حضرت مولانا جلال الدّین رومی

اردو زبان میں لکھی جانے والی اسلامی کتابیں، آن لائن پڑھئے اور ڈاونلوڈ کیجئے
Post Reply
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

حضرت مولانا جلال الدّین رومی

Post by ایکسٹو »

حضرت مولانا جلال الدّین رومیؒ
("اللہ کے سفیر" سے انتخاب)


تاریخِ پیدائش : ۔۔۔۔۔ : 604 ھ
تاریخِ وفات : ۔۔۔۔۔ : 670 ھ
مزار مبارک : ۔۔۔۔۔ : قونیہ (ترکی)

جلال الدین نام، روم اور رومی تخلص، بلخ میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم اپنے والدِ محترم شیخ بہاء الدین سے حاصل کی، جو اپنے وقت کے بڑے عالم تھے۔ مشہور بزرگ حضرت شمس تبریزؒ سے ملاقات ہوئی تو مولانا کی دنیا ہی بدل گئی۔ ایک درویش کی نگاہِ کیمیا تاثیر نے ہوش و خرد کی دنیا کو زیر و زبر کر دیا کہ مولانا جلال الدین رومیؒ بے اختیار پکار اٹھے ؎
مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم
تا غلام شمس تبریزی نہ شد
"مثنوی مولانا رومؒ" کو دنیا کے ادبِ عالیہ میں ایک منفرد مقام حاصل ہے۔۔۔مگر شاعری کی کسی کتاب کو اس قدر احترام کی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا۔
اپنے وقت کی دونوں سپر پاورز (ایران اور روم) اہلِ اسلام کے ہاتھوں شکست و بربادی سے دوچار ہو کر قصۂ پارینہ بن چکی تھیں اور ان کے مرثیہ خواں تک باقی نہیں رہے تھے۔ اللہ نے اپنے آخری رسولﷺ سے کیا ہوا وعدہ پورا کر دیا تھا کہ اہلِ ایمان صرف آخرت ہی میں کامیاب و کامران نہیں ہوں گے بلکہ دنیا میں بھی انہیں اقتدارِ اعلیٰ بخشا جائے گا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے مسلمانوں کا عروج اپنی انتہا کو پہنچ گیا۔ ساری دنیا کی دولت ان کے قدموں میں تھی اور بڑے بڑے تاج و تخت ان کی ٹھوکروں سے پامال ہو رہے تھے۔ کچھ لوگوں کو وہ زمانہ یاد آ رہا تھا، جب ایران کی فتح کے بعد مالِ غنیمت کے انبار دیکھ کر حضرت عمر فاروقؓ رو پڑے تھے اور سرِ دربار کسی شخص نے عرض کیا تھا۔
"امیر المومنین! انتہائی خوشی کے موقع پر آپ کی آنکھوں میں یہ آنسو؟"
جواب میں خلیفۂ ثانی نے فرمایا تھا۔ "میں اس لئے روتا ہوں کہ جہاں دولت کے قدم آتے ہیں، وہاں ایمان سلامت نہیں رہتا۔ اللہ تمہیں مال و زر کے فتنے سے محفوظ رکھے۔"
اور پھر ایسا ہی ہوا تھا۔ دنیا کے سارے خزانوں کی کنجیاں مسلمانوں کے ہاتھوں میں تھیں۔ عظیم الشان محل تعمیر کئے جا رہے تھے مگر کاشانۂ دل ویران ہوتا چلا جا رہا تھا۔ دیواروں میں قیمتی فانوس بھی آویزاں تھے مگر دماغوں کا اندھیرا بڑھتا جا رہا تھا۔ جس قوم کو اپنی نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا گیا تھا، آج وہی قوم کنیزوں کے خوبصورت جسموں سے اپنے حرم سجا رہی تھی۔
پھر ایک دن بغداد کی شاہراہوں پر ایک مجذوب چیختا پھر رہا تھا۔ "لوگو! خدا کی نا فرمانیوں سے باز آ جاؤ۔ چنگ و رباب توڑ دو اور شراب کے ذخیرے نالیوں میں بہا دو۔۔۔ورنہ قدرت کا پیمانۂ برداشت چھلکنے والا ہے۔ عذاب کے دن گنے جا چکے ہیں، بس کچھ گھڑیاں باقی ہیں، ابھی توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ سرکشی چھوڑ دو، نہیں تو تمہارے کاندھوں سے گردنوں کے بوجھ کم کر دیے جائیں گے، بڑا خون بہے گا، بڑی رسوائی ہو گی۔"
ہر گزرتے ہوئے لمحے کے ساتھ مجذوب کی لے تیز ہوتی جا رہی تھی۔ شروع میں لوگ اسے پاگل سمجھ کر ایک دلچسپ تماشے سے لطف اندوز ہوتے رہے مگر وہ دیوانہ تو بڑے پتے کی باتیں کر رہا تھا۔ بڑے خوفناک راز فاش کر رہا تھا۔ آخر عشرت کدوں میں رہنے والوں کو اس وحشی کے نعرے گراں گزرنے لگے۔ مجذوب سے کہا گیا کہ وہ نعرہ زنی بند کر دے۔ اس کی بے ہنگم آوازوں سے شرفاء کے سکون میں خلل پڑتا ہے۔ وہ کس عذاب کی باتیں کرتا ہے؟ عذاب ہمیں چھو بھی نہیں سکتا کہ ہم اہلِ ایمان ہیں۔ کئی بار تنبیہ کی گئی لیکن مجذوب نے اپنا چلن نہیں بدلا۔ وہ پریشاں بالوں اور بوسیدہ کپڑوں کے ساتھ ہر گلی کوچے میں چیختا پھر رہا تھا۔
"اے بے خبرو! سرخ آندھی آنے والی ہے۔ اس کے تیز جھونکوں میں تمہارے پتھروں کے مکان روئی کے تیز گالوں کی مانند اڑ جائیں گے۔ اب اس قہر سے تمہیں کوئی نہیں بچا سکتا۔ ہلاکت اور بربادی تمہارا مقدر ہو چکی ہے۔"
عیش و عشرت میں ڈوبے ہوئے لوگ موت کی خبریں سننے کے لئے تیار نہیں تھے۔ آخر معززینِ شہر نے مجذوب کی باتوں کو بد شگونی کی علامت قرار دے کر ایک سنگدلانہ حکم جاری کر دیا۔ اب وہ بے ضرر انسان جدھر جاتا لوگ اس پہ غلاظت پھینکتے تھے۔ مجذوب ان کی اس حرکت پہ قہقہے لگاتا تھا۔
"میرے جسم پہ گندگی کیا اچھالتے ہو۔ اپنے مسخ چہروں اور غلیظ لباسوں کی طرف دیکھو۔ عنقریب ان پر سیاہی ملی جانے والی ہے، اور کچھ دن خدا کے نظام کا مذاق اڑا لو۔ پھر وقت تمہارا اس طرح مذاق اڑائے گا کہ تم موت کو پکارو گے مگر موت بھی تمہیں قبول نہیں کرے گی۔"
اس کے بعد لوگ تشدد پر اتر آئے۔ مجذوب جہاں سے گزرتا تھا، جوان اور بچے اس پر پتھر برساتے تھے۔ لاغر اور نحیف جسم اپنے خون میں نہا گیا۔ بدمست انسانوں کے قہقہے بلند ہوئے۔ مجذوب بغداد کی ایک شاہراہ پر کھڑا لڑکھڑا رہا تھا۔ اس خوں رنگ تماشے دیکھنے کے لئے سینکڑوں انسان جمع ہو گئے تھے۔ مجذوب نے ہجوم کی طرف دیکھا اور بڑے اداس لہجے میں بولا۔
"کیا تم میں سے ایک شخص بھی ایسا نہیں ہے جو ان سنگدلوں کو منع کرے اور میری طرف آنے والے پتھروں کو روک لے؟"
مجذوب کی فریاد سن کر لوگوں کے قہقہے کچھ اور بلند ہو گئے۔ کسی نے سنگ باری کرنے والوں کو منع نہیں کیا۔ پورے مجمع کا ضمیر مر چکا تھا۔
"عذاب لکھا جا چکا۔" مجذوب آسمان کی طرف منہ اٹھا کر چیخا "لکھنے والے نے لوحِ محفوظ پر لکھ دیا۔ آگ، خون، موت، ذلت اور بربادی۔" پھر مجذوب نے بہتے ہوئے خون کو اپنے چہرے پہ مل لیا، چند پتھر اور برسے۔ مجذوب زمین پر گر پڑا۔
"مسخرا آسمان کی خبریں دیتا ہے۔" لوگ دیوانہ وار ہنس رہے تھے۔ "یہ خبر نہیں کہ خود اپنا کیا حال ہونے والا ہے؟" ایک مجبور انسان پہ مشقِ ستم کرنے کے بعد ہجوم منتشر ہو گیا، مجذوب کے جسم سے خون بہہ بہہ کر زمین پر جمتا رہا۔
آخر بغداد کے با ہوش شہریوں نے ایک دیوانے سے نجات حاصل کر لی، اس دن کے بعد پھر کسی نے مجذوب کو نہیں دیکھا۔ وہ اپنا کام ختم کر کے بہت دور جا چکا تھا۔
شہر کی فضائیں نغمہ بار تھیں۔ موسیقی کی پُر شور آوازوں نے گناہ کے خوابیدہ جذبوں کو بیدار کر دیا تھا، سیم تن بدنوں کے رقص نے جذبات کی دنیا میں وہ طوفان اٹھائے تھے کہ اہلِ دل اقتدار کی بینائی زائل ہو گئی تھی اور امراء اندھے ہو گئے تھے۔ سرحدی محافظوں کے بازو شل ہو گئے تھے اور تلواریں شاخِ گل کی مانند لہرا رہی تھیں۔
اور پھر اہلِ بغداد کو قہرِ خداوندی نے آ پکڑا۔ ہلاکو خان رات کے اندھیرے میں شمشیر بکف آگے بڑھ رہا تھا۔۔۔ اور عظیم الشان اسلامی سلطنت کے نگہبان ہاتھوں میں چنگ و رباب لئے ہوئے جھوم رہے تھے پھر ہر طرف فتنہ و فساد کی آگ بھڑک اٹھی۔ سنگِ سرخ سے بنے ہوئے سر بہ فلک محلات میں آگ لگی ہوئی تھی اور علم و حکمت کے ذخیرے سوکھی لکڑیوں کی طرح جل رہے تھے۔ شاندار تہذیب و تمدن کے آثار وحشیوں کے نیزوں کی زد پر تھے۔ ہلاکو خان کے سامنے عالمانہ تقریریں کرنے والے بے شمار تھے مگر وہ تلوار کے سوا کوئی زبان نہیں سمجھتا تھا۔ اس فتنۂ عظیم کو صرف جرات و شجاعت کے ہتھیاروں سے روکا جا سکتا تھا مگر مسلمان بہت پہلے ان ہتھیاروں کو زنگ آلود سمجھ کر اپنے اسلحہ خانوں میں دفن کر چکے تھے۔ اس لئے چنگیز خان کا سفاک پوتا مسلمانوں کے سروں کے مینار بنا رہا تھا اور اہلِ بغداد ایک درندے سے تہذیب و شائستگی کی زبان میں رحم و کرم کی بھیک مانگ رہے تھے۔ پھر یوں ہوا ؎
آگ اس گھر کو ایسی لگی کہ جو تھا جل گیا
اب ہلاکو خان کا رخ نیشا پور کی طرف تھا۔ یہاں بھی موت کی سرخ آندھی نے تباہی مچا دی۔ علم و حکمت کے کیسے کیسے تناور درخت جڑوں سے اکھڑ گئے، جن لوگوں نے کچھ دن پہلے بغداد کی شاہراہوں پہ ایک مجذوب کو چیختے ہوئے دیکھا تھا، آج انہیں اس پاگل انسان کی باتیں یاد آ رہی تھیں مگر وقت گزر چکا تھا۔ اچانک خبر آئی کہ تاتاریوں نے حضرت شیخ فرید الدین عطارؒ جیسے بزرگ کو بھی شہید کر دیا۔ معرفت کا یہ مینار کیا گرا کہ گھروں میں سہمے ہوئے مسلمان موت کے خوف سے کانپنے لگے۔ اب ان کے درمیان سے وہ شخص بھی اٹھ گیا تھا، جس کی دعائیں آسمان پر سنی جاتی تھیں۔
