داستان ایمان فروشوں کی جلد‎ ‎دوم

اردو زبان میں لکھی جانے والی اسلامی کتابیں، آن لائن پڑھئے اور ڈاونلوڈ کیجئے
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: داستان ایمان فروشوں کی جلد‎ ‎دوم

Post by ایکسٹو »

سلطان ایوبی کو اتنا ہی بتایا گیا تھا کہ مصر میں بغاوت کا خطرہ ہے اور صلیبیوں کی تخریب کاری بڑھتی جارہی ہے۔ اسے تفصیلات نہیں بتائی گئی تھیں۔ تفصیلات بڑی ہی خوفناک تھیں۔ اس کی غیرحاضری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلمان حکام میں سے تین چار صلیبیوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے تھے۔ تقی الدین نے سوڈان پر حملہ کیا تو چند دن بعد اس نے رسد مانگی۔ قاصد نے کہا تھا کہ زیادہ سے زیادہ رسد فوراً بھیج دی جائے مگر دو روز تک کوئی انتظام نہ کیا گیا جو حاکم رسد کی فراہمی اور ترسیل کا ذمہ دار تھا، اس سے بازپرس ہوئی تو اس نے یہ اعتراض کیا کہ بیک وقت دو محاذ کھول دئیے گئے ہیں۔ دو محاذوں کو رسد کہاں سے دی جاسکتی ہے۔ ایک یہ طریقہ ہے کہ مصر میں جو فوج ہے اسے بھوکا رکھا جائے، بازار سے سارا اناج اٹھا کر قاہرہ کے باشندوں کے لیے قحط پیدا کیا جائے اور محاذوں کا پیٹ بھرا جائے۔

یہ ایک اعلیٰ رتبے کا حاکم تھا، مسلمان تھا اور سلطان ایوبی کے مصاحبوں میں سے بھی تھا۔ اس کی نیت پر شک نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس کی بات سچ مان لی گئی کہ اناج وغیرہ کی واقعی کمی ہے تاہم اسے کہا گیا کہ جس طرح ہوسکے محاذ پر لڑنے والے فوجیوں کی رسد ضرور پہنچے۔ اس حاکم نے انتظام کردیا مگر دو اور دن ضائع کردئیے۔ پانچویں روز رسد کا قافلہ روانہ ہوا۔ یہ اونٹوں اور خچروں کا بڑا ہی لمبا قافلہ تھا۔ مشورہ دیا گیا کہ قافلے کے ساتھ فوج کا ایک گھوڑا دستہ حفاظت کے لیے بھیجا جائے۔ اسی حاکم نے جو رسد فراہم کرنے کا ذمہ دار تھا، فوج کا دستہ بھیجنے پر اعتراض کیا اور جواز یہ پیش کیا کہ تمام راستہ محفوظ ہے۔ اس کے علاوہ مصر میں فوج کی ضرورت ہے۔ چنانچہ رسد حفاظتی دستے کے بغیر بھیج دی گئی۔ روانگی کے چھ روز بعد اطلاع آگئی کہ رسد راستے میں ہی )سوڈان میں( دشمن کے گھات میں آگئی ہے۔ سوڈانی، رسد بمعہ جانوروں کے لے گئے ہیں اور انہوں شتربانوں کو قتل کردیا ہے۔

قاہرہ ہیڈکوارٹر کے بالائی حکام پریشان ہوگئے۔ رسد کا ضائع ہوجانا، معمولی سی چوٹ نہیں تھی۔ سوڈانی میدان جنگ میں فوج کی ضرورت کا احساس ان کی پریشانی میں اضافہ کررہا تھا۔ انہوں نے ذمہ دار حاکم سے کہا کہ وہ فوری طور پر اتنی ہی رسد کا انتظام کرے۔ اس نے کہا کہ منڈی میں اناج کی قلت ہوگئی ہے۔ تاجروں سے کہا جائے کہ اناج مہیا کریں۔ تاجروں سے بات ہوئی تو انہوں نے اپنے گودام کھول کر دکھا دئیے، سب خالی تھے۔ گوشت کے لیے ایک بھی دنبہ، بکرا، بیل، گائے یا کوئی اور جانور نظر نہیں آتا تھا۔ معلوم ہوا کہ مصر میں جو فوج ہے، اسے بھی پورا راشن نہیں مل رہا جس سے فوجوں میں بے اطمینانی پھیل رہی ہے۔ تاجروں نے بتایا کہ دیہات سے مال آہی نہیں رہا۔ علی بن سفیان کی جاسوسی کا انتظام بڑا اچھا تھا۔ یہ انکشاف جلدی ہوگیا کہ باہر کے لوگ دیہات میں آتے ہیں اور وہ اناج اور بکرے وغیرہ منڈی کی نسبت زیادہ دام دے کر خرید لے جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اناج وغیرہ ملک سے باہر جارہا تھا۔ تب سب کو یاد آیا کہ تین چار سال قبل سلطان ایوبی نے مصر کی پہلی فوج کو جس میں سوڈانی باشندوں کی اکثریت تھی، بغاوت کے جرم میں توڑ کر اس کے افسروں اور سپاہیوں کو سرحد کے ساتھ ساتھ قابل کاشت اراضی دے کر کاشتکار بنا دیا تھا۔ وہ لوگ اب مصری حکومت کو اور منڈیوں کو اناج دیتے ہی نہیں تھے۔ یہ سوڈان پر حملے کا ردعمل تھا۔ یہ انقلاب چھ سات دنوں میں آگیا تھا۔ اناج کی فراہمی کا کام فوج کو سونپا گیا۔ دن رات کی باگ دوڑ سے تھوڑا سا اناج ہاتھ آیا جو فوج کی حفاظت میں سوڈان کے محاذ کو روانہ کردیا گیا۔

بالائی حکام کے لیے رسد کا مسئلہ بہت ٹیڑھا ہوگیا۔ اس سے پہلے ایسی قلت کبھی نہیں ہوئی تھی۔ انہیں یہ ڈر بھی تھا کہ سلطان ایوبی نے رسد مانگ لی تو کیا جواب دیں گے۔ سلطان ایوبی کبھی بھی تسلیم نہیں کرے گا کہ مصر میں اناج کا قحط پیدا ہوگیا ہے۔ اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے تین حکام کی ایک کمیٹی بنائی گئی۔ ان میں انتظامیہ کے بڑے عہدے کا ایک حاکم، سلیم الادریس تھا۔ اس دور کی غیرمطبوعہ تحریروں کے مطابق الادریس اس کمیٹی کا سربراہ تھا۔ دوسرے دو اس سے ایک ہی درجہ کم عہدے کے غیر فوجی یعنی شہری انتظامیہ کے حاکم تھے۔ رات کے وقت یہ تینوں پہلے اجلاس میں بیٹھے تو دو نے الادریس سے کہا کہ سلطان ایوبی نے دو محاذ کھول کر سخت غلطی کی ہے اور تقی الدین ہاری ہوئی جنگ لڑ رہا ہے۔

''فلسطین مسلمانوں کی سرزمین ہے''… سلیم الادریس نے کہا۔

''ہم سے حقیقت چھپائی جارہی ہے''۔… دوسرے نے کہا… ''صلاح الدین ایوبی قابل قدر شخصیت ہے لیکن آپس میں سچ بات کرنے سے ہمیں ڈرنا نہیں چاہیے۔ ایوبی کو ملک گیری کی ہوس چین سے بیٹھنے نہیں دے رہی۔ وہ ایوبی خاندان کو شاہی خاندان بنانا چاہتا ہے۔ صلیبیوں کی فوج ایک طوفان ہے۔ ہم اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ اگر صلیبی ہمارے دشمن ہوتے تو وہ فلسطین کے بجاے مصر پر قبضہ کرتے۔ ان کے پاس اتنی زیادہ فوج ہے کہ ہماری اس چھوٹی سی فوج کو اب تک کچل چکے ہوتے۔ وہ ہمارے نہیں صلاح الدین ایوبی کے دشمن ہیں''۔

''آپ کی باتیں میرے لیے ناقابل برداشت ہیں''… الادریس نے کہا… ''بہتر ہے کہ ہم جس مقصد کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں اس کے متعلق بات کریں''۔

''یہ باتیں میرے لیے بھی ناقابل برداشت ہیں''… ایک نے کہا…''لیکن ایک آدمی کی خواہشات پر ہمیں پوری قوم کے مفاد کو قربان نہیں کرنا چاہیے۔ آپ دونوں محاذوں کے لیے رسد کی بات کرنا چاہتے ہیں۔ رسد کی حالت آپ نے دیکھ لی ہے کہ نہیں مل رہی۔ سوڈان کا محاذ ٹوٹ رہا ہے۔ میں نے یہ سوچا ہے کہ ہم اس محاذ کی رسد روک لیں۔ اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ تقی الدین پیچھے ہٹ آئے گا اور فوج مرنے سے بچ جائے گی''۔

''یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہم رسد نہ بھیجیں تو تقی الدین مجبوری کے عالم میں گھیرے میں آجائے''… الادریس نے کہا۔ ''ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ ہماری فوج دشمن کے آگے ہتھیار ڈال دے''۔

''آپ کیا سوچ کر یہ باتیں کررہے ہیں؟'' سلیم الادریس نے پوچھا۔

''میری سوچ بڑی صاف ہے''۔ اس نے جواب دیا۔ ''صلاح الدین ایوبی ہم پر فوجی حکومت ٹھونسنا چاہتا ہے۔ وہ صلیبیوں سے مسلسل محاذ آرائی کرکے قوم کو بتانا چاہتا ہے کہ قوم کی سلامتی کی ضامن صرف فوج ہے اور قوم کی قسمت فوج کے ہاتھ میں ہے اگر ایوبی امن پسند ہوتا تو صلیبیوں اور سوڈانیوں کے ساتھ جنگ نہ کرنے اور صلح جوئی سے رہنے کا معاہدہ کرلیتا''۔

الادریس سٹپٹا اٹھا۔ وہ سلطان ایوبی کے خلاف اور صلیبیوں کی حمایت میں کوئی بات سننا نہیں چاہتا تھا۔ اجلاس میں گرما گرمی ہوگئی۔ کمیٹی کے دو ممبر اسے بات بھی نہیں کرنے دے رہے تھے۔ اس نے آخر تنگ آکر کہا… ''میں اجلاس برخواست کرتا ہوں۔ کل ہی میں آپ کی رائے اور تجاویز قلم بند کرکے محاذ پر امیر مصر کو بھیج دوں گا''… وہ غصے میں اٹھ کھڑا ہوا

وہ سلطان ایوبی کے خلاف اور صلیبیوں کی حمایت میں کوئی بات سننا نہیں چاہتا تھا۔ اجلاس میں گرما گرمی ہوگئی۔ کمیٹی کے دو ممبر اسے بات بھی نہیں کرنے دے رہے تھے۔ اس نے آخر تنگ آکر کہا… ''میں اجلاس برخواست کرتا ہوں۔ کل ہی میں آپ کی رائے اور تجاویز قلم بند کرکے محاذ پر امیر مصر کو بھیج دوں گا''… وہ غصے میں اٹھ کھڑا ہوا۔

ایک ممبر وہاں سے چلا گیا، دوسرا جس کا نام ارسلان تھا، الادریس کے ساتھ رہا۔ ارسلان کا شجرۂ نسب سوڈانیوں سے ملتا تھا۔ اس نے الادریس سے کہا… ''آپ شخصیت پرست اور جذباتی مسلمان ہیں، میں نے حقیقت بیان کی اور آپ ناراض ہوگئے۔ میں اب آپ کو یہ مشورہ دیتا ہوں کہ میرے خلاف صلاح الدین ایوبی کو کچھ نہ لکھنا۔ آپ کے لیے اچھا نہ ہوگا''… اس کے لہجے میں چیلنج اور دھمکی تھی۔ الادریس نے اس کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا تو ارسلان نے کہا… ''اگر آپ پسند فرمائیں تو میں آپ کے ساتھ علیحدہ میں بات کروں گا''۔

''یہیں کرلو''۔ الادریس نے کہا۔

''میرے گھر چلیں''۔ ارسلان نے کہا… ''کھانا میرے ساتھ کھائیں مگر یہ خیال رکھیں کہ یہ ملاقات ایک راز ہوگی''۔

الادریس اس کے ساتھ اس کے گھر چلا گیا۔ اندر گیا تو اسے یوں لگا جیسے کسی بادشاہ کے محل میں آگیا ہو۔ ارسلان اتنی زیادہ اونچی حیثیت کا حاکم نہیں تھا۔ دونوں کمرے میں بیٹھے ہی تھے کہ ایک خوبصورت لڑکی نہایت خوبصورت صراحی اور چاندی کے دو پیالے چاندی کے گول تھا میں رکھے ہوئے اندرآئی اور ان کے آگے رکھ دیا۔ الادریس نے بو سے جان لیا کہ یہ شراب ہے۔ اس نے پوچھا … ''ارسلان! تم مسلمان ہو اور شراب پیتے ہو؟''… ارسلان مسکرا دیا اور بولا… ''ایک گھونٹ پی لیں آپ اس حقیقت کو سمجھ جائیں گے جو میں آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں''۔

دو سوڈانی حبشی اندر آئے۔ ان کے ہاتھوں میں چمکتی ہوئی طشتریوں میں کھانا تھا۔ کھانا لگ چکا تو الادریس حیرت سے ارسلان کو دیکھنے لگا۔ ارسلان نے کہا… ''حیران نہ ہوں محترم الادریس! یہ شان وشوکت آپ کو بھی مل سکتی ہے، میں بھی آپ کی طرح پارسا ہوا کرتا تھا مگر اب اس طرح کی دو لڑکیاں میرے گھر میں ہیں۔ دمشق اور بغداد کے امیروں اور وزیروں کے گھروں میں جاکر دیکھو۔ انہوں نے اس طرح کی حسین اور جوان لڑکیوں سے حرم بھر رکھے ہیں وہاں شراب بہتی ہے''۔

''یہ لڑکیاں، یہ دولت اور یہ شراب صلیبیوں کی کرم نوازیاں ہیں''۔ الادریس نے کہا… ''عورت اور شراب نے سلطنت اسلامیہ کی جڑیں کھوکھلی کردی ہیں''۔

''آپ صلاح الدین ایوبی کے الفاظ میں باتیں کرتے ہیں''۔ ارسلان نے کہا… ''یہی آپ کی بدنصیبی ہے''۔

''تم کیا کہنا چاہتے ہو؟''… الادریس نے جھنجھلا کر پوچھا۔ ''مجھے شک ہے کہ تم صلیبیوں کے جال میں آگئے ہو''۔

''میں فوج کا غلام نہیں بننا چاہتا''۔ ارسلان نے کہا ''میں فوج کو غلام بنانا چاہتا ہوں، اس کا واحد طریقہ یہ ہے کہ سوڈان میں تقی الدین کو رسد اور کمک نہ دی جائے۔ اسے دھوکہ دیا جائے کہ کمک آرہی ہے۔ اسے جھوٹی امیدوں پر لڑاتے رہو، حتیٰ کہ وہ ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوجائے۔ ظاہر ہے سوڈانی اسے قتل کردیں گے اور اس کی فوج ہمیشہ کے لیے ادھر ہی ختم ہوجائے گی۔ ہم فوج کو شکست کا ذمہ دار ٹھہرا کر اسے قوم کی نظروں میں ذلیل کردیں گے۔ پھر قوم صلاح الدین ایوبی کی فوج سے بھی متنفر ہوجائے گی… آپ میری بات سمجھنے کی کوشش نہیں کررہے۔ آپ کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ اس کا آپ کو اتنا اور ایسا معاوضہ ملے گا جس کا آپ تصور بھی نہیں کرسکتے''۔

''میں تمہارا مطلب سمجھ گیا ہوں''۔ الادریس نے کہا… ''تم اتنی خطرناک باتیں اتنی دلیری سے کس طرح کررہے ہو؟ کیا تم نہیں جانتے کہ میں تمہیں گرفتار کرکے غداری کی سزا دلا سکتا ہوں''۔

''کیا میں یہ نہیں کہہ سکوں گا کہ آپ مجھ پر جھوٹا الزام عائد کررہے ہیں''۔ ارسلان نے کہا… ''صلاح الدین ایوبی میرے خلاف ایک لفظ نہیں سنے گا''۔

الادریس سٹپٹا اٹھا۔ وہ حیران تھا کہ اتنے بڑے عہدے کا حاکم کس قدر شیطان ہے اور وہ کتنی دلیری سے باتیں کررہا ہے۔ دراصل الادریس خود مردمومن تھا۔ وہ سمجھ ہی نہیں سکتا تھا کہ ایمان کو نیلام کردینے والے ذلت کی کن پستیوں تک پہنچ سکتے ہیں۔ اس کے پاس ارسلان کو پابند کرنے اورراہ راست پر لانے کا ایک ہی ذریعہ تھا۔ وہ ارسلان کے عہدے سے زیادہ بڑے عہدے کا حاکم تھا۔ اس نے ارسلان سے کہا… ''میں جان گیا ہوں کہ تم کیا کہنا چاہتے ہو اور تم کیا کررہے ہو تم جس جرم کے مرتکب ہورہے ہو، اس کی سزا موت ہے۔ میں تمہیں یہ رعایت دیتا ہوں کہ سات روز کے اندر اپنا رویہ درست کرلو اور دشمن سے تعلقات توڑ کر مجھے یقین دلا دو کہ تم خلافت بغداد اور اپنی قوم کے وفادار ہو۔ میں تمہیں رسد کی ذمہ داری سے سبکدوش کرتا ہوں۔ یہ انتظام ہم خود کرلیں گے۔ اگر مجھے ضرورت محسوس ہوئی تو میں تمہیں اس محل میں جو تمہیں صلیبیوں نے بنا دیا ہے، نظر بند کردوں گا۔ سات دن بڑی لمبی رعایت ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آٹھویں روز تمہیں جلاد یہاں سے نکالے''۔

الادریس اٹھ کھڑا ہوا، اس نے دیکھا کہ ارسلان مسکرا رہا تھا۔ ارسلان نے کہا… ''محترم الادریس! آپ کے دو بیٹے ہیں، دونوں جوان ہیں''۔

''ہاں!''الادریسنے کہا اور پوچھا ''کیا ہے میرے بیٹوں کو؟''

''کچھ نہیں!'' ارسلان نے کہا ''میں آپ کو یاد دلا رہا ہوں کہ آپ کے دو جوان بیٹے ہیں اور یہی آپ کی کل اولاد ہے''۔

الادریس اس اشارے کو سمجھ نہ سکا۔ اس نے کہا… ''شراب نے تمہارا دماغ خراب کردیا ہے''… اور وہ باہر نکل گیا۔

٭ ٭ ٭

ارسلان کے گھر سے نکل کر الادریس علی بن سفیان کے گھر چلا گیا اور اسے ارسلان کی باتیں سنائیں۔ علی بن سفیان نے اسے بتایا کہ ارسلان اس کی مشتبہ فہرست میں ہے لیکن اس کے خلاف کوئی ثبوت نہیں مل رہا تاہم وہ جاسوسوں کی نظر میں ہے۔ الادریس بہت پریشان تھا اور حیران بھی کہ ارسلان اتنی دلیری سے غداری کا مرتکب ہورہا ہے۔ علی بن سفیان نے اسے بتایا کہ وہ اکیلا نہیں، غداری منظم طریقے سے ہورہی ہے۔ اس کے جراثیم فوج میں بھی پھیلا دئیے گئے ہ یں۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ سوڈان کے محاذ کے لیے رسد کا تھا۔ الادریس نے اسے بتایا کہ اس نے ارسلان کو اس ذمہ داری سے سبکدوش کردیا ہے اور رسد کا انتظام اب خود کرنا ہے۔ علی بن سفیان نے اسے بتایا کہ ایک سازش کے تحت دیہات سے اناج اور بکرے وغیرہ سرحد سے باہر بھجوائے جارہے ہیں۔ منڈی میں غلے اور دیگر سامان خوردونوش کا مصنوعی قحط پیدا کردیا گیا ہے۔ اس نے بتایا کہ اس نے اپنے جاسوسوں اور مخبروں کو یہ کام دے رکھا ہے کہ رات کو ادھر ادھر گھومتے رہا کریں۔ جہاں کہیں انہیں اناج کی ایک بوری بھی جاتی نظر آئے، پکڑ لیں۔ طویل بات چیت کے بعد انہوں نے رسد کے انتظام کا کوئی طریقہ سوچ لیا۔

سلیم الادریس اس قومی مہم اور اپنے فرائض میں اس قدر مگن تھا کہ اس کے ذہن سے ارسلان کا یہ اشارہ نکل گیا کہ تمہارے دو جوان بیٹے ہیں اور یہی تمہاری کل اولاد ہے۔ الادریس کو اپنے بیٹوں کے کردار پر بھروسہ تھا مگر جوانی اندھی ہوتی ہے۔ قاہرہ میں سلطان ایوبی کی غیرحاضری میں بدکاری کی ایک لہر آئی تھی جس نے نوجوان ذہن کو لپیٹ میں لینا شروع کردیا تھا۔ دو تین سال پہلے بھی ایسی ہی ایک لہر آئی تھی جس پر جلدی ہی قابو پالیا گیا تھا۔ اب یہ لہر زمین کے نیچے سے آئی اور کام کرگئی۔ یہ مختلف کھیل تماشوں کی صورت میں آئی جن میں شعبدہ بازی اور کھیلوں کی صورت میں جوأ بازی شامل تھی۔ یہ لوگ خیمے اور شامیانے تان کر تماشہ دکھاتے تھے جس میں کچھ بھی قابل اعتراض نہیں تھا مگر شامیانوں کے اندر خفیہ خیمے تھے۔ جہاں اکیلے اکیلے نوجوان کو اشارے سے بلایا جاتا تھا۔ ان سے پیسے لے کر کپڑوں پر بنی ہوئی دستی تصویریں دکھانے کا کام لڑکیاں کرتی تھیں جن کی مسکراہٹ اور انداز دعوت گناہ ہوتی تھی۔

وہیں نوجوانوں کو تھوڑی تھوڑی حشیش پلائی جاتی تھی۔ یہ شرمناک اور خطرناک سلسلہ زمین کے اوپر چل رہا تھا مگر اسے پکڑ کوئی نہیں سکتا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ جو کوئی یہ تصویریں دیکھ کر یا حشیش کا ذائقہ چکھ کر آتا تھا وہ اپنے گناہ کو چھپائے رکھتا تھا۔ اس گناہ میں لذت ایسی تھی کہ جانے والے باربار جاتے تھے۔ وہ اس لیے بھی باہر کسی سے ذکر نہیں کرتے تھے کہ حکومت تک بات پہنچ گئی تو انہیں نشہ آور لذت سے محروم کردیا جائے گا۔ اس لذت پرستی کا شکار نوجوان اورفوجی ہورہے تھے۔ ان کے لیے در پر وہ وہ قحبہ خانے بھی کھول دئیے گئے۔ کردار کشی کی یہ مہم کس قدر کامیاب تھی؟… اس کا جواب کرک کے قلعے میں صلیبیوں کی انٹیلی جنس اور نفسیاتی جنگ کا ماہر جرمن نژاد ہرمن اپنے حکمرانوں کو ان الفاظ میں دے رہا تھا۔

''سپین کے مصوروں نے جو تصویریں بنائی ہیں، یہ لوہے کے بنے ہوئے مردوں کو بھی مٹی کے بت بنا دیتی ہیں''۔ اس نے ایک مرد اور ایک عورت کی ایک فحش تصویر حاضرین کو دکھائی۔ یہ بڑے سائز کی تصویر تھی جو برش سے دلکش رنگوں میں بنائی گئی تھی۔ صلیبی حکمرانوں نے تصویر دیکھ کر ایک دوسرے کے ساتھ ننگے مذاق شروع کردئیے۔ ہرمن نے کہا… ''میں نے ایسی بے شمار تصویریں بنوا کر مصر کے بڑے بڑے شہروں میں ان کی خفیہ نمائش کا انتظام کردیا ہے۔ وہاں سے ہماری کامیابی کی اطلاعیں آرہی ہیں۔ میں نے قاہرہ کی نوجوان نسل میں حیوانی جذبہ بھڑکا دیا ہے۔ یہ ایسا طاقتور جذبہ ہے جو مشتعل ہوجائے تو انسانی جذبوں کو جن میں قومی جذبہ خاص طور پر شامل ہے، تباہ کردیتا ہے۔ ان تصویروں نے مصر میں مقیم مسلمان فوج کو ذہنی اور اخلاقی لحاظ سے بے کارکرنا شروع کردیا ہے۔ ان تصویروں کی لذت نشہ بھی مانگتی ہے۔ اس کا انتظام بھی کردیا ہے۔ میرے تخریب کاروں اور جاسوسوں کے گروہ نے صحرائی لڑکیوں کی پوری فوج قاہرہ اور دوسرے قصبوں میں داخل کردی ہے۔ یہ لڑکیاں دیمک کی طرح صلا الدین ایوبی کی قوم اور فوج کو کھا رہی ہیں۔ وہ وجوہات کچھ اور تھیں جب میری مہم قاہرہ میں پکڑی گئی تھی۔ اب میں نے کچھ اور طریقے آزمائے ہیں جو کامیاب ہورہے ہیں۔ اب وہاں کے مسلمان خود میری مہم کی حفاظت کریں گے اور اسے تقویت دیں گے۔ وہ اس ذہنی عیاشی کے عادی ہوگئے ہیں، تھوڑے ہی عرصے بعد میں ان کے ذہنوں میں ان کی اپنی ہی قوم اور اپنے ہی ملک کیخلاف زہر بھر نا شروع کردوں ۔
''صلاح الدین ایوبی بہت ہوشیار آدمی ہے''۔ حاضرین سے کسی نے کہا۔ ''وہ جونہی مصر پہنچا تمہاری اس مہم کو جڑ سے اکھاڑ دے گا''۔

''اگر وہ مصر پہنچا تو…'' ہرمن نے کہا… ''اس سوال کا جواب آپ ہی دے سکتے ہیں کہ آپ اس کا محاصرہ کامیاب ہونے دیں گے یا نہیں۔ بے شک اس نے ریمانڈ کی فوج کو قلعے سے باہر گھیرے میں لے رکھا ہے اور قلعہ اس کے محاصرے میں ہے لیکن یہ گھیرا اور یہ محاصرہ اسی کے لیے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ آپ یہاں فیصلہ کن جنگ نہ لڑیں۔ ایوبی کا محاصرہ کیے رکھنے دیں تاکہ وہ یہیں پابند رہے اور مصر نہ جاسکے۔ سوڈان میں ہمارے کمانڈروں نے تقی الدین کی فوج کو نہایت کامیابی سے بکھیر دیا ہے۔ وہ اب نہ لڑ سکتا ہے، نہ وہاں سے نکل سکتا ہے۔ مصر کی منڈیوں کا اور وہاں کی کھیتیوں کا غلہ میں نے غائب کرادیا ہے۔ آپ کی دی ہوئی دولت آپ کو پورا صلہ دے رہی ہے۔ ایوبی کا ایک وفادار حاکم ارسلان دراصل آپ کا وفادار ہے۔ وہ ہمارے ساتھ پورا تعاون کررہا ہے۔ اس کے کچھ اور ساتھی بھی ہمارے ساتھ ہیں''۔

''ارسلان کو کتنا معاوضہ دیا جارہا ہے؟''۔ فلپ آگسٹس نے پوچھا۔

''جتنا ایک مسلمان حاکم کا دماغ خراب کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے''۔ ہرمن نے جواب دیا… ''عورت اور شراب، دولت اور حکومت کا نشہ کسی بھی مسلمان کا ایمان خرید سکتا ہے۔ وہ میں نے خرید لیا ہے… میں آپ کو یہ بتا رہا تھا کہ اب صلاح الدین ایوبی مصر جائے گا تو اسے وہاں کی دنیا بدلی ہوئی نظر آئے گی وہ جس نوجوان نسل کی بات فخر سے کیا کرتا ہے وہ مسلمان ہوتے ہوئے اسلام کے لیے بے کار ہوگی۔ اس کی سوچیں اور اس کا کردار ہمارے ہاتھ میں ہوگا۔ یہ نسل جنسی جذبے کی ماری ہوگی۔ یہی حال اس فوج کا ہوگا جسے وہ مصر چھوڑ آیا ہے۔ اس فوج میں میرے تخریب کاروں نے اتنی زیادہ بے اطمینانی پھیلا دی ہے کہ وہ بغاوت سے بھی گریز نہیں کرے گی۔ میں آج یہ دعویٰ وثوق سے کرسکتا ہوں کہ آپ سے

پہلے میں اپنا محاذ ختم کرچکا ہوں گا۔ دشمن کے کردار اور اخلاق کو تباہ کردینے سے فوجوں کے حملوں کی ضرورت باقی نہیں رہتی''۔

ہرمن کی اس حوصلہ افزا رپورٹ پر صلیبی حکمران بہت خوش ہوئے، فلپ آگسٹس نے وہی عزم دہرایا جس کا اظہار وہ کئی بار کرچکا تھا۔ اس نے کہا …''ہماری لڑائی صلاح الدین ایوبی سے نہیں اسلام سے ہے۔ ایوبی بھی مرجائے گا، ہم بھی مرجائیں گے لیکن ہمارا جذبہ اور عزم زندہ رہنا چاہیے تاکہ اسلام بھی مرجائے اور دنیا پر صلیب کی حکمرانی ہو۔ اس کے لیے یہ ضروری تھا کہ ایسا محاذ کھولا جائے جہاں سے مسلمانوں کے نظریات اور کردار پر حملہ کیا جائے۔ میں ہرمن کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ اس نے محاذ نہ صرف کھول دیا ہے بلکہ حملہ کرکے ایک حد تک کامیابی بھی حاصل کرلی ہے''۔

٭ ٭ ٭

سلیم الادریس کے بھی دو بیٹے جوان تھے۔ ایک کی عمر سترہ سال اور دوسرے کی اکیس سال تھی۔ کہا نہیں جاسکتا کہ وہ بھی لذت پرستی کے اس طوفان کی لپیٹ میں آگئے تھے یا نہیں، جو صلیبی تخریب کار قاہرہ میں لائے تھے۔ البتہ یہ ثبوت بعد میں ملا کہ بڑے بیٹے کے در پردہ تعلقات ایک جوان اور خوبصورت لڑکی کے ساتھ تھے۔ یہ لڑکی اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتی تھی اور بے پردہ رہتی تھی۔ کسی بڑے خاندان کی لڑکی تھی۔ ان کی ملاقاتیں خفیہ ہوتی تھیں جس روز ارسلان نے الادریس سے کہا تھا کہ تمہارے دو بیٹے جوان ہیں اس سے اگلے روز اس لڑکی نے الادریس کے بڑے بیٹے سے کہا کہ ایک نوجوان اسے بہت پریشان کرتا ہے۔ وہ جدھر جاتی ہے اس کا پیچھا کرتا ہے اور اسے اغوا کی دھمکیاں بھی دیتا ہے۔ اس بڑے بیٹے نے لڑکی سے پوچھا کہ نوجوان کون ہے تو لڑکی نے نہ بتایا۔ بات گول کرگئی کہنے لگی کہ اس نے زیادہ پریشان کیا تو اسے بتا دے گی۔

بعد کے انکشافات سے پتا چلا کہ اسے کوئی نوجوان پریشان نہیں کرتا تھا بلکہ وہ خود نوجوانوں کو پریشان اور خراب کرتی پھر رہی تھی۔ اس نے جس شام بڑے بیٹے سے یہ شکایت کی کہ اس سے اگلے ہی روز اس نے الادریس کے چھوٹے بیٹے کو جس کی عمر سترہ سال تھی، اپنے جال میں پھانس لیا اور ایسی والہانہ اور بیتابانہ محبت کا اظہار زبانی اور عملی طور پر کیا کہ لڑکا اپنا آپ اس کے حوالے کربیٹھا۔ دو درپردہ ملاقاتوں کے بعد اس نے اسے بھی بتایا کہ ایک نوجوان اسے بہت پریشان کرتا ہے اور اسے اغوا کی دھمکیاں دیتا ہے۔ لڑکے کا خون جوش میں آگیا۔ اس نے پوچھا کہ وہ کون ہے تو لڑکی نے کہا کہ اگر اس نے زیادہ پریشان کیا تو بتائوں گی۔ اسی شام وہ اس لڑکے کے بڑے بھائی سے ملی اور اسے کہا کہ وہ نوجوان مجھے زیادہ پریشان کرنے لگا ہے۔ وہ تمہارے متعلق کہتا ہے کہ اسے میں ایسے طریقے سے قتل کروں گا کہ کسی کو پتا ہی نہیں چل سکے گا۔ لڑکی نے کہا… ''تم خنجر اپنے پاس رکھا کرو''۔

دوسری شام کی ملاقات میں اس نے چھوٹے بھائی کو اسی طرح مشتعل کیا اور اسے کہا کہ وہ خنجر اپنے پاس رکھا کرے۔ چنانچہ دونوں بھائی اس حقیقت سے بے خبر کہ وہ ایک ہی لڑکی کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں۔ خنجر اپنے پاس رکھنے لگے۔ لڑکی دونوں سے الگ الگ ملتی رہی۔ صرف پانچ دنوں میں لڑکی نے دونوں بھائیوں کو پہلے حیوان، پھر درندہ بنا دیا۔ اس شام اس نے بڑے بھائی کو شہر سے ذرا باہر ایک اندھیری جگہ ملنے کو کہا۔ چھوٹے بھائی کو بھی اس نے وہی وقت اور وہی جگہ بتائی اور دونوں سے یہ بھی کہا کہ وہ نوجوان جو مجھے پریشان کیا کرتا ہے۔ آج کہہ گیا ہے کہ شام کو جہاں بھی جائو گی مجھے وہاں پائو گی۔ میں تمہارے چاہنے والے کو تمہارے سامنے قتل کروں گا۔ لڑکی نے کہا… ''میں نے اسے کہا ہے کہ اگر تم اتنے دلیر ہو تو شام کو اس جگہ آجانا۔ اگر تم نے اسے قتل کردیا تو میں تمہاری ہوجائوں گی''۔ دونوں بھائی خون ریز معرکہ لڑنے کے لیے تیار ہوگئے۔

شام کو بڑا بھائی خنجر لیے اس جگہ پہنچ گیا جو اس لڑکی نے بتائی تھی۔ اس نے ایسی استادی کا مظاہرہ کیا کہ جگہ اندھیری کا انتخاب کیا اور یہ بھی خیال رکھا کہ دونوں بھائی اس کے پہنچنے سے پہلے ہی اکٹھے ہوکر ایک دوسرے کو پہچان نہ لیں۔ وہ وہاں پہنچی تو بڑے بھائی کو وہاں موجود پایا۔ اسے بتایا کہ وہ نوجوان میرے پیچھے آرہا ہے۔ بڑے بھائی نے خنجر نکال لیا اور فوراً ہی بعد چھوٹا بھائی آگیا۔ لڑکی نے بڑے بھائی سے کہا کہ وہ آگیا ہے لیکن میں نہیں چاہتی کہ خون خرابہ ہو میں اسے کہتی ہوں کہ وہ چلا جائے۔ یہ کہہ کر وہ چھوٹے بھائی کے پاس گئی اور اسے کہا کہ وہ پہلے سے موجود ہے اور اس کے ہاتھ میں خنجر ہے۔ چھوٹے بھائی کی عقل پر جوانی کا تازہ خون سوار تھا۔ اس نے خنجر نکالا اور اندھیرے میں اپنے بھائی کی طرف دوڑا۔ بڑے بھائی نے حملہ آور کو اتنی تیزی سے آتے دیکھا تو وہ بھی تیزی سے آگے بڑھا۔ بھائیوں نے ایک دوسرے پر رقابت کے جوش میں بڑے گہرے وار کیے۔ وہ گر کر اٹھے اور ایک دوسرے کو لہولہان کرتے رہے۔ لڑکی انہیں بھڑکاتی رہی۔

علی بن سفیان کے شعبے کے آدمی رات کو گشت پر رہتے تھے۔ اتفاق سے ایک گھوڑ سوار گشت پر ادھر آنکلا۔ لڑکی بھاگ اٹھی۔ گھوڑ سوار نے اسے دور نہ جانے دیا اور پکڑ کر واپس لے گیا۔ وہاں دونوں بھائی زمین پر پڑے، آخری سانسیں لے رہے تھے۔ لڑکی نے ان سے لاتعلقی کے اظہار کی بہت کوشش کی لیکن اس آدمی نے اسے نہ چھوڑا۔ لڑکی کے دئیے ہوئے لالچ کو بھی اس نے قبول نہ کیا۔ اس نے پکار پکار کر گشتی پہرہ داروں کو بلا لیا۔ اس وقت تک دونوں بھائی مرچکے تھے۔ لڑکی کو اسی وقت علی بن سفیان کے پاس لے گئے۔ لاشیں بھی لائی گئیں۔ روشنی میں دیکھا تو دونوں بھائی تھے۔ سلیم الادریس کو اطلاع دی گئی۔ تصور کیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے جوان بیٹوں کی لاشیں دیکھ کر اس کا کیا حشر ہوا ہوگا۔ لڑکی نے الٹے سیدھے بیان دئیے مگر وہ اس سوال کا جواب دینے سے گریز کررہی تھی کہ وہ کس کی بیٹی ہے اور کہاں رہتی ہے۔ الادریس بہت بری ذہنی حالت میں تھا۔ اس نے غصے سے کانپتی ہوئی آواز میں کہا… ''اسے شکنجے میں ڈالو علی، اس طرح یہ کچھ نہیں بتائے گی''۔

''بتانے کے لیے ہے ہی کیا''۔ لڑکی نے بھی غصے میں کہا۔ بڑے بھائی کی لاش کی طرف اشارہ کرکے بولی۔ ''اس نے مجھے بلایا تھا، میں چلی گئی۔ اوپر سے )چھوٹا بھائی( آگیا۔ دونوں نے خنجر نکال لیا اور لڑ پڑے۔ میں ڈر کے مارے بھاگ اٹھی اور ایک گھوڑ سوار نے مجھے پکڑ لیا۔ میں اپنے باپ کا نام اس لیے نہیں بتاتی کہ اس کی بھی رسوائی ہوگی''۔

علی بن سفیان کا دماغ حاضر تھا۔ اسے یاد آگیا کہ ارسلان اور الادریس کی آپس میں ترش کلامی ہوئی تھی۔ ارسلان اس کے مشتبہ کی فہرست میں تھا اور یہ بھی جانتا تھا کہ اس کے گھر کے اندر کیا ہورہا ہے۔ اس نے الادریس کو آنکھ سے اشارہ کرکے کہا… ''یہ لڑکی کوئی بھی ہے، یہ قاتل نہیں، یہ دو جوانوں کو اکیلے قتل نہیں کرسکتی۔ اس نے سچ بات بتا دی ہے۔ میں اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرسکتا''۔ اس نے لڑکی سے کہا… ''جائو تم آزاد ہو، آئندہ کسی کے ساتھ اتنی دور نہ جانا، ورنہ قتل ہوجائو گی''۔

لڑکی بڑی تیزی سے کمرے سے نکل گئی۔ علی بن سفیان نے اپنے دو مخبروں سے کہا کہ ان میں سے ایک لڑکی کا راستہ دیکھ کر دوسرے راستے سے ارسلان کے گھر کے بڑے دروازے سے ذرا دور چھپ جائے اور دوسرا ایسے طریقے سے لڑکی کا تعاقب کرے کہ لڑکی کو پتا نہ چلے اور وہ جہاں بھی جائے فوراً اطلاع دی جائے۔ دونوں آدمی چلے گئے۔ لڑکی تیز تیز قدم اٹھاتی جارہی تھی اور اس کا تعاقب ہورہا تھا۔ علی بن سفیان کا شک ٹھیک ثابت ہوا۔ لڑکی ارسلان کے گھر چلی گئی۔ وہاں ایک آدمی موجود تھا۔ اس نے آکر اطلاع دی کہ لڑکی اس گھر میں داخل ہوئی ہے۔ جب الادریس کو معلوم ہوا کہ لڑکی کا تعلق ارسان کے گھر سے ہے تو اس نے علی بن سفیان کو بتایا کہ ارسلان نے اسے کہا تھا کہ تمہارے دو جوان بیٹے ہیں مگر الادریس یہ اشارہ نہیں سمجھ سکا تھا۔ صاف ظاہر ہوگیا کہ یہ ارسلان کی کارستانی ہے۔ دونوں بھائیوں کو اسی نے اس عجیب وغریب طریقے سے ایک دوسرے کے ہاتھوں قتل کرایا ہے۔ الادریس نے حاکم اعلیٰ کو اطلاع دی۔ پولیس کا سربراہ غیاث بلبیس بھی آگیا۔ علی بن سفیان کو بھی خصوصی اختیارات حاصل تھے۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ ارسلان کے گھر چھاپہ مار کر اسے گھر میں ہی نظر بند کردیا جائے۔

''اب میں سلیم الادریس کو بتائوں گا کہ میں کیوں اتنی دلیری سے باتیں کرتا ہوں''۔ ارسلان نے اس لڑکی کی کامیابی کی روئیداد سن کر کہا… ''میں اسے بتائوں گا کہ میں کیا کرسکتا ہوں''۔ اس نے لڑکی کو شراب پیش کی اور دونوں کامیابی کا جشن منانے لگے۔

ان کا جشن ابھی ختم نہیں ہوا تھا کہ بغیر اطلاع کے کوئی اندر آگیا۔ یہ الادریس تھا۔ اس نے ارسلان اور لڑکی کو نشے اور عریانی کی حالت میں دیکھا اور لڑکی کو پہچان لیا۔ ارسلان نے نشے کی حالت میں کہا… ''اپنے بیٹوں کو قتل کراکے تم میرے ہاتھوں قتل ہونے آئے ہو؟… دربان کہاں ہے؟ یہ شخص میری جنت میں بغیر اجازت کیوں کر آگیا ہے؟''

اتنے میں شہر کا وہ حاکم اعلیٰ اندر آیا جس کے پاس امیر مصر کے اختیارات تھے۔ اس کے ساتھ غیاث بلبیس اور علی بن سفیان تھے۔ لڑکی کو گرفتار کرلیا گیا۔ ارسلان کے تمام ملازموں اور گھر کے دیگر افراد کو باہر نکال کر اس کے محل جیسے مکان کے اندر اور باہر فوج کا پہرہ کھڑا کردیا گیا۔ اس کے گھر میں ایک تہہ خانہ برآمد ہوا جو بہت ہی وسیع اور گہرا تھا۔ وہاں سے تیر کمانوں اور برچھیوں کے انبار نکلے۔ ایک ڈھیر خنجروں کا تھا، آتش گیر مادہ بھی تھا۔ ایک صندوق میں حشیش اور زہر برآمد ہوئے۔ ایک اور کمرے میں سونے کی اینٹیں اور اشرفیوں کی تھیلیاں برآمد ہوئیں۔ اس نے اپنی پرانی دو بیویوں اور ان کے بچوں کو کہیں اور بھیج رکھا تھا۔ گھر میں تین لڑکیاں تھیں۔ تینوں ایک سے ایک بڑھ کر خوبصورت تھیں اور تینوں غیرمسلم تھیں۔ رات ہی رات ملازموں کی چھان بین کرلی گئی۔ ان میں تین صلیبیوں کے جاسوس نکلے۔

''کیا تم خود بتائو گے کہ تمہارے عزائم کیا ہے؟'' حاکم اعلیٰ نے ارسلان سے پوچھا… ''یہ مال ودولت اور اسلحہ کے یہ انبار تمہیں سزائے موت دلانے کے لیے کافی ہیں''۔

''پھر سزائے موت دے دو''۔ اس نے نشے کی حالت میں کہا… ''اگر مجھے جان ہی دینی ہے تو خاموشی سے کیوں نہ مرجائوں؟''

''خدا کی نگاہ میں یہ بہت بڑی نیکی ہوگی کہ تم ہمیں اور اس کے نام لیوائوں کو خطروں سے آگاہ کردو''۔ حاکم اعلیٰ نے کہا… ''مجھے امید ہے کہ اسی نیکی کے بدلے خدا تمہارے اتنے گناہ بخش دے گا''۔

''تم لوگ تو مجھے نہیں بخشو گے''۔ ارسلان نے کہا۔

''سلطان ایوبی اس سے بھی بڑے گناہ بخش دیا کرتا ہے''۔ علی بن سفیان نے کہا… ''آپ کے بچنے کی صورت پیدا ہوسکتی ہے۔ آپ بتا دیں کہ یہاں کس قسم کی تخریب کاری ہورہی ہے۔ کچھ اور لوگ گرفتار کرادیں''۔

وہ کمرے میں ٹہل رہا تھا۔ باقی لوگ ادھر ادھر بیٹھے تھے۔ الادریس نے اپنی خنجر نما تلوار کمر سے باندھ رکھی تھی۔ ارسلان خاموشی سے ٹہلتے ٹہلتے اس کے قریب گیا اور بڑی ہی تیزی سے اس کی میان سے تلوار نکال کر اپنے سینے اور پیٹ کے درمیان رکھی، پیشتر اس کے ہاتھ سے تلوار چھینی جاتی، اس نے دستے پر دونوں ہاتھ رکھ کر پوری طرقت سے تلوار اپنے پیٹ میں گھونپ لی۔ وہ اپنے بستر پر گرا۔ دوسرے آدمی تلوار اس کے پیٹ سے نکالنے لگے تو اس نے کہا… ''رہنے دو، میری دو تین باتیں سن لو۔ مرجائوں گا تو تلوار نکال لینا۔ میں نے اپنے آپ کو سزا دے دی ہے۔ میں زندہ صلاح الدین ایوبی کے سامنے نہیں جانا چاہتا تھا کیونکہ وہ مجھے اپنا وفادار دوست سمجھتا تھا… میں تمہارے کسی سوال کا جواب نہیں دوں گا۔ تلوار اپنا کام کرچکی ہے۔ ہوش کرو، مصر سخت خطرے میں ہے۔ مصر میں جو فوج ہے وہ بغاوت کے لیے تیار ہے۔ فوجوں کی رسد کو میں نے ناپید کیا ہے۔ سپاہیوں کو کھانے کے لیے کچھ نہیں ملتا۔ صلیبی تخریب کاروں نے فوج میں یہ بات پھیلا دی ہے کہ محاذوں پر بکرے، اناج اور شراب جارہی ہے اور وہاں کے سپاہیوں کو مال غنیمت سے مالا مال کرکے عیاشی کرائی جارہی ہے… میرے گروہ میں اچھے عہدوں کے لوگ ہیں۔ میں کسی کا نام نہیں بتائوں گا۔ فاطمی اور فدائی تباہ کاری کی پوری تیاری کرچکے ہیں۔ تم بغاوت کو روک نہیں سکو گے۔ نئی فوج لائو، حالات تمہاری قابو سے…''۔ وہ فقرہ مکمل کیے بغیر مرگیا۔

اس کے گھر سے جو تین لڑکیاں برآمد ہوئی تھیں وہ بھی اس کے فقرے کو مکمل نہ کرسکیں۔ انہوں نے اپنے متعلق بتا دیا کہ انہیں اخلاقی تخریب کاری اور مردوں کو پھانس کر استعمال کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ ارسلان کے گھر راتوں کو محفلیں جما کرتی تھیں، جس میں فوج اور انتظامیہ کے افسر آیا کرتے تھے۔ ان کی خفیہ ملاقاتیں اور اجلاس ان لڑکیوں کے بغیر ہوتے تھے۔ لڑکیوں نے یہ تصدیق کردی کہ مصر میں بغاوت کے لیے زمین ہموار کردی گئی ہے جس لڑکی نے دونوں بھائیوں کو ایک دوسرے کے ہاتھوں قتل کرادیا تھا اس نے قتل کی ساری کہانی سنا دی جو بیان کی گئی ہے۔ اس نے بتایا کہ وہ الادریس کے بڑے بیٹے کو پہلے ہی اپنے جال میں محبت کا جھانسہ دے کر لے چکی تھی۔ اسے ارسلان اپنے باپ الادریس کے خلاف استعمال کرنا چاہتا تھا لیکن ارسلان نے منصوبہ بدل دیا اور لڑکی سے کہا کہ دونوں بھائیوں کو ایک دوسرے کے ہاتھوں قتل کرادو۔

ایک ہی رات میں تقریباً اڑھائی سو اونٹ مرکزی دفتر کے سامنے لائے گئے۔ ان پر غلہ اور خوردونوش کا دیگر سامان لدا ہوا تھا۔ یہ اونٹ تین چار قافلوں کی صورت میں مختلف جگہوں سے پکڑے گئے تھے۔ اناج وغیرہ کو سرحد سے باہر جانے سے روکنے کے لیے گشتی پارٹیوں کا انتظام کیا گیا تھا۔ یہ ان کی پہلی کامیابی تھی۔ ان قافلوں کے ساتھ جو آدمی تھے، انہوں نے شہر کے چند ایک بیوپاریوں کے نام بتائے۔ ان بیوپاریوں نے تمام غلہ اور دیگر سامان زیرزمین کرلیا تھا۔ آدھی رات کے بعد وہ یہ سامان باہر کے اجنبی تاجروں کے ہاتھ بیجتے تھے۔ ان آدمیوں نے دیہاتی علاقوں میں بھی چند ایک جگہوں کی نشاندہی کی جہاں اجنبی سے تاجر موجود رہتے اور تمام تر رسد اکٹھی کرکے لے جاتے تھے۔ شتر بانوں میں سے بعض نے سرحد کی ایک جگہ بتائی جہاں سے یہ قافلے سوڈان جایا کرتے تھے۔ وہاں ایک سرحدی دستہ موجود تھا۔ انکشاف ہوا کہ اس دستے کا کمانڈر دشمن سے باقاعدہ معاوضہ یا رشوت لیتا اور قافلے گزار دیتا تھا۔ یہ انکشاف بھی ہوا کہ یہ اہتمام ارسلان کی زیرکمان ہورہا تھا۔

٭ ٭ ٭
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: داستان ایمان فروشوں کی جلد‎ ‎دوم

Post by ایکسٹو »

یہ ان سینکڑوں میں سے چند ایک واقعات ہیں جو سلطان ایوبی کی غیرحاضری میں مصر کو لپیٹ میں لیے ہوئے

تھے۔ الادریس اور دیگر اعلیٰ حکام نے ارسلان کی غداری اور الادریس کے بیٹوں کی موت اور دیگر واقعات پر غور کرنے کے لیے اجلاس منعقد کیا۔ علی بن سفیان اور غیاث بلبیس نے یہ مشورہ پیش کیا کہ حالات اتنے بگڑ گئے ہیں کہ ان کے بس میں نہیں رہے۔ پیشتر اس کے کہ مصر میں بغاوت ہوجائے یا فاطمیوں کے اور فدائیوں کے ہاتھوں کوئی اعلیٰ شخصیت قتل ہوجائے۔ سلطان ایوبی کو مکمل حالات سے آگاہ کردیا جائے اور انہیں مشورہ دیا جائے کہ ممکن ہوسکے تو وہ کرک کا محاصرہ اپنے نائبین کے سپرد کرکے قاہرہ آجائیں۔ ایک قاصد کو تو پہلے ہی بھیج دیا گیا تھا مگر اسے تفصیلات نہیں بتائی گئی تھیں۔ اب سنگین وارداتیں ہوگئیں تو اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ علی بن سفیان محاذ پر سلطان ایوبی کے پاس جائے۔

کرک کے محاصرے کو دو مہینے گزر گئے تھے مگر کامیابی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی۔ صلیبیوں نے دفاع کے غیرمعمولی انتظامات کررکھے تھے۔ ایک انتظام یہ تھا کہ شہر میں سامان خوردونوش کا ذخرہ کافی تھا۔ ایک جاسوس نے اندر سے تیر کے ساتھ پیغام باندھ کر باہر پھینکا تھا جس میں تحریر تھا کہ اندر خوراک کی کمی نہیں۔ مسلمان باشندوں پر اتنی سخت پابندیاں عائد کردی گئی تھیں کہ ان کے گھروں کی دیواریں بھی ان کے خلاف مخبری اور جاسوسی کرتی تھیں۔ اس لیے اندر تخریب کاری ممکن نہیں ہورہی تھی ورنہ خوراک کا ذخیرہ تباہ کردیا جاتا۔ شہر میں سلطان ایوبی کے جاسوسوں کی بھی کمی تھی۔ وہ کبھی کبھی رات کے وقت تیر کے ساتھ پیغام باندھ کر اور موقع محل دیکھ کر باہر کو تیر چلا دیتے تھے۔ فوجوں کو حکم تھا کہ ایسا تیر نظر آئے تو وہ اپنے کمانڈر تک پہنچا دیں۔ صلیبیوں نے محاصرہ توڑنے کی کوششیں ترک کردی تھیں۔ وہ سلطان ایوبی کی طاقت زائل کرتے جارہے تھے۔ سلطان ایوبی ان کی چال سمجھ گیا تھا۔ اس کے جواب میں اس نے بھی اپنا طریقہ بدل دیا تھا۔

صلیبیوں کی یہ کوشش ناکام ہوچکی تھی کہ انہوں نے باہر سے حملہ کیا تھا۔ سلطان ایوبی اس حملے کے لیے تیار تھا۔ اس نے نہایت اچھی چال سے اس فوج کو گھیرے میں لے لیا تھا۔ اس فوج کو گھیرے میں آئے ڈیڑھ مہینہ گزر گیا تھا۔ گھیرے میں آئی ہوئی فوج گھیرا توڑنے کے لیے ہر طرف حملے کرتی تھی۔ سلطان ایوبی اس کا کوئی حملہ کامیاب نہیں ہونے دے رہا تھا۔ البتہ گھیرا کئی میلوں پر پھیل گیا تھا۔ وہ علاقہ سرسبز تھا، اس لیے صلییوں کو پانی اور جانوروں کو چارہ مل جاتا تھا۔ ان کے جانور مرتے تھے تو اسے وہ کھالیتے تھے، مگر یہ کافی نہیں تھا۔ ہزاروں گھوڑوں اور اونٹوں کے لیے یہ چارہ کافی نہیں تھا۔ پانی کے لیے وہاں کوئی ندی یا دریا نہیں تھا۔ تین چار چشمے تھے جن میں سے دو ڈیڑھ مہینے میں ہی خشک ہوگئے تھے۔ صلیبی سپاہیوں میں بددلی پیدا ہوگئی تھی۔ انہیں غذا بہت کم ملتی تھی اور پانی کے لیے بہت دور جانا پڑتا تھا۔ رات کو سلطان ایوبی کے چھاپہ مار گروہ ان پر شب وخون مارتے اور نقصان کرتے رہتے تھے۔ ڈیڑھ ماہ میں یہ فوج آدھی رہ گئی تھی۔ ان کے جانوروں میں بھی دم نہیں رہا تھا۔ صلیبی حکمران ریمانڈ جو اس فوج کا کمانڈر تھا، سخت پریشانی کے عالم میں انتظار کررہا تھا کہ صلیبی حملہ کرکے اسے سلطان ایوبی سے چھڑائیں گے مگر اس کی مدد کو کوئی نہیں آرہا تھا۔

سلطان ایوبی چاہتا تو چاروں طرف سے حملہ کرکے اس فوج کو شکست دے سکتا تھا لیکن اس سے اپنا جانی نقصان بھی ہونا لازمی تھا اور جنگ کا پانسہ پلٹ جانے کا خطرہ بھی تھا۔ سلطان ایوبی اپنی طاقت زائل نہیں کرنا چاہتا تھا۔ وہ صلیبیوں کو آہستہ آہستہ مار رہا تھا۔ اسے یہ نقصان ضرور ہورہا تھا کہ اس کی فوج کا تیسرا حصہ اس صلیبی فوج کو گھیرے میں رکھنے میں الجھ گیا تھا۔ اسے وہ شہر کے محاصرے کی کامیابی کے لیے استعمال نہیں کرسکتا تھا۔ اس کے پاس ابھی ریزرو دستے موجود تھے اور وہ سوچ رہا تھا کہ قلعہ توڑنے کے لیے وہ انہیں استعمال کرے۔ وہ اب محاصرے کو اور زیادہ طول دینا نہیں چاہتا تھا۔ اس دور میں محاصرے عموماً طویل ہوا کرتے تھے۔ ایک ایک شہر کو دو دو سال تک بھی محاصرے میں رکھا گیا ہے۔ چھ سات ماہ کا محاصرہ طویل نہیں سمجھا جاتا تھا لیکن سلطان ایوبی محاصرے کو طول دینے کا قائل نہیں تھا۔ وہ ان حملہ آوروں میں سے بھی نہیں تھا جو کسی ملک کے دارالحکومت کا محاصرہ کرکے اندر والوں کو پیغام بھیجا کرتے تھے کہ اتنی مقدار زر وجواہرات کی، اتنے ہزار گھوڑے اور اتنی عورتیں باہر بھیج دو، ہم چلے جائیں گے۔ سلطان ایوبی عرب کی سرزمین سے صلیبیوں کو نکالنا چاہتا تھا۔ وہ کہا کرتا تھا کہ یہ سرزمین اسلام کا سرچشمہ ہے جو ساری دنیا کو سیراب کرے گا اور وہ اپنی عمر کو بہت کم سمجھا کرتا تھا۔ یہ الفاظ اس نے بارہا کہے تھے کہ میں یہ کام اپنی مختصر سی عمر میں پورا کردینا چاہتا ہوں ورنہ میں دیکھ رہا ہوں کہ مسلمان امراء اس مقدس خطے کو صلیبیوں کے ہاتھ بیچتے چلے جارہے ہیں۔

ایک رات وہ اپنے خیمے میں گہری سوچ میں کھویا ہوا تھا۔ اس نے یہاں تک سوچا تھا کہ قلعے کے اردگرد اتنی فراغ سرنگیں کھدوائی جائیں جن میں پیادہ سپاہی گزر سکیں۔ کچھ اور طریقے بھی اس کے ذہن میں آئے وہ اب چند دنوں میں کرک پر قبضہ کرلینا چاہتا تھا۔ اس کیفیت میں علی بن سفیان اس کے خیمے میں داخل ہوا۔ اسے دیکھ کر سلطان ایوبی خوش نہیں ہوا کیونکہ اسے اطلاع مل چکی تھی کہ مصر کے حالات خطرناک مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں۔ چہرے پر تشویش کے آثار لیے سلطان ایوبی علی بن سفیان سے بغل گیر ہوکر ملا اور کہا… ''تم میرے لیے یقینا کوئی خوشخبری نہیں لائے''۔

''بظاہر خیریت ہے''۔ علی بن سفیان نے کہا… ''مگر خوشخبری والی بات بھی کوئی نہیں''۔ اس نے مصر کے حالات اور واقعات سنانے شروع کردیئے۔ علی بن سفیان جیسا ذمہ دار حاکم سلطان ایوبی سے کچھ بھی نہیں چھپا سکتا تھا۔ نہ ہی وہ اسے خوش فہمیوں میں مبتلا کرسکتا تھا۔ حالات کا تقاضا یہ تھا کہ لگی لپٹی رکھے بغیر بات کی جائے۔ علی بن سفیان نے تقی الدین کی غلطیوں اور سلطان ایوبی کی بھی ایک دو غلطیوں کا کھل کر ذکر کیا۔ ارسلان کی غداری کا قصہ اور الادریس کے جوان بیٹوں کی موت کا حادثہ سن کر سلطان ایوبی کے آنسو نکل آئے۔ اگر اسلان مرنہ چکا ہوتا تو سلطان ایوبی کبھی یقین نہ کرتا کہ اس کا یہ حاکم جسے وہ اپنا وفادار سمجھتا ہے، غداری کرسکتا ہے۔ اس سے پہلے بھی وہ دوست اس سے غداری کرچکے تھے۔

''اگر ارسلان ذرا سی دیر اور زندہ رہتا تو باقی راز بھی بے نقاب کردیتا۔'' علی بن سفیان نے کہا… ''اس کے آخری فقرے سے جو موت نے پورا نہ ہونے دیا، صاف ثبوت ملتا ہے کہ مصر میں بغاوت ہونے ہی والی ہے۔ مصر میں ہماری جو فوج ہے، اسے ذہنی لحاظ سے پست کردیا گیا ہے۔ میری جاسوسی بتاتی ہے کہ کمان دار تک غلط فہمیوں اور بے اطمینانی کا شکار ہوگئے ہیں۔ فوج کے لیے غلے اور گوشت کی قلت پیدا کرکے یہ بے بنیاد بات پھیلا دی گئی ہے کہ تمام تر رسد محاذوں پر بھیجی جارہی ہے اور یہ بھی کہ فوج کا مال حاکم بیچ کر کھارہے ہیں۔ دشمن کی سازش پوری طرح کامیاب ہے''۔

''دشمن کی سازش اسی ملک میں کامیاب ہوتی ہے جہاں کے چند ایک افراد دشمن کا ساتھ دینے پر اتر آتے ہیں''۔ سلطان ایوبی نے کہا۔ ''اگر ہمارے اپنے بھائی دشمن کا آلۂ کار بن جائیں تو ہم دشمن کا کیا بگاڑ سکتے ہیں۔ میں جس طرح اللہ کے ان شیروں کے جذبے کے زور پر اور ان کی جانیں قربان کرکے صلیبیوں کو میدان جنگ میں ناکوں چنے چبوا رہا ہوں، اسی طرح میرے حاکم بھی پکے مسلمان ہوتے تو آج قبلہ اول آزاد ہوتا اور ہماری اذانیں یورپ کے کلیسائوں میں گونج رہی ہوتی مگر میں مصر میں قید ہوکے رہ گیا ہوں، میرے جذبے اور میرا عزم زنجیروں میں جکڑے گئے ہیں''۔ اس نے کچھ دیر کی گہری خاموشی اور سوچ کے بعد کہا… ''مجھے سب سے پہلے ان غداروں کو ختم کرنا ہوگا ورنہ یہ قوم کو دیمک کی طرح کھاتے رہیں گے''۔

''میں یہ مشورہ لے کر آیا ہوں کہ اگر محاذ آپ کو اجازت دے تو مصر چلئے''۔

''میں حقائق سے چشم پوشی نہیں کرسکتا علی!'' سلطان ایوبی نے کہا… ''لیکن میں یہ اظہار کیے بغیر بھی نہیں رہ سکتا کہ میرے ہاتھوں سے صلیبیوں کی گردن اور فلسطین چھڑانے والے میرے بھائی ہیں۔ علی بن سفیان! اگر میں نے غداروں کو اسلام کے دشمنوں کے ساتھ دوستی کرنے والے مسلمانوں کو ابھی ختم نہ کیا تو یہ کبھی ختم نہ ہوں گے اور ہماری تاریخ کو یہ گروہ ہمیشہ شرمسار کرتا رہے گا۔ قوم میں ہر دور میں یہ گروہ موجود رہے گا جو دین اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمنوں سے دوستی کرکے اسلام کی جڑیں کھوکھلی کرتا رہے گا''۔ اس نے پوچھا سوڈان کے محاذ کی کیا خبر ہے؟ میں نے تقی الدین کو پیغام بھیج دیا کہ اس محاذ کو سمیٹنا شروع کردو۔

''مصر میں کسی کو بھی معلوم نہیں کہ آپ نے یہ حکم دیا ہے''۔ علی بن سفیان نے کہا۔

''اور کس کو معلوم ہونا بھی نہیں چاہیے''۔ سلطان ایوبی نے کہا اس نے دربان کو بلایا اور کہا۔ ''کاتب کو فوراً بلا لائو''۔

کاتب کاغذ اور قلمدان لے کر آیا تو سلطان ایوبی نے کہا۔ ''لکھو… قابل صد احترام نورالدین زنگی…'

وہ قاصد بڑا ہی تیز رفتار تھا جس نے سلطان ایوبی کا پیغام اگلی رات کے آخری پہر بغداد میں نورالدین زنگی تک پہنچا دیا۔ سلطان ایوبی نے اسے کہا تھا کہ راستے میں ہر چوکی پر اسے تازہ دم گھوڑا مل جائے گا لیکن وہ گھوڑا صرف تبدیل کرے خود آرام اور کھانے کے لیے نہ رکے۔ کہیں بھی گھوڑا آہستہ نہ چلے۔ اگر رات کو نورالدین زنگی کے پاس پہنچے تو دربان سے کہہ دے کہ انہیں جگا دے۔ اگر زنگی خفگی کا اظہار کرے تو کہہ دینا کہ صلاح الدین ایوبی نے کہا ہے کہ ہم سب جاگ رہے ہیں۔ قاصد جب نورالدین زنگی کے دروازے پر پہنچا تو محافظ دستے نے اسے روک دیا اور کہا کہ پیغام صبح دیا جائے گا۔ قاصد نے گھوڑے تو کئی بدلے تھے مگر کہیں پانی کا ایک گھونٹ ینے کے لیے بھی نہیں رکا تھا۔ تھکن، بھوک، پیاس اور دو راتوں کی بیداری سے وہ لاش بن گیا تھا۔ زبان پیاس سے اکڑ گئی تھی۔ وہ پائوں پر کھڑا نہیں ہوسکتا تھا اور اس کے منہ سے بات نہیں نکلتی تھی۔ اس نے اشاروں میں بتایا کہ پیغام بہت ضروری ہے۔ نورالدین زنگی نے بھی سلطان ایوبی کی طرح اپنے خصوصی عملے، دربان اور اپنے باڈی گارڈز کے کمانڈر کو کہہ رکھا تھا کہ کوئی ضروری بات یا پیغام ہو تو اس کی نیند اور آرام کی پروا نہ کی جائے۔

قاصد کی حالت دیکھ کر باڈی گارڈز نے اندر جاکر نورالدین زنگی کی خواب گاہ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ وہ باہر آگیا اور پیغام اور قاصد کو ملاقات کے کمرے میں لے گیا۔ قاصد کمرے میں داخل ہوتے ہی گر پڑا۔ زنگی نے اپنے ملازموں کو بلایا اور قاصد کی دیکھ بھال کرنے کو کہا۔ اس نے پیغام پڑھنا شروع کیا۔ سلطان ایوبی نے لکھا تھا۔

''آپ پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو، میرا پیغام آپ کو خوش نہیں کرے گا۔ آپ کے لیے خوشی اور اطمینان کی بات صرف یہ ہے کہ میں نے حوصلہ نہیں چھوڑا۔ آپ کے ساتھ کیا ہوا عہد پورا کررہا ہوں۔ آپ میرے پاس تشریف لائیں گے تو تمام حالات سنائوں گا۔ میں نے کرک کو محاصرے میں لے رکھا ہے، ابھی کامیابی نہیں ہوئی۔ اتنی کامیابی حاصل کرچکا ہوں کہ صلیبیوں کی ایک فوج نے شاہ ریمانڈ کی سرکردگی میں باہر سے مجھ پر حملہ کیا تھا۔ میں نے محفوظہ سے اسے گھیرے میں لے لیا ہے۔ اب تک اس کی آدھی فوج ختم کرچکا ہوں۔ بھوکے صلیبی اپنے گھوڑوں اور اونٹوں کو کھا رہے ہیں جو انہیں اتنی دور سے یہاں لائے تھے۔ میں اس کوشش میں ہوں کہ ریمانڈ کو زندہ پکڑ لوں مگر کرک کا محاصرہ لمبا ہوتا جارہا ہے۔ صلیبیوں کا دماغ اور طریقہ جنگ پہلے سے بہت بہتر ہے۔ میں محاصرے کو کامیاب کرنے کے طریقے سوچ رہا تھا اور مجھے امید تھی کہ میرے جانباز مجاہد قلعہ توڑ لیں گے وہ جس جذبے سے لڑ رہے ہیں وہ آپ کو حیران کردے گا مگر سوڈان میں میرا بھائی تقی الدین ناکام ہوگیا ہے۔ اس کی غلطی کہ اس نے اجنبی صحرا میں جاکر فوج کو پھیلا دیا ہے۔ وہ مدد مانگ رہا ہے۔ میں نے اسے محاذ سمیٹنے اور واپس آنے کو کہہ دیا ہے۔ مصر سے آئی ہوئی خبریں اچھی نہیں، غداروں اور ایمان فروشوں نے دشمن کا آلۂ کار بن کر مصر میں بغاوت اور صلیبی یلغار کے لیے راستہ صاف کردیا ہے۔ علی بن سفیان کو آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔ وہ خود میرے پاس آیا ہے۔ میں اس کے مشورے کو نظرانداز نہیں کرسکتا کہ میں مصر چلا جائو… محترم! میں کرک کا محاصرہ اٹھا نہیں سکتا ورنہ صلیبی کہیں گے کہ صلاح الدین پسپا بھی ہوسکتا ہے۔ دشمن کی گردن میرے ہاتھ میں ہے۔ آئیے اور یہ گردن آپ اپنے ہاتھ میں پکڑ لیں، اپنی فوج ساتھ لائیں، میں اپنی فوج مصر لے جائوں گا۔ ورنہ مصر بغاوت کا شکار ہوجائے گا۔ امید ہے کہ آپ میرے دوسرے پیغام کا انتظار نہیں کریں گے''۔

نورالدین زنگی نے ایک لمحہ بھی انتظار نہ کیا۔ شب خوابی کے لباس میں ہی مصروف کار ہوگیا۔ فوجی حکام کو بلا لیا۔ انہیں احکام دیئے اور دن ابھی آدھا بھی نہیں گزرا تھا کہ اس کی فوج کرک کی سمت کوچ کرچکی تھی۔ زنگی وہ مرد مجاہد تھا جس کا نام سن کر صلیبی بدک جاتے تھے۔ اس کے سینے میں ایمان کی شمع روشن تھی۔ وہ فن حرب وضرب کا ماہر تھا۔ اس نے راستے میں کم سے کم پڑائو کیے اور اتنی جلدی محاذ پر پہنچا کہ سلطان ایوبی حیران رہ گیا۔ اگر قاصد پہلے سے اسے اطلاع نہ دے دیتا کہ زنگی اپنی فوج کے ساتھ آرہا ہے تو دور سے گرد کے بادل دیکھ کر سلطان صلاح الدین سمجھتا کہ صلیبیوں کی فوج آرہی ہے۔ سلطان ایوبی گھوڑا سرپٹ بھگاتا استقبال کے لیے گیا۔ نورالدین زنگی اسے دیکھ کر گھوڑے سے کود آیا۔ اسلام کی عظمت کے یہ دونوں پاسبان جب گلے ملے تو جذبات کی شدت سے سلطان ایوبی کے آنسو نکل آئے۔

٭ ٭ ٭

سلطان ایوبی نے نورالدین زنگی کو تمام تر حالات اور غداروں کی ساری کارستانیاں سنائیں۔ زنگی نے کہا… ''صلاح الدین! تمہاری عمر ابھی اتنی نہیں گزری کہ چند ایک حقائق کو قبول کرسکو۔ یہ اسلام کی بدنصیبی ہے کہ غدار ہماری قوم کا لازمی حصہ بن گئے ہیں اور قوم ان سے کبھی پاک نہیں ہوگی۔ مجھے صاف نظر آرہا ہے کہ ایک وقت آئے گا جب غدار قوم پر باقاعدہ حکومت کریں گے۔ دشمن کے خلاف باتیں کریں گے۔ بلند دعوے کریں گے، دشمن کو کچل دینے کے نعرے لگائیں گے، مگر قوم جان نہیں سکے گی کہ ان کے حکمران دراصل اس کے اور اس کے دین کے دشمن کے ساتھ درپردہ دوستی کرچکے ہیں۔ دشمن انہی کو ڈھال اور انہی کو تلوار بنائے گا اور ان کے ہاتھوں قوم کو مروائے گا… پریشان نہ ہو صلاح الدین! ہم حالات پر قابو پالیں گے۔ تم مصر پہنچو اور تقی الدین کو مدددے کر سوڈان سے نکالو۔ دائیں بائیں حملے کرکے دشمن کو الجھائے رکھو تاکہ تقی الدین کا کوئی دستہ کہیں گھیرے میں نہ آجائے۔ مصر میں فوجوں کو یکجا کرو اور مصر میں جو فوج ہے، اسے میرے پاس بھیج دو۔ میں اس کے دماغ سے بغاوت کا کیڑا نکال دوں گا''۔

شام کے بعد زنگی نے اپنی فوج کو کرک کے محاصرے پر لگا دیا اور سلطان ایوبی کی فوج پیچھے ہٹ آئی۔ اسے فوراً قاہرہ کے لیے کوچ کا حکم دے دیا گیا۔ کچھ غلطی وہاں ہوگئی جہاں سلطان ایوبی نے ریمانڈ کی فوج کو گھیرے میں لے رکھا تھا۔ زنگی نے جب وہاں اپنے دستے اس ہدایت کے ساتھ بھیجے کہ سلطان ایوبی کی فوج کی بدلی کرتی ہے تو احکام اور ہدایات پر کسی غلط فہمی کی بنا پر عمل نہ ہوسکا۔ ریمانڈ نے اتفاق سے اس سمت حملہ کیا جہاں اسے توقع تھی کہ مسلمانوں کا دستہ کمزور ہے۔ اس نے وہاں کسی کو بھی حملہ روکنے کے لیے تیار نہ پایا۔ وہ اس طرف سے نکل گیا اور کچھ فوج بھی نکل گئی۔ صلیبیوں کی بچی کھچی فوج پھنسی رہ گئی، جسے اگلے روز پتا چلا کہ ان کا حکمران کمانڈر بھاگ گیا ہے تو اس نے بھی اندھا دھند بھاگنے کی کوشش کی۔ صلیبی اپنی جانیں بچانے کے لیے لڑے۔ کچھ مارے گئے اور بعض پکڑے گئے۔ نقصان یہ ہوا کہ ریمانڈ نکل گیا۔ فائدہ یہ ہوا کہ گھیرا کامیاب رہا اور نورالدین زنگی کی فوج کا یہ حصہ کرک کے محاصرے کو کامیاب کرنے کے لیے فارغ ہوگیا۔

سلطان ایوبی جب قاہرہ کو روانہ ہونے لگا تو حسرت بھری نظروں سے کرک کو دیکھا۔ اس نے زنگی سے کہا ''تاریخ یہ تو نہیں کہے گی کہ صلاح الدین ایوبی پسپا ہوگیا تھا؟ میں نے محاصرہ اٹھایا تو نہیں!''۔

''نہیں صلاح الدین!''… نورالدین زنگی نے اس کا گال تھپکا کر کہا… ''تم نے شکست نہیں کھائی، تم جذباتی ہوگئے ہو، جنگ جذبات سے نہیں لڑی جاتی''۔

''میں آئوں گا میر ے فلسطین!''… سلطان ایوبی نے کرک کو دیکھتے ہوئے کہا… ''میں آئوں گا''۔ اس نے گھوڑے کو ایڑی لگا دی پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔

نورالدین زنگی اسے دیکھتا رہا۔ وہ جب اپنے گھوڑے سمیت دور جاکر گرد میں چھپ گیا تو زنگی نے اپنے ایک نائب سے کہا… ''اسلام کو ہر دور میں ایک صلاح الدین ایوبی کی ضرورت ہوگی''۔

یہ واقعہ ١١٧٣ئ)٥٦٩ہجری( کے وسط کا ہے۔

٭ ٭ ٭
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

وہ جو مردوں کو زندہ کرتا تھا

Post by ایکسٹو »

وہ جو مردوں کو زندہ کرتا تھا

،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

مصر کے دیہاتی اس کی راہ دیکھ رہے تھے۔ ہر کسی کی زبان پر یہی الفاظ تھے… ''وہ آسمان سے آیا ہے، خدا کا دین لایا ہے۔ دل کی بات بتاتا ہے اور آنے والے وقت کے اندھیروں کو روشن کرکے دکھاتا ہے۔ مرے ہوئوں کو اٹھا دیتا ہے''۔

وہ کون تھا؟… جنہوں نے اسے دیکھا تھا، وہ اس کی کرامات سے اس قدر مسحور ہوگئے تھے کہ یہ جاننے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے تھے کہ وہ کون ہے۔ وہ تسلیم کرلیتے تھے کہ وہ آسمان سے آیا ہے، خدا کا دین لایا ہے اور جو لوگ اس کی راہ دیکھ رہے تھے وہ اس سوال سے بے نیاز تھے کہ وہ کون ہے۔ قافلے گزرتے تھے تو اسی کی کرامات سناتے تھے۔ کوئی اکیلا دھکیلا مسافر کسی گائوں میں جاتا تھا تو اسی کے معجزوں کا ذکر کرتا تھا۔ بعض لوگ اسے نبی اور پیغمبر بھی کہتے تھے اور کچھ ایسے بھی تھے جو اسے بارش کا دیوتا مانتے تھے اور اس کی خوشنودی کے لیے انسانی جان کی قربانی دینے کے لیے بھی تیار تھے۔ ان میں سے کوئی بھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کرتا تھا کہ اس کا مذہب کیا ہے اور وہ کیسا عقیدہ ساتھ لایا ہے۔ لوگ ابھی پسماندگی کے دور میں تھے۔ علم سے بے بہرہ تھے اور قدرت کے ستم کا شکار رہتے تھے۔ انہیں جہاں امید بندھتی تھی کہ ان کے مصائب کا حل موجود ہے، وہاں جا سجدے کرتے تھے۔ ان کی اکثریت مسلمان تھی۔ اسلام کی روشنی وہاں تک پوری آب وتاب سے پہنچی تھی۔ مسلمانوں نے مسجدیں بھی بنا رکھی تھی۔ رب کعبہ کے حضور پانچوں وقت سجدے بھی کرتے تھے مگر اسلام کے سچے عقیدے کو پختہ کرنے کا کوئی انتظام نہ تھا۔ ان کے امام بے علم تھے جو اپنی امامت کو برقرار رکھنے کے لیے لوگوں کو عجیب وغریب باتیں بتاتے رہتے تھے۔ قرآن کو انہوں نے )نعوذباللہ( کالے علم کی ایک کتاب بنا ڈالا تھا اور ایسا تاثر پیدا کررکھا تھا کہ قرآن کو صرف امام سمجھ سکتا ہے۔ چنانچہ یہ مسلمان قرآن کو ہاتھ لگانے سے بھی ڈرتے تھے۔

ان اماموں نے لوگوں کے دلوں میں ''غیب'' کا ایک لفظ بٹھا دیا تھا اور انہیں باور کرادیا تھا کہ جو کچھ بھی ہے وہ غیب میں ہے اور غیب میں جھانکنے کی قدرت صرف امام کو حاصل ہے۔ اماموں نے انسان کو ایک کم زور چیز بنا دیا تھا۔ اس مقام سے وسوسے اور توہمات پیدا ہوئے۔ صحرائی آندھیوں کی چیخوں میں انہیں اس مخلوق کی آوازیں سنائی دینے لگیں جو امام کہتے تھے کہ انسانوں کو نظر نہیں آسکتی۔ بیماریاں جنات اور شرشرار بن گئیں۔ امام معالج اور عامل بن گئے جنہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے قبضے میں جنات ہیں۔ انسان ''غیب کی سزا'' سے اتنے خوف زدہ رہنے لگے کہ ان کے دلوں میں اسلام کا عقیدہ کمزور پڑ گیا اور وہ ہر اس آواز پر لبیک کہنے لگے جو انہیں غیب کی مخلوق اور غیب سے سزا سے بچانے کا یقین دلاتی تھی… یہی وجہ تھی کہ لوگ بیتابی سے اس کی راہ دیکھ رہے تھے جو آسمان سے آیا ہے اور مرے ہوئوں کو اٹھا دیتا ہے۔

وہ مصر کے اس دیہاتی علاقے میں وارد ہوا تھا جو جنوب مغرب کی سرحد کے ساتھ تھا۔ اس زمانے میں سرحد کا کوئی واضح وجود نہیں تھا۔ صلاح الدین ایوبی نے کاغذوں پر ایک لکیر کھینچ رکھی تھی لیکن وہ بھی کہا کرتا تھا کہ دین اسلام کی اور سلطنت اسلامیہ کی کوئی سرحد نہیں۔ دراصل سرحد عقیدوں کے درمیان تھی جہاں تک اسلام کی گرفت تھی، وہ اسلامی

سلطنت تھی اور جہاں سے غیراسلامی نظریات شروع ہوتے تھے، وہ علاقہ غیر کہلاتا تھا۔ مصر کے جس آخری گائوں میں مسلمانوں کی غالب اکثریت تھی، وہ امارت مصر کا آخری اور سرحدی گائوں سمجھا جاتا تھا۔ اسی باعث صلیبی ملت اسلامی کے نظریات پر حملے کِرتے اور اسلامی عقیدوں کو کمزور کرکے وہاں اپنے عقائد ِکا غلبہ پیدا کرتے تھے۔ اس سے ثابت ہوتا تھا کہ اس وقت سرحدوں کی حیثیت جغرافیائی کم اور نظریاتی زیادہ تھی۔ اس دور کے واقعات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ غیرمسلموں نے غلبۂ اسلام کے ساتھ ہی مسلمانوں پر نظریاتی حملے شروع کردیئے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ مسلمان جنگ کو جہاد کہتے ہیں اور قرآن نے مسلمانوں پر جہاد فرض کردیا ہے۔ یہاں تک کہ حالات کے تقاضے کے پیش نظر جہاد کو نماز پر فوقیت حاصل ہے اور یہ بھی کہ کسی غیرمسلم سلطنت میں مسلمان باشندوں پر ظلم وستم ہورہا ہو تو دوسری سلطنتوں کے مسلمانوں پر یہ اقدام فرض ہو جاتا ہے کہ مظلوم رعایا کو غیرمسلموں کے ظلم وستم سے بچائیں، خواہ اس مقصد کے لیے جنگی کارروائی کرنی پڑے۔

انہی قرآنی احکام نے مسلمانوں میں عسکری جذبہ پیدا کیا تھا جس کا اثر یہ تھا کہ مسلمان جس ملک پر فوج کشی کرتے یا جس میدان میں بھی لڑتے تھے ان کے ذہن میں جنگ کا مقصد واضح ہوتا تھا۔ گو ان پر مال غنیمت حلال قرار دیا گیا تھا لیکن ان کے ہاں لوٹ مار جنگ کے مقاصد میں شامل نہیں ہوتی تھی، نہ ہی وہ مال غنیمت کے لالچ سے لڑتے تھے۔ اس کے برعکس صلیبیوں کی جنگ ملک گیری کی ہوس کی آئینہ دار ہوتی اور وہ لوٹ مار پر زیادہ توجہ دیتے تھے۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ مسلمانوں کے قافلوں کو لوٹنے کا کام بھی صلیبی فوج کے حوالے کردیا گیا تھا۔ صلیبیوں کو اس کا یہ نقصان اٹھانا پڑتا تھا کہ ہر میدان میں ان کی جنگی طاقت مسلمانوں کی نسبت پانچ سے دس گنا ہوتی تھی مگر وہ مٹھی بھر مسلمانوں سے شکست کھا جاتے تھے۔ شکست نہ کھائیں تو فتح بھی حاصل نہ کرسکتے تھے۔ وہ جان گئے تھے کہ قرآن کے احکام نے مسلمانوں میں جنگی جنون پیدا کررکھا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے نام پر لڑتے اور جانیں قربان کرتے ہ یں۔ صلیبیوں کے جرنیلوں میں کچھ ایسے بھی تھے جو مسلمانوں پر مذہبی جنون کی گرفت کمزور کرنے کی ترکیبیں سوچتے اور ان پر عمل کرتے تھے، وہ جان گئے تھے کہ ایک مسلمان جو دس غیر مسلموں کا مقابلہ کرتا ہے، وہ کوئی فرشتہ اور جن بھوت نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے اندر اللہ کی طاقت اور اپنے عقیدے کی قوت محسوس کرتا ہے جو اسے کسی لالچ سے اور اپنی جان سے بھی بے نیاز کردیتی ہے۔ چنانچہ صلاح الدین ایوبی سے بہت پہلے ہی یہودی اور صلیبی عالموں اور مفکروں نے مسلمانوں کی عسکری روح کو مردہ کرنے کے لیے ان کی کردار کشی شروع کردی تھی اور ان کے مذہبی عقائد میں پرکشش ملاوٹ کرکے ان کے ایمان کو کمزور کرنا شروع کردیا تھا۔

صلاح الدین ایوبی اور نورالدین زنگی کی بدنصیبی یہ تھی کہ وہ جب صلیبیوں کے خلاف اٹھے تو اس وقت تک صلیبیوں کی نظریاتی یلغار بہت حد تک کامیاب ہوچکی تھی۔ اسلام کے دشمنوں نے اس یلغار کو دو طرفہ استعمال کیا تھا۔ اوپر کے طبقے کو جس میں حکمران، امراء اور وزراء وغیرہ تھے۔ دولت، عورت اور شراب کا دلدادہ بنا دیا تھا اور نیچے یعنی پسماندہ لوگوں میں توہم پرستی اور مذہب کے خلاف وسوسے پیدا کردیئے تھے جس طرح زنگی اور ایوبی نے فن حرب وضرب میں نئے تجربے کیے اور نئی چالیں وضع کیں، اسی طرح صلیبیوں نے درپردہ کردار کشی کے میدان میں نئے طریقے دریافت کیے۔ تین چار یورپی مورخین نے یہاں تک لکھا ہے کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ بعض صلیبی حکمرانوں نے میدان جنگ کو اہمیت دینی ہی چھوڑ دی تھی۔ وہ اس نظریئے کے قائل ہوگئے تھے کہ جنگ اس طریقے سے لڑو کہ مسلمانوں کی جنگی طاقت زائل ہوتی رہے۔ زور دار حملہ ان کے مذہبی عقائد پر کرو اور ان کے دلوں میں ایسے وہم پیدا کردو جو مسلمان قوم اور فوج کے درمیان بداعتمادی اور حقارت پیدا کردیں۔ اس مکتبہ فکر کے صلیبی مفکروں میں فلپ آگسٹس سرفہرست تھا۔ یہ صلیبی حکمران اسلام

دشمنی کو اپنے مذہب کا بنیادی اصول سمجھتا تھا اور کہا کرتا تھا کہ ہماری جنگ صلاح الدین ایوبی اور نورالدین زنگی سے نہیں، یہ صلیب اور اسلام کی جنگ ہے جو ہماری زندگی میں نہیں تو کسی نہ کسی وقت میں ضرور کامیاب ہوگی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ مسلمانوں کی اٹھتی ہوئی نسل کے ذہن میں قومیت کے بجائے جنسیت بھر دو اور انہیں ذہنی عیاشی میں ڈبو دو۔

آگسٹس اپنے مشن کی کامیابی کے لیے میدان جنگ میں مسلمانوں کے آگے ہتھیار ڈال کر صلح کرلینے سے بھی گریز نہیں کرتا تھا۔ ہم جس دور یعنی ١١٦٩ء کے لگ بھگ کی کہانی سنا رہے ہیں، اس وقت وہ نورالدین زنگی کے ہاتھوں شکست کھا کر مفتوحہ علاقے واپس کرچکا تھا۔ اس نے زنگی کو تاوان بھی دیا تھا اور جنگ نہ کرنے کے معاہدے پر دستخط کرکے جزیہ دے رہا تھا مگر جنگی قیدیوں کے تبادلے میں اس نے چند ایک معذور مسلمان سپاہی واپس کیے۔ تندرست قیدیوں کو اس نے قتل کردیا تھا اور اب وہ کرک کے قلعے میں اسلام کی بیخ کنی کے منصوبے بنا رہا تھا۔ اس کے ذہن میں اسلام دشمنی خبط کی صورت اختیار کرگئی تھی۔ اس کی بعض چالیں ایسی خفیہ ہوتی تھیں کہ اس کے اپنے صلیبی حکمران اور جرنیل بھی اسے شک کی نگاہوں سے دیکھنے لگے تھے۔ اس پر اپنے ساتھیوں نے یہ الزام عائد کیا کہ وہ اندر سے مسلمانوں کا دوست ہے اور ان کے ساتھ سودا بازی کررہا ہے۔ ایک یورپی مورخ آندرے آزون کے مطابق اس الزام کے جواب میں ایک بار آگسٹس نے کہا تھا… ''ایک مسلمان حکمران کو پھانسنے کے لیے میں اپنی کنواری بیٹیوں کو بھی اس کے حوالے کرنے سے گریز نہیں کروں گا۔ تم مسلمانوں کے ساتھ صلح نامے اور دوستی کے معاہدے کرنے سے گھبراتے ہو، کیونکہ اس میں تم اپنی توہین کا پہلو دیکھتے ہو، تم یہ نہیں سوچتے کہ مسلمان کو میدان جنگ کی نسبت صلح کے میدان میں مارنا آسان ہے۔ ضرورت پڑے تو اس کے آگے ہتھیار ڈال کر صلح نامہ کرو، معاہدہ کرو اور گھر آکر معاہدے اور صلح نامے کے الٹ ردعمل کرو۔ کیا میں ایسا نہیں کررہا؟ کیا تم نہیں جانتے کہ میرے خون کے رشتے کی دو لڑکیاں، دمشق کے ایک شیخ کے حرم میں ہیں؟ کیا اس شیخ سے تم لڑے بغیر بہت سارا علاقہ لے نہیں چکے؟ کیا اس نے دوستی کا حق ادا نہیں کیا؟ وہ مجھے اپنا دوست سمجھتا ہے اور میں اس کا جانی دشمن ہوں۔ میں ہر ایک غیرمسلم سے کہوں گا کہ مسلمانوں کے ساتھ معاہدے کرو اور انہیں دھوکہ دے کر مارو''۔

٭ ٭ ٭

یہ تھی وہ صلیبی ذہنیت جو ایک کامیاب سازش کے تحت سلطنت اسلامیہ کی جڑوں کو دیمک کی طرح کھا رہی تھی۔ اسی سازش کا یہ نتیجہ تھا کہ مصر میں بغاوت کی چنگاری شعلہ بننے لگی تھی جسے سرد کرنے کے لیے سلطان صلاح الدین ایوبی کو کرک کا محاصرہ اس حالت میں اٹھانا پڑا، جب وہ صلیبیوں کی ایک سوار فوج کو قلعے سے باہر شکست دے چکا تھا۔ اسے محاصرہ نورالدین زنگی کے حوالے کرکے اپنی فوج سمیت قاہرہ جانا پڑا۔ وہ دل برداشتہ تو نہیں تھا لیکن دل پر ایسا بوجھ تھا جو اس کے چہرے پر صاف نظرآرہا تھا۔ اس کی فوج کے سپاہی اس خیال سے مطمئن تھے کہ انہیں آرام کے لیے قاہرہ لے جایا جارہا ہے لیکن دستوں کے وہ کمان دار جو سلطان ایوبی کے عزم اور لڑنے کے لیے طریق کار کو سمجھتے تھے، حیران تھے کہ اس نے نورالدین کو فوج سمیت کیوں بلایا اور محاصرہ کیوں اٹھایا ہے۔ وہ تو فتح یا شکست تک لڑنے کا قائل تھا۔ اس کے ہیڈکوارٹر کے دو تین سالاروں کے سوا کسی کو علم نہیں تھا کہ مصر کے حالات بہت خراب ہوگئے ہیں اور سوڈان میں تقی الدین کا حملہ ناکام ہوگیا ہے اور اسے خیریت سے پیچھے ہٹانا ہے۔ سلطان ایوبی کے ساتھ علی بن سفیان بھی تھا۔ وہی مصر کے اندرونی حالات کی رپورٹ لے کر آیا تھا۔

