داستان ایمان فروشوں کی جلد‎ ‎دوم

اردو زبان میں لکھی جانے والی اسلامی کتابیں، آن لائن پڑھئے اور ڈاونلوڈ کیجئے
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

داستان ایمان فروشوں کی جلد‎ ‎دوم

Post by ایکسٹو »

السلام وعلیکم...!
فیس بک کے صفحے سرفروش ٹیم کی جناب سے‎ ‎داستان‎ ‎ایمان فروشوں کی جلد اول کے بعد جلد دوم حاضر خدمت ہے۔۔
داستان ایمان فروشوں کی باقی جلدوں پر کام جاری ہے۔ اگر آپ میں سے کوئی صاحب داستان کی ٹائپنگ کے اس نیک کام میں ھمارے ساتھ دینا چاہے‎ ‎تو ھمارے فیس بک کے صفحے پر ھم سے رابطہ کرے‎ ‎الله آپ سب کا حامی و ناصر ھو


ھمارے فیس بک کے صفحے پر رسائی کیلۓ یہ لنک اوپن کریں۔ شکریہ
نوٹ۔: جب تک داستان پوری پوسٹ نے ھو تب تک اس لڑی پر اپنی راۓ دینے سر گریز کریں شکریہ
Last edited by ایکسٹو on Sat Jan 31, 2015 5:06 pm, edited 1 time in total.
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: داستان ایمان فروشوں کی جلد

Post by ایکسٹو »

داستان ایمان فروشوں کی
جلد دوم
قاھرہ میں بعاوت اورسلطان ایوبی




فلسطین ابھی صلیبیوں کے پائوں تلے کراہ رہا تھا۔ یروشلم صلیب پر لٹکا ہوا تھا۔ اس مقدس شہر سے خون رِس رہا تھا ، وہاں کے مسلمان جو صلیبیوں کے ظالمانہ استبداد کے شکنجے میں آئے ہوئے تھے، پس رہے تھے ، تڑپ رہے تھے اور صلاح الدین ایوبی کا انتظار کررہے تھے۔ اُن تک یہ اطلاعیں پہنچ چکی تھیں کہ سلطان صلاح الدین ایوبی فلسطین کی سرزمین میں داخل ہو چکا ہے اور شوبک کاقلعہ مسلمانوں کے قبضہ میں ہے۔یہ ان کے لیے خوشخبری تھی مگر یہ خوش خبری پیغامِ اجل ثابت ہوئی۔ صلیبیوں نے شوبک کی شکست کا انتقام یروشلم اور دیگر شہروں اور قصبوں کے مسلمانوں سے لینا شروع کردیا تھا۔ وہ مسلمانوں کو مردہ کردینا چاہتے تھے تا کہ وہ جاسوسی نہ کر سکیں اور حملے کی صورت میں صلاح الدین ایوبی کی مدد کرنے کی جرأت نہ کریں۔سب سے زیادہ مظالم کرک کے مسلمانوں پر توڑے جا رہے تھے۔ شوبک کے بعد کرک ایک بڑا قلعہ تھا جس پر صلیبیوں کو بہت ناز تھا۔ ایسا ہی ناز انہیں شوبک پر بھی تھا، مگر اُس کے ناز کو سلطان صلاح الدین ایوبی کی نہایت اچھی چال اور اس کے مجاہدین کی شجاعت نے ریت کے ذروں کی طرح بکھیر دیا تھا۔ اب صلیبی کرک کو مضبوط کر رہے تھے ، وہاں کے مسلمان باشندوں پر تشدد ایک احتیاطی تدبیر تھی۔ صلیبیوں کو یہ وہم ہوگیا تھا کہ مسلمان جاسوسی کرتے ہیں۔ چنانچہ یہاں بھی انہوں نے شوبک کی طرح مشتبہ مسلمانوں کو بیگار کیمپ میں پھینکنا شروع کردیا تھا۔

''فلسطین کی فتح ہمارا ایک عظیم مقصد ہے مگر کرک سے مسلمانوں کو نکالنا اس سے بھی عظیم تر مقصد ہونا چاہیے''۔ جاسوسوں کے ایک گروہ کا سربراہ سلطان صلاح الدین ایوبی کو بتا رہا تھا ۔ وہ طلعت چنگیز نام کا ایک تُرک تھا جو چھ جاسوسوں کو شوبک سے بھاگے ہوئے عیسائی باشندوں کے بہروپ میں کرک لے گیا تھا۔ وہ تین مہینوں بعد واپس آیا تھا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کو علی بن سفیان ِکی موجودگی میں وہاں کے حالات بتا رہا تھا۔ صلیبی فوج جو بھاگ کر کرک پہنچی تھی ،اس کے متعلق اس نے بتایا کہ خاصی بُری حالت میں ہے اور فوری طور پر لڑنے کے قابل نہیں۔ اس ہاری ہوئی فوج نے کرک میں جاتے ہی مسلمانوں کا جینا حرام کردیا۔ اندھا دُھند گرفتاریاں شروع ہوگئیں۔ مسلمانوں عورتوں نے باہر نکلنا چھوڑ دیا ہے، جہاں کسی مسلمان پر ذرا سا شک ہوتا ہے ، اُسے پکڑ کر بیگار کیمپ میں لے جاتے ہیں ، جہاں انسان ایسا مویشی بن جاتا ہے جو بو ل نہیں سکتا۔ صبح کے اندھیرے سے رات کے اندھیرے تک کام کرتا، سوکھی روٹی اور پانی پر زندہ رہتا ہے …… ''ہم نے وہاں زمین دوز مہم چلائی ہے کہ جتنے مسلمان جوان ہیں یا لڑنے کی عمرمیں ہیں ، وہ یہاں سے نکل کر شوبک پہنچیں اور فوج میں بھرتی ہوجائیں ، تاکہ کمک کا انتظار کیے بغیر کرک پرحملہ کیا جاسکے ''…… چنگیز تُر ک نے کہا…… ''ہماری موجودگی میں کچھ لوگ وہاں سے نکل آئے تھے لیکن یہ کام ایک تو اس لیے مشکل ہے کہ ہر طرف صلیبی فوج پھیلی ہوئی ہے اور دوسری مشکل یہ ہے کہ اپنے کنبوں، خصوصاً عورتوں کو وہ عیسائیوں کے رحم وکرم پر چھوڑ کر نہیں آسکتے ۔ فوری ضرورت یہ ہے کہ کرک پر حملہ کیا جائے اور مسلمانوں کو نجات دلائی جائے''۔

اس سے پہلے ایک اور جاسوس یہ اطلاع دے چکا تھا کہ صلیبیوں کی سکیم اب یہ ہے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کرک کا محاصرہ کرے گا تو صلیبیوں کی ایک فوج، جو ایک صلیبی حکمران ریمانڈ کے زیر کمان ہے، عقب سے حملہ کرے گی ۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے پہلے ہی اپنے فوجی سربراہوں سے کہہ دیا تھا کہ صلیبی عقب سے حملہ کریں گے۔ اس صورتِ حال کے لیے اُسے زیادہ فوج کی ضرورت تھی ۔ اسنے چنگیز کو رخصت کرکے علی بن سفیان سے کہا …… ''جذبات کا تقاضا یہ ہے کہ ہمیں فوراً کرک پر حملہ کر دینا چاہیے۔ میں اچھی طرح اندازہ کرسکتا ہوں کہ وہاں کے مسلمان کس جہنم میں پڑے ہوئے ہیں، لیکن حقائق کا تقاضا یہ ہے کہ اپنی صفوں کو مستحکم کیے بغیر ایک قدم آگے نہ اُٹھائو، ضرب اُس وقت لگائو ، جب تمہیں یقین ہوکہ کاری ہوگی۔ ہم ان عورتوں اوربچوں کو نہیں بھول سکتے جو دشمن کے ہاتھوں ذلیل وخوار اور قتل ہو رہے ہیں ۔ یہ ہمارے گمنام شہید ہیں ، یہ قوم کی عظیم قربانی ہے۔ میں انہی کی آبرو کے وقار کے لیے فلسطین لینا چاہتاہوں، اگر میرا مقصد یہ نہ ہو تو جنگ کا مقصد ڈاکہ اور لوٹ مار رہ جاتا ہے۔ وہ قوم جو اپنی اُن بچیوں اور بچوں کوبھول جائے جو دشمن کے استبداد میں ذلیل وخوار اورقتل ہوئے ، وہ قوم ڈاکوئوں اور رہزنوں کا گروہ بن جاتی ہے ۔ اس قوم کے افراد دشمن سے انتقام لینے کی بجائے ایک دوسرے کو لوٹتے، ایک دوسرے کودھوکے اور فریب دیتے ہیں۔ اُن کے حاکم قوم کو لوٹتے اورعیش و عشرت کرتے ہیں اور جب دشمن انہیں کمزور پا کر اُن کے سر پر آجاتا ہے تو کھوکھلے نعرے لگا کر قوم کے بے وقوف بناتے ہیں اور دشمن کے ساتھ درپردہ سودا بازی کرتے ہیں۔وہ اپنے ملک کا کچھ حصہ اور اس حصے کی آبادی نہایت راز دار انہ طریقے سے دشمن کے حوالے کرکے باقی ملک میں اپنی حکمرانی قائم رکھتے ہیں ، پھر وہ اورزیادہ عیش اور لوٹ کھسوٹ کرتے ہیں ، کیونکہ وہ جاتے ہیں کہ دشمن انہیں بخشے گا نہیں …… یہ عیش چند روزہ ہے لہٰذا قوم کی رگوں سے خون کا آخری قطرہ بھی جلدی جلدی نچوڑ لو ''۔

سلطان صلاح الدین ایوبی نے ایسی متعدد قوموں کے نام لیے اور کہا …… ''وہ توسیع پسند تھے ۔ اُن کے سامنے اس کے سوا کوئی مقصد نہ تھا کہ ساری دنیا پر بادشاہی کریں اور دُنیا بھر کی دولت سمیٹ کر اپنے قدموں میں ڈھیر لگا لیں۔ انہوں نے دوسری قوموں کی عصمت دری کی اور اُن کی اپنی بیٹیاں اور بہنیں دوسروں کے ہاتھوں بے آبرو ہوئیں۔ ان قوموں کے حکمران پرائی زمین پر ہلاک ہوئے اور اُن کانام و نشان کس نے مٹایا؟ ان قوموں نے، جو غیرت مند تھیں اور جنہیں احساس تھا کہ اُن کی زمین کو اور اُن کی عصمت کو دشمن نے ناپاک کیا ہے اور اس کا انتقام لیناہے۔ ہم بھی حملہ آور ہیں ، صلیبی بھی حملہ آور ہیں لیکن ہم میں فرق ہے۔ وہ دور دراز ملکوں سے ہمارے مذہب کا نام و نشان مٹانے آئے ہیں ۔ وہ اس لیے آئے ہیں کہ مسلمان عورتوں کو اپنی گرفت میں لے کر ان کے بطن سے صلیبی پیدا کریں۔ ہم اُن کی آبرو کے دفاع کے لیے حملہ آور ہوئے ہیں ۔ اگر ہم کفر کے طوفان کونہ روکیں تو ہم بے غیرت ہیں اور ہم مسلمان نہیں اور اگر اسلام کا دفاع اس انداز سے کریں کہ دشمن کے انتظار میں گھر بیٹھے رہیں اور جب وہ حملہ آور ہو تو اپنے گھر میں اُس کے خلاف لڑیں اورپھر فخر سے کہیں کہ ہم نے دشمن کا حملہ پسپا کردیا ہے تو یہ ثبوت ہے ہماری بزدلی کا۔ دفاع کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ دشمن تمہیں مارنے کے لیے نیام سے تلوار نکالنے لگے توتمہاری تلوار اُس کی گردن کاٹ چکی ہو۔ وہ کل حملے کے لیے آنے والا ہو تو آج اُس پر حملہ کردو ''۔

''میرے پاس اس کا ایک ہی علاج ہے کہ محترم نورالدین زنگی سے کمک مانگی جائے''۔ علی بن سفیان نے کہا …… ''اور کرک پر حملہ کر دیا جائے ''۔

''یہ بھی نقصان دہ ہوگا ''……سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا …… ''زنگی کے پاس اتنی فوج موجود رہنی چاہیے کہ صلیبی اگر ہمارے عقب پر حملہ کریں تو زنگی اُن کے عقب پر حملہ کر سکے۔ میں مدد مانگنے کا قائل نہیں۔ اس کی بجائے میں یہ بھی کر سکتا ہوں کہ کرک میں چھاپہ مار دستے بھیج کر صلیبیوں کا جینا حرام کیے رکھوں ۔ مجھے اُمید ہے کہ ہمارے جاسوس چھاپہ مار صلیبیوں کی جڑیں چوہوں کی طرح کاٹتے رہیں گے مگر اس کی سزا وہاں کے بے گناہ مسلمان باشندوں کو ملے گی۔ چھاپہ مار تو اپنا کام کرکے اِدھر اُدھر ہوجائیں گے ۔ وہ ہر قسم کی سختی اور مصیبت جھیل سکتے ہیں ۔ ہمارے نہتے بہن بھائی کچلے جائیں گے ۔ البتہ اس تجویز پرغور کرو کہ وہاں سے مسلمان کنبوں کو نکالنے کا کوئی خفیہ انتظام کیا جائے۔ حملے میں کچھ وقت لگے گا۔ ہمیں خاصی بھرتی مل گئی ہے۔ کرک کے جوان بھی آگئے ہیں اور آرہے ہیں ''۔

٭ ٭ ٭

''میں محسوس کرنے لگا ہوں کہ ہمیں یہاںکے باشندوں کے متعلق اپنی پالیسی میں تبدیلی کرنے پڑے گی''۔ صلیبیوں کے محکمہ جاسوسی اور سراغرسانی کے سربراہ ہرمن نے کہا۔ قلعہ کرک میں چند ایک صلیبی بادشاہ، اُن کے فوجی کمانڈر اور انتظامیہ کے حکام جمع تھے۔ وہ جوںجوں اپنی ہاری ہوئی فوج کو دیکھ رہے تھے ، ان کی عقل پر غصہ اور انتقام غالب آتا جا رہاتھا۔وہ شکست کوبہت جلدی فتح میں بدلنا چاہتے تھے۔اُن میں ان کی انٹیلی جنس کا سربراہ ہرمن ، واحد آدمی تھا جو ٹھنڈے دِل سے سوچتا اور عقل کی بات کرتاتھا۔ وہ دیکھ رہا تھا کہ اس کے صلیبی بھائی کرک کے مسلمان باشندوں کے ساتھ کیسا وحشیانہ سلوک کر رہے ہیں۔ اس نے کہا …… ''آپ نے یہی سلوک شوبک کے مسلمانوں کے ساتھ روارکھا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ انہوں نے وہاں ''مسلمانوں کے کیمپ''سے اُس مسلمان فوجی کو بھگا دیا جسے ہم نے خطرنام جاسوس سمجھ کر قید میں ڈال دیا تھا ۔ مجھے یقین ہے کہ اُسے وہاں کے مسلمانوں نے پناہ دی تھی ۔ وہ قلعے کے اندرونی حالات اور دفاع کو دیکھ کر گیا تھا۔ اسکے علاوہ صلاح الدین ایوبی نے ہمارے قلعے کی دیوار جوتوڑی تھی، اس میں اند کے مسلمانوں کا بھی ہاتھ تھا۔ وہ آپ کے سلوک سے اس قدر تنگ آئے ہوئے تھے کہ انہوں نے جان کی بازی لگا کر مسلمان فوج کی مدد کی اور جب فوج کا ہر اوّل دستہ اندر آیا تو مسلمانوں نے اس کی رہنمائی کی ''۔

''اس لیے ہم کرک کے مسلمانوں کا دم خم توڑ رہے ہیں کہ اُن میں جذبہ اور ہمت ہی نہ رہے ''…… ایک صلیبی سالار نے کہا ۔

''اس کی بجائے اگر آپ انہیں اپنا دوست بنا لیں تو وہ آپ کی مدد کریں گے ''۔ ہرمن نے کہا …… ''اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں پیار اور محبت سے انہیں اُن کا مذہب تبدیل کیے بغیر صلیب کا گرویدہ بنالوں گا۔ میں انہیں مسلمانوں کو مسلمانوں کے خلاف لڑادوں گا''۔

''تم بھول رہے ہو ہرمن!''ایک مشہور صلیبی بادشاہ ریمانڈ نے کہا …… ''تم چند ایک مسلمانوں کو لالچ دے کر انہیں غدار بنا سکتے ہو، مگر ہرایک مسلمان کو اسلامی فوج کے خلاف نہیں کر سکتے۔ پوری قوم غدار نہیں ہوسکتی۔ ہرمن! تم ان لوگوں پر اتنا بھروسہ نہ کرو، ہم انہیں دوست نہیں بنانا چاہتے۔ ہم ان کی نسل ختم کر نا چاہتے ہیں۔ کوئی بھی غیرمسلم کسی مسلمان کے ساتھ محبت کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسلام سے محبت کرتا ہے ،جبکہ ہمارا مقصد اسلام کا خاتمہ ہے۔ کرک میں، یروشلم میں، عقہ اور عدیسہ میں جہاں بھی صلیب کی حکمران یہے ، مسلمانوں کو اس قدر پریشان کرو کہ وہ مر جائیں یا وہ صلیب کے آگے گھٹنے ٹیک دیں ''۔

''مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ صلاح الدین ایوبی کو باقاعدہ معلوم ہوتا جارہا ہے۔ ''ہرمن نے کہا …… ''آپ اسے اُکسا رہے ہیں کہ وہ کرک پر جلدی حملہ کرے۔ آپ یہ بھول رہے ہیں کہ ہماری فوج فوری حملے کے آگے ٹھہرنے کے قابل نہیں ''۔

''اس کا حل یہ نہیں کہ ہم مسلمان باشندوں کو سر پر بٹھالیں ''۔ فلپ آگسٹس نے کہا …… ''آپ لوگ مسلمان جنگی قیدیوں کو ابھی تک پال رہے ہیں۔ انہیں قتل کیوں نہیں کردیتے؟''

''اس لیے کہ ایوبی ہمارے قیدیوں کو قتل کردے گا''۔ گے آف لوزینان نے جواب دیا …… ''ہمارے پاس مسلمانوں کے کل تین سواِکسٹھ جنگی قیدی ہیں۔ مسلمانوں کے پاس ہمارے بارہ سو پچہتر قیدی ہیں''۔

''کیاہم ایک مسلمان کو مارنے کے لیے چار صلیبی نہیں مروا سکتے؟'' …… آگسٹس نے کہا …… ''ہمارے وہ قیدی جو صلاح الدین ایوبی کے پاس ہیں، بزدل تھے، وہ لڑنے کی بجائے قید ہوئے۔ وہ زندہ رہنا چاہتے تھے۔ وہ مسلمانوں کے ہاتھوں مرجائیں تو اچھا ہے، تم اطمینان سے مسلمان قیدیوں کو ختم کردو''۔

''کیا مسلمان باشندوں کے ساتھ درنوں جیسا سلوک کرکے اور مسلمان جنگی قیدیوں کو قتل کرکے تم صلاح الدین ایوبی کو شکست دے دو گے؟'' سالار کے عہدے کے ایک صلیبی نے کہا …… ''اس قوت فوج کے سامنے یہ مسئلہ ہے کہ صلاح الدین ایوبی اگر پیش قدمی کر آیا تو اُسے کس طرح روکیں گے اور اُسے شوبک کا قلعہ واپس کس طرح لیا جاسکتا ہے۔ کرک کے تمام مسلمانوں کو قتل کردو۔ پھر کیا ہوگا ؟ صلاح الدین ایوبی کی طرح تم اپنی نظر میں وسعت پیدا کیوں نہیں کرتے۔ کیا ہرمن بتا سکتا ہے کہ مصرمیں اس زمین دوزکاروائیاں کیا ہیں اور کامیابی کتنی ہے؟''

''توقع سے زیادہ''۔ہرمن نے جواب دیا۔ ''علی بن سفیان صلاح الدین ایوبی کے ساتھ شوبک میں ہے۔ میں نے قاہرہ میں اس کی غیرحاضری سے بہت فائدہ اُٹھایا ہے۔ قاہرہ کے نائب ناظم مصلح الدین کو فاطمیوں نے اپنے ساتھ ملالیا ہے۔ مصلح الدین ایوبی کا معتمد خاص ہے، لیکن اب ہمارے ہاتھ میںہے۔ فاطمیوں نے در پردہ اپنا ایک خلیفہ مقرر کردیا ہے۔ وہ قاہرہ کے اندر سے بغاوت اور سوڈانیوں کے حملے کا انتظار کرہے ہیں۔ ہمارے فوجی افسر سوڈان کی فوج تیارکرہے ہیں۔ قاہرہ میں صلاح الدین ایوبی جو فوج چھوڑ آیا ہے، اس کے دو نائب سالار ہمارے ہاتھ میں کھیل رہے ہیں، اُدھر سے سوڈانی فوج حملہ کریںگے۔ قاہرہ میں بغاوت ہوگی اور فاطمی اپنی خلافت کا اعلان کردیں گے''۔

''مجھے سو فیصد اُمید ہے کہ قاہرہ میں جواس کی فوج ہے ، وہ اس کے کام نہیں آسکے گی ''۔ ہرمن نے کہا …… ''میرے آدمیوں نے فوج میں اس قسم کے شکوک پیدا کر دئیے ہیں کہ انہیں قاہرہ میں پیچھے چھوڑ کر مالِ غنیمت سے محروم کر دیا گیا ہے اور یہ بھی شوبک کی سینکڑوں عیسائی لڑکیاں صلاح الدین ایوبی کے ہاتھ آئی ہیں جو اُس نے وہاں فوج کے حوالے کردی ہیں۔ میری کامیابی یہ ہے کہ میں نے مسلمان فوجی حکام کے ہی منہ میں یہ افواہیں ڈال کر اُن کی فوج میں پھیلائی ہیں۔ میں نے ایسے حالات پیدا کر دئیے ہیں کہ قاہرہ کی تمام فوج سوڈانیوں کا ساتھ دے گی اور صلاح الدین ایوبی کو بغاوت کرو کرنے کے لیے یہاں سے تمام فوج لے جانی پڑے گی ، مگر یہ فوج اُس وقت وہاں پہنچے گی جب قاہرہ ایک بار پھر فاطمی خلافت کی گدی بن چکا ہوگا اور وہاں سوڈان کی فوج قابض ہوگی۔ ضروری نہیں کہ ہم یہاں صلاح الدین ایوبی پر حملہ کریں اور اُسے روکیں ۔ ہم اُسے بھٹکنے کے لیے کھلا چھوڑ دیں گے۔ ہم اُسے مسلمانوں کے ہاتھوں مروائیں گے''۔ ہرمن نے زور دے کر کہا…… ''آپ ابھی تک مسلمان کی نفسیات نہیں سمجھ سکے۔ یہی وجہ کہ آپ میری بعض کارگر باتیں نظر انداز کردیتے ہیں ۔ مسلمان اگر فوجی ہو اور اس کے دماغ میں ٹریننگ کے دوران یہ بٹھا دیا جائے کہ وہ ملک اور قوم کا محافظ ہے تو وہ ملک اور قوم کی خاطر جان قربان کر دیتا ہے۔ دُنیا کی بادشاہی اس کے قدموں رکھ دو، وہ سپاہی رہنا پسند کرے گا، قوم سے غداری نہیں کرے گا ۔ اگر اسی فوجی میں جنسی لذت، شراب نوشی اور عہدوں کی خواہش پیدا کردو تو وہ اپنا مذہب بھی دائو پر لگا دیتا ہے۔ ہم نے جن مسلمان فوجی حکام کو اپنے ساتھ ملایا ہے ، اُن میں یہی خامیاں پیدا کی تھیں اور کر رہے ہیں ''……
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: داستان ایمان فروشوں کی جلد

Post by ایکسٹو »


''مگر فوجی کو غدار بنانا آسان نہیں جتنا انتظامیہ کے حکام کو اپنے ہاتھ میں لینا آسان ہے''۔ ہرمن نے کہا …… ''انتظامیہ کے ہر حاکم میں امراء اور وزراء کی صف میں آنے کی شدید خواہش ہوتی ہے۔ اگ لوگوں پر بادشاہ بننے کا خبط سوار ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ دیکھیں۔ اس کے رسول )صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (کے بعد یہ لوگ خلافت پر ایک دوسرے سے لڑتے رہے۔ ان کے جرنیلوں نے نہایت دیانت داری سے اپنا کام جاری رکھا۔ وہ دوسرے ملکوں کو تہ تیغ کرتے رہے اور اسلامی سلطنت کو وسیع کرنے کی کوشش کرتے رہے، لیکن اُن کے خلیفوں نے جہاں دیکھا کہ فلاح جرنیل ایسا مقبول ہوگیا ہے کہ اس کف فتوحات کی بدولت اُسے قوم خلیفہ سے زیادہ مقام دینے لگی ہے تو خلیفہ اور اُس کے حواریوں نے جرنیل کو غلط احکام دے کر اُسے ذلیل اور رُسوا کردیا۔ خود خلیفہ کی گدی مخالفین سے محفوظ نہ رہی ۔ مخالفین کی نگاہ اسلامی سلطنت کی وسعت سے ہٹ کر خلاف کے حصول پر مرکوز ہوگئی۔ جرنیل ہارتے چلے گئے۔ اسی کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہم عرب میں بیٹھے ہیں ۔ صلاح الدین ایوبی انہیں جرنیلوں میں سے ہے جو سلطنت کو اُنہی سرحدوں تک لے جانا چاہتا ہے جہاں یہ پہلے جرنیلوں نے پہنچائی تھیں۔ اس شخص میں خوبی یہ ہے کہ انتظامیہ اور خلافت کی پرواہ نہیں کرتا۔ اس نے مصر کی خلافت کو اپنے ارادوں کے سامنے رکاوٹ بنتے دیکھا تو خلیفہ کو ہی معزول کردیا۔ یہ دلیرانہ قدم اس نے فوجی طاقت اور اپنی فہم و فراست کے بل بوتے پر اُٹھایا تھا''۔



ہرمن بولتا جا رہا تھا۔ تمام حکمران اور صلیبی کمانڈر انہماک سے سُن رہے تھے۔ وہ کہہ رہا تھا …… ''صلاح الدین ایوبی اپنی قوم کی اس کمزوری کو سمجھ گیا ہے کہ غیر فوجی قیادت گدی کی خواہش مند ہے اور یہ خواہش ایسی ہے کہ جوزن اور زرپرستی اور شراب نوشی جیسی عادتیں پیدا کرتی ہے۔ ہم نے صر اُن فوجی افسروں کو ہاتھ میں لیا ہے جو اقتدار کے خواہش مند ہیں۔ اسی لیے ہم زیادہ تر اثر انتظامیہ کے سربراہوں پر ڈال رہے ہیں ۔ فوج کو کمزور کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اسے لوگوں کی نظروں میں رسوا کردیا جائے۔ یہ کام میرا ہے جو میں کر رہا ہوں۔ آپ شاید میری تائید نہ کریں ، لیکن میں آپ کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ آپ صلاح الدین ایوبی کو میدانِ جنگ میں آسانی سے شکست نہیں دے سکتے۔ وہ صرف لڑنے کے لیے نہیں لڑتا۔ اس کے عزم کی بنیاد ایک ایسے منصوبے پر ہے جسے اس کی ساری فوج سمجھتی ہے۔ اس کی بنیادی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے خلیفہ سے یا غیر فوجی قیادت سے حکم نہیں لیتا۔ وہ کٹر مسلمان ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ میں خدا اور قرآن پاک سے حکم لیتا ہوں۔ میرے جو جاسوس بغداد میں ہیں، انہوں نے اطلاع دی ہے کہ صلاح الدین ایوبی نے نورالدین زنگی کو ساتھ ملاکر یہاں سے انقلابی تجاویز بھیجی ہیں جن پر عمل درآمد شروع ہوگیا ہے۔ ایک یہ ہے کہ امیر العلماء سے یہ فتویٰ صادر کرایا گیا ہے کہ خلافت صرف ایک ہی ہوگی اور یہ بغداد کی خلافت ہوگی۔ یہ خلافت دوسرے ممالک کے متعلق احکام نافذ کرنے اور سمجھوتوں کی بات چیت کرنے سے پہلے اعلیٰ فوجی قیادت سے منظوری لے گی۔ جنگی امور فوجی حکام کے ہاتھ میں ہوں گے ۔ خلیفہ دور دراز علاقوں میں لڑنے والے جرنیلوں کو کوئی حکم نہیں بھیج سکتا۔ تیسرے یہ کہ خلیفہ کا نام خطبے میں نہیں لیا جائے گا اور خلافت کا اثرورسوخ ختم کرنے کے لیے صلاح الدین ایوبی نے حکم جاری کرادیا ہے کہ خلیفہ یا اس کے نائب یا کوئی قلعہ دار وغیرہ جب دورے وغیرہ کے لیے باہر نکلیں گے تو لوگوں کو راستے میں کھڑے ہونے، نعرے لگانے اور سلام کرنے کی اجازت نہیں ہوگی''۔

''صلاح الدین ایوبی نے سب سے اہم کام یہ کیا ہے کہ ''سُنی شیعہ تفرقہ مٹا دیا ہے''۔'ہرمن نے کہا …… ''اُس نے شیعوں کو فوج اور انتظامیہ میں پوری نمائندگی دے دی ہے اور نہایت پُر اثر طریقوں سے شیعہ علماء کو قائل کر لیا ہے کہ وہ ایسی رسمیں ترک کردیں جو اسلام کے منافی ہیں ''…… صلاح الدین ایوبی کے یہ انقلابی اقدامات ہمارے لیے نقصان دہ ہیں۔ ہم مسلمانوں کی انہی خامیوں کو استعمال کرنا چاہتے ہیں ۔ اب ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے جو دراصل جاری ہے کہ مسلمانوں کی انتظامی قیادت کو صلاح الدین ایوبی اور اس کی فوج کے خلاف کیا جائے ''۔

''صرف آج نہیں، ہمیشہ کے لیے ''۔ فلپ آگسٹس جو مسلمانوں کا کٹر دشمن تھا بولا ۔ ''ہماری عداوت صرف صلاح الدین ایوبی سے نہیں ۔ ہماری جنگ اسلام کے خلاف ہے۔ ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ایوبی مرجائے تو یہ قوم کوئی دوسرا ایوبی پیدا نہ کرسکے ۔ اس قوم کو عقیدوں، غلط او بے بنیاد عقیدوں کے ہتھیاروں سے مارو۔ ان میں بادشاہ بننے کا جنون طاری کردو۔ انہیں عیاش بنادو اور ایسی روایات پیدا کردو کہ یہ لوگ خلافت کی گدی پر آپس میں لڑتے رہیں، پھر اس خلافت کو اس کی فوج پر سوار کردو۔ میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ یہ قوم ایک نہ ایک دن صلیب کی غلافم ہوجائے گی۔ اس کا تمدن اور اس کا مذہب صلیب کے رنگ میں رنگا ہوا ہوگا۔ وہ بادشاہی اور خلافت کے حصول کے لیے آپس میں دست و گریباں ہوں گے اور اپنے مخالفین کو دبانے کے لیے ہم سے پناہ مانگیں گے۔ اُس وقت ہم میں سے کوئی بھی زندہ نہ ہوگا۔ ہماری روحیں دیکھیں گی کہ میں نے جو پیشین گوئی کہ ہے ، وہ حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئی ہے۔ اسلام کی جڑیں کھوکھلی کرنے کے لیے یہودی تمہیں اپنی لڑکیاں پیش کر رہے ہیں ، انہیں استعمال کرو۔ یہودیوں کو اس لیے اپنا دشمن سمجھو کہ وہ یروشلم کو اپنا مقدس شہر اور فلسطین کو اپنا گھر سمجھتے ہیں۔ انہیں کہو کہ فلسطین تمہارا ہے۔ آخر میںیہ خطہ ہم تم کو ہی دیں گے ، ابھی ہمارا ساتھ دو ، لیکن یہ احتیاط ضرور کرنا کہ یہودی بہت چالاک قوم ہے۔ اُسے جب تمہاری طرف سے خطرہ نظر آیا تو تمہارے ہی خلاف ہوجائے گی۔ اس کی دولت اور اس کی لڑکیاں استعمال کرو اور اس کے عوض انہیں فلسطین پیش کرو''۔

٭ ٭ ٭

قلعہ شوبک اور قلعہ کرک بے بہت دور ایک ویسا وسیع خطہ تھا جو مٹی، ریت اور سِلوں کی پہاڑیوں اور اونچی نیچی چٹانوں میں گھرا ہوا تھا ۔ یہ خطہ کم و بیش ڈیڑھ ایک میل وسیع اور چوڑا تھا ۔ اس میں بہت سا علاقہ ریتلا میدانی تھا اور اس میں کھڈ بھی تھے اور کم اونچی ٹیکریاں بھی۔ جب صلیبی حکمران اور کمانڈر اسلام کے بیخ کنی کے منصوبے بنا رہے تھے اور نہایت پُر کشش اور خطرناک طریقے وضع کر رہے تھے، صحرا کا یہ خطہ میدانِ جنگ بنا ہوا تھا۔ ہزاروں پیادہ عسکری، گھوڑ سوار اور شتر سوار بھاگ دوڑ رہے تھے۔ تلواریں اور پرچھیوں کی انیاں چمک رہی تھیں۔ گھوڑوں اور اونٹوں کی دوڑ سے گرد گہرے بادلوں کی طرح آسمان کی طر ف اُٹھ رہی تھی ۔ اس گرد میں برچھیاں بھی اُڑ رہی تھیں ، تیر بھی۔ پیادہ سپاہی گھوڑوں سے آگے نکل جانے کی رفتار سے دوڑنے کی کوشش کر رہے تھے ۔ ایک پہاڑی کے دامن میں آگ کے شعلے اُڑتے او پہاڑی سے ٹکڑا کر بھڑکتے اور بجھ جاتے تھے۔ شوروغل آسمان کو ہلا رہا تھا ۔ ایک پہاڑی کے دامن میں آگ کے شعلے اُڑتے اور پہاڑی سے ٹکڑا کر بھڑکتے اور بجھ جاتے تھے۔ شوروغل آسمان کو ہلا رہا تھا۔

صلاح الدین ایوبی گھوڑے پر سوار ایک بلند چٹان پر کھڑا یہ نظارہ انہماک سے دیکھ رہا تھا ۔ وہ بہت دیر سے اس میدان کے اردگرد چٹانوں پر گھوم رہا تھا۔ اس کے اس کے دو نائب تھے۔

''میں آپ کو یقین دلا سکتا ہوں کہ جس رفتار سے سکھلائی ہو رہی ہے۔ نئے سپاہی چند دنوں میں تجربہ کار ہو جائیں گے ''۔ ایک نائب نے کہا ۔ ''آپ نے جن سواروں کو وہ اتنا چوڑا کھڈ پھلانگتے ہوئے دیکھا تھا ، وہ سب کرک سے آئے ہوئے سوار ہیں۔ میں انہیں اناڑی سمجھتا تھا، تیر اندازوں کا معیار بھی اچھا ہو رہاہے''۔

میدانِ جنگ کا یہ منظر دراصل ٹریننگ تھی ، جس کے متعلق صلاح الدین ایوبی نے بڑے سخت احکامات جاری کیے تھے۔ اردگرد سے بہت سے جوان فوج میں بھرتی کیے گئے تھے اور کرک سے بھی بہت سے مسلمان چوری چھپے نکل آئے تھے۔ یہ سلطان ایوبی کے جاسوسوں کا کمال تھا کہ کرک سے بھی جوان حاصل کر لیے تھے۔ شوبک کے وہ مسلمان جنہوں نے صلیبیوں کا ظلم و تشدد برداشت کیا تھا، جوش و خروش سے صلاح الدین ایوبی کی فو میں شامل ہوئے تھے۔ ان کی ٹریننگ کا انتظام وہیں کر دیا گیا تھا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی اس میں ذاتی دلچسپی لے رہا تھا۔ اُسے اُس کے نائب یقین دلا رہے تھے کہ وہ نئی بھرتی کو تھوڑے سے عرصے میں پختہ کار بنادیں گے۔

''سپاہی صرف ہتھیاروں کے استعمال اور جسمانی پھرتی سے تجربہ کار نہیں بن سکتا''۔ سلطان ایوبی نے کہا …… ''عقل اور جذبے کا استعمال ضروری ہے۔ مجھے ایسی فوج کی ضرورت نہیں جو اندھا دُھند دشمن پر چڑھ دوڑے اور صرف ہلاک کرے۔ مجھے ایسی فوج چاہیے ، جسے معلوم ہو کہ اس کا دشمن کون ہے اور اس کے عزائم کیا ہیں ؟ میری فوج کو علم ہونا چاہیے کہ یہ خدا کی فوج ہے اور خدا کی راہ میں لڑ رہی ہے۔ جوش و خروش ، جو میں دیکھ رہا ہوں ، بہت ضروری ہے مگر مقصد واضح نہ ہو ، اپنی حیثیت واضح نہ ہو تو یہ جو ش جلدی ٹھنڈا پڑ جاتا ہے۔ انہیں بتائواور ذہن نشین کرائوکہ ہم فلسطین کیوں لینا چاہتے ہیں۔ انہیں بتائو کہ غداری کتنا بڑا جرم ہے۔ انہیں سمجھائو کہ تم صرف فلسطین کے لیے نہیں ، بلکہ اسلام کے تحفظ اور فروغ کے لیے لڑ رہے ہو اور تم آنے والی نسلوں کے وقار کے لیے لڑ رہے ہو۔ عملی سکھلائی کے بعد انہیں وعظ دو اور ان پر ان کی قومت واضح کرو ''۔

''انہیں ہر شام وعظ دئیے جاتے ہیں ، سالارِ اعظم!'' ایک نائب نے کہا …… ''ہم انہیں صرف درندے اور وحشی نہیں بنا رہے''۔

''اور یہ خیال رکھو کہ ان کے دلوں میں قوم کی وہ بیٹیاں نقش کردو جو کفار کے ہاتھوں اغوا اور بے آبرو ہوئی ہیں اور ہو رہی ہیں ''۔ سلطان ایوبی نے کہا …… ''انہیں قرآن پاک کے وہ ورق یاد دلاتے رہنا ، جنہیں صلیبیوں نے پائوں تلے مسلا تھا اور انہیں وہ مسجدیں یاد دلاتے رہنا، جن میں کفار نے گھوڑے اور مویشی باندھے تھے اور باندھ رہے ہیں۔ بیٹی کی عزت اور مسجد کا احترام مسلمان کی عظمت کے نشان ہوتے ہیں ۔ انہیں بتائو کہ جس روز تم عصمت اور مسجدکو ذہن سے اُتار دو گے ، اُس روز تم اپنے لیے اس دُنیا کو جہنم بنالوگے اور آخرت میں جو عذاب ہے اس کا تم تصور بھی نہیں کر سکتے ''۔

پہاڑیوں پر جو دو دو چار چار سپاہی گھوم پھر رہے تھے ، وہ پہرہ دار تھے۔ صلیبیوں کے جوابی حملے کا خطرہ موجود تھا ۔ دور آگے تک فوج موجود تھی ، پھر بھی ٹریننگ کے اس علاقے کے گرد پہرے کی ضرورت تھی۔ ان پہرہ داروں میں سے دو ایک چوٹی پر جارہے تھے ، وہ رُک گئے ۔ انہیں نیچے ایک ٹیکری پر صلاح الدین ایوبی کھڑا نظر آرہا تھا۔ اُن کی طرف اس کی پیٹھ تھی۔ فاصلہ دو اڑھائی سو گز تھا۔ ایک پہرہ دار نے کہا …… ''کم بخت کی پوری پیٹھ ہمارے سامنے ہے، اگر یہا ں سے تیر چلائوں تو اس کے دل کے پار کر سکتا ہوں ۔ کیا خیا ل ہے؟''

''پھر بھاگ کر کہاں جائو گے؟'' اس کے ساتھی نے پوچھا۔

''ہاں!'' دوسرے نے کہا …… ''تم ٹھیک کہتے ہو۔ اگر یہ لوگ ہمیں پکڑ کر جان سے مار ڈالیں توبات نہیں۔ وہ زندہ پکڑ کر ایسے شکنجے میں جکڑیں گے کہ ہمیں اپنے تمام ساتھیوں کے نام بتانے پڑیں گے''۔

''یہ کام اس کے محافظوں کو کرنے دو''۔ اس کے ساتھی نے کہا …… ''اگر صلاح الدین ایوبی کوقتل کرنا اتنا آسان ہوتا تو یہ اب تک زندہ نہ ہوتا''۔

''یہ کام اب ہوجانا چاہیے''۔ دوسرے نے کہا …… ''سنا ہے فاطمی کہتے ہیں کہ تم کچھ کیے بغیر ہم سے منہ مانگی رقم لیتے جا رہے ہو''۔

''مجھے اُمید ہے کہ یہ کام جلدی ہوجائے گا''۔ اس کے ساتھی نے کہا …… ''سنا تھا کہ حشیشین بہت دلیر ہیں۔ قتل کرنے کے لیے جان پر کھیل جاتے ہیں۔ ابھی تک انہوں نے کچھ کرکے تونہیں دکھایا۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ایوبی کے محافظ دستے میں تین حشیشین ہیں۔ یہ تو ان کا کمال ہے کہ محافظ دستے تک پہنچ گئے ہیں اور کسی کو اُن کی اصلیت کا علم نہیں ہوا، مگر وہ قتل کب کریں گے؟ کم بخت ڈرتے ہیں''۔

وہ باتیں کرتے آگے چلے گئے ۔

٭ ٭ ٭
مؤرخین لکھتے ہیں کہ مصر سے صلاح الدین ایوبی کی غیر حاضری سے وہاں مخالفین کی زمین دوز سرگرمیاں اُبھر آئیں تو صورتِ حال ایسی پیدا کر دی گئی جسے صرف معجزہ سنبھال سکتا تھا۔یہ ایک سازش تھی جو فاطمی خلافت کو معزول اور تخریب کاروں کی گرفتاری کے بعد بظاہر دب گئی تھی، لیکن راکھ میں دبی ہوئی چنگاری کی طرح دہکتی رہتی تھی۔ اس کی پشت پناہی کرنے والے صلیبی تھی اور اسے عملی جامہ پہنانے والے وہ مسلمان زُعما تھے جن پر سلطان ایوبی کو بھروسہ تھا۔ صلیبیوں نے یہودی لڑکیاں حاصل کر لی تھیں جو عرب اور مصر کی زبان روانی سے بولتی اور اپنے آپ کو ہر رنگ میں ڈھال سکتی تھیں ۔ مصر کی انتظامیہ کے متعدد احکام اقتدار میں حصے یا کُلی طور پر خود مختاری کے خواہش مند تھے۔ ان میں قومی وقار اور جذبہ ختم ہو چکا تھا۔ وہ حرموں کے بادشاہ تھے۔ ان لوگوں کا آلہ کار بنانے والوں میں فاطمیوں نے دانش مندی کا ثبوت دیا اور انہوں نے حسن بن صباح کے حشیشین کی خدمات بھی حاصل کرلیں۔

اُس وقت کے وقائع نگاروں نے جن میں اسد الا سدی، ابن الاثیر، ابی الضر اور ابن الجوزی خاص طور پر قابل ذکر ہیں ، لکھتے ہیں کہ صلیبیوں نے سوڈانیوں کو مدد دے کر انہیں مصر پر حملے کے لیے تیار کر لیا تھا۔ مصر میں تھوڑی سی فوج تھی ، وہ بغاوت کے لیے تیارکردی گئی تھی۔ صلاح الدین ایوبی کے حامی سخت پریشان تھے کہ وہ قبل از وقت نہ پہنچا تو مصر ہاتھ سے نکل جائے گا ۔ ان وقائع نگاروں اور دو گمنام کاتبوں کی غیر مطبوعہ تحریروں سے ایک کہانی کی کڑیاں ملتی ہیں ۔ ان میں قاہرہ کے محکمہ مالیات کے ایک بڑے ناظم خضر الحیات کا ذکر ملتاہے۔ وہ خزانے کا بھی ذمہ دار تھا ۔ دوسرے علاقوں کی جزئیے اور تاوان وغیرہ کی رقمیں ، زکوٰة، سزا کے طور پر وصول ہونے والے جرمانے، عطیات اور نظامتِ مصر کا تمام تر حساب کتاب اور پیسہ مالیات کے محکمے میں آتا اور خرچ ہوتا تھا۔ یہ بڑا ہی اہم اور نازک محکمہ تھا۔ اس کے ناظم کا قابل اعتماد ہوتا بہت ضروری تھا۔ یہ سلطان صلاح الدین ایوبی کی خوش نصیبی تھی کہ ناظم خضر الحیات دیندار مسلمان تھا۔

ایک رات وہ باہر سے آیا۔ گھرمیں داخل ہوا تو اندھیرے کو چیرتا ہوا ایک تیر آیا جو خضر الحیات کی پیٹھ میں اُترا اور دل تک پہنچا۔ اُس کی کربناک آواز سن کر ملازم باہر آیا، پھر گھرکے افراد باہر آئے۔ مشعل کی روشنی میں خضر کو اوندھے منہ پڑے دیکھا۔ اتفاق سے کسی نے دیکھ لیا کہ خضر کے دائیں ہاتھ کی انگلی زمین پر تھی اور مٹی پر اس انگلی سے اس نے کچھ لکھا تھا ، وہ مر چکا تھا ۔ زمین پر اس نے انگلی سے لکھا تھا …… ''مصلح ''……''ح'' پوری نہیں ہوتی تھی۔ اس حرف کی گولائی کے نصف میں جا ن نکل گئی تھی ۔ لا ش اُٹھا لی گئی اور اس لفظ کو محفوظ رکھا گیا ۔ ایک آدمی کو کوتوال غیاث بلبیس کو بلانے دوڑادیا گیا۔ یہی کہا جا سکتا تھا کہ خضر نے مرتے مرتے مٹی پر اپنے قاتل کا نام لکھا ہے۔ غیاث بلبیس کوتوال بھی تھا اور مصر کی تمام تر پولیس کا حاکم اعلیٰ بھی ۔ یہ بھی صلاح الدین ایوبی کا قابل اعتماد حاکم تھا۔ علی بن سفیان کی طرح شہری جرائم کا ماہر سراغرساں تھا۔

بلبیس نے آتے ہی زمین لکھے ہوئے لفظ ''مصلح'' کو غور سے دیکھا۔ اتنے میں شہر کا نائب ناظم مصلح الدین خضر کے قتل کی خبر سن کر آگیا۔ بلبیس نے اُسے دیکھتے ہی زمین پر پائوں رگڑ کر ''مصلح'' کا لفظ مٹادیا۔ مصلح الدین چونکہ شہر کا نائب تھا۔ اس لیے کوتوالی کا محکمہ اس کے ماتحت تھا۔ اس نے بلبیس کو حکم کے لہجے میں کہا …… ''قاتل کا سراغ صبح سے پہلے مل جانا چاہیے۔ میں زیادہ انتظار نہیں کروں گا''…… بلبیس نے اُسے یقین دلایا کہ قاتل کو جلدی پکڑ لیا جائے گا۔ وہ وہاں سے چلا گیا ۔ رات کو ہی بلبیس نے خضر الحیات کے نائب معاون اور اس کے دفتر میں اُن افراد کو بلا لیا جو مقتول کے قریب رہتے تھے اور بتا سکتے تھے کہ قتل کے روز ان کی سرگرمیاں کیا رہیں۔ اِن لوگوں سے اُسے پتا چلا کہ آج شہری انتظامیہ کے حکامِ اعلیٰ کا ایک اجلاس تھا جس میں فوج کا کوئی نمائندہ نہیں تھا۔ خضر کا نائب اس کی مدد کے لیے اجلاس میں شریک تھا۔ اجلاس میں مالیات کے سلسلے میں فوج کے اخراجات زیربحث آئے تو خضر نے کہا کہ مصر میں بعض اخراجات روکنے پڑیں گے ، کیونکہ امیر مصر صلاح الدین ایوبی نے شوبک میں بہت سی فوج بھرتی کی ہے جس کے لیے کثیر رقم کی ضرورت ہے۔

نائب ناظم مصلح الدین نے اس کی مخالفت کی اورکہا فوج کے اخراجات غیر ضروری ہیں۔ مزید فوج بھرتی کرنے کی بجائے ہمیں توجہ اس فوج کے مسائل کی طرف دینی چاہیے جو پہلے ہی ہمارے لیے ایک مہنگا مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ اُس نے بتایا کہ مصر میں جو فوج ہے ، اس میں بے اطمینانی اور بدامنی پائی جاتی ہے۔ شوبک سے جو مالِ غنیمت ہاتھ آیا ہے، اس میں سے اس فوج کے لیے کوئی حصہ نہیں بھیجا گیا ۔ خضر الحیات نے کہا …… ''کیا آپ کو معلوم نہیں کہ امیر مصر نے مالِ غنیمت تقسیم کرنے کی بدعت ختم کردی ہے؟ یہ نہایت اچھا فیصلہ ہے ۔ مالِ غنیمت کے لالچ سے لڑنے والی فوج کا کوئی قومی جذبہ اور مذہبی نظریہ نہیں ہوتا''۔

اس مسئلے پر بحث ترش کلامی میں بدل گئی ۔ مصلح الدین نے یہاں تک کہہ دیا کہ امیر مصر مصری سپاہیوں کے ساتھ اتنا اچھا سلوک نہیں کر رہا، جتنا شامی اور ترک سپاہیوں کے ساتھ کرتا ہے۔ اُس نے غصے میں کچھ اور نادرا باتیں کہہ دیں ، جن کے جواب میں خضر نے کہا …… ''مصلح! تمہاری زبان سے صلیبی اور فاطمی بول رہے ہیں '' …… اس پر اجلاس نے ہنگامے کی صورت اختیار کر لی اور برخاست ہوگیا۔ خضرالحیات نے معاون اور نائب نے بتایا کہ اجلاس کے بعد مصلح الدین خضرالحیات کے دفتر میں آیا ، وہاں پھر ان میں گرما گرمی ہوئی۔ مصلح الدین خضر کواس پر قائل کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ مصری فوج مطمئن نہیں ۔ اُس نے پھر وہی باتیں دہرائیں جو اس نے اجلاس میں کہی تھیں۔ خضرالحیات نے کہا …… ''اگر ایسا ہی ہے تو میں یہ مسئلہ تمہاری طرف سے امیر مصر کے آگے رکھ دوںگا، لیکن میں یہ ضرور لکھوں گا کہ تم نے اجلاس میں تمام شرکاء کو یہ باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ امیر مصر مصری فوج میں امتیازی سلوک کر رہا ہے اور یہ میں یہ بھی لکھوں گا کہ تم نے ہمیں یہ یقین دلانے کی بھی کوشش کی کہ صلاح الدین ایوبی نے شوبک کا مال غنیمت شامیوں اور ترکوں میں تقسیم کر دیا ہے اور میں یہ را ئے ضرور دوں گا تم نے جو الزامات عائد کیے ہیں ، انہیں سچ ثابت کرنے کی بھی کوشش کی ہے اور فوج میں جو افواہیں دشمن پھیلا رہاہے ، ان کے متعلق تم نے کہا ہے کہ یہ افواہیں نہیں ، بلکہ سچ ہے ''۔

خضرالحیات کے نائب نے بیان دیا کہ مصلح الدین جب خضر کے کمرے سے نکلا تو اس کے منہ سے یہ الفاظ سنے گئے تھے …… ''اگر تم زندہ رہے تو سب کچھ لکھ کر صلاح الدین ایوبی کے آگے رکھ دینا''۔

غیاث بلبیس نے فوری طور پر مصلح الدین سے کچھ پوچھنا مناسب نہ سمجھا۔ ایک تو اس کی حیثیت بہت اونچی تھی اور دوسرے یہ کہ بلبیس اس کے خلاف مزید شہادت جمع کرنا چاہتا تھا۔ اسے ڈر یہ تھا کہ اگر اس نے مصلح الدین پر بغیر ٹھوس شہادت کے ہاتھ ڈالا تو یہ اقدام اس کے اپنے لیے مصیبت بن جائے گا، اگر صلاح الدین ایوبی قاہرہ میں موجود ہوتا تو بلبیس اس کی پشت پناہی حاصل کرلیتا۔ وہ اتنا سمجھ گیا تھا کہ یہ قتل ذاتی رنجش کا نتیجہ نہیں۔ خضر الحیات ذاتی رنجش رکھنے والا حاکم نہیں تھا۔ رات کو اس نے چند ایک لوگوں کے دروازے کھٹکھٹائے اور تفتیش میں لگا رہا۔ اپنے خفیہ آدمیوں کو بھی سرگرم کر دیا ، لیکن اُسے کوئی کامیابی نہ ہوئی۔

٭ ٭ ٭
بعد کی شہادتوں اور واقعات سے جو واردات سامنے آئی ، وہ کچھ اس طرح بنتی ہے کہ قتل کی رات سے اگلی رات مصلح الدین اپنے گیا تو پہلی بیوی نے اُسے کمرے میں بلایا۔ اُس نے بیس اشرفیاں مصلح الدین کے آگے کرتے ہوئے کہا …… ''خضر الحیات کا قاتل یہ بیس اشرفیاں واپس کر گیا ہے اور کہہ گیا ہے کہ تم نے پچاس اشرفیاںاور سونے کے دو ٹکڑے کہے تھے۔ میں تمہارا کام کر دیا تو تم نے صرف بیس اشرفیاں بھیجی ہیں۔ یہ میں تمہاری بیوی کو واپس دے چلا ہوں ۔ تم نے مجھے دھوکہ دیا ہے۔ اب ایک سو اشرفیاں اور سونے کے دو ٹکڑے لوں گا، اگر دو دن تک مال نہ پہنچا تو ویسا ہی تیر جو خضر کے دل میں اُترا ہے ، تمہارے دل میں بھی اُتر جائے گا''۔

مصلح الدین کا رنگ اُڑگیا ، سنبھل کر بولا …… ''تم کیا کہہ رہی ہو؟ کون تھا وہ؟ میں نے کسی کو خضر الحیات کے قتل کے لیے یہ رقم نہیں دی تھی ؟''

''تم خضر کے قاتل ہو''۔ بیوی نے کہا …… ''مجھے معلوم نہیں کہ قتل کی کیا وجہ ہے ۔ اتنا ضرور معلوم ہے کہ تم نے اُسے قتل کرایا ہے''۔

یہ مصلح الدین کی پہلی بیوی تھی۔ اُس کی عمر زیادہ نہیں تھی ۔ بمشکل تیس سال کی ہوگی ۔ خاصی خوبصورت عورت تھی۔ کوئی ایک ماہ قبل وہ گھر میں ایک غیر معمولی طور پر خوبصورت اور جوان لڑکی لے آیا تھا۔ ایک خاوند کے لیے دو بیویوں کی تعداد پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ اُس زمانے میں زیادہ بیویاں رکھنے کارواج تھا۔ کوئی بیوی دوسری بیوی سے حسد نہیں کرتی تھی، مگر مصلح الدین نے پہلی بیوی کو بالکل نظر انداز کرد یا تھا۔ جب سے نئی بیوی آئی تھی اُس نے پہلی بیوی کے کمرے میں جانا ہی چھوڑ دیا تھا …… بیوی نے اُسے کئی بار بلایا تو بھی وہ نہ گیا۔ بیوی کے اندر انتقامی جذبہ پیدا ہوگیاتھا۔ یہ آدمی جو اُسے بیس اشرفیاں دے گیا تھا۔ غالباً مصلح الدین سے بڑاہی سنگین لینا چاہتا تھا۔ اسی لیے اس نے اس کی پہلی بیوی کو بتا دیا تھا کہ خضر الحیات کو مصلح الدین نے قتل کرایا تھا۔

''تم اپنی زبان بند رکھنا''۔ مصلح الدین نے بیوی کو بارعب لہجے میں کہا …… ''یہ میرے کسی دشمن کی چال ہے۔ وہ میرے اور تمہارے درمیان دشمنی پیدا کرنا چاہتا ہے''۔

''تمہارے دل میں میری دشمنی کے سوا اور رہا ہی کیا ہے؟'' بیوی نے پوچھا ……۔

''میرے دل میں تمہاری پہلے روز والی محبت ہے''۔ مصلح الدین نے کہا …… ''کیا تم اس آدمی کو پہچانتی ہو؟''

''اُس نے چہرے پر نقاب ڈال رکھا تھا''۔ بیوی نے کہا …… ''مگر تمہارا نقاب اُتر گیا ہے۔ میں نے تمہیں پہچان لیا ہے''…… مصلح الدین نے کچھ کہنے کی کوشش کی، مگر بیوی نے اُسے بولنے نہ دیا۔ اُس نے کہا …… ''مجھے شک ہے تم نے بیت المال کی رقم ہضم کی ہے، جس کا علم خضرالحیات کو ہوگیا تھا۔ تم نے کرائے کے قاتل سے اُسے راستے سے ہٹا دیا ہے؟''

''مجھ پر جھوٹے الزام عائد نہ کرو''…… مصلح الدین نے کہا …… ''مجھے رقم ہضم کرنے کی کا ضرورت ہے؟''

''تمہیں نہیں ، اُس فرنگن کو رقم کی ضرورت ہے، جسے تم نے نکاح کے بغیر گھر رکھا ہوا ہے''۔ بیوی نے جل کر کہا …… ''تمہیں شراب کے لیے رقم کی ضرورت ہے۔ اگر یہ الزام جھوٹا ہے تو بتائو کہ یہ چار گھوڑوں کی بگھی کہاں سے آئی ہے؟ گھر میں آئے دن ناچنے والیاں جو آتی ہیں، وہ کیا مفت آتی ہیں؟ شراب کی جو دعوتیں دی جاتی ہیں، اُن کے لیے رقم کہاں سے آتی ہے؟''

''خدا کے لیے چپ ہوجائو''۔ مصلح الدین نے غصے اورپیار کے ملے جلے لہجے میں کہا …… ''مجھے معلوم کرلینے دو ، وہ آدمی کون تھا جو یہ خطرناک چال چل گیا ہے ۔ اصل حقیقت تمہارے سامنے آ جائے گی''۔

''میں جب چپ نہیں رہ سکوں گی''۔ بیوی نے کہا …… ''تم نے میرا سینہ انتقام سے بھر دیا ہے۔ میں سارے مصر کو بتائوں گی کہ میرا خاوند قاتل ہے۔ ایک مومن کا قاتل ہے۔ تم میری محبت کے قاتل ہو۔ اس قتل کا انتقام لوں گی''۔

مصلح الدین منت سماجت کرکے اُسے چپ کرانے لگا اور اُسے قائل کر لیا کہ وہ صرف دو روز چپ رہے ، تاکہ و اس آدمی کو تلاش کرکے ثابت کرسکے کہ وہ قاتل نہیں ہے۔ اُس نے بیوی کو یہ بھی بتایا کہ غیاث بلبیس نے چند ایک مشتبہ افراد پکڑ لیے ہیں اور قاتل بہت جلدی پکڑا جائے گا۔

رات گزر گئی۔ اگلا دن بھی گزر گیا۔ مصلح الدین گھر سے غائب رہا۔ اس کی دوسری بیوی یاداشتہ بھی کہیں نظر نہیں آئی۔ شام کے بعد مصلح الدین گھر آیا اور پہلی بیوی کے کمرے میں چلاگیا۔ اُس کے ساتھ پیار محبت کی باتیں کرتا رہا۔ بیوی اُس کے فریب میں نہیں آنا چاہتی تھی ، مگر پیار کے دھوکے میں آگئی۔ مصلح الدین نے اُسے کہا کہ وہ اس آدمی کو ڈھونڈرہا ہے، جو بیس اشرفیاں دے گیا تھا …… کچھ دیر بعد بیوی سو گئی۔ اُس رات مصلح الدین نے ملازموں کو چھٹی دے دی تھی۔ گھر میں ایسی خاموشی تھی جو پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔ مصلح الدین بہت دیر سوئی ہوئی بیوی کے کمرے میں رہا، پھر اُٹھ کر کمرے سے نکل گیا۔

آدھی رات کا عمل تھا ۔ ایک آدمی اس گھر کی باہر والی دیوارکے ساتھ پیٹھ لگا کر کھڑا ہوگیا۔ ایک آدمی اُس نے کندھوں پر چڑھ گیا ۔ تیسرا آدمی ان دونوں کو سیڑھی بنا کر اوپر گیا اور دیوار سے لٹک کر اندرکی طرف کود گیا۔ اس نے اندر سے بڑا دروازہ کھول دیا۔ اس کے دونوں ساتھی اندر آگئے۔ اس گھر میں رکھوالی کتا ہر رات کھلا رہتا تھا، اس رات وہ بھی ڈربے میں بند تھا۔ شاید ملازم جاتے ہوئے بھول گئے تھے کہ اُسے کھلا رہناہے۔ تینوںآدمی برآمدے میں چلے گئے۔ اندھیرا گہرا تھا۔ وہ دبے پائوں چلتے گئے۔ گھپ اندھیرے میں ایک دوسرے کے پیچھے چلتے ایک نے اُس کمرے کے دروازے پر ہاتھ رکھا ، جس میں مصلح الدین کی پہلی بیوی جسے وہ فاطمہ کے نام سے بلایا کرتا تھا، سوئی ہوئی تھی۔ کواڑ کھل گیا۔ کمرہ تاریک تھا۔ تینوں آدمی اندر گئے اور اندھیرے میں ٹٹولٹے ہوئے فاطمہ کے پلنگ تک پہنچ گئے۔ ایک آدمی کا ہاتھ فاطمہ کے منہ پر لگا تو اس کی آنکھ کھل گئی۔ وہ سمجھی کہ مصلح الدین کا ہاتھ ہے۔ اس نے ہاتھ پکڑ لیا اور پوچھا …… ''کہا جارہے ہیں آپ؟''

اس کے جواب میں ایک آدمی نے اس کے منہ پر کپڑا رکھ کر اس کا کچھ حصہ اُس کے منہ میں ٹھونس دیا۔ فوراً بعد تینوں نے اُسے بازوئوں میں جکڑلیا۔ ایک نے منہ پر ایک اور کپڑا کس کر باندھ دیا ۔ ایک نے ایک بوری کی طرح کا تھیلا کھولا۔ دوسرے دو آدمیوں نے فاطمہ کو دہرا کرکے رسیوں سے اُس کے ہاتھ اور پائوں باندھے اور اُسے تھیلے میں ڈال کر تھیلے کا منہ بند کردیا۔ انہوں نے تھیلا اُٹھایا اور باہر نکل گئے۔ بڑے دروازے سے بھی نکل گئے۔ گھرمیں کوئی مرد ملازم نہیں تھا۔ خادمائیں بھی اس رات چھٹی پر تھیں۔ تھوڑی دور ایک درخت کے ساتھ گھوڑے بندھے ہوئے تھے۔ تینوں آدمی گھوڑوں پر سوار ہوئے۔ ایک نے تھیلا اپنے آگے رکھ لیا۔ تینوں گھوڑے قاہرہ سے نکل گئے اور سکندریہ کا رُخ کر لیا۔
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: داستان ایمان فروشوں کی جلد

Post by ایکسٹو »



صبح ملازم آگئے ۔ صلح الدین نے فاطمہ کے متعلق پوچھا ، دو خادمائوں نے اسے تلاش کرکے بتایا کہ وہ گھر میں نہیں ہے۔بہت دیر تک جب اس کا کوی سراغ نہ ملا تو مصلح الدین ایک خادمہ کو الگ لے گیا۔ بہت دیر تک اُس کے ساتھ باتیں کرتا رہا، پھر اُسے غیاث بلبیس کے پاس چلا گیا۔ اُسے کہا کہ اُس کی بیوی لاپتہ ہوگئی ہے۔ اس نے اس شک کا اظہار کیا کہ خضرالحیات کو فاطمہ نے قتل کرایا ہے اور خضر مرتے مرتے انگلی سے ''مصلح ''جو لکھا تھا ، وہ دراصل مصلح کی بیوی لکھنا چاہتا تھا، لیکن موت نے تحریر پوری نہ ہونے دی ۔ اس کے ثبوت میں اُس نے اپنی خادمہ سے کہا کہ وہ بلبیس کو اس آدمی کے متعلق بتائے۔ خادمہ نے بیان دیا کہ پرسوں شاک ایک اجنبی آیا، جس کے چہرے پر نقاب تھا۔ اُس وقت مصلح الدین گھر پر نہیں تھا۔ اُس آدمی نے دروازے پر دستک دی تو یہ خادمہ باہر گئی۔ اجنبی نے کہا کہ وہ فاطمہ سے ملنا چاہتا ہے۔ خادمہ نے کہا کہ گھر میں کوئی مرد نہیں، ال لیے وہ فاطمہ سے نہیں مل سکتا۔ اس نے کہا کہ فاطمہ سے یہ کہہ دو کہ وہ اشرفیاں واپس کرنے آیا ہے، کہتا ہے کہ میں پوری رقم لوںگا۔ خادمہ نے فاطمہ کو بتایا تو اُس نے اس آدمی کو اندر بلا لیا۔

خادمہ نے بیان میں کہا کہ فاطمہ نے اُسے برآمدے میں کھڑا رہنے کوکہا اوریہ ہدایت دی کہ کوئی آجائے تو میں اسے خبردار کردوں۔ خادمہ کمرے کے دروازے کے ساتھ کھڑ ی رہی۔ اندرکی باتیں جو اُسے سنائی دیں،ان میں اس آدمی کا غصہ اور فاطمہ کی منت سماجت تھی۔ ان باتوں سے صاف پتا چلتا تھا کہ فاطمہ نے اس آدمی سے کہا تھا کہ علی بن سفیان کے نائب حسن بن عبداللہ کو قتل کرنا ہے، جس کے عوض وہ اسے پچاس اشرفیاں اور دو ٹکڑے سونا دے گی۔ خادمہ کو یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ فاطمہ نے اس آدمی کو بیس اشرفیاں کس وقت اور کہاں بھیجی تھیں اور کون لے گیا تھا۔ وہ پوری پچاس اشرفیاں مانگ رہا تھا۔ فاطمہ اُسے کہہ رہی تھی کہ اُس نے غلط آدمی کو قتل کیاہے۔ یہ نقاب پوش اجنبی کہہ رہا تھا کہ تم نے یقین کے ساتھ بتایا تھا کہ حسن بن عبداللہ فلاں وقت خضر الحیات کے گھر جائے گا۔ وہ گھات میں بیٹھ گیا۔ اُس نے ایک آدمی کو خضر کے گھر کے دروازے کے قریب جاتے دیکھا۔ اُس کا قد بت حسن بن عبد اللہ کی طرح تھا۔ قتل کرتے وقت اتنی مہلت نہ ملی کہ شکار کو اچھی طرح دیکھ کر یقین لیا جائے۔ تم نے جو وقت بتایا تھا ، یہ وہی وقت تھا۔ میں نے تیر چلا دیا اور وہاں سے بھاگنے کی کی ۔

وہ فاطمہ سے پچاس اشرفیاں مانگ رہا تھا۔ فاطمہ نے پہلے تو منت سماجت کی ، پھر وہ بھی غصے میں آگئی اور کہا کہ اصل آدمی کو قتل کرو گے تو ان بیس اشرفیوں کے علاوہ پچاس اشرفیاں اور سونے کے دو ٹکڑے دوں گی۔ اس آدمی نے کا کہ میں نے کام کر دیا ہے، اس کی پوری اُجرت لوںگا۔ فاطمہ نے انکار کردیا۔ وہ آدمی بڑے غصے میںیہ کہہ کر چلا گیا کہ میں پوری اُجرت وصول کرلوں گا ۔ فاطمہ نے خادمہ کو سختی سے کہا کہ وہ اس آدمی کے متعلق کسی سے ذکر نہ کرے۔ اُس نے خادمہ کو دو اشرفی انعام دیا۔ آج صبح وہ اس کمرے میں گئی تو فاطمہ وہاں نہیں تھی۔ اُسے شک ہے کہ اس آدمی نے انتقاماً اسے اغوا کر لیا ہے۔

غیاث بلبیس نے کچھ سوچ کر مصلح الدین کو باہر بھیج دیا اور خادمہ سے پوچھا …… ''ٍ یہ بیان تمہیں کس نے پڑھایا ہے؟ فاطمہ یا مصلح الدین نے ؟''

''فاطمہ تو یہاں نہیں ہے''۔ اُس نے کہا …… ''یہ میرا اپنا بیان ہے''۔

''مجھے سچ بتا دو''۔ بلبیس نے کہا …… ''فاطمہ کہا ں ہے؟ وہ کس کے ساتھ گئی ہے؟'' خادمہ گھبرانے لگی۔ کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکی ۔ بلبیس نے کہا …… ''کوتوالی کے تہہ خانے میں جانا چاہتی ہو؟ اب تم واپس نہیں جاسکو گی''۔

وہ غریب عورت تھی ۔ اُسے معلوم تھا کہ کوتوالی کے تہہ خانے میں جا کر سچ اور جھوٹ الگ الگ ہوجاتے ہیں اور اس سے پہلے جسم کے جوڑ بھی الگ الگ ہوجاتے ہیں۔ وہ رو پڑی اور بولی…… ''سچ کہتی ہوں تو آقا سزا دیتا ہے،جھوٹ بولتی ہوں تو آپ سزا دیتے ہیں ''…… بلبیس نے اس کی حوصلہ افزائی کی اور اُسے تحفظ کا یقین دلایا۔ خادمہ نے کہا …… ''میں نے قتل کے دوسرے روز صرف اتنا دیکھا تھا کہ ایک نقاب پوش آیا تھا۔ آقا مصلح الدین گھر نہیں تھے۔ نقاب پوش نے فاطمہ کو باہر بلایا تھا۔ و ہ بڑے دروازے کے باہر اور فاطمہ اندر تھی ۔ وہ اس کے سامنے نہیں ہوئی۔ ملازموں نے اُسے دیکھا تھا، لیکن کسی نے بھی قریب جا کر نہیں سنا کہ ان کے درمیان کیا باتیں ہوئیں۔ نقاب پوش چلا گیا تو فاطمہ اندر آئی۔ اُس نے چھوٹی سی ایک تھیلی اُٹھا رکھی تھی ۔ فاطمہ کا سر جھکا ہوا تھا ۔ وہ کمرے میں چلی گئی تھی …… دوسری شام مصلح الدین نے چاروں ملازموں اور سائیس کو رات بھر کی چھٹی دے دی تھی۔ چار ملازموںمیں دو مرد اور دو عورتیں ہیں''۔

''اس سے پہلے ملازموں کو کبھی رات بھر کے لیے چھٹی دی گئی ہے؟''…… بلبیس نے پوچھا۔

''کبھی نہیں''۔ اس نے جواب دیا…… ''کوئی ایک ملازم کبھی چھٹی لے لیتا ہے ، سب کو کبھی چھٹی نہیں دی گئی''۔خادمہ نے سوچ کر کہا …… ''عجیب بات یہ ہے کہ آقا نے کہا تھا کہ آج رات کتے کو بندھا رہنے دینا۔ اس سے پہلے ہر رات کتاکھلا رکھا جاتا تھا۔ بڑا خون خوار کتا ہے۔ اجنبی کو بُو پر چیر پھاڑنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے''۔

''مصلح الدین کے تعلقات فاطمہ کے ساتھ کیسے تھے ؟''غیاث بلبیس نے پوچھا۔

''بہت کچھے ہوئے''۔ خادمہ نے بتایا…… ''آقا ایک بڑی خوبصورت اورجوان لڑکی لایا ہے جس نے آقا کو اپنا غلام بنا لیاہے۔ فاطمہ کے ساتھ آقا کی بول چال بھی بند ہے''۔

غیاث بلبیس نے خادمہ کو الگ بٹھا کر مصلح الدین کو اندر بلا لیا اور باہر نکل گیا۔ واپس آیا تو اس کے ساتھ دو سپاہی تھے۔ انہوں نے مصلح الدین کو دائیں اور بائیں بازوئوں سے پکڑلیا اور باہر لے جانے لگے۔ مصلح الدین نے بہت احتجاج کیا ۔ بلبیس یہ حکم دے کر باہر نکل گیا کہ اسے قید میںڈال دو۔ اُس نے دوسرا یہ حکم دیا کہ مصلح الدین کے گھر پر پہر ہ کھڑا کردو، کسی کو باہر نہ جانے دو۔

٭ ٭ ٭

اُس وقت فاطمہ قاہرہ سے بہت دُور شمال کی طرف ایک ایسی جگہ پہنچ چکی تھی جہاں اِرد گِرد اونچے ٹیلے، سبزہ اور پانی بھی تھا۔ یہ جگہ عام راہِ گزر سے ہٹی ہوئی تھی۔ وہاں وہ سورج نکلنے کے وقت پہنچی تھی، گھوڑے رُک گئے ۔ اُسے تھیلے سے نکالاگیا، اُس کے منہ سے کپڑا ہٹا دیا گیا اور ہاتھ پائوں بھی کھول دئیے گئے۔ اُس کے ہوش ٹھکانے نہیں تھے۔ وہ تین نقاب پوشوں کے نرغے میں تھی۔ تین گھوڑے کھڑے تھے۔ فاطمہ چیخنے چلانے لگی۔ نقاب پوشوں نے اُسے پانی پلایا اور کچھ کھانے کو دیا۔ وہ ہاتھ نہیں آرہی تھی۔ اُس کے پیٹ میں پانی اورکھانا گیا اور تازہ ہوا لگی تو جسم میں طاقت آگئی۔ وہ اچانک اٹھی

اور دوڑ پڑی۔ تینوں بیٹھے دیکھتے رہے۔ کوئی بھی اس کے تعاقب میں نہ گیا۔ دُور جا کروہ ایک ٹیلے کی اوٹ میں چلی گیء تو ایک نقاب پوش گھوڑے پر سوارہوا۔ ایڑ لگائی اور فاطمہ کو جا لیا۔ وہ دوڑ دوڑ کر تھک گئی، لیٹ گئی۔ نقاب پوش نے اُسے اُٹھا کر گھوڑے پر ڈال لیا اور خود اس کے پیچھے سوال ہوکر واپس اپنے ساتھیوں کے پاس لے گیا۔

''بھاگو''۔ایک نے اُسے تحمل سے کہا۔ ''کہاں تک بھاگو گی۔ یہاں سے توکوئی تنومند مرد بھی بھاگ کر قاہرہ نہیں پہنچ سکتا''۔ فاطمہ روتی ،چیختی اور گالیاں دیتی تھی۔ ایک نقاب پوش نے اُسے کہا…… ''اگر ہم تمہیں قاہرہ واپس لے چلیں تو بھی تمہارے لیے کوئی پناہ نہیں ۔ تمہیں تمہارے خاوند نے ہمارے حوالے کیا ہے''۔

''یہ جھوٹ ہے''۔ فاطمہ نے چلا کر کہا ۔

''یہ سچ ہے''۔ اس نے کہا ۔ ''ہم نے تمہیں اُجرت کے طور پر لیا ہے۔ تم نے مجھے پہچانا نہیں۔ میں تمہارے ہاتھ میں بیس اشرفیوں کی تھیلی دے آیا تھا۔ تم نے خاوند نے کہہ دیا کہ تم قاتل ہو اور تم نے بے وقوفی یہ کی کہ اُسے یہ بھی کہہ دیا کہ تم کوتوال کو بتادوگی۔ وہ تم سے پہلے ہی تنگ آیاہوا تھا۔ اُس کی داشتہ نے اُس کے دل اور اس کی عقل پر قبضہ کر لیا تھا۔ میں تمہیں یہ نہیں بتا سکتا کہ وہ لڑکی کون ہے اور کہاں سے آئی ہے اورکیا کرنے آئی ہے۔ دوسرے دن تمہارا خاوند ہمارے ٹھکانے پر آیا۔ ایسا بے ایمان آدمی ہے کہ اس نے ہمیں خضرالحیات کے قتل کے عوض پچاش اشرفی اور سونے کے دو ٹکڑے دینے کا وعدہ کیا تھا ، مگر کام ہوگیا تو صرف بیس اشرفی بھیجی۔ میں نے تمہیں استعمال کیا اور یہ رقم تمہارے ہاتھ میں دے دی، تا کہ تمہیں بھی اس راز کا عمل ہوجائے۔ ہمارا تیر نشانے پر بیٹھا۔ دوسرے دن وہ ہمارے ٹھکانے پر آیا اور پچاس اشرفیاں دینے لگا۔ سونے کے ٹکڑے پھر بھی ہضم کر رہاتھا۔ میرے ان ساتھیوں نے کہا کہ اب ہم بہت زیادہ اُجرت لیںگے۔ اگر وہ نہیں دے گا تو ہم کسی نہ کسی طرح کوتوال تک خبر پہنچا دیں گے۔ اسے اب خطرہ یہ نظر آرہا تھا کہ تمہیں بھی پتا چل گیا تھا کہ قاتل وہی ہے اس کا علاج اس نے یہ سوچا کہ ہمیں کہا تم میری بیوی کو اُٹھا لے جائو۔ میں تمہارے لیے راستہ صاف کردوں گا۔ ہم جان گئے کہ وہ اپنی داشتہ کے زیر اثر تم سے جان چھڑانا چاہتا ہے اور اب وہ اس لیے تمہیں غائب کرنا چاہتاتھا کہ تم اس کے جرم کی گواہ بن گئی ہو اور اُسے کہہ بھی چکی ہو کہ تم کوتوال کوخبر کردوں گی''۔

فاطمہ کے آنسو خشک ہو چکے تھے۔ وہ حیرت زدہ ہو کر اُن تینوں کو باری باری دیکھتی تھی۔ اُن کی صرف آنکھیں نظر آتی تھیں۔ یہ آنکھیں ڈرائونی اور خوفناک تھیں۔ اُن کی زبان میں مٹھاس اور اپنائیت کی جھلک ضرور تھی ۔ انہوں نے اُسے دھمکی نہیں دی ، بلکہ سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ اس کا تڑپنا، رونا اور بھاگنا بے کار ہے۔

''میں نے تمہیں دیکھا تھا''۔ نقاب پوش نے اُسے کہا …… ''جب مصلح الدین نے کاہ کہ میری بیوی کو اُجرت کے طور پر اُٹھالے جائو تو میں نے سکندریہ کی منڈی کے بھائو سے تمہاری قیمت کا اندازہ کیا۔ تم ابھی جوان ہو اور خوبصورت بھی ہو۔ تم بڑے اچھے داموں بک سکتی ہو۔ ہم مان گئے۔ اگر تمہارا خاوند ہمیں اتنی زیادہ اُجرت نہ دیتا تم ہم نے اسے بتا دیا تھا کہ اُسے زندہ نہیں رہنے دیا جائے گا اور اس کی داشتہ کو اغوا کر لیا جائے گا۔ اُس نے ہمیں بتایاکہ آج رات اُس کے گھر میں کوئی ملازم نہیں ہوگا۔ کتا بھی بندھا ہوا ہواگا۔ البتہ بڑا دروازہ اندر سے بند ہوگا کہ تم دیکھ لو تو شک نہ کرو …… ہم تینوں نے ایک دوسرے کے اوپڑ کھڑے ہو کر تمہارے گھر کی دیوار پھلانگی ۔ ہم نے ہاتھوں میں خنجر لے رکھے تھے اورہم سنبھل سنبھل کر چل رہے تھے ، کیونکہ تمہارے خاوند پر بھروسہ نہیں تھا۔ وہ ہمیں مروا سکتا تھا ، لیکن ایسا نہ ہوا۔ ہمارے لیے راستہ واقعی صاف تھا ۔ تمہیں اُٹھایا اور لے آئے''۔