دوسری جانگداز خبر آئی کہ حضرت شیخ نجم الدین کبریٰؒ نے بھی جامِ شہادت پی لیا۔ اس طرح کہ آپ نے خانقاہ سے باہر آ کر آخری سانس تک ہلاکو کی فوج سے جنگ کی اور مرتے وقت اپنی قوم کو ایک ہی پیغام دیا کہ مکانوں کو چھوڑ کر میدانِ کار زار میں نکل آؤ۔ حضرت نجم الدین کبریٰؒ کی شہادت نے مسلمانوں کی امید کی آخری کرن بھی بجھا دی تھی۔ معرفت کے اس بلند ترین مینار کے زمین پر گرتے ہی زلزلہ آ گیا تھا اور ظلم و ستم کی رات مزید طویل ہو گئی تھی۔
خون کا سیلاب راستا بناتا ہوا مسلمانوں کے سر سبز و شاداب علاقوں سے گزر رہا تھا ، اب ہلاکو خان کے لہو آشام لشکر کا رخ روم کے شہر "قونیہ" کی جانب تھا۔ اس لشکر کی سالاری بیچو خان کو سونپی گئی تھی۔ بیچو خان نے اپنی فوجیں شہر کے چاروں طرف پھیلا دیں اور قونیہ کا مکمل محاصرہ کر لیا۔ چند روز تک تو اہلِ شہر کو خوف و دہشت کے سوا کسی تکلیف کا احساس نہیں ہوا مگر جب محاصرے نے طول پکڑا تو قونیہ کے باشندوں کا سامانِ رسد بند ہو گیا، جس سے ہر طرف بد حواسی پھیل گئی۔ اہلِ شہر میں مشورے ہونے لگے۔
کسی نے کہا۔ "بیچو خان سے مصالحت کی بات کی جائے اور اس کے مطالبات مان کر اس عذاب سے نجات حاصل کی جائے۔"
فوراً ہی دوسرے شخص نے جواب دیا۔ "ہلاکو خان مسلمانوں کے خون کا پیاسا ہے، وہ علی الاعلان خود کو خدا کا قہر کہتا ہے، اس کے نزدیک امن و عافیت جیسے الفاظ کوئی مفہوم نہیں رکھتے۔"
"پھر کیا ہو گا؟" ہر زبان پر ایک ہی سوال تھا۔ آخر جب تمام ذہن سوچتے سوچتے مفلوج ہو گئے تو امیروں کی محفل میں ایک پریشان حال شخص داخل ہوا۔ اس مفلس انسان کو دیکھ کر دولت مندوں کی پیشانیوں پر بل پڑ گئے مگر وہ لوگوں کے احساسات سے بے نیاز اندر چلا آیا اور بد مستوں کے درمیان کھڑے ہو کر با رعب لہجے میں کہنے لگا۔
"لوگو! تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اپنے ایک ہم مذہب کو دیکھ کر بد حواس ہو گئے ہو۔ میں تم سے بھیک مانگنے نہیں آیا کہ مجھے دیکھ کر تمہارے چہروں پر نفرت برسنے لگی ہے۔ اسی تنگ دلی اور بے ضمیری نے تمہیں یہ خوفناک دن دکھائے ہیں۔ تم اپنے عشرت کدوں میں شرابِ سرخ سے دل بہلاتے رہے اور مخلوقِ خدا اپنے خون میں نہاتی رہی۔ اب دولت کے یہ ذخیرے لے کر کہاں جاؤ گے کہ زمین تم پر تنگ ہو چکی ہے اور آسمان بہت دور ہے۔"
یہ کہہ کر وہ اجنبی کچھ دیر کے لئے خاموش ہو گیا۔ پوری محفل پر سکوتِ مرگ طاری تھا، ہر شخص کے چہرے سے ظاہر ہوتا تھا جیسے وہ نزع کی حالت میں گرفتار ہو۔
"میں تمہیں صرف یہ بتانے کے لئے آیا ہوں کہ اس قہرِ آسمانی کا بس ایک ہی علاج ہے۔" اجنبی نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہا۔
"ہاں! ہاں! ہمیں بتاؤ۔" تمام امراء بیک زبان چیخے۔ "ہم اپنے سیم و زر کے سارے انبار لٹا دیں گے، خدا کے لئے ہمیں اس اذیت ناک صورت حال سے نجات دلاؤ۔ ہم گزرنے والے ہر لمحے کے ساتھ مرتے ہیں اور پھر دوسری ساعت میں جی اٹھتے ہیں۔ ہلاکو خان کی دہشت ہمیں وقت سے پہلے مار ڈالے گی۔" سب کے سب گداگروں کی طرح چیخ رہے تھے۔
"اس درویش کے پاس جاؤ جو تمہارے عشرت کدوں پر تھوک کر اپنی خانقاہ میں گوشہ نشین ہو گیا ہے۔" اجنبی نے نہایت تلخ لہجے میں کہا۔ اس کے ایک ایک لفظ سے اہلِ محفل کے لئے شدید نفرت کا اظہار ہو رہا تھا۔ "وہ تمہارے سیم و زر کے ذخیروں کا محتاج نہیں۔ وہ تو خود شہنشاہ ہے۔ ایسا شہنشاہ جس کے سامنے ہلاکو خان کے سپاہی بھی حقیر کیڑوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ اس کے پاس جاؤ اگر وہ دعا کیلئے ہاتھ اٹھا دے تو ممکن ہے کہ تمہارے سروں پر آگ کے شعلوں کے بجائے ابرِ رحمت برس جائے۔ اللہ اس کی بہت سنتا ہے۔"
اجنبی کی باتیں سن کر اہلِ محفل بد حواسی کے عالم میں کھڑے ہو گئے۔ وہ اسی وقت درویش کے آستانے پہ حاضر ہونا چاہتے تھے۔
"سنو۔۔۔" اجنبی نے پکار کر کہا۔ "وہ آسانی سے نہیں مانے گا۔ اس کے دروازے پر بھکاریوں کی طرح جانا۔ وہ تمہاری قیمتی پوشاکوں اور زر نگار قباؤں سے نفرت کرتا ہے۔"
یہ کہہ کر اجنبی محفل سے نکل گیا۔ تھوڑی دور تک لوگوں نے اسے جاتے دیکھا اور پھر وہ اچانک نظروں سے غائب ہو گیا۔ تمام لوگ اس بات پر حیران تھے کہ وہ کون تھا؟ کیوں آیا تھا اور یکایک کہاں غائب ہو گیا؟ یہ ایک بڑا اہم واقعہ تھا مگر لوگوں کے پاس سوچنے کے لئے وقت نہیں تھا۔ وہ انسان ہی سہی لیکن فرشتۂ رحمت بن کر آیا تھا۔ اس نے آگ اور خون کے درمیان گھرے ہوئے لوگوں کو سلامتی کی راہ دکھائی تھی۔
اب قونیہ کے معززین اور شرفاء کی جماعت اس درویش کے آستانے کی طرف بڑھ رہی تھی۔ فاصلے ختم ہوئے، اجازت طلب کی گئی۔ درویش فطرتاً مہمان نواز تھا۔اس نے اپنے ہم وطنوں کو اندر بلا لیا۔ لوگ کانپتے قدموں سے درویش کے روبرو پہنچے، ان کی آنکھوں کی پتلیاں لرز رہی تھیں اور چہرے موت کے خوف سے زرد تھے۔بعض نے بڑی ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا مگر اس طرح کہ ان کی آواز لرز رہی تھی۔
"میرے پاس کیوں آئے ہو؟" درویش نے بیزاری کے لہجے میں کہا۔ "اس کائنات میں میری کیا حیثیت ہے؟ تم اس کی بارگاہ میں کیوں نہیں گئے جو لوحِ محفوظ کا مالک ہے۔ جس کے ایک اشارے پر تقدیریں بنتی اور بگڑتی ہیں۔"
"شیخ! وہ ہماری نہیں سنتا۔" قونیہ کے امراء نے رقت آمیز لہجے میں کہا۔ "ہم بہت گناہ گار ہیں، ہمارے لئے درِ توبہ بند ہو چکا ہے۔"
"یہ سب غلط ہے۔" اگرچہ درویش کے ہونٹوں پہ ہر وقت ایک دلنواز تبسم نمایاں رہتا تھا مگر وہ قونیہ کے امراء کی بات سن کر یکایک غضب ناک ہو گیا۔ "کوئی نہیں جانتا کہ درِ توبہ کب بند ہو گا؟ جاؤ اسی کو پکارو! وہی اپنے بندوں کی سنتا ہے۔ اگر وہ نہیں سنے گا تو پھر اس کائنات میں کون سننے والا ہے؟"
امراء نے محسوس کر لیا کہ درویش اپنا دامن بچا رہا ہے۔ اجنبی نے انہیں پہلے ہی خبردار کر دیا تھا کہ درویش آسانی سے ان کی بات نہیں مانے گا۔ اس لئے وہ مزید گریہ و زاری کرنے لگے۔ "آسمان سے ہماری فریادوں کا جواب نہیں آتا۔ شیخ! ہم تیرے آستانے سے واپس نہیں جائیں گے اگر موت ہمارا مقدر بن چکی ہے تو پھر ہم تیرے قدموں میں مر جانا پسند کریں گے۔"
"تم نے دیکھا کہ شیخ فرید الدین عطارؒ شہید کر دئیے گئے۔ حضرت نجم الدین کبریٰؒ اپنے خون میں نہا کے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ میں تو ان کے قدموں کی خاک بھی نہیں ہوں۔ پھر تمہارے لئے کیسے دعا کروں۔؟ کیسے کیسے پارسا اس فتنۂ عظیم میں زندگی سے محروم ہو گئے۔ جب ان کی دعائیں قہرِ آسمانی کو نہ روک سکیں تو پھر میں کس شمار میں ہوں؟" درویش بڑے درد ناک لہجے میں اپنی عاجزی کا اظہار کر رہا تھا۔۔۔مگر لوگ اس کی بات سننے کے لئے تیار نہیں تھے۔ انہیں صرف اپنے جان و مال کی فکر تھی۔ وہ درویش کے سامنے بہت دیر تک گریہ و زاری کرتے رہے۔
آخر درویش مجبور ہو گیا۔ اس سے مخلوقِ خدا کی چیخیں نہیں سنی جاتی تھیں۔ وہ اٹھا اور اپنا مصلّیٰ لے کر خانقاہ سے نکل گیا۔ لوگوں نے بڑی حیرت سے درویش کے طرزِ عمل کو دیکھا۔ وہاں موجود ہر شخص یہی سمجھ رہا تھا کہ درویش ان کے شورِ فغاں سے تنگ آ کر خانقاہ کو چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ پورے مجمع پر کچھ دیر کے لئے سکوتِ مرگ سا طاری رہا۔ پھر تمام لوگ خانقاہ سے باہر نکل آئے اور درویش کو دیکھنے لگے جو ساری دنیا سے بے نیاز تیز تیز قدموں کے ساتھ ایک سمت چلا جا رہا تھا۔
قونیہ کے تمام شرفاء اور امراء درویش کو خاموشی سے دیکھتے رہے مگر کسی میں اتنی ہمت نہ تھی کہ وہ اس کے پیچھے جاتے۔ بس درویش کے چند خادم بے قرار ہو کر اپنے مخدوم کے پیچھے بھاگے۔ ان کے لئے اس مردِ قلندر کا یہ انداز نا قابلِ فہم تھا۔ خادم درویش کے قریب پہنچ گئے مگر اس سے یہ پوچھنے کی جرات نہ کر سکے کہ وہ کہاں جا رہا ہے؟ درویش جس طرف سے بھی گزرتا تھا، کچھ لوگ اس کے ہمراہ ہو جاتے تھے۔۔۔مگر اس نے نظر اٹھا کر بھی ان کی طرف نہیں دیکھا۔
اب وہ شہر کی حدود سے باہر نکل آیا تھا۔ اس کے ہمراہ چلنے والے خوف سے لرزنے لگے۔ سامنے ہلاکو کے سپہ سالا بیچو خان کا لشکر نظر آ رہا تھا۔ درویش یکایک مڑا اور ان لوگوں سے سخت لہجے میں مخاطب ہوا۔