سلطان صلاح الدین ایوبی نے کرک سے کوچ کے حکم کے ساتھ یہ حکم بھی دیا تھا کہ راستے میں بہت کم پڑائو کیے جائیں گے اور کوچ بہت تیز ہوگا۔ اس حکم سے سب کو شک ہوا تھا کہ کچھ گڑبڑ ہے۔ سفر کی پہلی شام آئی۔ فوج رات بھر کے لیے رک گئی۔ سلطان ایوبی کا خیمہ نصب ہوگیا تو اس نے اپنے اعلیٰ کمانڈروں اور اپنی مرکزی کمان کے عہدیداروں کو بلایا۔ اس نے کہا… ''آپ میں زیادہ تعداد ان کی ہے جنہیں معلوم نہیں کہ میں نے محاصرہ کیوں اٹھایا ہے اور میں کو قاہرہ کیوں لے جارہا ہوں۔ بے شک محاصرہ ٹوٹا نہیں، آپ میں کوئی بھی پسپا نہیں ہوا لیکن میں اسے اگر شکست نہیں تو پسپائی ضرور کہوں گا۔ میرے رفیقو! ہم پسپا ہورہے ہیں اور آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ آپ کو پسپا کرنے والے آپ کے اپنے بھائی ہیں، اپنے رفیق ہیں، وہ صلیبیوں کے رفیق بن چکے ہیں اور انہوں نے بغاوت کا منصوبہ بنا لیا ہے۔ اگر علی بن سفیان اس کے نائب اور غیاث بلبیس چوکس نہ ہوتے تو آج آپ مصر نہ جاسکتے۔ وہاں صلیبیوں اور سوڈانیوں کی حکمرانی ہوتی۔ ارسلان جیسا حاکم صلیبیوں کا آلۂ کار نکلا، وہ الادریس کے دو جوان بیٹے مروا کر خودکشی کرچکا ہے۔ اگر ارسلان غدار تھا تو آپ اور کس پر بھروسہ کریں گے؟''

حاضرین پر سناٹا طاری ہوگیا۔ بے چینی اور اضطراب ان کی آنکھوں میں چمک رہا تھا۔ سلطان ایوبی نے خاموش ہوکر سب کو دیکھا۔ اس دور کا ایک وقائع نگار قاضی بہائوالدین شداد کسی غیرمطبوعہ تحریر کے حوالے سے لکھتا ہے کہ دو قندیلوں کی کانپتی ہوئی روشنی میں سب کے چہرے اس طرح نظر آرہے تھے جیسے وہ ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہوں۔ وہ آنکھ بھی نہیں جھپکتے تھے۔ سلطان ایوبی کے الفاظ سے زیادہ اس کا لب ولہجہ اور انداز ان پر اثر انداز ہورہا تھا۔ سلطان ایوبی کی آواز میں روز والا جوش نہیں بلکہ لرزہ سا تھا جو سب کو ڈرا رہا تھا۔ اس نے کہا… ''میں یہ کہہ کر کہ آپ میں بھی غدار ہیں، معافی نہیں مانگوں گا۔ میں آپ کو یہ بھی نہیں کہوں گا کہ قرآن پر حلف اٹھائو کہ آپ اسلام اور سلطنت اسلامیہ کے وفادار ہیں۔ ایمان بیچنے والے قرآن ہاتھ میں لے کر بھی وفاداری کا یقین دلایا کرتے ہیں۔ میں آپ کو صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہر وہ انسان جو مسلمان نہیں وہ آپ کا دشمن ہے۔ دشمن جب آپ کے ساتھ محبت اور دوستی کا اظہار کرتا ہے تو اس میں اس کی دشمنی چھپی ہوئی ہوتی ہے۔ وہ آپ کو آپ کے بھائیوں کے خلاف اور آپ کے مذہب کے خلاف استعمال کرتا ہے اور جہاں اسے مسلمانوں پر حکومت کرنے کا موقع ملتا ہے، وہ مسلمان مستورات کی عصمت دری اور اسلام کی بیخ کنی کرتا ہے۔ یہی اس کا مقصد ہے، ہم جو جنگ لڑ رہے ہیں یہ ہماری ذاتی جنگ نہیں۔ یہ ذاتی حکمرانی قائم کرنے کے لیے کسی ملک پر قبضے کی کوشش نہیں۔ یہ دو عقیدوں کی جنگ ہے۔ یہ کفر اور اسلام کی جنگ ہے۔ یہ جنگ اس وقت تک لڑی جاتی رہے گی جب تک کفر یا اسلام ختم نہیں ہوجاتا''۔

''گستاخی معاف سالاراعظم!'' ایک سالار نے کہا… ''اگر ہمیں ثابت کرنا ہے کہ ہم غدار نہیں ہیں تو ہمیں مصر کے حالات سے آگاہ کریں۔ ہم عمل سے ثابت کریں گے کہ ہم کیا ہیں۔ ارسلان فوج کا نہیں انتظامیہ کا حاکم تھا۔ آپ کو غدار انتظامی شعبوں میں ملیں گے، فوج میں نہیں۔ کرک قلعے کا محاصرہ آپ نے اٹھایا ہے، ہم نے نہیں۔ محترم زنگی کو آپ نے بلایا ہے، ہم نے نہیں۔ ہمارا امتحان میدان جنگ میں ہوسکتا ہے، پرامن کوچ میں نہیں… مصر میں کیا ہورہا ہے''۔

صلاح الدین ایوبی نے علی بن سفیان کی طرف دیکھا اور کہا… ''علی! انہیں بتائو وہاں کیا ہورہا ہے''۔

علی بن سفیان نے کہا… ''غداروں نے دشمن کے ساتھ مل کر سوڈان کے محاذ کے لیے رسد روک لی ہے۔ منڈیوں سے غلہ غائب کردیا ہے۔ دیہاتی علاقوں میں اجنبی لوگ آکر غلہ اور خوردونوش کی دیگر اشیاء خرید کر لے جاتے ہیں، گوشت ناپید کردیا گیا ہے۔ رسد اگر بھیجی جاتی ہے تو دانستہ تاخیر کی جاتی ہے۔ یوں بھی ہوا کہ رسد بھیج کر دشمن کو اطلاع دے دی گئی۔ دشمن نے رسد کے قافلے کو راستے میں روک لیا۔ شہر میں بدکاری عام ہوگئی ہے۔ جوئے بازی کے ایسے دلچسپ طریقے رائج ہوگئے ہیں جن کے ہمارے لڑکے عادی ہوتے جارہے ہیں۔ دیہاتی علاقوں سے فوج کو بھرتی نہیں ملتی اور جانور بھی نہیں ملتے۔ فوج میں بے اطمینانی پیدا ہوگئی ہے، ہمارے قومی کردار کو تباہ کرنے کے سامان پیدا کردیئے گئے ہیں۔ انتظامیہ کے حکام چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے حکمران بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ انہیں یہ لالچ صلیبیوں نے دے رکھی ہے۔ ان حاکموں کو باہر سے بے دریغ دولت مل رہی ہے چونکہ سلطنت اور امارت کا انتظام انہی لوگوں کے ہاتھ میں ہے، اس لیے انہوں نے ایسی فضا پیدا کردی ہے جو دشمن کے لیے سازگار ہے۔ سب سے زیادہ خطرناک صورت یہ پیدا ہوگئی ہے کہ دیہائی علاقوں میں عجیب وغریب عقیدے پھیل رہے ہیں۔ لوگ غیراسلامی اصولوں کے قائل اور پابند ہوتے جارہے ہ یں۔ اس میں خطرہ یہ ہے کہ ہمیں فوج انہی علاقوں سے ملتی ہے اور ہماری موجودہ فوج انہی علاقوں سے آئی ہے۔ بے بنیاد اور غیراسلامی عقیدے فوج میں بھی آگئے ہیں''۔

''کیا آپ نے اس کا تدارک نہیں کیا؟'' حاضرین میں سے کسی نے پوچھا۔

''جی ہاں!'' علی بن سفیان نے کہا… ''میرا تمام ترشعبہ مجرموں کے سراغ لگانے اور انہیں پکڑنے میں مصروف ہے۔ میں نے اپنے جاسوس اور مخبر دیہاتی علاقوں میں بھی پھیلا رکھے ہیں مگر دشمن کی تخریب کاری اتنی زیادہ بڑھ گئی ہے کہ اس کے آدمیوں کو پکڑنا بہت مشکل ہوگیا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ ہمارے مسلمان بھائی دشمن کے جاسوسوں اور تخریب کاروں کو پناہ اور تحفظ دیتے ہیں۔ کیا آپ یہ سن کر حیران نہیں ہوں گے کہ دیہاتی علاقوں کی بعض مسجدوں کے امام بھی دشمن کی تخریب کاری میں شامل ہوگئے ہیں''۔

''یہ تو ہونہیں سکتا کہ میں انتظامیہ فوج کے سپرد کردوں''… سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا… ''فوج جس مقصد کے لیے تیار کی گئی ہے، یہ اسی کی تکمیل کا فرض ادا کرتی رہے تو سلطنت کے لیے بھی بہتر ہوتا ہے اور فوج کے لیے بھی۔ جس طرح ایک کوتوال سالار کے فرائض سرانجام نہیں دے سکتا۔ البتہ ہر سالار کو یہ ضرور معلوم ہونا چاہیے کہ کوتوال کیا کررہے ہیں۔ ہر سالار کو باخبر رہنا چاہیے کہ انتظامیہ کیا کررہی ہے۔ کیا واقعی فرائض میں کوتاہی تو نہیں ہورہی؟… میرے رفیقو! ہمیں خدا نے تاریخ کی سب سے زیادہ کڑی آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ مصر کے حالات آپ نے سن لیے ہیں۔ سوڈان کا حملہ ناکام ہوگیا ہے۔ تقی الدین اپنی غلطیوں کی بدولت سوڈان کے صحرا میں پھنس کے رہ گیا ہے۔ اس کی فوج چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں بکھر گئی ہے۔ اس کی پسپائی بھی ممکن نظر نہیں آتی۔ میں کہہ نہیں سکتا کہ محترم زنگی کرک فتح کرلیں گے یا نہیں لیکن اسے بھی میں اپنی ناکامی کہتا ہوں۔ آپ انتہائی مشکل حالات میں بھی میدان جنگ میں دشمن کو شکست دے سکتے ہیں مگر دشمن نے جس محاذ پر حملہ کیا ہے، اس پر دشمن کو شکست دینا آپ کے لیے بظاہر آسان نظر نہیں آتا۔ آپ تیغ زن ہیں۔ صحرائوں کا سینہ چیر سکتے ہیں مگر مجھے خطرہ نظر آرہا ہے کہ صلیبیوں کے اس محاذ پر آپ ہتھیار ڈال دیں گے''۔

حاضرین میں چند ایک جوشیلی اور پرعزم آوازیں سنائی دیں۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''اس وقت جو فوج مصر میں ہے وہ جب شوبک اور کرک کے محاذ سے مصر گئی تھی تو اس کے کمان داروں اور عہدیداروں کا جذبہ بالکل ایسا ہی تھا جیسا آج آپ کا ہے مگر قاہرہ پہنچ کر جب انہوں نے د شمنوں کے سبز باغ دیکھے تو بغاوت کے لیے تیار ہوگئے۔ اب اس فوج کی کیفیت یہ ہے کہ آپ اس پر بھروسہ نہیں کرسکتے''۔

''ہم ایسے ایک ایک کمان دار اور عہدیدار کو قتل کرکے دم لیں گے''۔ ایک سالار نے کہا۔

''ہم سب سے پہلے اپنی صفوں کو غداروں سے پاک کریں گے''۔ ایک اور نے کہا۔

''اگر میرا بیٹا صلیبیوں کا دوست نکلا تو میں اپنی تلوار سے اس کا سرکاٹ کر آپ کے قدموں میں رکھ دوں گا''۔ ایک بوڑھے نائب سالار نے کہا۔

''میں اس قسم کی جوشیلی اورجذباتی باتوں کا قائل نہیں''… سلطان ایوبی نے کہا۔

حاضرین کا جوش غضب ناک ہوگیا۔ یہ وہ لوگ تھے جو سلطان ایوبی کے سامنے بات کرنے سے ڈرا کرتے تھے مگر اب یہ سن کر کہ ان کی فوج کی وہ نفری جو مصر میں ہے، دشمن کی تخریب کاری کا شکار ہوکر اپنی سلطنت کے خلاف بغاوت پر اتر آئی ہے تو وہ لوگ آگ بگولہ ہوگئے۔ ایک نے سلطان ایوبی کو یہاں تک کہہ دیا… ''آپ ہمیں ہمیشہ تحمل سے سوچنے اور بردباری سے عمل کرنے کی تلقین کرتے ہیں مگر بعض حالات ایسے ہوتے ہیں جنہیں تحمل اور بردباری اور زیادہ بگاڑ دیتی ہے۔ ہمیں اجازت دیں کہ قاہرہ تک ہم ایک بھی پڑائو نہ کریں۔ ہم آرام اور خوراک کے بغیر متواتر سفر کریں گے۔ ہم اس فوج کو نہتہ کرکے قید کرلیں گے''۔

صلاح الدین ایوبی کے لیے ان حکام پر قابو پانا محال ہوگیا۔ اس نے کچھ اور باتیں کہہ سن کر مجلس برخواست کردی۔ علی الصبح فوج نے کوچ کیا۔ یہ کوچ ترتیب سے ہورہا تھا۔ سلطان ایوبی اپنے عملے کے ساتھ الگ تھلگ جارہا تھا۔ اس نے دیکھا کہ علی بن سفیان اس کے ساتھ نہیں تھا۔ شام تک فوج کو دو مرتبہ کچھ دیر کے لیے روکا گیا۔ شام گہری ہونے کے بعد بھی فوج چلتی رہی۔ رات کا پہلا پہر ختم ہورہا تھا، جب سلطان ایوبی نے رات کے قیام کے لیے فوج کو روکا۔ سلطان کھانے سے فارغ ہوا تو علی بن سفیان آگیا۔

''سارا دن کہاں رہے علی؟''… سلطان ایوبی نے پوچھا۔

''گزشتہ رات میرے دل میں ایک شک پیدا ہوگیا تھا''… علی بن سفیان نے جواب دیا… ''اس کی تصدیق یا تردید کے لیے سارا دن فوج میں گھومتا پھرتا رہا''۔

''کیسا شک؟''

''آپ نے رات دیکھا نہیں تھا کہ تمام سالار، کمان دار اور عہدیدار کس طرح اس فوج کے خلاف بھڑک اٹھے تھے جو مصر میں ہے؟''… علی بن سفیان نے کہا… ''مجھے شک ہونے لگا تھا کہ یہ اپنے اپنے دوستوں کو بھی اسی طرح بھڑکائیں گے۔ میرا شک صحیح ثابت ہوا۔ انہوں نے تمام تر فوج کو مصر کی فوج کے متعلق ایسی باتیں بتائی ہیں کہ تمام فوج انتقامی جذبے سے مشتعل ہوگئی ہے۔ میں نے سپاہیوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ ہم محاذوں پر زخمی اور شہید ہوتے ہیں اور ہمارے ہی ساتھی قاہرہ میں عیش کرتے اور اسلامی پرچم کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا چاہتے ہیں۔ ہم جاتے ہی انہیں ختم کریں گے۔ پھر سوڈان میں پھنسی ہوئی فوج کی مدد کو پہنچیں گے۔ قابل صد احترام امیر! اگر ہم نے کوئی پیش بندی نہ کی تو قاہرہ میں پہنچتے ہی خانہ جنگی شروع ہوجائے گی۔ ہماری یہ فوج انتقامی جذبے کے زیراثر غصے میں ہے اور ہماری مصر والی فوج پہلے ہی بغاوت کے بہانے ڈھونڈ رہی ہے''۔

''مجھے اس پر تو خوشی ہے کہ مسلسل معرکوں کی تھکی ہوئی اس فوج میں یہ جذبہ پیدا ہوگیا ہے''۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''مگر ہمارا دشمن یہی چاہتا ہے کہ ہماری فوج دو حصوں میں بٹ کر آپس میں ٹکرا جائے''۔ وہ گہری سوچ میں پڑ گیا، پھر کہنے لگا… ''جب ہم قاہرہ سے خاصا دور ہوں گے تو میں ذمہ دار اور ذہین قاصد بھیج کر مصر والی فوج کو کسی دوسرے راستے سے کرک کی سمت کوچ کا حکم دے دوں گا۔ شاید میں خود آگے چلا جائوں اور اس فوج کو کوچ کرادوں تاکہ یہ فوج جو ہمارے ساتھ ہے جب وہاں پہنچے تو وہاں اسے اس فوج کا کوئی سپاہی نظر نہ آئے۔ تم نے اچھا کیا ہے علی! میری توجہ ادھر نہیں گئی تھی''۔

٭ ٭ ٭
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: داستان ایمان فروشوں کی جلد‎ ‎دوم

Post by ایکسٹو »

وہ پراسرار غیب دان جس کے متعلق سرحد کے دیہاتی علاقوں میں مشہور ہوگیا تھا کہ آسمان سے آیا ہے، خدا کا دین لایا ہے اور مرے ہوئوں کو زندہ کرتا ہے، اپنے مصاحبوں کے قافلے کے ساتھ سفر کرتا تھا۔ جنہوں نے اسے دیکھا تھا وہ کہتے تھے کہ وہ بوڑھا نہیں، اس کی داڑھی بھورے رنگ کی اور چہرے کی رنگت گوری بتائی جاتی تھی۔ اس نے سر کے بال بڑھا رکھے تھے۔ لوگ بتاتے تھے کہ اس کی شربتی آنکھوں میں پورے چاند جیسی چمک ہے اور اس کے دانت ستاروں کی طرح سفید اور شفاف ہیں۔ اس کا قد اونچا اور جسم گٹھا ہوا بتایا جاتا تھا اور وہ بولتا تھا تو سننے والے مسحور ہوجاتے تھے۔ اس کے ساتھ بہت سے مصاحب اور بہت سے اونٹ تھے۔ سامان والے اونٹ الگ تھے جن میں سے بعض پر بڑے بڑے مٹکے لدے ہوتے تھے۔ اس کا قافلہ آبادی سے دور رکتا اور وہ وہیں لوگوں سے ملتا تھا۔ کسی آبادی میں نہیں جاتا تھا۔ وہ ایک جگہ سے کوچ کرتا تو اس کے آگے آگے کچھ لوگ اونٹ اور گھوڑے بھگا دیتے اور راستے میں آنے والے لوگوں اور بستیوں میں خبر کردیتے تھے کہ وہ آرہا ہے، یہ لوگ ہر کسی کو اس کی کرامات اور روحانی قوتوں کے کرشمے سناتے تھے۔ لوگ کئی کئی دن اس کے راستے میں بیٹھے رہتے تھے۔

جس رات علی بن سفیان صلاح الدین ایوبی کو بتا رہا تھا کہ محاذ سے قاہرہ کو جانے والی فوج مصر میں مقیم فوج کے خلاف مشتعل ہوگئی، اس رات وہ غیب دان قاہرہ سے بہت دور ایک نخلستان میں خیمہ زن ہوا۔ اس کا ایک اصول یہ تھا کہ چاندنی راتوں میں کسی سے نہیں ملتا تھا۔ دن کے دوران کسی کے ساتھ بات نہیں کرتا تھا۔ اندھیر راتیں اسے پسند تھیں۔ اس کی محفل ایسی قندیلوں سے روشن ہوتی تھی جن میں سے ہر ایک کا رنگ دوسری سے مختلف تھا۔ ان روشنیوں کا بھی ایک تاثر تھا جو حاضرین محفل کے لیے طلسماتی تھا۔ وہ جہاں خیمہ زن ہوا تھا اس کے کچھ دور ایک بستی تھی جس میں زیادہ تر مسلمان اور کچھ سوڈانی حبشی رہتے تھے۔ اس بستی میں ایک مسجد بھی تھی جہاں کا امام ایک خاموش طبیعت انسان تھا۔ ایک جواں سال آدمی کوئی ڈیڑھ دو مہینوں سے اس کے پاس دینی تعلیم حاصل کرنے آیا کرتا تھا۔ یہ آدمی جو اپنا نام محمود بن احمد بتاتا تھا کسی دوسری بستی سے مسجد میں جایا کرتاتھا۔ اس کی دلچسپی امام مسجد اور اس کے علم کے ساتھ تھی مگر اس کی ایک دلچسپی اور بھی تھی۔ یہ ایک جوان لڑکی تھی جس نے اسے اپنا نام سعدیہ بتایا تھا۔ سعدیہ کو محمود اتنا اچھا لگا کہ وہ اسے کئی بار اپنی بکریوں کا دودھ پلا چکی تھی۔

ان کی پہلی ملاقات بستی سے دور ایک ایسی جگہ ہوئی تھی جہاں سعدیہ اپنی چار بکریاں اور دو اونٹ چرانے اور انہیں پانی پلانے کے لیے لے گئی تھی۔ محمود وہاں پانی پینے کے لیے رکا تھا۔ سعدیہ نے اس سے پوچھا تھا کہ کہاں سے آیا ہے اور کہاں جارہا ہے؟ محمود نے کہا تھا کہ نہ کہیں سے آرہا ہوں، نہ کہیں جارہا ہوں۔ سعدیہ سادگی سے ہنس پڑی تھی۔ جواب ہی کچھ ایسا تھا۔ سعدیہ نے محمود سے قدرتی سا سوال پوچھا… ''مسلم یا سوڈانی؟''… محمود نے جواب دیا کہ وہ مسلمان ہے تو سعدیہ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی تھی۔ محمود نے اسے اپنا صحیح ٹھکانہ نہیں بتایا تھا۔ اس کے ساتھ کچھ ایسی باتیں کیں جو سعدیہ کو اچھی لگی تھیں۔ سعدیہ اس سے سوڈان کی جنگ کے متعلق پوچھنے لگی۔ اس کے انداز سے پتا چلتا تھا کہ اسے اسلامی فوج کے ساتھ دلچسپی ہے۔ اس نے جب صلاح الدین ایوبی کے متعلق پوچھا تو محمود نے اس کی ایسی تعریفیں کیں جیسے سلطان صلاح الدین ایوبی انسان نہیں، خدا کا اتارا ہوا فرشتہ ہے۔ سعدیہ نے پوچھا… ''کیا صلاح الدین

ایوبی اس سے زیادہ مقدس اور برگزیدہ ہے جو آسمان سے اترا ہے اور مرے ہوئوں کو زندہ کردیتا ہے؟''

''صلاح الدین ایوبی مرے ہوئوں کو زندہ نہیں کرسکتا''۔ محمود نے جواب دیا۔

''ہم نے سنا ہے کہ جو لوگ زندہ ہوتے ہیں، انہیں صلاح الدین ایوبی مار ڈالتا ہے''۔ سعدیہ نے شکی لہجے میں کہا… ''لوگ یہ بھی بتاتے ہیں کہ وہ مسلمان ہے اور ہماری طرح کلمہ اور نماز پڑھتا ہے؟''

''تمہیں کس نے بتایا ہے کہ وہ لوگوں کو مار ڈالتا ہے؟''

''ہمارے گائوں میں سے مسافر گزرتے رہتے ہیں اور وہ بتا جاتے ہیں کہ صلاح الدین ایو بی بہت برا آدمی ہے''۔ سعدیہ نے کہا۔

''تمہاری مسجد کا امام کیا بتاتا ہے؟'' محمود نے بتایا۔

''وہ بہت اچھی باتیں بتاتا ہے''۔ سعدیہ نے کہا… ''وہ سب کو کہتا ہے کہ صلاح الدین ایوبی اسلام کی روشنی سارے مصر اور سوڈان میں پھیلانے آیا ہے اور اسلام ہی خدا کا سچا دین ہے''۔

محمود اس کے ساتھ اسی موضوع پر باتیں کرتا رہا تھا۔ سعدیہ سے اسے پتا چلا کہ اس کے گائوں میں ایسے آدمی آتے رہتے ہیں جو اپنے آپ کو مسلمان بتاتے ہیں مگر باتیں ایسی کرتے ہیں کہ کئی لوگوں کے دلوںمیں اسلام کے خلاف شکوک پیدا ہوگئے ہیں۔ محمود نے سعدیہ کے شکوک رفع کردیئے اور اپنی ذات، میٹھی زبان اور شخصیت کا اس پر ایسا اثر پیدا کیا کہ سعدیہ نے بیتابی سے کہا کہ وہ اکثر یہیں بکریاں چرانے آیا کرتی ہے اور محمود جب کبھی ادھر سے گزرے تو اسے ضرور ملے۔ محمود اسے جذبات اور حقائق کے درمیان بھٹکتا چھوڑ کر اس کے گائوں کی طرف چلا گیا۔ سعدیہ یہ سوچتی رہ گئی کہ وہ کون ہے؟ کہاں سے آیا ہے؟ اور کہاں جارہا ہے؟ اس کا لباس اسی علاقے کا تھا مگر اس کی شکل وصورت اور اس کی باتیں بتاتی تھیں کہ وہ اس علاقے کا رہنے والا نہیں… سعدیہ کے شکوک صحیح تھے۔ محمود بن احمد دیہاتی علاقے کا رہنے والا نہیں تھا۔ سکندریہ شہر کا باشندہ تھا اور علی بن سفیان کی داخلی جاسوسی )انٹیلی جنس( کا ایک ذہین کارکن تھا۔ وہ کئی مہینوں سے اپنے فرض کی ادائیگی کے لیے سرحدی دیہات میں گھوم پھر رہا تھا۔ اس نے کھانے پینے اور رہنے کا انتظام خفیہ رکھا ہوا تھا۔ اس کے ساتھ چند اور جاسوس بھی تھے جو اس علاقے میں پھیلے ہوئے تھے۔ وہ کبھی کبھی اکٹھے ہوتے اور ان کے جو مشاہدات ہوتے تھے، وہ اپنے کسی ایک ساتھی کے سپرد کرکے اسے قاہرہ بھیج دیتے تھے۔ اس طرح علی بن سفیان کے شعبے کو پتا چلتا رہتا تھا کہ سرحدی علاقے میں کیا ہورہا ہے۔

محمود بن احمد کو سعدیہ مل گئی تو اس نے اس لڑکی کے ساتھ بھی ایسی باتیں کیں جن سے اسے گائوں اور گردوپیش کے علاقے کے لوگوں کے خیالات کا علم ہوسکتا تھا۔ اس نے سعدیہ کے گائوں کی مسجد کے امام کے متعلق خاص طور پر پوچھا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ دو گائوں میں اس نے ایسے امام مسجد دیکھے تھے جو اسے مشکوک سے لگتے تھے۔ وہاں کے لوگوں سے اسے پتا چلا تھا کہ یہ دونوں امام نئے نئے آئے ہیں۔ اس سے پہلے ان مسجدوں میں امام تھے ہی نہیں۔ دونوں جہاد کے خلاف وعظ سناتے اور قرآن کی آیات پڑھ کر غلط تفسیریں بیان کرتے تھے اور یہ دونوں پراسرار غیب دان کو برحق بتاتے اور لوگوں میں اس کی زیارت کا اشتیاق پیدا کرتے تھے۔ محمود اور اس کے دو ساتھیوں نے ان دونوں اماموں کے متعلق رپورٹ قاہرہ کو بھیج دی تھی اور اب وہ سعدیہ کے گائوں جارہا تھا۔ اسے یہ سن کر بہت خوشی ہوئی تھی کہ اس گائوں کا امام سلطان ایوبی کا مرید اور اسلام کا علمبردار ہے۔ اس نے اسی مسجد کو اپنا ٹھکانہ بنانے کا فیصلہ کر لیا -

وہ مسجد میں گیا اور امام سے ملا۔ اپنا جھوٹا تعارف کراکے اس نے کہا کہ وہ مذہبی علم کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہے۔ امام نے اسے تعلیم دینے کا وعدہ کیا اور اسے مسجد میں رہنے کی پیشکش کی۔ محمود مسجد میں قید نہیں ہونا چاہتا تھا۔ اس نے امام سے کہا کہ وہ دوتین روز بعد اپنے گھر جایا کرے گا۔ اس نے امام کو بھی اپنا نام نہیں بتایا تھا۔ امام نے اس سے نام پوچھا تو اس نے کچھ اور نام بتادیا۔ یہ پوچھا کہ وہ کہاں کا رہنے والا ہے تو اس نے اور کسی سرحدی گائوں کا نام بتا دیا۔ امام مسکرایا اور آہستہ سے بولا… ''محمود بن احمد! مجھے خوشی ہوئی ہے کہ تم اپنے فرائض سے بے خبر نہیں۔ سکندریہ کے مسلمان فرض کے پکے ہوتے ہیں''۔

محمود ایسا چونکا جیسے بدک اٹھا ہو۔ وہ سمجھا کہ یہ امام صلیبیوں کا جاسوس ہے لیکن امام نے اسے زیادہ دیر تک شک میں نہ رہنے دیا اور کہا… ''میں محسوس کرتا ہوں کہ مجھے کم از کم تمہارے سامنے اپنے آپ کو بے نقاب کردینا چاہیے۔ میں تمہارے ہی محکمے کا آدمی ہوں۔ میں تمہارے تمام ساتھیوں کو جو اس علاقے میں ہیں، جانتا ہوں۔ مجھے تم میں سے کوئی بھی نہیںجانتا۔ میں محترم علی بن سفیان کے اس عملے کا آدمی ہوں جو دشمن پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے جاسوسوں پر بھی نظر رکھتا ہے۔ میں امام بن کر جاسوسی کا کام کررہا ہوں''۔

''پھر میں آپ کو دانشمند آدمی نہیں کہوں گا؟''۔ محمود بن احمد نے کہا… ''آپ نے جس طرح میرے سامنے اپنے آپ کو بے نقاب کیا ہے، اس طرح آپ دشمن کے کسی جاسوس کے سامنے بھی بے نقاب ہوسکتے ہیں''۔

''مجھے یقین تھا کہ تم میرے آدمی ہو''۔ امام نے کہا… ''ضرورت ایسی آپڑی ہے کہ تمہیں اپنا اصلی روپ بتانا ضروری سمجھا۔ میرے ساتھ دو محافظ ہیں جو یہاں کے باشندوں کے بہروپ میں گائوں میں موجود رہتے ہیں۔ مجھے زیادہ آدمیوں کی ضرورت ہے۔ اچھا ہوا کہ تم آگئے ہو۔ اس گائوں میں دشمن کے تخریب کار آرہے ہیں۔ تم نے اس آدمی کے متعلق سنا ہوگا جس کے متعلق مشہور ہوگیا ہے کہ وہ مستقبل کے اندھیرے کی خبر دیتا ہے اور مرے ہوئوں کو زندہ کرتا ہے۔ یہ گائوں بھی اس کی ان دیکھی کرامات کی زد میں آگیاہے۔ میں نے گائوں والوں کو شروع میں بتایا تھا کہ یہ سب جھوٹ ہے اور لاشوں میں کوئی انسان جان نہیں ڈال سکتا مگر اس کی شہرت کا جادو اتنا سخت ہے کہ لوگ میرے خلاف ہونے لگے ہیں۔ میں سنبھل گیا کیونکہ میں اس مسجد سے نکلنا نہیں چاہتا۔ مجھے ایک اڈے اور ٹھکانے کی ضرورت ہے۔ یہاں کے گمراہ کیے ہوئے لوگوں کو اسلام کا سیدھا راستہ بھی دکھانا ہے۔ پندرہ بیس روز گزرے، رات کو دو آدمی میرے پاس آئے۔ میں اکیلا تھا۔ ان دونوں کے چہروں پر نقاب تھے۔ انہوں نے مجھے دھمکی دی کہ میں یہاں سے چلا جائوں۔ میں نے انہیں کہا کہ میرا اور کوئی ٹھکانہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہاں رہنا چاہتے ہو تو درس بند کردو اور اس کی باتیں کرو جو آسمان سے آیا ہے اور خدا کا سچا مذہب لایا ہے۔ میں دونوں کا مقابلہ کرسکتا تھا۔ ہتھیار ہر وقت اپنے پاس رکھتا ہوں لیکن میں لڑ کر قتل کرکے یا قتل ہوکر اپنا فرض پورا نہیں کرسکتا تھا۔ میں نے عقل سے کام لیا اور انہیں یہ تاثر دیا کہ آج سے وہ مجھے اپنا آدمی سمجھیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر وہ ان کی باتوں پر عمل کرے گا تو اسے ایک انعام یہ ملے گا کہ اسے قتل نہیں کیا جائے گا اور دوسرا یہ کہ اسے اشرفیاں دی جائیں گی''۔

''پھر آپ نے اپنے وعظ اور خطے کا رنگ بدل دیا ہے؟'' محمود نے پوچھا۔

''کسی حد تک''۔ امام نے جواب دیا… ''میں اب دونوں قسم کی باتیں کرتا ہوں۔ مجھے اشرفیوں کی نہیں۔ اپنی جان کی ضرورت ہے۔ میں اپنا فرض ادا کیے بغیر مرنا نہیں چاہتا۔ میں گائوں سے باہر جاکر تمہیں یا تمہارے کسی ساتھی کو ڈھونڈنا بھی نہیں چاہتا کیونکہ اس کی جان بھی خطرے میں پڑ جاتی۔ خدا نے خود ہی تمہیں میرے پاس بھیج دیا ہے۔ میرے

محافظ اس رات میرے پاس نہیں تھے۔ اب تم ہی میرے ساتھ رہو۔ تم میرے شاگرد کی حیثیت سے میرے ساتھ رہوگے۔ تم سیدھی سادی گنواروں کی سی باتیں کیا کرنا۔ گائوں میں چار پانچ آدمی ایسے ہیں جو ہمارا ساتھ دے سکتے ہیں۔ اگر ہمیں قریب کوئی سرحدی دستہ مل جائے تو ہمارا مقصد پورا ہوسکتا ہے مگر ہمارے سرحدی دستوں کے کسی کمان دار پر بھروسہ کرنا بڑا خطرناک ہے۔ دشمن نے اشرفیوں اور عورتوں سے انہیں اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔ وہ تنخواہ ہمارے خزانے سے لیتے اور کام دشمن کا کرتے ہیں''۔

محمود بن احمد اس کے پاس رک گیا۔ اسی روز امام نے اسے اپنے دونوں محافظوں سے ملا دیا۔

شام کو جب سعدیہ مسجد میں امام کے لیے کھانا لے کر آئی تو محمود کو دیکھ کر ٹھٹھک گئی اور مسکرائی۔ محمود نے پوچھا… ''میرے لیے کھانا نہیں لائو گی؟'' سعدیہ کھانا امام کے حجرے میں رکھ کر دوڑی گئی اور روٹی کے ساتھ ایک پیالے میں بکریوں کا دودھ بھی لے آئی۔ وہ چلی گئی تو امام نے محمود سے کہا… ''یہ علاقے کی سب سے زیادہ خوبصورت لڑکی ہے۔ ذہین بھی ہے اور کم عمر بھی۔ اس کا سودا ہورہا ہے''۔

''سودا یا شادی؟''

''سودا''… امام نے کہا… ''تم جانتے ہو کہ ان لوگوں کی شادی دراصل سودا ہوتا ہے مگر سعدیہ کا سیدھا سودا ہورہا ہے۔ ہمیں اس کے متعلق پریشان نہیں ہونا چاہیے تھا لیکن خریدار مشکوک لوگ ہیں۔ وہ یہاں کے رہنے والے نہیں۔ یہ وہی لوگ معلوم ہوتے ہیں جو مجھے دھمکی دے گئے ہیں۔ تم اچھی طرح سمجھ سکتے ہو کہ وہ اس لڑکی کو اپنے رنگ میں رنگ کر ہمارے خلاف استعمال کریں گے۔ اس لیے اسے بچانا ضروری ہے اور اس لیے بھی اسے بچانا ضروری ہے کہ یہ لڑکی مسلمان ہے۔ ہمیں سلطنت کے ساتھ ساتھ سلطنت کی بچیوں کی عصمت کی حفاظت بھی کرنی ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ سودا نہیں ہوسکے گا۔ سعدیہ کے باپ کو میں نے اپنا مرید بنا رکھا ہے لیکن وہ غریب اور تنہا آدمی ہے اور رسم ورواج سے بھاگ بھی نہیں سکتا۔ بہرحال سلطنت اور سعدیہ کی عصمت کے محافظ ہمارے سوا اور کوئی نہیں''۔

اس کے بعد محمود امام کا شاگرد بن گیا۔ دن گزرنے لگے اور اس کی ملاقاتیں سعدیہ کے ساتھ ہونے لگیں۔ لڑکی چراگاہ میں چلی جاتی اور محمود وہاں پہنچ جاتا تھا۔ ان کی بے تکلفی بڑھ گئی تو محمود نے سعدیہ سے پوچھا کہ وہ کون لوگ ہیں جو اسے خریدنا چاہتے ہیں۔ سعدیہ انہیں نہیں جانتی تھی۔ اس کے لیے وہ اجنبی تھے۔ انہوں نے اس طرح آکر دیکھا تھا جس طرح گائے، بھینس کو خریدنے سے پہلے دیکھا جاتا ہے۔ سعدیہ کو اچھی طرح معلوم تھا کہ وہ کسی کی بیوی نہیں بنے گی۔ اسے عرب کا کوئی دولت مند تاجر یا کوئی امیر یا وزیز اپنے حرم میں رکھ کر قید کرلے گا۔ جہاں وہ اپنا گھر بسائے بغیر بوڑھی ہوکر مر جائے گی یا اسے ناچنا سکھا کر تفریح کی چیز بنا لیا جائے۔ اس نے اپنے گائوں کے فوجیوں سے ایسی لڑکیوں کے بہت قصے سنے تھے۔ وہ اتنے پسماندہ علاقے میں رہتے ہوئے بھی ذہین تھی اور اپنا برا بھلا سوچ سکتی تھی۔ اس نے محمود کو دیکھا تو اسے دل میں بٹھا لیا اور اس نے جب یہ دیکھا کہ محمود اسے چاہنے لگا ہے تو اس نے دل میں یہ ارادہ پختہ کرلیا کہ وہ فروخت نہیں ہوگی۔ وہ جانتی تھی کہ خریداروں سے بچنا اس کے لیے ممکن نہیں۔ ایک روز اس نے محمود سے پوچھا… ''تم مجھے خرید نہیں سکتے؟''

''خرید سکتا ہوں''… محمود نے کہا… ''لیکن میں جو قیمت دوں گا وہ تمہارے باپ کو منظور نہیں ہوگی''۔

''کتنی قیمت دوگے؟''

''میرے پاس دینے کے لیے اپنے دل کے سوا کچھ بھی نہیں''… محمود بن احمد نے جواب دیا… ''معلوم نہیں تم

دل کی قیمت جانتی ہو یا نہیں''۔

''اگر تمہارے دل میں میری محبت ہے تو میرے لیے یہ قیمت بہت زیادہ ہے''… سعدیہ نے کہا… ''تم ٹھیک کہتے ہو کہ میرے باپ کو یہ قیمت منظور نہیں ہوگی لیکن میں تمہیں یہ بتا دوں کہ میرا باپ مجھے بیچنا بھی نہیں چاہتا، اس کی مجبوری یہ ہے کہ وہ غریب ہے اور اکیلا ہے۔ میراکوئی بھائی نہیں، میرے خریداروں نے میرے باپ کو دھمکی دی ہے کہ اس نے ان کی قیمت قبول نہ کی تو وہ مجھے اغوا کرلیں گے''۔

''تمہارا باپ اتنی زیادہ قیمت کیوں قبول نہیں کرتا؟''… محمود نے پوچھا… ''لڑکیوں کو بیچنے کا تو یہاں رواج ہے''۔

''باپ کہتا ہے کہ وہ لوگ مسلمان نہیں لگتے''… سعدیہ نے کہا… ''میں نے بھی باپ سے کہہ دیا ہے کہ میں کسی غیرمسلم کے پاس نہیں جائوں گی''… اس نے بیتاب ہوکر کہا… ''تم اگر مجھے اپنے ساتھ لے جانے کے لیے تیار ہوتو میں ابھی تمہارے ساتھ چل پڑوں گی''۔

''میں تیار ہوں''… محمود نے کہا۔

''توچلو''… سعدیہ نے کہا… ''آج ہی رات چلو''۔

''نہیں''… محمود کے منہ سے نکل گیا… ''میں اپنا فرض پورے کیے بغیر کہیں بھی نہیں جاسکتا''۔

''کیسا فرض؟''… سعدیہ نے پوچھا۔

محمود بن احمد چونکا۔ وہ سعدیہ کو نہیں بتا سکتا تھا کہ اس کا فرض کیا ہے۔ اس نے منہ سے نکلی ہوئی بات پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی مگر سعدیہ اس کے پیچھے پڑ گئی۔ محمود کو اچانک یاد آگیا۔ اس نے کہا … ''میں امام سے مذہبی تعلیم لینے آیا ہوں۔ اس کی تکمیل کے بغیر میں کہیں نہیں جائوں گا''

''اس وقت تک مجھے معلوم نہیں کہاں پہنچا دیا جائے گا''… سعدیہ نے کہا۔

محمود فرض کو ایک لڑکی پر قربان کرنے پر آمادہ نہ ہوسکا۔ اس کے دل میں یہ شک بھی پیدا ہوا کہ یہ لڑکی دشمن کی جاسوس بھی ہوسکتی ہے جسے اسے بے کار کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ لہٰذا اس نے سعدیہ کے متعلق چھان بین کرنا ضروری سمجھا۔

٭ ٭ ٭

صلاح الدین ایوبی کی فوج قاہرہ سے آٹھ دس میل دور تھی۔ اسے بتا دیا گیا تھا کہ فوج مشتعل ہے اور مصر کی فوج پر ٹوٹ پڑے گی۔ سلطان ایوبی نے وہاں پڑائو کا حکم دے دیا اور سپاہیوں میں گھومنے پھرنے لگا۔ وہ خود سپاہیوں کے جذبات کا جائزہ لینا چاہتا تھا۔ وہ ایک سوار کے پاس رکا تو کئی سوار اور پیادہ اس کے گرد جمع ہوگئے۔ اس نے ان کے ساتھ غیرضروری سی باتیں کیں تو ایک سوار بول پڑا۔ اس نے پوچھا… ''گستاخی معاف سالاراعظم! یہاں پڑائو کی ضرورت نہیں تھی۔ ہم شام تک قاہرہ پہنچ سکتے تھے''۔

''تم لوگ لڑتے لڑتے آئے ہو''… سلطان ایوبی نے کہا… ''میں تمہیں اس کھلے صحرا میں آرام دینا چاہتا ہوں''۔

''ہم لڑتے آئے ہیں اور لڑنے جارہے ہیں''… سوار نے کہا۔

''لڑنے جارہے ہیں؟''… سلطان ایوبی نے انجان بنتے ہوئے پوچھا… ''میں تو تمہیں قاہرہ لے جارہا ہوں، جہاں تم اپنے دوستوں سے ملوگے''۔

''وہ ہمارے دشمن ہیں''… سوار نے کہا… ''اگر یہ سچ ہے کہ ہمارے دوست بغاوت کرنے پر تلے ہوئے ہیں تو وہ ہمارے دشمن ہیں''۔

''صلیبیوں سے بدترین دشمن''… ایک اور سپاہی نے کہا۔

''کیا یہ سچ نہیں سالاراعظم کہ قاہرہ میں غداری اور بغاوت ہورہی ہے؟''… کسی اور نے پوچھا۔

''کچھ گڑبڑ سنی ہے''… سلطان ایوبی نے کہا… ''میں مجرموں کو سزا دوں گا''۔

''آپ پوری فوج کو کیا سزا دیں گے؟''… ایک سوار نے کہا… ''سزا ہم دیں گے، ہمیں کمان داروں نے قاہرہ کے سارے حالات بتا دیئے ہیں۔ ہمارے ساتھی شوبک اور کرک میں شہید ہوئے ہیں۔ دونوں شہروں کے اندر ہماری بیٹیوں اور بہنوں کی عصمت دری ہوئی ہے اور کرک میں ابھی تک ہورہی ہے۔ ہمارے ساتھی قلعے کی دیواروں سے دشمن کی پھینکی ہوئی آگ میں زندہ جل گئے ہیں۔ قبلہ اول پر کافروں کا قبضہ ہے اور ہماری فوج قاہرہ میں بیٹھی عیش کررہی ہے۔ آپ کے خلاف بغاوت کی تیاری کررہی ہے، جنہیں شہیدوں کا پاس نہیں، اپنی بیٹیوں کی عصمتوں کا خیال نہیں، انہیں زندہ رہنے کا بھی حق نہیں۔ ہم جانتے ہیں وہ اسلام کے دشمن کے دوست بن گئے ہیں۔ ہم جب تک غداروں کی گردنیں اپنے ہاتھوں نہیں کاٹیں گے ہمیں شہیدوں کی روحیں معاف نہیں کریں گے۔ ذرا ان زخمیوں کودیکھئے، جنہیں ہم اپنے ساتھ لارہے ہیں کسی کی ٹانگ نہیں، کسی کا بازو نہیں۔ کیا یہ اس لیے ساری عمر کے لیے اپاہج ہوگئے ہیں کہ ہمارے ساتھی اور ہمارے دوست دشمن کے ہاتھ میں کھیلیں؟''۔

''ہم انہیں اپنے ہاتھوں سزا دیں گے''… اور پھر ایسا شور سپا ہوگیا کہ ساری فوج وہاں جمع ہوگئی۔ صلاح الدین ایوبی کے لیے اس جوش وخروش پر قابو پانا مشکل ہوگیا۔ وہ سپاہیوں کے جوش اور جذبے کو سرد کرکے ان کا دل بھی نہیں توڑنا چاہتا تھا۔ اس نے انہیں صبرو تحمل کی تلقین کی۔ کوئی حکم نہ دیا۔ اپنے خیمے میں گیا۔ مشیروں اور نائبین کو بلا کر کہا کہ یہ فوج اگلے حکم تک یہیں پڑائو کرے گی۔ اس نے کہا… ''میں نے دیکھ لیا ہے کہ خانہ جنگی ہوگی، فوج کا آپس میں ٹکرا جانا دشمن کے لیے فائدہ مند ہوتا ہے۔ میں آج رات قاہرہ جارہا ہوں۔ کسی کو معلوم نہ ہوسکے کہ میں یہاں نہیں ہوں۔ سپاہیوں کے جوش کو سرد کرنے کی بھی کوشش نہ کی جائے''۔

اس نے ضروری احکام اور ہدایات دے کر کہا۔ ''ہماری قاہرہ والی فوج جو بغاوت پر آمادہ ہے، میری نظر میں بے گناہ ہے اور ہماری قوم کے وہ نوجوان جو جوئے اور ذہنی عیاشی کے عادی ہوتے جارہے ہیں، وہ بھی بے گناہ ہیں۔ فوج کو ہمارے اعلیٰ حکام نے غلط باتیں بتا کر بھڑکایا ہے۔ انہی حکام کے ایماء پر دشمن نے ہمارے ملک کے سب سے بڑے شہر میں ذہنی عیاشی کے سامان پھیلائے ہیں۔ اس اخلاقی تباہ کاری کو فروغ صرف اس لیے حاصل ہوا ہے کہ ہماری انتظامیہ کے وہ حکام جنہیں اس تخریب کاری کو روکناتھا، وہ اسے پھیلانے میں شریک ہیں۔ دشمن انہیں اجرت دے رہا ہے، جب کسی قوم کے سربراہ اور امراء دشمن کے ہاتھوں میں کھیلنے لگتے ہیں تو اس قوم کا یہی حشر ہوتا ہے۔ ہماری فوج سوڈان کے ظالم صحرا میں بکھری ہوئی لڑرہی ہے، کٹ رہی ہے، سپاہی بھوکے اور پیاسے مرررہے ہیں اور ہمارے حاکم ان کی کمک، رسد اور ہتھیار روکے بیٹھے ہیں۔ کیا یہ دشمن کی سازشیں نہیں جسے ہمارے اپنے بھائی کامیاب کررہے ہیں؟ اس سے دشمن ایک فائدہ اٹھا رہا ہے کہ تقی الدین اور اس کے وہ عسکری جو جذبہ جہاد سے لڑ رہے ہیں، وہ مررہے ہیں اور نوبت ہتھیار ڈالنے تک آگئی ہے اور دوسرا فائدہ یہ کہ ہماری قوم کو بتایا جائے گا کہ یہ دیکھو تمہاری فوج شکست کھا گئی ہے کیونکہ یہ اسی قابل تھی۔ ہمارے بعض

بھائی مصر کی امارت پر قابض ہونے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ وہ سب سے پہلے فوج کو قوم کی نظروں میں رسوا اور ذلیل کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ من مانی کرسکیں۔ مجھے امارت کے ساتھ چپکے رہنے کی کوئی خواہش نہیں اگر میرے مخالفین میں سے کوئی مجھے یہ یقین دلا دے کہ وہ میرے عزم کو پایۂ تکمیل تک پہنچائے گا تو میں اس کی فوج میں سپاہی بن کر رہوں گا مگر ایسا کون ہے؟ یہ لوگ اپنی باقی زندگی بادشاہ بن کر گزارناچاہتے ہیں، خواہ دشمن کے ساتھ سازباز کرکے بادشاہی ملے اور میں اپنی زندگی میں قوم کو اس مقام پر لانا چاہتا ہوں، جہاں وہ اپنے دین کے دشمنوں کے سرپر پائوں رکھ کر بادشاہی کرے۔ ہمارے ان لالچی اور غدار حاکموں کی نظر اپنے حال پر اپنے آج پر ہے۔ میری نظر قوم کے مستقبل پر ہے''۔

اس نے بولتے بولتے توقف کیا اور کہا… ''میرا گھوڑا فوراً تیار کرو''… اس نے ان افراد کے نام لیے جنہیں اس کے ساتھ جانا تھا۔ اس نے کہا … ''نہایت خاموشی سے ان سب کو بلائو اور انہیں قاہرہ چلنے کے لیے کہو۔ میرا خیمہ یہیں لگا رہنے دو تاکہ کسی کو شک نہ ہو کہ میں یہاں نہیں ہوں''… اس نے گہرا سانس لیا اور کہا… ''میں آپ کو سختی سے ذہن نشین کراتا ہوں کہ جو فوج بغاوت کے لیے تیار ہے، میں اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کروں گا۔ تم میں سے کوئی بھی اس فوج کے خلاف کدورت نہ رکھے۔ اسی طرح اپنے نوجوانوں کو بھی قابل نفرت نہ سمجھنا۔ میں ان کے خلاف کارروائی کروں گا جو فوج اور قوم کو گمراہ اور ذلیل کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ یہی فوج جب اپنے دشمن کے سامنے آئے گی اور دشمن اس کا تیروں سے استقبال کرے گا تو فوج کو یاد آئے گا کہ وہ اللہ کی فوج ہے۔ دماغ سے بغاوت کے کیڑے نکل جائیں گے۔ آپ جب اپنے بچوں کو اپنے دین کا دشمن دکھائیں گے تو ان کا ذہن ازخود جوئے سے ہٹ کر جہاد کی طرف آجائے گا۔ میں آپ کو صاف الفاظ میں بتا دیتا ہوں کہ اسلام اور سلطنت اسلامیہ کی بقاء اور وقار فوج کے بغیر ممکن نہیں۔ میں صلیبیوں اور یہودیوں کے عزائم اور ان کے طرز جنگ اور ان کی زمین دوز کارروائیوں کو دیکھ کر کہہ سکتا ہوں کہ وہ اسلام کی فوج کو کمزور کرکے اسلام کا خاتمہ کریں گے جس رو زاور جس دور میں کسی بھی مسلمان ملک کی فوج کمزور ہوگئی، وہ ملک اپنی آزادی اور اپنا وقار کھو بیٹھے گا۔ کسی بھی دور میں کوئی مسلمان مملکت مضبوط اور باوقار فوج کے بغیر زندہ نہیں رہ سکے گی۔ ہمارا آج کا غلط اقدام اسلام کے مستقبل کو تاریک کردے گا۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ آنے والی نسلیں ہماری لغزشوں، ناکامیوں اور کامیابیوں سے فائدہ اٹھائیں گی یا نہیں''۔

''امیرمصر!''… ایک مشیر نے کہا… ''اگر ہمارے بھائی غداری کے فن میں ہی مہارت حاصل کرتے رہے تو آنے والی نسلیں غلام ہوں گی۔ انہیں معلوم ہی نہیں ہوگا کہ آزادی کسے کہتے ہیں اور قومی وقار کیا ہے۔ کیا ہمارے پاس اس کا کوئی علاج ہے؟''

''قوم کا ذہن بیدار کرو''… سلطان ایوبی نے کہا… ''قوم کو رعایا نہ کہو، قوم کا ہر فرد اپنی جگہ بادشاہ ہوتا ہے۔ کسی بھی فرد کو قومی وقار سے محروم نہ کرو۔ ہمارے امراء اور حاکموں میں چونکہ بادشاہ اور خلیفہ بننے کا جنون سوار ہے۔ اس لیے وہ قوم کو رعایا بنا کر اسے اپنے اقتدار کے استحکام کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ یاد رکھو، قوم جسموں کا مجموعہ نہیں، جسے تم مویشیوں کی طرح ہانگتے پھرو۔ قوم میں دماغ بھی ہے، روح بھی ہے اور قومی وقار بھی ہے۔ قوم کی ان خوبیوں کو ابھارو تاکہ قوم خود سوچے کہ اچھا کیا اور برا کیا ہے۔ اچھا کون اور برا کون ہے۔ اگر قوم محسوس کرے کہ صلاح الدین ایوبی سے بہتر امیر موجود ہے جو سلطنت اسلامیہ کے تحفظ کے ساتھ اسے سمندروں سے پار بھی وسعت دے سکتا ہے تو قوم کا کوئی بھی فرد مجھے راستے میں روک لے اور جرأت سے کہے کہ صلاح الدین ایوبی! تم یہ مسند خالی کردو، ہم نے تم سے بہتر آدمی ڈھونڈ لیا ہے۔

قوم میں یہ سوچ بھی اور جرأت بھی اور مجھ میں فرعونیت نہ ہو کہ اپنے خلاف بات کرنے والے کی گردن مار دوں۔ مجھے یہی خطرہ نظر آرہا ہے کہ ملت اسلامیہ ایسے ہی فرعونوں کی نذر ہوجائے گی۔ قوم کو رعایا اور مویشی بنادیا جائے گا پھر مسلمان مسلمان نہیں رہیں گے یا برائے نام مسلمان ہوں گے۔ مذہب تو شاید ان کا یہی رہے گا مگر تہذیب وتمدن صلیبیوں کا ہوگا''۔

اتنے میں ایک محافظ نے اندر آکر بتایا کہ گھوڑا تیار ہے اور جن تین چار نائب سالاروں کو بلایا گیا تھا، وہ بھی آگئے ہیں۔ سلطان ایوبی نے اپنے ساتھ چار محافظ لیے۔ باقی محافظ دستے سے کہا کہ وہ اس کے خالی خیمے پر پہرہ دیتے رہیں اور کسی کو پتا نہ چلنے دیں کہ وہ یہاں نہیں ہے۔ اس نے اپنے ساتھ جانے والے عملے سے کہا کہ وہ خاموشی سے فلاں جگہ پہنچ جائیں، وہ ان سے آملے گا۔ اس نے اپنا قائم مقام مقرر کیا اور باہر نکل گیا

٭ ٭ ٭

صحرا تاریک تھا۔ چودہ گھوڑے سرپٹ دوڑے جارہے تھے۔ صلاح الدین ایوبی تاریکی چھٹنے سے پہلے قاہرہ پہنچ جانا چاہتا تھا۔ علی بن سفیان کو اس نے اپنے ساتھ رکھا تھا۔ اس کی فوج پڑائو میں گہری نیند سوگئی تھی۔ جاگنے والے سنتریوں کو بھی علم نہیں ہوسکتا تھا کہ ان کا سالار اعلیٰ نکل گیا ہے۔ قاہرہ والوں کے تو وہم وگمان میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ سلطان ایوبی مصر میں داخل ہوچکا ہے… رات کا پچھلا پہر تھا، جب سلطان ایوبی کا قافلہ قاہرہ میں داخل ہوا۔ اسے کسی سنتری نے نہ روکا، وہاں کوئی سنتری تھا ہی نہیں۔ سلطان ایوبی نے اپنے ساتھیوں سے کہا… ''یہ ہے بغاوت کی ابتدائ۔ شہر میں کوئی سنتری نہیں۔ فوج سوئی ہوئی ہے، بے پروا، بے نیاز، حالانکہ ہم دو محاذوں پر لڑ رہے ہیں اور دشمن کے حملے کا خطرہ ہر لمحہ موجود ہے''۔

اپنے ٹھکانے پر پہنچتے ہی ایک لمحہ آرام کیے بغیر اس نے مصر کے قائم مقام سالار اعلیٰ کو بلا لیا۔ الادریس کو بھی بلا لیا جس کے دونوں جوان بیٹوں کو غداروں نے دھوکے میں ایک دوسرے کے ہاتھوں قتل کرادیا تھا۔ قائم مقام سالار اعلیٰ سلطان ایوبی کو دیکھ کر گھبرا گیا۔ سلطان ایوبی نے الادریس سے افسوس کا اظہار کیا۔ الادریس نے کہا… ''میرے بیٹے میدان جنگ میں جانیں دیتے تو مجھے خوشی ہوتی۔ وہ دھوکے میں مارے گئے ہیں''… اس نے کہا… ''یہ وقت میرے بیٹوں کے ماتم کرنے کا نہیں، آپ نے مجھے کسی اور مقصد کے لیے بلایا تھا۔ حکم فرمائیں''۔

قائم مقام سالار اعلیٰ محب اسلام تھا۔ ان دونوں سے سلطان ایوبی نے قاہرہ کے اندرونی حالات کے متعلق تفصیلی رپورٹ لی اور پوچھا کہ ان کی نظر میں کون کون سے حاکم مشتبہ ہیں۔ وہ فوجی حکام کے متعلق خاص طور پر پوچھ رہا تھا۔ اسے چند ایک نام بتائے گئے۔ اس نے احکام دینے شروع کردیئے جن میں اہم یہ تھے کہ مشتبہ حکام کو قاہرہ میں مرکزی کمان میں رہنے دیا جائے اور تمام فوج کو سورج نکلنے سے پہلے کوچ کی تیاری میں جمع کرلیا جائے اور بھی بہت سی ہدایات دے کر سلطان ایوبی نے ایک پلان تیار کرنا شروع کردیا۔ کچھ ہدایات علی بن سفیان کو دے کر اسے فارغ کردیا۔ کچھ دیر بعد فوج کے کیمپ میں ہڑبونگ مچ گئی۔ فوج کو قبل از وقت جگا لیا گیا تھا۔ فوج اور انتظامیہ کے مشتبہ حکام کو صلاح الدین ایوبی کے ہیڈکوارٹر میں بلا لیا گیا تھا۔ وہ حیران تھے کہ یہ کیا ہوگیا ہے۔ انہیں اتنا ہی پتا چلا تھا کہ سلطان ایوبی آگیا ہے۔ انہوں نے اس کا گھوڑا بھی دیکھ لیا تھا لیکن انہیں سلطان ایوبی نظر نہیں آرہا تھا اور سلطان ایوبی انہیں ابھی ملنا بھی نہیں چاہتا تھا۔ اس نے انہیں کوچ تک فوج سے الگ رکھنے کا بندوبست کردیا تھا۔ یہی اس کا مقصد تھا۔

ابھی صبح کی روشنی صاف نہیں ہوئی تھی۔ فوج ترتیب سے کھڑی کردی گئی۔ پیادوں اور سواروں کی صفوں کے پیچھے رسد اور دیگر سامان سے لدے ہوئے اونٹ تھے۔ سلطان ایوبی نے فوج کو یہ ٹریننگ خاص طور پر دی تھی کہ جب بھی فوج کوچ کا حکم ملے تو فوج ایک گھنٹے کے اندر اندر مع رسد اور دیگر سامان کے قافلے کے ساتھ تیار ہوجائے۔ اسی ٹریننگ اور مشق کا کرشمہ تھا کہ فوج طلوع صبح کے ساتھ ہی کوچ کے لیے تیار ہوگئی تھی۔ سلطان ایوبی اپنے گھوڑے پر سوار ہوگیا۔ اس کے ساتھ مصر کا قائم مقام سالار اعلیٰ بھی تھا۔ سلطان ایوبی نے فوج کو ایک نظر دیکھا اور ایک صف کے سامنے سے گزرنے لگا۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی اور اس کے منہ سے باربار یہ الفاظ نکلتے تھے… ''آفرین، صد آفرین۔ اسلام کے پاسبانو تم پر اللہ کی رحمت ہو''… صلاح الدین ایوبی کی شخصیت کا اپنا ایک اثر تھا جسے ہر ایک سپاہی محسوس کررہا تھا۔ اس کے ساتھ اس کی مسکراہٹ اور دادو تحسین کے کلمے سپاہیوں پر اس اثر کو اور زیادہ گہرا کررہے تھے۔ امیر اور سالار اعلیٰ کا سپاہیوں کے اتنا قریب جانا ہی کافی تھا۔

تمام فوج کا معائنہ کرکے سلطان صلاح الدین ایوبی نے مکمل طور پر بلند آواز سے فوج سے خطاب کیا۔ اس وقت کی تحریروں میں اس کے جو الفاظ محفوظ ملتے ہیں وہ کچھ اس طرح تھے… ''اللہ کے نام پر کٹ مرنے والے مجاہدو! اسلام کی ناموس تمہاری تلواروں کو پکار رہی ہے۔ تم نے شوبک کا مضبوط قلعہ جو کفر کا سب سے زیادہ مضبوط مورچہ تھا، ریت کا ٹیلہ سمجھ کر توڑ ڈالا تھا۔ تم نے صلیبیوں کو صحرائوں میں بکھیر کر مارا اور جنت الفردوس میں جگہ بنا لی ہے۔ تمہارے ساتھ، تمہارے عزیز دوست تمہارے سامنے شہید ہوئے۔ تم نے انہیں اپنے ہاتھوں سے دفن کیا۔ ان چھاپہ مار شہیدوں کو یاد کرو جو دشمن کی صفوں کے پیچھے جاکر شہید ہوئے۔ تم ان کا جنازہ نہ پڑھ سکے۔ ان کی لاشیں بھی نہ دیکھ سکے۔ تم تصور کرسکتے ہو کہ دشمن نے ان کی لاشوں کے ساتھ کیا سلوک کیا ہوگا۔ شہیدوں کے یتیم بچوں کو یاد کرو۔ ان کی بیویوں کو یاد کرو جن کے سہاگ خدا کے نام پر قربان ہوگئے ہیں۔ آج شہیدوں کی روحیں تمہیں للکار رہی ہیں۔ تمہاری غیرت کو اور تمہاری مردانگی کو پکار رہی ہیں۔ دشمن نے کرک کے قلعے کو اتنا مضبوط کرلیا ہے کہ تمہارے کئی ساتھی دیواروں سے پھینکی ہوئی آگ میں جل گئے ہیں، تم اگر وہ منظر دیکھتے تو سرکی ٹکروں سے قلعے کی دیواریں توڑ دیتے۔ وہ آگ میں جلتے رہے اور دیوار میں شگاف ڈالنے کی کوشش کرتے رہے۔ موت نے انہیں مہلت نہ دی…''

''عظمت اسلام کے پاسبانو! کرک کے اندر تمہاری بیٹیوں اور تمہاری بہنوں کی عصمت دری ہورہی ہے۔ بوڑھوں سے مویشیوں کی طرح مشقت لی جا رہی ہے۔ جوانوں کو قید میں ڈال دیا گیا ہے۔ مائوں کو بچوں سے الگ کردیا گیا ہے مگر میں کہ جس نے پتھروں کے قلعے توڑے ہیں، مٹی کا قلعہ سر نہیں کرسکا۔ میری طاقت تم ہو، میری ناکامی تمہاری ناکامی ہے''… اس کی آواز اور زیادہ بلند ہوگئی۔ اس نے بازو اوپر کرکے کہا… ''میرا سینہ تیروں سے چھلنی کردو، میں ناکام لوٹا ہوں مگر میری جان لینے سے پہلے میرے کان میں یہ خوشخبری ضرور ڈالنا کہ تم نے کرک لے لیا ہے اور اپنی عصمت بریدہ بیٹیوں کو سینے سے لگا لیا ہے''۔

اس وقت کا ایک وقائع نگار الاسدی لکھتا ہے کہ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے گھوڑے اپنے سواروں کی جذباتی کیفیت کو سمجھتے تھے۔ سوار خاموش تھے لیکن کئی گھوڑے بڑی زور سے ہنہنائے، تڑاخ تڑاخ کی آوازیں سنائی دیں۔ سوار باگوں کو زور زور سے جھٹک کر اپنی بیتابی اورجذبہ انتقام کی شدت کا اظہار کررہے تھے۔ ان کی زبانیں خاموش تھیں۔ ان کے چہرے لال سرخ ہوکر ان کے جذبات کی ترجمانی کررہے تھے۔ سلطان ایوبی کے الفاظ تیروں کی طرح ان کے دلوں میں اترتے جارہے تھے۔ بغاوت کی چنگاریاں بجھ چکی تھیں۔ سلطان ایوبی کامقصد پورا ہورہا تھا۔

''سلطنت اسلامیہ کی عصمت کے محافظو! تم کفار کے لیے دہشت بن گئے ہو، تمہاری تلواروں کو کند کرنے کے لیے آج صلیبی اپنی بیٹیوں کی عصمت اور حشیش استعمال کررہے ہیں۔ تم نہیں سمجھتے کہ صلیبی اپنی ایک بیٹی کی عصمت لٹا کر ایک ہزار مجاہدین کو بے کار کردیتے ہیں اور اپنے علاقوں میں اپنی ایک بیٹی کے بدلے ہماری ایک ہزار بیٹیوں کو بے آبرو کرتے ہیں۔ تمہارے درمیان ایک فاحشہ عورت بھیج کر ہماری سینکڑوں بیٹیوں کو فاحشہ بنا لیتے ہیں۔ جائو اور اپنی بیٹیوں کی عصمتوں کو بچائو۔ تم کرک جارہے ہو جس کی دیواروں کے گھیرے میں قرآن کے ورق بکھرے ہوئے ہیں اور جہاں کی مسجدیں صلیبیوں کے لیے بیت الخلا بن گئی ہیں۔ وہ صلیبی جو تمہارے نام سے ڈرتے ہیں، آج تم پر قہقہے لگا رہے ہیں۔ شوبک تم نے لیا تھا اور کرک بھی تم ہی لوگے''۔

سلطان ایوبی نے فوج پر یہ الزام عائد نہیں کیا کہ وہ گمراہ ہوگئی ہے اور بغاوت پر آمادہ ہے۔ اس نے کسی کے خلاف شک وشبے کا اشارہ بھی نہیں کیا۔ اس کے بجائے فوج کے جذبے اور غیرت کو ایسا للکارا کہ فوج جو حیران تھی کہ اسے اتنی سویرے کیوں جگایا گیا ہے۔ اب اس پر حیران تھی کہ اسے کرک کی طرف کوچ کا حکم کیوں نہیں دیا جاتا۔ تمام تر فوج مشتعل ہوگئی تھی۔ سلطان ایوبی نے اعلیٰ اور ادنیٰ کمانڈروں کو بلایا اور انہیں کوچ کے متعلق ہدایات دیں۔ کوچ کے لیے کوئی اور راستہ بتایا۔ راستہ اس راستے سے بہت دور تھا جس پر محاذ کی فوج آرہی تھی۔ کوچ کرنے والی فوج کے ساتھ سلطان ایوبی نے اپنے وہ کمانڈر بھیج دیئے جنہیں وہ اپنے ساتھ لایا تھا۔ انہیں نے خفیہ طور پر ہدایات دے دی تھیں۔ فوج کو جب کوچ کا حکم ملا تو سپاہیوں کے نعرے قاہرہ کے درودیوار کو ہلانے لگے۔ سلطان ایوبی کا چہرہ جذبات کی شدت سے دمک رہا تھا۔

جب فوج اس کی نظروں سے اوجھل ہوگئی تو اس نے ایک قاصد کو پیغام دے کر اس پڑائو کی طرف روانہ کردیا جہاں محاذ سے آنے والی فوج رکی ہوئی تھی۔ قاصد کو بہت تیز جانے کو کہا گیا۔ پیغام یہ تھا کہ پیغام ملتے ہی فوج کو قاہرہ کے لیے کوچ کرادیا جائے۔ فاصلہ آٹھ دس میل تھا۔ قاصد جلدی پہنچ گیا۔ اسی وقت کوچ کا حکم مل گیا۔ غروب آفتاب کے بعد فوج کے ہر اول دستے قاہرہ میں داخل ہوگئے۔ ان کے پیچھے باقی فوج بھی آگئی۔ اسے رہائش کے لیے وہی جگہ دی گئی جہاں گزشتہ رات تک کوچ کرجانے والی فوج قیام پذیر تھی۔ سپاہیوں کو کمانڈروں نے بتانا شروع کردیا کہ پہلی فوج کو محاذ پر بھیج دیا گیا ہے۔ آنے والی فوج بھڑکی ہوئی تھی۔ علی بن سفیان نے انہیں ٹھنڈا کرنے کا انتظام کررکھا تھا۔ سلطان ایوبی نے دانشمندی سے فوجی بغاوت کا خطرہ بھی ختم کردیا اور خانہ جنگی کا امکان بھی نہ رہنے دیا۔ اس نے اعلیٰ کمانڈروں کو بلا لیا اور اس فوجی حاکم کو بھی بلایا جو سرحدی دستوں کا ذمہ دار تھا۔ اس نے یہ معلوم کرکے کہ سرحد پر کتنے دستے ہیں اور کہاں کہاں ہیں، اتنی ہی نفری کے دستے تیار کرکے علی الصبح مطلوبہ جگہوں کو بھیجنے کا حکم دیا۔ اسے بتایا جا چکا تھا کہ سرحدی دستے ملک سے غلہ اور فوجی ضروریات کا دیگر سامان باہر بھیجنے میں دشمن کی مدد کررہے ہیں۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے ان دستوں کے کمانڈروں کو خصوصی احکامات دئیے اور سرحد سے واپس آنے والے پرانے دستوں کے متعلق اس نے حکم دیا کہ انہیں قاہرہ میں لانے کے بجائے باہر سے ہی محاذ پر بھیج دیا جائے۔

٭ ٭ ٭
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: داستان ایمان فروشوں کی جلد‎ ‎دوم

Post by ایکسٹو »

وہ پراسرار غیب دان جس کے متعلق سرحد کے دیہاتی علاقوں میں مشہور ہوگیا تھا کہ آسمان سے آیا ہے، خدا کا دین لایا ہے اور مرے ہوئوں کو زندہ کرتا ہے، اپنے مصاحبوں کے قافلے کے ساتھ سفر کرتا تھا۔ جنہوں نے اسے دیکھا تھا وہ کہتے تھے کہ وہ بوڑھا نہیں، اس کی داڑھی بھورے رنگ کی اور چہرے کی رنگت گوری بتائی جاتی تھی۔ اس نے سر کے بال بڑھا رکھے تھے۔ لوگ بتاتے تھے کہ اس کی شربتی آنکھوں میں پورے چاند جیسی چمک ہے اور اس کے دانت ستاروں کی طرح سفید اور شفاف ہیں۔ اس کا قد اونچا اور جسم گٹھا ہوا بتایا جاتا تھا اور وہ بولتا تھا تو سننے والے مسحور ہوجاتے تھے۔ اس کے ساتھ بہت سے مصاحب اور بہت سے اونٹ تھے۔ سامان والے اونٹ الگ تھے جن میں سے بعض پر بڑے بڑے مٹکے لدے ہوتے تھے۔ اس کا قافلہ آبادی سے دور رکتا اور وہ وہیں لوگوں سے ملتا تھا۔ کسی آبادی میں نہیں جاتا تھا۔ وہ ایک جگہ سے کوچ کرتا تو اس کے آگے آگے کچھ لوگ اونٹ اور گھوڑے بھگا دیتے اور راستے میں آنے والے لوگوں اور بستیوں میں خبر کردیتے تھے کہ وہ آرہا ہے، یہ لوگ ہر کسی کو اس کی کرامات اور روحانی قوتوں کے کرشمے سناتے تھے۔ لوگ کئی کئی دن اس کے راستے میں بیٹھے رہتے تھے۔

جس رات علی بن سفیان صلاح الدین ایوبی کو بتا رہا تھا کہ محاذ سے قاہرہ کو جانے والی فوج مصر میں مقیم فوج کے خلاف مشتعل ہوگئی، اس رات وہ غیب دان قاہرہ سے بہت دور ایک نخلستان میں خیمہ زن ہوا۔ اس کا ایک اصول یہ تھا کہ چاندنی راتوں میں کسی سے نہیں ملتا تھا۔ دن کے دوران کسی کے ساتھ بات نہیں کرتا تھا۔ اندھیر راتیں اسے پسند تھیں۔ اس کی محفل ایسی قندیلوں سے روشن ہوتی تھی جن میں سے ہر ایک کا رنگ دوسری سے مختلف تھا۔ ان روشنیوں کا بھی ایک تاثر تھا جو حاضرین محفل کے لیے طلسماتی تھا۔ وہ جہاں خیمہ زن ہوا تھا اس کے کچھ دور ایک بستی تھی جس میں زیادہ تر مسلمان اور کچھ سوڈانی حبشی رہتے تھے۔ اس بستی میں ایک مسجد بھی تھی جہاں کا امام ایک خاموش طبیعت انسان تھا۔ ایک جواں سال آدمی کوئی ڈیڑھ دو مہینوں سے اس کے پاس دینی تعلیم حاصل کرنے آیا کرتا تھا۔ یہ آدمی جو اپنا نام محمود بن احمد بتاتا تھا کسی دوسری بستی سے مسجد میں جایا کرتاتھا۔ اس کی دلچسپی امام مسجد اور اس کے علم کے ساتھ تھی مگر اس کی ایک دلچسپی اور بھی تھی۔ یہ ایک جوان لڑکی تھی جس نے اسے اپنا نام سعدیہ بتایا تھا۔ سعدیہ کو محمود اتنا اچھا لگا کہ وہ اسے کئی بار اپنی بکریوں کا دودھ پلا چکی تھی۔

ان کی پہلی ملاقات بستی سے دور ایک ایسی جگہ ہوئی تھی جہاں سعدیہ اپنی چار بکریاں اور دو اونٹ چرانے اور انہیں پانی پلانے کے لیے لے گئی تھی۔ محمود وہاں پانی پینے کے لیے رکا تھا۔ سعدیہ نے اس سے پوچھا تھا کہ کہاں سے آیا ہے اور کہاں جارہا ہے؟ محمود نے کہا تھا کہ نہ کہیں سے آرہا ہوں، نہ کہیں جارہا ہوں۔ سعدیہ سادگی سے ہنس پڑی تھی۔ جواب ہی کچھ ایسا تھا۔ سعدیہ نے محمود سے قدرتی سا سوال پوچھا… ''مسلم یا سوڈانی؟''… محمود نے جواب دیا کہ وہ مسلمان ہے تو سعدیہ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی تھی۔ محمود نے اسے اپنا صحیح ٹھکانہ نہیں بتایا تھا۔ اس کے ساتھ کچھ ایسی باتیں کیں جو سعدیہ کو اچھی لگی تھیں۔ سعدیہ اس سے سوڈان کی جنگ کے متعلق پوچھنے لگی۔ اس کے انداز سے پتا چلتا تھا کہ اسے اسلامی فوج کے ساتھ دلچسپی ہے۔ اس نے جب صلاح الدین ایوبی کے متعلق پوچھا تو محمود نے اس کی ایسی تعریفیں کیں جیسے سلطان صلاح الدین ایوبی انسان نہیں، خدا کا اتارا ہوا فرشتہ ہے۔ سعدیہ نے پوچھا… ''کیا صلاح الدین

ایوبی اس سے زیادہ مقدس اور برگزیدہ ہے جو آسمان سے اترا ہے اور مرے ہوئوں کو زندہ کردیتا ہے؟''

''صلاح الدین ایوبی مرے ہوئوں کو زندہ نہیں کرسکتا''۔ محمود نے جواب دیا۔

''ہم نے سنا ہے کہ جو لوگ زندہ ہوتے ہیں، انہیں صلاح الدین ایوبی مار ڈالتا ہے''۔ سعدیہ نے شکی لہجے میں کہا… ''لوگ یہ بھی بتاتے ہیں کہ وہ مسلمان ہے اور ہماری طرح کلمہ اور نماز پڑھتا ہے؟''

''تمہیں کس نے بتایا ہے کہ وہ لوگوں کو مار ڈالتا ہے؟''

''ہمارے گائوں میں سے مسافر گزرتے رہتے ہیں اور وہ بتا جاتے ہیں کہ صلاح الدین ایو بی بہت برا آدمی ہے''۔ سعدیہ نے کہا۔

''تمہاری مسجد کا امام کیا بتاتا ہے؟'' محمود نے بتایا۔

''وہ بہت اچھی باتیں بتاتا ہے''۔ سعدیہ نے کہا… ''وہ سب کو کہتا ہے کہ صلاح الدین ایوبی اسلام کی روشنی سارے مصر اور سوڈان میں پھیلانے آیا ہے اور اسلام ہی خدا کا سچا دین ہے''۔

محمود اس کے ساتھ اسی موضوع پر باتیں کرتا رہا تھا۔ سعدیہ سے اسے پتا چلا کہ اس کے گائوں میں ایسے آدمی آتے رہتے ہیں جو اپنے آپ کو مسلمان بتاتے ہیں مگر باتیں ایسی کرتے ہیں کہ کئی لوگوں کے دلوںمیں اسلام کے خلاف شکوک پیدا ہوگئے ہیں۔ محمود نے سعدیہ کے شکوک رفع کردیئے اور اپنی ذات، میٹھی زبان اور شخصیت کا اس پر ایسا اثر پیدا کیا کہ سعدیہ نے بیتابی سے کہا کہ وہ اکثر یہیں بکریاں چرانے آیا کرتی ہے اور محمود جب کبھی ادھر سے گزرے تو اسے ضرور ملے۔ محمود اسے جذبات اور حقائق کے درمیان بھٹکتا چھوڑ کر اس کے گائوں کی طرف چلا گیا۔ سعدیہ یہ سوچتی رہ گئی کہ وہ کون ہے؟ کہاں سے آیا ہے؟ اور کہاں جارہا ہے؟ اس کا لباس اسی علاقے کا تھا مگر اس کی شکل وصورت اور اس کی باتیں بتاتی تھیں کہ وہ اس علاقے کا رہنے والا نہیں… سعدیہ کے شکوک صحیح تھے۔ محمود بن احمد دیہاتی علاقے کا رہنے والا نہیں تھا۔ سکندریہ شہر کا باشندہ تھا اور علی بن سفیان کی داخلی جاسوسی )انٹیلی جنس( کا ایک ذہین کارکن تھا۔ وہ کئی مہینوں سے اپنے فرض کی ادائیگی کے لیے سرحدی دیہات میں گھوم پھر رہا تھا۔ اس نے کھانے پینے اور رہنے کا انتظام خفیہ رکھا ہوا تھا۔ اس کے ساتھ چند اور جاسوس بھی تھے جو اس علاقے میں پھیلے ہوئے تھے۔ وہ کبھی کبھی اکٹھے ہوتے اور ان کے جو مشاہدات ہوتے تھے، وہ اپنے کسی ایک ساتھی کے سپرد کرکے اسے قاہرہ بھیج دیتے تھے۔ اس طرح علی بن سفیان کے شعبے کو پتا چلتا رہتا تھا کہ سرحدی علاقے میں کیا ہورہا ہے۔

محمود بن احمد کو سعدیہ مل گئی تو اس نے اس لڑکی کے ساتھ بھی ایسی باتیں کیں جن سے اسے گائوں اور گردوپیش کے علاقے کے لوگوں کے خیالات کا علم ہوسکتا تھا۔ اس نے سعدیہ کے گائوں کی مسجد کے امام کے متعلق خاص طور پر پوچھا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ دو گائوں میں اس نے ایسے امام مسجد دیکھے تھے جو اسے مشکوک سے لگتے تھے۔ وہاں کے لوگوں سے اسے پتا چلا تھا کہ یہ دونوں امام نئے نئے آئے ہیں۔ اس سے پہلے ان مسجدوں میں امام تھے ہی نہیں۔ دونوں جہاد کے خلاف وعظ سناتے اور قرآن کی آیات پڑھ کر غلط تفسیریں بیان کرتے تھے اور یہ دونوں پراسرار غیب دان کو برحق بتاتے اور لوگوں میں اس کی زیارت کا اشتیاق پیدا کرتے تھے۔ محمود اور اس کے دو ساتھیوں نے ان دونوں اماموں کے متعلق رپورٹ قاہرہ کو بھیج دی تھی اور اب وہ سعدیہ کے گائوں جارہا تھا۔ اسے یہ سن کر بہت خوشی ہوئی تھی کہ اس گائوں کا امام سلطان ایوبی کا مرید اور اسلام کا علمبردار ہے۔ اس نے اسی مسجد کو اپنا ٹھکانہ بنانے کا فیصلہ کر لیا -

وہ مسجد میں گیا اور امام سے ملا۔ اپنا جھوٹا تعارف کراکے اس نے کہا کہ وہ مذہبی علم کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہے۔ امام نے اسے تعلیم دینے کا وعدہ کیا اور اسے مسجد میں رہنے کی پیشکش کی۔ محمود مسجد میں قید نہیں ہونا چاہتا تھا۔ اس نے امام سے کہا کہ وہ دوتین روز بعد اپنے گھر جایا کرے گا۔ اس نے امام کو بھی اپنا نام نہیں بتایا تھا۔ امام نے اس سے نام پوچھا تو اس نے کچھ اور نام بتادیا۔ یہ پوچھا کہ وہ کہاں کا رہنے والا ہے تو اس نے اور کسی سرحدی گائوں کا نام بتا دیا۔ امام مسکرایا اور آہستہ سے بولا… ''محمود بن احمد! مجھے خوشی ہوئی ہے کہ تم اپنے فرائض سے بے خبر نہیں۔ سکندریہ کے مسلمان فرض کے پکے ہوتے ہیں''۔

محمود ایسا چونکا جیسے بدک اٹھا ہو۔ وہ سمجھا کہ یہ امام صلیبیوں کا جاسوس ہے لیکن امام نے اسے زیادہ دیر تک شک میں نہ رہنے دیا اور کہا… ''میں محسوس کرتا ہوں کہ مجھے کم از کم تمہارے سامنے اپنے آپ کو بے نقاب کردینا چاہیے۔ میں تمہارے ہی محکمے کا آدمی ہوں۔ میں تمہارے تمام ساتھیوں کو جو اس علاقے میں ہیں، جانتا ہوں۔ مجھے تم میں سے کوئی بھی نہیںجانتا۔ میں محترم علی بن سفیان کے اس عملے کا آدمی ہوں جو دشمن پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے جاسوسوں پر بھی نظر رکھتا ہے۔ میں امام بن کر جاسوسی کا کام کررہا ہوں''۔

''پھر میں آپ کو دانشمند آدمی نہیں کہوں گا؟''۔ محمود بن احمد نے کہا… ''آپ نے جس طرح میرے سامنے اپنے آپ کو بے نقاب کیا ہے، اس طرح آپ دشمن کے کسی جاسوس کے سامنے بھی بے نقاب ہوسکتے ہیں''۔

''مجھے یقین تھا کہ تم میرے آدمی ہو''۔ امام نے کہا… ''ضرورت ایسی آپڑی ہے کہ تمہیں اپنا اصلی روپ بتانا ضروری سمجھا۔ میرے ساتھ دو محافظ ہیں جو یہاں کے باشندوں کے بہروپ میں گائوں میں موجود رہتے ہیں۔ مجھے زیادہ آدمیوں کی ضرورت ہے۔ اچھا ہوا کہ تم آگئے ہو۔ اس گائوں میں دشمن کے تخریب کار آرہے ہیں۔ تم نے اس آدمی کے متعلق سنا ہوگا جس کے متعلق مشہور ہوگیا ہے کہ وہ مستقبل کے اندھیرے کی خبر دیتا ہے اور مرے ہوئوں کو زندہ کرتا ہے۔ یہ گائوں بھی اس کی ان دیکھی کرامات کی زد میں آگیاہے۔ میں نے گائوں والوں کو شروع میں بتایا تھا کہ یہ سب جھوٹ ہے اور لاشوں میں کوئی انسان جان نہیں ڈال سکتا مگر اس کی شہرت کا جادو اتنا سخت ہے کہ لوگ میرے خلاف ہونے لگے ہیں۔ میں سنبھل گیا کیونکہ میں اس مسجد سے نکلنا نہیں چاہتا۔ مجھے ایک اڈے اور ٹھکانے کی ضرورت ہے۔ یہاں کے گمراہ کیے ہوئے لوگوں کو اسلام کا سیدھا راستہ بھی دکھانا ہے۔ پندرہ بیس روز گزرے، رات کو دو آدمی میرے پاس آئے۔ میں اکیلا تھا۔ ان دونوں کے چہروں پر نقاب تھے۔ انہوں نے مجھے دھمکی دی کہ میں یہاں سے چلا جائوں۔ میں نے انہیں کہا کہ میرا اور کوئی ٹھکانہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہاں رہنا چاہتے ہو تو درس بند کردو اور اس کی باتیں کرو جو آسمان سے آیا ہے اور خدا کا سچا مذہب لایا ہے۔ میں دونوں کا مقابلہ کرسکتا تھا۔ ہتھیار ہر وقت اپنے پاس رکھتا ہوں لیکن میں لڑ کر قتل کرکے یا قتل ہوکر اپنا فرض پورا نہیں کرسکتا تھا۔ میں نے عقل سے کام لیا اور انہیں یہ تاثر دیا کہ آج سے وہ مجھے اپنا آدمی سمجھیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر وہ ان کی باتوں پر عمل کرے گا تو اسے ایک انعام یہ ملے گا کہ اسے قتل نہیں کیا جائے گا اور دوسرا یہ کہ اسے اشرفیاں دی جائیں گی''۔

''پھر آپ نے اپنے وعظ اور خطے کا رنگ بدل دیا ہے؟'' محمود نے پوچھا۔

''کسی حد تک''۔ امام نے جواب دیا… ''میں اب دونوں قسم کی باتیں کرتا ہوں۔ مجھے اشرفیوں کی نہیں۔ اپنی جان کی ضرورت ہے۔ میں اپنا فرض ادا کیے بغیر مرنا نہیں چاہتا۔ میں گائوں سے باہر جاکر تمہیں یا تمہارے کسی ساتھی کو ڈھونڈنا بھی نہیں چاہتا کیونکہ اس کی جان بھی خطرے میں پڑ جاتی۔ خدا نے خود ہی تمہیں میرے پاس بھیج دیا ہے۔ میرے

محافظ اس رات میرے پاس نہیں تھے۔ اب تم ہی میرے ساتھ رہو۔ تم میرے شاگرد کی حیثیت سے میرے ساتھ رہوگے۔ تم سیدھی سادی گنواروں کی سی باتیں کیا کرنا۔ گائوں میں چار پانچ آدمی ایسے ہیں جو ہمارا ساتھ دے سکتے ہیں۔ اگر ہمیں قریب کوئی سرحدی دستہ مل جائے تو ہمارا مقصد پورا ہوسکتا ہے مگر ہمارے سرحدی دستوں کے کسی کمان دار پر بھروسہ کرنا بڑا خطرناک ہے۔ دشمن نے اشرفیوں اور عورتوں سے انہیں اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔ وہ تنخواہ ہمارے خزانے سے لیتے اور کام دشمن کا کرتے ہیں''۔

محمود بن احمد اس کے پاس رک گیا۔ اسی روز امام نے اسے اپنے دونوں محافظوں سے ملا دیا۔

شام کو جب سعدیہ مسجد میں امام کے لیے کھانا لے کر آئی تو محمود کو دیکھ کر ٹھٹھک گئی اور مسکرائی۔ محمود نے پوچھا… ''میرے لیے کھانا نہیں لائو گی؟'' سعدیہ کھانا امام کے حجرے میں رکھ کر دوڑی گئی اور روٹی کے ساتھ ایک پیالے میں بکریوں کا دودھ بھی لے آئی۔ وہ چلی گئی تو امام نے محمود سے کہا… ''یہ علاقے کی سب سے زیادہ خوبصورت لڑکی ہے۔ ذہین بھی ہے اور کم عمر بھی۔ اس کا سودا ہورہا ہے''۔

''سودا یا شادی؟''

''سودا''… امام نے کہا… ''تم جانتے ہو کہ ان لوگوں کی شادی دراصل سودا ہوتا ہے مگر سعدیہ کا سیدھا سودا ہورہا ہے۔ ہمیں اس کے متعلق پریشان نہیں ہونا چاہیے تھا لیکن خریدار مشکوک لوگ ہیں۔ وہ یہاں کے رہنے والے نہیں۔ یہ وہی لوگ معلوم ہوتے ہیں جو مجھے دھمکی دے گئے ہیں۔ تم اچھی طرح سمجھ سکتے ہو کہ وہ اس لڑکی کو اپنے رنگ میں رنگ کر ہمارے خلاف استعمال کریں گے۔ اس لیے اسے بچانا ضروری ہے اور اس لیے بھی اسے بچانا ضروری ہے کہ یہ لڑکی مسلمان ہے۔ ہمیں سلطنت کے ساتھ ساتھ سلطنت کی بچیوں کی عصمت کی حفاظت بھی کرنی ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ سودا نہیں ہوسکے گا۔ سعدیہ کے باپ کو میں نے اپنا مرید بنا رکھا ہے لیکن وہ غریب اور تنہا آدمی ہے اور رسم ورواج سے بھاگ بھی نہیں سکتا۔ بہرحال سلطنت اور سعدیہ کی عصمت کے محافظ ہمارے سوا اور کوئی نہیں''۔

اس کے بعد محمود امام کا شاگرد بن گیا۔ دن گزرنے لگے اور اس کی ملاقاتیں سعدیہ کے ساتھ ہونے لگیں۔ لڑکی چراگاہ میں چلی جاتی اور محمود وہاں پہنچ جاتا تھا۔ ان کی بے تکلفی بڑھ گئی تو محمود نے سعدیہ سے پوچھا کہ وہ کون لوگ ہیں جو اسے خریدنا چاہتے ہیں۔ سعدیہ انہیں نہیں جانتی تھی۔ اس کے لیے وہ اجنبی تھے۔ انہوں نے اس طرح آکر دیکھا تھا جس طرح گائے، بھینس کو خریدنے سے پہلے دیکھا جاتا ہے۔ سعدیہ کو اچھی طرح معلوم تھا کہ وہ کسی کی بیوی نہیں بنے گی۔ اسے عرب کا کوئی دولت مند تاجر یا کوئی امیر یا وزیز اپنے حرم میں رکھ کر قید کرلے گا۔ جہاں وہ اپنا گھر بسائے بغیر بوڑھی ہوکر مر جائے گی یا اسے ناچنا سکھا کر تفریح کی چیز بنا لیا جائے۔ اس نے اپنے گائوں کے فوجیوں سے ایسی لڑکیوں کے بہت قصے سنے تھے۔ وہ اتنے پسماندہ علاقے میں رہتے ہوئے بھی ذہین تھی اور اپنا برا بھلا سوچ سکتی تھی۔ اس نے محمود کو دیکھا تو اسے دل میں بٹھا لیا اور اس نے جب یہ دیکھا کہ محمود اسے چاہنے لگا ہے تو اس نے دل میں یہ ارادہ پختہ کرلیا کہ وہ فروخت نہیں ہوگی۔ وہ جانتی تھی کہ خریداروں سے بچنا اس کے لیے ممکن نہیں۔ ایک روز اس نے محمود سے پوچھا… ''تم مجھے خرید نہیں سکتے؟''

''خرید سکتا ہوں''… محمود نے کہا… ''لیکن میں جو قیمت دوں گا وہ تمہارے باپ کو منظور نہیں ہوگی''۔

''کتنی قیمت دوگے؟''

''میرے پاس دینے کے لیے اپنے دل کے سوا کچھ بھی نہیں''… محمود بن احمد نے جواب دیا… ''معلوم نہیں تم