''اِس نے یہ کہانی تمہیں اس لیے سنائی ہے کہ تم اپنے خاوند کے گھر کو دل سے نکال دو''…… دوسرے نقاب پوش نے کہا …… ''ہم تمہیں یہ بھی بتا دیتے ہیں کہ ہم تین آدمی اکیلی عورت کی مجبوری کا فائدہ نہیں اُٹھائیں گے۔ ہم بیوپاری ہیں۔ کرائے کا قتل اور اغوا ہمارا پیشہ ہے۔ ہم تمہارے جسم کے ساتھ کھیل کر خوش ہونے والے نہیں۔ تین مرد ایک عورت کو اغوا اور مجبور کرکے تفریح کریں تو یہ کوئی فخر والی بات نہیں ''۔

''تم سکندریہ کے بازار میں بیچو گے ؟''فاطمہ نے بے بسی کے لہجے میں پوچھا …… ''میری قسمت میں اب عصمت فروشی لکھی ہے؟''

''نہیں''۔ ایک نقاب پوش نے جواب دیا…… ''عصمت فروشی کے لیے جنگلی اور صحرائی لڑکیاں خریدی جاتی ہیں۔ تم حرم کی چیز ہو۔ کسی باعزت امیر کے پاس جائو گی۔ ہمیں بھی تو اچھی قیمت چاہیے۔ ہم تمہیں مٹی میں نہیں پھینکیں گے۔ تم اب رونا اور غم کرنا چھوڑ دو ، تاکہ تمہارے چہرے کی دلکشی اور رونق قائم رہے، ورنہ تم عصمت فروشی کے قابل رہ جائو گی ۔ تھوڑی دیر کے لیے سوجائو''۔

٭ ٭ ٭
یہ دیکھ کر ان لوگوں نے اس کے ساتھ کوئی بے ہودہ حرکت نہیں کی ، دست درازی نہیں کی ، فاطمہ کو کچھ سکون سا محسوس ہوا۔ رات بھیر وہ اذیت میں بھی رہی تھی ۔ تھیلے میں دہری کرکے اسے بند کیا گیاتھا، جسم درد کر رہا تھا۔ وہ لیٹی اور اس کی آنکھ لگ گئی۔ تھوڑی ہی دیر بعد اُس کی آنکھ کھل گئی۔ اُس کا دل خوف اور گھبراہٹ کی گرفت میں تھا۔ اس صورت حال کو وہ قبول نہیں کر سکتی تھی۔ اُس نے دیکھا کہ تینوں نقاب پوش سوئے ہوئے ہیں۔ وہ بھی رات بھر کے جاگے ہوئے تھے۔ فاطمہ نے پہلے تو یہ سوچا کہ کسی ایک کا خنجر نکال کر تینوں کو قتل کردے، لیکن اتنی جرأ ت نہیں کر سکی۔ تینوں کو قتل کرنا آسان نہیں تھا۔ اُس نے گھوڑے دیکھے۔ ان لوگوں نے زینیں نہیں اُتاری تھیں۔ وہ آہستہ سے اُٹھی اور دبے پائوں ایک گھوڑے تک پہنچی۔ سورج ٹیلوں کے پیچھے جاتا رہا تھا اور فاطمہ کو معلوم ہی نہ تھا کہ وہ قاہرہ سے کسی طرف اور کتنی دورہے۔ اس نے یہ خطرہ مول لے لیا اور صحرا کی وسعت میں بھٹک بھٹک کر مرجائے گی ، ان لوگوں کے ہاتھوں سے ضرور نکلے گی۔

اُسے نے گھوڑے پرسوارہوتے ہی ایڑ لگا دی ۔ ٹاپوئوں نے نقاب پوش کو جگادیا۔ انہوں نے فاطمہ کو ٹیلے کی اوٹ میں جاتے دیکھ لیا تھا۔ دو نقاب پوش گھوڑوں پر سوار ہوئے اور تعاقب میں گھوڑے سرپت بھگا دئیے۔ فاطمہ کے لیے مشکل یہ تھی کہ اُسے ٹیلوں کے قید خانے سے نکلنے کا راستہ معلوم نہیں تھا ۔ صحرائی ٹیلے بھول بھلیوں جیسے ہوتے ہیں ۔ صرف صحرا کے بھیدی ان سے واقف ہوتے ہیں۔ فاطمہ ایسے رُخ ہولی جہاں آگے ایک اور ٹیلے نے راستہ روک رکھا تھا۔اُس نے وہاں جا کر پیچھے دیکھا تو نقاب پوش تیزی سے اس کے قریب آرہے تھے۔ اس نے گھوڑے کو ٹیلے پر چڑھایا اور ایڑ مارتی گئی، گھوڑا اچھا تھا۔ اوپر جا کر پرے اُتر گیا۔ وہ ایک طرف کو گھوڑا موڑ لے گئی۔ آگے راستہ مل گیا۔ نقاب پوش بھی پہنچ گئے۔ فاصلہ کم ہو رہا تھا۔ فاطمہ کو اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا، جب اُس نے اپنے سامنے سمندر کی طرح کھلا صحرا اور چار شتر سوار اپنی سمت آتے دیکھے۔ اُس نے چلانا شروع کر دیا …… ''بچائو ، ڈاکوئوں سے بچائو''…… وہ اُن تک پہنچ گئی۔

اُس کے پیچھے دونوں نقاب پوشوں کے گھوڑے باہر آئے۔ شتر سواروں کو دیکھ کر انہوں نے گھوڑوں کی باگیں کھینچیں اور گھوڑے موڑے بھی۔ شتر سواروں نے اونٹ دوڑادئیے۔ ایک نے کمان میں تیر رکھ کر چھوڑا تو تیر ایک گھوڑے کی گردن میں اُتر گیا ۔ گھوڑا درد سے تڑپا، اُچھلا اور بے قابو ہوگیا۔ سوار کود گیا۔ شتر سواروں نے انہیں للکارا تو دوسرے نے گھوڑا روک لیا۔ انہیں معلوم تھا کہ چار شتر سوار تیر اندازوں کی زد میں ہیں۔ فاطمہ نے انہیں بتایا کہ ان کا ایک ساتھی اندرہے۔ ان دونوںکو پکڑ لیا گیا…… یہ چاروں سلطان ایوبی کی فوج کے کسی کشتی دستے کے سپاہی تھے۔ سلطان ایوبی نے سارے صحرا میں کشتی پہرے کا انتظام کر رکھا تھا ، تا کہ اچانک حملے کا خطرہ نہ رہے اور صلیبی تخریب کار مصر میں داخل نہ ہو سکیں۔ ان گشتی دستوں کا بہت فائدہ تھا۔ انہوں نے کئی مشتبہ لوگ پکڑے تھے۔ اب یہ نقاب پوش اُن کے پھندے میں آگئے ۔ فاطمہ نے انہیں بتایا کہ اُسے کس طرح یہاں تک لایا گیا ہے ، وہ کس کی بیوی ہے۔ اُس نے یہ بھی بتایا کہ ناظم مالیات خضرالحیات قتل ہوگیا ہے۔ قتل اس کے خاوند مصلح الدین نے کرایا ہے ، جو شہر کا ناظم ہے اور قاتل ان تینوں میں سے ایک ہے۔

تیسرے نقاب پوش کو بھی پکڑ لیا گیا۔ اُن سے خنجر لے لیے گئے۔ ہاتھ پیٹھ پیچھے باندھ دئیے گئے۔ ان کاایک گھوڑا تیر لگنے سے بھاگ گیا تھا۔ ایک گھوڑے پر دو نقاب پوشوں کو اور تیسرے پر ایک کو بٹھا کر سپاہی اپنے کمانڈر کے پاس لے چلے۔ فاطمہ کو انہوں نے اونٹ پر بٹھالیا۔ اس اونٹ کا سوار اپنے ایک ساتھی کے پیچھے سوار ہوگیا۔ اس قافلے کے سامنے چار میل کی مسافت تھی جو انہوں نے سورج غروب ہونے تک طے کرلی۔ وہ ایک نخلستان تھا ، جہاں خیمے بھی نصب تھے۔ یہ اس دستے کا ہیڈ کواٹر تھا۔ فاطمہ کو اس کمان دار کے سامنے پیش کیا گیا۔ تینوں نقاب پوشوں کو پہرے میں بٹھا دیا گیا ۔ انہیں اگلے روز قاہرہ بھیجنا تھا۔

٭ ٭ ٭

صلیبیوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ کرک میں بیٹھے بیٹھے صلاح الدین ایوبی کا انتظار نہیں کریں گے۔ انہوں نے فوج کو تقسیم کرنا شروع کردیا۔ فرانس کی فوج کو انہوں نے سلطان ایوبی کی فوج کو راستے میں روکنے کے لیے تیاری کا حکم دیا ۔ ریمانڈ کی فوج مسلمانوں کی فوج پر عقب سے حملے کے لیے مقرر ہوئی۔ کرک کے قلعے کے دفاع کے لیے جرمنی کی فوج تھی، جس کے ساتھ فرانس اور انگلستان کے کچھ دستے تھے۔ انہیں جاسوسوں نے بتا دیا تھا کہ سلطان ایوبی نئی فوج تیار کر رہا ہے۔ صلیبی حکمرانوں نے اس اقدام کا جائزہ لیا کہ وہ صلاح الدین ایوبی کے ٹریننگ کیمپ پر حملہ کرکے پیچھے ہٹ آئیں، لیکن اُن کی انٹیلی جنس نے اس تجویز کی مخالفت کی۔ دلیل یہ دی کہ سلطان صلاح الدین ایوبی نے دفاع کی تین تہیں بنا رکھی ہیں، جن میں ایک تہہ متحرک ہے۔ اس کے علاوہ اس کے دیکھ بھال کے دستے دور دورتک گھومتے پھرتے ہیں اور صحرا میںہلتی ہوئی ہر چیز کو قریب جا کر دیکھتے ہیں۔ ان دفاعی انتظامات کو دیکھ کر صلیبیوں نے اس حملے کا خیال دل سے نکال دیا۔

ایک امرکی مصنف انٹینی ویسٹ نے متعدد مؤرخوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ صلیبیوں کے پاس صلاح الدین ایوبی کی نسبت چار گناہ فوج تھی، جس میں زرہ پوش پیادہ اور سوار دستوں کی بہتات تھی۔ اگر یہ فوج صلاح الدین ایوبی پر براہِ راست حملہ کردیتی تو مسلمان زیادہ دیر جم نہ سکتے ، مگر صلیبی فوج کو شوبک کی شکست میں جو نقصان اُٹھانا پڑا، اس کی ایک دہشت بھی تھی جو میدانِ جنگ سے بھاگے ہوئے فوجیوں پر طاری تھی۔ صلیبیوں کامورال متز لزل تھا، جس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ شوبک کو وہ لوہے کا قلعہ سمجھتے تھے۔ وہ اپنی فوج کو صحرا میں بھیج کر اس خوش فہمی میں مبتلا ہوگئے تھے کہ سلطان ایوبی کو قلعوں سے دور ہی ختم کردیں گے۔ وہ کرک کے دفاع میں بیٹھے رہے اور ایوبی نے شوبک نے لیا اور صحرا میں صلیبیوں کو آمنے سامنے کی جنگ کا موقع دئیے بغیر انہیں چھاپہ ماروں سے مروا دیا ۔ اس کی ''آگ کی ہانڈیوں'' نے گھوڑوں اور اونٹوں کو اتنا دہشت زدہ کیا کہ خاصے عرصے تک جانور معمولی سی آگ دیکھ کر بھی بدک جاتے تھے۔ انٹینی ویسٹ نے یہ ثبوت بھی مہیا کیا ہے کہ صلیبی فوج مختلف بادشاہوں اور ملکوں کی مرکب تھی جوبظاہر متحد تھی ، لیکن یہ اتحاد برائے نام تھا کیونکہ ہر بادشاہ او اس کی فوج کا اعلیٰ کمانڈر ملک گیری اور بادشاہی کی توسیع کا خواہش مند تھا۔ ان میں صرف یہ جذبہ مشترکہ تھا کہ مسلمان کو ختم کرنا ہے، مگر ان کے دلوں میں جو اختلافات تھے، وہ اُن کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے تھے۔

مورج لکھتے ہیں کہ صلیبی سازشوں کے ماہر تھے اور مسلمانوں کے جس علاقے پر قابض ہوجاتے تھے، وہاںقتل عام اور آبروریزی شروع کردیتے تھے۔ اس کے برعکس صلاح الدین ایوبی محبت اور اخلاقی قدروں کو ایسی خوبی سے استعمال کرتا تھا کہ دشمن بھی اس کے گرویدہ ہوجاتے تھے۔ اس کے علاوہ اُس نے اپنی فوج میں یہ خوبی پیدا کردی تھی کہ دس سپاہیوںکا چھاپہ مار دستہ ایک ہزار نفری کے فوجی کیمپ کو تہس نہس کرکے غائب ہوجاتا تھا۔ یہ لوگ جان قربان کرنے کو معمولی سی قربانی سمجھتے تھے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی جس اندازسے میدانِ جنگ میں تھوڑی سی فوج کو ترتیب دیتا تھا ، وہ بڑی سے بڑی فوج کو بھی بے بس کردیتی تھی۔ شوبک اور کرک کے میدان میں بھی اس نے اسی جنگی دانشمندی کامظاہرہ کیا تھا۔ صلیبیوں نے اس کا جائزہ لیا، اپنی فوج کی جسمانی اور جذباتی کیفیت دیکھی تو انہوں نے براہ راست حملے کا خیال چھوڑ دیا اور کوئی دوسرا ڈھونگ لیا، لیکن اس ڈھنگ کے متعلق بھی انہیں شک تھا۔ اس کاعلاج انہوں نے یہ کیا کہ مصر میں بغاوت بھڑکانے اور سوڈانیوں کو مصر پر حملہ کرنے پر اُکسانے کا اہتمام کرلیا۔

مصر کے نائب ناظم امور شہری مصلح الدین کی طرف سے انہیں اُمید افزا رپورٹیں مل رہی تھیں، وہاں ابھی یہ اطلاع نہیں پہنچی تھی کہ مصر کا ناظم خضرالحیات قتل ہوگیا ہے اور مصلح الدین پکڑا گیا ہے۔ کرک تک یہ اطلاع پہنچنے کے لیے کم از کم پندرہ دن درکار تھے، کیونکہ راستے میں سلطان صلاح الدین کی فوج تھی۔ قاصد بہت دُور کا چکر کاٹ کر اور قدم پھونک پھونک کر کر ک جاسکتے تھے۔ بہت دنوں کا چلا ہواایک قاصد اُس رات وہاںپہنچا ، جس رات فاطمہ اغوا ہوئی تھی۔ اُس نے رپورٹ دی کہ بغاوت کے لیے فضا سازگار ہے، لیکن سوڈانی ابھی حملے کے لیے تیار نہیںہیں۔ ن کے ہاں گھوڑوں کی کمی ہے، ان کے پاس اونٹ زیادہ ہیں۔ انہیں کم و بیش پانچ سو اچھے گھوڑوں کی ضرورت ہے۔ اتنی ہی زینیں درکار ہیں۔ فرانسیسی فوج کے کمانڈر نے کہا کہ پانچ سو گھوڑے فوراً روانہ کر دئیے جائیں اور ان کے ساتھ صلیبی فوج کے پانچ سات افسروں کو بھی بھیج دیا جائے جو سوڈانیوں کی جنگی اہلیت اور کیفیت کا جائزہ لے کرحملہ کرائیں۔

صلیبیوں کے پاس گھوڑوں کی کمی تھی ۔ انہوں نے کرک میں اعلان کردیاکہ مصر پر حملے کے لیے پانچ سو گھوڑوں کی فوری ضرورت ہے۔ عیسائی باشندوں نے تین دنوں میں گھوڑے مہیا کردئیے جو ایسے راستے سے روانہکر دئیے گئے، جس کے متعلق یقین تھا کہ پکڑے نہیں جائیں گے۔ اس کا راہنما وہی جاسوس تھا جو گھوڑے مانگنے آیاتھا۔ وہ سوڈانی تھا اور تین سال سے جاسوسی کر رہا تھا۔ ان گھوڑوں کے ساتھ آٹھ صلیبی فوج کے افسر تھے، جنہیں سوڈانے حملے کی قیادت کرنی تھی۔ انہیں یقین دلایا گیاتھا کہ صلاح الدین ایوبی کی فوج کویہاں سے نکلنے نہیں دیاجائے گا…… سلطان صلاح الدین ایوبی کو صرف یہ معلوم تھا کہ مصر کے حالات ٹھیک نہیں ، لیکن اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ حالات آتش فشاں پہاڑ بن چکے ہیں جو پھٹنے والا ہے۔ علی بن سفیان نے اسے یہ تسلی دے رکھی تھی کہ اُس نے جاسوسی کا جو جال بچھایا ہے، وہ خطروں سے قبل از وقت خبردار کردے گا۔ انہیں خضرالحیات کے قتل اور مصلح الدین کی گرفتاری کا بھی علم نہیں تھا۔ غیاث بلبیس کو مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ سلطان صلاح الدین ایوبی کو اطلاع بجھوادے ، لیکن اُس نے یہ کہہ کر اس مشورے پر عمل نہیں کیا تھا کہ تفتیش مکمل کرکے اصل صورت حال سے سلطان ایوبی کو آگاہ کرے گا۔
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: داستان ایمان فروشوں کی جلد

Post by ایکسٹو »


فاطمہ کو گشتی دستے کے کمانڈر نے رات الگ خیمے میں رکھا۔ سحر کا دُھندلگا ابھی صاف نہیں ہوا تھا۔ اب اُسے اور تینوں نقاب پوشوں کو آٹھ محافظوں کے ساتھ قاہرہ کے لیے روانہ کر دیا گیا۔ یہ قافلہ سورج غروب ہونے کے بعد قاہرہ پہنچا اور سیدھا کوتوالی گیا۔ غیاث بلبیس اس واردات کی تفتیش میں مصروف تھا۔ اُس وقت وہ تہہ خانے میں تھا۔ اُس نے مصلح الدین کے گھر کے تلاشی لی اور وہاں سے اُس کی داشتہ کر برآمد یاتھا۔ وہ اپنے آپ کو ازبک مسلمان بتاتی تھی۔ اُس نے بلبیس کو گمراہ کرنے کی بہت کوشش کی۔ اس کے جواب میں بلبیس نے اُسے اُس کوٹھری کی جھلک دکھائی ، جہاں بڑے بڑے سخت جان مرد بھی سینے کے راز اُگل دیا کرتے تھے۔ لڑکی نے اعتراف کرلیا کہ وہ یروشلم سے آئی ہے اورعیسائی ہے۔ اُس نے اعتراف کے ساتھ بلبیس کو اپنے جسم اوردولت کے لالچ دینے شروع کردئیے۔ بلبیس نے مصلح الدین کے گھرکی تلاشی میں جو دولت برآمد کی تھی، اس نے اُس کا دماغ ہلا دیا تھا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ مصلح الدین کیوں صلیبیوں کے جال میں پھنس گیا تھا۔ خود لڑکی اس قدر پر کشش اورچرب زبان تھی کہ اُسے ٹھکرانے کے لیے پتھر دل کی ضرورت تھی۔

بلبیس نے اپنا ایمانت ٹھکانے رکھا۔ اُس نے دیکھ لیا تھا کہ یہ تو کوئی بہت بڑی سازش تھی جس کی کڑیاں یروشلم سے جا ملتی ہیں۔ اُس نے لڑکی سے کہاکہ وہ ہر ایک بات بتا دے۔ لڑکی نے جواب میں کہا …… ''میں جو کچھ بتا سکتی تھی ، بتا دیا ہے۔ اس سے آگے کچھ بتائوں گی تو یہ صلیب کے ساتھ دھوکا ہوگا۔ میں صلیب پر ہاتھ رکھ کر حلف اُٹھا چکی ہوں کہ اپنے فرض کی ادائیگی میں جان دے دوں گی۔ میرے سا تھ جو سلوک کرنا چاہو کرلو، کچھ نہیںبتائوں گی۔ اگر مجھے آزاد کرکے یروشلم یاکرک پہنچا دو گے تو منہ مانگی دولت تمہارے قدموں میں رکھ دی جائے گی۔ مصلح الدین تمہاری قید میں ہے۔ اس سے پوچھ لو، وہ تمہارا بھائی ہے۔ شاید کچھ بتا دے''۔

بلبیس نے اُس سے مزید کچھ بھی نہ پوچھا۔ وہ مصلح الدین کے پاس چلا گیا۔ مصلح الدین بڑی بری حالت میں تھا۔ اسے چھت کے ساتھ اس طرح لٹکایا گیا تھا کہ رسہ کلائیوں سے بندھا تھا اوراس کے پائوں فرش سے اوپر تھے۔ بلبیس نے جاتے ہی اُس سے پوچھا …… ''مصلح دوست! جو پوچھتا ہوں ، بتادو۔ تمہاری بیوی کہاں ہے؟ اور اسے کس سے اغوا کرایا ہے؟ اب تمہیں کچھ اور باتیں بھی بتانی پڑیں گی۔ تمہاری داشتہ اپنے آپ کو بے نقاب کرچکی ہے''۔

''کھول دے مجھے ذلیل انسان!''…… مصلح الدین نے غصے اور درد سے دانت پیس کر کہا …… ''امیر مصر کو آنے دے۔ میں تیرا یہی حشر کرائوں گا''۔

اتنے میں بلبیس کے ایک اہل کار نے آکر اس کے کان میں کچھ کہا۔ حیرت سے اُس کی آنکھیں ٹھہر گئیں۔ وہ دوڑتا ہوا تہ خانے سے نکلا اور اوپر چلا گیا۔ وہاں مصلح الدین کی بیوی اور اُسے اغوا کرنے والے تین آدمی بیٹھے تھے۔ فاطمہ نے اُسے بتایا کہ وہ کس طرح اغوا ہوئی اور تینوں کس طرح پکڑے گئے ہیں۔ بلبیس فاطمہ اور تین مجرموں کو تہ خانے میں لے گیااور مصلح الدین کے سامنے جا کھڑا کیا۔ مصلح الدین نے انہیں دیکھا اور آنکھیں بند کرلیں۔ بلبیس نے پوچھا …… ''ان تینوں میں سے قاتل کون ہے؟''…… مصلح الدین خاموش رہا۔ بلبیس نے تین دفعہ پوچھا۔ وہ پھربھی خاموش رہا۔ بلبیس نے تہ خانے کے ایک آدمی کواشارہ کیا۔ وہ آدمی آگے گیا اور مصلح الدین کی کمر کے گرد بازو ڈال کراس کے ساتھ لٹک گیا۔ اس آدمی کاوزن مصلح الدین کی کلائیاں کاٹنے لگا جو رسے سے بندھے ہوئی تھیں۔ اُس نے درد سے چیختے ہوئے کہا …… ''درمیان والا''۔

بلبیس تینوں کو الگ لے گیا اور انہیں کہا کہ وہ بتادیں کو وہ کون ہیں اور یہ سارا سلسلہ کیا ہے، ورنہ یہاں سے زندہ نہیں نکل سکیں گے۔ انہوں نے آپس میں مشورہ کیا اور بولنے پر رضا مند ہوگئے۔ بلبیس نے انہیں الگ الگ کر دیا اور فاطمہ کو اوپر لے گیا۔ فاطمہ نے اُسے وہی بات سنائی جو سنائی جا چکی ہے۔ اُس نے اپنے متعلق یہ بتایا کہ اس کی ماں سوڈانی اورباپ مصر ی ہے۔ تین سال گزرے، وہ اپنے باپ کے ساتھ مصر آئی۔ مصلح الدین نے اُسے دیکھ لیا اور اس کے باپ کے پاس آدمی بھیجے۔ اسے یہ معلوم نہیں کہ رقم کتنی طے ہوئی۔ اب اسے مصلح الدین کے گھر چھوڑا گیا اور ایک تھیلی لے کر چلا گیا۔ مصلح الدین نے ایک عالم اور چند ایک آدمیوں کو بلا کرباقاعدہ نکاح پڑھوایا اور وہ اس کی بیوی بن گئی۔ اُسے شک تھاکہ باپ اُسے یہاں بیچنے کے لیے ہی لایاتھا۔ مصلح الدین کے خلاف اُسے کبھی بھی شک نہیں ہوا تھا کہ وہ اتنا برا آدمی ہے۔ وہ شراب نہیں پیتا تھا۔ اس کی باہر کی سرگرمیوں کے متعلق فاطمہ کو کچھ بھی معلوم نہیں تھا۔

صلاح الدین ایوبی نے شوبک کی طرف کوچ کیا تواس کے فوراً بعد مصلح الدین میں ایک تبدیلی آئی ۔ وہ رات بہت دیر تک باہر رہنے لگا۔ ایک رات فاطمہ نے دیکھا کہ وہ شراب پی کر آیاہے۔ فاطمہ کا باپ شرابی تھا۔ وہ شراب کی بواور شرابی کو پہچان سکتی تھی ۔ اُس نے مصلح الدین کی محبت کی خاطر یہ بھی برداشت کیا۔ پھر گھر میں رات کے وقت اجنبی سے آدمی آنے لگے۔ مصلح الدین نے ایک رات فاطمہ کو اشرفیوں کی دو تھیلیاں اور سونے کے چند ایک ٹکڑے دکھا کر گھرمیں رکھ لیے اور ایک رات جب وہ شراب میں بدمست ہو کر آیا تو اُس نے فاطمہ سے کہا …… ''اگر مصر کا شمالی علاقہ جو بحیرئہ روم کے ساحل کے ساتھ ملتا ہے، مجھے مل جائے تو تم پسند کروگی یا سوڈان کی سرحد کے ساتھ کا علاقہ؟ تم جو پسند کرو اس کی تم ملکہ ہوگی اور میں بادشاہ''…… فاطمہ اتنے اونچے دماغ کی لڑکی نہیں تھی کہ اس سلسلے میں اس کے کچھ پوچھتی۔ وہ سمجھی کہ اس کا خاوند زیادہ شراب پی کر بہک گیاہے۔ ہوش میں وہ ایسی باتیں نہیں کرتا تھا، پھر ایک روز ایک بڑی حسین لڑکی اس کے گھر لائی گئی۔ ساتھ دو آدمی تھے ۔ یہ لڑکی اس کے گھر میں ہی رہی۔ نکاح نہیں پڑھا گیا۔ اس لڑکی نے فاطمہ کو دوست بنانے کی بہت کوشش کی ، لیکن اُسے اس لڑکی سے نفرت ہوگئی۔ اس لڑنے نے اُس سے اُس کا خاوند چھین لیا۔ اس کے بعد خضرالحیات کے قتل کا واقعہ ہوا۔

٭ ٭ ٭

تینوں نقاب پوشوں نے بلبیس کو غلط باتیں بتانے کی کوشش کی، لیکن بلبیس انہیں راستے پر لے آیا۔ تینوں نے الگ الگ جو بیان دئیے ، ان سے یہ انکشاف ہوا کہ تینوں حشیشین کے گروہ کے آدمی ہیں۔ انہیں صلیبیوں کی طرف سے مصلح الدین کے ساتھ لگایا گیا تھا۔ مصلح الدین کو بے شمار دولت، ایک عیسائی لڑکی دی گئی تھی اور یہ وعدہ کہ صلاح الدین ایوبی کے خلاف بغاوت کامیاب کرادے تو مصر کی سرحد کے ساتھ اسے ایک الگ ریاست بناکردی جائے گی، جس کی حکمرانی اس کے ہاتھ میں اور اس عیسائی لڑکی کے ہاتھ میں ہوگی۔ صلح الدین نے اعلیٰ حکام کو اپنے ہاتھ میں لینا شروع کردیا تھا، مگرخضرالحیات اس کے ہاتھ میں نہیں آرہاتھا۔ مالیات اور بیت المال پر قبضہ ضروری تھا جو خضرالحیات کی موجودگی میں ممکن نہ تھا۔ خزانے کا محافظ دستہ جانبازوں کا منتخب گروہ تھا۔ مصلح الدین خضرالحیات کو قتل کروا کے اس دستے کو تبدیل کرانا چاہتاتھا۔ اس میں باغی افراد رکھنے تھے اور دو حشیشین ۔ ان تینوں کے ذمے ہر اُس حاکم کا قتل تھا جس کا فیصلہ مصلح الدین کو کرنا تھا۔ انہیں اس کا م کی اُجرت صلیبیوں کی طرف سے باقاعدہ مل رہی تھی۔ وہ چونکہ یہ کام کاروبار اور پیشے کے طور پر کرتے ہیں ، اس لیے فالتواُجرت لینے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ اسی لیے انہوں نے مصلح الدین سے پچاس اشرفیاں اور سونا الگ مانگا جو اُس نے خضرالحیات کے قتل کے بعد انہیں نہیں دیا۔ اُس نے کہا تھا کہ تمہیں پوری اُجرت مل رہی ہے۔انہوں نے اسے قتل کی دھمی دی تو اس نے انہیں اپنی بیوی پیش کی اورکہا کہ تمہیں اس کی اچھی قیمت مل جائے گی۔ فاطمہ اس کے ساتھ تعاون نہیں کررہی تھی۔

مصلح الدین ابھی تک چھت کے ساتھ لٹکاہوا تھا۔ اُسے بیان لینے کے لیے اُتارا گیا تو وہ بے ہوش ہوچکا تھا۔ جاسوس لڑکی کی کوٹھڑی میں گئے تو وہ مری پڑ ی تھی۔ اُس کے منہ سے جھاگ نکل رہی تھی ۔ طبیبوں نے آکر دیکھا اورکہا کہ اس نے زہر کھا لیاہے۔ اس کے پاس چھوٹا سا ایک کپڑا پڑا ہوا تھا، صاف پتا چلتا تھا کہ اس میں زہر بندھان ہواتھا جو لڑکی نے اپنے کپڑوں میں کہیں چھپا رکھا تھا…… بہت دیر بعد مصلح الدین ہوش میںآیا، لیکن وہ بہکی بہکی باتیں کرتا تھا۔ بولتے بولتے چپ ہوجاتا اور پھٹی پھٹی نظروں سے سب کو دیکھنے لگتا۔ پھر بے معنی باتیں شروع کردیتا۔ طبیبوں نے اسے دوائیاں کھلائیں، لیکن اس کا دماغ اذیت اور پکڑے جانے کے صدمے سے بگڑ گیا تھا۔

اُسی رات غیاث بلبیس کے پاس ایک معزز شخصیت آئی۔ اس کانام زین الدین علی بن نجاالواعظ تھا۔ اس نے بلبیس سے کہا کہ اُسے پتا چلا ہے کہ کچھ جاسوس اور تخریب کار پکڑے گئے ہیں اور وہ بھی کچھ انکشاف کرنا چاہتا ہے۔زین الدین مذہب، سیاست اور معاشرت کے میدان کا بزرگ قائد تھا۔ وہ پیرومرشد تو نہیں تھا لیکن بڑے بڑے حاکم بھی اس کے مرید تھے۔ چھوٹے سے چھوٹا آدمی بھی اسے پیروں کی طرح مانتا تھا۔ اُسے حاکموں اور معاشرت میں اونچی حیثیت کے دو چار افراد سے پتا چلا تھا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی اور اس کی فوج کی غیر حاضری سے دشمن فائدہ اُٹھا رہا ہے اور ایسی چابکدستی سے سازش اور بغاوت کا زہر پھیلا رہا ہے کہ کسی کو پکڑنا آسان نہیں۔ زین الدین نے غیاث بلبیس اور علی بن سفیان کے نائب حسن بن عبداللہ کو بتانے کی بجائے اپنے طور پر اس تخریب کاری کی جاسوسی شروع کردی تھی۔ فوج کے چھوٹے بڑے افسر بھی اس کی محفل میں آتے تھے۔ اُس نے ان سے بہت سی باتیں معلوم کرلی تھیں اور متعدد زمہ دار افراد کے نام اور ان کی سرگرمیاں بھی معلوم کر لی تھیں۔ اُس نے دراصل ذاتی طور پر تخریب کاروں کے خلاف اپنا ایک گروہ تیا ر کر لیا تھا، جس نے نہایت نازک راز حاصل کر لیے تھے۔

ایک مصری وقائع نگار محمد فرید ابو حدید نے اپنی تصنیف ''سلطان صلاح الدین ایوبی'' میں سازش اور بغاوت کے انکشاف کا سہرا زیان الدین علی کے سر باندھا ہے اور تین چار مؤرخین کے حوالے دئیے ہیں، لیکن اُس دور کی جو تحریریں محفوظ ہیں ، ان سے پتا چلتا ہے کہ محکمہ مالیات کے ناظم کے قتل سے صلیبیوں کی یہ سازش بے نقاب ہوئی تھی، جس کے آلہ کار وہ مسلمان تھے جن پر سلطان صلاح الدین ایوبی کو اعتماد تھا۔ بہرحال اس بزرگ شخصیت کی ذاتی کاوش اور اس کا جو حاصل تھا ، وہ قومی سطح کا ایسا کارنامہ تھا جسے مؤرخین نے بجا طور پر خراجِ تحسین پیش کیاہے۔ اس نے بلبیس سے کہا کہ وہ ابھی کچھ دن اور اپنی جاسوسی جاری رکھنا چاہتاتھا تاکہ ہر ایک سازشی کی نشاندہی ہوجائے،لیکن ان تخریب کاروں کی گرفتاری کی خبر شہر میں مشہور ہوگئی ہے، جس سے ان کے ساتھی روپوش ہوجائیں گے۔ اُس نے نام اور پتے وغیرہ بتا دئیے۔ اپنے آدمی بھی بلبیس کے حوالے کر دئیے۔ حسن بن عبد اللہ کو بلا لیا گیا۔

حسن اوربلبیس نے فیصلہ کیا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کو فوری طور پر اطلاع دے دی جائے۔ اس کے لیے زین الدین کو ہی منتخب کیا گیا اور اُسی روز اُسے بارہ سواروں کے محافظ دستے کے ساتھ شوبک روانہ کردیا گیا۔

تیسری شام یہ قافلہ شوبک پہنچ گیا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے جب زین الدین کو دیکھا تو حیران بھی ہوا اور خوش بھی ۔ وہ اس شخصیت سے واقف تھا۔ بغل گیر ہو کر ملا۔ زین الدین نے کہا …… ''میں کوئی اچھی خبر نہیں لایا۔ ناظم مالیات خضرالحیات قتل ہوچکا ہے اور اس کا قاتل آپ کا نائب مصلح الدین کوتوالی میں پاگل ہوگیا ہے''…… سلطان کا رنگ پیلا پڑ گیا۔ زین الدین نے اُسے تسلی دی اور تفصیلات بتائیں۔ اُس فوج کے متعلق جو مصر میں تھی، اُس نے بتایا کہ اس میں بے اطمینانی پھیلادی گئی ہے۔ اس قسم کی افواہیں پھیلائی گئی ہیں کہ شوبک کو سر کرنے والی فوج کو سونے چاندی سے مالا مال کردیا گیا ہے اور اسے عیسائی لڑکیاں بھی دی گئی ہیں۔ مصر والی فوج میں یہ دہشت بھی پیدا کردی گئی ہے کہ سوڈانیوں کا بہت بڑا لشکر مصر پر حملہ کرنے والا ہے، جسے مصر کی یہ تھوڑی سی فوج نہیں روک سکے گی۔ اس فوج کے ہر ایک سپاہی کو قتل کردیا جائے گا اور صلاح الدین ایوبی چاہتا ہی یہی ہے کہ یہ فوج قتل ہوجائے۔ اس کے علاوہ یہ افواہ بھی پھلائی گئی ہے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی محاذ پر شدید زخمی ہوگیا ہے ، شاید زندہ نہیں رہے گا۔ اس کے کمانڈر وہاں من مانی کر رہے ہیں۔ زین الدین نے تایا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے زخمی ہونے کی خبر پر یقین کر لیا گیاہے ۔ اسی لے مصلح الدین جیسے حاکم مصر کو صلیبیوں کی مد سے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کرنے اور اپنی اپنی خود مختار ریاستوں کے قام کے انتظامات کر رہے ہیں۔

سلطان ایوبی نے وقت ضائع کیے بغیر برق رفتار قاصد بلایا اور نورالدین زنگی کے نام ایک پیغام میں مصر کے یہ سارے حالات لکھے اور اس سے فوجی مدد مانگی۔ اُس نے لکھا کہ میں یہاںرہتا ہوں تو مصر ہاتھ سے جاتا ہے، چلا جاتا ہوں تو شوبک کی فتح شکست میں بدل جائے گی۔ لیا ہوا علاقہ کسی قیمت پرواپس نہیں دیا جائے گا۔ میں ابھی فیصلہ نہیں کر سکا کہ یہاں رہوں یا مصر چلا جائوں …… اُس نے قاصد سے کہا کہ وہ دِن اوررات گھوڑا بھگاتا رہے۔ گھوڑا تھک جائے تو جو کوئی سوار سامنے آئے، اس سے گھوڑا بدل لے۔ کوئی انکار کرے تواُسے قتل کردے۔ رفتار کم نہ ہو اور اُسے یہ ہدایت بھی دی کہ اگر وہ دشمن کے گھیرے میں آجائے تو نکلنے کی کوشش کرے اور اگر پکڑا جائے تو پیغام منہ میں ڈال کر نگل لے ۔ دشمن کے ہاتھ پیغام نہ لگے۔ قاصد روانہ ہوگیا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے ایسا ہی ایک اور قاصد بلایا اور اُسے اپنے بھائی تقی الدین کے نام پیغام لکھ کر اُسے وہی ہدایات دیں جو پہلے قاصد کو دی تھیں۔ اس پیغام میں اُس نے بھائی کو لکھا کہ تمہارے پاس جوکچھ بھی ہے ، جتنے لڑاکا آدمی اکھٹے کر سکتے ہو، گھوڑوں پر سوار ہوجائو اور قاہرہ پہنچو۔ راستے میں بلا ضرورت رُکنا نہیں۔ مجھے معلوم نہیں کہ میں تمہیں کہاں ملوںگا۔ ملوں گا بھی یا نہیں۔ اگر قاہرہ میں ہماری ملاقات نہ ہو سکی اور اگر میں زندہ نہ رہا تو اماررتِ مصر سنبھال لینا۔ مصر بغداد کی خلافت کی مملکت ہے اور خدائے ذوالجلال نے اس مملکت کی ذمہ داری ایوبی خاندان کو سونپی ہے۔ روانگی سے قبل قبلہ والد محترم )نجم الدین ایوب( کے آگے جھکنا اورانہیںکہنا کہ وہ تمہاری پیٹھ پر ہاتھ پھیریں، پھر محترمہ والدہ کی قبر پر فاتحہ پڑھ کر اُن کی روح سے دعائیں لے کر آنا۔ اللہ تمہارے ساتھ ہے۔ میں جہاں ہوں، وہاں اسلام کا پرچم سرنگوں نہیں ہوگا۔ تم مصر میں اس پرچم کو سر بلند رکھو۔

یہ قاصد بھی روانہ ہوگیا۔

ان دونوں میں سے جو قاصد نورالدین زندگی کے پاس پہنچا، اس کی جسمانی حالت یہ تھی کہ اس کا بایاں بازو تلواروں کے زخموں سے قیمہ بنا ہوا تھااور اس کی پیٹھ میں ایک تیر اُترا ہوا تھا۔ وہ زنگی کے قدموں میں گرا۔ اتنا ہی کہہ سکا کہ راستے میں دشمن مل گیا تھا ۔ اس حال میں پیغام لے کے نکلا ہوں۔

اُس نے پیغام زنگی کے ہاتھ میں دیا اور شہید ہوگیا۔ نورالدین زنگی کی فوج جب شوبک کے قریب پہنچی تو قلعے اور شہر میں اعلان ہوگیا کہ صلیبیوں کا بہت بڑا حملہ آرہا ہے۔ گرد آسمان تک جارہی تھی۔ پتا نہیں چلتا تھا کہ گرد میں کیا ہے،امکان یہی ہے کہ یہ صلیبی فوج ہے۔ ایک لمحہ ضائع کیے بغیر شوبک کی فوج مقابلے کے لیے تیار ہوگئی ،لیکن گرد میں جو جھنڈے نظر آئے۔ وہ اسلامی تھے، پھر گرد میں تکبر کے نعرے سنائی دئیے۔قلعے سے سلطان صلاح الدین ایوبی کے نائبین استقبال کے لیے آگے چلے گئے۔

٭ ٭ ٭
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: داستان ایمان فروشوں کی جلد

Post by ایکسٹو »


تین چار روز بعد صبح سویرے قاہرہ میں جو فوج تھی اُسے میدان میں جمع ہونے کا حکم ملا۔ فوجی چہ میگوئیاں کرنے لے کہ انہیں تیاری کا حکم ملا ہے۔ بعض نے کہا کہ بغاوت ہوگی۔ کسی نے کہا کہ سوڈانیوں کا حملہ آرہا ہے ۔ ان کے کمانڈروں تک کو علم نہیں تھا کہ اس اجتماع کا مقصد کیا ہے؟یہ حکم فوج کی مرکزی کمان سے جاری ہوا تھا…… جب تمام فوج اپنی ترتیب سے میدان میں آگئی تو ایک طرف سے چھ سات گھوڑے دوڑتے آئے۔ سب دیکھ کر حیران رہ گئے کہ سب سے آگے صلاح الدین ایوبی تھا۔سب جانتے تھے کہ وہ شوبک میں ہے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے ایک عجیب حرکت کی۔ اُس نے تہ بند کے سوا تمام کپڑے اُتار کر پھینک دئیے۔ سر بھی ننگا کر دیا اور فوج کی تمام صفوں کے سامنے سے گھوڑا دُلکی چال چلاتا گزرگیا۔ پھر سامنے آکر بلندآواز سے کہا …… ''میرے جسم پر کسی نے کوئی زخم دیکھا ہے؟ کیا میں زندہ ہوں یا مردہ؟''

''امیر مصر کا اقبال بلندہو''…… ایک شترسوار نے کہا…… ''ہمیں بتایا گیا تھا کہ آپ زخمی ہیں او جانبر نہیں ہوسکیں گے''۔

''اگر یہ خبر جھوٹی ہے تو وہ افواہیں بھی جھوٹی ہیں جو تمہارے کانوں میں ڈالی گئی ہیں''…… سلطان صلاح الدین ایوبی نے اتنی بلند آواز سے کہا کہ آخری صف تک اس کی آواز پہنچتی تھی۔ اُس نے کہا …… ''جن مجاہدین کے متعلق تمہیں بتایا گیاہے کہ وہاںسونا اور چاندی لوٹ رہے ہیں اور عیسائی لڑکیوںکے ساتھ عیش کر رہے ہیں۔ وہ ریگستان میں اگلہ قلعہ اور اس کے اگلا قلعہ اور اس سے اگلا قلعہ سرکرنے کی تیاریوں میں پاگل ہو رہے ہیں ۔ وہ کیوں بھوکے پیاسے مررہے ہیں ؟ صرف اس لیے کہ تمہاری مائوں، بہنوں اور بیٹیوں کی عصمتوں کو صلیبی درندوں سے بچا سکیں۔ شوبک میں ہم نے مسلمان بچیوں اوران کی مائوں اور ان کے باپوں کا یہ حال دیکھا ہے کہ بچیاں عیسائیوں کے پاس اور ان کی مائیں اور اُن کے باپ عیسائیوں کی بیگار کر کرکے مر رہے تھے۔ اب کرک، یروشلم اور فلسطین کی ہر بستی میں جو عیسائیوں کے قبضے میں ہ۔ ، مسلمانوں کایہی حال ہو رہا ہے۔ مسجدیں اصطبل بنا دی گئی ہیں اور قرآن کے مقدس ورق گلیوں میں عیسائیوں کے قدموں تلے مسلے جا رہے ہیں''۔

یہ تقریر اتنی جوشیلی اور سنسنی خیز تھی کہ ایک کمان دار نے چلا کر کہا …… ''پھر ہم یہاں کیاکر رہے ہیں ؟ ہمیں بھی محاذ پر کیوں نہیں لے جایا جاتا؟''

''تمہیں یہاں اس لیے بٹھایا گیا ہے کہ دشمن کی پھیلائی ہوئی افواہیں سنو اور ان پریقین کرو''۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا …… ''تم یہاں اپنے پرچم کے تلے بغاوت کرو، تاکہ سوڈانیوں کے ساتھ صلیبی اس سرزمین پر قبضہ کرلیں اور تمہاری بیٹیوں کی عصمت دری کریں۔ تم قرآن کے ورق اپنے ہاتھوں باہر کیوں نہیں بکھیر دیتے؟ کیا تم قرآن کی توہین صلیبیوں سے کرانا چاہتے ہو؟ تم جو اپنے ایمان کی حفاظت نہیں کرسکتے، قوم کی آبرو کی کیا حفاظت کیا کرو گے''…… تمام فوج میں ہلچل سی پیدا ہوگئی۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا …… ''تمہیں چند ایک کمان دارنظر نہیں آرہے۔ وہ میں تمہیں دکھاتا ہوں''۔

اُس نے اشارہ کیا تو ایک طرف سے دس گیارہ آدمی گردنوں میں رسیاں پڑی ہوئی اور ہاتھ پیٹھ پیچھے بندھے ہوئے، آگے لائے گئے۔ انہیں صفوں کے آگے سے گزارا گیا ۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے اعلان کیا …… ''یہ تمہارے کماندار تھے، لیکن یہ اُس قوم کے دوست ہیں جو تمہارے رسول ۖ اور تمہارے قرآن کی دشمن ہے۔ یہ پکڑے گئے ہیں ''…… سلطان صلاح الدین ایوبی نے فوج کو خضرالحیات کے قتل اور مصلح الدین کی گرفتاری کا پورا واقعہ سنایا اور مصلح الدین کو سامنے لایا گیا۔ وہ ابھی تک پاگل پن کی حالت میں تھا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی گزشتہ رات کوتوالی کے تہہ خانے میں اُسے دیکھ آیا تھا۔ اُس نے سلطان صلاح الدین ایوبی کو نہیں پہچانا تھا۔ وہ اپنی ریاست اور خود مختارحکمرانی کی باتیں کر رہا تھا۔ اب سلطان صلاح الدین ایوبی نے اُسے گھوڑے پر بٹھا کر فوج کے سامنے کھڑا کردیا۔ اس نے فوج کو دیکھا اور بلند آواز سے بولا …… ''یہ میری فوج ہے ۔ مصر کی حکومت کے خلاف بغاوت کردو۔ میں تمہارا بادشاہ ہوں۔ صلاح الدین ایوبی مصر کادشمن ہے۔ تم اُسے قتل کردو''۔

وہ بولے جا رہا تھا ۔ اُس کے منہ سے پاگل پن کی جھاگ نکل رہی تھی۔ فوج کی صفوں سے ''پنگ'' کی آواز آئی اور ایک تیر مصلح الدین کی شہہ رگ میں اُتر گیا۔ وہ گر رہا تھا ، جب کئی اور تیراس کے جسم میں اُتر گئے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے چلا کر تیر اندازوں کو روکا۔ کمان داروں نے تیر چلانے والوں کو آگے آنے کو کہا۔ اُن میں سے ایک نے کہا …… ''ہم نے غدار کو مارا ہے۔ اگر یہ قتل ہے تو گردنیں حاضر ہیں''…… سلطان صلاح الدین ایوبی نے انہیں معاف کردیا۔ اُس کے جسم پر ابھی تک صرف تہ بند تھا۔ باقی جسم ننگا تھا۔ اُس نے جلاد کو وہیں بلایا اور ان غداروں کو جنہیں فوج کے سامنے لایا گیا تھا، جلاد کے حوالے کرکے اُن کے سر جسموں سے الگ کرادئیے۔

اُس نے ایک اور حکم دے کر سب کو حیران کر دیا ۔ اُس نے حکم دیاکہ یہ فوج یہیں سے محاذ کو کوچ کرے گی۔ تمہارا ذاتی اور دیگر سازوسامان اور رسد تمہارے پیچھے آئے گی …… فوج کوچ کر گئی جس کا مطلب یہ تھا کہ مصر فوج کے بغیر رہے گا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے غداروں کے کٹے ہوئے سر دیکھے ۔ وہ کسی سے کوئی بات کرنے لگا تو اسے ہچکی سی آئی اور اس کے آنسو بہہ نکلے ۔ اُس نے کپڑے پہنے اور ایک سمت چل پڑا۔ اس نے اپنے ساتھ کے حکام سے کہا …… ''مجھے خطرہ یہ نظر آرہا ہے کہ دشمن ملت اسلامیہ میں اسی طرح غدار پیدا کرتارہے گا اور وہ دِن آجائے گا، جب غداروں کی گردنیں مارنے والے بھی دشمن کو دوست کہنے لگیں گے۔ میرے دوستو! اسلام کو سر بلند دیکھنا چاہتے تو دوست اور دشمن کو پہچانو''۔

مصرکے جن حاکموں کو معلوم نہیں تھا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی نے فوج کو کیوں کوچ کرادیا ہے، انہیں اُس نے بتایا کہ یہ فوج یہاں فارغ بیٹھی تھی ۔میں یہ حکم دے گیا تھا کہ اسے فارغ نہ رہنے دیاجائے۔ جنگی مشقین جاری رہیں اور شہر سے دُور لے جاکر اس فوج کو وقتاً فوقتاً جنگی حالت میں رکھا جائے اور ذہنی تربیت بھی جاری رہے، مگر میرے حکم پر عمل نہیں کیا گیا۔ میں نے دو ذمہ دار حاکموں کو سزائے موت دے دی ہے۔ انہوں نے ایک سازش کے تحت فوج کو فارغ رکھا۔سپاہی جوئے اور نشے سے دل بہلانے لگے اور ان کے ذہن افواہوں کو قبول کرنے لگے۔ تم شاید سوچ رہے ہو کہ مصرمیں فوج نہیں رہی ۔ گھبرائو نہیں۔ فوج آرہی ہے، جس فوج نے شوبک فتح کیا ہے ، وہ قاہرہ میں داخل ہو چکی ہے۔ اُس نے میرے پیچھے پیچھے کوچ کیا تھا۔ وہ فوج دشمن کو اور دشمن کے گناہوں کو بہت قریب سے دیکھ کر آئی ہے۔ اسے کوئی باغی نہیں کر سکتا۔ اس کے سپاہی شہیدوں کو دھوکہ نہیں دیں گے اور یہ فوج جو یہاں سے جارہی ہے ۔ یہ کرک پر حملہ کرے گی یا دشمن اس پر حملہ کرے گا۔ پھر یہ بھی دشمن کو جان جائے گی ، جو سپاہی ایک بار دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر لڑے، اُسے کوئی لالچ غداری پر آمادہ نہیں کر سکتا۔

یہ انقلاب اس طرح آیا ھتا کہ نورالدین زنگی اور اپنے بھائی تقی الدین کی طرف قاصد بھیج کر سلطان صلاح الدین ایوبی خفیہ طور پرقاہرہ کے لیے روانہ ہوگیا تھا۔ اپنے نائبین کو کمان دے کر اُس نے سخت ہدایت دی تھی کہ اُس کی غیرحاضری کی کسی کو خبر نہ ہو۔اُس نے کہا کہ زنگی مدد ضرور بھیجے گا۔ جونہی اس کی مدد آئے ، اتنی ہی اپنی فوج یہاں سے قاہرہ بھیج دی جائے ، لیکن راستے میں پڑائو زیادہ نہ کرے۔ اس سے سلطان صلاح الدین ایوبی کے دومقاصد تھے۔ ایک یہ کہ اگر مصر کی فوج باغی ہو گئی تو محاذ سے آنے والی فوج بغاوت فرد کرے گی اور اگر حالات ٹھیک ہوئے تومصر کی فوج محاذ پر آجائے گی اور محاذ کی فوج مصر میںرہے گی۔ سلطان صلاح الدین ایوبی قاہرہ پہنچا تو اس ی موجودگی خفیہ رکھی گئی۔ رات ہی رات اُس نے زین الدین کی نشاندہی کے مطابق تمام غداروں کوسوتے ہی پکڑوادیا۔ کئی اور جگہوں پر چھاپے مروائے۔ تین حشیشین نے بھی بعض افراد کے نام بتائے تھے۔ انہیں بھی پکڑا گیا ۔ کسی کے عہدے اور رُتبے کا لحاط نہ کیا گیا۔

فاطمہ کو سلطان صلاح الدین ایوبی کے حکم کے مطابق زین الدین کے حوالے کر دیا گیا اور اُسے کہا گیا کہ کسی موزوں جگہ اس کی شادی کردی جائے ۔ اب سلطان صلاح الدین ایوبی تقی الدین کا انتظار کرنے لگا۔ اُسے تین دن انتظار کرنا پڑا ۔ تقی الدین کم و بیش دوسو سواروں کے ساتھ آگیا۔ سلطان ایوبی نے اُسے مصر کے حالات اور واقعات اور آئندہ لائحہ عمل بتا کر قائم مقام امیر مصر مقرر کر دیا اور یہ اجازت بھی دی کہ وہ سوڈان پر نظر رکھے اور جب ضرورت سمجھے حملہ کردے

یہ ہدایات اور احکامات دے کر سلطان صلاح الدین ایوبی شوبک کو روانہ ہونے لگا تو علی بن سفیان جو اُس کے ساتھ آیا تھا ، بولا …… ''کرک کے صلیبیوں نے آپ کے لیے ایک تحفہ بھیجا ہے۔ اگرکچھ دیر اور انتظار کریں تو تحفہ دیکھتے جائیں''…… علی بن سفیان ، سلطان صلاح الدین ایوبی کو حیرت میں چھوڑ کر باہر نکل گیا۔ اس نے سلطان ایوبی کو باہر چلنے کو کہا۔

سلطان صلاح الدین ایوبی گھوڑے پر سوار ہو کرعلی بن سفیان کے ساتھ چلا گیا۔ تھوڑی دُور میدان میں پانچ سو گھوڑے کھڑے تھے۔ ہر گھوڑے پر زین تھی ۔ ان گھوڑوں سے ذرا پرے سات آٹھ صلیبی رسیوں سے بندھے ہوئے کھڑے تھے اور اپنی فوج کا ایک سرحدی دستہ بھی مستعد کھڑا تھا۔ سلطان ایوبی نے پوچھا کہ یہ گھوڑے کہاں سے آئے ہیں ؟ علی بن سفیان نے ایک آدمی کو بلا کر سلطان کے سامنے کھڑا کردیا اور کہا …… ''یہ میرا جاسوس ہے۔ یہ تین سال سے صلیبیوں کے لیے جاسوسی کر رہاہے۔یہ صلیبیوں اور سوڈانیوں کے درمیان رابطے کا کام کرتاہے۔ وہ اسے اپنا جاسوس سمجھتے ہیں ، لیکن یہ میرا جاسوس ہے۔ یہ کر ک گیا تھا اور صلیبی بادشاہوں کو سوڈانیوں کا یہ پیغام دیا تھا کہ انہیں پانچ سو گھوڑوں اور زینوں کی ضرورت ہے۔ انہوں نے گھوڑے دے کر اپنے یہ فوجی افسر بھی بھیج دیئے۔ یہ اُس سوڈانی فوج کی قیادت کرنے جارہے تھے، جسے مصر پر حملے کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔ میرا شیر انہیں شمال کی طرف سے گھما کر ایک پھندے میں لے آیا او اپنے اس سرحدی دستے کوبلا لیا ۔ اپنی شناخت بتائی اور یہ دستہ پانچ سو گھوڑوں اور ان صلیبی فوجی افسروں کو قاہرہ ہانک لایا''۔

صلیبی افسروں کو معلومات حاصل کرنے کے لیے علی بن سفیان نے اپنے نایئب حسن بن عبداللہ کے حوالے کردیا اور حود سلطان کے ساتھ شوبک کو روانہ ھوگیا۔

اسکے ساتھ ھی قاہرہ میں بغاوت اور سلطان ایوبی کا قصہ بھی حتم ھوا۔۔۔۔

صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

ۖکھنڈروں کی آواز

Post by ایکسٹو »

ۖکھنڈروں کی آواز


سازش اور غداری کے مجرموں کا خون قاہرہ کی ریت نے ابھی اپنے اندر جذب نہیں کیا تھا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کا بھائی تقی الدین اُس کے بلاوے پر دو سو منتخب سواروں کے ساتھ قاہرہ پہنچ گیا۔ سازش کے مجرموں کو گردنیں کاٹی جا چکی تھیں اور یوں نظر آتا تھا جیسے قاہرہ کی ریت ان مرے ہوئے مسلمانوں کا خون اپنے اندر جذب کرنے سے گزیز کر رہی ہے جو صلیبیوں کے ساتھ مل کر سلطنت اسلامیہ کے پرچم کو سرنگوں کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔سلطان صلاح الدین ایوبی نے اس سب کی لاشیں دیکھیں۔ ان کے کٹے ہوئے سر ان کے بے جان جسموں کے سینوں پر رکھ دئیے گئے تھے۔ صرف ایک لاش تھی جو سب سے بڑے غدار کی تھی اور جس پر سلطان صلاح الدین ایوبی کو کلی طور پر اعتماد تھا۔ اس لاش کا سر اس کے ساتھ ہی تھا۔ ایک تیر اُس کی شہہ رگ میں داخل ہو کر دوسری طرف نکل ہوا تھا۔ یہ قاہرہ کا نائب مصلح الدین تھا۔ فوج کے سامنے جب اس کاجرم سنایا جا رہا تھا تو ایک جوشیلے اور محب اسلام سپاہی نے کمان میں تیر ڈال کر مصلح الدین کی شہہ رگ سے پار کردیا تھا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے سپاہی کی اس غیر قانونی حرکت کو ڈسپلن کے خلاف تھی، صرف اس لیے نظر انداز کرکے معاف کر دیا تھا کہ کوئی بھی صاحب ایمان اسلام کے خلاف غداری برداشت نہیں کرسکتا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے ہی اپنی فوج میں ایمان کی یہ قوت پیدا کی تھی۔

ان لاشوں کو دیکھ کر سلطان ایوبی کے چہرے پر ایسی خوشی کی ہلکی سی بھی جھلک نہیں تھی کہ اُس کی صفوں اور نظام حکومت میں سے اتنے زیادہ غدار اور سازشی پکڑے گئے اور انہیں سزائے موت دے دی گئی ہے۔ اُس کے چہرے پر اُداسی اور آنکھیں گہری سرخ تھیں ، جیسے وہ آ نسو روکنے کی کوشش کر رہا تھا۔ غصہ تو تھا ہی جس کا اظہار اس نے ان الفاظ میں کیا …… ''ان میں سے کسی کا جنازہ نہیں پڑھایا جائے گا۔ ان کی لاشیں ان کے رشتہ داروں کو نہیں دی جائیں گی، تا کہ انہیں کفن بھی نہ پہنائے جائیں۔ رات کے اندھیرے میں انہیں ایک ہی گہرے گڑھے میں پھینک کر مٹی ڈال دو اور زمین ہموار کر دو۔ اس دُنیا میں ان کانشان بنی باقی نہ رہے''۔

''امیر محترم !'' …… سلطان صلاح الدین ایوبی کے ایک رفیق اور معتمد خاص بہائوالدین شداد نے سلطان صلاح الدین ایوبی سے کہا …… ''کوتوال اور شاہدوں کے بیان اور قاضی کا فیصلہ تحریر میں لاکردستاویز میں محفوظ کرلینا ضروری ہیں ، تاکہ یہ اعتراض نہ رہے کہ یہ فیصلہ صرف ایک فرد کا تھا۔ آپ کا فیصلہ برحق ہے۔ انصاف کر دیا گیا ہے، مگر قانون کا تقاضا کچھ اورہے''۔

''کیا قرآن نے یہ حکم دیا ہے کہ دینِ الٰہی کی جڑیں کفار کے ساتھ مل کر کاٹنے والے کو یہ حق دیا جائے کہ وہ قانون کے سامنے کھڑے کھڑا ہو کردین داروں سے اللہ و رسول ۖ کی عظمت کے پاسبانوں کو جھوٹا ثابت کرے '' …… سلطان صلاح الدین ایوبی نے ایسے تحمل سے کہا جس میں ایک دین دار مسلمان کا عتاب صاب جھلک رہا

تھا۔ اُس نے ان تمام حاکموں کو جو وہاں موجود تھے ، مخاطب ہو کرکہا …… ''اگر میں نے بے انصافی کی ہے تو مجھے اتنے زیادہ انسانوں کے قتل کے جرم میں سزائے موت دے دو اور میری لاش شہر سے دُور پھینک دو، جہاں صحرائی لومڑیاں اور گدھ میری کوئی ہڈی بھی اس زمین پر نہ رہنے دیں، لیکن میرے رفیقو! مجھے سزا دینے سے پہلے قرآن پاک الف لام میم سے والناس پڑھ لینا، اگر قرآن مجھے سزا دیتا ہے تو میری گردن حاضر ہے''۔

''بے انصافی نہیں ہوئی سالار اعظم؟''…… کسی اور نے کہا …… ''قاضی شداد کا مقصد یہ ہے کہ قانون کی بے حرمتی نہ ہو''۔

''میں سمجھ گیا ہوں''…… سلطان ایوبی نے کہا …… ''ان کا مقصد آئینے کی طرح صاف ہے۔ میں آپ سب کو صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ حاکم وقت ذاتی طور پرجانتا ہے کہ جسے غداری کے جرم میں سامنے لایاگیا ہے، وہ غداری کا مجرم ہے تو حاکم وقت پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ شہادتوں اور قانون کے دیگر جھمیلوں میں پڑے بغیر غدار کو وہیں سزا دے ، جس کا وہ حق دار ہے، اگر وہ سزادینے سے گریز کرتا، ڈرتا ، ہچکچاتا ہے تو وہ حاکم وقت خود بھی غدار ہے یا کم از کم نا اہل اور بے ایمان ضرورہے۔ وہ ڈرتا ہے کہ قاصی کے سامنے جاکر مجرم اُسے بھی مجرم کہہ دیں گے۔ میرا سینہ صاف ہے۔ مجھے غداروں کی صف میں کھڑا کردو۔ خدا کا ہاتھ مجھے اُس سے الگ کردے گا۔ اگر تمہارے سینے ربِ کعبہ کے نور سے منور ہیں تومجرموں کا سامنا کرنے سے مت ڈرو۔ تا ہم میرے عزیز دوست بہائو الدین شداد نے جو مشورہ دیا ہے اس پرعمل کرو۔ کاغذات تیارکرکے محترم قاضی سے فیصلہ تحریر کرالو۔ ظاہر ہے کہ یہ فیصلہ ان کا نہیں ہوگا۔ تحریر کر دیا جائے کہ امیر مصر جو افواجِ مصرکا سالار اعلیٰ بھی ہے، نے اپنے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے ان مجرموں کو سزائے موت دی ہے، جن کا جرم بلاشک و شبہہ ثابت ہوگیا تھا''۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے اپنے بھائی تقی الدین کی طرف دیکھا۔ وہ بڑے لمبے سفر سے آیاتھا، تھکا ہوا تھا۔ سلطا ن ایوبی نے اسے کہا …… ''میں تمہارے چہرے پر تفکر اور تھکن دیکھ رہاہوں ، لیکن تم آرام نہیں کر سکو گے۔ تمہارا سفر ختم نہیں ہوا، بلکہ شروع ہوا ہے۔ مجھے شوبک جلدی جاتا ہے تمہارے ساتھ کچھ ضروری باتیں کرکے چلا جائوںگا''۔

''جانے سے پہلے ایک حکم اور صادر فرماجائیے'' …… ناظم شہر نے کہا …… ''جنہیں سزائے موت دی گئی ہے، ان کی بیوائوں اور بچوں کا کیا بنے گا''۔

''ان کے لیے بھی میرے اسی حکم پر عمل کرو جو میں ان سے پہلے غداروں کے اہل و عیال کے متعلق دے چکا ہوں ''…… سلطان ایوبی نے کہا …… ''بیوائوں کے متعلق یہ چھن بین کرلو کہ اپنے خاوند وں کی طرح اُن میں سے کسی کا تعلق دشمن کے ساتھ نہ ہو۔ ہمارے زَن پرستی نے بھی غدار پیدا کیے ہیں۔ آپ نے دیکھ لیا ہے کہ صلیبیوں نے ہمارے بھائیوں کو خوبصورت لڑکیاںدے کر ان کے عوص ان کا ایمان خریدا ہے۔ ان میں سے جو بیوائیں نیک اورمومن ہیں ، ان کی شادیاں ان کی منشا کے مطابق کردو۔ کسی پر اپنا فیصلہ ٹھونسنے کی کوشش نہ کرنا۔ خیال رکھنا کہ کوئی عورت بے سہارا نہ رہے اور باعزت روٹی سے محروم نہ رہے اور اس میں محتاجی کا احسا س نہ پیدا ہو۔ یہ بھی خیال رکھنا کہ ان کے کانوں میں کو ئی یہ نہ پھونک دے کہ ان کے خاوندوںکو بے گناہ سزائے موت دی گئی ہے انہیں ذہن نشین کرادو کہ تم خوش قسمت ہو کہ ایسے گناہ گار خاوندوں سے نجات مل گئی ہے اور اُس کے بچوں کی تعلیم و تربیت خصوصی انتظامات کے تحت کرو۔ تمام اخراجات بیت المال سے لو۔ غداروں کے بچے غدار نہیں ہوا کرتے ،بشرطیکہ ان کی تعلیم و تربیت صحیح ہو۔ یہ سب مسلمانوں

کے بچے ہیں ۔ ان کی تعلیم و تربیت ایسی ہو کہ ان میں محرومی کا احساس پیدا نہ ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ باپ کے گناہ کاکفارہ بچے کو ادا کرنا پڑے''۔

٭ ٭ ٭

سلطان ایوبی کو واپسی کی جلدی تھی ، اُسے فکر یہ تھی کہ اس کی غیر حاضری میں صلیبی کوئی جنگی کاروائی نہ کردیں۔ نورالدین زنگی کی بھیجی ہوئی کمک تو وہاں )کرک اورشوبک کے علاقہ میں(پہنچ گئی تھی ۔ قاہرہ کی فوج ابھی اُدھر جارہی تھی ، لیکن ان دونوں فوجوں کو اس علاقے سے روشناس کرانا تھا۔ اُس نے اپنے دفتر میں جا کر اپنے بھائی تقی الدین ، علی بن سفیان ، اس کے نائب حسن بن عبدا للہ ، کوتوال غیاث بلبیس اورچند ایک نائبین اور حکام کو بلالیا ، وہ زیادہ تر ہدایات تقی الدین کو دینا چاہتا تھا۔ اُس نے اجلاس میں اعلا ن کیا کہ اُس کی غیر حاضری میں اُس کا بھائی تقی الدین قائم مقام امیر مصر اوریہاں کی فوج کا سالار اعلیٰ ہوگا اور اسے اتنے ہی اختیارات حاصل ہوں گے جو سلطان ایوبی کے اپنے تھے۔

''تقی الدین !''…… سلطان ایوبی نے اپنے بھائی سے کہا …… ''آج سے دل سے نکال دو کہ تم میرے بھائی ہو۔ نااہلی ، بددیانتی ، کوتاہی ، غداری یا سازش اور بے انصافی کا ارتکاب کرو گے تو اُسی سزا کے مستحق سمجھے جائو گے جو شریعت کے قانون میں درج ہے''۔

''میںاپنی ذمہ داریوں کواچھی طرح سمجھتا ہوں، امیر مصر!''…… تقی الدین نے کہا …… ''اور ان خطرات سے بھی آگاہ ہوں جومصر کو درپیش ہیں''۔

''صرف مصر کو نہیں''……سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا …… ''یہ خطرے سلطنت اسلامیہ کو درپیش ہیں اور اسلام کے فروغ اور سلطنت کی توسیع کے لیے بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔ ہمیشہ یادرکھو کہ کوئی بھی خطہ، جو سلطنت اسلامیہ کہلاتا ہے، وہ کسی ایک فرد یا گروہ کی جاگیر نہیں ۔ وہ خدائے عزوجل کی سرزمین ہے اور تم سب اس کے پاسبان اور امین ہو۔ اس مٹی کا ذرہ ذرہ تمہارے پاس امانت ہے۔اس کی مٹی بھی جب اپنے کام میں لانا چاہو تو سوچ لو کہ تم کسی دوسرے انسان کاحق تونہیں مار رہے؟ خدا کی امانت میں خیانت تو نہیں کر رہے؟…… میری باتیں غور سے سنو لو تقی الدین ! اسلام کی سب سے بڑی بدنصیبی یہ ہے کہ اس کے پیروکاروں میں غداروں اورسازش پسندوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ کسی قوم نے اتنے غدار پیدا نہیں کیے، جتنے مسلمانوں نے کیے ہیں۔ یہاں تک کہ ہماری تاریخ جو جہاد اور اللہ کے نام پر جنگ و جدل کی قابلِ فخر تاریخ ہے، غداری کی بھی تاریخ بن گی ہے اور اپنی قوم کے خلاف سازش گری ہماری روایت بن گی ہے …… علی بن سفیان سے پوچھو تقی ! ہمارے وہ جاسوس جو صلیبیوں کے علاقوںمیں سرگرم رہتے ہیں ، بتاتے ہیں کہ صلیبی حکمران، مذہبی پیشوا اور دانش ور اسلام کی اس کمزوی سے واقف ہیں کہ مسلمان زَن ، زر اور اقتدارکے لالچ میں اپنے مذہب، اپنے ملک اور اپنی قوم کا تختہ اُلٹ دینے سے بھی گریز نہیں کرتا''۔

سلطان صلاح الدین ایوبی نے اجلاس کے شرکاء پر نگاہ دوڑائی اور کہا …… ''ہمارے جاسوسوں نے ہمیں بتایا ہے کہ صلیبیوں نے اپنے جاسوسوں کو ذہن نشین کرایا ہے کہ مسلمان کی تاریخ جتنی فتوحات کی ہے، اتنی ہی غداری کی تاریخ ہے۔ مسلمانوں نے اتنی فتوحات حاصل نہیں کیں، جتنے غدار پیدا کیے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے فوراً بعد مسلمان خلافت پرایک دوسرے کے خلاف لڑنے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ انہوں نے اقتدار کی خاطر ایک دوسرے کو قتل کیا۔ ایک خلیفہ یا امیر مقرر ہوا تو خلافت اور امارت کے دوسرے امیدواروں نے اُس کے خلاف یہاں تک

سازشیں کیں کہ اسلام کے دشمنوں تک سے درپردہ مدد لی اور جس کے ہاتھ میں خلافت اورامارت آگئی ، اُس نے ہر اُس قائد کو قتل کرایا جس سے اقتدار کو خطرہ محسوس ہوا۔ قومی وقار ختم ہوتا گیا اور ذاتی اقتدار رہ گیا۔ پھر تحفظ اسی کا ہوتا رہا۔ سلطنتکی توسیع ختم ہوئی، پھر سلطنت کا دفاع ختم ہوا اور پھر سلطنت سکڑنے لگی۔ صلیبی ہماری اس تاریخی کمزوری سے آگاہ ہیں کہ ہم لوگ ذاتی اقتدار کے تحفظ اور استحکام کے لیے سلطنت کا بہت بڑا حصہ بھی قربان کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔ یہی ہماری تاریخ بنتی جارہی ہے''۔

''تقی الدین اور میرے رفیقو! میں جب ماضی پر نگاہ ڈالتا ہوں اور جب اپنے موجودہ دور میں غداروں کی بھرمار اور سازشوں کے جال کو دیکھتا ہوں تو یہ خطرہ محسوس کرتا ہوں کہ ایک وقت آئے گا کہ مسلمان تاریخ کی تحریروں کے ساتھ بھی غداری کریں گے۔ وہ قوم کی آنکھوں میں دھول جھونک کر لکھیں گے کہ وہ بہادر ہیں اور انہوں نے دشمن کو ناک چنے چبوا دئیے ہیں، مگر درپردہ دشمن کو دوست بنائے رکھیں گے۔ اپنی شکستوں پرپردے ڈالے رکھیں گے۔ سلطنت اسلامیہ سکڑتی چلی جائے گی اور ہمارے خود ساختہ خلیفے اس کا الزام کسی اور پر تھوپیں گے۔ مسلمانوں کی ایک نسل ایسی آئے گی جس کے پاس صرف نعرہ رہ جائے گا ''اسلام زندہ باد''۔ وہ نسل اپنی تاریخ سے آگاہ نہیں ہوگی۔ اس نسل کو یہ بتانے والا کوئی نہ ہوگا کہ اسلام کے پاسبان اور علم بردار وہ تھے جو وطن سے دُور ریگزاروں میں، پہاڑوں میں ، وادیوں میں اور اجنبی ملکوں میں جا کر لڑے۔ وہ دریا اور سمندر پھلانگ گئے۔ انہیں کڑکتی بجلیاں ، آندھیاں اور اولوں کے طوفان بھی نہ روک سکے۔ وہ اُن ملکوںمیں لڑے جہاں کے پتھر بھی ان کے دشمن تھے۔ وہ بھوکے لڑے، پیاسے لڑے، ہتھیاروں اور گھوڑوں کے بغیر بھی لڑے۔ وہ زخمی ہوئے تو کسی نے ان کے زخموں پر مرہم نہ رکھا، وہ شہید ہوگئے تو ان کے رفیقوں کو ان کے لیے قبریں کھودنے کی مہلت نہ ملی۔ وہ خون بہاتے گئے، اپنا بھی اوردشمن کا بھی۔ پیچھے ایوانِ خلافت میں شراب بہتی رہی۔ برہنہ لڑکیوں کے ناچ ہوتے رہے۔ یہودی اور صلیبی سونے سے اور اپنی بیٹیوں کے حسن سے ہمارے خلیفوں اور ہمارے امیروں کو اندھا کرتے گئے۔ جب خلیفوں نے دیکھا کہ قوم ان تیغ زنوں کی پجاری ہوتی جا رہی ہے ، جنہوں نے یورپ اور ہندوستان میں اسلام کے جھنڈے گاڑدئیے ہیں تو خلیفوں نے ان مجاہدینِ اسلام پر لوٹ مار اور زناکاری جیسے الزام تھوپنے شروع کردئیے۔ انہیں کمک اور رسد سے محروم کردیا۔ مجھے قاسم اور وہ کمسن اور خوبرو بیٹا یاد آتا ہے ، جس نے اس حال میں ہندوستان کے ایک طاقتور حکمران کو شکست دی اور ہندوستان کے اتنے بڑے حصے پر قبضہ کرلی تھا کہ اُس نے کمک نہیں مانگی، رسد نہیں مانگی۔ مفتوحہ علاقوں کا ایسا انتظام کیا کہ ہندو اُس کے غلام ہوگئے اور اُس کی شفقت سے متاثر ہو کر مسلمان ہوگئے۔ مجھے جب یہ لڑکا یاد آتا ہے تو دل میں درد اُٹھتا ہے۔ اُس وقت کے خلیفہ نے اس کے اس ساتھ کیا سلوک کیا تھا؟ اُس پر زنا کا الزام عائد کیا اور مجرم کی حیثیت سے واپس بلایا'' …… سلطان صلاح الدین ایوبی کو ہچکی سے آئی اور وہ خاموش ہوگیا۔

بہائو الدین شداد اپنی یاداشتوں میں لکھتاہے …… ''میرا عزیز دوست صلاح الدین ایوبی اپنی فوج کے سینکڑوں شہیدوں کی لاشیں دیکھتا تو اس کی آنکھوں میں چمک اور چہرے پر رونق آجایا کرتی تھی ، مگر صرف ایک غدار کو سزائے موت دے کر جب اُس کی لاش دیکھتا تو اس کا چہرہ بجھ جاتا اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے تھے''…… محمد بن قاسم کا ذکر کرتے کرتے اُسے ہچکی آئی اور وہ خاموش ہوگیا۔ میں دیکھ رہا تھا کہ وہ آنسو روک رہا ہے۔ کہنے لگا …… ''دشمن اُس کا کچھ نہ بگاڑ سکا۔ اپنوں نے اسے شہید کر دیا۔ دشمن نے اُسے فاتح تسلیم کیا۔ اپنوں نے اُسے زانی کہا…… صلاح الدین ایوبی نے زیاد کے بیٹے طارق کا بھی ذکر کیا اور اُ س روز وہ اتنا جذباتی ہوگیاتھا کہ اس کی زبان رکتی ہی نہیں تھی ، حالانکہ وہ کم گو تھا۔ حقیقت پسند تھا۔ ہم

سب پر خاموشی طاری تھی اور ہم سب جسم کے اندر عجیب سا اثر محسوس کر رہے تھے۔ صلاح الدین ایوبی بلاشک و شبہ عظیم قائد تھا ۔ وہ ماضی کو نہیں بھولتا تھا۔ حال کے خطروں اور تقاضوں سے نبردآزما رہتا اور اُس کی نظریںصدیوں بعد آنے والے مستقبل پر لگی رہتی تھیں ''۔