"تم اپنے گھروں کو واپس جاؤ۔ کیا یہ کوئی تماشا ہو رہا ہے؟ اس قہرِ آسمانی سے خدا کی پناہ مانگو۔" یہ کہہ کر درویش آگے بڑھا۔ اس کا انجانا سفر دوبارہ شروع ہو گیا تھا۔
ساتھ جانے والے اسی مقام پہ رک گئے جہاں اس نے ٹھہر جانے کا حکم دیا تھا۔ درویش آگے بڑھتا رہا یہاں تک کہ وہ منگول لشکر کے قریب تر ہوتا چلا گیا۔ تمام اہلِ شہر اور خادم جو اس وقت وہاں موجود تھے، خوف و دہشت سے کانپنے لگے۔ درویش کا ناتواں جسم منگول تیر اندازوں کے نشانے پر تھا۔ تاتاریوں کے ترکش سے نکلا ہوا ایک تیر بھی درویش کا کام تمام کر سکتا تھا۔۔۔مگر وہ مردِ خدا آج ہر شے سے بے نیاز تھا۔ اس کے قدم تیزی سے اٹھ رہے تھے پھر وہ قونیہ کے ان باشندوں کی نظروں سے اوجھل گیا جو اسے بیچو خان کے لشکر کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔
فاصلے مزید کم ہو گئے۔ درویش ایک بلند ٹیلے پر چڑھنے لگا۔ اس ٹیلے کے دوسری طرف تاتاریوں کا لشکر خیمہ زن تھا۔ درویش چوٹی تک پہنچا پھر اس نے اپنے اطراف پر نظر ڈالی۔ دور تک منگول سپاہی بکھرے ہوئے تھے اور نگاہوں کے سامنے سپہ سالار بیچو خان کا خیمہ تھا، جو دوسرے خیموں سے زیادہ وسیع اور نمایاں نظر آ رہا تھا۔ درویش نے ٹیلے پر مصلّیٰ بچھا دیا۔ ایک لمحے کے لئے آسمان کی طرف دیکھا اور نماز کی نیت باندھ لی۔ ابھی چند ساعتیں بھی نہیں گزری تھیں کہ کسی تاتاری کی نظر درویش پر پڑی۔ اس نے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے سینکڑوں منگول سپاہی درویش کی طرف متوجہ ہو گئے جہاں ایک مسلمان اپنے اللہ کی عبادت میں مشغول تھا۔ دشمن سپاہی اس کی عبادت کا مفہوم تو نہیں سمجھ سکے مگر انہیں یہ خیال ضرور ہوا کہ وہ کوئی مسلمان جاسوس ہے جو بیچو خان کے لشکر کی مخبری کرنے آیا ہے۔
اس خیال کے پیدا ہوتے ہی منگول سپاہیوں میں ہلچل مچ گئی۔ اگرچہ درویش تنہا تھا لیکن جنگی اصول کے مطابق اس کی موجودگی نہایت خطرناک تھی۔ سپاہیوں نے اپنے کاندھوں پر لٹکتی ہوئی کمانیں اتار لیں۔ برق رفتاری کے ساتھ تیر چڑھائے۔ پوری قوت کا مظاہرہ کیا مگر کوئی ایک کمان بھی نہ کھینچ سکی۔ تنگ آ کر سپاہیوں نے اپنے گھوڑوں کو استعمال کرنا چاہا تاکہ ٹیلے پر پہنچ کر مسلمان درویش کو تلواروں سے قتل کر ڈالیں لیکن اس وقت منگول سپاہیوں کی بے چارگی قابلِ دید تھی جب ان کے گھوڑے اپنی جگہ سے جنبش تک نہ کر سکے۔ تاتاریوں نے بے زبان جانوروں کو پیٹنا شروع کر دیا۔ فضاء میں گھوڑوں کی چیخیں بلند ہوتی رہیں مگر انہیں ایک قدم بھی آگے نہ بڑھایا جا سکا۔ بڑی عجیب صورتحال تھی۔ سارے لشکر میں ایک ہنگامہ سا برپا ہو گیا۔ سپاہیوں کا شور سن کر بیچو خان بھی اپنے خیمے سے باہر نکل آیا۔ سپاہیوں سے ان ہنگامے کا سبب دریافت کیا تو بے شمار انگلیاں ٹیلے کی طرف اٹھ گئیں جہاں درویش اب بھی اپنے خدا کے آگے ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔
"یہ کیسی دیوانگی کی باتیں ہیں؟" بیچو خان نے چیخ کر کہا۔ "کوئی بھی ذی ہوش انسان تمہاری احمقانہ گفتگو پر یقین نہیں کر سکتا۔" یہ کہہ کر بیچو خان نے ایک سپاہی سے تیر کمان طلب کیا۔ وہ ایک ماہر تیر انداز تھا۔ ہلاکو کے پورے لشکر میں اس کی یہ صفت مشہور تھی۔ تمام سپاہی حیران و پریشان کھڑے بیچو خان کی طرف دیکھ رہے تھے۔ ان کی سانسیں رکی ہوئی تھیں اور ذہنوں میں ایک ہی خیال گردش کر رہا تھا کہ اگر منگول سپہ سالار مسلمان جاسوس کو ہلاک کرنے میں کامیاب ہو گیا تو پھر قیامت ٹوٹ پڑے گی۔ وہ اس کی وحشیانہ عادتوں سے واقف تھے۔
آخر بیچو خان نے اپنی کمان کھینچی اور ایک قہر آلود نظر ان سپاہیوں پہ ڈالی جن کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ اپنی کمانیں کھینچنے سے عاجز رہے تھے۔ سپاہیوں کی جان پر بن آئی تھی اور اب انہیں اپنی موت صاف نظر آنے لگی تھی۔ بیچو خان نے پوری طاقت سے کمان کھینچی پھر فضاء میں ایک مخصوص آواز ابھری اور ترکش سے تیر چھوٹ گیا۔ منگول سپاہی پتھرائی ہوئی آنکھوں سے تیر کو دیکھ رہے تھے۔ چند ثانیوں کی بات تھی۔ تاتاریوں کا خیال تھا کہ دوسرے ہی لمحے مسلمان جاسوس کی لاش ٹیلے کی بلندیوں سے زمین کی پستیوں میں چلی جائے گی۔۔۔مگر ایسا نہیں ہوا۔ بیچو خان کا چھوڑا ہوا تیر درویش کے قریب سے نکل گیا۔ منگول سپہ سالار کا چہرہ احساسِ ندامت سے زرد ہو گیا۔ نشانہ چوک جانے پر وہ نا قابلِ بیان اذیت و کرب میں مبتلا تھا۔ شدید غضب کے عالم میں اس نے ترکش پر دوسرا تیر چڑھایا۔ اس بار کمان کو یہاں تک کھینچا کہ اس کے ٹوٹ جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔ نشانہ درست ہوتے ہی بیچو خان نے تیر چھوڑ دیا۔۔۔مگر اس مرتبہ بھی وہی ہوا۔ تیر سیدھا نشانے پر تھا مگر درویش کے قریب پہنچتے ہی کٹ کر دوسری طرف نکل گیا۔ اس کے بعد سپہ سالا بیچو خان اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا پھر اس نے مسلمان جاسوس پر تیروں کی بارش کر دی۔۔۔لیکن ایک تیر بھی درویش کے جسم کو نہ چھو سکا۔ انتہائی طیش کے عالم میں بیچو خان نے کمان اٹھا کر سپاہی کے سر پر دے ماری اور تیزی سے اپنے خیمے میں داخل ہو گیا۔ تلوار نکالی اور دوبارہ خیمے سے باہر آیا۔ وہ مسلمان جاسوس کو اپنے ہاتھ سے تہہِ تیغ کرنا چاہتا تھا۔ بیچو خان غضب ناک حالت میں آگے بڑھا مگر بمشکل تمام تھوڑی ہی دور جا سکا۔ اچانک منگول سپہ سالار کو محسوس ہوا جیسے زمین نے اس کے پاؤں پکڑ لئے ہوں۔۔۔وہ بہت دیر تک ہوا میں اپنی شمشیر لہراتا رہا۔ اس کے ہاتھ مسلسل گردش کر رہے تھے مگر ٹانگیں پتھر کی ہو کر رہ گئی تھیں۔ آخر وہ اپنی بے کسی پر رو پڑا۔ اس نے گھبرا کر سپاہیوں کی طرف دیکھا۔ سب کے سب سر جھکائے کھڑے تھے۔
"اے جادوگر! ہمیں معاف کر دے۔" اچانک بیچو خان کی تیز آواز فضاء میں گونجی۔ "ہم قونیہ کا محاصرہ اٹھا کر واپس جا رہے ہیں اے عظیم ساحر! ہمیں جانے دے کہ ہم غلطی سے تیرے علاقے میں آ گئے ہیں۔ ہماری بھول کو درگزر کر! بے شک! تو اس مملکت کا شہنشاہ ہے۔ ہمیں اجازت دے کہ ہم اپنے گھروں کو واپس لوٹ جائیں۔" منگول سپہ سالار بیچو خان اس طرح فریاد کر رہا تھا جیسے واقعتہً کسی طاقتور شہنشاہ سے رحم کی بھیک مانگ رہا ہو۔
ابھی بیچو خان کے الفاظ کی گونج باقی تھی کہ یکایک اس کے پیروں میں خون کی گردش بحال ہو گئی۔ منگول سپہ سالار نے اپنی تلوار نیچی کر لی اور سر جھکائے ہوئے خیمے میں واپس آ گیا۔ کچھ دیر پہلے جس شخص کو جاسوس کے نام سے پکارا جا رہا تھا، اب وہی بے اسلحہ و نہتا انسان فاتح ٹھہرا تھا۔۔۔اور بیچو خان جیسا طاقتور دشمن ناکام و نا مراد لوٹ رہا تھا۔ جب منگول سپاہی قونیہ کی حدود سے باہر نکل رہے تھے، اس وقت بیچو خان کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔ وہ اپنے فوجیوں سے کہہ رہا تھا۔
"گھوڑوں کی رفتار تیز کر دو۔ یہ پورا علاقہ جادو کے زیر اثر ہے۔ اس بوڑھے ساحر نے ہر چیز کو باندھ کر رکھ دیا ہے۔" ان الفاظ کے ادا ہوتے ہی گھوڑوں کی پشت پر تازیانے برسنے لگے۔ فضاء حیوانوں کی چیخوں سے گونجنے لگی۔ راستوں سے گرد و غبار اٹھا اور پھر فتنۂ ہلاکو کا نقیب کسی نا معلوم منزل کی طرف روانہ ہو گیا۔
شہر قونیہ کے باشندے بہت خوش تھے۔ ایک درویش کی دعاؤں کے سبب ان کے سروں سے عذابِ آسمانی ٹل گیا تھا۔ درویش اپنی خانقاہ کی طرف آیا تو انسانی ہجوم نے اسے گھیر لیا۔ لوگ اپنی عقیدت کا اظہار کرنے کے لئے اس کے ہاتھوں کو بوسہ دینا چاہتے تھے مگر وہ ان تمام رسموں سے بیزار تھا۔ اس نے انتہائی تلخ لہجے میں لوگوں کو مخاطب کیا۔
"اگر آج نا فرمانوں کی جماعت قہرِ خداوندی سے بچ گئی تو کل خیر نہیں۔ اس سے پہلے کہ درد ناک عذاب تمہیں آ پکڑے، اپنے گناہوں سے توبہ کر لو۔ بے خبروں کے لئے وقت کا ہر لمحہ رہزن ہے۔ اپنے ایمانوں کی حفاظت کرو ورنہ وقت کے بے رحم قزاق تمہارا سب سے قیمتی سرمایہ لوٹ کر لے جائیں گے۔" یہ کہہ کر درویش خانقاہ میں چلا گیا اور اندر سے دروازہ بند کر لیا۔
مریدوں اور خدمت گاروں نے سنا۔ وہ اپنے رب کے حضور ہچکیوں سے رو رہا تھا۔ "اے عزیز و جلیل! تو نے دنیا کے سامنے میری شرم رکھ لی ورنہ یہ گناہ گار تو رسوا ہو چلا تھا۔ اگر میں اپنی جان بھی نذر کر دوں تو تیرے اس احسان کا شکر ادا نہیں ہو سکتا۔"