دل کی قیمت جانتی ہو یا نہیں''۔

''اگر تمہارے دل میں میری محبت ہے تو میرے لیے یہ قیمت بہت زیادہ ہے''… سعدیہ نے کہا… ''تم ٹھیک کہتے ہو کہ میرے باپ کو یہ قیمت منظور نہیں ہوگی لیکن میں تمہیں یہ بتا دوں کہ میرا باپ مجھے بیچنا بھی نہیں چاہتا، اس کی مجبوری یہ ہے کہ وہ غریب ہے اور اکیلا ہے۔ میراکوئی بھائی نہیں، میرے خریداروں نے میرے باپ کو دھمکی دی ہے کہ اس نے ان کی قیمت قبول نہ کی تو وہ مجھے اغوا کرلیں گے''۔

''تمہارا باپ اتنی زیادہ قیمت کیوں قبول نہیں کرتا؟''… محمود نے پوچھا… ''لڑکیوں کو بیچنے کا تو یہاں رواج ہے''۔

''باپ کہتا ہے کہ وہ لوگ مسلمان نہیں لگتے''… سعدیہ نے کہا… ''میں نے بھی باپ سے کہہ دیا ہے کہ میں کسی غیرمسلم کے پاس نہیں جائوں گی''… اس نے بیتاب ہوکر کہا… ''تم اگر مجھے اپنے ساتھ لے جانے کے لیے تیار ہوتو میں ابھی تمہارے ساتھ چل پڑوں گی''۔

''میں تیار ہوں''… محمود نے کہا۔

''توچلو''… سعدیہ نے کہا… ''آج ہی رات چلو''۔

''نہیں''… محمود کے منہ سے نکل گیا… ''میں اپنا فرض پورے کیے بغیر کہیں بھی نہیں جاسکتا''۔

''کیسا فرض؟''… سعدیہ نے پوچھا۔

محمود بن احمد چونکا۔ وہ سعدیہ کو نہیں بتا سکتا تھا کہ اس کا فرض کیا ہے۔ اس نے منہ سے نکلی ہوئی بات پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی مگر سعدیہ اس کے پیچھے پڑ گئی۔ محمود کو اچانک یاد آگیا۔ اس نے کہا … ''میں امام سے مذہبی تعلیم لینے آیا ہوں۔ اس کی تکمیل کے بغیر میں کہیں نہیں جائوں گا''

''اس وقت تک مجھے معلوم نہیں کہاں پہنچا دیا جائے گا''… سعدیہ نے کہا۔

محمود فرض کو ایک لڑکی پر قربان کرنے پر آمادہ نہ ہوسکا۔ اس کے دل میں یہ شک بھی پیدا ہوا کہ یہ لڑکی دشمن کی جاسوس بھی ہوسکتی ہے جسے اسے بے کار کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ لہٰذا اس نے سعدیہ کے متعلق چھان بین کرنا ضروری سمجھا۔

٭ ٭ ٭

صلاح الدین ایوبی کی فوج قاہرہ سے آٹھ دس میل دور تھی۔ اسے بتا دیا گیا تھا کہ فوج مشتعل ہے اور مصر کی فوج پر ٹوٹ پڑے گی۔ سلطان ایوبی نے وہاں پڑائو کا حکم دے دیا اور سپاہیوں میں گھومنے پھرنے لگا۔ وہ خود سپاہیوں کے جذبات کا جائزہ لینا چاہتا تھا۔ وہ ایک سوار کے پاس رکا تو کئی سوار اور پیادہ اس کے گرد جمع ہوگئے۔ اس نے ان کے ساتھ غیرضروری سی باتیں کیں تو ایک سوار بول پڑا۔ اس نے پوچھا… ''گستاخی معاف سالاراعظم! یہاں پڑائو کی ضرورت نہیں تھی۔ ہم شام تک قاہرہ پہنچ سکتے تھے''۔

''تم لوگ لڑتے لڑتے آئے ہو''… سلطان ایوبی نے کہا… ''میں تمہیں اس کھلے صحرا میں آرام دینا چاہتا ہوں''۔

''ہم لڑتے آئے ہیں اور لڑنے جارہے ہیں''… سوار نے کہا۔

''لڑنے جارہے ہیں؟''… سلطان ایوبی نے انجان بنتے ہوئے پوچھا… ''میں تو تمہیں قاہرہ لے جارہا ہوں، جہاں تم اپنے دوستوں سے ملوگے''۔

''وہ ہمارے دشمن ہیں''… سوار نے کہا… ''اگر یہ سچ ہے کہ ہمارے دوست بغاوت کرنے پر تلے ہوئے ہیں تو وہ ہمارے دشمن ہیں''۔

''صلیبیوں سے بدترین دشمن''… ایک اور سپاہی نے کہا۔

''کیا یہ سچ نہیں سالاراعظم کہ قاہرہ میں غداری اور بغاوت ہورہی ہے؟''… کسی اور نے پوچھا۔

''کچھ گڑبڑ سنی ہے''… سلطان ایوبی نے کہا… ''میں مجرموں کو سزا دوں گا''۔

''آپ پوری فوج کو کیا سزا دیں گے؟''… ایک سوار نے کہا… ''سزا ہم دیں گے، ہمیں کمان داروں نے قاہرہ کے سارے حالات بتا دیئے ہیں۔ ہمارے ساتھی شوبک اور کرک میں شہید ہوئے ہیں۔ دونوں شہروں کے اندر ہماری بیٹیوں اور بہنوں کی عصمت دری ہوئی ہے اور کرک میں ابھی تک ہورہی ہے۔ ہمارے ساتھی قلعے کی دیواروں سے دشمن کی پھینکی ہوئی آگ میں زندہ جل گئے ہیں۔ قبلہ اول پر کافروں کا قبضہ ہے اور ہماری فوج قاہرہ میں بیٹھی عیش کررہی ہے۔ آپ کے خلاف بغاوت کی تیاری کررہی ہے، جنہیں شہیدوں کا پاس نہیں، اپنی بیٹیوں کی عصمتوں کا خیال نہیں، انہیں زندہ رہنے کا بھی حق نہیں۔ ہم جانتے ہیں وہ اسلام کے دشمن کے دوست بن گئے ہیں۔ ہم جب تک غداروں کی گردنیں اپنے ہاتھوں نہیں کاٹیں گے ہمیں شہیدوں کی روحیں معاف نہیں کریں گے۔ ذرا ان زخمیوں کودیکھئے، جنہیں ہم اپنے ساتھ لارہے ہیں کسی کی ٹانگ نہیں، کسی کا بازو نہیں۔ کیا یہ اس لیے ساری عمر کے لیے اپاہج ہوگئے ہیں کہ ہمارے ساتھی اور ہمارے دوست دشمن کے ہاتھ میں کھیلیں؟''۔

''ہم انہیں اپنے ہاتھوں سزا دیں گے''… اور پھر ایسا شور سپا ہوگیا کہ ساری فوج وہاں جمع ہوگئی۔ صلاح الدین ایوبی کے لیے اس جوش وخروش پر قابو پانا مشکل ہوگیا۔ وہ سپاہیوں کے جوش اور جذبے کو سرد کرکے ان کا دل بھی نہیں توڑنا چاہتا تھا۔ اس نے انہیں صبرو تحمل کی تلقین کی۔ کوئی حکم نہ دیا۔ اپنے خیمے میں گیا۔ مشیروں اور نائبین کو بلا کر کہا کہ یہ فوج اگلے حکم تک یہیں پڑائو کرے گی۔ اس نے کہا… ''میں نے دیکھ لیا ہے کہ خانہ جنگی ہوگی، فوج کا آپس میں ٹکرا جانا دشمن کے لیے فائدہ مند ہوتا ہے۔ میں آج رات قاہرہ جارہا ہوں۔ کسی کو معلوم نہ ہوسکے کہ میں یہاں نہیں ہوں۔ سپاہیوں کے جوش کو سرد کرنے کی بھی کوشش نہ کی جائے''۔

اس نے ضروری احکام اور ہدایات دے کر کہا۔ ''ہماری قاہرہ والی فوج جو بغاوت پر آمادہ ہے، میری نظر میں بے گناہ ہے اور ہماری قوم کے وہ نوجوان جو جوئے اور ذہنی عیاشی کے عادی ہوتے جارہے ہیں، وہ بھی بے گناہ ہیں۔ فوج کو ہمارے اعلیٰ حکام نے غلط باتیں بتا کر بھڑکایا ہے۔ انہی حکام کے ایماء پر دشمن نے ہمارے ملک کے سب سے بڑے شہر میں ذہنی عیاشی کے سامان پھیلائے ہیں۔ اس اخلاقی تباہ کاری کو فروغ صرف اس لیے حاصل ہوا ہے کہ ہماری انتظامیہ کے وہ حکام جنہیں اس تخریب کاری کو روکناتھا، وہ اسے پھیلانے میں شریک ہیں۔ دشمن انہیں اجرت دے رہا ہے، جب کسی قوم کے سربراہ اور امراء دشمن کے ہاتھوں میں کھیلنے لگتے ہیں تو اس قوم کا یہی حشر ہوتا ہے۔ ہماری فوج سوڈان کے ظالم صحرا میں بکھری ہوئی لڑرہی ہے، کٹ رہی ہے، سپاہی بھوکے اور پیاسے مرررہے ہیں اور ہمارے حاکم ان کی کمک، رسد اور ہتھیار روکے بیٹھے ہیں۔ کیا یہ دشمن کی سازشیں نہیں جسے ہمارے اپنے بھائی کامیاب کررہے ہیں؟ اس سے دشمن ایک فائدہ اٹھا رہا ہے کہ تقی الدین اور اس کے وہ عسکری جو جذبہ جہاد سے لڑ رہے ہیں، وہ مررہے ہیں اور نوبت ہتھیار ڈالنے تک آگئی ہے اور دوسرا فائدہ یہ کہ ہماری قوم کو بتایا جائے گا کہ یہ دیکھو تمہاری فوج شکست کھا گئی ہے کیونکہ یہ اسی قابل تھی۔ ہمارے بعض

بھائی مصر کی امارت پر قابض ہونے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ وہ سب سے پہلے فوج کو قوم کی نظروں میں رسوا اور ذلیل کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ من مانی کرسکیں۔ مجھے امارت کے ساتھ چپکے رہنے کی کوئی خواہش نہیں اگر میرے مخالفین میں سے کوئی مجھے یہ یقین دلا دے کہ وہ میرے عزم کو پایۂ تکمیل تک پہنچائے گا تو میں اس کی فوج میں سپاہی بن کر رہوں گا مگر ایسا کون ہے؟ یہ لوگ اپنی باقی زندگی بادشاہ بن کر گزارناچاہتے ہیں، خواہ دشمن کے ساتھ سازباز کرکے بادشاہی ملے اور میں اپنی زندگی میں قوم کو اس مقام پر لانا چاہتا ہوں، جہاں وہ اپنے دین کے دشمنوں کے سرپر پائوں رکھ کر بادشاہی کرے۔ ہمارے ان لالچی اور غدار حاکموں کی نظر اپنے حال پر اپنے آج پر ہے۔ میری نظر قوم کے مستقبل پر ہے''۔

اس نے بولتے بولتے توقف کیا اور کہا… ''میرا گھوڑا فوراً تیار کرو''… اس نے ان افراد کے نام لیے جنہیں اس کے ساتھ جانا تھا۔ اس نے کہا … ''نہایت خاموشی سے ان سب کو بلائو اور انہیں قاہرہ چلنے کے لیے کہو۔ میرا خیمہ یہیں لگا رہنے دو تاکہ کسی کو شک نہ ہو کہ میں یہاں نہیں ہوں''… اس نے گہرا سانس لیا اور کہا… ''میں آپ کو سختی سے ذہن نشین کراتا ہوں کہ جو فوج بغاوت کے لیے تیار ہے، میں اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کروں گا۔ تم میں سے کوئی بھی اس فوج کے خلاف کدورت نہ رکھے۔ اسی طرح اپنے نوجوانوں کو بھی قابل نفرت نہ سمجھنا۔ میں ان کے خلاف کارروائی کروں گا جو فوج اور قوم کو گمراہ اور ذلیل کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ یہی فوج جب اپنے دشمن کے سامنے آئے گی اور دشمن اس کا تیروں سے استقبال کرے گا تو فوج کو یاد آئے گا کہ وہ اللہ کی فوج ہے۔ دماغ سے بغاوت کے کیڑے نکل جائیں گے۔ آپ جب اپنے بچوں کو اپنے دین کا دشمن دکھائیں گے تو ان کا ذہن ازخود جوئے سے ہٹ کر جہاد کی طرف آجائے گا۔ میں آپ کو صاف الفاظ میں بتا دیتا ہوں کہ اسلام اور سلطنت اسلامیہ کی بقاء اور وقار فوج کے بغیر ممکن نہیں۔ میں صلیبیوں اور یہودیوں کے عزائم اور ان کے طرز جنگ اور ان کی زمین دوز کارروائیوں کو دیکھ کر کہہ سکتا ہوں کہ وہ اسلام کی فوج کو کمزور کرکے اسلام کا خاتمہ کریں گے جس رو زاور جس دور میں کسی بھی مسلمان ملک کی فوج کمزور ہوگئی، وہ ملک اپنی آزادی اور اپنا وقار کھو بیٹھے گا۔ کسی بھی دور میں کوئی مسلمان مملکت مضبوط اور باوقار فوج کے بغیر زندہ نہیں رہ سکے گی۔ ہمارا آج کا غلط اقدام اسلام کے مستقبل کو تاریک کردے گا۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ آنے والی نسلیں ہماری لغزشوں، ناکامیوں اور کامیابیوں سے فائدہ اٹھائیں گی یا نہیں''۔

''امیرمصر!''… ایک مشیر نے کہا… ''اگر ہمارے بھائی غداری کے فن میں ہی مہارت حاصل کرتے رہے تو آنے والی نسلیں غلام ہوں گی۔ انہیں معلوم ہی نہیں ہوگا کہ آزادی کسے کہتے ہیں اور قومی وقار کیا ہے۔ کیا ہمارے پاس اس کا کوئی علاج ہے؟''

''قوم کا ذہن بیدار کرو''… سلطان ایوبی نے کہا… ''قوم کو رعایا نہ کہو، قوم کا ہر فرد اپنی جگہ بادشاہ ہوتا ہے۔ کسی بھی فرد کو قومی وقار سے محروم نہ کرو۔ ہمارے امراء اور حاکموں میں چونکہ بادشاہ اور خلیفہ بننے کا جنون سوار ہے۔ اس لیے وہ قوم کو رعایا بنا کر اسے اپنے اقتدار کے استحکام کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ یاد رکھو، قوم جسموں کا مجموعہ نہیں، جسے تم مویشیوں کی طرح ہانگتے پھرو۔ قوم میں دماغ بھی ہے، روح بھی ہے اور قومی وقار بھی ہے۔ قوم کی ان خوبیوں کو ابھارو تاکہ قوم خود سوچے کہ اچھا کیا اور برا کیا ہے۔ اچھا کون اور برا کون ہے۔ اگر قوم محسوس کرے کہ صلاح الدین ایوبی سے بہتر امیر موجود ہے جو سلطنت اسلامیہ کے تحفظ کے ساتھ اسے سمندروں سے پار بھی وسعت دے سکتا ہے تو قوم کا کوئی بھی فرد مجھے راستے میں روک لے اور جرأت سے کہے کہ صلاح الدین ایوبی! تم یہ مسند خالی کردو، ہم نے تم سے بہتر آدمی ڈھونڈ لیا ہے۔

قوم میں یہ سوچ بھی اور جرأت بھی اور مجھ میں فرعونیت نہ ہو کہ اپنے خلاف بات کرنے والے کی گردن مار دوں۔ مجھے یہی خطرہ نظر آرہا ہے کہ ملت اسلامیہ ایسے ہی فرعونوں کی نذر ہوجائے گی۔ قوم کو رعایا اور مویشی بنادیا جائے گا پھر مسلمان مسلمان نہیں رہیں گے یا برائے نام مسلمان ہوں گے۔ مذہب تو شاید ان کا یہی رہے گا مگر تہذیب وتمدن صلیبیوں کا ہوگا''۔

اتنے میں ایک محافظ نے اندر آکر بتایا کہ گھوڑا تیار ہے اور جن تین چار نائب سالاروں کو بلایا گیا تھا، وہ بھی آگئے ہیں۔ سلطان ایوبی نے اپنے ساتھ چار محافظ لیے۔ باقی محافظ دستے سے کہا کہ وہ اس کے خالی خیمے پر پہرہ دیتے رہیں اور کسی کو پتا نہ چلنے دیں کہ وہ یہاں نہیں ہے۔ اس نے اپنے ساتھ جانے والے عملے سے کہا کہ وہ خاموشی سے فلاں جگہ پہنچ جائیں، وہ ان سے آملے گا۔ اس نے اپنا قائم مقام مقرر کیا اور باہر نکل گیا

٭ ٭ ٭

صحرا تاریک تھا۔ چودہ گھوڑے سرپٹ دوڑے جارہے تھے۔ صلاح الدین ایوبی تاریکی چھٹنے سے پہلے قاہرہ پہنچ جانا چاہتا تھا۔ علی بن سفیان کو اس نے اپنے ساتھ رکھا تھا۔ اس کی فوج پڑائو میں گہری نیند سوگئی تھی۔ جاگنے والے سنتریوں کو بھی علم نہیں ہوسکتا تھا کہ ان کا سالار اعلیٰ نکل گیا ہے۔ قاہرہ والوں کے تو وہم وگمان میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ سلطان ایوبی مصر میں داخل ہوچکا ہے… رات کا پچھلا پہر تھا، جب سلطان ایوبی کا قافلہ قاہرہ میں داخل ہوا۔ اسے کسی سنتری نے نہ روکا، وہاں کوئی سنتری تھا ہی نہیں۔ سلطان ایوبی نے اپنے ساتھیوں سے کہا… ''یہ ہے بغاوت کی ابتدائ۔ شہر میں کوئی سنتری نہیں۔ فوج سوئی ہوئی ہے، بے پروا، بے نیاز، حالانکہ ہم دو محاذوں پر لڑ رہے ہیں اور دشمن کے حملے کا خطرہ ہر لمحہ موجود ہے''۔

اپنے ٹھکانے پر پہنچتے ہی ایک لمحہ آرام کیے بغیر اس نے مصر کے قائم مقام سالار اعلیٰ کو بلا لیا۔ الادریس کو بھی بلا لیا جس کے دونوں جوان بیٹوں کو غداروں نے دھوکے میں ایک دوسرے کے ہاتھوں قتل کرادیا تھا۔ قائم مقام سالار اعلیٰ سلطان ایوبی کو دیکھ کر گھبرا گیا۔ سلطان ایوبی نے الادریس سے افسوس کا اظہار کیا۔ الادریس نے کہا… ''میرے بیٹے میدان جنگ میں جانیں دیتے تو مجھے خوشی ہوتی۔ وہ دھوکے میں مارے گئے ہیں''… اس نے کہا… ''یہ وقت میرے بیٹوں کے ماتم کرنے کا نہیں، آپ نے مجھے کسی اور مقصد کے لیے بلایا تھا۔ حکم فرمائیں''۔

قائم مقام سالار اعلیٰ محب اسلام تھا۔ ان دونوں سے سلطان ایوبی نے قاہرہ کے اندرونی حالات کے متعلق تفصیلی رپورٹ لی اور پوچھا کہ ان کی نظر میں کون کون سے حاکم مشتبہ ہیں۔ وہ فوجی حکام کے متعلق خاص طور پر پوچھ رہا تھا۔ اسے چند ایک نام بتائے گئے۔ اس نے احکام دینے شروع کردیئے جن میں اہم یہ تھے کہ مشتبہ حکام کو قاہرہ میں مرکزی کمان میں رہنے دیا جائے اور تمام فوج کو سورج نکلنے سے پہلے کوچ کی تیاری میں جمع کرلیا جائے اور بھی بہت سی ہدایات دے کر سلطان ایوبی نے ایک پلان تیار کرنا شروع کردیا۔ کچھ ہدایات علی بن سفیان کو دے کر اسے فارغ کردیا۔ کچھ دیر بعد فوج کے کیمپ میں ہڑبونگ مچ گئی۔ فوج کو قبل از وقت جگا لیا گیا تھا۔ فوج اور انتظامیہ کے مشتبہ حکام کو صلاح الدین ایوبی کے ہیڈکوارٹر میں بلا لیا گیا تھا۔ وہ حیران تھے کہ یہ کیا ہوگیا ہے۔ انہیں اتنا ہی پتا چلا تھا کہ سلطان ایوبی آگیا ہے۔ انہوں نے اس کا گھوڑا بھی دیکھ لیا تھا لیکن انہیں سلطان ایوبی نظر نہیں آرہا تھا اور سلطان ایوبی انہیں ابھی ملنا بھی نہیں چاہتا تھا۔ اس نے انہیں کوچ تک فوج سے الگ رکھنے کا بندوبست کردیا تھا۔ یہی اس کا مقصد تھا۔

ابھی صبح کی روشنی صاف نہیں ہوئی تھی۔ فوج ترتیب سے کھڑی کردی گئی۔ پیادوں اور سواروں کی صفوں کے پیچھے رسد اور دیگر سامان سے لدے ہوئے اونٹ تھے۔ سلطان ایوبی نے فوج کو یہ ٹریننگ خاص طور پر دی تھی کہ جب بھی فوج کوچ کا حکم ملے تو فوج ایک گھنٹے کے اندر اندر مع رسد اور دیگر سامان کے قافلے کے ساتھ تیار ہوجائے۔ اسی ٹریننگ اور مشق کا کرشمہ تھا کہ فوج طلوع صبح کے ساتھ ہی کوچ کے لیے تیار ہوگئی تھی۔ سلطان ایوبی اپنے گھوڑے پر سوار ہوگیا۔ اس کے ساتھ مصر کا قائم مقام سالار اعلیٰ بھی تھا۔ سلطان ایوبی نے فوج کو ایک نظر دیکھا اور ایک صف کے سامنے سے گزرنے لگا۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی اور اس کے منہ سے باربار یہ الفاظ نکلتے تھے… ''آفرین، صد آفرین۔ اسلام کے پاسبانو تم پر اللہ کی رحمت ہو''… صلاح الدین ایوبی کی شخصیت کا اپنا ایک اثر تھا جسے ہر ایک سپاہی محسوس کررہا تھا۔ اس کے ساتھ اس کی مسکراہٹ اور دادو تحسین کے کلمے سپاہیوں پر اس اثر کو اور زیادہ گہرا کررہے تھے۔ امیر اور سالار اعلیٰ کا سپاہیوں کے اتنا قریب جانا ہی کافی تھا۔

تمام فوج کا معائنہ کرکے سلطان صلاح الدین ایوبی نے مکمل طور پر بلند آواز سے فوج سے خطاب کیا۔ اس وقت کی تحریروں میں اس کے جو الفاظ محفوظ ملتے ہیں وہ کچھ اس طرح تھے… ''اللہ کے نام پر کٹ مرنے والے مجاہدو! اسلام کی ناموس تمہاری تلواروں کو پکار رہی ہے۔ تم نے شوبک کا مضبوط قلعہ جو کفر کا سب سے زیادہ مضبوط مورچہ تھا، ریت کا ٹیلہ سمجھ کر توڑ ڈالا تھا۔ تم نے صلیبیوں کو صحرائوں میں بکھیر کر مارا اور جنت الفردوس میں جگہ بنا لی ہے۔ تمہارے ساتھ، تمہارے عزیز دوست تمہارے سامنے شہید ہوئے۔ تم نے انہیں اپنے ہاتھوں سے دفن کیا۔ ان چھاپہ مار شہیدوں کو یاد کرو جو دشمن کی صفوں کے پیچھے جاکر شہید ہوئے۔ تم ان کا جنازہ نہ پڑھ سکے۔ ان کی لاشیں بھی نہ دیکھ سکے۔ تم تصور کرسکتے ہو کہ دشمن نے ان کی لاشوں کے ساتھ کیا سلوک کیا ہوگا۔ شہیدوں کے یتیم بچوں کو یاد کرو۔ ان کی بیویوں کو یاد کرو جن کے سہاگ خدا کے نام پر قربان ہوگئے ہیں۔ آج شہیدوں کی روحیں تمہیں للکار رہی ہیں۔ تمہاری غیرت کو اور تمہاری مردانگی کو پکار رہی ہیں۔ دشمن نے کرک کے قلعے کو اتنا مضبوط کرلیا ہے کہ تمہارے کئی ساتھی دیواروں سے پھینکی ہوئی آگ میں جل گئے ہیں، تم اگر وہ منظر دیکھتے تو سرکی ٹکروں سے قلعے کی دیواریں توڑ دیتے۔ وہ آگ میں جلتے رہے اور دیوار میں شگاف ڈالنے کی کوشش کرتے رہے۔ موت نے انہیں مہلت نہ دی…''

''عظمت اسلام کے پاسبانو! کرک کے اندر تمہاری بیٹیوں اور تمہاری بہنوں کی عصمت دری ہورہی ہے۔ بوڑھوں سے مویشیوں کی طرح مشقت لی جا رہی ہے۔ جوانوں کو قید میں ڈال دیا گیا ہے۔ مائوں کو بچوں سے الگ کردیا گیا ہے مگر میں کہ جس نے پتھروں کے قلعے توڑے ہیں، مٹی کا قلعہ سر نہیں کرسکا۔ میری طاقت تم ہو، میری ناکامی تمہاری ناکامی ہے''… اس کی آواز اور زیادہ بلند ہوگئی۔ اس نے بازو اوپر کرکے کہا… ''میرا سینہ تیروں سے چھلنی کردو، میں ناکام لوٹا ہوں مگر میری جان لینے سے پہلے میرے کان میں یہ خوشخبری ضرور ڈالنا کہ تم نے کرک لے لیا ہے اور اپنی عصمت بریدہ بیٹیوں کو سینے سے لگا لیا ہے''۔

اس وقت کا ایک وقائع نگار الاسدی لکھتا ہے کہ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے گھوڑے اپنے سواروں کی جذباتی کیفیت کو سمجھتے تھے۔ سوار خاموش تھے لیکن کئی گھوڑے بڑی زور سے ہنہنائے، تڑاخ تڑاخ کی آوازیں سنائی دیں۔ سوار باگوں کو زور زور سے جھٹک کر اپنی بیتابی اورجذبہ انتقام کی شدت کا اظہار کررہے تھے۔ ان کی زبانیں خاموش تھیں۔ ان کے چہرے لال سرخ ہوکر ان کے جذبات کی ترجمانی کررہے تھے۔ سلطان ایوبی کے الفاظ تیروں کی طرح ان کے دلوں میں اترتے جارہے تھے۔ بغاوت کی چنگاریاں بجھ چکی تھیں۔ سلطان ایوبی کامقصد پورا ہورہا تھا۔

''سلطنت اسلامیہ کی عصمت کے محافظو! تم کفار کے لیے دہشت بن گئے ہو، تمہاری تلواروں کو کند کرنے کے لیے آج صلیبی اپنی بیٹیوں کی عصمت اور حشیش استعمال کررہے ہیں۔ تم نہیں سمجھتے کہ صلیبی اپنی ایک بیٹی کی عصمت لٹا کر ایک ہزار مجاہدین کو بے کار کردیتے ہیں اور اپنے علاقوں میں اپنی ایک بیٹی کے بدلے ہماری ایک ہزار بیٹیوں کو بے آبرو کرتے ہیں۔ تمہارے درمیان ایک فاحشہ عورت بھیج کر ہماری سینکڑوں بیٹیوں کو فاحشہ بنا لیتے ہیں۔ جائو اور اپنی بیٹیوں کی عصمتوں کو بچائو۔ تم کرک جارہے ہو جس کی دیواروں کے گھیرے میں قرآن کے ورق بکھرے ہوئے ہیں اور جہاں کی مسجدیں صلیبیوں کے لیے بیت الخلا بن گئی ہیں۔ وہ صلیبی جو تمہارے نام سے ڈرتے ہیں، آج تم پر قہقہے لگا رہے ہیں۔ شوبک تم نے لیا تھا اور کرک بھی تم ہی لوگے''۔

سلطان ایوبی نے فوج پر یہ الزام عائد نہیں کیا کہ وہ گمراہ ہوگئی ہے اور بغاوت پر آمادہ ہے۔ اس نے کسی کے خلاف شک وشبے کا اشارہ بھی نہیں کیا۔ اس کے بجائے فوج کے جذبے اور غیرت کو ایسا للکارا کہ فوج جو حیران تھی کہ اسے اتنی سویرے کیوں جگایا گیا ہے۔ اب اس پر حیران تھی کہ اسے کرک کی طرف کوچ کا حکم کیوں نہیں دیا جاتا۔ تمام تر فوج مشتعل ہوگئی تھی۔ سلطان ایوبی نے اعلیٰ اور ادنیٰ کمانڈروں کو بلایا اور انہیں کوچ کے متعلق ہدایات دیں۔ کوچ کے لیے کوئی اور راستہ بتایا۔ راستہ اس راستے سے بہت دور تھا جس پر محاذ کی فوج آرہی تھی۔ کوچ کرنے والی فوج کے ساتھ سلطان ایوبی نے اپنے وہ کمانڈر بھیج دیئے جنہیں وہ اپنے ساتھ لایا تھا۔ انہیں نے خفیہ طور پر ہدایات دے دی تھیں۔ فوج کو جب کوچ کا حکم ملا تو سپاہیوں کے نعرے قاہرہ کے درودیوار کو ہلانے لگے۔ سلطان ایوبی کا چہرہ جذبات کی شدت سے دمک رہا تھا۔

جب فوج اس کی نظروں سے اوجھل ہوگئی تو اس نے ایک قاصد کو پیغام دے کر اس پڑائو کی طرف روانہ کردیا جہاں محاذ سے آنے والی فوج رکی ہوئی تھی۔ قاصد کو بہت تیز جانے کو کہا گیا۔ پیغام یہ تھا کہ پیغام ملتے ہی فوج کو قاہرہ کے لیے کوچ کرادیا جائے۔ فاصلہ آٹھ دس میل تھا۔ قاصد جلدی پہنچ گیا۔ اسی وقت کوچ کا حکم مل گیا۔ غروب آفتاب کے بعد فوج کے ہر اول دستے قاہرہ میں داخل ہوگئے۔ ان کے پیچھے باقی فوج بھی آگئی۔ اسے رہائش کے لیے وہی جگہ دی گئی جہاں گزشتہ رات تک کوچ کرجانے والی فوج قیام پذیر تھی۔ سپاہیوں کو کمانڈروں نے بتانا شروع کردیا کہ پہلی فوج کو محاذ پر بھیج دیا گیا ہے۔ آنے والی فوج بھڑکی ہوئی تھی۔ علی بن سفیان نے انہیں ٹھنڈا کرنے کا انتظام کررکھا تھا۔ سلطان ایوبی نے دانشمندی سے فوجی بغاوت کا خطرہ بھی ختم کردیا اور خانہ جنگی کا امکان بھی نہ رہنے دیا۔ اس نے اعلیٰ کمانڈروں کو بلا لیا اور اس فوجی حاکم کو بھی بلایا جو سرحدی دستوں کا ذمہ دار تھا۔ اس نے یہ معلوم کرکے کہ سرحد پر کتنے دستے ہیں اور کہاں کہاں ہیں، اتنی ہی نفری کے دستے تیار کرکے علی الصبح مطلوبہ جگہوں کو بھیجنے کا حکم دیا۔ اسے بتایا جا چکا تھا کہ سرحدی دستے ملک سے غلہ اور فوجی ضروریات کا دیگر سامان باہر بھیجنے میں دشمن کی مدد کررہے ہیں۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے ان دستوں کے کمانڈروں کو خصوصی احکامات دئیے اور سرحد سے واپس آنے والے پرانے دستوں کے متعلق اس نے حکم دیا کہ انہیں قاہرہ میں لانے کے بجائے باہر سے ہی محاذ پر بھیج دیا جائے۔

٭ ٭ ٭
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: داستان ایمان فروشوں کی جلد‎ ‎دوم

Post by ایکسٹو »

جس وقت وہ معجزے دکھا رہا تھا اس وقت دو آدمی ٹیلے کے پیچھے اس جگہ چھپے ہوئے تھے جہاں رنگ برنگ خیمے نصب تھے۔ کسی خیمے میں سے لڑکیوں کی باتیں اور ہنسی سنائی دے رہی تھی۔ یہ دو آدمی امام اور محمود بن احمد تھے۔ محمود کو یقین تھا کہ سعدیہ یہیں کہیں ہے۔ محمود میں اتنی مذہبی سوجھ بوجھ نہیں تھی۔ وہ خدا کے اس ایلچی کے متعلق کوئی رائے قائم کرنے کے قابل نہیں تھا۔ امام نے کہا تھا کہ کوئی انسان مرے ہوئے کو زندہ نہیں کرسکتا۔ اس نے توجہ ہی نہیں دی تھی کہ پراسرار آدمی لوگوں کو کیا کچھ کرکے دکھا رہا ہے۔ اس نے اس سے یہ فائدہ اٹھایا تھا کہ لوگ اس کی کرامات دیکھنے میں مگن ہیں اس لیے پیچھے جا کر یہ دیکھا جائے کہ اس میں راز کیا ہے۔ اس کی توجہ صرف سعدیہ پر تھی۔ محمود صرف سعدیہ کو ڈھونڈ رہا تھا۔ خیموں کی جگہ اندھیرا تھا۔ صرف تین خیموں میں روشنی تھی۔ تینوں کے پردے دونوں طرف سے بند تھے۔ وہاں پہرے کا کوئی خاص انتظام نہیں تھا۔ دوتین مرد کہیں باتیں کررہے تھے۔ یہ خطرہ صاف نظر آرہا تھا کہ وہ دونوں کسی کو نظر آگئے تو وہ زندہ نہیں رہیں گے۔ ٹیلے کی دوسری طرف سے ''اس'' کی آواز سنائی دے رہی تھی اور سازوں کا ترنم بھی سنائی دے رہا تھا لیکن یہ پتا نہیں چلتا تھا کہ سازندے کہاں ہیں۔

امام اور محمود نے روشنی والے ایک خیمے کے قریب جاکر لڑکیوں کی باتیں سننے کی کوشش کی۔ ان کی باتوں نے ان کا حوصلہ بڑھا دیا۔ ایک نسوانی آواز کہہ رہی تھی… ''یہاں بھی تماشہ کامیاب رہا ہے''… ایک اور لڑکی نے کہا… ''بڑی ہی جاہل قوم ہے''۔

''مسلمان کو تباہ کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ اسے شعبدے دکھا کر تو ہم پرست بنا دو''… یہ ایک اور عورت کی آواز تھی۔

''معلوم نہیں وہ کس حال میں ہے؟''

''نئی چڑیا!''… ایک لڑکی نے کہا… ''تم سب کو ماننا پڑے گا کہ وہ ہم سب سے زیادہ خوبصورت ہے''۔

''وہ آج دن کو بھی روتی رہی تھی''۔ کسی لڑکی نے کہا۔

''آج رات اس کا رونا بند ہوجائے گا''… ایک لڑکی نے کہا… ''اسے خدا کے بیٹے کے لیے تیار کیا جارہا ہے''۔

لڑکیوں کا قہقہہ سنائی دیا۔ ایک نے کہا… ''خدا بھی کیا یاد کرے گا کہ ہم نے اسے کیسا بیٹا دیا ہے۔ کمال انسان ہے''۔

اس کے بعد لڑکیوں نے آپس میں فحش باتیں شروع کردیں۔ امام اور محمود سمجھ گئے کہ نئی چڑیا سعدیہ ہی ہوسکتی ہے۔ انہیں بہرحال یقین ہوگیا کہ یہ سب شعبدہ بازی ہے اور یہ دھونگ پسماندہ مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لیے رچایا جارہا ہے۔ امام نے محمود کے کان میں کہا…''ان لڑکیوں کی عریاں باتیں اور شراب کی بو بتا رہی ہے کہ یہ کون لوگ ہیں اور یہ کیا ہورہا ہے… ہم ویسے ہی نہیں بھٹک رہے''۔

وہ دونوں بڑے خیمے کے قریب چلے گئے۔ یہ خیمہ ایک ٹیلے کے ساتھ تھا اور یہ ٹیلا تقریباً عمودی تھا۔ ٹیلے اور خیمے کے پچھلے دروازے کے درمیان ایک آدھ گز فاصلہ تھا۔ انہوں نے اس جگہ جا کر دیکھا۔ خیمے کے پردے درمیان سے رسیوں سے بندھے ہوئے تھے۔ ایک آنکھ سے اندر جھانکنے کی جگہ تھی۔ انہوں نے جھانکا تو ان کے شکوک رفع ہوگئے۔ اندر ایک لمبی مسند تھی جس پر خوش نما مسند پوش بچھا ہوا تھا۔ فرش پر قالین بچھا تھا اور دو قندیلیں جل رہی تھیں۔ ایک طرف شراب کی صراحی اور پیالے رکھے تھے۔ اندر کی سجاوٹ اور شانوشوکت سے پتا چلتا تھا کہ اس مشتبہ قافلے کے سردار کا خیمہ ہے۔ سعدیہ کے پاس ایک عورت اور ایک مرد تھا۔ سعدیہ کو دلہن کی طرح سجایا جارہا تھا۔

''آج سارا دن تم روتی رہی ہو''… عورت اسے کہہ رہی تھی… ''تھوڑی دیر بعد تم ہنسو گی اور اپنے آپ کو پہچان بھی نہیں سکو گی۔ تم خوش نصیب ہو کہ اس نے جو خدا کی طرف سے زمین پر اترا ہے، تمہیں پسند کیا ہے۔ وہ صرف تمہارے لیے یہاں آیا ہے۔ اس نے تمہیں بیس روز کی مسافت جتنی دور سے غیب کی آنکھ سے دیکھا تھا۔ تمہارے گائوں میں اسے خدا لایا ہے اگر یہ نہ آتا تو تم کسی صحرائی گڈرئیے کے ساتھ بیاہ دی جاتیں یا تمہیں بردہ فروشوں کے ہاتھ بیچ دیا جاتا''۔

سعدیہ پر ان باتوں کا جادو سوار ہوتا جارہا تھا۔ وہ خاموشی سے سن رہی تھی۔ محمود جوش میں آچلا تھا۔ امام نے اسے روک لیا۔ وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ سعدیہ کو کس کے لیے تیار کیا جارہا ہے۔ زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ ٹیلے کی دوسری طرف سے کسی نے اعلان کیا… ''وہ جو خدا کا بھیجا ہوا پیغمبر ہے اور جس کے ہاتھ میں ہم سب کی زندگی اور موت ہے اور جس کی آنکھ غیب کے بھید دیکھ سکتی ہے، تاریک رات میں آسمان پر جارہا ہے جس کے ستارے خدا کی آنکھ کی طرح روشن ہیں۔ تم میں سے کوئی آدمی اس طرف نہ دیکھے جہاں خیمے لگے ہوئے ہیں۔ ٹیلوں کے اوپر کوئی نہ جائے جس کسی نے اس طرف

جانے یا دیکھنے کی کوشش کی وہ ہمیشہ کے لیے اندھا ہوجائے گا۔ کل رات وہ تم سب کی مرادیں سنے گا''۔

امام اور محمود وہیں کھڑے رہے۔ خیمے کے اندر جو مرد عورت تھے، انہوں نے سعدیہ کو ایک بار پھر نصیحت کی کہ وہ آرہا ہے اس کے سامنے کوئی بدتمیزی نہ کرنا… وہ آگیا۔ وہ سامنے کی طرف سے خیمے میں داخل ہوا۔ امام اور محمود یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ''اس'' کے سینے میں چارتیر اور چار خنجر اترے ہوئے تھے۔ سعدیہ نے تیر اور خنجر دیکھے تو اس نے خوف سے کانوں پر ہاتھ رکھ لیے۔ اس کی ہلکی سی چیخ سنائی دی۔ مقدس انسان مسکرایا اور بولا… ''ڈر مت لڑکی! یہ معجزہ مجھے خدا نے دیا ہے کہ میں تیروں اور خنجروں سے مر نہیں سکتا''… وہ سعدیہ کے ساتھ لگ کر بیٹھ گیا۔

''میں نے یہ شعبدہ ایک بار قاہرہ میں دیکھا تھا''۔ امام نے محمود کے کان میں کہا… ''تم بھی ڈر نہ جانا میں جانتا ہوں تیر اور خنجر کہاں پھنسے ہوئے ہیں''۔

''وہ'' اٹھا اور خیمے کا پردہ رسیوں سے باندھ دیا۔ ادھر محمود اور امام نے اپنی طرف سے خیمے کا پردہ کھول دیا۔ انہوں نے نتائج کی پروا نہ کی۔ دبے پائوں اندر گئے جونہی وہ شخص مڑا وہ امام اور محمود کے شکنجے میں آچکا تھا۔ محمود نے دبی آواز میں سعدیہ سے کہا… ''جس پر تم بیٹھی ہو اس کا کپڑا اس کے اوپر ڈال دو''۔ سعدیہ تو جیسے سن ہوگئی تھی۔ اس نے مسند پوش اتار کر اس آدمی پر ڈال دیا۔ اس کا جسم طاقتور نظر آتا تھا مگر امام اور محمود نے اسے بری طرح جکڑ لیا تھا پھر اس کے اوپر کپڑا ڈال کر باندھ دیا۔ قندیلیں بجھا دی گئیں۔ امام کے کہنے پر پہلے سعدیہ باہر نکلی۔ اپنے قیدی کو محمود نے اپنے کندھوں پر پھینک لیا۔ امام ہاتھ میں خنجر لیے آگے آگے چلا۔ وہ سب جس طرف سے خیمے میں داخل ہوئے تھے اسی طرف سے باہر نکل گئے۔ پکڑے جانے کا خطرہ ہر قدم پر تھا لیکن انہوں نے ایسا راستہ اختیار کیا جو انہیں فوراً خطرے سے باہر لے گیا۔ اندھیرے نے اس کی بہت مدد کی۔

٭ ٭ ٭

انہیں دور کا چکر کاٹ کر گائوں میں داخل ہونا پڑا۔ وہ مسجد میں چلے گئے۔ حجرے میں لے جا کر شعبدہ باز کو کھولا گیا۔ ابھی تک تیر اور خنجر اس کے سینے میں اترے ہوئے تھے۔ اسے اٹھانے کی وجہ سے وہ ٹیڑے ہوگئے تھے۔ سعدیہ کو بھی انہوں نے حجرے میں ہی رکھا کیونکہ خطرہ تھا کہ لڑکی کی گمشدگی کا پتا چل گیا تو وہ لوگ اس کے باپ پر حملہ کرے گے۔ دراصل حملہ کرنے والے اب یہ دیکھنے کی حالت میں بھی نہیں تھے کہ ان کے ''خدا'' کا بیٹا کہاں ہے۔ وہ کامیاب جشن منا کر شراب اور بدکاری میں بدمست ہوگئے تھے۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ان کا آقا مع نئی چڑیا کے اغوا بھی ہوسکتا ہے۔

امام اور محمود نے اسے چغہ اتارنے کو کہا۔ اس نے پہلے تیر اور خنجر کھینچ کر نکالے۔ چغہ اتارا پھر اس سے اندر والے کپڑے بھی اتروا لیے گئے۔ ان کپڑوں میں کارک کی طرح نرم لکڑی چھپی ہوئی تھی جس پر چمڑہ لگا ہوا تھا۔ یہ لکڑی کچھ دوہری ہوجاتی تھی اور اتنی لمبی چوڑی تھی جس سے اس کا سینہ ڈھک جاتا تھا۔ تیر اور خنجر اس میں اترے ہوئے تھے۔ اس نے امام اور محمود سے کہا… ''اپنی قیمت بتائو۔ سونے کی صورت میں گھوڑوں اور اونٹوں کی صورت میں، ابھی ادا کروں گا۔ مھے ابھی آزاد کردو''۔

''تم اب آزاد نہیں ہوسکو گے''۔ امام نے کہا… ''ہم بھی لوگوں کی طرح تمہارے انتظار میں بیٹھے تھے''۔ امام نے محمود سے کہا… ''تمہیں معلوم ہوگا کہ قریبی چوکی کہاں ہے، وہاں کے پورے دستے کو ساتھ لے آئو''… اس نے چوکی کا فاصلہ اور سمت بتائی اور وہ خفیہ الفاظ بھی بتائے جن سے امام سراغ رساں اور جاسوس کی حیثیت سے پہچانا جاتا تھا۔

اپنے دو جاسوسوں کے نام اور ٹھکانہ بتا کر محمود سے کہا… ''انہیں میرے پاس بھیجتے جانا''۔

محمود نے امام کے گھوڑے پر زین ڈالی اور سوار ہوکر نکل گیا۔ اسے امام کے دونوں جاسوس مل گئے۔ انہیں مسجد میں جانے کو کہہ کر وہ چوکی کی سمت روانہ ہوگیا۔ گائوں سے کچھ دور جاکر اس نے گھوڑے کو ایڑی لگائی۔ کوئی ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت تھی مگر وہ شش وپنج میں مبتلا تھا۔ وہ اس چوکی کے کمانڈر کو جانتا تھا۔ وہ لاپروا آدمی تھا۔ صلیبیوں اور سوڈانیوں نے اسے رشوت دے دے کر اپنے ساتھ ملا رکھا تھا۔ محمود نے قاہرہ کو اس کی رپورٹ بھیج دی تھی مگر ابھی تک اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی تھی۔ محمود کویہی نظر آرہا تھا کہ وہ اپنے دستے کو اس کے ساتھ نہیں بھیجے گا یا وقت ضائع کرے گا تا کہ دشمن نکل جائے۔ محمود سوچ رہا تھا کہ اگر چوکی سے اسے دستہ نہ ملا تو وہ کیا کرے گا۔ صبح سے پہلے دستے کو گائوں میں پہنچنا ضروری تھا۔ دستہ نہ ملنے کی صورت میں امام اور ان کے جاسوسوں کی جانیں خطرے میں آسکتی تھیں کیونکہ اس شعبدہ باز کے ساتھ بہت سارے آدمی تھے۔ اس کے مریدوں کا ہجوم بھی اسی کا حامی تھا۔

امام کے پاس خنجر تھا۔ اس کے جاسوس بھی اس کے پاس آگئے تھے۔ وہ بھی خنجروں سے مسلح تھے۔ انہوں نے شعبدہ باز کو گرفتار کیے رکھا۔ وہ رہائی کی اتنی زیادہ قیمت پیش کررہا تھا جو امام اور اس کے جاسوس خواب میں بھی نہیں دیکھ سکتے تھے۔ امام نے اسے کہا… ''میں مسجد میں بیٹھا ہوں، یہ اسی خدا کا گھر ہے جس نے تمہیں سچا دین دے کر زمین پر اتارا ہے۔ کیا یہ ہے تمہارا سچا دین؟… دیکھو دوست! میں قاہرہ کی حکومت کا اہلکار ہوں، میں تمہیں چھوڑ نہیں سکتا اور میں ایمان بھی نہیں بیچ سکتا''۔

محمود بن احمد چوکی کے خیموں میں داخل ہوا تو کمانڈر کے خیمے میں اس نے روشنی دیکھی۔ گھوڑے کے قدموں کی آواز سن کر کمانڈر باہر آگیاہ محمود نے اپنا تعارف کرایا اور کمانڈر کے ساتھ خیمے میں چلا گیا۔ محمود کے لیے یہ کمانڈر اجنبی تھا۔ اسے کمانڈر نے بتایا کہ گزشتہ شام پرانے دستے کو یہاں سے بھیج دیا گیا ہے یہ دستہ نیا آیا ہے۔ یہ تبدیلی صلاح الدین ایوبی کے ساتھ محاذ سے آئی تھی۔ محمود نے کمانڈر کو تفصیل سے بتایا کہ انہوں نے بہت بڑا شکار پکڑا ہے اور اس کے تمام گروہ کو پکڑنے کے لیے چوکی کے پورے دستے کی فوری طور پر ضرورت ہے، تاکہ ان لوگوں کو رات ہی رات میں گھیرے میں لے لیا جائے۔

کمانڈر نے فوراً پورے دستے کو جس کی تعداد پچاس سے زیادہ تھی، گھوڑوں پر سوار ہونے کا حکم دیا۔ ان کے پاس برچھیاں اور تلواریں تھیں اور ان میں تیرانداز بھی تھے۔ آٹھ دس سپاہیوں کو چوکی پر چھوڑ دیا گیا۔ یہ دستہ کرک کے محاصرے سے آیا تھا۔ جذبہ قائم تھا۔ کمانڈر نے سرپٹ گھوڑے دوڑا دئیے۔ مجرم خبر ہونے کی حالت میں نہیں تھے۔ شراب اور نیند نے انہیں بے ہوش کررکھا تھا۔ کمانڈر نے محمود کی رہنمائی میں گھیرا مکمل کرلیا اور کارروائی صبح تک ملتوی رہی۔ محمود نے امام کو اطلاع دے دی کہ دستہ آگیا ہے۔ سعدیہ ابھی امام کے حجرے میں ہی تھی۔ امام نے ایک جاسوس بھیج کر سعدیہ کے باپ کو بھی بلا لیا۔

٭ ٭ ٭

جو معتقد، مرید اور زائرین بڑی دور دور سے ''اس'' کی زیارت کو آئے تھے، وہ رات کے معجزے دیکھ کر کھلے آسمان تلے سو گئے تھے۔ ان کے مقدس انسان نے انہیں کہا تھا کہ اگلی رات وہ ان کی مرادیں سنے گا۔ یہ ہجوم صبح اس وقت جاگ اٹھا جب اجالا ابھی دھندلا تھا۔ اس دھندلکے میں انہیں بہت سے گھوڑے نظر آئے۔ ان پر سوار جو تھے وہ فوجی تھے۔ لوگ کچھ سمجھ نہ سکے۔ انہیں معلوم نہیں تھا کہ جو مرے ہوئوں کو زندہ کرتا ہے، وہ مسجد کے حجرے میں ہاتھ پائوں بندھے بیٹھا ہے۔ وہ اب مسلمانوں کے سچے خدا کی گرفت میں آچکا تھا۔ دستے کا کمانڈر دمشق کار رہنے والا رشد بن مسلم جس کا عہدہ معمولی تھا لیکن سرحد پر آکر اس نے اپنے دستے سے کہا تھا… ''ساری سلطنت صرف تمہارے بھروسے پر سوتی ہے۔ صلاح الدین ایوبی ہر وقت تمہارے ساتھ ہے۔ اگر وہ تمہیں نظر نہیں آتا تو اسے میری آنکھوں میں دیکھ لو۔ ہم سب سلطان صلاح الدین ایوبی ہیں مگر کسی نے یہاں پرانے دستے کے آدمیوں کی طرح ایمان فروخت کیا تو میں اس کے پائوں باندھ کر ریگستان میں زندہ پھینک دوں گا۔ میں اس سزا کا حکم قاہرہ سے نہیں لوں گا۔ میں خدا سے حکم لیا کرتا ہوں''۔

رشد بن مسلم نے صبح کے وقت دیکھا کہ خیموں کے اندر کوئی حرکت نہیں تھی۔ اندر والے اتنی جلدی اٹھنے والے نہیں تھے۔ رشد نے لوگوں سے کہا کہ وہ دور پیچھے ہٹ جائیں اور وہیں موجود رہیں۔ انہیں مقدس انسان قریب سے دکھایا جائے گا۔ لوگوں کو دور ہٹا کر رشد نے تین چار سوار مختلف ٹیلوں کے اوپر کھڑے کردیئے تاکہ مجرموں میں سے کوئی بھاگنے کی کوشش نہ کرے۔ باقی سواروں کو اس نے گھوڑوں سے اتار کر چاروں طرف سے پیدل اندر جانے کو کہا اور حکم دیا کہ کوئی مزاحمت کرے تو اسے فوراً ہلاک کردو۔ کوئی بھاگے تو اسے تیر مار دو… وہاں بھاگنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ رشدنے ننگی تلوار کی نوک چبھو کر تینوں کو جگایا۔ جاگنے کے بجائے انہوں نے جگانے والے کو گالیاں دیں اور کروٹ بدل کر سوئے رہے۔ تلوار کی نوک اب کے ان کی کھال میں اتر گئی۔ تینوں ہڑبڑا کر اٹھے۔ انہیں باہر نکال لیا گیا۔ دوسرے خیموں میں بھی جو لڑکیاں اور مرد ملے وہ اسی حالت میں تھے۔ خیموں میں بے شمار سامان تھا۔ ایک خیمے میں بہت سے ساز پڑے تھے۔

سب کو باہر لے جا کر ان پر پہرہ کھڑا کردیا گیا۔ ان کے اونٹوں اور تمام تر سامان پر قبضہ کرلیا گیا۔ امام رشد بن مسلم کے ساتھ تھا۔ وہ اس آدمی کو اپنے حجرے میں سے لے آیا جو اپنے آپ کو خدا کے بیٹے کا بیٹا کہتا تھا۔ اس کے ہاتھ پیٹھ پیچھے بندھے تھے۔ اسے اسی جگہ کھڑا کیا گیا جہاں رات اس نے معجزے دکھائے تھے۔ پیچھے پردے لگے ہوئے تھے۔ اس کے گروہ کو اس کے سامنے بٹھا دیا گیا۔ ان سب کے ہاتھ پیچھے باندھ دیئے گئے۔ وہ ایک خیمے سے برآمد ہوئے تھے۔ امام نے لوگوں کو آگے آنے کو کہا۔ ہجوم آگے آیا تو امام نے کہا… ''اسے کہو کہ یہ خدا کا ایلچی ہے یا اس کا بیٹا ہے تو اپنے ہاتھ رسیوں سے آزاد کرلے۔ یہ مرے ہوئوں کو زندہ کرتا ہے۔ میں اس کے گروہ کے ایک آدمی کو ہلاک کروں گا۔ تم اسے کہو کے اسے میرے ہاتھ سے چھڑالے یا وہ مرجائے تو اسے زندہ کردے''… امام نے اس کے گروہ کے ایک آدمی کو اٹھایا اور رشد کی تلوار لے کر اس کی طرف بڑھا تو وہ آدمی چلا اٹھا… ''مجھے بخش دو، یہ آدمی مجھے زندہ نہیں کرسکے گا۔ یہ بہت بڑا پاپی ہے۔ خدا کے لیے مجھے قتل نہ کرنا''۔

لوگوں نے یہ تماشا دیکھا مگر ان کے وہم ابھی دور نہیں ہوئے تھے۔ امام اس آدمی کا چغہ اور کپڑے بھی ساتھ لے آیا تھا۔ نرم لکڑی بھی ساتھ تھی۔ امام نے یہ کپڑے پہن لیے۔ کسی کو دکھائے بغیر لکڑی اندر رکھ لی۔ اوپر چغہ پہن لیا۔ اس نے رشد سے کہا کہ اپنے چار تیرانداز میرے سامنے لائو۔ تیر انداز آئے تو اس نے انہیں کہا… ''تیس قدم دور کھڑے ہوکر میرے دل کا نشانہ لو اور تیر چلائو''… تیر اندازوں نے رشد بن مسلم کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔ رات کو محمود نے رشد کو تیروں اور خنجروں کے سینے میں اترنے کی حقیقت بتا دی تھی۔ رشد نے اپنے تیراندازوں کو حکم دیا کہ وہ تیر چلا دیں۔ انہوں نے نشانہ لے کر تیر چلا دئیے۔ چاروں تیر امام کے دل کے مقام میں پیوست ہوگئے۔ امام نے کہا… ''اب آگے

آکر میرے سینے پر چار خنجر پوری طاقت سے پھینکو''… خنجر پھینکے گئے جو امام کے سینے میں جاکر اٹک گئے۔

امام نے تیر اندازوں سے کہا۔ ''ایک ایک تیر اور کمانوں میں ڈالو''… اس نے مقدس انسان کو ذرا آگے لیا اور لوگوں سے مخاطب ہوکر بلند آواز میں کہا… ''یہ شخص اپنے آپ کو لافانی کہتا ہے۔ میں تمہیں دکھاتا ہوں کہ یہ اصل میں کیا ہے''… اس نے تیر اندازوں سے کہا… ''اس کے دل کا نشانہ لے کر تیر چلائو''۔

جونہی کمانیں اوپر اٹھیں، وہ آدمی دوڑ کر امام کے پیچھے ہوگیا۔ وہ موت کے ڈر سے تھرتھر کانپ رہا تھا اور بھکاریوں کی طرح جان کی بخشش مانگ رہا تھا۔ امام نے اسے کہا… ''آگے آئو اور لوگوں کو بتائو کہ تم صلیبیوں کے بھیجے ہوئے تخریب کار ہو اور تم شعبدہ باز ہو''… امام نے تلوار کی نوک اسے کے پہلو سے لگا دی۔

''لوگو!''… اس آدمی نے آگے جاکر بلند آواز سے کہا… ''میں لافانی نہیں ہوں، میں تمہاری طرح انسان ہوں۔ مجھے صلیبیوں نے بھیجا ہے کہ تمہارا ایمان خراب کردوں۔ اس کی مجھے اجرت ملتی ہے''۔

''اور شمعون کی بیٹی سعدیہ کو اسی نے اغوا کرایا تھا''۔ امام نے کہا۔ ''ہم نے لڑکی رہا کرالی ہے''۔

امام نے چغہ اتارا، اندر کے کپڑے اتارے۔ لکڑی الگ کی اور رشد کے ایک سپاہی کے ہاتھ میں دے کر کہا کہ یہ تمام مجمعے میں گھما لائو۔ امام نے لوگوں سے کہا کہ تیر اور خنجر اس لکڑی میں لگتے ہیں… تمام لوگوں نے یہ بھید دیکھ لیا تو انہیں آگے بلا کر کہا گیا کہ ہر جگہ گھومو اور ہر ایک چیز دیکھو۔ لوگ ڈرتے ہوئے ہر جگہ پھیل گئے۔ پردوں کے پیچھے ایک غار بنایا گیا تھا۔ وہاں رات کو سازندے بیٹھ کر ساز بجاتے تھے… لوگ خیموں میں گئے تو وہاں شراب کی بدبو پھیلی ہوئی تھی۔ لوگ ہر جگہ گھوم پھر چکے تھے تو انہیں ایک جگہ بٹھا کر بتایا گیا کہ یہ سب ڈھونگ کیا تھا۔ امام نے معلوم کرلیا تھا کہ جسے اس نے رات کو زندہ کیا تھا، وہ کون ہے، وہ اسی کے گروہ کا ایک آدمی تھا جو رسیوں میں بندھا ہوا قیدیوں میں بیٹھا تھا۔ اسے لوگوں کے سامنے کھڑا کیا گیا۔ ایک اور آدمی لوگوں کو دکھایا گیا جو رات کو بوڑھے کا بہروپ دھار کر اس آدمی کا باپ بنا تھا۔ چار تیر انداز بھی سامنے آگئے جنہوں نے رات تیر چلائے تھے۔ و ہ بھی اس گروہ کے آدمی تھے۔ غرض تمام تر ڈھونگ لوگوں کو دکھایا گیا۔

''اسلام کے بیٹو! غور سے سنو''۔ امام نے لوگوں سے کہا… ''یہ سب صلیب کے پجاری ہیں اور تمہارا ایمان خراب کرنے آئے ہیں۔ تم جانتے ہو کہ کوئی انسان کسی انسان کو زندہ نہیں کرسکتا۔ خود خدا کسی مرے ہوئے کو زندہ نہیں کرتا کیونکہ خدائے ذوالجلال اپنے بنائے ہوئے قانون کا پابند ہے۔ اس کی ذات واحدہ لاشریک ہے۔ اس کا کوئی بیٹا نہیں۔ یہ صلیبی اسلام کی آواز کو دبانے کے لیے یہ ہتھکنڈے استعمال کررہے ہیں۔ یہ باطل کے پجاری تمہارے ایمان اور جذبے سے اور تمہاری تلوار سے ڈرتے ہیں۔ تمہارا مقابلہ میدان میں نہیں کرسکتے اس لیے دلکش طریقے اختیار کرکے تمہارے دلوں میں وہم اور وسوسے ڈال رہے ہیں تاکہ تم اسلام کے تحفظ کے لیے صلیب کے خلاف تلوار نہ اٹھائو۔ اسی مصر میں فرعون نے اپنے آپ کو خدا کہا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کی خدائی کو دریائے نیل میں ڈبو دیا تھا۔ اپنی عظمت کو پہچانوں میرے دوستو! اپنے دشمن کو بھی اچھی طرح پہچان لو''۔

لوگ جو سب کے سب مسلمان تھے، مشتعل ہوگئے۔ وہ چونکہ پسماندہ اور علم سے بے بہرہ تھے، اس لیے انتہا پسند تھے۔ انہوں نے گناہ گار انسان کی شعبدہ بازی دیکھ کر اسے ''خدا کا بیٹا'' تسلیم کرلیا اور جب اس کے خلاف باتیں سنیں تو ایسے مشتعل ہوگئے کہ غیض وغضب سے نعرے لگاتے اس آدمی پر اور اس کے گروہ پر ٹوٹ پڑے۔ امام ان مجرموں کو زندہ قاہرہ لے جانا چاہتا تھا لیکن اتنے بڑے ہجوم سے انہیں زندہ نکالنا ناممکن ہوگیا۔ رشد نے تشدد سے ہجوم پر قابو پانے کا

مشورہ دیا جو امام نے تسلیم نہیں کیا۔ اس نے کہا کہ تمہاری تلواروں سے یہ سیدھے سادے مسلمان کٹ جائیں گے۔ انہیں اپنے ہاتھوں ان لوگوں کو ہلاک کرنے دو تاکہ انہیں یقین ہوجائے کہ جس نے خدا کا ایلچی اور بیٹا ہونے کا دعویٰ کیا ہے، وہ ایک گناہ گار انسان ہے جسے کوئی بھی انسان قتل کرسکتا ہے۔

امام، رشد بن مسلم اور محمود ایک طرف گئے، رشد نے ایک ٹیلے پر جاکر اپنے سپاہیوں کو للکارا اور کہا…''تم جہاں ہو وہیں رہو، ان لوگوں کو مت روکو''۔

تھوڑی ہی دیر بعد امام، محمود، رشد بن مسلم اور اس کے دستے کے سپاہی رہ گئے۔ تمام ہجوم غائب ہوچکا تھا۔ رات جہاں شعبدے دکھائے گئے تھے، وہاں شعبدہ باز اور اس کے گروہ کی لاشیں پڑی تھیں۔ لڑکیوں کو بھی قتل کردیا گیا تھا۔ کوئی لاش پہچانی نہیں جاتی تھی۔ سب قیمہ ہوچکی تھیں۔ لوگ خیمے، پردے اور تمام تر سامان لوٹ کر لے گئے تھے۔ مجرم گروہ کے اونٹ بھی کھول کر لے گئے اور رشد کے دستے کے نو گھوڑے بھی لاپتہ ہوگئے۔ ان کے سوار پیادہ تھے اور گھوڑوں سے دور تھے۔ لوگوں کو معلوم نہیں تھا کہ یہ اپنی فوج کے گھوڑے ہیں۔ یوں لگتا تھا جیسے آندھی آئی ہے اور سب کو اپنے ساتھ اڑا لے گئی ہے۔

''ہمیں اب قاہرہ چلنا پڑے گا''۔ امام نے رشد اور محمود سے کہا… ''یہ واقعہ حکومت کے سامنے رکھنا ہوگا''۔

٭ ٭ ٭
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: داستان ایمان فروشوں کی جلد‎ ‎دوم

Post by ایکسٹو »

ان چند ہی دنوں میں صلاح الدین ایوبی نے جو احکام نافذ کیے اور جو اقدام کیے، وہ انقلابی تھے۔ اتنے انقلابی کہ اس کے قریبی دوست اور مرید بھی چونک اٹھے۔ اس نے سب سے پہلے ان افسروں کے گھروں پر چھاپے مروائے اور تلاشی لی جو علی بن سفیان اور غیاث بلبیس کی مشتبہ فہرست میں تھے۔ ان میں دو تین مرکزی کمان کے اعلیٰ حاکم تھے۔ ان کے گھروں پر زروجواہرات، دولت اور بڑی خوبصورت غیرملکی لڑکیاں برآمد ہوئیں۔ بعض کے گھروں میں ایسے ملازم تھے جو سوڈان کے تجربہ کار جاسوس تھے اور بھی کئی ایک ثبوت مل گئے۔ ان سب کو سلطان صلاح الدین ایوبی نے عہدے اور رتبے کا لحاظ کیے بغیر غیرمعین مدت کے لیے قید خانے میں ڈال دیا اور حکم دیا کہ ان کے ساتھ اخلاقی مجرموں جیسا سلوک کیا جائے۔ اس اقدام سے اس کی مرکزی کمان اور مجلس مشاورت کی چند ایک اہم آسامیاں خالی ہوگئیں۔ اس نے ذرہ بھر پروا نہ کی۔

سلطان ایوبی نے دوسرا حملہ اس گروہ پر کیا جو اپنے آپ کو مذہب کا اجارہ دار بنائے ہوئے تھا۔ سلطان ایوبی کو مشیروں نے خلوص نیت سے مشورہ دیا کہ مذہب ایک نازک معاملہ ہے۔ لوگ مسجدوں کے اماموں کے مرید ہیں، رائے عامہ خلاف ہوجائے گی۔ سلطان ایوبی نے پوچھا… ''ان میں کتنے ہیں جو مذہب کی روح کو سمجھتے ہیں؟ لوگ ان کے مرید صرف اس لیے بن گئے ہیں کہ ان کی ساری کوششیں اسی پر مرکوز ہیں کہ لوگ ان کے مرید بن جائیں۔ میں جانتا ہوں کہ یہ امام اپنی عظمت قائم کرنے کے لیے لوگوں کو اصل مذہب سے بے بہرہ رکھتے ہیں۔ قوم کی بہترین درس گاہ مسجد ہے۔ مسجد کی چاردیواری میں بٹھا کر کسی کے کان میں ڈالی ہوئی کوئی بات روح تک اتر جاتی ہے۔ یہ مسجد کے تقدس کا اثر ہے مگر یہاں مسجد کا استعمال غلط ہورہا ہے۔ مسجدوں میں امام پیر اور مرشد بنتے جارہے ہیں۔ اگر میں نے مسجدوں میں باعمل عالم نہ رکھے تو کچھ عرصے بعد لوگ اماموں، پیروں اور مرشدوں کی پرستش کرنے لگیں گے۔ یہ بے علم اور بے عمل عالم اپنے آپ کو خدا اور اس کے بندوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ بنا لیں گے اور اسلام کے زوال کا باعث بنیں گے''۔

سلطان ایوبی نے اپنے ایک مفکر اور باعمل عالم زین الدین علی نجاالواعظ کو مشورے کے لیے بلایا۔ اس عالم

نے اپنا جاسوسی کا ایک ذاتی نظام قائم کرکھا تھا ور ایک بار اس نے صلیبیوں کی ایک بڑی ہی خطرناک سازش بے نقاب کرکے بہت سے آدمی گرفتار کرائے تھے۔ وہ مذہب کو اور مذہب میں جو تخریب کاری ہورہی ہے، اسے بہت اچھی طرح سمجھتا تھا۔ اس نے یہ کہہ کر سلطان ایوبی کا حوصلہ بڑھا دیا کہ اگر آج آپ مذہب کو تخریب کاری سے آزاد نہیں کریں گے تو کل آپ کو یہ حقیقت قبول کرنی پڑے گی کہ قوم آپ کی رہنمائی اور حکم کو قبول کرنے سے پہلے نام نہاد مذہبی پیشوائوں سے اجازت لیا کرے گی۔ اس وقت تک صلیبی مسلمانوں کے مذہبی نظریات میں توہم پرستی اور رسم ورواج کی ملاوٹ کرچکے ہیں… سلطان ایوبی نے فوری طور پر تحریری حکم نافذ کردیا کہ زین الدین علی بن نجاالواعظ کی زیرنگرانی ملک کی تمام مسجدوں کے اماموں کی علمی اور معاشرتی جانچ پڑتال ہوگی اور نئے امام مقرر کیے جائیں گے۔ نئے اماموں کے تقرر کے لیے سلطان ایوبی نے جو شرائط لکھیں، ان میں امام کا عالم ہونے کے علاوہ فوجی یا سابق فوجی یا عسکری تربیت یافتہ ہونا ضروری قرار دے دیا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی فلسفۂ جہاد اور عسکری جذبے کو مذہب اور مسجد سے الگ نہیں کرنا چاہتا تھا۔

اس نے ملک میں ایسے تمام کھیل تماشے اور تفریح کے ذرائع اور طریقے جرم قرار دے دئیے جن میں جوئے بازی اور تخریبی سکون کا پہلو نکلتا تھا۔ اس کے حکم سے علی بن سفیان کے محکمے نے تفریح گاہوں اور ان کے زیرزمین حصوں پر چھاپے مارے، جہاں سے اٹلی کے مصوروں کی بنائی ہوئی ننگی تصویریں برآمد ہوئیں۔ بہت سے لوگ گرفتار کیے گئے، جنہیں ملک دشمنی اور دشمن کا آلۂ کار بننے کے الزام میں تمام عمر کے لیے تہہ خانوں میں ڈال دیا گیا۔ اس کے بجائے سلطان ایوبی نے تیغ زنی، تیر اندازی ، گھوڑ سواری، بغیر ہتھیار لڑائی، کشتی جسے پنجہ آزمائی کہتے تھے اور ایسے ہی چند ایک کھیلوں کے مقابلوں کا سرکاری انتظام کردیا۔ پہلے مقابلے میں خود گیا اور اول آنے والوں کو اعلیٰ نسل کے گھوڑے تک انعام میں دئیے۔ اس نے درس گاہوں اور مسجدوں میں تعلیمی مقابلوں کا اہتمام کیا۔

سرحدی دستوں پر اس نے زیادہ توجہ دی تھی۔ اسے معلوم ہوچکا تھا کہ شہروں اور دارالحکومت سے دور رہنے والے لوگ نظریاتی تخریب کاری کا شکار جلدی ہوتے ہیں اور وہی سب سے پہلے دشمن کے حملے یا سرحدی جھڑپوں کی زد میں آتے ہیں۔ ان لوگوں کے نظریاتی اور جسمانی تحفظ کے لیے اس نے خصوصی انتظام کیے۔ اس نے سرحدوں پر جو دستے بھیجے تھے، ان کے کمانڈروں کو اس نے خود ہدایات دیں اور بڑے ہی سخت احکام دئیے تھے۔ یہ تمام کمانڈر جذبے اور ذہانت کے لحاظ سے ساری فوج میں منتخب کیے گئے تھے۔ رشد بن مسلم انہی میں سے تھا، جسے محمود کا اشارہ ملا کہ ایک تخریب کار پکڑا ہے تو وہ پورے کا پورا دستہ لے کر اٹھ دوڑا تھا۔ اگر پرانا کمانڈر ہوتا تو اس وقت صلیبیوں یا سوڈانیوں کی دی ہوئی شراب میں بدمست ہوتا اور تخریب کار اپنے سرغنہ کی رہائی کے لیے گائوں میں تباہی پھیلا کر غائب ہوچکے ہوتے۔

اب رشد بن مسلم، محمود بن احمد اور امام جس کا نام یوسف بن آذر تھا۔ اس کے کمرے میں بیٹھے، اس شعبدہ باز کی کہانی سنا رہے تھے، جسے لوگ قتل کرچکے تھے۔ علی بن سفیان بھی موجود تھا۔ اس نے تینوں سے ساری واردات سن لی تھی اور سلطان ایوبی کے پاس لے گیا تھا۔ سلطان ایوبی خاموش تھا کہ اتنی خطرناک نظریاتی یلغار کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا گیا ہے مگر علی بن سفیان نے کہا… ''صرف یلغار ختم ہوئی ہے، اس کے اثرات ختم کرنے کے لیے لمبا عرصہ درکارہے۔ مجھے جو تفصیل معلوم ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ سرحدی دیہات سے ہمیں فوجی بھرتی نہیں مل رہی۔ سرحد کے ساتھ ساتھ رہنے والے لوگ سوڈانیوں کے دوست بن گئے ہیں۔ وہ امارت مصر کے خلاف ہوگئے ہیں۔ جہاد کا جذبہ ختم ہوچکا ہے۔ وہ لوگ غلہ اور مویشی ہمیں نہیں دیتے۔ سوڈانیوں کو بخوشی دیتے ہیں۔ مسجدیں ویران ہوگئی ہیں، لوگ توہم پرست ہوکر شعبدہ بازوں

پیروں وغیرہ کی پرستش کرنے لگے ہیں۔ ہمیں ان لوگوں کے ذہنوں کو اپنے صحیح راستے پر لانے کے لیے باقاعدہ مہم شروع کرنی پڑے گی۔ اگر اس صلیبی شعبدہ باز اور اس کے گروہ کو لوگ قتل نہ کردیتے تو ہم اسے سارے علاقے میں گھماتے پھراتے ''۔

سلطان ایوبی نے اپنے انقلابی احکامات میں سرحدی علاقوں کو خاص طور پر شامل کررکھا تھا۔ اب اس نے اس طرف اور زیادہ توجہ دینے کا فیصلہ کیا۔ اس کے لیے سب سے زیادہ شدید سردردی یہ تھی کہ تقی الدین اور اس کی فوج کو سوڈان سے نکالنا تھا۔ قاہرہ پہنچتے ہی وہ منصوبہ بندی میں مصروف ہوگیا تھا۔ راتوں کو سوتا بھی نہیں تھا۔ وہ خود سوڈان کے محاذ پر نہیں جاسکتا تھا کیونکہ مصر کے اندرونی حالات اس کی توجہ کے محتاج تھے۔ اس نے قاہرہ میں آکر تقی الدین کو یہ اطلاع دینے کے لیے کہ وہ قاہرہ آگیا ہے، ایک قاصد بھیج دیا تھا۔ قاصد واپس آچکا تھا۔ اس نے بتایا تھا کہ تقی الدین کا جانی نقصان خاصا ہوچکا ہے اور کچھ نفری دشمن کے جھانسے میں آکر یا جنگ کی صورتحال سے گھبرا کر ادھر ادھر بھاگ گئی ہے۔ قاصد نے بتایا کہ تقی الدین اپنی باقی مادہ فوج کو یکجا کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے مگر دشمن اس کے سر پر موجود رہتا ہے۔ تقی الدین کو جوابی حملہ کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ اسے اتنی سی مدد کی ضرورت ہے کہ دشمن پر حملے کرنے کے لیے چند دستے مل جائیں تاکہ وہ اپنی فوج کو واپس لاسکے۔

سلطان ایوبی نے اسی وقت اپنے تین چار چھاپہ مار دستے اور چند ایک وہ دستے جنہیں جوابی حملہ کرنے اور گھوم پھر کر لڑنے کی خصوصی مشق کرائی گئی تھی، سوڈان بھیج دیئے تھے۔ وہ ہر حملہ دشمن کے عقب میں جاکر کرتے اور دشمن کا نقصان کرکے اور اسے بکھیر کر ادھر ادھر ہوجاتے تھے۔ چھاپہ ماروں نے دشمن کو زیادہ پریشان کیا۔ ان کا مقصد یہی تھا کہ دشمن کو تقی الدین کے تعاقب سے ہٹایا جائے۔ وہ خلاف توقع بہت جلدی کامیاب ہوگئے۔ ان کی اہلیت اور شجاعت کے علاوہ ان کی کامیابی کی وجہ یہ تھی کہ دشمن کی فوج تھکی ہوئی تھی اور صحرا بڑا ہی دشوار اور گرم تھا۔ گھوڑے اور اونٹ جواب دے رہے تھے۔

سوڈان کا حملہ بری طرح ناکام ہوا۔ کامیابی صرف یہ ہوئی کہ تقی الدین کو، اس کی مرکزی کمان کے سالاروں وغیرہ اور دستوں کو اور بچی کھچی فوج کو ایسی تباہی سے بچا لیا گیا جو ان کی قسمت میں لکھ دی گئی تھی۔ تقی الدین جب مصر کی سرحد میں داخل ہوا تو اسے پتا چلا کہ وہ سوڈان میں آدھی فوج ضائع کرآیا ہے۔

٭ ٭ ٭

ادھر کرک جل رہا تھا، نورالدین زنگی کے کاریگروں نے ضرورت کے مطابق دور مار منجنیقیں بنا لی تھیں، جن سے قلعے کے اندر پتھر کم اور آگ زیادہ پھینکی جارہی تھی۔ صلاح الدین ایوبی اندر کے چند ایک ہدف بتا آیا تھا۔ ان میں رسد کا ذخیرہ بھی تھا۔ آگ کے پہلے گولے قلعے کی اس طرف پھینکے گئے جس طرف سے رسد کا ذخیرہ ذرا قریب تھا۔ خوش قسمتی سے گولے ٹھکانے پر گئے۔ اندر سے شعلے جو اٹھے انہوں نے زنگی کی فوج کا حوصلہ بڑھا دیا۔ مسلمانوں نے دور مار تیروکمان بھی تیار کرلیے تھے۔ انہیں استعمال کرنے کے لیے غیرمعمولی طور پر طاقتور سپاہی استعمال کیے جارہے تھے لیکن آٹھ دس تیر پھینک کر سپاہی بے ہوحال ہوجاتا تھا۔ زنگی نے ایک اور دلیرانہ کارروائی کی۔ اس نے نہایت دلیر سپاہی چن لیے اور انہیں حکم دیا کہ قلعے کے دروازے پر ٹوٹ پڑیں۔ انہیں دروازہ توڑنے کے موزوں اوزار دئیے گئے۔

جانبازوں کا یہ دستہ دروازے کی طرف دوڑا تو اوپر سے صلیبیوں نے تیروں کا مینہ برسا دیا۔ کئی جانباز شہید اور زخمی ہوگئے۔ زنگی نے دور مار تیر اندازوں کو وہاں اکٹھا کیا اور عام تیر اندازوں کا بھی ایک ہجوم بلا لیا۔ ان سب کو مختلف زاویوں پر مورچہ بند کرکے دروازے کے اوپر والی دیوار کے حصے پر مسلسل تیر پھینکنے کا حکم دیا۔ حکم کی تعمیل شروع ہوئی تو

اتنے تیر برسنے لگے جن کے پیچھے دیوار کا بالائی حصہ نظر نہیں آتا تھا۔ جانبازوں کی ایک اور جماعت دروازے کی طرف دوڑی۔ زنگی نے تیروں کی بارش اور تیز کرادی۔ ذرا دیر بعد دیوار پر لکڑیوں سے بندھے ہوئے ڈرم نظر آئے۔ یہ جلتی لکڑیوں اور کوئلوں سے بھرے ہوئے تھے، جونہی انہیں باہر کو انڈیلنے والوں کے سر نظر آئے وہ سر تیروں کا نشانہ بن گئے۔ ایک دو ڈرم باہر کو گرے باقی دیوار پر ہی الٹے ہوگئے۔ وہاں سے شعلے اٹھے جن سے پتا چلتا تھا کہ آگ پھینکنے والے اپنی آگ میں جل رہے ہیں۔

زنگی کے کسی کمانڈر نے زنگی کے حملے کا یہ طریقہ دیکھ لیا۔ وہ گھوڑا سرپٹ دوڑا کر قلعے کے پچھلے دروازے کی طرف چلا گیا اور وہاں کے کمانڈر کو بتایا کہ سامنے والے دروازے پر کیا ہورہا ہے۔ ان دونوں کمانڈروں نے وہی طریقہ پچھلے دروازے پر آزمانا شروع کردیا۔ پہلے ہلے میں مجاہدین کا جانی نقصان زیادہ ہوا لیکن جوں جوں مجاہدین گرتے تھے، ان کے ساتھی قہر بن کر دروازے کی طرف دوڑتے تھے۔ تیر اندازوں نے صلیبیوں کو اوپر سے آگ نہ پھینکنے دی۔ زنگی نے حکم دیا کہ منجنیقیں قلعے کے اندر آگ پھینکیں۔ زنگی کی فوج نے دونوں دروازوں پر دلیرانہ حملے دیکھے تو فوج کسی کے حکم کے بغیر دو حصوں میں بٹ گئی۔ ایک حصہ قلعے کے سامنے چلا گیا اور دوسرا عقبی دروازے کی طرف۔ دونوں طرف دیوار پر تیروں کی ایسی بارش برسائی گئی کہ اوپر کی مزاحمت ختم ہوگئی۔ دونوں دروازے توڑ لیے گئے۔ زنگی کی فوج اندر چلی گئی۔ شہر میں خون ریز جنگ ہوئی، وہاں کے باشندوں میں بھگدڑ مچ گئی۔

اس بھگدڑ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے صلیبی حکمران اور کمانڈر قلعے سے نکل گئے۔ شام تک صلیبی فوج نے ہتھیار ڈال دئیے۔ زنگی نے قیدی مسلمانوں کو کھلے اور بند قید خانوں سے نکالا پھر صلیبی حکمرانوں کو سارے شہر میں تلاش کیا مگر کوئی ایک بھی نہ ملا۔

یہ ١١٧٣ء کی آخری سہ ماہی تھی، جب کرک کا مضبوط قلعہ سر کرلیا گیا اور مسلمانوں کو بیت المقدس نظر آنے لگا۔

٭ ٭ ٭
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

جب خزانہ مل گیا

Post by ایکسٹو »

جب خزانہ مل گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صلیبیوں کی یہ کانفرنس اپنی نوعیت کی پہلی ہنگامہ خیز کانفرنس تھی۔ وہ ہر شکست کے بعد ہر فتح کے بعد، ہر پسپائی اور کامیاب پیش قدمی کے بعد مل بیٹھتے تھے۔ تبادلۂ خیالات کرتے اور شراب پیتے تھے۔ عورت اور شراب کے بغیر وہ سمجھتے تھے کہ جنگ جیتی ہی نہیں جاسکتی۔ اپنی بیٹیوں کو مسلمانوں کے علاقوں میں جاسوسی، تخریب کاری اور مسلمان حکام کی کردار کشی کے لیے بھیج دیتے تھے اور خود اپنے قبضے میں لیے ہوئے علاقوں سے مسلمان لڑکیاں اغوا کرکے انہیں تفریح کا ذریعہ بناتے تھے۔ جاسوسوں نے جب انہیں یہ بتایا تھا کہ صلاح الدین ایوبی کہتا ہے کہ صلیبی عصمتوں کے بیوپاری اور مسلمان عصمتوں کے محافظ ہیں تو صلیبی حکمران اور کمانڈر بہت ہنستے تھے، ان میں سے کسی نے سلطان ایوبی کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا تھا کہ یہ شخص اتنی سی بات نہیں سمجھ سکتا کہ جس طرح صلیب کے بیٹے سپاہی بن کر جسم استعمال کرتے ہیں، اسی طرح صلیب کی بیٹیاں بھی مسلمانوں کو بے کار کرنے کے لیے اپنا جسم استعمال کرتی ہیں۔ کسی اور نے کہا تھا کہ صلاح الدین ایوبی کو ابھی تک احساس نہیں ہوا کہ اس کی قوم کے بے شمار چھوٹے چھوٹے حکمرانوں، قلعہ داروں اور سالاروں کو ہماری ایک ایک لڑکی اور سونے کے سکوں کی ایک ایک تھیلی ایسی شکست دے چکی ہے جس پر وہ لوگ فخر کررہے ہیں اور اس شکست سے لطف اٹھا رہے ہیں۔ صلاح الدین ایوبی ہم سے اسلام کی عصمت کس طرح بچائے گا؟

یہ صلیبیوں کی پہلی کانفرنس کی باتیں ہیں مگر ١١٧٣ء کے آخر میں بیت المقدس میں صلیبی سربراہ اکٹھے ہوئے تو ان پر کچھ اور ہی موڈ طاری تھا۔ انہوں نے سلطان ایوبی کا مذاق نہ اڑایا۔ کسی کے ہونٹوں پر بھولے سے بھی مسکراہٹ نہ آئی اور کسی کو یہ بھی یاد نہ رہا کہ وہ جب مل بیٹھتے ہیں تو شراب کا دور بھی چلا کرتا ہے۔ کرک سے وہ بڑے ہی شرمناک طریقے سے پسپا ہوئے تھے۔ ان میں ریجنالڈ بھی تھا جو کرک کا قلعہ دار بلکہ مالک تھا۔ وہ جنگجو تھا، فن حرب وضرب کا ماہر تھا۔ سلطان ایوبی کی فوج کے ساتھ اس نے اپنے زرہ پوش لشکر سے متعدد بار لڑائیاں لڑی تھیں۔ اس محفل میں ریمانڈ بھی تھا جس نے کرک کے محاصرے کے دوران صلاح الدین ایوبی کی فوج کو محاصرے میں لے لیا تھا۔ ان دونوں نے ایسا پلان بنایا تھا جس کے متعلق وہ بجا طور پر خوش فہمیوں میں مبتلا تھے مگر سلطان ایوبی نے کرک کا محاصرہ قائم رکھا، ریمانڈ کا محاصرہ ایسے انداز میں توڑا کہ ریمانڈ کا لشکر محاصرے میں آگیا۔ اس کی رسد تباہ ہوگئی اور اس کی فوج اپنے زخمی گھوڑوں اور اونٹوں کو مار مار کر کھاتی رہی۔ آخر اس کی آدھی سے زیادہ فوج کٹ گئی، کچھ گرفتار ہوئی اور باقی پسپا ہوگئی۔

ریجنالڈ خوش نصیب تھا کہ نورالدین زنگی کے سرفروشوں نے قلعہ سرکرلیا تو اندر کی بھگدڑ میں ریجنالڈ بچ کر نکل گیا، ورنہ وہ اس کانفرنس میں شمولیت کے لیے زندہ نہ ہوتا۔ اس محفل میں صلیبیوں کے ان جنگجو سرداروں کی تعداد بھی خاصی تھی۔ جنہیں ''نائٹ'' کہا جاتا تھا۔ یہ ایک خطاب تھا جو بادشاہ کی طرف سے عطا کیا جاتا اور اس کے ساتھ سر سے پائوں تک زرہ بکتری دی جاتی تھی۔ اس کانفرنس میں عکرہ کا پادری بھی تھا اور ان میں مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن فلپ آگسٹس بھی تھا۔ نائٹوں اور دیگر کمانڈروں کے ساتھ ساتھ اس کانفرنس میں صلیبیوں کی متحدہ انٹیلی جنس کا سربراہ ہرمن اور اس کے دو تین معاون بھی تھے۔ ابتداء میں اس ہجوم پر خاموشی چھائی رہی جیسے وہ ایک دوسرے کے سامنے بات کرتے گھبراتے ہوں۔ آخر فلپ آگسٹس نے زبان کھولی جس سے محفل میں زندگی کے آثار نظر آنے لگے۔ اس نے ''محافظ صلیب اعظم'' کو کانفرنس کی صدارت پیش کرکے اسی سے درخواست کی کہ وہ خطاب کرے۔

''ان لوگوں سے مخاطب ہوتے ہوئے مجھے شرم محسوس ہورہی ہے جنہوں نے اپنی قسمیں توڑیں، عہد توڑے اور بیت المقدس میں ز ندہ اور تندرست آبیٹھے''۔ عکرہ کے پادری نے کہا… ''میں یسوع مسیح کے آگے شرمسار ہوں اور میں صلیب کو دیکھتا ہوں تو میری نظریں جھک جاتی ہیں۔ کیا تم سب نے صلیب پر ہاتھ رکھ کر حلفیہ عہد نہیں کیا تھا کہ اس کے دشمنوں کا خاتمہ کرو گے، خواہ اس میں تمہیں جانیں بھی قربان کرنی پڑیں؟ کیا تم نے حلف نہیں اٹھایا تھا کہ اسلام کا نام ونشان مٹانے کے لیے جان اور مال کی اور اپنے جسموں کے اعضا کی قربانی دینے سے گریز نہیں کرو گے؟ تم میں کتنے ہیں جن کے جسموں پر ہلکی سے خراشیں بھی آئی ہوں؟ کوئی ایک بھی نہیں۔ تم شوبک مسلمانوں کو دے کر بھاگے۔ اب تم کرک دے کر بھاگ آئے ہو۔ میں اس حقیقت سے بھی بے خبر نہیں کہ جو میدان میں اترتے ہیں، وہ شکست بھی کھاسکتے ہیں۔ دو فتوحات کے بعد ایک شکست کوئی معنی نہیں رکھتی مگر یکے بعد دیگرے شکستیں اور دو پسپائیاں مجھے یقین دلا رہی ہیں کہ صلیب یورپ میں قید ہوگئی ہے اور وہ وقت بھی آنے والا ہے جب یورپ کے کلیسائوں میں مسلمانوں کی اذانیں گونجیں گی''۔

''ایسا کبھی نہیں ہوگا''… فلپ آگسٹس نے کہا… ''صلیب اعظم کے محافظ! ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ شکست کے کچھ اسباب تھے جن پر ہم غور کرچکے ہیں اور اب آپ کی موجودگی میںمزید غور کریں گے؟''

''اور شاید تم اس پر غور نہ کرو کہ اب مسلمانوں کی منزل بیت المقدس ہوگی''… فلپ آگسٹس نے کہا… ''ہم نے مسلمانوں میں اتنے غدار پیدا کرلیے ہیں جو صلاح الدین ایوبی اور نورالدین زنگی کو بیت المقدس کے راستے پر ڈال کر انہیں راستے میں ہی پیاسا مار ڈالیں گے''۔

''پھر یہ کون سے مسلمان ہیں جنہوں نے تم سے دو اتنے مضبوط قلعے لے لیے ہیں؟''… صلیب اعظم کے محافظ نے کہا… ''اس حقیقت کو مت بھولو کہ مسلمان انتہا پسند قوم ہے۔ مسلمان غداری پر آتا ہے تو اپنے بھائیوں کی گردن پر چھری چلا دیتا ہے مگر اس میں جب قومی جذبہ بیدار ہوجاتا ہے تو اپنی گردن کاٹ کر گناہوں کا کفارہ ادا کردیا کرتا ہے۔ مسلمان اگر غدار بھی ہوجائے تو اس پر اعتماد نہ کرو، دور نہ جائو، گزرے ہوئے صرف دس سالوں کے واقعات پر نظر ڈالو۔ اسلام کے غداروں نے تمہیں کتنے علاقے دلوائے ہیں؟ کیا تم میں ہمت ہے کہ مصر میں قدم رکھو؟ آج مسلمان فلسطین میں بیٹھے ہیں، کل تمہارے سینے پر بیٹھے ہوں گے۔ یاد رکھو میرے دوستو! اگر صلاح الدین ایوبی اور نورالدین زنگی نے تم سے بیت المقدس لے لیا تو وہ تم سے یورپ بھی لے لے گا لیکن سوال فلسطین اور یورپ کا نہیں، سوال زمین کے ٹکڑوں کا نہیں، اصل مسئلہ صلیب اور اسلام کا ہے۔ یہ دو مذہبوں اور نظریوں کی جنگ ہے۔ دو میں سے ایک کو ختم ہونا ہے۔ کیا تم صلیب کا خاتمہ پسند کرو گے؟''

''نہیں مقدس باپ، ایسا کبھی نہیں ہوگا''… محفل میں جوش وخروش پیدا ہوگیا… ''اتنی زیادہ مایوسی کی کوئی وجہ نہیں''۔

