ یہ بات ٹھیک تھی کہ وہ ساری رات سو نہیں سکی تھی اور اس کی وجہ جلال انصر کی آواز تھی۔ وہ اپنے ذہن کو اس آواز کے علاوہ اور کہیں بھی فوکس نہیں کر پارہی تھی۔

"جلال انصر!" اس نے زیر لب اس کا نام دہرایا۔ "آخر اس کی آواز کیوں مجھے اس قدر اچھی لگ رہی ہے کہ میں۔۔۔۔۔ میں اسے اپنے ذہن سے نکال نہیں پارہی؟" اس نے الجھے ہوئے ذہن کے ساتھ بستر سے نکلتے ہوئے سوچا۔ وہ اپنے کمرے کی کھلی ہوئی کھڑکی میں آکر کھڑی ہوگئی۔

"میرے بھائی کی آواز میں ساری تاثیر حضرت محمدﷺ کے عشق کی وجہ سے ہے۔" اس کے کانوں میں زینب کی آواز گونجی۔

"آواز میں تاثیر۔۔۔۔۔ اور عشق؟" اس نے بے چینی سے پہلو بدلا۔ "سوز،گداز، لوچ، مٹھاس۔۔۔۔۔ آخر کیا تھا اس آواز میں؟" وہ اٹھ کر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔ "دنیا عشق اللہ سے شروع ہوتی ہے اور عشق رسول ﷺ پر ختم ہوجاتی ہے۔" اسے ایک اور جملہ یاد آیا۔

"عشق رسول ﷺ?" اس نے حیرانی سے سوچا۔ "عشق رسول ﷺ یا عشق محمد ﷺ?" یکدم اسے اپنے ایک عجیب سا سناٹا اترتا محسوس ہوا۔ اس نے اس سناٹے اور تاریکی کو کوجھنا شروع کیا۔ اپنے اندر سیڑھی درسیڑھی اترنا شروع کیا۔ اسے کہیں کوئی روشنی نظر نہیں آئی۔ "آخر وہ کیا چیز ہوتی ہے جو حضرت محمد ﷺ کا نام سننے پر لوگوں کی آنکھوں میں آنسو اور لبوں پر درود لے آتی ہے۔ عقیدت، عشق، محبت۔۔۔۔۔ ان میں سے کیا ہے؟ مجھے کچھ کیوں محسوس نہیں ہوتا۔ میری آنکھوں میں آنسو کیوں نہیں آتے؟ میرے ہونٹوں پر درود کیوں نہیں آتا؟ میری آواز میں تاثیر۔۔۔۔۔" وہ لمحہ بھر کے لئے رکی اس نے زیر لب پڑھا۔

کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا

اس کی دولت ہے فقط نقش کف پا تیرا

اسے اپنی آواز بھرائی ہوئی محسوس ہوئی۔ "شاید ابھی جاگی ہوں، اس لئے آواز ایسی ہے۔" اس نے اپنا گلا صاف کرتے ہوئے سوچا۔ اس نے ایک بار پھر پڑھنا شروع کیا۔

"کچھ نہیں مانگتا۔۔۔۔۔" وہ ایک بار پھر رک گئی۔ اس بار اس کی آواز میں لرزش تھی۔ اس نے دوبارہ پڑھنا شروع کیا۔ "کچھ نہیں مانگتا ہوں شاہوں سے یہ شیدا تیرا۔" کھڑکی سے باہر نظریں مرکوز رکھتے ہوئے اس نے لرزتی بھرائی آواز اور کانپتے ہونٹوں کے ساتھ پہلا مصرع پڑھا پھر دوسرا مصرع پڑھنا شروع کیا اور رک گئی۔ کھڑکی سے باہر خلا میں گھورتے ہوئے وہ ایک بار پھر جلال انصر کی آواز اپنے کانوں میں اترتی محسوس کررہی تھی۔

بلند، صاف، واضح اور اذان کی طرح دل میں اتر جانے والی مقدس آواز۔۔۔۔۔ اسے اپنے گالوں پر نمی محسوس ہوئی۔

یکدم وہ اپنے ہوش و حواس میں آئی اور پتا چلا کہ وہ رو رہی تھی۔ کچھ دیر جیسے بے یقینی کے عالم میں وہ اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں دونوں آنکھوں پر رکھے دم بخود کھڑی رہی۔ اس نے اپنے آپ کو بے بسی کی انتہا پر پایا۔ آنکھوں پر ہاتھ رکھے وہ آہستہ آہستہ گھٹنوں کے بل وہیں زمین پر بیٹھ گئی اور اس نے پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کردیا۔