جن کی دعاؤں کے سبب شہر قونیہ فتنۂ ہلاکو سے محفوظ رہا، وہ درویش مولانا جلال الدین رومیؒ تھے۔
٭٭………٭٭………٭٭

مولانا رومؒ کا خاندانی نام محمد تھا۔ جلال الدین لقب اور عرفیت مولائے روم۔ آپ 604ھ میں بلخ میں پیدا ہوئے۔ مولانا رومؒ کا سلسلۂ نسب خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ تک براہ راست پہنچتا ہے۔ مولانا رومؒ کے پردادا حضرت حسین بلخیؒ بہت بڑے صوفی اور صاحبِ کمال بزرگ تھے۔ امرائے وقت ان کا بہت احترام کرتے تھے۔ یہاں تک کہ خوارزم شاہ جیسے با جبروت حکمران نے اپنی بیٹی کی شادی مولانا رومؒ کے دادا سے کر دی تھی۔ علم و فضل کے ساتھ اس خاندان کو دنیاوی عزت و توقیر بھی حاصل تھی۔
مولانا جلال الدین رومیؒ کے والد کا نام شیخ بہاء الدین تھا۔ ان کے مریدوں میں سید برہان الدین ایک نامور عالم تھے۔ اس لئے مولانا رومؒ کی تربیت کی ذمہ داری سید برہان الدین کے سپرد کی گئی۔ مولانا رومؒ نے اکثر ظاہری علوم ان ہی بزرگ سے حاصل کئے۔ تقریباً انیس سال کی عمر میں مولانا رومؒ اپنے والدِ محترم کے ساتھ قونیہ تشریف لے آئے۔ کچھ دن بعد آپ سایۂ پدری سے محروم ہو گئے۔ شفیق و مہربان باپ سے جدائی ایک بڑا جانگداز سانحہ تھا مگر اللہ نے مولانا رومؒ کو صبر و ضبط کا حوصلہ عطا فرمایا۔ آپ نے اس غم سے نجات کے لئے خود کو کتابوں میں گم کر دیا پھر 629ھ میں جب مولانا رومؒ کی عمر پچیس سال تھی، آپؒ نے مزید تحصیلِ علم کے لئے شام کا رخ کیا۔ یہاں آپ سات سال تک مقیم رہے اور مسلسل اپنے علم میں اضافہ کرتے رہے۔ پھر قونیہ واپس آ گئے۔ ان ہی دنوں آپ کے استادِ معظم سید برہان الدین بھی تشریف لے آئے۔
پھر مولانا رومؒ کا امتحان لیا گیا۔ جب سید صاحب کو یقین ہو گیا کہ ان کا شاگرد ظاہری علوم کی تکمیل کر چکا ہے تو پھر ایک دن فرمایا۔
"مخدوم زادے! اب وقت آ گیا ہے کہ میں تمہارے والد کی امانت تمہیں لوٹا دوں۔" اس کے بعد سید برہان الدینؒ نے آپ کو اپنا مرید کیا اور تقریباً نو سال تک روحانی تعلیم دیتے رہے۔ سید برہان الدین ایک با ہوش بزرگ اور بیاعدی طور پر ایک عالم و فاضل شخص تھے۔ اس لئے طویل تربیت کے بعد بھی مولانا رومؒ کی زندگی پر عقل کا رنگ غالب رہا۔ دراصل سید صاحب یہی چاہتے تھے اور وہ اپنی کوششوں میں کامیاب بھی رہے تھے۔
مولانا جلال الدین رومیؒ فطری طور پر ذہین ترین شخص تھے۔ والد محترم کی تعلیم و تربیت اور پھر سید برہان الدینؒ کی خصوصی توجہ نے مولانا کو درجۂ کمال تک پہنچا دیا تھا۔ اب آپ کا یہ عالم تھا کہ کسی علمی تقریب میں خطاب کرنے کھڑے ہو جاتے تو لوگ پتھر کی طرح ساکت و جامد ہو جاتے اور مولانا کی تقریر اس طرح سنتے کہ انہیں اپنے گرد و پیش کی بھی خبر نہ رہتی۔ یہ تاریخِ انسانی کا عجیب پہلو ہے کہ ہر دور میں حاسد اور تنگ نظر لوگوں کی کثرت پائی جاتی ہے۔ اگر عام انسانی طبقوں میں ایسے لوگ پائے جائیں تو یہ عمل زیادہ خطرناک نہیں ہوتا مگر جب علماء کے دل و دماغ بھی اس بیماری کا شکار ہو جائیں تو پھر زمین پر بے شمار فتنے سر اٹھانے لگتے ہیں۔ جب مولانا رومؒ علماء کی صفوں میں نمودار ہوئے اور آپ نے اپنے کمالات کا مظاہرہ کیا تو مخلوق خدا اس قدر گرویدہ ہوئی کہ دوسرے اہلِ کمال کی عظمتوں کے چراغ دھندلے ہونے لگے۔ یہ بات علماء کی ایک جماعت کو سخت ناگوار گزری۔ پھر حسبِ روایت مولانا رومؒ کی تحقیر کرنے کے لئے ایک خفیہ منصوبہ تیار کیا گیا۔
پھر جب مولانا رومؒ ایک عظیم الشان اجتماع سے خطاب کرنے کھڑے ہوئے تو اچانک ایک شخص مجمع سے اٹھا اور بآواز بلند کہنے لگا۔
"محترم مولانا! آپ اپنے پسندیدہ موضوع پر ہفتوں اور مہینوں کی تیاری کے بعد تقریر کرتے ہیں، یہ تو کوئی کمال نہیں ہے۔ اس طرح تو کوئی شخص بھی اپنے علم کا مظاہرہ کر سکتا ہے۔ پھر آپ میں کیا خوبی ہے؟"
"میں نے کبھی اپنے کمالات کا دعویٰ نہیں کیا۔" مولانا رومؒ نے بڑے تحمل سے جواب دیا۔ "میں تو ایک ادنیٰ طالب علم ہوں اور میری زندگی کا مقصد مخلوقِ خدا کی خدمت ہے۔ ویسے اگر آپ اپنی طرف سے کسی موضوع کا انتخاب کر لیں تو میں اس موضوع پر بھی تقریر کرنے کی کوشش کروں گا۔" مولانا رومؒ کا جواب سن کر ہزاروں انسانوں کے مجمع پر گہرا سکوت چھا گیا۔
وہ شخص دوبارہ اٹھا اور منصوبے کے مطابق اس نے کہا۔ "مولانا! آج آپ سورۂ "والضحیٰ" کی تفسیر بیان کریں گے۔" یہ کہہ کر وہ شخص اپنی نشست پر بیٹھ گیا۔ اس شخص کا خیال تھا کہ مولانا جلال الدین رومیؒ کسی فی البدیہہ موضوع پر تقریر کرنے سے عاجز رہیں گے اور پھر ہزاروں انسانوں کی موجودگی میں ان کی محترم شخصیت ایک تماشا بن کر رہ جائے گی۔
ایک لمحے کے لئے مولانا رومؒ کے ہونٹوں پر ہلکا سا تبسم ابھرا۔ پھر آپ نے اپنے اللہ کی کبریائی بیان کی اور حضور اکرم محمد مصطفیٰ ﷺ پر درود و سلام بھیجا۔ اس کے بعد انسانی ہجوم سے مخاطب ہوئے۔
"قرآن کریم کی اس سورۂ مقدسہ میں استعمال ہونے والا پہلا حرف "واؤ" ہے۔ آج میں اسی حرفِ مقدس کی تشریح کروں گا۔" یہ کہہ کر مولانا رومؒ نے اپنی تقریر کا آغاز کیا اور پھر مسلسل چھ گھنٹے تک صرف اس بات کی وضاحت کرتے رہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ "والضحیٰ" میں حرف "و" کیوں استعمال کیا ہے؟ پورے مجمع پر سناٹا طاری تھا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے مولانا رومؒ کی زبان مبارک سے علم کا سمندر ابل رہا ہے، جس کی تیز موجوں میں سب کچھ بہہ جائے گا۔ ابھی آپ کی تقریر ختم ہونے بھی نہیں پائی تھی کہ وہی شخص اپنی جگہ سے دیوانہ وار اٹھا اور اس نے مولانا رومؒ کے قدموں پر سر رکھ دیا۔
"واللہ! آپ عظیم ہیں۔ آج پورے روم میں آپ کا کوئی ثانی موجود نہیں۔ یہاں کے لوگ آپ کے علم و فضل سے حسد رکھتے ہیں۔ میں بھی اسی لعنت کا شکار ہو گیا تھا۔ خدا کے لئے مجھے معاف فرما دیجیے۔"
مولانا رومؒ نے اس شخص کو اٹھا کر گلے سے لگایا اور پھر ان لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا جو آپ کے خلاف در پردہ سازشیں کر رہے تھے۔ "میں ہر اس شخص کو معاف کرتا ہوں جو مجھ سے بے سبب عداوت رکھتا ہے۔ اللہ ان کے سینوں میں بھڑکتی ہوئی آتشِ حسد کو ٹھنڈا کر دے اور انہیں اپنے فضل و کرم سے ہدایت بخش دے۔"
یہ مولانا کی اعلیٰ ظرفی کا عظیم الشان مظاہرہ تھا جس نے بے شمار لوگوں کو آپ کا عقیدت مند بنا دیا۔
٭٭………٭٭………٭٭
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: حضرت مولانا جلال الدّین رومی

Post by ایکسٹو »


مولانا جلال الدین رومیؒ ظاہری تعلیم و تربیت کے تمام مراحل طے کر چکے تھے، آپ کی شہرت و محبوبیت میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔ عوامی حلقوں سے لے کر امرائے وقت تک آپ کا بے حد احترام کرتے تھے لیکن اس کے باوجود مولانا رومؒ کو اپنی زندگی میں ایک خلاء سا محسوس ہوتا تھا، اکثر تنہائی میں آپ اپنی اس محرومی کا اظہار فرماتے۔
"میں آج بھی پیاسا ہوں اور یہ پیاس نہ جانے کب تک برقرار رہے گی۔؟"
مولانا رومؒ کے بے تکلف دوست اس پیاس کا مفہوم پوچھتے تو آپ بے اختیار فرماتے۔
"میں خود بھی نہیں جانتا کہ یہ کیسی پیاس ہے؟ بس یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے میری روح تشنہ ہے۔"
دوست اس کا کیا جواب دیتے؟ وہ تو خود مولانا کے علم کے محتاج تھے۔ الغرض بہت دن تک مولانا کی یہی کیفیت رہی پھر ایک دن ایک عجیب واقعہ پیش آیا جس نے مولانا رومؒ کی زندگی کو یکسر بدل ڈالا۔