''پھر تم ان وجوہات پر غور کرو جو تمہاری پسپائی کا باعث بنی ہیں''… محافظ صلیب اعظم نے کہا… ''میں تمہیں جنگ کے متعلق کوئی سبق نہیں دے سکتا۔ میں نظریات کے محاظ کا سپاہی ہوں۔ میں کلیسا کا محافظ ہوں۔ مجھے کلیسا کی کنواریوں کی قسم دس کٹر مسلمان میرے سامنے لے آئو، انہیں صلیب کا پجاری بنالوں گا۔ ذرا اس پر غور کرو کہ تمہارے اتنے بڑے لشکر جو زرہ پوش بھی ہیں، مسلمانوں کی مختصر سی فوج کا مقابلہ کیوں نہیں کرسکتے؟ تمہارے پانچ سو سواروں کو ایک سو پیادہ مسلمان شکست دے دیتے ہیں؟ صرف اس لیے کہ مسلمان مذہب کے جنون سے لڑتے ہیں۔ وہ تمہارے مقابلے میں آتے ہیں تو قسم کھا لیتے ہیں کہ فتح یا موت۔ میں نے سنا ہے کہ ان کے چھاپہ مار تمہارے عقب میں چلے جاتے ہیں اور تمہاری کمر توڑ کر تمہارے تیروں سے چھلنی ہوجاتے ہیں یا نکل جاتے ہیں۔ ذرا سوچو کہ دس دس بارہ بارہ آدمی تمہارے ہزاروں کے لشکر میں کس طرح گھس آتے ہیں؟ یہ محض مذہبی جنون ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ خدا بھی ان کے ساتھ ہے اور خدا کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے ساتھ ہے۔ ایسی دلیرانہ کارروائیوں میں وہ اپنے کمانڈروں سے نہیں قرآن سے حکم لیتے ہیں۔ میں نے قرآن کا مطالعہ بہت غور سے کیا ہے۔ ہمارے خلاف جنگ کو قرآن جہاد کہتا ہے اور ہر مسلمان پر جہاد فرض کردیا گیا ہے۔ حتیٰ کہ جہاد کو نماز یعنی عبادت پر فوقیت حاصل ہے… تم بھی جب تک اپنے آپ میں یہی جنون پیدا نہیں کرو گے، اسلام کا تم کچھ نہیں بگاڑ سکتے''۔

٭ ٭ ٭

کچھ ایسے ہی جذباتی اور حقیقی الفاظ تھے جن سے عکرہ کے پادری نے اپنے شکست خوردہ حکمرانوں اور کمانڈروں کو بھڑکانے اور ان میں نئی روح پھونکنے کی کوشش کی اور وہ یہ کہہ کر چلا گیا کہ اب آپس میں بحث ومباحثہ کرو کہ تمہاری شکست کے اسباب کیا تھے اور اس کی ذمہ داری کس کس پر عائد ہوتی ہے اور اس شکست کو فتح میں کس طرح بدلنا ہے۔ بیت المقدس کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنالو۔ صلاح الدین ایوبی فرشتہ نہیں۔ تمہاری طرح ایک انسان ہے۔ اس کی طاقت صرف اس میں ہے کہ اس کا ایمان پکا ہے۔

پادری کے جانے کے بعد کانفرنس میں جو گرما گرمی پیدا ہوئی، وہ اس لحاظ سے تاریخی نوعیت کی تھی کہ اس میں کچھ فیصلے کیے گئے۔ ان میں ایک فیصلہ یہ تھا کہ جوابی حملہ نہ کیا جائے بلکہ ایوبی اور زنگی کے لیے انگیخت پیدا کی جائے کہ وہ پیش قدمی کریں اور حملے جاری رکھیں۔ انہیں مستقر سے دور لایا جائے اور بکھیر کر لڑایا جائے۔ اس طرح ان کی رسد کے راستے لمبے اور غیر محفوظ ہوجائیں گے۔ اس کے ساتھ یہ فیصلہ ہوا کہ یونانیوں، بازنطینیوں اور فرینکوں کو فوری طور پر تیار کیا جائے کہ سمندر کی طرف سے مصر پر بحری حملہ کریں اور ساحل پر فوج اتار کر مصر کے شمال مشرق کے اتنے سے علاقے پر قبضہ کرلیں جسے مضبوط مستقر )اڈا( بنا لیا جائے۔ اسے فلسطین کے دفاع اور مصر پر جارحیت کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ اہم فیصلہ یہ ہوا کہ اسلامی علاقوں میں اخلاق کی تخریب کاری تیز کردی جائے اور نظریاتی حملے اور شدید کردئیے جائیں۔

جیسا کہ پچھلے باب میں بیان کیا جاچکا ہے کہ مصر میں صلیبیوں کی اہم مہم تباہ کردی گئی تھی جو سرحدی علاقے میں توہمات پیدا کرنے کے لیے عروج پر پہنچ گئی تھی۔ صلیبی جاسوسوں نے وہاں سے آکر اطلاع دے دی تھی کہ وہ مہم ناکام ہوچکی ہے اور جن مسلمانوں کو زیراثر لے لیا گیا تھا، انہوں نے ہی مہم کے افراد کو ہلاک کردیا ہے… اس کانفرنس میں یہ انکشاف پیش کیا گیا کہ مقبوضہ علاقوں میں مسلمانوں کی زندگی اجیرن کردی گئی ہے۔ وہ مجبور ہوکر قافلوں کی صورت میں ترک وطن کرتے ہیں تو راستے میں ان کے قافلے لوٹ لیے جاتے ہیں۔ مال اور مویشی چھین لیے جاتے ہیں اور لڑکیوں کو

اغوا کرلیا جاتا ہے۔ کانفرنس میں اس اقدام کو ضروری سمجھا گیا۔ مسلمانوں کو ختم کرنے کا یہ بھی ایک اچھا طریقہ تھا۔ یہ نسل کشی کی مہم تھی جو صلیبیوں نے بہت عرصے سے جاری کررکھی تھی۔ پہلے بھی بیان کیا جاچکا ہے کہ مسلمان کی کمسن اور خوبصورت بچیوں کو اغوا کرکے صلیبی انہیں بے حیائی اور چرب زبانی کی تربیت دے کر انہیں پالیتے پوستے اور جب وہ جوان ہوجاتیں، انہیں مسلمانوں میں غداری کے جراثیم پیدا کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔

کانفرنس میں یہ بھی طے ہوا کہ مسلمانوں میں عیسائیت کی تبلیغ کی جائے۔ اس کے لیے بے شمار دولت کی ضرورت تھی جو خرچ تو کی جارہی تھی لیکن کچھ دشواریاں پیدا ہوگئی تھی۔ ایک یہ تھی کہ رقم اونٹوں کے ذریعے بھیجی جاتی تھی۔ کئی بار ایسے ہوا کہ مصر کے کسی سرحدی دستے نے پکڑ لیا یا اونٹ لوٹ لیے گئے۔ ضرورت یہ محسوس کی گئی تھی کہ کوئی ایسا ذریعہ مل جائے جس سے رقم اور انعامات کی دیگر قیمتی اشیاء اسی ملک سے دستیاب ہوجائیں، جہاں استعمال کرنی ہوں۔ خاصے عرصے سے اس مسئلے پر سوچ وبچار ہورہا تھا۔ صلیبیوں کی انٹیلی جنس کا کمانڈو، ہرمن، علی بن سفیان کی طرح غیرمعمولی ذہانت کا مالک تھا۔ اس نے کبھی کا سوچ رکھا تھا کہ مصر کی زمین اپنے اندر اس قدر خزانے چھپائے ہوئے ہے جس سے ساری دنیا کو خریدا جاسکتا ہے مگر ان خزانوں تک پہنچنا آسمان سے ستارے توڑ لانے کے برابر تھا۔ یہ خزانے فرعونوں کے مدفنوں میں محفوظ تھے۔ تاریخ فرعونوں کی اس رسم سے کبھی بھی بے خبر نہیں رہی کہ جب کوئی فرعون مرتا تھا تو اس کے ساتھ شاہانہ ضروریات کا تمام سامان اس کے ساتھ دفن کردیا جاتا تھا۔

مرے ہوئے فرعون کو قبر چند گز چوڑی نہیں ہوا کرتی تھی بلکہ زمین کے نیچے ایک محل تعمیر ہوجاتا تھا۔ فرعون اپنی زندگی میں اپنا مدفن تیار کرالیا کرتے تھے اور جگہ ایسی منتخب کرتے تھے جس تک اس کی موت کے بعد کوئی رسائی حاصل نہ کرسکے۔ مرنے کے بعد مدفن کو اس طرح بند کردیا جاتا تھا کہ معماروں کے سوا کسی کو معلوم نہیں ہوتا تھا کہ اسے کھولا کس طرح جاسکتا ہے۔ مرنے والے کے لواحقین معماروں کو قتل کردیا کرتے تھے۔ فرعونوں کا ایک عقیدہ تو یہ تھا کہ وہ خدا ہیں اور دوسرا یہ کہ مرنے کے بعد انہیں یہی جاہ وجلال حاصل ہوگا۔ چنانچہ پہاڑوں کو کاٹ کاٹ کر اور پھر پہاڑ کے نیچے زمین کی کھدائی کرکے محل جیسے ہال اور دیگر کمرے بنوا کر اس محل میں زیادہ سے زیادہ ہیرے جواہرات رکھوا دئیے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ بگھیا مع گھوڑوں اور بگھی بانوں کے اور کشتیاں مع ملاحوں کے اندر رکھ دی جاتی تھیں۔ خدمت کے لیے کنیزیں اور غلام اور بیویاں بھی ساتھ ہوتی تھیں۔ اس طرح صورتحال یہ بن جاتی تھی کہ ایک انسان کی لاش کے ساتھ جہاں بے انداز مال ودولت دفن ہوجاتا تھا وہاں بہت سے انسان زندہ اندر بھیج کر باہر سے مدفن کا منہ بند کردیا جاتا تھا۔ تصور کیا جاسکتا ہے کہ وہ دم گھٹنے سے کس طرح مرتے ہوں گے۔ فرعونوں کی لاشوں کو مصالحے وغیرہ لگا کر حنوط کیا جاتا تھا۔ ہزاروں سال گزر جانے کے بعد آج بھی ان کی لاشیں محفوظ ہیں، جن میں کچھ لندن کے عجائب خانے میں پڑی ہیں۔

فرعونوں کا دور ختم ہوا تو مصر کی حکومت جس کے بھی ہاتھ آئی اس نے فرعونوں کے مدفن تلاش کرنے کی کوشش کی۔ یہ مہم ناممکن کی حد تک مشکل ثابت ہوئی۔ مدفنوں کو تلاش کرنا ہی ایک مسئلہ تھا۔ اس کے بعد آج تک یہ مہم جاری ہے۔ مصر نے تاریخ میں بہت سی بادشاہیاں دیکھیں۔ ہر بادشاہ نے مدفن تلاش کیے جسے جو ہاتھ لگا لے اڑا۔ سب سے زیادہ حصہ انگریزوں کے ہاتھ آیا کیونکہ انگریزوں نے وہاں موجودہ دور میں اپنا اثر قائم کیا تھا جب سائنس ترقی کرچکی تھی۔ سائنس نے اور کھدائی کے مشینی طریقوں نے انگریزوں کی بہت مدد کی۔ پھر بھی کہتے ہیں کہ مصر کی زمین فرعونوں کے خزانوں سے ابھی تک مالامال ہے اور مصر کی تاریخ میں اگر غور سے جھانکیں تو اس میں ایسے پراسرار اور خوفناک واقعات

ملتے ہیں کہ وہ رونگٹے کھڑے کردیتے ہیں۔ کچھ ذاتی طور پر کسی فرعون کی تلاش میں نکلے۔ ان میں سے بعض مدفن میں داخل ہوبھی گئے مگر معلوم نہ ہوسکا کہ کہاں غائب ہوگئے۔ ان میں سے جو بچ کر نکلے وہ دوسرے کے لیے سراپا عبرت بن گئے۔ اسی لیے یہ عقیدہ آج بھی قائم ہے کہ فرعون خدا تو نہیں تھے لیکن ان کے پاس مرکر بھی کوئی ایسی طاقت موجود ہے جو ان کے مدفنوں میں جانے والوں کو عبرتناک سزا دیتی ہے۔ لوگوں نے اس عقیدے کو اس لیے تسلیم کیا ہے کہ جس بادشاہ نے بھی کسی فرعون کے مدفن میں ہاتھ ڈالا، اس کی بادشاہی کوزوال آیا۔ بعض نے فرعونوں کو نحوست کا حامل کہا ہے۔

صلاح الدین ایوبی کے دور سے پہلے ہی صلیبیوں کو معلوم تھا کہ مصر خزانوں کی سرزمین ہے۔ یہ وجہ بھی تھی کہ وہ مصر پر قابض ہونا چاہتے تھے۔ سلطان ایوبی کو شکست دینا آسان نظر نہ آیا تو انہوں نے یہ سوچنا شروع کردیا کہ ان مدفنوں کی تلاش مصریوں سے کرائی جائے اور خزانے نکلوا کر استعمال کیے جائیں۔ انہیں کسی طرح یہ پتا چل گیا تھا کہ مصری حکومت کے پرانے کاغذات میں ایسی تحریریں اور نقشے موجود ہیں جن میں بعض مدفنوں کے متعلق معلومات درج ہیں۔ ان کاغذات تک پہنچنا آسان نہیں تھا۔ صلیبیوں نے مصر میں بڑے ذہین جاسوس بھیجے تھے، جو صرف یہ معلوم کرسکتے تھے کہ یہ کاغذات کہاں ہیں اور کس طرح اڑائے جاسکتے ہیں مگر اس شعبے کے سربراہ کو اپنی گرفت میں لینا ممکن نہ تھا۔ ان دنوں جب سلطان ایوبی شوبک اور کرک کی جنگوں میں الجھا ہوا تھا اور اس کی غیرحاضری میں مصر سازشوں کی زرخیز زمین اور بغاوت کا آتش فشاں بن چکا تھا، صلیبیوں کے ماہر سراغ رساں ہرمن نے کامیابی حاصل کرلی تھی کہ سلطان ایوبی کی فوج کے ایک اعلیٰ کمانڈر احمر درویش کو اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔ احمر سوڈانی تھا، اس کے خلاف کوئی ایسی شکایت نہیں تھی کہ وہ غدار ہے۔ سلطان ایوبی کو اس پر اعتماد تھا۔ اس نے سلطان ایوبی کی زیرکمان لڑائیاں لڑی تھیں اور کمانڈروں کی صف میں نام پیدا کیا تھا۔

بعد کے انکشافات سے معلوم ہوا کہ یہ کمال میر یا ایستھینا نام کی ایک صلیبی لڑکی کا تھا کہ اس نے احمر کے دماغ میں سوڈان کی محبت، سلطان ایوبی کی مخالفت اور سوڈان میں مصر کے سرحدی علاقے میں سے کچھ حصے کی خودمختار ریاست کا لالچ پیدا کیا تھا۔ وہ تھا تو مسلمان لیکن صلیبیوں نے اس کے دماغ میں ڈ ال دیا تھا کہ وہ پہلے سوڈانی بعد میں مسلمان ہے۔ اب جبکہ نورالدین زنگی نے کرک کا قلعہ توڑ لیا تھا اور سلطان ایوبی مصر میں غداروں کا قلع قمع کررہا تھا۔ احمر درویش نے صلیبی جاسوسوں کے ساتھ کئی ایک ملاقاتیں کرلی تھیں۔ اس نے کسی کو شک تک نہیں ہونے دیا تھا ک وہ دشمن کے ساتھ سازباز کررہا ہے۔ اس نے مرکزی دفاتر میں اتنا اثرورسوخ پیدا کررکھا تھا کہ وہ پرانی دستاویزات تک پہنچ گیا۔ وہاں سے اس نے جو کاغذات چوری کرائے، ان میں بظاہر اوٹ پٹانگ سی لکیروں کا ایک نقشہ تھا۔ دراصل یہ کاغذات نہیں کپڑے اورکاغذ کے درمیان کی کوئی چیز تھی۔ ایسے ہی چند ایک اور کپڑے یا کاغذ تھے جن پر فرعونوں کے وقتوں کی عجیب وغریب تحریریں تھیں، جنہیں پڑھنا اور سمجھنا ممکن نظر نہیں آتا تھا۔ یہ کسی کو دکھائی بھی نہیں جاسکتی تھی۔ بہر حال کسی طرح ان تحریروں کے معنی واضح کرلیے گئے۔ انکشاف یہ ہوا کہ قاہرہ سے تقریباً اٹھارہ کوس دور ایک پہاڑی علاقہ ہے جو خوفناک ہے، بے کار ہے اور جس کے اندر شاید درندے بھی نہیں جاتے ہوں گے۔ اس کے اندر کہیں ایک فرعون کا مدفن ہے۔

یہ نہیں کہا جاسکتا تھا کہ یہ تحریر کہاں تک صحیح اور بامعنی ہے۔ اس میں لکیروں میں ہاتھ سے بنی ہوئی چند ایک تصویریں بھی تھیں۔ کہانی کا کچھ حصہ ان تصویروں میں چھپا ہوا تھا۔ احمر نے قسمت آزمائی کا فیصلہ کرلیا تھا۔ اس فرعون کا نام ریمینس دوم تھا۔ اس کے مدفن کی تلاش اور کھدائی کے لیے صلیبیوں نے قاہرہ میں چند ایک ہوشیار، دانشمند اور جفاکش جاسوس بھیج دئیے تھے۔ ان کا سربراہ مارکونی اطالوی تھا جسے سیاحت اور کوہ پیمائی کا تجربہ تھا۔ احمر نے ان آدمیوں کو کامیابی

سے بہروپ چڑھا دئیے تھے کہ قاہرہ میں انہیں کوئی پہچان نہیں سکتا تھا۔ دو کو تو اس نے اپنے گھر میں ملازم رکھ لیا تھا۔ اس کے عوض احمر درویش سے یہ سودا ہوا تھا کہ وہ مدفن سے زروجواہرات نکالے، انہیں اپنے پاس رکھے۔ سلطان ایوبی کے خلاف تخریب کاری میں استعمال کرے، فدائیوں کو منہ مانگی اجرت دے۔ سلطان ایوبی کوقتل کرائے اور جب مصر صلیبیوں یا سوڈانیوں کے قبضے میں آجائے گا تو اسے ایک خودمختار ریاست بنا دی جائے گی، جس میں کچھ حصہ سوڈان کا کچھ مصر کا شامل ہوگا۔ اسے یہ بھی کہا گیا تھا کہ اس تلاش کے دوران اگر سلطان ایوبی صلیبیوں پر یا سوڈانیوں پر حملہ کرے تو احمر اپنے زیرکمان دستوں کو سلطان ایوبی کی جنگی چالوں کے الٹ استعمال کرے۔

احمر درویش کا دماغ اتنے بڑے لالچ کے جادو کی گرفت میں آچکا تھا اور اس نے مارکونی کو ان دو صلییوں کے ساتھ جو اس کے نوکروں کے بہروپ میں اس کے گھر میں تھے، نقشہ دے کر مدفن کی تلاش کی مہم پر روانہ کردیا تھا۔ ایک جاسوس کی وساطت سے اس نے ہرمن کو اطلاع بھیج دی تھی کہ تلاش شروع ہوچکی ہے۔ ہرمن نے اس کانفرنس میں صلیبی حکمرانوں وغیرہ کو بتا دیا کہ اگر یہ مدفن بے نقاب ہوگیا تو اس سے برآمد ہونے والی دولت سے مصر کی جڑیں مصریوں کے ہی ہاتھوں کھوکھلی کی جاسکیں گی۔

٭ ٭ ٭
١١٧٤ء کی پہلی سہ ماہی کے آخری دن تھے، قاہرہ سے اٹھارہ کوس دور ایک جگہ تین اونٹ کھڑے تھے۔ ہر اونٹ پر ایک آدمی سوار تھا۔ ان کے چہرے ڈھکے ہوئے تھے، ایک سوار نے چغے کے اندر سے ایک گول کیا ہوا چوڑا کاغذ نکالا۔ اسے کھول کر غور سے دیکھا اور اپنے ساتھیوں سے کہا… ''جگہ یہی ہے'' … اس کے اشارے پر تینوں اونٹ آگے چل پڑے۔ وہ ٹیلے آمنے سامنے دیواروں کی طرح کھڑے تھے۔ ان کے درمیان ایک اونٹ گزرنے کا راستہ تھا۔ تینوں ایک قطار میں اندر چلے گئے۔ اندر کی پہاڑیوں کی شکل وصورت ایسی تھی جیسے کوئی بہت ہی وسیع عمارت ہو جس کی چھتیں غائب ہوں۔ ریت کے لامحدود سمندر میں یہ پہاڑی علاقہ تین چار میلوں میں پھیلا ہوا تھا۔ باہر ٹیلے اور چٹانیں تھیں۔ ان کے پیچھے سخت مٹی کی پہاڑیاں اور ان کے پیچھے ٹوٹی پھوٹی دیواروں کی طرح پہاڑیاں تھیں جن میں بعض بہت چوڑے اور گول ستونوں کی طرح ایک ہزار فن بلندی تک گئی ہوئی تھیں۔ سورج غروب ہونے کے بعد جب شام ابھی گہری نہیں ہوتی تھی، یہ علاقہ بہت سے بھوتوں کی طرح نظر آیا کرتا تھا۔ اس کے اندر جانے کی کسی نے کبھی جرأت نہیں کی تھی۔ کوئی جرأت کرتا بھی تو کیوں کرتا۔ اندر جانے کی کسی کو کبھی ضرورت ہی نہیں پڑی تھی۔ صحرا کے مسافروں کی ضرورت صرف پانی ہوا کرتی تھی۔ ایسے خشک پہاڑوں اور چٹانوں کے اندر جو دن کے وقت دور سے شعلوں کی طرح نظر آتے تھے، پانی کا ذرا سا دھوکہ بھی نہیں ہوسکتا تھا۔

یہ جگہ کسی راستے میں بھی نہیں پڑتی تھی، میلوں دور سے نظر آنے لگتی تھی۔ لوگ اس کے متعلق کچھ ڈرائونی سی کہانیاں سنایا کرتے تھے جن میں ایک یہ تھی کہ یہ شیطان بدروحوں کا مسکن ہے۔ خدا نے جب آسمان سے شیطان کو دھتکارا تھا تو شیطان یہیں اترا تھا۔ اس علاقے کی چونکہ فوجی اہمیت بھی نہیں تھی، اس لیے فوجوں نے بھی کبھی اس کے اندر جانے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔ ایسے علاقے کے اندر ریت، موت اور صحرائی درندوں کے سوا اور ہو ہی کیا سکتا تھا۔ اس کے ہولناک خطے کی تاریخ میں غالباً یہ پہلے تین انسان تھے جو اس کے اندر چلے گئے تھے۔ انہیں وہیں جانا تھا کیونکہ ہزاروں سال پرانا نقشہ اسی جگہ کی نشاندہی کررہا تھا۔ صرف ایک لکیر شک پیدا کرتی تھی۔ یہ ایک ندی کی لکیر تھی مگر وہاں کوئی ندی نہیں تھی۔ اس جگہ اب ایک بڑا ہی لمبا نشیب نظر آتا تھا جس کی چوڑائی بارہ چودہ گز تھی۔ اس کے اندر کی ریت کی شکل وصورت بتاتی تھی کہ صدیوں پہلے یہاں سے پانی گزرتا رہا ہے۔ اسی نشیب نے جو قریب ہی کہیں ختم ہونے کے بجائے دریائے نیل کی طرف چلا گیا تھا، شتر سواروں کو یقین دلایا تھا کہ وہ جس جگہ کی تلاش میں ہیں، وہ یہی ہے۔

ان سواروں میں ایک مارکونی اطالوی تھا اور دو اس کے ساتھی تھے، تینوں صلیبی تھے۔ انہیں سلطان ایوبی کے ایک کمانڈر احمر درویش نے فرعون ریمینس دوم کے مدفن کی تلاش کے لیے بھیجا تھا۔ نقشے کے مطابق وہ صحیح جگہ پر آگئے تھے۔ اب اندر جاکر یہ دیکھنا تھا کہ یہ جگہ کس حد تک صحیح ہے۔ مارکونی نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اپنے آپ کو خدا سمجھنے والے فرعون اپنی آخری آرام گاہ ایسے جہنم میں بنانے کی سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ احمر اور ہرمن نے ہمیں ایک بے کار آزمائش میں ڈ ال دیا ہے۔ اس کے ساتھیوں نے اسے اپنا کمانڈر سمجھتے ہوئے کوئی مشورہ نہ دیا۔ وہ حکم کے پابند تھے۔ مارکونی سخت جان صلیبی تھا۔ ہمت ہارنے کا قائل نہ تھا۔ وہ آگے آگے چلتا رہا۔ وہ جوں جوں اندر جارہے تھے، چٹانوں کی شکلیں بدلتی جارہی تھیں۔ ان کا رنگ گہرا بادامی بھی تھا، کہیں بھی اور کہیں کہیں ان کا رنگ مٹیالال بھی تھا۔ ان میں ریتلی سلوں کی چٹانیں تھیں اور مٹی کے سیدھے کھڑے ٹیلے بھی۔ ڈھلانوں سے ریت بہتی نظر آتی تھی۔

بہت آگے جاکر یہ وادی بند ہوگئی۔ مارکونی نے دائیں طرف دیکھا، ایک ٹیلا درمیان سے اس طرف پھٹا ہوا تھا جیسے زلزلے نے دیوار میں شگاف کردیا ہو۔ شگاف میں سے جھانکا، یہ ایک گلی تھی جو دور تک چلی گئی تھی۔ اونٹ کا گزرنا مشکل نظر آتا تھا۔ مارکونی نے اپنا اونٹ شگاف کی گلی میں داخل کردیا۔ اس کے گھٹنے دونوں طرف ٹیلوں کی دیواروں سے لگتے تھے۔ اس نے ٹانگیں سمیٹ کر اونٹ کی کوہان پر رکھ دیں۔ پچھلے سواروں نے بھی ایسا ہی کیا۔ اونٹوں کے پہلو دائیں بائیں لگتے تھے تو مٹی نیچے گرتی تھی۔ ٹیلا دو حصوں میں کٹ کر دور تک چلا گیا تھا۔ اونٹوں کے ہچکولوں سے یوں لگتا تھا جیسے ٹیلے کے دونوں حصے مل رہے ہوں اور دونوں مل کر اونٹوں کو سواروں سمیت پیس ڈالیں گے۔ آگے جاکر اوپر دیکھا تو دور اوپر ٹیلے کے دونوں حصوں کی چوٹیاں آپس میں مل گئی تھیں۔ آگے اندھیرا سا تھا لیکن دور آگے روشنی سی نظر آتی تھی جس سے امید بندھ گئی کہ وہ گلی وہاں ختم ہوجائے گی اور آگے جگہ فراخ ہے۔

گلی نے اب سرنگ کی صورت اختیار کرلی تھی جس میں اونٹوں کے پائوں کی آوازیں ڈرائونی سے گونج پیدا کرتی تھیں۔ مارکونی بڑھتا گیا۔ وہاں یہی ایک راستہ تھا اس لیے غلطی کا امکان کم تھا۔ سامنے روشنی کا جو دھبہ تھا، وہ پھیل رہا تھا، سرنگ ختم ہورہی تھی… اور جب وہ سرنگ کے دہانے پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ اونٹ سواروں سمیت نہیں گزر سکیں گے۔ سوار اونٹوں کی گردنوں پر آکر نیچے اتر کیونکہ پہلوئوں سے نہیں اترا جاسکتا تھا۔ اونٹوں کو بڑی مشکل سے باہر نکالا گیا۔ آگے دیکھا تو چاروں طرف کسی پرانے قلعے کی بڑی ہی بلند دیواریں نظر آئیں مگر یہ قلعہ قدرتی تھا۔ پہاڑیوں کی شکل ایسی تھی کہ تین چار سو گز تک ڈھلان تھی اور وہاں سے پہاڑیاں سیدھی اوپر کو اٹھ گئی تھیں، بعض اونچی تھیں، بعض کم بلند۔ معلوم ہوتا تھا جیسے ہر جگہ ہر طرف سے بند ہو۔ گھوم پھر کر دیکھا تو ایک پہاڑی کے ساتھ اتنی جگہ تھی جس پر پیدل چلا جاسکتا تھا۔

مارکونی نے اونٹوں کو بٹھا دیا اور پیدل چل پڑے۔ پہاڑی گولائی میں ہوگئی تھی۔ پائوں جما کر رکھنا پڑتا تھا کیونکہ ریت اور مٹی تھی جس سے پائوں ڈھلان کی طرف ہوکر گرا سکتا تھا۔ یہ دراصل کوئی باقاعدہ راستہ نہیں تھا۔ چلنے کی صرف جگہ تھی۔ زمین اور ٹیلے بتا رہے تھے کہ صدیوں سے یہاں کسی انسان نے قدم نہیں رکھا۔ یہ چلنے کی جگہ یا راہ آگے گئی تو مارکونی اور اس کے ساتھیوں کے دل اچھل کر حلق تک آگئے۔ ڈھلان سخت ہوگئی تھی اور نیچے جا کر کسی بڑی ہی اونچی دیوار کی منڈیر بن گئی تھی۔ دائیں طرف پہاڑی تھی جس کے پہلو میں وہ قدم جما جما کر چل رہے تھے مگر بائیں طرف زمین دور نیچے چلی گئی تھی۔ یہ ایک وسیع اور بہت ہی گہری کھائی تھی۔ وہاں سے گرنے کا نتیجہ صرف موت تھا۔ کھائی کے دوسرے کناروں پر اسی طرح کے پہاڑ تھے جس کے ساتھ ساتھ وہ چل رہے تھے۔

ایسے خطرناک مقام پر آکر مارکونی کے ایک ساتھی نے اس سے پوچھا… ''کیا تمہیں یقین ہے کریمینس فرعون کا جنازہ اس جگہ سے گزارا گیا ہوگا؟''

''احمر درویش نے یہی راستہ بتایا ہے''… مارکونی نے کہا… ''جہاں تک میں نقشے کو سمجھ سکا ہوں، ہمارے گزرنے کا یہی راستہ ہے۔ ریمینس کا تابوت کسی اور طرف سے گزارا گیا تھا۔ ہمیں وہ راستہ معلوم کرنا ہے۔ وہ کوئی خفیہ راستہ تھا جو صدیوں کی آندھیوں اور زمین کی تبدیلیوں نے بند کردیا ہوگا۔ اگر وہ راستہ مل گیا تو ہم مدفن تک پہنچ جائیں گے''۔

''اگر زندہ رہے تو!''۔

''میں اس کے متعلق یقین تو نہیں دلا سکتا''… مارکونی نے کہا… ''یہ یقین دلا سکتا ہوں کہ مدفن مل گیا تو تم دونوں کو مالا مال کردوں گا''۔

راستہ چوڑا ہوگیا اور کھائی ختم ہوگئی۔ اب وہ دو ایسی پہاڑیوں کے درمیان جارہے تھے جن کے دامن ملے ہوئے تھے مگر کچھ ہی دور آگے پہاڑیاں مل گئی تھیں۔ وہ وہاں تک پہنچے تو انہیں بائیں طرف اوپر چڑھنا پڑا۔ کوئی ایک سو گز اور گوپر جاکر انہیں ایک گلی سی نظر آئی جو نیچے کو جارہی تھی۔ وہاں سے اردگرد دیکھا تو دور دور تک پہاڑیوں کے ستون اوپر کو گئے ہوئے تھے۔ منظر ہیبت ناک تھا۔ وہ نیچے اترتے گئے۔ یہ گلی کئی ایک موڑ مڑ کر انہیں ایک فراخ جگہ لے گئی جو گولائی میں تھی۔ یہاں کی گرمی ناقابل برداشت تھی۔ چوٹیوں کے قریب پہاڑیوں میں چمک سی تھی۔ وہاں کی مٹی میں کسی دھات کی آمیزش تھی۔ اس کی تپش سے گرمی زیادہ تھی۔ ہر طرف پہاڑیاں تھیں، سوائے چند گز جگہ کے۔ وہاں گئے تو خوف سے تینوں پیچھے ہٹ گئے۔ وہ بہت گہرا نشیب تھا۔ وسعت بھی زیادہ تھی۔ اس کی تہہ پر ریت چمک رہی تھی اور سورج کی تپش اتنی زیادہ تھی کہ ریت سے دھواں سا اٹھتا اور لرزتا نظر آتا تھا۔ اس سے اس کی گہرائی کا اندازہ نہیں ہوتا تھا۔

اس اتنے گہرے نشیب کے آمنے سامنے کے کناروں کو ایک قدرتی دیوار ملاتی تھی۔ یہ نیچے سے اوپر تک تھی۔ یہ دراصل مٹی اور ریت کا دیوار نما ٹیلا تھا جو نیچے سے بھی اتنا ہی چوڑا تھا جتنا اوپر سے۔ اس کی چوڑائی ایک گز سے کم تھی۔ کہیں سے گولائی میں تھی جس پر چلنا خطرناک تھا۔ اگر مارکونی کو پار جانا ہی تھا تو یہی ایک راستہ تھا جو پل صراط کی مانند تھا۔ اس کی لمبائی پچاس گز سے زیادہ ہی تھی۔ مارکونی کے ایک ساتھی نے اسے کہا… ''میرا خیال ہے اس دیوار پر چلنے کے بجائے تم خودکشی کا کوئی بہتر طریقہ اختیار کروگے''۔

''خزانے راستے میں پڑے نہیں ملا کرتے''… مارکونی نے کہا… ''ہمیں اس راستے سے پار جانا ہے''۔

''اور پھسل کر نیچے جہنم کی آگ میں گرنا ہے''… دوسرے ساتھی نے کہا۔

''کیا ہم نے صلیب پر ہاتھ رکھ کر حلف نہیں اٹھایا کہ صلیب کی عظمت اور اسلام کی بیخ کے لیے جانیں قربان کردیں گے؟''… مارکونی نے کہا… ''کیا میدان جنگ میں ہمارے ساتھی صلیب پر جانیں قربان نہیں کررہے؟ میں بزدلوں کی طرح یہیں سے واپس ہوکر احمر درویش کو یقین دلا سکتا ہوں کہ اتنی صدیاں گزر جانے کے بعد اب تمام راستے بند ہوچکے ہیں، جہاں ندی تھی، وہاں چٹانیں ہیں اور جہاں نقشہ چٹانیں دکھاتا ہے وہاں کچھ بھی نہیں ہے مگر میں بزدل نہیں بنوں گا،

جھوٹ نہیں بولوں گا۔ میرے دل پر خوف طاری ہوچکا ہے۔ میں اس کے خلاف لڑ رہا ہوں، میرے خوف میں اضافہ نہ کرو دوستو! اگر تم میرا ساتھ نہیں دو گے تو صلیب سے دھوکہ کرو گے اور اس کی سزا بڑی اذیت ناک ہوگی۔ میں تمہارے آگے آگے چلتا ہوں، جہاں پھسلنے کا خطرہ محسوس کرو وہاں اس طرح بیٹھ جانا جس طرح گھوڑے پر بیٹھتے ہیں۔ پھر آگے سرکتے رہنا''۔

٭ ٭ ٭
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: داستان ایمان فروشوں کی جلد‎ ‎دوم

Post by ایکسٹو »

یہ مطالبہ کہ وہ ایک رقاصہ کو اپنے ساتھ رکھے گا، کوئی عجیب یا غیرمعمولی مطالبہ نہ تھا۔ البتہ قدومی کو اپنے ساتھ لے جانا کچھ عجیب سا تھا۔ قدومی ایک جواں سال رقاصہ تھی جو صرف امراء اور دولت مند افراد کے ہاں جاتی تھی۔ وہ سوڈان کی رہنے والی تھی اور مسلمان تھی۔ وہ خوبصورت تو تھی ہی مگر اس کے نازو ادا میں جو جادو تھا، اس نے بڑے بڑے لوگوں کے دماغ خراب کررکھے تھے۔ سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا کہ قدومی مارکونی کے ساتھ صحرا میں چلی جائے گی۔ مارکونی اس کے بغیر جانے پر راضی نہیں ہورہا تھا۔ احمر درویش کو آخر یہ وعدہ کرنا پڑا کہ وہ قدومی کو اس کے ساتھ بھیج دے گا۔

اسی روز پچاس آدمیوں کی تلاش شروع ہوگئی۔ قاہرہ میں صلیبی جاسوسوں اور تخریب کاروں کی کمی نہیں تھی۔ مارکونی زیادہ تر آدمی انہی میں سے اپنے ساتھ لے جانا چاہتا تھا کیونکہ وہ اس کے اعتماد کے آدمی تھے۔ احمر بھی اسی گروہ کے آدمیوں کا انتخاب کرنا چاہتا تھا۔ سلطان ایوبی کے اس جرنیل نے اپنا ایک تخریب کار گروہ تیار کررکھا تھا۔ یہ سب مسلمان تھے۔ ان کے اغراض ومقاصد صلیبیوں والے تھے۔ احمر درویش نے اپنا ایمان نیلام کرکے ان چند ایک مسلمانوں کو بھی ایمان فروش بنا دیا تھا۔ یہ سب صلاح الدین ایوبی کے دشمن بن گئے تھے اور ان کا اٹھنا بیٹھنا حسن بن صباح کے فدائیوں کے ساتھ شروع ہوگیا تھا۔

قدومی کے پاس مارکونی خود احمر درویش کا پیغام لے کر گیا۔ احمر معمولی حیثیت کا آدمی نہیں تھا، وہ فوجی حاکم تھا اور مصر پر عملاً فوج کی حکومت تھی۔ ویسے بھی قدومی احمر کے زیراثر تھی۔ اس نے بادل نخواستہ ہاں کردی لیکن مارکونی نے اسے یہ بتا کر کہ وہ فرعون کے مدفن میں سے ہیرے جواہرات نکالنے جارہا ہے، قدومی پر ایسا نشہ طاری کردیا کہ وہ فوراً روانہ ہونے کو تیار ہوگئی۔ مارکونی منجھا ہوا چالاک اور ہوشیار آدمی تھا۔ اس نے قدومی کو ملکہ قلوپطرہ بنا دیا۔ قدومی ایک رقاصہ تھی جس کے کوئی جذبات نہیں تھے۔ اسے اپنے جسم، اپنے حسن، اپنے فن اور زروجواہرات سے پیار تھا۔ وہ ان عورتوں میں سے تھی جو اس خوش فہمی میں مبتلا ہوتی ہیں کہ ان کے حسن وجوانی کو کبھی زوال نہیں آئے گا۔ مارکونی نے اسے یہ نہیں بتایا تھا کہ فرعون کے مدفن سے برآمد ہونے والا خزانہ کہاں اور کیوں صرف کیا جائے گا۔

پچاس آدمیوں کی تلاش میں پندرہ بیس دن لگ گئے۔ ان میں زیادہ تعداد صلیبی تخریب کاروں کی تھی۔ باقی مسلمان تھے۔ وہ بھی صلیبیوں کے ہی تخریب کار تھے۔ سب اونٹوں پر سوار ہوکر قاہرہ سے نکل گئے تھے لیکن وہ اکٹھے روانہ نہ ہوئے۔ تین تین چار چار کی ٹولیوں میں مسافروں اور تاجروں کے روپ میں نکلے۔ قدومی کو ایک پردہ دار بیوی کے بہروپ میں لے جایا گیا۔ مارکونی اس کا خاوند بنا، ان دونوں کے ساتھ دو آدمی تھے۔ ایک صلیبی تھا اور دوسرا مسلمان جس کا نام اسماعیل تھا۔ یہ احمر کے خاص آدمیوں میں سے تھا۔ اپنی ضرورت پر اور کرائے پر بھی ہر جرم کر گزرتا تھا۔ کرائے کے قاتلوں میں سے بھی تھا۔ معاشرے میں اس کی کوئی حیثیت اور عزت نہیں تھی لیکن حیثیت والے لوگ اسے سلام کرتے تھے۔ مارکونی بھی اسے اچھی طرح جانتا تھا اور اس مہم میں اسے قابل اعتماد سمجھتا تھا۔ یہ سب الگ الگ راستوں سے روانہ ہوئے تھے۔ انہیں اٹھارہ کوس دور وہ جگہ بتا دی گئی تھی جہاں انہیں اکٹھا ہونا تھا۔ ان کے پاس تیروکمان اور تلواریں تھیں۔

رسے اور کھدائی کا سامان تھا۔

سب سے پہلے مارکونی، اسماعیل، قدومی اور ان کا ایک صلیبی ساتھی وہاں پہنچے تھے۔ مارکونی انہیں اس پہاڑی علاقے کے اندر لے گیا تھا۔ سورج غروب ہوچکا تھا اور انہوں نے خیمے لگا لیے تھے۔ اسی رات ان کے ساتھیوں کو پہنچ جانا تھا۔ اسماعیل قدومی کو جانتا تھا۔ قدومی اس سے واقف نہیں تھی۔

٭ ٭ ٭

رونے کی آوازیں بدستور آرہی تھیں اور ان کے تیسرے ساتھی کی چیخوں کی گونج اس طرح بھٹک رہی تھی جیسے اوپر جاکر ان کے اوپر منڈلا رہی ہو… دیوار کچھ چوڑی ہوگئی۔ مارکونی نے گھوم کر اپنے ساتھی کا ہاتھ پکڑا اور اسے اوپر کرلیا۔ آگے وہ ذرا اطمینان سے چل سکتے تھے لیکن ہوا کے جھونکے اتنے تیز تھے کہ ان کے لیے توازن قائم رکھنا ذرا مشکل تھا۔ وہ آہستہ آہستہ بڑھتے گئے اور دیوار ختم ہوگئی۔ آگے زمین اور پہاڑیاں کچھ سخت تھیں۔ دو چٹانوں کے درمیان تنگ سا راستہ تھا۔ وہ اس میں داخل ہوگئے۔ مارکونی کے ساتھی نے اس سے پوچھا… ''جیفرے مرچکا ہوگا؟ اسے بچایا یا دیکھا نہیں جاسکتا؟''

مارکونی نے اس کی طرف دیکھا۔ آہ بھری اور نفی میں سرہلایا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اس نے کچھ کہے بغیر اپنے ساتھی کے کندھے پر تھپکی دی اور آگے چل پڑا۔ یہ بھی ایک گلی سی تھی جو فراخ ہوتی جارہی تھی۔ مارکونی نے اپنے ساتھی سے کہا… ''ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم جہاں جاتے ہیں وہاں ایک ہی راستہ ملتا ہے۔ ایک سے زیادہ راستے ہوں تو بھٹک جانے کا خطرہ ہوتا ہے''۔

یہ گلی ختم ہوگئی۔ آگے جگہ کشادہ ہوتے ہوتے بہت ہی کھل گئی اور زمین اوپر کو اٹھتی گئی۔ ہوا ابھی تک تیز تھی۔ مارکونی کو بالکل اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس ہیبت ناک علاقے میں کتنی دور اور اندر پہنچ گیا ہے۔ اسے صرف یہ احساس رہ گیا تھا کہ دنیا سے اس کا رشتہ منقطع ہوچکا ہے۔ وہ صلیب کے نام پر دیوانہ ہوا جارہا تھا۔ فرعون کا مدفن تلاش کرنے کا مقصد اس کے سامنے یہی تھا کہ اس سے نکلے ہوئے خزانوں سے مسلمانوں کو خرید کر انہیں سلطنت اسلامیہ کے ہی خلاف استعمال کیا جائے گا اور دنیا میں صلیب کی حکمرانی ہوگی۔ وہ اپنے ڈرے ہوئے ساتھی کے ساتھ آگے بڑھتا گیا۔ ہوا اسی طرف سے آرہی تھی، پہاڑوں کی چوٹیاں دائیں بائیں کوہٹ گئی تھیں اور سامنے آسمان نظر آرہا تھا۔ مارکونی چڑھائی چڑھ رہا تھا، وہ رک گیا اور ہوا کو سونگھ کر بولا… ''تم بھی سونگھو، ہوا میں جو بو ہے وہ صحرا کی نہیں''۔

''تمہارا دماغ جواب دے رہا ہے''۔ اس کے ساتھی نے کہا… ''صحرا میں صحرا کی بو نہیں ہے تو اور کس کی ہے؟ تم اطالوی ہو شاید؟ شاید تمہیں اپنے گھر کی بو آرہی ہے''۔

مارکونی کے چہرے پر کچھ اور تاثر تھا، وہ ہوا کو سونگھ رہا تھا۔ اس نے اپنے ساتھی سے کہا… ''تم شاید ٹھیک کہتے ہو، میرے دماغ پر صحرا کی صعوبت کا اثر ہوگیا ہے۔ یہاں پانی نہیں ہوسکتا۔ میں شاید خیالوں میں کھجوروں، سبزے اور پانی کی بو سونگھ رہا ہوں۔ میں اس بو سے اچھی طرح واقف ہوں۔ یہ میرا تجربہ ہے مگر میرے سونگھنے کی حس مجھے دھوکہ دے رہی ہے۔ اس جہنم میں پانی کی بوند بھی نہیں ہوسکتی''۔

''مارکونی!'' اس کے ساتھی نے اس کا بازو پکڑ کر اسے روک لیا اور کہا… ''میں بھی ایک بو سونگھ رہا ہوں، موت کی بو۔ مجھے موت اپنی طرف بڑھتی ہوئی محسوس ہورہی ہے۔ آئو دوست! جدھر سے آئے ہیں، ادھر ہی لوٹ چلیں اگر تم سمجھتے ہو کہ میں بزدل ہوں تو مجھے میدان جنگ میں بھیج دو۔ ایک سو مسلمانوں کو کاٹنے سے پہلے نہیں مروں گا''۔

مارکونی زیادہ باتیں کرنے والا آدمی نہیں تھا۔ اس نے اپنے ساتھی کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور مسکرا کر کہا… ''ہم ایک سو نہیں، ایک ہزار مسلمانوں کو کاٹیں گے اور مریں گے نہیں۔ میرے ساتھ آئو''۔

وہ ساتھی کو لے کر چڑھائی چڑھنے لگا۔ چڑھائی زیادہ اونچی نہیں تھی، زمین آہستہ آہستہ اوپر اٹھ رہی تھی۔ سورج آگے نکل گیا تھا۔ سائے لمبے ہوتے جارہے تھے، ان دونوں کو تھکن نے چور کردیا تھا… وہ آگے کو جھکے ہوئے بڑھتے گئے اور اوپر اٹھی ہوئی انتہائی بلندی تک پہنچ گئے۔ ریت نے اس کی آنکھیں بھر دی تھیں۔ مارکونی نے آنکھیں مل کر دیکھا۔ آگے ڈھلان تھی اور چھوٹی چھوٹی ٹیکریاں۔ وہ ایک نیکری پر چڑھ گیا۔ اس نے اپنے ساتھی کو آواز دی اور بیٹھ گیا۔ اس نے کہا… ''تم اگر ریگستان سے اچھی طرح واقف ہو تو تمہیں معلوم ہوگا کہ سراب نظر آیا کرتے ہیں۔ سامنے دیکھو اور بتائو کہ یہ سراب تو نہیں؟''

اس کے ساتھی نے دیکھا، آنکھیں بند کیں، کھولیں اور غور سے دیکھا۔ اس نے کہا… ''یہ سراب نہیں ہوسکتا''۔ وہ واقعی سراب نہیں تھا۔ انہیں کھجوروں کے کئی ایک درختوں کی چوٹیاں نظر آرہی تھیں۔ پتے ہرے تھے۔ درخت نشیبی جگہ میں معلوم ہوتے تھے اورکچھ دور بھی تھے۔ مارکونی ٹیکری سے آگے چلا گیا۔ وہ اب دوڑ رہا تھا، اس کا ساتھی اس کے پیچھے پیچھے جارہا تھا، وہاں عجیب وغریب شکلوں کی ٹیکریاں تھیں۔ بعض ایسی جیسے کوئی انسان گھنٹوں میں سردے کر بیٹھا ہو۔ کچھ بڑی تھیں، کچھ چھوٹی۔ مارکونی ان میں سے راستہ تلاش کرتا دوڑتا جارہا تھا۔ سورج پہاڑیوں کی چوٹیوں کے قریب چلا گیا۔ مارکونی کا سانس پھولنے لگا۔ اس کا ساتھی قدم گھسیٹتا جارہا تھا۔ مارکونی اچانک رک گیا اور آہستہ آہستہ یوں پیچھے ہٹنے لگا جیسے اس نے کوئی ڈرائونی چیز دیکھ لی ہو۔ اس کا ساتھی اس سے جاملا اور حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔

٭ ٭ ٭

ان دونوں کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ انہیں ایک نشیب نظر آرہا تھا۔ یہ کم وبیش ایک میل وسیع اور عریض تھا۔ اس کے اردگرد مٹی اور ریت کی اونچی اونچی قدرتی دیواریں تھیں۔ گہرائی کا یہ علاقہ سرسبزتھا۔ کچھ اونچا نیچا بھی تھا، وہاں کھجوروں کے بہت سے درخت تھے۔ صاف ظاہر تھا کہ وہاں پانی کی بہتات تھی۔ ایسے جہنم میں ایسا سرسبز گوشہ فریب نگاہ نہیں تھا۔ وہ اسی خطے کی بو تھی جو مارکونی نے سونگھی تھی۔ مارکونی کو اس جگہ سے کچھ آگے ایسی پہاڑیاں نظر آرہی تھیں جو ریت اور مٹی کی نہیں بلکہ پتھروں اور پتھریلی سلوں کی تھیں۔ ان کا رنگ سیاہی مائل تھا۔ اس جہنمی خطے کے باہر سے یہ پہاڑیاں نظر نہیں آتی تھیں اور اس سرسبز جگہ کا تو کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔

مارکونی نے تیزی سے بیٹھ کر اپنے ساتھی کو بھی بازو سے پکڑ کر بٹھا دیا۔ انہیں ایک اور عجیب وغریب چیز نظر آگئی تھی۔ یہ دو انسان تھے جو نشیب میں اسی طرف آرہے تھے۔ وہ سر سے پائوں تک ننگے تھے، ان کے رنگ گہرے بادامی اور ان کے چہرے اچھے خاصے تھے۔ کہیں سے ایک عورت نکلی۔ وہ کسی اور طرف جارہی تھی، وہ بھی سر سے پائوں تک ننگی تھی۔ اس کے بال بکھرے ہوئے اور کمر تک لمبے تھے۔ شکل وصورت سے یہ لوگ حبشی اور جنگی نہیں لگتے تھے۔

''یہ بدروحیں ہیں''۔ مارکونی کے ساتھی نے کہا… ''یہ انسان نہیں ہوسکتے۔ مارکونی! سورج غروب ہونے والا ہے، اٹھو، پیچھے کو بھاگ چلیں۔ رات کو یہ ہمیں زندہ نہیں چھوڑیں گے''۔

مارکونی انہیں بدروحیں سمجھتے ہوئے بھی کہہ رہا تھا کہ یہ انسان ہوسکتے ہیں۔ وہ یقین کرنا چاہتا تھا کہ یہ کون لوگ ہیں۔ وہ ہوا میں اڑ نہیں رہے تھے، زمین پر چل رہے تھے۔ دور انہیں تین بچے ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے دوڑتے نظر آئے۔ ان سب کی حرکتیں ایسی تھیں جن سے یقین ہوتا تھا کہ یہ انسان ہیں۔ مارکونی پیٹ کے بل سرکتا آگے چلا گیا۔ اس کا

ساتھی بھی اس کے پہلو میں جالیٹا۔ وہ جہاں لیٹ کر دیکھ رہے تھے، وہاں کی دیوار عمودی نہیں کچھ ڈھلانی تھی اور ریت زیادہ تھی۔ مارکونی کے ساتھی نے غالباً اور آگے ہونے کی کوشش کی یا جانے کیا ہوا، وہ نیچے کو سرک گیا اور لڑھکتا ہوا نیچے جاپڑا۔ وہاں سے اوپر آنا ممکن نہیں تھا۔ مارکونی پیچھے کو سرک کر ایک ایسی ٹیکری کی اوٹ میں ہوگیا جہاں سے وہ نیچے دیکھ سکتا تھا۔ یہ ڈھلان جہاں سے صلیبی گرا تھا، تیس چالیس گز اونچی ہوگی۔ مارکونی نے اپنے ساتھی کو اٹھتے دیکھا، وہ ڈھلان پر چڑھنے کی کوشش کرنے لگا۔ مارکونی اس کی کوئی مدد نہیں کرسکتا تھا۔

وہ دو ننگے آدمی جو اسی طرف آرہے تھے، دوڑ پڑے۔ مارکونی نے انہیں اوپر سے دیکھ لیا۔ اس کے ساتھی نے نہ دیکھا، مارکونی اسے آواز نہیں دے سکتا تھا کیونکہ وہ ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا کہ وہاں کوئی اور انسان بھی ہے۔ ان دو آدمیوں نے مارکونی کے ساتھی کو پیچھے سے دبوچ لیا۔ اس کے پاس خنجر تھا اور ایک چھوٹی تلوار بھی مگر ہتھیار نکالنے کا موقع نہ ملا۔ ان آدمیوں نے اسے نیچے گرالیا۔ وہ عورت جو کہیں جارہی تھی، دوڑتی آئی۔ ادھر سے بچے بھی آگئے۔ انہوں نے اپنی زبان میں کسی کو پکارا۔ معلوم نہیں کہاں سے دس بارہ آدمی سب ننگے تھے، دوڑتے آئے۔ ایک نے مارکونی کے ساتھی کی کمر سے تلوار نکال لی۔ اسے گرالیا گیا اور مارکونی نے دیکھا کہ تلوار سے اس کے ساتھی کی شہ رگ کاٹ دی۔ سب آدمی ناچنے لگے۔ وہ کچھ گا بھی رہے تھے اور ہنس بھی رہے تھے۔ اتنے میں ایک ضعیف العمر انسان آگیا۔ اس کے ہاتھ میں اپنے قد جتنا لمبا عصا تھا۔ اسے دیکھ کر سب ایک طرف ہٹ گئے۔

یہ بوڑھا بھی ننگا تھا۔ اس کے عصا کے اوپر والے سرے پر دو سانپوں کے پھن بنے ہوئے تھے۔ یہ فرعونوں کا امتیازی نشان ہوا کرتا تھا۔ بوڑھے نے مارکونی کے ساتھی کے جسم کو ہاتھ لگایا۔ وہ اب تڑپ نہیں رہا تھا، مرچکا تھا۔ بوڑھے نے ایک ہاتھ ہوا میں بلند کیا اور آسمان کی طرف دیکھ کر کچھ کہا۔ تمام ننگے انسان جن میں چند ایک عورتیں بھی تھیں اور بچے بھی، سجدے میں گر پڑے۔ بوڑھا ابھی تک کچھ بول رہا تھا۔ اس نے ہاتھ پھر اوپر کیا اور سب سجدے سے سراٹھا کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ بوڑھے کو ڈھلان کی طرف اشارے کرکے بتایا جارہا تھا کہ یہ آدمی ادھر سے نیچے آیا ہے۔ بوڑھے کے اشارے پر وہ لوگ مارکونی کے ساتھی کی لاش کو اٹھا لے گئے۔ مارکونی کو یہ خطرہ نظر آنے لگا کہ یہ پراسرار انسان اوپر آکر ہر طرف دیکھیں گے کہ نیچے گرنے والے کے ساتھی بھی اوپر ہوں گے وہ کچھ دیر وہیں سے نیچے دیکھتا رہا۔

پھر سورج غروب ہوگیا۔ مارکونی نے موت کو قبول کرلیا اور فیصلہ کرلیا کہ وہ اس جگہ اور ان لوگوں کے بھید کو پانے کی کوشش کرے گا۔ اس نے ایک ہاتھ میں خنجر اور دوسرے ہاتھ میں چھوٹی تلوار لے لی اور ادھر ادھر دیکھتا ایک اور سمت چل پڑا۔ شام اندھیری ہوتی جارہی تھی۔ وہ اوپر ہی اوپر سے اس طرف جارہا تھا جس طرف وہ اس کے ساتھی کو لے گئے تھے۔ وہاں کوئی آہٹ اور کوئی آواز نہیں تھی۔ ڈرائونا ساسکوت تھا۔ وہ دائیں بائیں اور پیچھے دیکھتا آگے ہی آگے چلتا گیا۔ وہ نشیب کی گولائی کے ساتھ ساتھ جارہا تھا۔ اسے دھیمی دھیمی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ جب یہ آوازیں بلند ہوگئیں تو یہ ناچنے اور گانے کا ترنم اور ہنگامہ تھا۔ وہ ان آوازوں کی سمت گیا تو اسے ایک اور منظر نظر آیا۔ بائیں طرف ایک اور وسیع نشیبی جگہ تھی۔ کئی مشعلیں جل رہی تھیں، وہاں بھی سبزہ تھا، جہاں کم وبیش پچیس مرد، عورتیں اور بچے آہستہ آہستہ ناچ اور گا رہے تھے۔ ان کے درمیان بہت سی آگ جل رہی تھی۔ اس کے ذرا اوپر ایک انسانی لاش سر اور پائوں سے باندھ کر زمین کے متوازی لٹکائی ہوئی تھی۔ اسے گھمایا جارہا تھا۔ یہ مارکونی کا ساتھی تھا جسے بھونا جارہا تھا۔ مارکونی یہ ہولناک منظر دیکھتا رہا… اور اس نے یہ منظر بھی دیکھا کہ بوڑھے نے اس کے ساتھی کے جسم سے گوشت کاٹ کر سب میں تقسیم کرنا شروع کردیا۔

مارکونی کے دل پر ایسا گہرا اثر ہوا کہ وہاں سے ادھر کو واپس چل پڑا، جدھر سے آیا تھا۔ اسے راستہ یاد تھا۔ وہ چوکنا ہوکر چلا جارہا تھا۔ وہ اس دیوار پر پہنچا جو تصوروں سے زیادہ گہرے نشیب میں کھڑی تھی۔ یہیں اس کا ایک ساتھی گرا تھا۔ وہ جب دیوار کے درمیان اس جگہ پہنچا جہاں سے اس کا ساتھی گرا تھا، اسے دور نیچے غرانے اور بھونکنے کی دبی دبی آوازیں سنائی دیں۔ وہ سمجھ گیا کہ صحرائی لومڑیاں اس کے ساتھی کو کھا رہی ہیں۔ اس کے دوسرے ساتھی کو تو انسان کھا گئے تھے۔ اب ہوا تیز نہیں تھی۔ وہ تاریکی میں سنبھل سنبھل کر چلتا اور سرکتا دیوار سے گزر گیا… رات کے پچھلے پہر وہ اس جگہ پہنچا، جہاں تین اونٹ بیٹھے تھے۔ اس نے اتنا بھی انتظار نہ کیا کہ اونٹوں کے ساتھ بندھا ہوا پانی پی لیتا۔ وہ ایک اونٹ پر بیٹھا۔ دو اونٹوں کو ساتھ لیا اور چل پڑا۔

وہ تاریکی میں سنبھل سنبھل کر چلتا اور سرکتا دیوار سے گزر گیا… رات کے پچھلے پہر وہ اس جگہ پہنچا، جہاں تین اونٹ بیٹھے تھے۔ اس نے اتنا بھی انتظار نہ کیا کہ اونٹوں کے ساتھ بندھا ہوا پانی پی لیتا۔ وہ ایک اونٹ پر بیٹھا۔ دو اونٹوں کو ساتھ لیا اور چل پڑا۔

٭ ٭ ٭

وہ اگلے دن کی شام تھی جب مارکونی ایک معزز مصری سودا گر کے روپ میں احمر درویش کے گھر میں داخل ہوا۔ احمر نے اسے دیکھتے ہی پوچھا… ''تم اکیلے ہو، وہ دونوں کہاں ہیں؟''

مارکونی جواب دینے کے بجائے بیٹھ گیا۔ اس کے تو ہوش ہی ٹھکانے معلوم نہیں ہوتے تھے۔ اس نے احمر کو اپنے سامنے بٹھا لیا اور اسے ایک ایک لمحے لمحے اور ایک ایک قدم کی روئیداد سنائی۔ احمر کو مارکونی کے دو ساتھیوں کے مرنے کا ذرہ بھر افسوس نہ ہوا۔ اس نے جب سنا کہ ایک ساتھی کو ننگے آدم خوروں نے کھا لیا ہے تو اس نے خوشی سے اچھل کر پوچھا… ''کیا تم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ ان میں سے کسی کے بھی جسم پر کپڑا نہیں تھا؟… بوڑھے کے عصا پر دو سانپوں کے پھن تم نے دیکھے تھے؟… تم نے اچھی طرح دیکھا تھا کہ ان لوگوں نے ہمارے آدمی کا گوشت کھالیا تھا؟''

''میں خواب کی باتیں نہیں سنا رہا''۔ مارکونی نے جھنجھلا کر کہا… ''مجھ پر جو بیتی ہے، میں وہ سنا رہا ہوں۔ میں نے یہ اپنی آنکھوں دیکھا ہے جو سنا رہا ہوں''۔

''فرعون بھی یہی سنا رہے ہیں جو تم نے سنایا ہے''۔ احمر درویش نے اٹھ کر مارکونی کے کندھوں پر ہاتھ رکھا اور اسے مسرت کی شدت سے جھنجھوڑتے ہوئے کہا… ''تم نے بھید پالیا ہے۔ مارکونی! یہی ہیں وہ لوگ جن کی مجھے تلاش تھی۔ یہ قبیلہ سولہ صدیوں سے وہاں آباد ہے۔ یہ لوگ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ زمانہ انہیں انسان کا گوشت کھانے پر مجبور کردے گا۔ تم یہ تحریریں نہیں پڑھ سکتے۔ میں نے پڑھ لی ہیں۔ لکھا ہے کہ خزانوں کی حفاظت سانپ کیا کرتے ہیں لیکن میرے مدفن کی حفاظت انسان کریں گے جو صدیوں بعد سانپ اور درندے بن جائیں گے۔ میرے مدفن کی حدود میں کوئی انسان داخل ہوگا اسے میرے محافظ کھاجایا کریں گے۔ وقت اور زمانہ انہیں ننگا کردے گا لیکن میں نے جہاں اپنا دوسری دنیا کا گھر بنایا ہے وہ جگہ اس کی ستر پوشی کرے گی۔ باہر کا کوئی مردان کی عورت پر نظر نہیں ڈال سکے گا جو نظر ڈالے گا وہ وہاں سے زندہ نہیں جاسکے گا''۔

''میں زندہ واپس آگیا ہوں''۔ مارکونی نے کہا۔

''اس لیے کہ تم نیچے نہیں گئے''۔ احمر نے کہا… ''تم نے جن سیاہ رنگ کے پتھریلے پہاڑوں کا ذکر کیا ہے، وہ پہاڑ اپنے دامن میں کہیں ریمینس کی حنوط کی ہوئی لاش اور خزانے چھپائے ہوئے ہیں… اور یہ ننگے لوگ؟… ان کے آبائو اجداد اور ریمنس کے وقت سے وہاں پہرہ دے رہے ہیں۔ وہ مرتے رہے، ان کی نسل آگے بڑھتی رہی اور پندرہ سولہ صدیاں گزر گئیں۔ میں بتا نہیں سکتا کہ وہ زندہ کس طرح رہتے ہیں۔ شاید درندوں کی طرح صحرا کے مسافروں کے شکار میں رہتے اور

انہیں بھون کر کھالیتے ہیں، وہاں پانی کی افراط ہے۔ کھجوروں کی کمی نہیں۔ ان کا زندہ رہنا حیران کن نہیں، وہ آج بھی فرعونوں کو خدا سمجھتے ہیں اگر ان کے عقیدے ٹوٹ چکے ہوتے تو وہ وہاں نہ ہوتے… تم نے ان کے پاس کوئی ہتھیار دیکھے تھے؟''

''نہیں!''۔

''ان کی تعداد کا کچھ اندازہ''۔

''رات کو جب اکٹھے تھے تو پچیس تھے''۔

''وہ اس سے زیادہ ہو بھی نہیں سکتے''۔ احمر درویش نے کہا۔

''ہاں!'' مارکونی نے کہا… ''میں نے ان کے پاس دو اونٹ بھی دیکھے تھے۔ اونٹ زیادہ بھی ہوسکتے ہیں مگر میں نے صرف دو دیکھے تھے''۔

''پھر وہ باہر آتے ہوں گے''۔ احمر درویش نے کہا… ''وہ باہر ضرور آتے ہوں گے۔ مسافروں کو پکڑنے کے لیے انہیں باہر آنا ہی پڑتا ہوں… سنو مارکونی! غور سے سنو۔ وہاں کوئی ایسا سیدھا راستہ ضرور ہے جس سے وہ باہر آتے اور اندر جاتے ہوں گے۔ یہ پہاڑوں کا کوئی خفیہ راستہ ہوگا۔ میں نے تمہیں جو راستہ بتایا تھا۔ وہ آنے جانے کا ایسا راستہ نہیں جس سے بار بار آیا جایا جاسکے۔ وہاں کوئی اور راستہ ہے جو ان ننگے آدم خوروں سے معلوم کیا جاسکتا ہے۔ میں اس کی ترکیب سوچ چکا ہوں۔ ترکیب یہ ہے کہ وہاں باقاعدہ حملہ کیا جائے۔ ہوسکتا ہے ہمیں اس دیوار نما ٹیلے سے جس سے تمہارے ایک ساتھی گر کر مرا ہے اور آدمی گرا کر مارنے پڑیں لیکن یہ قربانی ضروری ہے۔ بتائو پچیس تیس نہتے آدمیوں کو جن میں بچے اور عورتیں بھی ہیں مارنے کے لیے اور ان میں دو تین کو زندہ پکڑنے کے لیے تمہیں کتنے آدمی درکار ہیں؟ کم سے کم بتائو۔ تم ان آدمیوں کے رہنما اور سربراہ ہوگے''۔

''میں ترکیب سمجھ گیا ہوں''۔ مارکونی نے کہا… ''ایک ترکیب میرے دماغ میں بھی آئی ہے۔ ہم انہیں قتل کرسکتے ہیں۔ دو تین کو زندہ پکڑ سکتے ہیں لیکن میں آپ کو یہ یقین نہیں دلا سکتا کہ وہ اس جگہ کے تمام بھید ہمیں بتا دیں گے۔ اپنے قبیلے کو مرتا دیکھ کر وہ بھی مرنے کے لیے تیار ہوجائیں گے لیکن بتائیں گے کچھ نہیں۔ میں ایسی ترکیب کروں گا کہ ان میں سے ایک دو آدمی باہر کو بھاگ اٹھیں اور ان کا تعاقب کیا جائے۔ راستہ معلوم ہوجائے گا''۔

''تم دانشمند ہو مارکونی!'' … احمر درویش نے کہا… ''بتائو کتنے آدمی ہوں؟''

''پچاس!'' مارکونی نے جواب دیا اور کہا… ''زیادہ تر آدمی میرے منتخب کیے ہوئے ہوں گے۔ میں انہیں تلاش کرلوں گا مگر مہم کے آغاز سے پہلے میں اپنی شرطیں پیش کرنا چاہتا ہوں''۔

''تمہیں منہ مانگا انعام ملے گا''۔ احمر نے کہا۔

''مجھے خزانے سے حصہ ملنا چاہیے''۔ مارکونی نے کہا… ''اتنی خطرناک مہم میرے فرائض میں شامل نہیں۔ میں جاسوس اور تخریب کار ہوں۔ مجھے خزانے کی تلاش کے لیے نہیں بھیجا گیا۔ یہ آپ کی ذاتی مہم ہے۔ میں انعام نہیں منہ مانگا حصہ لوں گا۔ اگر آپ کا منصوبہ کامیاب ہوگیا تو آپ کو ایک ریاست کی حکمرانی مل جائے گی۔ میں جاسوس کا جاسوس رہوں گا''۔

''یہ مہم اور یہ منصوبہ ذاتی نہیں''۔ احمر درویش نے کہا… ''یہ مصر، صلیب اور سوڈان کی حکمرانی کا منصوبہ ہے''۔

مارکونی اپنے مطالبہ پر قائم رہا۔ احمر مجبور ہوگیا۔ اسے احساس تھا کہ مارکونی کے سوا ریمینس کے مدفن تک کوئی اور نہیں پہنچ سکتا۔ اس کے مطالبے ماننے کے سوا کوئی چارہ کار نہ تھا۔ مارکونی نے کہا… ''معلوم نہیں مجھے کتنے دن صحرا میں

رہنا پڑے۔ میں ایسی سخت اور خشک خوراک پسند نہیں کروں گا۔ مجھے دو تین اونٹ فالتو دئیے جائیں جو میں اور میرے ساتھی بھون کر کھا سکیں اور مجھے قدومی دی جائے''۔

''قدومی؟'' احمر درویش نے حیرت سے کہا… ''اتنی نازک اور ایسی اعلیٰ درجے کی رقاصہ کو تمہارے ساتھ ایسی خطرناک مہم میں روانہ کردوں؟ وہ جانے پر بھی راضی نہیں ہوگی''۔

''اسے زیادہ معاوضہ پیش کریں، وہ راضی ہوجائے گی''۔ مارکونی نے کہا… ''میں اس کے لیے ایسا انتظام کروں گا کہ وہ محسوس ہی نہیں کرسکے گی کہ وہ صحرا میں ہے اور کسی خطرناک مہم میں شریک ہے۔ میں اس کی قدروقیمت سے واقف ہوں''۔

یہ اس دور کا واقعہ ہے جب دولت مند تاجر اپنی چہیتی بیویوں کو سفر میں اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔ اپنی بیویوں میں سے کوئی پسند نہ ہوتو کسی من پسند طوائف یا رقاصہ کو منہ مانگا معاوضہ دے کرہمسفر بنا لیتے تھے۔ فوجوں کے کمانڈر بھی جنگ کے دوران اپنی بیویوں یا کرائے کی خوبصورت عورتوں کو ساتھ رکھا کرتے تھے۔ اس دور میں خوبصورت اور جوان عورت کوسونے سے زیادہ قیمتی سمجھا جاتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ صلیبیوں اور یہودیوں نے سلطنت اسلامی کی جڑیں کھوکھلی کرنے کے لیے عورت کا استعمال کیا تھا

٭ ٭ ٭
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: داستان ایمان فروشوں کی جلد‎ ‎دوم

Post by ایکسٹو »

اچانک گرم ہوا کہ جھونکے تیز ہونے لگے، ریت اڑنے لگی اور اس کے ساتھ عورتوں کے رونے کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ دو یا تین عورتیں اونچی آواز میں رو رہی تھیں۔ مارکونی کے ساتھی گھبرا گئے۔ مارکونی نے کان کھڑے کیے۔ ایک ساتھی نے کہا… ''اس دوزخ میں کوئی عورت زندہ نہیں ہوسکتی۔ یہ بدروحیں ہیں''۔

''یہ کچھ بھی نہیں ہے''… مارکونی نے کہا… ''بدروحیں بھی نہیں، زندہ عورتیں بھی نہیں۔ یہ ہوا کی پیدا کی ہوئی آوازیں ہیں۔ اس علاقے میں بعض ٹیلوں میں لمبے لمبے سوراخ ہیں جو دونوں طرف کھلتے ہیں اور بعض چٹانوں کی شکل ایسی ہے کہ ان سے تیز ہوا کے جھونکے گزرتے ہیں تو اس قسم کی آوازیں پیدا ہوتی ہیں جو تم سن رہے ہو۔ نیچے اتنی گہری اور اتنی وسیع کھائی ہے اس پر یہ ننگے پہاڑ کھڑے ہیں۔ یہ آوازوں میں گونج پیدا کرتے ہیں۔ یہ گونج ہر طرف بھٹکتی رہتی ہے، ڈرو نہیں''۔

مگر اس کے ساتھیوں پر ایسا خوف طاری ہوگیا تھا جس پر وہ قابو نہیں پاسکتے تھے۔ یہ آوازیں ہوا کی نہیں تھیں۔ قریب ہی کہیں عورتیں یا بدروحیں رو رہی تھیں۔ انہوں نے مارکونی کا پیش کیا ہوا فلسفہ تسلیم نہ کیا۔ آوازیں ہی ایسی تھیں۔ ہوا تیز ہوتی جارہی تھی۔ ٹیلوں سے اور زمین سے ریت کے ہلکے ہلکے بادل اڑنے لگے تھے جن سے اب زیادہ دور تک نظر نہیں آسکتا تھا۔ مارکونی نے اس قدرتی دیوار پر پہلا قدم رکھا جو اس بھیانک نشیب میں کھڑی تھی۔ وہاں جگہ اتنی کچی تھی کہ ریت اور مٹی میں پائوں دھنس گیا۔ اس نے دوسرا پائوں آگے رکھا اور نیچے دیکھا۔ گہرائی دیکھ کر وہ سر سے پائوں تک کانپ گیا۔ اب اس گہرائی کی تہہ بالکل ہی نظر نہیں آتی تھی کیونکہ ریت اڑ رہی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے اس کی تہہ ہے ہی نہیں۔ مارکونی چند قدم آگے چلا گیا۔ وہاں اس کے دائیں یا بائیں کوئی ٹیلا نہیں تھا۔ وہ تو جیسے ہوا میں کھڑا تھا۔ ہوا کے تیز جھونکوں نے اس کے جسم کو دھکیل دھکیل کر اس کا توازن بگاڑ دیا۔ رونے کی آوازیں اور بلند ہوگئیں۔

اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا… ''آرام آرام سے پائوں جماتے آئو۔ نیچے بالکل نہ دیکھنا۔ یہ تصور کرتے آنا کہ تم زمین پر چل رہے ہو''۔

اس کے دونوں ساتھیوں پر پہلے ہی خوف طاری تھا۔ دیوار پر تین چار قدم آگے گئے تو ہوا کی تندی نے ان کے پائوں اکھاڑ دئیے۔ ان کے جسم ڈولنے لگے۔ مارکونی ان کی حوصلہ افزائی کررہا تھا اور آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا تھا۔ وہ وسط میں پہنچ گئے اور وہاں مارکنی نے دیکھا کہ دیوار ٹوٹی ہوئی ہے اور ذرا نیچے چلی گئی ہے۔ وہاں چوڑائی اتنی کم تھی کہ کھڑے ہوکر چلا نہیں جاسکتا تھا۔ مارکونی بیٹھ گیا اور گھوڑے کی سواری کی پوزیشن میں ٹانگیں ادھر ادھر کرکے آگے کو سرکنے لگا۔ دیوار کی چوڑائی کم اور گول ہوتی جارہی تھی۔ مارکونی نیچے کو سرک گیا۔ اس کے پیچھے اس کا ایک ساتھی بھی آگے چلا گیا۔ اچانک تیسرے ساتھی کی بے حد گھبرائی ہوئی آواز سنائی دی… ''مارکونی مجھے پکڑنا''… مگر اس تک کوئی نہ پہنچ سکا۔ وہ ایک طرف لڑھک گیا تھا۔ کوئی سہارا نہ ہونے کی وجہ سے وہ گر پڑا۔ اس کی چیخیں سنائی دیتی رہیں جو دور ہی دور ہوتی گئیں۔ پھر دھمک کی آواز آئی، چیخیں بند ہوگئیں۔ انجام ظاہر تھا۔ مارکونی نے نیچے دیکھا۔ کچھ بھی نظر نہیں آتا تھا۔ گر کر مرنے والے کی چیخوں کی گونج ابھی تک اس دہشت ناک ویرانے میں بھٹک رہی تھی۔

''مجھے اپنے ساتھ رکھو مارکونی!''… دوسرے ساتھی نے کہا۔ اس کی آواز کانپ رہی تھی… ''میں ایسی موت نہیں مرنا چاہتا''۔

مارکونی نے اس کا حوصلہ بڑھایا اور آگے بڑھنے لگا۔ دیوار اوپر اٹھ رہی تھی۔ مارکونی بیٹھے بیٹھے آگے بڑھتا گیا۔


کچھ بھی نظر نہیں آتا تھا۔ گر کر مرنے والے کی چیخوں کی گونج ابھی تک اس دہشت ناک ویرانے میں بھٹک رہی تھی۔

''مجھے اپنے ساتھ رکھو مارکونی!''… دوسرے ساتھی نے کہا۔ اس کی آواز کانپ رہی تھی… ''میں ایسی موت نہیں مرنا چاہتا''۔

مارکونی نے اس کا حوصلہ بڑھایا اور آگے بڑھنے لگا۔ دیوار اوپر اٹھ رہی تھی۔ مارکونی بیٹھے بیٹھے آگے بڑھتا گیا۔

٭ ٭ ٭

ایک وہ محاذ تھا جس پر نورالدین زنگی لڑ رہا تھا۔ اس نے کرک کا قلعہ فتح کرکے وہاں کے اور مضافات کے علاقوں میں انتظامات مکمل کرلیے تھے۔ اس کے گشتی دستے دور دور تک گشت کرتے تھے تاکہ صلیبی کسی طرف سے جوابی حملے کے لیے آئیں تو قبل از وقت اطلاع مل جائے۔ ان دستوں کا تصادم صلیبی دستوں سے ہوتا رہتا تھا۔ زنگی تمام انتظامات سلطان ایوبی کی فوج کے حوالے کرکے بغداد واپس جانے کی تیاریاں کرنا چاہتا تھا۔ وہ سلطان ایوبی کے انتظار میں تھا مگر سلطان ایوبی دوسرے محافظ پر لڑ رہا تھا جو صلیبیوں اور ان کے پیدا کردہ غداروں نے مصر میں کھول رکھا تھا۔ یہ محاذ زیادہ خطرناک تھا۔ سلطان ایوبی اس زمین دوز محاذ پر لڑنے کی اہلیت رکھتا تھا۔ وہ خوب مقابلہ کررہا تھا مگر اسے ابھی پتا نہیں چلا تھا کہ ایک محاذ اور بھی کھل گیا ہے۔ یہ تھا ''فرعونوں کے مدفنوں کی تلاش''۔

شام کے کھانے کے بعد سلطان ایوبی اس کمرے میں گیا، جہاں وہ اپنے سالاروں اور دیگر حکام کو اکٹھا کرکے احکامات اور ہدایات دیا کرتا تھا۔ وہاں فوج کے اعلیٰ کمانڈروں کے علاوہ علی بن سفیان اور غیاث بلبیس بھی تھے۔ سلطان ایوبی کو اسی روز نورالدین زنگی کا ایک طویل تحریری پیغام ملا۔ اس نے اس پیغام کے ضروری حصے کمانڈروں کو سنائے۔ زنگی نے لکھا تھا… ''عزیز صلاح الدین اللہ تعالیٰ تمہیں زندہ سلامت رکھے۔ اسلام کو تمہاری بہت ضرورت ہے۔ کرک اور گردوپیش کے علاقے دشمن سے صاف ہوچکے ہیں۔ گشتی دستے جاتے ہیں تو صلیبیوں کا کوئی دستہ کبھی کبھی ہمارے کسی دستے سے الجھ پڑتا ہے۔ صلیبی مجھ پر یہ رعب ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ ابھی یہیں ہیں۔ تمہارے تیار کیے ہوئے چھاپہ مار دستے تعریف کے قابل ہیں۔ یہ بہت دور تک چلے جاتے ہیں تم نے ان پر جو محنت کی ہے وہ اس کا صلہ دے رہے ہیں۔ تمہارے جاسوس ان سے بھی دلیر اور عقل مند ہیں۔ ان کی نظروں سے میں اتنی دور بیٹھا ہوا دشمن کی ہر ایک حرکت دیکھ رہا ہوں۔''

''تازہ اطلاع یہ ہے کہ صلیبی شاید جوابی حملہ نہ کریں۔ وہ ہمیں انگیخت کررہے ہیں کہ ہم آگے جاکر ان پر حملہ کریں۔ تم جانتے ہو کہ بیت المقدس جو ہماری منزل ہے اور قبلۂ اول جو ہمارا مقصود ہے کتنی دور ہے۔ میں جانتا ہوں کہ تم

ان فاصلوں سے اور ان مسافتوں سے گھبرانے والے انسان نہیںہو لیکن فاصلے زیادہ نہیں، دشواریاں اور رکاوٹیں زیادہ ہیں۔ بیت المقدس تک ہمیں بہت سے قلعے سرکرنے ہوں گے۔ ان میں چند ایک قلعے تو بہت مضبوط ہیں۔ صلیبیوں نے قبلۂ اول کا دفاع دور دور کی قلعہ بندیوں کی صورت میں بہت مضبوط کررکھا ہے۔ جاسوسوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ صلیبی اس کوشش میں ہیں کو یونانیوں، بازنطینیوں اور اطالویوں کا بحری بیڑہ متحدہ ہوجائے اور مصر پر حملہ آور ہوکر شمالی علاقے میں فوجیں اتار دے۔ تمہیں اس صورتحال کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ پیش بندی کرلو۔ تمہارے پاس دور مار آتشیں، گولے پھینکنے والی منجنیقیں زیادہ ہونی چاہئیں۔ میں یہ مشورہ دوں گا کہ شمالی علاقے کی زمین اجازت دے تو دشمن کے بحری بیڑے کو ساحل تک آنے دو۔ وہاں مزاحمت نہ کرو، دشمن کو اس خوش فہمی میں مبتلا کردو کہ اس نے تمہیں بے خبری میں آن دبوچا ہے۔ فوجیں اتر آئیں تو جہازوں پر آگ برسائو اور صلیبی فوج کو اپنی پسند کے میدان میں گھسیٹ لائو''…

میں تمہاری مجبوریوں سے بے خبر نہیں ہوں۔ تمہارے قاصد نے تمام حالات بتائے ہیں۔ رب کعبہ کی قسم، صلیبیوں کی ساری بادشاہیاں طوفان کی طرح آجائیں تو بھی امت رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ امت لہو دینا جانتی ہے۔ یہ سرفروشوں کی امت ہے مگر ایمان فروشوں نے ہمی زنجیریں ڈال رکھی ہیں۔ تم قاہرہ میں قید ہوگئے ہو میں بغداد سے نہیں نکل سکتا۔ عورت، شراب اور زرودولت نے ہماری صفوں میں شگاف کرڈالے ہیں۔ اگر ہمارے گھر میں سکون اور اعتماد ہوتا تو ہم دونوں صلیب کا مقابلہ کرتے مگر کفار نے ایسا طلسم پیدا کیا ہے کہ مسلمان بھی کافر ہوگئے ہیں۔ یہ کافر مسلمان اتنے مردہ ہوچکے ہیں کہ یہ احساس بھی نہیں رکھتے کہ ان کا دشمن ان کی بیٹیوں کی عصمت سے کھیل رہا ہے۔ کرک کے مسلمان بہت بری حالت میں تھے۔ صلیبیوں نے ان پر جو مظالم ڈھائے، وہ سنو تو لہو کے آنسو روئو۔ میں اپنی قوم کے غداروں کو کیسے سمجھائوں کہ دشمن کی دوستی دشمنی سے زیادہ خطرناک ہے…

''تم نے افسوس کا اظہار کیا ہے کہ تمہارے اپنے بھائی اور اچھے اچھے حاکم اور کمان دار تمہارے ہاتھوں قتل ہو رہے ہیں۔ صلاح الدین ایوبی! افسوس اس پر نہیں کہ وہ تمہارے ہاتھوں قتل ہوئے، افسوسناک امر یہ ہے کہ وہ غدار ہوئے اور یہ بھی افسوسناک ہے کہ صلیبی خوش ہورہے ہوں گے کہ وہ مسلمانوں کو مسلمان کے ہاتھوں قتل کرا رہے ہیں۔ تم غداروں کو بخش نہیں سکتے۔ غدار کی سزا قتل ہے… میں تمہار انتظار کررہا ہوں۔ تم جب آئو تو تمہارے ساتھ فوج زیادہ ہونی چاہیے۔ صلیبی تمہیں قلعہ بندیوں میں لڑا کر تمہاری طاقت زائل کرنا چاہتے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بیت المقدس کے راستے میں ہی تم بے دست پا ہوجائو۔ تم جب آئو تو مصر کے اندرونی حالات کو پوری طرح قابو میں کرکے آنا۔ سوڈانیوں کی طرف سے چوکنا رہنا۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تمہارے سامنے کچھ مالی مسائل بھی ہیں۔ میں تمہاری مدد کرنے کی کوشش کروں گا۔ بہتر ہے کہ اپنے مسائل خود ہی حل کرنے کی کوشش بھی کرو کہ قاہرہ سے جدی نکل آئو لیکن اندر اور باہر کے حالات دیکھ کر وہاں سے نکلنا۔ اللہ تمہارا حامی ہے''۔

٭ ٭ ٭

صلاح الدین ایوبی نے مجلس کے حاضرین کو یہ پیغام پڑھ کر سنایا اور انہیں یہ امید افزا خبریں سنائیں کہ فوج میں شامل ہونے کے لیے دیہاتی علاقے سے لوگ آنے لگے ہیں۔ توہم پرستی کی جو مہم دشمن نے شروع کی تھی وہ ختم کردی گئی ہے لیکن کہیں کہیں اس کے اثرات باقی ہیں۔ ایک فتور مسجدوں سے بھی اٹھا تھا۔ اسے بھی دبا لیا گیا ہے۔ تین چار اماموں نے انہیں توہمات کو جو صلیبیوں نے ہمارے مذہب میں شامل کرنے کی کوشش کی تھی، لوگوں کے ذہنوں میں ڈالنا شروع کر

دیا تھا۔ انہوں نے اپنے آپ کو خدا کا ایلچی بنا لیا تھا۔ ہمارے سامنے ایسے لوگ آئے ہیں جو کسی مصیبت کے وقت براہ راست خدا سے دعا مانگنے کے بجائے اماموں کو نذرانے دیتے رہے کہ وہ ان کے لیے دعا کریں۔ یہ وہم پھیلا دیا گیا تھا کہ عام آدمی خدا سے کچھ نہیں مانگ سکتا، نہ خدا اس کی سنتا ہے۔ سلطان ایوبی نے کہا…… ''میں نے ان اماموں کو مسجدوں سے نکال دیا ہے اور مسجدیں ایسے اماموں کے حوالے کردی ہیں جن کے نظریات اور عقیدے قرآن کے عین مطابق ہیں۔ وہ اب لوگوں کو یہ سبق دے رہے ہیں کہ مسلمان کا خدا عالم اور بے علم کے لیے، امیر اور غریب کے لیے، حاکم اور رعایا کے لیے ایک جیسا ہے۔ وہ ہر کسی کی دعا سنتا ہے۔ اچھے عمل کی جزا اور برے عمل کی سزا دیتا ہے۔ میں اپنی قوم میں یہی قوت اور یہی جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کررہا ہوں کہ وہ اپنے آپ کو اور خدا کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ میرے دوستو! تم نے دیکھ لیا ہے کہ تمہارا دشمن صرف میدان جنگ میں نہیں لڑ رہا۔ وہ تمہارے دلوں میں نئے عقیدے ڈال رہا ہے۔ یہودی اس مہم میں پیش پیش ہے۔ یہودی اب کبھی تمہارے آمنے سامنے آکر نہیں لڑے گا۔ وہ تمہارے ایمان کو کمزور کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اس عمل میں اتنی جلدی کامیاب نہیں ہوسکتا لیکن وہ ناکام بھی نہیں ہوگا۔ وہ وقت آئے گا جب خدا کی دھتکاری ہوئی یہ قوم مسلمانوں کو کمزور دیکھ کر ایسی چال چلے گی کہ اپنے مقصد کو پالے گئی۔ اس کا خنجر سلطنت اسلامیہ کے سینے میں اتر جائے گا۔ اگر اپنی تاریخ کو اس ذلت سے بچانا چاہتے ہو تو آج ہی پیش بندی کرلو۔ اپنی قوم کے قریب جائو۔ اپنے آپ کو حاکم اور قوم کو محکوم سمجھنا چھوڑ دو۔ ان میں اتنا وقار پیدا کرو کہ یہ قومی وقار پر جانیں قربان کردیں''۔

سلطان ایوبی نے بتایا کہ صلیبیوں کے پاس عورت اور دولت ہے اور ہمارے ہاں ان دونوں کا لالچ موجود ہے۔ ہمارے سامنے ایک مہم یہ بھی ہے کہ قوم کے دل سے عورت اور دولت کا لالچ نکال دیں۔ اس کے لیے ایمان کی مضبوطی کی ضرورت ہے۔

''امیر محترم!'' ایک اعلیٰ کمانڈر نے کہا… ''ہمیں دولت کی ضرورت بھی ہے، اخراجات پورے کرنے مشکل ہورہے ہیں۔ ہمیں بعض کاموں میں مشکل پیش آتی ہے''۔

''میں یہ مشکل آسان کردوں گا''۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''تمہیں یہ حقیقت ہمیشہ کے لیے قبول کرنی پڑے گی کہ مسلمانوں کے پاس دولت کی اور فوج کی کمی رہی ہے اور رہے گی۔ ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علی و آلہ وسلم نے پہلی جنگ تین سو تیرہ مجاہدین کی طاقت سے لڑی تھی۔ اس کے بعد مسلمان جہاں بھی لڑے، اسی تناسب سے لڑے۔ مسلمانوں کے پاس دولت کی کمی کبھی نہیں رہی۔ دولت چند ایک افراد کے گھروں میں چلی گئی۔ اب بھی ہماری قوم کا یہی حال ہے۔ چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے جو مالک مسلمان ہیں، ان کے پاس دولت کے ڈھیر پڑے ہیں''۔

''دولت کے ڈھیر یہاں بھی پڑے ہیں، سالاراعظم''۔ غیاث بلبیس نے کہا… ''اگر آپ اجازت دیں تو ہم ایک نئی مہم شروع کرسکتے ہیں… آپ کو معلوم ہے کہ مصر خزانوں کی سرزمین ہے۔ یہاں جو فرعون بھی مرا وہ اپنا تمام تر خزانہ اپنے ساتھ زمین کے نیچے لے گیا۔ وہ خزانے کس کے تھے؟ یہ اس غریب مخلوق کی دولت تھی جسے بھوکا رکھ کر اس سے سجدے کرائے گئے۔ اس دور کے انسان نے فرعون کو خدا صرف اس لیے کہا تھا کہ وہ انسان بھوکا تھا۔ اس کی قسمت فرعونوں کے ہاتھ میں تھی۔ اس کی زندگی اور موت بھی فرعونوں نے اپنے ہاتھ میں لے لی تھی۔ انسانوں سے زمین کھدوا کر اور پہاڑ کٹوا کر فرعونوں نے اپنے زمین دوز مقبرے بنائے، تو وہ ایسے جیسے ان کے محل تھے۔ ان میں انہوں نے وہ دولت ڈھیر کرلی جو لوگوں کی تھی۔ اگر آپ اجازت دیں تو ہم فرعونوں کے زمین دوز مقبروں اور مدفنوں کی تلاش شروع کردیں اور

خزانے ملک اور قوم کی خاطر استعمال کریں''۔

غیاث بلبیس کی تائید میں کئی آوازیں اٹھیں…'' یہی صحیح ہے امیر محترم! ہم نے اس سے پہلے کبھی غور ہی نہیں کیا تھا''… ہم اس مہم میں فوج کو استعمال کرسکتے ہیں… ''شہری آبادی سے ایک لشکر جمع کیا جاسکتا ہے''… ہاں ہاں، غیر فوجیوں کو استعمال کیا جائے اور انہیں اجرت دی جائے''۔

مجلس میں ہنگامہ سا بپا ہوگیا۔ ہر کوئی کچھ نہ کچھ کہہ رہا تھا اگر کوئی خاموش تھا تو وہ صلاح الدین ایوبی تھا۔ مجلس میں بہت دیر بعد یہ احساس پیدا ہوا کہ ان کا امیر اور سالار اعظم خاموش ہے۔ مجلس پر بھی خاموشی طاری ہوگئی۔ سلطان ایوبی نے سب پر نگاہ ڈالی اور کہا…''میں اس مہم کی اجازت نہیں دے سکتا جس کی تجویز غیاث بلبیس نے پیش کی ہے''… مجلس پر سناٹا طاری ہوگیا۔ کسی کی توقع نہیں تھی کہ سلطان ایوبی اس تجویز کو ٹھکرا دے گا۔ اس نے کہا… ''میں نہیں چاہتا کہ مرنے کے بعد تاریخ مجھے قبر چور اور مقبروں کا ڈاکو کہے۔ تاریخ نے مجھے ذلیل کیا تو اس میں تمہاری بھی ذلت ہوگی۔ آنے والی نسلیں کہیں گی کہ صلاح الدین ایوبی کے مشیر اور وزیر بھی قبر چور تھے۔ صلیبی اس الزام کو خوب اچھالیں گے اور تمہاری قربانیوں اور جذبۂ اسلام کو ڈکیتی اور راہزنی کا نام دے کر تمہیں تمہاری ہی نسلوں میں رسوا کردیں گے اور تم ہی نہیں، ہماری تاریخ ذلیل اور رسوا ہوجائے گی''۔