انسان کے لئے سب سے مشکل مرحلہ وہ ہوتا ہے جب اس کا دل کسی چیز کی گواہی دے رہا ہو مگر اس کی زبان خاموش ہو جب اس کا دماغ چلا چلا کر کسی چیز کی صداقت کا اقرار کررہا ہو مگر اس کے ہونٹ ساکت ہوں، امامہ ہاشم کی بھی اپنی زندگی اسی مرحلے پر آن پہنچی تھی، جو فیصلہ وہ پچھلے دو تین سالوں سے نہیں کر پارہی تھی وہ فیصلہ ایک آواز نے چند دنوں میں کروا دیا تھا۔ یہ جانے، یہ کھوجے، یہ پرکھے بغیر کہ آخر لوگ کیوں حضرت محمد ﷺ سے اتنی عقیدت رکھتے ہیں۔ آخر کیوں عشق رسول ﷺ کی بات کی جاتی ہے۔ اس نے اتنے سال اپنے نبی کے قصیدے سنے تھے، اس پر کبھی رقت طاری نہیں ہوئی تھی، کبھی اس کا وجود موم بن کر نہیں پگھلا تھا، کبھی اسے کسی پر رشک نہیں آیا تھا مگر ہر بار حضرت محمد ﷺ کا نام پڑھتے، دیکھتے اور سنتے ہوئے وہ عجیب سی کیفیات کا شکار ہوتی تھی۔ ہر بار، ہر دفعہ اس کا دل اس نام کی طرف کھنچتا چلا جاتا تھا اور صبیحہ کے پاس نہ جانے کے اس کے سارے ارادے بھاپ بن کر اڑ گئے تھے۔ جلال انصر کی آواز تاریکی میں نظر آنے والے جگنو کی طرح تھی جس کے تعاقب میں وہ بنا سوچے سمجھے چل پڑی تھی۔

میں تجھے عالمِ اشیا میں بھی پا لیتا ہوں

لوگ کہتے ہیں کہ ہے عالم بالا تیرا

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

امامہ کے لئے وہ ایک نئے سفر کا آغاز تھا۔ وہ پہلے کی طرح باقاعدگی سے صبیحہ کے پاس جانے لگی۔ ان اجتماعات میں شرکت نے اسے اگر ایک طرف اپنے فیصلے پر استقامت بخشی تو دوسری طرف اس باقی ماندہ شبہات کو بھی دور کردیا۔

مذہب تبدیل کرنے کا فیصلہ امامہ کے لئے کوئی چھوٹا یا معمولی فیصلہ نہیں تھا، اس ایک فیصلے نے اس کی زندگی کے ہر معاملے کو متاثر کیا تھا۔ وہ اب اسجد سے شادی نہیں کرسکتی تھی کیونکہ وہ غیر مسلم تھا۔ اسے جلد یا بدیر اپنے گھر والوں سے علیحدگی بھی اختیار کرنی تھی کیونکہ وہ اب ایسے کسی ماحول میں رہنا نہیں چاہتی تھی جہاں اسلام شعائر اور عقائد میں اتنے دھڑلے سے تحریفات کی جاتی تھیں۔ وہ اس پیسے کے بارے میں بھی شکوک کا شکار ہونے لگی تھی جو اسے اپنی تعلیم اور دوسرے اخراجات کے لئے ہاشم مبین کی طرف سے ملتے تھے۔ چند سال پہلے تک پریوں کی کہانی نظر آنے والی زندگی یکدم ایک ڈراؤنے خواب میں تبدیل ہوگئی تھی اور زندگی کے اس مشکل راستے کا انتخاب اس نے خود کیا تھا۔ اسے بعض دفعہ حیرت ہوتی کہ اس نے اتنا بڑا فیصلہ کس طرح کرلیا۔ اس نے اللہ سے استقامت ہی مانگی تھی اور اسے استقامت سے نوازا گیا تھا مگر وہ ابھی اتنی کم عمر تھی کہ خدشات اور اندیشوں سے مکمل پیچھا چھڑا لینا اس کے لئے ممکن نہیں تھا۔

"امامہ! تم فی الحال اپنے والدین کو مذہب کی تبدیلی کے بارے میں نہ بتاؤ۔ اپنے پیروں پر کھڑی ہوجاؤ۔ اس وقت نہ صرف تم آسانی سے اسجد سے شادی سے انکار کرسکتی ہو بلکہ انہیں اپنے مذہب کی تبدیلی کے بارے میں بھی بتا سکتی ہو۔"