''صلیبیوں کی نظریں ہمارے مستقبل پر لگی ہوئی ہیں''…… سلطان ایوبی نے کا …… ''صلیبی حکمران اور فوجی حکام کہتے ہیں کہ وہ اسلام کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیں گے۔ وہ ہماری سلطنت پر قابض نہیں ہونا چاہتے۔ وہ ہمارے دلوں کو نظریات کی تلوار سے کاٹنا چاہتے ہیں۔ میرے جاسوسوں نے مجھے بتایا ہے کہ صلیبیوں کا سب سے زیادہ اسلام دشمن بادشاہ فلپ آگسٹس کہتاہے کہ انہوں نے اپنی کو ایک مقصد دے دیا ہے اور ایک روایت پیدا کر دی ہے ۔ اب صلیبیوں کی آنے والی نسلیں اس مقصد کی تکمیل کے لیے سرگرم رہیں گی۔ ضروری نہیں کہ وہ تلوار کے زور سے اپنا مقصدحاصل کریں گے۔ان کے پاس کچھ حربے اوربھی ہیں …… تقی الدین !جس طرح ان کی نظر مستقبل پرہے، اسی طرح ہمیں بھی مستقبل پر نظر رکھنی چاہیے، جس طرح انہوں نے ہم میں غدار پیدا کرنے کی روایت قائم کی ہے، اسی طرح ہمیں ایسے ذرائع اختیار کرنے چاہئیں کہ غداری کے جراثیم ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائیں۔ غداوں کو قتل کرتے چلے جانا کوئی علاج نہیں ، غداری کا رحجان ختم کرنا ہے۔اقتدار کی ہوس ختم کرکے حُبِّ رسول ۖ پیدا کرنی ہے۔ یہ اسی صورت میں پیدا ہوسکتی ہے کہ قوم کی آنکھوں میں رسول ۖ کے دشمن کا تصور موجود ہو۔ مسلمانوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ صلیبیوں کی تہذیب میں ایسی بے حیائی ہے، جو پُر کشش ہے۔ قوم ان کی تہذیب میں جذب ہوتی چلی جا رہی ہے۔ اُن کے ہاں شراب بھی جائز ہے، عورتوں کا غیر مردوں کے ساتھ ناچنا ، کودنا اورتنہا رہنا بھی جائز ہے۔ہمارے اور اُن کے درمیان یہی سب سے بڑا فرق ہے کہ ہم عصمتوںکے پاسبان ہیں اوروہ عصمتوں کے بیوپاری۔ یہی وہ فرق ہے جو ہمارے مسلمان بھائی مٹادیتے ہیں۔ تقی الدین ! تمہارا ایک محاذ زمین کے اوپر ہے ، دوسرا زمین کے نیچے۔ ایک محاذ دشمن کے خلاف ہے اور دوسرا اپنوں کے خلاف۔ اگر اپنوں میں غدار نہ ہوتے تو ہم اس وقت یہاں نہیں یورپ کے قلب میں بیٹھے ہوئے ہوتے اور صلیبی ہمارے خلاف اپنی حسین بیٹیوں کی جائے کوئی بہتر ہتھیار استعمال کرتے اور اچھی قسم کی جنگی چالیں چلتے۔ ایمان کی حرارت تیز ہوتی تو اس وقت تک صلیب ایندھن کی طرح جل چکی ہوتی''۔

''مجھے آپ کی بہت سی دشواریوں کا یہاں آکر علم ہوا ہے''…… تقی الدین نے کہا …… ''محترم نورالدین زنگی بھی پوری طرح آگاہ نہیں کہ مصرمیں آپ غداروں کی ایک فوجکے گھیرے میں آئے ہوئے ہیں ۔ آپ اُن سے کمک مانگ لیتے۔ انہیں مدد کے لیے کہتے''۔

''تقی بھائی!''…… سلطان ایوبی نے جواب دیا…… ''مدد صرف اللہ سے مانگی جاتی ہے۔ مدد اپنوں سے مانگی جائے یا غیروں سے ، اپنا ایمان کمزور کر دیتی ہے۔ صلیبیوں کی فوج زرہ بکتر میں ہے۔ میرے سپاہی معمولی سی کپڑوں میں ملبوس ہیں، پھر بھی انہوں نے صلیب کو شکست دی ہے۔ ایمان لوہے کی طرح مضبوط ہو تو زرہ بکتر کی ضرورت نہیں رہتی۔ زرہ بکتر اور خندقیں تحفظ کا احساس پیدا کرتی ہیں اور سپاہی کو اپنے اندرقید کر لیتی ہیں ۔ یاد رکھو، میدان میں خندق سے باہر رہو، گھوم پھر کر لڑو، دشمن کے پیچھے نہ جائو۔ اسے اپنے پیچھے لائو۔ مرکز کو قائم رکھو، پہلوئوں کو پھیلادو اور دشمن کو دونوں بازوئوں میں جکڑ لو۔ محفوظ وہاں رکھوجہاںسے وہ دشمن کے عقب میں جا سکے۔ چھاپہ ماروں کے بغیر کبھی جنگ نہ لڑنا۔ چھاپہ ماروں سے دشمن کی رسد تباہ کرائو۔ وہ رسد جو پیچھے سے آئے اور وہ بھی جو دشمن اپنے ساتھ رکھے۔ چھاپہ ماروں کو دشمن کے

جانوروں کو مارنے یا ہراساں کرنے کے لیے استعمال کرو۔ آمنے سامنے کی ٹکڑ سے بچو۔ جنگ کو طول دو۔ دشمن کو پریشان کیے رکھو…… میں جو فوج چھوڑ چلاہوں، یہ محاذ سے آئی ہے۔ اس میں جان پر کھیل جانے والے چھاپہ مار دستے بھی ہیں۔ اسے صرف اشارے کی ضرورت ہے۔ میں نے اس فوج میں ایمان کی حرارت پیدا کر رکھی ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم اپنے آپ کو بادشاہ سمجھ کر اس فوج کا ایمان سرد کردو۔ ہم پر جو حملہ ہو رہاہے ، وہ ہمارے ایمان پر ہورہا ہے۔ صلیبی تمدن کے اثرات بڑی تیزی سے مصر میں آرہے ہیں''۔

سلطان صلاح الدین ایوبی نے اپنے بھائی تقی الدین کو پوری تفصیل سے بتایا کہ سوڈان میں مصر پر حملے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ سوڈانیوں میں اکثریت وہاں کے حبشیوںکی ہے، جو مسلمان ہیں ، نہ عیسائی۔ ان میں مسلمان بھی ہیں، جن میں مصر کی اُس فوج کے بھگوڑے بھی ہیں ، جسے بغاوت کے جرم میں توڑ دیا گیا تھا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا …… ''لیکن گھر بیٹھے دشمن کا انتظار نہ کرتے رہنا۔ جاسوس تمہیں خبر دیتے رہیں گے۔ حسن بن عبد اللہ تمہارے ساتھ ہے، جہاں محسوس کرو کہ دشمن کی تیاری مکمل ہو چکی ہے اور وہ اب حملے کے لیے اجتماع کر رہا ہے، تم وقت ضائع کیے بغیر حملہ کردو اور دشمن کوتیاری کی حالت میں ہی ختم کردو، لیکن پیچھے کے انتظامات مضبوط رکھنا۔ قوم کو محاذ کے حالات سے بے خبر نہ رکھنا۔ اگر خدانخواستہ شکست ہوجائے تو اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو تسلیم کرلینا اور قوم کو بتادینا کہ شکست کے اسباب کیا تھے۔ جنگ قوم کے خون اور پیسے سے لڑی جاتی ہے۔ بیٹے قوم کے شہید اور اپاہج ہوتے ہیں ۔ لہٰذا قوم کو اعتماد میں لینا ضروری ہے۔ جنگ کو بادشاہوں کا کھیل نہ سمجھنا۔ یہ ایک قومی مسئلہ ہے۔ اس میں قوم کو اپنے ساتھ رکھنا …… میںنے جس فاطمی خلافت کو معزول کیاتھا، اس کے حواری ہمارے خلاف سرگرم ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ انہوں نے درپردہ خلیفہ مقرر کر رکھا ہے۔ ان کا خلیفہ العاضد تو مر گیا ہے ، لیکن وہ خلافت کو اس اُمید پر زندہ رکھے ہوئے ہیں کہ سوڈانی مصر پر حملہ کریں گے۔ ہماری فوج بغاوت کرے گی اور صلیبی چپکے سے اندر آکر فاطمی خلافت بحال کردیں گے۔ فاطمیوں کو حسن بن صباح کے قاتل گروہ کی حمایت حاصل ہے۔ میں علی بن سفیان کے اپنے ساتھ لے جا رہا ہوں۔ اس کا نائب حسن بن عبداللہ اور کوتوال غیاث بلبیس تمہارے ساتھ رہیں گے۔ یہ اس زمین دوز گروہ پر نظر رکھیں گے…… فوج کی بھرتی تیزکر دو اورانہیں جنگی مشقیں کراتے رہو ''۔

''تھوڑے ہی عرصے سے ہمیں اطلاعیں مل رہی ہیں کہ مصر کے جنوب مغربی علاقے سے فوج کے لیے بھرتی نہیں مل رہی ''……حسن بن عبد اللہ نے کہا …… ''یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ وہاں کے لوگ فوج کے خلاف ہوتے جارہے ہیں ''۔

''معلوم کرایا ہے کہ باعث کیا ہے؟'' …… علی بن سفیان نے پوچھا۔

''میرے دو مخبر اس علاقے میں قتل ہو چکے ہیں''…… حسن بن عبد اللہ نے کہا …… ''وہاں سے خبر لینا آسان نہیں ، تاہم میں نے نئے مخبر بھیج دئیے ہیں''۔

''میں اپنے ذرائع سے معلوم کر رہا ہوں''……غیاث بلبیس نے کہا …… ''مجھے شک ہے کہ اس وسیع علاقے کے لوگ نئے وہم میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ یہ علاقہ دشوار گزار ہے۔ لوگ سخت جان ہیں ، لیکن عقیدوں کے ڈھیلے اور توہمات پرست ہیں''۔

''توہم پرستی بہت بڑی لعنت ہے''…… سلطان ایوبی نے کہا …… ''اُس علاقے پر نظر رکھو اور وہاں کے لوگوں کو توہمات سے بچائو''۔

٭ ٭ ٭
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: داستان ایمان فروشوں کی جلد‎ ‎دوم

Post by ایکسٹو »

تین چار روز بعد کرک کے قلعے میں بھی ایک اجلاس منعقد ہوا۔ وہ صلیبی حکمرانوں میں اور فوج کے اعلی کمانڈروں کا اجلاس تھا۔ انہیں یہ تو معلوم تھا کہ صلاح الدین ایوبی فلسطین کاایک قلعہ )شوبک( لے چکا ہے اور اب کرک پر حملہ کرے گا۔ انہیں اس احساس نے پریشان کررکھا تھا کہ اگر مسلمانوں نے کرک کو بھی شوبک کی طرح فتح کرلیا تو یروشلم کو بچانا مشکل ہوجائے گا۔ صلیبی جان گئے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی سنبھل سنبھل کر آگے بڑھ رہا ہے۔ وہ ایک جگہ لیتا ہے فوج کی کمی نئی بھرتی سے پوری کرتا ہے اسے پوری فوج کے ساتھ ٹریننگ دیتا ہے اور جب اسے یقین ہوجاتا ہے کہ وہ اگلی ٹکر لینے کے قابل ہوگیا ہے تو آگے بڑھتا ہے۔ چنانچہ وہ کرک کے دفاع کو مضبوط کررہے تھے اور باہر آکر لڑنے کی بھی سکیم بنا چکے تھا مگر اس اجلاس میں انہیں اپنی سکیم میں ردوبدل کی ضرورت محسوس ہورہی تھی کیونکہ ان کے انٹیلی جنس کے سربراہ ہرمن نے انہیں سلطان ایوبی اس کی فوج اور مصر کے تازہ حالات کے متعلق انقلابی خبریں دی تھیں۔

صلیبی جاسوسوں نے بہت ہی تھوڑے وقت میں کرک میں ایہ اطلاع پہنچا دی تھی کہ سلطان صلاح الدین ایوبی اس فوج کو قاہرہ لے گیا ہے جو اس محاذ پر لڑی اور شوبک کا قلعہ لیا تھا اور قاہرہ میں جو فوج ہے اسے عجلت میں محاذ پر بھیج دیا گیا ہے اور نورالدین زنگی نے اپنی بہترین فوج کی کمک اس محاذ پر بھیج دی ہے اور سلطان ایوبی کا بھائی تقی الدین دمشق سے قاہرہ پہنچ گیا ہے جہاں وہ سلطان ایوبی کا قائم مقام ہوگا اور سلطان ایوبی قاہرہ چلا گیا ہے۔ جہاں وہ سازشیوں کو سزائے موت دے کر محاذ کی طرف روانہ ہوگیا ہے۔ صلیبیوں کے لیے یہ خبر اچھی نہ تھی کہ قاہرہ کا نائب ناظم مصلح الدین بھی پکڑا گیا اور غداری کے جرم میں مارا گیا ہے۔ مصلح الدین صلیبیوں کا کارآمد اور اہم ایجنٹ تھا۔ صلیبی نظام جاسوسی کا سربراہ ہرمن اجلاس کو ان تبدیلیوں سے آگاہ کررہا تھا۔ اس نے کہا… ''مصلح الدین کے مارے جانے سے ہمیں نقصان تو ہوا ہے لیکن تقی الدین کا تقرر ہمارے لیے امید افزا ہے۔ وہ بے شک صلاح الدین ایوبی کا بھائی ہے لیکن وہ سلطان ایوبی نہیں ہے، میرے تخریب کار جاسوس اسے چکر دینے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ یہ بھی امید افزا ہے کہ صلاح الدین ایوبی اور ع لی بن سفیان قاہرہ سے غیر حاضر ہیں''۔

''میں حیران ہوں کہ تمہارے حشیشین کیا کررہا ہے؟''… ریمانڈ نے پوچھا… ''کیا وہ دوہرا کھیل تو نہیں کھیل رہے؟ کمبخت ابھی تک صلاح الدین ایوبی کو قتل نہیں کرسکے۔ ہم بہت رقم ضائع کرچکے ہیں''۔

''رقم ضائع نہیں ہورہی'… ہرمن نے کہا… ''مجھے امید ہے کہ صلاح الدین ایوبی محاذ تک نہیں پہنچ سکے گا۔ اس کے ساتھ چوبیس باڈی گارڈ قاہرہ گئے ہیں۔ ان میں چار حشیشین ہیں ان کے لیے موقع آگیا ہے۔ میں نے انتظام کردیا ہے۔ وہ صلاح الدین کو راستے میں قتل کردیں گے''۔

''ہمیں خوش فہمیوں میں مبتلا نہیں رہتا چاہیے''… فلپ آگسٹس نے کہا… ''یہ فرض کرکے سوچو کہ صلاح الدین ایوبی قتل نہیں ہوسکا اور وہ زندہ سلامت محاذ پر موجود ہے۔ اس کے پاس اب تازہ دم فوج ہے۔ اس نے نئی بھرتی کو ٹریننگ دے لی ہے اور اسے نورالدین زنگی کی کمک مل گئی ہے۔ اس نے شوبک جیسا مضبوط اڈہ بھی حاصل کرلیا ہے۔ لہٰذا اب اس کی رسد قاہرہ سے نہیں آئے گی۔ شوبک میں اس نے بے شمار رسد جمع کرلی ہے۔ اس صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ میں اسے موقع نہیں دینا چاہتاکہ وہ کرک کا محاصرہ کرلے اور ہم محاصرے میں لڑیں''۔

''اب ہم محاصرے تک نوبت نہیں آنے دیں گے''… ایک اور صلیبی حکمران نے کہا… ''ہم باہر لڑیں گے اور اس انداز سے لڑیں گے کہ شوبک کا محاصرہ کرلیں''۔

''صلاح الدین ایوبی لومڑی ہے'' … فلپ آگسٹس نے کہا… ''اسے صحرا میں شکست دینا آسان نہیں۔ وہ ہمیں شوبک کے محاصرے کی اجازت دے دے گا مگر ہمارا محاصرہ کرلے گا۔ میں اس کی چالیں سمجھ چکا ہوں اگر تم اسے آمنے سامنے لاکر لڑا سکتے ہوتو تمہیں فتح کی ضمانت میں دے سکتا ہوں مگر تم اسے سامنے نہیں لاسکو گے''۔۔

بہت دیر کے بحث ومباحثے کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ نصف فوج کو قعلے سے باہر بھیج دیا جائے اور سلطان صلاح الدین ایوبی کی فوج کے قریب خیمہ زن کردیان جائے اور اس کی فوج کی نقل وحرکت پر گہری نظر رکھی جائے۔ اس سکیم میں باہر لڑنے والی فوج کی تعداد کے متعلق فیصلہ کیا گیا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کی فوج سے تین گنا نہ ہوتو دگنی ضرور ہو۔ عقب سے حملے کے لیے الگ فوج مقرر کی گئی اور پلان میں یہ بھی شامل کیا گیا کہ مسلمان فوج کی کمک اور رسد شوبک سے آگے گی۔ لہٰذا شوبک اور مسلمان کے درمیانی فاصلے کو چھاپہ مار وں کی زد میں رکھنے کا انتظام کیا جائے۔ فوجی کمانڈروں نے کہا کہ سامنے اتنی زیادہ قوت سے حملہ کیا جائے کہ صلاح الدین ایوبی جم کر لڑنے پر مجبو رہوجائے۔ صلیبیوں کو دراصل اپنی بکتر فوج پر بھروسہ تھا۔ ان کی بیشتر فوج زرہ پوش تھی، سروں پر آہنی خود تھے، پیشیانیوں سے ناک اور منہ تک چہرے آہنی خودوں کے مضبوط نقابوں میں ڈھکے ہوئے تھے۔ انہوں نے اونٹوں کو بھی زرہ پوش کرلیا تھا، اونٹوں کے سروں پر آہنی غلاف چڑھا دئیے گئے تھے اور پہلوئوں کے ساتھ لوہے کی پتریاں لٹکتی تھیں جو تیروں کو روک لیتی تھیں۔ انہوں نے کوشش کی تھی کہ بہتر قسم کے گھوڑے حاصل کرسکیں۔ یورپی ممالک سے لائے ہوئے گھوڑے صحرا میں جلدی تھک جاتے اور پیاس سے بے حال ہوجاتے تھے۔ صلیبیوں نے عربی علاقوں سے گھوڑے خریدے تھے مگر ان کی تعداد اتنی زیادہ نہیں تھی۔ انہوں نے مسلمانوں کے قافلوں سے گھوڑے چھیننے شروع کردیئے تھے۔ گھوڑے چرائے بھی تھے، سلطان ایوبی کے گھوڑے بہتر تھے۔ عربی نسل کے یہ صحرائی گھوڑے پیاس سے بے نیاز میلوں بھاگ سکتے تھے۔

ان جنگی تیاریوں اور اہتمام کے علاوہ صلیبیوں نے نظریاتی جنگ کا محاذ جو کھولا تھا، اس کے متعلق ان کے انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر، ہرمن نے رپورٹ پیش کی کہ صلاح الدین ایوبی کو مصر کے جنوب کے سرحدی علاقے سے بھرتی نہیں ملے گی۔ یہ وہی علاقہ تھا جس کے متعلق سلطان صلاح الدین ایوبی کی انٹیلی جنس کے نائب سربراہ حسن بن عبداللہ نے رپور ٹ دی تھی کہ وہاں کے لوگ اب فوج میں بھرتی نہیں ہوتے بلکہ بعض لوگ فوج کے خلاف بھی ہوگئے ہیں۔ یہ جفاکش اور جنگجو قبائل کا علاقہ تھا جس نے سلطان ایوبی کو نہایت اچھے سپاہی دیئے تھے مگر اب ہرمن کی رپورٹ سے ظاہر ہوتا تھا کہ صلیبی تخریب کار اس علاقے میں پہنچ گئے ہیں، وہاں نوبت یہاں تک پہنچی ہوئی تھی کہ حسن بن عبداللہ نے یہ معلوم کرنے کے لیے اس علاقے کے لوگ فوج کے خلاف کیوں ہوگئے ہیں، دو مخبر بھیجے تھے، دونوں قتل ہوگئے تھے۔ ان کی لاشیں نہیں ملی تھیں۔ پراسرار سی ایک اطلاع ملی تھی کہ ہمیشہ کے لیے غائب کردیئے گئے ہیں۔ وہ علاقہ جو بہت وسیع وعریض تھا، جاسوسوں اور مخبروں کے لیے بہت ہی مضبوط قلعہ بن گیا تھا، وہاں سے کوئی معلومات حاصل ہوتی ہی نہیں تھی، اتنا ہی پتہ چلا تھا کہ وہاں کے لوگ ہیں تو مسلمان لیکن تو ہم پرست اور عقیدے کے بہت ڈھیلے ہیں۔

ہرمن نے تفصیلات بتائے بغیر کہا کہ اس کا تجربہ کامیاب رہا ہے۔ وہ اب مصر کے تمام سرحدی علاقے میں اس طریق کار کو پھیلائے گا۔ پھر ان اثرات کو مصر کے اندر لے جانے کی کوشش کرے گا۔ اس نے امید ظاہر کی کہ وہ مصر کے قصبوں اور شہروں کو بھی اپنے اثر میں لے لے گا۔ اس نے کہا … ''میں مسلمانوں کی ایک ایسی خامی کو ان کے خلاف استعمال کررہا ہوں، جسے وہ اپنی خوبی سمجھتے ہیں۔ مسلمان درویشوں، فقیروں، وظیفے اور چلے کرنے والوں عاملوں اور

مولویوں اور کٹیا میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرتے رہنے والے مجذوب قسم کے لوگوں کے فوراً مرید بن جاتے ہیں۔ درویشوں وغیرہ کا یہ گروہ اسلامی فوج کے ان سااروں کے خلاف ہے جنہوں نے ہمارے خلاف جنگیں لڑ کر شہرت حاصل کی ہے۔ یہ درویش اپنے متعلق لوگوں کو یقین دلاتے ہیں کہ خدا ان کے ہاتھ میں ہے اور وہ خدا کے خاص بندوں میں سے ہیں۔ وہ صرف نام پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ان میں میدان جنگ میں جانے کی ہمت اور جرأت نہیں، لہٰذا وہ گھر بیٹھے وہی شہرت حاصل کرنا چاہتے ہیں جو سالاروں نے جہاد میں حاصل کی ہے۔ اگر دیانت داری اور غیر جانب داری سے دیکھا جائے تو مسلمانوں کے یہ فوجی لیڈر جن میں صلاح الدین ایوبی اور نورالدین زنگی بھی شامل ہیں۔ قابل تحسین انسان ہیں۔ ان میں سے جنہوں نے یورپ تک اسلام پھیلا دیا اور سپین کو اپنی سلطنت میں شامل کرلیا تھا، بجا طور پر حق رکھتے ہیں کہ قوم اپنی عبادت میں بھی ان کا نام لے مگر ان کے خلیفوں نے اپنا نام عبادت میں شامل کرکے فوجی لیڈروں کی اہمیت گھٹا دی… اس کے ساتھ مسلمانوں میں نام نہاد عالموں اور اماموں کا ایک گروہ پیدا ہوا جو عمل سے گھبراتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ جو کچھ ہیں وہ عالم اور امام ہیں۔ یہ گروہ خلیفوں کی آڑ میں جہاد کے معنی مسخ کررہا ہے تاکہ لوگ جہاد میں جانے کے بجائے ان کے گرد جمع ہوں اور انہیں خدا کے برگزیدہ انسان مانیں۔ ان کے پاس پراسرار سی باتیں اور باتیں کرنے کا ایسا طلسماتی انداز ہے کہ لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ ان برگزیدہ انسانوں کے سینے میں وہ راز چھپا ہوا ہے جو خدا نے ہر بندے کو نہیں بتایا۔ چنانچہ سیدھے سادھے مسلمان ان کے جال میں پھنستے جارہے ہیں۔ میں مسلمانوں کو اسلام کی ہی باتیں سنا سنا کر اسلام کی بنیادی روح سے دور لے جارہا ہوں۔ تاریخ گواہ ہے کہ یہودیوں نے نظریاتی تخریب کاری کرکے اسلام کو کافی حد تک کمزور کردیا ہے۔ میں انہی کے اصولوں پر کام کررہا ہوں۔''

یہی وہ محاذ تھا جس کے متعلق سلطان صلاح الدین ایوبی پریشان رہتا تھا۔ پریشانی کا اصل باعث یہ تھا کہ اس محاذ پر اپنی ہی قوم کے افراد اس کے خلاف لڑ رہے تھے اور یہ محاذ اسے نظر نہیں آتا تھا۔

٭ ٭ ٭

تقی الدین اور اپنے ان حکام کو جنہیں قاہرہ میں رہنا تھا، ہدایات دے کر سلطان صلاح الدین ایوبی محاذ کی طرف روانہ ہوگیا۔ اس کے ساتھ چوبیس ذاتی محافظوں کا دستہ تھا۔ صلیبیوں کو باڈی گارڈز کی نفری کا علم تھا اور انہیں یہ بھی علم تھا کہ اس دستے میں چار حششین ہیں جو نہایت کامیاب اداکاری سے اور بہادری کے کارناموں سے محافظ دستے کے لیے منتخب ہوگئے تھے۔ ان کا مقصد صلاح الدین ایوبی کا قتل تھا لیکن انہیں موقع نہیں مل رہا تھا کیونکہ محافظ دستے کی نفری چوبیس سے کہیں زیادہ رہتی اور ان کی ڈیوٹی بدلتی رہتی تھی، کبھی بھی ایسا نہ ہوا کہ ان چاروں کی ڈیوٹی اکٹھی لگی ہو۔ محافظوں کے کمانڈر بہت ہوشیار اور چوکس رہتے تھے۔ انہیں یہ تو علم تھا کہ ان کے درمیان قاتل بھی موجود ہیں، وہ بیدار رہتے تھے کہ کوئی محافظ کوتاہی نہ کرے۔ اب سلطان ایوبی سفر میں تھا۔ اس نے خود ہی کہا تھا کہ وہ محافظوں کی پوری فوج کو ساتھ نہیں رکھے گا، چوبیس کافی ہیں، حالانکہ راستے میں صلیبی چھاپہ ماروں کا خطرہ تھا۔

سلطان ایوبی قاہرہ سے دن کے پچھلے پہر روانہ ہوا تھا۔ آدھی رات سفر میں اور باقی آرام میں گزری۔ سحر کی تاریکی میں اس نے کوچ کا حکم دیا۔ دوپہر کا سورج گھوڑوں کو پریشان کرنے لگا تو ایک ایسی جگہ یہ قافلہ رک گیا جہاں پانی بھی تھا، درخت بھی اور ٹیلوں کا سایہ بھی تھا۔ ذرا سی دیر میں سلطان ایوبی کے لیے خیمہ نصب کردیا گیا۔ اس کے اندر سفر ی چارپائی اور بستر بچھا دیا گیا۔ کھانے پینے سے فارغ ہوکر سلطان ایوبی اونگھنے کے لیے لیٹ گیا۔ دو محافظ خیمے کے آگے اور

پیچھے کھڑے ہوگئے۔ دستے کے باقی محافظ قریب ہی سایہ دیکھ کر بیٹھ گئے۔ کچھ گھوڑوں کو پانی پلانے کے لیے لے گئے۔ علی بن سفیان اور دیگر حکام جو سلطان صلاح الدین ایوبی کے ساتھ تھے، ایک درخت کے نیچے جاکر لیٹ گئے۔ انہوں نے خیمے نصب نہیں کرائے تھے۔ اس جگہ کے خدوخال ایسے تھے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کا خیمہ ان کی نظروں سے اوجھل تھا۔ صحرا کا سورج زمین وآسمان کو جلا رہا تھا جس کسی کو جہاں چھائوں ملی وہاں بیٹھ یا لیٹ گیا۔

یہ پہلا موقعہ تھا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے خیمے پر جن دو محافظوں کی ڈیوٹی لگی، وہ دونوں حشیشین تھے، جو ایک عرصہ سے ایسے ہی موقع کی تلاش میں تھے۔ اس موقع کو پوری طرح موزوں بنانے کے لیے یہ صورت پیدا ہوگئی کہ محافظوں کی زیادہ تر نفری گھوڑوں کو پانی پلانے چلی گئی تھی۔ پانی ایک ٹیلے کے دوسری طرف تھا۔ قافلے کا سامان اٹھانے والے اونٹوں کے شتربان بھی اونٹوں کو پانی کے لیے لے گئے تھے جو محافظ ڈیوٹی والوں کے علاوہ پیچھے رہ گئے تھے۔ ان میں دو اور حشیشین تھے۔ انہوں نے اشاروں اشاروں میں طے کرلیا۔ صلاح الدین ایوبی کے خیمے کے سامنے کھڑے محافظ نے خیمے کا پردہ ذ را سا ہٹا کر اندر دیکھا اور باہر والوں کو اشارہ کیا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی اس حالت میں گہری نیند سویا ہوا تھا کہ اس کے پیٹھ خیمے کے دروازے کی طرف تھی۔ محافظ دبے پائوں اندر چلا گیا۔ اس نے خنجر نہیں نکالا، تلوار نہیں نکالی، بلکہ اس کے ہاتھ میں جو برچھی تھی وہ بھی اس نے خیمے کے باہر رکھ دی تھی۔ ہر محافظ کی طرح وہ قوی ہیکل جوان تھا۔ دیکھنے میں وہ سلطان ایوبی کی نسبت دگنا نہیں تو ڈیڑھ گنا طاقتور ضرور تھا۔

وہ دبے پائوں سلطان ایوبی تک گیا اور بجلی کی تیزی سے سلطان کی گردن دونوں ہاتھوں میں جکڑ لی۔ سلطان ایوبی جاگ اٹھا۔ اس نے کروٹ بھی بدل لی لیکن جس شکنجے میں اس کی گردن آگئی تھی اس سے گردن چھڑانا ممکن نہیں تھا۔ اسلام کے اس جری جرنیل کی زندگی صرف دو منٹ رہ گئی تھی۔ وہ اب پیٹھ کے بل پڑا تھا۔ حملہ آور نے اس کے پیٹ پر گھٹنہ رکھ کر ایک ہاتھ اس کی گردن سے ہٹا دیا، دوسرے ہاتھ سے سلطان صلاح الدین ایوبی کی شہ رگ کو دبائے رکھا۔ اس نے اپنے کمر بند سے ایک پڑیا سی نکالی۔ اسے ایک ہی ہاتھ سے کھولا اور صلاح الدین ایوبی کے منہ میں ڈالنے لگا۔ وہ سلطان کو زہر دے کر مارنا چاہتا تھا کیونکہ گلا دبا کر مارنے سے صاف پتا چل جاتا ہے کہ گلا دبایا گیا ہے۔ سلطان ایوبی بے بس تھا۔ پیٹ پر اتنے قوی ہیکل جوان کا گھٹنہ اور بوجھ تھا۔ شہ رگ دشمن کے شکنجے میں تھی اور سانس رک گیا تھا۔ اس کا منہ کھلا ہوا تھا جو اس نے پڑیا دیکھ کر بند کرلیا۔ اس نے ہوش ٹھکانے رکھے، موت سر پر آگئی تھی۔ سلطان ایوبی نے اپنے کمر بند سے تلوار نما خنجر نکال لیا جو وہ زیور کی طرح اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ حملہ آور اس کے منہ میں زہر ڈالنے کی کوشش میں مگن تھا، دیکھ نہ سکا کہ سلطان نے خنجر نکال لیا ہے۔ سلطان ایوبی نے خنجر اس کے پہلو میں اتار دیا۔ کھینچا اور ایک بار پھر خنجر حملہ آور کے پہلو میں اتر گیا۔ حملہ آور سانڈ جیسا آدمی تھا۔ اتنی جلدی مر نہیں سکتا تھا۔ سلطان ایوبی سپاہی تھا، وہ خنجر کے وار اور ہدف سے آگاہ تھا۔ اس نے خنجر حملہ آور کے پہلو سے نکالا نہیں، وہیں خنجر کو گھمایا اور نیچے کو جھٹکا دیا۔ حملہ آور کی انتڑیاں اور پیٹ کا اندروں حصہ باہر آگیا۔

حملہ آور کے ہاتھ سے سلطان صلاح الدین ایوبی کی گردن چھوٹ گئی۔ دوسرے ہاتھ سے زہر کی پڑیا گر پڑی۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے جسم کو جھٹکا دیا، حملہ آور کو دھکا دیا اور حملہ آور چار پائی سے نیچے جاپڑا۔ وہ اب اٹھنے کے قابل نہیں تھا۔ یہ معرکہ بمشکل آدھے منٹ میں ختم ہوگیا مگر خیمے سے باہر دوسرا محافظ کھڑا تھا۔ اسے نے اندر دھمک سی سنی تو پردہ اٹھا کر جھانکا وہاں کچھ اور ہی نقشہ دیکھا۔ وہ تلوار سونت کر آیا اور سلطان صلاح الدین ایوبی پروار کیا مگر سلطان خیمے کے درمیانی بانس کے پیچھے ہوگیا۔ تلوار بانس پر لگی، صلاح الدین ایوبی تو جیسے پیدائشی تیغ زن تھا۔ ادھر تلوار بانس میں لگی ادھر

سلطان صلاح الدین ایوبی نے جھپٹا مارنے کے انداز سے حملہ آور پر خنجر کا وار کیا۔ حملہ آور بھی لڑاکا تھا۔ اسی لیے تو وہ محافظ دستے کے لیے چنا گیا تھا۔ وہ وار بچا گیا۔ اس کے ساتھ ہی سلطان صلاح الدین ایوبی نے محافظ دستے کے کمانڈر کو آواز دی۔ حملہ آور نے دوسرا وار کیا تو سلطان صلاح الدین ایوبی آگے سے ہٹ گیا مگر ایسا ہٹا کہ حملہ آور کے پہلو میں چلا گیا۔ اب کے حملہ آور سلطان کے خنجر کا وار نہ بچا سکا۔ سلطان ایوبی کی پکار پر دو محافظ خیمے میں آئے۔ دونوں نے سلطان ایوبی پر حملہ کردیا۔ اتنے میں سلطان ایوبی دوسرے محافظ کو بھی زخمی کرچکا تھا مگر وہ ابھی تک لڑ رہا تھا۔ اس کے دو اور ساتھی آگئے تھے۔

سلطان صلاح الدین ایوبی نے حوصلہ قائم اور دماغ حاضر رکھا۔ اللہ نے مدد کی کہ دستے کا کمانڈر اندر آگیا۔ اس نے دوسرے محافظوں کو آوازیں دیں اور سلطان صلاح الدین ایوبی کے کہنے پر وہ حملہ آور سے الچھ گیا۔ اتنے میں چار پانچ محافظ آگئے۔ ادھر سے علی بن سفیان اور دوسرے حکام بھی شور سن کر آگئے۔ خیمے میں دیکھا تو ان کے رنگ اڑ گئے چار محافظ لہولہان ہوکے پڑے تھے، دو مرچکے تھے۔ تیسرا مر رہا، وہ ہوش میں نہیں تھا۔ اس کا پیٹ اوپر سے نیچے تک پھٹا ہوا اور سینے پر دو گہرے زخم تھے۔ چوتھے کے پیٹ میں ایک زخم تھا اور دوسرا زخم ران پر۔ وہ زمین پر بیٹھا ہاتھ جوڑ کر چلا رہا تھا… میں زندہ رہنا چاہتا ہوں، مجھے میری بہن کے لیے زندہ رہنے دو'' …سلطان ایوبی نے اپنے محافظوں کو روک دیا۔ محافظ اتنے بھڑکے ہوئے تھے کہ انہوں نے تیسرے محافظ کو بے ہوشی میں سانس لیتے دیکھا تو اس کی شہ رگ کاٹ دی۔ چوتھے کو سلطان ایوبی نے بچا لیا۔ یہ رحم کا جذبہ بھی تھا اور یہ ضرورت بھی کہ اس سے بیان لینے تھے اور اس سازش کی کڑیاں بھی ملانی تھیں۔

صلاح الدین ایوبی کا طبیب بھی اس کے قافلے کے ساتھ تھا۔ وہ جراح بھی تھا، ہر جگہ اس کے ساتھ رہا کرتا تھا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے اسے کہا کہ اس زخمی کو ہر قیمت پر زندہ رکھنے کی کوشش کرے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کو خراش تک نہیں آئی تھی، وہ ہانپ رہا تھا لیکن جذباتی طور پر بالکل مطمئن تھا۔ غصے کا شائبہ تک نہ تھا۔ اس نے مسکرا کرکہا… ''میں حیران نہیں ہوا ایسا ہونا ہی تھا''… علی بن سفیان کی جذباتی حالت بگڑی ہوئی تھی۔ یہ اس کی ذمہ داری تھی کہ محافظ دستے کے لیے جسے منتخب کیا جائے، اس کے متعلق چھان بین کرے کہ وہ قابل اعتماد ہے۔ اب یہ دیکھنا تھا کہ دستے کے باقی سپاہیوں میں کوئی ان کا ساتھی رہ گیا ہے یا باقی دیانت دار ہیں… سلطان صلاح الدین ایوبی کے بستر پر وہ پڑیا پڑی ہوئی تھی جو حملہ آور اس کے منہ میں ڈالنا چاہتا تھا۔ ایک سفید سا سفوف تھا جس میں سے کچھ بستر پر بکھر گیا تھا۔ طبیب نے یہ سفوف دیکھا اور جب سنا کہ یہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے منہ میں ڈ الا جارہا تھا تو طبیب کا رنگ اڑ گیا۔ اس نے بتایا کہ یہ ایسا زہر ہے کہ جس کا صرف ایک ذرہ بھی حلق سے نیچے اتر جائے تو تھوڑی سی دیر میں انسان نہایت اطمینان سے مرجاتا ہے۔ وہ تلخی محسوس نہیں کرتا اور نہ وہ اپنے اندر کوئی اور تبدیلی محسوس کرتا ہے۔ طبیب نے سلطان صلاح الدین ایوبی کا بستر اٹھوا کر باہر بھجوایا اور صاف کرادیا۔

سلطان صلاح الدین ایوبی نے زخمی کو اٹھوا کر اپنے بستر پر لٹا دیا۔ اس کے پیٹ میں تلوار لگی تھی اور دوسرا زخم ران پر تھا۔ پیٹ کا زخم مہلک نظر نہیں آتا تھا، ترچھا تھا۔ ران کا زخم لمبا تھا اور گہرا بھی، وہ ہاتھ جوڑ کر سلطان صلاح الدین ایوبی سے زندگی کی بھیک مانگ رہا تھا۔ سلطان کے خلاف اس کے دل میں کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی۔ کوئی نظریاتی عداوت بھی نہیں تھی۔ وہ کرائے کا قاتل تھا۔ اپنی شکست کے ساتھ اسے اپنی ایک غیرشادی شدہ بہن کا غم کھائے جارہا تھا۔ وہ بار بار اس کا نام لیتا اور کہتا تھا کہ میں مسلمان ہوں، میرا گناہ بخش دو، ایک مسلمان بہن کی خاطر مجھے بخش دو۔

''زندگی اور موت خدا کے ہاتھ میں ہے''… سلطان ایوبی نے ایسے لہجے میں کہا کہ جس میں تحمل تھا مگر رعب اور جلال بھی تھا۔ سلطان نے کہا… ''تم نے دیکھ لیا ہے کہ کون مارتا اور کون زندہ رکھتا ہے لیکن میرے دوست اس وقت تمہاری جان جس کے ہاتھ میں ہے تم اسے دیکھ رہے ہو۔ اپنا گناہ دیکھو، اپنی بے بسی دیکھو میں تمہیں تمہارے ساتھیوں کی لاش کے ساتھ زندہ باہر صحرا میں پھینک دوں گا۔ صحرا کی لومڑیاں اور بھیڑئیے تمہیں اس حال میں نوچ نوچ کر کھائیں گے کہ تم زندہ رہو گے، ہوش میں ہوگے مگر بھاگ نہیں سکو گے۔ بوٹی بوٹی ہوکر مرو گے اور اپنے گناہ کی سڑا پائو گے''۔

زخمی تڑپ اٹھا، اس نے سلطان صلاح الدین ایوبی کے دونوں ہاتھ پکڑ لیے اور دھاڑیں مارمار کر رونے لگا… سلطان ایوبی نے پوچھا… '' تم کون ہو؟کہاں سے آئے ہو؟ میرے ساتھ تمہاری کیا دشمنی ہے؟''۔

''میں فاطمیوں کا آدمی ہوں''… اس نے جوا ب دیا… ''ہم چاروں حشیشین تھے، کوئی دو سال اور کوئی تین سال پہلے آپ کی فوج میں بھرتی ہوا تھا، ہمیں سکھایا گیا تھا کہ آپ کے محافظ دستے میں کس طرح پہنچا جاسکتا ہے''۔ اس نے بولنا شروع کردیا اور راز کی باتیں بتانے لگا، اس نے بتایا کہ محافظ دستے میں یہی چار قاتل تھے۔ اس کے بیان کے دوران سلطان صلاح الدین ایوبی نے طبیب سے کہا کہ وہ اس کی مرہم پٹی کرتا رہے۔ طبیب نے اسے ایک دوا پلا دی اور خون روکنے کی کوشش کرنے لگا۔ اس نے زخمی کو تسلی دی کہ وہ ٹھیک ہوجائے گا۔ زخمی انکشاف کرتا گیا۔ اس نے معزول فاطمی خلافت اور حشیشین کے معاہدے کو بے نقاب کیا۔ فاطمیوں نے صلیبیوں سے جو مدد لی تھی اور لے رہے تھے، اس کی تفصیل بتائی… خاصا وقت صرف کرکے طبیب نے اس کی مرہم پٹی مکمل کردی۔ اصل مرہم تو سلطان ایوبی کی شفقت تھی جس میں انتقام کا ذرا سا بھی شک نہیں ہوتا تھا۔

سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا کہ لاشیں باہر پھینک دو اور اس زخمی کے متعلق اس نے علی بن سفیان سے کہا کہ وہ وہیں سے اسے قاہرہ لے جائے اور اس نے جو نشاندہیاں کی ہیں ان کے خلاف کارروائی کرے۔ زخمی نے نہایت کارآمد سراغ دیئے، جن میں کچھ ایسے خطرناک تھے جن کی نفتیش علی بن سفیان ہی اچھی طرح کرسکتا تھا۔ اسے اسی وقت اونٹ پر خاص طریقے سے لٹا کر علی بن سفیان واپسی کے سفر پر چل پڑا۔

صلاح الدین ایوبی پر متعدد بار قاتلانہ حملے ہوئے تھے، تاریخ میں ان تمام کا ذکر نہیں آیا۔مندرجہ بالا طرز کے دو حملوں کا ذکر ملتا ہے۔ ایک بار ایک فدائی قاتل نے سلطان صلاح الدین ایوبی پر اسی طرح سوتے میں خنجر کا وار کیا تھا۔ خنجر پگڑی میں لگا اور سلطان ایوبی جاگ اٹھا تھا۔ یہ قاتل سلطان ایوبی کے ہاتھوں میں مارا گیا اور اس کے محافظ دستے کے چند ایسے محافظ پکڑے گئے تھے جو کرائے کے قاتل تھے۔

٭ ٭ ٭
مصر کے جنوب مغربی علاقے میں جو سوڈان کی سرحد کے ساتھ ملتا تھا صدیوں پرانی کسی پیچ در پیچ عمارت کے کھنڈر تھے۔ اس زمانے میں مصر کی سرحد کچھ اور تھی۔ صلاح الدین ایوبی کہا کرتا تھا کہ مصر کی کوئی سرحد ہے ہی نہیں۔ تاہم سوڈانیوں نے ایک خیالی سی سرحد بنا رکھی تھی۔ کھنڈروں کے اردگرد کا علاقہ دشوار گزار تھا۔ غالباً فرعونو ں کے وقتوں میں یہ علاقہ سرسبز تھا اور وہاں پانی کی بہتات تھی۔ خشک جھیلیں اور دو ندیوں کے گہرے اور خشک پاٹ بھی تھے۔ ریتیلی چٹانیں بھی تھیں اور ریتیلی مٹی کے ٹیلے بھی۔ ان کی شکلیں کسی بہت بڑی عمارت کے کھنڈروں کی مانند تھیں، کہیں ٹیلہ ستون کی طرح دور اوپر تک چلا گیا تھا اور کہیں ٹیلے دیواروں کی طرح کھڑے تھے، جہاں جہاں جگہ ہموار تھی، وہاں ریت تھی۔ چٹانیں اونچی بھی تھیں، نیچی بھی۔ اس علاقے کے اردگرد کہیں کہیں پانی تھا، لہٰذا درخت تھے اور وہاں کے رہنے والے کھیتی باڑی کرتے تھے۔ کم وبیش چالیس میل لمبا اور دس بارہ میل چوڑا یہ علاقہ آباد تھا۔ یہ آبادی مسلمان تھی۔ ان میں کچھ لوگ مسلمان نہیں تھے۔ ان کے عجیب وغریب سے عقیدے تھے۔

فرعونوں کی عمارت کے کھنڈروں سے لوگ ڈرا کرتے تھے۔ ان کے اردگرد کا علاقہ بھی ایسا تھا کہ دیکھنے والے پر ہیبت طاری ہوجاتی تھی، وہاں سے کوئی گزرتا ہی نہیں تھا، لوگ کہتے تھے کہ وہاں فرعونوں کی بدروحیں رہتی ہیں جو دن کے دوران بھی جانوروں کی صورت میں گھومتی پھرتی رہتی ہیں اور کبھی اونٹوں پر سوار سپاہیوں کے بھیس میں اور کبھی خوبصورت عورتوں کے روپ میں نظرآتی ہیں اور رات کو وہاں سے ڈرائونی آوازیں بھی سنائی دیتی ہیں۔ کوئی ایک سال سے یہ کھنڈر لوگوں کی دلچسپیوں کا مرکز بن گیا تھا۔ اس سے پہلے سلطان صلاح الدین ایوبی کی فوج کے لیے بھرتی کی مہم شروع ہوئی تھی تو بھرتی کرنے والے اس علاقے کے ارد گرد بھی گھومتے پھرتے رہے تھے۔ وہاں کے باشندوں نے انہیں خبردار کیا تھا کہ وہ ٹیلوں کے اندر نہ جائیں، انہیں پراسرار آوازوں، ڈرائونی چیزوں اور بدروحوں کی کہانیاں سنائی گئی تھیں۔ اس علاقے سے فوج کو بہت بھرتی ملی تھی، مگر اس کے بعد بھرتی کرنے والے گئے تو لوگوں کا رحجان بدلا ہوا تھا۔ سرحد پر گشت کرنے والے دستوں نے رپورٹ دی تھی کہ گشتی سنتری بھی اس علاقے کے اندر نہیں جایا کرتے تھے اور انہوں نے کبھی کسی انسان کو ادھر جاتے نہیں دیکھا تھا مگر اب وہ لوگوں کو اندر جاتا دیکھتے ہیں اور وہاں سے آنے والے ڈرے ہوئے نہیں ہوتے بلکہ مطمئن سے نظر آتے ہیں۔ اس کے بعد یہ اطلاع ملی کہ ہر جمعرات کے روز رات تک اندر میلہ سا لگتا ہے اور اس کے بعد اس قسم کا واقعہ ہوا کہ سرحدی دستوں کے چار پانچ سپاہی لاپتہ ہوگئے۔ ان کے متعلق یہ رپورٹ دی گئی تھی کہ بھگوڑے ہوگئے ہیں۔

سلطان صلاح الدین ایوبی نے جہاں دشمن کے ملکوں میں جاسوس بھیج رکھے تھے وہاں اس نے اپنے ملک میں بھی جاسوسوں کا جال بچھا رکھا تھا۔ غیر مسلم مورخوں نے سلطان صلاح الدین ایوبی کو خاص طور پر خراج تحسین پیش کیا ہے کہ اس نے آج کے انٹیلی جنس نظام اور کمانڈر وطریقۂ جنگ کو خصوصی اہمیت دے کر ٹرینگ کے نئے طریقے دریافت کیے اور یہ ثابت کردیا تھا کہ صرف دس افراد سے ایک ہزار نفری کی فوج کا کام لیا جاسکتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مسلمان ہونے کی وجہ سے یورپی مورخوں نے سلطان صلاح الدین ایوبی کے اس فن کو تاریخ میں اتنی جگہ نہیں دی جتنی دینی چاہیے تھی لیکن اس دور کے وقائع نگاروں نے جو تحریریں قلمبند کی ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ اسلام کا یہ عظیم پاسبان انٹیلی جنس، گوریلا اور کمانڈو آپریشن کا کس قدر ماہر تھا۔ اندرون ملک اس کی انٹیلی جنس گوشے گوشے پر نظر رکھتی اور فوج کی مرکزی کمان کو رپورٹیں دیتی رہتی تھی۔ یہ اسی نظام کی اعلیٰ کارکردگی کا ثبوت تھا کہ مصر کے دور دراز کے ایسے علاقے کی سرگرمیوں کی بھی اطلاع مرکز کو پہنچا دی گئی تھی جس کے متعلق کہا جاتا تھا کہ اس چھوٹے سے خطے کو تو خدا نے بھی فراموش کررکھا ہے مگر مخبروں نے وہاں کے لوگوں کی صرف ذہنی تبدیلی دیکھی اور اس کی اطلاع دی تھی، انہیں ابھی یہ معلوم نہیں تھا کہ اندر کیا ہوتا ہے۔ اس اطلاع کے بعد دو مخبر قتل یا لاپتہ ہوگئے تھے۔

وہاں کے لوگوں نے نہ صرف ٹیلوں کے ڈرائونے علاقے کے اندر جانا شروں کردیا، بلکہ وہ فرعونوں کی اس پیچ درپیچ عمارت کے کھنڈروں میں بھی جانے لگے تھے، جہاں جانے کے تصور سے ہی ان کے رونگٹے کھڑے ہوجایا کرتے تھے۔ کچھ عرصہ پہلے اس کی ابتداء اس طرح ہوئی تھی کہ ایک گائوں میں ایک شتر سوار آیا۔ یہ اجنبی مسلمان اور مصری تھا، اس کا اونٹ اچھی نسل کا اور تندرست تھا، اس مسافر نے گائوں والوں اکٹھا کرکے یہ قصہ سنایا کہ وہ غربت سے تنگ آچکا تھا۔ اب وہ رہزنی اور چوری کے ارادے سے گھر سے نکل کھڑا ہوا، وہ پیدل تھا، وہ اس امید پر اس علاقے میں آگیا کہ یہاں کوئی آبادی نہیں ہے اس لیے رہزنی کرتے پکڑا نہیں جائے گا۔ وہ بہت دن پیدل چلتا رہا مگر اسے کوئی شکار نہ ملا۔ آخر ٹلوں کے اس علاقے میں جہاں کوئی نہیں جاتا، وہ جاکر گر پڑا۔ اس کے جسم میں طاقت نہیں رہی تھی۔ اس نے آسمان کی طرف ہاتھ بلند کرکے خدا سے مدد مانگی۔ اسے ایک گونج دار آواز سنائی دی… ''تم خوش قسمت ہو کہ تم نے ابھی گناہ نہیں کیا، گناہ کی صرف نیت کی ہے۔ اگر تم کسی کو لوٹ کر یہاں آتے تو تمہارا جسم ہڈیوں کا پنجر بن جاتا اور شیطان کے چھوڑے ہوئے درندے تمہارا گوشت جو تمہارے سامنے پڑا ہوا ہوتا، تمہیں دکھا دکھا کر کھاجاتے''۔

اس آواز نے اجنبی پر غشی طاری کردی۔ اس نے محسوس کیا کہ کوئی اسے اٹھا رہا ہے، اس نے آنکھیں کھولیں تو وہ بیٹھا ہوا تھا اور اس کے سامنے ایک سفید ریش بزرگ کھڑا تھا جو دودھ کی مانند سفید اور آنکھوں سے نور شعاعیں نکلتی تھیں۔ وہ جان گیا کہ یہ آواز جو اس نے سنی تھی، اسی بزرگ کی تھی۔ اجنبی کی زبان بند ہوگئی اور وہ کانپنے لگا۔ بزرگ نے اسے اٹھا کر کہا… ''مت ڈر مسافر، یہ سب لوگ جو یہاں آنے سے ڈرتے ہیں، بدنصیب ہیں۔ انہیں شیطان ادھر آنے نہیں دیتا۔ تم جائو اور لوگوں سے کہو کہ یہاں اب فرعونوں کی خدائی نہیں رہی۔ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مملکت ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی یہیں آسمان سے اترنے والے ہیں۔ اب اسلام کی قندیلیں اسی کھنڈر سے روشن ہوں گی۔ جن کی روشنی ساری دنیا کو منور کردے گی۔ جائو لوگوں کو ہمارا پیغام دو، انہیں یہاں لائو''… اجنبی نے کہا کہ وہ اٹھ نہیں سکتا، چل نہیں سکتا، جسم سوکھ گیا ہے۔ سفید ریش بزرگ نے کہا… '' تم اٹھو اور پچاس قدم شمال کی طرف جائو۔ پیچھے مڑ کر نہ دیکھنا، ڈرنا نہیں۔ لوگوں تک پیغام پہنچا دینا ورنہ نقصان اٹھائو گے۔ تمہیں ایک اونٹ بیٹھا ہوا نظر آئے گا۔ اس کے ساتھ کھانا اور پانی ہوگا اور اس کے ساتھ جو کچھ ہوگا وہ تمہارا ہوگا''۔

اجنبی نے گائوں والوں کو سنایا کہ وہ اٹھ کر چلنے لگا تو اس کے جسم میں طاقت آگئی تھی۔ وہ ڈر رہا تھا کہ یہ کسی فرعون کی بدروح ہے۔ اس نے پیچھے نہیں دیکھا۔ بدروح کے ڈر سے قدم گنتا رہا اور راستہ گھوم گیا۔ پچاس قدم پر یہ اونٹ بندھا ہوا تھا، اس کے ساتھ کھانا بندھا ہوا تھا جو اس نے کھا لیا اور پانی پی لیا۔ اس کے جسم میں ایسی طاقت آگئی جو پہلے اس کے جسم میں نہیں تھا۔ اس نے لوگوں کو ایک تھیلی کھول کر دکھائی جس میں سونے کی اشرفیاں تھیں۔ یہ تھیلی اونٹ کے ساتھ بندھی ہوئی تھی، اجنبی اونٹ پر سوار ہوا اور اس گائوں میں آگیا جس میں بیٹھا وہ قصہ سنا رہا تھا۔ اس کے بعد اس نے گائوں والوں کو سفید ریش بزرگ کا پیغام دیا اور چلا گیا۔ اس کا سنانے کا انداز ایسا پراثر تھا کہ لوگوں کے دلوں میں ٹیلوں کے علاقے میں جانے کا اشتیاق پیدا ہوگیا لیکن گائوں کے بوڑھوں نے کہا کہ یہ اجنبی انسان نہیں بلکہ کھنڈر کے شرشرار کا حصہ ہے… انسانی فطرت میں یہ کمزوری ہے کہ چھپے ہوئے کو بے نقاب کرنے کی اور بھید کو پالینے کی کوشش کرتی ہے جن جسموں میں جوانی کا خون ہوتا ہے وہ خطرے مول لے لیتے ہیں۔ گائوں کے جوانوں نے ارادہ کرلیا کہ وہ وہاں جائیں گے۔ اشرفیوں کا جادو بڑا سخت تھا جس سے وہ لوگ بچ نہیں سکتے تھے۔

٭ ٭ ٭
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: داستان ایمان فروشوں کی جلد‎ ‎دوم

Post by ایکسٹو »

اس چالیس میل لمبے اور دس میل چوڑے خطے میں جتنے گائوں تھے، ان سب سے اطلاع ملی کہ ایک اجنبی مسافر یہی قصہ سنا گیا ہے۔ کچھ لوگ تذبذب میں تھے اور کچھ تذبذب اور فیصلے کے درمیان بھٹک رہے تھے مگر ادھر جانےسے ڈرتے تھے، بعض آدمی گئے بھی لیکن ٹیلوں کے پراسرار علاقے کو دور سے دیکھ کر واپس آگئے۔ کچھ روز بعد دو جوان شتر سوار تمام علاقے میں گھوم گئے۔ انہوں نے بھی ایسا ہی قصہ سنایا جو ذرا مختلف تھا۔ وہ بہت دور کے سفر پر گھوڑوں پر جارہے تھے۔ ان کے ساتھ دو ٹٹو تھے جن پر قیمتی مال تھا۔ یہ تجارت کا مال تھا جو وہ سوڈان لے جارہے تھے۔ راستے میں انہیں ڈاکوئوں نے لوٹ لیا۔ مال کے ساتھ گھوڑے اور ٹٹو بھی چھین لیے اور انہیں زندہ چھوڑ دیا۔ یہ دونوں ٹیلوں کے علاقے میں آکر تھکن ، بھوک، پیاس اور غم سے گر پڑے۔ انہیں بھی سفید ریش بزرگ نظر آیا۔ اس نے انہیں وہی پیغام دیا اور کہا… ''تمہیں شیطان کے درندوں نے لوٹا ہے، تم اللہ کے نیک بندے ہو، جائو تمہیں پچاس قدم پر دواونٹ کھڑے ملیں گے اور ان کے ساتھ جو کچھ بندھا ہوگا وہ تمہارا ہوگا لیکن مال وزر دیکھ کر آپس میں لڑ نہ پڑنا ورنہ ہمیشہ کے لیے اندھے ہوجائو گے''… انہیں بھی اس بزرگ نے کہا کہ گائوں گائوں جا کر لوگوں کو پیغام دیں کہ ان کھنڈروں سے ڈریں نہیں۔

اس کے بعد ایسی ہی بہت سی روائتیں سنی اور سنائی جانے لگیں۔ ان میں ڈر اور خوف کا کوئی تاثر نہیں تھا بلکہ ایسی کشش تھی کہ لوگوں نے ٹیلوں کے اردگرد پھرنا شروع کردیا۔ انہوں نے بعض لوگوں کو اندرونی علاقے سے باہر جاتے اور آتے بھی دیکھا۔ انہوں نے بتایا کہ اندر ایک درویش بزرگ ہے جو غیب کا حال بتاتا اور آسمانوں کی خبر دیتا ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ وہ امام مہدی ہے۔ کسی نے کہا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ہیں اور کوئی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کہتا تھا۔ ایک بات وثوق سے کہی جاتی تھی کہ وہ جو کوئی بھی ہے، خدا کا بھیجا ہوا ہے اور گناہ گاروں سے نہ ملتا ہے، نہ انہیں نظر آتا ہے۔ اس کے پاس جانے کے لیے نیت صاف ہونی چاہیے۔ یہ بھی کہا گیا کہ وہ مردوں کو بھی زندہ کرتا ہے… یہ طلسماتی اور پراسرار روائتیں اور حکائتیں لوگوں کو اندرونی علاقے میں لے جانے لگیں۔ آگے جاکر انہوں نے پہلی بار وہ کھنڈر دیکھے جن سے وہ ڈرتے تھے۔ وہ ان کے اندر بھی گئے۔ یہ کمروں، غلام گردشوں اور غاروں جیسے راستوں کی بھول بھلیاں تھیں۔ ایک کمرہ بہت ہی وسیع اور اس کی چھت اونچی تھی۔ جالے لٹک رہے تھے اور ماحول پر ہیبت طاری تھی لیکن وہاں خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ کہیں سیڑھیاں فرش سے نیچے جاتیں اور تہہ خانوں میں جاکر ختم ہوتی تھیں۔

یہ عمارت ان فرعونوں کی تھی جو اپنے آپ کو خدا کہتے تھے۔ وہ کسی کسی کو نظر آتے تھے۔ لوگوں کو اس عمارت میں اکٹھا کرلیا کرتے اور لوگوں کو ان کی صرف آواز سنائی دیتی تھی۔ یہ آواز ایسی سرنگوں میں سے گزر کر آتی تھی جن کے دہانے بڑے کمرے میں تھے مگر نظر نہیں آتے تھے بولنے والا سرنگ کے دوسرے سرے پر ہوتا تھا جس کے متعلق کوئی جان نہیں سکتا تھا کہ کہاں ہے۔ وہ اسے خدا کی آواز سمجھتے تھے جو عام آدمی کو نظر نہیں آتا۔ ان بڑے کمروں میں روشنیوں کا ایسا انتظام ہوا کرتا تھا کہ مشعلیں نظر نہیں آتی تھی، کمرے ر وشن رہتے تھے۔ آئینے کی طرح چمکیلی دھات کی چادریں استعمال کی جاتی تھیں جن سے چھپی ہوئی مشعلوں کی روشنی منعکس ہوتی تھی… وہ تو صدیوں پرانی بات تھی۔ اب صلاح الدین ایوبی کے دور میں اس عمارت میں پھر وہی آوازیں گونجنے لگیں، جنہیں لوگ خدا کی آوازیں سمجھا کرتے تھے۔ ذرا سے وقت میں لوگوں کے دلوں سے کھنڈروں کی ہیبت نکل گئی۔ وہ جب بڑے کمرے میں جاتے تو اس سے پہلے انہیں اندھیری اور فراغ سرنگوں میں سے گزرنا پڑتا تھا۔ آگے بہت ہی فراغ اور اونچی چھت والا کمرہ آجاتا، جس میں روشنی ہوتی مگر کوئی مشعل نظر نہیں آتی تھی۔ وہاں گونج کی طرح آواز آتی تھی… ''ہم نے تمہیں اندھیروں میں سے نکال کر روشنی دکھائی ہے۔ کوہِ طور کی روشنی ہے۔ اس نور کو دلوں میں داخل کرلو۔ فرعونوں کی بدروحیں بھی مرگئی ہیں۔ اب یہاں موسیٰ علیہ السلام کا نور ہے اور اس نور کو عیسیٰ علیہ السلام اور زیادہ منور کرے گا۔ خدا کو یاد کرو، کلمہ پڑھو''۔ اور لوگ حیرت سے منہ کھولے آنکھیں پھاڑے ایک دوسرے کو دیکھتے اور کلمہ طیبہ گنگنانا شروع کردیتے تھے۔ اگر اس آواز میں خدا، حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور کلمہ طیبہ کا ذکر نہ ہوتا تو لوگ شاید اس کا یہ اثر قبول نہ کرتے جو وہ کررہے تھے۔ وہ سب مسلمان تھے۔ اپنے مذہب کے نام پر وہ اس اثر کو قبول کرتے تھے… اور جب انہیں یہ آواز سنائی دی… ''رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خدا نے غار حرا کے اندھیرے میں رسالت عطا کی تھی۔ تمہیں بھی ان غاروں کے اندھیرے میں خدا کا نور نظر آئے گا''… تو لوگوں نے سرجھکا لیے اور اس آواز کو جس کی گونج میں طلسماتی اثر تھا، اپنے دل پر نقش کرلیا لیکن لوگ اس ہستی تک پہنچنا چاہتے تھے جس کی یہ آواز تھی اور جو مسافروں کو اونٹ، کھانا، پانی اور اشرفیاں دیتی اور مردوں کو زندہ کرتی تھی۔ لوگوں کی بیتابیاں بڑھتی جارہی تھیں۔ وہ اپنے گھروں کو جاتے تو انہیں عورتیں بتاتیں کہ ایک اجنبی آیا تھا جو کھنڈر والے درویش کی کرامات سنا گیا ہے۔ وہ کہتا تھا کہ اس نے درویش کی زیارت کی ہے۔ ایک روز ان دیہات میں جو سب سے بڑا گائوں ہے، وہاں کی مسجد کے پیش امام سے لوگوں نے استفسار کیا۔ اس نے کہا… ……وہ مقدس انسان ہے صرف نیک لوگوں سے ملتا ہے، نیک وہ ہوتا ہے جو خون خرابہ نہ کرے، صلح اور امن کی زندگی بسر کرے۔ یہ مقدس درویش حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا پیغام لایا ہے۔ اس پیغام میں محبت ہے، جنگ وجدل نہیں۔ اس پیغام میں یہ نصیحت ہے کہ کسی کو زخمی نہ کرو بلکہ زخمی کے زخموں پر مرہم رکھو… اگر تم لوگ ان اصولوں پر زندگی بسر کرو گے تو یہ درویش تمہاری کایا پلٹ دے گا''۔

جب ایک امام مسجد نے بھی اس مقدس درویش کو اور اس کی آواز کو برحق کہہ دیا تو کسی شک و شبے کی گنجائش نہ رہی۔ لوگوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ کھنڈروں میں جانے لگے تو اعلان ہوا کہ ہر جمعرات کے روز اندر جانے کی اجازت ہوگی اور شام کو میلہ لگا کرے گا۔ چنانچہ اس روز سے جمعرات کا دن مخصوص ہوگیا اور اس کے ساتھ ہی عورتوں کو بھی وہاں جانے کی اجازت مل گئی۔ اب کھنڈروں کے اندر اپنی مرضی سے کوئی نہیں جاسکتا تھا۔ جمعرات کے روز ان کے اردگرد میلے کا سماں ہوتا تھا۔ دوردور سے لوگ اونٹوں، گھوڑوں اور خچروں پر اور پیدل بھی آتے اور شام کو کھنڈروں میں جانے کے وقت کا انتظار کرتے تھے… اندر کی سنسنی خیز دنیا میں انقلاب آگیا، وہاں اب لوگوں کو گناہ اور نیکی کے، تاریکی اور روشنی کے تصورات ایسی صورت میں نظر آتے تھے کہ لوگ انہیں مجسم اور متحرک صورت میں دیکھتے اور حیرت زدہ ہوتے تھے۔ کسی کو کوئی الٹا سیدھا سوال اور شک کرنے کی جرأت نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی وہ کسی سوال اور شک کی ضرورت محسوس کرتے تھے۔

سورج غروب ہوتے ہی اندھیری سرنگ کا منہ کھل جاتا جو اندر لے جاتی تھی۔ یہ دراصل اس عمارت کے درمیان سے گزرنے والا راستہ تھا۔ اس کی دیواریں بہت بڑے بڑے بلاکوں کی تھیں۔ اوپر ایسی ہی چھت تھی۔ یہ سرنگ ہر دس بارہ قدموں بعد دائیں یا بائیں کو مڑتی تھی۔ اس کے دروازے یا دہانے سے باہر چند ایک آدمی کھڑے ہوتے تھے۔ ان کے پاس کھجوروں کے انبار لگے ہوتے تھے۔ یہ کھجوریں لوگوں کی لائی ہوئی ہوتی تھیں، جسے نذرانہ کہا جاتا تھا۔ زائرین کھجوریں ایک جگہ ڈھیر کردیتے تھے۔ کھجوروں کے پاس پانی کے مشکیزے رکھے ہوتے تھے۔ شام کو جب زائرین کو اندر جانے کی اجازت ملتی تھی تو دروازے پر ہر ایک کو تین کھجوریں کھلا کر چند گھونٹ پانی پلایا جاتا اور اندر بھیج دیا جاتا۔ تاریک سرنگ سے گزر کر جب یہ لوگ روشن ہال کمرے میں پہنچتے تو وہاں انہیں آوازیں سنائی دیتیں… ''کلمہ طیبہ پڑھو، اپنے اللہ کو یاد کرو، حضرت موسیٰ علیہ السلام تشریف لے آئے ہیں، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ظہور ہونے والا ہے۔ دل سے بدی اور دشمنی نکال دو، لڑائی جھگڑا ختم کردو اور دیکھو ان کا حشر جنہیں جنت کا دھوکہ دے کر لڑایا گیا تھا''۔

اس آواز کے ساتھ ہی لوگوں کی آنکھوں میں نہایت تیز روشنی پڑتی۔ انہیں ایک طرف منہ کرکے کھڑا کیا جاتا تھا۔ ان کی آنکھیں خیرہ ہونے لگتیں تو روشنی ذرا مدھم ہوجاتی۔ اس کے بعد روشنی کبھی تیز ہوتی، کبھی مدھم اور لوگوں کے سامنے والی دیوار پر ستارے چمکتے نظر آتے۔ ان ستاروں میں جنبش ہوتی اور انتہائی مکروہ اور بھدی شکلوں والے انسان جاتے نظر آتے۔ گونج دار آواز سنائی دیتی… ''یہ سب تمہاری طرح جوان اور خوبصو رت تھے۔ انہوں نے خدا کا پیغام نہ سنا۔ یہ کمر کے ساتھ تلواریں سجا کر گھوڑوں پر سوار ہوئے اور اپنے جیسے خوبصورت جوانوں کو قتل کیا۔ انہیں دھوکہ دیا گیا کہ تم لڑو، مرجائو گے تو جنت میں جائوں گے۔ دیکھ لو ان کا انجام، خدا نے انہیں شیطان کے درندے بنا کر کھلا چھوڑ دیا ہے''… ان آوازوں کے ساتھ بادل کی گرج اور بجلی کی کڑک سنائی دیتی، کچھ اور آوازیں بھی سنائی دیتیں جو مختلف درندوں کی معلوم ہوتی تھیں۔ روشنی اتنی تیز ہوجاتی کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں چندھیا جاتیں، پھر لمبے لمبے دانتوں والے درندے دائیں سے بائیں جاتے نظر آتے۔ یہ بھی انسان تھے لیکن ان کی شکلیں بڑے ہی ڈرائونے بھیڑیوں جیسی تھیں۔ انہوں نے بازوئوں پر برہنہ لڑکیاں اٹھا رکھی تھیں۔ یہ لڑکیاں جوان اور خوبصورت تھیں، لڑکیاں تڑپتی تھیں، بادل کی گرج اور زیادہ بلند سنائی دیتی اور آواز آتی… ''انہیں اپنے حسن پر ناز تھا، انہوں نے خدا کے حسن کو ناپاک کیا تھا''… ان ڈرائونی اور بھیانک شکلوں کے بعد بڑے ہی خوبرو مرد اور خوبصورت عورتیں گزرتیں، یہ سب ہنستے کھیلتے جاتے تھے، یہ نیک اور پاک لوگ تھے جن کے متعلق بتایا جاتا تھا کہ انہوں نے کبھی لڑائی جھگڑے کی بات نہیں کی تھی۔ وہ سراپا محبت، پیار اور خلوص تھے۔

اس کے بعد زائرین کو ایک تہہ خانے میں لے جایا جاتا، جہاں انسانی ہڈیوں کے پنجر بھی تھے اور خوبصورت لڑکیاں بھی گھومتی پھرتی اور مسکراتی نظر آتی تھیں۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد آواز سنائی دیتی… ''حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ظہور ہونے والا ہے… جنگ وجدل اور خون خرابہ دل سے نکال دو''… تہہ خانے کا ایک راستہ اور تھا جس سے لوگوں کو باہر نکال دیا جاتا۔ لوگوں پر ایسا تاثر طاری ہوتا تھا جیسے وہ سو گئے تھے اور انہوں نے بڑا ہی عجب خواب دیکھا ہو، جو ڈرائونا تھا ور خوبصورت بھی۔ وہ ایک بار پھر اندر جانے کو بے تاب ہوتے تھے لیکن کسی کو اس طرف جانے نہیں دیا جاتا تھا، جدھر سے لوگ اندر جاتے تھے، وہ اپنے گھروں کو واپس نہیں جانا چاہتے تھے۔ رات وہیں کھنڈروں کے قریب ہی گزار دیتے تھے۔ وہاں کچھ لوگ ان کے پاس بیٹھ کر انہیں اندر کے راز بتاتے تھے۔ ایک راز یہ تھا کہ اندر جس کی آواز سنائی دیتی ہے وہ خدا کی طرف سے یہ پیغام لے کر آیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں آرہے ہیں اور خلیفہ العاضد بھی دنیا میں واپس آگیا ہے۔

العاضد فاطمی خلافت کا خلیفہ تھا جس کی گدی مصر میں تھی۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے اسے معزول کرکے مصر کو بغداد کی خلافت عباسیہ کے تحت کردیا تھا۔ العاضد اس کے فوراً بعد مرگیا تھا۔ یہ وہ اڑھائی سال پہلے کا واقعہ تھا۔ فاطمیوں نے صلیبیوں اور حشیشین کے ساتھ سازباز کرکے ایک سازش تیار کی تھی جس کے تحت سلطان صلاح الدین ایوبی کا تختہ الٹنا اور مصر میں فاطمی خلافت بحال کرنا تھا۔ اس سازش کی کامیابی کے لیے سوڈانیوں کو تیار کیا جارہا تھا کہ وہ مصر پر حملہ کردیں۔

کھنڈر کے مریدوں کی تعداد میں اور اس کی عقیدت مندی میں اضافہ ہوتا جارہا تھا اور جنوب مغربی علاقے کے لوگ قائل ہوتے جارہے تھے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خلیفہ العاضد کو واپس بھیج چکے ہیں اور خود بھی واپس آرہے ہیں۔ ان لوگوں نے فوج میں بھرتی ہونے سے توبہ کرلی تھی۔ کیونکہ وہ جنگ وجدل کو گناہ سمجھنے لگے تھے۔ صلاح الدین ایوبی کو ایک گناہ گار بادشاہ قرار دے دیا گیا تھا جو اپنی بادشاہی کو وسعت دینے کے لیے جوانوں کو یہ دھوکہ دے کر فوج میں فوج میں بھرتی کرتا تھا کہ وہ شہید ہوں گے اور سیدھے جنت میں جائیں گے۔ کھنڈر وں کے اندر کی دنیا لوگوں کے لیے عبادت گاہ بن گئی تھی۔

بعض نے تو ٹیلوں کے علاقے میں ہی ڈیرے ڈال دیئے تھے، وہ اس مقدس درویش کی زیارت کے لیے بے قرار رہتے تھے، جس کی آواز کھنڈروں میں سنائی دیتی تھی، مگر وہ انہیں نظر نہیں آتا تھا۔ ایک نیا فرقہ جنم لے رہا تھا۔

اس زخمی حشیش کو جو سلطان صلاح الدین ایوبی پر قاتلانہ حملے میں زخمی ہوا تھا، علی بن سفیان قاہرہ لے گیا، جہاں اسے ایک الگ تھلگ مکان میں رکھا گیا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کے حکم کے مطابق اس کے علاج کے لیے ایک جراح مقرر کردیا گیا۔ وہ آخر مجرم تھا، اسے جس مکان میں رکھا گیا اس کے دروازے پر ایک سنتری کھڑا رہتا تھا۔ وہ ابھی بھاگنے کے قابل نہیں تھا، کھنڈروں کی نشاندہی اسی نے کی تھی۔ فیصلہ ہوا تھا کہ یہ ٹھیک ہوجائے تو اس کی رہنمائی میں جاسوس بھیج کر کھنڈروں کے اندر کے حالات دیکھے جائیں گے۔ ہوسکتا تھا کہ یہ زخمی جھوٹ بول رہا ہو۔ علی بن سفیان نے قاہرہ آتے ہی اپنے نائب حسن بن عبداللہ اور کوتوال غیاث بلبیس سے کہہ دیا تھا کہ وہ اس علاقے میں اپنا کوئی مخبر اور جاسوس نہ بھیجیں جس کے متعلق انہیں رپورٹ ملی ہے کہ وہاں کے لوگ فوج کے خلاف ہوگئے ہیں۔ علی کو کسی بہت بڑے اور کارآمد انکشاف کی توقع تھی۔

زخمی کو معلوم نہیں کیوں یہ وہم ہوگیا تھا کہ وہ زندہ نہیں رہے گا۔ وہ روتا تھا اور باربار اپنے گائوں کا نام بتا کر کہتا تھا کہ میری بہن کو بلا دو میں اسے دیکھ نہیں سکوں گا۔ علی بن سفیان اس کی اسی کمزوری کو اس سے مزید راز اگلوانے کے لیے استعمال کررہا تھا۔ زخمی اپنی بہن کے متعلق غیر معمولی طور پر جذباتی تھا۔ علی کو جب یقین ہوگیا کہ زخمی کے سینے میں اب اور کوئی بات نہیں رہ گئی تو اس نے دو پیامبر بلا کر انہیں زخمی کا گائوں اور علاقہ بتایا اور کہا کہ اس کی بہن کو اپنے ساتھ لے آئیں۔ یہ علاقہ مصر کے جنوب مغرب میں ہی تھا… پیامبر اسی وقت روانہ ہوگئے۔

سلطان صلاح الدین ایوبی محاذ پر پہنچ گیا اور شوبک کے قلعے میں چلا گیا۔ اس کے چہرے پر قاتلانہ حملے کا کوئی تاثر نہیں تھا، جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ اس کے محافظ دستے کا کمانڈر اور دیگر حکام جو اس کے ساتھ تھے بہت پریشان اور شرمسار تھے۔ وہ ڈرتے بھی تھے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کسی نہ کسی مقام پر ان پر برس پڑے گا اور جواب طلبی بھی کرے گا مگر اس نے اس طرف اشارہ بھی نہیں کیا۔ البتہ اپنی مرکزی کمان کے فوجی حکام سے کہا… ''آپ نے دیکھ لیا ہے کہ میری زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں، آپ میری جنگی چالیں غور سے دیکھتے رہا کریں۔ دشمن نے جو دوسرا محاذ کھول رکھا ہے اس پر گہری نظر رکھیں اور تخریب کاروں کی پکڑ دھکڑ اور سرکوبی کرتے رہیں''… اس نے کسی سے اتنا بھی نہ کہا کہ محافظ دستے کی چھان بین کی جائے۔ اس نے اتنے بڑے حاد ثے کا کوئی اثر ہی نہ لیا۔ شوبک کے قلے میں پہنچا اور سب سے پہلے پوچھا کہ کوئی جاسوس واپس آیا ہے یا نہیں؟ اسے بتایا گیا کہ دو جاسوس کارآمد معلومات لائے ہیں۔ اس نے دونوں کو بلالیا اور صلیبیوں کے ارادوں کے متعلق رپورٹیں لیں۔ اسے تقریباً وہ تمام پلان بتا دیا گیا جو صلیبیوں نے تیار کیا تھا۔ اس نے نورالدین زنگی کی بھیجی ہوئی کمک کے سالار اور مصر سے آئی ہوئی فوج کے سالار اور دونوں کے نائبین کو بلا بھیجا اور گہری سوچ میں کھو گیا۔

چوتھے روز زخمی حشیش کی بہن آگئی۔ اس کے ساتھ چار آدمی تھے جن کے متعلق بتایا گیا کہ زخمی کے چچا اور تایا زاد بھائی ہیں۔ بہن جوان اور پرکشش تھی اور اپنے بھائی کے لیے بہت ہی پریشان تھی۔ زخمی اس کا اکیلا بھائی تھا۔ ان کے ماں باپ مرچکے تھے، اسے اور اس کے ساتھ آئے ہوئے چار آدمیوں کو زخمی کے پاس لے جانے کے لیے علی بن سفیان کی اجازت کی ضرورت تھی۔ علی بن سفیان نے بہن کو اجازت دے دی، اس کے ساتھ آئے ہوئے آدمیوں کو نہ ملنے دیا۔ انہوں نے منت سماجت کی اور کہا کہ وہ اتنی دور سے آئے ہیں، انہیں صرف اتنی اجازت دی جائے کہ زخمی کو دیکھ لیں۔ وہ

کوئی بات نہیں کریں گے۔ علی بن سفیان نے اس طرح اجازت دی کہ خود ان کے ساتھ ہوگا اور انہیں فوراً باہر نکال دے گا۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ اسی وقت ان سب کو زخمی کے پاس لے گیا۔ بہن نے بھائی کو دیکھا تو اس کے اوپر گر پڑی۔ بھائی کا منہ چومنے لگی اور زاروقطار رونے لگی۔ دوسرے آدمیوں کے متعلق علی بن سفیان نے زخمی سے کہا کہ ان سے ہاتھ ملا لو، یہ واپس جارہے ہیں۔ اس نے چاروں سے ہاتھ ملایا تو علی بن سفیان نے انہیں باہر چلے جانے کو کہا اور یہ بھی کہہ دیا کہ وہ آئندہ اسے نہیں مل سکیں گے، وہ چلے گئے۔ بہن نے علی بن سفیان کے قدموں میں بیٹھ کر اس کے پائوں پکڑ لیے اور رو رو کر منت کی کہ اسے بھائی کی خدمت کے لیے وہیں رہنے دیا جائے۔ علی بن سفیان ایک بہن کی ایسی جذباتی التجا کو ٹھکرا نہ سکا۔ اس نے لڑکی کی جامہ تلاشی کی اور اسے وہیں رہنے کی اجازت دے دی اور وہاں سے چلا گیا۔