''گستاخی معاف امیر محترم!''… علی بن سفیان نے کہا… ''تھوڑے سے عرصے کے لیے مصر صلیبیوں کے قبضے میں آیا تھا۔ انہوں نے سب سے پہلے یہاں کے خزانوں کی تلاش شروع کی تھی۔ قاہرہ کے مضافات میں ہم نے جن کھنڈروں سے صلیبی تخریب کاروں اور فدائیوں کا ایک گروہ پکڑا تھا، وہ کسی فرعون کا مدفن تھا۔ وہاں سے وہ سب کچھ لے گئے تھے۔ صلیبیوں کی حکومت زیادہ دیر قائم نہ رہی، ورنہ وہ یہاں کے تمام خزانے نکال کر لے جاتے۔ محترم غیاث بلبیس نے ٹھیک کہا ہے کہ یہ خزانے اگر کسی کی ملکیت ہیں تو وہ فرعون نہیں تھے۔ ان کے مالک اس وقت کے انسان تھے۔ میں یہ مشورہ پیش کرنے کی جرأت ضرور کروں گا کہ یہ خزانے نکال کر آج کے انسان کی فلاح وبہبود اور وقار کے لیے استعمال کیے جائیں''۔

''اور میں تمہیں یہ بھی بتا دوں''… سلطان ایوبی نے کہا… ''کہ یہ خزانے تمہارے سامنے آئے تو تم بھی فرعون بن جائو گے۔ انسان کو یہ جرأت کس نے دی تھی کہ وہ اپنے آپ کو خدا سمجھے؟… دولت اور دولت کی ہوس نے۔ انسان کو انسان کے آگے سجدہ کس نے کرایا تھا؟… مفلسی اور بھوک نے۔ تم صلیبیوں کی بات کرتے ہو کہ انہوں نے فرعونوں کے ایک مدفن کو لوٹا۔ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ جب پہلے فرعون کی لاش تمام تر خزانے کے ساتھ زمین میں دبائی گئی تھی، قبر چوری اسی وقت شروع ہوگئی تھی۔ انسان وحشیوں اور درندوں کی طرح پہلے فرعون کے مدفن پر ٹوٹ پڑے تھے۔ ان کا دین اور ایمان صرف دولت بن گیا تھا پھر فرعون مرکز اپنے خزانے زمین میں لے جاتے رہے اور قبر چوری باقاعدہ پیشہ بن گئی۔ اس کے بعد ہر فرعون نے اپنی زندگی میں ہی اپنا مدفن کسی ایسی جگہ تیار کرایا کہ کوئی اسے کھول نہ سکے اور جب فرعونوں کا دور ختم ہوگیا تو مصر جس کے قبضے میں بھی آیا اس نے اس چھپے ہوئے خزانوں کی تلاش شروع کردی۔ میں جانتا ہوں کہ فرعونوں کے بہت سے مدفن ایسے ہیں جن کے متعلق کوئی جانتا ہی نہیں کہ کہاں ہیں۔ وہ زمین دوز محل ہیں۔ قیامت تک مصر کے حکمران اور حملہ آور ان مدفنوں کو ڈھونڈتے رہیں گے''…

''ان تمام حکومتوں کو زوال کیوں آیا؟ صرف اس لیے کہ ان کی توجہ خزانوں پر مرکوز ہوگئی تھی۔ رعایا کو یہ تاثر دیا گیا کہ دولت ہے تو عزت ہے۔ ہاتھ خالی ہے تو تم بھی اور تمہاری بیٹیاں بھی ان کی ہیں جن کے پاس دولت ہے…

میرے رفیقو! صلاح الدین ایوبی کو اس قطار میں کھڑا نہ کرو۔ میں اپنی قوم کو یہ تاثر دینا چاہتا ہوں کہ اصل دولت قومی وقار اور ایمان ہے لیکن یہ تاثر صرف اس صورت میں پیدا کیا جاسکتا ہے کہ میں خود اور تم سب جو حکومت کے ستون ہو، دل سے دولت کا لالچ نکال دو''۔

''ہم ان خزانوں کی تلاش ذاتی لالچ کے لیے نہیں کرنا چاہتے''۔ ایک کمانڈر نے کہا… ''ہم قومی ضروریات کے پیش نظر یہ مہم شروع کرنا چاہتے ہیں''۔

''میں جانتا ہوں میرا انکار تم میں سے کسی کو پسند نہیں''۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''میری بات سمجھنے کے لیے تمہیں اپنے ذہن بالکل خالی کرنے ہوں گے۔ میری عقل مجھے بتا رہی ہے کہ باہر سے آئی ہوئی دولت جو قومی ضروریات کے لیے آئی ہو، حاکموں کے ایمان متزلزل کرتی ہے۔ یہ دولت کی لعنت ہے اگر میرے پاس گھوڑا خریدنے کے لیے رقم نہیں ہوگی تو میں فوج کے ساتھ پیدل بیت المقدس جائوں گا۔ گھوڑا خریدنے کے لیے مردوں کے کفن اتار کر نہیں بیچوں گا۔ میرا مقصد بیت المقدس کو صلیبیوں سے آزاد کرانا ہے۔ گھوڑا خریدنے کے لیے رقم کا حصول میرا مقصد نہیں۔ تم جب خزانوں کی تلاش کرنے لگو گے تو قوم میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنے طور پر چوری چھپے مقبروں کو اکھاڑنے لگیں گے۔ مصر میں ایسا ہوتا آیا ہے اور جب یہ خزانے تمہارے سامنے آئیں گے تو تم ایک دوسرے کے اگر دشمن نہ ہوئے تو ایک دوسرے کو شک کی نگاہوں سے ضرور دیکھو گے۔ جہاں خزانے آجاتے ہیں، وہاں انسانی محبت ختم ہوجاتی ہے۔ حقوق العباد کا جذبہ ختم ہوجاتا ہے۔ ان زروجواہرات نے انسان کو خدا بنایا تھا۔ وہ عذاب کہاں ہیں؟ آسمانوں پر نہیں، زمین کے نیچے ہے۔ میرے رفیقو! میں ایک نئے جرم کی بنیاد نہیں ڈالنا چاہتا۔ ان خزانوں سے بچو۔ یہ خزانوں کے لالچ کا ہی کرشمہ ہے کہ تمہاری صفوں میں غدار بھی موجود ہیں۔ تم دو غداروں کو قتل کرتے ہو تو چار اور پیدا ہوجاتے ہیں۔ اپنی تقدیر، اپنی تدبیر سے بنائو۔ تم مسلمان ہو، اپنی قسمت کفار کے ہاتھوں میں نہ دو۔ ورنہ سب غدار ہوجائو گے۔ فرعون مرچکے ہیں۔ انہیں زمین کی تہوں میں دبا رہنے دو''۔

''آپ کے حکم کے بغیر ہم ایسی کوئی مہم شروع نہیں کریں گے''۔ کسی نے کہا۔

''غیاث!'' سلطان ایوبی نے غیاث بلبیس سے مسکرا کر پوچھا… ''آج تمہیں ان پوشیدہ خزانوں کا خیال کیسے آگیا ہے؟ مجھے یہاں آئے چار سال ہوگئے ہیں۔ اس سے پہلے یہ تجویز کیوں پیش نہ کی''۔

''میں نے ایسا کبھی نہیں سوچا تھا امیر محترم!'' غیاث بلبیس نے کہا… ''تقریباً دو مہینے ہوئے کتب خانے کے محرر نے مجھے بتایا تھا کہ پرانے کاغذات میں سے کچھ کاغذات گم ہوگئے ہیں۔ میں نے ان کاغذات کی نوعیت اور اہمیت پوچھی تو اس نے بتایا کہ وہ ایسے اہم نہیں تھے کہ تلاش ضروری سمجھی جائے۔ یہ کچھ نقشے سے تھے اور فرعونوں کے وقتوں کی تحریریں تھیں۔ بہت ہی بوسیدہ اور کرم خوردہ کاغذات اور کپڑے تھے۔ محرر نے جب فرعونوں کا نام لیا تو مجھے خیال آیا کہ ان تحریروں اور نقشوں میں فرعونوں کے خفیہ مقبروں کے متعلق معلومات ہوسکتی ہیں۔ میں نے وہ پلندے دیکھے، جن میں سے کاغذات گم ہوئے تھے۔ میں نے یہ سوچ کر زیادہ توجہ نہیں دی کہ ان تحریروں کو آج کون پڑھ اور سمجھ سکتا ہے''۔

''تم نے صحیح نہیں سوچا عیاث بلبیس!'' سلطان ایوبی نے کہا… ''مصر میں ایسے لوگ موجود ہیں جو ان تحریروں اور اشاروں کو سمجھ سکتے ہیں۔ ان کاغذوں اورنقشوں کی چوری حیران کن نہیں۔ یہ چوری خزانے کے کسی لالچی نے کی ہوگی۔ ان کاغذوں کے ساتھ مجھے کوئی دلچسپی نہیں، مجھے چور کے ساتھ دلچسپی ہے۔ وہ کوئی تمہارا ہی رفیق نہ ہو۔ اس چور کا سراغ لگائو'


''تم نے صحیح نہیں سوچا عیاث بلبیس!'' سلطان ایوبی نے کہا… ''مصر میں ایسے لوگ موجود ہیں جو ان تحریروں اور اشاروں کو سمجھ سکتے ہیں۔ ان کاغذوں اورنقشوں کی چوری حیران کن نہیں۔ یہ چوری خزانے کے کسی لالچی نے کی ہوگی۔ ان کاغذوں کے ساتھ مجھے کوئی دلچسپی نہیں، مجھے چور کے ساتھ دلچسپی ہے۔ وہ کوئی تمہارا ہی رفیق نہ ہو۔ اس چور کا سراغ لگائو''۔

''مجھے شبہ ہونے لگا ہے کہ ان کاغذوں کی کچھ اہمیت ضرور ہے''۔ علی بن سفیان نے کہا… ''میں محترم

غیاث بلبیس کے ساتھ بات کرچکا ہوں۔ بہت دنوں سے ہمارے مخبر اور شہر کے اندر کے جاسوس ہمیں کسی پراسرار سرگرمی کی اطلاع دے رہے ہیں۔ قدومی یہاں کی ایک مشہور رقاصہ ہے، جسے امیروں کی محفلوں کی شمع کہا جاتا ہے، پانچ چھ دنوں سے غائب ہے۔ ایک رقاصہ کا شہر سے غیرحاضر ہوجانا کوئی اہم واقعہ نہیں ہوا کرتا لیکن قدومی کو میں نے خاص طور پر نظر میں رکھا ہوا ہے۔ میرے مخبروں نے بتایا ہے کہ اس کے ہاں اجنبی اور مشکوک سے دو آدمی آتے رہے ہیں۔ پھر قدومی کے گھر سے ایک روز ایک پردہ پوش عورت کو نکلتے دیکھا گیا۔ وہ ایک اجنبی تاجر مسافر کے ساتھ جارہی تھی۔ مجھے شک ہے کہ قدومی بھیس بدل کر نکل گئی ہے۔ دوسرے مخبروں کی اطلاعوں سے پتا چلتا ہے کہ کچھ آدمی جنوب کی طرف مشکوک حالت میں جاتے دیکھے گئے ہیں۔ ان سرگرمیوں سے مجھے شک ہوتا ہے کہ ان کا تعلق ان گمشدہ کاغذات کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے اور یہ شبہ بھی ہے کہ یہ صلیبی تخریب کار ہوں گے۔ جو کچھ بھی ہے ہم ان سرگرمیوں کا کھوج لگا رہے ہیں''۔

''ضرور کھوج لگائو''۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''اور ان خزانوں کو اپنے ذہنوں سے اتار دو۔ میں جانتا ہوں کہ قوم کی فلاح وبہبود کے لیے اور صلیبیوں سے فیصلہ کن جنگ لڑنے کے لیے ہمیں مالی استحکام کی ضرورت ہے مگر میں کسی سے مدد نہیں مانگوں گا۔ محترم نورالدین زنگی نے مالی امداد کا وعدہ کیا ہے۔ میں یہ امداد بھی قبول نہیں کروں گا۔ مالی امداد سگے بھائی سے ملے تو بھی انسانی صلاحیتوں کے لیے محنت اور دیانت داری کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے پھر انسان خزانوں کی تلاش میں مارا مارا پھرنے لگتا ہے۔ مصر کی زمین بانجھ نہیں ہوگئی۔ محنت کرو کہ یہ زمین تمہیں ثمر دے۔ قوم کو بتائو کہ حکومت پر اس کے حقوق کیا ہیں تاکہ وہ اپنے آپ کو رعایا سمجھنا چھوڑ دے اور قوم کو یہ بھی بتائو کہ اس کے فرائض کیا ہے اگر قوم نے فرائض سے نگاہیں پھیر لیں تو حقوق پامال ہوجائیں گے۔ تم جس زمین کی پاسبانی میں خون نہیں بہائو گے اور جس کے وقار کے لیے پسینہ نہیں بہائو گے، وہ تمہارا حق کبھی ادا نہیں کرے گی۔ پھر اس ملک کے حکمران باہر کے خزانوں کی تلاش میں نکل کھڑے ہوں گے اور قوم افراد میں منتشر ہوکر کفار کی غلام ہوجائے گی''۔

٭ ٭ ٭

جن خزانوں کو سلطان صلاح الدین ایوبی ہاتھ لگانے سے بھی گریز کرتا تھا، ان تک اس کے اپنے ہی ایک جرنیل کے بھیجے ہوئے پچاس آدمی پہنچ گئے تھے۔ مارکونی، اسماعیل، قدومی اور ایک اور صلیبی شام کو پہنچے۔ ان کے باقی ساتھی جو الگ الگ ٹولیوں میں روانہ ہوئے تھے، اسی رات پہنچنا شروع ہوئے اور آدھی رات کے بعد پورے پچاس آدمی پہنچ گئے۔ جیسا کہ بیان کیا جاچکا ہے، یہ جگہ ایسی تھی جس کے قریب سے کبھی کوئی مسافر نہیں گزرا تھا۔ جگہ ڈرائونی ہونے کے علاوہ کسی راستے پر پڑتی ہی نہیں تھی۔ یہ چونکہ سرحد سے دور تھی، اس لیے سرحدی دستوں کی نظر میں بھی نہیں تھی۔ مارکونی نے رات کو ہی سب کو اس خطے کے اندر پہنچا دیا تاکہ باہر سے کوئی دیکھ ہی نہ سکے اور انہیں مکمل آرام دینے کے لیے کہا کہ وہ جتنی دیر سو سکتے ہیں، سوجائیں۔ یہاں سے آگے پیدل جانا ہوگا اور یہ سفر جسم کے بجائے اعصاب کو زیادہ تھکائے گا۔ مارکونی خود قدومی کے ساتھ اپنے خیمے میں چلا گیا۔

وہ سب اس وقت جاگے جب سورج ان ٹیلوں کے اوپر آگیا جس کے دامن میں سب سوئے ہوئے تھے۔ مارکونی نے انہیں بتایا کہ وہ کون کون سا سامان، اوزار اور ہتھیار وغیرہ اپنے ساتھ لیں۔ ان میں مضبوط رسے، کدالیں اور موٹی موٹی سلاخیں تھیں اور ہتھیاروں میں تیروکمان اور تلواریں۔ راستے کی مشکلات کے متعلق بھی اس نے سب کو بتا دیا۔ اس دیوار کے متعلق بھی انہیں ذہنی طور پر تیار کردیا، جس سے اس کا ایک ساتھی گر کر ہمیشہ کے لیے لاپتہ ہوگیا تھا۔ اس نے

انہیں رونے کی آوازوں سے بھی خبردار کردیا جو اس علاقے میں سنائی دیتی تھیں۔ اونٹوں کو ساتھ نہیں لے جایا جاسکتا تھا۔ ان کی دیکھ بھال کے لیے اس نے صرف ایک آدمی پیچھے رہنے دیا۔ قدومی کو بھی وہ ساتھ نہیں لے جاسکتا تھا۔ اسے توقع تھی کہ کہیں کوئی راستہ اندر جانے کے لیے مل ہی جائے گا اور وہ قدومی کو اس راستے سے لے جائے گا۔ قدومی کی حفاظت کے لیے بھی ایک آدمی کی ضرورت تھی۔ اس کے لیے صرف اسماعیل موزوں آدمی تھا۔

مارکونی نے اسماعیل سے کہا… ''تم قدومی کے لیے یہیں رہو گے لیکن یہ خیال رکھنا کہ تمہاری حیثیت اس لڑکی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ اس کے آرام اور حفاظت کے تم ذمہ دار ہوگے۔ میں بہت جلدی واپس آرہا ہوں، تم دونوں کو ساتھ لے جائوں گا''۔

وہ اپنی پارٹی کو ساتھ لے کر چل پڑا۔ اس راستے سے وہ واقف ہوچکا تھا۔ بے خوف وخطر چلتا گیا، جوں جوں یہ آدمی آگے بڑھتے جارہے تھے ان پر خوف مسلط ہوتا جارہا تھا۔ وہ صحرائوں سے پوری طرح واقف تھے مگر ایسا خطہ اور اس قسم کے پہاڑ انہوں نے کبھی نہیں دیکھے تھے اور وہ جب اس جگہ پہنچے جہاں رونے کی آوازیں آتی تھیں تو سب بدک کر خلائوں میں دیکھنے لگے۔ بلاشک وشبہ عورتیں رو رہی تھیں۔ ان آدمیوں میں دو تین ایسے بھی تھے جنہوں نے اس علاقے کے متعلق وہ تمام ڈرائونی کہانیاں سن رکھی تھی جو بہت مدت سے مشہور تھیں۔ انہوں نے اپنے صلیبی ساتھیوں کو بھی یہ کہانیاں سنا کر ڈرا دیا۔ وہ سب ڈر کی گرفت میں پہلے ہی تھے لیکن انہیں جو انعام بتایا گیا تھا، اس میں اتنی طاقت تھی جو ان کے خوف کو دبا رہی تھی۔ اس کے علاوہ وہ صلیب کے تنخواہ دار ملازم بھی تھے اور مارکونی ان کا افسر تھا۔ وہ انعام اور حکم کی پابندی کے تحت چلے جارہے تھے۔رونے کی آوازوں پر وہ بدکے تو مارکونی نے انہیں بتایا کہ یہ عورتیں یا عورتوں کی بدروحیں نہیں، یہ ہوا کی آوازیں ہیں مگر وہ ڈرتے رہے اور ایک دوسرے کو دیکھ دیکھ کر آگے ہ ی آگے بڑھتے گئے۔

اس وقت سورج غروب ہورہا تھا، جب وہ اس وسیع اور بے انتہا گہرے نشیب تک پہنچے جو انہیں قدرتی دیوار پر چل کر پار کرنا تھا۔ مارکونی کو وہاں کچھ مشکل پیش آئی۔ دیوار پر پائوں رکھنے سے سب گھبراتے تھے۔ مارکونی آگے آگے چلا۔ وہ ایک بار اس خطرے سے گزر چکا تھا۔ اس کے پیچھے دوسرے آدمی نے دیوار پر قدم رکھا اور پھر باقی بھی چل پڑے۔ سورج اس جہنم میں ہی روپوش ہوگیا تھا۔ اس سے یہ فائدہ ہوا کہ کھائی کی گہرائی نظر نہیں آتی تھی۔ مارکونی دیوار عبور کرگیا۔ اسے ایسی چیخ سنائی دی جو تہہ کی طرف جارہی تھی۔ ذرا دیر بعد ایک اور ہیبت ناک چیخ سنائی دی۔ یہ بھی دور نیچے جاکر ایک دھیمی سی دھمک میں خاموش ہوگئی۔ ایسی پانچ چیخیں سنائی دیں… یہ گروہ جب دیوار سے گزر کر کچھ آگے جا جمع ہوا تو اس میں پانچ آدمی نہیں تھے۔ مارکونی نے انہیں بتایا کہ اس سے آگے کوئی ایسا خطرہ نہیں ہے اور وہ منزل کے قریب آگئے ہیں۔ اس نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ ان کی واپسی اس راستے سے نہیں ہوگی بلکہ سیدھا اور آسان راستہ مل جائے گا۔

رات بہت گہری ہوچکی تھی، جب وہ اس جگہ پہنچے جس کے نیچے وسیع سرسبز خطہ تھا، مارکونی نے تمام آدمیوں کو وہاں سے تھوڑی دور چھپا دیا۔ دو آدمی اپنے ساتھ لیے اور باقی سب سے کہا کہ ان کے پاس جو کچھ ہے وہ کھا کر سوجائیں۔ انہیں ضرورت کے وقت جگایا جائے گا۔ مارکونی دو آدمیوں کو ساتھ لے کر اس جگہ کی دیکھ بھال کے لیے چلا گیا۔ نیچے موت کا سکوت تھا۔ کہیں ہلکی سی روشنی بھی نظر نہیں آتی تھی۔ وہ اور زیادہ قریب جانے سے ڈرتا تھا۔ اس نے حملہ صبح کے لیے ملتوی کردیا اور اپنے آدمیوں کے پاس واپس آگیا۔

٭ ٭ ٭
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: داستان ایمان فروشوں کی جلد‎ ‎دوم

Post by ایکسٹو »

قدومی اور اسماعیل اکیلے رہ گئے تھے۔ قدومی ان ہنگامہ خیز محفلوں کی عادی تھی جن میں شراب اور دولت پانی کی طرح بہتی تھی۔ مارکونی اسے اس ہولناک ویرانے میں لے آیا تھا اور اسے ایک آدمی کے ساتھ تنہا چھوڑ گیا تھا۔ اسماعیل اسے جانتا تھا۔ وہ اسماعیل سے واقف نہیں تھی۔ اسماعیل جرم وگناہ کی دنیا کا انسان تھا۔ اس کی شکل وصورت اتنی اچھی اور طبیعت اتنی شگفتہ تھی کہ قدومی نے اسے کوئی عام آدمی نہ سمجھا لیکن اسماعیل اس کے ساتھ بات کرنے سے گریز کررہا تھا۔ شام کے وقت اس نے قدومی کو بھنا ہوا گوشت گرم کرکے دیا اور شراب بھی اس کے آگے رکھ کر کہا کہ کھانا کھا کر سوجانا۔ کوئی ضرورت ہوتو خیمے سے بلا لینا۔ وہ باہر نکل گیا۔ قدومی نے کھانا کھالیا۔ شراب بھی حسب عادت پی لی لیکن تنہائی اسے پریشان کرنے لگی۔ اسے اپنے حسن اور نازو ادا پر چونکہ فخر تھا اس لیے اسے توقع تھی کہ اسماعیل اس کے قریب ہونے کی کوشش کرے گا۔ اس فخر میں تکبر اور غرور زیادہ تھا مگر اسماعیل نے اس کی طرف ایسی کوئی توجہ نہ دی جس کی قدومی کو توقع تھی۔

قدومی کو نیند نہیں آرہی تھی۔ وہ اپنے خیمے سے نکلی اور اسماعیل کے خیمے میں چلی گئی۔ وہ ابھی جاگ رہا تھا۔ قدومی کے لیے اس نے دیا جلا دیا اور پوچھا کہ وہ کیوں آئی ہے؟ قدومی نے کہا کہ اس کی طبیعت گھبرا رہی تھی۔ وہ اس کے پاس بیٹھ گئی اور پوچھا… ''تم شاید مسلمان ہو''۔

''تمہیں مذہب سے کیا دلچسپی ہوسکتی ہے؟'' … اسماعیل نے جواب دیا… ''تمہاری دلچسپی انسانوں کے ساتھ ہے کسی کے مذہب کے ساتھ نہیں۔ میرا نام اسماعیل ہے اور میرا کوئی مذہب نہیں رہا''۔

''اوہ!''… قدومی نے مسکراہٹ اور حیرت سے کہا… ''توتم ہو اسماعیل۔ احمر درویش کے خاص آدمی''۔ اس نے پوچھا… یہ آدمی کون ہے؟ کہاں سے آیا ہے؟ وہ مارکونی کے متعلق پوچھ رہی تھی۔ کہنے لگی… ''اس نے اپنا نام سلیمان سکندر بتایا ہے لیکن یہ مسلمان معلوم نہیں ہوتا''۔

''یہ مصری بھی نہیں''… اسماعیل نے کہا… ''اور یہ سوڈانی بھی نہیں اور سلیمان سکندر اس کا نام نہیں''۔

''پھر یہ کون ہے؟''… قدومی نے پوچھا… ''اس کا اصلی نام کیا ہے؟''

''میں اس نام نہیں بتا سکتا''… اسماعیل نے کہا… ''یہ راز چھپائے رکھنے کے لیے مجھے معاوضہ ملتا ہے… تمہیں اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہونی چاہیے کہ یہ کون ہے۔ تم منہ مانگی اجرت پر اس کی تفریح طبع کے لیے آئی ہو۔ یہ تمہارا پیشہ ہے۔ اس نے تمہیں خزانے میں سے کچھ حصہ دینے کا وعدہ کیا دیا ہوگا''۔

''وہ تو میرا حق ہے''… قدومی نے کہا… ''اس نے مجھے جو اجرت دی ہے، وہ اس خطرناک بیابان میں ساتھ آنے کے لیے بہت ہی تھوڑی ہے۔ میں تو خزانے میں سے حصہ لینے کے وعدے پر ساتھ آئی ہوں''۔

''کیا تمہیں یقین ہے کہ تمہیں وہ حصہ دے دے گا؟''… اسماعیل نے پوچھا… ''اور کیا تمہیں یقین ہے کہ اسے وہ خزانہ مل جائے گا جس کا حصہ وصول کرنے کے لیے تم آئی ہو؟''

''میں اتنی قیمتی لڑکی ہوں کہ لوگ مجھے خزانوں کے عوض خریدنا چاہتے ہیں''… قدومی نے غرور کے لہجے میں کہا… ''یہ شخص تو میری قیمت ادا ہی نہیں کرسکتا۔ میں ایسے امیر زادوں اور شہزادوں کو اپنا غلام بنا کے رکھا کرتی ہوں''۔

''کب تک؟''… اسماعیل نے مسکرا کر کہا… ''زیادہ سے زیادہ دوسال۔ اس کے بعد تمہاری قیمت اتنی گر جائے گی کہ تم گلیوں میں پاگلوں کی طرح دوڑتی پھرو گی، تمہیں پوچھے گا کوئی نہیں، جن کے پاس خزانے ہیں انہیں اور ایک قدومی مل جائے گی۔ تم جیسی کئی مل جائیں گی… سنو قدومی! اتنا غرور نہ کرو''۔

''کیوں نہ کروں؟''… قدومی نے کہا… ''یہ شخص جو اپنا نام سلیمان سکندر بتاتا ہے، میرے طلسم میں ایسا گرفتار ہے کہ اس نے مجھے قسمیں کھا کر کہا تھا کہ وہ صرف میرے لیے خزانے کی تلاش میں جارہا ہے۔ وہ مجھے سکندریہ لے جائے گا جہاں ہم سمندر کے کنارے محل بنائیں گے۔ پھر میں رقاصہ نہیں رہوں گی، کیا تمہیں اس میں کچھ شک ہے؟''

''شک نہیں مجھے یقین ہے کہ اس نے بہت بڑا جھوٹ بولا ہے''… اسماعیل نے کہا… ''میں اپنی اجرت کے لیے اس کے ساتھ آیا ہوں۔ احمر درویش کا کہنا میرے لیے حکم کا درجہ رکھتا ہے۔ اس نے کہا کہ اس کے ساتھ جائو، میں آگیا۔ یہ میرا پیشہ ہے۔ میں کرائے کا گناہ گار ہوں۔ میں اجرت پر قتل بھی کیا کرتا ہوں مگر میں جھوٹ نہیں بولا کرتا۔ میں کبھی پکڑا ہی نہیں گیا۔ احمر درویش مجھے بچا لیتا ہے۔ مجھ میں دوسری خوبی یا خرابی یہ ہے کہ میں عورت کا احترام کرتا ہوں۔ مجھے معلوم نہیں میں ایسا کیوں کرتا ہوں۔ عورت پردہ دار ہو یا عصمت فروش، میں اس کی عزت کرتا ہوں۔ میں عورت کو دھوکہ نہیں د ے سکتا۔ میں تمہیں بھی دھوکے میں نہیں رکھوں گا۔ میں تمہیں یہ بتا دینا اپنا اخلاقی فرض سمجھتا ہوں کہ یہ خزانہ تمہارے لیے محل تعمیر کرنے کے لیے نہیں نکالا جا رہا۔ یہ مصر کی جڑیں کاٹنے کے لیے استعمال ہوگا۔ یہاں صلیبی حکومت قائم کی جائے گی۔ مسجدوں کو گرجے بنایا جائے گا اور اگر ایسا نہ ہوا تو یہ خزانہ مصر سے باہر چلا جائے گا۔ مجھے معلوم ہے تمہیں مصر کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں، مجھے بھی نہیں، ہم دونوں پیشہ ور ہیں۔ گناہ ہمارا پیشہ ہے۔ میں تمہیں صرف دو باتیں بتانا چاہتا تھا جو بتا چکا ہوں۔ ایک بار پھر سن لو۔ تمہارے حسن اور جوانی کی عمر بہت تھوڑی رہ گئی ہے۔ دوسری بات یہ کہ تمہیں یہ شخص اپنے ساتھ تفریح اور عیاشی کے لیے لایا ہے۔ اس کی نظر میں تم ایک طوائف ہو۔ اگر اس نے تم پر کرم کیا تو ایک دو ہیرے تمہارے ہاتھ میں دے دے گا اور اگر اس نے کسی کے لیے محل تعمیر کیا بھی تو وہ کوئی نوخیز لڑکی ہوگی۔ وہ تم نہیں ہوگی۔ تمہارے چہرے پر مجھے بال جیسی باریک دو لکیریں نظر آرہی ہیں جو آج اچھی لگتی ہیں، تھوڑے ہی دنوں بعد یہ گہری ہوکر تمہاری قدروقیمت ختم کردیں گی''۔

اسماعیل کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی اور اس کے بولنے کا انداز ایسا تھا جس میں طنز نہیں تھا، دھوکہ اور فریب نہیں تھا۔ ایک اپنائیت سی تھی اور ایسی حقیقت جو قدومی نے پہلے کبھی نہیں سنی تھی۔ اسے توقع تھی کہ اسماعیل اس پر ڈورے ڈالے گا مگر اس نے اسے ذرا بھی اہمیت نہ دی۔ اس کے بجائے اسے یہ تاثر دے دیا کہ اس کی اہمیت دو روز کی مہمان ہے۔ قدومی تو اپنے حسن کی تعریفیں سننے کی عادی تھی۔ اپنے آپ کو قلوقطرہ کاثانی سمجھتی تھی۔ اسماعیل نے ایساتاثر پیدا کیا جسے قدومی دھتکار نہ سکی۔ اسماعیل کا انداز ہی ایسا تھا کہ اس کا پیدا کیا ہوا تاثر اس کے دل کی گہرائیوں میں اتر گیا۔ رات گزرتی جارہی تھی اور قدومی کی آنکھوں سے نیند غائب ہوتی جارہی تھی۔ وہ اسماعیل کے ساتھ باتوں میں رات گزارنا چاہتی تھی۔ اس خواہش کو وہ دبا نہ سکی۔ اسماعیل نے اسے مایوس نہ کیا۔ رات کا آخری پہر تھا، جب قدومی کی آنکھ لگ گئی۔

اس کی آنکھ کھلی تو وہ اسماعیل کے خیمے میں تھی اور اسماعیل خیمے سے باہر کمبل میں لپٹا سویا ہوا تھا۔ قدومی نے اسے جگایا اور کہا… ''میں نے خواب دیکھا ہے۔ عجیب سا خواب تھا۔ پوری طرح یاد نہیںرہا، کوئی مجھے کہہ رہا تھا کہ سلیمان سکندر کے خزانے کی نسبت اسماعیل کی باتیں زیادہ قیمتی ہیں''… وہ ہنس پڑی۔ اس کی ہنسی میں رقاصہ کا تضع نہیں، ایک معصوم لڑکی کی سادگی تھی۔


سورج نکلنے میں ابھی کچھ دیر باقی تھی۔ مارکونی اپنے آدمیوں کو اس سرسبز نشیب کے اوپر اپنی سکیم کے مطابق موزوں جگہوں پر چھپا چکا تھا۔ صبح روشن ہوئی تو نیچے ننگے آدمی اور عورتیں نظر آنے لگیں۔ مارکونی نے اپنے ایک دلیر اور نڈر

آدمی کو نیچے جانے کے لیے تیار کرکھا تھا۔ اسی ڈھلان سے جس سے اس کا ایک ساتھی لڑھک کر نیچے گرا اور اس پراسرار قبیلے کی ضیافت بن گیا تھا۔ مارکونی نے اپنے اس آدمی کو نیچے لڑھک جانے کو کہا۔ وہ ڈھلان کے اوپر بیٹھا اور نیچے سرک گیا۔ کچھ آگے جاکر وہ قلابازیاں کھانے لگا اور زمین پر جاپڑا۔ وہ اٹھ کر چل پڑا۔ تین چار ننگے آدم خوروں نے اسے دیکھ لیا اور اسے پکڑنے کے لیے دوڑے۔ وہ خوشی سے چلا رہے تھے۔ وہ جب اس آدمی کے قریب آئے تو اوپر سے چار تیر نکلے اور ان کے سینوں میں اتر گئے۔ ادھر سے دو اور ننگے مرد دوڑے آئے، وہ بھی تیروں کا نشانہ بن گئے۔ مارکونی نے اوپر ایک چٹان کے ساتھ رسہ بندھوا دیا تھا جسے اس نے ڈھلان سے نیچے پھینک کر اپنے آدمیوں سے کہا کہ اسے پکڑ کر سب ایک دوسرے کے پیچھے نیچے اتر جائیں۔

سب نیچے چلے گئے۔ مارکونی نے اوپر سے رسہ کھول کر نیچے پھینک دیا اور ڈھلان سے لڑھکتا ہوا نیچے چلا گیا۔ یہ سارا گروہ تلواریں نکال کر آگے کو دوڑ پڑا۔ چند اور ننگے مرد سامنے آئے، انہیں بھی کاٹ دیا گیا۔ جو ذرا دور تھے، وہ الٹے پائوں بھاگے۔ نیچے سے سرسبز علاقے کے کئی ایک حصے تھے۔ مارکونی نے دیکھا کہ بھاگنے والے ایک حصے میں چلے گئے تھے۔ وہ ان کے پیچھے گیا۔ اسے ان آدمیوں کا واویلا سنائی دے رہا تھا۔ ان کی چیخ وپکار پر وہ ان کے تعاقب میں گیا۔ اس کے باقی آدمی خون خرابہ کررہے تھے۔ وہ خود ان دو آدمیوں کے تعاقب میں رہا… تھوڑی ہی دور اسے آدمی نظر آگئے۔ وہ اب دو نہیں تین تھے۔ وہ تینوں ایک چٹان پر چڑھ رہے تھے۔ مارکونی نے ان کے پیچھے دوڑتے کچھ فاصلہ رکھا۔ وہ تینوں چٹان کی دوسری طرف اتر گئے۔ وہ بھی چٹان پر چڑھ گیا۔ دوسری طرف اسے سیاہ پہاڑی کا دامن نظر آیا۔ وہاں ایک غار کا دہانہ تھا جس میں جھک کر گزرا جاسکتا تھا۔ مارکونی اس غار میں چلا گیا۔ اس نے تلوار ہاتھ میں لے رکھی تھی۔

اندر سے غار کھلتا جارہا تھا۔ اسے اس میں کسی کے دوڑنے کی ہلکی ہلکی آہٹ سنائی دے رہی تھی۔ وہ دوڑتا گیا۔ یہ غار نہیں سرنگ تھی جو معلوم نہیں قدرتی تھی یا فرعون ریمینس نے مرنے سے پہلے بنوائی تھی۔ سرنگ کے کئی موڑ تھے اور اندر گھپ اندھیرا۔ اسے بولنے کی آوازیں سنائی دیں۔ وہ دوڑتا گیا اور اسے دور سامنے روشنی کا ایک گولا نظر آیا۔ اس میں اسے تین آدمی دوڑتے دکھائی دئیے۔ وہ غار کا دوسرا دہانہ تھا۔ وہ انہیں قتل نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس کی سکیم کامیاب ہورہی تھی۔ وہ تینوں غار سے نکل گئے۔ وہ بھی غار سے نکل گیا۔ تینوں میں ایک آدمی گر پڑا۔ مارکونی نے جاکر دیکھا۔ یہ وہی بوڑھا آدمی تھا جس نے اسے اس روز دیکھا تھا جس رو زاس کا ساتھی نیچے گر پڑا اور آدم خوروں کے ہاتھوں میں مارا گیا تھا۔ وہ بہت ہی بوڑھا تھا۔ زیادہ دوڑ نہیں سکتا تھا۔ غار سے باہر ریتلے اور پتھریلے ٹیلے اور چٹانیں تھیں۔ ایک طرف سیاہ پہاڑ دور اوپر تک چلا گیا تھا۔ مارکونی نے بوڑھے کو سہارا دے کر اٹھایا اور اس کے بھاگتے ہوئے دو آدمیوں کی طرف اشارہ کرکے اشاروں میں اسے سمجھایا کہ ان آدمیوں کو واپس بلائو۔

بوڑھے نے انہیں پکارا۔ وہ رکے تو انہیں اپنی طرف بلایا۔ اس نے مارکونی کے ساتھ مصری زبان میں بات کرتے ہوئے کہا… ''میں تمہاری زبان بولتا اور سمجھتا ہوں۔ مجھے قتل کرکے تمہیں کچھ حاصل نہ ہوگا''۔

مارکونی بھی مصری زبان بولتا اور سمجھتا تھا۔ اس نے بوڑھے سے کہا… ''میں تمہیں قتل نہیں کرنا چاہتا، تمہارے ان آدمیوں کو بھی قتل نہیں کروں گا۔ مجھے باہر جانے کا راستہ بتا دو''۔

''کیا تم یہاں سے نکلنا چاہتے ہو؟''… بوڑھے نے پوچھا۔

''ہاں''… مارکونی نے جواب دیا… ''میں تمہاری بادشاہی سے نکل جانا چاہتا ہوں''۔

بوڑھے نے اپنے آدمیوں سے کچھ کہا۔ وہ دونوں بہت ہی ڈرے ہوئے تھے۔ بوڑھے نے مارکونی سے کہا… ''اس کے ساتھ جائو۔ یہ تمہیں سیدھے راستے پر ڈال دیں گے''۔

بوڑھا ساتھ چل پڑا۔ وہ ٹیلوں کے درمیان سے گزرے، ایک ٹیلے کے اوپر گئے اور ایسی ہی کچھ بھول بھلیوں میں سے گزر کر وہ کھلے صحرا میں پہنچ گئے۔ مارکونی نے دیکھا کہ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ یہاں کوئی راستہ ہے جو اندر کی پراسرار دنیا میں لے جاتا ہے۔ بوڑھے نے اسے کہا… ''تم اب چلے جائو، ورنہ خدا کا قہر تمہیں بھسم کردے گا''… مارکونی نے تینوں کو ساتھ لیا اور یہ کہہ کر اپنے ساتھ واپس لے گیا کہ وہ اپنے آدمیوں کو بھی باہر لائے گا۔ مارکونی کے ہاتھ میں ننگی تلوار تھی جس سے وہ تینوں ڈر رہے تھے۔ وہ اس کے ساتھ واپس چل پڑے۔مارکونی نے راستہ اور اس کے موڑ اچھی طرح دیکھ لیے۔ وہ پھر غار کے دہانے میں داخل ہوئے اور اس میں گزرتے سرسبز دنیا میں پہنچ گئے۔ بوڑھا اسے اس جگہ لے گیا جہاں مارکونی کے ساتھی کو آگ پر بھون کر کھایا گیا تھا۔ مارکونی کے ساتھی اسے ڈھونڈ رہے تھے۔ کئی ایک ننگی لاشیں پڑی تھیں۔ بچوں کو بھی قتل کردیا گیا تھا۔ بوڑھے نے یہ قتل عام شاید پہلے نہیں دیکھا تھا۔ وہ رک گیا اور بڑے تحمل سے مارکونی سے پوچھا… ''ان بے گناہوں کو کاٹ کر تم نے کیا پایا؟''

''اور تم ہمارے آدمی کو بھون کر کھا گئے تھے''… مارکونی نے پوچھا… ''اس نے تمہارا کیا بگاڑا تھا؟''۔

''وہ گناہ گار دنیا کا انسان تھا''… بوڑھے نے کہا… ''اس نے ہماری مقدس سلطنت میں آکر اسے ناپاک کردیا تھا''۔

''تم لوگ یہاںکیوں رہتے ہو؟''… مارکونی نے پوچھا… ''فرعون ریمینس دوم کا مدفن کہاں ہے؟''

''میں ان دونوں سوالوں کا جواب نہیں دوں گا''… بوڑھے نے جواب دیا۔

مارکونی نے اپنے آدمیوں سے کہا کہ ان کی عورتوں کو لے آئو۔ اس نے حملے سے پہلے اپنے آدمیوں سے کہہ دیا تھا کہ وہ کسی عورت کو قتل نہ کریں اور نہ چھیڑیں۔ انہیں یرغمال کے طور پر پکڑ لیں۔ مارکونی کے ساتھی دس گیارہ عورتوں کو سامنے لے آئے۔ ان میں دو تین بوڑھی، باقی جوان، نوجوان اور تین کمسن بچیاں تھیں۔ وہ مادر زاد ننگی تھیں۔ ان کے رنگ گندمی اور صاف تھے۔ شکل وصورت بھی سب کی اچھی تھی۔ ان کے بال کمر تک گئے ہوئے تھے اور ان میں چمک تھی۔

''کیا تم پسند کرو گے کہ تمہاری عورتوں کو تمہارے سامنے بے عزت کرکے انہیں قتل کردیا جائے؟''… مارکونی نے بوڑھے سے پوچھا۔

''کیا تم اس سے پہلے مجھے قتل نہیں کردو گے؟… بوڑھے نے پوچھا''۔

''نہیں!''… مارکونی نے جواب دیا۔

''سنو گناہ گار دنیاکے انسان!''… بوڑھے نے کہا… ''تمہاری عورتیں کپڑوں میں ڈھکی رہتی ہیں۔ تم انہیں پردوں میں چھپا چھپا کر رکھتے ہو مگر وہ بے حیائی سے باز نہیں آتی۔ تم عورت کی خاطر سلطنتیں قربان کردیتے ہو۔ عورت کو نچاتے ہو اور انہیں گناہوں کا ذریعہ بناتے ہو۔ ہماری عورتیں ننگی رہتی ہیں مگر بے حیائی نہیں کرتیں۔ کوئی مرد کسی دوسرے مرد کی عورت کو اس نظر سے نہیں دیکھتا جس نظر سے تم نے میری دنیا کی عورتوں کو دیکھا ہے۔ میں تو تمہاری نظر بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ تم خدائے مقدس ریمینس کے خزانے لوٹ لو، میری بیٹیوں کی عزت پر ہاتھ نہ ڈالنا''۔

''میں وعدہ کرتا ہوں کہ مجھے ان پہاڑوں کا بھید بتا دو''… مارکونی نے کہا… ''میں تمہاری عزت تمہارےحوالے کردوں گا''۔

''ڈاکو کے وعدے پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا''… بورڑھے کے ہونٹوں پر طنز کی مسکراہٹ آگئی۔ اس نے کہا ''جس آدمی کے دل میں دولت کی لالچ ہوتی ہے اس کی آنکھ میں غیرت نہیں ہوتی۔ اس زبان پر وعدے آتے ہیں اور اسی زبان سے ٹوٹ بھی جاتے ہیں۔ تم اس دنیا کے انسان ہو جہاں دولت پر اپنی بیٹیاں قربان کی جاتی ہیں اور سنو میرے اجنبی دوست! تم مصری نہیں ہو۔ تمہاری آنکھوں میں سمندر کی چمک ہے، نیل کے پانی کی نہیں۔ تمہارے جسم سے مجھے سمندر پار کی بو آتی ہے''۔

''میں ریمینس کے مدفن کی تلاش میں آیا ہوں''… مارکونی نے اسے غصے سے کہا… ''مجھے وہ مدفن بتا دو''۔

''میں بتا دوں گا''… بوڑھے نے کہا… ''اس سے پہلے میں تمہیں یہ بتا دینا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ مدفن کے اندر جاکر تم زندہ باہر نہیں آسکو گے''۔

''کیا تمہارے آدمی اندر چھپے ہوئے ہیں جو مجھے قتل کردیں گے؟''

''نہیں!''… بوڑھے نے جواب دیا… ''تمہیں قتل کرنے کے لیے میرے پاس کوئی آدمی نہیں رہا۔ تمہارے اپنے آدمی تمہیں قتل کریں گے۔ تمہاری لاش یہاں سے کوئی نہیں لے جائے گا''۔

''تم غیب دان ہو؟''… مارکونی نے پوچھا… ''آنے والے وقت کی خبر دے سکتے ہو؟''

''نہیں!''… بوڑھے نے جواب دیا… ''میں نے گزرا ہوا وقت دیکھا ہے جس نے گزرے ہوئے وقت کو عقل اور دل کی نظر سے دیکھا ہو وہ آنے والے وقت کی خبر دے سکتا ہے۔ موت تمہاری آنکھوںمیں آکر بیٹھ گئی ہے''۔

مارکونی نے قہقہہ لگا کر کہا… ''تم جنگلی ہو بڈھے! مجھے بتائو وہ مدفن کہاں ہے جس کی تلاش میں میں اتنی دور سے آیا ہوں''۔

''تمہارے سامنے ہے''… بوڑھے نے کہا… ''وہ اوپر، آئو''۔

مارکونی نے کچھ سوچا اور اپنے آدمیوں سے کہا… ''ان عورتوں کو عزت سے رکھو۔ اس بوڑھے کے ساتھ گپ شپ لگاتے رہو اور اس کے ان دونوں آدمیوں کو بھی کچھ نہ کہنا۔ ان کے ساتھ دوستی پیدا کرلو۔ میں قدومی اور اسماعیل کو لینے جارہا ہوں''۔

مارکونی اس راستے سے باہر نکل گیا جو اسے بوڑھے نے دکھایا تھا۔ اس اس سمت کا اندازہ تھا جدھر سے وہ اس ہولناک علاقے میں داخل ہوا تھا۔ وہ اس طرف چل پڑا۔ اس نے کم وبیش دو میل سفر طے کیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ اس مقام پر پہنچ گیا ہے، جہاں سے وہ اپنے گروہ کے ساتھ اندر گیا تھا وہ اپنے خیمے تک گیا۔ اس نے اسماعیل اور قدومی کو ایک ہی خیمے میں اکٹھے بیٹھے دیکھا۔ اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ حکم کے لہجے میں اسماعیل سے کہا… ''میں نے تمہیں کہا تھا کہ اپنی حیثیت میں رہنا۔ اس کے پاس بیٹھے تم کیا کررہے ہو؟''

''کیا میں اس ویرانے میں اکیلی بیٹھی رہتی؟''… قدومی نے کہا… ''میں نے خود اسے اپنے پاس بلایا ہے''۔

''تمہیں میں اپنے ساتھ صرف اور صرف اپنے لیے لایا ہوں''… مارکونی نے غصے سے کہا… ''میں تمہیں اپنی اجرت دے رہا ہوں۔ میں تمہیں کسی اور کے ساتھ نہیں دیکھ سکتا۔ اپنے گھر میں اپنے پاس سو آدمیوں کو بلائو۔ یہاں تم میری لونڈی ہو''۔

گزشتہ رات اسماعیل نے اس پرخلوص دل سے ایسا تاثر طاری کردیا تھا کہ اس کے دل میں مارکونی کے خلاف شک اور ناپسندیدگی پیدا ہوگئی تھی۔ اسے وہ اب اپنا ایک گاہک سمجھنے لگی تھی۔ اب مارکونی نے اسے اپنی لونڈی کہہ دیا تو اس کے دل میں مارکونی کے خلاف نفرت پیدا ہوگئی۔ اس نے اچھے اور برے انسان میں فرق دیکھ لیا تھا۔ حالانکہ اسماعیل نے اسے بالکل نہیں کہا تھا کہ وہ اچھا آدمی ہے بلکہ یہ کہا تھا کہ وہ کرائے کا گناہ گار اور اجرت لے کر قتل کرنے والا آدمی ہے۔ قدومی مارکونی کو دھتکار نہیں سکتی تھی کیونکہ وہ اپنی طے کی ہوئی اجرت پر آئی تھی جو وہ وصول کرکے گھر رکھ آئی تھی۔ آگے خزانے کے کچھ حصے کا وعدہ تھا جو مشکوک نظر آتا تھا۔ اس نے برداشت نہ کیا کہ مارکونی اسماعیل کے ساتھ بدتمیزی سے بات کرے۔

اسماعیل مارکونی کو خاموشی سے دیکھ رہا تھا۔ اس نے مارکونی کو بازو سے پکڑا اور ذرا پرے لے جاکر دھیمی سی آواز میں کہا… ''احمر درویش نے تمہیں شاید میرے متعلق کچھ بھی نہیں بتایا۔ میرے متعلق تم کچھ بھی نہیں جانتے۔ میں تمہیں اچھی طرح جانتا ہوں۔ تم میرے ملک اور میری قوم کی جڑیں کاٹنے آئے ہو۔ میں اتنا بڑا گناہ گار ہوں کہ کرائے پر تمہارا ساتھ دے رہا ہوں۔ میں تمہیں اپنا بادشاہ تسلیم نہیں کرسکتا۔ اپنی پوری اجرت لوں گا اور اگر خزانہ برآمد ہوگیا تو اپنا حصہ الگ وصول کروں گا''۔

''تم ایسی باتیں احمر درویش کے ساتھ کرنا''… مارکونی نے اسے کمانڈروں کی طرح کہا… ''یہاں تم میرے ماتحت ہو۔ خزانہ جو نکلے گا وہ میری تحویل میں ہوگا۔ میں اسے جہاں چاہوں لے جائوں''۔

''سنو سلیمان سکندر!''… اسماعیل نے پہلے کی طرح دھیمی آواز اور ہلکے سے تبسم سے کہا… ''میں جانتا ہوں تم مارکونی ہو، سلیمان سکندر نہیں ہو۔میں ایک عادی مجرم ہوں۔ میں تمہیں خبردار کرتا ہوں کہ تمہاری باتیں مجھے مجرم سے مصری مسلمان بنا دیں گی اور میں تمہیں خبردار کرتا ہوں کہ مسلمان قومی جذبے کا اتنا اندھا ہوتا ہے کہ اگر مسلمان کی لاش میں یہ جذبہ پیدا ہوجائے تو لاش بھی اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ تمہارا فائدہ اسی میں ہے کہ مجھے مجرم رہنے دو''۔

مارکونی نے محسوس کرلیا کہ یہ شخص بہت گہرا ہے اور پیچیدہ بھی، اس لیے اس سے اس موقع پر دشمنی مول لینی اچھی نہیں۔ اس نے اسماعیل کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اور دوستوں کی طرح مسکرا کر کہا… ''تم بلاوجہ کسی غلط فہمی میں پڑ گئے ہو۔ میں دراصل یہ نہیں چاہتا کہ یہ طوائف تمہارے یا میرے دماغ پر سوار ہوجائے۔ یہ بہت چالاک عورت ہے۔ یہ ہم دونوں میں غلط فہمی پیدا کرکے خزانے پر ہاتھ مارنا چاہتی ہے۔ مجھے اپنا دشمن نہ سمجھو۔ احمر درویش نے تمہیں بتایا نہیں کہ اس نے تمہارے متعلق کیا سوچ رکھا ہے''۔

''کیا تمہیں امید ہے کہ خزانہ مل جائے گا؟''

''مل گیا ہے''… مارکونی نے جواب دیا… ''میں تم دونوں کو لینے آیا ہوں''۔

اسماعیل اسے بڑی گہری نظروں سے دیکھتا رہا۔ قدومی بھی اسے دیکھتی رہی۔ اس کے چہرے پر ناپسندیدگی کے آثار بڑے نمایاں تھے۔ مارکونی نے اس آدمی کو آواز دی جسے وہ اونٹوں کی دیکھ بھال کے لیے چھوڑ گیا تھا۔ اسے کہا کہ وہ اونٹوں کو ایک دوسرے کے پیچھے باندھ کر لے آئے۔ خیمے بھی لپیٹ لیے گئے۔

٭ ٭ ٭

مارکونی انہیں وہاں لے گیا جہاں اس کے دوسرے آدمی تھے اور جہاں فرعون ریمینس کا خفیہ مدفن تھا۔ قدومی نے ایسی سرسبز جگہ دیکھی تو بہت حیران ہوئی۔ ایک اونچی پہاڑی کے دامن میں ننھی سی جھیل تھی۔ پہاڑی کے نیچے سے پانی پھوٹتا تھا۔ یہ قدرت کا کرشمہ تھا۔ مارکونی ننگے قبیلے کے بوڑھے سردار کے پاس چلا گیا۔ اسے مدفن کا سراغ لگانا تھا۔ قدومی اسماعیل کے ساتھ ادھر ادھر ٹہلنے لگی۔ اسے ایک چھوٹے سے بچے کی لاش پڑی دکھائی دی۔ بچہ ننگا تھا اور اس کا جسم خون میں نہایا ہوا تھا۔ قدومی خوف سے کانپنے لگی۔ کچھ اور آگے گئے تو دو لاشیں اکٹھی پڑی تھیں۔ یہ بڑی عمرکے آدمیوں کی تھیں۔ دونوں میں تیر پیوست تھے اور جب وہ اسماعیل کے ساتھ فراخ جگہ گئی جہاں مارکونی کے آدمی اوپر سے اترے تھے، وہاں اسے کئی اور لاشیں نظر آئیں۔ ان میں پانچ چھ لاشیں بچوں کی بھی تھیں۔ تمام لاشوں کے منہ اور آنکھیں کھلی ہوئیں اور چہروں پر اذیت اور کرب کے بھیانک تاثرات تھے۔ قدومی کسی بڑی ہی حسین دنیا کی عورت تھی۔ اس نے ایسا ہیبت ناک منظر کبھی خواب میں نہیں دیکھا تھا۔ ایک بہت ہی چھوٹے سے بچے کی لاش دیکھ کر اس کی چیخ نکل گئی۔

مارکونی کے تین چار آدمی چیخ سن کر دوڑے آئے۔ قدومی کو چکر آگیا تھا اور اسماعیل نے اسے تھام لیا تھا۔ مارکونی کے آدمیوں کو بتایا گیا کہ وہ لاشیں دیکھ کر ڈر گئی ہے۔ ایک آدمی اس کے لیے پانی لینے کو دوڑا۔ قدومی جلدی سنبھل گئی۔ اس نے پوچھا کہ یہ مرنے والے کون تھے اور انہیں کیوں قتل کیا گیا ہے؟ قدومی نے اسماعیل کی طرف دیکھا۔ اس کا رنگ پیلا پڑ گیا تھا۔ اسماعیل نے کہا… ''ہم سے یہ لوگ اچھے تھے جو اس خزانے کی رکھوالی کررہے تھے۔ یہ ننگے آدم خور دیانت دار تھے جنہوں نے جان دے دی، خزانے کا بھید نہ بتایا۔ اگر یہ فرعون کا مدفن اکھاڑ کر مال ودولت نکال لے جاتے تو انہیں کون پکڑ سکتا تھا مگر یہ دیانت دار تھے۔ ہم ڈاکو اور قاتل ہیں جو اپنے آپ کو مہذب سمجھتے ہیں۔ یہ مارکونی کی کارستانی ہے''۔

''میں اس خزانے میں سے کچھ بھی نہیں لوں گی جس کی خاطر ان معصوم بچوں اور بے گناہ آدمیوں کو اس بے دردی سے قتل کیا گیا ہے''… قدومی نے کہا… ''ان کے پاس کوئی ہتھیار نظر نہیں آتا۔ یہ نہتے تھے''۔

اس وقت مارکونی بوڑھے کے ساتھ ایک چٹان کے پیچھے گیا ہوا تھا۔ بوڑھے نے اسے کہا… ''اوپر چلے جائو، وہاں تمہیں ایک بہت بڑا پتھر جو یہیں سے نظر آرہا ہے، اسے تم چٹان ہی سمجھ رہے ہو اگر اسے وہاں سے ہٹا سکو تو تمہیں اس دنیا کا دروازہ نظر آئے گا جس میں ریمینس دوم کا تابوت اور اس کا خزانہ رکھا ہے۔ اس چٹان کو اس وقت سے کسی نہیں ہلایا جب سے یہاں یہاں رکھی گئی ہے۔ پندرہ صدیوں سے اس چٹان کو کسی نے چھوا بھی نہیں۔ ہم پندرہ صدیوں سے اس کی رکھوالی کررہے ہیں۔ میں تمہیں ریمینس کی موت کے واقعات اس طرح سنا سکتا ہوں جیسے وہ کل میرے سامنے مرا ہو۔ یہ مجھے باپ اور دادا نے سنائے تھے۔ دادا کو اس کے باپ اور دادا نے سنائے تھے اور اس طرح پندرہ صدیوں کی باتیں میرے سینے میں آئیں جو میں نے اپنے قبیلے کو سنا دی ہیں ''۔

''میں یہ باتیں بعد میں سنوں گا''… مارکونی نے بیتاب ہوکر کہا اور وہ چٹان پر چڑھ گیا۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ اوپر کی مخروطی چٹان الگ ہے یا الگ کی جاسکتی ہے۔ اس نے ادھر ادھر سے دیکھنے کی کوشش کی مگر اسے کوئی ایسی جگہ نظر نہ آئی جس سے یہ چٹان الگ معلوم ہوتی ہے۔ وہ نیچے اتر آیا۔

''میں جانتا ہوں، تم یقین نہیں کرو گے کہ اس چٹان کے دو حصے ہیں''… بوڑھے نے کہا… ''اوپر کا حصہ جو پیچھے پہاڑ کے ساتھ ملا ہوا ہے، پہاڑ اور چٹان کا حصہ معلوم ہوتا ہے، لیکن ایسا نہیں۔ یہ انسانی ہاتھوں کا کمال ہے۔ اس کی ساخت قدرتی لگتی ہے لیکن یہ انسانوں کی کاریگری ہے۔ ریمینس نے یہ اپنی نگرانی میں بنوایا تھا۔ اس کے نیچے اور پہاڑ کے سینے میں جو دنیا آباد ہے، وہ ریمینس نے اپنی زندگی میں تیار کرائی تھی اور اسے باہر کی دنیا کے انسانوں سے تاقیامت چھپائے رکھنے کے لیے اس نے یہ چٹان بنوائی، رکھوا کر دیکھی اور ان آدمیوں کو قید میں ڈال دیا تھا جنہوں نے اس کا مدفن

اور چٹان تیار کی تھی۔ وہ مرگیاتو اس کا تابوت یہاں لایا گیا۔ اس کا ضرورت کا سامان اندر رکھا گیا۔ کاریگروں کو قید سے نکال کر اوپر چٹان رکھوائی گئی اور ان تمام آدمیوں کو قتل کردیا گیا۔ بارہ آدمیوں کو یہاں غاروں میں آباد کیا گیا۔ انہیں مصر کی بارہ خوبصورت عورتیں دی گئیں۔ انہیں غاروں میں رہنے کو کہا گیا۔ ان کے ذمے اس جگہ کی رکھوالی تھی۔ آج تم نے جنہیں قتل کردیا اور میں جو زندہ ہوں، انہی بارہ آدمیوں اور بارہ عورتوں کی نسل سے ہیں''۔

''اس چٹان کو ہم وہاں سے ہٹا کس طرح سکتے ہیں؟''… مارکونی نے پوچھا۔

''تمہاری آنکھیں کہاں ہیں؟''… بوڑھے نے پوچھا… ''تمہاری عقل کہاں ہے؟''… اور اس نے کہا… ''چٹان کی چوٹی دیکھو۔ کیا تم اسے رسے کے ساتھ سے نہیں باندھ سکتے؟ اگر تمہارے آدمیوں میں طاقت ہے تو مل کر رسے کو کھینچیں تو چٹان نیچے آسکتی ہے''۔

مارکونی مدفن کو بہت جلد بے نقاب کرنے کے لیے بیتاب تھا۔ اس نے اپنے آدمیوں کو بلایا۔ رسے منگوائے اور دو رسے اوپر والی چٹان کی ابھری ہوئی چوٹی کے ساتھ بندھوا دئیے۔ اس نے تمام آدمیوں سے کہا کہ نیچے سے رسہ پوری طاقت سے کھینچیں۔ وہ خود اوپر چلا گیا۔ نیچے سے جب سب نے زور لگایا تو اس نے دیکھا کہ بڑی چٹان ہل رہی تھی۔ ایک بار یہ اتنی زیادہ ہل گئی کہ اسے اس کے نیچے خلا نظر آگیا۔ اس کا حوصلہ بڑھ گیا۔ اس نے نعرے لگانے شروع کردیئے۔ اس کے آدمیوں نے اور زور لگایا تو چٹان سرک گئی۔ مارکونی نے اپنے آدمیوں کو ذرا آرام کرنے کو کہا۔سورج سیاہ پہاڑ کے پیچھے چلا گیا تھا۔ مارکونی کے پاس شراب کا ذخیرہ تھا۔ اس نے شراب کا مشکیزہ منگوا کر کہا پیو اور اس چٹان کو کنکر کی طرح نیچے پھینک دو۔

سب شراب پر ٹوٹ پڑے۔ مارکونی نے پرجوش لہجے میں کہا… ''میں آج رات تمہیں دو اونٹ بھون کر کھلائوں گا''… تھوڑی دیر بعد شراب نے سب کی تھکن دور کردی اور ان میں نئی تازگی آگئی۔ اتنے میں سورج افق سے بھی نیچے چلا گیا تھا۔ مشعلیں جلا کررکھ لی گئیں اور سب نے ایک بار پھر زور لگانا شروع کیا۔ مارکونی اوپر کھڑا تھا۔ اسے مشعلوں کی ناچتی روشنی میں چٹان کا بالائی حصہ آگے کو جھکتا اور کچھ سرکتا نظر آیا۔ اس نے اور زیادہ جوش سے نعرے لگانے شروع کردئیے۔ اچانک چٹان مہیب آواز کے ساتھ سرک گئی اور الٹ کر نیچے کو لڑھک گئی جہاں مارکونی کے آدمی تھے وہ جگہ تنگ تھی۔ ان کے پیچھے بھی ایک پتھریلی ٹیکری تھی۔ اوپر سے چٹان اتنی تیزی سے آئی کہ نیچے سے آدمی بھاگ نہ سکے۔ روشنی بھی کم تھی۔ پہاڑوں اور چٹانوں میں گھری ہوئی یہ دنیا بیک وقت کئی ایک چیخوں سے لرز اٹھی اور سکوت طاری ہوگیا۔ مارکونی دوڑتا نیچے آیا۔ ایک مشعل اٹھا کر دیکھا۔ گری ہوئی چٹان کے نیچے سے خون بہہ رہا تھا۔ کسی کا ہاتھ نظر آرہا تھا، کسی کی ٹانگ اور کسی کا سر اورکچھ ایسے بھی تھے جو درمیان میں نیچے آگئے تھے۔

مارکونی کو کسی کے دوڑنے کی آہٹیں سنائی دیں۔ کوئی بچ بھی گئے تھے، وہ بھاگ گئے تھے۔ اس نے ٹیکری پر دیکھا، وہاں چار انسان کھڑے تھے۔ ایک بوڑھا تھا، دوسرا اسماعیل، تیسرا مارکونی کا ایک ساتھی جو ہانپ رہا تھا۔ وہ بھاگا نہیں تھا اور چوتھا انسان قدومی تھی جو سراپا خوف بنی کھڑی تھی۔ مارکونی آہستہ آہستہ ٹیکری پر آیا۔ اس نے چاروں کو باری باری دیکھا۔ سب خاموش تھے۔ سب سے پہلے بوڑھا بولا۔ اس نے کہا… ''میں نے تمہیں خبردار کردیا تھا کہ مجھے تمہاری آنکھوں میں موت نظر آرہی ہے۔ میں نے اپنے فرض کو نظر انداز کرکے تمہیں یہ بھید بتا دیا تھا کہ یہ موت کا بھید ہے اور موت میرا فرض پورا کردے گی… کیا تم واپس چلے جائو گے؟''

''نہیں!''… مارکونی نے آہستہ سے کہا… ''میرے یہ ساتھی میرے ساتھ ہیں، یہ میرا ساتھ دیں گے''۔ اس

نے ان سے پوچھا… ''معلوم ہوتا ہے، کوئی زندہ نکل گئے ہیں، کون کون بھاگا ہے؟''

''مجھ سے پوچھو''… بوڑھے نے کہا… ''تمہارے چار آدمی میرے دو آدمیوں کے ساتھ بھاگ گئے ہیں۔ میرے آدمی انہیں باہر کا راستہ نہیں بتائیں گے۔ انہیں اب اندر بھٹک بھٹک کر مرنا ہے۔ بہتر ہوتا کہ وہ چٹان کے نیچے آکر مرجاتے۔ یہ موت آسان تھی۔ آج رات کے لیے یہ کام بند کردو۔ میں صبح تمہیں اندر لے جائوں گا''۔

٭ ٭ ٭
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: داستان ایمان فروشوں کی جلد‎ ‎دوم

Post by ایکسٹو »

مارکونی پر اس حادثے کا کوئی اثر معلوم نہیں ہوتا تھا۔ اس نے بوڑھے کو اپنے ساتھ کھانا کھلایا۔ اسماعیل نے بوڑھے کو ایک چادر دی جو اس نے اپنے اوپر ڈال لی۔ قدومی پر خاموشی طاری تھی۔ وہ ان عورتوں کو بھی دیکھ چکی تھی جنہیں مارکونی نے یرغمال بنا کے رکھا ہوا تھا۔ وہ اب کسی اور جگہ تھیں۔

''تم میرے ایک آدمی کو کھا گئے تھے''۔ مارکونی نے کہا۔ ''اس سے پہلے تم نے کتنے انسان کھائے ہیں؟''

''جتنے ہاتھ لگ سکے''… بوڑھے نے جواب دیا… ''میں بتا نہیں سکتا کہ ہمارے نسل میں انسانی گوشت کب داخل ہوا جو تاریخ میرے کانوں میں ڈالی گئی ہے اس میں پندرہ صدیوں پرانی ایک پیشن گوئی شامل ہے۔ کسی نے کہا تھا کہ جو لوگ خدائے ریمینس کے مدفن کی حفاظت کریں گے، انہیں ریگزار اپنی ٹھنڈی آغوش میں رکھے گا۔ انہیں پانی اور خواہش سے آزاد کردے گا۔ انہیں یہ بھی ضرورت نہیں رہے گی کہ وہ اپنے ستر ڈھانپیں۔ ان کے دلوں میں ایک دوسرے کی محبت ہوگی۔ ان میں کوئی لالچ نہیں ہوگا۔ لالچ ہی انسان کو قاتل، ڈاکو اور بددیانت بناتا ہے۔ وہ کبھی دولت کا لالچ کرتا ہے اور کبھی عورت کا۔ اس کا دین نہیں رہتا۔ لالچ فساد کی جڑ ہے۔ ہمیں اس لعنت سے آزاد کردیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ ایک وقت آئے گا کہ ریمینس کے محافظ انسان کا گوشت کھائیں گے۔ یہاں سے باہر جائیں گے۔ انسان کا شکار کھیلیں گے اور کوئی جانور ملے تو اسے بھی کھائیں گے اگر نہیں کھائیں گے تو ان کی نسل ختم ہوجائے گی''۔

''کیا تم آج بھی فرعونوں کو خدا سمجھتے ہو؟''… قدومی نے بوڑھے سے پوچھا۔

''انسان بڑی کمزور چیز ہے۔ اپنے خدا بدلتا رہتا ہے''… بوڑھے نے کہا… ''اور کبھی انسان خود ہی خدا بن جاتا ہے۔ اس وقت تم لوگ میرے خدا ہو کیونکہ میری جان اور میری بچیوں کی عزت جو تمہاری قید میں ہیں، تمہارے ہاتھ میں ہے۔ میں نے تم پر یہ راز تمہیں خدا سمجھ کر فاش کردیا ہے کیونکہ میں مرنے سے ڈرتا ہوں اور اپنی بچیوں کو بے آبرو کرنے سے ڈرتا ہوں۔ فرعون نے بھی تمہاری طرح اپنے وقت کی مخلوق کی گردن پر بھوک اور بیگار کی چھری رکھ کر کہا تھا کہ میں خدا ہوں۔ انسان نے مجبور ہوکر کہا… ''ہاں! تم ہی خدا ہو''… بھوک اور مفلسی انسان کو حقیقت سے بہت دور لے جا کر پھینک دیتی ہے۔ اس کے اندر کا انسان مرجاتا ہے۔ جسے حقیقی خدا نے اشرف المخلوقات کہا تھا، اس کا صرف جسم رہ جاتا ہے جسے پیٹ کی آگ جلاتی ہے تو وہ اس انسان کے آگے سجدے کرنے لگتا ہے جو اس کے پیٹ کی آگ ٹھنڈی کرتا ہے۔ انسان کی اسی کمزوری نے بادشاہ پیدا کیے۔ ڈاکو اورراہزن پیدا کیے۔ انسان کو حاکم اور محکوم، ظالم اور مظلوم بنایا۔ لوگ کہتے ہیں کہ انسان کو بھوک نے بدی سے آشنا کیا۔ یہ غلط ہے۔ انسان کو بدکار زروجواہرات نے بنایا ہے… تم کون ہو؟ کیا ہو؟''۔ اس نے قدومی سے پوچھا… ''ان میں سے کس کی بیوی ہو؟ ان میں سے کسے اپنا آدمی کہہ سکتی ہو؟''… بوڑھے کو معلوم ہوچکا تھا کہ قدومی قاہرہ کی رقاصہ ہے۔ قدومی اس کے سوال سے پریشان ہوگئی۔ وہ پہلے پریشان تھی۔ بوڑھے کے سوال نے اس کا پسینہ نکال دیا۔ بوڑھے نے اسے خاموش دیکھ کر کہا… ''تم اپنے حسین چہرے اور جوانی کی بدولت اپنے آپ کو خدا سمجھتی ہو اور تمہاری خواہش کرنے والے تمہیں خدا کہتے ہیں۔ مجھے جنگلی اور وحشی نہ سمجھو۔ میرے پاس کپڑے ہیں جو میں پہن کر کبھی کبھی قاہرہ جایا کرتا ہوں… تمہاری مہذب دنیا کو دیکھتا ہوں، پھر واپس آکر کپڑے اتار دیتا ہوں۔ میں نے تمہاری دنیا میں بگھیوں پر شہزادے سیر کرتے دیکھے ہیں۔ تمہاری طرح شہزادیاں دیکھی ہیں۔ ناچنے اور گانے والی بھی دیکھی ہیں اور انہیں جو نچاتے ہیں، انہیں بھی دیکھا ہے۔ میں نے فرعونوں کے وقتوں کی باتیں سنی ہیں اور آج کے وقت کے فرعون بھی دیکھے ہیں۔ ان سب کا انجام بھی دیکھا ہے۔ تمہارا انجام بھی جو تمہیں ابھی نظر نہیں آرہا، دیکھ رہا ہوں۔ تم نے خزانے کی لالچ میں اتنے بے گناہ انسانوں کا خون کیا۔ اس گناہ کی سزا سے بچ نہیں سکو گے۔ فرعون بھی نہیںبچ سکے تھے۔ میں صبح تمہیں اندر لے جائوں گا۔ ان کا انجام دیکھنا۔ وہ خدا ہوتے تو ان کا یہ انجام نہ ہوتا۔ خدا وہ ہوتا ہے جو انجام تک پہنچایا کرتا ہے، انجام تک پہنچا نہیں کرتا۔ میں نے اس انسان کو کبھی خدا نہیں مانا جو آج پہاڑی کے نیچے ہڈیوں کا ڈھانچہ بنا ہوا ہے۔ میں اور میرا قبیلہ اس کی حفاظت نہیں کررہے۔ ہم نے دنیا کے لالچ سے بچنے کے لیے اپنا ایک عقیدہ بنالیا ہے۔ ہم اس عقیدے کی حفاظت کررہے ہیں''۔

بوڑھا ٹھہری ٹھہری آواز میں بولتا جارہا تھا۔ قدومی اسے دیکھ رہی تھی اور بوڑھے کی باتوں میں اسے اپنا انجام نظر آرہا تھا۔ مارکونی کے ہونٹوں پر طنزیہ سی مسکراہٹ تھی۔ وہ شراب پی رہا تھا۔ اس نے بوڑھے سے کہا… ''تم اپنی عورتوں کے پاس جائو، صبح جلدی اٹھنا۔ ہمیں اندر جانا ہے''۔

بوڑھا چلا گیا تو مارکونی نے قدومی سے کہا… ''آئو ہم بھی سوجائیں''۔

''میں تمہارے ساتھ نہیں جائوں گی''… قدومی نے کہا۔

مارکونی اس کی طرف لپکا۔ قدومی پیچھے ہٹ گئی۔ مارکونی نے اسے دھمکی دی۔ اسماعیل اس کے آگے آگیا۔ اس نے کچھ نہیں کہا۔ مارکونی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا اور مارکونی پیچھے ہٹ گیا۔ وہ جب چلا گیا تو قدومی اسماعیل کے سینے پر سر پھینک کر بچوں کی طرح رونے لگی۔

٭ ٭ ٭

صبح جاگے تو مارکونی نے بوڑھے کو ڈھونڈا، بوڑھا وہاں نہیں تھا۔ عورتوں کو دیکھا، وہ بھی غائب تھیں۔ انہیں آوازیں دیں۔ ادھر ادھر دیکھا۔ ان میں سے کوئی بھی نظر نہ آیا۔ مارکونی کو اب ان کی اتنی ضرورت نہیں تھی۔ مدفن کا دہانہ کھل چکا تھا۔ بوڑھا اگر وہاں ہوتا بھی تو اسے معلوم نہیں تھا کہ اندر کیا ہے۔ مارکونی نے اسماعیل، اپنے ساتھی اور قدومی کو اپنے ساتھ لیا اور وہ سب اس چٹان پر چڑھ گئے جہاں مدفن کے اندر جانے کا دہانہ تھا۔ مارکونی نیچے اترا۔ یہ ایک کشادہ گڑھا تھا، جو سرنگ بن کر ایک طرف چلا گیا تھا۔ وہ مشعلیں ساتھ لے گئے تھے، جو جلائی گئیں۔ کچھ دور آگے جاکر سرنگ بند ہوگئی۔ مارکونی نے وہاں الٹی کدال ماری تو ایسی آوازیں آئی جیسے اس کے پیچھے جگہ کھوکھلی ہے۔یہ پتھر کا چوکور دروازہ تھا۔ اس پر ضربیں لگائی گئیں تو کناروں سے خلا نظر آنے لگی۔ سلاخوں اور ہتھوڑوں وغیرہ کی مدد سے اس تراشے ہوئے پتھر کو ہلا لیا گیا اور بہت سی محنت اور مشقت کے بعد اس چوکور پتھر نے اس طرح راستہ دے دیا کہ پیچھے کو گرا۔ اس کے وزن کا یہ عالم تھا کہ اس کے گرنے سے زلزلے کا جھٹکا محسوس ہوا۔ اندر سے پندرہ سولہ صدیوں کی بدبو جھکڑ کی طرح باہر آئی۔ سب پیچھے کو بھاگے اور انہوں نے ناک منہ پر کپڑے لپیٹ لیے۔ ذرا دیر بعد مشعلوں کے ساتھ اندر گئے۔ چند قدم آگے سیڑھیاں نیچے جاتی تھیں۔

سیڑھیوں پر انسانی کھونپڑیاں اور ہڈیوں کے پنجر پڑے تھے۔ ان کے ساتھ برچھیاں اور ڈھالیں بھی تھیں۔ یہ پہرہ داروں کی ہڈیاں تھیں۔ انہیں اندر زندہ پہرے پر کھڑا کرکے مدفن کے منہ پر اتنی وزنی سل جما دی گئی تھی۔ سیڑھیاں انہیں دور نیچے لے گئیں۔ یہ ایک وسیع کمرہ تھا۔ یہ زمین پتھریلی تھی۔ کاریگروں نے لمبی مدت صرف کرکے دیواریں اور چھت اس طرح تراشی تھی کہ یہ بیسیویں صدی کی عمارت معلوم ہوتی تھی۔ وہاں ایک بڑی ہی خوش نما کشتی رکھی تھی جس کے بادبان لپٹے ہوئے تھے۔ کشتی میں بھی انسانی کھونپڑیاں اور ہڈیاں پڑی تھیں۔ یہ ملاحوں کی تھیں۔ ایک تاریک راستہ جو کا ریگری سے تراشا گیا تھا، ایک اور کمرے میں لے گیا۔ وہاں ایک سجی سجائی گھوڑا گاڑی کھڑی تھی۔ اس کے آگے آٹھ گھوڑوں کی کھونپڑیاں اور ہڈیاں بکھری ہوئی تھی اور بگھی کی آگلی سیٹ پر انسانی ہڈیوں کا ڈھیر تھا۔ اس کمرے میں کئی اور ہڈیوں کے پنجر تھے۔ اس سے آگے ایک اور کمرہ تھا جو صحیح معنوں میں شیش محل تھا۔ چھت اونچی اور دیواروں پر چتر کاری کی گئی تھی۔ ایک دیوار کے ساتھ سیڑھیاں اور ان پر ایک پتھر کی کرسی اور کرسی پر ریمینس کا بت بیٹھا ہواتھا۔ یہ بھی پتھر کا تھا۔

سیڑھیوں پر ہڈیوں کے پنجر اور کھونپڑیاں پڑی تھیں۔ قدومی نے ایک کھونپڑی کے ساتھ موتیوں کا ایک ہار دیکھا جس کے ساتھ ایک نیلا ہیرا تھا۔ کانوں میں ڈالنے والے زیورات تھے اور انگوٹھیاں بھی چند اور ڈھانچوں کے ساتھ اس نے ہار اور زیورات دیکھے۔ مارکونی نے ایک ہار اٹھایا، ڈیڑھ ہزار سال گزر جانے کے بعد بھی ان موتیوں اور ہیروں کی چمک مانند نہیں پڑی تھی۔ مشعل کی روشنی سے ہیرے رنگا رنگ شعاعیں دیتے تھے۔ مارکونی ہار قدومی کے گلے میں ڈالنے لگا تو قدومی چیخ کر اسماعیل کے پیچھے ہوگئی۔ مارکونی نے قہقہہ لگا کر کہا… ''میں نے کہا تھا کہ تمہیں ملکہ قلوپطرہ بنائوں گا۔ ڈرو مت قدومی! یہ سب ہار تمہارے ہیں''۔

''نہیں!''… قدومی نے لرزتی کانپتی آواز میں کہا… ''نہیں! میں نے ان کھونپڑیوں اور ہڈیوں میں اپنا انجام دیکھ لیا ہے۔ یہ بھی مجھ جیسی تھیں۔ یہ اس ''خدا'' کی محبوبہ کا ہار ہے جو یہیں کہیں مرا پڑا ہے۔ میں نے ان کا انجام دیکھ لیا ہے جنہیں تکبر نے ''خدا'' بنایا ہے۔ میں نے اپنا خدا دیکھ لیا ہے''… وہ اس قدر گھبرائی ہوئی تھی کہ اس نے اسماعیل کو گھسیٹتے ہوئے کہا… ''مجھے یہاں سے لے چلو۔ مجھے لے چلوں یہاں سے۔ میں ہڈیوں کا پنجر ہوں''… اس کے گلے میں اپنا ہار تھا۔ اس نے یہ ہار اتار کر ہڈیوں پر پٹخ دیا۔ انگلیوں سے بیش قیمت انگوٹھیاں اتار کر پھینک دیں اور چلانے لگی… ''میں نے اپنا انجام دیکھ لیا ہے۔ میں نے خدا دیکھ لیا ہے، مجھے یہاں سے لے چلو''۔

مارکونی ایک اور کمرے میں جاچکا تھا۔ اسماعیل نے قدومی سے کہا… ''ہوش میں آئو، ہم چلے گئے تو یہ سارا خزانہ دونوں صلیبی اٹھالے جائیں گے''… اسماعیل کو ایک اور راستہ نظر آگیا۔ مشعل اس کے ہاتھ میں تھی۔ وہ قدومی کو اس طرف لے گیا اور وہ ایک اور فراخ کمرے میں داخل ہوئے۔ وسط میں ایک چبوترے پر تابوت رکھا تھا، چہرہ ننگا تھا۔ یہ فرعون ریمینس دوم جس کے آگے لوگ سجدے کرتے تھے۔ لاش حنوط کی ہوئی تھی۔ چہرہ بالکل صحیح تھا۔ آنکھیں کھلی ہوئی تھی۔ اسماعیل اس چہرے کو بہت دیر تک دیکھتا رہا۔ قدومی نے بھی دیکھا، پھر انہوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ انہوں نے ادھر دھر دیکھا تو وہاں بھی ہڈیوں کے پنجر نظر آئے اور وہیں انہیں بڑے خوش نما بکس بھی دکھائی دئیے۔ ایک بکس کا ڈھکنا کھلا تھا۔ انہوں نے دیکھا کہ اس میں سونے کے زورات اور ہیرے پڑے تھے۔ ان پر ایک انسانی بازو کی ہڈی اور ایک ہاتھ کی ہڈیاں پھیلی ہوئی تھی۔ بکس کے ساتھ کھونپڑی اور باقی ہڈیاں پڑی تھیں۔

''آہ انسان!''… اسماعیل نے کہا… ''اس شخص نے مرنے سے پہلے یہ زیورات اور ہیرے اٹھانے کی کوشش کی۔ اسے امید ہوگی کہ یہاں سے نکل بھاگے گا مگر دم گھٹنے سے خزانے کے اوپر مرگیا۔ بوڑھے نے ٹھیک کہا تھا کہ انسان کی دشمن بھوک نہیں ہوس ہے''۔ اس نے بکس کی طرف ہاتھ بڑھا کر کہا… ''قدومی! تم بھی ہوس لے کے آئی ہو، میں تمہیں کچھ دے دوں''۔

''نہیں اسماعیل!''… قدومی نے اس کا ہاتھ روکتے ہوئے کہا… ''میری ہوس مرچکی ہے، قدومی مرچکی ہے''۔

اسماعیل نے پھر بھی بکس میں ہاتھ ڈالا۔ قدومی نے چلا کر کہا… بچواسماعیل!۔

اسماعیل استاد تھا۔ وہ ایک طرف گر کر لڑھک گیا اور اٹھا، اس نے دیکھا کہ مارکونی تلوار سونپے اس پر حملے آور ہوا تھا۔ اس کی تلوار کا وار بکس پر پڑا۔ مارکونی کی آواز سنائی دی… ''یہ میرا خزانہ ہے''… اتنے میں مارکونی کا ساتھی بھی آگیا۔ اسماعیل کے پاس خنجر تھا، جس سے وہ تلوار کا مقابلہ نہیں کرسکتا تھا۔ قدومی کو قریب ہی ایک برچھی پڑی نظر آگئی۔ مارکونی اسماعیل پر وار کررہا تھا جو وہ مشعل سے روک رہا تھا۔ مارکونی کے ساتھی نے بھی اسماعیل پر حملہ کیا۔ دونوں صلیبی خزانہ دیکھ کر پاگل ہوچکے تھے۔ قدومی کو انہوں نے نہیںدیکھا کہ وہ کیا کررہی ہے۔ جوں ہی مارکونی کی پیٹھ قدومی کی طرف ہوئی، قدومی نے پوری طاقت سے برچھی اس کے پہلو میں اتار دی۔ برچھی نکال کر ایک اور وار کیا اور اسے لڑھکا دیا۔ اس کا ایک ہی ساتھی رہ گیا۔ وہ قدومی پر تلوار کا وار کرنے کو لپکا تو اسماعیل نے خنجر سے اس کے پہلو سے پیٹ چیر ڈالا۔

قدومی جو خزانے میں سے حصہ لینے گئی تھی، اپنے گلے کا ہار بیش قیمت دو انگوٹھیاں اور کانوں کے زیورات وہاں پھینک کر اسماعیل کے ساتھ باہر نکل آئی۔ دہانے والے دروازے سے نکلتے ہوئے اسماعیل نے جلتی ہوئی مشعل اندر ہی پھینک دی۔ وہ دونوں ان اشیاء کے علاوہ بہت کچھ اندر ہی پھینک آئے تھے۔ قدومی کو جب باہرکی تازہ ہوا لگی تو اس نے اسماعیل سے کہا… ''ہم کہاں سے آئے ہیں؟ کیا تم مجھے پہچان سکتے ہو؟ میں کون ہوں؟''

''میں بھی کچھ ایسے ہی محسوس کررہا ہوں''۔ اسماعیل نے کہا۔ ''ہم شاید سارے گناہ اندر ہی پھینک آئے ہیں''۔

اس علاقے سے باہر نکلنے کا راستہ انہیں معلوم تھا۔ وہ باہر نکل گئے۔ باہر تھوڑے سے اونٹ کھڑے تھے، باقی معلوم نہیں کہا غائب ہوگئے تھے۔ وہ دو اونٹوں پر بیٹھے اور قاہرہ کی سمت روانہ ہوگئے۔

٭ ٭ ٭

وہ اگلی رات تھی۔ آدھی رات گزر گئی تھی، جب غیاث بلبیس نے قدومی اور اسماعیل کی ساری داستان ہر ایک تفصیل کے ساتھ سن کر لمبی آہ بھری اور کہا… ''مجھے صلاح الدین ایوبی کی باتیں اب صحیح معلوم ہورہی ہیں۔ اس نے کہا تھا ان خزانوں سے دور رہو''۔

غیاث بلبیس شہری امور کا کوتوال تھا۔ اسماعیل اور قدومی اسے اچھی طرح جانتے تھے۔ وہ گناہوں کا کفارہ ادا کرنا چاہتے تھے۔ وہ صحرا سے لوٹ کر احمر درویش کے پاس جانے کے بجائے غیاث بلبیس کے پاس چلے گئے اور اسے ساری واردات سنا کر بتایا کہ اس کا اصل سرغنہ احمر درویش ہے۔ غیاث بلبیس نے اسی وقت علی بن سفیان کو اپنے پاس بلا لیا۔ اسے یہ واردات سنائی۔ احمر معمولی حیثیت کا آدمی نہیں تھا۔ ان دونوں نے سلطان ایوبی کو جا جگایا اور اجازت مانگی کہ وہ احمر درویش کو گرفتار کرلیں۔ انہیں اجازت مل گئی۔ انہوں نے فوج کے کچھ آدمی ساتھ لیے اور احمر درویش کے گھر چھاپہ مارا۔ سارے گھر کی تلاشی لی۔ وہاں سے وہ نقشے اور کاغذات برآمد ہوئے جو پرانی دستاویزات کے پلندے سے غائب تھے۔

صبح علی بن سفیان اور غیاث بلبیس کے ساتھ فوج کے ایک بڑے دستے کو اس پراسرار علاقے کی طرف بھیجا

گیا، جہاں ریمینس کا مدفن تھا۔ سلطان ایوبی نے حکم دیا تھا کہ ثبوت وغیرہ دیکھ کر مدفن کو اس طرح بند کردیا جائے جس طرح پہلے تھا۔ کسی کو اندر نہ جانے دیا جائے۔ اسماعیل رہنمائی کررہا تھا۔ وہاں گئے تو وہ جگہ خونچکاں کہانی بیان کررہی تھی۔ فوج کی مدد سے مدفن کے دہانے کو اسی وزنی چوکور پتھر سے بند کردیا گیا۔ جو نیچے پڑی تھی۔ اسے فوج کی ایک بڑی جمعیت نے رسوں اور زنجیروں سے اوپر کیا اور فرعون ایک بار پھر نظروں سے اوجھل ہوگیا مگر اب وہ اپنے جیسے دو اور گناہ گاروں کی لاشیں اپنے مدفن میں لے گیا۔

اسکے ساتھ ھی جب حزانہ ملا بھی حتم ھوا۔۔۔۔
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

اسلام کی پاسبانی کب تک کروگے

Post by ایکسٹو »

اسلام کی پاسبانی کب تک کرو گے؟

صلیبیوں کا سن ١١٧٤ء دنیائے اسلام کے لیے اچھا ثابت نہ ہوا۔ یہ مسلمانوں کا سن ٥٦٩ہجری تھا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کو علی بن سفیان نے سال کے آغاز میں یہ خبر سنائی کہ عکرہ میں اپنا ایک جاسوس شہید ہوگیا ہے اور دوسرا پکڑا گیا ہے۔ یہ اطلاع ایک اور جاسوس لایا تھا جو ان دونوں کے ساتھ تھا۔ یہ جاسوس کچھ قیمتی معلومات بھی لایا تھا لیکن ایک جاسوس کی شہادت اور دوسرے کی گرفتاری نے سلطان ایوبی کو پریشان کردیا۔ علی بن سفیان بھانپ گیا کہ سلطان ایوبی کچھ زیادہ ہی پریشان ہوگیا ہے۔ فوجی سراغ رسانی اور جاسوسی کا یہ ماہر سربراہ جانتا تھا کہ سلطان ایوبی نے سینکڑوں فوجیوں کی شہادت پر بھی کبھی پریشانی اور افسوس کا اظہار نہیں کیا لیکن ایک چھاپہ مار یا کسی ملک میں بھیجے ہوئے ایک جاسوس کی شہادت کی خبر سن کر اس کا چہرہ بجھ جایا کرتا تھا۔

اب ایک جاسوس کی شہادت اور ایک کی گرفتاری کی اطلاع پر علی بن سفیان نے سلطان ایوبی کے چہرے پر رنج کا تاثر دیکھا تو اس نے کہا… ''امیر محترم! آپ کا چہرہ اداس ہوتاہے تو لگتا ہے سارا عالم اسلام ملول ہوگیا ہے۔ اسلام کی آبرو جانوں کی قربانی مانگتی ہے۔ ایک دن ہم دونوں کو بھی شہید ہونا ہے۔ ہمارے دو جاسوس ضائع ہوگئے ہیں تو میں دو اور بھیج دوں گا۔ یہ سلسلہ رک تو نہیں جائے گا''۔

''یہ سلسلہ رک جانے کا مجھے خدشہ نہیں علی!'' سلطان ایوبی نے رنجیدہ سی مسکراہٹ سے کہا… ''کسی چھاپہ مار کی شہادت میرے ذہن میں یہ سوچ بیدار کردیتی ہے کہ ایک یہ سرفروش ہیں جو ہماری نظروں سے اوجھل، وطن سے دور، اپنے بیوی بچوں، بہن بھائیوں اور ماں باپ سے دور دشمن کے ملک میں تن تنہا اپنا فرض ادا کرتے ہیں اور جان کی قربانی دیتے ہیں اور ایک یہ ایمان فروش ہیں جو گھروں میں بادشاہوں کی طرح رہتے، عیش وعشرت کرتے اور اسلام کی جڑیں کاٹنے میں اپنے دشمن کا ہاتھ بٹاتے ہیں''۔