صبیحہ نے ایک بار اس کے خدشات سننے کے بعد اسے مشورہ دیا۔

"میں اس پیسے کو اپنے اوپر خرچ کرنا نہیں چاہتی جو میرے بابا مجھے دیتے ہیں، اب جبکہ میں جانتی ہوں کہ میرے والد ایک جھوٹے مذہب کی تبلیغ کررہے ہیں یہ جائز تو نہیں ہے کہ میں ایسے شخص سے اپنے اخراجات کے لئے رقم لوں؟"

"تم ٹھیک کہتی ہو مگر تمہارے پاس فی الحال کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ بہتر ہے تم اپنی تعلیم مکمل کرلو، اس کے بعد تمہیں اپنے والد سے بھی کچھ نہیں لینا پڑے گا۔" صبیحہ نے اسے سمجھایا۔ صبیحہ اگر اسے یہ راہ نہ دکھاتی تب بھی امامہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کرسکتی تھی۔ اس میں فی الحال اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اپنی زندگی کی سب سے بڑی خواہش چھوڑ دیتی۔"

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اس وقت رات کے دس بجے تھے جب وہ سینما سے باہر نکل آیا تھا۔ اس کے ہاتھ میں اب بھی پاک کارن کا پیکٹ تھا اور وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا پاپ کارن کھاتے ہوئے سڑک پر چل رہا تھا۔

آدھا گھنٹہ تک سڑکیں ناپتے رہنے کے بعد اس نے ایک بہت بڑے بنگلے کی گھنٹی بجائی تھی۔

"صاحب کھانا لگاؤں؟" لاؤنج میں داخل ہونے پر ملازم نے اسے دیکھ کر پوچھا۔

"نہیں۔" اس نے نفی میں سرہلاتے ہوئے کہا۔

"دودھ؟"

"نہیں۔" وہ رکے بغیر وہاں سے گزرتا چلا گیا۔ اپنے کمرے میں داخل ہوکر اس نے دروازہ بند کرلیا۔ کمرے کی لائٹ آن کرکے وہ کچھ دیر بے مقصد ادھر اُدھر دیکھتا رہا پھر باتھ روم کی طرف بڑھ گیا۔ شیونگ کٹ نکال کر اس کے اندر سے ایک ریزر بلیڈ نکال لیا اور اسے لے کر بیڈروم میں آگیا۔ اپنے بیڈ پر بیٹھ کر اس نے سائیڈ ٹیبل پر پڑا ہوا لیمپ جلا لیا اور بیڈروم کی ٹیوب لائٹ بند کردی۔ ریزر بلیڈ کے اوپر موجود ریپر کو اتار کر وہ کچھ دیر لیمپ کی روشنی میں اس کی تیز دھار کو دیکھتا رہا پھر اس نے بلیڈ کے ساتھ اپنے دائیں ہاتھ کی کلائی کی رگ کو ایک جھٹکے سے کاٹ دیا۔ اس کے منہ سے ایک سسکی نکلی اور پھر اس نے ہونٹ بھینچ لیے۔ وہ اپنی آنکھوں کو کھلا رکھنے کی کوشش کررہا تھا۔ اس کی کلائی بیڈ سے نیچے لٹک رہی تھی اور خون کی دھار اب سیدھا کارپٹ پر گر کر اس میں جذب ہورہی تھی۔

اس کا ذہن جیسے کسی گہری کھائی میں جارہا تھا پھر اس نے کچھ دھماکے سنے۔ تاریکی میں جاتا ہوا ذہن ایک بار پھر جھماکے کے ساتھ روشنی میں آگیا۔ شور اب بڑھتا جارہا تھا۔ وہ فوری طور پر شور کی وجہ سمجھ نہیں پارہا تھا۔ اس نے ایک بار پھر اپنی آنکھیں کھول دیں مگر وہ کسی چیز کو سمجھ نہیں پارہا تھا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

وہ سورہی تھی جب ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔ کوئی اس کا دروازہ بجا رہا تھا۔

"امامہ! امامہ!" وسیم دروازہ بجاتے ہوئے بلند آواز میں اس کا نام پکاررہا تھا۔

"کیا ہوا ہے؟ کیوں چلا رہے ہو؟" دروازہ کھولتے ہی اس نے کچھ حواس باختگی کے عالم میں وسیم سے پوچھا جس کا رنگ اڑا ہوا تھا۔