بہن بھائی اکیلے رہ گئے تو بہن نے بھائی سے پوچھا کہ اس نے کیا کیا ہے؟ بھائی نے بتا دیا۔ بہن نے پوچھا کہ اس کے ساتھ کیا سلوک ہوگا؟ بھائی نے جواب دیا… ''امیر مصر پر قاتلانہ حملے کا جرم بخشا تو نہیں جائے گا اگر ان لوگوں نے مجھ پر رحم کیا تو سزائے موت نہیں دیں گے، ساری عمر کے لیے تہہ خانے کی قید میں ڈال دیں گے''۔

''پھر میں ساری عمر تمہیں نہیں دیکھ سکوں گی؟'' بہن نے پوچھا۔

''نہیں شارجا''… بھائی نے رندھیائی ہوئی آواز میں کہا… ''پھر میں مر بھی نہیں سکوں گا۔ جی بھی نہیں سکوں گا، وہ جگہ بڑی خوفناک ہے، جہاں ہمیشہ کے لیے قید کردیں گے''۔

بہن جس کا نام شارجا تھا، بچوں کی طرح بلبلا اٹھی۔ اس نے کہا …''میں نے تمہیں اس وقت بھی روکا تھا کہ ان لوگوں کے چکر میں نہ پڑو مگر تم نے کہا کہ صلاح الدین ایوبی کا قتل جائز ہے، تم لالچ میں آگئے تھے، تم نے میری بھی پروا نہ کی، میرا کیا بنے گا؟ تم نہ ہوئے تو میرا آسر ا کون ہوگا؟''۔

زخمی بھائی کا ذہن تقسیم ہوگیا تھا، کبھی وہ پچھتاوے کی باتیں کرتا اور کہتا کہ وہ ان لوگوں کے جھانسے میں آگیا تھا، اس نے یہ بھی کہا… ''صلاح الدین ایوبی انسان نہیں، خدا کا بھیجا ہوا فرشتہ ہے۔ ہم چار ہٹے کٹے جوان مل کر اتنا بھی نہ کرسکے کہ اس کے جسم پر خنجر کی نوک سے خراش ہی ڈال دیتے۔ اس پر زہر نے بھی اثر نہیں کیا۔ اس اکیلے نے تین کو جان سے مار دیا اور مجھے موت کے منہ میں ڈال دیا''۔

''یہ کہنے والے جھوٹ تو نہیں کہتے تھے کہ صلاح الدین ایوبی کا ایمان اتنا مضبوط ہے کہ اسے کوئی گناہ گار قتل نہیں کرسکتا''۔ بہن نے کہا… ''تم چاروں مسلمان تھے، اتنا بھی نہ سوچا کہ وہ بھی مسلمان ہے؟''۔

''اس نے خدا کے خلیفہ کی گدی کی توہین کی ہے''۔ زخمی بھائی کا دماغ الٹی طرف چل پڑا، اس نے جوشیلے لہجے میں کہا… ''تم نہیں جانتی کہ خلیفہ العاضد خدا کے بھیجے ہوئے خلیفہ تھے''۔

''جو کوئی جوکچھ بھی تھا'' … بہن نے کہا… ''میں یہ جانتی ہوں کہ تم میرے بھائی ہو اور مجھ سے ہمیشہ کے لیے جدا ہورہے ہو۔ کیا تمہارے بچنے کی کوئی صورت پیدا ہوسکتی ہے؟''

''شاید پیدا ہوجائے''۔ بھائی نے جواب دیا… ''میں نے اس شرط پر انہیں سارے راز بتا دیئے ہیں کہ میرا گناہ بخش دیںمگر میرا گناہ اتنا سنگین ہے جو شاید نہ بخشا جائے''۔

اس وقت زخمی کو سوجانا چاہیے تھا اور اسے اتنا زیادہ بولنا نہیں چاہیے تھا کیونکہ پیٹ کے زخم کھل جانے کا ڈر تھا مگر وہ بولتا جارہا تھا اور بہن رو رہی تھی۔ بولتے بولتے اسے پیٹ کے زخم میں ٹیسیں محسوس ہونے لگیں اور وہ بے حال ہوگیا اس نے بہن سے کہا … ''شارجا باہر جائو، کوئی آدمی ملے تو اسے کہو کہ طبیب یا جراح کو بلا دے۔ میں مر رہا ہوں''۔ شارجا دوڑتی باہر گئی، باہر سنتر کھڑا تھا۔ اس نے اسے بھائی کی حالت بتائی تو اس نے شارجا کو اس جراح کے گھر کا راستہ بتا دیا جسے زخمی کی دیکھ بھال کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔ اسے سختی سے حکم دیا گیا تھا کہ دن ہو یا رات، زخمی کو زندہ رکھنے کی پوری کوشش کرے۔ وہ شاہی جراح تھا۔

شارجا دوڑتی گئی، جراح کا گھر بالکل قریب تھا۔ شارجا نے جراح کو بھائی کی حالت بتائی تو وہ بھاگم بھاگ آیا اور زخمی کو دیکھا۔ اس کے پیٹ کی پٹی خون سے لال ہوگئی تھی۔ جراح نے فوراً پٹی کھولی۔ خون بند کرنے کے لیے اس میں سفوف ڈالے اور بہت سا وقت صرف کرکے پٹی باندھی، خون بند ہوگیا۔ اس نے زخمی کو دوائی پلا دی جس کے اثر سے اسے نیند آگئی اور وہ سوگیا۔ شارجا اس جواں سال جراح کو حیرت اور دلچسپی سے دیکھتی رہی۔ اسے توقع نہیں تھی کہ اتنی رات گئے کوئی اس کے مجرم بھائی کو دیکھنے آجائے گا لیکن جراح دوڑتا آیا اور اس نے اتنے انہماک سے زخمی کی مرہم پٹی کی کہ شارجا کو حیران کردیا۔ زخمی کی آنکھ لگ گئی تو جراح نے آنکھیں بند کرکے اور ہاتھ اوپر اٹھا کر سرگوشی کی… ''زندگی اور موت تیرے ہاتھ میں ہے، میرے خدا! اس بدنصیب کے حال پر کرم کرو، اسے زندگی عطا کرو، خدائے عزوجل''۔

شارجا کے آنسو نکل آئے، اس پر جراح کا تقدس طاری ہوگیا۔ اس نے جراح کے قریب دو زانو ہوکر اس کا ایک ہاتھ پکڑا اور چوم لیا۔ جراح کے پوچھنے پر شارجا نے بتایا کہ وہ زخمی کی بہن ہے۔ اس نے جراح سے پوچھا… ''کیا آپ کے دل میں اتنا زیادہ رحم ہے کہ میرے بھائی کو آپ تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے یا اسے اس لیے زندہ رکھنا چاہتے ہیں کہ یہ آپ کو راز کی ساری باتیں بتا دے؟''

''مجھے اس سے کوئی دلچسپی نہیں کہ اس کے پاس کوئی راز ہے یا نہیں''۔ جراح نے کہا… ''میرا فرض ہے کہ اسے زندہ رکھوں اور اس کے زخم بالکل ٹھیک کردوں۔ میری نگاہ میں مومن اور مجرم میں کوئی فرق نہیں''۔

''آپ کو شاید معلوم نہیں کہ اس کا جرم کیا ہے''۔ شارجا نے کہا… ''اگر معلوم ہوتا تو آپ اس کے زخم پر مرہم رکھنے کے بجائے اس میں نمک بھر دیتے''۔

''مجھے معلوم ہے''۔ جراح نے جواب دیا… ''لیکن میں اسے زندہ رکھنے کی پوری کوشش کروں گا''۔

شارجا اتنی متاثر ہوئی کہ اس نے جراح کے ساتھ اپنی باتیں شروع کردیں۔ اسے بتایا کہ اس کے ماں باپ بچپن میں مرگئے تھے۔ اس وقت اس کا بھائی دس گیارہ سال کا تھا۔ اس نے شارجا کو پالا پوسا اور جوان کیا اگر اس کا بھائی نہ ہوتا تو کوئی نہ کوئی اسے اغوا کرکے لے جاتا۔ بھائی نے زندگی بہن کے لیے وقف کردی تھی۔ جراح انہماک سے اس کی باتیں سنتا رہا اور اسے اس خیال سے باہر صحن میں لے گیا کہ زخمی کی آنکھ نہ کھل جائے۔ جراح ایسے انداز سے شارجا کی باتیں سن رہا تھا جیسے وہ رات یہیں گزارے گا مگر وہ جانے لگاتو شارجا نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا… ''آپ چلے جائیں گے تو مجھے ڈر آئے گا''… جراح نے اسے بتایا کہ وہ اسے اپنے ساتھ نہیں لے جاسکتا اور اس کے ساتھ بھی نہیں رہ سکتا۔ جراح گھر میں اکیلا رہتا تھا۔ وہ شارجا کی خاطر کچھ دیر اور رک گیا اور رات کے پچھلے پہر گیا… دوسرے دن کا سورج ابھی طلوع نہیں ہوا تھا کہ وہ زخمی کو دیکھنے آگیا۔ اس نے رات والے انہماک سے اس کی مہم پٹی کی۔ زخمی کو دودھ پلایا اور ایسا کھانا دیا جو شارجا نے کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھا تھا۔

اس دوران علی بن سفیان آیا،زخمی کی حالت دیکھ کر چلا گیا لیکن جراح نہ گیا۔ وہ شارجا کے ساتھ باتیں کرتا اور

اس کی باتیں سنتا رہا۔ اس روز شام تک وہ تین بار زخمی کو دیکھنے آیا۔ حالانکہ وہ صرف دوپہر کو آیا کرتا تھا۔ شام کو وہ چلا گیا تو زخمی نے اپنی بہن سے کہا… ''شارجا! میری ایک بات غور سے سن لو، میری زندگی اس جراح کے ہاتھ میں ہے لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہیں دیکھ کر یہ میرا علاج پہلے سے زیادہ اچھے طریقے سے کرنے لگا ہے۔ میں موت قبول کرلوں گا مگر اسے اتنی زیادہ قیمت نہیں دوں گا جو اس نے دل میں رکھ لی ہے… مجھے شک نہیں یقین ہے کہ یہ مجھے زندہ رکھنے کے لیے تمہاری عزت کا نذرانہ لینا چاہتا ہے''۔

''میں تو اسے فرشتہ سمجھتی ہوں''۔ شارجا نے کہا… ''اس نے ابھی تک کوئی ایسا اشارہ بھی نہیں کیا اور میں بچی بھی تو نہیں لیکن میں اسے ایسا سمجھتی نہیں''۔

شارجا کا اندازہ ایسا تھا جس نے بھائی کو شک میں ڈال دیا کہ وہ جراح میں دلچسپی لیتی ہے۔

٭ ٭ ٭
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: داستان ایمان فروشوں کی جلد‎ ‎دوم

Post by ایکسٹو »

اس رات جراح آیا، زخمی سوگیا تھا، شارجا جاگ رہی تھی۔ وہ جراح کے ساتھ صحن میں چلی گئی۔ کچھ دیر باتیں ہوتی رہیں، جراح نے اسے کہا کہ اس کا بھائی دوائی کے اثر سے اتنی گہری نیند سو گیا ہے کہ صبح تک اس کی آنکھ شاید نہیں کھلے گی۔ آئو میرے گھر چلو… شارجا کچھ جھجکی لیکن جراح کی پیشکش ٹھکرانہ سکی۔ اس کے ساتھ چلی گئی۔ یہ خوبرو، جواں سال اور حلیم طبع جراح اکیلا رہتا تھا۔ شارجا بالغ دماغ لڑکی تھی۔ اسے توقع تھی کہ آج رات یہ آدمی اس کے سامنے بے نقاب ہوجائے گا مگر ایسا نہ ہوا۔ وہ اس کے ساتھ ہمدرد دوستوں کی طرح باتی کرتا رہا۔ لڑکی کو اس کے اتنے مشفقانہ سلوک نے پریشان کردیا۔ اس نے بے اختیار اس سے پوچھا… ''میں صحرا کے دور دراز علاقے کی غریب سی لڑکی ہوں اور ایک ایسے مجرم کی بہن ہوں جس نے مصر کے بادشاہ پر قاتلانہ حملہ کیا ہے۔ اس کے باوجود آپ میرے ساتھ ایسا سلوک کیوں کررہے ہیں جس کی میں حق دار نہیں ہوں''… جراح نے مسکراہٹ کے سوا کوئی جواب نہ دیا۔ لڑکی نے صاف کہہ دیا… ''مجھ میں اس خوبی کے سوا اور کچھ بھی نہیں کہ میں جوان لڑکی ہوں اور شاید میری شکل وصو رت بھی اچھی ہے''۔

''تم میں ایک خوبی اور بھی ہے جس کا تمہیں علم نہیں''۔ جراح نے کہا… ''تمہاری عمر اور تمہاری ہی شکل وصورت کی میری ایک بہن تھی جس طرح تم بہن بھائی اکیلے ہو، اسی طرح میں اور میری بہن اکیلے رہ گئے تھے۔ میں نے تمہارے بھائی کی طرح اپنی بہن کو پالا پوسا اور اپنی زندگی اور ساری خوشیاں اس کے لیے وقف کردی تھیں۔ وہ بیمار ہوئی اور میرے ہاتھوں میں مرگئی۔ میں اکیلا رہ گیا۔ تمہیں دیکھا تو شک ہوا کہ جیسے میری بہن مجھے مل گئی ہے اگر تم اپنے آپ کو جوان اور خوبصورت لڑکی سمجھتی ہو اور میری نیت پر شک ہے تو اس کا یہی علاج ہے کہ میں تم میں ایسی دلچسپی کا اظہار نہیں کروں گا جو اب تک کیا ہے۔ تمہارے بھائی میں پوری دلچسپی لیتا رہوں گا، اسے ٹھیک کرنا میرا فرض ہے''۔

شارجا رات دیر سے وہاں سے واپس آئی، جراح اس کے ساتھ تھا۔ لڑکی کے شکوک رفع ہوچکے تھے۔ دوسرے دن جراح زخمی کو دیکھنے آیا۔ اس نے شارجا کے ساتھ کوئی بات نہ کی۔ وہ جانے لگا تو شارجا نے باہر جاکر اسے روک لیا، وہ رو رہی تھی۔ اسے ڈر تھا کہ جراح اس سے ناراض ہوکر چلا گیا ہے۔ جراح نے اسے بتایا کہ وہ ناراض نہیں لیکن وہ اسے کسی اور شک میں نہیں ڈالنا چاہتا… رات کو جب زخمی سو گیا تو شارجا وہاں سے نکل گئی اور جراح کے گھر چلی گئی۔یہ اس کی بیتابی تھی جس پر وہ قابو نہ پاسکی۔ بہت دیر تک جراح کے پاس رہی۔ اس کے ذہن میں کچھ گانٹھیں پڑی ہوئی تھیں جنہیں وہ کھولنا چاہتی تھی۔ اس نے جراح سے پوچھا… ''کیا خلیفہ خدا کے بھیجے ہوئے ہوتے ہیں؟''

''خلیفہ انسان ہوتا ہے''۔ جراح نے جواب دیا… ''خدا کے بھیجے ہوئے نبی اور پیغمبر تھے، یہ سلسلہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ختم ہوگیا ہے''۔

''صلاح الدین ایوبی خدا کا بھیجا ہوا ہے؟'' لڑکی نے پوچھا۔

''نہیں''۔ جراح نے جواب دیا… ''وہ بھی انسان ہے لیکن عام انسانوں سے اس کا رتبہ بلند ہے کیونکہ وہ خدا اور خدا کے بھیجے ہوئے آخری رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عظیم پیغام کو دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچانا چاہتا ہے''۔

ایسے اور بہت سے سوال تھے جو شارجا نے پوچھے اور جراح نے اس کے شکوک رفع کیے، اس نے کہ …''پھر میرا بھائی بہت بڑا گناہ گار ہے اگر اسے کوئی یہ باتیں بتا دیتا جو آپ نے مجھے بتائی ہیں تو وہ اس گناہ سے بچا رہتا۔ اب تو اس کی جاں بخشی نہیں ہوگی''۔

''ہوجائے گی'' جراح نے اسے بتایا… ''اگر صلاح الدین ایوبی نے کہہ دیا ہے کہ اسے زندہ رکھنے کی کوشش کرو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے سزا نہیں دی جائے گی۔ اسے چاہیے کہ گناہوں سے توبہ کرلے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ اسے کوئی سزا نہیں دی جائے گی''۔

''میں ساری عمر صلاح الدین ایوبی کی اور آپ کی خدمت میں گزار دوں گی''۔شارجا نے روتے ہوئے کہا… ''اور میرا بھائی آپ سب کا غلام رہے گا''… وہ جذباتی ہوگئی۔ اس نے جراح کے ہاتھ پکڑ کر کہا… ''آپ مجھ سے جو قیمت وصول کرنا چاہیں میں دوں گی۔ آپ مجھے اپنی لونڈی بنا لیں، اس کے عوض میرے بھائی کو ٹھیک کردیں اور اسے سزا سے بچالیں''۔

''قیمت اللہ سے وصول کی جاتی ہے''۔ جراح نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا… ''بھائی کے گناہ کی سزا بہن کو نہیں دی جائے گی اور بھائی کی صحت کی قیمت بہن سے وصول نہیں کی جائے گی۔ سب کا پاسبان اللہ ہے۔ اس کی ذات باری نے مجھے تمہاری عصمت کی پاسبانی اور تمہارے بھائی کی صحت کی ذمہ داری سونپی ہے۔ دعا کروکہ میں اس امانت میں خیانت نہ کروں۔ بہن کی دعا عرش کو بھی ہلا دیا کرتی ہے۔ دعا کرو… دعا کرو… اس خدا کی عظمت کو یاد رکھو جس کے خلاف تمہیں گمراہ کیا جارہا ہے''۔

جراح نے اس لڑکی پر طلسم طاری کردیا، ایک تو باتیں ہی ایسی تھیں جو جراح نے اسے بتائی تھیں۔ تاثر تو جراح کے سلوک نے پیدا کیا تھا۔ جراح کے متعلق تو اسے کچھ اور ہی شک ہوگیا تھا لیکن وہ کچھ اور نکلا۔ اسے جیسے احساس ہی نہیں تھا کہ ایسی تنہائی میں اور رات کے وقت اتنی حسین اور جوان لڑکی اس کے رحم وکرم پر ہے… رات آدھی گزر گئی تھی، جراح نے اسے کہا… ''اٹھو تمہیں وہاں تک چھوڑ آئوں اور تمہارے بھائی کو بھی دیکھ آئوں''۔

دونوں گھر سے نکلے اور آہستہ آہستہ چل پڑے۔ رات تاریک تھی، وہ دونوں مکان کے پچھواڑوں کے درمیان سے گزر رہے تھے۔ یہ چھوٹی سی ایک گلی تھی جس میں گزرتے ہی وہ مکان آجاتا تھا جہاں زخمی حشیش قید میں پڑا تھا اور اس کے دروازے پر سنتری کھڑا رہتا تھا وہ دونوں اس گلی میں داخل ہوئے ہی تھے کہ پیچھے سے دونوں کو مضبوط بازوئوں میں جکڑ لیا گیا۔ دونوں کے منہ کپڑوں میں بندھ گئے۔ ان کی آواز بھی نہ نکل سکی، جراح جسمانی لحاذ سے کمزور نہیں تھا مگر وہ بے خبری میں جکڑا گیا تھا۔ حملہ آور چار پانچ معلوم ہوتے تھے۔ انہوں نے دونوں کو اٹھا لیا اور تاریکی میں غائب ہوگئے۔ کچھ دور گھوڑے کھڑے تھے۔ جراح کے ہاتھ پائوں رسیوں سے باندھ دیئے گئے اور اسے گھوڑے پر ڈال کر ایک آدمی

گھوڑے پر سوار ہوگیا۔ اسے کسی کی آواز سنائی دی جو شارجا سے مخاطب تھی… ''شور نہ کرنا شارجا! تمہارا کام ہوگیا ہے۔ گھوڑے پر سوار ہو جائو۔ یہ تمہارے لیے لائے ہیں''۔

شارجا کے منہ سے کپڑا اتار دیا گیا تھا، جراح کو اس کی آواز سنائی دی… ''اسے چھوڑ دو، اس کا کوئی قصور نہیں، یہ بہت اچھا آدمی ہے''۔

''اس کی تو ہمیں ضرورت ہے'' کسی نے کہا۔

''شارجا!''… کسی نے حکم کے لہجے میں کہا… 'خاموشی سے اپنے گھوڑے پر سوار ہوجائو''۔

''اوہ!'' شارجا کی آواز سنائی دی۔ ''یہ تم ہو؟''

''سوار ہوجائو'' کسی نے پھر حکم دیا۔ ''وقت ضائع نہ کرو''۔

اور گھوڑے سرپٹ دوڑ پڑے۔ ذرا سی دیر میں قاہرہ سے نکل گئے۔ شارجا نہایت اچھی سوار تھی۔

٭ ٭ ٭

صبح سنتری بدلنے کا وقت ہوا، نیا سنتری آیا تو رات والا سنتری وہاں نہیں تھا۔ اس نے اندر جاکے دیکھا تو وہاں زخمی سویا ہوا تھا۔ اس کے اوپر کمبل پڑا ہوا تھا، اس کا منہ بھی ڈھکا ہوا تھا۔ نیا سنتری باہر والے دروازے پر جاکر کھڑا ہوگیا۔ اسے معلوم تھا کہ ابھی جراح زخمی کو دیکھنے آئے گا اور علی بن سفیان بھی آئے گا۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ زخمی کی بہن زخمی کے ساتھ رہتی ہے اور اس کے سوا اندر جانے کی کسی کو اجازت نہیں مگر بہن بھی اسے کہیں نظر نہیں آئی تھی۔ سورج طلوع ہوا تو علی بن سفیان آیا۔ اس نے سنتری سے پوچھا کہ جراح آچکا ہے یا زخمی کو دیکھ کر چلا گیا ہے؟ سنتری نے اسے بتایا کہ جراح نہیں آیا۔ پہلا سنتری یہاں نہیں تھا اور اندر زخمی کی بہن بھی نہیں ہے۔ علی بن سفیان یہ سوچ کر اندر گیا کہ زخمی کی تکلیف بڑھ گئی ہوگی اور اس کی بہن جراح کو بلانے چلی گئی ہوگی۔ علی بن سفیان کے لیے ہی نہیں، یہ زخمی سلطنت اسلامیہ کے لیے مصر جتنا قیمتی تھا۔ اس کے صحت یاب ہونے کا انتظار تھا اور ایک بڑی خطرناک سازش کے بے نقاب ہونے کی توقع تھی۔

وہ تیزی سے اندر گیا، زخمی کے سر سے پائوں تک کمبل پڑا تھا۔ علی بن سفیان کو تازہ خون کی بو محسوس ہوئی۔ اس نے زخمی کے منہ سے کمبل ہٹایا تو یوں بدک کر پیچھے ہٹ گیا جیسے وہ زخمی نہیں اژدہا تھا۔ اس نے وہیں سے باہر کھڑے سنتری کو آواز دی۔ سنتری دوڑتا ہوا اندر گیا۔ علی بن سفیان نے اسے زخمی کا چہرہ دکھاتے ہوئے پوچھا… ''یہ رات والا سنتری تو نہیں؟''… نئے سنتری نے چہرہ دیکھ کر حیرت اور گھبراہٹ سے بوجھل آواز میں کہا… ''یہی تھا، یہ اس بستر میں کیوں سویا ہوا ہے حضور؟ … زخمی کہاں ہے؟''

''یہ سویا ہوا نہیں''۔ علی بن سفیان نے اسے کہا… ''مرا ہوا ہے''۔

اس نے کمبل اٹھا کر پرے پھینک دیا۔ بستر خون سے لال تھا۔ وہ زخمی حشیش نہیں بلکہ رات والے سنتری کی لاش تھی۔ علی بن سفیان نے دیکھا، لاش کے دل کے قریب خنجر کے دو زخم تھے۔ زخمی حشیش غائب تھا۔ علی بن سفیان نے کمرے میں، صحن میں اور باہر زمین کو غور سے دیکھا۔ کہیں خون کا قطرہ بھی نظر نہ آیا۔ اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ سنتری کو زندہ اٹھا کر اندر لایا گیا اور بستر پر لٹا کر اس کے دل میں خنجر مارے گئے۔ اسے تڑپنے نہیں دیا گیا ورنہ خون کے چھینٹے بکھرے ہوئے ہوتے۔ وہ مر گیا تو اس پر کمبل ڈال دیا گیا اور قاتل زخمی قیدی کو اٹھا کر لے گئے اور اس کی بہن کو بھی لے گئے۔ صاف ظاہر تھا کہ زخمی کی بہن نے زخمی کے فرار میں مدد دی ہے۔ وہ جوان اور حسین لڑکی تھی۔ اس نے سنتری کو پھانس لیا

ہوگا۔ اسے اندر لے گئی ہوگی، لڑکی کے ساتھیوں نے سنتری کو بے خبری میں پکڑ لیا ہوگا علی بن سفیان کو اپنی اس غلطی پر تاسف ہوا کہ اس نے زخمی کے چار ساتھیوں کو زخمی سے ملنے کی اجازت دی تھی۔ انہوں نے بتایا تھا کہ وہ زخمی کے چچا زاد اور تایا زاد بھائی ہیں۔ وہ اندر آکر دیکھ گئے تھے کہ یہاں کے حفاظتی اقدامات کیا ہیں۔ اسے بہن کو بھی یہاں رہنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے تھی۔ اس نے یہ بھی یقین نہیں کیا تھا کہ یہ لڑکی زخمی کی بہن تھی یا اس گروہ کی فرد تھی۔

علی بن سفیان کو غصہ آیا اور وہ اپنی بھول پر پچھتایا بھی لیکن اس نے دل ہی دل میں زخمی اور اس کے ساتھیوں کے اتنے کامیاب فرار کو سراہا۔ علی بن سفیان جیسے سراغ رساں کو دھوکہ دینا آسان نہیں تھا۔ وہ لوگ اسے بھی جل دے گئے تھے۔ اس نے نئے سنتری سے کچھ باتیں پوچھیں تو اس نے بتایا کہ اس سے پہلے وہ رات کو بھی پہرے پر کھڑا رہ چکا ہے۔ اس نے لڑکی کو جراح کے ساتھ اس کے گھر جاتے اور رات بہت دیر بعد دونوں کو واپس آتے دیکھا تھا۔ اس سے علی بن سفیان کو شک ہوا کہ لڑکی نے جراح کو بھی اپنے حسن وجوانی کے زیر اثر کرلیا تھا۔ علی نے سنتری سے کہا کہ دوڑ کر جائے اور جراح کو بلا لائے۔ سنتری کے جانے کے بعد وہ سراغ ڈھونڈنے لگا۔ باہر گیا۔ زمین دیکھی۔ اسے پائوں کے نشان نظر آئے لیکن نشان اس کی مدد نہیں کرسکتے۔ زخمی شہر میں تو روپوش نہیں ہوسکتا تھا۔ ایک ہی طریقہ رہ گیا تھا، زخمی کے گائوں پر جہاں سے اس کی بہن کو لایا گیا تھا، چھاپہ مارا جائے۔ وہ گائوں بہت دور تھا۔

سنتری نے واپس آکر بتایا کہ جراح گھر نہیں ہے۔ علی بن سفیان اس کے گھر گیا۔ اس کے ملازم نے بتایا کہ جراح رات بہت دیر بعد ایک لڑکی کے ساتھ باہر نکلا تھا، پھر واپس نہیں آیا۔ اس لڑکی کے متعلق اس اس نے بتایا کہ پہلے بھی جراح کے ساتھ آچکی ہے اور دونوں بہت دیر تک اندر بیٹھے رہے تھے۔ علی بن سفیان کو یقین ہوگیا کہ جراح بھی زخمی کے فرار میں شریک ہے اور یہ لڑکی کے حسن کے جادو کا کمال ہے۔ علی نے اپنے محکمے کے سراغ رسانوں کو بلایا اور انہیں فرار کے متعلق بتایا۔ وہ سب ادھر ادھر بکھر گئے۔ ایک جگہ انہیں بہت سے گھوڑوں کے کھروں کے نشان نظر آئے۔ اردگرد کے رہنے والوں میں سے تین چار آدمیوں نے بتایا کہ رات انہوں نے بہت سے گھوڑے دوڑنے کی آوازیں سنی تھیں ۔ سراغ رساں کھروں کو دیکھتے شہر سے نکل گئے مگر آگے جانا بے کار تھا۔ رات کے بھاگے ہوئے گھوڑوں کو اب کھرے دیکھ دیکھ کر پکڑنا کسی پہلو ممکن نہیں تھا۔ انہیں صرف اتنا اتنا پتا چلا کہ مفرور اس سمت کو گئے ہیں۔ علی بن سفیان کے کرنے کا کام اب یہی رہ گیا تھا کہ قائم مقام امیر مصر تقی الدین کو اطلاع دے دے کہ زخمی حشیش کو اس کے ساتھی اغوا کر کے لے گئے ہیں۔ اسے یہ خیال بھی آیا کہ زخمی نے راز کی جو باتیں بتائی تھیں وہ بے بنیاد تھیں اور اس نے اپنی جان بچانے اور فرار کا موقعہ پیدا کرنے کے یے یہ چال چلی تھی۔ وہ سلطان صلاح الدین ایوبی کو بھی علی بن سفیان کو بھی الو بنا گیا تھا۔

آدھا دن گزر گیا تھا جب علی بن سفیان تقی الدین کو اطلاع دینے کے لیے چلا گیا۔ اس وقت اس کا زخمی قیدی جو کھڑا ہونے کے بھی قابل نہیں تھا، وہ قاہرہ سے بہت دور ایک ویرانے میں پہنچ چکا تھا مگر وہ زندہ نہیں تھا۔ جراح کے ہاتھ پائوں بندھے ہوئے تھے اور وہ ایک گھوڑے پر بے جان چیز کی طرح پڑا تھا۔ اس کی ٹانگیں گھوڑے کے ایک طرف اوپر کا دھڑ اور بازو دوسری طرف تھے۔ رات بھر وہ اسی حالت میں رہا تھا۔ صبح کا اجالا صاف نہیں ہوا تھا جب گھوڑے رکے۔ جراح کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی۔ اسے پٹی باندھنے والا آدمی نظر نہ آسکا کیونکہ اس کا سر نیچے تھا۔ پٹی بندھ جانے کے بعد اس کے پائوں کھول دیئے گئے اور اسے گھوڑے پر بٹھا دیا گیا۔ اس کے ہاتھ بندھے رہے۔ اس کے پیچھے ایک آدمی گھوڑے پر سوار ہوگیا اور گھوڑے ذرا سے آرام کے بعد پھر چل پڑے۔ اسے اتنا ہی پتا چل سکتا تھا کہ اس کے پیچھے چند اورگھوڑے آرہے ہیں اور سوار آہستہ آہستہ باتیں کررہے ہیں…

گھوڑے چلتے گئے اور سورج اوپر اٹھتا گیا پھر جراح نے محسوس کیا کہ گھوڑا چڑھائی چڑھ رہا ہے۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر دائیں بائیں مڑ رہا ہے۔ یہ نیچے اتر رہا ہے۔ اس سے وہ اندازہ کررہا تھا کہ یہ علاقہ ٹیلوں اور کھائیوں کا ہے۔

بہت دیر بعد جب سورج سر پر آگیا تھا، اسے پیچھے سے بلند آوازیں سنائی دیں جن سے اسے پتا چلا کہ کوئی سوار گر پڑا ہے۔ اس کا گھوڑا رک گیا اور پیچھے کو مڑا۔ اسے اس طرح کی آوازیں سنائی دیں… ''اٹھا لو… سائے میں لے چلو، بے ہوش ہوگیا ہے، اوہ خدایا اس کا خون بہہ رہا ہے''… اسے شارجا کی گھبرائی ہوئی آواز سنائی دی… جراح کی آنکھیں اور ہاتھ کھول دو۔ وہ خون روک لے گا ورنہ میرا بھائی مر جائے'' … یہ زخمی حشیش تھا جو گھوڑے سے گر پڑا تھا۔ رات بھر کی گھوڑ سواری سے اور گھوڑا اتنی تیز بھگانے سے اس کے پیٹ کا زخم کھل گیا تھا اور ران کے زخم سے بھی خون جاری ہوگیا تھا۔ وہ درد کو برداشت کرتا رہا تھا، خون نکلتا رہا۔ آخر یہاں آکر خون اتنا نکل گیا کہ اس پر غشی طاری ہوگئی اور وہ گھوڑے سے گر پڑا۔ اسے اٹھا کر ایک ٹیلے کے سائے میں لے گئے اس کے منہ میں پانی ڈالا لیکن پانی حلق سے نیچے نہ گیا۔ اس کے کپڑے خون سے تر ہوگئے تھے۔

جراح کی آنکھیں کھول دی گئی اور اسے کہا گیا کہ وہ ادھر ادھر نہ دیکھے۔ اس نے اپنی پیٹھ میں خنجر کی نوک محسوس کی۔ وہ آگے آگے چل پڑا۔ ٹیلے کے دامن میں زخمی پڑا تھا اور شارجا اس کے پاس بیٹھی تھی۔ اس نے جراح سے کہا… ''خدا کے لیے میرے بھائی کو بچائو''… جراح نے سب سے پہلے زخمی کی نبض پر ہاتھ رکھا۔ اس کے لیے حکم تھا کہ وہ ادھر ادھر نہ دیکھے۔ وہ بیٹھ گیا تھا اور زخمی کی نبض دیکھ رہا تھا۔ اس کی پیٹھ میں خنجر کی نوک چبھ رہی تھی، زخمی کی نبض محسوس کرکے وہ تیزی سے اٹھا اور پیچھے کو مڑا، اس کے سامنے چار آدمی کھڑے تھے جن کے چہرے سیاہ نقابوں میں تھے۔ ان کی صرف آنکھیں نظر آتی تھیں۔ ان میں سے ایک کے ہاتھ میں خنجر تھا۔ جراح نے غصے سے کہا… ''تم سب پر اللہ کی لعنت برسے۔ تم نے اسے بچانے کے بجائے اس کی جان لے لی ہے۔ تم سب اس کے قاتل ہو۔ یہ مر چکا ہے۔ ہم نے اسے چارپائی سے ہلنے بھی نہیں دیا تھا اور تم اسے گھوڑے پر بٹھا کر لائے۔ اس کے زخم کھل گئے اور جسم کا تمام خون ضائع ہوگیا'۔

شارجا بھائی کی لاش پر گر پڑی اور چیخیں مار مار کر ر ونے لگی۔ نقاب پوشوں نے جراح کو شارجا کے رونے اور چلانے کی جگر سوز آوازیں سنائی دیتی رہیں۔ جراح کے گھوڑے پر جو سوار تھا اس سے جراح نے کہا کہ یہ زخمی بالکل ٹھیک ہوسکتا تھا مگر تم لوگوں نے اسے مار دیا۔ اسے کوئی سزا نہ ملتی، سوار نے کہا… ''ہم اسے زندہ رکھنے کے لیے نہیں لائے تھے، ہم نے دراصل وہ راز اغوا کیا ہے جو اس کے پاس تھا۔ اس کے مرنے کا ہمیں کوئی غم نہیں، ہم خوش ہیں کہ تم اور تمہاری حکومت اس راز سے بے خبر ہے جو اس کے سینے میں تھا''۔

''مجھے تم لوگ کس جرم کی سزا دے رہے ہو؟'' جراح نے پوچھا۔

''ہم تمہیں پیغمبروں کی طرح رکھیں گے''۔ سوار نے جواب دیا… ''تمہیں گرم ہوا بھی نہیں لگنے دی جائے گی۔ ہم تمہیں اس لیے لائے تھے کہ راستے میں زخمی کو تکلیف ہوگئی تو اس کی مرہم پٹی کرو گے مگر ہم نے یہ نہیں سوچا کہ تمہارے پاس نہ کوئی دوائی ہے نہ مرہم۔ تمہیں اغواء کی دوسری وجہ یہ تھی کہ ہم اس لڑکی کو بھی ساتھ لانا چاہتے تھے۔ ہم اسے ہی لاتے تو تم جو اس کے ساتھ تھے ہمارے تعاقب میں پوری فوج بھگا دیتے۔ اس لیے تمہیں بھی اٹھا لانا ضروری تھا۔ تیسری وجہ یہ

ہے کہ ہمیں ایک جراح کی ضرورت ہے۔ تمہیں ہم اپنے ساتھ رکھیں گے''۔

''میں ایسے کسی آدمی کا علاج نہیں کروں گا جو میری حکومت کے خلاف ہوگا''… جراح نے کہا… ''تم سب صلیبیوں اور سوڈانیوں اور فاطمیوں کے دوست ہو اور ان کے اشاروں پر سلطنت اسلامیہ کے خلاف تخریب کاری کررہے ہو، میں تمہارے کسی کام نہ آسکوں گا''۔

''پھر تم قتل ہوجائو گے''۔ سوار نے کہا۔

''یہ میرے لیے بہتر ہوگا''۔ جراح نے جواب دیا۔

''پھر ہم تمہارے ساتھ وہ سلوک کریں گے جو تمہارے لیے بہتر نہیں ہوگا''… سوار نے جواب دیا… ''پھر تم ہمارا ہر حکم مانو گے لیکن میں تمہیں یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ برے سلوک کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔ تم نے صلاح الدین ایوبی کی بادشاہی دیکھی ہے۔ ہماری بادشاہی دیکھو گے تو اپنی زبان سے کہو گے کہ میں یہیں رہنا چاہتا ہوں، یہ تو جنت ہے اگر تم نے ہماری جنت کو ٹھکرا دیا تو ہم تمہیں اپنا جہنم دکھائیں گے''۔

گھوڑے چلتے رہے، جراح آنکھوں پر بندھی ہوئی پٹی کے اندھیرے میں اپنے مستقبل کو دیکھنے کی کوشش کرتا رہا۔ وہ فرار کی ترکیبیں بھی سوچتا رہا۔ اسے باربار شارجا کا خیال آتا مگر وہ یہ سوچ کر مایوس ہوجاتا تھا کہ یہ لڑکی بھی اسی گروہ کی ہے وہ اس کی مدد نہیں کرے گی۔

٭ ٭ ٭

ان کا سفر اتنا لمبا نہیں تھا لیکن سرحدی دستوں اور ان کے گشتی سنتریوں کے ڈر سے مجرموں کا یہ قافلہ بچ بچ کر، چھپ چھپ کر اور بڑی دور کا چکر کاٹ کر جارہا تھا۔ شام کے بعد بھی یہ قافلہ چلتا رہا اور رات گزرتی رہی۔ آدھی رات سے ذرا پہلے قافلہ رک گیا۔ جراح کو گھوڑے سے اتار کر اس کے ہاتھ کھول دئیے اور چونکہ اندھیرا تھا اس لیے اس کی آنکھوں سے پٹی بھی کھول دی گئی۔ اسے کھانے کو کچھ دیا گیا، پانی بھی پلایا گیا۔ اس کے بعد اس کے ہاتھ بھی باندھ دیئے گئے اور پائوں بھی اور اسے سوجانے کو کہا گیا۔ سوار تھکے ہوئے تھے، اس سے ایک رات پہلے کے جاگے ہوئے تھے۔ لیٹے اور سوگئے۔ گھوڑوں کو زینیں اتار کر ذرا پرے باندھ دیا گیا تھا۔ جراح کے بھاگنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ وہ بندھا ہوا تھا وہ بھی سوگیا۔

کچھ دیر بعد اس کی آنکھ کھل گئی وہ سمجھا کہ اسے روانگی کے لیے جگایا جارہا ہے لیکن کوئی اس کے پائوں کی رسی کھول رہا تھا۔ وہ چپ چاپ پڑا رہا۔ وہ مرنے کے لیے بھی تیار ہوگیا، اسے یہ بھی توقع تھی کہ اسے قتل کرکے پھینک جائیں گے لیکن پائوں کی رسی کھلنے کے بعد جب یہ سایہ اس کے ہاتھوں کی رسی کھولنے لگا تو اس نے جھک کر جراح کے کان میں کہا… ''میں نے دو گھوڑوں پر زینیں کس دی ہیں، خاموشی سے میرے پیچھے آئو، میں تمہارے ساتھ چلوں گی۔ وہ بے ہوشی کی نیند سوئے ہوئے ہیں''… یہ شارجا کی آواز تھی۔

جراح آہستہ سے اٹھا اور شارجا کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔ ریت پر پائوں کی آہٹ پیدا ہی نہیں ہوتی تھی۔ آگے دو گھوڑے کھڑے تھے۔ ایک پر شارجا سوار ہوگئی، دوسرے پر جراح سوار ہوگیا۔ شارجا نے کہا…'' اگر تم اچھے سوار نہیں ہو تو ڈرنا نہیں، گروگے نہیں ایڑی لگائو اور لگام ڈھیلی چھوڑ دو۔ گھوڑے دائیں کو دائیں بائیں موڑنا تو جانتے ہوگے''… جراح نے جواب دیئے بغیر گھوڑے کو ایڑی لگائی۔ شارجہ کا گھوڑا بھی اس کے ساتھ ہی دوڑا۔ دوڑتے گھوڑے سے شارجا نے کہا…''میرے پیچھے رہو۔ میں راستہ جانتی ہوں۔ اندھیرے میں مجھ سے الگ نہ ہوجانا''۔

سرپٹ بھاگتے گھوڑوں نے مجرموں کو جگا دیا لیکن تعاقب آسان نہیں تھا۔ انہیں پہلے تو دیکھنا تھا کہ یہ کس کے گھوڑے ہیں، انہیں شارجا کے بھاگنے کا خطرہ ہی نہیں تھا۔ کچھ وقت دیکھنے میں لگ گیا ہوگیا کہ وہ کون تھے اور ذرا دیر بعد ہی انہیں پتا چلا ہوگا کہ شارجا اور جراح بھاگ گئے ہیں۔ پھر انہیں اپنے گھوڑوں پر زینیں ڈالنی تھیں۔ اس میں اتنا وقت صرف ہوگیا ہوگا کہ بھاگنے والے دو اڑھائی میل دور نکل گئے ہوں گے… شارجا اور جراح نے باربار پیچھے دیکھا، آوازیں سننے کی بھی کوشش کی۔ انہیں یقین سا ہورہا تھا کہ ان کے تعاقب میں کوئی نہیں آرہا۔ وہ ابھی گھوڑوں کی رفتار کم کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے تھے۔ اس لیے ایڑی لگاتے چلے گئے۔ آخر وہ حد آگئی جہاں گھوڑے خود ہی آہستہ ہونے لگے لیکن وہ بہت دور نکل گئے تھے۔ جراح نے شارجا سے کہا کہ یہاں کہیں نہ کہیں کوئی سرحدی دستہ ہونا چاہیے مگر اسے معلوم نہیں تھا کہ کہاں ہوگا۔ شارجا کو بھی معلوم نہیں تھا اس نے جراح کو بتایا کہ وہ ان دستوں سے بچنے کے لیے دور کے راستے سے گئے تھے ورنہ اس کا گائوں دور نہیں تھا۔ اس نے اسے یہ یقین دلایا کہ وہ قاہرہ کی صحیح سمت کو جارہے ہیں اور قاہرہ دور نہیں۔

اگلا دن آدھا گزر گیا تھا جب علی بن سفیان قائم مقام امیر مصر تقی الدین کے سامنے بیٹھا تھا۔ تقی الدین کہہ رہا تھا… ''میں اس پر حیران نہیں کہ آپ جیسے تجربہ کار حاکم نے یہ غلطی کی تھی کہ مشکوک لڑکی کو زخمی قیدی کے پاس رہنے کی اجازت دے دی اور چار مشکوک افراد کو بھی زخمی کے پاس لے گئے۔ میں اس پر حیران ہوں کہ یہ گروہ اتنا زیادہ دلیر اور منظم ہے۔ زخمی کو اٹھالے جانا، سنتری کو قتل کرکے زخمی کے بستر پر ڈال جانا، دلیرانہ اقدام بھی ہے اور یہ ایک منظم جرم ہے''۔

''میرا خیال ہے کہ اس جرم کو جراح اور لڑکی نے آسان بنایا ہے''۔ علی بن سفیان نے کہا… ''اس جرم میں بھی ہماری قوم کی اسی کمزوری نے کام کیا ہے جس کے متعلق صلاح الدین ایوبی پریشان رہتے ہیں اور کہا کرتے ہیں کہ عورت اور اقتدار کا نشہ ملت اسلامیہ کو لے ڈوبے گا۔ جراح کو میں نیک اور صاحب کردار سمجھتا تھا مگر ایک لڑکی نے اسے بھی اندھا کردیا۔ بہرحال زخمی قیدی کے گائوں کا پتا چل گیا ہے میں نے ایک دستہ روانہ کردیا ہے''۔

''اور جنوب مغربی علاقے کے جس کھنڈر کا زخمی قیدی نے ذکر کیا تھا اس کے متعلق آپ کیا کرنا چاہتے ہیں؟'' تقی الدین نے پوچھا۔

''مجھے شک ہے کہ اس نے جھوٹ بولا تھا''… علی بن سفیان نے جواب دیا۔ ''اس نے اپنی جان بچانے کے لیے یہ بے بنیاد قصہ گھڑا تھا، تاہم اس علاقے کی سراغ رسانی کی جائے گی''۔

وہ اسی مسئلے پر باتیں کررہے تھے کہ دربان نے اندر آکر ایسی اطلاع دی جس نے دونوں کو سن کردیا۔ انہوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، ایسے معلوم ہوتا تھا جیسے ان کی زبانیں بولنے سے معذور ہوگئی ہوں۔ علی بن سفیان اٹھا اور یہ کہہ کر باہر نکل گیا۔ ''کوئی اور ہوگا''… اس کے پیچھے تقی الدین بھی باہر نکل گیا مگر وہ کوئی اور نہیں ان کا اپنا جراح ان کے سامنے کھڑا تھا اور اس کے ساتھ زخمی قیدی کی بہن شارجا تھی۔ ان کے گھوڑے بری طرح ہانپ رہے تھے، جراح اور شارجا کے چہرے اور سر گرد سے اٹے ہوئے تھے۔ ہونٹ خشک اور منہ کھلے ہوئے تھے۔ علی بن سفیان نے ذرا غصے سے پوچھا… ''قیدی کو کہاں چھوڑ آئے؟''… جراح نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ ہمیں ذرا دم لینے دو۔ دونوں کو اندر لے گئے۔ ان کے لیے پانی اور کھانا وغیرہ منگوایا گیا۔

جراح نے تفصیل سے بتایا کہ وہ کس طرح اغوا ہوا تھا اور سفر میں زخمی قیدی مرگیا ہے۔ اسے بالکل علم نہیں تھا کہ

زخمی قیدی کو بھی اغوا کیا گیا ہے۔ یہ اسے اگلے روز سفر میں پتا چلا جب زخمی گھوڑے سے گرا اور زخم کھل جانے کی وجہ سے مرگیا۔ جراح کو جس طرح شارجا نے آزاد کرایا اور اس کے ساتھ بھاگی وہ بھی تفصیل سے سنایا… شارجا نے اپنا بیان دیا تو علی بن سفیان جان گیا کہ یہ صحرائی لڑکی ہے، اجڈ اور دلیر ہے اور یہ اتنی چالاک نہیں جتنا سمجھا گیا تھا۔ اس نے بتایا کہ وہ اپنے بھائی کے سہارے اور اسی کی خاطر زندہ تھی۔ اس بھائی کی خاطر وہ جان دینے کے لیے بھی تیار رہتی تھی۔ جراح نے جس خلوص سے اس کے بھائی کا علاج کیا اس سے وہ اتنی متاثر ہوئی کہ اس کی مرید بن گئی۔ جراح کو وہ فرشتہ سمجھنے لگی۔ پہلے روز اس کے ساتھ جو چار آدمی آئے تھے وہ اس کے کچھ نہیں لگتے تھے۔ وہ اس کے چچا اور تایا زاد بھائی نہیں تھے۔ وہ اسی گروہ کے آدمی ہیں جو صلاح الدین ایوبی کو اور اس کے اعلیٰ حاکموں کو قتل کرنا چاہتا ہے۔ جب علی بن سفیان کے آدمی شارجا کے گائوں اسے ساتھ لانے گئے تھے اس وقت یہ چاروں آدمی گائوں میں تھے۔ انہیں پتا چلا کہ شارجا کا بھائی زخمی ہوکر قید ہوگیا ہے تو وہ اس ارادے سے ساتھ چل پڑے کہ زخمی کو اغوا کریں گے۔ انہیں ڈر یہ تھا کہ زخمی کے پاس جو راز ہے وہ فاش نہ ہو۔ وہ جانتے تھے کہ زخمی کہاں اور کس کارروائی میں زخمی ہوا ہے۔

شارجا کے بیان کے مطابق اس کا ارادہ بھی یہی تھا کہ بھائی کو اغوا کرائے گی۔ اس نے بھائی کے پاس رہنے کی جو التجا کی تھی اس سے اس کے دو مقصد تھے۔ ایک یہ کہ بھائی کی خدمت اور دیکھ بھال کرے گی اور دوسرا یہ کہ موقع ملا تو اسے اغوا کرائے گی۔ وہ چاروں آدمی زخمی سے مل کر واپس نہیں گئے بلکہ قاہرہ میں ہی رہے تھے۔ وہ شارجا کے اشارے کے منتظر تھے لیکن جراح نے لڑکی کو اتنا متاثر کیا کہ اس کی سوچ ہی بدل گئی۔ جراح نے اسے یقین دلایا کہ اس کے بھائی کو کوئی سزا نہیں ملے گئی۔ اس کے علاوہ جواح نے اسے ایسی باتیں بتائیں جو اس نے پہلے کبھی نہیں سنی تھیں۔ جراح نے اس کے اندر اسلام کی عظمت بیدار کردی تھی اور اعلیٰ کردار کا مظاہرہ کرکے اسے اپنا مرید بنا لیا تھا۔ وہ ہر وقت جراح کے پاس بیٹھ کر اس کی باتیں سننے کے لیے بیتاب رہنے لگی۔ ایک روز وہ جراح کے گھر جارہی تھی تو اسے ان چاروں میں سے ایک آدمی راستے میں مل گیا۔ اس نے شارجہ سے کہا کہ زخمی کے اغوا میں اب دیر نہیں ہونی چاہیے۔ شارجا نے اسے کہا کہ وہ ارادہ بدل چکی ہے۔ اس کا بھائی یہیں رہے گا۔ اس آدمی نے شارجا سے کہا کہ اگر اس نے شہر میں آکر اپنا دماغ خراب کرلیا ہے تو اسے قتل کردیا جائے گا۔ زخمی یہاں نہیں رہے گا۔

شارجا کو توقع تھی کہ یہ چاروں اتنی دلیری سے اس کے بھائی کو اغوا کرلیں گے۔ اس نے انہیں فیصلہ سنا دیا کہ وہ ان کی کوئی مدد نہیں کرے گی۔ اس آدمی نے اسے کہا… ''ہم تمہاری ہر ایک حرکت کو دیکھ رہے ہیں۔ ہم سمجھ رہے تھے کہ تم نے جراح کو پھانس لیا ہے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ تم خود اس کے جال میں پھنس گئی ہو۔''

شارجا نے اسے دھتکار دیا۔ اسے چونکہ توقع نہیں تھی کہ وہ لوگ اتنی دلیری کا مظاہرہ کرسکیں گے۔ اس لیے اس نے جراح کے ساتھ بھی ذکر نہ کیا کہ اس کے زخمی بھائی کے اغواء کا خطرہ ہے۔ اسی رات شارجا اور جراح ان چاروں کے چنگل میں آگئے۔ انہیں جب گھوڑوں پر سوار کرانے کے لیے اٹھالے گئے تو اس نے دیکھا کہ ایک گھوڑے پر اس کا زخمی بھائی بیٹھا تھا۔ اس وقت وہ کچھ خوش ہوئی کہ اس کا بھائی آزاد ہوگیا ہے۔ وہ فرار پر آمادہ ہوگئی لیکن جراح کو ان لوگوں کی قید میں نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔ اس نے انہیں کہا بھی کہ اسے چھوڑ دو لیکن وہ نہ مانے۔ اس کے ہاتھ اور پائوں باندھ کر گھوڑے پر ڈال لیا۔ راستے میں شارجا کو بتایا گیا کہ اس کے بھائی کو کس طرح اغواء کیا گیا ہے۔ وہاں صرف دو آدمی گئے تھے۔ ایک نے سنتری سے کہیں کا راستہ پوچھنے کے بہانے اسے باتوں میں لگا لیا دوسرے نے پیچھے سے اس کی گردن جکڑ

لی اور دونوں اسے اٹھا کر اندر لے گئے۔ زخمی انہیں دیکھ کر اٹھ بیٹھا، اس کے بستر پر سنتری کو لٹا دیا گیا اور اس کے دل پر خنجر کے دو گہرے وار کرکے اسے ختم کردیا گیا پھر اس پر کمبل ڈال دیا گیا۔ دونوں نے زخمی قیدی کو اٹھایا اور نکل گئے۔ انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ شارجا جراح کے گھر میں ہے۔ انہیں ڈر تھا کہ وہ نہیں مانے گی اور اغواء ناکام بنا دے گی لیکن اسے بھی وہاں سے غائب کرنا ضروری تھا کیونکہ اس کے پاس بھی ایک راز تھا۔ دو آدمی گھات میں بیٹھے تھے جونہی جراح اور شارجا تنگ اور تاریک گلی میں آئے تو انہیں جکڑ لیا گیا اور اغواء کامیاب ہوگیا۔

٭ ٭ ٭
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: داستان ایمان فروشوں کی جلد‎ ‎دوم

Post by ایکسٹو »

علی بن سفیان جیسا گھاگھ سراغ رساں کوئی اور تجربہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس نے جراح اور شارجا کے بیانوں پر فوری اعتبار نہ کیا۔ یہ بھی سازش کی ایک کڑی ہوسکتی تھی۔ اس نے دونوں کو الگ کردیا اور ان سے اپنے انداز سے پوچھ گچھ کی۔ جراح دانشمند آدمی تھا، اس نے علی بن سفیان کو قائل کرلیا کہ اس نے جو بیان دیا ہے وہ لفظ بہ لفظ درست ہے۔ اس نے کہا کہ ایک تو جذباتی پہلو تھا، اس لڑکی کی شکل وصورت اس کی مری ہوئی بہن سے ملتی جلتی تھی، اس لیے وہ اسے اچھی لگی اور وہ اسے اپنے گھر بھی لے جاتا اور زخمی کے مکان میں بھی اس کے ساتھ زیادہ وقت بیٹھا رہتا تھا۔ جراح نے بتایا کہ اس کے اس سلوک سے لڑکی اتنی متاثر ہوئی کہ اس نے اپنے کچھ شکوک اس کے سامنے رکھ دئیے۔ یہ اس لڑکی کا دوسرا پہلو تھا جس پر جراح نے زیادہ توجہ دی۔ لڑکی مسلمان تھی لیکن معلوم ہوتا تھا کہ اس پر بڑے ہی خطرناک اثرات جو باہر سے آئے تھے، کام کررہے تھے۔ جراح نے اس کے ذہن سے یہ اثرات صاف کردئیے۔ لڑکی چونکہ پسماندہ ذہن کی تھی، صحرا کے دوردراز گوشے کی رہنے والی تھی اس لیے اس کے ذہن میں جو کچھ ڈالا گیا وہ اسی کو صحیح سمجھتی تھی۔ اس کی باتوں سے یہ انکشاف ہوا کہ اس علاقے میں اسلام کے منافی اثرات اور صلاح الدین ایوبی کے خلاف تخریب کاری زورشور سے اور بلا روک ٹوک جاری ہے۔

شارجا سے علی بن سفیان نے کوئی بیان نہیں لیا، اس پر سوال کرتا رہا اور اس کے جوابوں سے ایک بیان مرتب ہوگیا۔ اس نے فرعونوں کے اس کھنڈر کے متعلق وہی انکشاف کیا جو بیان کیا جاچکا تھا۔ وہ بھی اس کھنڈر کے اس پراسرار آدمی کی معتقد تھی جس کے متعلق کہا جاتا تھا کہ گناہ گاروں کو نظر نہیں آتا اور اس کی صرف آواز سنائی دیتی ہے۔ شارجا نے بتایا کہ اس کا بھائی فوج میں تھا اور وہ گھر میں اکیلی رہتی تھی۔ اسے گائوں کے کچھ لوگوں نے کہا تھا کہ وہ اس کھنڈر میں چلی جائے کیونکہ وہ مقدس انسان خوبصورت کنواریوں کو بہت پسند کرتا ہے۔ شارجا پر علی بن سفیان کی ماہرانہ جرح سے لڑکی کے سینے سے یہ راز بھی نکل آیا کہ اس کے گائوں کی تین کنواری لڑکیاں اس کھنڈر میں چلی گئیں تھیں پھر واپس نہیں آئیں۔ ایک بار اس کا بھائی گائوں آیا تھا، شارجا نے اس سے پوچھا کہ وہ کھنڈر چلی جائے؟ بھائی نے اسے منع کردیا تھا۔ شارجا اچھی طرح بیان تو نہ کرسکی لیکن یہ پتا چل گیا کہ مصر کے جنوب مغربی علاقے میں کیا ہورہا ہے۔ جراح کے متعلق لڑکی نے بتایا کہ اسے اگر گائوں میں لے جاتے اور قید میں ڈ ال دیتے تو وہاں سے بھی وہ اسے اپنی جان کی بازی لگا کر آزاد کرادیتی۔ اس کا جب بھائی مر گیا تو اس نے گائوں تک جانے کا ارادہ ترک کردیا اور تہیہ کرلیا کہ وہ جراح کو یہیں سے آزاد کرائے گی۔ ان چاروں مجرموں کو وہ اپنا ہمدرد سمجھا کرتی تھی لیکن جراح نے اسے بتایا تھا کہ یہ اللہ کے بہت بڑے مجرم ہیں۔ ان کے متعلق اسے یہ بھی پتا چل گیا تھا کہ انہیں اس کے بھائی کیساتھ ہمدردی نہیں بلکہ اس راز سے دلچسپی تھی جو اس کے پاس تھا۔ اسی لیے انہوں نے اسے مار دیا۔

علی بن سفیان نے اس سے پوچھا کہ وہ اب کیا کرنا چاہتی ہے اور اپنے متعلق اس نے کیا سوچا ہے۔ اس نے

جواب دیا کہ وہ ساری عمر جراح کے قدموں میں گزار دے گی اور اگر جراح اسے آگ میں کود جانے کو کہے گا تو وہ کود جائے گی۔ اس نے اس پر رضامندی کا اظہار کیا کہ وہ کھنڈر تک جانے والوں کی رہنمائی کرے گی اور اپنے علاقے کے ہر اس فرد کو پکڑوائے گی جو مصر کی حکومت کے خلاف کام کررہا ہے۔

علی بن سفیان کے مشورے پر فوج اور انتظامیہ کے اعلیٰ حکام کا اجلاس بلایا گیا اور صورت حال تقی الدین کے سامنے رکھی گئی۔ سب کا یہ خیال تھا کہ تقی الدین مصر میں نیا نیا آیا ہے اور اتنی بڑی ذمہ داری بھی اس کے سر پر پہلی بار پڑی ہے، اس لیے وہ محتاط فیصلے کرے گا اور شاید کوئی خطرہ مول نہ لینا چاہے۔ اجلاس میں بیشتر حکام نے اس پر اتفاق کیا کہ چونکہ اتنے وسیع علاقے کی اتنی زیادہ آبادی گمراہ کردی گئی ہے، اس لیے اس آبادی کے خلاف کارروائی نہ کی جائے۔ مسئلہ یہ تھا کہ کھنڈرات کے اندر کے جو حالات معلوم ہوئے تھے ان سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہاں سے ایک نیا عقیدہ نکلا ہے جسے لوگوں نے قبول کرلیا ہے۔ لہٰذا یہ لوگ اپنے معبد اورعقیدے پر فوجی حملہ برداشت نہیں کریں گے۔ اس کا حل یہ پیش کیا گیا کہ اس علاقے میں اپنے معلم، عالم اور دانشور بھیجے جائیں جو لوگوں کو راہ راست پر لائیں۔ ان کے جذبات کو مجروح نہ کیا جائے… اجلاس میں ایک مشورہ یہ بھی پیش کیا گیا کہ سلطان ایوبی کو صورت حال سے آگاہ کیا جائے اور ان سے حکم لے کر کارروائی کی جائے۔

''اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ انسانوں سے ڈرتے ہیں''… تقی الدین نے کہا… ''اور آپ کے دل میں خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ڈر نہیں جن کے سچے مذہب کی وہاں توہین ہورہی ہے۔ امیر مصر اورسالار اعلیٰ کو خبر تک نہیں دی جائے گی کہ مصر میں کیا ہورہا ہے۔ کیا آپ اس سے بے خبر ہیں کہ وہ میدان جنگ میں کتنے طاقتور دشمن کے مقابلے میں سینہ سپر ہیں؟ کیا آپ صلاح الدین ایوب کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ ہم سب دوچار ہزار گناہ گاروں اور دشمنان دین سے ڈرتے ہیں؟ میں براہ راست کارروائی کا اور بڑی ہی سخت کارروائی کا قائل ہوں''۔

''گستاخی معاف امیر محترم!''… ایک نائب سالار نے کہا…'' صلیبی ہم پر یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلایا گیا ہے۔ ہم اس الزام کی تردید عملی طور پر کرنا چاہتے ہیں۔ ہم پیار اور خلوص کا پیغام لے کر جائیں گے''۔

''تو پھر اپنی کمر کے ساتھ تلوار کیوں لٹکائے پھرتے ہو؟'' …تقی الدین نے طنزیہ لہجے میں کہا… ''فوج پر اتنا خرچ کیوں کررہے ہو؟ کیا اس سے یہ بہتر نہیں کہ ہم فوج کو چھٹی دے دیں اور ہتھیار دریائے نیل میں پھینک کر مبلغوں کا ایک گروہ بنا لیں اور درویشوں کی طرح گائوں گائوں، قریہ قریہ دھکے کھاتے پھریں؟'' … تقی الدین نے جذباتی لہجے میں کہا۔ ''اگر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغام کے خلاف صلیب کی تلوار نکلے گی تو اسلام کی شمشیر نیام میں نہیں پڑی رہے گی اور جب شمشیر اسلام نیام سے نکلے گی تو ہر اس سر کو تن سے جدا کرے گی جو کلمہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے جھکنے سے انکار کرتا ہے، وہ ہر اس زبان کو کاٹے گی جو کلمہ حق کو جھٹلاتی ہے۔ صلیبی اگر یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ ہم نے اسلام تلوار کے زور پر پھیلایا ہے تو میں ان سے معافی مانگنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ سلطنت اسلامیہ کیوں سکڑتی چلی آرہی ہے؟ خود مسلمان کیوں اسلام کے دشمن ہوئے جارہے ہیں؟ صرف اس لیے کہ صلیبیوں نے عورت اور شراب سے، زروجواہرات اور ہوس اقتدار سے اسلام کی تلوار کو زنگ آلود کردیا ہے۔ وہ ہم پر جنگ پسندی اور تشدد کا الزام عائد کرکے ہماری عسکریت روایات کو ختم کرنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ ہمارے خلاف لڑ نہیں سکتے۔ ان کے بری لشکر اور بحری بیڑے ناکام ہوگئے ہیں۔ وہ ہمارے درمیان تخریب کاری کررہے ہیں، اللہ کے سچے دین کی جڑیں کاٹ رہے ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ ان کے خلاف تلوار نہ اٹھائو۔

''غور سے سنو میرے دوستو! صلیبی اور آپ کے دوسرے دشمن آپ کو محبت کا جھانسہ دے کر آپ کے ہاتھ سے تلوار لینا چاہتے ہیں۔ وہ آپ کی پیٹھ پر وار کرنا چاہتے ہیں، ان کا یہ اصول محض ایک فریب ہے کہ کوئی تمہارے ایک گال پر تھپڑ مارے تو دوسرا گال آگے کردو۔ کیا تم میں سے کوئی ایسا ہے جسے یہ معلوم نہیں کہ کرک میں وہ مسلمان آبادی کا کیا حشر کررہے ہیں؟ کیا آپ نے شوبک فتح کرکے وہاں مسلمانوں کا بیگار کیمپ نہیں دیکھا تھا؟ وہاں مسلمان عورتوں کی جو انہوں نے عصمت دری کی، وہ نہیں سنی تھیں؟ مقبوضہ فلسطین میں مسلمان خوف اور ہراس کی، بے آبر وئی اور مظلومیت کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ صلیبی مسلمانوں کے قافلے لوٹتے اور عورتوں کو اغوا کرکے لے جاتے ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ اسلام کے نام پر تلوار اٹھانا جرم ہے۔ اگر یہ جرم ہے تو میں اس جرم سے شرمسار نہیں۔ صلیبیوں کی تلوار نہتوں کو کاٹ رہی ہے، صرف اس لیے کہ وہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام لیوا ہیں۔ صلیب اور بتوں کے پجاری نہیں… تمہاری تلوار صرف وہاں ہاتھ سے گر پڑنی چاہیے، جہاں سامنے نہتے ہوں اور ان تک خدا کا پیغام نہ پہنچا ہو۔ ہمیں اس اصول کا قائل نہیں ہونا چاہیے کہ لوگوں کے جذبات پر حملہ نہ کرو۔ میں نے دیکھا ہے کہ عرب میں چھوٹے چھوٹے مسلمان حکمران اور نااہل امراء لوگوں کو خوش کرنے کے لیے بڑے دلکش اور دلوں کو موہ لینے والے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ ان کے غلط جذبات اور احساسات کو اور زیادہ بھڑکا کر انہیں خوش رکھتے ہیں تاکہ لوگ انہیں عیش وعشرت سے اور غیر اسلامی طرز زندگی سے روک نہ سکیں۔ ان امراء کا طریق کار یہ ہے کہ انہوں نے خوشامدیوں کا ایک گروہ پیدا کرلیا ہے جو ان کی ہر آواز پر لبیک کہتا ہے اور رعایا میں گھوم پھر کر ثابت کرتا رہتا ہے کہ ان کے امیر نے جو بات کہی ہے وہ خدا کی آواز ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اللہ کے بندے، بدکار اور عیاش انسانوں کے غلام ہوتے چلے جارہے ہیں۔ قوم حاکم اور محرم میں تقسیم ہوتی چلی جارہی ہے''۔

''ہم دیکھ رہے ہیں کہ دشمن ہماری جڑیں کاٹ رہا ہے اور ہماری قوم کے ایک حصے کو کفر کی تاریکیوں میں لے جارہا ہے اگر ہم نے سخت رویہ اختیار نہ کیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم کفر کی تائید کررہے ہیں۔ میرے بھائی صلاح الدین ایوبی نے مجھے کہا تھا کہ غداری ہماری روایت بنتی جارہی ہے لیکن میں یہ بھی دیکھ رہا ہوں کہ یہ بھی روایت بنتی جارہی ہے کہ ایک ٹولہ حکومت کیا کرے گا اور قوم محکوم ہوگی۔ حکمران ٹولہ قوم کا خزانہ شراب میں بہائے گا اور قوم پانی کے گھونٹ کو بھی ترسے گی۔ میرے بھائی نے ٹھیک کہا تھا کہ ہمیں قوم اور مذہب کے مستقبل پر نظر رکھنی ہے۔ ہمیں قوم میں وقار اور کردار کی بلندی پیدا کرنی ہے۔ آنے والی نسلیں ہماری قبروں سے جواب مانگیں گی۔ اس مقصد کے لیے ہمیں ایسی کارروائی سے گریز نہیں کرنا چاہیے جو ملک اور مذہب کے لیے سود مند ہو اگر یہ برحق اقدام قوم کے چند ایک افراد کے لیے تکلیف دہ ثابت ہوتا ہے تو ہمیں اس کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔ ہم قوم کا مفاد اور وقار چند ایک افراد کی خوشنودی پر قربان نہیں کرسکتے۔ ہم ملک کے ایک اتنے بڑے حصے کو صرف اس لیے دشمن کی تخریب کاری کے سپرد نہیں کرسکتے کہ وہاں کے لوگوں کے جذبات مجروح ہوں گے۔ تم دیکھ رہے ہو کہ وہاں کے لوگ سیدھے سادے اور بے علم ہیں۔ انہیں اپنے وہ مسلمان بھائی جو قبیلوں کے سردار ہیں اور مذہب کے اجارہ دار ہیں، دشمن کا آلۂ کار بن کر گمراہ رہے ہیں''۔

اجلاس میں کسی کو توقع نہیں تھی کہ تقی الدین کا ردعمل اتنا شدید اور فیصلہ اتنا سخت ہوگا۔ اس نے جو دلائل پیش کیے، ان کے خلاف کسی کو جرأت نہ ہوئی کہ کوئی مشور ہی پیش کرتا۔ اس نے کہا …''مصر میں جو فوج ہے، یہ محاذ سے آئی ہے اور اس سے پہلے بھی لڑ چکی ہے۔ اس فوج کے صرف پانچ سو گھوڑ سوار، دو سو شتر سوار ارو پانچ سو پیادہ آج شام اس علاقے کی طرف روانہ کردو جہاں وہ مشکوک کھنڈرات ہیں۔ یہ فوج اس علاقے سے اتنی دور رہے گی کہ ضرورت پڑے تو فوری طور پر محاصرہ کرسکے۔ میرے ساتھ دمشق سے جو دو سوار آئے ہیں، وہ علاقے کے اندر جاکر کھنڈروں پر حملہ کریں گے۔ ایک چھاپہ مار دستہ کھنڈروں کے اندر جائے گا، دوسو سوار کھنڈروں کو محاصرے میں رکھیں گے۔ اگر باہر سے حملہ ہوا یا مزاحمت ہوئی تو فوج کا بڑا حصہ مقابلہ کرے گا اور محاصرہ تنگ کرتا جائے گا۔ اس کارروائی میں فوج کو سختی سے حکم دیا جائے کہ کسی نہتے کو نہیں چھیڑا جائے گا''۔

اس فیصلے کے فوراً بعد فوجی حکام کوچ، حملے اور محاصرے وغیرہ کا منصوبہ تیار کرنے میں مصروف ہوگئے۔

٭ ٭ ٭

سلطان ایوبی مصر کی تازہ صورت حال سے بے خبر کرک اور شوبک قلعوں کے درمیان میل ہا میل وسیع صحرا میں جہاں ریتلی چٹانوں، ٹیلوں اور گھاٹیوں کے علاقے بھی تھے اور جہاں کسی کسی جگہ پانی اور سائے کی بھی افراط تھی، صلیبیوں کے نئے جنگی منصوبے کے مطابق اپنی افواج کی صف بندی کررہا تھا۔ جاسوسوں نے اسے بتایا تھا کہ صلیبی دگنی طاقت سے جو زیادہ تر زرہ پوش اور بکتر بند ہوگی۔ قلعے سے باہر آکر حملہ کریں گے۔ یہ فوج سلطان ایوبی کی فوج کو آمنے سامنے کی جنگ میں الجھالے گی اور دوسری فوج عقب سے حملے کرے گی۔ سلطان ایوبی نے اپنی فوج کو دور دور تک پھیلا دیا۔ سب سے پہلا کام یہ کیا کہ جہاں جہاں پانی اور سبزہ تھا، وہاں فوراً قبضہ کرلیا۔ ان جگہوں کے دفاع کے لیے اس نے بڑے سائز کی کمانوں والے تیر انداز بھیج دیئے۔ ان کے تیر بہت دور تک جاتے تھے۔ وہاں منجنیقیں بھی رکھیں جو آگ کی ہانڈیاں پھینکتی تھیں۔ یہ اہتمام اس لیے کیا گیا تھا کہ دشمن قریب نہ آسکے۔ بلندیوں پر بھی قبضہ کرلیا گیا۔ سلطان ایوبی نے تمام دستوں کو حکم دیا کہ دشمن سامنے سے حملہ کرے تو وہ اور زیادہ پھیل جائیں تاکہ دشمن بھی پھیلنے پر مجبور ہوجائے۔ اس نے اپنی فوج کو ایسی ترتیب میں کردیا کہ دشمن یہ فیصلہ ہی نہیں کرسکتا تھا کہ مسلمان فوج کے پہلو کدھر اور عقب کس طرف ہے۔

سلطان ایوبی نے فوج کا ایک بڑا حصہ ریزور میں رکھ لیا تھا، ایک حصے کو اس طرح متحرک رکھا کہ جہاں کمک کی ضرورت پڑے، فوراً کمک دے سکے۔ اس کا سب سے زیادہ خطرناک ہتھیار اس کے چھاپہ مار دستے تھے اور اس سے زیادہ خطرناک اس کا جاسوسی کا نظام تھا جو اسے صلیبیوں کی نقل وحرکت کی خبریں دے رہا تھا۔ شوبک کا قلعہ سلطان ایوبی سرکرچکا تھا۔ صلیبیوں کے منصوبے میں یہ بھی تھا کہ ان کے لیے حالات سازگار ہوئے تو وہ شوبک کو محاصرے میں لے کر فتح کرلیں گے۔ انہیں توقع تھی کہ ان کا اتنا زیادہ لشکر سلطان ایوبی کی قلیل تعداد فوج کو صحرا میں ختم کردے گا یا اتنا کمزور کردے گا کہ وہ شوبک کو باہر سے مدد نہیں دے سکے گی۔ ان کے اس منصوبے کے پیش نظر سلطان ایوبی نے شوبک کی وہ طرف جس طرف سے صلیبی اس قلعے پر حملہ کرسکتے تھے، خالی چھوڑ دی۔ اس نے صلیبیوں کے لیے موقعہ پیدا کردیا کہ وہ راستہ صاف دیکھ کر شوبک پر حملہ کریں۔ اس طرف سے اس نے دیکھ بھال والی چوکیاں بھی ہٹا دیں اور دور دور تک علاقہ خالی کردیا۔

صلیبیوں کے جاسوسوں نے کرک میں فوراً اطلاع پہنچائی کہ سلطان ایوبی نے صلیبیوں کے ساتھ صحرا میں لڑنے کے لیے فوج شوبک سے دوراکٹھی کرلی ہے اور شوبک کا راستہ صاف ہوگیا ہے۔ صلیبیوں نے فوراً اپنی اس فوج کو جو سلطان ایوبی کے سامنے سے حملہ کرنے کے لیے باہر نکالی تھی، حکم دے دیا کہ رخ بدل کر شوبک کی طرف چلی جائے۔ چنانچہ یہ فوج ادھر کو ہولی۔ اس کے پیچھے رسد کے ذخیرے جارہے تھے، فوج جب شوبک سے چار میل دور رہ گئی تو اسے روک لیا گیا۔ یہ اس فوج کا عارضی پڑائو تھا۔ رسد کی گھوڑا گاڑیاں، اونٹ اور خچر ہزاروں کی تعداد میں چلے آرہے تھے۔ انہیں کوئی خطرہ نہ تھا کیونکہ مسلمانوں کی فوج کا دور دور تک نام ونشان نہ تھا۔ صلیبی حکمران بہت خوش تھے۔ انہیں شوبک کا قلعہ اپنے قدموں میں پڑا نظر آرہا تھا مگر رات کو انہیں اپنے پیچھے پانچ چھ میل دور آسمان لال سرخ نظر آیا۔ شعلے اتنے بلند تھے کہ اتنی دور سے بھی نظر آئے تھے، صلیبیوں نے سوار دوڑادیئے۔ جہاں سے شعلے اٹھ رہے تھے، وہاں ان کی رسد تھی۔ سوار وہاں پہنچے تو انہیں صحرا میں بے لگام گھوڑے اور بے مہار اونٹ ہر طرف دوڑتے بھاگتے نظر آئے۔

یہ تباہی سلطان ایوبی کے ایک چھاپہ مار دستے کی بپا کی ہوئی تھی، رسد میں گھوڑوں کے لیے خشک گھاس سے لدی ہوئی سینکڑوں گھوڑا گاڑیاں تھیں۔ انہیں رسد کے کیمپ کے اردگرد کھڑا کیا گیا تھا۔ صلیبی خوش فہمیوں میں مبتلا تھے۔ انہیں معلوم نہیں تھا کہ ان کی ہر ایک حرکت پر سلطان ایوبی کی نظر ہے۔ رات کو جب رسد کا کیمپ سو گیا تو مسلمان چھاپہ ماروں نے اونٹوں پر جاکر خشک گھاس میں آتشیں فلیتوں والے تیر چلائے۔ گھاس فوراً جل اٹھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے کیمپ شعلوں کے گھیرے میں آگیا۔ ان کے نرغے میں آئے ہوئے انسان جانیں بچانے کے لیے ادھر ادھر دوڑے تو ان میں سے بہت سے تیروں کا شکار ہوگئے جو جانور رسیاں توڑ سکے وہ تو بھاگ گئے اور جو کھل نہ سکے وہ زندہ جل گئے۔ دور دور تک پھیلا ہوا کیمپ جہنم بن گیا۔ چھاپہ ماروں نے کئی ایک اونٹ اور گھوڑے پکڑ لیے اور واپس چلے گئے۔

صبح طلوع ہوئی۔ صلیبی کمانڈروں نے جاکر رسد کا کیمپ دیکھا، وہاں کچھ نہیں بچا تھا۔ ان کی ایک ماہ کی رسد تباہ ہوچکی تھی۔ وہ سمجھ گئے کہ شوبک کا راستہ جو صاف تھا، یہ سلطان ایوبی کی ایک چال تھی۔ انہوں نے بغیر دیکھے کہہ دیا کہ کرک سے شوبک تک ان کی رسد اور کمک کا راستہ محفوظ نہیں۔ چنانچہ انہوں نے شوبک کا محاصرہ ملتوی کردیا۔ رسد کے بغیر محاصرہ ناممکن تھا اور جب انہیں اطلاع ملی کہ گزشتہ رات اس فوج کی بھی رسد تباہ ہوگئی ہے جو سلطان ایوبی کی فوج پر سامنے سے حملہ کرنے کے لیے جمع تھی تو انہوں نے اپنے تمام تر جنگی منصوبے پر نظرثانی کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ انہیں کہیں بھی سلطان ایوبی کی فوج نظر نہیں آرہی تھی۔ انہیں جاسوس یہ بھی نہیں بتا سکے تھے کہ مسلمانوں کی فوج کا اجتماع کہاں ہے۔ دراصل یہ اجتماع کہیں بھی نہیں تھا۔