''کیا آپ پسند فرمائیں گے کہ سالاروں، نائب سالاروں اور تمام کمان داروں کو باقاعدہ وعظ دئیے جایا کریں؟'' علی بن سفیان نے کہا… ''آپ انہیں مہینے میں ایک بار اسلام کی عظمت اور صلیبیوں کے عزائم کے متعلق وعظ دیا کریں۔ میرا خیال ہے کہ جن کا رجحان دشمن پروری کی طرف ہے، انہیں بتایا جائے کہ ان کا دشمن کون ہے اور کیسا ہے تو وہ اپنے خیالات میں تبدیلی پیدا کرلیں گے''۔

''نہیں''۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''جب انسان ایمان بیچنے پر آتا ہے تو اس کے آگے قرآن رکھ دو تو وہ اس مقدس کتاب کو اٹھا کر ایک طرف رکھ دے گا۔ ایک طرف صرف الفاظ ہوں اور دوسری طرف دولت، عورت اور شراب تو انسان الفاظ سے متاثر نہیں ہوتا۔ الفاظ نشہ دے سکتے ہیں، بادشاہی نہیں دے سکتے۔ ہماری قوم کے غدار بچے نہیں، وہ گنوار اور جاہل نہیں۔ وہ سب حاکم ہیں۔ فوج اور حکومت کے اونچے عہدے کے لوگ ہیں۔ وہ سپاہی نہیں۔ دشمن کے ساتھ سازباز حاکم ہی کیا کرتے ہیں۔ سپاہی لڑتے اور مرتے ہیں۔ انہیں جھانسے دے کر بغاوت پر آمادہ کیا جاتا ہے۔ میں کسی کو وعظ اور خطبہ نہیں دوں گا۔ خطبے دینے والے حکمران دراصل کمزور اور بددیانت ہوتے ہیں۔ وہ قوم کا دل الفاظ سے اور جوشیلے خطبوں سے پرچایا کرتے ہیں۔ خطبے اور تقریریں کمزوری کی علامت ہوتی ہیں۔ میں فوج اور قوم سے یہ نہیں کہوں گا کہ ہم فاتح اور خوشحال ہیں۔ میں حالات کو بدلوں گا پھر حالات بتائیں گے کہ ہم امیر ہیں یا غریب، فاتح ہیں یا شکست خوردہ۔ قوم اور فوج مجھے سے اناج مانے گی تو میں انہیں الفاظ کی خوراک نہیں دوں گا۔ غداروں کو میں سزا دوں گا۔ انہیں جینے کے حق سے محروم کردوں گا۔ علی بن سفیان! مجھے الفاظ میں نہ الجھائو۔ اگر مجھے بولنے کی عادت پڑ گئی تو میں جھوٹ بولنا بھی شروع کردوں گا''۔

مصر میں بغاوت کا جو خطرہ پیدا ہوگیا تھا، وہ ختم کردیا گیا تھا۔ اعلیٰ عہدوں کے چند ایک حاکم پکڑے گئے اور سزا پاچکے تھے۔ دونے خود ہی سلطان ایوبی کے پاس آکر اقبال جرم کیا اور معافی لے لی تھی۔ سلطان ایوبی کا یہ کہنا بالکل صحیح تھا کہ غداری اور بے اطمینانی پیدا کرنے کے ذمہ دار مفادپرست حاکم ہوتے ہیں۔ فوج اور قوم کو گمراہ کرکے سبز باغ دکھائے جاتے اور بغاوت پر آمادہ کیا جاتا ہے۔ مصر میں ١١٧٤ء کے آغاز تک فوج میں بغاوت کا نام ونشان تک نہ رہا تھا۔ البتہ صلیبی جاسوسی اور تخریب کاری میں بدستور مصروف تھے۔ صلیبیوں کے جاسوس اور تخریب کار مصر میں موجود اور سرگرم تھے۔ یہ سلسلہ روکا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ سلطان ایوبی نے بھی اپنے جاسوس ان علاقوں میں بھیج رکھے تھے جو صلیبیوں کے قبضے میں تھے۔ سلطان ایوبی اس زمین دوز جنگ کا ماہر تھا۔

پاک فلسطین کی سرزمین کا ایک مقام تھا جو اس لحاظ سے اہم تھا کہ وہاں صلیبیوں کا سب سے بڑا پادری ہے جسے صلیب اعظم کا محافظ کہا جاتا تھا، رہتا تھا۔ وہیں سے صلیبی کمانڈر ہدایات اور حوصلہ افزائی حاصل کرتے تھے اور عکرہ اس دور میں صلیبیوں کی ہائی کمانڈ کا ہیڈ کوارٹر بن گیا تھا۔ جب نورالدین زنگی نے کرک کا قلعہ فتح کرلیا تو صلیبی عکرہ کو ہیڈکوارٹر بنا کر بیت المقدس کو سلطان ایوبی اور نورالدین زنگی سے بچانے کی سکیمیں بنا رہے تھے۔ وہاں کے حالات معلوم کرنے اور دشمن کی سکیم کی اطلاع کرک میں زنگی کو یا قاہرہ میں سلطان ایوبی کو پہنچانے کے لیے تین جاسوس بھیج دئیے گئے تھے۔ ان کا کمانڈر عمران نام کا ایک نڈر اور ذہین جاسوس تھا۔ یہ علی بن سفیان کا انتخاب تھا۔

یہ تینوں نہایت خوبی سے عکرہ میں داخل ہوگئے تھے۔ جیسا کہ پہلے سنایا جاچکا ہے کہ سلطان ایوبی نے شوبک کا قلعہ اور شہر فتح کیا تو وہاں سے بے شمار عیسائی اور یہودی کرک کی طرف بھاگ گئے تھے۔ مسلمانوں نے کرک پر چڑھائی کرکے یہ شہر بھی لے لیا تو وہاں سے بھی غیرمسلم بھاگے اور مختلف مقامات پر چلے گئے۔ ان دونوں مفتوحہ جگہوں کے اردگرد کے علاقوں کے بھی عیسائی اور یہودی بھاگ گئے تھے۔ سلطان ایوبی کا انٹیلی جنس کا محکمہ بھی اپنی فوج کے ساتھ تھا۔ علی بن سفیان کی ہدایت کے مطابق کئی جاسوس عیسائیوں کے بہروپ میں عیسائیوں کے علاقوں میں بھیج دئیے گئے۔ ان میں سے تین کو یہ مشن دیا گیا کہ وہ عکرہ سے جنگی معلومات حاصل کرکے قاہرہ بھیجیں۔ انہیں وہاں صلیبی فوج کی نقل وحرکت پر نظر رکھنی تھی۔ غیرمسلم آبادی میں مسلمان فوج کی دہشت بھی پھیلانی تھی اور یہ اطلاع بھی دینی تھی کہ وہاں کس قسم کی تباہ کاری )سبوتاژ( کی جاسکتی ہے۔

یہ تینوں لٹے پٹے عیسائیوں کے بہروپ میں عکرہ داخل ہوگئے۔ ان دنوں وہاں یہ حالت تھی کہ عیسائیوں اور یہودیوں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ وہ سب ہراساں تھے اور پناہیں ڈھونڈ رہے تھے۔ پناہ کے بعد روزگار کا مسئلہ تھا۔ عمران اور ان کے دونوں جاسوسوں کو وہاں عیسائیوں کی حیثیت سے پناہ مل گئی۔ تینوں ذہین اور تربیت یافتہ تھے۔ عمران سیدھا بڑھے پادری کے پاس چلا گیا۔ اپنے آپ کو کسی ایسے علاقے کا پناہ گزین ظاہر کیا جس پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا تھا۔ اس نے اس طرح باتیںکیں جیسے اس پر مذہب کا جنون طاری ہے اور وہ خدا کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہے۔ اس نے کہا کہ اس کی بیوی اور بچے مسلمانوں کے ہاتھوں مارے گئے ہیں۔ اسے ان بچوں کا اور بیوی کا کوئی غم نہیں، اس نے بیتابی سے یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ کلیسا کی خدمت کرنا چاہتا ہے کیونکہ اس نے سنا ہے کہ خدا اور روحانی سکون کلیسا میں ہے۔ اس نے اپنانام جان گنتھر بتایا۔

''…اور میں نے تو اسلام قبول کر ہی لیا تھا''۔ عمران نے پادری سے کہا… ''ان کے ایک مولوی نے کہا تھا کہ خدا مسجد میں ہے، میری بیوی اور میرے بچے مجھ سے نالاں اور شاکی تھے کہ میں کوئی کام کاج نہیں کرتا تھا۔ خدا اور روحانی سکون کی تلاش میں مارا مارا پھرتا رہتا تھا۔ میں خدا کے وجود پر یقین رکھتا ہوں۔ وہ خدا ہی تھا جس نے میری بیوی کو مسلمانوں کے ہاتھوں مروا کر اپنی پناہ میں لے لیا کیونکہ جو اس کا خاوند تھا، اسے روٹی نہیں دیتا تھا۔ وہ خدا ہی تھا جس نے میرے بچوں کو بھی سنبھال لیا کیونکہ وہ ماں کے بغیر رہ نہیں سکتے تھے اور میں جو ان کا باپ تھا، ان کی طرف سے بے پروا تھا۔ میں مسلمان ہوچلا تھا مگر مسلمانوں نے میرے معصوم بچوں کو مار ڈالا۔ انہوں نے ہم پر بہت مظالم ڈھائے۔ میں جان گیا کہ خدا مسلمان کے سینے میں نہیں ہے، کہیں اور ہے''۔

اس نے اچانک پادری کے کندھے تھام کر اسے جھنجھوڑا اور دانت پیس کر پوچھا… ''مقدس باپ! مجھے بتائو میں پاگل تو نہیں ہوگیا؟ میں اپنی جان اپنے ہاتھوں لے لوں گا۔ میں اگلے جہان تمہارا گریبان پکڑ کر خدا کے سامنے لے جائوں گا اور کہوں گا کہ یہ شخص مذہبی پیشوا نہیں، ایک ڈھونگ تھا۔ اس نے مذہب کے نام پر لوگوں کو دھوکے دئیے ہیں''۔

اس کی ذہنی کیفیت ایسی ہوگئی کہ صلیب اعظم کا محافظ چونک پڑا۔ اس نے عمران کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا… ''تم میرے غمزدہ بیٹے ہو۔ خدا تمہارے اپنے سینے میں ہے جو تمہیں خدا کے بیٹے کے معبد میں نظر آئے گا۔ تم عیسائی ہو جان گنتھر! تم اسی مذہب اور اسی روپ میں خدا کو پالو گے۔ تم جائو، ہر صبح میرے پاس آجایا ک رو۔ میں تمہیں خدا دکھا دوں گا''۔

''میں کہیں نہیں جائوں گا مقدس باپ!''۔ عمران نے کہا… ''میرا کوئی گھر نہیں، دنیا میں میرا کوئی نہیں رہا۔ مجھے اپنے پاس رکھیں۔ میں آپ کی اور خدا کے بیٹے کی معبد کی اتنی خدمت کروں گا، جتنی آپ نے بھی نہیں کی''۔

عمران نے علی بن سفیان سے تربیت لی تھی۔ اسے اور اس کے ساتھیوں کو چونکہ صلیبیوں کے راز معلوم کرنے کے لیے تیار کیا گیا تھا، اس لیے انہیں عیسائیت کے متعلق گرجوں کے اندر کے آداب اور طور طریقوں کے متعلق نہ صرف معلومات دی گئیں بلکہ ریہرسل کو ایسی خوبی سے عملی شکل دی کہ بڑا پادری اور اس کے چیلے چانٹے اس سے بہت متاثر ہوئے اور اسے گرجے میں رکھ لیا۔ عمران نے پادری کی خدمت ایسا والہانہ انداز سے شروع کردی کہ وہ پادری کا خصوصی ملازم بن گیا چونکہ وہ ذہین بھی تھا، اس لیے اس نے پادری کے دل پر قبضہ کرلیا۔ پادری نے تسلیم کرلیا کہ یہ شخص غیرمعمولی طور پر ذہین ہے لیکن اس پر مذہب کا جنون اتنی شدت سے طاری ہوگیا ہے کہ اس کی ذہانت بے کار ہورہی ہے۔ پادری نے اس کی تعلیم وتربیت شروع کردی۔

٭ ٭ ٭

عمران کا ایک ساتھی ایک عیسائی تاجر کے پاس گیا اور بتایا کہ وہ کرک سے بھاگا ہوا عیسائی ہے جہاں اس کا سارا خاندان مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیا ہے۔ اس نے اپنی داستان غم ایسے جذباتی انداز سے سنائی کہ تاجر نے اسے اپنے پاس ملازم رکھ لیا۔ وہ رحیم ہنگورہ نام کا سوڈانی مسلمان تھا۔ عمران کی طرح ذہین، دلیر اور خوبرو۔ اس نے اس تاجر کا انتخاب سوچ سمجھ کرکیا تھا۔ اس نے چند دن صرف کرکے دیکھا تھا کہ وہاں صلیبی فوج کے افسر آتے ہیں اور فوج کے لیے

سامان خریدتے ہیں۔ ٹریننگ اور اپنی عقل کے زور پر وہ تاجر کا قابل اعتماد ملازم بن گیا۔ چند دنوں بعد تاجر نے اسے گھر کے کام بھی دینے شروع کردئیے۔ رحیم نے ایلی مور نام کے عیسائی سے تاجر کے گھر والوں پر بھی اپنا اثر قائم کرلیا۔ اس کامیابی کی وجہ یہ تھی کہ اس نے تاجر کی بیوی، اس کی جوان بیٹی اور بیٹے کو ایسے انداز سے اپنی تباہی کی کہانی سنائی تھی کہ ان سب کے آنسو نکل آئے تھے۔ اس نے انہیں بتایا کہ اس کا مکان انہی کے مکان جیسا تھا، ایسی ہی سجاوٹ تھی، ایسا ہی سامان تھا۔ اعلیٰ نسل کا ایک گھوڑا تھا۔ تاجرکی بیٹی جیسی خوبصورت جوان بہن تھی۔ اس کے گھر میں حاجت مندوں کو نوکر رکھا جاتا اور بھوکوں کو کھانا کھلایا جاتا تھا۔ اب خدا نے یہ دن دکھایا ہے کہ میں نوکری کررہا ہوں۔

تاجرکی بیٹی ایلس اس سے کچھ زیادہ ہی متاثر ہوئی۔ وہ رحیم سے اس کی بہن کے متعلق ہی پوچھتی رہی۔ رحیم نے کہا… ''وہ بالکل تمہاری طرح تھی۔ تمہیں دیکھ کر مجھے بہن اور زیادہ یاد آنے لگی ہے اگر وہ مرجاتی تو اتنا غم نہ ہوتا۔ غم یہ ہے کہ مسلمان اسے اٹھا لے گئے ہیں۔ تم سمجھ سکتی ہو کہ اس کا کیا حال ہورہا ہوگا۔ مجھے اب یہی غم کھائے جارہا ہے کہ اسے مسلمانوں سے کس طرح رہائی دلائوں۔ کبھی دل میں زیادہ ابال اٹھا تو شاید میں پاگلوں کی طرح وہیں جا پہنچوں، جہاں بہن کو چھوڑ آیا ہوں۔ بہن تو نہیں ملے گی، مجھے موت مل جائے گی۔ میں زندہ نہیں رہنا چاہتا''۔

ماں بیٹی نے ضرور سوچا ہوگا کہ اتنا خوبرو جوان جوانی کی عمر میں ہی غم میں گھلنے لگا ہے اور اس کی جذباتی حالت بتا رہی ہے کہ اس کا غم ہلکا نہ کیا گیا تو یہ پاگل ہوجائے گا یا خودکشی کرلے گا۔ ایلس جو تاجر کی جوان اور غیرشادی شدہ بیٹی تھی، رحیم کے درد کو اپنے دل میں محسوس کرنے لگی۔ یہاں تک کہ رحیم جب باہر نکلا تو ایلس نے کسی بہانے باہر جاکر رحیم کو راستے میں روک لیا اور کہا وہ ان کے گھر آتا رہا کرے۔ اس نے رحیم سے کچھ جذباتی باتیں کرکے اس کا غم ہلکا کرنے کی کوشش کی۔ ماں بیٹی نے تاجر سے بھی کہا کہ اس آدمی کا خیال رکھے۔ دراصل رحیم کی شکل وصورت اور ڈیل ڈول ایسی تھی کہ وہ کسی اونچے اور کھاتے پیتے خاندان کا بیٹا لگتا تھا۔ اس تاثر میں اگر کوئی کسر تھی تو وہ اس کی زبان اور اداکاری سے پوری ہوجاتی تھی جس کی اسے ٹریننگ دی گئی تھی۔

تین چار روز بعد وہ تاجر کے پاس بیٹھا تھا کہ اسے اپنا ایک ساتھی جاسوس رضا الجاوہ نظر آگیا۔ رحیم اس کے پیچھے پیچھے گیا اور اس کے ساتھ ساتھ چلتے اس سے پوچھا کہ وہ کیا کررہا ہے۔ معلوم ہوا کہ اسے کوئی ٹھکانہ نہیں ملا۔ رضا تجربہ کار گھوڑ سوار تھا اور گھوڑے پالنے اور سنبھالنے کی مہارت رکھتا تھا۔ رحیم اسے تاجر کے پاس لے آیا اور اس کا تعارف فرانسس کے نام سے کراکے کہا کہ یہ بھی کرک کا لٹا پٹا عیسائی ہے۔ اسے کہیں نوکر کرادیا جائے۔ رحیم نے کہا یہ گھوڑوں کے سائیسوں کا انچارج تھا۔ یہی کام کرسکتا ہے۔ تاجر نے کہا کہ اس کے پاس بڑے بڑے فوجی افسر آتے رہتے ہیں۔ ان کی وساطت سے وہ فرانسس کو ملازمت دلا دے گا… دو تین روز بعد رضا کو اس اصطبل میں ملازمت مل گئی جہاں فوج کے بڑے افسروں کے گھوڑے رہتے تھے۔

تاجر کے پاس فوج کے افسر آتے رہتے اور وہ ان کے پاس جاتا رہتا تھا۔ رحیم نے دیکھا کہ تاجر ان افسروں کو شراب اور حشیش کے علاوہ چوری چھپے عورتیں بھی دیا کرتا تھا، اس طرح اس نے ان سب کو اپنی مٹھی میں لے رکھا تھا۔ رحیم تاجر کو صلاح الدین ایوبی اور نورالدین زنگی کے خلاف بڑھکاتا رہتا اور اس خواہش کا اظہار کرتا رہتا تھا کہ صلیبی فوج پورے عرب اور مصر پر قابض ہوجائے اور کوئی مسلمان زندہ نہ رہے۔ اس خواہش میں وہ بعض اوقات اتنا بیتاب اور بے قابو نظر آتا تھا جیسے عکرہ کے مسلمانوں کا خون پی لے گا۔ تاجر اسے تسلی دیتا رہتا تھا کہ صلیبی فوج اس کی خواہش پوری کردے گی۔ وہ صلیبی فوج کے ان افسروں کو بھی برا بھلا کہنے لگتا تھا جو عکرہ میں بیٹھے عیش کررہے تھے۔ ان جذباتی باتوں کے ساتھ ساتھ رحیم عقلمندی کی باتیں بھی کرتا تھا اور مسلمانوں کو شکست دینے کے لیے ایسے جنگی نقشے اور منصوبے بناتا تھا کہ تاجر اسے غیرمعمولی طور پر دانشمند سمجھتا تھا۔ ایسے ہی جذبات اور دانشمند باتوں کا نتیجہ تھا کہ تاجر نے اسے وہ فوجی راز دینے شروع کردئیے جو اسے فوجی افسروں سے حاصل ہوتے تھے۔

اس کے ساتھ ہی ایلس رحیم کی گرویدہ ہوگئی۔ رحیم نے ابتدا میں اسے بھی اپنے فرض کی ایک کڑی سمجھا لیکن ایلس کے والہانہ پن نے رحیم کے دل میں اس کی محبت پیدا کردی۔ رحیم نے دل میں فیصلہ کرلیا کہ اپنا فرض پورا کرکے وہ ایلس کو اپنے ساتھ قاہرہ لے جائے گا اور اسے مسلمان کرکے اس کے ساتھ شادی کرلے گا مگر ابھی دونوں کو معلوم نہیں تھا کہ صلیبی فوج کا ایک بڑا افسر اس لڑکی پر نظر رکھے ہوئے ہے۔

رضا الجاوہ بھی تربیت یافتہ جاسوس تھا۔ اصطبل میں اسے فوج کے کسی بڑے افسر کا گھوڑا مل گیا تھا۔ اس افسر نے محسوس کیا کہ رضا عام قسم کا سائیس نہیں بلکہ عقل ودانش بھی رکھتا ہے۔ وہ باتیں ہی ایسی کرتا تھا، جب کبھی یہ افسر اصطبل میں آتا تو رضا اس سے پوچھتا۔ ''صلاح الدین ایوبی کو آپ کب شکست دے رہے ہیں؟'' اور پھروہ بتاتا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کی فوج میں کیا خوبیاں اور صلیبی فوج میں کیا خامیاں ہیں۔ ایک روز اس نے کوئی ایسی بات کہہ دی جو اگر کوئی جنگی امور کا ماہر نہ کہے تو کم از کم ایک سائیس کے دماغ میں نہیں آسکتی۔ اس افسر نے اسے کہا۔ ''تم کون ہو؟ تمہارا پیشہ سائیسی نہیں ہوسکتا''۔

''آپ کو کس نے بتایا ہے کہ میرا پیشہ سائیسی ہے؟ ''رضا نے کہا ''میں کرک میں گھوڑوں کا مالک تھا۔ میں خود تو فوج میں نہیں تھا، میرے دو گھوڑے جنگ میں گئے تھے۔ یہ تو زمانے کے انقلاب ہیں کہ گھوڑوں کا مالک آج اصطبل میں سائیس ہے۔ مجھے اس کا کوئی غم نہیں، اگر آپ صلاح الدین ایوبی کو شکست دے دیں تو میں باقی عمر آپ کے جوتے صاف کرتے گزار دوں گا''۔

''صلاح الدین ایوبی کی قسمت میں شکست لکھ دی گئی ہے فرانسس!'' اس نے رضا سے کہا۔

''لیکن کیسے؟'' رضا نے کہا… ''اگر ہمارے بادشاہوں نے کرک اور شوبک پر حملہ کیا اور مسلمانوں کو اسی طرح محاصرے میں لے کر شکست دینے کی کوشش کی جس طرح انہوں نے ہمیں محاصرے میں لیا تھا تو آپ کامیاب نہیں ہوں گے۔ صلاح الدین ایوبی اور نورالدین زنگی جنگ کے استاد ہیں۔ میں نے سنا ہے کہ انہوں نے ہماری فوج کو قلعوں سے دور روکنے کا اہتمام کررکھا ہے۔ عقل مندی اس میں ہوگی کہ حملہ کسی ایسی سمت سے کیا جائے جو ایوبی کے وہم وگمان میں بھی نہ ہو۔ ایوبی اور زنگی قلعوں میں بیٹھے رہیں اور آپ مصر پر چھا جائیں''۔

''ایسے ہی ہوگا''۔ افسر نے معنی خیز مسکراہٹ سے کہا… ''سمندر میں کوئی قلعہ نہیں ہوتا، مصر کے ساحل پر کوئی قلعہ نہیں۔ مصر پر اب صلیب کی حکمرانی ہوگی''۔

یہ ابتدا تھی۔ اس کے بعد رضا نے اس افسر سے کئی ایک راز کی باتیں معلوم کرلیں۔ دشمن اپنا جنگی راز تفصیل سے بیان نہیں کیا کرتا۔ ہوشیار جاسوس اشاروں میں باتیں اگلوا لیتا اور ان اشاروں کو اپنے فن کے مطابق جوڑ کر وہ کہانی بنا لیتا ہے جسے راز کہتے ہیں۔

٭ ٭ ٭

رحیم اور رضا ہر اتوار کو صبح گرجے میں جاتے اور عمران سے ملاقات کرلیتے اور اسے اپنی رپورٹیں بھی دیا کرتے تھے۔ رحیم نے عمران کو بتا دیا تھا کہ تاجر کی بیٹی ایلس اسے بڑی شدت سے چاہنے لگی ہے۔ عمران نے اسے کہا کہ وہ اس کی محبت کو ٹھکرائے نہیں، ورنہ اسے اس جگہ سے نکال دیا جائے اور یہ احتیاط بھی کرے کہ اس کی محبت میں ہی نہ گم ہوجائے مگر رحیم ایلس کے حسن وجوانی میں گم ہوتا چلا جارہا تھا۔ لڑکی نے اسے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ ان کی شادی صرف اس صورت میں ہوسکتی ہے کہ وہ عکرہ سے بھاگ چلیں کیونکہ کوئی فوجی افسر لڑکی کے باپ کے ساتھ دوستانہ گانٹھ رہا تھا۔ رحیم نے عمران کو یہ صورتحال نہ بتائی۔

عمران نے پادری کا قرب اور اعتماد اس حد تک حاصل کرلیا تھا کہ اس کا ہمراز درباری بن گیا تھا۔ وہ پادری سے ایسے سوال پوچھتا تھا جن میں ذہانت کی پختگی اور علم کی تشنگی ہوتی تھی۔ پادری اپنی فراغت کے اوقات میں اسے مذہب کے سبق دیا کرتا تھا۔ وہ عمران کو یہ ذہن نشین کرا رہا تھا کہ عیسائیت کا یہ فرض ہے کہ کرۂ ارض سے اسلام کا وجود ختم کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے جنگ کی جائے اور جو بھی ذریعہ کامیاب ہوسکتا ہے، استعمال کیا جائے۔ ضروری نہیں کہ مسلمانوں کو قتل کیا جائے۔ انہیں ہر ذریعے سے عیسائیت میں لانے کی کوشش کی جائے۔ اگر وہ عیسائیت قبول نہ کریں تو ان کے ذہنوں سے اسلام بھی نکال دیا جائے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ ان میں بدی کا بیج بو دیا جائے۔ اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اپنی عورتوں کو استعمال کیا جائے۔ یہ عورتیں مسلمان عورتوں میں بدکاری پیدا کریں اور جون لڑکیاں مسلمان نوجوانوں اور ان کے حکمرانوں اور حاکموں کا کردار تباہ کریں۔ چونکہ یہودی بھی مسلمانوں کے دشمن ہیں اور وہ اپنی عورتوں کو استعمال کرتے ہیں، اس لیے مسلمانوں کو تباہ کاری کے لیے یہودی عورتوں کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔ مقصد یہ سامنے رکھا جائے کہ مسلمانوں کا نام ونشان مٹانا ہے۔ پھر ہر طریقہ اختیار کیا جائے، وہ خواہ دوسروں کی نظر میں ناجائز، ظالمانہ اور شرمناک ہی کیوں نہ ہو۔

عمران پادری سے ایسی باتیں سنتا اور اطمینان کا اظہار کرتا رہتا تھا۔ وہاں فوجی افسر اور حکومت کے افسر بھی آتے رہتے تھے۔ ان دنوں چونکہ صلیبیوں کو یکے بعد دیگرے دو میدانوں میں شکست کھا کر بھاگنا پڑا تھا، اس لیے عکرہ میں ہر کسی کی زبان پر یہی سوال تھا کہ جوابی حملہ کب کیا جائے گا۔ پادری کی ذاتی محفل میں تو اور کوئی بات ہوتی ہی نہیں تھی۔ عمران وہاں سے قیمتی راز حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا جارہا تھا۔ اس نے یہ بھی معلوم کرلیا کہ صلیبی حکمرانوں میں اتفاق اور اتحاد نہیں ہے۔ ان کی اپنی بادشاہیاں اور سلطنتیں تھیں، وہ چونکہ ہم مذہب تھے، اس لیے صلیب پر ہاتھ رکھ کر انہوں نے اسلام کے خاتمے کی جنگ شروع کردی تھی مگر اندر سے وہ پھٹے ہوئے تھے۔ ان میں ایسے بھی تھے جو درپردہ مسلمانوں کے ساتھ صلح اور معاہدہ کرکے اپنی صلیبی بھائیوں کے ساتھ مل کر جنگ کی تیاریاں بھی کرتے رہتے تھے۔ ان میں قابل ذکر سیزر مینوئل تھا جس نے ایک میدان میں نورالدین زنگی کے ساتھ صلح کرکے تاوان ادا کیا اور مسلمانوں کے جنگی قیدی رہا کردئیے تھے۔ اب سیزر مینوئل دوسرے حکمرانوں کو بڑھکا رہا تھا کہ وہ سب مل کر زنگی پر حملہ کریں۔ حملے کو دو حصوں میں تقسیم کیا جائے۔ ایک زنگی پر اور دوسرا مصر پر۔ اس وقت زنگی کرک میں تھا۔

بہر حال پادری ان کے نفاق پر پریشان رہتا تھا۔ عمران نے اسے یہ نہ کہا کہ جو قوم اپنی لڑکیوں کو بھی اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتی، اس کے افراد ایک دوسرے کو دھوکہ دینے سے کیوں گریز کریں گے۔ میدان میں ہار کر زمین دوز جنگ لڑنے والی قوم کی اخلاقی حالت یہی ہوسکتی ہے کہ اپنے بھائیوں سے بھی دغا اور فریب کریں۔ عمران نے اپنے ذہن میں یہ بات سلطان ایوبی کو بتانے کے لیے محفوظ کرلی کہ اگر اسلام کی صفوں میں غدار نہ ہوں تو صلیبیوں کو فیصلہ کن شکست دے کر ان سے یورپ بھی لیا جاسکتا ہے۔ غدار مسلمانوں کی سب سے بڑی کمزوری بن گئے تھے۔ عکرہ کا پادری اور صلیبی حکمران مسلمانوں کی اس کمزوری پر بہت خوش تھے۔ عمران کو وہاں پتا چلا کہ صلیبیوں نے مسلمانوں کے کردار میں تخریب کاری کی مہم اور تیز کردی ہے۔ اسے مسلمانوں کی چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے حکمرانوں کے نام بھی معلوم ہوگئے جو درپردہ صلیبیوں کے اتحادی بن چکے تھے۔ انہیں صلیبی بے دریغ یورپ کی شراب، دولت اور جوان لڑکیاں سپلائی کررہے تھے۔

عمران اور رضا تو اپنے فرائض میں مگن تھے مگر رحیم فرض کے راستے سے ہٹتا جارہا تھا۔ اس کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ اسے تاجر کے گھر کا ہی کوئی کام دیا جائے۔ ایلس کی محبت نے اسے اندھا کرنا شروع کردیا تھا۔ چند دنوں بعد ایلس نے اسے بتایا کہ اس کی شادی ایک ایسے فوجی افسر کے ساتھ کی جارہی ہے جو عمر میں اس سے بہت بڑا ہے۔ بڑا نہ بھی ہوتا تو ایلس رحیم کے سوا کسی اور کے ساتھ شادی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ وہ اپنی ماں سے منوا چکی تھی کہ اس افسر کے ساتھ شادی نہیں کرے گی۔ اس کا باپ نہیں مانتا تھا۔ وہ ان فوجی افسروں سے ہی دولت کما رہا تھا۔ اپنی لڑکی دینے سے انکار نہیں کرسکتا تھا۔ ایلس نے ایک روز اپنے گلے میں ڈالی ہوئی صلیب رحیم کے ہاتھ پر رکھ کر اس پر اپنا ہاتھ رکھا اور صلیب کی قسم کھائی تھی کہ وہ رحیم کے سوا کسی اور کو قبول نہیں کرے گی۔ رحیم نے بھی صلیب پر ایسی ہی قسم کھائی تھی۔


ایک روز پادری کے پاس چار پانچ فوجی افسر آئے اور اس کے خاص کمرے میں جابیٹھے۔ عمران نے ان کے چہروں کے تاثرات سے محسوس کیا کہ کوئی خاص بات ہے۔ عمران پادری کے کمرے میں چلا گیا۔ ایک فوجی افسر بات کرتے چپ ہوگیا۔ پادری نے عمران سے کہا… ''جان گنتھر! تم کچھ دیر باہر ہی رہو۔ ہم کوئی ضروری باتیں کررہے ہیں''۔

عمران دوسرے کمرے میں چلا گیا اور دروازے کے ساتھ کان لگا دئیے۔ وہ لوگ آہستہ آہستہ بول رہے تھے، پھر بھی کام کی باتیں عمران کی سمجھ میں آگئیں۔ جب فوجی افسر چلے گئے تو عمران وہاں سے ادھر ادھر ہوگیا تاکہ پادری کو شک نہ ہو۔ اس نے یہ ارادہ بھی کیا کہ اسی وقت بھاگ جائے اور کہیں رکے بغیر قاہرہ پہنچے اور سلطان ایوبی کو اطلاع کردے کہ حملہ روکنے کی تیاری کرلے مگر پادری نے اسے بلا کر ایسے کام پر لگا لیا کہ وہ فوری طور پر بھاگ نہ سکا۔ اس کے علاوہ اسے رحیم اور رضا سے بھی رپورٹیں لینی تھیں۔ ممکن تھا کہ ان کے کانوں میں بھی یہ خبر پہنچی ہو ، جو اس نے سنی ہے۔ اس نے سوچا کہ ان سے تصدیق ہوجائے تو تینوں اکٹھے عکرہ سے نکل جائیں۔ اس کام کے لیے وہ تین چار روز انتظار کرسکتا تھا لیکن اس کی بیتابی اسے ٹکنے نہیں دے رہی تھی۔

دوسرے دن رضا کے پاس گیا۔ رضا اسے اصطبل میں ملا۔ اس نے پوچھا کہ اسے کوئی نئی خبر ملی ہے؟ رضا نے بتایا کہ کچھ غیرمعمولی سی سرگرمی نظر آرہی ہے اور اس نے اڑتے اڑتے سنی ہے کہ صلیبی جوابی حملہ خشکی کے راستے نہیں کریں گے۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ سمندر کی طرف سے آئیں گے۔ اب یہ معلوم کرنا ہے کہ ان کے حملے کی تفصیل کیا ہے۔ عمران نے اسے بتایا کہ اس حملے کو صلیبی فیصلہ کن بنانا چاہتے ہیں۔ا س نے جو کچھ سنا تھا، وہ رضا کو سنا دیا اور اسے یہ مشن دیا کہ وہ اس حملے کی تفصیلات معلوم کرے۔ عمران صرف تصدیق کرنا چاہتا تھا، ورنہ وہ تفصیل سے تو آگاہ ہو ہی چکا تھا۔ اس نے رضا سے کہا کہ اب وہ ایک آدھ دن میں یہاں سے روانگی کی تیاری کرے۔ ان کا فرض پورا ہوچکا ہے۔ واپسی کے لیے انہیں گھوڑوں یا اونٹوں کی بھی ضرورت تھی، جو انہیں کہیں سے چوری کرنے تھے۔

عمران رحیم سے ملنا چاہتا تھا تاکہ اسے بھی چوکنا کرکے واپسی کی تیاری کے لیے کہہ دے لیکن رات ہوچکی تھی اور وہ اس کے ٹھکانے پر جانا نہیں چاہتا تھا کیونکہ تاجر نے اسے رہنے کے لیے جو جگہ دے رکھی تھی وہاں جانا ٹھیک نہیں تھا۔ عمران گرجے چلا گیا۔

وہ اگر رحیم کے پاس جاتا بھی تو وہ اسے نہ ملتا۔ وہ اپنے ٹھکانے میں بھی نہیں تھا اور وہ عکرہ میں بھی نہیں تھا۔ جب عمران اپنے فرض کی ادائیگی کے لیے پریشان ہورہا تھا۔ اس وقت ایلس نے رحیم کو کسی اور ہی پریشانی میں ڈال رکھاتھا۔ ہوا یوں تھا کہ صلیبیوں نے رقص اور کھانے کی محفل منعقد کی تھی۔ ایلس کے امیدوار نے اسے اپنے ساتھ رقص کے لیے کہا تو ایلس نے اسے ٹھکرا دیا اور وہ اس سے کم عمر کے افسروں کے ساتھ ناچتی رہی۔ اس کے امیدوار نے اس کے باپ سے شکایت کی۔ اس کا باپ بھی اس محفل میں موجود تھا، جہاں شراب کی صراحیاں خالی ہورہی تھیں۔ باپ نے ایلس کو ڈانٹ کر کہا کہ وہ اپنے منگیتر کی توہین نہ کرے اور اس کے ساتھ ناچے۔ ایلس ناراض ہوکر گھر چلی گئی اور باپ کو یہ فیصلہ سنا آئی کہ وہ اس بوڑھے کے ساتھ شادی نہیں کرے گی۔

اس کا باپ اور امیدوار اس کے پیچھے گئے۔ وہ دور جاچکی تھی۔ گھر جاکر دیکھا، وہ وہاں نہیں تھی۔ تلاش کرتے کرتے وہ رحیم کے کمرے سے برآمد ہوئی۔ باپ نے اس سے پوچھا کہ وہ یہاں کیا کررہی ہے۔ اس نے تنک کر جواب دیا کہ وہ جہاں چاہے جاسکتی ہے اور جہاں چاہے بیٹھ سکتی ہے۔ اس کے امیدوار کو شک ہوا کہ یہاں معاملہ گڑبڑ ہے۔ ایلس کو باپ گھر لے گیا۔ امیدوار نے رحیم سے پوچھا کہ یہ لڑکی یہاں کیوں آئی تھی… رحیم نے جواب دیا کہ وہ پہلے بھی یہاں آیا کرتی ہے اور آئندہ بھی آئے گی۔ امیدوار بڑا افسر تھا، اس نے رحیم کو دھمکی دی کہ وہ یہاں سے چلا جائے ورنہ اسے زندہ نہیں رہنے دیا جائے۔ رحیم کے جسم میں جوانی کا خون تھا۔ اس نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ معاملہ بگڑ گیا۔ تاجر نے آکر بیچ بچائو کرادیا۔ ایلس کے امیدوار نے کہا کہ وہ اس آدمی کو یہاں دیکھنا نہیں چاہتا۔

دوسرے دن تاجر نے رحیم سے کہا کہ وہ اسے ملازمت میں نہیں رکھ سکتا کیونکہ فوج کے اتنے بڑے افسر کو ناراض کرکے وہ اپنا کاروبار تباہ نہیں کرنا چاہتا۔ اس نے رحیم کو یہ نصیحت کی کہ وہ وہاں سے چلا جائے کیونکہ فوجی افسر اسے کسی جرم کے بغیر قید خانے میں ڈال سکتا ہے۔ رحیم بھول چکا تھا کہ وہ کس مقصد کے لیے یہاں آیا ہے۔ اس نے ایلس کو اپنے ذاتی وقار کامسئلہ بنا لیا۔ اس کے امیدوار کی دھمکی کا وہ عملی جواب دینا چاہتا تھا۔ تاجر اپنی دکان میں تھا۔ رحیم اس کے گھر گیا۔ ایلس سے ملا اور اسے بتایا کہ اس کے باپ نے اسے نوکری سے نکال دیا ہے۔ ایلس اس کے ساتھ بھاگ جانے کو تیار ہوگئی۔ بھاگنے کا وقت شام کے بعد کا مقرر کیا گیا، جب اس کا باپ گھر نہیں ہوتا تھا۔

رات کو اس وقت جب عمران رضا کے پاس بیٹھا اس راز کے متعلق باتیں کررہا تھا، جس کے لیے انہوں نے جان کا خطرہ مول لے رکھا تھا۔ رحیم ایلس کے انتظار میں شہر سے باہر اس جگہ کھڑا تھا جو اسے ایلس نے بتائی تھی۔ ایلس نے اسے کہا تھا کہ وہ باپ کے گھوڑے پر آئے گی اور وہ دونوں ایک ہی گھوڑے پر بھاگیں گے۔ وہ بے صبری سے ایلس کا انتظار کررہا تھا اور ڈر رہا تھا کہ وہ باپ کا گھوڑا کس طرح چرا کر لاسکے گی… لڑکی نے گھوڑا چرا لیا تھا۔ اس پر زین ڈال کر کس لی تھی اور وہ گھوڑے پر سوار ہوکر نکل بھی آئی تھی۔ رحیم نے جب اسے دیکھا تو اسے یقین نہ آیا کہ یہ ایلس ہے۔ اس کی آواز پر وہ گھوڑے پر اس کے پیچھے سوار ہوگیا۔ کچھ دور تک انہوں نے گھوڑے کی رفتار آہستہ رکھی۔ شہر سے دور جاکر رحیم نے گھوڑے کو ایڑی لگادی۔ کچھ دیر بعد وہ عکرہ سے کافی دور جاچکے تھے۔

٭ ٭ ٭

آدمی رات کے وقت وہ ایسی جگہ پہنچ گئے جہاں پانی تھا۔ رحیم نے اس خیال سے گھوڑا روک لیا کہ اسے پانی پلا لیا جائے اور آرام بھی کرلے۔ اسے معلوم تھا کہ آگے بہت دور تک پانی نہیں ملے گا۔ اسے یہ یقین ہوگیا تھا کہ وہ پکڑے نہیں جائیں گے۔ کسی کو کیا خبر کہ وہ کس طرف گئے ہیں۔ اس نے ایلس سے کہا کہ آرام کرلیں۔ سحر کی تاریکی میں روانہ ہوجائیں گے۔

''تم بیت المقدس کا راستہ جانتے ہو؟'' ایلس نے پوچھا۔

انہوں نے عکرہ سے بھاگتے وقت یہ طے کیا ہی نہیں تھا کہ انہیں کہاں جانا ہے۔ اب لڑکی نے بیت المقدس کا نام لیا تو رحیم نے کہا… ''بیت المقدس کیوں؟ میں تمہیں وہاں لے جائوں گا جہاں تمہارے تعاقب میں کوئی آنے کی جرأت ہی نہیں کرے گا''۔

''کہاں؟'' ایلس نے پوچھا۔

''مصر''۔ رحیم نے جواب دیا۔

''مصر؟'' ایلس نے حیرت زدہ ہوکے پوچھا… ''وہ تو مسلمانوں کا ملک ہے، وہ ہمیں زندہ نہیں چھوڑیں گے''۔

''مسلمانوں کو تم نہیں جانتی ایلس!'' رحیم نے کہا۔ ''مسلمان بڑی رحم دل قوم ہے۔ تم چل کے دیکھنا''۔

''نہیں!'' ایلس نے بدک کر کہا… ''مجھے مسلمانوں سے ڈر آتا ہے۔ بچپن سے مجھے مسلمانوں کے متعلق بڑی غلیظ باتیں بتائی گئی ہیں۔ ہمارے ہاں مائیں اپنے بچوں کو مسلمانوں سے ڈرایا کرتی ہیں۔ مجھے مسلمانوں سے نفرت ہے''۔وہ ڈررہی تھی اور رحیم کے ساتھ لگ گئی تھی۔ اس نے کہا… ''مجھے بیت المقدس لے چلو۔ وہاں ہم شادی کرلیں گے۔ بیت المقدس کدھر ہے؟ میں سمت بھول گئی ہوں''۔

''میں مصر کی طرف جارہا ہوں''۔ رحیم نے کہا۔

ایلس بگڑ گئی اور پھر رونے لگی۔

''تم مسلمانوں سے نفرت کرتی ہو؟''

''بہت زیادہ!''

''اور مجھے سے تمہیں محبت ہے؟''

''بہت زیادہ!''

''اور اگر میں تمہیں یہ بتا دوں کہ میں مسلمان ہوں تو تم کیا کرو گی؟''

''میں ہنسوں گی''۔ ایلس نے کہا… ''مجھے تمہارے لطیفے اور مذاق بہت اچھے لگتے ہیں''۔

''میں مذاق نہیں کررہا ایلس!'' رحیم نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔ میں مسلمان ہوں اور ذرا اس قربانی پر غور کرو جو مجھ سے تمہاری محبت نے کرائی ہے۔ میں یہ قربانی بخوشی دے رہا ہوں''۔

''کیسی قربانی؟'' ایلس نے کہا… ''تم تو پہلے ہی بے گھر تھے۔ اب ہم اپنا گھر بنائیں گے''۔

''نہیں ایلس!'' رحیم نے کہا… ''میں اب بے گھر ہوا ہوں۔ تم اپنے گھر سے بھاگی ہو۔ میرے ساتھ شادی کرکے تم اپنا گھر بسا لوگی لیکن میرا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوگا۔ میں اپنے فرض کا بھگوڑا ہوں۔ میں اپنی فوج کا بھگوڑا ہوں… میں جاسوس ہوں۔ عکرہ میں جاسوسی کرنے آیا تھا مگر تمہاری محبت پر میں نے اپنا فرض قربان کردیا ہے''۔

''تم مجھے ڈرا رہے ہو''۔ ایلس نے ہنستے ہوئے کہا۔ ''چلو سو جائو۔ میں تمہیں جلدی جگا دوں گی''۔

''میں تمہیں ڈرا نہیں رہا ایلس!'' رحیم نے کہا… ''میرا نام رحیم ہنگور ہے، ایلی مور نہیں۔ میں تمہیں دھوکے میں نہیں رکھنا چاہتا۔ میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ تمہیں جہاں رکھوں گا، پورے آرام میں رکھوں گا۔ تمہیں تمہارے باپ کے گھر والی بادشاہی نہیں دے سکوں گا لیکن تکلیف بھی نہیں ہونے دوں گا۔ تمہاری زندگی آرام سے گزرے گی''۔

''مجھے اسلام قبول کرنا پڑے گا؟'' ایلس نے پوچھا۔

''تو اس میں کیا ہرج ہے؟'' رحیم نے کہا… ''تم ایسی باتیں نہ سوچو، وقت ضائع ہورہا ہے۔ سوجائو۔ ہمارا سفر بڑا لمبا ہے۔ باتوں کے لیے بہت وقت ہے''۔

وہ لیٹ گیا۔ ایلس بھی لیٹ گئی۔ ذرا سی دیر بعد ایلس کو رحیم کے خراٹے سنائی دینے لگے۔ اسے نیند نہیں آرہی تھی۔ وہ گہری سوچوںمیں کھو گئی تھی۔

٭ ٭ ٭

رحیم کی آنکھ کھلی تو صبح کا اجالا سفید ہوچکا تھا۔ وہ گھبرا کر اٹھا۔ اسے اتنی دیر نہیں سونا چاہیے تھا، آنکھیں مل کر ادھر ادھر دیکھا۔ وہاں گھوڑا بھی نہیں تھا۔ ایلس بھی نہیں تھی۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا، ایک ٹیلے پر چڑھ کر دیکھا۔ صحرا کی ویرانی کے سوا اسے کچھ بھی نہیں نظر نہ آیا۔ اس نے ایلس کو آواز دی۔ کوئی جواب نہ ملا۔ وہ سوچوں میں کھوگیا، ایک خیال یہ آیا کہ ان کے تعاقب میں کوئی آگیا ہوگا اور وہ ایلس کو سوتے میں اٹھا کر لے گیا ہے۔ اس صورت میں رحیم کو زندہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اسے وہ لوگ قتل کر جاتے یا اسے اغوا کے جرم میں پکڑ لے جاتے۔ حیرت اس پر تھی کہ وہ ایلس کو ایسی خاموشی سے اٹھا کر لے گئے کہ رحیم کی آنکھ ہی نہ کھلی۔ دوسری صورت یہ تھی کہ ایلس خود بھاگ گئی ہے کہ اس نے رحیم کو صرف اس لیے ٹھکرا دیا ہے کہ وہ مسلمان ہے۔

ایلس جہاں کہیں بھی گئی اور اسے جو کوئی بھی لے گیا، رحیم کو اب یہ سوال پریشان کرنے لگا کہ وہ کہاں جائے، عکرہ واپس جانا خطرے سے خالی نہیں تھا۔ قاہرہ جانے سے بھی ڈرتا تھا۔ اس نے اپنا فرض پورا نہیں کیا تھا۔ اس نے اپنے کمانڈر عمران کو نہیں بتایا تھا کہ وہ جارہا ہے۔ سوچ سوچ کر اس نے ایک بہانہ گھڑ لیا۔ اس نے فیصلہ کرلیا کہ وہ اب قاہرہ کے بجائے کرک چلا جائے اور وہاں بتائے کہ اسے پہچان لیا گیا تھا کہ وہ مسلمان ہے اور جاسوس ہے۔ وہ بڑی مشکل سے بھاگ کر وہاں سے نکلا ہے۔ اسے مہلت نہیں ملی کہ عمران یا رضا کو اطلاع دے سکتا کہ اس کی گرفتاری کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے… یہ اچھا بہانہ تھا۔ اسے معلوم تھا کہ اسے کوئی یہ تو نہیں کہے گا کہ کوئی ثبوت اور شہادت لائو۔

وہ پانی پی کر کرک کی سمت چل پڑا۔ اسے ایلس کی گمشدگی پریشان کررہی تھی اور اسے افسوس ہورہا تھا کہ اسے کبھی بھی پتا نہ چل سکے گا کہ ایلس کہاں غائب ہوگئی ہے۔

وہ بمشکل تین میل چلا ہوگا کہ اسے دوڑتے گھوڑوں کی ہلکی ہلکی آوازیں سنائی دیں۔ اس نے پیچھے دیکھا، گرد کا بادل اڑا آرہا تھا۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا، چھپنے کی کوئی جگہ نہیں تھی۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ سوار کون ہیں۔ اسے یہی معلوم تھا کہ وہ خود کون ہے۔ یہی خطرناک پہلو تھا۔ وہ گھوڑوں کے راستے سے ہٹ کر چلتا گیا۔ گھوڑے قریب آگئے، تب اس نے دیکھا کہ وہ صلیبی تھے اور انہوں نے گھوڑے اس کی طرف موڑ لیے تھے۔ وہ نہتا تھا۔ بھاگنے کی بھی کوئی صورت نہیں تھی۔ سواروں نے اسے گھیر لیا۔ اس نے ان میں سے ایک کو پہچان لیا۔ وہ ایلس کا امیدوار تھا۔ اس نے رحیم سے کہا… ''مجھے پہلے ہی شک تھا کہ تم عیسائی نہیں ہو''۔

اسے پکڑ لیا گیا اور اس کے ہاتھ پیٹھ پیچھے باندھ کر اسے ایک سوار نے لاش کی طرح گھوڑے پر ڈال لیا۔ گھوڑے عکرہ کی سمت روانہ ہوگئے۔ یہ وہ وقت تھا جب عمران رحیم سے ملنے گیا تو وہ اسے نہ ملا۔ تاجر کے ایک نوکر نے اسے بتایا کہ اسے نوکری سے نکال دیا گیا ہے۔ عمران شش وپنج میں پڑ گیا۔ رحیم جا کہاں سکتا تھا۔ اس کے پاس کیوں نہیں آیا؟… عمران گرجے میں واپس چلا گیا۔ رضا سے وہ شام کے بعد مل سکتا تھا۔ انہیں رحیم کو ڈھونڈنا تھا۔ یہ خطرہ بھی محسوس کیا گیا کہ وہ گرفتار نہ ہوگیا ہو۔ اس صورت میں یہ خطرہ تھا کہ اس نے اپنے دونوں ساتھیوں کی نشاندہی نہ کردی ہو۔ عمران کو یہ سوچ پریشان کررہی تھی کہ رحیم اگر پکڑا گیا ہے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اور رضا بھی پکڑے جائیں۔ پکڑے جانے اور مارے جانے کا انہیں فکر نہ تھا۔ فکر یہ تھا کہ انہوں نے وہ راز حاصل کرلیا تھا جس کے لیے وہ یہاں آئے تھے اور اب انہیں یہاں سے نکلنا تھا۔

سورج غروب ہونے میں ابھی بہت دیر باقی تھی۔ رضا اصطبل سے باہر کہیں کھڑا تھا۔ چار گھوڑے اصطبل کے دروازے پر رکے، ایک سوار نے اپنے آگے کسی کو لاش کی طرح ڈال رکھا تھا، اسے اتارا گیا۔ یہ دیکھ کر رضا کا خون خشک ہوگیا کہ وہ رحیم تھا۔ اس کے ہاتھ پیٹھ پیچھے بندھے ہوئے تھے۔ سواروں میں ایک بڑا افسر تھا۔ رضا اسے اچھی طرح جانتا پہچانتا تھا۔ دوسروں سے بھی وہ واقف تھا۔ رحیم کو وہ لے جانے لگے تو بڑے افسر نے رضا کو دیکھ لیا۔ اسے ''فرانسس''کے نام سے بلایا۔ رضا دوڑا گیا لیکن اس کے پائوں نہیں اٹھ رہے تھے۔ وہ سمجھ گیا کہ اسے بھی گرفتار کیا جائے گا۔

''چاروں گھوڑے اندر لے جائو''۔ اس افسر نے رضا سے کہا… ''ہمارے سائیسوں کے حوالے کردینا''… اس نے رحیم کے متعلق حکم دیا… ''اسے اس کمرے میں لے چلو''۔

رضا کو چونکہ فرانسس کے نام سے بلایا گیا تھا، اس لیے وہ جان گیا کہ رحیم نے اس کی نشاندہی نہیں کی۔ یہ صلیی افسر اسے ابھی تک سائیس فرانسس سمجھ رہے تھے۔ اس نے ایک افسر سے پوچھا۔ ''یہ کون ہے؟ اس نے چوری کی ہوگی''۔

''یہ صلاح الدین ایوبی کا جاسوس ہے''۔ ایک فوجی نے جواب دیا اور طنزیہ لہجے میں کہا… ''اب یہ تہہ خانے میں جاسوسی کرے گا، جائو گھوڑے لے جائو''۔

اس دوران رضا اور رحیم نے ایک دوسرے کو گہری نظروں سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا تھا۔ انہوں نے آنکھوں کے کچھ اشارے مقرر کررکھے تھے۔ اگر ایسی صورتحال میں دو جاسوسوں کا سامنا ہوجائے تو وہ ایک اشارہ تو یہ کرتے تھے کہ بھاگ جائو، دوسرا یہ کہ کوئی خطرہ نہیں۔ رحیم نے رضا کو ایسا ہی ایک اشارہ کیا جس سے اسے تسلی ہوگئی کہ اس نے کسی کی نشاندہی نہیں کی۔ تاہم ان کے لیے یہ خوشی کی بات نہیں تھی۔ اس کا ساتھی پکڑا گیا تھا اور وہ جانتا تھا کہ تہہ خانے میں اس کا کیا حشر کیا جائے گا۔ رحیم کو اب مرنا تھا مگر بڑی ہی اذیت ناک موت مرنا تھا۔ رضا کو معلوم تھا کہ رحیم کو کون سے کمرے میں لے جایا جارہا ہے اور اس کے بعد اسے کہاں لے جائیں گے۔

٭ ٭ ٭
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: داستان ایمان فروشوں کی جلد‎ ‎دوم

Post by ایکسٹو »

عمران گرجے کے ساتھ اپنے کمرے میں پریشانی کی حالت میں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ رحیم کہاں غائب ہوگیا ہے۔ اس کے کمرے کا دروازہ کھلا، وہ رضا تھا۔ اندر آکر اس نے دروازہ بند کر دیا اور گھبرائی ہوئی سرگوشی میں کہا۔ ''رحیم پکڑا گیا ہے''… اس نے جو دیکھا تھا وہ عمران کو سنا دیا۔ رضا نے اسے یہ بھی بتا دیا کہ رحیم نے اشارے سے اسے بتا دیا ہے کہ اس نے ہماری نشاندہی نہیں کی۔

''اگر نہیں کی تو تہہ خانے میں جاکر کردے گا''۔ عمران نے کہا… ''اس دوزخ میں زبان بند رکھنا آسان نہیں ہوتا''۔ ان دونوں کے لیے یہ فیصلہ کرنا محال ہوگیا کہ وہ فوراً نکل جائیں یا ایک آدھ دن انتظار کرلیں۔ ایسے نازک

وقت میں ان سے ایک غلطی سرزد ہوگئی۔ وہ یہ تھی کہ وہ جذبات سے مغلوب ہوگئے۔ چھاپہ ماروں )کمانڈو( اور جاسوسوں کے لیے یہ ہدایت تھی کہ وہ تحمل، بردباری اور صبر سے کام لیں۔ عجلت اور جذبات سے بچیں۔ اگر ان کا کوئی ساتھی ایسے طریقے سے کہیں پھنس جائے کہ اس کی مدد کرنے میں دوسروںکے پھنسنے کا بھی خطرہ ہو تو اس کی مدد نہ کی جائے۔ رضا جذبات میں آگیا۔ اس نے کہا… ''میں رحیم جیسے خوبصورت اور دلیر دوست کو قید سے نکالنے کی کوشش کروں گا''۔

''ناممکن ہے''۔ عمران نے کہا اور اسے ایسے خطرناک ارادے سے باز رکھنے کی کوشش کرنے لگا۔

''میں چونکہ وہیں رہتا ہوں جہاں رحیم کو لے گئے ہیں۔ اس لیے دیکھوں گا کہ اسے وہاں سے نکالنا ممکن ہوسکتا ہے یا نہیں''۔ رضا نے کہا… ''میں نے وہاں اتنی دوستی پیدا کررکھی ہے کہ مجھے معلوم ہوجائے گا کہ رحیم کہاں ہے۔ اگر میں اس تک پہنچ گیا تو رحیم آزاد ہوجائے گا یا میں اس کے ساتھ ہی جائوں گا اور اگر میں بھی پکڑا گیا تو تم نکل جانا۔ راز تمہارے پاس ہیں۔ میں رحیم کے بغیر واپس نہیں جائوں گا''۔

ناممکن تھا کہ رضا رحیم کو وہاں سے آزاد کرلیتا لیکن اس کے جذبات اتنے شدید تھے کہ عمران بھی اس کاہمنوا ہوگیا اور وہ حقائق کو بھول گیا۔ رضا اسے یہ کہہ کر چلا گیا کہ رات کو کسی وقت آکر اسے بتائے گا کہ رحیم کی رہائی کی کوئی صورت ہے یا نہیں۔ اگر کوئی صورت نہ ہوئی تو وہ رات کو نکل جائیں گے۔ عمران کے ذمے یہ کام تھا کہ وہ گھوڑوں کا انتظام کرلے۔ گھوڑوں کا انتظام آسان نہیں تھا۔ پادری کے باڈی گارڈوں کے گھوڑے وہاں موجود رہتے تھے۔ انہی میں سے دو یا تین گھوڑے چوری کرنے تھے۔

اس وقت تک رحیم کو قید خانے میں نہیں ڈالا گیا تھا۔ اسے انٹیلی جنس کے دو وحشی قسم کے افسروں کے حوالے کردیا گیا تھا۔ جاسوس جب پکڑا جاتا ہے تو سزا کا مرحلہ سب سے آخر میں ہوتا ہے۔ پہلے اس سے معلومات لی جاتی ہیں۔ جاسوس اکیلا نہیں ہوتا، پورا گروہ ہوتا ہے۔ گرفتار کیے ہوئے جاسوس سے یہی ایک سوال پوچھا جاتا ہے کہ اس کے ساتھی کہاں ہیں اور دوسرا سوال یہ پوچھا گیا کہ اس نے یہاں سے کوئی خفیہ بات معلوم کی ہے تو وہ بتا دے۔ رحیم نے جواب دیا کہ اس کے پاس کوئی راز نہیں۔ تاجر کی بیٹی ایلس کے ساتھ تعلقات کے متعلق پوچھا گیا تو اس نے بتایا کہ وہ ایک دوسرے کو چاہتے تھے۔ ایلس کی شادی ایک بوڑھے افسر کے ساتھ کی جارہی تھی، اس لیے وہ گھرسے بھاگنے پر مجبور ہوگئی۔

''کیا تمہیں معلوم ہے کہ تم کس طرح پکڑے گئے ہو؟''

''نہیں''… رحیم نے جواب دیا… ''میں اتنا جانتا ہوں کہ میں پکڑا گیا ہوں''۔

''تم اور بھی بہت کچھ جانتے ہو''… ایک افسر نے اسے کہا… ''وہ سب کچھ بتا دو جو تم جانتے ہو، تمہیں کوئی تکلیف نہیں دی جائے گی''۔

''میں یہ جانتاہوں کہ میں اپنا فرض بھول گیا تھا''… رحیم نے کہا… ''میں اس سزا کو خوشی سے قبول کروں گا۔ مجھے جس قدر تکلیف اور جتنی اذیت دے سکتے ہو دو۔ میں اسے اپنے گناہ کی سزا سمجھ کر قبول کروں گا''۔

''کیا تمہارے دل میں ابھی تک ایلس کی محبت ہے؟''

''ابھی تک ہے''… رحیم نے کہا… ''اور ہمیشہ رہے گی۔ میں اسے اپنے ساتھ قاہرہ لے جارہا تھا۔ اسے مسلمان کرکے اس کے ساتھ شادی کرنی تھی''۔

''اگر ہم یہ کہیں کہ اس نے تمہارے ساتھ دھوکہ کیا ہے تو تم مان لو گے؟''

''نہیں''… رحیم نے کہا… ''جس نے میرے لیے اپنا گھر اور اپنے عزیز چھوڑ دئیے تھے، وہ دھوکہ نہیں دے سکتی، اس کے ساتھ کسی نے دھوکہ کیا ہے''۔

''اگر ہم ایلس تمہارے حوالے کردیں تو کیا تم ہمیں بتا دو گے کے عکرہ میں تمہارے کتنے ساتھی ہیں اور وہ کہاں ہیں؟''… اس سے پوچھا گیا… ''اور یہ بھی بتا دو گے کہ تم نے یہاں سے کون سا راز حاصل کیا ہے؟''

رحیم کا سرجھک گیا۔ ایک افسر نے اس کا سر اوپر اٹھایا تو رحیم کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ افسروں کے باربار پوچھنے پر بھی وہ خاموش رہا، جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ اس کے اندر ایسی کشمکش پیدا ہوگئی ہے جس میں وہ فیصلہ نہیں کرسکتا اس کا رویہ اور ردعمل کیا ہونا چاہیے۔ اس کی یہ کیفیت ظاہر کرتی تھی کہا س کے دل میں ایلس کی محبت بہت گہری اتری ہوئی ہے۔

''تمہیں آخر کار ہمارے تمام سوالوں کا جواب دینا ہوگا''… ایک افسر نے کہا… ''اس وقت تک تم ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکے ہوگے، تم جیو گے نہ مرو گے۔ اگر پہلے ہی جواب دے دو تو ایلس تمہارے پاس ہوگی اور تم آزاد ہوگے۔ اس وقت تم قید خانے میں نہیں، یہ ایک افسر کا کمرہ ہے۔ اگر تم سوچنے کی مہلت چاہتے ہو تو آج رات تمہیں اسی کمرے میں رکھا جائے گا''۔

رحیم خاموش رہا اور خالی نظروں سے افسروں کو دیکھتا رہا۔ افسروں کو ایسا کوئی خطرہ نہیں تھا کہ وہ اس کمرے سے بھاگ جائے گا۔ برآمدے میں پہرہ تھا۔ گشتی پہرہ بھی تھا۔ رحیم بھاگ کر جا بھی کہاں سکتا تھا۔ ایک افسر نے باہر آکر اپنے ساتھی افسر سے کہا… ''تم وقت ضائع کررہے ہو، اسے تہہ خانے میں لے چلو۔ لوہے کی لال گرم سلاخ اس کے جسم کے ساتھ لگائو، ساری باتیں اگل دے گا۔ نہیں بولے گا تو بھوکا اور پیاسا پڑا رہنے دو''۔

''میرا تجربہ مختلف ہے میرے دوست!''… دوسرے افسر نے کہا… ''یہ نہ بھولو، یہ مسلمان ہے۔ تم نے اب تک کتنے مسلمان جاسوسوں سے راز اگلوائے ہیں؟ کیا تم نہیں جانتے کہ یہ کمبخت ایک بار ڈٹ جائیں تو مرجاتے ہیں، زبان نہیں کھولتے۔ یہ شخص کہہ چکاہے کہ ہماری ہر اذیت اپنے گناہ کی سزا سمجھ کر قبول کرلے گا۔ یہ کٹر مسلمان معلوم ہوتا ہے۔ یہ تہہ خانے میں جاکر بھی کہہ دے گا کہ وہ کچھ بھی نہیں بتائے گا۔ ہمارا مقصد اسے جان سے مارنا نہیں، یہ معلوم کرنا ہے کہ اس کے ساتھی کہاں ہیں اور یہ معلوم کرنا ہے کہ انہیں اس حملے کا پتا تو نہیں چل گیا جو مصر پر کرنے والے ہیں؟''

''ان کے باپ کو بھی پتا نہیں چل سکتا''… دوسرے افسر نے کہا… ''ہائی کمانڈ کے افسروں کے سواکسی کو حملے کے متعلق علم ہی نہیں۔ یہ جاسوس تاجر کی بیٹی کے عشق میں الجھا ہوا تھا۔ اسے تو دنیا کی ہوش نہیں تھی، اسے تو یہ بھی معلوم نہیں کہ اسے ایلس نے گرفتار کرایا ہے۔ یہ ابھی تک اس کی محبت میں گرفتار ہے''۔

''میں ایلس کو ہی استعمال کرنا چاہتا ہوں''… ایک نے کہا… ''اسے آج رات اسی کمرے میں رہنے دیتے ہیں، مجھے امید ہے کہ جو راز ہم کئی دنوں میں بھی نہیں اگلوا سکیں گے وہ ایلس جیسی دلکش لڑکی چند منٹوں میں اگلوائے گی''۔

''کیا اس لڑکی پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے؟''

''کیا تمہیں ابھی تک شک ہے؟''… دوسرے نے کہا… ''تم نے شاید پوری بات نہیں سنی۔ ایلس نے واپس آکر جو بیان دیا ہے، وہ تم نے پورا نہیں سنا۔ اب چونکہ تفتیش ہم دونوں کے سپرد کی گئی ہے۔ اس لیے تمہارے ذہن میں ہر ایک بات واضح ہونی چاہیے۔ ایلس اس شخص کو بری طرح چاہتی تھی۔ وہ اسے ایلی مور نام کا عیسائی سمجھتی رہی۔ ایلس کا باپ اس کی شادی کمانڈر ولیسٹ میکاٹ کے ساتھ کرنا چاہتا تھا۔ وہ دراصل اپنی بیٹی رشوت کے طور پر دے رہا تھا۔ ایلس اس جاسوس کے ساتھ بھاگ گئی۔ راستے میں اس نے ایلس کو بتا دیا کہ وہ ایلی مور نہیں، رحیم ہے اور وہ مسلمان ہے۔ ایلس نے اسے مذاق سمجھا مگر رحیم نے اسے یقین دلایا کہ وہ مذاق نہیں کررہا۔ رحیم نہیں جانتاتھا کہ ایلس کے دل میں مسلمانوں کی کتنی دہشت اور حقارت بچپن سے بیٹھنی ہوئی ہے اور رحیم کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ ایلس مذہب کی پکی ہے۔ ہر وقت صلیب گلے میں ڈالے رکھتی ہے۔ اس نے جان لیا کہ اس مسلمان نے اس کے ساتھ دھوکہ کیا ہے اور وہ قاہرہ جاکر نہ صرف خود اسے خراب کرے گا بلکہ دوسروں سے بھی خراب کرائے گا اور آخر میں کسی کے ہاتھ فروخت کردے گا۔ ہم نے اپنے بچوں کے ذہنوں میں مسلمانوں کا جو گھنائونا تصور پیدا کررکھا ہے، وہ ایلس کے سامنے آگیا''۔

''ایلس کے دل میں مذہب کی محبت پیدا ہوگئی اور یہ محبت مسلمان کی محبت پر ایسی غالب آئی کہ اسے حقارت میں بدل دیا۔ وہ سب کچھ بھول گئی۔ وہ یہ بھی بھول گئی کہ عکرہ واپس آکر اسے بوڑھے کمانڈر کے ساتھ بیاہ دیا جائے گا۔ اسے صلیب کا یہ فرض یاد آگیا کہ مسلمان کو ہرحال میں دشمن سمجھنا اور اسلام کے خاتمے کے لیے کام کرنا ہے۔ لڑکی چونکہ ہوشیار اور دلیر ہے، اس لیے اس نے بھاگنے کا نہایت اچھا طریقہ سوچا۔ رحیم پر ظاہر نہ ہونے دیا اور لیٹ گئی۔ رحیم اطمینان سے سوگیا تو ایلس گھوڑے پر سوار ہوئی اور ایسی خاموشی سے نکل آئی کہ رحیم کو خبر تک نہ ہوئی۔ راستے سے واقف تھی۔ عکرہ پہنچ گئی اور اپنے باپ کے سامنے اقبال جرم کرکے اسے رحیم کے متعلق بتایا۔ باپ نے اسی وقت کمانڈر ولیسٹ میکاٹ کو جگایا اور اسے یہ واقعہ سنایا۔ کمانڈر نے تین سپاہی ساتھ لیے اور رحیم کے تعاقب میں گیا۔ رحیم پیدل کہاں جاسکتا تھا، پکڑا گیا اور اب یہ ہمارے ہاتھ میں ہے''۔

''رحیم کو معلوم نہیں کہ اسے ایلس نے دھوکہ دیا ہے''۔

''نہیں''… دوسرے نے کہا… ''میں اب ایلس کو استعمال کرنا چاہتا ہوں۔ رحیم کو ہم نہایت اچھا کھانا کھلائیں گے''۔

٭ ٭ ٭

وہاں کے ملازموں اور دوسرے لوگوں کی زبان پر یہی موضوع تھا کہ ایک مسلمان جاسوس پکڑا گیاہے۔ رضا بھی فرانسس کے روپ میں ان ملازموں میں شامل تھا۔ وہ بھی مسلمان کو برا بھلا کہہ رہا تھا اور دوسروں کی طرح خواہش ظاہر کررہا تھا کہ جاسوس کو سرعام پھانسی دی جائے یا اسے گھوڑے کے پیچھے باندھ کر بھگا دیا جائے۔ رضا کو معلوم ہوچکا تھا کہ رحیم ابھی تک اسی کمرے میں ہے۔ سب حیران تھے کہ اسے قید خانے میں کیوں نہیں لے گئے اور جب باورچی خانے کے ایک ملازم نے انہیں بتایا کہ قیدی کے لیے افسروں کا سا کھانا گیا ہے اور وہ خود کھانا دے آیا تو سب حیرت سے ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔ رضا باتوں باتوں میں باورچی خانے کے اس آدمی کو الگ لے گیا اور پوچھا… ''کیا تم مذاق کررہے ہو کہ مسلمان جاسوس کو اتنا اچھا کھانا دیا گیا ہے جو افسر کھاتے ہیں، پھر وہ جاسوس نہیں ہوگا''۔

''بڑا خطرناک جاسوس ہے''… ملازم نے کہا… ''جو افسر تفتیش کررہے ہیں، میں نے ان کی باتیں سنی ہیں۔ وہ ابھی اسے کھلا پلا کر اس سے باتیں پوچھیں گے، پھر وہ کسی لڑکی کی باتیں کررہے تھے جو اس قیدی کو پھانس کر اس سے باتیں اگلوائے گی''۔

رحیم کھانا کھا چکا تو اس کے کمرے میں ایلس داخل ہوئی، دونوں افسر چلے گئے تھے۔ انہوں نے ایلس کو بلا کر اچھی طرح سمجھا دیا تھا کہ اسے کیا کرنا ہے اور قیدی سے کیا پوچھنا ہے۔ ایلس کو دیکھ کر رحیم بہت حیران ہوا۔ اسے خواب کا دھوکہ ہوا ہوگا۔

''تم؟''… اس نے ایلس سے پوچھا… ''کیا تمہیں بھی گرفتار کرکے یہاں لایا گیا ہے؟''

''ہاں!''… ایلس نے کہا… ''میں کل رات سے قید میں ہوں''۔

''تم وہاں سے غائب کس طرح ہوئی تھی؟''… رحیم نے کہا… ''میں مان نہیں سکتا کہ تم خود بھاگ آئی تھی؟''

''میں کیوں کر بھاگ سکتی تھی''… ایلس نے کہا… ''میرا تو جینا مرنا تمہارے ساتھ ہے، تم سوگئے تھے مگر مجھے نیند نہیں آرہی تھی۔ میں اٹھ کر ٹہلنے لگی اور کچھ دور نکل گئی۔ کسی نے پیچھے سے میرا منہ ہاتھ سے بند کردیا اور اٹھا کر گھوڑے پر ڈال لیا۔ وہ دو آدمی تھے۔ ایک نے ہمارا گھوڑا بھی لے لیا، میرا منہ بند تھا۔ تمہیں پکار نہیں سکتی تھی، وہ مجھے یہاں لے آئے''۔

''انہیں کس نے بتایا ہے کہ میں ایلی مور نہیں، رحیم ہوں؟''… رحیم نے پوچھا… ''اور جنہوں نے تمہیں وہاں جاپکڑا تھا وہ مجھے بھی کیوں نہ پکڑ لائے؟ انہوں نے مجھے قتل کیوں نہ کردیا؟''

''میں ان سوالوں کا جواب نہیں دے سکتی''… ایلس نے کہا… ''میں خود مجرم ہوں''۔

''تم جھوٹ بول رہی ہوایلس''… رحیم نے کہا… ''تمہیں دھمکا کر میرے متعلق پوچھا گیا ہے اور تم نے ڈر کے مارے بتا دیا ہے کہ میں کون ہوں۔ مجھے تم سے کوئی شکوہ نہیں، میں کبھی برداشت نہیں کرسکتا کہ تمہیں کوئی تکلیف ہو''۔

''اگر تمہیں میری تکلیف کا خیال ہے تو یہ لوگ تم سے جو کچھ پوچھتے ہیں، وہ انہیں بتا دو''… ایلس نے کہا… ''انہوں نے میرے ساتھ وعدہ کیا ہے کہ وہ تمہیں رہا کردیں گے''۔

''بات پوری کرو ایلس''… رحیم نے طنزیہ لہجے میں کہا… ''یہ بھی کہو کہ میں سب کچھ بتا دوں تو مجھے رہا کردیں گے اور تم میرے ساتھ شادی کرلوگی''۔

''شادی بھی ہوسکتی ہے''… ایلس نے کہا… ''بشرطیکہ تم عیسائی ہوجائو''۔

''کیا تم یہ امید لے کے آئی ہو کہ میں رہائی کی خاطر اپنا مذہب چھوڑ دوں گا؟''… رحیم نے کہا… ''ایلس! میں فوج کا معمولی سا سپاہی نہیں، جاسوس ہوں۔ عقل رکھتا ہوں، میں اس گناہ کی سزا بھگت رہا ہوں کہ عقل پر تمہاری محبت کو سوار کرلیا تھا۔ تم جھوٹ بول رہی ہو، جس صلیب کی تم قسمیں کھا رہی ہو، وہ گلے میں ڈال کر جھوٹ بول رہی ہو۔ کیا یہ غلط ہے کہ تم خود وہاں سے بھاگی ہو؟ کیونکہ تمہارے دل میں مسلمانوں کے خلاف نفرت بھری ہوئی ہے۔ تمہیں مجھ پر اعتماد نہ رہا اور مجھے سوتا چھوڑ کر بھاگ آئیں۔ یہاں آکر تم نے اپنے بوڑھے منگیتر کو میرے پیچھے بھیج دیا۔ میرے دل میں بھی تمہاری قوم کے خلاف نفرت ہے۔ میں تمہارے قوم کو اپنا دشمن سمجھتا ہوں۔ میں نے اپنی جان تمہاری قوم کو تباہ کرنے کے لیے دائو پر لگائی ہے لیکن تمہاری محبت، محبت ہی رہے گی۔ اس پر نفرت غالب نہیں آسکے گی۔ میں نے تمہاری خاطر اپنا فرض فراموش کیا۔ اپنا مستقبل تباہ کیا مگر تم نے ناگن کی طرح ڈنگ مارا''۔

وہ ایسے انداز سے بول رہا تھا کہ ایلس کی زبان بند ہوگئی۔ اس کے دل میں رحیم کی محبت موجود تھی۔ رحیم نے جب اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دھیمے اور پر اثر انداز میں باتیں کیں تو یہ جوان لڑکی اپنے سینے سے اٹھتے ہوئے جذبات کے بگولے کی لپیٹ میں آگئی۔ پہلے تو اس کے آنسو پھوٹے پھر اس نے بیتابی سے رحیم کے دونوں ہاتھ تھام لیے اور روتے ہوئے کہا… ''مجھے تم سے نفرت نہیں۔ تم اپنا فرض بھول گئے تھے، میں نہ بھول سکی۔ میں مجرم ہوں، میں نے

تمہیں پکڑوایا ہے۔ اس جرم کی سزا مجھے سخت ملے گی۔ مجھے چند دنوں میں اس بوڑھے کمانڈر کی بیوی بنا دیا جائے گا جو وحشی ہے اور شراب پی کر درندہ بن جاتا ہے۔ مجھے کچھ نہ بتائو ایلی مور''۔

''میںایلی مور نہیں ہوں''… رحیم نے کہا… ''میں رحیم ہوں''۔

٭ ٭ ٭

تفتیش کرنے والے دونوں افسر کہیںاور بیٹھے شراب پی رہے تھے۔ وہ مطمئن تھے کہ یہ خوبصورت لڑکی رحیم کو موم کرلے گی اور صبح سے پہلے پہلے ہمارا کام پورا کردے گی۔ وہاں صرف ایک پہرہ دار تھا جو برآمدے میں بیٹھ گیا تھا۔ کمرے کے پچھواڑے اندھیرا تھا اور اس اندھیرے میں ایک سایہ اتنی آہستہ آہستہ آگے کو سرک رہا تھا جیسے ہوا کا جھونکا رک رک کر آگے بڑھ رہا ہو۔ ادھر عمران گرجے سے ملحق اپنے کمرے میں جاگ رہا تھا۔ ذرا سی آہٹ سنائی دیتی تھی تو وہ اٹھ کر دروازے میں آجاتا تھا۔ اسے ہر آہٹ رضا کی آہٹ لگتی تھی۔ اس نے کمال ہوشیاری سے تین گھوڑے منتخب کرلیے تھے جو آٹھ گھوڑوں کے ساتھ بندھے تھے۔ اس کے زینیں بھی چوری چھپے الگ کرلی تھیں۔ اسے امید تھی کہ رضا اور رحیم آجائیں گے مگر جوں جوں رات گزرتی جارہی تھی۔ امید بھی تاریک ہوتی جارہی تھی۔ یہ حقیقت نکھرتی آرہی تھی کہ اس نے رضا کو یہ اجازت دے کر کہ رحیم کو آزاد کرائے، سخت غلطی کی تھی۔ یہ ناممکن تھا۔ وہ اب سوچ رہا تھا کہ ایک گھوڑے کھولے اور نکل جائے مگر اسے رضا کا خیال آجاتا تھا۔ رضا نے اسے کہا تھا کہ وہ رات کو آئے گا ضرور خواہ اکیلا آئے۔

اس وقت رضا موت کے منہ میں جاچکا تھا۔ وہ ایک سیاہ سایہ بن کر اس کمرے کے ایک دریچے کے پاس پہنچ گیا، جس میں رحیم بند تھا۔ اس نے کان لگا کر اندر کی باتیں سنیں۔ اسے کسی کے یہ الفاظ سنائی دئیے۔ میں تمہیں رہا نہیں کراسکتی۔ یہ لوگ جو کچھ پوچھتے ہیں، وہ بتا دو پھر میں اپنے باپ سے کہہ کر تمہارے لیے کچھ کرسکتی ہوں۔ مجھے اسی مقصد کے لیے تمہارے پاس لایا گیا ہے کہ میری محبت تم سے راز اگلوائے گی۔

دریچے کے کواڑ پر نہایت آہستہ سے کسی نے تین بار دستک دی۔ رحیم اس اشارے کو سمجھتا تھا۔ وہ حیران ہوا کہ یہ اس کا کون سا ساتھی ہوسکتا ہے۔ ایلس کچھ نہ سمجھ سکی۔ رحیم ٹہلتے ٹہلتے دریچے تک گیا اور کواڑ کھول دیا۔ رضا باہر کھڑا تھا، کود کر اندر آگیا۔ اس کے ہاتھ میں خنجر تھا۔ اس نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر ایلس کے منہ پر ہاتھ رکھا اور خنجر اس کے دل میں اتار دیا۔ اسے قتل کرنا ضروری تھا، ورنہ وہ شور مچا کر انہیں پکڑا سکتی تھی۔ رضا اور رحیم دریچے سے کود کر باہر گئے اور اندھیرے سے بھاگ اٹھے۔ رضا اس جگہ سے واقف تھا۔ اس نے راستہ تو اچھا اختیار کیا تھا لیکن برآمدے میں جو پہرہ دار تھا، اس نے کسی طرف سے دو سائے بھاگتے دیکھ لیے۔ اس کے شور پر دوسرے سنتری ہوشیار ہوگئے۔ جانے کہاں سے ایک تیر آیا جو رحیم کے پہلو میں اتر گیا۔ وہ جوان اور توانا آدمی تھا، گرا نہیں۔ رضا کے ساتھ بھاگتا چلا گیا مگر زیادہ دور تک نہ جاسکا۔ اس کے قدم ڈگمگانے لگے تو رضا نے اسے اپنی پیٹھ پر ڈال لیا۔ تیر پہلو سے نکالنا ممکن نہیں تھا۔

رحیم رضا سے کہنے لگا کہ وہ اسے وہین پھینک کر بھاگ جائے۔ وہ اب زندہ نہیں رہ سکتا تھا لیکن رضا اپنے دوست کو اس وقت تک اپنے آپ سے جدا نہیں کرنا چاہتا تھا، جب تک وہ زندہ تھا۔ اس نے رحیم کی ایک نہ سنی اور تاریک راستوں میں چھپتا چھپاتا چلتا گیا۔ اسے خیال آگیا کہ وہ اس جگہ سے گزر رہا ہے۔ جہاں تمام مکان مسلمانوں کے ہیں۔ اسے دور دور بھاگ دوڑ اور شور شرابہ سنائی دے رہا تھا۔ ان کا تعاقب کرنے والے کہیں اور تھے۔ رضا کو معلوم تھا کہ عکرہ کے مسلمان کیڑوں مکوڑوں کی سی زندگی گزار رہے ہیں اور صلیبیوں کی نگاہ میں ہر مسلمان جاسوس اور مشتبہ ہے۔ ذرا سے شک پر کسی بھی مسلمان کو قید خانے میں ڈال دیا جاتا ہے اور اس کے گھر کی تلاشی توہین آمیز طریقے سے لی جاتی تھی۔ رضا کسی مسلمان کو مصیبت میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا مگر وہ رحیم کے بوجھ تلے شل ہوچکا تھا اور اسے یہ امید بھی تھی کہ شاید رحیم کی زندگی بچانے کا کوئی بندوبست ہوجائے۔

اس نے ایک دروازے پر دستک دی۔ کچھ دیر بعد دروازہ کھلا۔ رضا تیزی سے اندر چلا گیا جس نے دروازہ کھولا تھا، گھبرا گیا۔ رضا نے مختصر الفاظ میں اپنا تعارف کرایا وہاں تو صرف یہ کہہ دینا ہی کافی تھا کہ وہ مسلمان ہیں۔ رضا کو پناہ مل گئی مگر رحیم شہید ہوچکا تھا۔ رضا کے کپڑے خون سے لتھڑ گئے تھے۔ اس نے گھر والوں کو سارا واقعہ سنایا اور عمران کے متعلق بھی بتایا۔ گھر میں تین مرد تھے، وہ جوش میں آگئے۔ انہوں نے رضا کے کپڑے تبدیل کردئیے۔ رحیم کی لاش کے متعلق فیصلہ ہوا کہ اسے گھر کے کسی کمرے میں دفن کردیا جائے گا۔ رضا عمران کو بلانے کے لیے چلا گیا۔

٭ ٭ ٭

رات کے اس وقت جب دنیائے اسلام گہری نیند سوئی ہوئی تھی، قوم کے غدار دشمن کی بھیجی ہوئی عورتوں اور شراب میں بدمست پڑے تھے، ان سے دور، بہت دور ایک مسلمان اسلام کی ناموس پر اپنی جان پر کھیل گیا تھا اور دو جان کی بازی لگا کر اس راز کے ساتھ عکرہ سے نکل کر قاہرہ پہنچنے کی کوشش کررہے تھے، جس پر مصر کی عزت اور اسلام کی آبرو کا دارومدار تھا۔ اس راز کو وہ خدا کی امانت سمجھتے تھے، وہاں انہیں دیکھنے والا کوئی نہ تھا کہ وہ اپنا فرض ادا کرتے ہیں یا عیش کررہے ہیں لیکن انہیں یہ احساس تھا کہ انہیں خدا دیکھ رہا ہے اور وہ خدا کے حکم کی تعمیل کررہے ہیں۔

عمران کا سر اس تذبذب اور اضطراب میں دکھنے لگا تھا کہ رحیم آجائے گا یا نہیں، رضا آجائے گا یا نہیں؟؟ قاہرہ تک یہ خبر پہنچا سکے گا یا نہیں کہ مصر پر حملے کے لیے بحیرۂ روم میں صلیبیوں کا بہت بڑا بیڑہ آرہا ہے۔ عمران اس لیے بھی قاہرہ یا کم از کم کرک جلدی پہنچنا چاہتا تھا کہ نورالدین زنگی یا سلطان ایوبی یا دونوں کسی اور طرف حملے یا پیش قدمی کی سکیم نہ بنا لیں۔ ایسی صورت میں انہیں روکنا تھا، اگر ان کی فوج کسی اور طرف نکل گئی تو مصر کا خدا ہی حافظ تھا۔ عمران کو ان سوچوں نے اس قدر پریشان کیا کہ اس نے دروازہ اندر سے بند کرکے نفل پڑھنے شروع کردئیے۔ اس شہر کی خاموشی میں کوئی سرگرمی سنائی دے رہی تھی۔ کچھ بھاگ دوڑ سی تھی۔ یہ اس کی پریشانی میں اضافہ کررہی تھی۔ اس نے دو چار نفل پڑھ کر ہاتھ خدا کے حضور پھیلا دئیے اور گڑگڑایا… ''یا خدا! مجھے اپنے فرض کی تکمیل تک زندگی عطا کر۔ میں یہ امانت ٹھکانے پر پہنچا دوں تو مجھے میرے خاندان سمیت ختم کردینا''۔

اس کے دروازے پر ویسی ہی دستک ہوئی جیسی رحیم کے دریچے پر ہوئی تھی۔ عمران نے دروازہ کھولا۔ رضا کھڑا تھا۔ اسے اندر بلا کر عمران نے دروازہ بند کردیا۔ رضا ہانپ رہا تھا۔ اس نے عمران کو بتایا کہ اس پر کیا گزری ہے اور رحیم شہید ہوچکا ہے۔ عمران نے جب یہ سنا کہ رحیم کی لاش ایک مسلمان گھرانے میں ہے جو اسے گھر میں دفن کردیں گے تو عمران پریشان ہوگیا۔ وہ عکرہ کے کسی مسلمان کو مصیبت میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا۔ رضا نے اسے بتایا کہ اس گھر میں تین مرد اور باقی عورتیں ہیں۔ انہوں نے فوراً ایک کمرے کے کونے میں کھدائی شروع کردی تھی۔ عمران اس گھر جانا چاہتا تھا تاکہ دیکھ لے کہ ان کے پکڑے جانے کا کوئی خطرہ تو نہیں۔ رضا نے اسے یقین دلایا کہ وہ ہوشیار لوگ معلوم ہوتے ہیں، سنبھال لیں گے۔

عکرہ سے نکلنا دشوار ہوگیا تھا۔ شہر کی ناکہ بندی کرلی گئی تھی۔ ایک لڑکی کا قتل اور ایک جاسوس کا فرار معمولی سی واردات نہیں تھی۔ نکلنا رات کو ہی تھا۔ ان دونوں نے یہ طے کیا کہ اکٹھے نکلیں گے اور دونوں میں سے کوئی پکڑا گیا یا دونوں پکڑے گئے تو اور جو کچھ بھی کہیں، یہ نہیں بتائیں گے کہ رحیم کی لاش کہاں ہے یا وہ مارا گیا ہے۔ اگلہ مسئلہ گھوڑوں کا تھا۔ عمران رضا کو اس جگہ لے گیا جہاں آٹھ گھوڑے بندھے ہوئے تھے مگر دور سے دیکھا کہ محافظوں میں سے ایک وہاں ٹہل رہا تھا۔ عمران رضا کو ایک جگہ چھپا کر آگے گیا اور اس سنتری کے پاس چلا گیا۔ اس سے پوچھا کہ آج اسے پہرہ دینے کی کیا ضرورت پیش آگئی ہے۔ سنتری عمران کو جان گنتھر کے نام سے اچھی طرح جانتا تھا اور بڑے پادری کے خصوصی خادم کی حیثیت سے اس کا احترام بھی کرتا تھا۔ اس نے عمران کو بتایا کہ آج ایک مسلمان جاسوس کو پکڑا گیا تھا۔ وہ کسی لڑکی کو قتل کرکے فرار ہوگیا ہے۔ اس لیے حکم آیا ہے کہ ہوشیار رہا جائے۔

اس سنتری کی موجودگی میں گھوڑے کھولنا ممکن نہیں تھا۔ عمران نے اسے باتوں میں لگا لیا اور پیچھے ہوکر اس کی گردن بازو کے گھیرے میں لے لی۔ سنتری کا دم گھٹنے لگا۔ عمران نے اس کے پہلو سے خنجر نما تلوار کھینچ لی اور اس کے پیٹ میں گھونپ دی۔ مرنے تک اس کی گردن بازو کے شکنجے میں دبائے رکھی۔ اسے مار کر عمران نے رضا کو بلایا۔ دو گھوڑوں پر زینیں ڈالیں اور سوار ہوگئے۔ گرجے کے باقی محافظ کمرے میں کہیں سوئے ہوئے تھے۔ عمران اور رضا چل پڑے۔ شہر سے نکلنے کے کئی راستے تھے۔ وہ ایک طرف چل پڑے اور شہر سے نکل گئے۔ اچانک وہ گھیرے میں آگئے اور انہیں للکارا گیا۔

''ہم شہری ہیں دوستو!''… عمران نے کہا… ''ہم بھی تمہاری طرح ڈیوٹی دے رہے ہیں''۔

تین چار مشعلیں جل اٹھیں جن کی روشنی میں انہوں نے دیکھا کہ وہاں گھوڑ سواروں کا ایک دستہ تھا جو ادھر ادھر پھیلا ہوا تھا تب انہیں احساس ہوا کہ شہر کی ناکہ بندی ہوچکی ہے۔ عمران نے اپنے کپڑے نہیں دیکھے تھے۔ اس کے کپڑوں پر سنتری کا خون تھا۔ مشعل کی روشنی میں یہ خون صلیبی سواروں کو نظر آگیا۔ اس سے پوچھا گیا کہ یہ خون کس کا ہے تو عمران نے لگام کو جھٹکا دے کر گھوڑے کو ایڑی لگادی۔ رضا نے بھی ایسا ہی کیا مگر اس نے ذرا دیر کردی۔ عمران نکل گیا۔ رضا گھیرے میں آگیا۔ عمران کے پیچھے بھی تین سوار گئے۔ اسے رضا کی بلند پکار سنائی دینے لگی… ''عمران رکنا نہیں، نکل جائو۔ خدا حافظ''… عمران بہت دور تک یہ پکار سنتا رہا۔ پتا چلتا تھا جیسے وہ گھیرے سے نکلنے کی کوشش کررہا ہے۔ عمران کا گھوڑا بڑا اچھا تھا۔ اس کے دائیں بائیں سے تیر گزرنے لگے لیکن وہ تعاقب کرنے والوں کو پیچھے ہی پیچھے چھوڑتا چلا گیا۔ وہ راستے سے واقف تھا۔ اس نے کرک کا رخ کرلیا۔ گھوڑا بدلنے کی ضرورت تھی۔