"فرسٹ ایڈ باکس ہے تمہارے پاس؟" وسیم نے اسے دیکھتے ہی فوراً پوچھا۔

"ہاں، کیوں؟" وہ مزید پریشان ہوئی۔

"بس اسے لے کر میرے ساتھ آجاؤ۔" وسیم نے کمرے کے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا۔

"کیا ہوا؟" اس کے پیروں کے نیچے سے جیسے زمین کھسکنے لگی۔

"چوچو نے پھر خودکشی کی کوشش کی ہے۔ اپنی کلائی کاٹ لی ہے اس نے۔ ملازم آیا ہوا ہے نیچے اس کا، تم میرے ساتھ چلو۔" امامہ نے بے اختیار اطمینان بھرا سانس لیا۔

"تمہارے اس دوست کو مینٹل ہاسپٹل میں ہونا چاہئیے جس طرح کی یہ حرکتیں کرتا پھرتا ہے۔" امامہ نے ناگواری سے اپنے بیڈ پر پڑا ہوا دوپٹہ اوڑھتے ہوئے کہا۔

"میں تو اسے دیکھتے ہی بھاگ آیا ہوں، ابھی وہ ہوش میں تھا۔" اس نے مڑ کر امامہ کو بتایا۔ وہ دونوں اب آگے پیچھے سیڑھیاں اتر رہے تھے۔

"تم اسے ہاسپٹل لے جاتے۔" امامہ نے آخری سیڑھی پر پہنچ کر کہا۔

"وہ بھی لے جاؤں گا، پہلے تم اس کی کلائی وغیرہ تو باندھو، خون تو بند ہو۔"

"وسیم! میں اسے کوئی بہت اچھی قسم کی فرسٹ ایڈ نہیں دے سکتی۔ پتا نہیں اس نے کس چیز سے کلائی کاٹی ہے اور زخم کتنا گہرا ہے۔ اس کے اپنے گھر والے کہاں ہیں؟" بات کرتے کرتے امامہ کو خیال آیا۔

"اس کے گھر میں کوئی بھی نہیں ہے، صرف ملازم ہیں۔ وہ تو کوئی فون کال آئی تھی جس پر ملازم اسے بلانے کے لئے گیا اور جب اندر سے کوئی جواب نہیں آیا تو پریشان ہوکر دوسرے ملازموں کے ساتھ مل کر اس نے دروازہ توڑ دیا۔" وہ دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہوئے اب اپنے گھر سے باہر نکل آئے۔

"تمہارا یہ دوست جو ہے نا۔۔۔۔۔" امامہ نے کچھ ناراضی کے عالم میں وسیم کے ساتھ چلتے ہوئے سالار کے بارے میں کچھ کہنا چاہا مگر وسیم نے غصے میں پلٹ کر اس کو جھڑک دیا۔

"فار گاڈ سیک۔ اپنی لعنت ملامت بند نہیں کرسکتیں تم۔ اس کی حالت سیریس ہے اور تم اس کی برائیوں میں مصروف ہو۔"

"ایسی حرکتیں کرنے والوں کے لئے میرے پاس کوئی ہمدردی نہیں ہے۔" وہ دونوں اب سالار کے لاؤنج میں پہنچ چکے تھے۔

چند قدم چلنے کے بعد وسیم ایک موڑ مڑا اور کمرے کے اندر داخل ہوگیا۔ امامہ اس کے پیچھے ہی تھی مگرپھر جیسے کرنٹ کھا کر رک گئی۔ کمرے کے دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی سامنے قد آدم کھڑکیوں پر کچھ ماڈلز اور ایکٹریسز کی بڑی بڑی عریاں تصویریں اس طرح لگائی گئی تھیں کہ ایک لمحے کے لئے امامہ کو یوں لگا جیسے وہ تمام لڑکیاں حقیقی طور پر اس کمرے میں موجود ہیں۔ اس کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ ایک طرف بیڈ پر پڑے ہوئے زخمی کے بارے میں اس کی رائے کچھ اور خراب ہوگئی۔ وہ تصویریں اس کے کردار کی پستی کا ایک اور ثبوت تھیں اور کمرے میں تین چار لوگوں کی موجودگی میں اس کے لئے وہ تصویریں خاصی خفت اور شرمندگی کا باعث بن رہی تھیں۔ ان تصویروں سے نظریں چراتے ہوئے وہ تیز رفتاری سے ڈبل بیڈ کی طرف آگئی جہاں سالار سکندر لیٹا ہوا تھا۔ وسیم اس کے پاس بیڈ پر بیٹھا فرسٹ ایڈ باکس کھول رہا تھا جبکہ امامہ کا بڑا بھائی سالار کی اس کلائی کو بیڈ شیٹ کے ایک لٹکے ہوئے کونے کے ساتھ دبا کر خون روکنے کی کوشش کررہا تھا جبکہ خود سالار نشے میں ڈوبے ہوئے کسی انسان کی طرح اپنا ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کررہا تھا۔ وہ وسیم اور وہاں ملازموں سے کچھ کہہ بھی رہا تھا۔