سلطان ایوبی کو اطلاع ملی کہ صلیبیوں نے دونوں محاذوں پر پیش قدمی روک دی ہے تو اس نے اپنے کمانڈروں کو بلا کر کہا… ''صلیبیوں نے جنگ ملتوی کردی ہے لیکن ہماری جنگ جاری ہے۔ وہ دونوں فوجوں کے آمنے سامنے کے تصادم کو جنگ کہتے ہیں۔ میں چھاپوں اور شب خونوں کو جنگ کہتا ہوں۔ اب چھاپہ مارو کو سرگرم رکھو۔ صلیبی دونوں طرف سے پیچھے ہٹ رہے ہیں، انہیں اطمینان سے پیچھے نہ ہٹنے دو۔ انتہائی عقب یا پہلو پر شب خون مارو اور غائب ہوجائو۔ صلیبی آپ کو اپنے سامنے لاکر لڑنا چاہتے ہیں لیکن میں آپ کو اس میدان میں ان کے سامنے لے جائوں گا جو آپ کی مرضی کا ہوگا اور جہاں کی ریت بھی آپ کی مدد کرے گی''۔

سلطان ایوبی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا، وہ اپنے عملے اور محافظ دستے کے ساتھ خانہ بدوش تھا، کسی ایک جگہ نہ ٹھہرنے کے باوجود معلوم ہوتا تھا، جیسے ہر جگہ موجود ہے۔

٭ ٭ ٭
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: داستان ایمان فروشوں کی جلد‎ ‎دوم

Post by ایکسٹو »

مصر میں سلطان ایوبی کا بھائی تقی الدین صلیبیوں کے دوسرے محاذ پر حملہ آور ہورہا تھا، یہ مصر کا جنوب مغربی علاقہ تھا، جہاں کے ڈرائونے ٹیلوں کے اندر فرعونوں کے ہولناک کھنڈرات میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے واپس آنے والے تھے۔ تمام تر علاقہ ایک نئے عقیدے کا پیرو کار ہوگیا تھا… جمعرات کی شام تھی۔ زائرین کا ہجوم کھنڈر کے غار نما دروازے میں داخل ہورہا تھا۔ اندر بڑے کمرے میں پراسرار آواز گونج ر ہی تھی۔ لوگوں کو دیوار پر گناہ گار اور نیکو کارجاتے نظر آرہے تھے۔ وہاں وہی سماں تھا جو ہر جمعرات کے روز ہوا کرتا تھا۔ اچانک اس پراسرار مقدس انسان کی آواز خاموش ہوگئی جس کے متعلق مشہور تھا کہ گناہ گاروں کو نظر نہیں آتا۔ اس کے بجائے ایک اور آواز سنائی دی۔ ''گمراہ انسانو! آج کی رات گھروں کو نہ جانا۔ کل صبح تم پر وہ راز فاش ہوجائے گا جس کے لیے تم بیتاب ہو۔ یہاں سے فوراً باہر نکل جائو۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تشریف لارہے ہیں۔ اس کھنڈر سے دور جاکر سوجائو''… بڑے کمرے میںحیرت زندہ لوگوں کو دیوار پر جو چمکتے ہوئے ستارے نظر آتے تھے، وہ ماند پڑگئے۔ اس وقت ان ستاروں میں سے حسین لڑکیاں اور خوبرو مرد ہنستے کھیلتے گزر رہے تھے۔ لوگوں نے دیکھا کہ فوجی قسم کے کچھ آدمی انہیں پکڑ پکڑ کر لے جارہے ہیں۔ کہیں سے چیخیں بھی سنائی دے رہی تھیں۔ بادل جو گرجتے تھے وہ بھی خاموش ہوگئے، لوگوں کے لیے یہ جگہ بڑی ہی مقدس تھی۔ وہ خوف زدہ ہوکے باہر کو بھاگے اور کھنڈر خالی ہوگیا۔

یہ انقلاب تقی الدین اور علی بن سفیان لائے تھے۔ ان کے ساتھ فوج کی وہی نفری تھی جو تقی الدین نے اپنے حکم میں بتائی تھی۔ یہ دستے شام کے بعد ٹیلوں والے علاقے کے قریب پہنچ گئے تھے۔ ان کی رہنمائی شارجا کررہی تھی جو گھوڑے پر سوار تھی۔ وہ انہیں جمعرات کی شام وہاں لے گئی تھی کیونکہ اس روز وہاں میلہ لگتا تھا اور دور دور سے لوگ آتے تھے۔ فوج کے بڑے حصے کو جس میں پانچ سو گھوڑ سوار، دوسو شتر سوار اور پانچ سو پیادہ تھے۔ اس علاقے سے ذرا دور رکھا گیا تھا۔ انہیں نہتے لوگوں کے خلاف استعمال نہیں کرتا تھا۔ ان کے ذمہ یہ فرض تھا کہ سوڈان کی سرحد پر نظر رکھیں چونکہ کھنڈروں کے اندر کی تخریب کاری صلیبیوں اور سوڈانیوں کی پشت پناہی پر ہورہی تھی۔ اس لیے یہ خطرہ تھا کہ وہاں فوجی کارروائی کی گئی تو سوڈانی حملہ کردیں گے۔ تقی الدین نے اس علاقے کے قریب کے سرحدی دستوں کو جو سرحدوں کی حفاظت کے لیے وہیں رہتے تھے قریب بلا کر اپنے تحت کرلیا تھا۔

دوسو گھوڑ سوار جو تقی الدین کے ساتھ دمشق سے آئے تھے وہ وہاں کے چنے ہوئے اور دیوانگی کی حد تک دلیر سوار تھے۔ دوڑتے گھوڑوں سے تیر اندازی ان کا خصوصی کمال تھا۔ پیادہ سپاہیوں میں سلطان ایوبی کے اپنے ہاتھوں تیار کیے ہوئے چھاپہ مار بھی تھے۔ انہیں ایسی ٹریننگ دی گئی تھی کہ انتہائی دشوار ٹیلوں اور درختوں پر حیران کن رفتار سے چڑھتے اور اترتے تھے۔ چند گز پھیلی ہوئی آگ سے گزر جانا ان کا معمول تھا۔ ان چھاپہ مار جانبازوں کو اس وقت کھنڈر کی طرف روانہ کیا گیا، جب لوگ اندر جارہے تھے، وہاں تک انہیں شارجا لے گئی تھی۔ علی بن سفیان ان کے ساتھ تھا۔ تیز رفتار قاصد بھی ساتھ تھے، تاکہ پیغام رسانی میں تاخیر نہ ہو۔ کھنڈر کے دروازے کے باہر دو آدمی کھڑے اندر جانے والوں کو تین تین کھجوریں کھلا رہے تھے۔ دروازے کے اندر گپ اندھیرا تھا۔ اس اندھیرے سے لوگ گزر کر اندر روشن کمرے میں جاتے تھے، باہر صرف ایک مشعل جل رہی تھی جس کی روشنی معمولی سی تھی۔

چھ آدمی جن کے سر چادروں میں ڈھکے ہوئے تھے، زائرین کے ساتھ دروازے تک گئے اور ہجوم سے ہٹ کر کھجوریں کھلانے والوں کے پیچھے جا کھڑے ہوئے۔ انہیں کہا گیا کہ وہ سامنے سے گزریں لیکن وہ سن ہوکے رہ گئے کیونکہ ان کی پیٹھوں میں خنجروں کی نوکیں رکھ دی گئی تھیں۔ یہ چھ آدمی چھاپہ مار تھے۔ انہوں نے ایک ایک آدمی کے پیچھے ہو کر خنجر ان کی پیٹھوں سے لگا کر آہستہ سے کان میں کہا تھا… ''زندہ رہنا چاہتے ہوتو یہاں سے باہر چلے جائو، تم سب فوج کے گھیرے میں ہو'' … کھجوریں کھلانے اور پانی پلانے والے آدمی ذرا سی بھی مزاحمت کے بغیر باہر نکل گئے۔ چھاپہ ماروں نے خنجر اس طرح چغوں میں چھپالیے کہ لوگوں میں سے کوئی دیکھ نہ سکا۔ یہ چار آدمی جونہی باہر کو آئے، وہاں دس بارہ چھاپہ مار دیہاتیوں کے لباس میں کھڑے تھے۔ انہوں نے چاروں کو گھیر لیا اور دھکیلتے ہوئے دور لے گئے۔ وہاں انہیں رسیوں سے باندھ دیا گیا۔ چھ چھاپہ مار جو کھجوروں اور پانی کے مشکیزوں کے پاس رہ گئے تھے، انہوں نے اندر جانے والے لوگوں سے کہنا شروع کردیا کہ کھجوروں اور پانی کے بغیر اندر جائو کیونکہ اندر سے نیا حکم آیا ہے۔ سیدھے سادے دیہاتی اندر جاتے رہے۔

ان کے ساتھ اب چھاپہ مار بھی اندر جارہے تھے اور مشعلیں بھی اندر جارہی تھیں۔ لوگ حیران تھے کہ مشعلیں کیوں لے جائی جارہی ہیں۔ کم وبیش پچاش مشعلیں اور دو سو چھاپہ مار اندر چلے گئے۔ وہ روشن کمرے میں نہ گئے بلکہ ان تاریک راستوں اور غلام گردشوں میں چلے گئے جن میں باہر کے لوگ نہیں جاسکتے تھے۔ ان میں سے بعض کے پاس خنجر اور خنجر نما تلواریں تھیں اور بعض کے پاس چھوٹی کمانیں۔ اس دروازے سے بھی جس سے لوگ باہر نکلتے تھے، چھاپہ مار داخل ہوگئے۔ وہ ہدایت کے مطابق تاریک بھول بھلیوں میں جارہے تھے۔ تقی الدین کے دو سو گھوڑے سوار آگے گئے اور انہوں نے پورے کھنڈر کو گھیرے میں لے گیا۔ ان کے ساتھ پیادہ دستہ بھی تھا جس کے سپاہیوں نے اندر سے نکلنے والوں کو روک کر ایک طرف اکٹھا کرنا شروع کردیا۔ چھاپہ مار مشعل برداروں کے ساتھ اندر گئے تو انہیں ایسے محسوس ہونے لگا جیسے کسی کے پیٹ میں چلے گئے ہوں۔ اندر کے راستے اور کمرے انتڑیوں کی مانند تھے… یہ راستے انہیں ایک ایسے طلسم میں لے گئے جسے دیکھ کر چھاپہ مار بدک کرر ک گئے۔ یہ ایک بہت کشادہ کمرہ تھا جس کی چھت تو اونچی تھی، اندر بہت سے مرد اور عورتیں تھیں۔ ان میں کچھ ایسے تھے جن کے چہرے بھیڑیوں کی طرح تھے بعض تھے تو انسان لیکن وہ اس قدر بدصورت اور بھیانک چہروں والے تھے کہ دیکھ کر ڈر آتا تھا، وہ جن اور بھوت لگتے تھے اور ان کے درمیان خوبصورت اور جوان لڑکیاں بھڑکیلے اور چمکیلے کپڑے پہنے ہنس کھیل رہی تھیں۔ ایک طرف دیوار کے ساتھ چند ایک خوبصورت لڑکیاں خوبرو مردوں کے ساتھ مٹک مٹک کر چل رہی تھیں۔ ادھر چھت سے فرش تک پردے لٹکے ہوئے تھے جو دائیں بائیں ہٹتے، کھلتے اور بند ہوتے تھے۔ دوسری طرف آنکھوں کو خیرہ کردینے والی روشنی چمکتی اور بجھتی تھی۔

اگر چھاپہ ماروں کو یہ یقین نہ دلایا گیا ہوتا کہ کھنڈر کے اندر جو کوئی بھی ہے اور جس حلیے میں بھی ہے وہ انسان ہوگا اور اندر کوئی بدروح، روح یا بھوت پریت نہیں، تو چھاپہ مار وہاں سے بھاگ جاتے۔ وہاں خوبصورت لڑکیاں اور خوبرو مرد تھے، وہ بھی ڈرائونے لگتے تھے…

اس عجیب وغریب مخلوق نے جب مشعل بردار چھاپہ ماروں کو دیکھا تو انہیں ڈرانے کے لیے ڈرائونی آوازیں نکالنے لگے جو آدمی بدصورت، چڑیلوں اور بھیڑیوں کے چہروں والے تھے ان کی آوازیں زیادہ خوفناک تھیں۔ اس دوران ایک دو آدمیوں نے شاید ڈر کر اپنے چہرے بے نقاب کردیئے۔ یہ بھیڑیوں کے چہرے تھے جو انہوں نے اتارے تو اندر سے انسانوں کے چہرے نکلے۔ چھاپہ ماروں نے سب کو گھیر کر پکڑ لیا اور سب کے نقاب اتار دیئے، وہاں شراب بھی پڑی تھی۔ ان سب کو باہر لے گئے۔ کھنڈر کے دوسرے حصوں کی تلاشی میں ایک آدمی پکڑا گیا جو ایک تنگ سی سرنگ کے منہ میں منہ ڈالے بھائی آواز میں کہہ رہا تھا …''گناہوں سے توبہ کرو، حضرت عیسیٰ علیہ السلام آنے والے ہیں…'' اور ایسے کئی الفاظ تھے جو وہ بول رہا تھا۔ یہ سرنگ گھوم پھر کر اس روشن کمرے میں جاتی تھی، جہاں زائرین کو یہ پراسرار، ڈرائونی اور خوبصورت مخلوق دکھا کر حیرت زدہ کیا جاتا تھا۔ اس آدمی کو وہاں سے ہٹا کر چھاپہ ماروں کے ایک کمان دار نے سرنگ میں منہ ڈال کر کہا کہ اے گمراہ لوگوں آج رات گھروں کو نہ جانا کل صبح تم پر وہ راز فاش ہوجائے گا جس کے لیے تم بیتاب ہو۔

کھنڈرات کے اندر کسی نے بھی مزاحمت نہ کی۔ خنجروں اور تلواروں کے آگے سب اپنے آپ کو گرفتاری کے لیے پیش کرتے چلے گئے۔ چھاپہ مار ان آدمیوں کی نشاندہی پر جنہیں گرفتار کرلیا گیا تھا ان جگہوں تک پہنچے جہاں بجلی کی طرح چمکنے والی روشنیوں کا انتظام تھا۔ ڈھکی چھپی جگہوں میں مشعلیں جل رہی تھی۔ ان کے پیچھے لکڑی کے تختے تھے جن پر ابرق چپکایا ہوا تھا۔ ان تختوں کے زاویے بدلتے تھے تو ابرق کی چمک لوگوں کی آنکھوں میں پڑتی اور چندھیا دیتی تھی۔ کمرہ تاریک کرنے کے لیے مشعلوں کو پیچھے کرلیا جاتا تھا۔ بادل گرجنے کی آوازیں دھات کی چادروں کو جھٹکے دے کر پیدا کی جاتی تھی۔ پردوں پر جگہ جگہ ابرق کے ٹکڑے چپکا دیئے گئے تھے جن پر روشنی پڑتی تو ستاروں کی طرح چمکتے تھے۔ اس طرف پردوں کا رنگ ایسا تھا کہ کوئی کہہ نہیں سکتا تھا کہ یہ کپڑا ہے۔ وہ اسے پھٹی ہوئی دیوار سمجھتے تھے۔ عقل اور ہوش والے انسان کے لیے یہ کوئی معمہ نہیں تھا۔ بے شک یہ روشنیوں کے خاص انتظام کا جادو تھا جو لوگوں کو مسحود کرلیتا تھا لیکن اندر جو جاتا تھا اس کی عقل اور ہوش پر اس کا کوئی اختیار نہیں ہوتا تھا۔ انہیں اندر جاتے وقت دروازے پر جو تین کھجوریں کھلائی جاتی اور پانی پلایا جاتا تھا، ان میں نشہ آور آمیزش ہوتی تھی۔ اس کا اثر فوراً ہوجاتا تھا۔ اس اثر کے تحت زائرین کے ذہنوں پر جو بھی تصور بٹھایا جاتا اور کانوں میں جو بھی آوازیں ڈالی جاتی، وہ اسے سو فیصد صحیح اور برحق سمجھ لیتے تھے۔ اسی نشے کا اثر تھا کہ لوگ باہر جاکر دوبارہ اندر آنے کی خواہش کرتے تھے۔ انہیں معلوم نہیں تھا کہ یہ اس عقیدے کا تاثر نہیں بلکہ اس نشے کا اثر ہے جو انہیں کھجوروں اور پانی میں د یا جاتا ہے۔

کھجوروں کے انبار اور پانی کے مشکیزوں پر بھی قبضہ کرلیا گیا تھا۔ اندر پکڑ دھکڑ اور تلاشی کا سلسلہ جاری تھا۔ باہر دو سو سپاہیوں نے کھنڈروں کا محاصرہ کررکھا تھا۔ ہر طرف مشعلوں کی روشنی تھی، فوج کا بڑا حصہ اور دو سرحدی دستے سوڈان کی سرحد کے ساتھ ساتھ گھوم پھر رہے تھے… رات گزرگئی۔ سوڈان کی طرف سے کوئی حملہ نہ ہوا۔ کھنڈرات میں بھی کوئی مزاحمت نہ ہوئی۔ صبح کے اجالے نے اس علاقے کو روشن کیا تو وہاں ہراساں دیہاتیوں کا ہجوم تھا۔ کچھ لوگ ادھر ادھر سوگئے تھے۔ گھوڑ سواروں نے گھیرا ڈال رکھا تھا۔

٭ ٭ ٭

کچھ دیر بعد تمام لوگوں کو ایک جگہ جمع کرکے بٹھا دیا گیا ۔ ان کی تعداد تین اور چار ہزار کے درمیان تھی۔ ایک طرف سے ایک جلوس آیا جسے فوجی ہانک کر لا رہے تھے۔ اس جلوس میں بھیڑیوں اور چڑیلوں کے چہروں والے انسان تھے۔ اس میں مکروہ اور بڑی بھیانک شکلوں والے انسان بھی تھے اور اس جلوس میں وہ تمام مخلوق تھی جو لوگوں کو کھنڈر کے اندر دکھائی جاتی تھی اور بتایا جاتا تھا کہ یہ آسمان ہے جہاں یہ لوگ مرنے کے بعد گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔ ان کا سب سے بڑا گناہ یہ بتایا جاتا تھا کہ یہ جنگ وجدل کے عادی تھے یعنی یہ فوجی تھے۔ اس جلوس سے الگ دس بارہ لڑکیوں کو بھی لوگوں کے سامنے لایا گیا۔ یہ بہت ہی خوبصورت لڑکیاں تھیں۔ ان کے ساتھ خوبرو مرد تھے۔ ان دونوں جلوسوں کو لوگوں کے ہجوم کے سامنے ایک اونچی جگہ پر کھڑا کردیا گیا اور انہیں کہا گیا کہ لوگوں کو اپنے چہرے دکھائو۔ سب نے بھیڑیوں اور چڑیلوں کے مصنوعی چہرے اتار دیئے۔ ان کے اندر سے اچھے بھلے انسانی چہرے نکل آئے جو آدمی مکروہ اور بھیانک چہروں والے تھے، وہ بھی مصنوعی چہرے تھے۔ یہ چہرے بھی اتار دیئے گئے۔

لوگوں سے کہا گیا کہ وہ ان آدمیوں اور ان لڑکیوں کے قریب سے گزرتے جائیں اور انہیں پہنچانیں، لوگ تو اسی پر حیران ہوگئے کہ یہ آسمان کی مخلوق نہیں، اسی زمین کے انسان ہیں۔ لڑکیاں بھی پہچان لی گئیں، ان میں زیادہ تر اسی علاقے کی رہنے والی تھیں اور تین چار یہودی تھیں۔ جنہیں صلیبی اسی مقصد کے لیے لائے تھے۔ لوگ انہیں دیکھ چکے تو ان مجرموں کو سامنے لایا گیا جنہوں نے یہ طلسماتی اہتمام کررکھا تھا۔ ان میں چھ صلیبی تھے جو مصر کے اس علاقے کی زبان بولتے اور سمجھتے تھے۔ انہوں نے بہت سے آدمی اس علاقے سے اپنے ساتھ ملا لیے تھے۔ رات گرفتاری کے بعد ان سے اعتراف کرالیا گیا تھا کہ انہوں نے تین چار مسجدوں میں اپنے امام رکھ دیئے تھے جو لوگوں کو مذہب کے پردے میں غیر اسلامی نظریات کے معتقد بنا رہے تھے۔ اس گروہ کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو قائل کیا جائے کہ فوج میں بھرتی نہ ہوں کیونکہ یہ بہت بڑا گناہ ہے۔ یہ گروہ اس مقصد میں کامیاب ہوچکا تھا۔ ان تخریب کاروں نے یہ کامیابی بھی حاصل کرلی تھی کہ اس علاقے کے لوگوں میں سوڈانیوں کی محبت پیدا کردی تھی اور ان کا مذہب تبدیل کیے بغیر انہیں بے مذہب کردیا تھا۔

لوگوں سے کہا گیا کہ اب وہ کھنڈروں کے اندر جاکر گھومیں پھریں اور اس فریب کاری کا ثبوت اپنی آنکھوں دیکھیں۔ لوگ اندر چلے گئے جہاں جگہ جگہ فوجی کھڑے تھے اور لوگوں کو دکھا رہے تھے کہ انہیں کیسے کیسے طریقوں سے دھوکہ دیا جاتا رہا ہے۔ بہت دیر بعد جب تمام لوگ اندر سے گھوم پھر آئے تو تقی الدین نے ان سے خطاب کیا اور انہیں بتایا کہ کھجوروں اور پانی میں انہیں نشہ دیا جاتا ہے۔ اندر جوجنت اور جہنم تھا، وہ اس نشے کے زیراثر نظر آتا تھا۔ میں ان مجرموں سے کہتا ہوں کہ اندر چل کر مجھے آسمان کی مخلوق چلتی پھرتی دکھائیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کہاں اور مرا ہوا خلیفہ العاضد کہاں ہے؟ یہ سب فریب تھا۔ یہ وہ نشہ ہے جو حشیشین کا پیر استاد حسن بن صباح لوگوں کو پلا کر انہیں جنت دکھایا کرتا تھا۔ وہ تو ایک وقت میں چند ایک آدمیوں کو نشہ پلاتا تھا مگر یہاں اسلام کے ان دشمنوں نے اتنے وسیع علاقے کی پوری آبادی پر نشہ طاری کردیا ہے۔

تقی الدین نے لوگوں کو اصلیت دکھا کر انہیں بتایا کہ ابتداء میں ایک درویش کی کہانی سنائی گئی تھی جو مسافروں کو اونٹ اور اشرفیاں دیا کرتا ہے۔ یہ محض بے بنیاد کہانیاں تھیں اور بے سروپا جھوٹ۔ کہانیاں سنانے والوں کو تمہارے دین وایمان کے دشمن بے دریغ مال ودولت دیتے تھے… تقی الدین نے اس فریب کاری کے تمام پہلو بے نقاب کیے اور جب اس نے مجرموں کی اصلیت کو بے نقاب کیا تو لوگ جوش میں آکر اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے مجرموں پر ہلہ بول دیا۔ اس وقت لوگوں کا وہ نشہ اتر چکا تھا جو رات کو انہیں کھجوروں اور پانی میں دیا گیا تھا۔ فوج نے ہجوم پر قابو پانے کی بہت کوشش کی لیکن انہوں نے تمام مجرموں اور لڑکیوں کو جان سے مار کر چھوڑا۔

تقی الدین نے فوج کو اسی علاقے میں پھیلا دیا اور فوج کی نگرانی میں وہاں ایک تو تخریب کاروں کے ایجنٹوں کو گرفتار کیا اور دوسرے یہ کہ مسجدوں میں قاہرہ کے عالم متعین کردیئے جنہوں نے لوگوں کو مذہبی اور عسکری تعلیم وتربیت شروع کردی۔ فرعونوں کے کھنڈروں کو لوگوں کے ہاتھوں مسمار کرادیا گیا۔

تقی الدین نے قاہرہ جاکر پہلا کام یہ کیا کہ جراح اور شارجا کی خواہش کے مطابق انہیں شادی کی اجازت دے دی اور دوسرا کام یہ کیا کہ اس نے فوج کی مرکزی کمان کو حکم دیا کہ سوڈان پر حملے کی تیاری کی جائے۔ اس نے کھنڈروں کی مہم میں دیکھ لیا تھا کہ پڑوسی سوڈانیوں نے مصر کے اتنے وسیع علاقے کو اپنے اثر میں لے لیا تھا اور یہ اثر شدید جوابی کارروائی کے بغیر ختم نہیں ہوگا۔ اس پر انکشاف بھی ہوا تھا کہ سوڈانی صلیبیوں کے آلۂ کار بنے ہوئے ہیں اور وہ باقاعدہ حملے کی تیاری بھی کررہے ہیں۔ لہٰذا ضروری سمجھا گیا کہ سوڈان پر حملہ کیا جائے۔ اس سے اگر سوڈان کا کچھ علاقہ قبضے میں آئے یا نہ آئے، اتنا فائدہ ضرور ہوگا کہ دشمن کی تیاریاں درہم برہم ہوجائیں گی اور ان کا منصوبہ لمبے عرصے لیے تباہ ہوجائے گا۔ تقی الدین کو سلطان ایوبی کی پشت پناہی حاصل تھی۔

٭ ٭
"کھنڈروں کی آواز کا حصہ حتم ھوا۔
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

رینی الیگزینڈر کا آخری معرکہ

Post by ایکسٹو »

رینی الیگزینڈر کا آخری معرکہ

مصر کے قائم مقام امیر تقی الدین نے صلیبیوں کی نظریاتی یلغار کو بروقت فوجی کارروائی سے روک دیا اور اس خفیہ اور پراسرار اڈے کو ہی مسمار کردیا جہاں سے یہ فتنہ اٹھا تھا مگر وہ مطمئن نہیں تھا کیونکہ وہ جان چکا تھا کہ یہ اسلام کش زہر قوم کی رگوں میں اتر گیا ہے۔ اس صلیبی تخریب کاری کو سوڈان سے پشت پناہی مل رہی تھی اور سوڈانیوں کو صلیبیوں کی پشت پناہی حاصل تھی۔ تقی الدین نے اس اڈے کو بھی تباہ کرنے کے لیے سوڈان پر حملے کی تیاریاں تیز کردیں۔ سلطان ایوبی نے وہاں بھی جاسوس بھیج رکھے تھے جن کی جانبازانہ کوششوں سے وہاں کے بڑے نازک رازمل رہے تھے مگر ان رازوں سے جو فائدہ سلطان ایوبی اٹھا سکتا تھا، وہ اس کے بھائی تقی الدین کے بس کی بات نہیں تھی۔ دونوں بھائیوں کا جذبہ تو ایک جیسا تھا لیکن دونوں کی ذہانت میں بہت فرق تھا۔ دونوں بھائی جس کارروائی کا فیصلہ کرتے تھے وہ شدید ہوتی تھی۔ فرق یہ تھا کہ سلطان ایوبی محتاط رہتا تھا اور تقی الدین بے صبر ہوکر احتیاط کا دامن چھوڑ دیتا تھا۔ اسے جب فوجی مشیروں نے کہا کہ سوڈان پر حملے کا فیصلہ دانشمندانہ ہے لیکن محترم ایوبی سے مشورہ لے لینا ضروری ہے تو تقی الدین نے اپنے مشیروں کے اس مشورے کو مسترد کرتے ہوئے کہا… ''کیا آپ لوگ امیر محترم کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ آپ ان کے بغیر کچھ سوچ نہیں سکتے اور کچھ کرنہیں سکتے؟ کیا آپ بھول گئے ہیں کہ مصر سے اتنی دور محترم ایوبی کس طوفان میں گھرے ہوئے ہیں؟ اگر ہم نے ان سے مشورے اور فیصلے کا انتظار کیا تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ سوڈانی حملے میں پہل کرکے ہم پر سوار ہوجائیں گے''۔

''آپ ابھی حملے کا حکم دیں''۔ ایک نائب سالار نے کہا… ''فوج اسی حالت میں رسد کے بغیر کوچ کرجائے گی لیکن اتنی بڑی اور اتنی اہم مہم کے لیے گہری سوچ بچار کی ضرورت ہے۔ ہم کوچ کی تیاری کے تمام تر انتظامات بہت تھوڑے وقت میں کرلیں گے۔ آپ محترم ایوبی کو اطلاع ضرور دے دیں تاکہ وہ اور محترم نورالدین زنگی ادھر بھی دھیان رکھیں''۔

تقی الدین چند ایسے عناصر اور کوائف کو نظر انداز کررہا تھا جو اس کے حملے کو ناکام کرسکتے تھے۔ ایک یہ کہ صلیبیوں اور سوڈانیوں کے جاسوس مصر میں موجود تھے جو یہاں کی نقل وحرکت دیکھ رہے تھے۔ تقی الدین کی کمزوری یہ بھی تھی کہ اس کے دشمن کے جاسوس مسلمان بھی تھے جو انتظامیہ اور فوج میں اونچے عہدوں پر فائز تھے۔ اس کے مقابلے میں تقی الدین کے جاسوس سوڈانیوں کے پالیسی سازوں اور حکام تک نہیں پہنچ سکتے تھے۔ دوسرے یہ کہ سلطان ایوبی نے ١١٦٩ء میں مصر کی جس سوڈانی فوجی کو بغاوت کے جرم میں توڑ دیا تھا۔ اس کے کئی ِایک کمان دار اور عہدے دار سوڈان میں تھے۔ وہ سلطان ایوبی کی جنگی چالوں سے واقف تھے۔ انہوں نے انہی چالوں کے مطابق اپنی فوج کی تربیت کی تھی۔ صلیبیوں نے انہیں نہایت اچھا اسلحہ اور ضرورت سے زیادہ جنگی سامان دے رکھا تھا۔ یہ گھر کے بھیدی تھے۔ تقی الدین نے یہ بھی نہ سوچا کہ وہ سوڈان کے جس علاقے میں پیش قدمی کرنے جارہا ہے۔ وہ ایک وسیع صحرا ہے جہاں پانی خطرناک حد تک کم ہے اور وہ مقام جہاں حملہ کرنا ہے، اتنا دور ہے جہاں تک رسد کو خطرے میں ڈالے بغیر رواں رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔ مصر کے اندرونی حالات کو قابو میں رکھنے اور تخریب کاری کے انسداد کے لیے بھی فوج درکار تھی مگر تقی الدین اس قدر بھڑکا ہوا تھا کہ اس نے مکمل طور پر نیک نیتی اور اسلامی جذبے کی شدت کے زیر اثر حملے کی تیاریاں شروع کردیں اور سلطان ایوبی کو اطلاع نہ دینے کا فیصلہ کرلیا۔

اس کی اس خودمختاری میں وہی جذبہ تھا جو سلطان ایوبی میں تھا۔ اسے احساس تھا کہ سلطان ایوبی کا مقابلہ تند اور تیز طوفان سے ہے اور صلیبی فیصلہ کن جنگ لڑنے کا اہتمام کیے ہوئے ہیں۔ اس نے جو کچھ سوچا تھا درست تھا۔ اس وقت سلطان ایوبی کرک سے آٹھ نو میل دور ایک چٹانی علاقے میں اپنا ہیڈ کوارٹر قائم کیے ہوئے تھے۔ یہ اس کا عارضی قیام تھا۔ وہ اپنے ہیڈکوارٹر کو خانہ بدوش رکھا کرتا تھا جس مقام پر اسے حملہ کرانا یا شب خون مردانا ہوتا، وہ اس کے قریب رہتا اور حملہ کرنے والے دستے کے کمانڈر کو بتا دیا کرتا تھا کہ وہ ان کی واپسی کے وقت کہاں ہوگا، اس کے چھاپہ مار )کمانڈو جانباز( صلیبی فوج کی تمام تر کمک تباہ کرچکے تھے۔ چھاپہ ماروں کے چھوٹے چھوٹے گروہ اس صلیبی فوج کے لیے ناگہانی مصیبت بنے ہوئے تھے جو صحرا میں پھیلی ہوئی تھی۔ صلیبیوں کا نقصان تو بہت ہورہا تھا لیکن چھاپہ ماروں کی شہادت غیرمعمولی طور پر زیادہ تھی۔ دس جانباز جاتے تو تین چار واپس آتے تھے۔ یہ رپورٹیں بھی ملنے لگی تھیں کہ صلیبیوں نے ایسے انتظامات کرلیے ہیں جو شب خون اور چھاپے کو کامیاب نہیں ہونے دیتے۔ لہٰذا اب چھاپہ ماروں کو جان کی بازی لگانی پڑتی تھی۔ سلطان ایوبی اب اپنی چالیں اور فوجوں کا پھیلائو بدلنے کی سوچ رہا تھا۔

''معلوم ہوتا ہے کہ صلیبی مجھے آمنے سامنے آنے پر مجبور کررہے ہیں''۔ سلطان ایوبی نے اپنے فوجی نائبین سے کہا… ''میں انہیں کامیاب نہیں ہونے دوں گا اور میں اب اپنے اتنے زیادہ جوان مروانے سے بھی گریز کروں گا''۔

''میں چھاپہ مار دستوں کی نفری میں اضافہ کرنے کا مشورہ دوں گا''۔ ایک نائب نے کہا… ''اور میں یہ بھی مشورہ دوں گا کہ ہمیں دشمن کی قوت کو صرف اس لیے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ ہماری فوج میں جذبہ زیادہ ہے۔ جذبہ سپاہی کو بے جگری سے لڑا کر مروا سکتا ہے، فتح کا ضامن نہیں ہوسکتا۔ صلیبیوں کے مقابلے میں ہماری نفری بہت کم ہے۔ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ صلیبی فوج کا بیشتر حصہ زرہ پوش ہے''۔

سلطان ایوبی مسکرایا اور بولا… ''لوہا جو انہوں نے پہن رکھا ہے، وہ انہیں نہیں ہمیں فائدہ دے گا۔ کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ صلیبی کوچ کرتے ہیں تو رات کو کرتے ہیں یا صبح کے وقت؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ دھوپ سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں، سورج اوپر اٹھتا ہے تو اس کی تمازت زرہ بکتر کو انگاروں کی طرح گرم کردیتی ہے۔ زرہ پوش سپاہی اور سوار لوہے کے خود اور آہنی سینہ پوش اتار پھینکنا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ لوہے کا وزن ان کی حرکت کی تیزی ختم کردیتا ہے۔ میں انہیں دوپہر کے وقت لڑائوں گا۔ جب ان کے سروں پر رکھا ہوا لوہا ان کا پسینہ نکال کر ان کی آنکھوں میں ڈالے گا اور وہ اندھے ہوجائیں گے۔ آپ نفری کی کمی کو متحرک طریقۂ جنگ سے اور جذبے سے پورا کریں''۔

اتنے میں سلطان ایوبی کے انٹیلی جنس کے سربراہ علی بن سفیان کا ایک نائب زاہد ان آگیا۔ اس کے ساتھ دو آدمی تھے۔ سلطان ایوبی کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ ان دونوں آدمیوں کو اس نے بٹھایا اور پوچھا… ''کیا خبر ہے؟'' دونوں نے اپنے اپنے گریبان کے اندر ہاتھ ڈالے اور لکڑی کی بنی ہوئی وہ صلیبیں باہر نکالیں جو ان کی گردنوں سے بندھی ہوئی تھیں۔ وہ صلیبی نہیں مسلمان تھے۔ اپنے آپ کو صلیبی ظاہر کرنے کے لیے وہ صلیبیں گلے میں لٹکا لیتے تھے۔ دونوں نے صلیبیں اتار کر نیچے پھینک دیں۔ ان میں سے ایک نے اپنی رپورٹ پیش کی۔

یہ دونوں جاسوس تھے جو کرک سے واپس آئے تھے۔ پہلے بھی ذکر آچکا تھا کہ کرک فلسطین کا ایک قلعہ بند شہر تھا جس پر صلیبیوں کا قبضہ تھا۔ صلیبی شوبک نام کا ایک قلعہ سلطان ایوبی کے ہاتھ ہار چکے تھے۔ وہ کرک کسی قیمت پر دینا نہیں چاہتے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے دفاعی انتظامات بڑے ہی سخت کردیئے تھے جن میں ایک بندوبست یہ تھا کہ وہ قلعہ بند ہوکر نہیں لڑنا چاہتے تھے۔ شوبک سے جب عیسائی اور یہودی باشندے مسلمانوں کے ڈر سے کرک بھاگ رہے تھے، اس وقت سلطان ایوبی نے اپنی فوج اور انتظامیہ کو یہ حکم دیا تھا کہ بھاگنے والے غیر مسلموں کو روکیں اور انہیں واپس لاکر ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں لیکن سلطان ایوبی نے ایک خفیہ حکم یہ بھی دیا تھا کہ زیادہ تر باشندوں کو جانے دیں۔ اس حکم میں راز یہ تھا کہ غیر مسلم باشندوں میں سلطان کے جاسوس بھی جارہے تھے۔ اپنے جاسوس دشمن کے اس شہر میں اور مضافات میں جس پر تھوڑے عرصے بعد حملہ کرنا تھا بھیجنے کا یہ موقع نہایت اچھا تھا۔ مسلمان جاسوس عیسائی اور یہودی پناہ گزینوں کے بھیس میں کرک چلے گئے تھے۔ وہاں کے مسلمان باشندوں کو ساتھ ملا کر انہوں نے خفیہ اڈے بنا لیے تھے۔ وہ وہاں سے اطلاعات بھیجتے رہتے تھے۔ سلطان ایوبی ذاتی طور پر ان کی رپورٹیں سنا کرتا تھا۔

اس روز دو جاسوس آئے تو سلطان ایوبی نے انہیں فوراً اپنے خیمے میں بلا لیا اور باقی سب کو باہر نکال دیا۔ جاسوسوں کی رپورٹ میں صلیبیوں کی فوج کی نقل وحرکت اور ترتیب کے متعلق اطلاعات تھیں۔ سلطان ایوبی ان کے مطابق نقشہ بناتا رہا۔ اس دوران اس کے چہرے پر کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ جاسوسوں نے جب کرک کے مسلمان باشندوں کی بے بسی اور مظلومیت کی تفصیل سنائی تو سلطان کے چہرے پر نمایاں تبدیلی آگئی۔ ایک بار تو وہ جوش میں اٹھ کر کھڑا ہوا اور خیمے میں ٹہلنے لگا۔ جاسوسوں نے اسے بتایا کہ شوبک سے صلیبی شکست کھا کرکرک پہنچے تو انہوں نے مسلمانوں کا جینا حرام کردیا۔ سلطان ایوبی کو بہت سے حالات کا تو پہلے سے علم تھا، ان دو جاسوسوں نے اسے بتایا کہ اب وہاں بازار میں جن مسلمانوں کی دکانیں ہیں، وہ بہت پریشان ہیں۔ غیر مسلم تو ان کی دکانوں پر جاتے ہی نہیں، مسلمانوں کو بھی ڈرادھمکا کر ان کی دکانوں سے دور رکھا جاتا ہے۔ وہاں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی باقاعدہ مہم شروع کی گئی ہے۔ عیسائی اور یہودی مسجدوں کے سامنے اونٹ، گھوڑے اور دیگر مویشی باندھ دیتے ہیں۔ اذان اور نماز پر کوئی پابندی نہیں لیکن جب اذان ہوتی ہے تو غیر مسلم شور مچاتے، ناچتے اور مذاق اڑاتے ہیں۔

جاسوسوں نے بتایا کہ مسلمانوں کا قومی جذبہ ختم کرنے کے لیے وہاں اس قسم کی افواہیں زوروشور سے پھیلائی جارہی ہیں کہ صلاح الدین ایوبی اتنا شدید زخمی ہوکر دمشق چلا گیا ہے کہ اب تک مرچکا ہوگا اور یہ بھی کہ سلطان ایوبی کی فوج کمان کی کمزوری کی وجہ سے صحرا میں بکھر گئی ہے اور سپاہی مصر کی طرف بھاگ رہے ہیں اور یہ بھی کہ مسلمان اب کرک پر حملہ کرنے کے قابل نہیں رہے اور بہت جلدی شوبک بھی صلیبیوں کو واپس ملنے والا ہے اور یہ بھی کہ سوڈانی فوج نے مصر پر حملہ کردیا ہے اور مصر کی فوج سوڈانیوں کے ساتھ مل گئی ہے۔ جاسوسوں نے بتایا کہ اب علی الصبح پادری، مسلمان محلوں میں گھومتے پھرتے اور ہر مسلمان گھر کے دروازے پر گھنٹیاں بجاتے، اپنے مذہبی گیت گاتے اور مسلمانوں کو دعائیں دیتے ہیں۔ وہ اپنے مذہب کا اور کوئی پرچار نہیں کرتے۔ یہ پرچار وہاں کی عیسائی اور یہودی لڑکیاں کرتی ہیں جو مسلمان نوجوانوں کو جھوٹی محبت کا جھانسہ دے کر ان کے ذہن تباہ کررہی ہیں۔ یہ لڑکیاں مسلمان لڑکیوں کی سہیلیاں بن کر انہیں اپنی آزادی کی بڑی ہی دلکش تصویر دکھاتی اور انہیں بتاتی ہیں کہ مسلمان فوج جو علاقہ فتح کرتی ہے وہاں مسلمان لڑکیوں کو بھی خراب کرتی ہے۔

ان رپورٹوں میں سلطان ایوبی کے لیے کوئی بات نئی نہیں تھی۔ ابتداء میں اس کے جاسوس اسے کرک کے مسلمانوں کی حالت زار بتا چکے تھے، وہاں کے مسلمانوں کا یہ حال تھا کہ وہ سلطان ا یوبی اور اس کی فوج کے خلاف کوئی حوصلہ شکن افواہ نہیں سننا چاہتے تھے لیکن وہاں جو بھی بات ان کے کانوں میں پڑتی تھی حوصلہ شکن ہوتی تھی۔ وہ ڈرتے بات نہیں کرتے تھے۔ ان کے گھروں کی دیواروں کے بھی کان تھے۔ وہ اکٹھے بیٹھنے سے بھی ڈرتے تھے۔ جنازے اور بارات کے ساتھ بھی جاسوس ہوتے تھے اور مسجدوں میں بھی جاسوس ہوتے تھے۔ ان کی بد نصیبی تو یہ تھی کہ جاسوسی ان کے اپنے مسلمان بھائی کرتے تھے۔ وہ اپنے گھروں میں بھی سرگوشیوں میں باتیں کرتے تھے۔ کسی مسلمان کے خلاف صرف یہ کہہ دینا کہ وہ صلیبی حکومت کے خلاف ہے، اسے بیگار کیمپ میں بھیجنے کے لیے کافی ہوتا تھا۔

''لیکن سالار اعظم!'' ایک جاسوس نے کہا… ''اب وہاں ایک اورچال چلی جارہی ہے، وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ اچھا سلوک ہونے لگا ہے۔ صلیبی حکومت نے اس کی ایک مثال یہ پیش کی ہے کہ ایک عیسائی حاکم نے ایک مسجد کو بوسیدہ حالت میں دیکھا تو اس کی مرمت کا حکم دیا اور اپنی نگرانی میں مرمت کرادی۔ انہوں نے بیگار کیمپ کے مسلمانوں کو رہا تو نہیں کیا لیکن کچھ سہولتیں دے دی ہیں۔ روزمرہ مشقت کا وقت بھی کم کردیا ہے لیکن ان کے کانوں میں یہی ڈالا جاتا ہے کہ تم نے صلیب کے خلاف بہت بڑا جرم کیا ہے پھر بھی تم پر رحم کیا جارہا ہے۔ یہ پیار اور محبت کا ہتھیار بڑا ہی خطرناک ہے۔ اس جھوٹے پیار سے غیرمسلم مسلمان نوجوانوں کو نشے اور جوئے کا عادی بناتے جارہے ہیں اگر ہم نے حملے میں وقت ضائع کیا تو کرک کے مسلمان اگر مسلمان ہی رہے تو برائے نام مسلمان ہوں گے ورنہ وہ قرآن سے منہ موڑ کر گلے میں صلیب لٹکا لیں گے۔ اس صورت میں وہ اس وقت ہماری کوئی مدد نہیں کریں گے جب ہم کرک کا محاصرہ کریں گے۔ اس پیار کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے خلاف جاسوسی پہلے سے زیادہ ہوگئی ہے اور گرفتاریاں ہوتی رہتی ہیں۔ ابھی تک مسلمانوں کا جذبہ قائم ہے اور وہ ثابت قدم رہنے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں۔ انہوں نے ابھی تک غیر مسلموں کے پیار کو قبول نہیں کیا مگر وہ زیادہ دیر تک ثابت قدم نہیں رہ سکیں گے''۔

یہی وہ صورت حال تھی جس کی تفصیل سن کر سلطان ایوبی پریشان ہوگیا تھا۔ اسے یہ اطلاع بہت تکلیف دے رہی تھی کہ مسلمان مسلمانوں کے خلاف جاسوسی کررہے ہیں۔ اس کے لیے پریشانی کی دوسری وجہ یہ تھی کہ مقبوضہ علاقے میں صلیبیوں نے مسلمانوں کے خلاف پیار کا ہتھیار استعمال کرنا شروع کردیا تھا اور اس کے ساتھ ہی نوجوانوں کی کردار کشی کا بھی عمل شروع ہوگیا تھا۔ ان دونوں سے زیادہ خطرناک وہ افواہیں تھیں جو وہاں کے مسلمانوں میں اسلامی فوج کے خلاف پھیلائی جارہی تھیں۔ اس نے اپنے نظام جاسوسی کے نائب زاہدان کو بلایا اور پوچھا… ''کیا تم نے ان کی باتیں سن لی ہیں؟''

''ایک ایک لفظ سنا اور انہیں آپ کے پاس لایا ہوں''۔ زاہدان نے جواب دیا۔

''علی بن سفیان کو قاہرہ سے بلا لوں؟''۔ سلطان ایوبی نے پوچھا … ''یا تم اس کی جگہ پر کرسکو گے؟ یہ معاملہ نازک ہے۔ دشمن کے شہر میں مسلمانوں کو افواہوں اور دشمن کے زہریلے پیار سے بچانا ہے''۔

''علی بن سفیان کو قاہرہ سے بلانے کی ضرورت نہیں'' … زاہدان نے جواب دیا… ''حسن بن عبداللہ کو بھی ان کے ساتھ رہنے دیں۔ مصر کے حالات اچھے نہیں، ملک تخریب کاروں اور غداروں سے بھرا پڑا ہے۔ کرک کے مسئلے کو میں سنبھال لوں گا''۔

''تم نے کیا سوچا ہے؟'' … سلطان صلاح الدین ایوبی نے اس سے پوچھا۔ وہ دراصل زاہدان کا امتحان لے رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ زاہدان مخلص اور محنتی سراغ رساں ہے اور اپنے شعبے کے سربراہ علی بن سفیان کا شاگرد ہے۔ اس پر سلطان کو پورا پورا اعتماد تھا پھر بھی وہ یقین کرنا ضروری سمجھتا تھا کہ یہ شاگرد اپنے استاد کی کمی پوری کرے گا۔ اس نے زاہدان کا جواب سنے بغیر کہا… ''زاہدان! میں نے میدان جنگ میں شکست نہیں کھائی، یہ خیال رکھنا کہ میں اس محاذ پر بھی شکست نہیںکھانا چاہتا جس پر صلیبیوں نے حملہ کیا ہے۔ میں کرک کے مسلمانوں کو اخلاقی اور نظریاتی تباہی سے بچانا چاہتا ہوں''۔

''آپ جانتے ہیں کہ کرک میں ہمارے جاسوس موجود ہیں''… زاہدان نے کہا … ''میں انہیں اس مقصد کے لیے استعمال کروں گا۔ وہ وہاں کے مسلمانوں کو آپ کے متعلق اور ہماری فوج اور مصر کے متعلق صحیح خبریں سناتے رہیں گے اور انہیں آپ کا پیغام دیں گے''۔

''وہاں کی مسلمان عورتوں میں قومی جذبے کی کمی نہیں''۔ ایک جاسوس بول پڑا، اس نے کہا… ''ہم جوان لڑکیوں سے کہیں گے کہ وہ گھر گھر جاکر عورتوں کے ذہن صاف کرتی رہیں گی۔ ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ وہاں کی لڑکیاں لڑنے کے لیے بھی تیار ہیں''۔

''عورتیں اگر گھر اور بچوں کی تربیت کا محاذ سنبھالے رکھیں تو اسی سے اسلام کے فروغ اور سلطنت اسلامیہ کی توسیع میں بہت مدد ملے گی'' … سلطان ایوبی نے کہا۔ ''انہیں اس مقصد کے لیے استعمال کرو کہ مسلمان گھرانوں میں اور بچوں میں غیراسلامی اثرات داخل نہ ہونے دیں۔ میں اس کوشش میں مصروف ہوں کہ کرک پر جلدی حملہ کردوں اور شوبک کی طرح وہاں کے بھی مسلمانوں کو آزاد کرائوں'' … اس نے زاہدان سے پوچھا … ''اس مقصد کے لیے کسے کرک بھیجو گے؟''

''انہی دونوں کو''۔ زاہدان نے جواب دیا …''یہ آنے جانے کے راستوں اور طریقوں سے واقف ہوچکے ہیں اور وہاں کے حالات اور ماحول سے مانوس ہیں''۔

یہ دونوں آدمی غیر معمولی طور پر ذہین جاسوس تھے۔ سلطان ایوبی نے انہیں ہدایات دینی شروع کردیں۔

٭ ٭ ٭
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: داستان ایمان فروشوں کی جلد‎ ‎دوم

Post by ایکسٹو »

کرک میں مسلمان باشندوں پر پیار کا جو ہتھیار چلایا جارہا تھا وہ صلیبیوں کی انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر جرمن نژاد ہرمن کی اختراع تھی۔ وہ شوبک کی شکست کے بعد صلیبی حکمرانوں پر زور دے رہا تھا کہ کرک کے مسلمانوں کو پیار کا دھوکہ دے کر صلیب کا وفا دار بنایا جائے یا کم از کم صلاح الدین ایوبی کے خلاف کردیا جائے۔ صلیبی حکمران مسلمانوں سے اتنی زیادہ نفرت کرتے تھے کہ ان کے ساتھ جھوٹا پیار بھی نہیں کرنا چاہتے تھے۔ وہ تشدد اور درندگی سے مسلمانوں کا قومی جذبہ اور وقار ختم کرنے کے قائل تھے۔ ہرمن اپنے فن کا ماہر تھا۔ انسانوں کی نفسیات سمجھتا تھا۔ اس نے صلیبی حکمرانوں کو بڑی مشکل سے اپنا ہم خیال بنایا اور یہ پالیسی مرتب کرالی کہ شہر اور مضافات کے اس علاقے کے مسلمانوں کو جو صلیبی استبداد میں ہے، جسے مشتبہ اور جاسوس سمجھا جائے اورجس مسلمان کے خلاف ذرا سی بھی شہادت ملے اسے گرفتار کرکے غائب کردیا جائے لیکن ہر مسلمان شہری کو دہشت زدہ نہ کیا جائے۔ اس پالیسی کی بنیادی شق یہ تھی کہ لڑکیوں کے ذریعے مسلمان لڑکیوں کو بے پردہ کیا جائے اور مسلمان لڑکیوں کو ذہنی عیاشی اور نشے کا عادی بنا دیا جائے۔ مختصر یہ ہے کہ ان کی کردار کشی کا انتظام کیا جائے۔ لہٰذا اس پالیسی پر عمل شروع کردیا گیا تھا۔ ابتداء افواہوں سے کی گئی تھی۔ ہرمن نے یہ منظور بھی لے لی تھی کہ مسلمانوں میں غداری کے جراثیم پیدا کرنے کے لیے خاصی رقم خرچ کی جائے۔ چند ایک مسلمانوں کو خوبصورت اور تندرست گھوڑوں کی بگھیاں دے کر انہیں شہزادہ بنا دیا جائے اور انہیں مسلمانوں کے خلاف مخبری اور ان میں افواہیں پھیلانے کے لیے استعمال کیا جائے۔ انہیں شاہی دربار میں وقتاً فوقتاً مدعو کرکے ان کے ساتھ شاہانہ سلوک کیا جائے۔ ان کی مستورات کو بھی مدعو کرکے ان کی عزت کی جائے کہ وہ اپنی اصلیت اور اپنا مذہب ذہن سے اتار دیں۔ ہرمن نے کہا تھا … ''اگر آپ مسلمان کو اپنا غلام بنانا چاہتے ہیں تو اس کے دماغ میں بادشاہی کا کیڑا ڈال دیں۔ انہیں گھوڑے اور بگھیاں دے کر اس کے دامن میں چند ایک اشرفیاں ڈال دیں۔ پھر وہ بادشاہی کے نشے میں آپ کے اشاروں پر ناچے گا۔ شراب بھی پئے گا اور اپنی بیٹیوں کو اپنے ہاتھوں ننگا کرکے آپ کے حوالے کردے گا۔ اگر آپ مسلمان کا مستقبل تاریک کرنا چاہتے ہیں تو یہ نسخہ آزمائیں۔ میں آپ کو پہلے بھی بتا چکا ہوں اور اب پھر بتاتا ہوں کہ یہودیوں نے مسلمانوں کی اخلاقی تباہی کے لیے اپنی لڑکیاں پیش کی ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ مسلمان کا سب سے پرانا اور سب سے بڑا دشمن یہودی ہے۔ اسلام کی جڑیں تباہ کرنے کے لیے یہودی اپنی بیٹیوں کی عزت اور اپنی پونجی کا آخری سکہ بھی قربان کرنے کو تیار رہتے ہیں''۔

یہودیوں میں خطرہ یہ تھا کہ وہ اسی خطے کے رہنے والے تھے، اس لیے مسلمانوں کی زبان بولتے تھے اور ان کے رسم ورواج اور گھریلو زندگی سے بھی واقف تھے۔ ان کی شکلیں اور کئی دیگر کوائف ملتے جلتے تھے۔ کوئی یہودی لڑکی مسلمانوں کا لباس پہن کر کسی مسلمان گھر میں جا بیٹھے تو اسے بلاشک وشبہ مسلمان سمجھ لیا جاتا تھا۔ اس مشابہت سے یہودی پورا پورا فائدہ اٹھا رہے تھے اور اسلامی معاشرت میں غیر اسلامی زہر داخل ہونا شروع ہوگیا تھا۔

جس روز سلطان ایوبی نے دو جاسوسوں کو ہدایات دیں اور زاہدان سے کہا تھا کہ وہ کرک میں جاسوسوں کے ذریعے مسلمانوں کو صحیح خبریں پہنچائے اس سے بیس روز بعد کرک میں ایک پاگل اور مجذوب اچانک کہیں سے نمودار ہوا۔ اس نے ہاتھ میں لکڑی کی بنی ہوئی گز بھر لمبی صلیب اٹھا رکھی تھی، جسے وہ اوپر کرکے چلاتا تھا… ''مسلمانوں کی تباہی کا وقت قریب آگیا ہے، شوبک میں مسلمان اپنی بیٹیوں کی عصمت دری کررہے ہیں۔ مصر میں مسلمانوں نے شراب پینا شروع کردی ہے۔ خدائے یسوع مسیح نے کہا ہے کہ اب یہ قوم روئے زمین پر زندہ نہیں رہ سکتی۔ مسلمانو! نوح کے دوسرے طوفان سے بچنا چاہتے ہوتو صلیب کے سائے میں آجائو۔ اگر صلیب پسند نہیں تو خدائے یہودہ کے آگے سجدہ کرو۔ مسجدوں میں تمہارے سجدے بے کار ہیں''۔

لباس اور شکل وصورت سے وہ اچھا بھلا لگتا تھا لیکن باتوں اور انداز سے پگلا معلوم ہوتا تھا۔ اس کی داڑھی بھی تھی، لمبا چغہ پہن رکھا تھا، سرپر پگڑی اور اس پر رومال ڈالا ہوا تھا جو کندھوں پر بھی پھیلا ہوا تھا۔ اس کے چہرے اور کپڑوں پر گرد تھی جس سے پتا چلتا تھا کہ وہ سفر سے آیا ہے۔ اس کے پائوں گرد آلود تھے۔ اسے کوئی روکتا اور بات کرتا تھا تو وہ رک جاتا تھا لیکن کوئی جواب نہیں د یتا تھا۔ کوئی بات جیسے سنتا سمجھتا ہی نہیں تھا۔ سوال کوئی بھی پوچھو وہ اپنا اعلان دہرانے لگتا تھا… ''مسلمانوں کی تباہی کا وقت قریب آگیا ہے وغیرہ''… کسی نے بھی یہ معلوم کرنے کی کوشش نہ کی کہ وہ کون ہے اور کہاں سے آیا ہے۔ عیسائی اس لیے خوش تھے کہ اس نے ہاتھ میں صلیب اٹھا رکھی تھی اور خدا یسوع مسیح کا نام لیتا تھا۔ یہودی اس لیے خوش تھے کہ وہ خدائے یہودہ کا نام لیتا تھا اور دونوں کی یہ خوشی مشترک تھی کہ وہ مسلمانوں کی تباہی کی خوشخبری سنا رہا تھا۔ صلیبی فوج کے چند ایک سپاہیوں نے اس کی للکار سنی تو انہوں نے قہقہہ لگایا۔ شہری انتظامیہ کی فوج )جو بعد میں پولیس کہلائی( نے اسے دیکھا تو اسے پاگل کہہ کر نظر انداز کردیا۔ مسلمانوں میں اتنی جرأت نہیں تھی کہ اس کا منہ بند کرتے۔ مسلمان اس کے منہ سے اپنی تباہی کا اعلان سن کر ڈر بھی گئے تھے اور انہیں غصہ بھی آیا تھا مگر کچھ بھی نہیں کرسکتے تھے۔

یہ مجذوب شہر کی گلیوں اور بازاروں میں گھوم رہا تھا اور اس اعلان کو دہراتا جارہا تھا … ''مسلمانو! صلیب کے سائے میں آجائو، تمہاری تباہی کا وقت آگیا ہے۔ مسجدوں میں تمہارے سجدے بے کار ہیں''۔ کہیں کہیں وہ یہ بھی کہتا تھا… ''کرک میں مسلمانوں کی فوج نہیں آئے گی۔ ان کا صلاح الدین ایوبی مرچکا ہے''۔ بعض اوقات وہ اوٹ پٹانگ اور بے معنی فقرے سے بولتا تھا جو ثابت کرتے تھے کہ وہ پاگل ہے۔ بچے اس کے پیچھے پیچھے چلے جارہے تھے۔ بڑے عمر کے آدمی بھی کچھ دور تک اس کے پیچھے پیچھے چلتے اور رک جاتے تھے۔ وہاں سے چند اور آدمی اس کے پیچھے چل پڑتے تھے۔ مسلمان اسے غصے کی نگاہ سے بھی دیکھتے تھے اور اپنے بچوں کو اس کے پیچھے جانے سے روکتے تھے۔ صرف ایک مسلمان تھا جو اس پاگل کے پیچھے پیچھے جارہا تھا۔ وہ پاگل سے دس بارہ قدم دور تھا۔ یہ ایک جواں سال مسلمان تھا۔ راستے میں دو عیسائی نوجوانوں نے اسے طعنے دیئے، ایک نے اسے کہا …''عثمان بھائی تم بھی صلیب کے سائے میں آجائو''۔ اس نے انہیں قہر بھری نظروں سے دیکھا اور چپ رہا۔ ان عیسائیوں کو معلوم نہیں تھا کہ عثمان کے پاس ایک خنجر ہے اور وہ اس پاگل کو قتل کرنے کے لیے اس کے پیچھے پیچھے جارہا ہے۔

اس کا پورا نام عثمان صارم تھا۔ اس کے ماں باپ زندہ تھے اور اس کی ایک چھوٹی بہن بھی تھی جس کا نام النور صارم تھا۔ اس لڑکی کی عمر بائیس تئیس سال تھا۔ عثمان اس سے تین چار سال بڑا تھا جو جوشیلا جوان تھا۔ اسلام کے نام پر جان نثار کرتا تھا۔ صلیبی حکومت کی نظر میں وہ مشتبہ بھی تھا کیونکہ وہ مسلمان نوجوانوں کو صلیبی حکومت کے خلاف زمین دوز کارروائیوں کے لیے تیار کرتا رہتا تھا۔ وہ ابھی کوئی جرم کرتا پکڑا نہیں گیا تھا۔ اس نے جب اس پاگل کی آواز سنی تو باہر نکل آیا۔ پاگل اتنی بڑی صلیب بلند کیے مسلمانوں کے خلاف بلند آواز میں واہی تباہی بکتا جارہا تھا۔ عثمان صارم نے یہ بھی نہ دیکھا یہ تو کوئی پاگل ہے۔ اس نے صلیب دیکھی اور پاگل کے الفاظ سنے تو اس پر دیوانگی طاری ہوگئی۔ اپنے گھر جاکر اس نے خنجر لیا اور کُرتے کے اندر ناف میں اڑس کر پاگل کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔ وہ اسے ایسی جگہ قتل کرنا چاہتا تھا جہاں اسے کوئی پکڑ نہ سکے۔ وہ صلیبیوں کے خلاف مزید کارروائیوں کے لیے زندہ رہنا چاہتا تھا۔ وہ پاگل سے دس بارہ قدم پیچھے چلتا گیا اور اس کا اعلان سنتا گیا۔ جب دو عیسائیوں نے اسے طعنے دیئے اور ایک نہ کہا کہ عثمان بھائی تم بھی صلیب کے سائے میں آجائو تو اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ اس کے دل میں قتل کا ارادہ اور زیادہ پختہ ہوگیا۔

پاگل کے پیچھے اور اس کے ساتھ ساتھ لوگوں اور بچوں کا جلوس جمع ہوگیا تھا۔ قتل کا یہ موقعہ اچھا نہیں تھا۔ دن گزرتا گیا اور پاگل کی آواز دھیمی پڑتی گئی۔ اس کے پیچھے چلنے والے کم ہوتے گئے۔ سورج غروب ہونے میں ابھی کچھ دیر باقی تھی۔ ایک مسجد آگئی۔ پاگل مسجد کے دروازے میں بیٹھ گیا اور اس نے صلیب اوپر کرکے کہا… ''اب یہ گرجا ہے، مسجد نہیں ہے'' … اس وقت عثمان صارم اس کے قریب جاکھڑا ہوا۔ اسے اچھی طرح احساس تھا کہ یہ بے شک پاگل ہے لیکن اس کے قتل کی سزا بھی موت ہوگی کیونکہ اس نے صلیب اٹھا رکھی ہے اور یہ مسلمانوں کے خلاف نعرے لگا رہا ہے۔ عثمان صارم نے پاگل کے قریب ہوکر دھیمی آواز میں کہا … ''یہاں سے فوراً اٹھو اور اپنی صلیب کے ساتھ غائب ہوجائو ورنہ صلیبی یہاں سے تمہاری لاش اٹھائیں گے''۔

پاگل نے اسے نظر بھر کر دیکھا، اس کے سامنے بہت سے بچے کھڑے تھے، اس نے عثمان صارم کی دھمکی کا جواب دیئے بغیر بچوں کو ڈانٹ کر بھاگ جانے کو کہا۔ بچے ڈر کر بھاگ گئے تو پاگل مسجد کے اندر چلا گیا۔ عثمان صارم کے لیے یہ موقعہ بہت اچھا تھا۔ اس نے کچھ سوچے بغیر چوکڑی بھری، دروازے کے اندر گیا اور دروازہ بند کردیا۔ اس نے بہت تیزی سے خنجر نکالا مگر وار کرنے لگا تو پاگل نے گھوم کر دیکھا۔ عثمان کے خنجر کا وار اپنی طرف آتا دیکھ اس نے صلیب آگے کرکے وار صلیب پر لیا اور کہا… ''رک جائو جوان، اندر چلو، میں مسلمان ہوں''۔

عثمان صارم نے دوسرا وار نہ کیا۔ پاگل جوتے اتار کر مسجد کے اندرونی کمرے میں چلا گیا۔ اس نے صلیب اپنے ہاتھ میں رکھی۔ اندر جاکر اس نے عثمان صارم سے نام پوچھا اور کہا … '' میں مسلمان ہوں، میری باتیں غور سے سن لو۔ مجھے بتائو کہ تم کب سے میرے پیچھے آرہے ہو؟''

''میں سارا دن تمہارے پیچھے پھرتا رہا ہوں''۔ عثمان صارم نے جواب دیا… ''مگر مجھے قتل کا موقعہ نہیں مل رہا تھا''۔

''تم مجھے قتل کیوں کرنا چاہتے ہو؟'' پاگل نے پوچھا۔

''کیونکہ میں اسلام اور صلاح الدین ایوبی کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کرسکتا''۔ عثمان صارم نے جواب دیا… ''تم پاگل ہویا نہیں، میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا''۔

پاگل نے اس سے کئی اور باتیں پوچھیں، آخر اس نے کہا… ''مجھے تم جیسے ایک جوان کی ضرورت تھی۔ اچھا ہوا کہ تم خود ہی میرے پیچھے آگئے۔ میرا خیال تھا کہ مجھے اپنے مطلب کا کوئی مسلمان بڑی مشکل سے ملے گا۔ میں صلاح الدین ایوبی کا بھیجا ہوا جاسوس ہوں۔ میں نے یہ ڈھونگ صلیبیوں کو دھوکہ دینے کے لیے رچایا ہے۔ میں نے اس بھیس میں سفر کیا ہے۔ مجھے تم سے کچھ باتیں کرنی ہیں۔ یاد رکھو کہ مسجد میں کوئی صلیبی آگیا تو میں پھر وہی بکواس شروع کردوں گا جو دن بھر کرتا رہا ہوں۔ تم غور سے سنتے رہنا جیسے تم مجھ سے متاثر ہورہے ہو۔ میں بہت تیزی سے بولوں گا۔ شام کی نماز کا وقت ہورہا ہے۔ مسلمانوں میں صلیبیوں کے بھی جاسوس ہیں۔ میںنمازیوں کے آنے تک اپنی بات ختم کرنا چاہتا ہوں''۔

عثمان صارم نے کبھی جاسوس نہیں دیکھا تھا۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ یہ غیرمعمولی طور پر ذہین جاسوس ہے جس نے اسے چند سوال پوچھ کر پہچان لیا ہے کہ یہ جوان قابل اعتماد ہے۔ جاسوس نے اسے کہا… ''اپنے جیسے چند ایک جوان اکٹھے کرو اور کچھ مسلمان لڑکیوں کو بھی تیار کرو۔ تمہیں ہر ایک مسلمان گھرانے میں یہ پیغام پہنچانا ہے کہ صلاح الدین ایوبی زندہ ہے اور وہ اپنی فوجوں کے ساتھ یہاں سے صرف آدھے دن کی مسافت جتنا دور ہے۔ اس کی تمام فوج کرک پر حملہ کرنے کے لیے نہ صرف تیار ہے بلکہ اس فوج نے صلیبی فوج کے ناک میں دم کررکھا ہے۔ مصر میں حالات پر سکون ہیں، وہاں صلیبیوں نے جو تخریب کاری کی تھی وہ جڑ سے اکھاڑ دی گئی ہے''۔

''صلاح الدین ایوبی کب حملہ کرے گا؟''… عثمان صارم نے پوچھا۔ ''ہم اس کی راہ دیکھ رہے ہیں، ہم تمہیں یقین دلاتے ہیں کہ تم باہر سے حملہ کرو گے تو ہم صلیبیوں پر اندر سے حملہ کریں گے۔ خدا کے لیے جلدی آئو''۔

''تحمل سے کام لو جوان!'' …جاسوس نے کہا… ''پہلے صلاح الدین ایوبی کا پیغام سن لو اور یہ ہر ایک نوجوان کے ذہن پر نقش کردو۔ ایوبی نے کہا ہے کہ کرک کے مسلمان نوجوانوں سے کہنا کہ تم ملک اور مذہب کے پاسبان ہو۔ میں نے پہلی جنگ لڑکپن میں لڑی تھی اور محاصرے میں لڑی تھی۔ فوج کی کمان میرے چچا کے پاس تھی، اس نے مجھے کہا تھا کہ محاصرے میں گھبرانہ جانا۔ اگر تم اس عمر میں گھبرا گئے تو تمہاری ساری عمر گھبراہٹ اور خوف میں گزرے گی۔ اگر اسلام علم بردار بننا چاہتے ہو تو یہ علم آج ہی اٹھا لو اور دشمن کی دیواریں توڑ کر نکل جائو پھر گھوم کر آئو اور دشمن پر جھپٹ پڑو۔ میں گھبرایا نہیں۔ تین مہینوں کے محاصرے نے ہمیں فاقہ کشی بھی کرائی لیکن ہم محاصرہ توڑ کر نکل آئے اور ہم نے جس خوراک سے پیٹ بھرے وہ دشمن کی رسد سے چھینی ہوئی خوراک تھی۔ ہمارے جو گھوڑے محاصرے میں بھوک سے مر گئے تھے، ہم نے ان کی کمی دشمن کے گھوڑوں سے پوری کی۔

''صلاح الدین ایوبی نے کہا ہے کہ میری قوم کے بیٹوں سے کہنا کہ تم پر دشمن نے پیار کے ہتھیار سے حملہ کیا ہے۔ ہمیشہ یاد رکھنا کہ کوئی غیر مسلم کسی مسلمان کا دوست نہیں ہوسکتا۔ صلیبی میدان جنگ میں ٹھہر نہیں سکے، ان کے منصوبے خاک میں مل گئے ہیں، اس لیے وہ اب مسلمانوں کی بھرتی ہوئی نسل کے ذہن سے قومیت اور مذہب نکالنے کے جتن کررہے ہیں۔ انہوں نے جو ہتھیار استعمال کیا ہے وہ بڑا ہی خطرناک ہے۔ یہ ہے ذہنی عیاشی، کاہلی اور کوتاہی۔ تم میں یہ تینوں خرابیاں پیدا کرنے کے لیے عیسائی اور یہودی ایک ہوگئے ہیں۔ یہودی اپنی لڑکیوں کے ذریعے تم میں حیوانی جذبہ بھڑکا رہے ہیں اور تمہیں نشے کا عادی بنا رہے ہیں۔ میں یہ نہیں کہوں گا کہ حیوانی جذبے اور نشے سے تمہاری عاقبت خراب ہوگی اور موت کے بعد تم جہنم میں جائو گے۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کردار کی یہ خرابیاں تمہارے لیے اس دنیا کو ہی جہنم بنا دیں گی۔ تم جسے جنت کی لذت سمجھتے ہو وہ جہنم کا عذاب ہے۔ تم صلیبیوں کے غلام ہوجائو گے جو تمہاری بہنوں کو بے آبرو کرتے پھریں گے۔ تمہارے قرآن کے ورق گلیوں میں اڑیں گے اور تمہاری مسجدیں اصطبل بن جائیں گی۔

''صلاح الدین ایوبی نے کہا ہے کہ باوقار قوم کی طرح زندہ رہنا چاہتے ہو تو اپنی روایات کو نہ بھولو۔ صلیبی ایک طرف تم پر تشدد کررہے ہیں اور دوسری طرف تمہیں دولت اور گھوڑا گاڑیوں کا لالچ دے رہے ہیں۔ مسلمان ان عیاشیوں کا قائل نہیں ہوتا… تمہاری دولت تمہارا کردار اور ایمان ہے۔ یہ صلیبیوں کی شکست کا ثبوت ہے کہ وہ تمہاری تلوار سے خوف زدہ ہوکر اتنے اوچھے ہتھیاروں پر اتر آئے ہیں کہ اپنی بیٹیوں کو بے حیا بنا کر تمہیں اپنا غلام بنانے کے جتن کررہے ہیں۔ میری قوم کے بیٹو! اپنے کردار کو محفوظ رکھو، آپنے آپ کو قابو میں رکھو، ظالم حکمران دراصل کمزور حکمران ہوتا ہے۔ وہ اپنے مخالفین میں سے کسی کو ظلم وتشدد سے زیر کرنے کی کوشش کرتا ہے اور کسی کو دلت کا لالچ دے کر۔ تم ظلم وتشدد سے بھی نہ ڈرو اور کسی لالچ میں بھی نہ آئو۔ تم قوم کا مستقبل ہو۔ ہم قوم کا ماضی ہیں۔ دشمن تمہارے ذہنوں سے تمہارا اور خشندہ ماضی نکال کر اس میں اپنے نظریات اور مفادات کی سیاہی بھرنے کی کوشش کررہا ہے تاکہ اسلام کا مستقبل تاریک ہوجائے۔ اپنی اہمیت پہچانو۔ دشمن تمہیں صرف اس لیے اپنے تابع کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ وہ تم سے خائف ہے۔ اپنی نظر آج پر نہیں کل پر رکھو کیونکہ تمہارے دشمن کی نظر تمہارے مذہب کے کل پر ہے۔ تم نے د یکھ لیا ہے کہ کفار تمہارا کیا حال کررہے ہیں۔ اگر تم ذہنی عیاشی میں پڑ گئے تو تمام تر ملت اسلامی کا یہی حشر ہوگا''۔

جاسوس نے سلطان ایوبی کا پیغام بہت تیزی سے عثمان صارم کو سنا دیا اور اسے عمل کے طریقے بتانے لگا۔ اس نے کہا …''سالار اعظم نے خاص طور پر کہا ہے کہ اپنے اوپر جوش اور جذبات کا غلبہ طاری نہ کرنا۔ عقل پر جذبات کو غالب نہ آنے دینا۔ اشتعال سے بچنا، اپنے آپ پر قابو رکھنا۔ احتیاط لازمی ہے۔ جاسوس نے اسے بتایا کہ وہ اور اس کے دو ساتھی کسی نہ کسی روپ میں اسے خود ہی ملتے رہیں گے اور یہ رابطہ قائم رہے گا۔ فوری طور پر ضرورت یہ ہے کہ مسلمان اپنے گھروں میں چوری چھپے کمانیں، تیر اور برچھیاں بنائیں اور گھروں میں چھپا کر رکھیں، عورتوں کو گھروں کے اندر ہی خنجر اور برچھی مارنے اور وار سے بچنے کے لیے طریقہ سکھائیں۔ یہودی لڑکیوں کی باتوں پر دھیان نہ دیں، ان کے ساتھ ایسی کوئی بات نہ کریں جس سے انہیں کوئی شک پیدا ہو۔ اپنے طور پر کوئی جنگی کارروائی نہ کریں۔ پہلے منظم ہوجائیں پھر قیادت بنائیں۔ ہر ایک فرد کا ذرا سا بھی عمل قائد کی نظر میں ہونا چاہیے اور کسی فرد کا کوئی اقدام قائد کی اجازت کے بغیر نہ ہو''۔

سورج غروب ہونے لگا تھا۔ مسجد کا پیش امام آگیا۔ اسے دیکھتے ہی جاسوس نے صلیب اٹھائی اور دوڑتا ہوا باہرنکل گیا۔ باہر سے پھر وہی اعلان سنائی دینے لگا… ''مسلمانو! صلیب کے سائے میں آجائو، تمہارا اسلام مر گیا ہے''… امام نے عثمان صارم کو قہر بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا… ''یہ یہاں کیا کررہا تھا؟ اور تم نے اسے اندر کیوں بٹھا رکھا تھا؟ اسے ہلاک کیوں نہ کردیا؟ تمہاری رگوں میں مسلمان باپ کا خون جم گیاہے؟ میں اتنا بوڑھا نہ ہوتا تو یہاں سے اسے زندہ باہر نہ جانے دیتا''۔

''میں اس کے پیچھے اسی لیے آیا تھا کہ یہ یہاں سے زندہ نہ نکل سکے''۔ عثمان صارم نے کہا اور امام کو اپنا خنجر دکھا کر کہنے لگا… ''خدا کا شکر ہے کہ اس نے میرا خنجر صلیب پر روک لیا تھا۔ یہ آدمی پاگل نہیں، عیسائی اور یہودی بھی نہیں، یہ مسلمان ہے۔ صلاح الدین ایوبی کا پیغام لایا ہے''… اس نے بوڑھے امام کو سلطان ایوبی کا پیغام سنایا اور کہا… ''میں اس پیغام پر عمل کروں گا۔ آج شام سے ہی بسم اللہ کررہا ہوں لیکن ہمیں ایک امیر کی ضرورت ہے۔ کیا آپ ہماری قیادت کریں گے؟ یہ سوچ لیں کہ صلیبی حکومت کو خبر مل گئی تو سب سے پہلے امیر کی گردن اڑائی جائے گی''۔

''کیا مسجد میں کھڑے ہوکر میں کہنے کی جرأت کرسکتا ہوں کہ میں قوم سے الگ رہوں گا؟''۔ امام نے جواب دیا۔ ''لیکن یہ فیصلہ قوم کرے گی کہ میں امیر اور قائد بننے کے قابل ہوں یا نہیں، میں خدا کے گھر میں کھڑا یہ عہد کرتا ہوں کہ میری دانش، میرا مال میری اولاد اور میری جان اسلام کے تحفظ اور فروغ کے لیے اور صلیب کو روبہ زوال کرنے کے لیے وقف ہوگئی ہے… میرے عزیز بیٹے صلاح الدین ایوبی کے پیغام کا ایک ایک لفظ ذہن میں بٹھا لو۔ اس نے ٹھیک کہا ہے کہ نوجوان قوم اور مذہب کا مستقبل ہوتے ہیں۔ وہ اسے روشن بھی کرسکتے ہیں اور وہ آوارہ ہوکر اسے تاریک بھی کرسکتے ہیں۔ جب کوئی نوجوان صلیبیوں اور یہودیوں کی بے حیائی کا دلدارہ ہوکر لڑکیوں کو بری نظر سے دیکھتا ہے تو وہ محسوس نہیں کرتا کہ اس کی اپنی بہن بھی اس جیسے نوجوانوں کی بری نظر کا شکار ہورہی ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں قومیں تباہ ہوتی ہیں… میرے نوجوان بیٹے! خدا کے اس گھر میں عہد کرو کہ تم صلاح الدین ایوبی کے پیغام پر عمل کرو گے''۔

عثمان صارم نے گھر جاکر اپنی بہن النور کو الگ بٹھا کر سلطان ایوبی کا پیغام سنایا اور کہا… ''النور! ہمارا مذہب اور ہمارا قومی وقار تم سے بہت بڑی قربانی مانگ رہا ہے۔ آج سے اپنے آپ کو پردہ نشین لڑکی سمجھنا چھوڑ دو۔ مسلمان لڑکیوں تک یہ پیغام پہنچا کر انہیں اس جہاد کے لیے تیار کرلو۔ میں تمہیں خنجر، تیر کمان اور برچھی کا استعمال سکھا دوں گا۔ احتیاط یہ کرنی ہے کہ کسی کو شک بھی نہ ہو کہ ہم لوگ کیا کررہے ہیں''۔