مولانا جلال الدین رومیؒ کا کتب خانہ نادر و نایاب تصنیفات کی موجودگی کے سبب پورے ملک میں ایک خاص اہمیت رکھتا تھا۔ ایک دن مولانا رومؒ اسی کتب خانے میں شاگردوں کو درس دے رہے تھے، اچانک ایک اجنبی شخص اجازت کے بغیر اندر چلا آیا۔ مولانا رومؒ فطرتاً ایک متواضع انسان تھے اس لئے اجنبی کی اس طرح آمد پر ناراض تو نہیں ہوئے لیکن پھر بھی انہیں اس شخص کا آنا اچھا معلوم نہیں ہوا۔ اجنبی اپنے حلیے کے اعتبار سے ایک عام سا آدمی تھا پریشان حال چہرے پر وحشت کا رنگ، معمولی لباس مختصر یہ کہ اجنبی کی ظاہری شخصیت نہایت ہی غیر موثر تھی اس لئے حاضرین میں سے کسی نے بھی اسے پسندیدہ نظروں سے نہیں دیکھا۔ خود مولانا رومؒ نے اس پر ایک اچٹتی نظر ڈالی اور شاگردوں کو درس دینے میں مشغول ہو گئے۔ اجنبی نے آتے ہی اہل مجلس کو سلام کیا تھا اور پھر حاضرین کی صفوں سے گزرتا ہوا مولانا رومؒ کے قریب جا کر بیٹھ گیا تھا۔ مولانا کے شاگردوں کو اجنبی کی یہ بے تکلفانہ ادا بھی سخت ناگوار گزری تھی مگر وہ استاد کے احترام میں خاموش رہے تھے۔ اگر ان کا بس چلتا تو وہ اجنبی شخص کو مجلس علم سے نکال دیتے یا پھر کم سے کم اسے سب سے پچھلی قطار میں بیٹھنے پر مجبور کر دیتے۔۔۔لیکن وہ آدابِ ملسی کے پیش نظر ایسا نہ کر سکے پھر بھی ان کے ذہنوں میں اجنبی کے لئے نا پسندیدگی کا غبار بھر گیا تھا۔ مولانا رومؒ کا درس جاری رہا۔ اس دوران حاضرین نے محسوس کیا کہ اجنبی شخص کو مولانا رومؒ کے درس سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ بار بار قیمتی کتابوں کے ذخیرے کو دیکھ رہا تھا آخر اس سے ضبط نہ ہوا تو درس کے دوران ہی بول اٹھا۔
"مولانا! یہ کیا ہے؟" اجنبی نے نادر و نایاب کتابوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
مولانا رومؒ کا چہرہ مبارک متغیر ہو گیا۔ آپ کو اجنبی کی اس جاہلانہ مداخلت سے اذیت پہنچی تھی مگر مولانا نے فوراً ہی اپنے جذبات پر قابو پا لیا۔ "ذرا صبر کرو! میں اپنا کام مکمل کر لوں پھر تمہارے سوال کا جواب دوں گا۔" مولانا رومؒ بڑے شیریں کلام تھے مگر اجنبی کی اس غیر اخلاقی حرکت کے باعث آپ کے لہجے میں ہلکی سی تلخی شامل ہو گئی تھی۔
اجنبی نے پھر کوئی سوال نہیں کیا مگر وہ بدستور مولانا رومؒ کے کتب خانے کا جائزہ لیتا رہا۔
آخر مولانا کا درس ختم ہوا اور آپ اس اجنبی کی طرف متوجہ ہوئے جس کی ناشائستہ حرکات نے حاضرین مجلس کے ذہنوں میں تکدر پیدا کر دیا تھا۔
"آپ کون ہیں اور یہاں کس لئے تشریف لائے ہیں؟ " مولانا رومؒ اجنبی سے مخاطب ہوئے۔
"مولانا! آپ میرے بارے میں دریافت نہ کریں کہ میں کون ہوں؟"اجنبی نے بے رخی سے کہا۔ "بس مجھے میرے سوال کا جواب دے دیجئے کہ یہ کیا ہے؟" اجنبی کے اٹھے ہوئے ہاتھ کا رخ کتابوں کی طرف تھا۔
اجنبی کا سوال مہمل تھا۔ بالآخر مولانا رومؒ کا لہجہ تلخ ہو گیا۔ "کیا تمہاری بینائی کمزور ہے؟"
"ہرگز نہیں؟" اجنبی نے اسی بے نیازی کے ساتھ جواب دیا۔ "میں تو بہت دور تک دیکھ سکتا ہوں۔"
"پھر تمہیں نظر نہیں آتا کہ یہ کیا ہے؟" اجنبی کی بے سروپا گفتگو نے مولانا جلال الدین رومیؒ جیسے شیریں بیان اور متحمل مزاج انسان کو جھنجھلاہٹ میں مبتلا کر دیا تھا۔
"مجھے تو بہت کچھ نظر آ رہا ہے مگر میں آپ کی زبان سے سننا چاہتا ہوں کہ یہ کیا ہے؟" اجنبی بار بار ایک ہی سوال کو دہرائے جا رہا تھا۔
مولانا رومؒ کو اجنبی کا لہجہ بہت ناگوار گزرا۔ آخر آپ نے تلخ لہجے میں فرمایا۔ " یہ وہ ہے جسے تم نہیں جانتے۔"
مولانا کا جواب سن کر اجنبی کھڑا ہو گیا۔ پھر اس نے کتابوں کی طرف اشارہ کیا اور ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے بولا۔ "اچھا! یہ وہ ہے جسے میں نے جانتا۔" ابھی فضاء میں اجنبی کے الفاظ کی گونج باقی تھی کہ یکایک کتب خانے میں آگ بھڑک اٹھی اور مولانا رومؒ کی نادر و نایاب کتابیں جلنے لگیں۔ یہ سب کچھ اس قدر ناقابل یقین تھا کہ مولانا جلال الدین رومیؒ دم بخود رہ گئے اور حاضرین مجلس پر ستہ طاری ہو گیا۔
اجنبی بے نیازانہ آگے بڑھا۔ مولانا رومؒ نے پکار کر کہا۔ "اے شخص! یہ کیا ہے؟" مولانا نے آگ کے بھڑکتے ہوئے شعلوں کی طرف اشارہ کیا۔
اجنبی مسرطایا۔ "مولانا! یہ وہ ہے جسے آپ نہیں جانتے۔" اتنا کہہ کر اجنبی واپس جانے لگا۔
مولانا رومؒ کے ہونٹوں سے آہ سرد نکلی۔ "ہائے! میری نادر و نایاب کتابیں؟ اے شخص! تیری وجہ سے سب کچھ راکھ ہو گیا۔"
اجنبی جاتے جاتے رک گیا اور پھر مڑ کر مولانا رومؒ سے مخاطب ہوا۔ "اگر یہ سب کچھ میری وجہ سے ہوا ہے تو پھر میں تمہیں تمہاری کتابیں واپس کرتا ہوں۔" یہ کہہ کر اس نے ہاتھ کا اشارہ کیا۔۔۔ اور پھر حاضرین نے دیکھا کہ بھڑکتے ہوئے شعلے بجھ گئے اور مولانا رومؒ کے کتب خانے میں آگ کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ اس کے بعد اجنبی کچھ کہے بیر تیزی کے ساتھ چلا گیا۔
پھر جب حیرتیں کم ہوئیں اور اہل مجلس کے حواس بحال ہوئے تو شاگردوں نے مولانا رومؒ سے عرض کیا۔ "استادِ محترم! یہ سب کچھ کیا ہے؟"
مولانا جلال الدین رومیؒ نے بڑے حسرت زدہ لہجے میں فرمایا۔ "یہ وہ ہے جسے میں بھی نہیں جانتا اور تم بھی نہیں جانتے۔"
کچھ تذکرہ نویسوں نے اس واقعے کو اس طرح بیان کیا ہے کہ ایک دن مولانا رومؒ حوض کے کنارے بیٹھے ہوئے مطالعہ کر رہے تھے۔ اچانک ایک اجنبی شخص آیا اور مولانا کے قریب رکھی ہوئی کتابوں کے بارے میں پوچھنے لگا کہ یہ کیا ہے؟
مولانا رومؒ نے انتہائی بے رخی سے جواب دیا۔ " یہ وہ ہے جسے تم نہیں جانتے۔"
اجنبی نے مولانا سے مزید کوئی سوال نہیں کیا اور تمام کتابیں اٹھا کر حوض میں ڈال دیں۔
مولانا رومؒ ایک غیر مذہب اجنبی کی اس حرکت کو برداشت نہ کر سکے اور سخت طیش کے عالم میں فرمانے لگے۔ "اے جاہل شخص! تجھے خبر ہے کہ تو نے کیسی نادر و نایاب کتابیں تباہ کر ڈالیں یہ وہ قیمتی نسخے تھے جو کسی شہنشاہ کو بھی میسر نہیں ہوں گے۔"
اجنبی نے مولانا رومؒ کو شدید اضطراب میں مبتلا دیکھا تو مسکراتے ہوئے کہنے لگا۔ " اگر یہ بات ہے تو میں تمہاری کتابیں واپس کئے دیتا ہوں۔" اتنا کہہ کر اجنبی حوض میں اتر گیا اور تمام کتابیں نکال کر مولانا کے حوالے کر دیں۔
مولانا رومؒ شدید حیرت کے عالم میں اپنی قیمت کتابوں کو دیکھنے لگے کسی کتاب کا ایک ورق بھی پانی میں نہیں بھیگا تھا۔ "یہ کیا ہے؟" مولانا رومؒ نے اجنبی سے پوچھا۔
اجنبی نے ایک مخصوص تبسم کے ساتھ نہایت شگفتہ لہجے میں جواب دیا۔ "مولانا! یہ وہ ہے جسے آپ نہیں جانتے۔" اتنا کہہ کر اجنبی چلا گیا اور مولانا جلال الدین رومیؒ حوض کے کنارے دم بخود بیٹھے رہے۔
جس اجنبی شخص کی کرامت نے مولانا رومؒ جیسے نابعۂ روزگار عالم کو حیران کر دیا تھا وہ مشہور بزرگ حضرت شمس تبریزؒ تھے۔
حضرت شمس تبریزؒ کی اس ملاقات نے مولانا رومؒ کی دنیا ہی بدل ڈالی۔یہ ایسا زبردست انقلاب تھا کہ مولانا اپنی روش بھول گئے۔ کتب خانہ بند کر دیا گیا اور درس و تدریس کے تمام سلسلے ختم ہو گئے۔ اب مولانا جلال الدین رومیؒ کو بس ایک ہی کام تھا کہ ہر وقت حضرت شمس تبریزؒ کی خدمت میں حاضر رہتے تھے یہ ایک ایسی تبدیلی تھی کہ پورے شہر میں ہنگامہ برپا ہو گیا۔ مولانا کے ہزاروں عقیدت مند برملا کہا کرتے تھے۔
"قونیہ ویران ہو گیا اور اس ویرانی کا سبب وہ جاہل فقیر ہے جس نے ہم سے ہمارا عالم چھین لیا۔"
مولانا جلال الدین رومیؒ کے بعض عقیدت مند اور شاگرد جوشِ جذبات میں حد سے گزر گئے اور وہ حضرت شمس تبریزؒ کے بارے میں گستاخانہ الفاظ استعمال کرتے تھے۔ "کہاں آپ جیسا فاضل انسان اور کہاں وہ بے علم کوچہ گرد؟"
مولانا رومؒ سب کچھ سنتے تھے مگر آپ پر کسی طنز اور کسی طعنہ زنی کا اثر نہیں ہوتا تھا۔ اگر کبھی کوئی عزیز یا دوست بہت زیادہ جرح کرتا تو بس اتنا کہہ کر خاموش ہو جاتے۔
" تم کیا جانو کہ شمس تبریزؒ کون ہیں؟"
اب ایک مخصوص کمرہ تھا۔ حضرت شمس تبریزؒ تھے اور مولانا رومؒ۔ باقی دنیا سے مولانا رومؒ کا اب کوئی تعلق باقی نہیں رہا تھا پھر وہ وقت بھی آیا جب مولانا رومؒ کو گھر والوں کا ہوش بھی نہیں رہا۔ بیوی شوہر سے اور بچے باپ سے بد ظن رہنے لگے۔آخر مولانا رومؒ کے اہلِ خانہ بھی حضرت شمس تبریزؒ کو جادوگر کہہ کر پکارنے لگے۔
"تبریز کے سحر نے ہمارا گھر برباد کر دیا۔ خدا اسے غارت کر دے۔"
قونیہ کا ایک ایک شخص حضرت شمس تبریزؒ کو برا بھلا کہہ رہا تھا مگر مولانا رومؒ اسی مردِ قلندر کی بار گاہ میں دست بستہ کھڑے تھے۔
حضرت شمس تبریزؒ کا پورا نام محمد شمس الدین تھا۔ شہر تبریز کے حوالے سے شہرت دوام پائی۔ حضرت شمس تبریزؒ 560ھ میں بمقام سبزوار (عراق) پیدا ہوئے۔ آپ کے والد گرامی کا نام سید صلاح الدین محمد نور بخشؒ تھا۔ حضرت شمس تبریزؒ کا سلسلہ نسب براہِ راست حضرت امام جعفر صادقؒ سے ملتا ہے۔ ہوش سنبھالتے ہی حضرت شمس تبریزؒ کو تعلیم و تربیت کے لئے ان کے چچا عبدالہادیؒ کے سپرد کر دیا گیا۔ چچا نے بھتیجے پر بہت محنت کی۔ یہاں تک کہ تفسیر، فقہ اور حدیث کے ساتھ دیگر علوم سے بھی آراستہ کر دیا۔