امامہ کے آگے بڑھتے ہی اس کے بڑے بھائی نے اس کرسی کو چھوڑ دیا، جس پر وہ بیٹھے ہوئے تھے۔

"اس کے زخم کو دیکھو، میں نے چادر سے خون روکنے کی کوشش کی ہے مگر میں کامیاب نہیں ہوا۔" انہوں نے اس کی کلائی امامہ کو تھماتے ہوئے کہا۔ امامہ نے کرسی پر بیٹھتے ہی اس کی کلائی کے گرد لپٹا ہوا کونہ ہٹایا۔ زخم بہت گہرا اور لمبا تھا۔ ایک نظر ڈالتے ہی اسے اندازہ ہوگیا تھا۔

سالار نے پھر ایک جھٹکے کے ساتھ اپنا ہاتھ کھینچنے کی کوشش کی مگر امامہ مضبوطی سے کلائی کے کچھ نیچے سے اس کا بازو پکڑے رہی۔

"وسیم! بس بینڈیج نکال دو۔ یہ زخم بہت گہرا ہے۔ یہاں کچھ نہیں ہو سکتا۔ بینڈیج کرنے سے خون رک جائے گا پھر تم لوگ اسے ہاسپٹل لے جاؤ۔"اس نے ایک نظر نیچے کارپٹ پر جذب ہوتے خون پر ڈالی۔ وسیم تیزی سے فرسٹ ایڈ باکس میں سے بینڈیج نکالنے لگا۔

سالار نے بیڈ پر لیٹے لیٹے اپنے سر کو جھٹکا دیا اور آنکھیں کھولنے کی کوشش کی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اب دھندلاہٹ سی تھی مگر اس کے باوجود اس نے اپنے بیڈ سے کچھ فاصلے پر بیٹھی ہوئی اس لڑکی اور اس کے ہاتھ میں موجود اپنے بازو کو دیکھا۔

کچھ مشتعل ہو کر اس نے ایک اور جھٹکے کے ساتھ اپنا ہاتھ اس لڑکی کے ہاتھ سے آزاد کرانے کی کوشش کی۔ ہاتھ آزاد نہیں ہوا مگر درد کی ایک تیز لہر نے بے اختیار اسے کراہنے پر مجبور کیا تھا۔ اسے چند لمحوں کے لئے یہی محسوس ہوا تھا جیسے اس کی جان نکل گئی مگر اگلے ہی لمحے وہ ایک بار پھر ہاتھ چھڑانے کی کوشش کر رہا تھا۔

"تم لوگ دفع ہو۔۔۔۔۔ جاؤ۔۔۔۔۔ کہاں سے۔۔۔۔۔ آ گئے۔۔۔۔۔ ہو؟" اس نے کچھ مشتعل ہو کر لڑکھڑاتے لہجے میں کہا۔" یہ میرا۔۔۔۔۔ کمرہ ہے۔۔۔۔۔تم لوگوں۔۔۔۔۔ کو اندر۔۔۔۔۔آنے کی جرات کیسے۔۔۔۔۔ ہوئی۔۔۔۔۔ تم۔۔۔۔۔تم۔۔۔۔ وسیم تم۔۔۔۔۔دفع۔۔۔۔۔ہو جاؤ۔۔۔۔۔ گیٹ لاسٹ۔۔۔۔۔جسٹ ۔۔۔۔۔ گیٹ لاسٹ۔۔۔۔۔بلڈی باسٹرڈ۔"