''میں ہر طرح کی قربانی کے تیار ہوں''۔ النور نے کہا …''میں اور میری تمام سہیلیاں تو پہلے ہی سوچ رہی ہیں کہ ہم اپنی آزادی اور اپنی قوم کے لیے کیا کرسکتی ہیں۔ ہم تو مردوں کے منہ کی طرف دیکھ رہی ہیں''۔

عثمان صارم نے اسے بتایا کہ صلاح الدین ایوبی اور اس کی فوج کے متعلق جتنی خبریں یہاں مشہور کی جاتی ہیں، وہ سب جھوٹی ہوتی ہیں۔ تمام مسلمان گھرانوں میں جاکر عورتوں کو صحیح خبریں سنائو۔ عثمان صارم نے اسے صحیح خبریں سنائیں اور یہ بھی بتایا کہ مسلمانوں میں غدار اور صلیبیوں میں مخبر بھی ہیں۔ اس نے بہن کو ایسے تین چار گھرانے بتائے اور کہا کہ ان عورتوں کو ہاتھ میں لو اور انہیں بتائو کہ ان کے آدمی غدار ہیں۔ انہیں یہ بھی کہو کہ عیسائی اور یہودی لڑکیوں کے پیار سے بچو۔ ان کا پیار محض دھوکہ ہے۔

''کیا میں رینی کو یہاں آنے سے روک دوں؟'' …عثمان صارم نے کہا … ''وہ بہت تیز اور ہوشیار لڑکی ہے''۔

رینی ایک نوجوان عیسائی لڑکی تھی، عثمان صارم کے گھر سے تھوڑی ہی دور اس کا گھر تھا۔ اس کا باپ شہری انتظامیہ کے کسی اونچے عہدے پر فائز تھا۔ لڑکی کا پورا نام رینی الیگزینڈر تھا۔ وہ النور کی سہیلی بنی ہوئی تھی، عثمان صارم کے ساتھ بھی اس نے گہرے مراسم پیدا کرلیے تھے۔ اسے دیکھ کر وہ بہت خوش ہوتی تھی۔ عثمان صارم ابھی اس کے قریب نہیں ہوا تھا، یہ وجیہہ جوان سمجھتا تھا کہ یہ عیسائی لڑکی ہے اور یہاں جاسوسی کرنے آتی ہے۔ اس نے رینی کو کبھی ناپسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا تھا بلکہ اس کے ساتھ ہنسی مذاق بھی کرلیتا تھا تاکہ اسے شک نہ ہو۔ اب جب اسے یہ ضرورت پیش آئی کہ رینی اس کے گھر نہ آیا کرے تو رینی کو یہ کہنا اس کے لیے مشکل ہوگیا کہ اب ہمارے گھر نہ آیا کر و مگر اسے روکنا ضروری تھا کیونکہ وہ گھر میں اپنی بہن کو جنگی ٹرینگ دینا چاہتا تھا اور اسے معلوم نہیں تھا کہ اس گھر میں اب کیا کیا راز آئیں گے۔ اس نے سوچ سوچ کر یہ طریقہ پسند کیا کہ النور سے کہا کہ رینی جب کبھی آئے تم یہ کہہ کر باہر چلی جایا کرو کہ کسی سہیلی کے گھر جا رہی ہوں۔ اس طرح اسے ٹالتی رہو، وہ خود ہی آنا چھوڑ دے گی۔

کرک شہر کے لوگ اس پاگل کی باتیں کررہے تھے جو مسلمانوں کی تباہی کی پیشن گوئی کرتا پھر رہا تھا۔ غیر مسلموں کو وہ بہت ہی اچھا لگا تھا۔ سب اسے ڈھونڈتے پھرتے تھے لیکن وہ کہیں نظر نہیں آرہا تھا۔ سرکاری طور پر بھی اسے تلاش کیا جارہا تھا کیونکہ مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے اور ان کا جذبہ سرد کرنے کے لیے اس پاگل کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ وہ کہاں چلا گیا ہے۔ وہ اسی رات کہیں لاپتہ ہوگیا تھا۔ دس بارہ روز اس کی تلاش ہوتی رہی۔ صلیبی حکام نے شہر کے باہر بھی گھوڑ سوار دوڑا دیئے۔ انہیں توقع تھی کہ وہ اس شہر سے کہیں دوسرے شہر جارہا ہوگا مگر وہ کسی کو نہ ملا اور دس بارہو دن گزر گئے۔

ان دس بارہ دنوں میں عثمان صارم نے النور اور اس کی تین سہیلیوں کو ہتھیاروں کا استعمال سکھا دیا۔ اس نے انہیں تیغ زنی بڑی محنت سے سکھائی۔ اس کے علاوہ اس نے مسلمان نوجوانوں کو درپردہ سلطان ایوبی کا پیغام سنا کر زمین دوز محاذ پر جمع کرلیا۔ ان نوجوانوں نے ان مسلمان کاریگروں کو تیار کرلیا جو برچھیاں اور تیروکمان وغیرہ بناتے تھے۔ یہ سب صلیبیوں کے ملازم تھے۔ وہ اپنے لیے کوئی ہتھیار نہیں بنا سکتے تھے۔ مسلمانوں کو کوئی ہتھیار رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ ان کاریگروں نے گھروں میں چوری چھپے ہتھیار بنانے شروع کردیئے۔ یہ بہت ہی خطرناک کام تھا۔ پکڑے جانے کی صورت میں صرف سزائے موت ہی نہیں تھی بلکہ مرنے سے پہلے صلیبی درندوں کی بھیانک اذیتیں تھیں۔ وہاں کوئی مسلمان کوئی معمولی سے جرم میں بامحض شک میں پکڑا جاتا تو اس سے پوچھا جاتا تھا کہ مسلمان گھرانوں کے اندر کیا ہورہا ہے اور جاسوس کہاں ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اس کے جسم کو روئی کی طرح دھننا شروع کردیتے تھے۔ کاریگر جو ہتھیار بناتے تھے وہ عثمان صارم جیسے نوجوان رات کو مختلف گھروں میں چھپا دیتے تھے۔ دن کے وقت لڑکیاں بقعہ نما لبادوں میں خنجر اور تیروکمان چھپا کر مسلمانوں کے گھروں میں لے جاتی رہتی تھی مگر ہتھیار بنانے اور گھروں میں پہنچانے کی رفتار بہت سست تھی۔

ادھر سلطان ایوبی کو ایک جاسوس نے اطلاع دے دی کہ کرک اور مضافات کے مسلمانوں تک اس کا پیغام پہنچ گیا ہے اور وہاں کے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں نے زمین دوز محاذ بنا لیاہے۔ یہ اطلاع لانے والا بھی ایک ذہین اور نڈر جاسوس تھا۔ اس نے بتایا کہ وہ جاسوس جس نے سلطان ایوبی کا پیغام عثمان صارم تک پہنچایا تھا پاگل کے روپ میں کامیاب رہا ہے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی اس اطلاع پر بہت خوش تھا۔ اس نے کہا … ''جس قوم کے نوجوان بیدار ہوجائیں اسے کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی''۔

''اس کامیابی نے میرا حوصلہ بڑھا دیا ہے''۔ شعبہ جاسوسی کے نائب زاہدان نے کہا …''اگر آپ اجازت دیں تو میں مقبوضہ علاقے کے نوجوانوں کو اپنے جاسوسوں کے ذریعے اتنا بھڑکا سکتا ہوں کہ وہ شعلے بن کر کرک اور یروشلم کو آگ لگا دیں گے''۔

''اور اس آگ میں وہ خود بھی جل مریں گے''۔ سلطان ایوبی نے کہا …''میں نوجوانوں کو شعلے نہیں بنانا چاہتا۔ میں ان کے سینوں میں ایمان کی چنگاری سلگانا چاہتا ہوں۔ نوجوانوں کو بھڑکانا کوئی مشکل کام نہیں ۔ ان میں سے کوئی اشرفی کی چمک اور لالچ سے تمہارے ہاتھ میں کھیلنے لگے گا اور زیادہ تعداد ان کی ہے جو جذباتی الفاظ اور جوشیلے نعروں سے بھڑک اٹھتے ہیں پھر تم ان سے جو کچھ کرانا چاہتے ہو کرالو۔ انہیں آپس میں بھی لڑا سکتے ہو۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ جاہل اور گنوار ہیں اور ان کا اپنا دماغ ہی نہیں۔ اصل وجہ یہ ہے کہ یہ عمر ہی ایسی ہوتی ہے کہ خون کا جوش کچھ کر گزرنے پر مجبور کرتا ہے۔ اس عمر میں ذہن عیاشی کی طرف مائل ہوتا ہے اور عمل صالح کی طرف بھی۔ تم نوجوان ذہن کو جو بھی تحریک اور اشتعال دے دو وہ اسی کا اثر قبول کرلے گا۔ تمہارے دشمن ہماری قوم کے ابھرتے ہوئے ذہن میں عیاشی اور جنسی لذت کے جراثیم ڈال رہے ہیں۔ ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہم انہیں جہاد کی طرف مائل کرکے دشمن کے خلاف استعمال نہ کرسکیں۔ تم یہ کوشش کرو کہ نوجوان بھڑکیں نہیں بلکہ سردر ہیں اور سوچیں، رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث کو سمجھیں کہ اپنے آپ کو جانو اپنے دشمن کو پہچانو۔ ان کی سوچیں بدل دو۔ ان میں قومیت کا احساس پیدا کرو۔ یہ نوجوان قوم کا بڑا قیمتی سرمایہ ہیں۔ انہیں بھڑکا کر جلنے سے بچائو۔ انہیں مردانہ دانشمندی نہیں، دانائی یہ ہے کہ ان کے ہاتھوں دشمن کو مروائو لیکن دشمن کا تصور واضح کرو۔ کوئی مسلمان مجھے برا بھلا کہے تو وہ نہ اسلام کا دشمن ہے، نہ غدار ہے، وہ میرا دشمن ہے۔ میں اسے قانون کا سہارا لے کر سزا نہیں دوں گا جو اسلام در سلطنت اسلامیہ کے تحفظ کے لیے بنایا گیا ہے۔ ملت کا قانون ملت کے امیر کے ذاتی استعمال کے لیے نہیں ہوتا۔ غداری کی سزا اسے دی جاتی ہے جو ملک اور قوم کی جڑیں کاٹے اور دین کے دشمنوں کے ہاتھ مضبوط کرے۔ خواہ حکمران خود ہی اس کا مجرم ہو۔ وہ غدار ہے اور سزا کا مستحق''۔

''اس صورت میں جبکہ وہاں نوجوان تیار ہوگئے ہیں ہم انہیں کس طرح استعمال کریں''۔ زاہدان نے پوچھا۔

''انہیں جوش میں نہ آنے دو''۔ سلطان ایوبی نے جواب دیا… ''ان کی سوچیں بیدار کرو، وہاں کے حالات کے مطابق وہ خود فیصلہ کریں کہ انہیں کیا کرنا چاہیے۔ وہ جذبات کے غلبے کے تحت نہ سوچیں، وہاں اور زیادہ ذہین جاسوس بھجو اور یہ یاد رکھو زاہدان کہ دشمن ہمیں نہیں ہمارے نوجوان بچوں کا کردار بگاڑنے کی کوشش کررہا ہے یا ہمارے ان حاکموں کا جن کے ذہن بچوں کی طرح خام ہیں۔ کسی بھی قوم کو جنگ کے بغیر شکست دینا چاہو تو اس کے نوجوانوں کو ذہنی عیاشی میں ڈال دو۔ یہ قوم اس حد تک تمہاری غلام ہوجائے گی کہ اپنی مستورات تمہارے حوالے کرکے اس پر فخر کرے گی۔ صلیبی اور یہودی ہماری قوم کو اسی سطح پر لانے کی کوشش کررہے ہیں'' … سلطان ایوبی کو جیسے اچانک کچھ یاد آگیا ہو۔ اس نے زاہدان سے کہا … ''میں نے کسی سے کہا تھا کہ کرک کے ان مسلمانوں تک جو ہتھیار بنا رہے ہیں، آتش گیر مادہ پہنچا دو یا انہیں بتا دو کہ یہ کس طرح بنتا اور استعمال ہوتا ہے''۔

''وہ انہیں بتا دیا گیا ہے''۔ زاہدان نے جواب دیا … ''اطلاع ملی ہے کہ مسلمانوں نے یہ مادہ تیار کرنا شروع کردیا ہے''۔کرک میں ایسے حالات فوراً ہی پیدا ہوگئے جن میں وہاں کے نوجوانوں کو خود ہی سوچنا اور عمل کرنا پڑا۔مقبوضہ علاقوں میں صلیبیوں نے قافلے لوٹنے کا بھی سلسلہ شروع کررکھا تھا۔ قافلے اتنے عام نہیں تھے۔ تاجر اور دیگر سفر کرنے والے اکٹھے ہوتے رہتے تھے۔ ان کی تعداد ڈیڑھ دو سو ہوجاتی تو قافلے کی صورت میں چلتے تھے۔ یہ ایک حفاظتی اقدام ہوتا تھا۔ قافلے کے ساتھ لڑنے والے مسلح افراد بھی ہوتے تھے۔ گھوڑوں اور اونٹوں کی افراط ہوتی تھی۔ تاجروں کا بے شمار مار اور دولت ہوتی تھی۔ قافلے میں چند ایک کنبے بھی ہوتے تھے۔ یہ لوگ نقل مکانی کرتے تھے۔ صلیبی استبداد میں آئے ہوئے مسلمان اکثر وہاں سے ہجرت کرکے مسلمانوں کی حکمرانی کے علاقوں میں جاتے رہتے تھے۔ اتنے بڑے قافلے کو چند ایک ڈاکو نہیں لوٹ سکتے تھے۔ قافلے والے مقابلہ کرتے تھے۔ صلیبیوں نے یہ کام اپنی فوج کے سپرد کیا تھا۔ انہیں اگر کسی قافلے کی اطلاع مل جاتی تو اپنی فوج کے ایک دو دستوں کو صحرائی لوگوں کے بھیس میں بھیج کر اسے لوٹ لیتے تھے۔ قافلوں میں صرف مسلمان ہوتے تھے۔ یہ جرم ان صلیبی بادشاہوں نے بھی کرایا اور لوٹے ہوئے مال سے حصہ وصول کیا، جنہیں آج تاریخ میں صلیبی جنگوں کا ہیرو بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔

اس جرم میں مسلمان امراء بھی شامل تھے۔ وہ چھوٹی چھوٹی اسلامی ریاستوں کے حکمران تھے۔ ان کے پاس فوج بھی تھی۔ لٹے ہوئے قافلوں کے دوچار آدمی فریاد لے کر ان حکمرانوں کے دربار میں جاتے تھے تو ان کی شنوائی نہیں ہوتی تھی کیونکہ ان حکمرانوں کو بھی صلیبی لڑکیوں، شراب اور تھوڑے سے سونے کی صورت میں حصہ دیا کرتے تھے۔

اگر یہ حکمران چاہتے تو صلیبی ڈاکوئوں کا قلع قمع کرسکتے تھے مگر انہوں نے صلیبی ڈاکوئوں کو ایسی کھلی چھٹی دے رکھی تھی کہ یہ ڈاکو ان کی ریاستوں کے اندر بھی آکر لوٹ مار کر جاتے تھے۔ صلیبیوں نے انہیں اندھا کرکے یہ فائدہ بھی اٹھایا کہ ان کی ریاستوں کے سرحدی علاقے ہڑپ کرتے گئے۔ انہوں نے بعض چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو مسلسل ڈاکوئوں سے پریشان کرکے جزیہ بھی وصول کرنا شروع کردیا تھا۔ اس طرح سلطنت اسلامیہ سکڑتی چلی جارہی تھی۔ نورالدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی ان مسلمان ریاستوں پر بھی قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ ان حکمرانوں کو وہ صلیبیوں سے زیادہ خطرناک سمجھتے تھے۔ ایک بار نورالدین زنگی نے صلاح الدین ایوبی کو ایک پیغام بھیجا تھا جس میں کئی اور باتوں کے علاوہ ان چھوٹے چھوٹے مسلمان حکمرانوں کے متعلق لکھا تھا… ''ان مسلمان حکمرانوں نے اپنی عیش وعشرت کے لیے اپنی ریاستیں صلیبیوں کے پاس گروی رکھ دی ہیں۔ وہ کفار سے تحفے اور زروجواہرات اور اغوا کی ہوئی مسلمان لڑکیاں لیتے اور اسلام کا نام ڈبوتے جارہے ہیں۔ یہ مسلمان کفار سے زیادہ ناپاک اور خطرناک ہیں۔ وہ بادشاہی کے نشے میں بدمست ہیں اور صلیبی ان کی جڑوں میں داخل ہوگئے ہیں۔ صلیبیوں کو شکست دینے سے پہلے ضروری ہوگیا ہے کہ ان مسلمان ریاستوں پر قبضہ کرکے انہیں سلطنت اسلامیہ میں مدغم کیا جائے اور خلافت بغداد کے تحت لایا جائے۔ اس کے بغیر اسلام کا تحفظ ممکن نہیں''۔

ان خطروں کے باوجود کبھی کبھی کوئی بہت بڑا قافلہ صحرا میں جاتا نظر آجاتا تھا۔ کرک سے چند میل دور سے ایک قافلہ گزر رہا تھا۔ اس میں ایک سو سے زیادہ اونٹ تھے۔ بہت سے گھوڑے بھی تھے، قافلے میں تاجروں کا مال تھا اور چند ایک کنبے تھے۔ ایک کنبہ ایسا بھی تھا جس میں دو جوان لڑکیاں تھیں، یہ بہنیں تھیں۔ قافلہ حسب معمول مسلمانوں کا تھا۔ کرک کے علاقے سے قافلہ گزر رہا تھا تو صلیبیوں کو پتا چل گیا۔ انہوں نے اپنی فوج کا ایک دستہ بھیج دیا جس نے دن دہاڑے قافلے پر جا حملہ کیا۔ قافلے کے گھوڑ سواروں نے مقابلہ تو بہت کیا مگر صلیبیوں کی تعداد زیادہ تھی۔ وہاں ریت خون سے لال ہوگئی۔ صلیبیوں نے بچوں تک کو کاٹ ڈالا۔ پندرہ سولہ جواں سال مسلمان رہ گئے۔ انہیں قیدی بنا لیا گیا۔ دونوں لڑکیوں کو پکڑ لیا۔ اونٹوں اور گھوڑوں کو مال واسباب سمیت کرک لے گئے۔

یہ قافلہ جب کرک میں داخل ہوا تو آگے آگے قیدی تھے۔ ان کے پیچھے دو گھوڑوں پر دو لڑکیاں سوار تھیں جن کا لباس بتاتا تھا کہ مسلمان ہیں۔ ان کے پیچھے صلیبی تھے جن کے چہروں پر نقاب تھے اور ان کے پیچھے مال واسباب سے لدے ہوئے اونٹوں کی قطار تھی۔ لڑکیاں رو رہی تھیں۔ کرک کے شہری تماشا دیکھنے کے لیے باہر نکل آئے، وہ تالیاں پیٹتے اور قہقہے لگاتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ لٹا ہوا یہ قافلہ مسلمانوں کا ہے اور قیدی بھی مسلمان ہیں۔ ان قیدیوں میں ایک جواں سال قیدی آفاق نام کا تھا۔ دونوں مغویہ لڑکیاں اس کی بہنیں تھیں۔ آفاق زخمی بھی تھا، اس کی پیشانی اور کندھے سے خون بہہ رہا تھا۔ وہ لٹے ہوئے قافلے کے آگے آگے شہر میں داخل ہوا تو تماشائیوں کو دیکھ کر اس نے بلند آواز سے کہا… ''کرک کے مسلمانو! ہمارا تماشا دیکھ رہے ہو؟ ڈوب مرو۔ ان لڑکیوں کو دیکھو، یہ میری نہیں تمہاری بہنیں ہیں۔ یہ مسلمان ہیں''۔

ایک صلیبی نے پیچھے سے اس کی گردن پر گھونسہ مارا، وہ منہ کے بل گرا۔ اس کے ہاتھ رسیوں سے پیٹھ پیچھے بندھے ہوئے تھے۔ ایک قیدی نے اسے اٹھایا تو آفاق پھر چلایا… ''کرک کے مسلمانو! یہ تمہاری بیٹیاں ہیں''… اسے دو تین نقاب پوشوں نے پیٹنا شروع کردیا۔ اس کی بہنیں چیخ چیخ کر رو رہی تھیں اور فریادیں کرتی تھیں… ''خدا کے لیے ہمارے بھائی کو نہ مارو، ہمارے ساتھ جو سلوک کرنا چاہو کرلو، اسے نہ مارو''… ایک بہن چلا رہی تھی… ''آفاق خاموش ہوجائو، تم ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے''… مگر آفاق چپ نہیں ہورہا تھا۔ تماشائیوں میں مسلمان بھی تھے جو اپنا خون پی رہے تھے مگر بے بس تھے۔ ان کی غیرت ان کی نظروں کے سامنے سے گزرتی جارہی تھی اور وہ دیکھ رہے تھے۔ ان میں نوجوان مسلمان بھی تھے اور ان میں عثمان صارم بھی تھا۔ اس نے اپنے نوجوان دوستوں کی طرف دیکھا۔ سب کی آنکھیں لال تھیں اور دل زور زور سے دھڑک رہے تھے۔

عثمان صارم تھوڑی دور تک اس قافلے کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ آگے ایک غریب سا موچی بیٹھا تھا جو لوگوں کے جوتے مرمت کیا کرتا تھا۔ اسے کسی مسلمان نے اپنی گھر کی ڈیوڑھی میں سونے کی جگہ دے رکھی تھی۔ دن بھر وہ باہر بیٹھا جوتے مرمت کرتا رہتا تھا۔ بدقسمت قافلہ اس کے سامنے سے بھی گزرا۔ اس نے بھی آفاق کی للکار اور لڑکیوں کی آہ وزاری سنی۔ آفاق کے چہرے کو خون سے لال دیکھا، اس پر صلیبیوں کا ظلم ہوتا بھی دیکھا لیکن اس طرح دیکھا جیسے اس نے کچھ بھی نہیں دیکھا۔ اس موچی کو نہ کبھی کسی نے مسجد میں جاتے دیکھا تھا، نہ گرجے میں۔ وہ یہودیوں کی عبادت گاہ میں بھی کبھی نہیں گیا تھا۔ اس کی طرف وہی توجہ دیتا تھا جسے جوتا مرمت کرانا ہوتا تھا۔ اسے کبھی کسی نے بولتے نہیں سنا تھا، وہ خلق کا راندہ ہوا انسان تھا جسے صلیبیوں کے ساتھ بھی کوئی دلچسپی نہیں تھی اور اسلامیوں کے ساتھ بھی کوئی واسطہ نہیں تھا۔
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: داستان ایمان فروشوں کی جلد‎ ‎دوم

Post by ایکسٹو »

عثمان صارم چلتے چلتے اس موچی کے قریب سے گزرنے لگا تو رک گیا۔ قیدی آگے نکل گئے تھے، اونٹ جارہے تھے۔ جب آخری اونٹ گزر گیا تو عثمان صارم نے دونوں جوتے اتار کر موچی کے آگے رکھ دیئے اور اس کے سامنے بیٹھ گیا۔ موچی کسی کا جوتا مرمت کررہا تھا، اس نے عثمان صارم کو سر اٹھا کر دیکھا بھی نہیں۔ عثمان نے ادھر ادھر دیکھ کر سرگوشی میں کہا… ''ان دونوں لڑکیوں کو آج رات آزاد کرانا ہے''۔

''جانتے ہو، یہ لڑکیاں رات کو کہاں ہوں گی؟'' … موچی نے سراٹھائے بغیر اتنی دھیمی آواز میں پوچھا کہ عثمان صارم کے سوا کوئی اور نہیں سن سکتا تھا۔

''جانتا ہوں''۔ عثمان صارم نے جواب دیا… ''صلیبی بادشاہوں کے پاس ہوں گی لیکن ہم میں سے کسی نے بھی وہ جگہ اندر سے نہیں دیکھی''۔

''میں نے دیکھی ہے''۔ موچی نے اپنے کام میں مگن رہ کر کہا… ''وہاں سے لڑکیوں کو نکالنا ممکن نہیں''۔

''تم کس مرض کی دوا ہو؟''… عثمان صارم نے ایسے لہجے میں کہا جس میں جذبات کا لرزہ اور غصہ تھا۔ کہنے لگا ''ہماری رہنمائی کرو اگر ہم لڑکیوں تک پہنچ گئے تو پکڑے گئے تو لڑکیوں کی گردنیں کاٹ دیں گے۔ انہیں صلیبیوں کے پاس نہیں رہنے دیں گے''۔

''کتنے جوانوں کی قربانی دے سکتے ہو؟'' موچی نے پوچھا''۔

''جتنے جوان مانگو گے''۔

''کل رات''۔

''آج رات''۔ عثمان صارم نے دبدبے سے کہا… ''آج ہی رات برجیس! آج ہی رات''۔

''امام کے پاس پہنچو''۔ موچی نے کہا۔

''کتنے جوان؟''

برجیس موچی نے سوچ کر کہا… ''آٹھ… ہتھیار سن لو۔ خنجر۔ آتش گیر مادہ''۔

عثمان صارم نے اپنے جوتے پہنے اور چلا گیا۔

٭ ٭ ٭
سورج ابھی غروب نہیں ہوا تھا۔ عثمان صارم نے راستے میں اپنے سات ہم جولیوں کو گھروں سے بلا کر انہیں امام کے گھر پہنچنے کو کہا اور خود امام کے گھر چلا گیا۔ یہ اسی مسجد کا امام تھا جس میں عثمان صارم کی ملاقات ''پاگل'' سے ہوئی تھی۔ عثمان نے ہی امام کو اپنی زمین دوز جماعت کی امامت پیش کی تھی جسے جماعت کے ہر فرد نے قبول کرلیا تھا۔ یہ لوگ کسی نہ کسی کے گھر میں مل بیٹھتے اور لائحہ عمل تیار کرتے تھے۔ اب ان دو مغویہ لڑکیوں کا مسئلہ سامنے آگیا تو عثمان صارم نے ان کی رہائی کا ارادہ کرلیا جو دراصل خودکشی کا ارادہ تھا۔ وہ موچی کے کہنے کے مطابق امام کے گھر چلا گیا۔ امام بے چینی سے اپنی ڈیوڑھی میں ٹہل رہا تھا۔ عثمان صارم کو دیکھ کر رک گیا اور پوچھا …''عثمان! تم نے اس قیدی کی للکار سنی تھی؟ معلوم ہوتا تھا، وہ لڑکیاں اس کی بہنیں تھیں''۔

''میں اسی للکار پر لبیک کہنے آیا ہوں محترم امام!'' عثمان صارم نے کہا… ''برجیس آرہا ہے اور میرے سات دوست بھی آرہے ہیں''۔

''تم کیا کرو گے؟'' امام نے پوچھا… ''تم کرہی کیا سکو گے؟… میں جانتا ہوں کہ ہماری بے شمار لڑکیاں کافروں کے قبضے میں ہیں مگر ان دو لڑکیوں نے مجھے امتحان میں ڈال دیا ہے''۔ اس نے منہ اوپر کرکے گہری آہ بھری اور کہا… ''یاخدا مجھے صرف ایک رات کے لیے جوان کردے یا آج ہی رات میری جان لے لے۔ اگر میں زندہ رہا تو تمام عمر ان لڑکیوں کی آہ وزاری مجھے سنائی دیتی رہے گی اور میں پاگل ہوجائوں گا''۔

''ہمیں اپنی دانش کی روشنی دکھائیں''۔ عثمان صارم نے کہا… ''مجھے امید ہے کہ ہم آپ کو ایک رات سے زیادہ بے چین نہیں رہنے دیں گے''۔

عثمان صارم کے دو ساتھی اندر آئے، امام نے انہیں بیٹھنے کو کہا اور تینوں سے مخاطب ہوکر کہا… ''آج یوں معلوم ہوتا ہے جیسے میری دانش جواب دے گئی ہے۔ مجھے اس طرح بے قابو نہیں ہونا چاہیے لیکن کوئی غیرت کو للکارے تو جذبے بھڑک اٹھتے ہیں۔ جنہیں مطمئن کرنے کے لیے جوان ہونا ضروری ہوتا ہے… لیکن میرے بچو! میں بہت بوڑھا ہوگیا ہوں، مجھ میں اب برداشت کی قوت نہیں رہی تم جو کچھ کرنے کا ارادہ کرو سنبھل کر کرنا''۔

ایک ایک کرکے سات نوجوان جمع ہوگئے اور ان کے فوراً بعد موچی آگیا۔ اس نے بوری اٹھا رکھی تھی جس میں پرانے جوتے اور اوزار تھے۔ اس نے بوری پھینکی اور کمر سیدھی کی۔ وہ ہنس پڑا۔ وہ جب سیدھا کھڑا ہوا تو کوئی کہہ نہیں سکتا تھا کہ یہ وہ موچی ہے جو دنیا کی گہما گہمی سے رشتہ توڑے ہوئے راستے میں بیٹھا جوتے مرمت کرتا رہتا ہے۔ اس وقت جب وہ امام کے گھر میں تھا اور دروازہ بند ہوچکا تھا وہ موچی نہیں برجیس تھا… علی بن سفیان کے محکمہ جاسوسی کے ایک خفیہ شعبے کا تجربہ کار اور نہایت عقل مند جاسوس… اس نے امام سے کہا … ''یہ لڑکے آج ہی ان دونوں لڑکیوں کو صلیبیوں کی قید سے آزاد کرانے پر تلے ہوئے ہیں، اس کام میں صرف پکڑے جانے کا یا ناکامی کا ہی خطرہ نہیں بلکہ یقینی موت کا خطرہ ہے''۔

''ہم یہ خطرہ قبول کرتے ہیں محترم برجیس!''… ایک نوجوان نے کہا… ''آپ اس فن کے استاد ہیں، ہماری رہنمائی کریں''۔

''اگر عقل کی بات سنیں تو میں ایک مشورہ دینا چاہتا ہوں''… برجیس نے کہا … ''صلیبیوں کے پاس بہت سی مسلمان لڑکیاں ہیں، ان میں سے بعض کو انہوں نے بچپن میں قافلوں اور گھروں سے اغوا کیا تھا اور انہیں اپنی تعلیم وتربیت دے کر ہمارے خلاف جاسوسی اور تمہاری کردار کشی کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ تم لوگ ایک ایک لڑکی کو تو آزاد نہیں کراسکتے اگر تم سب میرے فن سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہوتو میں کہوں گا کہ دو لڑکیوں کی خاطر تم جیسے آٹھ جوان قربان کردینا عقل مندی نہیں۔ بربادری اور تحمل ضروری ہے''۔

''میں تحمل کو کس طرح قبول کرسکتا ہوں؟''… عثمان صارم نے بھڑک کر کہا۔

''میری طرح''۔ برجیس نے کہا… ''کیا میں پیشے کا موچی ہوں؟ میں جب مصر میں ہوتا ہوں تو میری سواری کے لیے عربی گھوڑا تیار رہتا ہے اور میرے گھر میں دو ملازم ہیں مگر یہاں تین مہینوں سے راستے میں بیٹھا لوگوں کے غلیظ جوتے مرمت کرتا رہتا ہوں… میں تمہیں دو لڑکیوں کی آزادی کے لیے پورے کرک اور اس سے آگے کے بہت وسیع علاقے کو آزاد کرانے کے لیے زندہ رکھنا چاہتا ہوں، برداشت کرو، انتظار کرو''۔

عثمان صارم اور اس کے ساتوں دوست برداشت کی حدوں سے نکل چکے تھے۔ ان کی باتوں سے پتا چلتا تھا کہ ان میں انتظار کی بھی ہمت نہیں رہ۔ وہ کسی کی رہنمائی کے بغیر ہی اس جگہ پر حملہ کرنے کو تیار تھے جہاں توقع تھی کہ لڑکیاں ہوںگی۔ انہوں نے امام کی بھی باتیں سننے سے انکار کردیا۔ آخر برجیس نے انہیں بتایا کہ اس کے دو جاسوس اس جگہ معمولی ملازم ہیں جہاں صلیبی حکمران رات کو اکٹھے ہوتے ہیں اور شراب پیتے ہیں۔ یہ دونوں جاسوس عیسائیوں کے بھیس میں شوبک کی فتح کے بعد وہاں سے بھاگنے والے عیسائیوں کے ساتھ آئے تھے۔ انہیں یہاں نوکری مل گئی تھی اور وہ کامیاب جاسوسی کررہے تھے۔

''تم سب نے وہ عمارت دیکھی ہے جہاں وہ صلیبی حکمران جو ہماری فوج کے خلاف لڑنے کے لیے برطانیہ، اٹلی، فرانس اور جرمنی وغیرہ سے آئے ہوئے ہیں، رہتے ہیں۔ اس عمارت میں ایک بڑا کمرہ ہے جہاں وہ شام کے بعد اکٹھے ہوتے، شراب پیتے اور ناچتے ہیں۔ ان کی تفریح کے لیے لڑکیاں موجود ہوتی ہیں۔ وہ آدھی رات تک وہاں ادھم مچاتے رہتے ہیں۔ تم نے دیکھا ہے کہ وہ جگہ ذرا بلندی پر ہے جہاں سے پورا شہر نظر آتا ہے۔ وہاں فوج کا پہرہ بھی ہوتا ہے۔ اس عمارت تک پہنچنا ممکن نہیں۔ کوئی عام آدمی بلکہ کوئی خاص شہری بھی اس عمارت کے قریب نہیں جاسکتا۔ میں یہ معلوم کرسکتا ہوں کہ یہ دو لڑکیاں کہاں ہوں گی مگر ان تک رسائی کا طریقہ صرف یہ ہے کہ ہماری فوج باہر سے ابھی حملہ کردے۔ اس صورت میں تمام حکمران اور فوجی حکام اس عمارت سے چلے جائیں گے اور حملہ روکنے میں لگ جائیں گے مگر آج رات حملہ نہیں ہوسکتا۔ یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ صلاح الدین ایوبی کب حملہ کریں گے''۔

''ضرورت حملے کی ہے''۔ امام نے برجیس سے وضاحت چاہی… ''دوسرے لفظوں میں ضرورت یہ ہے کہ اس عمارت میں جو لوگ ہیں وہ وہاں سے چلے جائیں اور لڑکیاں وہیں رہ جائیں۔ اس صورت میں آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے اس عمارت میں داخل ہوکر لڑکیوں کو اٹھا لائیں''۔

''جی ہاں!'' برجیس نے اپنے تجربے کی بناء پر خود اعتمادی سے کہا۔ ''اگر شہر کے اندر کوئی بڑا ہی شدید اور خطرناک قسم کا ہنگامہ ہوجائے، کہیں آگ لگ جائے اور آگ جنگی سازوسامان کو لگے تو شاید حکمران اور دیگر لوگ وہاں سے نکل کر موقع واردات پر چلے جائیں''۔ برجیس گہری سوچ میں کھوگیا۔ اس نے عثمان صارم اور اس کے ساتھیوں کو باری باری دیکھا اور کچھ دیر بعد کہا… ''ہاں میرے مجاہدو! اگر ایک جگہ آگ لگا سکتے ہو تو لڑکیوں کی رہائی کی صورت پیدا ہوسکتی ہے''۔

''جلدی بتائو محترم!'' … عثمان صارم نے بے صبر ہوکر پوچھا… ''کہاں آگ لگانی ہے، کہو تو سارے شہر کو آگ لگادیں''۔

''تم سب نے وہ جگہ دیکھی ہے جہاں صلیبیوں کی فوج کے گھوڑے بندھے رہتے ہیں؟'' برجیس نے کہا… ''وہاں اس وقت کم وبیش چھ سو گھوڑے ایک جگہ بندھے ہوئے ہیں، باقی مختلف جگہوں پر ہیں۔ ان کے قریب اتنی ہی تعداد میں اونٹوں کی بندھی ہوئی ہے۔ ان سے ذرا ہی پرے گھوڑوں کے خشک گھاس کے پہاڑ کھڑے ہیں۔ اس سے تھوڑا ہٹ کر فوج کے خیموں کے ڈھیر پڑھے ہیں، وہاں گھوڑا گاڑیاں بھی کھڑی ہیں اور ایسا سامان بے شمار پڑا ہے، جسے فوراً آگ لگ سکتی ہے مگر اس کے اردگرد سنتری گھوم پھر رہے ہوتے ہیں وہاں سے رات کے وقت کسی کو گزرنے کی اجازت نہیں۔ اگر تم اس گھاس اور خیموں کے انباروں کو آگ لگا سکو تو میں یقین سے کہتا ہوں کہ صلیبی حکمران ساری دنیا کو بھول کر وہاں پہنچ جائیں گے۔ گھاس، کپڑے اور لکڑی کے شعلے آسمان تک جائیں گے۔ سارے شہر پر خوف طاری ہوجائے گا۔ آگ لگانے کے ساتھ ہی اگر تم زیادہ سے زیادہ گھوڑوں کو کھول دو تو وہ ڈر کر ایسا بھاگیں گے کہ لوگوں کو کچلتے پھریں گے مگر سوچنا یہ ہے کہ آگ کون لگائے گا؟ گھوڑے کون کھولے گا؟ اور آگ لگانے کے لیے وہاں پہنچا کس طرح جائے گا؟''

''فرض کرلو، آگ لگ گئی'' ایک نوجوان نے کہا… ''اس عمارت میں تم میرے بغیر نہیں جاسکو گے وہاں میرے دو ساتھی موجود ہیں۔ وہ مجھے بتا دیں گے کہ لڑکیاں کہاں ہیں مگر یہ بھی سوچ لو کہ لڑکیوں کو اٹھا لائیں گے تو انہیں کہیں چھپانا بھی ہوگا اور اس کے بعد کرک کے مسلمانوں پر قیامت ٹوٹ پڑے گی۔ صلیبی یقین ہی نہیں کریں گے کہ یہ مسلمان کے سوا کسی اور کا کام ہوسکتاہے''۔

''مسلمان پہلے کتنے کچھ آرام میں ہیں؟''… امام نے کہا… ''میں مشورہ دیتا ہوں کہ ہم یہ کام کر گزریں۔ صلیبیوں کو معلوم ہوجانا چاہیے کہ مسلمان کتنا ہی مجبور اور بے بس کیوں نہ ہو وہ غلام نہیں رہ سکتا اور اس کا وار جگر چاک کردیا کرتا ہے''۔

برجیس تو تھا ہی کمانڈو قسم کا جاسوس، وہ کئی راز معلوم کرکے سلطان ایوبی تک پہنچا چکا تھا لیکن اسے اس قسم کی تخربی کاری کا کوئی موقع نہیں ملا تھا۔ وہ ایسی شدید کارروائی کو ضروری سمجھتا تھا تاکہ صلیبیوں کو معلوم ہوجائے کہ مسلمان کیا کرسکتا ہے۔ اس نے عثمان صارم اور اس کے ساتھیوں کو سمجھانا شروع کردیا کہ انہیں کیا کرنا ہے۔ اس سلسلے کی دو کڑیاں بہت نازک تھیں۔ ایک یہ کہ آگ لگانے کے لیے تین چار لڑکیاں جائیں، وہ سنتری سے کسی اعلیٰ فوجی حاکم کا پتہ پوچھیں اور سنتری کو مارڈالیں، برجیس نے لڑکیوں کو بھیجنے کی اس لیے سوچی تھی کہ عورت، خصوصاً نوجوان لڑکی، جو تاثر پیدا کرسکتی ہے، وہ کوئی مرد نہیں کرسکتا۔ مرد شک پیدا کرسکتا ہے۔ دوسرا خطرناک مرحلہ یہ آیا کہ کتنے نوجوان صلیبی حکمرانوں کی عمارت پر حملہ آور ہوں۔ برجیس اور امام نے متفقہ طو رپر کہا کہ زیادہ نہ ہوں۔ یہی آٹھ ہوں تو بہتر ہے کیونکہ زیادہ ہجوم نظر آسکتا ہے اور کسی نہ کسی کے پکڑے جانے کا خطرہ زیادہ ہوگا۔

پھر یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ اتنی دلیر لڑکیاں کہاں سے ملیں گی۔ عثمان صارم نے کہا کہ ایک اس کی بہن النور ہوگی، ایک اور نوجوان نے کہا کہ دوسری اس کی بہن ہوگی۔ باقی چھ نوجوانوں میں کسی کی بہن نہیں تھی۔ امید ظاہر کی گئی کہ یہ دو لڑکیاں اپنی اپنی ایک سہیلی کو ساتھ لے لیں گی۔ برجیس نے ان لڑکیوں کو ان کا کام سمجھانے کی ذمہ داری اپنے اوپر لی۔ سورج غروب ہوگیا تھا۔ امام مسجد ایک طرف چلا گیا، باقی سب ایک ایک کرکے باہر نکلے۔ سب سے آخر میں برجیس باہر نکلا۔ وہ پھر وہی موچی تھا جسے کچھ خبر نہیں تھی کہ اس کے اردگرد کیا ہورہا ہے۔ وہ جھکا جھکا اس طرح مری ہوئی چال چلا جارہا تھا جیسے ساری دنیا کے رنج وغم کا بوجھ اس کے کندھوں پر گر پڑا ہو۔

٭ ٭ ٭

عثمان صارم اپنے گھر سے ابھی کچھ دور تھا کہ اسے رینی الیگزینڈر مل گئی۔ وہ عثمان کی بہن النور کی گہری سہیلی بنی ہوئی تھی۔ دونوں بہن بھائی چاہتے تھے کہ وہ ان کے گھر نہ آیا کرے لیکن عثمان صارم اسے اچانک گھر آنے سے روک کر کسی شک میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا۔ رینی اس کے ساتھ بے تکلف ہونے کی کوشش کیا کرتی تھی جس سے عثمان کو یہ خیال بھی آتا تھا کہ وہ اس کا کردار خراب کرکے اس کا قومی جذبہ مارنا چاہتی ہے۔ اس شام رینی راستے میں مل گئی۔ اس نے مسکرا کر دیکھا اور رکنا نہ چاہا مگر رینی رک گئی اور اس کا راستہ روک لیا۔ عثمان صارم کو ایسا کوئی ڈر نہیں تھا کہ وہ مسلمان ہے اور ایک عیسائی لڑکی کے ساتھ رازونیاز کی باتیں کرتا پکڑا گیا تو سزا پائے گا۔ وہ جانتا تھا کہ صلیبی اور یہودی انہیں دیکھ کر خوش ہوں گے کہ ان کی ایک لڑکی مشتبہ مسلمان نوجوان کو اپنا گرویدہ بنا رہی ہے۔ وہ بھی رک گیا اور بولا… ''میں ذرا جلدی میں ہوں رینی''۔

''تمہیں کوئی جلدی نہیں عثمان!''… رینی نے دوستانہ لہجے میں کہا… ''کیا تم اتنی آسانی سے مجھ سے پیچھا چھڑا سکو گے؟''۔

''میں تم سے پیچھا چھڑانے کی تو نہیں سوچ رہا''۔

''جھوٹ نہ بولو عثمان!'' رینی نے مسکرا کر کہا… ''میں تمہارے گھر سے آرہی ہوں، تمہاری بہن نے مجھے صاف کہہ دیا ہے کہ یہاں اب کم آیا کرو، عثمان ناراض ہوتا ہے… کیوں عثمان! یہ بات تم نے خود کیوں نہ کہہ دی؟''۔

عثمان صارم کی ذہنی حالت کچھ اور تھی، وہ جلدی میں تھا اور اس کے جذبات بھڑکے ہوئے تھے۔ وہ ٹالنے کے لیے کوئی موزوں جواب نہ سوچ سکا۔ اس کے منہ سے وہی بات نکل گئی جو اس کے دل میں تھی۔ اس نے کہا… ''رینی! معلوم نہیں میں خود کیوں نہ تمہیں کہہ سکا کہ ہمارے گھر نہ آیا کرو۔ اب سن لو۔ ہماری آپس میں کتنی ہی محبت کیو نہ ہو ہم قومی لحاظ سے ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ تم ذاتی محبت کی بات کرو گی مگر میں قومی محبت کا قائل ہوں جو صلیب اور قرآن مجید میں کبھی پیدا نہیں ہوسکتی۔ یہ میرا وطن ہے۔ تمہاری قوم یہاں کیا کررہی ہے؟… جب تک تمہاری قوم کے آخری آدمی کا بھی وجود یہاں رہے گا ہم ایک دوسرے کے دوست نہیں بن سکتے… میرے دل میں جو کچھ تھا، وہ تمہیں بتا دیا ہے''۔

''اور میرے دل میں جو کچھ ہے وہ بھی سن لو''۔ رینی نے کہا… ''میرے دل سے تمہاری محبت نہ صلیب نکال سکتی ہے، نہ قرآن مجید۔ میں جب تک تمہیں دیکھ نہ لوں مجھے چین نہیں آتا۔ تمہیں مسکراتا دیکھتی ہوں تو میری روح بھی مسکرا اٹھتی ہے۔ سن لو عثمان ! اگر تم نے مجھے اپنے گھر آنے سے روکا تو ہم دونوں کے لیے اچھا نہیں ہوگا''۔

''تم مجھے دھمکی دے سکتی ہو، تم حکمران قوم کی لڑکی ہونا!'' عثمان صارم نے تحمل سے کہا۔

''اگر میرے دماغ میں حکمرانی کا نشہ ہوتا تو تم یہاں نہ کھڑے ہوتے، قید خانے میں گل سڑ رہے ہوتے''۔ رینی نے کہا… ''تم یہ سمجھے بیٹھے ہو کہ مجھے تمہارے متعلق کچھ معلوم نہیں؟ کہو تو تمہاری زمین دوز کارروائیوں کی تفصیل سنا دوں۔ کہو تو تمہارے گھر سے وہ سارے خنجر، تیروکمان اور آتش گیر مادہ برآمد کرادوں جو تم نے اپنے گھر میں میری قوم اور میری حکومت کے خلاف استعمال کرنے کے لیے چھپا رکھا ہے اور جو تمہیں گھر میں رکھنے کی اجازت نہیں۔ النور کو تم تیغ زنی سکھا رہے ہو اور تمہارے ساتھ جو دوست ہمارے خلاف کام کررہے ہیں، ان میں سے کئی ایک کو جانتی ہوں لیکن عثمان! تم نہیں جانتے کہ تمہارے اور قید خانے کے درمیان میرا وجود حائل ہے۔ تم جانتے ہوکہ میرا باپ کون ہے اور وہ کیا نہیں جانتا اور کیا نہیں کرسکتا۔ وہ پانچ مرتبہ گھر میں بتا چکا ہے کہ عثمان کی گرفتاری ضروری ہوگئی ہے۔ میں نے پانچوں مرتبہ باپ سے منت کرکے کہا ہے کہ عثمان کی بہن میری بڑی پیاری سہیلی ہے اور اس کا باپ ایک ٹانگ سے معذور ہے۔ دو تین بار میرے باپ نے مجھے ڈانٹ کر کہا ہے کہ میں تم لوگوں کے ساتھ تعلق توڑ دوں، مجھے یہ بھی کہا گیا ہے کہ مسلمان اس قابل نہیں کہ ان کے ساتھ ا تنی زیادہ محبت اور مروت کی جائے لیکن میں ماں باپ کی اکیلی اولاد ہوں، وہ مجھے ناراض نہیں کرنا چاہتے''۔

سورج غروب ہوگیا تھا، شام تاریک ہونے لگی تھی۔ عثمان صارم خاموش رہا۔ اس کا ذہن کسی اور طرف تھا۔ وہ کچھ جواب دئیے بغیر چل پڑا۔ ابھی دو ہی قدم اٹھائے تھے کہ رینی نے آگے ہوکر اسے اس طرح روک لیا کہ اس کا سینہ عثمان کے سینے سے لگ گیا۔ رینی نے دونوں ہاتھ اس کے کولہوں پر رکھ دیئے۔ اس کے جسم سے عثمان کو ایسی عطر بیز بو آئی جو مسلمان گھرانوں میں نہیں ہوتی تھی۔ لڑکی اس کے قریب ہوگئی، اتنی قریب کے ان کی سانسیں ٹکرانے لگیں۔ رینی کے ملائم ریشم جیسے بال جب عثمان صارم کے گالوں سے لگے تو وہ یوں تڑپ اٹھا جیسے پھندے سے آزاد ہونے کی کوشش کی ہو۔ رینی نے اسے چھوڑ دیا۔

''مجھے آزاد کردو رینی!''عثمان صارم نے اکھڑے ہوئے لہجے میں کہا… ''مجھے پتھر بن جانے دو، میرا راستہ کوئی اور ہے۔ ہم اکھٹے نہیں چل سکیں گے''۔

''محبت قربانی مانگتی ہے''۔ رینی نے نشیلی آواز میں کہا… ''کہو کیا قربانی مانگتے ہو، میں وعدہ کرتی ہوں کہ تم جو جی میں آئے کرو میں تمہیں قید نہیں ہونے دوں گی''۔

''اور میں تم سے وعدہ کرتا ہوں''۔ عثمان صارم نے طنزیہ کہا۔ ''کہ میں تمہیں بتائوں گا ہی نہیں کہ میرے جی میں کیا آئی ہے اور میں کیا کرنے والا ہوں۔ میں تمہارے اس حسین جسم اور ریشمی بالوں کے جادو میں نہیں آئوں گا''۔

''تو پھر مجھے ثابت کرنا پڑے گا کہ میں تمہارے لیے قربانی کرسکتی ہوں''۔ رینی نے کہا… ''جائو عثمان! تم جلدی میں ہو لیکن میں تمہارے گھر آنے سے باز نہیں آئوں گی''۔

عثمان صارم دوڑ پڑا۔ رینی اسے دیکھتی رہی اور آہ بھر کر چلی گئ-

عثمان صارم گھر میں داخل ہوا تو برجیس وہاں پہنچ چکا تھا۔ عثمان اندر چلا گیا اور اپنے باپ، ماں اور النور کو تفصیل سے بتایا کہ صلیبیوں نے مسلمانوں کا ایک قافلہ لوٹا ہے اور دو لڑکیوں کو بھی ساتھ لے آئے ہیں۔ اس نے تمام تر واقعہ سنا کر کہا وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ان لڑکیوں کو آزاد کرانے جارہا ہے اور اس مہم میں النور کی بھی ضرورت ہے۔ عثمان صارم کے باپ کی ٹانگ صلیبیوں کے خلاف لڑتے ہوئے جوانی میں کٹ گئی تھی اور وہ باقی عمر اس افسوس میں کاٹ رہا تھا کہ وہ جہاد کے قابل نہیں رہا۔ اس نے عثمان سے کہا … ''بیٹا! تم نے اگر اتنے خطرناک کام کا ارادہ کرلیا ہے تو مجھے یہ سننا نہ پڑے کہ تم نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ غداری کی ہے۔ اس کام میں پکڑے جانے کا امکان زیادہ ہے اگر تم پکڑے گئے اور تمہارے ساتھی نکل آئے تو جان دے دینا اپنے ساتھیوں کے نام پتے نہ بتانا۔ میں تمہیں صلاح الدین ایوبی کی فوج کے لیے جوان کررہا تھا لیکن تمہاری بہن کی شادی کرکے تمہیں رخصت کرنے کا سوچا تھا۔ جائو اور میری روح کو مطمئن کردو۔ ایک بار پھر سن لو میں کسی سے یہ نہیں کہلوانا چاہتا کہ تمہاری رگوں میں صارم کا خون نہیں تھا''۔

باپ نے بیٹی کو بھی اجازت دے دی، عثمان صارم نے اسے بتایا کہ برجیس ڈیوڑھی میں بیٹھا ہے اور وہ اس مہم کی کمان اور رہنمائی کرے گا۔ باپ ڈیوڑھی میں برجیس کے پاس چلا گیا۔ عثمان نے النور سے کہا کہ وہ فوراً اپنی ایک یا دو ایسی سہیلیوں کو بلا لائے جو اس کام میں شامل ہونے کی جرأت رکھتی ہیں۔ النور اسی وقت باہر نکل گئی اور ذرا سی دیر میں دو سہیلیوں کو بلا لائی۔ اتنے میں عثمان صارم کا ایک ساتھی اپنی بہن کے ساتھ آگیا۔ ایک ایک کرکے ساتوں جوان آگئے۔ برجیس نے لڑکیوں کو بتایا کہ وہ کس راستے کہاں جائیں گی۔ راستے میں انہیں ایک سنتری روکے گا، لڑکیاں اس سے پوچھیں گی کہ اوپر کو کون سا راستہ جاتا ہے۔ وہ کہیں گی کہ شاہ رینالڈ نے انہیں بلایا ہے لیکن وہ غلط راستے پر آگئی ہیں۔ ان میں سے ایک لڑکی نوکرانیوں کے بھیس میں ہوگی جس کے سر پر سامان ہوگا۔ سنتری کو ختم کرنا ہوگا، پھر آگ لگانی ہوگی۔ آگ لگانے والا سامان ''نوکرانی'' کے سر پر ہوگا۔ گھوڑے اس طرح بندھے ہوں گے کہ لمبے لمبے رسوں کے سرے زمین میں دبائے ہوئے ہوں گے اور گھوڑوں کی پچھلی ایک ایک ٹانگ سے زنجیر یا رسی بندھی ہوگی جو رسوں سے گزاری ہوئی ہوگی۔ ان لمبے رسوں کو خنجروں سے کاٹ دینا ہوگا اور چند ایک گھوڑوں کو خنجر بھی مارنے ہوں گے تاکہ وہ منہ زور ہوکر بھاگ اٹھیں۔

برجیس نے لڑکیوں کو فوراً لباس اور حلیہ درست کرنے کو کہا اور ایک کو نوکرانی بنا دیا۔ اس کے منہ اور ہاتھوں پر مٹی اور سیاہی سی مل دی۔ پھر وہ عثمان صارم اور اس کے ساتھیوں کو ہدایات دینے لگا۔ وہ خود اس کے ساتھ جارہا تھا۔ عثمان صارم کے باپ نے بھی انہیں کچھ مشورے دیئے۔ پھر سب کو خنجر دیئے گئے۔ خاصا وقت گزر گیا تھا لیکن برجیس کہہ رہا تھا کہ ابھی شہر جاگ رہا ہے۔ اس جگہ کی رونق اس وقت جاگتی تھی جب شہر سو جاتا تھا۔ تیاریوں میں وقت گزرتا رہا اور روانگی کا وقت ہوگیا۔ سب کو اکیلے اکیلے جانا اور ایک طے شدہ مقام پر ملنا تھا۔ لڑکیوں کا راستہ الگ تھا۔ انہیں اندازاً وقت بتا دیا گیا تھا جب انہیں آگ لگانی تھی۔ اس وقت برجیس کی جماعت کو حملے کے مقام پر ہونا چاہیے… یہ بے حد نازک اور خطرناک مہم تھی جس میں وقت کی غلطی اور کسی کی کوئی بے احتیاطی سب کو ایسے قید خانے میں ڈال سکتی تھی جو جہنم سے کم نہیں تھا۔ سب سے زیادہ خطرہ لڑکیوں کا تھا کیونکہ وہ لڑکیاں تھیں۔ تصور کیا جاسکتا تھا کہ ان کے پکڑے جانے کی صورت میں ان کا کیا حشر ہوگا۔ النور نے کہا کہ پکڑے جانے کا خطرہ ہوا تو لڑکیاں اپنے خنجروں سے خودکشی کرلیں گی۔ وہ کفار کے ہاتھ زندہ نہیں آئیں گی۔

شہر پر خاموشی طاری ہوتے ہوتے سارا شہر خاموش ہوگیا۔ کہیں کوئی روشنی نظر نہیں آتی تھی۔ صرف ایک جگہ تھی جہاں رات کے سکوت کا ذرہ بھر اثر نہیں تھا۔ یہ وہ عمارت تھی جہاں صلیبیوں کی متحدہ کمان کا ہیڈکوارٹر تھا۔ وہیں صلیبی حکمرانوں اور اعلیٰ کمانڈروں کی رہائش بھی تھی۔ یہ لوگ اس ہال میں ایک ایک کر کے آچکے تھے، جہاں وہ ہر رات شراب نوشی اور رقص کی محفل جمایا کرتے تھے۔ اس رات ان کا موضوع دو نئی مسلمان لڑکیاں اور مال واسباب تھا جو قافلے سے لوٹا گیا تھا… کسی نے پوچھا کہ یہ لڑکیاں کسی اور کام بھی آسکتی ہیں؟ اس کا جواب ایک فوجی کمانڈر نے یہ دیا کہ لڑکیاں بالغ ذہن کی ہیں، اس لیے انہیں جاسوسی وغیرہ کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ ایک کی عمر سولہ سترہ سال ہے اور دوسری بائیس تئیس سال۔ کچھ عرصہ تفریح کے لیے استعمال ہوسکتی ہیں۔

''اس کے بعد انہیں اپنے دو فوجی افسروں کے حوالے کردینا''… ایک اعلیٰ کمانڈر نے کہا… ''وہ ان کے ساتھ شادی کرلیں گے''۔

یہ لڑکیاں ان کے ہنسی مذاق اور غلیظ باتوں کا موضع بنی رہیں اور وہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کا اظہار کرتے رہے۔ اس وقت لڑکیاں دو الگ الگ کمروں میں تھیں، وہ رو رو کر بے حال ہورہی تھیں۔ دونوں کے ساتھ ایک ایک خادمہ تھی، یہ ادھیڑ عمر عورتیں بڑی خرانٹ اور اس فن کی ماہر تھیں۔ وہ لڑکیوں کو نہلا چکی تھیں اور انہیں رات کا لباس پہنا رہی تھیں۔ لڑکیوں نے کچھ بھی نہیں کھایا تھا، ان کے آگے ایسے ایسے کھانے رکھے گئے تھے جو انہوں نے کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھے تھے لیکن انہوں نے کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگایا تھا۔ دونوں کو ایک دوسرے کے متعلق معلوم نہیں تھا کہ کہاں ہے اور اس کے ساتھ کیا بیت رہی ہے۔ دونوں عورتیں انہیں بڑے ہی حسین سبز باغ دکھا رہی تھیں۔ ایک کو بتایا جارہا تھا کہ اسے فرانس کے بادشاہ نے پسند کیا ہے جو اسے زرد جواہرات سے لاد دے گا۔ دوسری کو جرمن کے بادشاہ کی ملکہ بننے کے خواب دکھائے جارہے تھے۔ اس کے ساتھ ہی انہیں بڑے پیار سے دھمکیاں بھی دی جارہی تھیں کہ انہوں نے اگر ان بادشاہوں کو ناراض کیا تو وہ انہیں فوجی سپاہیوں کے حوالے کردیں گے۔

یہ لڑکیاں صحرائی دیہات کی رہنے والی تھیں، کوئی ایسی بزدل بھی نہیں لیکن بے بس ہوگئی تھیں۔ اپنے تحفظ میں کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں رہی تھیں۔ ان کے ماں باپ اور بڑے بھائی نے ان کی عصمت کی خاطر صلیبی استبداد کے علاقے سے ہجرت کی تھی مگر صلیبیوں کے پھندے میں آگئے۔ لڑکیاں پکڑی گئیں۔ ماں باپ مارے گئے اور بھائی قید ہوگیا۔ خدا کے سوا ان کی مدد کرنے والا کوئی نہ تھا۔ وہ قید سے نکل بھاگنے کے بھی قابل نہیں تھیں۔ وہ روتی تھیں تو صرف خدا کو یاد کرتی اور خدا کو ہی مدد کے لیے پکارتی تھیں۔ اپنی عزت کے علاوہ اپنے بھائی آفاق کے لیے وہ بہت پریشان تھیں۔ اس وقت آفاق بیگار کیمپ میں تڑپ رہا تھا۔ وہ زخمی تھا اور اسے پیٹا بھی بہت گیا تھا۔ پہلے کے قیدی شام کے وقت روز مرہ کی مشقت سے آئے تھے۔ انہوں نے ان نئے قیدیوں کو دیکھا ان کی بپتا سنی۔ ان میں صرف آفاق زخمی تھا۔ کسی نے اس کی مرہم پٹی نہیں کی تھی۔ تین چار قیدیوں نے مرہم اور کچھ دیسی دوائیاں چھپا کرکھی ہوئی تھی۔ رات کو انہوں نے آفاق کے زخم صاف کیے اور مرہم بھر کر اوپر کپڑے باندھ دئیے۔

آفاق کو اپنے زخموں کا درد محسوس نہیں ہورہا تھا۔ اس کا دھیان اپنی بہنوں کی طرف تھا۔ قیدیوں سے وہ پوچھتا تھا کہ اس کی بہنیں کہاں ہوں گی اور ان کے ساتھ کیا سلوک ہورہا ہوگا۔ اسے بتایا گیا کہ اس قید خانے کی کوئی دیوار نہیں اور انہیں بیڑیاں بھی نہیں ڈالی گئیں، پھر بھی وہ یہاں سے بھاگ نہیں سکتا کیونکہ سنتری گھوم پھر رہے ہیں اور اگر وہ یہاں سے نکل بھی جائے تو جائے گا کہاں، کہیں نہ کہیں پکڑا جائے گا۔ اس کی سزا اتنی اذیت ناک موت ہوگی جس کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اسے بتایا گیا کہ یہاں کئی کئی سالوں سے قیدی پڑے ہیں جو کرک ہی کے رہنے والے ہیں لیکن بھاگنے کی جرأت نہیں کرتے۔ وہ جانتے ہیں کہ وہ پکڑے نہ گئے تو صلیبی ان کے پورے خاندان کو قید میں ڈال دیں گے۔ ان تمام مجبوریوں اور خطروں کے باوجود آفاق فرار اور بہنوں کو رہا کرانے کی سوچ رہا تھا۔ اس کا جسم چلنے کے بھی قابل نہیں تھا۔ قیدی دن بھر کے تھکے ماندے بے ہوشی کی نیند سوگئے اور آفاق جاگ رہا تھا۔

٭ ٭ ٭
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: داستان ایمان فروشوں کی جلد‎ ‎دوم

Post by ایکسٹو »

''لڑکیاں پکڑی نہ گئی ہوں''۔ عثمان صارم نے سرگوشی میں کہا۔

''خدا کو یاد کرو عثمان!'' برجیس نے کہا… ''ہم اس وقت موت کے منہ میں ہیں۔ دل سے تمام خوف نکال دو اور خدا کو دل میں بٹھا لو… تمہیں دوسرے لڑکوں پر بھروسہ ہے؟''۔

''پورا بھروسہ''۔ عثمان نے کہا… ''ان کی فکر نہ کرو۔ مجھے لڑکیوں کی فکر ہے''۔

''خدا کو یاد کرو''۔ برجیس نے کہا… ''ہم چوری کرنے نہیں آئے، اللہ مدد کرے گا''۔

اس وقت عثمان صارم اور برجیس گھر میں نہیں تھے۔ وہ اس عمارت سے جس میں مغویہ لڑکیاں تھیں، اتنی دور جھاڑیوں میں چھپے ہوئے تھے جہاں سے عمارت انہیں اپنے سر پر کھڑی نظر آرہی تھی۔ ان کے سات ساتھی ان سے تھوڑی ہی دور بکھر کر انہی کی طرح چھپے ہوئے تھے۔ برجیس نے انہیں اچھی طرح بتا دیا تھا کہ کون سے اشارے پر انہیں کیا کرنا ہے۔ عثمان صارم کو ان چار لڑکیوں کا غم تھا جو فوجی سامان اور گھاس کو آگ لگانے کے لیے لے گئی تھیں۔ ان میں اس کی اپنی بہن النور بھی تھی۔ اس وقت تک آگ لگ جانی چاہیے تھی۔ توقع یہ تھی کہ اگر سکیم کامیاب رہی تو آگ کے شعلے اٹھیں گے، پھیلیں گے۔ اس عمارت سے تمام کمانڈر وغیرہ آگ کی طرف بھاگیں گے جو ایک قدرتی ردعمل تھا کیونکہ فوجی سامان کو آگ لگنے کی صورت میں وہ اپنی محفل عیش وطرب میں مگن نہیں رہ سکتے تھے۔ ان کے جاتے ہی ان نوجوانوں کو عمارت پر ٹوٹ پڑنا تھا مگر لڑکیوں کو گئے بہت وقت ہوگیا تھا۔ شاید سنتری نے انہیں روک کر واپس بھیج دیا ہوگا۔

لڑکیاں ابھی سنتری تک ہی نہیں پہنچی تھی کیونکہ وہاں سنتری تھا ہی نہیں۔ سنتری کا نہ ہونا خطرہ تھا کیونکہ زندہ رہنے کی صورت میں وہ انہیں آگ لگاتے پکڑ سکتا تھا۔ لڑکیوں نے سنتری کو ڈھونڈنا شروع کردیا۔ وہ خشک گھاس کے پہاڑوں جیسے ڈھیروں کے پاس سے گزر رہی تھیں۔ اندھیرے میں انہیں خیموں کے انبار نظر نہیں آرہے تھے۔ وہ اکٹھی جارہی تھیں۔ انہیں ایک جگہ ڈنڈے سے بندھی ہوئی مشعل کا شعلہ نظر آیا۔ وہ ادھر چلی گئیں۔ سنتری سامنے آگیا۔ مشعل کا ڈنڈا زمین میں گڑھا ہوا تھا۔ سنتری نے مشعل اٹھالی اور لڑکیوں کے قریب آکر انہیں روکا۔ وہ لڑکیوں کا بھڑکیلا لباس اور سج دھج دیکھ کر مرعوب ہوگیا۔ ان کے ساتھ ایک نوکرانی تھی جس نے سر پر گٹھڑی سی اٹھا رکھی تھی۔ سنتری نے ان سے پوچھا کہ وہ کون ہیں اور کہاں جارہی ہیں۔

''معلوم ہوتا ہے ہم غلط راستے پر آگئی ہیں''۔ النور نے بڑی شوخ ہنسی سے کہا… ''شاہ رینالڈ کا دعوت نامہ آیا تھا۔ ہم نے رات کو آنے کا وعدہ کیا تھا۔ ذرا دیر ہوگئی تو کسی نے بتایا کہ یہ راستہ چھوٹا ہے۔ یہاں تو آگے معلوم ہوتا ہے کہ گھوڑے وغیرہ بندھے ہوئے ہیں، ہم کدھر جائیں؟''

ایک معمولی سے سنتری پر رعب طاری کرنے کے لیے شاہ رینالڈ کا نام ہی کافی تھا۔ وہ جانتا تھا کہ صلیبی بادشاہ کس قماش کے لوگ ہیں۔ رینالڈ نے ان لڑکیوں کو عیش وعشرت اور ناچ گانے کے لیے بلایا ہوگا۔ لڑکیوں کے لباس، عمریں اور ان کی شکل وصورت اور النور کے بات کرنے کا نڈر اور کھلنڈر سا انداز بتا رہا تھا کہ یہ اس کے اعلیٰ حکام کے مطلب کی لڑکیاں ہیں۔ اس نے انہیں راستہ بتانا شروع کردیا۔ ایک لڑکی اس کے پیچھے ہوگئی اور اتنی زور سے خنجر اس کی پیٹھ میں گھونپا کہ دل کو چیرتا آگے نکل گیا۔ اس کے ہاتھ سے مشعل گر پڑی۔ النور نے مشعل پر دونوں پائوں رکھ کر اس کا شعلہ بجھا دیا۔ باقی لڑکیوں نے بھی سنتری کے جسم میں اپنا خنجر داخل کردیا۔ سنتری کی آوازبھی نہ نکلی۔ برجیس نے انہیں بتایا تھا کہ گھاس کو آگ لگے گی تو اس کی روشنی میں انہیں خیموں کے ڈھیر اور گاڑیاں نظر آجائیں گی۔ گھاس کے پہاڑ تو انہیں اندھیرے میں بھی نظر آرہے تھے جو لڑکی نوکرانی بنی ہوئی تھی، اس نے جلدی سے سر سے گٹھڑی اتاری۔ اس میں آتش گیر مادہ اور آگ لگانے کا سامان تھا۔

انہوں نے گھاس کے ایک ڈھیر کو آگ لگا دی۔ پھر دوسرے اور تیسرے کو اور ذرا سی دیر میں تمام ڈھیروں کو آگ لگ گئی۔ اب خطرہ بڑھ گیا تھا کیونکہ روشنی ہوگئی تھی۔ تھوڑی دور انہیں لپٹے ہوئے خیموں کے ڈھیر نظر آگئے۔ یہ کپڑا تھا۔ اسے آگ لگانا مشکل نہ تھا۔ خیمے بھی جلنے لگے۔ خالی گھوڑا گاڑیں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑی تھیں۔ لڑکیوں میں غیرمعمولی پھرتی آگئی تھی۔ انہوں نے تین چار گاڑیوں پر آتش گیر مادہ پھینکا اور آگ لگا دی۔ اتنی دیر میں گھاس کے شعلے آسمان تک پہنچنے لگے۔ لڑکیاں گھوڑوں کی طرف بھاگیں۔ ابھی تک کوئی بیدار نہیں ہوا تھا۔ لڑکیوں نے خنجروں سے وہ لمبے لمبے رسے کاٹ دیئے جن کے سرے زمین میں دبے ہوئے تھے اور ہر رسے کے ساتھ چالیس سے پچاس گھوڑے بندھے ہوئے تھے۔ لڑکیوں نے چند ایک گھوڑوں کو خنجر مارے۔ وہ بدک کر اور شعلوں کے ڈر سے ہیبت ناک آوازسے ہنہنانے لگے اور اندھا دھند بھاگنے لگے۔ جو گھوڑے کھل نہ سکے، انہوں نے اودھم بپا کردیا۔ معلوم نہیں کتنے گھوڑے کھل کر ادھر ادھر دوڑنے اور ہنہنانے لگے۔ اونٹ کھلے تھے اور آرام سے بیٹھے تھے۔ وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور اندھا دھند بھاگنے لگے۔

چاروں لڑکیاں بے لگام گھوڑوں اور بے مہار اونٹوں کے نرغے میں آگئیں۔ دوسری طرف شعلے تھے جن کی تپش دور سے بھی جسموں کو جلاتی تھی اور جانوروں کے اس قدر زیادہ شوروغل اور دھماکوں جیسے ٹاپوئوں سے فوج بیدار ہوگئی۔

مغویہ لڑکیوں کو دلہنیں بنا دیا گیا تھا، دونوں کے کمروں میں بیک وقت ایک ایک آدمی داخل ہوا۔ یہ صلیبیوں کے جنگجو حکمران تھے۔ وہ شراب میں بدمست تھے، خادمائیں باہر نکل گئیں، لڑکیاں کمروں میں بھاگ دوڑ کر پناہیں ڈھونڈنے لگیں۔ ان کی عصمت کا پاسبان خدا کے سوا کوئی نہ تھا۔ ایک لڑکی دوزانو گر پڑی اور ہاتھ جوڑ کر رو کر خدا کو مدد کے لیے پکارا۔ صلیبی نے قہقہہ لگایا اور اس کی طرف بڑھا… باہر اسے شوروغل سنائی دیا۔ یہ غیرمعمولی شور تھا۔ اس نے دروازہ کھول کر دیکھا تو ایسے لگا جیسے پورے شہر کو آگ لگ گئی ہو۔ گھوڑوں اور اونٹوں کی خوف زدگی کا یہ عالم کہ کچھ گھوڑے اس بلندی پر بھی چڑھ آئے جس پر یہ عمارت تھی۔ اس کا نشہ فوراً اتر گیا۔ دوسرا بھی باہر نکل آیا۔ دو تین آدمی دوڑتے آئے اور گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا کہ گھاس، خیموں اور گاڑیوں کو آگ لگ گئی ہے۔ دوڑتے ہوئے جانوروں نے کئی آدمیوں کو کچل دیا ہے۔

اگر آگ شہر کو لگتی تو یہ حکام پروانہ کرتے، وہاں فوج کا سامان جل رہا تھا اور فوج کے سینکڑوں جانور کھل گئے تھے۔ ذرا سی دیر میں تمام حکمران اور کمانڈر اور وہاں جو کوئی بھی تھا دوڑتے نکل گئے۔ وہ اپنی نگرانی میں آگ بجھانے کا بندوبست کرنا چاہتے تھے۔ اس عمارت کے اردگرد جو مسلح پہرہ تھا وہ بھی وہاں سے ہٹ گیا۔ باڈی گارڈز بھی اپنے حکام کے پیچھے دوڑتے گئے۔ برجیس نے بلند آواز سے پکارا… ''تم بھی چلو''… اور وہ عمارت کی طرف اٹھ دوڑا۔ اس کے آٹھ جوان بھی دوڑ پڑے۔ ان کے ہاتھو ں میں خنجر تھے۔ عمارت کے برآمدوں میں جاکر اس نے اپنے ان دو ساتھیوں کو پکارنا شروع کردیا جو وہاں عیسائیوں کے بھیس میں ملازم تھے۔ ان میں سے ایک مل گیا۔ اس نے برجیس کو پہچان لیا۔ برجیس نے اس سے پوچھا کہ آج جو لڑکیاں یہاں لائی گئی ہیں۔ وہ کہاں ہیں۔ اسے معلوم نہیں تھا۔ اس نے کمرے دکھا دئیے اور خود بھی ساتھ ہولیا۔ وہاں اب سہولت یہ پیدا ہوگئی تھی کہ کوئی ذمہ دار آدمی موجود نہ تھا۔ پیچھے نوکر چاکررہ گئے تھے جو آگے جاکر بلندی سے آگ کا تماشہ دیکھ رہے تھے۔ برجیس کی سکیم پوری طرح کامیاب تھی۔

وہ ملازم کی رہنمائی میں ان کمروں میں جانے لگے جہاں لڑکیاں ہوتی تھیں، وہاں برآمدوں میں کچھ لڑکیاں کھڑی تھی۔ ان میں بعض نیم برہنہ تھیں، ان سے پوچھا گیا کہ آج جو لڑکیاں آئی ہیں وہ کہاں ہیں؟ انہیں بھی معلوم نہ تھا۔ آخر ایک کمرے میں گئے تو ایک لڑکی مل گئی۔ وہ کمرے میں دبکی ہوئی تھی۔ عثمان صارم اور اس کے بعض ساتھیوں نے اسے دن کے وقت دیکھا تھا۔ جب ان دونوں کو لٹے ہوئے قافلے کے ساتھ لے جایا جارہا تھا۔ برجیس کی پارٹی کے تمام آدمی نقاب پوش تھے۔ انہیں دیکھ کر لڑکی نے چیخ ماری۔ برجیس نے اسے بتایا کہ وہ مسلمان ہیں اور اسے رہا کرانے آئے ہیں۔ مگر وہ لڑکی اتنی ڈری ہوئی تھی کہ ان کے ہاتھ نہیں آرہی تھی۔ انہوں نے اسے زبردستی اٹھا لیا۔ دوسرے کمرے میں اس کی بہن مل گئی اس کا ردعمل بھی یہی تھا۔ اسے بھی زبردستی اٹھایا گیا۔ دوسری لڑکیاں جو ایک عرصے سے صلیبیوں کے پاس تھیں یہ منظر دیکھ رہی تھیں۔ وہ آدمیوں کو ڈاکو سمجھ کر ادھر ادھر بھاگ گئیں۔ مغویہ بہنیں چیخ وپکار کررہی تھیں۔ انہیں برجیس نے غصے سے کہا کہ وہ سب مسلمان ہیں انہیں مسلمان گھرانوں میں لے جاکر چھپائیں گے۔ بڑی ہی مشکل سے انہیں خاموش کیا گیا اور جانبازوں کی یہ جماعت وہاں سے نکل گئی۔

٭ ٭ ٭
آگ کا منظر بے حد خوفناک تھا، شعلے توقع سے کہیں زیادہ اونچے جارہے تھے اور دوردور تک پھیل گئے اور پھیلتے ہی چلے جارہے تھے۔ گھوڑوں اور اونٹوں نے سارے شہر میں قیامت بپا کرکھی تھی۔ سارا شہر جاگ اٹھا تھا۔ گلیوں میں، سڑکوں پر اور میدانوں میں ان جانوروں نے اس قدر دہشت گردی پھیلا دی تھی کہ لوگ دبک کر گھروں میں بیٹھ گئے تھے اور آگ نے جو دہشت پھیلائی تھی، اس سے بعض لوگ گھروں سے بھاگنے کی تیاریاں کرنے لگے تھے۔ افراتفری اور بھگدڑ مچی ہوئی تھی۔ سلطان ایوبی کے جاسوس بھی وہاں موجود تھے۔ وہ عقلمند اور موقع شناس تھے۔ انہوں نے آگ، بھاگتے دوڑتے جانور اور افراتفری دیکھی تو یہ معلوم کیے بغیر کہ یہ معاملہ کیا ہے، یہ مشہور کردیا کہ صلاح الدین ایوبی کی فوجیں شہر میں داخل ہوگئی ہیں اور شہرکو آگ لگا رہی ہیں۔ یہ افواہ مسلمانوں کے لیے حوصلہ افزا تھی۔ عیسائیوں اور یہودیوں کے ہوش اڑ گئے۔ یہ افواہ آگ کی طرح سارے شہر میں پھیل گئی۔ غیرمسلموں نے بھاگنا شروع کردیا۔

صلیبی حکمران اور اعلیٰ حکام آگے کی جگہ پہنچے تو وہاں کوئی انسان نہیں تھا۔ انہوں نے بھی یہی سمجھا کہ مسلمانوں کی فوج قلعے میں کہیں نقب لگا کر اندر آگئی ہے۔ انہوں نے فوج کو قلعے کے دفاع کے لیے جنگی ترتیب میں فوراً چلے جانے کا حکم دیا اور اسی فوج کے کچھ حصے کو قلعے کے باہر جانے کو کہا۔ دو تین کمانڈر دوڑ کر قلعے کی دیوار پر چڑھے اور باہر دیکھا۔ باہر خاموشی تھی۔ کسی طرف سے حملہ نہیں ہوا تھا۔ قلعے کا عقبی دروازہ کھول دیا گیا تاکہ فوج باہر جاسکے۔ رات کے وقت قلعے کا دروازہ نہیںکھولا جاتا تھا لیکن اس خیال سے دروازہ کھول دیاگیا کہ سلطان ایوبی کا کوئی جانباز دستہ اندر آگیا ہے جس نے بھگدڑ مچا دی ہے۔ یہ باہر کے حملے کا پیش خیمہ ہے، فوج آرہی ہوگی۔ اس فوج کو شہر سے دور روکنے کے لیے صلیبیوں نے رات کو ہی فوج باہر بھیج دی اور دروازہ کھولنے کا خطرہ مول لے لیا۔ یہ فیصلہ دراصل گھبراہٹ میں کیا گیا تھا اور یہ ایک غلط فیصلہ تھا۔ بعض غیرمسلموں نے جو عقب دروازے کے قریب تھے، دیکھ لیا کہ وہ دروازہ کھل گیا ہے۔ وہ اندھا دھند دروازے کی طرف بھاگے۔ انہیں دیکھ کر دوسرے شہری بھی ان کے پیچھے گئے۔ وہاں سے فوج گزر رہی تھی۔ شہریوں کا سیلاب آگیا جسے کوئی نہ روک سکا۔