جب 579ھ میں سید صلاح الدین محمد نور بخشؒ کی دعوت اسلام کے لئے بدخشاں کی طرف روانہ ہوئے تو حضرت شمس تبریزؒ کو بھی بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ اس وقت ان کی عمر انیس سال تھی۔ بدخشاں میں ہزاروں لوگوں کو حق کی تعلیم دی۔ پھر "تبت کوچک" کی طرف گئے اور سیکڑوں انسانوں کو دین اسلام میں داخل کیا۔ پھر یہاں سے باپ اور بیٹے نے کشمیر کا رخ کیا۔ اس وقت یہاں کے لوگ سورج کی پرستش کرتے تھے۔ حضرت سید صلاح الدینؒ اور حضرت شمس تبریزؒکی کوششوں سے ہزاروں بت پرست باشندوں نے اسلام قبول کیا۔ اس علاقے کی "چنگڑ" قوم نے انہیں بہت پریشان کیا مگر بعد میں یہ لوگ بھی جلد ہی مطیع و فرماں بردار ہو گئے۔
586ھ میں حضرت شمس تبریزؒ والد محترم کے ہمراہ واپس اپنے وطن سبزوار تشریف لے گئے۔ یہاں حضرت شمس تبریزؒ کی شادی ہو گئی۔ آپ کے دو فرزند سید نصیر الدین محمد اورسید علاء الدین احمد پیدا ہوئے۔ سید علاء الدین احمدؒ "زندہ پیر" کے لقب سے مشہور ہوئے۔
حالات واقعات کے اعتبار سے حضرت شمس تبریزؒ کی شخصیت بہت زیادہ متنازع نظر آتی ہے۔ آپ نے خانہ بدوشی کی زندگی بسر کی اور تمام عمر ایک عجیب اذیت میں و کرب میں مبتلا رہے۔ بغداد تشریف لے گئے تو مقامی علماء کو آپ کے خیالات سے شدید اختلاف ہو گیا۔ بادشاہ وقت ان علماء کے زیر اثر تھا نتیجتہً حضرت شمس تبریزؒ کو شہر بدر ہونا پڑا۔ ابھی آپ بغداد کی حدود سے نکلے ہی تھے کہ اچانک بادشاہ کا بیٹا بیمار پڑا اور دوسرے دن مر گیا۔بادشاہ کو خیال گزرا کہ شاید یہ المناک واقع حضرت شمس تبریزؒ سے بد سلوکی کے باعث رونما ہوا ہے مجبوراً اس نے اپنے مشیران خاص کو حضرت شمس تبریزؒ کی تلاش میں روانہ کرتے ہوئے کہا۔
"کوئی بھی صورت ہو انہیں بغداد واپس لاؤ۔"
بادشاہ کا حکمپاتے ہی مشیران خاص برق رفتار گھوڑوں پر سوار ہو کر دوڑ پڑے۔ حضرت شمس تبریزؒ ابھی بغداد کے نواح میں مقیم تھے کہ شاہی قاصدوں نے انہیں جا لیا اور پھر دست بستہ عرض کیا۔ "حضور! آپ بغداد واپس تشریف لے چلیں۔"
شاہی کارندوں کی درخواست سن کر حضرت شمس تبریزؒ کے چہرے پر اذیت کا رنگ ابھر آیا۔ "کل جس جگہ سے مجھے ذلیل کر کے نکال دیا گیا آج اسی مقام پر واپس جانے کے لئے کہہ رہے ہو؟ آخر تم لوگوں پر کیا افتاد پڑی ہے کہ مجھ خانہ بدوش کا خیال آ گیا۔"
"ہمارے بادشاہ کا یہی حکم ہے۔" شاہی کارندوں نے خوشامدانہ لہجے میں عرض کیا۔
"میں تو بس ایک بادشاہ کا حکم مانتا ہوں۔" حضرت شمس تبریزؒ نے بے نیازانہ کہا۔ "باقی بادشاہوں کو میں نہیں جانتا۔"
حضرت شمس تبریزؒ کے انکار سے صورت حال بگڑ گئی تھی۔ شاہی کارندے ایک مردِ قلندر کے قدموں سے لپٹ گئے اور بہت دیر تک عاجزی کا مظاہرہ کرتے رہے۔ آخر حضرت شمس تبریزؒ کو ان لوگوں پر رحم آ گیا۔ پھر یہ کہتے ہوئے شاہی کارندوں کے ساتھ ہو گئے۔ "چلو! تمہارے کہنے سے چلتا ہوں مگر بغداد کے لوگ زیادہ دن تک مجھے برداشت نہیں کر سکیں گے۔"
جب حضرت شمس تبریزؒ شاہی محل پہنچے تو وہاں صف ماتم بچھی ہوئی تھی۔ تمام درباری سیاہ لباس پہنے ہوئے اپنے ولی عہد سلطنت کی موت کا سوگ منا رہے تھے۔ بادشاہ بڑے احترام کے ساتھ پیش آیا مگر اس کے چہرے پر غم و اندوہ کا دھواں پھیلا ہوا تھا اور آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھیں۔
"یہ سب کچھ کیا ہے؟" حضرت شمس تبریزؒ نے بادشاہ سے دریافت کیا۔ "پورا شہر ماتم کدہ کیوں بنا ہوا ہے؟ کچھ دن پہلے جب میں یہاں سے گیا تھا تو بغداد کے در و دیوار کیف و نشاط سے جھوم رہے تھے مگر آج یہاں قبرستان جیسا سناٹا ہے۔"
بادشاہ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ خاموشی سے حضرت شمس تبریزؒکو ساتھ لے کر اس کمرے میں پہنچا جہاں اس کے محبوب بیٹے کی لاش رکھی ہوئی تھی۔ حضرت شمس تبریزؒ نے سوالیہ نظروں سے بادشاہ کی طرف دیکھا۔
"میرے جواں مرگ بیٹے کی میت ہے۔" بادشاہ نے نمناک آنکھوں اور لرزتے ہوئے لہجے کے ساتھ کہا۔ "آپ کے بغداد سے جاتے ہی یہ اچانک بیمار ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے آغوشِ فنا میں چلا گیا میں سمجھتا ہوں کہ یہ اسی گستاخی کاشاخسانہ ہے جو میں نے آپ کی شان میں روا رکھی تھی۔"
حضرت شمس تبریزؒ مسکرانے لگے۔ "درویش کے ساتھ لوگ گستاخی کے ساتھ پیش آتے ہی رہتے ہیں۔ مجھے آپ سے بھی کوئی شکایت نہیں۔"
بادشاہ بہت دیر تک معذرت طلب کرتا رہا۔
"میں نے گزشتہ باتوں کو فراموش کر دیا ہے۔" حضرت شمس تبریزؒ نے اسی بے نیازی کے ساتھ کہا۔ "اب آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟"
"میں سمجھتاہوں کہ آپ کی دل آزاری کے سبب میرا بیٹا اس انجام کو پہنچا ہے۔" شدت غم سے بادشاہ کی آواز کانپ رہی تھی۔
"فی الواقع اگر یہی بات ہے تو آپ کے بیٹے کو سزا کیوں ملی؟ گناہ تو آپ نے کیا تھا۔" حضرت شمس تبریزؒ نے فرمایا۔
"ممکن ہے کہ قدرت نے میرے لئے یہی سزا منتخب کی ہو کہ میں تمام عمر بیٹے کی جدائی میں تڑپتا رہوں۔" بادشاہ کی آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسوؤں میں کچھ اور تیزی آ گئی تھی۔
"اللہ اپنے رازوں کو خود ہی بہتر جانتا ہے میں آپ کے لئے کیا کر سکتا ہوں۔؟" حضرت شمس تبریزؒ نے حاکم بغداد سے سوال کیا۔؟"
"میری درخواست ہے کہ آپ میرے بیٹے کے حق میں دعائے خیر فرما دیں۔" بادشاہ نے بڑے عاجزانہ لہجے میں عرض کیا۔ "ہو سکتا ہے کہ آپ کی دعاؤں سے میرے بیٹے کو نئی زندگی مل جائے۔"
"ایسا ہوتا تو نہیں ہے۔ جو چلا گیا سو چلا گیا۔" حضرت شمس تبریزؒ نے فرمایا۔ "پھر بھی تمہاریتالیف قلب کے لئےاپنے مالک کی بارگاہ میں عرض کئے دیتا ہوں۔"
یہ کہہ کر حضرت شمس تبریزؒ نے آنکھیں بند کر لیں پھر آپ کے ہونٹوں کو جنبش ہوئی۔ "اے اللہ! اگر تو نے اس لڑکے پر میری دل آزاری کے باعث موت مسلط کر دی ہے تو میں اسے معاف کرتا ہوں۔ تو بھی اس عاجز بندے محمد شمس الدین کی خاطر اپنے بے پناہ اور بےمثال فضل و کرم کا مظاہرہ کر! اور اس بچے کو معاف کر دے۔"
ابھی ایوانِ شاہی کے ایک کمرے میں حضرت شمس تبریزؒ کے الفاظ کی گونج باقی تھی کہ شاہزادے کے جسم کو جنبش ہوئی پھر وہ اپنے بستر پر اٹھ کر بیٹھ گیا اور حیرت زدہ نظروں سے چاروں طرف دیکھنے لگا۔
بادشاہ بغداد کچھ دیر تک حیرت و سکوت کے عالم میں کھڑا رہا کبھی وہ حضرت شمس تبریزؒ کی طرف دیکھتا اور کبھی اپنے محبوب بیٹے کی طرف جو وادئ فنا میں داخل ہونے کے بعد دوبارہ اس دنیا میں لوٹ آیا تھا۔ یکایک شاہ بغداد کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہو گئیں۔ یہ خوشی اور عقیدت کے آنسو تھے پھر فرمانروائے بغداد حضرت شمس تبریزؒ کے قدموں میں جھک گیا۔ "یہ سب کچھ آپ کی دعاؤں کا نتیجہ ہے۔"
"ہر گز نہیں!" حضرت شمس تبریزؒ نے شاہ بغداد کو اٹھاتے ہوئے کہا۔ "یہ تو اس قادرِ مطلق کی کرم نوازی کا ادنیٰ مظاہرہ ہے جو اپنی ذات میں لاشریک ہے بس اسی کا شکر ادا کرو اوراسی کی تسبیح بیان کرو۔"
یہ حضرت شمس تبریزؒ کی بڑی کرامت تھی مگر یہی کرامت ان کے لئے وبال جاں بن گئی۔ جب علمائے بغداد کو حضرت شمس تبریزؒ کی واپسی اور شہزادے کے زندہ ہونے کی خبر ملی تو وہ دوبارہ ایک نئے منصوبے کےساتھ اس مردِ قلندر کے خلاف صف آرا ہو گئے۔ کہا گیا کہ یہ شعبدہ بازی ہے اور اسلام میں شعبدہ بازی کی کوئی گنجائش نہیں۔
شاہ بغداد نے بڑے دلائل کے ساتھ حضرت شمس تبریزؒ کا دفاع کیا۔ "اگر یہ شعبدہ بازی ہے تو پھر آپ میں سے کوئی شخص بغداد کے عوام کے سامنے ایسا کوئی مظاہرہ پیش کر دے پھر میں سمجھ لوں گا کہ حضرت شمس تبریزؒ شعبدہ باز ہیں۔"
"ہم اہلِ ایمان ہیں اور ہمیں شعبدہ بازی سے کوئی نسبت نہیں۔" علمائے بغداد نے بیک زبان کہا۔ "شمس تبریز نے پہلے اپنی ساحرانہ قوتوں سے شہزادے کو بے ہوش کر دیا پھر خود ہی جادو کے اثر کو زائل کر دیا۔ نتیجتہً شہزادہ ہوش میں آ گیا اور سادہ لوح عوام سمجھنےلگےکہ ولی عہد سلطنت ایک مرد خدا کی دعاؤں سے دوبارہ زندہ ہو گیا۔ یہ سب فریبِ نظر ہے اسی کو شعبدہ بازی کہتے ہیں اور اسی کا نام جادوگری ہے۔ اگر وہ شخص ایسا ہی مستجاب الدعوات ہے تو پھر کسی قبرستانمیں جا کر دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دے اور ان مردوں کو زندہ کر دے جو برسوں سے گہری نیند سو رہے ہیں۔"