جب صبح کی روشنی سفید ہورہی تھی، اس کا گھوڑا دوڑنے کے قابل نہیں رہا تھا۔ اس نے پانی کی تلاش کرنے کی کوشش ہی نہ کی۔ آگے ریتلی چٹانوں کا علاقہ آگیا۔ وہ اس میں داخل ہوا ہی تھا کہ اس کے سامنے چٹان میں دو تیرلگے جس کا مطلب تھا کہ رک جائو۔ وہ رک گیا اور یہ دیکھ کر اس کی جان میں جان آئی کہ اسے روکنے والے اس کی اپنی فوج کے آدمی تھے۔ اسے اپنے کمانڈر کے پاس لے گئے۔ کمانڈر نے اس کی بات سن کر اسے تازہ دم گھوڑا دیا اور دو سپاہی اس کے ساتھ کرکے اسے کرک کے راستے پر ڈال دیا۔ اس نے خود ہی کہا تھا کہ وہ نورالدین زنگی سے مل کر قاہرہ جائے گا۔ عکرہ سے جو خبر لایا تھا وہ زنگی تک بھی پہنچنی چاہیے تھی۔

٭ ٭ ٭
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: داستان ایمان فروشوں کی جلد‎ ‎دوم

Post by ایکسٹو »

عمران جب کرک کے قلعے میں نورالدین زنگی کے سامنے بیٹھا اپنی کہانی سنا رہا تھا۔ زنگی اسے ایسی نظروں سے دیکھ رہا تھا جیسے اس خوبرو جوان کو دل میں بٹھا لینا چاہتا ہو۔ اس نے اٹھ کر بیتابی سے عمران کو سینے سے لگا لیا اور اس کے دونوں گال چوم کر پیچھے ہٹ گیا۔ اس نے اپنی تلوار نیام سے نکالی اور پھر نیام میں ڈال کر نیام کو چوما۔ اسے دونوں ہاتھ پر رکھ کر عمران سے کہا… ''اس وقت جب صلیب ایک خوفناک گدھ کی طرح چاند ستارے پر منڈلا رہی ہے، ایک مسلمان اپنے مسلمان بھائی کو تلوار سے بڑھ کر اور کوئی تحفہ نہیں دے سکتا۔ تم بغداد میں کہو، دمشق میں کہو، کہیں بھی کہو، میں تمہیں ایک محل دے سکتا ہوں۔ تم نے جو کارنامہ کر دکھایا ہے۔ اس کے صلے میں تم دولت کے انبار کے حق دار ہو لیکن میرے عزیز دوست! میں تمہارے لیے محل کھڑا نہیں کروں گا۔ تمہیں دولت کی شکل میں صلہ نہیں دوں گا کیونکہ یہی وہ چیزیں ہیں جنہوں نے مسلمانوں کو اندھا اور اپاہج کردیا ہے۔ یہ قبول کرو، میری تلوار! اور یاد رکھو اس تلوار نے بڑے بڑے جابر صلیبیوں کا خون پیا ہے۔ اس تلوار نے بہت سے قلعوں پر اسلام کا جھنڈا لہرایا ہے اور یہ تلوار اسلام کی پاسبان ہے''۔

عمران نورالدین زنگی کے آگے دوزانو بیٹھ گیا اور اس کے ہاتھوں سے تلوار لے کر چومی، آنکھوں سے لگائی اور کمر سے باندھ لی۔ وہ کچھ کہہ نہ سکا۔ اس پر رقت طاری ہوگئی تھی اور اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔

''اور اپنی قدروقیمت جان لو میرے دوست!''… زنگی نے کہا… ''ایک جاسوس دشمن کے لشکر کو شکست دے سکتا ہے اور ایک غدار اپنی پوری قوم کو شکست کی ذلت میں ڈال سکتا ہے۔ تم نے دشمن کو شکست دے دی ہے۔ تم جو خبر لائے ہو یہ دشمن کی شکست کی خبر ہے۔ صلیبی انشاء اللہ مصر اور فلسطین کے ساحل سے آگے نہیں آسکیں گے اور ان کا بحری بیڑہ واپس نہیں جاسکے گا۔ یہ تمہاری فتح ہوگی اور اس کا صلہ تمہیں خدا دے گا''۔

''مجھے قاہرہ کے لیے جلدی روانہ ہوجانا چاہیے''… عمران نے کہا… ''دن تھوڑے رہ گئے ہیں۔ امیر مصر کو بہت دن پہلے اطلاع جانی چاہیے''۔

''تم ابھی روانہ ہوجائو''… نورالدین زنگی نے کہا… ''میں تمہیں بڑی اچھی نسل کا گھوڑا دے رہا ہوں''۔ اس نے عمران کو قاہرہ تک کا وہ راستہ بتا دیا جس پر کئی چوکیاں تھیں۔ ان پر قاصدوں کے گھوڑے بدلنے کا انتظام تھا… ''اور صلاح الدین ایوبی سے پہلی بات یہ کہنا کہ رحیم اور رضا کے خاندانوں کو اپنے خاندان میں جذب کرلو۔ ان کے خاندانوں کی کفالت کا انتظام بیت المال سے کرو''… اس نے عمران سو پوچھا… ''تم صرف جاسوسی کرسکتے ہو یا جنگ کو بھی سمجھ سکتے ہو؟''

''کچھ سوجھ بوجھ رکھتا ہوں''… عمران نے جواب دیا… ''آپ حکم دیں''۔

''پیغام لکھنے کا وقت نہیں''… زنگی نے کہا… ''صلاح الدین ایوبی سے کہہ دینا کہ مجھے کرک تمہارے حوالے کرکے بغداد جلدی واپس جانا تھا۔ اطلاع مل رہی ہیں کہ ان علاقوں میں صلیبیوں کی تخریب کاری بڑھتی جارہی ہے اور ہمارے چھوٹے چھوٹے حکمران ان کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں لیکن اس تازہ خبر نے مجھے رکنے پر مجبور کردیا ہے۔ چار پانچ سال پہلے تم نے بحیرۂ روم میں صلیبیوں کا بیڑہ غرق کیا تھا۔ وہ تمہارے پھندے میں آگئے تھے۔ اب وہ محتاط ہوکر آئیں گے۔ اسی لیے انہوں نے سکندریہ کے شمالی ساحل کو منتخب کیا ہے۔ اگر تم ان سے سمندر میں براہ راست ٹکر لینے کا فیصلہ کرو تو یہ تمہاری غلطی ہوگی۔ تمہارے پاس صلیبیوں جتنی بحری طاقت نہیں ہے۔ ان کے جہاز بڑے ہیں اور ہر جہاز میں بادبانوں کے علاوہ بے شمار چپو ہیں۔ چپو چلانے کے لیے ان کے پاس غلاموں کی بے انداز تعداد ہے۔ تم اتنی تعداد سے محروم ہو۔ تمہارے جہازوں کے چپو چلانے والے ملاح ہیں اور سپاہی بھی۔ سمندری جنگ میں وہ دونوں کام نہیں کرسکیں گے۔ صلیبیوں کو ساحل پر آنے دو۔ سکندریہ کو بحری لوگوں کا خطرہ ہوگا۔ آتشیں گولے شہر کو آگ لگا دیں گے۔ اس کا کوئی انتظام کرلینا''۔

''اگر دشمن نے اسی انداز سے حملہ کیا جیسا کہ عمران خبر لایا ہے تو میں دشمن کے پہلو پر ہوں گا۔ یہ اس کا بایاں پہلو ہوگا۔ تم دائیں پہلو کو سنبھالو گے اور تمہارے ذمے ایک کام یہ ہوگا کہ صلیبیوں کا کوئی جہازواپس نہ جائے۔ آگ لگا دینا اگر تمہارے پاس سمندری چھاپہ مار ہوں تو تم جانتے ہو کہ ان سے کیا کام لیا جاسکتا ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ سوڈان کی طرف سے چوکنا رہنا۔ وہ سرحد خالی نہ رہے۔ مجھے احساس ہے کہ تمہارے پاس فوج کم ہے۔ میں یہ کمی پوری کرنے کی کوشش کروں گا۔ سب سے بڑی ضرورت راز داری کی ہے۔ راز داری کی خاطر میں پیغام تحریری نہیں بھیج رہا۔ فتح کی صورت میں، میں کرک فوج کے حوالے کرکے بغداد چلا جائوں گا''۔

یہ پیغام ذہن نشین کرکے عمران قاہرہ روانہ ہوگیا۔

صلیبیوں کے سن ١١٧٤ء کے ابتدائی دن تھے جب علی بن سفیان نے صلاح الدین ایوبی کو اطلاع دی کہ عکرہ میں ایک جاسوس شہید ہوگیا ہے اور دوسرا پکڑا گیا اور ان کا کمانڈر عمران واپس آگیاہے تو جان لینے کے باوجود کہ عمران بڑا ہی قیمتی راز لایا ہے، سلطان ایوبی بجھ سا گیا۔ اس نے علی بن سفیان کے ساتھ چندایک باتیں کرکے عمران کو اندر بلایا اور آٹھ کر اسے گلے لگا لیا، پھر کہا… ''پہلے مجھے یہ بتائو کہ تمہارا ایک ساتھی شہید کس طرح ہوا اور دوسرا پکڑا کس طرح گیا ہے؟''

عمران نے پوری تفصیل سے ساری کہانی بیان کردی اور جب اس نے وہ راز بیان کیا جو وہ عکرہ سے لایا ہے تو سلطان ایوبی کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ عمران نے یہ بھی بتایا کہ وہ نورالدین زنگی کو اطلاع دے آیا ہے۔ اس نے سلطان ایوبی کو زنگی کا پیغام سنایا۔ اس سے سلطان ایوبی کا بہت سا وقت بچ گیا تھا۔ اس نے پہلا کام یہ کیا کہ رحیم اوررضا کے خاندانوں کے لیے وظیفہ مقرر کیا اور ان خاندانوں کے متعلق معلومات پیش کرنے کا کہا تاکہ اس کے مطابق ان کی مزید مدد کی جائے۔ اس کے بعد اس نے عمران سے بہت سی باتیں پوچھیں۔ عمران نے اسے بتایا کہ صلیبیوں کا بحری بیڑہ چار پانچ سال پہلے کی نسبت زیادہ ہوگا۔ حملہ ایک ماہ کے اندر اندر ہوگا۔ یورپ سے تازہ دم فوج لائی جائے گی جسے سکندریہ کے شمال میں اترنے والی فوج سکندریہ پر قبضہ کرکے اسے اڈہ اور رسد گاہ بنائے گی اور شمال کی طرف سے مصر پر حملہ آورہوگی۔ عمران کے کہنے کے مطابق صلیبیوں کی یہ توقع ہے کہ وہ سلطان ایوبی کو بے خبری میں جالیں گے اور نورالدین زنگی اسے مدد اور کمک نہیں دے سکے گا کیونکہ راستے میں صلیبیوں کی بیت المقدس والی فوج حائل ہوگی۔

یہ ایسا طوفان تھا جو بے خبری میں آجاتا تو مصر پر صلیبیوں کا قبضہ یقینی تھا۔ سلطان ایوبی نے اسی وقت اپنے تمام سینئر کمانڈروں کو بلا لیا۔ علی بن سفیان کو اس نے یہ ہدایت دی کہ وہ دشمن کے جاسوسوں کے خلاف اپنی سرگرمیاں اور تیز کردے تاکہ اپنی فوجوں کی نقل وحرکت کے متعلق کوئی خبر باہر نہ جاسکے۔ سکندریہ کے متعلق اس نے خصوصی ہدایات دیں۔

٭ ٭ ٭

برطانیہ ابھی اس جنگ میں شریک نہیں ہونا چاہتا تھا۔ انگریزوں کو غالباً یہ توقع تھی کہ کسی وقت وہ اکیلے ہی مسلمانوں کو شکست دے کر ان کے علاقوں پر قابض ہوجائیں گے لیکن پوپ )سب سے بڑے پادری( کے کہنے پر انگریزوں نے صلیبیوں کو اپنے کچھ جنگی جہاز دئیے تھے۔ سپین کا تمام بیڑہ اس حملے میں شرکت کے لیے تیار تھا، فرانس، جرمنی اور بلجیم کے جہاز بھی آگئے تھے اور اس متحدہ بیڑے میں یونان اور سسلی کی جنگی کشتیاں بھی شامل تھیں۔ رسد اور اسلحہ کے لیے ماہی گیروں سے بادبانی کشتیاں لے لی گئی تھیں۔ ان میں بعض خاصی بڑی تھیں۔ اس بیڑے میں ان تمام ممالک سے تازہ دم فوج آرہی تھی جس سے صلیب پر حلف لیا گیا تھا کہ فتح حاصل کیے بغیر واپس نہیں آئے گی۔

''اگر صلاح الدین ایوبی نے ہمارا مقابلہ اپنے بحری بیڑے سے کیا تو اس کی اسے مصر جتنی قیمت دینی پڑے گی''۔

فرانسیسی بحریہ کے کمانڈر نے کہا… ''ہم جانتے ہیں کہ اس کے بحری بیڑے کی کتنی کچھ طاقت ہے''… وہ بحیرۂ روم کے دوسرے کنارے پر ایک کانفرنس میں بیٹھا کہہ رہا تھا… ''صلاح الدین ایوبی اور نورالدین خشکی پر لڑنے والے لوگ ہیں۔ ہمیں یہ توقع رکھنی چاہیے کہ اس حملے کی خبر مسلمانوں کو قبل از وقت نہیں ہوگی اورصلاح الدین ایوبی کو اس وقت خبر ہوگی جس وقت ہم قاہرہ کو محاصرے میں لے چکے ہوں گے۔ نورالدین زنگی اس کی مدد کے لیے نہیں پہنچ سکے گا اور ہمارا یہ حملہ فیصلہ کن ہوگا''۔

''میں ایک بارپھر کہتا ہوں کہ سوڈانیوں کا استعمال کرنا ضروری ہے''… رینالٹ نے کہا… ''رینالٹ ایک مشہور صلیبی حکمران اور جنگجو تھا۔ اسے بیت المقدس کی طرف سے خشکی پر آنا اور حملہ کرنا تھا۔ وہ شروع سے زور دے رہا تھا کہ وہ مصر پر شمال اورمشرق سے حملہ کریں تو جنوب سے سوڈانی بھی مصر پر حملہ کردیں گے۔''

''آپ پچھلے تجربوں کو بھول جاتے ہیں''… اسلام کے سب سے بڑے دشمن فلپ آگسٹس نے کہا… ''١١٦٩ء میں ہم نے سوڈان کو بے دریغ مدد دی تھی اور اس توقع پر ہم نے سمندر سے حملہ کیاتھا کہ سوڈانی جنوب سے حملہ کریں گے اور صلاح الدین ایوبی کی فوج میں جو سوڈانی ہیں و ہ بغاوت کردیں گے مگر انہو ںنے کچھ بھی نہ کیا۔ دو سال بعد پھر انہیں مدد دی گئی۔ انہوں نے یہ بھی ضائع کردی۔ اب کے پھر انہوں نے ہمیں مایوس کیا، ہم کیوں انہیں اپنے منصوبے میں شریک کریں؟ اگر مصر ہم نے اپنی طاقت سے لے لیا تو سوڈانی ہم سے حصہ مانگیں گے۔ آپ یہ بھول رہے ہیں کہ سوڈانیوں میں مسلمانوں کی تعداد کم نہیں۔ مسلمان پر بھروسہ کرنا غلطی ہے۔ اگر آپ سچے دل سے اسلام کا نام ونشان مٹانا چاہتے ہیں تو کسی مسلمان کو اپنا دوست نہ سمجھیں۔ انہیں خرید کر اپنا دوست ضرور بنائیں لیکن دل میں اس کی دشمنی قائم رکھیں''۔

''آپ ٹھیک کہتے ہیں''… ایک اور صلیبی بادشاہ نے کہا… ''آپ لوگوں نے فاطمیوں کو دوست بنایا۔ وہ صلاح الدین ایوبی کے دشمن ہوتے ہوئے بھی اسے ابھی تک قتل نہیں کرسکے۔ ہم نے انہیں بڑے بڑے قابل جاسوس اور تخریب کار دئیے جو انہوں نے اپنی غلطیوں سے پکڑوا کر مروا دئیے۔ اب ہم کسی پربھروسہ نہیں کریں گے، ہمیں اپنی جنگی طاقت پر بھروسہ کرنا چاہیے اور اب ہم کامیاب ہوں گے''۔

ان کی جنگی طاقت اتنی زیادہ تھی کہ وہ اس سے زیادہ تکبر کرنے میں حق بجانب بیڑے کا تو کوئی حساب ہی نہ تھا۔ بیت المقدس کی طرف سے جو فوج آرہی تھی۔ وہ سمندر کی طرف سے آنے والی نفری سے دگنی تھی۔ یورپی مورخوں میں تعداد کے متعلق اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض نے تو اس حملے کا صلیبی جنگوں میں ذکر ہی نہیں کیا، جیسے اس کی کوئی اہمیت ہی نہیں تھی۔ اس حملے میں کم و بیش صلیبیوں کی چھ بادشاہیاں شامل تھیں۔ کچھ چھوٹے چھوٹے حکمران بھی تھے، جو اپنی فوجیں لے آئے تھے۔ ان میں خامی یہ تھی کہ انکی کمان متحدہ نہیں تھی، تاہم یہ لشکر نورالدین زنگی اور سلطان صلاح الدین ایوبی کو آسانی سے شکست دے سکتا تھا۔ سلطان ایوبی کی کمزوری یہ تھی کہ اس کی فوج کم تھی۔ اس کے علاوہ مصر میں غداروں نے بدامنی پھیلا رکھی تھی اورسب سے بڑا خطرہ یہ کہ سوڈانی بھی حملہ کرسکتے تھے۔ نورالدین زنگی کو بھی کچھ ایسی ہی دشواریوں کا سامنا تھا۔ دنیائے اسلامچھوٹی چھوٹی ریاستوں می بٹی ہوئی تھیں اور یہ حکمران عیش وعشرت کے عادی ہوچکے تھے۔ صلیبیوں نے انہیں اپنے زیراثر لے رکھاتھا۔ وہ آپس میں پھٹے ہوئے تھے اور انہیں اسلام کی ناموس کا ذرہ بھر احساس نہ تھا۔

سلطان ایوبی نے اپنے سینئرکمانڈروں کو بلا کر اپنی فوج کو تین حصوں میں تقسیم کردیا۔ ایک حصے کو اس نے سوڈان کی سرحد پر چلے جانے کو کہا۔ اس کے کمانڈر کو یہ ہدایت دی کہ وہ سرحد سے خاصا پیچھے خیمہ زن رہے لیکن فوج کو مختلف جگہوں پر اس طرح متحرک رکھے کہ گرد اڑتی رہے اور یہ ظاہر ہو کہ فوج کی تعداد بے حساب ہے۔ سلطان ایوبی نے خصوصی

حکم دیا کہ کسی بھی وقت فوج آرام کی حالت میں نہ رہے۔ دوسرے حصے کو سکندریہ کی طرف کوچ کرنے کا حکم دیا گیا لیکن اس ہدایت کے ساتھ کہ کوچ رات کو ہوگا اور تمام پڑائو دن کے وقت ہوںگے۔ اس کے کمانڈر کو بتایا گیا کہ اسے یہ حکم بعد میں ملے گا کہ اس کی منزل کیا ہے اور آخری خیمہ گاہ کہاں ہوگی۔ تیسرے حصے کو سلطان ایوبی نے اپنے ہاتھ میں رکھا۔ اس نے کسی بھی کمانڈرکو نہ بتایا کہ یہ احکام کیوں دیئے جارہے ہیں۔ یہ سب نے دیکھا کہ تمام تر منجنیقیں اس فوج کو دی گئی تھیں جو سکندریہ کی طرف جارہی تھیں۔

اس کے ساتھ آٹھ روز بعد سلطان ایوبی قاہرہ میں نہیں تھااور نورالدین زنگی کرک میں نہیں تھا۔ وہ دونوں سکندریہ کے مشرق میں گھوم پھر رہے تھے مگر کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ دونوں کسی ملک کے حکمران اور فوجوں کے کمانڈر ہیں اور یہ وہ انسان ہیں جو صلیبیوں کے لیے سراپا دہشت بنے ہوئے ہیں۔ وہ غریب سے دوشتربان تھے جو معلوم نہیں کہاں سے آئے تھے اور کہاں جارہے تھے۔ انہوں نے ساحل پر جاکر بحیرۂ روم کی وسعت کو نظروں سے بھانپا اور ناپا۔ وہ تین چار دن میں دور دور گھوم گئے۔ سلطان ایوبی سکندریہ اور نورالدین زنگی کرک چلاگیا۔ سلطان ایوبی نے اپنے امیر البحر کو کچھ احکام دئیے اور وہ چلا گیا۔

٭ ٭ ٭

صلیبیوں کا بیڑہ مکمل خاموشی اور راز داری سے آیا۔ بیت المقدس سے صلیبیوں کی فوج چل پڑی۔ دونوں کی روانگی کے اوقات میں مطابقت تھی۔ صلیبیوں نے بڑے اچھے موسم کا انتخاب کیاتھا۔ اس موسم میں سمندر خاموش رہتا ہے۔ تلاطم اور طوفان کا خطرہ نہیں ہوتا۔ صلیبی جہازوں کے کپتانوں کو مصر کا ساحل نظر آنے لگا لیکن انہیں سلطان ایوبی کا کوئی جہازنظر نہیں آرہا تھا۔ سب سے اگلے جہاز کے کپتان نے سمندر میں ماہی گیروں کی ایک کشتی دیکھی۔ اس نے جہاز ان کے قریب کرکے اوپر سے جھک کر پوچھا… ''جنگی جہاز کہاں ہیں؟ اگر غلط بتائو گے تو تمہیں ڈبو کر مار ڈالیں گے''۔

ماہی گیروں نے کہا… ''مصر کے جہاز اس طرح نہیں رکھے جاتے۔ یہاں سے بہت دور ہیں''۔

جہاز روک کر رسہ پھینکا گیا۔ دو ماہی گیر رسے کے ذریعے جہاز پر چلے گئے۔ انہوں نے کپتان کو مصر کے جنگی جہازوں کے متعلق جو معلومات دیں، وہ یہ تھیں کہ کئی جہاز مرمت ہورہے ہیں۔ جو جہاز اچھی حالت میں ہیں وہ اتنی دور ہیں کہ سکندریہ تک پہنچتے دو دن لگیںگے کیونکہ بادبانوں اور چپوئوں کے لحاظ سے وہ کمزور اور کم رفتار ہیں۔ ماہی گیر نے جو سب سے زیادہ قیمتی بات بتائی، وہ یہ تھی کہ چونکہ سلطان ایوبی بحریہ کی طرف توجہ نہیں دیتا، اس لیے جنگی ملاح عیش وعشرت میں پڑے رہتے ہیں۔ ساحل کے ساتھ جو دیہات ہیں، وہاں چلے جاتے ہیں۔ ماہی گیروں سے مچھلیاں چھین لیتے ہیں۔

صلیبی بحریہ کے رہنما کے لیے یہ معلومات خوشخبری سے کم نہ تھیں۔ اس نے اپنا جہازروک لیا اور ایک کشتی کے ذریعے اس بیڑے کے کمانڈر کے جہاز تک گیا۔ اسے اس نے یہ معلومات دیں جو اس نے دو ماہی گیروں سے لی تھیں۔ا ن کے لیے میدان صاف تھا۔ کمانڈر نے بیڑے کو وہیں روک لیا۔ وہ شام کے بعد اندھیرے میں ساحل تک پہنچنا چاہتاتھا۔ اسے وہ جگہ بتا دی گئی تھی جہاں ساحل کے ساتھ پانی اتنا گہرا تھا کہ جہاز ریت میں پھنسے بغیر ساحل تک آسکتے تھے۔ وہاں فوج کو آسانی سے اتارا جاسکتا تھا… سکندریہ کی بندرگاہ سے ایک کشتی کھلے سمندر کی طرف چلی گئی جو بظاہر ماہی گیروں کی تھی۔ ابھی سور ج غروب نہیں ہوا تھا جب یہ کشتی بیڑے تک پہنچ گئی۔ کم وبیش اڑھائی سو جنگی جہاز سمندر میں دور دور تک بکھرے ہوئے تھے۔ ماہی گیر اپنی کشتی کو بیڑے کے درمیان لے گئے اور پوچھ کر کمانڈر کے جہاز تک پہنچ گئے۔ انہوں نے کمانڈر کو بتایا کہ سکندریہ کے اندر کوئی فوج نہیں ہے۔ صرف شہری آبادی ہے اور مصری بیڑے کے جنگی جہاز یہاں سے بہت دور ہیں… یہ ماہی گیر مسلمانوں کے جاسوس تھے۔

رات کا پہلا پہر تھا۔ جب اگلی صف کے جنگی جہاز ساحل کی طرف بڑھے اور کسی دشواری کے بغیر ساحل پر لنگر انداز ہوگئے۔ پچھلی صف کے جہاز ان کے قریب، عقب میں آئے اور لنگر ڈال دئیے۔ تیسری صف بھی قریب آگئی۔ فوج اتارنے کا انتظام غالباً یہ تھا کہ ہر ایک جہاز کو ساحل پر نہیں آنا تھا بلکہ تمام جہازوں کو ساتھ ملا کر ان میں سے فوج کو گزر کر اترنا تھا۔ سکندریہ پر خاموشی سے حملہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اطلاع کے مطابق وہاں چونکہ فوج نہیں تھی، اس لیے قبضہ مشکل نہ تھا۔ اگلے جہازوں سے جو فوج اتری، اسے سکندریہ میں داخل ہونے کا حکم دے دیاگیا اور سپاہیوں کو بتایا گیا کہ شہر ان کا اپنا ہے، کوئی مزاحمت نہیں ہوگی۔ سپاہی دوڑ پڑے۔ انہیں شہر کو لوٹنا تھا اور ان کی نظر عورتوں پر بھی تھی۔

جونہی سپاہیوں کا یہ ہجوم شہر کے قریب آیا، شہر کے باہر دائیں اور بائیں سے شعلے اٹھے جن سے رات روشن ہوگئی۔ یہ گھاس، لکڑیوں اور کپڑوں کے انبار تھے جن پر تیل ڈالا گیا تھا۔ ان سے روشنی کا کام لینا تھا۔ شہر کی گلیوں میں بھی مشعلیں جل اٹھیں اور مکانوں کی چھتوں سے تیروں کا مینہ برسنے لگا۔ صلیبی پیچھے کو بھاگے تو دائیں اور بائیں سے ان پر تیر برسنے لگے۔ ان کے لیے سنبھلنا مشکل ہوگیا۔ زخمیوں کی چیخ وپکار سے رات لرزنے لگی۔ ان صلیبیوں کی تعداد کم وبیش دو ہزار تھی۔ ان میں سے شاید ہی کوئی زندہ پیچھے گیا ہوگا۔ صلیبی فوج جو ابھی جہازوں میں تھی، اسے آگے آنے کا حکم ملا۔ جہازوں میں صلیبیوں کی منجنیقیں آتشیں گولے پھینکنے لگیں اور دور مار تیر بھی آنے لگے۔

سب سے پیچھے والے دو تین جنگی جہازوں میں سے شعلے اٹھے۔ صلیبی کپتانوں نے پیچھے دیکھا۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے سمندر سے آگے کے گولے اٹھتے ہیں اور ان کے جہازوں میں آکر گرتے ہیں۔ صلیبیوں نے خوش فہمیوں میں مبتلا ہوکر جہازوں کو ہجوم کی صورت میں اکٹھا کردیا تھا اور وہ سلطان ایوبی کے پھندے میں آگئے تھے۔ دن کے وقت اگلے جہاز کو جو ماہی گیر ملے تھے، وہ علی بن سفیان کے محکمے کے آدمی تھے۔ یہ قدرتی سی بات تھی کہ سمندر میں ماہی گیر ملے تو صلیبی کپتان نے ان سے معلومات حاصل کیں۔ ماہی گیروں نے غلط معلومات دیں۔ انہوں نے صرف یہ بات ٹھیک بتائی تھی کہ مصری بیڑہ یہاں سے دور ہے۔ وہ واقعی دور تھا۔ سلطان ایوبی نے اپنے امیر البحر کو بتا دیا تھا کہ وہ سمندر پر نظر رکھے۔ کسی بھی وقت حملہ آجائے گا۔ امیر البحر نے دیکھ بھال کا اچھا انتظام کررکھا تھا۔ اسے قبل از وقت پتا چل گیا تھا کہ صلیبی بیڑہ سمندر کے وسط تک آگیا ہے۔ چنانچہ امیر البحر اپنے چند ایک جنگی جہاز جن میں آتشیں گولے پھینکنے والی منجنیقیں تھیں، ایک طرف دور لے گیا تھا۔ اس نے بادبان بھی اتار لیے تھے اور مستول بھی، تاکہ دور سے جہاز نظر نہ آسکیں۔ ان کے بجائے اس نے ایک ایک چپو پر دو دو آدمی لگا دئیے تاکہ رفتار تیزرہے۔

شام کے بعد جب صلیبی بیڑہ ساحل کے قریب گیا تو امیر البحر نے مستول بھی چڑھا دئیے اور بادبان بھی اور چپوئوںکی رفتار بھی تیز رکھی اور اس طرح وہ صلیبی بیڑے کے عقب میں عین اس وقت پہنچ گیا جب صلیبیوں نے اپنے جہاز ایک دوسرے کے ساتھ ملا دئیے تھے۔ صلیبیوں کو د وسرا دھوکہ ان ''ماہی گیروں'' نے دیا تھا جو سکندریہ سے روانہ ہوئے تھے۔ انہوں نے صلیبی کمانڈر سے کہا تھا کہ وہا ں کے جاسوس ہیں۔ انہوں نے بتایا تھا کہ سکندریہ میں کوئی فوج نہیں۔ حقیقت یہ تھی کہ شہر کے ان مکانوں میں جو سمندر کی طرف تھے، وہاں صرف فوج تھی۔ شہریوں کو محفوظ حصے میں بھیج دیا گیا تھا۔

سلطان ایوبی کا امیر البحر بہت تھوڑے جہاز لے کر گیا تھا۔ انہوں نے نقصان تو بہت کیا لیکن دشمن کے کئی ایک جہاز بچ کر نکل گئے۔ دوسروں نے مقابلہ کیا۔ جلتے جہازوں نے رات کو دن بنا دیا تھا۔ اس روشنی میں سلطان ایوبی کے جہاز بھی نظر آنے لگے تھے۔ ان میں سے ایک جہاز صلیبیوں کی منجنیقوں کی زد میں آگیا۔ امیر البحر نے اپنے جہازوں کو پیچھے ہٹانا شروع کردیا کیونکہ دشمن جہازوں کی افراط کی سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے گھیرا ڈالنے کی کوشش کررہا تھا۔ سکندریہ میں سلطان ایوبی کے جانبازوں نے جوش میں آکر ساحل پرہلہ بول دیا اور جہازوں پر آتشیں تیر پھینکنے لگے۔ یہ جانباز مصر کی فوج کے اس تیسرے حصے کے تھے جسے سلطان ایوبی نے اپنے ہاتھ میں رکھا تھا۔ انہیں غیر فوجی لباس میں سکندریہ میں مکانوں میں مورچہ بند کیا گیا تھا اور نہایت خاموشی سے شہریوں کو دوسرے مکانوں میں منقل کردیاگیا تھا۔ صلاح الدین ایوبی عقل اور دھوکے کی جنگ لڑ رہا تھا اور کم سے کم طاقت استعمال کررہا تھا۔ اس نے ابھی خاصی نفری اپنے زیر کمان ریزرو میں رکھی ہوئی تھی۔

رات بھر یہ جنگ جاری رہی۔ سمندر میں کئی جہاز جل رہے تھے، وہاں قیامت کا منظر بنا ہوا تھا۔ صلیبی بیڑہ چونکہ زیادہ تھا بلکہ سلطان ایوبی کے جہازوں کی نسبت بہت ہی زیادہ اس لیے صلیبی جہاز تباہی سے نکل کر مسلمانوں کے جہازوں کو گھیرنے کی کوشش کررہے تھے۔ صورت گھیرے والی بن گئی تھی۔ رات کو پتا نہیں چلتا تھا کہ اپنے جہازوں کی کیفیت کیا ہے۔سلطان ا یوبی وہاں موجود تھا۔ اس نے اپنے ان جہازوں کو جنہیں اس نے محفوظہ کے طور پر رکھا ہوا تھا، حکم بھیج دیا کہ صلیبی جہازوں کو دور کا چکر کاٹ کر الجھائیں۔ رات کے پچھلے پہر باقی جہاز بھی معرکے میں شریک ہوگئے۔ اس میں بہادری تو ان ملاحوں کی تھی جو چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں اپنے جہازوں کو تیر، آتش گیر مادہ اور گولے پہنچا رہے تھے۔ اپنے جہازوں کو ڈھونڈنا بہت ہی مشکل کام تھا۔

صبح طلوع ہورہی تھی۔ جب امیر البحر ایک کشتی میں ساحل پر آیا۔ اس کے ساتھ چند ایک بحری سپاہی تھے۔ امیر البحر کے کپڑے خون سے لال تھے اور اس کی ایک ٹانگ جھلسی ہوئی تھی۔ اس کا جہاز نذرآتش ہوگیا تھا اور وہ چند ایک جوانوں کو سمندر سے نکال لایا تھا۔ اس نے سلطان ایوبی کو بڑی عجلت میں معرکے کی صورتحال بتائی جو مختصر یہ تھی کہ اس کے آدھے جہاز تباہ ہوچکے تھے لیکن صلیبیوں کو اتنا زیادہ نقصان پہنچایا جاچکا تھا کہ وہ زیادہ دیر لڑنے کے قابل نہیں تھے۔ سلطان ایوبی نے اسے بتایا کہ باقی جہازوں کو بھی بھیج دیا گیا ہے۔ یہ اقدام امیر البحر کی خواہش اور ضرورت کے عین مطابق تھا۔ اس نے سلطان ایوبی سے کہا… ''صلیبیوں کو سب سے زیادہ نقصان وہ بوجھ دے رہا ہے جو انہوں نے جہازوں میں لاد رکھا ہے۔ رسد کے علاوہ ان کے جہازوں میں فوج بھی ہے اور بعض جہازوں میں گھوڑے ہیں۔ اس بوجھ کی وجہ سے ان کے جہاز رفتار میں نہیں آتے اور گھومنے میں دیر لگاتے ہیں۔ میرے جہاز خالی ہیں''۔

امیر البحر اتنا زیادہ زخمی تھا کہ اس کا سر ڈول رہا تھا۔ سلطان ایوبی نے اپنے طبیب اور جراح کو بلایا مگر امیر البحر نے پروانہ کی۔ سلطان ایوبی کا ہیڈکوارٹر ساحل کے چٹانی علاقے میں تھا۔ وہ ایک اونچی چٹان پر کھڑے تھے۔ سورج کی پہلی کرنوں نے سمندر اور ساحل کا جومنظر دکھایا وہ ہیبت ناک تھا۔ جہاں تک نظر جاتی تھی، سمندر میں جہازمست سانڈوں کی طرح سمندر کو چیر رہے تھے۔ بہت سے جہاز جل رہے تھے۔ بعض مستول ٹوٹ جانے اور بادبان بے کار ہوجانے سے ایک ہی جگہ کھڑے ہچکولے کھا رہے تھے۔سمندر میں بہت سے انسان تیرتے نظر آرہے تھے اور موجیں لاشوں کو ساحل پر پٹخ رہی تھیں، اپنے جہازوں کا کچھ پتا نہیں چلتا تھا۔ دور مغرب کی طرف سمندر سے مستولوں کے بالائی حصے ابھرے، پھر بادبان نظرا ئے۔ جہاز ایک صف میں ایک دوسرے سے دور دور معرکے کی طرف بڑھے آرہے تھے۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''تمہارے جہاز آرہے ہیں''… اس نے ادھر دیکھا، وہاں امیر البحر نہیں تھا۔

امیر البحر اپنے جہازوں کو آتا دیکھ کر سلطان کو بتائے بغیر چٹان سے اتر گیا تھا۔ سلطان ایوبی کو وہ اس وقت نظر آیا جب وہ ایک کشتی میں بیٹھ چکا تھا اور کشتی کا بادبان کھل چکا تھا۔ یہ دس چپوئوں کی کشتی تھی۔ سلطان ایوبی نے چلا کر اسے پکارا… ''سعدی! تم واپس آجائو۔ میں نے تمہاری جگہ ابوفرید کو بھیج دیا ہے''۔

امیر البحر دور نکل گیا تھا۔ اس نے بلند آواز سے کہا… ''یہ میری جنگ ہے۔ خدا حافظ''… اور اس کی کشتی دور ہی دور ہٹتی گئی پھر نظروں سے اوجھل ہوگئی۔

قاصد نے سلطان ایوبی کو اطلاع دی کہ سکندریہ سے شمال مشرق کی طرف تین میل دور صلیبیوں کی کچھ فوج اتر آئی ہے اور وہاں خون ریز معرکہ لڑا جارہا ہے۔ سلطان ایوبی نے وہاں جانے کے بجائے کچھ احکام جاری کردئیے اور سمندری جنگ کو دیکھتا رہا… اور اس نے یہ منظر بھی دیکھا کہ صلیبیوں کا ایک جہاز ساحل کے ذرا قریب آگیا تھا۔ سلطان ایوبی کے بیڑے کا ایک جہاز اس کے قریب آنے کی کوشش کررہا تھا۔ صلیبیوں نے تیروں کی بوچھاڑ ماری لیکن مسلمان ملاحوں نے پرواہ نہ کی۔ وہ اپنے جہاز کو صلیبی جہاز کے اتنا قریب لے آئے کہ کود کر اس میں چلے گئے اور دست بدست لڑ کر جہاز پر قبضہ کرلیا مگر یہ معرکہ اتنا سہل نہ تھا۔ جیسا بیان کیا گیا ہے۔ مسلمان بحریہ کے سرفروشوں نے خون اور جان کی بے دریغ قربانی دی۔ وہ تین تین چار چار جہازوں کے گھیرے میں لڑے۔ دشمن کے جہازوں میں کود کود کر لڑے۔ تیروں سے چھلنی ہوئے مگر اس طرح معرکے میں سے نکلنے کی نہ سوچی، جس طرح صلیبی اپنے جہاز نکالنے کی کوشش کررہے تھے۔

صلیبیوں کی کمر رات کو ہی ٹوٹ گئی تھی۔ ان کے کمانڈر صلیب کا حلف پورا کررہے تھے اور انہیں صبح تک یہ امید لڑاتی رہی کہ وہ سلطان ایوبی کی قلیل سی بحری قوت پر قابو پالیں گے لیکن اگلے دن کے پچھلے پہر تک ان کی کیفیت اتنی بگڑ چکی تھی کہ جہاز بکھر کر ادھر کو ہی جارہے تھے، جدھر سے آئے تھے۔ وہ اپنی زیادہ تر قوت مسلمانوں کے ہاتھوں تباہ کرگئے تھے اور ان کی جو تھوڑی سی فوج ساحل پر اتری تھی، وہ سکندریہ سے تین چار میل دور شمال مشرق میں کچھ کٹ گئی تھی، باقی نے ہتھیار ڈال دئیے تھے۔ سلطان ایوبی کی فوج کا دوسرا حصہ ابھی جنگ میں شریک ہی نہیں ہوا تھا۔ سلطان ایوبی کے پاس قاصد آرہے تھے، جارہے تھے اور جب اسے یقین ہوگیا کہ صلیبی ناکام ہوگئے ہیں تو اس نے فوج کے دوسرے حصے کو ایک اور محاذ دے دیا۔ عمران کی اطلاع کے مطابق بیت المقدس کی طرف سے بھی صلیبی فوج کو آنا تھا۔ اس کے لیے نورالدین زنگی گھات میں تھا، تاہم پیش بندی کے طور پر سلطان ایوبی نے دفاع مضبوط کرلیا۔ تیسرے حصے کو جو اس نے اپنے زیرکمان ریزرو میں رکھا تھا، ان صلیبیوں کو پکڑنے پر لگا دیا جو سمندر سے نکل رہے تھے۔

سورج کی آخری کرنوں نے سلطان ایوبی کو یہ منظر دکھایا کہ صلیبیوں کے وہی جہاز نظر آرہے تھے جو جل چکے تھے اور ابھی ڈوبے نہیں تھے یا وہ جنہیں پکڑ لیا گیا تھا یا ان جہازوں کے بادبان نظر آرہے تھے جو واپس جاتے ہوئے دور ہی دور ہٹتے جارہے تھے۔ اس کی اپنی بحریہ کے جہاز جو بچ گئے تھے، ساحل کی طرف آرہے تھے۔ دیکھنے والوں نے اندازہ لگایا کہ سلطان کی آدھی بحریہ مصر پر قربان ہوگئی تھی۔ کشتیاں ساحل پر آرہی تھیں۔ ان میں اپنے بحری سپاہی آتے تھے جو زخمی تھے یا سمندر سے نکالے گئے تھے۔ ان کے جہاز تباہ ہوگئے تھے۔ ایک کشتی اس چٹان کے قریب آکے ساحل سے لگی جس پر سلطان ایوبی کھڑا تھا۔ اس میں کسی کی لاش تھی۔ سلطان ایوبی نے بلند آواز سے پوچھا… ''یہ کس کی لاش ہے؟''

''امیرالبحر سعدی بن سعد کی''۔ ایک ملاح نے جواب دیا۔

سلطان ایوبی دوڑ کر نیچے اترا۔ لاش سے کپڑا ہٹایا۔ اس کے امیر البحر کی لاش خون سے لال ہوچکی تھی۔ ملاحوں نے بتایا کہ امیر البحر نے ایک جہاز تک پہنچ کر بحریہ کی کمان لے لی تھی اور جنگ لڑاتے رہے۔ انہوں نے اس جہاز پر اپنی کمان کا جھنڈا چڑھا دیا تھا۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ صلیبیوں کے چار جہازوں نے انہیں گھیر لیا۔ا ن میں سے دو تباہ ہوئے اور امیرالبحر کا جہاز بھی تباہ ہوگیا۔ اس وقت تک معرکہ ختم ہوچکا تھا… سلطان ایوبی نے امیرالبحر کی لاش کا ہاتھ چوما اور کہا… ''تم سمندر کے فاتح ہو، میں کچھ بھی نہیں''۔

اس نے جہاں یہ حکم دیا کہ دشمن کے جو جہاز پیچھے رہ گئے ہیں، ان سے سامان نکالا جائے، وہاں جذباتی لہجے میں کہا… ''تمام کشتیاں سمندر میں ڈال دو اور کسی شہید کی لاش سمندر میں نہ رہنے دو۔ انہیں یہیں دفن کرنا جہاں بحیرۂ روم کی ہوائیں ان کی قبروں کو ٹھنڈی رکھیں''۔

بحری شہیدوں کی تعداد کم نہیں تھی۔

٭ ٭ ٭

بیت المقدس سے صلیبیوں کی فوج کوچ کرچکی تھی اور آدھا راستہ طے کرآئی تھی۔ انہیں کچھ خبر نہیں تھی کہ ان کی بحریہ اپنے انجام کو پہنچ چکی ہے۔ اس کے قلب میں صلیبیوں کا مشہور جنگجو حکمران ریجنالٹ تھا۔ اس فوج کے بھی تین حصے تھے۔ ایک آگے تھا، دوسرا کچھ دور پیچھے درمیان میں اور تیسرا بہت دائیں کو ہٹ کر آرہا تھا۔ اس کی متحدہ کمان ریجنالٹ کے پاس تھی اور اسے یہ توقع تھی کہ وہ سلطان ایوبی کو بے خبری میں جالے گا۔ تصوروں میں اسے قاہرہ نظر آرہا تھا۔ گھوڑا گاڑیوں کے قافلے، رسد بھی ساتھ لا رہے تھے۔ سکندریہ سے بہت دور شمال مشرق میں ایک وسیع خطہ ریت اور مٹی کے ٹیلوں اور نشیب وفراز کا ہوا کرتا تھا۔ آٹھ صدیوں نے اس خطے کو اب ویسا نہیں رہنے دیا۔ اس کے قریب باقی علاقہ صحرا تھا اور اس صحرا میں پانی بھی تھا۔ ریجنالٹ نے ایک پڑائو وہاں کیا۔ اس کی فوج کا اگلاحصہ آگے نکل گیا تھا۔ دائیں طرف والا حصہ دور تھا۔ آدھی رات کا وقت ہوگا۔ ریجنالٹ کے کیمپ میں قیامت بپا ہوگئی۔ اس کے کچھ بھی پلے نہ پڑا کہ یہ قیامت آسمان سے ٹوٹی ہے یا اس کی اپنی فوج نے بغاوت کردی ہے۔

اس کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ وہ نورالدین زنگی کی گھات میں آگیا ہے۔ زنگی نے کئی دنوں سے اپنی فوج کو ٹیلوں اور نشیب وفراز کے اس علاقے میں لاکے بٹھا رکھا تھا۔ اس نے یہ سوچا تھا کہ یہاں پانی قریب ہے، اس لیے صلیبی یہاں پڑائو کریں گے۔ صلیبی فوج کا اگلا حصہ آگے نکل گیا تو زنگی کے کمانڈروں کو مایوسی ہوئی۔ انہیں یہ حکم دیا گیا تھا کہ رات کو پڑائو پر حملہ کرنا ہے۔ وہاں پڑائو نہ ہوا۔ بہت دیر بعد انہیں دور سے گرد کے بادل نظر آئے تو وہ سمجھے کہ آندھی آرہی ہے۔ صحرائی آندھی بڑی خوفناک ہوا کرتی ہے لیکن یہ آندھی نہیں صلیبی فوج کا درمیانی حصہ تھا جو اسی جگہ آکر رک گیا، جہاں نورالدین زنگی کو توقع تھی۔ صلیبیوں نے خیمے نہ لگائے کیونکہ انہیں صبح کوچ کرنا تھا۔ جانوروں کو الگ باندھ دیا گیا اور پھر سورج ڈوب گیا۔

آدھی رات کو زنگی کے دستے جو گھات میں تھے، باہر آئے، یہ سب سوار تھے۔ انہوں نے پہلے تو اندھیرے میں تیروں کا مینہ برسایا اور جب سوئے ہوئے سپاہیوں میں بھگدڑ مچی تو سواروں نے گھوڑے سرپٹ دوڑا دئیے۔ وہ اندھا دھند برچھیاں اور تلواریں چلاتے گئے اور آگے نکل گئے۔ صلیبی سنبھلنے نہ پائے تھے کہ سواروں نے پھر ہلہ بول دیا۔ صلیبیوں کے بندھے ہوئے گھوڑوں کی رسیاں کھول دی گئیں۔ یہ سب بھاگ اٹھے۔ ریجنالٹ وہاں سے بھاگ گیا اور دائیں حصے والی فوج میں جاپہنچا۔ یہ حصہ کہیں دور پڑائو کیے ہوئے تھا۔ نورالدین زنگی اسی طرف تھا۔ اس ساری فوج کی رسد پیچھے آرہی تھی۔ زنگی نے اس کے لیے الگ دستے مقرر کررکھے تھے۔ انہوں نے صبح تک رسد پر قبضہ کرلیا۔ دائیں والا حصہ رات کو ہوشیار ہوگیا تھا۔ ریجنالٹ اسے اپنے حصے کی طرف لانے لگا کیونکہ وہ اسی جگہ کو میدان جنگ سمجھتا تھا۔ صبح کے دھندلکے میں یہ فوج چل پڑی۔ نورالدین زنگی نے عقب سے اس کے پہلو پر حملہ کردیا۔ اس کے بعد اس فوج کو معلوم ہی نہ ہوسکا کہ اس پر کس طرف سے حملے ہورہے ہیں۔ سلطان ایوبی کی طرح زنگی بھی جم کر نہیں لڑتا تھا۔ چھوٹے چھوٹے دستوں سے حملے کراکے صلیبیوں کو بکھیرتا جارہا تھا۔

اس نے رات کو سلطان ایوبی کی طرف قاصد بھیج دیا تھا۔ ان دونوں نے سکیم پہلے ہی بنا رکھی تھی۔ زنگی کا ہر عمل اور اقدام اور دشمن کا ردعمل ان کی سکیم کے عین مطابق تھا۔ ریجنالٹ نے اپنی فوج کے اگلے حصے کو پیچھے آنے کا پیغام بھیجا۔ چار روز ریجنالٹ اور زنگی میں لامحدود وسعت میں معرکے ہوتے رہے۔زنگی نے صلیبیوں کو بکھیر لیا تھا اور ''ضرب لگائو اور بھاگو'' کے اصول پر لڑ رہا تھا۔ صلیبیوں کی فوج کا آگے والا حصہ واپس ہوا تو رات کو اس کے عقب پر حملہ ہوا۔ یہ سلطان ایوبی کے چھاپہ مار تھے۔ انہوں نے دو تین شب خون مارے اور غائب ہوگئے۔ پھر یہ سلسلہ چلتا رہا۔ صلیبی آمنے سامنے کی جنگ لڑنے کی کوشش کررہے تھے لیکن سلطان ایوبی انہیں کامیاب نہیں ہونے دے رہا تھا۔ یہ طریقہ آسان نہیں تھا۔ چھاپہ مار اگر ایک سو کی تعداد میں جاتے تھے تو بمشکل ساٹھ واپس آتے تھے۔ اس کے لیے خصوصی مہارت، دلیری اور تیزی کی ضرورت تھی جو سلطان ایوبی نے اپنے چھاپہ مار دستوں میں پیدا کررکھی تھی۔

جنگ بہت دور دور تک پھیل گئی۔ صلیبی فوج میں نہ جمعیت رہی، نہ مرکزیت۔ انکی رسد زنگی کے قبضے میں آگئی تھی۔ میدان جنگ میں نہ کوئی سامنا، نہ عقب۔ صلیبی اس جنگ کی سوجھ بوجھ نہیں رکھتے تھے جو مسلمان لڑ رہے تھے۔ پھر کیفیت یہ ہوگئی کہ جو صلیبی سپاہی بھاگ سکے، بھاگ گئے اور جن میں تاب نہ رہی، وہ ہتھیار ڈالنے لگے۔ ریجنالٹ ہار ماننے کو تیار نہیں تھا۔ اس نے کسی اور جگہ کچھ فوج اکٹھی کرلی اور اسے یہ بھی پتا چل گیا کہ زنگی کہاں ہے۔ اس نے نہایت اچھی سکیم سے وہاں حملہ کردیا۔ یہ ایک بڑاہی سخت معرکہ تھا۔ صلیبی زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے تھے۔ ریجنالٹ کی چالیں اور اپنی فوج پر کنٹرول بہت اچھا تھا مگر چوتھی پانچویں رات زنگی کے شب خون مارنے والے ایک دستے کے چند ایک جانبازوں نے جان کی بازی لگا دی اور ریجنالٹ کی ذاتی خیمہ گاہ پر جا شب خون مارا۔ یہ زنگی کی سکیم کے تحت اقدام کیا گیا تھا۔ زنگی نے چھاپہ ماروں کی للکار پر حملہ کردیا۔ اس دور میں رات کے وقت لڑائی نہیں لڑی جاتی تھی۔ یہ طرح مسلمانوں نے ڈالی تھی کہ رات کو بھی حملے جاری رکھتے تھے۔

صبح طلوع ہوئی تو صلیبیوں کا سپریم کمانڈر ریجنالٹ قیدی کی حیثیت سے نورالدین زنگی کے سامنے کھڑا تھا اور زنگی اسے اپنی شرائط بتا رہا تھا۔ یہ صلیبی کمانڈر ہر شرط ماننے پر آمادہ تھا لیکن بات جب بیت المقدس پر آئی تو ریجنالٹ نے انکار کردیا۔ زنگی نے اسے کہا تھا کہ بیت المقدس ہمارے حوالے کردو اور آزاد ہوجائو… شام تک سلطان ایوبی بھی آگیا۔ ریجنالٹ کو پورے احترام کے ساتھ رکھا گیا تھا۔ سلطان ایوبی اسے بغل گیر ہوکر ملا۔

''آپ عظیم سپاہی ہیں''۔ ریجنالٹ نے سلطان ایوبی سے کہا۔

''یوں کہو کہ اسلام عظیم مذہب ہے''۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا… ''سپاہی وہی عظیم ہوتے ہیں جن کا مذہب عظیم ہوتا ہے''۔

''محترم ریجنالٹ نے مجھ سے پوچھا تھا کہ ان کا بحری بیڑہ نہیں آیا تھا؟'' نورالدین زنگی نے سلطان ایوبی سے کہا… ''انہیں صحیح جواب تم ہی دے سکتے ہو۔ میں تو یہاں تھا''۔

''آپ کا بحری بیڑہ پورے طمطراق سے آیا تھا''۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''اور واپس بھی چلا گیا ہے۔ آپ کے بہت سے جہاز سمندر کی تہہ میں ہوں گے اور جو ڈوبے نہیں، ان کے جلے ہوئے ڈھانچے سمندر پر تیر رہے ہیں جو فوج جہازوں سے اتر آئی تھی، وہ واپس نہیں جاسکی۔ ہم نے آپ کی تمام لاشیں پورے احترام سے دفن کردی ہیں''… سلطان ایوبی اسے جنگ کی صورتحال سنا رہا تھا کہ ریجنالٹ کی آنکھیں اور منہ کھلتا جارہا تھا۔ اسے یقین بھی نہیں آرہا تھا کہ یہ روئیداد سچی ہے۔

''اگریہ سچ ہے تو آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ یہ کیونکر ممکن ہوا؟''… ریجنالٹ نے پوچھا۔

''یہ راز اس روز آپ پر فاش کروں گا جس روز فلسطین سے صلیب کا آخری سپاہی بھی نکل جائے گا''… نورالدین زنگی نے کہا… ''آپ کی یہ شکست آخری نہیں، کیونکہ آپ اس سرزمین سے نکلنے پر آمادہ نظر نہیں آتے''۔

''میں آپ کو اپنے علاقے دے دوں گا''۔ ریجنالٹ نے کہا… ''مجھے رہا کردیں۔ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ بھی کروں گا۔ آپ کی سلطنت بہت وسیع ہوجائے گی''۔

''ہمیں اپنی سلطنت کی ضرورت نہیں''۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''ہمیں خدا کی سلطنت قائم کرنی ہے۔ اسلام کی سلطنت جس کی وسعت کا آپ تصور بھی نہیں کرسکتے۔ آپ کا مقصود اسلام کی بیخ کنی ہے جو ممکن نہیں۔ آپ نے فوجیں استعمال کردیکھی ہیں۔ بحری بیڑہ بھی آزمالیا ہے۔ اپنی بیٹیوں کو استعمال کردیکھا ہے۔ آپ نے ہماری قوم میں غدار بھی پیدا کیے ہیں۔ گزشتہ ایک صدی میں آپ نے کتنی کامیابی حاصل کی ہے؟''

''کیا یہ میں آپ کو یاد دلائوں کہ ہم نے اسلام کو کہاں کہاں سے نکالا ہے؟'' ریجنالٹ نے کہا… ''اسلام تو بحیرۂ روم کے پاس پہنچ گیاتھا۔ سپین سے اسلام کی پسپائی کیوں ہوئی؟ روم آپ کے ہاتھ سے کیوں نکلا؟ سوڈان آپ کا کیوں دشمن ہوا؟ صرف اس لیے کہ ہم نے تمہارے اسلام کے محافظوں کو خرید لیا تھا۔ آج بھی تمہارے حکمران بھائی ہمارے زر خرید غلام ہیں۔ ان کی ریاستوں میں مسلمان رہ گئے ہیں، اسلام ختم ہوگیا ہے''۔

''ہم وہاں اسلام کو زندہ کریں گے دوست!''۔ سلطان ایوبی نے کہا۔

''آپ خواب دیکھ رہے ہیں، صلاح الدین ایوبی!'' ریجنالٹ نے کہا… ''آپ دونوں کب تک زندہ رہیں گے؟ کب تک لڑنے کے قابل رہیں گے؟ اسلام کی پاسبانی کب تک کرو گے؟ میں آپ دونوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ آپ سچے دل سے اپنے مذہب کے پاسبان اور بہی خواہ ہیں لیکن آپ کی قوم میں مذہب کو نیلام کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے اورہم خریدار ہیں۔ اگر آپ ہمارے ساتھ جنگ وجدل کے بجائے اپنی قوم کو زرپرستی، لذت پرستی اور تعیش پسندی سے بچانے کی مہم چلائیں تو ہم یہاں ایک دن نہ ٹھہر سکیں گے مگر میرے دوستو! آپ اس مہم میں کامیاب نہیں ہوں گے جس کی وجہ یہ ہے کہ عیاشی آپ کی قوم میں نہیں آئی بلکہ قوم کے سربراہ اورحکمران عیاش ہوگئے ہیں۔ اس حقیقت سے آپ چشم پوشی نہ کریں کہ جو برائی حکمرانوں کی طرف سے شروع ہوتی ہے وہ قوم میں رواج کی صورت اختیار کرجاتی ہے۔ اسی لیے ہم نے آپ کے حکمرانوں کو اپن یجال میں پھانسا ہے اور میں آپ کو یہ بھی بتا دوں کے مجھے قتل کردیں۔ مجھ جیسے چند اور صلیبی حاکموں کو قتل کردیں، اسلام کو بہرحال ختم ہونا ہے۔ ہم نے جس مرض کا زہر آپ کی قوم کی رگوں میں ڈال دیا ہے، وہ بڑھے گا، کم نہیں ہوگا''۔

وہ ایسی حقیقت بیان کررہا تھا جس سے نورالدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی انکار نہیں کرسکتے تھے۔ تاہم وہ صلیبیوں پر بہت بڑی فتح حاصل کرچکے تھے اور ایک صلیبی بادشاہ جو صلیبیوں کا سپریم کمانڈر تھا، ان کے پاس جنگی قیدی تھا۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے قیدی ہاتھ آئے تھے۔ یہ صرف ایک جاسوس کا کارنامہ تھا جو عکرہ سے اس حملے کی خبر بروقت لے آیا تھا۔

٭ ٭ ٭

ریجنالٹ اور دوسرے تمام جنگی قیدیوں کو نورالدین زنگی کرک لے گیا اور سلطان ایوبی اس سے رخصت ہوکر قاہرہ چلا گیا۔ اس نے سوچا تک نہ تھا کہ وہ ا ب نورالدین زنگی سے کبھی نہیں مل سکے گا۔ وہ اس مسرت کے ساتھ قاہرہ گیا کہ زنگی ریجنالٹ جیسے قیمتی قیدی کو بڑی سخت شرائط منوائے بغیر نہیں چھوڑے گا۔ نورالدین زنگی نے بھی ذہن میں کچھ منصوبے بنائے ہوں گے مگر خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ مارچ ١١٧٤ء کے ابتدائی دن تھے کہ بغداد کے کسی علاقے میں شدید زلزلہ آیا جس نے چھ سات دیہات کو تباہ کردیا۔ بغداد میں بھی نقصان ہوا۔ مورخوں نے اسے تاریخ کا سب سے زیادہ تباہ کن زلزلہ کہا ہے۔ نورالدین زنگی کے دل میں اپنے عوام کے ساتھ اتنی محبت تھی کہ ان کی امداد کے احکام جاری کرنے کے بجائے خود کرک سے چل پڑا۔ وہ ان کی دستگیری اپنی نگرانی میں کرنا چاہتا تھا، ویسے بھی اسے کرک سے جانا تھا۔ بغداد اور اردگرد کے حالات اچھے نہیں تھے۔ وہ کرک سے ریجنالٹ اور دوسرے صلیبی قیدیوں کو بھی ساتھ لیتا گیا۔

بغداد پہنچ کر اس نے سب سے پہلے زلزلے کا شکار ہونے والے لوگوں کی طرف توجہ دی۔ دارالخلافے سے باہر رہنے لگا۔ وہ دل وجان سے اپنے لوگوں کی مدد کرتا رہا۔ جہاں رات آتی وہیں رک جاتا۔ اس نے کھانے کی پروا نہ کی کہ کیسا ملتا ہے اور کس کے ہاتھ کا پکا ہوتا ہے۔ اسے تباہ حال لوگوں کی خوش حالی کا غم کھائے جارہا تھا۔ اپریل کے آخر تک اس نے تمام متاثرین کو آباد کردیا۔ جب ذرا فرصت ملی تو اس نے اپنے طبیب کو بتایا کہ وہ اپنے گلے کے اندر درد محسوس کرتا ہے۔ طبیب نے دوا دارو کیا لیکن حلق میں سوزش بڑھتی گئی۔ طبیبوں نے بہت علاج کیا لیکن مرض کا یہ عالم ہوگیا کہ وہ بات کرنے سے بھی معذور ہوگیا اور مئی ١١٧٤ کے پہلے ہفتے میں خاموشی سے جان جانِ آفرین کے سپرد کردی۔

یورپی مورخوں نے لکھا ہے کہ زنگی کو خناق کا عارضہ لاحق ہوگیا تھا لیکن بعض مورخوں نے وثوق سے لکھا ہے کہ زنگی کو حسن بن صباح کے فدائیوں نے زہر دیا تھا۔ ان دنوں جب زنگی زلزلے سے تباہ کیے ہوئے دیہات میں بھاگتا دوڑتا رہتا اور اس کے کھانے کے اوقات اور پکانے کے طورطریقے بے قاعدہ ہوگئے تھے۔فدائیوں نے اسے کھانے میں ایسا زہر دینا شروع کردیا تھا جس کا ذائقہ محسوس نہیں ہوتا تھا۔ یہ زہر حلق کی ایسی سوزش کا باعث بنا، جسے طبیب سمجھ ہی نہ سکے۔ جنرل محمد اکبر خان )رنگروٹ( نے اپنی انگریزی کتاب ''گوریلا وارفیئر'' میں کئی بڑے بڑے اور مستند مورخوں کے حوالے سے اسی کی تصدیق کی ہے کہ نورالدین زنگی فدائیوں کا شکار ہوا تھا۔

زنگی کوئی وصیت نہ کرسکا۔ سلطان ایوبی کو کوئی پیغام نہ بھیج سکا۔ سلطان ایوبی کو اس وقت اطلاع پہنچی جب زنگی دفن ہوچکا تھا۔ دوسرے ہی دن بغداد سے ایک اور قاصد یہ اطلاع لے کے آیا کہ نورالدین زنگی کی وفات کے ساتھ ہی موصل، حلب اور دمشق کے امراء نے خودمختاری کا اعلان کردیا ہے ا ور سلطان ایوبی کو یہ اطلاع بھی ملی کہ بغداد کے امراء وزاء نے نورالدین زنگی کے بیٹے الملک الصالح کو جس کی عمر صرف گیارہ سال تھی، سلطنت اسلامیہ کا خلیفہ مقرر کردیاہے۔ سلطان ایوبی سمجھ گیا کہ یہ امراء نابالغ خلیفہ کو کس راستے پر ڈالیں گے اور وہکیا گل کھلائیں گے۔

سلطان ایوبی نے علی بن سفیان کو بلایا اور کہا… ''تم نے پانچ مہینے گزرے، مجھے اطلاع دی تھی کہ عکرہ میں اپنا ایک جاسوس شہید ہوگیا اور دوسرا پکڑا گیا ہے تو میرا دل بیٹھ گیا تھا اور مجھے ایسے محسوس ہونے لگا جیسے صلیبیوں کا یہ سال دنیائے اسلام کے لیے اچھا نہیں ہوگا… بیٹھ جائو۔ میری باتیں غورسے سنو۔ اب ہمیں اپنے بھائیوں کے خلاف لڑنا پڑے گا''۔

٭ ٭ ٭

اسکے ساتھ ھی اسلام کی پاسبانی کب تک کروگے بھی حتم ھوا
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

اسلام کی بقا کچے دھاگے سے لٹک رہی تھی

Post by ایکسٹو »

اسلام کی بقا کچے دھاگے سے لٹک رہی تھی

مئی ١١٧٤ء کا دن دنیائے اسلام کا ایک تاریک دن تھا۔ نورالدین زنگی کی میت کو ابھی غسل بھی نہیں دیا گیا تھا کہ بہت سے انسانوں کے چہرے مسرت سے چمک اٹھے تھے۔ یہ صلیبی نہیں تھے، یا یوں کہیے کہ صرف صلیبی نہیں تھے جو زنگی کے انتقال پر پرسرور تھے، ان میں مسلمان بھی تھے جو صلیبیوں کی نسبت کچھ زیادہ ہی خوش نظر آتے تھے۔ یہ مسلمان ریاستوں اور جاگیروں کے امراء اور حاکم تھے۔ وہ سب زنگی کے گھر جمع ہوگئے تھے۔ وہ جنازے کے لیے آئے تھے۔ ان میں سے بعض بے چین تھے جیسے زنگی کے انتقال سے غم زدہ ہوں مگر بے چینی یہ تھی کہ وہ زنگی کو شام سے پہلے پہلے دفن کردینا چاہتے تھے۔ وہ اکٹھے تو ہوگئے تھے لیکن ان کے دل پھٹے ہوئے تھے۔ وہ ایک دوسرے کو شکی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ ان لوگوں کا مذہب ایک، خدا ایک، رسول ایک، قرآن ایک اور دشمن ایک تھا مگر ہر ایک کا دل دوسرے سے الگ اور جدا تھا۔ ان کی مثال ایک درخت کی ٹہنیوں کی سی تھی جو ٹوٹ کر درخت سے الگ ہوگئی ہوں اور اب الگ الگ اپنے آپ کو ہرا بھرا رکھنے کی توقع لیے ہوئے ہوں۔

وہ دور دراصل جاگیرداری اور نوابی کا تھا۔ بعض مسلمان ریاستیں ذرا وسیع تھیں اور باقی چھوٹی چھوٹی… ان کے حکمران امیر کہلاتے تھے۔ یہ لوگ مرکزی خلاف کے تحت تھے۔ اسلام کے کسی بھی دشمن کے خلاف جنگ ہو تو یہ امراء خلافت کو مالی اور فوجی مدد دیتے تھے مگر یہ مدد صرف مدد تک محدود رہتی تھی، اس میں کوئی ملی جذبہ نہیں ہوتا تھا۔ وہ امن اور سکون سے عیش وعشرت کرنے کی خاطر خلافت کا مطالبہ پورا کردیتے تھے۔ عیش وعشرت کی خاطر وہ اپنے سب سے بڑے )بلکہ واحد( دشمن صلیبیوں سے درپردہ دوستی کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے۔ ان میں سے بعض نے صلیبیوں کے ساتھ درپردہ معاہدے کر بھی رکھے تھے لیکن نورالدین زنگی کا وجود صلیبیوں کے راستے میں ایک چٹان تھا۔ وہ مسلمان امراء کو کئی بار شرمسار کرچکا تھا اور اس نے انہیں ذہن نشین کرانے کی سرتوڑ کوشش کی تھی کہ صلیبی انہیں اسلامی وحدت سے توڑ کر ہڑپ کرتے جائیں گے مگر صلیبیوں کی مہیا کی ہوئی یورپی شراب، نوجوان لڑکیوں اور سونے کی اینٹوں میں اتنی قوت تھی، جس نے ان کے کان بند اور عقل سربمہر کررکھی تھی۔ زنگی کی آواز جیسے پتھروں سے ٹکرا کر واپس آجاتی تھی۔

وہ سب سے پہلے جاگیردار اور نواب تھے، امیر اور حاکم تھے اور ان کے بعد اگر مذہب کی بات چل نکلے تو وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے تھے۔ ان کا اگر دین تھا تو وہ ان کی ریاستیں اور جاگیریں تھیں۔ یہی ان کا ایمان تھا۔ وہ اسلامی وحدت کے قائل نہیں تھے۔ جنگ کے سخت خلاف تھے کیونکہ انہیں خطرہ محسوس ہونے لگتا تھا کہ صلیبی ان کی جاگیروں پر قبضہ کرلیں گے۔ ان کے علاوہ ان کے دلوں میں یہ ڈر بھی تھا کہ ان کی رعایا نے اپنے دشمن کو پہچان لیا تو اس میں روحانی بیداری اور قومی وقار بیدار ہوجائے گا، پھر رعایا ان کی نوابی کے لیے خطرہ بن جائے گی۔ حقیقت یہ تھی کہ رعایا ان کے لیے مستقل خطرہ تھی۔ لوگوں میں قومی وقار موجود تھا۔ زنگی کی فوج انہیں لوگوں کی فوج تھی۔ اس کے مجاہدوں نے دس گنا دشمن کا مقابلہ بھی کیا تھا۔ یہ جذبے کا کرشمہ تھا۔ امراء کو یہ جذبہ ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا۔ لہٰذا وہ زنگی کو بھی پسند نہیں کرتے تھے اور صلاح الدین ایوبی کو تو وہ اپنا دشمن سمجھتے تھے۔ اب زنگی فوت ہوگیا تو وہ خوش تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ اس قوم میں اب کوئی زنگی نہیں رہا اور جہاد بھی زنگی کے ساتھ ہی دفن ہوجائے گا۔

زنگی دفن ہوگیا، صلیبیوں پر مسلمانوں کی جو دہشت طاری تھی، وہ ختم ہوگئی۔ ان کے دل میں اب صلاح الدین ایوبی کا کانٹا رہ گیا تھا جس کے متعلق اب وہ اتنے فکر مند نہیں تھے، جتنے زنگی کی زندگی میں تھے۔ اب سلطان ایوبی اکیلا رہ گیا تھا۔ اسے مدد اور کمک دینے والا زنگی مرگیا تھا۔ صلیبیوں کو اصل خوشی تو اس پر ہوئی کہ زنگی کے بعد سرکردہ امراء وزاء نے زنگی کے کمسن بیٹے الملک الصالح کو گدی پر بٹھا دیا تھا جس کی عمر گیارہ سال تھی۔ یہ انتخاب ان امراء نے کیا تھا جو در پردہ صلیبیوں کے دوست تھے۔ ان طرح سلطانی کی گدی صلیبیوں کے ہاتھ آگئی تھی۔ ان امراء میں گمشتگین نام کا ایک امیر جو دراصل قلعہ دار )قلعے کا گورنر( تھا اور دوسرا سیف الدین والئی موصل تھا۔ دمشق کا حاکم شمس الدین بن عبدالمالک تھا۔ الجزیرہ اور نواحی علاقوں پر نورالدین زنگی کے بھتیجے کا راج تھا۔ ان کے علاوہ کئی اور جاگیر دار تھے۔ ان سب نے خود مختاری کا اعلان کردیا۔ وہ بظاہر خلافت کے ماتحت تھے لیکن عملاً آزاد ہوگئے تھے۔ وہ اپنی اپنی جگہ بہت مسرور تھے مگر محسوس نہ کرسکے کہ وہ ذروں کی طرح بکھر کر صلیبیوں کا آسان شکار بن گئے ہیں۔

زنگی کی وفات سے عالم اسلام کو جو نقصان پہنچا تھا، اسے زنگی کی بیوی نے محسوس کیا۔ سلطان ایوبی نے محسوس کیا اور ان لوگوں نے محسوس کیا جن کے دلوں میں اسلام کی عظمت زندہ تھی۔

٭ ٭ ٭

اس حادثے کو بہت دن گزر چکے تھے۔ سلطان ایوبی اپنے کمرے میں ٹہل رہا تھا۔ کمرے میں مصطفی جودت نام کا ایک اعلیٰ فوجی افسر بیٹھا بول رہا تھا۔ مصطفی ترک تھا۔ وہ نورالدین زنگی کی فوج میں منجنیقوں کا کمانڈر تھا۔ زنگی کی وفات کے بعد اس نے عالم اسلام میں جو تباہ کن انقلاب دیکھا، اس نے اسے تڑپا دیا۔ اس نے یہ کہہ کر لمبی چھٹی لے لی کہ اسے ترکی گئے کئی سال گزر گئے ہیں، لہٰذا وہ ترکی اپنے گھر جانا چاہتا ہے۔ وہ دمشق سے روانہ ہوا، قاہرہ پہنچ گیا اور سلطان ایوبی کے پاس چلا گیا۔ مصطفی ان فوجی افسروں میں سے تھا جو افسر کم اور مسلمان زیادہ ہوتے ہیں۔ اسے معلوم تھا کہ زنگی کے بعد صرف سلطان ایوبی ہے جو عظمت اسلام کی پاسبانی کرسکتا ہے اور کرے گا۔ اسے ڈر تھا کہ سلطان ایوبی کو اس طرف کے حالات کا علم نہیں ہوگا۔ چنانچہ وہ سلطان ایوبی کو وہاں کے حالات سنا رہا تھا۔

''…اور فوج کس حال میں ہے؟'' سلطان ایوبی نے اس سے پوچھا۔

''محترم زنگی مرحوم نے فوج میں جو جذبہ پیدا کیا تھا، وہ زندہ ہے''… مصطفی نے جواب دیا… ''مگر یہ جذبہ زیادہ دیر زندہ نہیں رہ سکے گا۔ آپ جانتے ہیں کہ صلیبیوں کے سیلاب کو صرف فوج نے روک رکھا ہے۔ محترم زنگی مرحوم کی زندگی میں عملاً فوج حکومت کررہی تھی۔ جنگی منصوبے اور فیصلے فوج کے ہاتھ میں تھے لیکن یہ اقدام خلافت کے احکام کے خلاف تھا۔ اب ہم خلافت کے پابند ہوگئے ہیں۔ ہم اپنے آپ کوئی کارروائی نہیں کرسکتے اگر خلیفہ کوئی جنگی منصوبہ بنائے گا ہی نہیں تو فوج کیا کرے گی؟ صلیبی جانتے ہیں کہ مسلمان امراء میں وہ غیرت ہی نہیں جو قومی عظمت کی خاطر لڑاتی اور مرواتی ہے اور لوگ جانیں قربان کرتے ہیں۔ صلیبیوں نے امراء کی غیرت خرید لی ہے اور اب وہ سالاروں کو خریدنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان کی تخریبی سرگرمیاں فوج میں بھی اور قوم میں بھی شروع ہوگئی ہیں اگر یہ عمل جلدی نہ روکا گیا تو صلیبی فوجی حملے کے بغیر ہی سلطنت اسلامیہ کے مالک بن جائیں گے۔ سلطنت اسلامیہ جاگیروں میں تقسیم ہوگئی ہے۔ امراء کو اب راہ راست پر نہیں لایا جاسکتا۔ وہ صلیبیوں کی شراب میں ڈوب گئے ہیں۔ انہوں نے وہاں لڑکیوں کی فوج اتار دی ہے۔ آپ سن کر حیران ہوں گے کہ یہ لڑکیاں امراء کے حرموں میں رہتی ہیں۔ ان کے کہنے پر جشن منائے جاتے ہیں، جن میں سرکردہ فوجی افسروں کو مدعو کرکے یہ لڑکیاں انہیں بے حیائی سے اپنے جال میں پھانس رہی ہیں''۔

''اور اس کے بعد میں جانتا ہوں کیا ہوگا''… سلطان ایوبی نے کہا… ''فوجیوں کو نشے اور بدکاری کا عادی بنایا جائے گا''۔

''بنایا جارہا ہے''۔ مصطفی نے کہا… ''حشیشین بھی اپنی کارروائیوں میں مصروف ہوگئے ہیں۔ اب یوں ہوگا کہ جو سالار یا نائب سالار صلیبیوں کی دشمنی دل سے نہیں نکالے گا اور جہاد کا قائل رہے گا، حشیشین کے پیشہ ور قاتلوں کے ہاتھوں پراسرار طریقے سے قتل کرادیا جائے گا''۔

مصطفی نے سلطان ایوبی کو تفصیل سے بتایا کہ کون سا امیر کیا کررہا ہے۔ اس تفصیل کا لب لباب یہ تھا کہ امراء جہاں خودمختار ہوگئے تھے، وہاں انہوں نے ایک دوسرے کو دشمن سمجھنا شروع کردیا تھا۔ انہوں نے ایک دوسرے کے خلاف فوجی تیاریاں شروع کردی تھیں۔ صلیبی اس نفاق اور چپقلش کو ہوا دے رہے تھے۔

''آپ نے اچھا کیا ہے جو مجھے وہاں کے حالات بتانے آگئے ہیں''۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''اگر آپ نہ آتے تو مجھے ان تفصیلات کا علم نہ ہوتا، البتہ یہ اندازہ کرنا مشکل نہ تھا کہ گیارہ سال کے بچے کو سلطان بنا کر وہ لوگ کیا کرنا چاہتے ہیں''۔

''اور آپ کیا کرنا چاہتے ہیں؟'' مصطفی نے پوچھا… ''اگر آپ نے فوری کارروائی نہ کی تو سمجھ لیں کہ سلطنت اسلامیہ کا سورج ڈوب چکا ہے۔ آپ کی کارروائی صرف جنگی ہونی چاہیے''۔

''یہ دن بھی مجھے دیکھنا تھا کہ میں بھائیوں کے خلاف جنگی کارروائی کی سوچوں گا''۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''میں اس سے ڈرتا ہوں کہ میرے مرنے کے بعد غدار تاریخ میں یہ نہ لکھ دیں گے کہ صلاح الدین ایوبی خانہ جنگی کا مجرم تھا''۔

''اگر آپ اس ڈر سے قاہرہ میں بیٹھے رہے تو تاریخ آپ پر یہ شرمناک الزام عائد کرے گی کہ نورالدین زنگی مرگیا تھا تو سلطان صلاح الدین ایوبی کا بھی دم نکل گیا تھا۔ اس نے مصر پر اپنی گرفت مضبوط ر کھنے کے لیے سلطنت اسلامیہ کو قربان کردیا تھا''۔

''ہاں!'' سلطان ایوبی نے کہا… ''یہ الزام زیادہ شرمناک ہوگا۔ میں ہر پہلو پر غور کرچکا ہوں، مصطفی! اگر میں جہاد فی سبیل اللہ کے لیے نکلتا ہوں تو میں یہ نہیں دیکھوں گا کہ میرے گھوڑے تلے کون روندا جاتا ہے۔ میری نگاہ میں وہ کلمہ گو کفار سے بدتر ہے جو کافر کو دوست سمجھتا ہے… آپ واپس چلے جائیں۔ میں نے علی بن سفیان کو وہاں بھیج رکھا ہے لیکن یاد رہے کہ وہ جاسوسوں کے بھیس میں گیا ہے۔ وہاں کسی کو معلوم نہیں ہوسکے گا کہ علی بن سفیان ان کے درمیان گھوم پھر رہا ہے اور جائزہ لے رہا ہے کہ وہاں کس قسم کی کارروائی کی ضرورت ہے۔ آپ جاکر یہ دیکھیں کہ کون کون سا سالار مشکوک ہے۔ علی بن سفیان کے ساتھ بہت سے آدمی گئے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ انہیں وہاں کیا کرنا ہے۔ اس کے ساتھ ہی میں نے تمام امراء کی طرف اس پیغام کے ساتھ ایلچی بھیجے ہیں کہ امراء ان حالات میں جبکہ صلیبی ان کے سر پر بیٹھے ہیں، ایک محاذ پر مورچہ بند ہوجائیں اور آپس کے اختلافات مٹانے کی کوشش کریں۔ مجھے امید نہیں کہ وہ پیغام کو سمجھنے کی کوشش کریں گے لیکن میں انہیں صرف ایک بار بتا دینا چاہتا ہوں کہ سیدھا راستہ کون سا ہے، میں انہیں یہ نہیں بتائوں گا کہ انہوں نے میرے کہے پر عمل نہ کیا تو میں کیا کروں گا''۔

مصطفی جودت کو رخصت کرکے سلطان ایوبی نے اپنے دربان کو چند ایک سالاروں اور انتظامیہ کو حکام کے نام لے کر کہا کہ انہیں جلدی سے اس کے پاس بھیجا جائے۔ یہ اس کی ہائی کمانڈ تھی، جسے اس نے بلایا تھا۔

٭ ٭ ٭

قاضی بہائوالدین شداد جو صلاح الدین ایوبی کا دست راست اور ہمراز دوست تھا اور جو اس کی مجلس مشاورت میں اعلیٰ رتبہ اور مقام رکھتا تھا، اپنی یادداشتوں میں لکھتا ہے… ''صلاح الدین ایوبی کو خدا نے فولاد کے اعصاب عطا کیے تھے۔ اس نے اپنی شخصیت اور کردار کو اس قدر مضبوط بنا رکھا تھاکہ پہاڑوں جیسے صدمے ہنس کھیل کر برداشت کرلیتا تھا۔ عزم کا ضدی اور مستقل مزاج تھا۔ امیر ہو یا غلام وہ ہر کسی کا یکساں احترام کرتا تھا۔ البتہ کسی کو دوسروں سے ممتاز سمجھتا تو صرف بہادری اور شجاعت کی بنا پر سمجھتا تھا۔ اس کے قریب رہنے والے اس سے دو طرح کا تاثر لیتے تھے۔ ایک رعب کا دوسرا محبت کا۔ اس کے سپاہی جب میدان جنگ میں اسے دیکھتے تھے تو دشمن پر ٹوٹ پڑتے تھے۔ ایک بار یوں ہوا کہ ایک خادم نے دوسرے خادم پر جوتا اتار کر پھینکا۔ صلاح الدین ایوبی کمرے سے نکل رہا تھا۔ جوتا اسے جالگا۔ دونوں خادم تھرتھر کانپنے لگے لیکن صلاح الدین ایوبی نے دونوں طرف سے منہ پھیر لیا اور آگے نکل گیا۔ یہ کردار کی عظمت کا مظاہرہ تھا۔ دوست تو دوست، دشمن اس کے سامنے آتے تو اس کے مرید بن جاتے تھے''۔

نورالدین زنگی کی موت نے سلطنت اسلامیہ کو تاریخ کے سب سے بڑے خطرے میں ڈال دیا تھا۔ اس خطرے کا سب سے زیادہ خطرناک پہلو یہ تھا کہ اپنے ہی امیر اور وزیر صلیبیوں کے دوست اور اسلام کے دشمن ہوگئے تھے۔ مصر کے اندرونی حالات ابھی پوری طرح نہیں سنبھلے تھے، صلاح الدین ایوبی مصر سے نہیں نکل سکتا تھا۔ ایسے حالات میں وہ یہی کرسکتا تھا کہ سلطنت اسلامیہ کے دفاع کا ارادہ دل سے نکال دے اور صرف مصر کے دفاع کو مضبوط رکھے لیکن میرا یہ دوست ذرہ بھر نہ گھبرایا۔ اس ضمن میں میرے ساتھ بات کرتے ہوئے اس نے کہا… ''اگر میں اسلام کی پاسبانی سے دستبردار ہوجائوں تو روز محشر صلیبیوں کے ساتھ اٹھایا جائوں گا''… اسلام کی پاسبانی اور فروغ کو وہ فرمان خداوندی سمجھتا تھا۔ اس نے اپنے آپ کو کبھی حاکم یا حکمران نہیں سمجھا۔ مجھے صلاح الدین ایوبی کی نوجوانی بھی یاد ہے۔ جب وہ پوری طرح عیش وعشرت میں ڈوب گیا تھا۔ وہ شراب بھی پیتا اور رقص کے سرور کا دلدادہ تھا۔ موسیقی اور رقص کی باریکیوں اور گہرائیوں کو سمجھتا اور نسوانی حسن کو دل کھول کر خراج تحسین پیش کرتا اور تعیش کے لیے حسین ترین لڑکی کا انتخاب کرتا تھا۔ کبھی کسی کے وہم وگمان میں نہیں آیا تھا کہ یہ نوجوان چند ہی سال بعد اسلام کا سب سے بڑا علمبردار اور اسلام کے دشمنوں کے لیے برق اور طوفان بن جائے گا۔ اپنے چچا کے ساتھ وہ صلیبیوں کے خلاف پہلے ہی معرکے میں گیا تو اس نے سب کو حیران کردیا اور جب وہ اس معرکے سے واپس آیا تو اس نے پہلا کام یہ کیا کہ عیش وعشرت پر لعنت بھیجی اور اپنی زندگی اسلام کے لیے وقف کردی۔ اس نے قوم کو اور اپنی فوج کو یہ نعرہ دیا کہ سلطنت اسلامیہ کی کوئی سرحد نہیں…

اسے اس بدلی ہوئی کیفیت میں دیکھنے والے تسلیم نہیں کرتے تھے کہ وہ کبھی عیاش بھی ہوا کرتا تھا۔ کردار کی بلندی اور پختگی اس کو کہتے ہیں کہ اپنے نفس اور نفسانی خواہشات کو مار دیا جائے۔ یہ پختگی صلاح الدین ایوبی کے کردار میں تھی۔ دونوں کی محفلوں میں وہ کہا کرتا تھا… ''مجھے کافروں نے مسلمان بنایا ہے اگر ہم اپنے ان نوجوانوں کو جو مذہب سے منحرف ہوگئے ہیں، کافر کی ذہنیت دکھا دیں تو وہ راہ راست پر آجائیں گے۔ دشمن کے ساتھ انہیں پیار کے جو سبق دئیے جارہے ہیں، وہ انہیں قومی وقار سے محروم کررہے ہیں۔ میں اپنی قوم کو اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حدیث یاد کرانا چاہتا ہوں کہ ''اپنے آپ کو جان لو کہ تم کون ہو اور کیا ہو اور اپنے دشمن کو اچھی طرح پہچان لو کہ وہ کون ہے اور کیا ہے اور تمہارے متعلق وہ کیا ارادے رکھتا ہے''… اس کے کردار کا رخ دشمن نے ہی بدلا تھا… صلاح الدین ایوبی اپنے مقصد اور عزم میں اس حد تک مگن رہا کہ اس نے کبھی سوچا ہی نہ تھا کہ وہ عالم اسلام کا سب سے بڑا قائد ہے۔ مصر کا حاکم کل ہے اور فن حرب وضرب کا ایسا استاد کہ صلیبیوں کے کمانڈر متحد ہوکر بھی، اس سے خائف رہتے ہیں۔ اس کی مالی حالت یہ تھی کہ وہ حج نہیں کرسکا۔ جہاد نے اسے مہلت نہ دی۔ آخری عمر میں اس کی یہی ایک خواہش رہ گئی تھی کہ حج پر جائے مگر اب اس کے پاس اتنی رقم نہیں تھی۔ وہ جب فوت ہوا تو اس کی ذاتی متاع صرف سنتالیس درہم چاندی کے اور ایک ٹکڑا سونے کا تھا۔ اس کی جائیداد صرف ایک مکان تھا جو اس کے باپ دادا کا تھا۔

یہ اس کے کردار کی پختگی کا حیران کن مظاہرہ تھا کہ اس نے جب اپنے سالاروں وغیرہ کو کانفرنس کے لیے بلایا تو اس کے چہرے پر گھبراہٹ یا پریشانی کا شائبہ تک نہ تھا۔ کانفرنس کے حاضرین پر خاموشی طاری تھی۔ انہیں یہ توقع تھی کہ سلطان ایوبی گھبرایا ہوا ہوگا مگر اس نے مسکرا کر سب کو دیکھا اور کہا… ''میرے رفیقو! تم نے بڑے ہی دشوار اور پیچیدہ حالات میں میرا ساتھ دیا ہے۔ آج ایسے حالات نے ہمیں للکارا ہے جو بظاہر ہمارے قابو میں آنے والے نہیں لیکن یاد رکھو اگر ہم نے ان حالات پر قابو نہ پایا تو ہم سب کے لیے دنیا میں بھی رسوائی ہے اور خدا کے حضور بھی رسوائی۔ دنیا میں تاریخ ہماری قبروں پر لعنت بھیجے گی اور روز محشر وہ شہید ہمیں شرمسار کریں گے جنہوں نے اسلام کی آبرو پر جانیں قربان کی ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم سب جانیں قربان کردیں''… اس تمہید کے بعد اس نے اپنے اعلیٰ حکام کو ہر ایک تفصیل بتائی اور کہا کہ اب انہیں اپنے بھائیوں کے خلاف لڑنا پڑے گا۔ اس نے سب کے چہروں کا جائزہ لیا، کچھ دیر خاموش رہا۔ سب کے چہروں کے رنگ بدل گئے تھے۔ اسے اطمینان ہوگیا کہ یہ حکام ہر صورتحال میں اس کا ساتھ دیں گے۔ اس نے کہا… ''میرا پہلا اقدام یہ ہے کہ میں اپنی خودمختاری کا اعلان کرتاہوں، میں اب مرکزی خلافت کا پابند نہیں رہناچا ہتا لیکن میں یہ اعلان تم سب کی اجازت کے بغیر نہیں کروں گا۔ مجھے اجازت دینے یا نہ دینے سے پہلے ایک دو پہلوئوں پر غور کرلو۔ ایک یہ کہ خلافت عملاً ختم ہوچکی ہے، جیسا کہ میں نے تمہیں بتایا کہ خلیفہ گیارہ سال کا بچہ ہے۔ اس پر تین چار امراء نے قبضہ کررکھا ہے۔ یہ امراء صلیبیوں کے دوست ہیں، لہٰذا آپ کو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگنی چاہیے کہ خلافت صلیبیوں کی گود میں چلی گئی ہے۔ اب ہماری فکر خلافت کے خلاف ہے اگر تم خودمختار اور آزاد نہیں ہوتے تو تمہیں خلیفہ کے حکم ماننے پڑیں گے اور یہ حکم سلطنت اسلامیہ کے لیے تباہ کن ہوں گے۔ کیا ان حالات میں یہ اقدام صحیح نہیں ہوگا کہ میں مصر کو خلافت سے آزاد کردوں اور اس کے بعد تمہارا ہر قدم ایسا آزادانہ ہو جو اسلام کی بقا کے لیے ضروری ہو؟''

''کیا آپ خلافت کے خلاف کارروائی کرنا چاہتے ہیں؟'' ایک سالار نے پوچھا۔

''میں نے ابھی فیصلہ نہیں کیا''۔ سلطان ایوبی نے جواب دیا… ''کل پرسوں تک میرے وہ ایلچی واپس آجائیں گے جنہیں میں نے امراء کی طرف بھیج رکھا ہے۔ اگر مجھے جنگی کارروائی کا فیصلہ کرنا پڑا تو گریز نہیں کروں گا''۔

''آپ مصر کو خودمختار مملکت قرار دے دیں''۔ ایک حاکم نے کہا… ''ہم گیارہ سال کے بچے کو خلیفہ تسلیم نہیں کرسکتے''۔

''تو کیا تم سب مجھے سلطان مصر تسلیم کروگے؟'' صلاح الدین ایوبی نے پوچھا۔

تمام حاضرین نے بیک زبان کہا کہ وہ اسے سلطان مصر تسلیم کرتے ہیں۔ صلاح الدین ایوبی نے اسی وقت خودمختاری کا اعلان کردیا اور مصر کو آزاد مملکت قرار دے دیا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی اسے اسی وقت قانون کے مطابق سلطان کا خطاب مل گیا۔

''میں امت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نہیں، میدان جنگ کا بادشاہ ہوں''۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''تم نے دیکھا ہے کہ میں صلیبیوں کے لشکر کے درمیان گھومتا پھرتا رہا ہوں۔ میں نے دس دس جانبازوں سے دس دس ہزار لشکروں کو تہہ وبالا کیا ہے مگر اپنے بھائیوں کے خلاف جنگ کی سوچتا ہوں تو تمام جنگی چالیں ذہن سے نکل جاتی ہیں۔ میری تلوار نیام سے باہر نہیں آتی۔ مجھے اور تم سب کو یہ دن بھی دیکھنا تھا کہ ہم آپس میں لڑیں اور صلیبی تماشا دیکھیں''۔

''یہ تماشہ ہمیں دکھانا ہی پڑے گا، سلطان محترم!'' ایک سالار نے کہا… ''اگر اپنے بھائیوں پر الفاظ کا اثر نہ ہو تو تلوار استعمال کرنی ہی پڑے گی۔ ہم میں سے کوئی بھی خلافت کی گدی کا خواہشمند نہیں۔ ہم جو کچھ کریں گے اسلام کی خاطر کریں گے، ذاتی مفاد کی خاطر نہیں''۔
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: داستان ایمان فروشوں کی جلد‎ ‎دوم