آگ پھیلتی جارہی تھی، گھوڑا گاڑیوں کے قریب ہی رسد کی بوریوں کے انبار تھے۔ بہت سا دیگر اقسام کا سامان بھی پڑا تھا۔ آگ پر قابو پانا ضروری تھا۔ شہری گھروںمیں چھپ گئے تھے یا بھاگ رہے تھے۔ یہ کام فوج کرسکتی تھی۔ فوج کی کچھ نفری کو بلا لیا گیا اور اس کے ساتھ ہی کسی کو ان مسلمان قیدیوں کا خیال آگیا جو بیگار کیمپ میں پڑے ہوئے تھے۔ فوراً حکم دیا گیا کہ قیدیوں کو اس اعلان کے ساتھ لے آئو کہ وہ آگ پر قابو پالیں تو انہیں صبح کے وقت رہا کردیا جائے گا۔ قیدی باہر کے شور سے جاگ اٹھے تھے اور سنتری انہیں ڈنڈے مار مار کر سوجانے کو کہہ رہے تھے۔ اتنے میں حکم آگیا کہ قیدیوں کو پانی لانے اور آگ پر پھینکنے کے لیے لے چلو۔ رہاں کا اعلان بھی کیا گیا، ان میں آفاق بھی تھا۔ اس کا جسم ٹھنڈا ہوکر اور زیادہ دکھنے لگا تھا۔ اس نے ایک قیدی سے کہا… ''صلیبیوں کی ساری سلطنت جل جائے میں آگ بجھانے نہیں جائوں گا''۔

''پاگل نہ بنو''… ایک قیدی نے اسے کہا… ''ان لوگوں نے کہہ دیا ہے کہ آگ بجھائو اور کل رہا ہوجائو لیکن یہ دھوکہ ہے۔ یہ کافر جھوٹ بولتے ہیں، تم ہمارے ساتھ چلو اور بھاگ نکلو۔ ہم نہیں بھاگ سکتے کیوکنکہ یہ لوگ ہمارے گھروں سے واقف ہیں، تم نکل جانا''۔

''جائوں گا کہاں''۔

قیدی نے اسے اپنے گھر کا پتہ بتا کر کہا… ''میں کوشش کروں گا کہ موقع محل دیکھ کر تمہیں اپنے گھر پہنچا دوں لیکن وہاں زیادہ دن نہ رکنا کیونکہ صلیبی میرے سارے کنبے کو سزا دیں گے''۔

قیدیوں کو صلیبی لے گئے اور انہیں تقسیم کرکے مختلف کنوئوں پر لے جایا گیا۔ فوجی پانی نکال رہے تھے، قیدیوں نے مشکیزے اٹھانے شروع کردیئے۔ وہ دوڑ دوڑ کر جاتے اور آگ پر پانی پھینکتے تھے۔ ایک دو چکروں میں سنتری ان کے ساتھ رہے مگر یہ ممکن نہیں تھا۔ قیدی اور فوجی گڈ مڈ ہوگئے۔ کسی کو کسی کا ہوش نہ رہا۔ صلیبی کمانڈر گھبراہٹ میں سب کو گالیاں دے رہے تھے۔ اتنے میں گھوڑوں کا ڈرا ہوا ریوڑ دوڑتا ہوا آیا۔ آگ بجھانے والے قیدی اور فوجی ان کی زد میں آگئے۔ سب ادھر ادھر بھاگ اٹھے۔ بعض کچلے بھی گئے اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آفاق کو وہ پرانا قیدی اپنے ساتھ لے گیا۔ مسلمانوں کو کوئی خطرہ نہ تھا۔ وہ خوش تھے کہ مسلمان فوج آگئی ہے۔ قیدی اپنے گھر میں د اخل ہوا۔ اس کا سارا خاندان جاگ رہا تھا۔ اسے دیکھ کر سب بہت مسرور ہوئے لیکن اس نے آفاق کو ان کے حوالے کرکے کہا… ''اسے چھپالو اور جلدی شہر سے نکال دینا۔ میں نہیں رک سکتا۔ صلیبیوں نے کل رہائی کا وعدہ کیا ہے۔ اسے ابھی کوئی نہیں جانتا، اگر میں یہاں رک گیا تو شاید کبھی بھی رہائی نہیں ملے گی''۔

''کیا یہ سچ ہے کہ صلاح الدین ایوبی کی فوج اندر آگئی ہے؟''… قیدی کے باپ نے پوچھا۔

''کچھ پتا نہیں''… قیدی نے جواب دیا… ''آگ بہت زور کی ہے، معلوم نہیں کب بجھے گی''۔

''اگر ہماری فوج نہیں آئی تو پھر ہم یہ خطرہ کیسے مول لے سکتے ہیں؟''… قیدی کے باپ نے کہا۔

''یہ آدمی خود ہی نکل جائے گا''… قیدی نے کہا… ''یہ کل یہاں سے نکل جائے گا''۔

''اس کا ہمیں کوئی خطرہ نہیں''… قیدی کے باپ نے کہا… ''ابھی ابھی تمہارا چھوٹا بھائی دو مسلمان لڑکیوں کو لایا ہے۔ انہیں اس نے اور صارم کے بیٹے عثمان نے اور ان کے دوستوں نے صلیبیوں کے شاہی خانے سے اغوا کیا ہے۔ دونوں کو ہم نے گھر میں چھپا لیا ہے''۔

''کون ہے وہ لڑکیاں؟ ''… قیدی نے پوچھا۔

''کہتے ہیں انہیں کل ایک قافلے سے صلیبیوں نے اغوا کیا تھا''… باپ نے جواب دیا… ''ان کا بھائی سنا ہے، قید میں ہے''۔

آفاق نے تڑپ کر پوچھا… ''کہاں ہیں وہ لڑکیاں؟''

ذرا سی دیر میں آفاق اپنی بہنوں کو گلے لگا رہا تھا، خدا نے ان کی فریادیں سن لی تھیں، یہ بڑا ہی جذباتی منظر تھا۔ ان کے ماں باپ مارے گئے تھے۔ وہ لٹ گئے تھے۔ انہیں ایسی معجزہ نما ملاقات کی توقع نہیں تھی… جس قیدی کا یہ گھر تھا، وہ دوڑ کر باہر نکل گیا۔ وہ قید سے بھاگنا نہیں چاہتا تھا۔ اس کا چھوٹا بھائی، برجیس اور عثمان صارم کے ساتھ تھا۔ وہ لڑکیوں کو گھر چھوڑ کر کہیں چلا گیا تھا۔

وہ اچانک آگیا، اس نے لڑکیوں سے کہا… ''فوراً اٹھو شہر سے نکلنے کا موقع پیدا ہوگیا ہے''… آفاق کے متعلق اسے بتایا گیا کہ ان لڑکیوں کا بھائی ہے اور قید سے فرار ہوکر آیا ہے۔ اس نے آفاق کو بھی اپنے ساتھ لیا اور باہر لے گیا۔ باہر تین گھوڑے تھے۔ یہ برجیس کا انتظام تھا۔ اس نے دونوں بہنوں کو گھوڑوں پر سوار کیا اور جب تیسرے گھوڑے پر خود سوار ہونے لگا تو اسے آفاق کے متعلق بتایا گیا۔ اس نے آفاق کو تیسرے گھوڑے پر سوار کیا اور خود چل پڑا اس نے اتنا ہی کہا… ''خدا حافظ دوستو! زندہ رہے تو پھر ملیں گے''… اور وہ دوڑ پڑا۔ وہ شہر کے عقبی دروازے کی طرف جارہا تھا، جہاں سے ڈرے ہوئے شہریوں کا جلوس باہر کو بھاگا جارہا تھا۔ یہ دروازہ برجیس نے پہلے سے دیکھ رکھا تھا۔ شہر سے نکلنے کا موقع پیدا ہوگیا تھا۔ اس نے کہیں سے تین گھوڑے پکڑے اور لے آیا۔ کسی صلیبی کمانڈر نے دیکھ لیا کہ شہری تو بھاگ رہے ہیں اس نے ذروازہ بند کرنے کا حکم دے دیا۔ برجیس جب وہاں پہنچا تو دروازہ آہستہ آہستہ بند ہورہا تھا اور شہریوں کا ایک ہجوم دروازے میں پھنس گیا تھا۔ ایک واویلا بپا تھا، برجیس نے چلانا شروع کردیا… ''پیچھے سے فوج آرہی ہے، دروازہ کھول دو، بھاگو۔ مسلمان آرہے ہیں''۔ ہجوم نے آگے کو زور لگایا تو بند ہوتے ہوتے دروازہ کھل گیا۔ انسان رکے ہوئے دریا کی طرح بند توڑ کر نکل گئے۔

باہر نکل کر برجیس نے آفاق سے کہا کہ کسی ایک بہن کے پیچھے سوار ہوجائو اگر میں تمہارے ساتھ سوار ہوا تو ایک گھوڑے پر دو مردوں کا وزن زیادہ ہوجائے گا۔ ہمارا سفر لمبا ہے۔ آفاق ایک بہن کے پیچھے سوار ہوگیا۔ دوسری سے اس نے کہا کہ وہ سواری سے ڈرے نہیں، گھوڑا اسے گرائے گا نہیں۔ انہوں نے گھوڑے دوڑادئیے۔ برجیس کو معلوم تھا کہ راستے میں صلیبی فوج خیمہ زن ہے، اسے یہ بھی معلوم تھا کہ کون سی جگہ فوج نہیں ہے۔ وہ اس سمت ہولیا۔ کرک کے بھاگے ہوئے لوگ ادھر ادھر بکھرتے جارہے تھے۔ شعلوں کی روشنی دور دور تک جارہی تھی۔ آفاق اور لڑکیوں کو معلوم نہیں تھا کہ انہیں کس طرح رہا کرایا گیا ہے۔ برجیس خاموش تھا۔ وہ اگر بولتا تو صرف اتنا کہ آفاق سے اس کی خیریت پوچھتا تھا اور اس کی جو بہن گھوڑے پر اکیلی سوار تھی اس سے پوچھ لیتا تھا کہ وہ ڈر تو نہیں رہی۔ کرک کے شعلے پیچھے ہٹتے جارہے تھے اور رات گھوڑوں کی رفتار کے ساتھ گزرتی جارہی تھی۔

٭ ٭ ٭
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: داستان ایمان فروشوں کی جلد‎ ‎دوم

Post by ایکسٹو »

صبح طلوع ہوئی تو برجیس سلطان ایوبی کی فوج کے علاقے میں داخل ہوچکا تھا، اس نے ایک کمان دار سے اپنا تعارف کرایا اور سلطان ایوبی کے متعلق پوچھا کہ کہاں ہوگا۔ کمان دار اسے اپنے دستوں کے کمان دار کے پاس لے گیا، جس نے اسے بتا دیا کہ سلطان ایوبی کہاں ہوسکتا ہے۔ برجیس اپنی اس کامیابی پر بے حد خوش تھا۔ اس نے صرف لڑکیوں کو صلیبیوں سے آزاد نہیں کرایا تھا بلکہ کرک میں آتش زنی جیسی تخریبی کارروائی کرکے صلیبی فوج کے غیرمسلم شہریوں کو جذبے پر خوف طار ی کرآیا تھا۔ وہ سلطان ایوبی کو یہ مشورہ دینا چاہتا تھا کہ کرک پر فوراً حملہ کردیا جائے۔

کرک کی صبح بڑی بھیانک تھی۔ شعلوں کی بلندی اورتندی ختم ہوگئی تھی لیکن ا گ ابھی تک سلگ رہی تھی۔ صلیبی فوج کی رسد اور جانوروں کا تمام تر خشک چارہ جل گیا تھا۔ خیموں کے علاوہ بے شمار جنگی سامان نذر آتش ہوگیاتھا۔ کچھ اونٹ زندہ جل گئے تھے۔ تمام گھوڑے اور اونٹ رات بھر دوڑ دوڑ کر تھک گئے اور اب سارے شہر میں آوارہ پھر رہے تھے۔ جگہ جگہ ان لوگوں کی لاشیں پڑی تھیں جو بے لگام گھوڑوں اور بے مہار اونٹوں کی زد میں آکر کچلے گئے تھے۔ فوجی اور قیدی ابھی تک کنوئوں سے پانی لالا کر آگ پر پھینک رہے تھے۔ صلیبی حکام ابھی تک یہ سمجھ رہے تھے کہ سلطان ایوبی کی فوج اندر آگئی ہے لیکن وہاں ایسے کوئی آثار نہیں تھے۔ انہوں نے قلعے کی دیواروں پر جاکر ہر طرف دیکھا۔ باہر صلیبیوں کی اپنی فوج قلعے کے اردگرد موجود تھی۔ اسلامی فوج کا دور دور تک نام ونشان نہ تھا۔ اب یہ تفتیش کرنی تھی کہ آگ کس طرح لگی۔

اس سنتری کی لاش ملی جسے لڑکیوں نے خنجروں سے ہلاک کیا تھا لیکن گھوڑوں اور اونٹوں نے اسے ایسی بری طرح روندا تھا کہ خنجروں کے زخم پہچانے نہیں جاتے تھے۔ اس سے تھوڑی دور چار زنانہ لاشیں ملیں۔ یہ اس میدان میں پڑی ہوئی تھیں جہاں گھوڑے اور اونٹ باندھے جاتے تھے۔ یہ تفتیش کرنے والا حاکم کوئی معمولی آدمی نہیں بلکہ صلیبیوں کی انٹیلی جنس کا ڈائریکٹر ہرمن تھا۔ اس میدان میں لاشیں تو اور بھی پڑی تھیں لیکن اسے چار عورتوں کی لاشیں ملیں۔ ان کے چہرے گھوڑوں کے پائوں تلے آ آ کر مسخ ہوگئے تھے۔ جسم کا کوئی حصہ سلامت نہیں تھا۔ یہ لاشیں ایک دوسری سے دور دور پڑی تھیں۔ ان کے کپڑے تارتار ہوگئے تھے۔ خاک وخون میں ان کا اصل رنگ نظر نہیں آتا تھا۔ اتنا ہی پتا چلتا تھا کہ یہ زنانہ کپڑے ہیں۔ لاشیں دیکھ کر بھی یہ ثبوت ملتا تھا کہ یہ عورتوں کی ہیں۔ سب کے جسموں سے کھال اکھڑی ہوئی اور کئی جگہوں سے گوشت باہر آیا ہوا تھا۔ کئی ہڈیاں ننگی ہوگئی تھیں اور ٹوٹی ہوئی بھی تھیں۔ ہر لاش کے گلے میں زنجیر اور زنجیر کے ساتھ ایک چھوٹی صلیب بندھی ہوئی تھی۔ یہ صلیبیں اس امر کا ثبوت تھا کہ عورتیں عیسائی تھیں۔

ہرمن اور فوجی افسر حیران تھے کہ عورتوں کی لاشیں یہاں کیوں پڑی ہیں۔ یہ فوجی علاقہ تھا اور اس طرف سے کسی شہری کو گزرنے کی اجازت نہیں تھی اور نہ ہی یہ عام گزرگاہ تھی۔ یہ تو جانوروں اور رسد وغیرہ کی جگہ تھی، وہاں چند اور لاشیں بھی پڑی تھیں وہ فوجیوں کی تھیں۔ عورتیں رات کے وقت ادھر کیوں آئیں؟… اس سوال کا جواب دینے والا کوئی نہ تھا۔ صرف قیاس آرائی کی جاسکتی تھی جو کی گئی۔ کہا گیا کہ فوجی پیشہ ور عورتوں کو ادھر لے آئے ہوں گے مگر اصل مسئلہ تو یہ تھا کہ آگ کس طرح لگی۔ شہر کے مسلمانوں پر شک کیا جاسکتا تھا لیکن مجرموں کا سراغ لگانا آسان نہیں تھا۔ حکم دے دیا گیا کہ خفیہ پولیس اور فوج کے سراغ رساں شہر میں مشتبہ مسلمانوں کی چھان بین کریں اور جس پر ذرا بھی شک ہو اسے قید میں ڈال کر اذیت رساں تحقیقات کریں۔

النور اور اس کی تینوں لڑکیوں کے گھر والے بہت پریشان تھے۔ لڑکیاں واپس نہیں آئی تھیں، ڈر یہ تھا کہ پکڑی نہ گئی ہوں۔ انہوں نے اپنا فرض مکمل کامیابی سے ادا کیا تھا لیکن وہ ابھی تک لاپتہ تھیں۔ عثمان صارم اور اس کے دوست ان تماشائیوں کے ہجوم میں جاکھڑے ہوئے جو آتش زدہ جگہ کھڑے تھے۔ وہاں انہیں پتا چلا کہ چار عورتوں کی لاشیں ملی ہیں۔ تھوڑی دیر بعد اعلان ہوا کہ چار عورتوں کی لاشیں فلاں جگہ رکھ دی گئی ہیں۔ تمام شہری انہیں دیکھ کر پہچاننے کی کوشش کریں۔ تماشائیوں کا ہجوم ادھر چلا گیا۔ عثمان صارم اور اس کے دوستوں نے اکٹھی رکھی ہوئی چار لاشوں کو دیکھا۔ ان کی صلیبیں ان کے سینوں پر رکھ دی گئی تھیں۔ کوئی بھی کسی لاش کو نہ پہچان سکا۔ پہچاننے کے لیے وہاں کچھ تھا ہی نہیں۔ چہروں سے بھی کھال اتری ہوئی تھی، بعض کے چہرے اندر کو پچک گئے تھے۔

عثمان صارم کے آنسو نکل آئے، وہ تماشائیوں میں سے نکل گیا۔ اس کے دوست بھی اس سے جاملے۔ ان سب کو معلوم تھا کہ یہ لاشیں کن کی ہیں۔ ان میں ایک عثمان صارم کی بہن النور کی لاش تھی۔ باقی تین لاشیں اس کی سہیلیوں کی تھیں۔ چاروں رات کو اپنا فرض ادا کر کے شہید ہوگئی تھیں۔ ان کی شہادت کا عینی شاہد کوئی بھی نہیں تھا۔ لاشوں کی حالت جو کہانی بیان کرتی تھی وہ کچھ ا س طرح ہوسکتی تھی کہ ان لڑکیوں نے سنتری کو ہلاک کرکے آگ لگائی۔ بعد میں گھوڑوں کے رسے کاٹے اور انہی گھوڑوں کی بھگدڑ کی زد میں آگئیں۔ معلوم نہیں کتنے سو گھوڑے اور اونٹ لاشوں کو روندتے رہے۔ دو لڑکیوں کی عصمت بچانے کے لیے چار لڑکیاں قربان ہوگئیں۔ برجیس نے اپنے ہاتھوں ان لڑکیوں کے گلوں میں صلیبیں لٹکائی تھیں تاکہ بوقت ضرورت وہ صلیبیں دکھا کر ظاہر کرسکیں کہ وہ عیسائی ہیں۔

ان لڑکیوں کا جنازہ نہیں پڑھا گیا۔ انہیں صلیبیوں نے عیسائی سمجھ کر اپنے قبرستان میں کہیں دفن کردیا۔ ان کے لواحقین نے ماتم نہیں کیا۔ ایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی کی گئی۔ گھروں میں غائبانہ نماز جنازہ پڑھی گئی۔ چاروں لڑکیوں کے باپوں نے ایک ہی جیسے جذبات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ اسلام کے نام پر وہ چار بیٹے قربان کرنے کو تیار ہیں مگر ان سے جو قربانی لی جانے لگی وہ بڑی ہی اذیت ناک تھی۔ صلیبی فوج نے تمام مسلمان گھروں کی خانہ تلاشی شروع کردی۔ خطرہ تھا کہ جو ہتھیار انہوں نے گھروں میں چھپا رکھے ہیں، وہ پکڑے جائیں گے۔ سب نے ہتھیار اندرونی کمروں کے فرش کھود کر دبا دئیے۔ دوسرا خطرہ یہ تھا کہ جو چار لڑکیاں شہید ہوگئی تھیں، ان کے متعلق جواب دینا مشکل تھا کہ کہاں چلی گئی ہیں۔ آگ کی رات کے دوسرے ہی دن امام کو جب لڑکیوں کی شہادت کی خبر سنائی گئی تو اس نے پہلی بات یہ کہی… ''تمہارے غیرمسلم پڑوسی اور مسلمان مخبر ضرور پوچھیں گے کہ لڑکیاں کہاں ہیں تو کیا جواب دو گے؟''

امام دانشمند اور دوراندیش انسان تھا، اس نے گہری سوچ کے بعد کہا… ''چاروں لڑکیوں کے باپ اور بھائی میرے ساتھ آئیں''… وہ آگئے تو اس نے سب کو ایک طریقہ بتایا اور کچھ باتیں ذہن نشین کرائیں۔ وہ سب کو صلیبیوں کی انتظامیہ کے دفتر میں لے گیا اور وہاں کے سب سے بڑے حاکم سے ملاقات کی اجازت لے کر بڑے غصے اور جذباتی لہجے میں کہا… ''میں ان لوگوں کا امام ہوں، یہ میرے پاس فریاد لے کر آئے ہیں کہ رات آگ لگی تو یہ سب آگ بجھانے کے لیے اٹھ دوڑے۔ یہ رات بھر کنوئوں سے پانی نکالتے رہے، شہر میں بھگدڑ مچ گئی۔ کسی کو کسی کا ہوش نہ رہا۔ یہ لوگ صبح کے وقت گھروں کو گئے تو انہیں پتا چلا کہ آپ کی فوج کے کچھ آدمی ان کے گھروں میں گھس گئے اور ان کی کنواری لڑکیاں اٹھا کر لے گئے۔ ہماری چار لڑکیاں لاپتہ ہیں''۔

''ہماری فوج پر الزام لگانے سے پہلے سوچ لو''… صلیبی حاکم نے رعب سے کہا۔

''جناب! میں مذہبی پیشوا ہوں''… امام نے کہا… ''میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آپ ہمیں دھتکار سکتے ہیں اور اپنی فوج کو بے گناہ کہہ سکتے ہیں لیکن خدا سے آپ کوئی اچھا برا عمل نہیں چھپا سکتے۔ آپ ہمارے حاکم ہیں۔ خدا تو نہیں۔ ان لوگوں نے آپ کی فوج کو نقصان سے بچانے کے لیے ساری رات آگ سے لڑائی لڑی۔ آپ انہیں یہ صلہ دے رہے ہیں کہ یہ بھی تسلیم نہیں کرنا چاہتے کہ ان کی لڑکیوں کو آپ کے فوجی اٹھالے گئے ہیں''۔

کچھ دیر بحث کے بعد حاکم نے انہیں کہا کہ ان لڑکیوں کو تلاش کیا جائے گا۔ امام اس سے یہی کہلوانا چاہتا تھا۔ باہر آکر جب وہ واپسی کے لیے چلے تو امام نے سب سے کہا کہ اب یہی مشہور کردو کہ رات ان کی لڑکیاں اغوا ہوگئی ہیں۔ چنانچہ یہی مشہور کردیا گیا۔ ان کے پڑوس میں رہنے والے غیرمسلموں نے یقین کرلیا۔ رات شہر کی حالت ہی ایسی تھی کہ لوٹ مار اور اغواء آسانی سے کی جاسکتی تھی۔

٭ ٭ ٭

برجیس سلطان ایوبی کے خیمے میں بیٹھا تھا، آفاق کی مرہم پٹی سلطان ایوبی کا جراح کرچکا تھا۔ آفاق کی دونوں بہنیں بھی خیمے میں بیٹھی تھیں۔ برجیس رات کا کارنامہ سنا چکا تھا۔ سلطان ایوبی بار بار لڑکیوں کو دیکھتا تھا۔ ہر بار اس کی آنکھیں سرخ ہوجاتی تھیں۔ برجیس نے کہا کہ وہ کرک کو ایسی افراتفری اور بھگدڑ میں چھوڑ آیا ہے کہ فوری طور پر حملہ کیا جائے تو حملہ کامیاب ہوسکتا ہے۔ شہر میں فوجوں کے لیے رسد نہیں رہی۔ جانوروں کے لیے چارہ نہیں رہا، جانور ڈرے ہوئے ہیں، شہر پر خوف طاری ہے۔ فوجی بھی ڈری ہوئی ہے۔

سلطان ایوبی گہری سوچ میں کھوگیا۔ بہت دیر بعد اس نے سراٹھایا اور اپنے نائبین اور مشیروں کو بلایا۔ اس نے پہلا حکم یہ دیا کہ ان لڑکیوں اور ان کے بھائی کو قاہرہ روانہ کردیا جائے اور ان کی رہائش اور وظیفے کا انتظام کیا جائے۔

''آپ میری بہنوں کو اپنی عافیت میں لے لیں''… آفاق نے کہا… ''میں آپ کے ساتھ رہوں گا، مجھے اپنی فوج میں شامل کرلیں۔ مجھے اپنی ماں اور باپ کے خون کا انتقام لینا ہے۔ اگر آپ مجھے کرک میں داخل کرسکیں تو میں اندر تباہی مچا دوں گا''۔

''جنگ جذبات سے نہیں لڑی جاتی''… سلطان ایوبی نے کہا… ''بڑی لمبی تربیت کی ضرورت ہے۔ تم صرف اپنی ماں اور اپنے باپ کے خون کا انتقام لینے کو بیتاب ہو، مجھے ان تمام باپوں اور تمام بیٹیوں کے خون کا انتقام لینا ہے جو صلیبی درندوں کا شکار ہوئی ہیں۔ اپنے آپ کو ٹھنڈا کرو''۔

آفاق کی جذباتی حالت ایسی تھی کہ سلطان ایوبی اسے زبردستی قاہرہ بھیجنے سے گریز کرنے لگا۔ اسے کہا کہ پہلے اپنا علاج کرائے، صحت یاب ہوجائے پھر اس کی خواہش پوری کردی جائے گی… اتنے میں نائب سالار اور اعلیٰ کمان دار آگئے۔ ان میں زاہدان بھی تھا۔ سلطان ایوبی نے آفاق اور اس کی بہنوں کو باہر بھیج دیا۔ اس نے اجلاس میں یہ مسئلہ پیش کیا کہ کیا کرک کو فوراً محاصرے میں لے لیا جائے؟… اس نے سب کو کرک کی اس وقت کی کیفیت بتائی۔ اس مسئلے پر بحث شروع ہوگئی۔ زاہدان نے اپنے جاسوسوں اور رپورٹوں کی روشنی میں کہا کہ صلیبی فوج صرف کرک میں نہیں باہر بھی ہے اور اس کا ایک حصہ ایسی پوزیشن میں ہے جو ہماری فوج کا محاصرہ باہر سے توڑ دے گا۔ انہوں نے ایسا انتظام کررکھا ہے کہ رسد کی آمدورفت کی حفاظت کے لیے ان کی پوری فوج موجود ہے اگر ان کے پاس وقتی طور پر رسد کی کمی آگئی ہے تو یہ سمجھ کر حملہ کرنا کہ ہمارا محاصرہ کامیاب ہوگا محض خوش فہمی ہے۔ ان کے پاس صرف وہی رسد اور سامان نہیں تھا جو جل گیا ہے۔ ان کی ہر ایک فوج کے ساتھ اپنی اپنی رسد اور سامان موجود ہے اور ان کی نفری ہم سے پانچ چھ گنا ہے۔

اجلاس کے دوسرے شرکاء نے اپنے اپنے مشور ے پیش کیے۔ ان کی اکثریت فوری حملے کے حق میں تھی اور بعض نے انتظار کی تجویز پیش کی۔ تجاویز اور مشورے جیسے کیسے بھی تھے سلطان ایوبی نے سنے۔ اسے یہ دیکھ کر اطمینان ہوا کہ کمانڈروں کا جذبہ شدید تھا۔ ان میں بیشتر نے کہا کہ حملہ جلدی کریں یا دیر سے، یہ پیش نظر رکھیں کہ ایک بار حملہ کرکے یہ نہ سننا پڑے کہ محاصرہ اٹھالو کیونکہ ہم کمزور ہیں۔ سلطان ایوبی خاموشی سے سنتا رہا، اس نے آخر میں فوج کے جذبے اور دیگر کوائف کے متعلق پوچھا، اسے تسلی بخش جواب ملا۔

''میں جلدی حملہ کرنا چاہتا ہوں''… آخر میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا… ''لیکن میں جلد بازی کا قائل نہیں، میرے سامنے صرف کرک کا قلعہ بند شہر نہیں بلکہ صلیبیوں کی وہ تمام فوج ہے جو انہوں نے باہر پھیلا رکھی ہے۔ زاہدان نے ٹھیک کہا ہے کہ کرک کے اندر تباہی سے ہمیں خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے تاہم حملہ جلدی ہوگا۔ فاصلہ زیادہ نہیں۔ ایک ہی رات میں ہمارے دستے کرک تک پہنچ سکتے ہیں ا گر انہیں ایک جنگ قلعے سے باہر لڑنی پڑے گی۔ کوچ سے بیشتر ہمیں کرک کے مسلمانوں کو تیار کرنا پڑے گا۔ مجھے اندر کی جو تازہ اطلاع ملی ہیں، وہ یہ ہیں کہ وہاں کے مسلمان درپردہ ایک جماعت کی صورت میں منظم ہوچکے ہیں، امید کی جاسکتی ہے کہ وہ محاصرے کی صورت میں شہر میں تخریب کاری کریں گے۔ ان کی لڑکیاں بھی میدان میں نکل آئی ہیں۔ صرف چار لڑکیوں نے صلیبیوں کو جو نقصان پہنچایا ہے وہ پچاس پچاس نفری کے چار دستے بھی نہیں پہنچا سکتے۔ ہم کوشش کریں گے کہ شہر میں اپنے چھاپہ مار بھی داخل کردیں''۔

''مداخلت کی معافی چاہتا ہوں''… برجیس نے کہا… ''اگر چھاپہ مار بھیجنے ہیں تو فوراً بھیجئے۔ کرک کے جو شہری بھاگ گئے ہیں وہ یقینا واپس جائیں گے۔ ان کے پردے میں چھاپہ مار داخل کیے جاسکتے ہیں۔ اس کے بعد ممکن نہیں ہوگا۔ آتش زنی کے واقعہ کے بعد صلیبی محتاط ہوجائیں گے اور شہر کے تمام دروازے بند کردیں گے۔ مجھے اجازت دیں کہ میں ان کے ساتھ آج ہی روانہ ہوجائوں۔ وہ اپنے ساتھ کوئی ہتھیار نہ لے جائیں۔ وہاں سے ہتھیار مل جائیں گے''۔

آخر فیصلہ یہ ہوا کہ آج ہی رات چھاپہ مار برجیس کی قیادت میں روانہ کردیئے جائیں۔ جہاں تک گھوڑے لے جاسکتے ہیں، وہاں تک گھوڑوں پر جائیں۔ آگے پیدل جائیں۔ گھوڑے واپس لانے کے لیے کچھ آدمی ساتھ بھیج دیئے جائیں۔ اسی وقت زاہدان سے کہا گیا کہ وہ برجیس کی ہدایات کے مطابق چھاپہ ماروں کو شہری لباس مہیا کرے اور شام کے بعد روانہ کردے۔ سلطان ایوبی نے اپنے فوجی کمانڈروں کو جنگی نوعیت کی ہدایات دیں اور خاص طور پر کہا … ''یہ یاد رکھنا کہ جس فوج سے ہم حملہ کرارہے ہیں، یہ وہ فوج نہیں جس نے شوبک فتح کیا تھا۔ یہ فوج مصر سے آئی ہے جس میں دشمن نے بے اطمینانی پھیلائی تھی۔ اس فوج کو محاصرے میں لڑنے کا تجربہ نہیں۔ کمان داروں کو چوکنا رہنا پڑے گا۔ مجھے شک ہے کہ اس فوج میں تخریبی ذہن کے سپاہی بھی ہیں۔ میں نے جو دستے اپنے ہاتھ میں رکھے ہیں وہ ترک اور شامی ہیں اور نورالدین زندگی کی بھیجی ہوئی کمک کو بھی اپنے پاس محفوظ میں رکھوں گا۔ حالات تمہارے خلاف ہوگئے تو گھبرا کر پیچھے نہ ہٹ آنا۔ میں تمہارے پیچھے موجود رہوں گا… اور یہ بھی یاد رکھو کہ کرک کے مسلمانوں کے ساتھ امیدیں وابستہ نہ کیے رکھنا۔ ان کے لیے جو ہدایات بھیج رہا ہوں، وہ ایسی ہرگز نہیں ہوں گی کہ یہ اپنے آپ کو ایسے خطرے میں ڈال لیں کہ ان کی مستورات کی عزت بھی محفوظ نہ رہے۔ میں ان سے اتنی زیادہ قربانی نہیں مانگوں گا۔ وہ محکوم اور مجبور ہیں۔ ظلم وتشدد کا شکار ہیں۔ ہم ان کی آزادی اور نجات کے لیے جارہے ہیں، ان کے بھروسے پر نہیں جارہے''۔

چار پانچ دنوں تک کرک میں یہ کیفیت رہی کہ مسلمانوں کے گھروں پر چھاپے پڑ رہے تھے۔ کئی مسلمان محض شک میں گرفتار کرلیے گ ئے تھے۔ بیگار کیمپ کے جن قیدیوں کو اس وعدے پر آگ بجھانے کے لیے لے گئے تھے کہ انہیں رہا کردیا جائے گا، انہیں رہا نہیں کیا گیا تھا۔ صلیبیوں نے مظالم کا ایک نیا دور شروع کردیا تھا۔ ان کا نقصان معمولی نہیں تھا۔ وہ جانتے تھے کہ مسلمانوں کے سوا یہ دلیرانہ تخریب کاری اور کوئی نہیں کرسکتا۔ گرفتار ہونے والوں میں عثمان صارم کے دو دوست بھی تھے جو لڑکیوں کو رہا کرانے کے لیے ان کے ساتھ تھے۔ انہیں درندوں کی طرح اذیتیں دی جارہی تھیں۔ صلیبی بربریت کی حدوں سے بھی آگے نکل گئے تھے مگر انہیں کوئی سراغ نہیں مل رہا تھا۔ صرف یہ دو کم عمر لڑکے تھے جن کے سینوں میں سراغ تھا لیکن ان کی زبانیں بند تھیں۔ ان کے جسموں میں کچھ نہیں تھا۔ چکر شکنجے میں کس کس کر اور جھٹکے دے دے کر ان کے جوڑ الگ کردئیے گئے تھے لیکن لڑکے خاموش تھے۔

آخر ہرمن خود قید خانے میں گیا، اس کی توجہ بھی ان دو لڑکوں پر تھی۔ اسے مسلمان مخبروں نے بتایا تھا کہ آتش زنی میں ان دو لڑکوں کا بھی ہاتھ ہے۔ مخبر دو مسلمان تھے، دونوں ان لڑکوں کے پڑوسی تھے۔ وہ معمولی سی حیثیت کے آدمی ہوا کرتے تھے لیکن اب گھوڑا گاڑیوں میں سواری کرتے تھے اور صلیبیوں کے درباری بن گئے تھے۔ وہ صلیبی حاکموں کو گھروں میں بھی مدعو کرتے تھے اور اپنی بیٹیوں کے ساتھ بٹھاتے اور فخر کرتے تھے۔ ان کی دو دو تین تین بیویاں تھیں اور وہ شراب بھی پیتے تھے۔ انہوں نے ان دو لڑکوں کو آتش زنی کی رات کہیں مشکوک حالت میں دیکھا تھا اور انہیں گرفتار کرادیا۔ ہرمن نے قید خانے میں ان دونوں نوجوانوں کی حالت دیکھی تو اس نے محسوس کیا کہ نزع کی حالت میں پہنچ کر بھی انہوں نے کچھ نہیں بتایا تو یہ کچھ بھی نہیں بتائیں گے۔ ان کے جسم عادی ہوچکے ہیں۔ وہ انہیں اپنے ساتھ لے گیا۔ انہیں بڑا اچھا کھانا کھلایا، پیار شفقت سے پیش آیا۔ ڈاکٹروں کو بلا کر انہیں دوائی پلائی اور تشدد کے زخموں اور چوٹوں کا علاج کرایا۔ پھر انہیں سلا دیا۔ وہ فوراً ہی گہری نیند سوگئے۔

ہرمن دونوں کے درمیان بیٹھ گیا۔ کچھ دیر بعد ان میں سے ایک نوجوان صاف الفاظ میں بڑبڑانے لگا۔ ''میں کیا جانوں؟ میرا جسم کاٹ دو، مجھے کچھ بھی معلوم نہیں اگر کچھ معلوم ہوگا تو کبھی نہیں بتائوں گا، تم گردن کے ساتھ صلیب باندھتے ہو میں نے قرآن کی ایک آیت باندھی ہوئی ہے''۔

''تم نے آگ لگائی تھی''… ہرمن نے کہا… ''تم نے صلیبیوں کی کمر توڑ دی ہے، تم بہادر ہو، مرگئے تو شہید کہلائو گے''۔

''اگر مرگیا تو''… نوجوان بڑبڑایا… ''اگر مرگیا تو، جب تک جسم میں جان ہے، اس جان میں ایمان بھی رہے گا، جان نکل جائے گی، ایمان نہیں نکلے گا''۔

ہرمن نے اس کے سوئے ہوئے ذہن میں اپنے مطلب کی باتیں ڈالنے کی بہت کوشش کی لیکن نوجوان کے ذہن نے قبول نہ کیں۔ اتنے میں دوسرا لڑکا بھی بڑبڑانے لگا۔ ہرمن نے اس کی طرف توجہ دی۔ اسی طرح اس کے ذہن میں بھی باتیں ڈالیں جو اس نوجوان نے اگل دیں۔ ہرمن کے ساتھ اس کے تین چار سراغ رساں بھی تھے۔ اس نے بہت دیر کی کوشش کے بعد آہ بھری اور کہا … ''مزید کوشش بے کار ہے، ان کی زبان سے تم کوئی راز نہیں اگلوا سکو گے۔ یہ بے گناہ معلوم ہوتے تھے مگر میں تمہیں یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ یہ اپنے عقیدے اور جذبے کے پکے ہیں۔ میں نے انہیں مرغن کھانوں میں اتنی زیادہ حشیش کھلائی ہے جتنی گھوڑے کو کھلا دو تو وہ بھی باتیں کرنے لگے مگر ان پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا قومی جذبہ جسے یہ لوگ ایمان کہتے ہیں ان کی روحوں میں اترا ہوا ہے۔ تم ان کی روحوں پر کوئی نشہ طاری نہیں کرسکتے۔ دوسری صورت یہی ہے کہ یہ بے گناہ ہوں گے''۔

وہ بے گناہ نہیں تھے، وہ آتش زنی اور لڑکیوں کو آزاد کرانے کی مہم میں شریک تھے۔ صلیبی جسے گناہ اور جرم کہہ رہے تھے وہ مسلمان کے لیے عظیم نیکی اور جہاد تھا جو ان لڑکوں نے روح اور ایمان کی قوت سے کیا تھا۔ حشیش نے انہیں بے ہوش کردیا تھا۔ ان کی عقل کو سلا دیا تھا مگر ان کی روحیں بیدار تھیں۔ صلیبی ان کی زبان سے ہلکا سا اشارہ بھی نہ لے سکے۔ انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ یہ لڑکے بے قصور ہیں۔ یہ صلیبیوں کی مجبوری تھی … ان لڑکوں کی آنکھ کھلی تو باہر ویرانے میں پڑے تھے۔ صلیبیوں نے انہیں بے ہوشی کی حالت میں دور لے جاکر پھینک دیا۔ وہ اٹھے، ایک دوسرے کو دیکھا اور گھروں کو چل دیئے۔

جو عیسائی اور یہودی باشندے آتش زنی کی رات شہر سے نکل گئے تھے، وہ یہ دیکھ کر کہ کوئی حملہ نہیں ہوا اور امن وامان ہے تو واپس آنے لگے۔ صلیبیوں کی فوج جو باہر خیمہ زن تھی، اس نے بھی انہیں یقین دلایا کہ کوئی حملہ نہیں ہوا۔ وہ چلے جائیں۔ چنانچہ ایک حکم کے تحت شہر کے دو دروازے ان لوگوں کے لیے کھلے رکھے گئے جو واپس آرہے تھے۔ لوگ کنبہ در کنبہ داخل ہوگئے۔ کرک کے لوگوں نے دیکھا کہ وہ چپ چاپ اور غریب سا موچی جو دنیا کے ہنگاموں سے بے خبر راستے میں بیٹھا جوتے مرمت کیا کرتا تھا، تین دنوں کی غیرحاضری کے بعد پھر راستے میں آبیٹھا ہے۔ اس نے رات ہی رات پندرہ چھاپہ ماروں کو عثمان صارم اور اس کے نوجوان ساتھیوں کی مدد سے مسلمان گھرانوں میں چھپا دیا تھا۔ ان میں اب کوئی کسی دکان میں ملازم تھا، کوئی صلیبیوں کے اصطبل کا سائیس بن گیا تھا، کوئی مذہب کے طالب علم کے روپ میں مسجد میں جھاڑو دیتا تھا۔

انہیں اب یہ دیکھنا تھا کہ سلطان ایوبی کے حملے کی صورت میں وہ اندر سے کیا کرسکتے ہیں۔ کرنے والا کام صرف یہ تھا کہ کہیں سے قلعے کی دیوار میں اتنا بڑا شگاف پیدا کریں کہ اس میں سے گھوڑے بھی اندر آسکیں یا قلعے کا کوئی دروازہ کھول سکیں۔ وہ انہی کاموں کے لیے زمین ہموار کررہے تھے۔ عثمان صارم نے اپنی نوجوان جماعت میں اضافہ کرلیا تھا۔ لڑکیاں بھی تیار ہوگئی تھیں مگر رینی الیگزینڈر سائے کی طرح عثمان کے ساتھ لگی ہوئی تھی۔ اسے راستے میں روک لیتی تھی، اس کے گھر چلی جاتی تھی اور ایک روز اس نے عثمان صارم سے پوچھا… ''عثمان! النور کہاں ہے؟''

''تمہاری قوم کے کسی گناہ گار کے پاس''… عثمان صارم نے جل کر جواب دیا… ''اس پر اللہ کی لعنت''۔

''رحمت کہو عثمان!''… رینی نے کہا… ''تم ہمارے خلاف لڑ کر مرنے والوں کو شہید کہا کرتے ہو۔ النور شہید ہوگئی ہے''۔

''عثمان صارم چکرا گیا، اسے کوئی جوا ب نہ بن پڑا''۔

''اور ان دو لڑکیوں کوا ٹھانے والوں میں تم بھی تھے''۔ رینی نے کہا… ''لیکن تم ابھی تک گرفتار نہیں ہوئے۔ میں نے کہا تھا کہ تمہاری قید اور آزادی کے درمیان میرا وجود حائل ہے… کہو اور کتنی قربانی مانگتے ہو''۔

عثمان صارم آخر نوجوان تھا، جسم میں جتنا جوش اور جذبہ تھا، اتنی عقل نہیں تھی۔ وہ دانشمند نہیں تھا۔ رینی کی باتوں نے اسے پریشان کردیا۔ اس نے جھنجھلا کر پوچھا… ''رینی! تم کیا چاہتی ہو؟''

''ایک یہ کہ میری محبت قبول کرلو''… رینی نے جواب دیا… ''دوسرا یہ کہ ان زمین دوز حرکتوں سے باز آجائو''۔

''تم اپنی قوم اور اپنی حکومت سے محبت کرتی ہو''۔ عثمان صارم نے کہا… ''اگر تمہارے دل میں میری محبت اتنی ہی شدید ہے تو میری قوم سے ہمدردی کیوں نہیں کرتی؟''

''مجھے نہ اپنی قوم سے محبت ہے نہ تمہاری قوم سے''۔ رینی نے کہا… ''میں تمہیں خطرناک کارروائیوں سے صرف اس لیے روک رہی ہوں کہ تم مارے جائو گے۔ حاصل کچھ بھی نہ ہوگا۔ میں جذباتی نہیں، حقیقت کی بات کررہی ہوں کہ سلطان ایوبی کرک فتح نہیں کرسکے گا۔ اپنے باپ کی بتائی ہوئی باتوں کے مطابق بات کررہی ہوں۔ جنگ محاصرے کی نہیں ہوگی، باہر کرک سے دور ہوگی۔ ہمارے کمانڈر سلطان ایوبی کی چالیں سمجھ گئے ہیں۔ شوبک کی شکست سے انہوں نے سبق حاصل کرلیا ہے۔ اب کرک کے محاصرے کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔ اگر تم لوگوں نے شہر کے اندر سے کوئی کارروائی کی تو اس کا ن تیجہ یہی ہوگا کہ مارے جائو گے یا گرفتار ہوکر باقی عمر ناقابل برداشت اذیتوں میں گزارو گے۔ میں تمہیں صرف زندہ اور سلامت دیکھنا چاہتی ہوں''۔

عثمان صارم سرجھکائے ہوئے وہاں سے چل پڑا۔ اسے رینی کی آواز سنائی دی… ''سوچوعثمان! سوچو۔ میری باتیں ایک غیرقوم کی لڑکی کی باتیں سمجھ کر ذہن سے اتار نہ دینا''۔

٭ ٭ ٭
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: داستان ایمان فروشوں کی جلد‎ ‎دوم

Post by ایکسٹو »

''میں آپ سب کو ایک بار پھر بتا دیتا ہوں کہ یہ کرک ہے شوبک نہیں''۔ سلطان ایوبی نے اپنے کمانڈروں کو آخری ہدایات دیتے ہوئے کہا… ''صلیبی چوکنے اور بیدار ہیں، میری جاسوسی مجھے بتا رہی ہے کہ ہمیں ایک جنگ کرک سے باہر لڑنی پڑے گی۔ شہر کے اندر سے مسلمانوں نے کوئی زمین دوز کارروائی کی تو شاید وہ ہمارے کام نہیں آسکے گی۔ اس کا نتیجہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ بے چارے مارے جائیں۔ میں انہیں اتنے بڑے امتحان میں نہیں ڈالنا چاہتا۔ انہیں بچانے کی ایک ہی صورت ہے کہ حملہ تیز اور بہت سخت کرو''… ایسے ہی چند اور ضروری احکامات کے بعد سلطان ایوبی نے اس فوج کو کوچ کا حکم دے دیا جسے کرک کا محاصرہ کرنا تھا۔

کوچ سورج غروب ہونے کے بعد کیا گیا، فاصلہ زیادہ نہیں تھا۔ صبح طلوع ہونے تک فوج کرک کے مضافات میں پہنچ گئی جہاں سے محاصرے کی ترتیب میں آگے بڑھی۔ اس فوج کے سالار کے لیے یہ ایک عجوبہ تھا کہ راستے میں اسے صلیبیوں کا کوئی ایک دستہ بھی نظر نہ آیا۔ اسے بتایا گیا تھا کہ صلیبیوں نے باہر بھی فوج خیمہ زن کررکھی ہے۔ اسے ایسے راستے سے بھیجا گیا تھا جس طرف صلیبیوں کی فوج نہیں تھی۔ پھر بھی مزاحمت ضروری تھی جو بالکل ہی نہ ہوئی۔ مسلمانوں کی اس فوج نے قلعے کا محاصرہ کرلیا۔ قلعے کی دیواروں سے تیروں کی بارش برسنے لگی۔ سلطان ایوبی کی فوج نے اس کے جواب میں کوئی شدید کارروائی نہ کی۔ اس کے کمان دار ادھر ادھر سے دیواروں پر چڑھنے یا نقب لگانے یا کسی دروازے کو توڑ کر اندر جانے کے امکانات دیکھتے پھر رہے تھے۔ انہوں نے تیر اندازوں کو بھی خاموش رکھا۔ ان کے ساتھ وہ جاسوس تھے جو شہر سے واقف تھے۔ وہ انہیں بتا رہے تھے کہ اندر کون سی اہم جگہ کہاں ہے۔

شہر کے اندر ابھی کسی کو خبر نہیں ملی تھی کہ سلطان ایوبی کی فوج نے قلعے کا محاصرہ کرلیا ہے لیکن یہ محاصرہ ابھی مکمل نہیں تھا۔ عقب ابھی خالی تھا جہاں دو دروازے تھے۔ اچانک قلعے کے اندر فوجی علاقے میں آگ برسنے لگی۔ یہ آتش گیر مادے والی ہانڈیاں تھیں جو سلطان ایوبی کی ایجاد تھی۔ یہ منجنیقوں سے اندر پھینکی جارہی تھیں۔ شہر کے لوگوں نے دیکھا کہ ان کی فوج قلعے کی دیوار پر چڑھ گئی اور باہر کو تیر پہ تیر چلا رہی تھی۔ شہر میں خوف وہراس پھیل گیا۔ عیسائی اور یہودی باشندے گھروں میں دبک گئے۔ مسلمان باشندے دعائوں میں مصروف ہوگئے۔ وہ سلطان ایوبی کی فتح کی دعائیں مانگ رہے تھے۔ کچھ مسلمان ایسے تھے جو دعائوں کے ساتھ بڑی خطرناک سرگرمیوں میں مصروف تھے۔ یہ وہاں کے نوجوان تھے جن میں لڑکیاں بھی تھیں اور ان میں سلطان ایوبی کے پندرہ چھاپہ مار بھی تھے۔ شہر کی افراتفری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ کہیں اکٹھے ہوگئے اور قلعے کے بڑے دروازے کو اندر سے کھولنے یا توڑنے کے لیے تیار ہوگئے۔

دروازہ بہت مضبوط اور موٹی لکڑی کا تھا جس پر لوہے کی موٹی موٹی پتریاں بھی مڑی ہوئی تھیں۔ اسے توڑنا آسان نہیں تھا، باہر سے مسلمان فوج نے دروازے پر منجنیقوں سے ہانڈیاں پھینکیں، یہ دوسری قسم کی تھیں۔ یہ ٹوٹتی تھیں تو ان میں سے سیال مادہ بکھر جاتا تھا۔ اس پر فلیتے والے آتشیں تیر چلائے جاتے تو سیال مادہ کو آگ لگ جاتی تھی۔ اس طریقے سے دروازے کو آگ لگائی گئی لیکن لوہے نے لکڑی کو نہ جلنے دیا۔ دروازہ بہت ہی مضبوط تھا۔ اوپر سے صلیبیوں نے وہ تیر برسانے شروع کردیئے جو بہت دور تک جاتے تھے۔ یہ منجنیقوں تک پہنچ گئے جن سے کئی آدمی زخمی اور شہید ہوگئے۔ اس خطرے سے بچنے کے لیے منجنیقیں پیچھے کرلی گئیں اور آگ پھینکنے کا طریقہ ناکام ہوگیا۔

آخر مسلمان تیر اندازوں کو حکم دیا گیا کہ قلعے کی دیواروں پر جو دشمن کے سپاہی ہیں ان پر تیر برسائیں۔ سارا دن دونوں طرف سے تیر اندازی ہوتی رہی۔ ہوا میں صرف تیر اڑتے نظر آتے تھے۔ صلیبی دفاعی پوزیشنوں میں تھے اور دیواروں کی بلندی پر بھی تھے، اس لیے زیادہ نقصان مسلمان فوج کا ہورہا تھا۔ مسلمانوں کے نقب زن جو قلعوں کی دیواریں توڑنے کے ماہر تھے، ہر طرف گھوم پھر کر دیکھ رہے تھے کہ دیوار میں کہاں شگاف ڈالا جاسکتا ہے۔ وہاں چاروں طرف سے اتنے تیر آرہے تھے کہ دیوار کے قریب جانا خودکشی کے برابر تھا۔ شام سے کچھ دیر پہلے نقب زنوں کی آٹھ آدمیوں کی ایک جماعت آگے بڑھی۔ یہ جانباز جب دیوار سے تھوڑی دور رہ گئے تو اوپر سے ان پر اس قدر تیر برسے اور تیروں کے ساتھ اتنی زیادہ برچھیاں آئیں کہ آٹھوں جانباز وہیں شہید ہوگئے۔ ایک ایک کے جسم میں کئی کئی تیر اور برچھیاں لگیں۔

رات کا پہلا پہر تھا، رینی اپنے گھر میں تھی۔ اس کا باپ تھکا ہوا آیا تھا۔ یہ کہہ کر سوگیا کہ جلدی جاگ اٹھے گا کیونکہ رات کو بھی اسے کام پر جانا ہے۔ اس نے کہا تھا کہ شہر کے مسلمانوں کے متعلق اطلاع ملی ہے کہ وہ اندر سے کوئی بڑی خطرناک کارروائی کرنے والے ہیں۔ ہمیں ہر ایک مسلمان گھرانے پر نظر رکھنی پڑے گی۔ یہ کہہ کر وہ سو گیا تھا۔ دروازے پر دستک ہوئی تو کسی ملازم کے بجائے رینی نے دروازہ کھولا۔ باہر ایک مسلمان کھڑا تھا جو بڑی اونچی حیثیت کا مالک تھا۔ صلیبیوں کی طرف سے اسے خوب انعام واکرام ملتا تھا۔ رینی نے اسے بتایا کہ اس کاباپ سویا ہوا ہے، وہ پیغام دے دے۔ تھوڑی دیر بعد وہ جاگے گا تو اسے بتا دیا جائے گا۔ مسلمان نے کہا کہ وہ خود بات کرنا چاہتا ہے۔ بات بہت اہم اور نازک ہے۔

''آج رات مسلمان کے بہت سے لڑکے اور لڑکیاں اندر سے قلعے کی دیوار توڑ دیں گے''… رینی کے پوچھنے پر اس نے مختصراً بتایا اس نے کہا… ''میں نے ان کا ہمدرد اور ساتھی بن کر یہ راز حاصل کیا ہے۔ مجھے یہ بھی پتا ہے کہ ان میں باہر سے آئے ہوئے چھاپہ مار بھی ہیں اور نیاک انکشاف یہ ہے کہ وہ غریب موچی جو راستے میں بیٹھا رہتا ہے وہ سلطان ایوبی کا بھیجا ہوا جاسوس ہے اور اس کا نام برجیس ہے… میں تمہارے والد کو یہ خبر دینا چاہتا ہوں تاکہ ان لوگوں کو پھانسنے کے لیے گھات لگائی جائے''۔

رینی نے چند ایک مسلمان نوجوانوں کے نام لے کر عثمان صارم کا بھی نام لیاا ور پوچھا… ''کیا یہ لڑکے بھی اس مہم میں شامل ہیں؟''

''صارم کا بیٹا عثمان تو اس گروہ کا سرغنہ ہے''… مسلمان مخبر نے بتایا… ''اور ان کا سب سے بڑا سرغنہ امام رازی ہے''۔

''آپ تھوڑی دیر تک آجائیں''… رینی نے اسے کہا… ''باپ کو ذرا سی دیر سونے دیں''۔

مگر وہ جانا نہیں چاہتا تھا۔ صلیبیوں کو خوش کرنے اور ان سے انعام وصول کرنیکا اسے نہایت موزوں موقع مل گیا تھا۔ اس کے متعلق مسلمانوں کو معلوم نہیں تھا کہ قرآن کے بجائے صلیب کا وفادار ہے۔ اسی روز مسلمان نوجوانوں اور چھاپہ ماروں نے دیوار توڑنے کی سکیم بنائی تھی۔ اس خفیہ اجتماع میں تین چار بزرگ، امام اور یہ مسلمان بھی تھا جس نے لڑکوں کو اچھے مشورے دیئے اور سب سے زیادہ جذبے کا اظہار کیا تھا۔ مسلمانوں کو شک تک نہ ہوا کہ وہ صلیبیوں کا پالا ہوا سانپ ہے، سبھی اسے شہر کا امیر اور معزز تاجر سمجھتے تھے جس کے حسن سلوک کی بدولت صلیبی بھی اس کی عزت کرتے تھے۔

وہ واپس نہیں جانا چاہتا تھا۔ رینی گہری سوچ میں کھوگئی۔ اس نے اسے اندر بٹھانے کے بجائے یہ کہا کہ وہ اسے پوری بات سنائے اور یہ بھی کہا کہ آئو ذرا باہر ٹہل لیتے ہیں، اتنی دیر میں باپ جاگ اٹھے گا۔ وہ تو صلیبیوں کا غلام تھا۔ اتنے بڑے افسر کی بیٹی کے ساتھ خراماں خراماں چل پڑا۔ چلتے چلتے وہ کنویں تک پہنچ گئے۔ یہ کنواں شہریوں کے لیے کھودا گیا تھا۔ بہت ہی دور سے پانی نکلا تھا۔ رینی کنویں کے منہ پر رک گئی۔ مسلمان مخبر اسے بات سنا رہا تھا وہ بھی کنویں کے قریب کھڑا تھا۔ رینی نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھے اور پوری طاقت سے دھکا دیا۔ مسلمان پیچھے کو گرا اور سیدھا کنویں میں گیا۔ اس کی چیخ سنائی دی جو ''دھڑام''کی آواز میں ختم ہوگئی۔

رینی اس مسرت کے ساتھ گھر آگئی کہ اس نے ایک ایسا راز کنویں میں ڈبو دیا ہے جو عثمان صارم کی یقینی موت کا باعث بن سکتا تھا۔

٭ ٭ ٭

وہاں سے وہ ڈرتی ہوئی عثمان صارم کے گھر گئی۔ ا س کی ماں کے پاس بیٹھی، النور کی باتیں کرتی رہی۔ اس نے عثمان کے متعلق پوچھا تو اس کی ماں نے بتایا کہ وہ شام کے بعد ہی گھر سے نکل گیا تھا۔ رینی کو خیال آگیا کہ وہ دیوار توڑنے کی مہم پر چلا گیا ہوگا۔ وہ اسے روکنا چاہتی تھی۔ اسے ڈر یہ تھا کہ ان کیااجتماع میں کوئی اور مخبر بھی ہوگا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی اور نے فوج کو اطلاع دے دی ہو۔ وہ باہر نکل گئی اور اس طرف چل پڑی جس طرف سے ان لوگوں نے دیوار توڑنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ اس مسلمان نے جیسے اس نے کنویں میں پھینک دیا تھا، بتا دیا تھا کہ چھاپہ مار دیوار کے اوپر جاکر صلیبی تیر اندازوں کو ایسے طریقے سے ختم کریں گے کہ کسی کو پتا نہ چل سکے۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں نیچے سے دیوار کھودیں گے۔ اس کی کھدائی مشکل نہیں، وقت طلب تھی۔ اس پارٹی نے بوقت ضرورت لڑائی کا انتظام بھی کررکھا تھا۔ ان کے پاس خنجر اور برچھیاں بھی تھیں۔ یہ ایک غیرمعمولی طور پر دلیرانہ مہم تھی جس کی ناکامی کے امکانات زیادہ تھے۔ انہوں نے جگہ ایسی منتخب کی تھی جہاں پکڑے جانے کا امکان ذرا کم تھا۔

یہ گروہ مقررہ جگہ کی طرف روانہ ہوگیا۔ رینی اس طرف دوڑی جارہی تھی، وہ عثمان صارم کو روکنا چاہتی تھی۔ اسے شاید علم ہوگیا تھا کہ یہ لوگ پکڑے جائیں گے اور عثمان صارم مارا جائے گا۔ ان جانبازوں کا جانے کا طریقہ اور راستہ کچھ اور تھا۔ رینی پہلے وہاں پہنچ گئی جہاں سے دیوار توڑنی تھی۔ وہاں ابھی کوئی نہیں پہنچا تھا۔ اس نے اندھیرے میں ادھر ادھر دیکھا۔ اچانک پیچھے سے اسے کسی نے پکڑ لیا اور گھسیٹ کر پرے لے گیا۔ یہ ایک فوجی تھا۔ پرے لے جا کر فوجی نے اس سے پوچھا کہ وہ کون ہے۔ اس نے باپ کا نام لیا، اسے کہا گیا کہ وہ وہاں سے چلی جائے مگر وہ وہاں سے نہیں ہٹنا چاہتی تھی۔ وہاں دراصل فوج کا ایک پورا دستہ چھپا ہوا تھا۔ اس کے کمانڈر نے رینی کو بتایا کہ مسلمانوں کا ایک گروہ یہاں نقب لگانے آرہا ہے اور اسے پکڑنے کے لیے گھات لگائی گئی ہے… یہ اطلاع ایک اور مسلمان مخبر نے فوج کو دی تھی۔

رینی انہیں یہ نہیں کہہ سکتی تھی کہ وہ گھات سے اٹھ جائیں، وہ تو صرف عثمان صارم کو بچانا چاہتی تھی۔ اس مسلمان نوجوان کی محبت نے اس کی عقل پر پردہ ڈال دیا تھا۔ اتنے میں ایک فوجی نے کہا… ''اطلاع غلط نہیں تھی، وہ آرہے ہیں''… رینی تڑپ اٹھی۔ اس نے چلا کر کہا… ''عثمان! واپس چلے جائو''… دستے کے کمانڈر نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور کہا …''یہ بدبخت جاسوس معلوم ہوتی ہے، اسے گرفتار کرلو''… لیکن گرفتاری کی انہیں مہلت نہ ملی کیونکہ کچھ دور سے شورشرابہ سنائی دینے لگا تھا۔

جانبازوں کی یہ پارٹی سیدھی گھات میں آگئی تھی۔ صلیبیوں کے دستے کی تعداد زیادہ تھی۔ پیشتر اس کے کہ جانباز سنبھلتے، وہ گھیرے میں آچکے تھے۔ مشعلیں جل اٹھیں جن کی روشنی میں جانباز صاف نظر آنے لگے۔ ان کے پاس کھدائی کا سامان، برچھیاں اور خنجر تھے۔ بھاگ نکلنے کی کوئی صورت نہیں تھی۔ ان میں گیارہ لڑکیاں تھیں، صلیبی کمانڈر نے بلندآواز سے کہا… ''لڑکیوں کو زندہ پکڑو''… چھاپہ ماروں میں سے کسی نے کہا… ''مجاہدو! بھاگنا نہیں۔ ایک ایک لڑکی کو ساتھ رکھو''۔

اور جو معرکہ لڑا گیا، وہ بڑا ہی خون ریز تھا۔ چھاپہ مار تو تربیت یافتہ لڑاکے تھے، خوب لڑے لیکن لڑکوں اور لڑکیوں نے صلیبیوں کو حیران کردیا۔ لڑکیاں ڈرنے کے بجائے نوجوانوں کو للکار رہی تھیں۔ انہیں زندہ پکڑنے کی کوشش میں متعدد صلیبی ان کے خنجروں کا شکار ہوگئے مگر صلیبی تعداد میں زیادہ تھے چونکہ یہ معرکہ قلعے میں لڑا جارہا تھا اس لیے صلیبی فوج کے دو دستے اور آگئے۔ اس معرکے میں ایک نسوانی آواز باربار سنائی دیتی تھی… ''عثمان نکل جائو… عثمان! تم نکل جائو''… یہ رینی کی آوازتھی۔ اس وقت تک عثمان لڑ رہا تھا۔ اس کے سامنے ایک صلیبی آیا، عثمان کے پاس خنجر تھا اور صلیبی کے پاس تلوار اچانک اس صلیبی کی پیٹھ میں ایک خنجر داخل ہوگیا۔ یہ رینی کا خنجر تھا۔ ایک اور صلیبی نے اسے للکارا، اس نے مرے ہوئے صلیبی کی تلوار اٹھا لی اور مقابلے پر اتر آئی۔

عثمان صارم اس کی مدد کے لیے آگے بڑھا لیکن کسی صلیبی کی تلوار نے اسے شہید کردیا۔ کچھ دیر بعد جانبازوں میں صرف دو لڑکیاں زندہ رہیں۔ وہ اکٹھی تھیں اور بہت سے صلیبیوں کے گھیرے میں آگئیں۔ گھیرا تنگ ہورہا تھا۔ انہیں کہا گیا کہ وہ خنجر پھینک دیں، دونوں نے ایک دوسری کی طرف دیکھا۔ دونوں نے بیک وقت اپنا اپنا خنجر اپنے اپنے دل پر رکھا اور دوسرے لمحے انہوں نے خنجر اپنے دلوں میں اتار دیئے۔ رینی کو زخمی کرکے پکڑ لیا گیا تھا۔ اس نے بعد میں پاگل پن کی کیفیت میں بیان دیا کہ وہ اس سکیم کو ناکام کرکے عثمان صارم کو بچانا چاہتی تھی۔

قلعے کی دیوار توڑنے کی امید ختم ہوگئی۔ شہر کے اندر مسلمانوں کی تخریب کاری بھی ختم ہوگئی۔ مسلمانوں کی قیادت کرنے والے جانباز شہید ہوچکے تھے۔ برجیس بھی شہید ہوچکا تھا لیکن سلطان ایوبی کی امیدیں صرف ان سرفروشوں کے ساتھ وابستہ نہیں تھیں۔ وہ قلعے سر کرنا جانتا تھا۔ ابھی تو محاصرے کا دوسرا دن تھا مگر اب کے صلیبیوں نے بھی قسم کھالی تھی کہ وہ کرک کا قلعہ سلطان ایوبی کو نہیں دیں گے۔

رینی الیگزینڈر‎ ‎کا آخری معرکہ بهی ختم ہوا۔
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

میرے فلسطین میں آوں گا

Post by ایکسٹو »

میرے فلسطین میں آوں گا

صلاح الدین ایوبی نے صلیبیوں کے غیر معمولی طور پر مستحکم مستقر کرک پر ایسی بے خبری میں حملہ کیا تھا کہ صلیبیوں کو اس وقت خبر ہوئی جب سلطان ایوبی کی فوج کرک کو محاصرے میں لے چکی تھی لیکن محاصرہ مکمل نہیں تھا۔ یہ سہ طرفہ محاصرہ تھا۔ جاسوسوں نے سلطان ایوبی کو یقین دلایا تھا کہ کرک شہر کے مسلمان باشندے ان چھاپہ ماروں کے ساتھ جنہیں سلطان ایوبی نے پہلے ہی شہر میں داخل کردیا تھا، اندر سے قلعے کی دیوار توڑ دیں گے۔ محاصرے کے چوتھے پانچویں روز اندر سے ایک جاسوس نے باہر آکر سلطان ایوبی کو یہ اطلاع دی کہ تمام چھاپہ مار اور چند ایک مسلمان شہری دیوار توڑنے کی کوشش میں شہید ہوگئے ہیں۔ ان میں مسلمان لڑکیاں بھی تھیں اور ان میں ایک عیسائی لڑکی بھی شامل ہوگئی تھی۔ سلطان ایوبی کو یہ بھی بتایا گیا کہ کسی ایمان فروش مسلمان نے اس جانباز جماعت میں شامل ہوکر دشمن کو اطلاع دے دی تھی جس کے نتیجے میں دشمن نے گھات لگائی اور ساری کی ساری جماعت کو شہید کردیا۔ یہ اطلاع بھی دی گئی کہ اب اندر سے دیوار توڑنے کی امیدیں ختم ہوچکی ہیں۔

امیدیں ختم ہونی ہی تھیں، صلیبیوں نے جب دیکھا کہ دیوار توڑنے والوں میں کرک کے مسلمان نوجوانوں اور لڑکیوں کی لاشیں تھیں تو انہوں نے مسلمانوں کی پکڑ دھکڑ اندھا دھند شروع کردی۔ لڑکیوں تک کو نہ بخشا۔ جوانوں کو بیگار کیمپ میں، بوڑھوں کو ان کے اپنے گھروں میں اور جوان لڑکیوں کو قلعے کی فوجی بارکوں میں قید کردیا۔ ان میں سے کچھ لڑکیوں نے خودکشی بھی کرلی تھی کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ کفار ان کے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔ صلاح الدین ایوبی کو بھی یہی غم کھانے لگا کہ کرک کے مسلمانوں کو یہ قربانی بہت مہنگی پڑے گی۔ اس نے جب ان جانبازوں کی خبر سنی تو اپنے نائبین سے کہا… ''یہ کارستانی صرف ایک ایمان فروش مسلمان کی ہے۔ اس ایک غدار نے اسلام کی اتنی بڑی فوج کو بے بس کردیا ہے۔ ایک وہ ہیں جنہوں نے اللہ کے نام پر جانیں قربان کردیں، ایک یہ مسلمان ہیں جنہوں نے اللہ کا ایمان کفار کے قدموں میں رکھ دیا ہے۔ یہ غدار اسلام کی تاریخ کا رخ پھیر رہے ہیں''… سلطان ایوبی غصے سے اٹھ کھڑا ہوا اور اپنی ران پر گھونسہ مار کر بولا… ''میں کرک کو بہت جلدی فتح کروں گا اور ان غداروں کو سزا دوں گا''۔

سلطان ایوبی کی انٹیلی جنس کا افسر زاہدان خیمے میں داخل ہوا، اس وقت سلطان ایوبی کہہ رہا تھا کہ … ''آج رات کو محاصرہ مکمل ہوجانا چاہیے۔ میں آپ کو ابھی بتاتا ہوں کہ کون سے دستے کرک کے پیچھے بھیجے جائیں''۔

''مداخلت کی معافی چاہتا ہوں امیر مصر!''… زاہدان نے کہا… ''اب شاید آپ محاصرہ مکمل نہیں کرسکیں گے۔ ہم نے کچھ وقت ضائع کردیا ہے''۔

''کیا تم کوئی نئی خبر لائے ہو؟''… سلطان صلاح الدین ایوبی نے اس سے پوچھا۔

''آپ نے جس کامیابی سے دشمن کو بے خبری میں آن لیا تھا، اس سے آپ پورا فائدہ نہیں اٹھا سکے''۔ زاہدان نے جواب دیا۔ وہ ایسے بے دھڑک انداز سے بول رہا تھا جیسے اپنے سے چھوٹے عہدے کے آدمی کو ہدایات دے رہا ہو۔ سلطان ایوبی نے اپنے تمام سینئر اور جونئیر کمانڈروں اور تمام شعبوں کے سربراہوں سے کہہ رکھا تھا کہ وہ اسے بادشاہ سمجھ کر فرشی سلام نہ کیا کریں، مشورے دلیری اور خوداعتمادی سے دیں اور نکتہ چینی کھل کر کیا کریں۔ زاہدان انہی ہدایات پر عمل کررہا تھا۔ اس کے علاوہ وہ انٹیلی جنس کا سربراہ تھا۔ اس کی حیثیت ایسی آنکھ کی سی تھی جو اندھیروں میں بھی دیکھ لیتی تھی اور وہ ایسا کان تھا جو اپنے جاسوسوں کے ذریعے سینکڑوں میل دور دشمن کی سرگوشیاں بھی سن لیا کرتا تھا۔ سلطان ایوبی کو اس کی اہمیت کا احساس تھا۔ وہ جانتا تھا کہ کامیاب جاسوسی کے بغیر جنگ نہیں جیتی جاسکتی۔ خصوصاً اس صورتحال میں جہاں صلیبیوں نے سلطنت اسلامی میں جاسوسوں اور تخریب کا جال بچھا رکھا تھا۔ سلطان ایوبی کو نہایت اعلیٰ اور غیرمعمولی طور پر ذہین اور تجربہ کار جاسوسوں کی ضرورت تھی۔ اس میدان میں وہ پوری طرح کامیاب تھا۔ اس کی انٹیلی جنس کے تین افسر علی بن سفیان اور اس کے دو نائب حسن بن عبداللہ اور زاہدان جانباز قسم کے سراغ رساں اور جاسوس تھے۔ انہوںنے اس محاذ پر صلیبیوں کے کئی وار بے کار کیے تھے۔

''آپ کو معلوم تھا کہ صلیبیوں نے جہاں کرک کا دفاع مضبوط کررکھا ہے وہاں بہت سی فوج کرک سے دور خیمہ زن کرکھی ہے''۔ زاہدان نے کہا… ''آپ کو یہ بھی بتا دیا گیا تھا کہ اس فوج کو باہر سے محاصرہ توڑنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ جاسوسوں کی اطلاع صاف بتا رہی تھیں کہ اب صلیبی قلعے سے باہر لڑیں گے پھر بھی آپ نے فوری طور پر محاصرہ مکمل نہیں کیا۔ اس سے دشمن نے فائدہ اٹھا لیا ہے''۔

''تو کیا انہوں نے حملہ کردیا ہے؟'' سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیتابی سے پوچھا۔

''آج شام تک ان کی فوج اس مقام پر آجائے گی جہاں ہماری کوئی فوج نہیں''۔ زاہدان نے جواب دیا… ''میرے جاسوس جو اطلاع لائے ہیں وہ یہ ہیں کہ صلیبی فوج گھوڑ سوار اور شتر سوار ہوگی۔پیادہ دستے بہت کم ہیں، وہ محاصرے کی جگہ پر آجائیں گے اور دائیں بائیں حملے کریں گے۔ اس کا نتیجہ اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ ہمارا محاصرہ ٹوٹ جائے گا۔ صلیبیوں کی تعداد بھی زیادہ بتائی جاتی ہے''۔

''میں تمہیں اور تمہارے جاسوسوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جو یہ اطلاع لائے ہیں''۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''میں جانتا ہوں یہ کام کتنا دشوار اور خطرناک ہے۔ میں تم سب کو یقین دلاتا ہوں کہ صلیبی ہمارے محاصرے کا جو خلا پر کرنے اور محاصرے توڑنے آرہے ہیں میں انہیں اسی خلا میں گم کردوں گا۔ مجھے اللہ کی مدد پر بھروسہ ہے اگر تم میں کوئی غدار نہیں تو اللہ تمہیں فتح عطا فرمائے گا''۔

''ابھی وقت ہے''۔ ایک نائب سالار نے کہا… ''اگر آپ حکم دیں تو ہم محفوظہ کے تین چار دستے صلیبیوں کے پہنچنے سے پہلے بھیج دیتے ہیں۔ محاصرے کا خلا پر ہوجائے گا اور صلیبیوں کا حملہ ناکام ہوجائے گا''۔

سلطان ایوبی کے چہرے پر پریشانی یا اضطراب کا ہلکا سا تاثر بھی نہیں تھا۔ اس نے زاہدان سے پوچھا… ''اگر تمہاری اطلاع بالکل صحیح ہے تو کیا تم بتا سکتے ہو کہ صلیبی فوج کس وقت حملے کے مقام پر پہنچے گی؟''

''ان کی پیش قدمی خاصی تیز ہے''۔ زاہدان نے جواب دیا… ''ان کے ساتھ خیمے اور رسد نہیں آرہی۔ پیچھے آرہی ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ راستے میں کوئی پڑائو نہیں کریں گے اگر وہ اسی رفتار پر آتے رہے تو رات گہری ہونے تک پہنچ جائیں گے''۔

''خدا کرے کہ وہ راستے میں نہ رکیں''۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''مگر وہ تھکے ہوئے اور بھوکے پیاسے گھوڑوں اور اونٹوں کے ساتھ حملہ نہیں کریں گے۔ حملے کے مقام پر آکر جانوروں کو آرام اور خوراک دیں گے۔ اس دوران وہ دیکھیں گے کہ ہم نے جو محاصرہ کررکھا ہے اس میں خلا ہے یا نہیں۔ صلیبی اتنے کوڑھ مغز نہیں کہ ایسی پیش بینی اور پیش بندی نہ کریں''… سلطان ایوبی نے اپنے عملے کے دو تین حکام کو بلایا اور انہیں نئی صورتحال سے آگاہ کرکے کہا… ''صلیبی ہمارے جال میں آرہے ہیں، قلعے کے عقب میں ہم نے محاصرے میں جو خلا چھوڑ دیا ہے اسے اور زیادہ کھلا کردو۔ دائیں اور بائیں کے دستوں سے کہہ دو کہ ان پر عقب سے حملہ آرہا ہے۔ اپنے پہلوئوں کو مضبوط کرلیں اور دشمن کو اپنے درمیان آنے دیں۔ کوئی تیرانداز حکم کے بغیر کمان سے تیر نہ نکالے''۔

اس قسم کے احکام کے بعد سلطان ایوبی نے پیادہ اور سوار تیراندازوںکے چند ایک دستوں کو جو اس نے ریزرو میں رکھے ہوئے تھے، سورج غروب ہوتے ہی ایسے مقام پر چلے جانے کو کہا جو صلیبیوں کے حملے کے ممکنہ مقام کے قریب تھا۔ وہ علاقہ میدانی نہیں تھا اور صحرا کی طرح ریتلا بھی نہیں تھا۔ وہ ٹیلوں، چٹانوں اور گھاٹیوں کا علاقہ تھا۔ سلطان ایوبی نے چھاپہ مار دستوں کے کمانڈر کو بھی بلا لیا تھا۔ اسے اس نے یہ کام سونپا کہ صلیبیوں کی فوج کے پیچھے فلاں راستے سے یہ رسد آرہی ہے جو رات کو راستے میں تباہ کرنی ہے۔ ایسے اور کئی ایک ضروری احکامات دے کر سلطان ایوبی خیمے سے نکلا، اپنے گھوڑے پر سوار ہوا۔ اپنے عملے کے ضروری افراد کو ساتھ لیا اور محاذ کی طرف روانہ ہوگیا۔

٭ ٭ ٭

صلاح الدین ایوبی خوش فہمیوں میں مبتلا ہونے والا انسان نہیں تھا۔ اس نے دور سے محاصرے کا جائزہ لیا اور اپنے عملے سے کہا… ''صلیبیوں سے یہ قلعہ لینا آسان نہیں۔ محاصرہ بڑے لمبے عرصے تک قائم رکھنا پڑے گا''۔ اس نے دیکھا کہ قلعے کی سامنے والی دیوار سے تیروں کا مینہ برس رہا ہے۔ قلعے کے دروازے تک پہنچانا ناممکن تھا… سلطان ایوبی کی فوج تیروں کی زد سے دور تھی۔ جوابی تیر اندازی کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ سلطان ایوبی قلعے کے پہلو کی طرف گیا وہاں اسے ایک ولولہ انگیز منظر نظر آیا۔ اس کا ایک دستہ حیران کن تیزی سے قلعے کی دیوار پر تیر برسا رہا تھا۔ چھ منجنیقیں آگ پھینک رہی تھیں۔ دیوار پر جہاں تیر اور آگ کے گولے جارہے تھے وہاں کوئی صلیبی نظر نہیں آرہا تھا۔ وہ دبک گئے تھے۔ سلطان ایوبی دور کھڑا دیکھتا رہا۔ اس کے تقریباً چالیس سپاہی ہاتھوں میں برچھیاں اورکدالیں اٹھائے دیوار کی طرف سرپٹ دوڑ پڑے اور دیوار تک پہنچ گئے۔ قلعے کی دیوار پتھروں اور مٹی کی تھی۔ انہوں نے دیوار توڑنی شروع کردی۔ اسی مقصد کے لیے اوپر تیر اور آگ کے گولے برسائے جارہے تھے کہ اوپر سے دشمن ان پر دیوار توڑتے وقت تیر نہ چلا سکے۔