اس نے بلند آواز میں مگر لڑکھڑاتی زبان سے کہا۔امامہ نے اس کے منہ سے نکلنے والی گالی کو سنا۔ ایک لمحے کے لئے اس کے چہرے کا رنگ بدلا مگر وہ پھر اس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑے بیٹھی رہی۔ اس نے وسیم سے کاٹن لے کے کراہتے ہوئے سالار کی کلائی کے زخم پر رکھ دی جو ہاتھ کو کھینچنے اور ہلانے سے باز نہیں آ رہاتھا اور وسیم کے ہاتھ سے لے کر لپیٹنا شروع کر دیا۔ سالار نے دھندلائی ہوئی آنکھوں کے ساتھ اپنی کلائی کے گرد کسی چیز کی نرمی کو محسوس کیا۔

کچھ بے بسی اور جھنجھلاہٹ کے عالم میں سالار نے اپنے بائیں ہاتھ کے زور سے اپنے دائیں ہاتھ کو چھڑانے کی کوشش کی تھی۔ دھندلائی ہوئی آنکھوں کے ساتھ اس کا آگے بڑھنے والا بایاں ہاتھ لڑکی کے سر سے ٹکرایا تھا۔ اس کے سر سے نہ صرف دوپٹہ اترا تھا بلکہ اس کے بال بھی کھل گئے تھے۔

امامہ نے ہڑبڑا کر اسے دیکھا جو ایک بار پھر اپنا بایاں ہاتھ آگے لا رہا تھا۔ امامہ نے اپنے بائیں ہاتھ سے اس کی کلائی کو پکڑے رکھا جبکہ دائیں ہاتھ میں پکڑی ہوئی بینڈیج چھوڑ کر اپنی پوری قوت سے اپنا دایاں ہاتھ اس کے دائیں گال پر سے مارا۔ تھپڑ اتنا زناٹے دار تھا کہ ایک لمحے کے لئے سالار کی آنکھوں کے سامنے چھائی ہوئی دھند چھٹ گئی۔ کھلے منہ اور آنکھوں کے ساتھ دم بخود اس نے اس لڑکی کو دیکھا تھا جو سرخ چہرے کے ساتھ بلند آواز میں اس سے کہہ رہی تھی۔

اب اگر تم ہلے تو میں تمہارا دوسرا ہاتھ بھی کاٹ دوں گی، سنا تم نے۔"

سالار نے اس لڑکی کے عقب میں وسیم کو کچھ کہتے سنا مگر وہ کچھ سمجھ نہیں پایا۔ اس کا ذہن مکمل طور پر تاریکی میں ڈوب رہا تھا مگر اس نے پھر ایک آواز سنی، نسوانی آواز۔" اس کا بلڈ پریشر چیک کرو۔۔۔۔۔" سالار کو بے اختیار چند لمحے پہلے اپنے گال پر پڑنے والا تھپڑ یاد آیا۔ وہ چاہنے کے باوجود آنکھیں نہیں کھول سکا۔ وہی نسوانی آواز ایک بار پھر گونجی تھی مگر اس بار وہ اس آواز کو کوئی مفہوم نہیں پہنا سکا۔ اس کا ذہن مکمل طور پر تاریکی میں ڈوب گیا تھا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اگلی بار جب اسے ہوش آیا تو وہ ایک پرائیویٹ کلینک میں موجود تھا۔ آنکھیں کھول کر اس نے ایک بار پھر اپنے اردگرد دیکھنے کی کوشش کی۔ کمرے میں اس وقت ایک نرس موجود تھی جو اس کے پاس کھڑی ڈرپ کو صحیح کرنے میں مصروف تھی۔ سالار نے اسے مسکراتے دیکھا تھا وہ اس سے کچھ کہنا چاہ رہا تھا مگر اس کا ذہن ایک بار پھر تاریکی میں ٖڈوب گیا۔

دوسری بار اسے کب ہوش آیا، اسے اندازہ نہیں ہوا مگر دوسری بار آنکھیں کھولنے پر اس نے اس کمرے میں کچھ شناسا چہرے دیکھے تھے۔ اسے آنکھیں کھولتے دیکھ کر ممی اس کی طرف بڑھ آئی تھیں۔

"کیسا محسوس کر رہے ہو تم؟" انہوں نے اس پر جھکتے ہوئے بے تابی سے کہا۔

"جسٹ فائن۔" سالار نے دور کھڑے سکندر عثمان کو دیکھتے ہوئے دھیمے لہجے میں کہا۔ اس سے پہلے کہ اس کی ممی کچھ اور کہتیں کمرے میں موجود ایک ڈاکٹر آگے آ گیا تھا۔ وہ اس کی نبض چیک کرنے لگا تھا۔