Post by ایکسٹو »

سلطان ایوبی نے اس سے پہلے دو ایلچی دمشق، حلب، موصل اور دوتین اور ریاستوں کے امراء کی طرف بھیج رکھے تھے۔ اس نے سب کو طویل پیغام بھیجا تھا جس میں اس نے سب کو صلیبی خطرے سے آگاہ کیا اور انہیں متحدہ ہونے کی تلقین کی تھی۔ وہ انہیں اسلامی وحدت کا قائل کرنا چاہتا تھا۔ دونوں ایلچی مایوس واپس آگئے۔ کسی ایک بھی امیر نے اس کے پیغام کو قبول نہیں کیا تھا بلکہ بعض نے مذاق اڑایا تھا۔ ایلچیوں نے سلطان ایوبی کو بتایا کہ وہ سب سے پہلے خلیفہ کے دربار میں گئے۔ پیغام پیش کیا تو خلیفہ نے خود پڑھنے کے بجائے ان امراء کے حوالے کردیا جن کے ہاتھوں میں وہ کٹھ پتلی بنا ہوا تھا۔ انہوں نے ہی اسے خلافت کی گدی پر بٹھایا تھا۔ ان امراء نے سلطان ایوبی کا پیغام پڑھا۔ آپس میں کھسر پھسر کی اور ایک نے خلیفہ سے کہا کہ صلاح الدین ایوبی صلیبیوں کے خلاف جنگ کا بہانہ کرکے تمام مسلمان ریاستوں کو ایک ریاست بنانے کی سوچ رہا ہے۔ اس کے بعد وہ اس ریاست کا حکمران بنے گا۔ دوسرا امیر بول پڑا۔ اس نے بھی گیارہ سال کی عمر کے خلیفہ کو سلطان ایوبی کے خلاف بھڑکایا اور کہا… ''آپ اسے حکم دے سکتے ہیں کہ جنگ کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ صرف خلیفہ کرسکتا ہے۔ اگرصلاح الدین ایوبی خلیفہ کی حکم عدولی کرے تو آپ اسے معزول کرکے واپس بلا سکتے ہیں۔ مصر کی امارت کسی اور کے حوالے کی جاسکتی ہے''۔

کمسن خلیفہ نے ایلچیوں کو یہی حکم دیا اور کہا… ''صلاح الدین ایوبی سے کہنا کہ وہ ہمارے حکم کا انتظار کرے۔ یہ فیصلہ ہم کریں گے کہ اسلامی وحدت کی ضرورت ہے یا نہیں''۔

''صلاح الدین ایوبی کے پاس فوج ہے، اس میں زنگی مرحوم کے بھیجے ہوئے بہت سے دستے ہیں''۔ ایک امیر نے خلیفہ سے کہا… ''اسے حکم بھیجا جائے کہ وہ دستے واپس بھیج دے۔ اسے اپنی مرضی سے فوج کے استعمال کی اجازت نہیں ملنی چاہیے''۔

''اسے کہنا کہ وہ دستے، سوار اور پیادہ، جو اسے خلافت کی طرف سے دئیے گئے تھے، وہ واپس کردے''۔ خلیفہ نے کہا… ''اور تم لوگ اب جاسکتے ہو''۔

''اور ایوبی سے کہنا کہ آئندہ خلیفہ کو اس قسم کے پیغام بھیجنے کی جرأت نہ کرے''۔ ایک اور امیر نے کہا۔

ایلچیوں نے سلطان ایوبی کو بتایا کہ وہ دوسرے امراء کے پاس گئے۔ سب نے پیغام کا مذاق اڑایا، بعض نے سلطان ایوبی کے خلاف توہین آمیز الفاظ بھی کہے۔ ایلچی واپس آگئے۔ سلطان ایوبی کے چہرے پر کوئی تبدیلی نہ آئی جیسے اسے ایسے ہی جواب کی توقع تھی۔ اسے دراصل علی بن سفیان کا انتظار تھا جسے اس نے خفیہ دمشق بھیج رکھا تھا۔ فوجی جاسوسی اور سراغ رسانی کا یہ ماہر اپنے ساتھ کم وبیش ایک سو لڑاکا جاسوس لے کر دمشق گیا تھا۔ یہ لوگ تاجروں کے قافلے کی صورت میں تاجروں کے بھیس میں گئے تھے۔ سلطان ایوبی کو ان کی بھی کوئی اطلاع نہیں ملی تھی۔ نورالدین زنگی کی وفات کی اطلاع کے فوراً بعد سلطان ایوبی کو یہ اطلاع ملی کہ امیروں نے خودمختاری کا اعلان کردیا ہے۔ یہ اطلاع بھیجنے والا کوئی معمولی سا انسان نہیں تھا، بلکہ نورالدین زنگی کی بیوی تھی جو نئے خلیفہ کی ماں تھی۔ اس نے خفیہ طور پر اپنا ایک قاصد قاہرہ کی طرف دوڑا دیا تھا۔ اس نے سلطان ایوبی کو وہی حالات بتائے جو زنگی کی وفات کے بعد وہاں پیدا ہوگئے تھے۔

اس نے سلطان ایوبی کو کہلا بھیجا تھا… ''اسلام کی آبرو آپ کے ہاتھ میں ہے۔ میرے کمسن بیٹے کو خلیفہ بنا دیا گیا ہے۔ لوگ میرااحترام کرنے لگے ہیں کیونکہ میں خلیفہ کی ماں ہوں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ میں خوش قسمت ماں ہوں مگر میرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ میرے بیٹے کو خلیفہ نہیں بنایا گیا بلکہ مجھ سے میرا بیٹا چھین لیا گیا ہے۔ سیف الدین امیر موصل نے اور دوسرے تمام امیروں نے میرے بیٹے کے گرد گھیرا ڈال لیا ہے۔ میرے خاوند کے بھتیجوں نے بھی خودمختاری کااعلان کردیا ہے۔ اگر آپ کہیں تو میں اپنے ہاتھوں اپنے بیٹے کو قتل کردوں لیکن اس کے نتائج سے ڈرتی ہوں، آپ آجائیں۔ یہ آپ بہتر سمجھتے ہیں کہ آپ کس طرح آئیں گے اور کیا کریں گے۔ میں آپ کو خبردار کرنا چاہتی ہوں کہ آپ نے اس طرف توجہ نہ دی یا وقت ضائع کیا تو قبلۂ اول پر تو صلیبی قابض ہیں ہی، خانہ کعبہ پر بھی ان کا قبضہ ہوجائے گا۔ کیا ان لاکھوں شہیدوں کا خون رائیگاں جائے گا جنہوں نے زنگی کی اور آپ کی قیادت میں جانیں قربانی کی ہیں؟ آپ مجھ سے پوچھیں گے کہ میں اپنے بیٹے کو اپنے زیراثر کیوں نہیں رکھتی؟ میں اس کا جواب دے چکی ہوں۔ امراء نے میرا بیٹا مجھ سے چھین لیا ہے۔ اپنے باپ کی وفات کے بعد وہ صرف ایک بار میرے پاس آیا تھا۔ وہ میرا بیٹالگتا ہی نہیں تھا۔اسے شاید حشیش پلائی گئی تھی۔ وہ بھول چکا ہے کہ میں اس کی ماں ہوں… بھائی صلاح الدین ایوبی! جلدی آئو۔ دمشق کے لوگ آپ کا استقبال کریں گے۔ مجھے اسی قاصد کی زبانی جواب دیں کہ آپ کیا کریں گے یا کچھ بھی نہیں کریں گے؟''

سلطان ایوبی نے قاصد کو اسی وقت بھیج دیا تھا۔ اس نے زنگی کی بیوہ کو یقین دلایا تھا کہ وہ بڑا سنگین اقدام کرے گا لیکن سوچ سمجھ کر قدم اٹھائے گا۔ قاصد کو واپس بھیجنے کے فوراً بعد سلطان ایوبی علی بن سفیان کو دمشق، موصل، حلب، یمن اور تمام تر اسلامی علاقوں میں جاکر وہاں کا جائزہ لینے کے لیے کہا۔ یہ کوئی سرکجاری نوعیت کا دورہ نہیں تھا۔ علی بن سفیان کو جاسوسوں کے انداز سے بہروپ میں وہاں جانا تھا۔ اس کا کام یہ تھا کہ معلوم کرے کہ مسلمان امراء جو خودمختاری کا اعلان کرچکے ہیں، کیا ارادے رکھتے ہیں۔ صلیبیوں کے ساتھ ان کا رابطہ ہے یا نہیں۔ خلیفہ کی فوج کا رجحان کیا ہے۔ کیا اس فوج کو خلیفہ کے ایسے احکام کی خلاف ورزی کے لیے تیار کیا جاسکتا ہے جو اسلام کے لیے نقصان دہ اور دشمن کے لیے سود مند ہوں؟ اور علی بن سفیان کو یہ بھی معلوم کرنا تھا کہ ان علاقوں کے عوام کے جذبات اور نظریات کیا ہیں اور کیا فدائی بھی خلیفہ کے ساتھ مل گئے ہیں؟ یہ جائزہ بھی لینا تھا کہ سلطان ایوبی دمشق یا کسی اور مسلمان علاقے پر فوج کشی کرے تو وہاں کے عوام کا ردعمل کیا ہوگا۔

سلطان ایوبی کی کامیابی کا راز یہی تھا کہ وہ اندھیرے میں نہیں چلتا تھا۔ اسے جہاں جانا ہوتا، اپنے جاسوسی کے نظام کے ذریعے وہاں کے احوال وکوائف، دشواریوں اور خطروں کا جائزہ لے لیتا تھا۔ جیسا کہ پہلی کہانیوں میں بتایا جاچکا ہے کہ اس کا جاسوسی کا نظام بہت تیز اور ہوشیار تھا۔ اس کے جاسوس جہاں اداکاری اور بہروپ دھارنے کی مہارت رکھتے تھے، وہاں وہ ماہر چھاپہ مار )گوریلے اور کمانڈو( بھی تھے۔ اسی لیے انہیں لڑاکا جاسوس کہا جاتا تھا۔ وہ بغیر ہتھیاروں کی لڑائی کے بھی ماہر تھے۔ علی بن سفیان کو خدا نے جاسوسی اور سراغ رسانی کا وصف پیدائش کے ساتھ ہی عطا کیا تھا۔ اب زنگی کی وفات کے بعد اسلامی ممالک کے حالات مخدوش ہوگئے اور صلیبی خطرہ سر پر آگیا تو اسے سلطان ایوبی کے اس حکم کو سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئی کہ ان بدلے ہوئے حالات کا جائزہ لینا ہے اور یہ جائزہ کس طرح لینا ہے۔ اسے معلوم تھا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی اس کی لائی ہوئی رپورٹ کے مطابق کوئی کارروائی کرے گا اور یہ کارروائی بقائے اسلام کے لیے بے حد ضروری ہوگی۔

٭ ٭ ٭

یہاں ہم کہانی کو کچھ دن پیچھے لے جاتے ہیں۔ جب علی بن سفیان قاہرہ سے روانہ ہوا تھا، اس نے ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر اپنے لڑاکا جاسوسوں میں سے کم وبیش ایک سو افراد کو منتخب کیا۔ انہیں مشن بتایا اور کہا کہ اسلام کی آبرو ان سے بہت بڑی قربانی مانگ رہی ہے اور اس مشن میں انہیں اپنی مہارت کا پورا پورا استعمال کرنا ہے۔ ان ایک سو آدمیوں کو تاجروں کا لباس پہنایا گیا۔ علی بن سفیان مصنوعی داڑھی کے ساتھ قافلے کا سردار بنا۔ انہوں نے اونٹوں پر مختلف اقسام کا سامان لاد لیا جو انہیں دمشق وغیرہ کی منڈیوں میں بیچنا اور اس کے بدلے وہاں سے سامان لانا تھا۔ ان کے ساتھ بہت سے اونٹ اور چند ایک گھوڑے تھے۔ تجارتی سامان میں اس پارٹی نے تلواروں اور برچھیوں جیسے ہتھیار چھپا رکھے تھے۔ اس میں آتش گیر مادہ بھی تھا اور آگ لگانے کا دیگر سامان بھی۔ یہ قافلہ رات کے وقت قاہرہ سے روانہ ہوا اور طلوع سحر تک بہت دور نکل گیا۔

کچھ دیر آرام کرکے قافلہ پھر روانہ ہو۔ علی بن سفیان بہت جلدی منزل پر پہنچنا چاہتا تھا۔ سورج غروب ہوگیا تو بھی اس نے قافلے کو نہ روکا۔ رات خاصی گزر چکی تھی جب ایک بڑی موزوں جگہ آگئی، یہ سرسبز خطرہ تھا اور وہاں اونچی نیچی چٹانیں بھی تھیں۔ ظاہر ہے کہ وہاں پانی بھی تھا۔ قافلہ آرام اور پانی کے لیے رک گیا۔ یہ لوگ تاجر نہیں فوجی تھے۔ ان کی ہر حرکت میں ڈسپلن تھا، احتیاط تھی اور ٹریننگ کے مطابق وہ خاموشی اختیار کیے ہوئے تھے۔ اونٹ اور گھوڑے بھی ایسے تربیت یافتہ تھے کہ انسانوں کی طرح خاموش تھے۔ علی بن سفیان نے چٹانوں اور ٹیلوں کے اندر جانے کے بجائے باہر ہی پڑائو کیا۔ فوجی دستوں کے مطابق دو آدمیوں کو پانی کی تلاش کے لیے بھیجا گیا۔ سب نے ہتھیار نکال لیے تھے کیونکہ ان دنوں سفر میں دو خطرے تھے۔ ایک خطرہ صحرائی ڈاکوئوں کا تھا اور دوسرا صلیبیوں کے چھاپہ مار دستوں کا۔ ان کے یہ دستے دراصل ڈاکو ہی تھے جو مسلمانوں کے قافلوں کو لوٹتے پھرتے تھے۔

دو آدمی اس خطے کے اندر چلے گئے، انہیں یہ بھی دیکھنا تھا کہ یہاں دشمن کے چھاپہ ماروں یا گشتی دستوں نے قیام نہ کررکھا ہو۔ کچھ دور اندر گئے تو کہیں روشنی کا دھوکہ سا ہوا۔ وہ آگے گئے اور ایک ٹیلے پر چڑھ گئے۔ انہیں بڑی اچھی جگہ نظر آئی جو میدانی سی تھی، وہاں پانی بھی تھا۔ ہریالی بھی تھی اور کھجور کے درخت بھی تھے، وہاں دو مشعلیں جل رہی تھیں۔ ان کی روشنی میں انہیں چھ سات آدمی اور چار لڑکیاں نظر آئیں۔ بہت خوبصورت لڑکیاں تھیں۔ انہوں نے آگ بھی جلا رکھی تھی جس پر وہ گوشت بھون رہے تھے اور پیالوں میں وہ کچھ پی رہے تھے جو شراب ہی ہوسکتی تھی۔ ذرا پرے گھوڑے اور تین چار اونٹ بندھے تھے۔ بہت سارا سامان بھی ایک طرف پڑا تھا۔ علی بن سفیان کے دونوں آدمی چھپ کر قریب چلے گئے۔ رات کے سکوت میں ان لوگوں کی باتیں صاف سنائی دے رہی تھیں۔ ان کا ہنسی مذاق بتا رہا تھا کہ یہ لوگ مسلمان نہیں۔ لڑکیاں بے حیائی کی حرکتیں بھی کررہی تھیں۔ ان دونوں آدمیوں نے انہیں نظرانداز نہ کیا۔ واپس آکر علی بن سفیان کو بتایا۔

علی بن سفیان گیا اور چھپ کر قریب سے دیکھا۔ ان آدمیوں اور لڑکیوں کی زبان کچھ اور تھی جو علی بن سفیان سمجھتا تھا۔ وہ عیسائی تھے۔ علی بن سفیان سوچ رہا تھا کہ وہ ان لوگوں کے پاس چلا جائے اور معلوم کرے کہ وہ کون ہیں اور کہاں جا رہے ہیں یا ان کی نقل وحرکت دیکھتا رہے۔ اس کے ساتھ ایک سو لڑاکا جاسوس تھے۔ اسے ان چھ سات آدمیوں اور چار لڑکیوں سے کوئی خطرہ نہیں تھا لیکن وہ انہیں سراغ رساں نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ اسے شک ہوگیا تھا کہ یہ صلیبی جاسوس اور تخریب کار ہیں اور کسی اسلامی مملکت میں جارہے ہیں۔ اگر ایسا ہی تھا تو یہ اس کے مطلب کے لوگ تھے۔ وہ اور زیادہ قریب ہونے کے لیے ٹیلے کے اوپر اوپر سرکتا ہوا آگے گیا تو ٹھٹھک کر رک گیا۔ وہاں ٹیلہ ختم ہوجاتا تھا۔ اسے اپنے بالکل نیچے دو آدمی نظر آئے جن کے منہ اور سر سیاہ کپڑوں میں لپٹے ہوئے تھے۔ وہ ٹیلے کی اوٹ سے ان آدمیوں اور لڑکیوں کو دیکھ رہے تھے۔ وہ بلاشک وشبہ صحرائی ڈاکو تھے اور ان کی نظر لڑکیوں پر تھی۔ یہ دو نقاب پوش پیچھے ہٹ آئے۔ انہوں نے آپس میں جس زبان میں باتیں کیں، وہ علی بن سفیان کی مادری زبان تھی۔

''ان کے پاس ہتھیار ہیں''… ایک ڈاکو نے کہا۔

''ہاں''… دوسرے نہ کہا…''میں نے دیکھ لیا ہے۔ ان کی تلواریں سیدھی ہیں۔ یہ عیسائی ہیں''۔

''یہ عام قسم کے مسافر معلوم نہیں ہوتے''۔

''انہیں سوجانے دو، سب کو بلا لاتے ہیں''۔

''ہم آٹھ آدمی انہیں سوتے میں ہی پکڑ سکتے ہیں''۔

''پکڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ آدمیوں کو سوتے میں ختم کردیں گے اور لڑکیوں کو گھوڑوں پر ڈال لیں گے''۔

وہ دونوں اپنے ساتھیوں کو بلانے کے لیے چل پڑے۔ علی بن سفیان نے چھپ چھپ کر ان کا تعاقب کیا۔ وہ کسی اور راستے سے باہر نکل گئے۔ وہاں ان کے گھوڑے کھڑے تھے۔ وہ گھوڑوں پر سوار ہوئے اور اندھیرے میں غائب ہوگئے۔ علی بن سفیان کا قافلہ اسی طرف قیام کیے ہوئے تھے جدھر ڈاکو نہیں گئے تھے۔ علی بن سفیان کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا کہ وہ ان لوگوں کو خبردار کردے یا انہیں اپنے قافلے میں لے جائے۔ گہری سوچ بچار کے بعد اس نے ایک طریقہ سوچ لیا۔ اپنے آدمیوں میں واپس آیا۔ بیس بائیس آدمیوں کو برچھیوں سے مسلح کرکے اپنے ساتھ لے گیا۔ انہیں موزوں جگہوں پر تیار کھڑا کردیا اور اچھی طرح سمجھا دیا کہ انہیں کیا کرنا ہے۔ وہ خود بھی چوکس اورہوشیار رہا اور ادھر ادھر گھومتا رہا۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ ڈاکو کس وقت آئیں گے۔ اس نے دیکھا کہ لڑکیاں اور ان کے ساتھ آدمی سو گئے ہیں۔ صرف ایک آدمی برچھی ہاتھ میں لیے ٹہلتا رہا۔ اس سے معلوم ہوتا تھا کہ یہ لوگ تربیت یافتہ ہیں۔ اس آدمی کو انہوں نے سنتری کھڑا کیا تھا۔ مشعلیں جلتی رہیں۔

٭ ٭ ٭

سحر ہوچلی تھی جب ٹیلوں کے اندر گھوڑوں کے چلنے کی آہٹ سنائی دی۔ سب ہوشیار ہوگئے۔ لڑکیوں کا سنتری بدل گیا تھا۔ اب دوسرا آدمی پہرہ دے رہا تھا۔ ڈاکو ٹیلوں کے درمیان تھے اور علی بن سفیان اور اس کے آدمی ٹیلوں کے اوپر تھوڑی دیر بعد آٹھ نو ڈاکو اس جگہ داخل ہوئے جہاں ان کا شکار سویا ہوا تھا۔ سنتری گھبرا گیا۔ اس نے جلدی سے اپنے ساتھیوں کو جگایا۔ ڈاکوئوں نے ان کے گرد گھیرا ڈال لیا اور گھوڑوں سے کود آئے۔ لڑکیوں کے ساتھ آدمی جاگ اٹھے مگر ڈاکوئوں نے انہیں ہتھیار اٹھانے کی مہلت نہ دی۔ ایک نے للکار کر کہا… ''اپنا سامان اور لڑکیاں ہمارے حوالے کردو اور اپنی جانیں بچائو''… اس نے لڑکیوں سے کہا… ''تم اس طرف آجائو، ماری جائو گی''… دو ڈاکوئوں نے انہیں دھکیل کر ایک طرف کردیا۔ ان کے آدمی نہتے تھے۔ پھر بھی دو نے مقابلہ کرنے کی کوشش کی۔ وہ واقعی تربیت یافتہ تھے۔ بے جگری سے لڑے۔

علی بن سفیان کی آواز پر جو اس نے پہلے مقرر کررکھی تھی، اس کے آدمی عقابوں کی طرح ٹیلوں سے اترے اور ڈاکو ابھی سمجھ ہی نہ پائے تھے کہ یہ کون لوگ ہیں، ایک ایک برچھی ایک ایک ڈاکو کے جسم میں داخل ہوچکی تھی۔ اس سے پہلے ڈاکوئوں کے ہاتھوں لڑکیوں کے ساتھ کے دو آدمی مارے جا چکے تھے، جس کا علی بن سفیان کو کوئی افسوس نہیں تھا، وہ غالباً یہی چاہتا تھا کہ ان میں سے دو آدمیوں کا خون ہوجائے تاکہ دوسروں پر، خصوصاً لڑکیوں پر دہشت طاری ہوجائے۔ علی بن سفیان نے اپنے آدمیوں کو ٹیلوں پر چڑھا دیاا ور ان لوگوں کے پاس بیٹھ گیا۔ لڑکیاں بہت ہی ڈری ہوئی تھیں۔ ان کے سامنے دو لاشیں اپنے ساتھیوں کی اور نو لاشیں ڈاکوئوں کی پڑی تھیں۔ علی بن سفیان نے ان کی زبان میں ان آدمیوں اور لڑکیوں سے باتیں شروع کردیں۔ وہ لوگ اس کے اس قدر ممنون تھے جیسے اس کے مرید بن گئے ہوں۔ اس نے انہیں موت کے منہ سے نکالاتھا۔ ان سے اس نے پوچھا کہ وہ کہاں سے آئے ہیں اور کہاں جارہے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا تو علی بن سفیان مسکرایا اور بولا… ''اگر تم لوگ مجھ سے یہ سوال پوچھتے تو میں بھی ایسا ہی غلط جواب دیتا۔ میں تمہاری تعریف کروں گا کہ اتنی خوفزدگی میں بھی تم نے اپنا پردہ نہیں اٹھایا''۔

''تم کہاں سے آئے ہو؟''… ایک نے اس سے پوچھا… ''اور کہاںجارہے ہو؟''

''جہاں سے تم آئے ہو''… علی بن سفیان نے جواب دیا… ''اور وہیں جارہا ہوں جہاں تم جارہے ہو۔ہمارے کام مختلف ہیں، منزل ایک ہی ہے''۔

انہوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، حیران سے ہوئے اور علی بن سفیان کو دیکھنے لگے۔ وہ مسکرا رہا تھا۔ اس نے کہا… ''کیا تم نے دیکھا تھا کہ میں نے کیسی چال سے ان ڈاکوئوں کو ختم کردیا ہے؟ کیا کوئی مسافر یا کوئی قافلہ ایسی چال چل سکتا ہے؟ کیا یہ ایک تربیت یافتہ کمانڈر کی استادی نہیں جو میں نے دکھائی ہے؟''

''تم مسلمان فوجی بھی ہوسکتے ہو؟''

''میں صلیب کا سپاہی ہوں''… علی بن سفیان نے جواب دیا۔

''کیا تم اپنی صلیب دکھا سکتے ہو؟''

''کیا تم اپنی اپنی صلیب مجھے دکھا سکتے ہو؟''… علی بن سفیان نے پوچھاا ور سب کی طرف دیکھ کر کہا… ''تم نہیں دکھا سکتے۔ تمہارے پاس صلیبیں نہیں ہیں، کیونکہ جس کام کے لیے تم جارہے ہو، اس میں صلیب ساتھ نہیں رکھی جاسکتی۔ میں تم سے تمہارے نام نہیں پوچھوں گا۔ اپنا نام بھی نہیں بتائوں گا۔ اپنا کام بھی نہیں بتائوں گا۔ صرف یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہم ایک ہی منزل کے مسافر ہیں اور ہم سے معلوم نہیں کون کون اپنے وطن کو واپس لوٹ سکے گا۔ ہم ضرور کامیاب ہوں گے۔ خداوند یسوع مسیح نے جس طرح مجھے اور میرے آدمیوں کو تمہاری مدد کے لیے بھیجا ہے، یہ نشانی ہے کہ تم صحیح راستے پر ہو اور تم کامیاب ہوگے۔ نورالدین زنگی کی موت اس حقیقت کی نشانی ہے کہ دنیا پر صلیب کی حکومت ہوگی۔ مسلمانوں کا کون سا امیر رہ گیا ہے جو ہمارے جال میں نہیں آگیا؟ میں تمہیں یہی نصیحت کروں گا کہ ثابت قدم رہنا''… اس نے لڑکیوں کی طرف دیکھ کر کہا… ''تمہارا کام سب سے زیادہ خطرناک اور نازک ہے۔ خداوند یسوع مسیح تمہارے قربانی کو کبھی فراموش نہیں کرے گا۔ ہم جو مرد ہیں، وہ اپنی جان دے کر دنیا کی مشکلات سے آزاد ہوجاتے ہیں۔ تمہاری کوئی جان نہیں لیتا۔ تم سے آبرو کی قربانی لی جاتی ہے اور یہی سب سے بڑی قربانی ہے''۔

علی بن سفیان استاد تھا۔ اس کی زبان میں ایسا طلسم تھا کہ وہ سب دم بخود ہوگئے۔ تھوڑی سی دیر میں اس نے ان سے کہلوالیا کہ وہ صلیبی ہیں اور تخریب کاری کے لیے دمشق اور دیگر علاقوں میں جارہے ہیں۔ وہ بھی تاجروں کے بھیس میں تھے۔ علی بن سفیان صلیبیوں کے نظام جاسوسی کی خفیہ باتیں اور اصطلاحیں جانتا تھا۔ اس وقت تک وہ بے شمار صلیبی جاسوس پکڑ کر ان سے اقبال جرم کروا چکا تھا۔ اس نے جب ان اصطلاحوں میں باتیں کیں تو لڑکیوں اور ان کے ساتھ آدمیوں کو نہ صرف یہ یقین ہوگیا کہ وہ صلیبی جاسوس ہے بلکہ وہ اسے جاسوسوں کا کمانڈر سمجھنے لگے۔ اس نے انہیں بتایا کہ اس کے ساتھ ایک سو آدمی ہیں۔ا ن میں لڑاکا جاسوس بھی ہیں اور فدائی بھی جو دمشق وغیرہ میں ان اعلیٰ افسروں کو قتل کرنے یا غائب کرنے جارہے ہیں جو صلاح الدین ایوبی کے مکتب فکر کے پیروکار ہیں۔ اس نے انہیں بتایا کہ وہ لمبے عرصے سے مصر میں کام کررہا تھا۔ اب اسے ادھر بھیجا جارہا ہے۔

اس گروہ نے علی بن سفیان کے سامنے اپنا پردہ اٹھا دیا ور ایک مشکل پیش کی۔ وہ یہ تھی کہ ان کا کمانڈر ڈاکوئوں کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔ وہ ان علاقوں میں پہلے بھی آچکا تھا، جہاں وہ جارہے تھے۔ اس کے مارے جانے کے بعد وہ اندھے ہوگئے تھے۔ انہیں ایک رہنما کی ضرورت تھی۔ علی بن سفیان نے انہیں تسلی دی کہ وہ اپنے مشن سے ہٹ کر ان کی رہنمائی کرے گا، وہ اسے اپنا مشن بتا دیں۔ انہوں نے بتادیا۔ انہیں چند ایک سالاروں کے نام بتا کر کہا گیا تھا کہ ان تک تحفے پہنچانے ہیں اور لڑکیوں کو ضرورت کے مطابق استعمال کرنا ہے۔ ایسے سالاروں اور امیروں تک رسائی حاصل کرنی ہے جو صلیبیوں کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ انہیں صلیبیوں کا دوست بنانا ہے۔

''اس مرحلے میں آکر میرا اور تمہارا کام ایک ہوجاتا ہے''… علی بن سفیان نے کہا… ''مجھے ان سالاروں اور قائدین کو ختم کرنا ہے جو دل سے صلیب کی دشمنی نہیں نکال رہے… تم دمشق میں کہاں قیام کرو گے؟''

''تم دیکھ رہے ہو کہ ہم تاجر بن کر جارہے ہیں''… ایک نے جواب دیا… ''دمشق کے قریب جا کر یہ لڑکیاں باپردہ مسلمان عورتیں بن جائیں گی۔ ہم سرائے میں قیام کریں گے۔ وہاں سے تاجروں کے بھیس میں سالاروں وغیرہ تک جائیں گے''۔

٭ ٭ ٭

اگلی صبح علی بن سفیان کا قافلہ دمشق کی سمت جارہا تھا۔ یہ صلیبی آدمی اور لڑکیاں بھی اس قافلے میں شامل ہوگئی تھیں۔ جانوروں میں ڈاکوئوں کے گھوڑوں کا اضافہ ہوگیا تھا۔ صلیبیوں نے علی بن سفیان کو اپنا لیڈر بنا لیا تھا۔ ان کی نظر میں وہ صلیبی تھا۔ اس نے انہیں کہا تھا کہ وہ اس کے کسی آدمی کے ساتھ بات نہ کریں کیونکہ ان میں مسلمان بھی ہیں جو بیشک فدائی اور تخریب کار ہیں لیکن ان کا کوئی بھروسہ نہیں۔ راستے میں علی بن سفیان نے ان صلیبیوں کو اپنے ساتھ رکھا اور ان سے باتیں پوچھتا رہا۔ اسے کام کی بہت سی باتیں معلوم ہوگئیں۔

اگلے روز قافلہ دمشق میں داخل ہوا۔ علی بن سفیان کی ہدایت پر سرائے میں جانے کے بجائے قافلے نے ایک میدان میں خیمے گاڑ دئیے۔ لوگوں کا ہجوم جمع ہوگیا۔ باہرسے جب تاجروں کے قافلے آتے تھے تو لوگ ان کے گرد جمع ہوجایا کرتے تھے۔ ان کی کوشش ہوتی تھی کہ مال دکانوں میں جانے سے پہلے قافلے سے ہی خرید لیا جائے، وہاں سے کم قیمت پر اشیاء مل جاتی تھیں۔ علی بن سفیان نے اعلان کیا کہ دس گھوڑے بھی بکائو ہیں۔ اس ہجوم میں دمشق کے تاجر اور دکاندار بھی تھے۔ دوچار گھنٹوں میں وہاں میلہ لگ گیا۔ علی بن سفیان نے اپنے آدمیوں سے کہہ دیا کہ وہ مال روکے رکھیں اور جلدی فروخت نہ کریں۔ اتنا زیادہ ہجوم دیکھ کر اس نے اپنے چند ایک ذہین آدمیوں سے کہا کہ وہ لوگوں میں گھل مل جائیں اور ان کے خیالات معلوم کریں۔ یہ آدمی اس کام کے ماہر تھے۔ وہ چغے اتار کر ہجوم میں شامل ہوگئے۔ ان میں سے دو تین شہر میں چلے گئے۔

علی بن سفیان اور اس کے تمام آدمیوں نے مغرب کی نماز مختلف مسجدوں میں تقسیم ہوکر پڑھی۔ صلیبیوں کو وہ خیمہ گاہ میں چھوڑ گئے تھے۔ مسجدوں میں انہوں نے لوگوں کو بتایا کہ وہ قاہرہ سے آئے ہیں اور تاجر ہیں۔ لوگوں کے ساتھ گپ شپ کے انداز میں انہوں نے ان کے خیالات معلوم کرلیے۔ لوگوں کے خیالات اور جذبات امید افزا تھے۔ ان میں کچھ بھڑکے ہوئے بھی تھے۔ وہ نئے خلیفہ اور امراء کے خلاف باتیں کرتے تھے اور ان میں اونچی حیثیت کے لوگ بھی تھے جو جانتے تھے اور سمجھتے تھے کہ دنیائے اسلام کو صلیب للکار رہی ہے اور اپنی خلافت عیاش امراء کے ہاتھ آگئی ہے۔ وہ بہت پریشان تھے اور کہتے تھے کہ زنگی کے بعد صرف صلاح الدین ایوبی ہے جو اسلام کا نام زندہ رکھ سکتا ہے۔

علی بن سفیان نے اپنے آدمیوں کو بتا دیا تھا کہ یہ لڑکیاں اور آدمی صلیبی ہیں اور ان پر یہی ظاہر کرتے رہیں کہ ہم سب صلیب کے مشن پر آئے ہیں۔ انہیں کوئی شک نہیں ہوا تھا۔ علی بن سفیان نے انہیں بتایا تھا کہ وہ ا ج رات آرام کریں اور اس کی ہدایت کا انتظار کریں۔ رات کو وہ ایک سالار توفیق جواد کے گھر چلا گیا۔ وہ تاجروں کے بھیس میں تھا اور مصنوعی داڑھی لگا رکھی تھی۔ اس نے دربان سے کہا کہ اندر اطلاع دو کہ قاہرہ سے آپ کا ایک دوست آیا ہے۔ دربان نے اندر اطلاع دی تو علی بن سفیان کو اندر بلا لیا گیا۔ توفیق جواد اسے پہچان نہ سکا۔ علی بن سفیان نے بات کی تو توفیق جواد نے اسے پہچان لیا اور گلے لگا لیا۔ علی بن سفیان کو اس شخص پر بھروسہ تھا۔ اس نے اپنے آنے کا مقصد بتایا اور یہ بھی بتایا کہ وہ کچھ صلیبی جاسوسوں اور لڑکیوں کو پھانس لایا ہے اور اب یہ سوچنا ہے کہ انہیں کس طرح استعمال کیا جائے۔

''اس سے پہلے مجھے یہ بتائو کہ یہاں کے اندرونی اور بیرونی حالات کیا ہیں؟'' … علی بن سفیان نے اس سے پوچھا… ''قاہرہ میں بڑی تشویشناک خبریں پہنچی ہیں''۔

توفیق جواد نے ان تمام خبروں کی تصدیق کی جو قاہرہ پہنچی تھیں۔ اس نے کہا… ''علی بھائی! تم اسے خانہ جنگی کہو گے لیکن صلیبی خطرے کو روکنے کے لیے صلاح الدین ایوبی کو خلافت کے خلاف فوج کشی کرنی پڑے گی''۔

''اگر ہم قاہرہ سے فوج لائیں تو کیا یہاں کی فوج ہمارا مقابلہ کرے گی؟'' علی بن سفیان نے پوچھا۔

''تم لوگ حملے کے انداز سے نہ آئو''… توفیق جواد نے کہا… ''صلاح الدین ایوبی یہ ظاہر کریں کہ وہ خلیفہ سے ملنے آئے ہیں اور خلیفہ کی تعظیم کے لیے فوج کے کچھ دستے ساتھ لائے ہیں اگر امراء کی نیت ٹھیک ہوئی تو وہ استقبال کریں گے، دوسری صورت میں ان کا ردعمل سامنے آجائے گا۔ جہاں تک یہاں کی فوج کا تعلق ہے، میں وثوق سے کہتا ہوں کہ یہ فوج تمہارا مقابلہ نہیں کرے گی بلکہ تمہارا ساتھ دے گی مگر یہ بھی ذہن میں رکھو کہ تم جتنا وقت ضائع کروں گے یہ فوج اتنی تم سے دور ہٹتی جائے گی۔ اس فوج کا وہ جذبہ مارنے کی کوششیں شروع ہوگئی ہیں جو اسلامی فوج کی اصل قوت ہے۔ تم جانتے ہو علی بھائی! حکمران جو عیش وعشرت کے دلدادہ ہوتے ہیں، وہ سب سے پہلے دشمن کے ساتھ سمجھوتہ کرتے ہیں تاکہ جنگ وجدل کا خطرہ ٹل جائے۔ پھر وہ فوج کو کمزور کرتے ہیں اور ایسے سالاروں کو منظور نظر بناتے ہیں جو خدائی احکام کے بجائے ان کی خواہشات کے پابند ہوں۔ وہ صلاح الدین ایوبی جیسے سالاروں کو پسند نہیں کرتے، یہ عمل یہاں شروع ہوچکا ہے۔ ہمارے اعلیٰ رتبوں کے چند ایک فوجی افسر اپنے جذبے اور ایمان سے دست بردار ہوچکے ہیں۔ ابھی مجھ جیسے ایسے سالار بھی ہیں جو صلیبیوں کو کبھی دوست نہیں کہیں گے اور نورالدین زنگی کے جذبہ جہاد کو زندہ رکھیں گے مگر وہ اپنے طور پر خلافت کے احکام کے بغیر کیا کرسکتے ہیں؟''

''کیا میں سلطان ایوبی سے یہ کہہ دوں کہ یہاں کی فوج ہمارا ساتھ دے گی؟''… علی بن سفیان نے پوچھا۔

''ضرور کہہ دو''… توفیق جواد نے جواب دیا… ''البتہ خلیفہ کے محافظ دستے )باڈی گارڈز( اور امراء کے محافظ دستے تمہارے خلاف لڑیں گے۔ ان دستوں کی نفری کم نہیں اور ان میں چنے ہوئے سپاہی ہیں۔ جب سے زنگی فوت ہوئے ہیں، ان دستوں کی خاطر ومدارت پہلے سے زیادہ ہونے لگی ہے۔ انہیں غالباً جنگ کے لیے تیار کیا جارہا ہے''۔

''یہاں کے لوگوں میں مجھے جو قومی جذبہ نظر آیا ہے، اس سے مجھے توقع ہے کہ ہم یہاں آئے تو کامیاب ہوں گے''… علی بن سفیان نے کہا۔

''قوم اتنی جلدی بے حس نہیں ہوسکتی''… توفیق جواد نے کہا… ''جس قوم نے اپنے بیٹے شہید کرائے ہوں، وہ اپنے دشمن کو کبھی نہیں بخشتی اور جس فوج نے دشمن سے دو دو ہاتھ کیے ہوں، اسے اتنی جلدی سرد نہیں کیا جاسکتا مگر حکمرانوں کے پاس ایسے ایسے ہتھکنڈے ہوتے ہیں جو قوم اور فوج کو مردہ کردیا کرتے ہیں۔ اب قوم اور فوج میں نفاق پیدا کیا جارہا ہے۔ قوم کی نظر میں فوج کو گرایا جارہا ہے''۔

''میں محترم نورالدین زنگی کی بیوہ سے ملنا چاہتا ہوں''… علی بن سفیان نے کہا… ''وہ خلیفہ کی والدہ بھی ہیں۔ انہوں نے سلطان ایوبی کی خدمت میں پیغام بھیجا تھا کہ وہ اسلام کی آبرو کو بچائیں… کیا یہ ممکن ہوسکتا ہے کہ انہیں یہاں بلا لیا جائے؟''

''کل ہی ان سے ملاقات ہوئی تھی''… توفیق جواد نے کہا… ''میں انہیں بلا سکتا ہوں۔ تمہارا نام سن کر وہ فوراً آجائیں گی''۔

توفیق جواد نے اپنی خادمہ کو بلا کر کہا کہ خلیفہ کی والدہ کے ہاں جائو، میرا سلام کہنا ور ان کے کان میں کہنا کہ قاہرہ سے کوئی آیا ہے۔

٭ ٭ ٭

جب علی بن سفیان توفیق جواد کے پاس بیٹھا تھا، اس وقت اس کی خیمہ گاہ میں رونق تھی۔ رات خاصی گزر گئی تھی۔ خریداروں کا ہجوم بہت دیر ہوئی جاچکا تھا۔ علی بن سفیان کے ایک سو آدمیوں نے لمبا سفر طے کیا تھا۔ وہ بازار سے دنبے اور بکرے لے آئے تھے، جنہیں ذبح کرکے وہ کھا رہے تھے اور ہنسی مذاق میں مصروف تھے۔ لڑکیاں ایک خیمے میں تھی۔ صلیبی مرد علی بن سفیان کے آدمیوں کے ساتھ بیٹھے تھے۔ انہوں نے شراب نکال لی، تاکہ محفل کی رونق دوبالا ہوجائے۔ انہوں نے سب کو شراب پیش کی تو سب نے انکار کردیا۔ صلیبی حیران ہوئے۔ علی بن سفیان نے انہیں بتایا تھا کہ ان میں مسلمان بھی ہیں اور عیسائی بھی جو مسلمان تھے، ان کے متعلق بتایا گیا تھا کہ فدائی ہیں، یعنی وہ برائے نام مسلمان ہیں۔ اصل میں وہ حسن بن صباح کے فرقے کے تھے جو شراب کو حرام نہیں سمجھتے تھے۔ صلیبیوں کو کچھ شک ہوا۔ وہ آخر تربیت یافتہ جاسوس تھے۔ انہوں نے دو چار اور ایسی نشانیاں دیکھ لیں جن سے ان کا شک پختہ ہوگیا۔ وہ ایک ایک کرکے وہاں سے اس طرح اٹھنے لگے جیسے خیمے میں سونے جارہے ہوں۔

انہوں نے لڑکیوں سے کہا کہ وہ اپنے فن کا مظاہرہ کریں اور دیکھیں کہ یہ کون لوگ ہیں۔ ایک لڑکی نے یہ کام اپنے ذمے لے لیا۔ وہ یہ کہہ کر باہر نکلی کہ یہ خیمہ خالی کردو۔ وہ کچھ دیر ادھر ادھر گھومتی پھرتی رہی۔ بہت دیر بعد علی بن سفیان کا ایک آدمی اٹھ کر اس کی طرف آیا۔ وہ معلوم نہیں کیوں اٹھا تھا۔ لڑکی نے اسے روک لیا اور کہا کہ خیمے میں بیٹھے بیٹھے اس کا دل گھبرا رہا تھا۔ اس لیے باہر نکل آئی۔ وہ مردوں کو انگلیوں پر نچانا جانتی تھی۔ اس آدمی کو اس نے ایسی باتوں میں جکڑ لیا کہ وہ بھول ہی گیا کہ وہ کس طرف جارہا تھا۔ لڑکی نے کہا… ''یہ آدمی جو ہمارے ساتھ ہیں، بہت برے آدمی ہیں، ہم تمہاری طرح یہاں کسی اورکام سے آئی ہیں لیکن یہ ہمیں بہت پریشان کرتے ہیں۔ کیا ایسے ہوسکتا ہے کہ میرے خیمے میں آکر سوئو؟ میں ان سے بچی رہوںگی''… اور اس نے ایسی اداکاری کی کہ یہ آدمی موم ہوگیا اور اس کے ساتھ اس کے خیمے میں چلا گیا۔

خیمے میں چھوٹی قندیل جل رہی تھی۔ لڑکی نے روشنی میں اس آدمی کو دیکھا تو بڑی ہی پرکشش اور جذباتی مسکراہٹ سے کہا… ''اوہ! تم تو بہت خوبصورت آدمی ہو۔ تم میری حفاظت کرسکو گے''۔ اس نے شراب کی چھوٹی سی صراحی اٹھا کر کہا…''تھوڑی سی پیوئو گے؟''

''نہیں!''

''کیوں؟''

''میں مسلمان ہوں''۔

''اگر اتنے پکے مسلمان ہو تو صلیب کے لیے مسلمانوں کے خلاف جاسوسی کرنے کیوں آئے ہو؟''

وہ آدمی چونکا۔ اس نے کہا… ''اس کی مجھے اجرت ملتی ہے''۔

لڑکی جتنی خوبصورت تھی، اس سے کہیں زیادہ چالاک تھی۔ اپنے یہ دونوں ہتھیار استعمال کرکے اس نے علی بن سفیان کے اس آدمی کے دل ودماغ پر قبضہ کرلیا۔ اس نے کہا… ''شراب نہ پیو، شربت پی لو''۔ وہ دوسرے خیمے میں چلی گئی اور ایک پیالہ اٹھا لائی۔ اس آدمی نے پیالہ ہاتھ میں لے کر منہ سے لگایا تو مسکرا کر پیالہ رکھ دیا۔ لڑکی سے پوچھا… ''اس میں کتنی حشیش ڈالی ہے؟''

لڑکی کو دھچکہ سا لگا لیکن سنبھل گئی اور بولی… ''زیادہ نہیں۔ اتنی سی ڈالی ہے جتنی تمہیں ذرا سی دیر کے لیے بے خود کردے''۔

''کیوں؟''

''کیونکہ میں تم پر قبضہ کرنا چاہتی ہوں''… اس نے سنجیدگی سے کہا… ''اگر تمہیں میری باتیں بری لگیں تو اپنا خنجر میرے دل میں اتار دینا۔ میں تمہیں اتفاقیہ نہیں ملی تھی۔ میں نے تمہیں اٹھتے اور ادھر آتے دیکھ لیا تھا۔ میں تمہارے راستے میں کھڑی ہوگئی تھی۔ سفر کے دوران میں تمہیں بڑی غور سے دیکھتی رہی تھی۔ ایسے لگتا تھا جیسے ہم کبھی اکٹھے رہے ہیں اور ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ تم میرے دل میں اتر گئے ہو۔ تم نے دیکھا ہے کہ میں نے تمہیں شراب پیش کی تھی، خود نہیں پی تھی۔ میں شراب نہیں پیتی کیونکہ میں مسلمان ہوں۔ یہ لوگ مجھے زبردستی پلاتے ہیں''۔

وہ چونک کر بولا… ''تم ان کافروں کے ساتھ کیسے آگئیں؟''

''بارہ سال سے ان کے ساتھ ہوں''… لڑکی نے جواب دیا۔ ''میں یروشلم کی رہنے والی ہوں۔ اس وقت میری عمرہ بارہ سال تھی۔ جب مجھے باپ نے فروخت کیا تھا۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ میرے خریدار عیسائی ہیں۔ انہوں نے مجھے اس کام کی ٹریننگ دی جس کے لیے میں آئی ہوں۔ میں دمشق اور بغداد کا نام سنا کرتی تھی اور یہ نام مجھے اچھے لگتے تھے۔ اس سرزمین پر قدم رکھا ہے تو اس کی ہوائوں نے میرے اندر میرا مذہب بیدار کردیا ہے۔ میں مسلمان ہوں۔ مسلمانوں کی تباہی کے لیے میں کوئی کام نہیں کرسکوں گی''… اس نے جذباتی لہجے میں کہا… ''میرا دل رو رہا ہے، میری روح رو رہی ہے''… اس نے اس آدمی کے دونوں ہاتھ پکڑ کر اپنے سینے پر رکھ لیے اور کہا… ''تم بھی مسلمان ہو، آئو بھاگ چلیں۔ مجھے جہاں لے جائو گے، چلوں گی۔ ریگستان میں لیے پھرو گے تو خوشی سے تمہارے ساتھ رہوں گی۔ تم بھی اپنی قوم کو دھوکہ دینے سے باز آجائو۔ ہمارے پاس سونے کے بہت سے سکے ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہاں پڑے ہیں۔ آسانی سے چرالائوں گی''۔

علی بن سفیان کا یہ آدمی تھا تو عقل مند لیکن لڑکی کے جھانسے میں آگیا۔ اسے اپنی ڈیوٹی یاد آگئی تھی۔ اسی لیے اس نے حشیش نہیں پی تھی۔ وہ حشیش کی بو سے واقف تھا۔ اس نے لڑکی سے پوچھا کہ وہ اور اس کی پارٹی یہاں کیا کرنے آئی ہے۔ لڑکی نے بتادیا۔ اس آدمی نے کہا… ''میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ تم یہاں مسلمانوں کو دھوکہ نہیں دے سکو گی۔ اگر تم سچے دل سے اس کام سے متنفر ہوگئی ہو تو تم خوش قسمت ہو کہ تم ہمارے دھوکے میں آگئی ہو۔ اب تم ہمارے ساتھ رہو گی۔ ہم میں سے کوئی بھی صلیب کا جاسوس نہیں۔ہم سب مصر کی فوج کے لڑاکا جاسوس ہیں''… لڑکی جوش مسرت سے اس کے ساتھ لپٹ گئی۔ اس آدمی نے کہا… ''میں اپنے کمانڈر سے کہوں گا کہ تمہیں دوسری لڑکیوں سے الگ رکھے اور کسی امیر وغیرہ کے حوالے نہ کرے''۔

لڑکی بیتابی سے اس کے ہاتھ چومنے لگی۔ اس کا فریب کامیاب ہوگیا۔ علی بن سفیان کا اتنا ہوشیار جاسوس ایک لڑکی کے فریب کا شکار ہوگیا۔

''ذرا ٹھہرو''… لڑکی نے کہا… ''میں دیکھ آئوں کہ میرے ساتھی سو گئے ہیں یا نہیں''… وہ خیمے سے نکل گئی۔
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: داستان ایمان فروشوں کی جلد‎ ‎دوم

Post by ایکسٹو »

علی بن سفیان سالار توفیق جواد کے گھر بیٹھا نورالدین زنگی کی بیوہ کا انتظار کررہا تھا۔ اسلام کے عظیم مجاہد کی بیوہ نے قاصد کے ذریعے صلاح الدین ایوبی تک اپنے جذبات پہنچا دیئے تھے پھر بھی اس سے ملنا ضروری تھا۔ بہت سی معلومات لینی اور اقدام طے کرنے تھے۔ کچھ دیر بعد یہ پرعظمت عورت آگئی۔ وہ سیاہ اوڑھنی میں تھی۔ علی بن سفیان کو پہچان نہ سکی کیونکہ وہ مصنوعی داڑھی میں تھا۔ جب پہچان لیا تو اس کے آنسو بہنے لگے۔ کہنے لگی… ''یہ وقت بھی ہماری قسمت میں لکھا تھا کہ ہم ایک دوسرے کو یوں چھپ کر اور بہروپ دھار کر ملیں گے۔ تم یہاں سراونچا کرکے آیا کرتے تھے۔ اب اس حال میں آئے ہو کہ کوئی تمہیں پہچان نہ لے اور میں گھر سے اس احتیاط سے نکلی ہوں کہ کوئی میرے پیچھے یہ دیکھنے کے لیے نہ آئے کہ میں کہاں جارہی ہوں''۔

علی بن سفیان کے آنسو بہہ رہے تھے۔ جذبات کا ایسا غلبہ ہوا کہ وہ بہت دیر بول ہی نہ سکا۔ زنگی کی بیوہ نے کہا… ''علی بن سفیان! میں نے یہ لباس اپنے خاوند کے ماتم کے لیے نہیں پہنا، میں اس غیرت کے ماتم میں ہوں جو میری قوم کا زیور ہے۔ ان چھوٹے چھوٹے حکمرانوں نے میرے بیٹے کو آلۂ کار بنا کر قومی غیرت صلیبیوں کے قدموں میں ڈال دی ہے۔ تمہیں شاید معلوم نہ ہو، کل خلیفہ کے حکم سے اس صلیبی بادشاہ کو جسے میرے خاوند نے جنگی قیدی بنایا تھا، رہا کردیا گیا ہے۔ یہ رینالڈ تھا جسے چند ہی مہینے پہلے نورالدین زنگی نے بے شمار صلیبی سپاہیوں کے ساتھ ایک لڑائی میں پکڑا تھا۔ اسے اور دوسرے قیدیوں کو زنگی کرک سے یہاں لے آئے تھے۔ زنگی بہت خوش تھے۔ کہتے تھے کہ میں صلیبیوں کے ساتھ ایسی سودا بازی کرکے اس صلیبی حکمران کو چھوڑ دوں گا جو ان کی کمر توڑ دے گی۔ ایک بادشاہ اور اعلیٰ کمان دار کی گرفتاری معمولی سی بات نہیں ہوتی۔ ہم اس کے بدلے صلیبیوں سے اپنی شرائط منوا سکتے تھے مگر کل میرا بیٹا میرے پاس آیا اور بڑی خوشی سے کہا۔

''ماں! میں نے صلیبی حکمران کو اور اس کے ساتھ تمام صلیبی قیدیوں کو رہا کردیا ہے''… میرے دل پر ایسی چوٹ پڑی کہ میں بہت دیر اپنے آپ سے باہر رہی۔ بیٹے سے پوچھا کہ ان جنگی قیدیوں کے عوض تم نے اپنے جنگی قیدی رہا کرا لیے ہیں؟ بیٹے نے بچوں کا سا جوا دیا۔ کہنے لگا کہ ہم ان قیدیوں کو لے کے کیا کریں گے۔ ہم آئندہ کسی سے لڑائی نہیں کریں گے''۔

''میں نے بیٹے سے کہا کہ تم آئندہ اپنے باپ کی قبر پر نہ جانا۔ تم جب مرو گے تو میں تمہیں اس قبرستان میں دفن نہیں کروں گی جس میں تمہارا باپ دفن ہے۔ اس قبرستان میں وہ شہید بھی دفن ہیں جو صلیبیوں کے ہاتھوں شہید ہوئے تھے۔ تمہیں وہاں دفن کرکے میں ان کی توہین نہیں کرنا چاہتی… لیکن میرا بیٹا بچہ ہے۔ وہ کچھ نہیں سمجھتا۔ صلیبیوں نے اپنے حکمران اور جنگی قیدیوں کو رہا کراکے اسلام کے منہ پر تھپڑ مارا ہے۔ میں حیران ہوں کہ سلطان صلاح الدین ایوبی قاہرہ میں بیٹھا ہوا کیا کررہا ہے۔ وہ کیوں نہیں آتا؟ علی بن سفیان! صلاح الدین ایوبی کیا سوچ رہا ہے؟ اسے کہنا تمہاری ایک بہن تمہاری غیرت کا ماتم کررہی ہے۔ اسے کہنا کہ وہ سیاہ لباس اس روز اتارے گی جس روز تم دمشق میں داخل ہوکر مجھے دکھا دو گے کہ تم نے ملت اسلامیہ کی آبرو ان عیاش اور ایمان فروشوں سے چھین لی اور اسے بچا لیا ہے ورنہ میں اسی لباس میں مرجائوں گی اور وصیت کرجائوں گی کہ مجھے اسی لباس میں دفن کیا جائے۔ کفن نہ پہنایا جائے۔ میں روز قبامت اپنے خاوند اور خدا کے سامنے سفیدکفن میں نہیں جانا چاہتی''۔

''میں ان جذبات کو اچھی طرح سمجھتا ہوں''… علی بن سفیان نے کہا… ''آئیے، حقیقت کی بات کریں۔ سلطان ایوبی آپ کی ہی طرح بیتاب اور بے چین ہیں۔ آپ جانتی ہیں کہ ہمیں کوئی کارروائی جذبات اور اشتعال کے زیراثر نہیں کرنی چاہیے۔ یہاں کے حالات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ ہم اس کوشش میں ہیں کہ خانہ جنگی نہ ہو۔ اس کی ایک ہی صورت ہے، وہ یہ کہ قوم ہمارا ساتھ دے۔ فوج کے متعلق توفیق جواد مجھے یقین دلا چکے ہیں کہ ہماری فوج کے خلاف نہیں لڑے گی۔ البتہ محافظ دستے مقابلہ کریں گے''۔

''قوم آپ کے ساتھ ہے''… زنگی کی بیوہ نے کہا… ''میں عورت ہوں، میدان جنگ میں نہیں جاسکی۔ میں ایک اورمحاذ پر لڑتی رہی ہوں۔ میں نے قوم کی عورتوں میں ملی جذبہ اس حد تک پیدا کررکھا ہے کہ آپ کسی بھی وقت انہیں میدان جنگ میں لے جاسکتے ہیں۔ میرے انتظامات کے تحت یہاں کی تمام نوجوان لڑکیاں تیغ زنی اور تیز اندازی کی مہارت رکھتی ہیں۔ عورتوں نے اپنے بچوں، بھائیوں، باپوں اور خاوندوں کو شعلے بنا رکھا ہے۔ میں نے جن عورتوں کے ہاتھوں انہیں تربیت دی ہے، وہ میرے ہاتھ میں ہیں۔ اگر نوبت خانہ جنگی تک آگئی تو ہر گھر کی عورتیں خلیفہ کی فوج کے خلاف مورچہ بنا لیں گی۔ اگر صلاح الدین ایوبی فوج لے کے آئے تو میرا خلیفہ بیٹا اور اس کے حاشیہ بردار اپنے آپ کو تنہا پائیں گے۔ تم جائو علی بھائی! فوج لائو۔ یہاں کے حالات مجھ پر چھوڑو۔ قوم کی طرف سے تم پر ایک بھی تیر نہیں چلے گا۔ اگر تم ضرورت سمجھو کہ میرے بیٹے کو قتل کردیا جائے تو بھول جانا کہ وہ نورالدین زنگی کا اور میرا بیٹا ہے۔ میں اپنے بیٹے کے جسم کے ٹکڑے کرالوں گی، سلطنت اسلامیہ کے ٹکڑے ٹکڑے ہوتے نہیں دیکھ سکوں گی''۔

توفیق جواد نے بھی علی بن سفیان کو یقین دلایا کہ خانہ جنگی نہیں ہوگی۔ اس کے بعد انہوں نے سکیم بنائی کہ سلطان ایوبی کس طرح آئے گا اور یہاں کیا ہوگا۔ یہ طے ہوا کہ سلطان ایوبی خاموشی سے آئے گا اور خلیفہ اور اس کے حاشہ برداروں کو بے خبری میں آن لے گا۔

وہ صلیبی لڑکی جس نے علی بن سفیان کے ایک آدمی سے معلوم کرلیا تھا کہ یہ ایک سو آدمی صلیب کے آدمی نہیں، اسے خیمے میں اکیلا چھوڑ کر اور اسے یہ کہہ کر چلی گئی کہ وہ دیکھنے جارہی ہے کہ اس کے ساتھ سو گئے ہیں یا نہیں۔ اس نے اپنے ساتھیوں کو یہ بتایا کہ وہ دھوکے میں آگئے ہیں۔ یہ سب مصری فوج کے لڑاکا جاسوس ہیں اور ان کا کمانڈر علی بن سفیان ہے جو سراغ رسانی اور جاسوسی کا ماہر سربراہ ہے۔ اس انکشاف نے ان صلیبیوں کو چونکا دیا اور وہ سوچنے لگے کہ انہیں کیا کرنا چاہیے۔ ان کے لیے وہاں رکنا خطرے سے خالی نہیں تھا۔ لڑکی اس مصری جاسوس کے پاس چلی گئی تاکہ اسے پھانسے رکھے۔ ایک صلیبی باہر نکلا اور علی بن سفیان کو ڈھونڈنے لگا مگر وہ اسے نہ ملا۔ اس وقت علی بن سفیان توفیق جواد کے گھر بیٹھا ہوا تھا۔ یہ صلیبی یہی معلوم کرنا چاہتا تھا کہ علی بن سفیان یہیں ہے یا کہیں گیا ہوا ہے۔ اسے غیر حاضر دیکھ کر صلیبی نے خطرہ محسوس کیا کہ علی بن سفیان ان کی گرفتاری کا انتظام کرنے گیا ہے۔ اس نے اپنے ساتھیوں کوجاکر بتایا کہ وہاں سے فوراً نکلنے کی ترکیب کریں۔ رات آدھی گزر گئی تھی۔ یہ لوگ شہر سے ناواقف تھے۔ دن کے وقت وہ اپنی منزل ڈھونڈ سکتے تھے۔ رات کو لڑکیوں کو ساتھ ساتھ لیے پھرنا مناسب نہیں تھا۔

ایک نے مشورہ دیا کہ سرائے میں چلتے ہیں۔ وہاں جاکر کہیں گے کہ ہم قاہرہ کے تاجر ہیں، باہر کھلے میدان میں سو نہیں سکتے۔ اس لیے سرائے میں رات گزارنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے ایک آدمی کو چوری چھپے اس کام کے لیے بھیج دیا کہ سرائے تلاش کرے اور وہاں سے معلوم کرے کہ رات کے وقت چار آدمیوں اور چار عورتوں کو جگہ مل سکتی ہے یا نہیں اگر جگہ مل جائے تو وہ یہاں سے اکیلے اکیلے نکلیں اور سرائے میں پہنچ جائیں۔ ان کے لیے سامان ایک مسئلہ تھا۔ یہ بظاہر تجارتی سامان تھا لیکن اس میں زروجواہرات اور تحفے تھے جو وہ صلیبیوں کی طرف سے امراء کے لیے لائے تھے۔ وہ چونکہ امراء کے پاس جانے کے لیے آئے تھے، اس لیے انہیں ایسا کوئی خطرہ نہ تھا کہ پکڑے جائیں گے۔ انہوں نے بہروپ اس لیے دھار رکھا تھا کہ امراء کے سوا اور کوئی انہیں نہ پہچان سکے۔ امراء سے مل کر انہیں وہیں رہنا اور تخریب کاری کرنی تھی، اس لیے وہ اپنی اصلیت چھپائے رکھنا چاہتے تھے۔

ان کا بھیجا ہوا آدمی سرائے کی تلاش میں جارہا تھا۔ گلیاں اور بازار ویران تھے۔ اسے کوئی آدمی نظر نہیں آرہاتھا، جس سے وہ پوچھتا کہ سرائے کہاں ہیں، کچھ دیر ادھر ادھر مارے مارے پھرنے کے بعد اسے سامنے سے ایک آدمی آتا دکھائی دیا۔ اندھیرے میں اتنا ہی پتا چلتا تھا کہ وہ کوئی انسان ہے۔ وہ قریب آیا تو صلیبی نے اس سے سرائے کے متعلق پوچھا۔ اس نے سر اور آدھے چہرے پر چادر سی ڈال رکھی تھی۔ اس نے صلیبی کو بتایا کہ سرائے شہر کے دوسرے سرے پر ہے۔ پھر اس سے پوچھا کہ وہ اتنی رات گئے سرائے کیوں ڈھونڈ رہا ہے۔ ایسے وقت میں اس کے لیے سرائے کا دروازہ نہیں کھلے گا۔ صلیبی نے اسے بتایا کہ وہ آج تاجروں کے قافلے کے ساتھ آئے ہیں۔ ان کے ساتھ چار عورتیں ہیں جنہیں وہ خیموں میں نہیں رکھنا چاہتے۔

''ہاں، یہ ایک مسئلہ ہے''… اس آدمی نے کہا… ''تمہیں شام سے پہلے بندوبست کرلینا چاہیے تھا۔ آئو، میں تمہاری کچھ مدد کرتا ہوں۔ تم پردیسی ہو۔ یہاں سے جاکر یہ نہ کہو کہ دمشق میں تمہاری مستورات کھلے میدان میں پڑی رہی تھیں۔ مجھے اپنے ساتھ لے چلو۔ مستورات کو ساتھ لے آئو۔ میں سرائے کھلوا کر جگہ دلوا دوں گا''۔

وہ آدمی صلیبی کے ساتھ چل پڑا اور دونوں قافلے کی خیمہ گاہ تک پہنچ گئے۔ صلیبی نے اسے ایک جگہ روک کر کہا… ''تم یہیں ٹھہرو۔ میں انہیں لے کر آتا ہوں''… یہ کہہ کر وہ خیمہ گاہ کے ایک طرف سے گھوم کر کہیں غائب ہوگیا۔ صلیبیوں کے خیمے دوسری طرف اور ذرا ہٹ کر تھے۔ اس آدمی نے اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ ایک آدمی اس کے ساتھ آیا ہے جو انہیں سرائے میں جگہ دلا دے گا۔ اس کے ساتھی کچھ گھبرائے۔ یہ آدمی بھی دھوکہ دے سکتا تھا لیکن وہ ایسے جال میں پھنس گئے تھے جس سے نکلنے کے لیے انہیں کوئی نہ کوئی تو خطرہ مول لینا ہی تھا۔ مصری جاسوس جو صلیبی لڑکی کے جھانسے میں آگیا تھا، اس نے لڑکی کو یہاں تک بتا دیا تھا کہ خلیفہ اور امراء صلیبیوں کے زیراثر آگئے ہیں، اس لیے علی بن سفیان بہروپ میں
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: داستان ایمان فروشوں کی جلد‎ ‎دوم

Post by ایکسٹو »

اس لیے علی بن سفیان بہروپ میں ایک سو لڑاکا جاسوسوں کے ساتھ آیا ہے اور ان کا مشن
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: داستان ایمان فروشوں کی جلد‎ ‎دوم

Post by ایکسٹو »

اس لیے علی بن سفیان بہروپ میں ایک سو لڑاکا جاسوسوں کے ساتھ آیا ہے اور ان کا مشن یہ ہے کہ یہاں کا جائزہ لیں کہ صلیبی اثرات کہاں تک پہنچے ہیں اور کیا صلاح الدین ایوبی کے لیے جنگی کارروائی ضروری ہے یا نہیں۔

لڑکی نے علی بن سفیان کا یہ مشن اپنے ساتھیوں کو بتادیا تھا۔ یہ بڑی ہی کارآمد اطلاع تھی جو صلیبی جاسوس رات ہی کٹھ پتلی خلیفہ تک پہنچا کر خراج تحسین حاصل کرنا چاہتے تھے اور یہ اطلاع وہ اپنے صلیبی حکمرانوں تک بھی پہنچانا چاہتے تھے تاکہ وہ صلاح الدین ایوبی کا راستہ روکنے کا بندوبست کرلیں۔ ان صلیبی جاسوسوں نے یہ ارادہ بھی کیا کہ وہ علی بن سفیان اور اس کی پوری جماعت کو خلیفہ کے حکم سے گرفتار کرادیں۔ انہوں نے اس لڑکی کو بہت ہی خراج تحسین پیش کیا جس نے مصری جاسوس کے سینے سے یہ راز نکلوا لیا تھا۔ یہ مصری اب لڑکی کے خیمے میں گہری نیند سویا ہوا تھا اور لڑکی خیمے میں نہیں بلکہ اپنے ساتھیوں کے پاس تھی۔

انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ علی بن سفیان کے تمام آدمی سوئے ہوئے ہیں۔ سب اکٹھے نکل چلیں۔ سامان اور جانوروں کو یہیں رہنے دو۔ کل صبح ہوتے ہی وہ مصری جاسوسوں کو پکڑا دیں گے پھر ان کا سامان انہیں مل جائے گا۔ وہ خیمہ گاہ سے بھاگنا اس لیے چاہتے تھے کہ انہیں ڈر تھا کہ علی بن سفیان رات کو لڑکیاں غائب کردے گا یا ان سب کو مروا دے گا یا کوئی دھوکہ دے گا۔ بہرحال رکنا ٹھیک نہیں تھا۔ وہ سب خیمہ گاہ سے پرے پرے دبے پائوں چل پڑے اور اس جگہ پہنچے جہاں ان کا ایک ساتھی ایک آدمی کو کھڑا کرگیا تھا مگر وہ آدمی وہاں نہیں تھا۔ وہ سب ادھر ادھر دیکھ ہی رہے تھے کہ بیٹھے ہوئے اونٹوں کی اوٹ میں سے بہت سے آدمی اٹھے اور صلیبیوں کو گھیرے میں لے لیا۔ انہیں ایک طرف لے گئے اور مشعلیں جلائی گئیں۔ علی بن سفیان نے ان سے پوچھا کہ وہ کہاں جارہے ہیں۔ انہوں نے جھوٹ بولے، علی بن سفیان نے پوچھا… ''وہ آدمی کون تھا جو سرائے کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا تھا؟''

ایک صلیبی نے کہا… ''وہ میں تھا''۔

''اور جس سے تم نے سرائے کا راستہ پوچھا تھا''… علی بن سفیان نے کہا… ''وہ میں تھا''۔

یہ محض اتفاق تھا اور اللہ کا کرم کہ علی بن سفیان توفیق جواد کے گھر سے واپس آرہا تھا۔ یہ صلیبی سرائے کی تلاش میں جارہا تھا۔ اس نے علی بن سفیان سے ہی سرائے کا راستہ پوچھا۔ اگر روشنی ہوتی تو صلیبی اسے پہچان لیتا۔ ایک تو اندھیرا تھا، دوسرے علی بن سفیان نے سر پر رومال یا چادر ڈال رکھی تھی۔ صلیبی کی ایک بات سن کر وہ جان گیا کہ انہیں کسی طرح پتا چل گیا ہے کہ وہ دھوکے میں آگئے ہیں۔ لہٰذا اب بھاگنے کی فکر میں ہیں۔ علی بن سفیان کو معلوم تھا کہ یہ صلیبی بے شک جاسوس ہیں لیکن انہیں یہاں امراء میں سے کوئی نہ کوئی پناہ میں لے لے گا۔ چنانچہ اس نے صلیبی کو خوش اخلاقی کا جھانسہ دے کر پھانس لیا اور اس کے ساتھ خیمہ گاہ تک چلا گیا۔ وہ سوچتا رہا کہ اب اسے کیا کارروائی کرنی چاہیے۔ صلیبی نے اس پر یہ کرم کیا کہ اسے اپنے خیموں سے دور کھڑا کرگیا۔

علی بن سفیان نے فوراً اپنے دو تین آدمیوں کو جگالیا اور نہایت عجلت سے انہیں بتایا کہ انہیں کیا کرنا ہے۔ ہدایات دے کر وہ خود صلیبیوں کے خیموں تک گیا۔ وہ سب لڑکیوں سمیت ایک خیمے میں جمع ہوگئے تھے۔ علی بن سفیان نے دبے پائوں قریب جاکر ان کی باتیں سنیں۔ وہ صرف یہ جان سکا کہ صلیبی جاسوسوں کو اس کا مشن معلوم ہوگیا ہے لیکن یہ معلوم نہ ہوسکا کہ یہ راز فاش کس طرح ہواہے۔ اتنی دیر میں اس کے بہت سے آدمی اس کی دی ہوئی ہدایت کے مطابق برچھوں سے مسلح ہوکر اونٹوں کی اوٹ میں جاکر بیٹھ چکے تھے۔ صلیبیوں کو وہیں آنا تھا۔ وہ جوں ہی وہاں پہنچے، علی بن سفیان بھی آگیا ور سب کو گھیر کر پکڑ لیا گیا۔

''دوستو!''… علی بن سفیان نے انہیں کہا… ''تمہاری جاسوسی بہت کمزور ہے، تمہیں ابھی بہت سی تربیت کی ضرورت ہے۔ کیا جاسوس اس طرح سنسان گلیوں میں پھرا کرتے ہیں؟ اور کیا جاسوس کسی اجنبی کو پہچانے بغیر بات کیا کرتے ہیں؟ یہ فن مجھ سے سیکھو''۔

''اگر آپ یہ فن اپنے آدمیوں کو سکھام دیں تو زیادہ بہتر ہوگا''… ایک صلیبی نے کہا… ''کیا آپ ہماری اس مہارت کی تعریف نہیں کریں گے کہ ہم نے آپ کے ایک آدمی سے آپ کی اصلیت معلوم کرلی ہے؟ یہ تو قسمت کا کھیل ہے۔ آپ جیت گئے، ہم ہار گئے۔ اگر ہمارا قائد مارا نہ جاتا تو ہم یوں بھٹک نہ جاتے''۔

''مجھے وہ آدمی بتائو گے جس نے راز فاش کیا ہے؟''… علی بن سفیان نے پوچھا۔

''اس خیمے میں سویا ہوا ہے''… ایک لڑکی نے ایک خیمے کی طرف اشارہ کرکے جواب دیا… ''وہ میرے دھوکے میں آگیا تھا''۔

''یہ باتیں اب قاہرہ میں چل کر ہوں گی''… علی بن سفیان نے کہا۔

صبح طلوع ہوئی تو لوگوں نے دیکھا کہ تاجروں کا قافلہ جارہا تھا۔ اونٹوں پر جہاں تجارتی سامان لدا ہوا تھا، وہاں خیمے بھی لدے ہوئے تھے۔ علی بن سفیان اور اس کے ایک سو آدمیوں کے سوا کسی کو علم نہ تھا کہ لپٹے ہوئے خیموں میں چار لڑکیاں اور چار آدمی لپٹے ہوئے ہیں۔ علی بن سفیان نے روانگی سے کچھ دیر پہلے سحر کی تاریکی میں ایک ایک صلیبی کو ایک ایک خیمے میں لپیٹ کر اونٹوں پر لاد کر باندھ دیا تھا۔ اسے کوئی فکر نہیں تھی کہ وہ دم گھٹنے سے مرجائیں گے یا زندہ رہیں گے۔ قافلہ دمشق سے نکل گیا اور جب شہر اتنی دور پیچھے رہ گیا کہ نظر بھی نہیں آتا تھا، اس نے صلیبیوں کو خیموں سے نکالا۔ سب زندہ تھے۔ لڑکیوں کو اونٹوں پر اور مردوں کو گھوڑوں پر سوار کرلیا گیا۔ صلیبیوں نے رہائی کے لیے وہ تمام زروجواہرات اور سونے کے ٹکڑے پیش کیے جو وہ خلیفہ اور امراء کے لیے لائے تھے۔ علی بن سفیان نے کہا… ''یہ ساری دولت تو میرے ساتھ ہی جارہی ہے''۔

٭ ٭ ٭

اس وقت ریمانڈ نام کا ایک صلیبی تریپولی کا حکمران تھا۔ یہ وہی علاقہ ہے جو آج لبنان کہلاتا ہے۔ دوسرے صلیبی حکمران یروشلم اور گردونواح میں تھے۔ نورالدین زنگی کی وفات پر وہ سب بہت خوش تھے۔ وہ ایک کانفرنس کرچکے تھے۔ انہوں نے اپنے منصوبوں پر نظرثانی کرلی تھی، اس کے مطابق فرنگیوں کا ایک کمانڈر سیرز اپنی فوج حلب تک لے گیا۔ حلب کا امیر شمس الدین تھا۔ سیرز نے اسے پیغام بھیجا کہ وہ حلب اس کے حوالے کردے یا صلح نامے پر دستخط کرکے تاوان ادا کرے۔ شمس الدین نے اس ڈر سے صلیبیوں کے آگے ہتھیار ڈال دئیے کہ دمشق اور موصل کے امراء سے جنگ میں الجھا ہوا دیکھ کر اس کی مملکت پر قبضہ کرلیں گے۔ اس ایک ہی کامیابی سے صلیبی دلیر ہوگئے۔وہ جان گئے کہ یہ مسلمان امراء ایک دوسرے کی مدد کرنے کے بجائے ایک دوسرے کے دشمن ہیں، چنانچہ انہوں نے جنگ کے بغیر ہی مسلمانوں کہ تہ تیغ کرنے کا منصوبہ بنا لیا تھا۔ انہیں خطرہ صرف سلطان صلاح الدین ایوبی سے تھا۔ وہ سلطان ایوبی کے کردار سے آگاہ تھے۔انہیں ڈر یہ تھا کہ سلطان ایوبی دمشق یا ان علاقوں میں کہیں بھی آگیا تو وہ تمام امراء کو متحدہ کرلے گا۔ چنانچہ وہ امراء کو بہت جلدی اپنے اتحادی بنا لینے کی کوشش کررہے تھے۔ ریمانڈ نے خلیفہ المالک الصالح کو ایک ایلچی کے ذریعے تحائف کے ساتھ یہ پیشکش بھی بھیج دی تھی کہ وہ اسے ضرورت کے وقت فوجی مدد دے گا۔

اسلام کی بقا اور آبرو کچے دھاگے سے لٹک رہی تھی۔ اس کا دارومدار سلطان صلاح الدین ایوبی کے اقدام پر تھا۔ ایک ساعت جو گزر جاتی تھی، اسلام کو تباہی کے قریب لے جاتی تھی۔ سلطان ایوبی قاہرہ میں علی بن سفیان کا انتظار کررہا تھا۔ اسے علی بن سفیان کی رپورٹ کے مطابق کچھ فیصلہ کرنا تھا۔ وہ بغداد، دمشق اور یمن وغیرہ پر فوج کشی کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوچکا تھا۔ اس کے لیے مشکل یہ تھی کہ مصر کے اندرونی حالات ٹھیک نہیں تھے اور فوج کم تھی۔ وہ مصر سے زیادہ سے زیادہ نہیں بلکہ کم سے کم فوج اپنے ساتھ لے جاسکتا تھا اور یہی ایک خطرہ تھا جو اسے پریشان کررہا تھا کہ اتنی کم فوج سے وہ کیا کامیابی حاصل کرسکے گا۔ اس کے باوجود اس نے فوج کشی کے سوا دوسرا کوئی اقدام سوچا ہی نہیں۔ وہ دن میں ایک دو بار اپنے مکان کی چھت پر جاکر اس سمت دیکھا کرتا تھا جس سمت سے علی بن سفیان کو آنا تھا۔ وہ افق پر نظریں گاڑ دیتا تھا۔

ایک روز اسے افق پر گرد کے بادل نظر آئے جو زمین سے اٹھے اور اوپر ہی اوپر اٹھتے اور پھیلتے گئے۔ سلطان ایوبی اوپر ہی کھڑا رہا۔ گرد کا بادل آگے ہی آگے آتا گیا، پھیلتا گیا… اور پھر اس میں سے گھوڑوں اور اونٹوں کے ہیولے نظر آنے لگے۔ وہ علی بن سفیان کا قافلہ تھا۔ اس نے راستے میں بہت تھوڑے پڑائو کیے تھے۔ اسے جب قاہرہ کے مینار نظر آنے لگے تو اس نے اونٹ اور گھوڑے دوڑادئیے۔ اسے احساس تھا کہ گزرتے ہوئے لمحوں کی قیمت کیا ہے اور اس کے انتظار میں سلطان صلاح الدین ایوبی رات کو سوتا بھی نہیں ہوگا۔

پھر وہ لمحہ آگیا جب گرد سے اٹا ہوا علی بن سفیان سلطان ایوبی کے سامنے کھڑا تھا۔ سلطان ایوبی نے اسے نہانے دھونے کی مہلت نہ دی۔ وہ خبریں سننے کے لیے بیتاب تھا۔ اس کے لیے کھانا وغیرہ وہیں لانے کا حکم دے کر اسے دفتر میں لے گیا۔ علی بن سفیان نے اسے تفصیلی رپورٹ دی۔ نورالدین زنگی کی بیوہ کا پیغام، اس کے جذبات اور تاثرات سنائے۔ سالار توفیق جواد سے جو بات چیت ہوئی تھی وہ سنائی اور آخر میں بتایا کہ وہ دمشق سے ایک تحفہ لایا ہے۔ یہ تحفہ چار صلیبی جاسوس مرد اور چار لڑکیاں تھیں۔ اس نے سلطان ایوبی سے کہا… ''میں شام سے پہلے پہلے کچھ قیمتی معلومات ان لوگوں سے حاصل کرلوں گا''۔

''تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمیں فوجی طاقت استعمال کرنی پڑے گی''۔ سلطان ایوبی نے کہا۔

''کرنی پڑے گی اور ہم ضرور کریں گے''… علی بن سفیان نے کہا… ''مجھے امید ہے کہ خانہ جنگی نہیں ہوگی''۔

سلطان ایوبی نے اپنے دو ایسے فوجی مشیروں کو بلایا جن پر اسے کلی طور پر اعتماد تھا۔ وہ آئے تو اس نے انہیں کہا… ''میں تم سے اب جو بھی بات کروں، وہ اپنے سینے میں اتار لینا۔ تم دونوں کے علاوہ علی بن سفیان تیسرا آدمی ہوگا جو اس راز سے واقف ہوگا''… اس نے انہیں دمشق اور دیگر تمام اسلامی ریاستوں اور جاگیروں کے احوال وکوائف سنائے۔ علی بن سفیان کی لائی ہوئی رپورٹ سنائی اور کہا… ''اللہ کی فوج اللہ کے حکم کی تعمیل کیا کرتی ہے۔ امیر اور خلیفہ کی اطاعت ہم پر فرض ہے لیکن امیر اور خلیفہ ہی اللہ کے عظیم مذہب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناموس کے دشمن ہوجائیں تو اللہ کے سپاہی پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امت رسول اللہ کی ناموس کو بچائیں۔ اور میرا وجود ملک وملت کے لیے خطرے اور بدنامی کا باعث بنے تو تمہارا فرض ہے کہ میرا سر میرے دھڑ سے جدا کردو یامجھے بیڑیاں پہنا کر قید خانے میں پھینک دو اور ملک میں احکام خداوندی نافذ کرو۔ آج یہی فرض ہم پر عائد ہوگیا ہے۔ ہمارا خلیفہ قومی غیرت اور وقار سے دستبردار ہوکر اسلام کے دشمنوں کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے۔ ان سے مدد مانگ رہا ہے۔ ان کے جاسوسوں کو پناہ دے رہا ہے۔ اس کے حاشیہ بردار عیش وعشرت میں ڈوب گئے ہیں۔ سلطنت اسلامیہ کے حصے بخرے کررہے ہیں۔ شمس الدین والی حلب نے صلیبیوں کے آگے ہتھیار ڈال کر تاوان ادا کیا اور صلح کرلی ہے اور صلیبی عالم اسلام پر حاوی ہوتے جارہے ہیں تو کیا ہمارے لیے یہ ضروری نہیں ہوگیا کہ ہم فوجی طاقت سے خلیفہ کو اس مقدس گدی سے اٹھائیں اور اسلام کی آبرو بچائیں؟''

''بالکل فرض ہوگیا ہے''۔ دونوں مشیروں نے بیک زبان کہا۔

''اب ہمارا اقدام جو کچھ بھی ہوگا وہ ہم چاروں کے درمیان راز ہوگا''۔ سلطان ایوبی نے کہا اور ان کے ساتھ اپنے سوچے ہوئے اقدام کی منصوبہ بندی شروع کردی۔

صلیبی جاسوسوں اور لڑکیوں کو علی بن سفیان اپنے مخصوص تہہ خانے میں لے گیا اور انہیں کہا… ''تم ایسے جہنم میں داخل ہوگئے ہو جہاں تم زندہ بھی نہیں رہو گے اور مرو گے بھی نہیں۔ اپنے جسموں کو ہڈیوں کا ڈھانچہ بنا کر جو باتیں تم میرے سامنے اگلو گے وہ اسی صحتمندی کی حالت میں بتا دو اور اس جہنم سے رہائی حاصل کرو۔ میں تمہیں سوچنے کا موقعہ دیتا ہوں۔ تھوڑی دیر بعد آئوں گا''۔

وہ جب انہیں بیڑیاں ڈالنے کا حکم دے رہا تھا تو ایک صلیبی نے کہا… ''ہم ساری باتیں بتا دیں گے، ہمیں سزا دینے سے پہلے یہ درخواست سن لیں کہ ہم تنخواہ پر کام کرنے والے ملازم ہیں۔ سزا حکم دینے والوں کو ملنی چاہیے۔ ہم جو مرد ہیں، سختیاں برداشت کرلیں گے، ہم ان لڑکیوں کو اذیت سے بچانا چاہتے ہیں''۔

''انہیں کوئی ہاتھ نہیں لگائے گا''۔ علی بن سفیان نے کہا… ''تم میرا کام آسان کردو گے تو لڑکیاں تمہارے ساتھ رہیں گیں۔ اس تہہ خانے سے تم سب کو نکال لیا جائے گا اور باعزت نظربندی میں رکھا جائے گا''۔

انہوں نے جو انکشاف کیے ان سے ان تمام حالات کی تصدیق ہوگئی جو نورالدین زنگی کی وفات کے بعد پیدا ہوگئے تھے۔

٭ ٭ ٭

تین روز بعد…

مصر کی سرحد سے بہت دور شمال مشرق کی سمت مٹی کے اونچے نیچے ٹیلوں اور گھاٹیوں کا وسیع خطہ تھا، جس میں کہیں کہیں سبزہ بھی تھا اور پانی بھی۔ یہ خطہ قافلوں اور فوجوں کے عام راستوں سے ہٹ کر تھا۔ اس کے اندر ایک جگہ بے شمار گھوڑے بندھے ہوئے تھے۔ ان سے ذرا پرے سوار سوئے ہوئے تھے اور ان سے الگ ہٹ کر چھوٹا سا ایک خیمہ لگا ہوا تھا جس کے اندر ایک آدمی سویا ہوا تھا۔ تین چار آدمی ٹیلوں کے اوپر ٹہل رہے تھے اور تین چار آدمی اس خطے کے باہر بکھر کر گھوم پھر رہے تھے… خیمے میں سویا ہوا آدمی سلطان صلاح الدین ایوبی تھا۔ ٹیلوں پر اور ٹیلوں کے باہر گھومنے پھرنے والے آدمی سنتری تھے اور جو سوار سوئے ہوئے تھے، وہ سلطان ایوبی کے سوار تھے۔ ان کی تعداد سات سو تھی۔

صلاح الدین نے بڑی گہری سوچ وبچار کے بعد یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ کم سے کم فوج اپنے ساتھ لے کر دمشق جائے گا۔ اگر اس کا استقبال ایک سلطان کی حیثیت سے ہوا تو زبانی بات چیت کرے گا اور اگر مزاحمت ہوئی تو وہ اسی نفری سے مقابلہ کرے گا۔ علی بن سفیان نے اسے یقین دلایا تھا کہ خلیفہ اور امراء کے محافظ دستوں نے مزاحمت کی تو سالار توفیق جواد اپنی فوج سلطان ایوبی کے حوالے کردے گا۔ زنگی کی بیوہ نے یقین دلایا تھا کہ شہر کے لوگ سلطان ایوبی کا استقبال کریں گے لیکن سلطان ایوبی نے اپنے آپ کو خوش فہمیوں میں کبھی مبتلا نہیں ہونے دیا تھا۔ اس نے یہ فرض کرکے فیصلہ کیا تھا کہ وہ سات سو سواروں کے ساتھ جہاں جارہا ہے، وہاں کا ہر ایک سپاہی اور بچہ بچہ اس کا دشمن ہے۔ اس نے اپنے رسالے )گھوڑ سوار دستوں( میں سے وہ سات سو سوار منتخب کیے تھے جو بہت سے معرکے لڑ چکے تھے، ان میں چھاپہ مار سوار بھی تھے جو دشمن کے عقب میں معرکے لڑنے کا تجربہ رکھتے تھے۔ جنگی مہارت کے علاوہ یہ سوار جذبے کے جنونی تھے جن کی آنکھیں صلیب کا نام سن کر لال سرخ ہوجایاکرتی تھیں۔ آج کی فوجی زبان میں یہ ''کریک ٹروپس'' تھے۔

قاہرہ سے ان سواروں کو سلطان ایوبی نے رات کے وقت خفیہ طریقے سے نکالا تھا۔ وہ ایک ایک دو دو کرکے نکلے تھے اور قاہرہ سے بہت دور ایک پہلے سے بتائی ہوئی جگہ اکٹھے ہوئے تھے۔ سلطان ایوبی بھی خفیہ طریقے سے قاہرہ سے نکلا تھا۔ صرف علی بن سفیان اور دو خصوصی فوجی مشیروں کو اس کا علم تھا۔ سلطان ایوبی کا محافظ دستہ بدستور قاہرہ میں اس کے گھر اور ہیڈکوارٹر میں مستعد رہتا تھا۔ اس سے یہ تاثر دیا جارہا تھا کہ سلطان ایوبی یہیں ہے۔

تمام یورپی اور مسلمان مورخین اس پر متفق ہیں کہ سلطان ایوبی نے سات سو سوار منتخب کیے۔ خفیہ طریقے سے شہر سے نکلا اور دمشق کو روانہ ہوا۔ قاہرہ اور گردونواح میں صلیبی جاسوس موجود تھے۔ ان میں مصری مسلمان بھی تھے جن میں کچھ سرکاری ملازمت میں بھی تھے مگر کسی کو خبر تک نہ ہوئی کہ قاہرہ سے سلطان ایوبی اور سات سو سوار غائب ہیں۔ مورخین لکھتے ہیں کہ سلطان ایوبی دمشق میں داخل ہونے تک اپنی نقل وحرکت کو راز میں رکھنا چاہتا تھا۔ اس مقصد کے لیے وہ رات کو سفر کرتا اور دن کو کہیں چھپ جاتا تھا۔ سات سو گھوڑوں اور سواروں کو چھپانا ممکن نہیں تھا لیکن سلطان ایوبی ریگزار کا بھیدی تھا۔ ایسے راستے سے جارہا تھا جدھر سے کوئی قافلہ نہیں جایا کرتا تھا اور وہ چھپنے کی جگہ ڈھونڈ لیتا تھا۔ دو یورپی مورخوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس خفیہ سفر کے دوران وہ سواروں کے ساتھ عام سپاہیوں کی طرح گھلا ملا، گپ شپ لگاتا اور باتوں باتوں میں انہیں آگ کے بگولے بناتا رہا۔ اس کے ساتھ انہیں سمجھاتا رہا کہ آگے حالات کیا ہیں اور کیا ہوسکتے ہیں۔ اس نے سواروں کو کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں کیا، کوئی جھوٹی امید نہیں دلائی، انہیں خطروں سے آگاہ کرتا رہا۔ سلطان ایوبی کی شخصیت اورکردار میں جو جلال تھا، وہ ہر ایک سوار کی روح میں اتر گیا اور سوار اڑ کر دمشق پہنچنے کے لیے بیتاب ہوگئے۔

مورخہ میں البتہ یہ اختلاف پایا جاتا ہے کہ یہ ١١٧٤ء کا کون سا مہینہ تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ جولائی کامہینہ تھا، بعض نے نومبر لکھا ہے۔ بہرحال یہ واقعہ نورالدین زنگی کی وفات کے بعد کا ہے۔ اگر وقائع نگاروں کی تحریروں میں چھوٹے چھوٹے واقعات غور سے پڑھے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سلطان ایوبی ستمبر کے ابتدائی دنوں میں دمشق کے لیے روانہ ہوا تھا۔ اس نے مصر کی ہائی کمانڈ خفیہ طور پر اپنے دو مشیروں کے سپرد کردی تھی۔ سوڈان کی طرف کی سرحد پر مورچہ بندی اور دفاعی انتظامات مزید مضبوط کردئیے تھے۔ شمال کی طرف بحریہ کو حکم دیا گیا تھا کہ ہر وقت، دن رات، سمندر میں دور دور تک کشتیاں گشت کرتی رہیں اور جنگی جہاز بحری سپاہیوں کے ساتھ ہر لمحہ تیاری کی حالت میں رہیں۔ سلطان ایوبی نے اپنے جانشینوں سے کہہ دیا تھا کہ کسی بھی طرف سے حملہ آئے تو وہ اس کے حکم کا انتظار نہ کریں۔ اس نے یہ بھی حکم دے دیا تھا کہ سرحد پر دشمن ذرا سی بھی گڑ بڑ کرے تو شدید قسم کی جوابی کارروائی کرو۔ ہر وقت جارحیت کے لیے تیار رہو۔ اگر ضرورت محسوس ہو تو سوڈان کے اندر جاکر مصر کا دفاع کرو۔

سلطان ایوبی مصر کو اپنی فوج اور خدا کے حوالے کرکے چوری چھپے سات سو سواروں کے ساتھ دمشق جارہا تھا۔

٭ ٭ ٭
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
Post Reply

Return to “اسلامی کتب”