سلطان ایوبی کے منہ سے بے اختیار نکلا… ''آفرین''… مگر اس کی آنکھیں ٹھہر گئیں۔ قلعے کی دیوار پر للکار سنائی دی۔ عین اس جگہ کے اوپر سے جہاں سلطان ایوبی کے جانبز دیوار توڑ رہے تھے۔ بہت سے صلیبیوں کے سر اور کندھے نظر آئے۔ پھر بڑے بڑے ڈول اور ڈرم نظر آئے۔ یہ الٹا دئیے گئے۔ ان میں جلتی ہوئی لکڑیاں اور انگارے نکلے جو ان مجاہدین پر گرے جو نیچے دیوار توڑ رہے تھے۔ مجاہدین نے آگے جاکر تیر برسانے شروع کردیئے جن میں متعدد صلیبی گھائل ہوگئے۔ دیوار کی کسی اور طرف سے تیر آئے جنہوں نے مجاہدین تیر اندازوں کو زخمی اور شہید کردیا پھر دونوں طرف سے اس قدر تیر برسنے لگے کہ ہوا میں اڑتے ہوئے تیروں کا جال تن گیا۔ جانباز دیوار توڑ رہے تھے۔ یہ کام آسان نہیں تھا کیونکہ دیوار بہت ہی چوڑی تھی۔ نیچے سے اس کی چوڑائی اوپر کی نسبت زیادہ تھی۔ ان جانبازوں پر اوپر سے تیر نہیں چلایا جاسکتا تھا مگر ان پر جلتی لکڑیاں اور دہتے انگارے پھینکے جارہے تھے۔ آگ کے ڈول اور ڈرم پھینکنے والوں میں بظاہر کوئی بھی مسلمان تیر اندازوں سے بچ کر نہیں جاتا تھا لیکن وہ تیر کھا کر گرنے سے پہلے آگ انڈیل دیتے تھے۔

نیچے یہ عالم تھا کہ آگ بھڑک رہی تھی اور دیوار توڑنے والے شعلوں اور انگروں میں بھی دیوار توڑ رہے تھے۔ تیروں کا تبادلہ ہورہا تھا۔ آخر دیوار توڑنے والے جھلس گئے اور ان میں سے چند ایک اس حالت میں پیچھے کو دوڑے کہ ان کے کپڑوں کو آگ لگی ہوئی تھی۔ وہ دیوار سے ہٹے ہی تھے کہ اوپر سے تیر آئے جو ان کی پیٹھوں میں اتر گئے۔ اس طرح ان میں سے کوئی زندہ واپس نہ آسکا۔ دس اور مجاہدین دیوار کی طرف دوڑے اور دشمن کے تیروں میں سے گزرتے ہوئے دیوار تک پہنچ گئے۔ انہوں نے بڑی پھرتی سے دیوار کے بہت سے پتھر نکال لیے۔ اوپر سے ان پر بھی آگ کے ڈرم اور ڈول انڈیل دیئے گئے۔ آگ پھینکنے والوں سے دو اتنا اوپر اٹھ گئے تھے کہ مجاہدین کے تیر سینوں میں کھا کر وہ پیچھے گرنے کے بجائے آگے کو گرے اور دیوار سے سیدھے نیچے اپنی ہی پھینکی ہوئی آگ میں جل گئے مگر دیوار توڑنے والوں میں سے بھی کوئی زندہ نہ بچا۔

سلطان ایوبی نے اپنے گھوڑے کو ایڑی لگائی اور اس دستے کے کمانڈر کے پاس جاکر کہا… ''تم پر اور تمہارے جانبازوں پر اللہ کی رحمت ہو۔ اسلام کی تاریخ ان سب کو ہمیشہ یاد رکھے گی جو اللہ کے نام پر جل گئے ہیں۔ اب یہ طریقہ چھوڑ دو، پیچھے ہٹ آئو۔ اتنی تیزی سے انسان اور تیر ختم نہ کرو۔ صلیبی اس قلعے کے لیے اتنی زیادہ قربانی دے رہے ہیں جس کا میں تصور بھی نہیں کرسکتا تھا''۔

''اور ہم بھی اتنی زیادہ قربانی دیں گے جس کا صلیبی تصور نہیں کرسکتے''۔ کمانڈر نے کہا… ''دیوار یہیں سے ٹوٹے گی اور ہم آپ کو یہیں سے اندر لے جائیں گے''۔

''اللہ تعالیٰ تمہاری آرزو پوری کرے''۔ صلاح الدین ایوبی نے کہا… ''اپنے مجاہدین کو بچا کر رکھو، صلیبی باہر سے حملہ کررہے ہیں، تمہیں شاید باہر لڑنا پڑے گا۔ محاصرہ مضبوط رکھو۔ ہم صلیبیوں کو اندر بھوکا ماریں گے''۔

اس دستے کو پیچھے ہٹا لیا گیا مگر کمانڈر نے سلطان ایوبی سے کہا… ''سالاراعظم کی اجازت ہو تو میں شہیدوں کی لاشیں اٹھوا لوں؟ اس مقصد کے لیے مجھے پھر یہی طریقہ اختیار کرنا پڑے گا''۔

''ہاں!'' سلطان ایوبی نے کہا… ''اٹھوا لو۔ کسی شہید کی لاش باہر نہ پڑی رہے''۔

سلطان ایوبی وہاں سے چلا گیا۔ اس جانباز دستے نے جس طرح اپنے ساتھیوں کی لاشیں اٹھائیں وہ ایک ولولہ انگیز منظر تھا۔ جتنی لاشیں اٹھانی تھیں، اتنے ہی مجاہدین شہید ہوگئے۔ سلطان ایوبی دور نکل گیا تھا۔ جنگ کے دوران وہ اپنا پرچم ساتھ نہیں رکھا کرتا تھا تاکہ دشمن کو معلوم نہ ہوسکے کہ وہ کہاں ہے۔ وہ اپنی فوج سے دور ہٹ گیا اور بہت دور جا کر وہ ٹیلوں، چٹانوں اور گھاٹیوں کے علاقے میں چلا گیا۔ وہ گھوڑے سے اترا اور ایک ٹیلے پر جاکر لیٹ گیا تاکہ اسے دشمن نہ دیکھ سکے۔ اسے قلعہ اور شہر کی دیوار نظر آرہی تھی اور کم وبیش ایک میل لمبا وہ علاقہ بھی نظر آرہا تھا جہاں ابھی اس کی فوج نہیں پہنچی تھی۔ اس نے ٹیلوں کے علاقے کا جائزہ لیا، ہر جگہ گھوما پھرا۔

اسی جائزے اور دیکھ بھال میں سورج غروب ہوگیا۔ وہ وہیں رہا۔ شام گہری ہوئی تو اسے اطلاع دی گئی کہ اس کے حکم کے مطابق پیادہ اور سوار تیراندازوں کے دستے آرہے ہیں۔ اس نے اپنے قاصد سے کہا کہ کمانڈروں کو بلایا جائے… جب کمانڈر اس کے پاس آئے تو چھاپہ مار دستے کا کمانڈر بھی ان کے ساتھ تھا۔ اسے سلطان ایوبی نے راستہ بتا کر اپنے ہدف پر چلے جانے کو کہا، پھر وہ دوسرے کمانڈروں کو ہدایات دینے لگا۔

٭ ٭ ٭
آدھی گزری تھی کہ دور سے گھوڑوں کی آوازیں اس طرح سنائی دینے لگیں جیسے سیلاب بند توڑ کر آرہا ہو۔ چاند پورا تھا، چاندنی شفاف تھی۔ صلیبیوں کے گھوڑ سوار ٹیلوں اور چٹانوں سے کچھ دور تک آگئے۔ ان کے پیچھے شتر سوار تھے۔ ان کی تعداد کے متعلق مورخوں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ غیر مسلم مورخوں نے تعداد تین ہزار سے کم بیان کی ہے۔ مسلمان مورخ پانچ سے آٹھ ہزار تک بتاتے ہیں۔ اس وقت کے وقائع نگاروں کی جو تحریریں دستیاب ہوسکی ہیں وہ کم سے کم تعداد دس ہزار اور زیادہ سے زیادہ بارہ ہزار بتاتے ہیں۔ ان کا کمانڈر ایک مشہور صلیبی حکمران ریمانڈ تھا۔ دو مورخوں نے کمانڈر کا نام رینالٹ لکھا ہے لیکن وہ ریمانڈ تھا۔ وہ اسی حملے کے لیے لمبے عرصے سے وہاں سے دور خیمہ زن تھا۔ اسے اب رات کو یہ صبح ہوتے ہی سلطان ایوبی کی اس فوج پر حملہ کرنا تھا جس نے کرک کو محاصرے میں لے رکھا تھا۔

صلیبی سوار گھوڑوں اور اونٹوں سے اترے، گھوڑوں کے ساتھ دانے کی تھیلیاں تھیں جو گھوڑوں کے آگے لٹکا دی گئیں۔ سواروں کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنے اپنے جانور کے ساتھ رہیں اور زیادہ دیر کے لیے سو نہ جائیں۔ جانوروں کے لیے چارہ اور پانی کے مشکیزے پیچھے آرہے تھے۔ صلیبیوں نے یہ سوچا تھا کہ مسلمانوں پر عقب سے اچانک حملہ کرکے گھوڑوں کو قلعے کے اندر سے پانی پلائیں گے۔ سلطان ایوبی کے دیدبان صلیبیوں کو بڑی اچھی طرح دیکھ رہے تھے اور گھبرا بھی رہے تھے کیونکہ صلیبیوں کی طاقت بہت زیادہ تھی۔ اتنی زیادہ طاقت سے وہ محاصرہ توڑ سکتے تھے۔

صحرا بھی دھنلی تھی، صلیبیوں کو سوار ہونے، برچھیاں اور تلواریں تیار رکھنے کا حکم ملا۔ یہ دراصل حملے کا حکم تھا۔ وہ ایک بڑی ہی لمبی صف کی صورت میں آگے بڑھے، جونہی اگلی صف نے ایڑی لگائی، عقب سے تیروں کی بوچھاڑیں آنے لگیں، جن سواروں کو تیر لگے، وہ گھوڑوں پر ہی اوندھے ہوگئے یا گر پڑے اور جن گھوڑوں کو تیر لگے وہ بے قابو ہوکر بھاگ اٹھے۔ اونٹ بھی چلے ہی تھے کہ ان میں بھگدڑ مچ گیا۔ صلیبی کمانڈر سمجھ نہ سکے کہ یہ ہوا کیا ہے اور ان کی ترتیب بکھرتی کیوں جارہی ہے۔ انہوں نے غصے کی حالت میں چلانا شروع کردیا۔ زخمی گھوڑوں اور اونٹوں نے جو واویلا بپا کیا اس نے ساری فوج پر دہشت طاری کردی۔ صبح کا اجالا صاف ہوا تو ریمانڈ کو معلوم ہوا کہ وہ سلطان ایوبی کے گھیرے میں آگیا ہے۔ اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ مسلمانوں کی تعداد کتنی ہے۔ وہ اسے بہت زیادہ سمجھ رہا تھا۔ ایسی صورتحال کے لیے وہ تیار نہیں تھا۔ اس نے حملہ رکوا دیا لیکن اس کے سواروں کی اگلی صف اس خلاکے قریب پہنچ چکی تھی جہاں اس پورے لشکر کو پہنچنا تھا۔

محاصرے والی فوج کو پہلے ہی خبردار کردیا گیا تھا۔ وہ اسے حملے کے استقبال کے لیے تیار تھی۔ اس کے مجاہدین نے گرد کے بادل زمین سے اٹھتے اور اپنی طرف آتے دیکھے تو وہ تیار ہوگئے۔ گرد قریب آئی تو اس میں سے گھوڑ سوار نمودار ہوئے۔ مجاہدین نے اپنے آپ کو حملہ روکنے کی ترتیب میں کرلیا۔ وہ دائیں اور بائیں تھے۔ جونہی گھوڑے ان کے درمیان آئے، مجاہدین پہلوئوں سے ان پر ٹوٹ پڑے۔ تب صلیبی سواروں کو احساس ہوا کہ وہ اپنے لشکر سے کٹ گئے ہیں اور ان کا لشکر اپنی جگہ سے چلا ہی نہیں۔ سلطان ایوبی اس معرکے کی کمان اور نگرانی خود کررہا تھا۔ صلیبی پیچھے کو مڑے تاکہ مقابلہ کریں لیکن سلطان ایوبی نے انہیں یہ چال چل کر بہت مایوس کیا کہ صلیبیوں کا کوئی دستہ سرپٹ رفتار سے کسی طرف حملہ کرتا تھا تو آگے مزاحمت نہیں ملتی تھی۔ البتہ پہلوئوں اور عقب سے اس پر تیر برستے تھے۔ صلیبی کمانڈروں نے اپنے لشکر کو چھوٹے چھوٹے دستوں میں تقسیم کردیا۔ سلطان ایوبی کے کمانڈروں نے اس کی ہدایت کے مطابق آمنے سامنے کے مقابلے کی نوبت ہی نہ آنے دی۔ صلیبیوں کے گھوڑے تھکے ہوئے تھے۔ بھوکے اور پیاسے بھی تھے۔ انہیں جنگ روکنی پڑی۔ وہ چارے اور پانی کے منتظر تھے۔ رسد کو صبح تک پہنچ جانا چاہیے تھا۔

دوپہر تک رسد نہ پہنچی۔ چند ایک سوار دوڑے گئے لیکن وہ مسلمان تیر اندازوں کا شکار ہوگئے۔ اگر وہ زندہ پیچھے چلے بھی جاتے تو انہیں رسد نہ ملتی۔ وہ رات کو ہی سلطان ایوبی کے چھاپہ مار دستے کی لپیٹ میں آگئی تھی۔ اس دستے نے بڑی کامیابی سے شب وخون مارا اور رسد تباہ کردی تھی۔ سلطان ایوبی نے اپنے محفوظہ میں سے مزید دستے بلا لیے اور ریمانڈ کے لشکر کو گھیرے میں لے لیا۔ اگر مسلمانوں کی تعداد صلیبیوں جتنی ہوتی تو وہ حملہ کرکے صلیبیوں کو ختم کردیتے۔ سلطان ایوبی اپنی نفری ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس نے اس لشکر کو لڑاتے لڑاتے ٹیلوں اور گھاٹیوں کے علاقے میں لے جا کر گھیرے میں لے لیا۔ اسے معلوم تھا کہ جوں جوں وقت گزرتا جائے گا صلیبی بے کار ہوتے جائیں گے مگر صلیبیوں کو بڑی کامیابی سے گھیر ے میں لے کر اسے خود بھی نقصان ہورہا تھا۔ اس نے جہاں صلیبیوں کی اتنی بڑی قوت کو باندھ لیا تھا وہاں اس کے اپنے بہت سے ریزور دستے بھی بندھ گئے تھے۔ انہیں اب وہ کسی اور طرف استعمال نہیں کرسکتا تھا۔

اس علاقے کے اندر پانی موجود تھا، جو جانوروں کو کچھ عرصے کے لیے زندہ رکھنے کے لیے کافی تھا۔ فوج کوزندہ رکھنے کے لیے زخمی گھوڑوں اور اونٹوں کا گوشت کافی تھا۔ سلطان ایوبی نے شہر کا محاصرہ مکمل کرنے کا حکم دے دیا۔ صلیبی چین سے نہیں بیٹھے۔ ہر روز کسی نہ کسی جگہ جھڑپ ہوتی تھی اور دن گزرتے جارہے تھے۔ سلطان ایوبی نے قلعے اور شہر کے گرد گھومنا شروع کردیا۔ کہیں سے بھی دیوار توڑنے کی صورت نظر نہیں آر ہی تھی۔

٭ ٭ ٭

محاصرے کا سولہواں سترھواں روز تھا، شام کے وقت سلطان ایوبی اپنے خیمے میں بیٹھا اپنے نائبین وغیرہ کے ساتھ اس مسئلے پر باتیں کررہا تھا کہ قلعے کو توڑنے کی کیا صورت اختیار کی جائے۔ محافظ نے اندر آکر اطلاع دی کہ سوڈان کے محاذ سے قاصد آیا ہے۔ سلطان ایوبی تڑپ کر بولا… ''اسے فوراً اندر بھیج دو''… اور اس کے ساتھ ہی اس کے منہ سے نکل گیا… ''اللہ کرے یہ کوئی اچھی خبر لایا ہو''۔

قاصد اندر آیا تو سلطان ایوبی نے فوراً پہچان لیا کہ یہ قاصد نہیں، کسی دستے کا کمانڈر ہے۔ سلطان ایوبی نے بیتابی سے پوچھا… ''کوئی اچھی خبر لائے ہو؟… بیٹھ جائو''۔

کمانڈر نے نفی میں سر ہلایا اور بولا… ''جس رنگ میں سالار اعظم دیکھیں، خبر اس لیے اچھی نہیں کہ ہم سوڈان میں فتح حاصل نہیں کرسکے اور اس لحاظ سے خبر اچھی ہے کہ ہم نے ابھی شکست نہیں کھائی اور پسپا نہیں ہوئے''۔

''اس کا مطلب یہ ہوا کہ شکست اور پسپائی کے آثار بھی نظر آرہے ہیں''۔ سلطان ایوبی نے پوچھا۔

''صاف نظر آرہے ہیں''۔ کمانڈر نے جواب دیا… ''میں آپ کا حکم لینے آیا ہوں کہ ہم کیا کریں۔ ہمیں کمک کی شدید ضرورت ہے۔ اگر ہماری یہ ضرورت پوری نہ ہوئی تو پسپائی کے بغیر چارہ نہیں''۔

سلطان ایوبی نے پورا پیغام سننے سے پہلے اس کے لیے کھانا منگوایا اور کہا کہ کھائو اور پیغام سناتے جائو۔ سلطانایوبی کی غیرحاضری میں اس کا بھائی تقی الدین مصر کا قائم مقام امیر مقرر ہوا تھا۔ اس نے سوڈان اور مصر کی سرحد کے قریب فرعونوں کے زمانے کے کھنڈروں میں صلیبیوں کا پیدا کردہ ایک بڑا ہی خطرناک نظریہ اور ڈرامہ پکڑا تھا اور اس کے فوراً بعد اس نے یہ سوچ کر سوڈان پر حملہ کردیا تھا کہ وہاں مصر پر حملے کی تیاریاں ہورہی تھیں۔ مشیروں اور سالاروں نے اسے کہا تھا کہ وہ سلطان ایوبی سے اجازت لے کر حملہ کریں مگر تقی الدین نے یہ کہہ کر سوڈان پر حملہ کردیا تھا کہ وہ اپنے بھائی کو اس لیے پریشان نہیں کرنا چاہتے کہ وہ صلیبیوں کے اتنے طاقتور لشکر کے خلاف لڑ رہا ہے۔ اس نے جوش میں آکر حملہ تو کردیا تھا لیکن یہ کمانڈر پیغام لایا تھا کہ سوڈان میں شکست صاف نظر آرہی ہے۔ عام قاصد کے بجائے تقی الدین نے ایک کمانڈر کو اس لیے بھیجا تھا کہ وہ سلطان ایوبی کو محاذ کی صحیح صورتحال فنی نقطہ نگاہ سے سنا سکے۔ اس سے پہلے سلطان ایوبی کو صرف یہ اطلاع ملی تھی کہ تقی الدین نے سوڈان پر حملہ کردیا ہے۔

کمانڈر نے جو واقعات سلطان ایوبی کو سنائے وہ مختصراً یہ تھے کہ تقی الدین نے حقائق پر نظر ر کھنے کے بجائے جذبے اور جذبات سے مغلوب ہوکر حملے کا حکم دے دیا۔ اس کا جذبہ وہی تھا جو اس کے بھائی سلطان ایوبی کا تھا لیکن دونوں بھائیوں کی جنگی فہم وفراست میں فرق تھا۔تقی الدین نے جو فیصلہ کیا نیک نیتی اور اسلامی جذبے کے تحت کیا مگر وہ اس حقیقت کو نظر انداز کرگیا کہ دشمن پر سوچے سمجھے بغیر ٹوٹ پڑنے کو جہاد یا جنگ نہیں کہتے۔ اس نے سوڈان میں پھیلائے ہوئے اپنے جاسوسوں کی رپورٹوں پر بھی پوری طرح غور نہ کیا۔ ان کی صرف اس اطلاع پر توجہ مرکوز رکھی کہ سوڈانیوں کو صلیبی کمانڈر ٹریننگ دے رہے ہیں اور وہاں حملے کی تیاریاں تقریباً مکمل ہوچکی ہیں۔ تقی الدین نے دشمن کو تیاری کی حالت میں دبوچ لینے کا فیصلہ کرلیا مگر اس قسم کی انتہائی اہم معلومات حاصل نہ کیں کہ سوڈانیوں کی جنگی طاقت کتنی ہے؟ وہ کتنی طاقت لڑائیں گے اور کتنی ریزو میں رکھیں گے؟ ان کے ہتھیار کیسے ہیں؟ سوار کتنے اور پیادہ کتنے ہیں؟ اور سب سے زیادہ اہم مسئلہ یہ تھا کہ میدان جنگ کس قسم کا اور مصر سے کتنی دور ہوگا اور رسد کے انتظامات کیا ہوں گے؟

وہ خرابیاں تو ابتداء میں ہی سامنے آگئیں، ایک یہ کہ سوڈانیوں نے بلکہ صلیبی کمانڈروں نے تقی الدین کو سرحد پرروکا نہیں۔ اسے بہت دور تک سوڈان کے اس علاقے تک جانے کے لیے راستہ دے دیا جو بڑا ہی ظالم صحرا تھا اور جہاں پانی نہیں تھا۔ دوسرا نقصان یہ سامنے آیا کہ تقی الدین کی فوج دراصل صلاح الدین ایوبی کی چالوں پر لڑنے والی فوج تھی جو انتہائی کم تعداد میں دشمن کے بڑے بڑے دستوں کو تہس نہس کردیا کرتی تھی۔ اس فوج کو صرف سلطان ایوبی استعمال کرسکتا تھا۔ سلطان ایوبی آمنے سامنے کی ٹکر سے ہمیشہ گریز کرتا تھا۔ وہ متحرک قسم کی جنگ لڑتا تھا۔ تقی الدین لشکر کشی کا قائل تھا۔ اس فوج میں تجربہ کار اور جانباز چھاپہ مار دستے بھی تھے لیکن ان کا صحیح استعمال سلطان ایوبی جانتا تھا۔ سوڈان میں جاکر یوں ہوا کہ فوج ایک لشکر کی صورت میں بندھی رہی اور دشمن اپنی چال چل گیا۔ دشمن تقی الدین کو اپنی پسند کے علاقے میں لے گیا اور اس کی فوج پر سلطان ایوبی کے انداز کے شب وخون مارنے شروع کردیئے۔ تقی الدین کے جانوروں اور جوانوں کو پانی کی ایک بوند بھی نہیں ملتی تھی۔ چھاپہ مار دستوں کے کمانڈروں نے اسے کہا کہ وہ انہیں صحرا میں آزاد چھوڑ دے مگر تقی الدین نے اسے خدشے کے پیش نظر انہیں کوئی کارروائی نہ کرنے دی کہ جمعیت اور مرکزیت ختم ہوجائے گی۔

جب رسد کا مسئلہ سامنے آیا تو یہ تکلیف دہ احساس ہوا کہ وہ اتنی دور چلے آئے ہیں جہاں تک رسد کو پہنچتے کئی دن لگیں گے اور رسد کا راستہ محفوظ بھی نہیں۔ ہوا بھی ایسے ہی کہ رسد کے پہلے ہی قافلے کی اطلاع ملی کہ دشمن نے اسے تباہ نہیں کیا بلکہ تمام تر رسد اور جانور اڑالے گیا ہے۔ اس حادثے کی اطلاع پر چھاپہ مار دستوں کے ایک سینئر کمانڈر اور تقی الدین میں گرما گرمی ہوگئی۔ کمانڈر نے کہا کہ وہ لڑنے آئے ہیں اور لڑیں گے لیکن اس طرح نہیں کہ دشمن شب وخون مار رہا ہے۔ رسد لوٹ کر لے گیا ہے اور ہم مرکزیت کے پابند بیٹھے رہیں۔ تقی الدین نے حکم کے لہجے میں سخت کلامی کی تو کمانڈر نے کہا… ''آپ تقی الدین ہیں، صلاح الدین نہیں۔ ہم اس عزم اور اس طریقے سے لڑیں گے جو ہمیں صلاح الدین ایوبی نے

سکھایا ہے۔ ہم چھاپہ مار ہیں۔ ہم دشمن کے پیٹ کے اندر جاکر اس کا پیٹ چاک کیا کرتے ہیں۔ آپ کا یہ لشکر بھوکا مرررہا ہے اور رسد دشمن لے گیا ہے۔ ہم دشمن کی رسد لوٹ کر اپنی فوج کو کھلانے کے عادی ہیں''۔

۔ ہم چھاپہ مار ہیں۔ ہم دشمن کے پیٹ کے اندر جاکر اس کا پیٹ چاک کیا کرتے ہیں۔ آپ کا یہ لشکر بھوکا مرررہا ہے اور رسد دشمن لے گیا ہے۔ ہم دشمن کی رسد لوٹ کر اپنی فوج کو کھلانے کے عادی ہیں''۔

وقائع نگار لکھتے ہیں کہ تقی الدین کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ جانتا تھا کہ چھاپہ ماروں کا یہ کمانڈر کس جذبے سے پاگل ہوا جارہا ہے۔ اس نے جذباتی لہجے میں کہا… ''میں ذات باری تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ میں ان جانبازوں کو جو فلسطین میں لڑتے ہوئے آئے ہیں، ناحق موت کے منہ میں نہیں دھکیلنا چاہتا''۔

''پھر آپ کو حملہ بھی نہیں کرنا چاہیے تھا''۔ کمانڈر نے کہا… ''ہم میں کون ہے جو اللہ کے نام پر جان دینے کے یے تیار نہیں، ہم موت کے منہ میں آچکے ہیں اور یہی مسلمان کی شان ہے کہ وہ موت کے منہ میں جاکر اپنے آپ کو اللہ کے قریب محسوس کرتا ہے۔ آپ جذبات سے نکلیں، ہم دشمن کے جال میں آچکے ہیں''۔

تقی الدین کوئی ایسا اناڑی بھی نہیں تھا، اسے سلطان ایوبی کے یہ الفاظ یاد تھے کہ اپنے آپ کو بادشاہ سمجھ کر کسی کو حکم نہ دینا ور میدان جنگ میں جاکر اپنی غلطیوں سے چشم پوشی نہ کرنا۔ اس نے اس کمانڈر کی سخت کلامی کو گستاخی نہ سمجھا اور اسی وقت تمام اعلیٰ کمانڈروں کو بلا کر جنگ کی صورتحال اور آئندہ اقدام کے متعلق بات چیت کی۔ فیصلہ ہوا کہ چھاپہ ماروں کو جوابی کارروائیاں کرنے کے لیے پھیلا دیا جائے۔ رسد کے راستے کو بھی چھاپہ مار اپنی حفاظت میں لے لیں۔ فوج کے متعلق یہ فیصلہ ہوا کہ اسے تین حصوں میں تقسیم کرکے دشمن پر تین اطراف سے حملہ کیا جائے۔ تقی الدین نے اپنے پاس جو محفوظہ رکھا وہ خاصا کم تھا۔ اس تقسیم ا ور ترتیب سے یہ فائدہ ہوا کہ فوج اس علاقے سے نکل گئی جہاں پانی نہیں تھا۔ ریت اور ٹیلوں کا سمندر تھا مگر فوج بکھر گئی۔ دشمن نے تینوں حصوں پر حملے کرکے انہیں اور زیادہ بکھیر دیا۔ جانی نقصان بہت ہونے لگا، نہایت تیزی سے کمانڈروں نے اپنے اپنے دستوں کو الگ الگ کرکے اسی نوعیت کی جنگ شروع کردی جو انہیں سلطان ایوبی نے سکھائی تھی مگر صاف پتا چل رہا تھا کہ وہ جیت نہیں سکیں گے۔ انہوں نے جذبہ قائم رکھا۔ رسد اور کمک کا سوال ہی ختم ہوگیا تھا۔ وہ شب وخون مارتے اور کھانے پینے کے لیے کچھ حاصل کرلیتے تھے۔ چھاپہ مار دستے نہایت جانبازی سے شب وخون مارتے دشمن کا نقصان کرتے اور جو ہاتھ لگتا وہ مختلف دستوں تک پہنچا دیتے تھے۔

مرکزی کمان ختم ہوچکی تھی، تقی الدین اپنے عملے کے ساتھ بھاگتا دوڑتا رہتا تھا۔ جذبے کی حد تک وہ مطمئن تھا۔ اسے کہیں سے بھی ایسی اطلاع نہ ملی کہ کسی دستے یا جماعت نے ہتھیار ڈال دیئے ہوں۔ جنگ چھوٹے چھوٹے معرکوں اور جھڑپوں میں تقسیم ہوتے ہوتے آدھے سوڈان تک پھیل گئی۔ مسلمان کمانڈروں نے فردً فرداً یہ فیصلہ کرلیا کہ وہ چھاپہ مار قسم کی جنگ لڑتے رہیں گے۔ سوڈان سے نکلیں گے نہیں۔ دشمن کا نقصان بھی ہورہا تھا۔ ایک وقت آگیا، جب دشمن پریشان ہوگیا کہ مسلمانوں کو سوڈان سے کس طرح نکالا جائے۔ مسلمان فوجی صحرائوں، بیابانوں اور دیہاتی آبادیوں میں پھیل گئے تھے۔ اب مرکز کو یہ بھی پتا نہیں چلتا تھا کہ جانی نقصان کتنا ہوچکا ہے اور کتنی نفری باقی ہے۔ یہ اندازہ ضرور ہورہا تھا کہ دشمن بھی مصیبت میں مبتلا ہے اور اب وہ مصر پر حملہ نہیں کرسکے گا مگر اس طریقہ جنگ سے کوئی ٹھوس فائدہ حاصل نہیں کیا جاسکتا تھا۔ کوئی علاقہ فتح نہیں کیا جاسکتا تھا۔ فوج مرتی جارہی تھی۔

ان حالات میں تقی الدین نے سلطان ایوبی کو اپنے ایک کمانڈر کی زبانی پیغام بھیجا۔ اس نے کہا کہ سوڈان کی مہم صرف اسی صورت میں کامیاب ہوسکتی ہے کہ اسے کمک مل جائے۔ اس کی تمام فوج چھاپہ مار پارٹیوں میں بٹ گئی تھی۔ ان پارٹیوں کی کارروائیوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے مزید فوج کی ضرورت تھی۔ تقی الدین نے سلطان ایوبی سے پوچھا تھا کہ کمک نہ مل سکے تو کیا وہ سوڈان میںبکھری ہوئی فوج کو یکجا کرکے مصر واپس آجائے؟ مصر میں جو فوج تھی وہ مصر کے اندرونی حالات اور سرحدوں کی حفاظت کے لیے بھی ناکافی تھی۔ اسے محاذ پر لے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ سلطان ایوبی پسپائی کا قائل نہیں تھا۔ اس کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا کہ وہ اپنے بھائی کو پسپائی کا حکم دے یا نہیں لیکن حقائق اسے مجبور کررہے تھے۔ وہ کمک نہیں دے سکتا تھا۔ وہ خود کمک کی ضرورت محسوس کررہا تھا۔ وہ گہری سوچ میں کھوگیا۔

٭ ٭ ٭
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: داستان ایمان فروشوں کی جلد‎ ‎دوم

Post by ایکسٹو »

تقی الدین کے اس قاصد نے سلطان ایوبی کی صورتحال تو بتا دی لیکن صلیبیوں اور سوڈانیوں نے وہاں جو ایک اور محاذ کھول دیا تھا، وہ نہ بتایا۔ غالباً اس کمانڈر کو معلوم نہ ہوگا۔ ایسے انکشافات بہت بعد میں ہوئے تھے۔ تقی الدین کی فوج دس دس بارہ بارہ کی ٹولیوں میں بکھر کر لڑ رہی تھی۔ بعض علاقوں میں خانہ بدوشوں کے جھونپڑے اور خیمے بھی تھے۔ بعض جگہیں ہری بھری اور سرسبز بھی تھیں اور بیشتر علاقے بنجر، ویران اور ریگستان تھے۔ ایک شام تین چھاپہ مار مجاہدین واپس اپنے ایک سینئر کمانڈر کے پاس آئے۔ ان میں دو زخمی تھے۔ انہوں نے سنایا کہ ان کی پارٹی میں اکیس افراد تھے اور بائیسواں پارٹی کمانڈر تھا۔ دن کے وقت یہ پارٹی ایک جگہ چھپی ہوئی تھی۔ پارٹی کمانڈر ادھر ادھر اس طرح ٹہل رہا تھا جیسے پہرہ دے رہا ہو یا کسی کی راہ دیکھ رہا ہو۔ ایک سوڈانی شتر سوار گزرا اور پارٹی کمانڈر کو دیکھ کر رک گیا۔ کمانڈر اس کے پاس گیا اور معلوم نہیں اس کے ساتھ کیا باتیں کیں۔ شتر سوار چلا گیا تو پارٹی کمانڈر نے اپنے اکیس جانبازوں کو یہ خوشخبری سنائی کہ دو میل دور ایک گائوں ہے جہاں مسلمان رہتے ہیں۔ اس شتر سوار نے پارٹی کو اپنے گائوں میں مدعو کیا ہے۔ رات کو گائوں والے پارٹی کو اپنا مہمان رکھیں گے اور دشمن کی ایک جمعیت کی جگہ بھی بتائیں گے۔

تمام جانباز بہت خوش ہوئے۔ کھانا دانہ ملنے کے علاوہ دشمن پر حملے کا موقع بھی مل رہا تھا۔ سورج غروب ہوتے ہی یہ سب اس گائوں کی طرف چل دیئے۔ وہاں جا کے دیکھا کہ صرف تین جھونپڑے تھے۔ادھر ادھر درخت تھے اور پانی بھی تھا۔ سپاہیوں کو جھونپڑوں کے باہر ڈیرے ڈالنے کو کہاگیا۔ پارٹی کمانڈر ایک جھونپڑے میں چلاگیا۔ باہر مشعلیں جلا دی گئیں اور سب کو کھانا دیا گیا۔ پارٹی کمانڈر نے کہاکہ سب سو جائو، حملے کے وقت انہیں جگالیا جائے گا۔ تھکے ہوئے ساہی سو گئے۔ یہ تین جو واپس آئے ان میں سے ایک سو نہ سکا یا اس کی آنکھ کھل گئی۔ اسے ایک جھونپڑے میں عورتوں کے قہقہوں کی آوازیں سنائی دیں۔ اس نے جھانک کر دیکھا۔ جھونپڑے میں پارٹی کمانڈر دو نہایت حسین لڑکیوں کے ساتھ ہنس کھیل رہا تھا اور شراب چل رہی تھی۔ لڑکیاں صحرائی لباس میں تھیں لیکن صحرائی لگتی نہیں تھیں۔ اس سپاہی کو باہرکچھ دبی دبی آوازیں سنائی دیں۔ چاندنی میں اس نے دیکھا کہ بہت سے آدمی آرہے تھے جن کے ہاتھوں میں برچھیاںاور تلواریں تھیں۔ سپاہی جھونپڑے کی اوٹ میں ہوگیا اور دیکھتارہا کہ یہ کون لوگ ہیں۔ جھونپڑے میں کوئی داخل ہوا۔ اس کی آواز سنائی دی… ''کیوں بھائی کام کردیں؟''… پارٹی کمانڈر نے کہا… ''تم آگئے؟ سب سوئے ہوئے ہیں، ختم کردو''… اور لڑکیوں کے قہقہے سنائی دیئے۔

وہ آدمی جو آرہے تھے سوئی ہوئی پارٹی پر ٹوٹ پڑے۔ کچھ تو سوتے میں ختم ہوگئے اور جو جاگ اٹھے انہوں نے مقابلہ کیا۔ یہ سپاہی چھپاہوا دیکھتا رہا۔ اسے اپنے دو ساتھی بھاگتے نظر آئے۔ موقعہ دیکھ کر یہ سپاہی بھی بھاگ اٹھا اور اپنے دو ساتھیوں سے جاملا۔ وہ دونوں زخمی تھے۔ کسی نے ان کا تعاقب نہ کیا۔ یہ معلوم نہیں ہوسکاکہ پارٹی کمانڈر شتر سوار کے دیئے ہوئے لالچ میں آگیا تھا یا وہ پہلے سے ہی دشمن کا ایجنٹ تھا اور اپنے آدمیوں کو مروانے کا موقعہ دیکھ رہا تھا۔ بہرحال یہ انکشاف ہوا کہ دشمن نے بکھرے ہوئے مسلمان دستوں کو ختم کرنے یا اپنے ہاتھ میں کرنے کے لیے لڑکیوں کو استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ دشمن انسانی فطرت کی کمزوریوں کو استعمال کررہا تھا۔ ان حالات میں لڑنے والے سپاہی کو پیٹ اور جنس کی بھوک بہت پریشان کیاکرتی ہے۔ دشمن مجاہدین کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر حملے الگ کررہا تھا ور نفسیاتی ہتھیار بھی استعمال کررہا تھا۔ ایسے چند اور واقعات ہوئے۔ مجاہدین کو خبردار کیا گیا کہ کسی کے جھانسے میں نہ آئیں۔

ایسے بہت سے واقعات میں ایک واقعہ قابل ذکر ہے۔ چھاپہ مار دستے کا ایک کمانڈر عطاالہاشم ایک جگہ بیٹھا ہوا تھا، اس کا دستہ تین چار پارٹیوں میں بکھراہوا تھا۔ یہ مصر سے آنے والی رسد کا راستہ تھا۔ عطاالہاشم نے اپنے صرف ایک دستے سے جس کی نفری ایک سو سے کچھ کم تھی، رسد کے تمام تر راستے کو محفوظ کردیا تھا۔ رسد پر چھاپہ مارنے والے دشمن کا اس نے بہت نقصان کیا تھا۔ اس کے جانباز اچانک جھپٹ پڑے تھے۔ سوڈانیوں نے انہیں ختم کرنے کے بہت جتن کیے لیکن پانچ چھ جانبازوں کو شہید کرنے کے سوا کوئی کامیابی حاصل نہ کرسکے۔ عطاالہاشم ٹیلوں میں ڈھکی ہوئی ایک جگہ پر بیٹھا تھا۔ اس کے ساتھ چھ سات جانباز تھے۔ یہ اس نے ہیڈکوارٹر بنا رکھا تھا۔ اسے صحرائی خانہ بدوشوں کے لباس میں دو لڑکیاں ایک ادھیڑ عمر آدمی کے ساتھ نظر آئیں۔ عطاالہاشم کو دیکھ کر تینوں اس کے پاس آگئے۔ لڑکیاں سوڈانی معلوم ہوتی تھیں لیکن انہوں نے جو لباس پہن رکھا تھا وہ بہروپ لگتا تھا۔ ان کے چہروں پر گرد تھی، چہرے اداس تھے اور تھکن بھی معلوم ہوتی تھی۔ لڑکیاں ادھیڑ عمر آدمی کے پیچھے ہوگئیں۔ یہ جھجک اور شرم کا اظہار تھا۔

اس آدمی نے کچھ مصری اور کچھ سوڈانی زبان میں کہا کہ وہ مسلمان ہے اور یہ دونوں اس کی بیٹیاں ہیں۔ وہ بھوک سے مررہے ہیں۔ اس نے کھانے کے لیے کچھ مانگا۔ عطاالہاشم سوڈان کی زبان جانتا تھا۔ وہ چھاپہ مار تھا۔ سوڈانی علاقے میں کمانڈو کارروائیوں کی کامیابی کے لیے اس نے سوڈانی زبان سیکھی تھی۔ اس کے پاس خوراک کی کمی نہیں تھی۔ وہ رسد کا محافظ تھا۔ دو تین بار رسد گزری تھی جس میں سے اس نے اپنے دستے کے یلے بہت سارا راشن پانی اپنے پاس رکھ لیا تھا۔ اس نے ان تینوں کو کھانا دیا اور پوچھا کہ وہ کہاں سے آئے ہیں؟ اور کہاں جارہے ہیں؟۔ اس آدمی نے کسی گائوں کا نام لے کر کہا کہ ان کا گائوں جنگ کی زد میں آگیا ہے۔ کبھی سوڈانی آجاتے تھے تو کبھی مسلمان۔ دونوں گھر میں کھانے کی کوئی چیز نہیں چھوڑتے تھے۔ وہ ان لڑکیوں کو فوجیوں سے چھپاتا پھرتا تھا، آخر تنگ آکر گھر سے نکل کھڑا ہوا۔ وہ لڑکیوں کی عزت بچانا چاہتا تھا۔ اس نے بتایا کہ چونکہ وہ مسلمان ہے، اس لیے اس کوشش میں ہے کہ مصر چلا جائے مگر ممکن نظر نہیں آتا۔ اس نے عطاالہاشم سے کہا کہ وہ انہیں مصر پہنچا دے۔ اس کے ساتھ ہی اس نے پوچھا … ''تم لوگ اس جگہ کب تک رہو گے؟''

''جب تک رہوں، تم تینوں کو اپنے ساتھ رکھوں گا''… عطاالہاشم نے جواب دیا۔

''آپ ان دونوں لڑکیوں کو اپنی پناہ میں لے لیں''… ادھیڑ عمر آدمی نے کہا… ''میں چلا جاتا ہوں''۔

''میں یہ دیکھ کر حیران ہورہی ہوں کہ آپ کی زندگی کتنی دشوار ہے''… ایک لڑکی نے معصوم لہجے میں کہا اور پوچھا… ''آپ کو اپنا گھر اور بیوی بچے یاد نہیں آتے؟''

''سب یاد آتے ہیں''… عطاالہاشم نے جواب دیا… ''لیکن میں اپنے فرض کو نہیں بھول سکتا''۔

یوں معلوم ہوتا تھا جیسے کھانا کھا کر پانی پی کر ان کے جسموں میں نئی جان اور نئی روح پیدا ہوگئی ہو۔ ایک لڑکی تو خاموش رہی، دوسری کی زبان رواں ہوگئی۔ اس نے جتنی بھی باتیں کیں ان میں عطاالہاشم اور اس کے جانبازوں کے لیے ہمدردی تھی۔ اس نے یہ بھی کہا کہ آپ لوگ وطن سے اتنی دور آکر اپنی جانیں کیوں ضائع کرتے ہیں؟
عطاالہاشم اٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے تینوں کو اٹھایا اور اپنے آدمیوں کو بلایا۔ انہیں کہا کہ اس سوڈانی کے پائوں رسیوں سے باندھ کر میرے گھوڑے کے پیچھے باندھ دو۔ انہوں نے اسے گرا کر پائوں باندھ دیئے اور گھوڑا کھول لائے۔ رسی کا ایک سرا گھوڑے کی زین کے ساتھ باندھ دیا۔ عطاالہاشم نے ایک سپاہی سے کہا کہ گھوڑے پر سوار ہوجائے۔ وہ سوار ہوگیا۔ عطاالہاشم نے لڑکیوں کو اکٹھا کھڑا کرکے دو تیر انداز بلائے۔ انہیں کہا کہ میرے اشارے پر لڑکیوں کی آنکھوں کے درمیان ایک ایک تیر چلا دیں اور گھوڑ سوار گھوڑے کو ایڑی لگا دے۔ گھوڑے کے پیچھے سوڈانی بندھا ہوا زمین پر پڑا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ گھوڑا دوڑے گا تو اس کا کیا حشر ہوگا۔ تیر اندازوں نے ایک ایک تیر کمانوں میں ڈال لیا اور گھوڑ سوار نے باگیں تھام لیں۔ عطاالہاشم نے سوڈانی لڑکیوں اور آدمی سے کہا… ''میں تم تینوں کو صرف ایک بار کہوں گا کہ اپنی اصلیت بتا دو جس مقصد کے لیے آئے ہو، صاف بتا دو، ورنہ اپنے انجام کے لیے تیار ہوجائو''۔

خاموشی طاری ہوگئی۔ لڑکیوں نے گھوڑے کے پیچھے بندھے ہوئے اپنے ساتھی کو دیکھا۔ وہ بھی خاموش تھا۔ انہوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں آپس میں مشورہ کرلیا۔ سوڈانی نے کہا کہ وہ اپنا آپ ظاہر کردے گا۔ عطاالہاشم اس کے پاس بیٹھ گیا اور کہا کہ وہ سچ بولے گا تو اسے کھولا جائے گا۔ اس آدمی نے کہا… ''اوپتھر دل انسان! تیرے پاس اتنی خوبصورت لڑکیاں لایا ہوں اور تو انہیں تیروں کا نشانہ بنا رہا ہے۔ انہیں اپنے پاس رکھ اور اپنے دستے کو سمیٹ کر یہاں سے چلا جا۔ اگر یہ قیمت تھوڑی ہے تو اپنی قیمت بتا۔ سونے کے سکے مانگ، کچھ اور مانگ۔ شام سے پہلے لادوں گا''۔

عطا الہاشم اٹھا اور سوار سے کہا… ''گھوڑا دلکی چال پندرہ بیس قدم چلائو''۔

گھوڑا چل پڑا۔ چند قدم آگے گیا تو سوڈانی بلبلا اٹھا۔ عطاالہاشم نے کہا… ''رک جائو''… گھوڑا رکا تو عطاالہاشم نے اس کے پاس جاکر کہا کہ وہ سیدھی باتیں کرنے پر آجائے۔ وہ مان گیا۔ اس نے بتا دیا کہ وہ سوڈانی جاسوس ہے اور صلیبیوں نے اسے ٹریننگ دی ہے۔ لڑکیوں کے متعلق اس نے بتایا کہ مصر کی پیدائش ہیں اور صلیبیوں نے انہیں تخریب کاری کے فن کا ماہر بنا رکھا ہے۔ عطاالہاشم نے اس کے پائوں کھول دیئے اور اسے اپنے پاس بٹھا کر باتیں پوچھیں۔ اس نے بتایا کہ اسے یہ کام دیا گیا ہے کہ سوڈان میں پھیلے ہوئے مسلمان کمانڈروں کو لڑکیوں یا سونے چاندی کا چکمہ دے کر انہیں اور ان کے سپاہیوں کو ختم یا قید کرادیا جائے یا انہیں اپنے ہاتھ میں لیا جائے۔ اس نے بتایا کہ عطاالہاشم نے رسد کا راستہ ایسی خوبی سے محفوظ کررکھا تھا کہ صلیبی اور سوڈانی چھاپہ ماروں کا جانی نقصان بھی ہوا اور رسد بھی نکل گئی۔ اسے یہ مشن دے کر بھیجا گیا تھا کہ عطاالہاشم کو ان لڑکیوں سے اندھا کرکے اسے قتل کردے یا اسے ایسے پھندے میں لے آئے کہ اسے قتل یا قید کرلیا جائے اور اگر وہ ایمان کا کچا ثابت ہوا تو اسے اپنے ساتھ ملا لیا جائے گا۔ یہ سوڈانی حیران تھا کہ عطاالہاشم نے اتنی خوبصورت لڑکیوں کو قبول نہیں کیا۔ اس نے جب عطاالہاشم سے پوچھا کہ اس نے لڑکیوں اور زرد جواہرات کی پیشکش کو کیوں ٹھکرا دیا ہے تو عطاالہاشم نے مسکرا کر کہا۔ ''کیونکہ میں ایمان کا کچا نہیں''۔

عطاالہاشم نے لڑکیوں کو بھی اپنے پاس بلا لیا۔ زیادہ باتیں کرنے والی نے پوچھا کہ ان کے ساتھ کیا سلوک ہوگا۔ عطاالہاشم نے بتایا کہ انہیں وہ کل صبح اپنے ہیڈکوارٹر میں سالار اعلیٰ تقی الدین کے پاس لے جائے گا یا بھیج دے گا۔ اس نے سوڈانی کو لڑکیوں سمیت اس ہدایت کے ساتھ اپنے آدمیوں کے حوالے کردیا کہ انہیں الگ الگ رکھا جائے۔ ان کی تلاشی لی گئی۔ تینوں کے پاس ایک ایک خنجر تھا۔ آدمی کے پاس ایک پوٹلی تھی جس میں حشیش بندھی ہوئی تھی۔

سورج غروب ہونے والا تھا جب اس کے دستے کی ایک ٹولی واپس آگئی۔ اس نے ٹولی کو کچھ دور تک پھیلا دیا۔ اس نے ہر کسی کو بتا دیا کہ یہ تینوں جاسوس اور تخریب کار ہیں۔ ہوسکتا ہے ان کے ساتھیوں کو معلوم ہوکہ یہ یہاں ہیں اور انہیں چھڑانے کے لیے حملہ کریں۔ ان انتظامات کے بعد وہ آرام کے لیے لیٹ گیا۔ وہ جگہ نشیب وفراز کی تھی۔ اس نے لیٹنے سے پہلے دیکھ لیا تھا کہ اس کے سپاہیوںنے لڑکیوں اور مرد کو کس طرح لٹایا ہے۔ وہ خود ایک ٹیلے کے ساتھ لیٹا جہاں وہ اپنے سپاہیوں کو نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اس کی آنکھ لگ گئی۔ کچھ دیر بعد اس کی آنکھ کھل گئی۔ اس کے ذہن میں یہ دو لڑکیاں آگئیں۔ وہ اس سوچ میں کھو گیا کہ یہ کتنی خوبصورت اور بظاہر کیسی معصوم سی لڑکیاں ہیں اور ان سے کتنا غلیظ اور کتنا خطرناک کام کرایا جارہا ہے اگر یہ کسی مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئی ہوتیں تو کسی باعزت گھرانے میں دلہنیں بن کر جاتیں۔ اسے اپنی بیوی یاد آگئی جو دلہن بن کر اس کے گھر آئی تھی تو انہی کی طرح جوان اور دلکش تھی۔ اپنی بیوی کی یاد اسے رومان انگیز تصورت میں لے گئی۔ اس ویران صحرا میں جہاں وہ موت کے ساتھ آنکھ مچولی کھیل رہا تھا، ان تصوروں نے اس پر نشہ طاری کردیا۔ میدان جنگ میں سپاہی ایسے ہی تصوروں اور بڑی ہی دلکش یادوں سے دل بہلایا کرتے ہیں۔

چاندنی نکھر آئی تھی، صحرا کی چاندنی بڑی ہی شفاف اور خنک ہوا کرتی ہے۔ اس کی خنکی میں ایسا تاثر ہوتا ہے جو ذہن اور دل سے موت کے خوف کو دھو ڈالتا ہے۔ عطاالہاشم اٹھا اور اس انداز سے خراماں خراماں اس جگہ گیا جہاں لڑکیاں سوئی ہوئی تھیں، جیسے وہ حفاظتی انتظام کا معائنہ کرنے جارہا ہو۔ وہ اکٹھی سورہی تھیں۔ ان کے اردگرد سپاہی سوئے ہوئے تھے۔ سوڈانی آدمی کچھ دور تین سپاہیوں کے نرغے میں سویا ہوا تھا۔ عطاالہاشم نے ایک لڑکی کے پائوں کو اپنے پائوں سے دبایا۔ لڑکی کی آنکھ کھل گئی۔ عطاالہاشم کو چاندی میں پہچان کر وہ اٹھ بیٹھی۔ عطاالہاشم نے اسے اٹھنے اور ساتھ چلنے کا اشارہ کیا۔ لڑکی اس مسرت کے ساتھ اٹھی کہ اس پتھر جیسے کمانڈر پر اس کی جواں نسوانیت کا جادو چل گیا ہے۔ وہ اس کے ساتھ چل پڑی۔ عطاالہاشم نے دیکھا کہ اس کے سپاہی کیسی بے ہوشی کی نیند سوئے ہوئے ہیں کہ انہیں یہ خبر بھی نہیں کہ کوئی آدمی ان کے درمیان سے لڑکی کو اٹھا کر لے جارہا ہے۔ اسے اپنے سپاہیوں پر غصے کے بجائے ترس آگیا جو ایک غیر یقینی سے جنگ لڑرہے تھے۔ کسی باقاعدہ کمان اور کنٹرول کے باوجود وہ نظم وضبط کی پابندی کررہے تھے۔

لڑکی کو وہ اپنی جگہ لے گیا۔ لڑکی کے سر پر اب اوڑھنی نہیں تھی۔ چاندنی اس کے بکھرے ہوئے بالوں کو سونے کے تاروں کا رنگ دے رہی تھی۔ وہ کچھ دیر لڑکی کو دیکھتا رہا اور لڑکی اسے دیکھتی رہی۔ لڑکی نے نشیلی سے آواز میں مسکرا کر کہا… ''میں حیران ہوں کہ آپ ڈر کیوں رہے ہیں۔ مجھے آپ کے پاس آپ ہی کے لیے لایا گیا ہے۔ کیا آپ میری ضرورت محسوس نہیں کرتے؟''… وہ اسے چپ چاپ دیکھتا رہا جیسے بت بن گیا ہو۔ لڑکی نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ہونٹوں کے ساتھ لگا لیا اور بولی… ''میں جانتی ہوں آپ نے مجھے کیوں بلایا ہے، آپ کیا سوچ رہے ہیں؟''

''میں سوچ رہاں ہوں کہ تمہارا باپ میری طرح کا ایک مرد ہوگا''… عطاالہاشم نے اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑا کر کہا… ''میں بھی باپ ہوں۔ ہم دونوں باپوں میں زمین اور آسمان جتنا فرق ہے۔ وہ باپ کتنا بے غیرت ہے اور میں ہوں کہ غیرت کی پاسبانی کے لیے اپنے بچوں کو یتیم کرنے کی کوشش کررہا ہوں''۔

''میرا کوئی باپ نہیں''… لڑکی نے کہا… ''دیکھا ہوگا، اس کی صورت یاد نہیں''۔

''مرگیا تھا؟''

''یہ بھی یاد نہیں''۔

''اور ماں؟''

''کچھ بھی یاد نہیں''… لڑکی نے کہا… ''یہ بھی یاد نہیں کہ میں کس گھر میں پیدا ہوئی تھی یا کسی خانہ بدوش کے خیمے میں … مگر یہ وقت ایسی بے مزہ باتیں کرنے کا نہیں''۔

''ہم سپاہی یادوں سے مزے حاصل کیا کرتے ہیں''… عطاالہاشم نے کہا… ''میں چاہتا ہوں کہ تمہارے ذہن میں بھی تمہارے ماضی کی چند ایک یادیں تازہ کردوں''۔

''میں خود ایک حسین یاد ہوں''… لڑکی نے کہا… ''جس کے ساتھ تھوڑا سا وقت گزار جاتی ہوں، وہ ہمیشہ یاد رکھتا ہے۔ میری اپنی کوئی یاد نہیں''۔

''اپنے آپ کو حسین نہیں، ایک غلیظ یاد کہو''… عطاالہاشم نے کہا… ''مجھے تمہارے جسم سے صلیبیوں کے سوڈانیوں کے مسلمانوں کے اور بڑے ہی غلیظ انسانوں کے گناہوں کی بو آرہی ہے۔ تم میرے قریب آئوگی تو مجھے متلی آجائے گی۔ تمہیں کوئی مرد یاد نہیں رکھتا۔ تم جیسی لڑکیوں کے شکاری آج یہاں اور کل وہاں ہوتے ہیں۔ دوسرا شکار مل جاتا ہے تو پہلے کو بھول جاتے ہیں۔ تمہارا یہ حسن چند دنوں کا مہمان ہے۔ تم میری قید میں ہو۔ میں تمہارا یہ چہرہ اسی وقت سزا کے طور پر زخمی کرکے ہمیشہ کے لیے مکروہ بنا سکتا ہوں مگر ایسی ضرورت نہیں۔ یہ صحرا شراب، حشیش اور بدکاری تمہیں سال کے اندر اندر مرجھایا ہوا پھول بنا دے گی جسے لوگ اٹھا کر باہر پھینک دیتے ہیں۔ یہ صلیبی اور یہ سوڈانی تمہیں بھیک مانگنے کے لیے باہر نکال دیں گے۔ تم بڑے ہی گھٹیا انسانوں کے لیے تفریح کا ذریعہ بن جائو گی''… ''میری ایک بیٹی ہے جو تم سے دو تین سال چھوٹی ہوگی۔ اس کی شادی ایک باعزت جوان کے ساتھ ہوگی جو میری طرح کمر سے تلوار لٹکا کر بڑی اچھی نسل کے گھوڑے پر سوار ہوا کرے گا۔ وہ میری طرح میدان جنگ کا شہزادہ ہوگا۔ میری بیٹی دلہن بنے گی۔ اپنے خاوند کے دل میں اور اس کے گھر میں راج کرے گی۔ لوگ میری بیٹی کو ایک نظر دیکھنا چاہیں گے مگر دیکھ نہیں سکیں گے۔ میں بھی اس پر فخر کیا کروں گا اور اس کا خاوند اس کے ساتھ اتنی محبت کرے گا کہ وہ بوڑھی ہوجائے گی تو بھی محبت ختم نہیں ہوگی، بڑھے گی۔ تمہیں دیکھنے کے لیے کوئی بھی بیتاب نہیں ہوتا کیونکہ تم ایک ننگا بھید ہو، تمہاری عزت کسی کے دل میں نہیں اور کوئی بھی نہیں جو تمہیں محبت کے قابل سمجھے گا''۔

''آپ میرے ساتھ ایسی باتیں کیوں کررہے ہیں؟''… لڑکی نے ایسی آواز میں پوچھا جو اس کی اپنی نہیں لگتی تھی۔

''میں تمہیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ تم جیسی بیٹیاں مقدس ہوتی ہیں''… عطاالہاشم نے جواب دیا… ''ہم مسلمان لوگ بیٹی کو اللہ کا پیغام سمجھتے ہیں اگر تم عصمت اور مذہب کے معنی سمجھ لو تو تم پر اللہ کی رحمت برس جائے گی مگر تم سمجھ نہیں سکو گی کیونکہ تم اس محبت سے واقف نہیں جو روح کی گہرائیوں تک پہنچا کرتی ہے۔ تم بدنصیب ہو۔ تم نے مردوں کی ہوس دیکھی ہے، محبت نہیں دیکھی''۔

عطاالہاشم آہستہ آہستہ بولتا رہا۔ اس کے لب ولہجے اور انداز کا اپنا ایک تاثر تھا لیکن لڑکی اس پر حیران ہورہی تھی کہ یہ بھی دوسرے مردوں کی طرح مرد ہے مگر اس نے اس کے حسن کو ذہ بھر اہمیت نہیں دی۔ عطاالہاشم جذباتی لحاظ سے پتھر بھی نہیں تھا۔ وہ تو سرتاپا جذبات میں ڈوبا ہوا تھا۔ لڑکی نے بیتاب سا ہوکر کہا… ''آپ کی باتوں میں ایسا نشہ اور خمار ہے جو میں نے شراب اور حشیش میں نہیں پایا۔ مجھے آپ کی کوئی بھی بات سمجھ نہیں آرہی لیکن ہر ایک بات دل میں اترتی جارہی ہے''… لڑکی ذہین تھی۔ اس قسم کی تخریب کاری کے لیے ذہین ہونا لازمی تھا۔ مردوں کو انگلیوں پر نچانے کی اسے بچپن سے ٹرینگ دی گئی تھی مگر اس مرد نے اس ناگن کا زہر ملا دیا۔ اس نے عطاالہاشم سے بہت سی باتیں پوچھیں جن میں کچھ مذہب سے تعلق رکھتی تھیں۔ اس کے لہجے اور انداز میں اب پیشہ وارانہ اداکاری نہیں رہی تھی۔ وہ اپنے قدرتی رنگ میں باتیں کررہی تھی۔ اس نے پوچھا… ''مجھے آپ لوگ کیا سزا دیں گے؟''

''میں تمہیں کوئی سزا نہیں دے سکتا''… عطاالہاشم نے کہا… ''کل صبح تمہیں اپنے سالار اعظم کے حوالے کردوں گا''۔

''وہ میرے ساتھ کیا سلوک کرے گا؟''

''جو ہمارے قانون میں لکھا ہے''۔

''آپ مجھ سے نفرت کرتے ہیں؟''

''نہیں''۔

''میں نے سنا ہے کہ مسلمان ایک سے زیادہ بیویاں رکھتے ہیں''… لڑکی نے کہا… ''اگر آپ مجھے اپنی بیوی بنا لیں تو میں آپ کا مذہب قبول کرکے ساری عمر آپ کی خدمت کروں گی''۔

''میں تمہیں بیٹی بنا سکتا ہوں، بیوی نہیں''… عطاالہاشم نے کہا… ''کیونکہ تم میرے ہاتھوں میں مجبور ہو، تم میری پناہ میں بھی ہو اور میری قید میں بھی''۔

وہ باتوں میں مصروف تھے۔ لڑکی کا ساتھی مرد تین سپاہیوں کے نرغے میں لیٹا ہوا تھا مگر وہ جاگ رہا تھا۔ اس نے عطانالہاشم کو دیکھ لیا تھا کہ وہ لڑکی کو جگا کر لے گیا ہے۔ وہ خوش تھا کہ لڑکی عطاالہاشم کو چکمہ دے کر قتل کردے گی یا اسے یہاں سے کہیں دور لے جائے گی۔ وہ لیٹا ہوا لڑکی کی واپسی کا انتظار کرتا رہا۔ بہت دیر بعد اس نے سپاہیوں کو دیکھا، وہ بے ہوش ہوکے سوئے ہوئے تھے۔ انہیں بے ہوش ہونا ہی تھا کیونکہ اس سوڈانی نے شام کے بعد ان سپاہیوں کے ساتھ گپ شپ شروع کردی تھی اور انہیں ہنستے کھیلتے حشیش پلا دی تھی۔ اس حشیش کی ایک پوٹلی تو برآمد کرلی گئی تھی لیکن اس نے تھوڑی سی حشیش اپنے چغے میں کہیں رکھی تھی۔ وہاں نکال کر اس نے تین سپاہیوں کو پلا دی وہ چونکہ اس نشے کے عادی نہیں تھے، اس لیے بے ہوشی کی نیند سوگئے۔ یہ سوڈانی رات کو بھاگنے کے جتن کررہا تھا۔

اس نے دیکھا کہ لڑکی عطاالہاشم کے پاس بیٹھی ہوئی ہے اور بہت دیر گزر گئی ہے تو وہ سمجھا کہ لڑکی اس مسلمان کمانڈر کو دور نہیں لے جاسکی، لہٰذا اس شخص کو یہیں ختم کردیا جائے۔ وہ واپس گیا اور سوئے ہوئے سپاہیوں میں سے ایک کی کمان اور ترکش میں سے تین چار تیر لے آیا۔ راستے میں چند فٹ اونچی جگہ تھی جس کی اوٹ میں وہ عطاالہاشم کو نظر نہیں آسکتا تھا۔ وہ اس لیے بھی نظر نہیں آسکتا تھا کہ اس طرف عطاالہاشم کی پیٹھ تھی۔ لڑکی کا منہ ادھر ہی تھا لیکن وہ اپنے آدمی کو دیکھ نہیں سکی تھی۔ وہ آدمی تیروکمان لے کر آیا تو لڑکی کو چاندنی میں اس کا سر اور کندھے نظر آئے پھر اسے کمان نظر آئی۔ عطاالہاشم اپنی موت سے بے خبر بیٹھا تھا۔ اس کا خنجر نیام میں پڑا ہوا تھا ور نیام قریب ہی رکھی تھی۔ لڑکی نے نیام اٹھا کر خنجر نکال لیا۔ عطاالہاشم جھپٹ کر اس سے خنجر چھیننے ہی لگا کہ لڑکی نے نہایت تیزی سے گھٹنوں کے بل ہوکر اپنے آدمی کی طرف پوری طاقت سے خنجر پھینکا۔

فاصلہ چند گز تھا۔ ادھر سے آہ کی آواز سنائی دی۔ خنجر سوڈانی کی شہ رگ میں اتر گیا تھا اور اس نے زخمی ہوتے ہی تیر چلا دیا تھا۔ نشانہ چونک جانا ضروری تھا۔ تیر کا زنانہ عطاالہاشم کے قریب سے گزرا اور دھک کی آواز سنائی دی۔ اس نے دیکھا کہ تیر لڑکی کے سینے میں اتر گیا تھا۔ وہ دوڑ کر اس کی طرف گیا جس طرف خنجر گیا اور تیر آیا تھا۔ وہاں سوڈانی اپنی شہ رگ سے خنجر نکال رہ اتھا۔ اس نے خنجر نکال لیا اور اٹھا۔ اس خطرے کے پیش نظر کہ وہ حملہ کرے گا۔ عطاالہاشم نے اچھل کر اس کے پہلو میں دونوں پائوں جوڑ کر مارے۔ سوڈانی دور جاپڑا۔ عطاالہاشم بھی گرا اور فوراً اٹھ کھڑا ہوا۔ سوڈانی نہ اٹھ سکا۔ اس کی شہ رگ سے خون ابل ابل کر نکل رہا تھا۔ عطاالہاشم نے خنجر اٹھایا اور لڑکی کے پاس گیا۔ لڑکی سینے میں اپنے ہی ساتھی اور محافظ کا تیر لیے اطمینان سے پڑی تھی۔ وہ ابھی زندہ تھی۔ تیر نکالنے کا کوئی انتظام نہیں تھا۔

لڑکی نے عطاالہاشم کا ہاتھ پکڑ لیا اور کراہتی ہوئی آواز میں بولی… ''میں نے تمہاری جان بچائی ہے، اس کے عوض اپنے خدا سے کہنا کہ میری روح کو اپنی پناہ میں لے لے۔ میرے جسم کی طرح میری روح بھی ان صحرائوں میں نہ بھٹکتی رہے۔ میری عمر گناہوں میں گزری ہے، مجھے یقین دلائو کہ خدا اس ایک نیکی کے بدلے میرے سارے گناہ بخشش دے گا۔ میرے سر پر اسی طرح ہاتھ پھیرو جس طرح اپنی بیٹی کے سر پر پھیرا کرتے ہو''۔

عطاالہاشم نے اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر کہا…''اللہ تیرے گناہ بخش دے، تجھ سے گناہ کروائے گئے ہیں تو بے گناہ ہے۔ تجھے کسی نے نیکی کی روشنی دکھائی ہی نہیں''۔

لڑکی نے درد کی شدت سے کراہتے ہوئے عطاالہاشم کا ہاتھ بڑی مضبوطی سے پکڑ لیا اور بڑی تیزی سے بولنے لگی۔ اس نے کہا… ''یہاں سے تین کوس دور سوڈانیوں کا ایک اڈا ہے، وہ لوگ آپ سب کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور غور سے سنو۔ آپ کی فوج اتنی زیادہ پھیل گئی ہے کہ اس کی قسمت میں اب موت یا قید ہے۔ آپ کے ہر ایک کمانڈر اور ہر ایک ٹولی کے پیچھے مجھ جیسی لڑکیاں یا مرد لگے ہوئے ہیں۔ میں اس لڑکی کے ساتھ آپ کے چار کمانڈروں کو پھانس کر ختم کراچکی ہوں۔ مصر کی فکر کرو۔ صلیبیوں نے وہاں بڑے ہی خطرناک اور خوبصورت جال بچھا دیئے ہ یں۔ آپ کی قوم اور فوج میں ایسے مسلمان حاکم موجود ہیں جو صلیبیوں کے تنخواہ دار جاسوس اور ان کے وفادار ہیں۔ انہیں مجھ جیسی لڑکیاں اور بے پناہ دولت دی جارہی ہے۔ مصر کو بچائو۔ سوڈان سے نکل جائو۔ اپنے غداروں کو پکڑرو۔ میں کسی کا نام نہیں جانتی جو معلوم تھا، بتا دیا ہے۔ آپ پہلے مرد ہیں جس نے مجھے بیٹی کہا ہے۔ آپ نے مجھے باپ کا پیار دیا ہے۔ میں اس کا معاوضہ یہی دے سکتی ہوں کہ آپ کو خطروں سے آگاہ کردوں۔ اپنے بکھرے ہوئے دستے کو اکٹھا کرلو اور حملہ روکنے کے لیے تیار ہوجائو۔ دو تین دنوں میں آپ پر حملہ ہوگا۔ فاطمیوں اور فدائیوں سے بچو۔ انہوں نے مصر میں بہت سے ایسے حاکموں کے قتل کا منصوبہ تیار کرلیا ہے جو صلاح الدین ایوبی اور اپنی قوم کے وفادار ہیں''۔

لڑکی کی آواز ڈوبتی اور رکتی گئی اور ایک لمبے سانس کے بعد وہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی۔ صبح طلوع ہوئی تو عطاالہاشم دونوں لاشوں اور زندہ لڑکی کو ساتھ لے کر تقی الدین کے پاس چلا گیا۔ اسے سارا واقعہ سنایا اور لڑکی کی آخری باتیں بھی سنائیں۔ تقی الدین پہلے ہی پریشان تھا۔ وہ سٹپٹا اٹھا۔ اس نے کہا… ''اپنے بھائی کی اجازت اور ہدایت کے بغیر میں پسپا نہیں ہونا چاہتا۔ میں نے ایک ذمہ دار ذہین کمانڈر کو کرک بھیجا ہے۔ اس کی واپسی تک ثابت قدم رہو''۔

٭ ٭ ٭

سلطان ایوبی نے قاصد کمانڈر کی بیان کی ہوئی جنگی صورتحال پر غور کیا تو اپنے مشیروں کو بلا کر انہیں بھی تفصیل سنائی۔ اس نے کہا…''بکھری ہوئی فوج کو یکجا کرکے پیچھے ہٹانا آسان کام نہیں۔ دشمن انہیں یکجا نہیں ہونے دے گا۔ پسپائی سے اس فوج کے جذبے پر بھی برا اثر پڑے گا جو مصر میں ہے اور جو یہاں میرے ساتھ ہے اور قوم کا دل ٹوٹ جائے گا مگر حقائق سے فرار بھی ممکن نہیں۔ اپنے آپ کو فریب دینا بھی خطرناک ہے۔ حقائق کا تقاضہ یہ ہے کہ تقی الدین اپنی فوج کو واپس لے آئے۔ ہم اسے کمک نہیں دے سکتے۔ ہم کرک کا محاصرہ اٹھا کر اس کی مدد کو نہیں پہنچ سکتے۔ میرے بھائی نے بہت بڑی غلطی کی ہے۔ بڑی ہی قیمتی فوج ضائع ہورہی ہے''۔

''یہ ذاتی وقار کا مسئلہ نہیں بننا چاہیے''… ایک اعلیٰ حکام نے کہا… ''ہمیں سوڈان کی جنگ سے دست بردار ہونے کا فیصلہ کرنا چاہیے۔ قائدین اور حکام کے غلط فیصلوں سے فوج بدنام ہورہی ہے۔ ہمیں قوم کو صاف الفاظ میں بتا دینا چاہیے کہ سوڈان میں ہماری ناکامی کی ذمہ داری فوج پر عائد نہیں ہوتی''۔

''بلاشبہ یہ میرے بھائی کی غلطی ہے''… سلطان ایوبی نے کہا… ''اور یہ میری غلطی بھی ہے کہ میں نے تقی الدین کو اجازت دی تھی کہ حالات کے مطابق وہ جو کارروائی مناسب سمجھے مجھ سے پوچھے بغیر کر گزرے۔ اس نے اتنی بڑی کارروائی حقائق کا جائزہ لیے بغیر کردی اور اپنے آپ کو دشمن کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا۔ میں اپنی اور اپنے بھائی کی لغزشوں کو اپنی قوم سے اور نورالدین زنگی سے چھپائوں گا نہیں۔ میں تاریخ کو دھوکہ نہیں دوں گا۔ میں اپنے کاغذات میں تحریر کرائوں کہ اس شکست کی ذمہ دار فوج نہیں، ہم تھے۔ ورنہ ہماری تاریخ کو آنے والے حکمران ہمیشہ دھوکہ دیں گے۔ میں سلطنت اسلامیہ کے آنے والے حکمرانوں کے لیے یہ مثال قائم کرنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنی لغزشوں پر پردہ ڈال کر بے گناہوں کو تاریخ میں ذلیل نہ کریں۔ یہ ایسی غلطی اور ایسا فریب ہے کو کرۂ ارض پر اسلام کو پھیلنے کے بجائے سکڑنے پر مجبور کرے گا''۔

سلطان ایوبی کا چہرہ لال ہوگیا، اس کی آواز کانپنے لگی۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے وہ اپنی زبان سے پسپائی کا لفظ کہنا نہیں چاہتا۔ وہ کبھی پسپا نہیں ہوا تھا۔ اس نے بڑے ہی مشکل حالات میں جنگیں لڑی تھیں مگر اب حالات نے اسے مجبور کردیا تھا۔ اس نے تقی الدین کے بھیجے ہوئے کمانڈر سے کہا… ''تقی الدین سے کہنا کہ اپنے دستوں کو سمیٹو اور انہیں تھوڑی تھوڑی نفری میں پیچھے بھیجو، جہاں دشمن تعاقب میں آئے وہاں جم کر لڑو اور اس انداز سے لڑو کہ دشمن تمہارے تعاقب میں مصر میں داخل نہ ہوجائے۔ دستے جو مصر میں پہنچ جائیں، نہیں اکٹھا رہنے کا حکم دو تاکہ مصر پر دشمن حملہ کرے تو اسے روک سکو۔ محفوظ پسپائی کے لیے چھاپہ ماروں کو استعمال کرو۔ کسی دستے کو دشمن کے گھیرے میں چھوڑ کر نہ آنا۔ میں پسپائی بڑی مشکل سے برداشت کررہا ہوں۔ میں یہ خبر برداشت نہیں کرسکوں گا کہ تمہارے کسی دستے نے ہتھیار ڈال دیئے۔ پسپائی آسان نہیں ہوتی۔ پیش قدمی کی نسبت محفوظ اور باعزت پسپائی بہت مشکل ہے۔ حالات پر نظر رکھنا، تیز رفتار قاصدوں کی ایک فوج اپنے ساتھ رکھنا۔ میں تحریری پیغام نہیں بھیج رہا ہوں کیونکہ خطرہ ہے کہ تمہارا قاصد راستے میں پکڑا گیا تو دشمن کو معلوم ہوجائے گا کہ تم پسپا ہورہے ہو''۔

سلطان ایوبی نے قاصد کمانڈر کو بہت سی ہدایات دیں اور رخصت کردیا۔ اس کے گھوڑے کے قدموں کی آواز ابھی سنائی دے رہی تھی کہ زاہدان خیمے میں داخل ہوا اور کہا کہ قاہرہ سے ایک قاصد آیا ہے۔ سلطان ایوبی نے اسے اندر بلا لیا۔ وہ انٹلی جنس کا عہدیدار تھا۔ وہ مصر کے اندرونی حالات کے متعلق حوصلہ شکن خبر لایا تھا۔ اس نے بتایا کہ وہاں دشمن کی تخریب کاری بڑھتی جارہی ہے۔ علی بن سفیان اپنے پورے محکمے کے ساتھ شب وروز مصروف رہتا ہے۔ حالات ایسے ہوگئے ہیں کہ فوجی بغاوت کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔

سلطان ایوبی کے چہرے کا رنگ ایک بار تو اڑ ہی گیا۔ اگر صرف مصر کا غم ہوتا تو وہ پرواہ نہ کرتا۔ اس نے مصر کو بڑے ہی خطرناک حالات سے بچایا تھا۔ صلیبیوں اور فاطمیوں کی تخریب کاری کی بڑی ہی کاری ضربیں بے کار کی تھیں۔سمندر کی طرف سے صلیبیوں کا بڑا ہی شدید حملہ روکا تھا۔ خلیفہ تک کو معزول کرکے نتائج کا سامنا دلیری اور کامیابی سے کیا تھا مگر اب کرک کو محاصرے میں لے کر وہ وہاں پابجولاں ہوگیا تھا۔ وہاں سے اس کی غیرحاضری میدان جنگ کا پانسہ اس کے خلاف پلٹ سکتی تھی۔ کرک کے محاصرے کے علاوہ اس نے قلعے کے باہر صلیبیوں کی فوج کو گھیرے میں لے رکھا تھا۔ یہ فوج گھیرا توڑنے کی کوشش میں حملے پہ حملہ کیے جارہی تھی، وہاں خون ریز جنگ لڑی جارہی تھی۔ سلطان ایوبی اپنی خصوصی چالوں سے دشمن کے لیے آفت بنا ہوا تھا۔ ایسی جنگ اس کی نگرانی کے بغیر نہیں لڑی جاسکتی تھی۔

ادھر سوڈان کی صورتحال نے بھی مصر کو خطرے میں ڈال دیا تھا۔ یہ ایک اضافی مسئلہ پیدا ہوگیا تھا۔ سلطان ایوبی کو یہ خطرہ نظر آرہا تھا کہ تقی الدین نے بھاگنے کے انداز سے پسپائی کی تو دشمن کی فوج اس کی فوج کو وہیں ختم کردے گی اور سیدھی مصر میں داخل ہوجائے گی۔ مصر میں جو فوج تھی وہ حملہ روکنے کے لیے کافی نہیں تھی۔ ادھر کرک کے محاصرے کی کامیابی یا جلدی کامیابی مخدوش نظر آرہی تھی۔ دونوں محاذوں کی کیفیت میں مصر میں بغاوت کے خطرے کی خبر ایسی چوت تھی جس نے سلطان ایوبی کے پائوں ہلا دئیے۔ وہ کچھ دیر سرجھکائے ہوئے خیمے میں ٹہلتا رہا، پھر اس نے کہا… ''میں صلیبیوں کی تمام تر فوج کا مقابلہ کرسکتا ہوں۔ اس فوج کا بھی جو انہوں نے یورپ میں جمع کر رکھی ہے مگر میری قوم کے یہ چند ایک غدار مجھے شکست دے رہے ہیں۔ کفار کے یہ حواری اپنے آپ کو مسلمان کیوں کہلاتے ہیں؟ وہ غالباً جانتے ہیں کہ انہوں نے مذہب تبدیل کرلیا تو عیسائی انہیں یہ کہہ کر دھتکار دیں گے کہ تم غدار ہو، ایمان فروش ہو، اپنے مذہب میں رہو، ہم سے اجرت لو اور اپنی قوم سے غداری کرو''… وہ خاموش ہوگیا۔ اس کے خیمے میں جو افراد موجود تھے وہ بھی خاموش تھے۔ سلطان ایوبی نے سب کو باری باری دیکھا اور کہا… ''خدا ہم سے بڑا ہی سخت امتحان لینا چاہتا ہے۔ اگر ہم سب ثابت قدم رہے تو ہم خدا کے حضور سرخرو ہوں گے''۔

اس نے اپنے ساتھیوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے یہ بات کہہ دی لیکن اس کا چہرہ بتا رہا تھا کہ اس پر گھبراہٹ طاری ہے جسے وہ چھپانے کی کوشش کررہا ہے۔

٭ ٭ ٭
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
Post Reply

Return to “اسلامی کتب”