ڈاکٹر نے انجکشن لگانے کے بعد ایک بار پھر اسے ڈرپ لگائی۔ سالار نے کچھ بیزاری کے ساتھ یہ کاروائیاں دیکھیں۔ ڈرپ لگانے کے بعد وہ سکندر عثمان اور اس کی بیوی سے باتیں کرنے لگا۔ سالار اس گفتگو کے دوران چھت کو گھورتا رہا پھر کچھ دیر بعد ڈاکٹر کمرے سے نکل گیا۔

کمرے میں اب بالکل خاموشی تھی۔ سکندر عثمان اور اس کی بیگم اپنا سر پکڑے بیٹھے تھے۔ ان کی تمام کوششوں اور احتیاط کے باوجود یہ سالار سکندر کی خود کشی کی چوتھی کوشش تھی اور اس بار وہ واقعی مرتے مرتے بچا تھا۔ ڈاکٹرزکے مطابق اگر چند منٹو ں کی تاخیر ہوجاتی تووہ اسے نہیں بچا سکتے تھے۔

سکندر اور ان کی بیوی کو ملازم نے رات کے دو بجے سالار کی خود کشی کی اس کوشش کے بارے میں بتایا تھا اور وہ دونوں میاں بیوی پوری رات سو نہیں سکے تھے۔ سکندر عثمان نے صبح فلائٹ ملنے تک تقریباً ڈیڑھ سو سیگریٹ پھونک ڈالے تھے، مگر اس کے باوجود ان کی بے چینی اور اضطراب میں کمی نہیں ہو پار رہی تھی۔

"میری سمجھ میں نہیں آتا یہ آخر اس طرح کی حرکتیں کیوں کرتا ہے۔ آخر اس پر ہماری نصیحتوں اور ہمارے سمجھانے کا اثر کیوں نہیں ہوا۔" سکندر عثما ن نے دوران سفر کہا۔"میرا تو دماغ پھٹنے لگتا ہے جب میں اس کے بارے میں سوچتا ہوں۔ کیا نہیں کیا میں نے اس کے لئے۔ ہر سہولت، بہترین تعلیم حتیٰ کہ بڑے سے بڑے سائیکاٹرسٹ کو دکھا چکا ہوں مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔۔۔۔۔ میری تو سمجھ میں نہیں آتا کہ مجھ سے کیا غلطی ہو گئی ہے جو مجھے یہ سزا مل رہی ہے۔ جاننے والوں کے درمیان مذاق بن گیا ہوں میں اس کی وجہ سے۔" سکندر عثمان بہت پریشان تھے۔" ہر وقت میرا دم حلق میں اٹکا رہتا ہے کہ پتا نہیں وہ کس وقت کیا کر گزرے۔ اتنی احتیاط برتنے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ایک بار ہم غافل ہوئے اور وہ پھر وہی حرکت کر گزرا ہے۔" طیبہ نے اپنی آنکھوں میں امڈتے ہوئے آنسوؤں کو ٹشو کے ساتھ صاف کیا۔ وہ دونوں اسی طرح کی باتیں کرتے ہوئے کراچی سے اسلام آباد آئے تھے مگر سالار کے سامنے آ کر دونوں کو چپ لگ گئی تھی۔ ان دونوں ہی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ اس حالت میں اس سے کیا کہیں۔

سالار کو ان کی دلی اور ذہنی کیفیات کا اچھی طرح اندازہ تھا اور ان کی خاموشی کو وہ غنیمت جان رہاتھا۔ انہوں نے اس دن اس سے کچھ نہیں کہا تھا۔ اگلے دن بھی وہ دونوں خاموش ہی رہے تھے۔

مگر تیسرے دن ان دونوں نے اپنی خاموشی توڑ دی تھی۔

"مجھے صرف یہ بتاؤ کہ آخر تم یہ سب کیوں کر رہے ہو؟"سکندر نے اس رات بڑی تحمل مزاجی سے اس کے ساتھ گفتگو کا آغاز کیا تھا۔" آخر تمہارے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟ تم نے وعدہ کیا تھا کہ تم ایسی کوئی حرکت نہیں کرو گے۔ میں نے اسی وعدے پر تمہیں اسپورٹس کار بھی لے کر دی تھی۔ ہر بات مان رہے ہیں ہم لوگ تمہاری، پھر بھی تمہیں قطعاً احساس نہیں ہے ہم لوگوں کا، نہ خاندان کی عزت کا۔" سالار اسی طرح چپ بیٹھا رہا۔