عجیب کج بحثی کی فضاء تھی۔ شاہ بغداد نے حضرت شمس تبریزؒ کی بہت حمایت کی مگر علمائے بغداد یہی کہتے رہے۔ "وہ ایک ساحر ہے اور اسلام میں ساحری حرام ہے۔" بالآخر ایک طویل بحث کے بعد علمائے بغداد نے حضرت شمس تبریزؒ پر کفر کا فتویٰ لگا دیا اور مطالبہ کیا کہ ان کی کھال کھنچوا کر بغداد سے باہر نکال دیا جائے۔
بغداد کے تمام اراکین سلطنت بھی علماء کے ہم نوا تھے۔ انجام کار بادشاہ کی مرضی کے خلاف بھرے مجمع میں حضرت شمس تبریزؒ کی کھال کھینچ لی گئی اور اس حالت میں بغداد سے نکال دیا گیا کہ پورا جسم لہو لہان تھا ولی عہد سلطنت شہزادہ محمد کو حضرت شمس تبریزؒ سے بہت عقیدت تھی جب آپ شہر بدر ہوئے تو شہزادہ محمد بھی آپ کے ہمراہ تھا رخصت ہوتے وقت اس نے اپنے امرائے سلطنت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا۔
"جس ملک میں حضرت شمس تبریزؒ جیسے صاحبِ کمال کے ساتھ یہ سلوک کیا جائے وہ ایک لعنت کدہ ہے اور میں اس لعنت کدے میں سانس لینا بھی گناہ سمجھتا ہوں۔" یہ کہہ کر شہزادہ محمد حضرت شمس تبریزؒ کے ساتھ بغداد کی حدود سے نکل گیا۔
بغداد سے نکل کر حضرت شمس تبریزؒ نے ہندوستان کا رخ کیا اور طویل مسافت طے کر کے ملتان پہنچے اور پھر اسی تاریخی شہر میں سکونت پذیر ہو گئے اس وقت مشہور بزرگ حضرت بہاءالدین زکریا ملتانیؒ حیات تھے۔ جب آپ کو حضرت شمس تبریزؒ کی آمد کی اطلاع ملی تو شیخ نے ان کی خدمت میں دودھ کا پیالہ بھیجا۔
حضرت شمس تبریزؒ نے بڑے احترام کے ساتھ پیالہ لے لیا اور پھر اس میں گلاب کا پھول ڈال کر حضرت بہاء الدین زکریا ملتانیؒ کے خادم کو واپس کر دیا۔ بعض اہل تصوف نے اس واقعے کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ دودھ کا لبریز پیالہ بھیجنے سے حضرت بہاء الدین زکریاؒ کی مراد یہ تھی کہ ملتان میں اب کسی دوسرے درویش کی گنجائش نہیں۔ جواب میں حضرت شمس تبریزؒ نے دودھ کے پیالے میں گلاب کا پھول ڈال دیا اس سے ان کا مقصد تھا کہ وہ ملتان میں پھول بن کر رہیں گے یعنی ان کی ذات سے کسی کو ضرر نہیں پہنچے گا۔
حضرت شمس تبریزؒ اپنے عہد پر قائم رہے مگر ملتان کے لوگوں نے بھی اہل بغداد کی طرح آپ کی شدید مخالفت کی۔ ایک بار یوں ہوا کہ حضرت شمس تبریزؒ کو گوشت بھوننے کے لے آگ کی ضرورت پیش آئی۔ آپ نے شہزادہ محمد کو آگ لانے کے لئے بھیجا مگر پورے شہر میں کسی نے آگ نہیں دی۔ ایک سنگدل شخص نے تو شہزادے کو اتنا مارا کہ اس کے دلکش چہرے پر زخموں کے نشانات ابھر آئے۔
"یہ کیا ہے؟" حضرت شمس تبریزؒ نے شہزادے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ "تم تو آگ لینے گئے تھے۔"
شہزادہ محمد نے پورا واقع سنایا تو حضرت شمس تبریزؒ کو جلال آ گیا آپ نہایت غصے کی حالت میں اپنی خانقاہ سے نکلے۔ گوشت کا ٹکڑا ہاتھ میں تھا۔ پھر حضرت شمس تبریزؒ نے آسمان پر نظر کی اور سورج کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔
"تو بھی شمس! میں بھی شمس! میرے اس گوشت کے ٹکڑے کو بھون دے۔"
اتنا کہنا تھا کہ یکایک گرمی کی شدت میں اضافہ ہو گیا پھر یہ گرمی اتنی بڑھی کہ اہل ملتان چیخ اٹھے۔ در و دیوار جل رہے تھے اور پورا شہر آگ کی بھٹی بن کر رہ گیا تھا۔
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: حضرت مولانا جلال الدّین رومی

Post by ایکسٹو »


کچھ با خبر لوگوں نے یہ صورتحال دیکھی تو حضرت شمس تبریزؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے۔ "کیا چند نادانوں کے جرم کی سزا پورے شہر کو دے ڈالیں گے۔"
"یہ نادان نہیں، سفاک ہیں۔" حضرت شمس تبریزؒ نے غضب ناک لہجے میں فرمایا۔ "آگ جیسے بے قیمت چیز نہیں دے سکے۔میرے محبوب کے چہرے کو زخموں سے سجا دیا۔ آخر کیا جرم تھا اس کا؟ جانتے ہو اسے یہ کون ہے؟ بغداد کا شہزادہ ہے۔ میری خاطر دروازے دروازے بھیک مانگنے گیا۔ میں اس کے زخموں کو کیسے بھول سکتا ہوں؟ جب تک سارے شہر کے جسم آبلوں سے نہیں بھر جائیں گے اس وقت تک مجھے قرار نہیں آئے گا۔"
"یہ آپ کے مقام سے واقف نہیں۔ خدا کے لئے انہیں معاف کر دیجئے۔" ملتان کے دانائے راز حضرات نے اپنے ہم وطنوں کی سفارش کرتے ہوئے کہا۔"اور یہ بات آپ جیسے بزرگ کے شایانِ شان بھی نہیں۔"
"خیر! جب خدا کو درمیان میں لے آئے ہو تو معاف کئے دیتا ہوں۔" حضرت شمس تبریزؒ نے مقامی لوگوں کی جماعت سے فرمایا اور پھر سورج سے مخاطب ہوئے۔ "اپنی حرارت کم کر دے۔ پتا نہیں یہ لوگ روز حشر کی گرمی کو کیسے برداشت کریں گے؟" آپ کا یہ فرمانا تھا کہ سورج کی حرارت اعتدال پر آ گئی۔
خدا ہی جانتا ہے یہ واقع کس طرح پیش آیا تھا مگر عوام ملتان کی گرمی کو اسی واقعے کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔
675ھ میں حضرت شمس تبریزؒ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ آپ کا مزار مبارک ایک قلعہ نما فصیل کے اندر شیخ محمد جمال ملتانی کے روضے سے کچھ فاصلے پر ہے۔
مشہور مورخ قاسم فرشتہ نے تحریر کیا ہے کہ حضرت شمس تبریزؒ اسماعیلی فرقے سے تعلق رکھتے تھے ہر چند کہ تاریخ میں فرشتہ ایک معتبر نام ہے مگر حضرت شمس تبریزؒ کے بارے میں اس کی یہ روایت درجہ اعتبار سے ساقط ہے بعد میں آنے والے مورخین نے اپنی تحقیق سے ثابت کر دیا ہے کہ شمس تبریزؒ کے والد سید اصلاح الدینؒاس بزرگ کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے جو فرقہ اسماعیلیہ کا امام تھا مگر انہوں نے اپنا آبائی مذہب ترک کر دیا تھا۔دوسرے یہ کہ مولانا جلال الدین رومیؒ جیسے عالم و فاضل انسان کبھی اس شخص کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ نہیں دیتے جو ان کے عقیدے سے مختلف عقیدہ رکھتا ہو اسی لئے حضرت شمس تبریزؒ کو اسماعیلی کہنا صریحاً غلط ہے۔ دراصل یہ ان لوگوں کی الزام تراشی تھی جن کا ظاہری علم حضرت شمس تبریزؒ کے روحانی کمالات کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔ اس بحث سے قطع نظر حضرت شمس تبریزؒ بابا کمال جندی کے مرید ہوئے لیکن عام صوفیوں کی طرح"پیری مریدی" اور"بیعت واردات" کا طریقہ اختیار نہیں کیا سوداگروں کے انداز میں شہروں کی سیاحت کرتے رہتے جہاں جاتے کسی سرائے میں ٹھہرتے اور پھر ایک گوشہ پکڑ کر مراقبے میں مصروف ہو جاتے۔
حضرت شمس تبریزؒ کا ذریعہ معاش مزدوری تھا۔ آپ ازار بند بُنتے تھے اور اسی کو فروخت کر کے روزی حاصل کرتے تھے۔ ایک بار مناجات کے وقت یہ دعا مانگی۔
"الہٰی! کوئی بندۂ خاص ملتا جو میری صحبت کا متحمل ہو سکتا۔"
عالم غیب سے اشارہ ہوا کہ روم چلے جاؤ وہاں تمہاری مراد پوری ہو جائے گی۔
حضرت شمس تبریزؒ اسی وقت چل کھڑے ہوئے۔ قونیہ پہنچے تو رات کا وقت ہو چکا تھا۔ "بربخ فروشوں" کی سرائے میں اترے صبح ہوئی تو آپ نے دیکھا کہ سرائے کے دروازے پر ایک بلند چبوترہ تھا شہر کے اکثر امراء اور صاحبانِ ثروت تفریح کے لئے اسی چبوترے پر آ بیٹھتے تھے۔ حضرت شمس تبریزؒ بھی ایک گوشے میں بیٹھ جاتے اور خاموشی سے آنے جانے والوں کو دیکھتے رہتے۔ایک دن مولانا جلال الدین رومیؒ اسی روستے سے گزرے تو حضرت شمس تبریزؒ چونک اٹھے۔ مولانا کے ہزاروں شاگرد تھے جو ہاتھ باندھے اور نظریں جھکائے اپنے استاد کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے۔ دیکھنے والوں کو ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے کسی شہنشاہ کی سواری گزر رہی ہو۔
حضرت شمس تبریزؒ کے دل سے آواز آئی۔ "یہی ہے وہ مردِ خاص جو تیری صحبت کا متحمل ہو سکتا ہے۔"
جب مولانا جلال الدین رومیؒ چلے گئے تو حضرت شمس تبریزؒ نے کسی مقامی باشندےسے پوچھا۔ "یہ صاحب کون ہیں جو ابھی ابھی یہاں سے گزرے ہیں، بڑی شان ہے ان کی۔"
"یہ مولانا جلال الدین رومیؒ ہیں۔" بتانے والے نے بتایا۔ "یہاں کے سب سے بڑے عالم۔ کوئی شخص ان کے علم و فضل کی ہمسری نہیں کر سکتا۔"
حضرت شمس تبریزؒ نےاسی شخص سے مولانا رومؒ کی خانقاہ کا پتا پوچھا اور دوسرے دن مولاناؒ کے کتب خانے میں جا پہنچے پھر کتابیں جلنے کا وہ مشہور واقع پیش آیا۔
ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ ایک دن حضرت شمس تبریزؒ نے مولانا رومؒ سے پوچھا۔