"کسی اور کا نہیں تو تم ہم دونوں کا ہی خیال کرو۔ تمہاری وجہ سے ہماری راتوں کی نیندیں اڑ گئی ہیں۔" طیبہ نے کہا۔" "تمہیں کوئی پریشانی، کوئی پرابلم ہے، تو ہم سے ڈسکس کرو، ہم سے کہو۔۔۔۔۔ مگر اس طرح مرنے کی کوشش کرنا۔۔۔۔۔ تم نے کبھی سوچا ہے کہ اگر تم ان کوششوں میں کامیاب ہو جاتے تو ہمارا کیا ہوتا۔" سالار خاموشی سے ان کی باتیں سنتا رہا۔ ان کی باتوں میں کچھ بھی نیا نہیں تھا۔ خود کشی کی ہر کوشش کے بعد وہ ان سے اسی طرح کی باتیں سنتا تھا۔

"کچھ بولو، چپ کیوں ہو؟ کچھ سمجھ میں آ رہا ہے تمہیں؟" طیبہ نے جھنجھلا کر کہا۔ وہ انہیں دیکھنے لگا۔" ماں باپ کو اس طرح ذلیل کر کے بڑی خوشی ملتی ہے تمہیں۔"

"اس قدر شاندار مستقبل ہے تمہارا اور تم اپنی احمقانہ حرکتوں سے اپنی زندگی ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہو۔ لوگ ترستے ہیں اس طرح کے اکیڈمک ریکارڈ کے لئے۔" سکندر عثمان نے اسے اس کا اکیڈمک ریکارڈ یاد دلانے کی کوشش کی۔سالار نے بے اختیار ایک جماہی لی۔ وہ جانتا تھا اب وہ اس کے بچپن سے لے کر اس کی اب تک کی کامیابیوں کو دہرانا شروع کریں گے۔ ایسا ہی ہوا تھا۔ اگلے پندرہ منٹ اس موضوع پر بولنے کے بعد انہوں نے تھک کر پوچھا۔

"آخر تم کچھ بول کیوں نہیں رہے ، بولو"

"میں کیا بولوں، سب کچھ تو آپ دونوں نے کہہ دیا۔" سالارنے کچھ اکتائے ہوئے انداز میں کہا۔" میری زندگی میرا پرسنل معاملہ ہے پھر بھی میں نے آپ کو بتایا ہے کہ دراصل میں مرنے کی کوشش نہیں کر رہا تھا۔۔۔۔۔" سکندر نے اس کی بات کاٹی۔

"تم جو بھی کر رہے تھے، وہ مت کرو، ہم پر کچھ رحم کھاؤ۔" سالار نے ناراضی سے باپ کو دیکھا۔

"تم آخر یہ کیوں نہیں کہہ دیتے کہ تم آئندہ ایسی کوئی حرکت نہیں کرو گے۔ فضول میں بحث کیوں کرتے جا رہے ہو؟" اس بار طیبہ نے اس سے کہا۔

"اچھا ٹھیک ہے، نہیں کروں گا، ایسی کوئی بھی حرکت۔" سالارنے بے زاری سے جیسے ان دونوں سے جان چھڑانے کے لئے کہا۔ سکندر نے ایک گہری سانس لی۔ وہ اس کے وعدے پر مطمئن نہیں ہوئے تھے۔ نہ وہ۔۔۔۔۔ نہ ان کی بیوی۔۔۔۔۔ مگر ایسے وعدے لینے کے علاوہ ان کے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ وہ بچپن سے اپنے اس بیٹے پر فخر کرتے آ رہے تھے، مگر پچھلے کچھ سالوں سے ان کا وہ فخر ختم ہو گیا تھا۔ جتنا پریشان انہیں سالار نے کیا تھا اتنا ان کے باقی بچوں نے مل کے بھی نہیں کیا تھا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

جاری ہے
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
بلال احمد
ناظم ویڈیو سیکشن
ناظم ویڈیو سیکشن
Posts: 11973
Joined: Sun Jun 27, 2010 7:28 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: پیر کامل از عمیره احمد

Post by بلال احمد »

شیئرنگ کا شکریہ، اگلی اقساط کا انتظار رہے گا.
بڑی بے چین رہتی ہے طبیعت اب میری محسن
مجھے اب قتل ہونا ہے، مگر قاتل نہیں ملتا
Post Reply

Return to “اسلامی کتب”