"حضرت با یزید بسطامیؒ کے ان دونوں واقعات میں کیونکر تطبیق ہو سکتی ہے۔ ایک طرف تو با یزیدؒ کا یہ حال تھا کہ آپ نے اس خیال سے زندگی بھر خربوزہ نہیں کھایا کہ پتا نہیں، سرور کونینﷺ نے اسے کس طرح کھایا ہے؟ دوسری طرف اپنے بارے میں فرمایا کرتے تھے۔ "اللہ اکبر! میری شان کس قدر بڑی ہے؟" حالانکہ حضورِ اکرم ﷺ تمام تر عظمتوں اور بزرگیوں کے باوجود فرمایا کرتے تھے کہ میں دن بھر ستر بار استغفار کرتا ہوں۔"
جواب میں مولانا رومؒ نے فرمایا۔ "اگر چہ با یزید بسطامیؒ بہت پائے کے بزرگ تھے لیکن مقام ولایت میں وہ ایک خاص درجے پر ٹھہر گئے گئے تھے اور اس درجے کی عظمت کے زیرِ اثر ان کی زبان سے ایسے الفاظ نکل جاتے تھے۔ اس کے برعکس رسالت مآبﷺ منازلِ تقریب میں برابر ایک پائے سے دوسرے پائے پر چڑھتے جاتے تھے۔ اس لئے جب بلند پائے پر پہنچتے تو پہلا پایہ اس قدر پست نظر آتا تھا کہ اس سے استغفار کرتے تھے۔"
مولانا رومؒ کا جواب سن کر حضرت شمس تبریزؒ بہت خوش ہوئے۔
بغداد کے شہزادے محمد کی طرح مولانا رومؒ بھی حضرت شمس تبریزؒ کی شخصیت کے اسیر ہو گئے تھے پھر یہ اسیری اس قدر بڑھی کے مولانا رومؒ ساری دنیا سے بے نیاز ہو گئے۔ مولانا کے شاگرد اور اہل خانہ حضرت شمس تبریزؒ کو جادو گر کہہ کر پکارنے لگے۔ یہ تمام باتیں کسی بڑے ہنگامے کا پیش خیمہ تھیں۔ حضرت شمس تبریزؒ اس صورتحال کو زیادہ دن برداشت نہ کر سکے۔۔۔ اور پھر ایک رات جب تمام لوگ گہری نیند سوئے ہوئے تھے حضرت شمس تبریزؒ خاموشی کے ساتھ گھر سے نکل گئے۔
صبح جب مولانا رومؒ بیدار ہوئے تو اپنے پیر و مرشد کو نہ پاکر مولانا کے دل پر قیامت گزر گئی۔ دیوانہ وار ہر طرف ڈھونڈتے پھرے شہر کا گوشہ گوشہ چھان مار مگر حضرت شمس تبریزؒ قونیہ کی حدود سے بہت دور جا چکے تھے۔ مولانا رومؒ کے شاگرد اور اہل خاندان حضرت شمس تبریزؒ کی روپوشی سے بہت خوش تھے۔ وہ لوگ برملا کہا کرتے تھے۔
"خدا کا شکر ہے کہ وہ جادوگر یہاں سے چلا گیا۔ اب مولانا اس کے طلسم سے آزاد ہو جائیں گے۔"
حضرت شمس تبریزؒ کی گمشدگی کے بارے میں صرف ایک شخص سپہ سالار نے جو مولانا رومؒ کی خدمت میں چالیس سال گزار چکے تھے لکھا ہے کہ وہ فتنے کے خوف سے شب کی تاریکی میں کہیں چلے گئے تھے اس دور میں مولانا کے بعض انتہاپسند مریدوں نے حسد کی وجہ سے حضرت شمس تبریزؒ کو قتل کر دیا۔
اخبارالصالحین کے مصنف کا بیان ہے کہ ایک بار حضرت شمس تبریزؒ مولانا رومؒ کے پاس خلوت میں بیٹھے تھے کہ کسی نے باہر سے آواز دے کر آپ کو بلایا۔ حضرت شمس تبریزؒ نے مولانا رومؒ کو مخاطب کر کے فرمایا۔
"مجھے قتل کرنے کے لئے بلاتے ہیں۔"
ابھی مولانا جلال الدین رومیؒ صورت حال کو سمجھنے بھی نہیں پائے تھے کہ حضرت شمس تبریزؒ اٹھ کر باہر چلے گئے۔ سات افراد آپ کے انتظار میں کھڑے تھے جیسے ہی حضرت شمس تبریزؒ باہر تشریف لائے ان لوگوں نے آپ پر حملہ کر دیا قتل ہوتے وقت حضرت شمس تبریزؒ نے اس قدر زور سےنعرا مارا کہ ساتوں آدمی بے ہوش ہو گئے۔ پیر و مرشد کی چیخ سن کر جب مولانا رومؒ خلوت کدے سے باہر آئے تو حضرت شمس تبریزؒ کی لاش موجود نہیں تھی ۔ صرف خون کے چند قطرے فرش پر نظر آئے۔ حضرت شمس تبریزؒ کے قاتلوں میں مولانا رومؒ کا بیٹا علاء الدین محمد بھی تھا۔ اس واقعہ کے بعد مولانا رومؒ نے زندگی بھر بیٹے کا منہ نہیں دیکھا پھر کچھ دن بعد علاء الدین محمد ایک عجیب و غریب بیماری میں مبتلا ہو گیا۔ بیماری کے دوران اس نے عزیزوں کے ذریعے مولانا رومؒ سے معافی طلب کی مگر مولانا نےاسے معاف نہیں کیا پھر کچھ دن بعد علاء الدین محمد شدید اذیت و کرب کے عالم میں مر گیا۔ مولانا رومؒ نے اس کے جنازے تک میں شرکت نہیں کی۔ حضرت شمس تبریزؒ کے قتل کا یہ واقعہ 645ھ میں پیش آیا۔
اس سلسلے میں یہ روایت بھی مشہور ہے کہ حضرت شمس تبریزؒ کو قتل کر کے آپ کی لاش کے ٹکڑے ایک کنویں میں ڈال دیئے گئے تھے۔ کچھ دن بعد مولانا رومؒ کے دوسرے فرزند سلطان ولد کو خواب میں بشارت ہوئی حضرت شمس تبریزؒ فرما رہے تھے۔
"میرے جسم کے ٹکڑوں کو کنویں سے نکال کر مدرسے کے بانی امیر بدر الدین کے پہلو میں دفن کر دو۔" چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔
بعض مورخین کہتے ہیں کہ آپ قتل نہیں ہوئے بلکہ غائب ہو گئے اور پھر آپ کا کوئی سراغ نہیں ملا۔
پھر وہ کون سے شمس تبریزؒ ہیں جو ملتان میں مدفون ہیں بیشتر مورخین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ یہ وہی شمس تبریزؒ ہیں جو مولانا جلال الدین رومیؒ کے پیر و مرشد تھے۔ پھر قونیہ میں کون قتل ہوا؟ بہرحال ایسے بہت سے سوالات ہیں جن کا جواب دینا آسان نہیں ہم نے قارئین کی معلومات کے لئے تمام روایتیں جمع کر دی ہیں۔
روایتوں میں ہزار اختلاف کے باوجود حضرت شمس تبریزؒ مولانا رومؒسے ایک بار بچھڑے تو پھر دوبارہ نہیں ملے۔ اگرچہ دونوں بزرگوں کی یہ ملاقاتیں زیادہ عرصے تک قائم نہ رہ سکیں لیکن جو کچھ ہونا تھا وہ چند مہنیوں میں ظہور پذیر ہو گیا۔ حضرت شمس تبریزؒ کی ایک نگاہ کا یہ اثر تھا کہ مولانا رومؒ جیسے نادرِ روزگار عالم آخری سانس تک اس مردِ قلندر کی شخصیت کے طلسم سے آزاد نہ ہو سکے۔
مگر یہ ان کا خام خیال تھا۔ مولانا رومؒ کی بے قراریاں کچھ اور بڑھ گئیں۔ راتیں پہلے بھی بے آرام گزرتیں تھیں، اب مکمل بے خواب ہو گئیں۔ پہلے مولانا کے دل میں سوز و گداز پنہاں تھا اب آنکھوں سے بھی اس کا اظہار ہونے لگا تھا۔ شمس تبریزؒ کو یاد کر کے اس قدر گریہ و زاری کرتے کہ لوگوں کو آپ کی حالت پر ترس آنے لگتا۔ اسی زمانے میں مولانا رومؒ نے اس قدر درد ناک اشعار کہے کہ انہیں سن کر اہل دل کی آنکھیں بھیگ جاتیں تھیں۔
اس سلسلے میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ حضرت شمس تبریزؒ رات کے اندھیرے میں قونیہ سے نکل کر دمشق تشریف لے گئے۔ مولانا رومؒ کو اپنے مرشد کے فراق میں ایسا صدمہ پہنچا کہ سب لوگوں سے قطع تعلق کر کے گوشہ نشیں ہو گئے۔ یہاں تک کہ مریدان خاص کو بھی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ پھر ایک مدت کے بعد حضرت شمس تبریزؒ نے دمشقسے مولانا کوخط لکھا۔ اس خط نے آتشِ عشق کو بھڑکا دیا۔ مولانا رومؒ نے اس زمانے میں نہایت رقت آمیز اور پُر اثر اشعار کہے جن لوگوں نے حضرت شمس تبریزؒ کی شخصیت کو ہدفِ ملامت بنایا تھا، انہیں سخت ندامت ہوئی۔ سب لوگ مولانا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور معافی کی درخواست کی۔
حضرت شمس تبریزؒ سے بچھڑنے کے بعد مولانا رومؒ نے ایسی شاعری کی جو عشق و سر مستی اور سوز و گداز سے لبریز تھی۔ یہ شمس تبریزؒ کی نگاہِ دلنواز ہی کا فیض تھا کہ مولانا نے اپنی شہرۂ آفاق تصنیف "مثنوی مولانا روم"پیش کر کے عالمِ انسانیت پر احسان عظیم کیا ہے یہ شاعری کی ایسی عظیم و جلیل کتاب ہے کہ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی عالمی ادب میں اس کا حریف نظر نہیں آتا۔۔۔ اور جہاں تک مسلمانوں کی عقیدت کا تعلق ہے تو آج بھی مولانا کی اس تصنیف کو پڑھنے سے پہلے بوسہ دیا جاتا ہے اور نہایت عظمت و احترام سے سروں پر رکھا جاتا ہے دنیا کہ تمام اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ اگر حضرت شمس تبریزؒ مولانا رومؒ سے ملاقات نہ کرتے تو شاید یہ عجوبۂ روزگار کتاب بھی دائرہ تحریر میں نہ آتی خود مولانا رومؒ نے بھی اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے ؎
مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم
تا غلام شمس تبریزی نہ شد
(مولانا روم اس وقت تک مولوی نہ ہو سکے جب تک شمس تبریزؒ کی غلامی اختیار نہ کر لی)
اس شعر سے اہلِ نظر اندازہ کر سکتے ہیں کہ حضرت شمس تبریزؒ کیا تھے اور کم نظروں کے حسد نے کیسے برگزیدہ شخص کو مولانا رومؒ سے بچھڑ جانے پر مجبور کر دیا تھا۔
٭٭………٭٭………٭٭
حضرت شمس تبریزؒ کی چند روزہ صحبتوں نے مولانا رومؒ کو قلندر بنا ڈالا تھا۔ان ملاقاتوں سے پہلے مولانا کا یہ حال تھا کہ شاہانِ وقت کے دربار سے بھی تعلق رکھتے تھے، قیمتی لباس پہنتے تھے اور جب گھر سے نکلتے تو اس شان سے کہ سکڑانوں افراد پیچھے پیچھے ہوتے اور آپ نہایت جاہ و جلال کے ساتھ آگے آگے چلتے۔۔۔ اگر کوئی اجنبی یہ نظر دیکھ لیتا تو یہی سمجھتا کہ کوئی حاکم اپنے تمام تر جلال و جبروت کے ساتھ گزر رہا ہے۔۔۔ مگر جس دن سے حضرت شمس تبریزؒ کی غلامی اختیار کی تو آپ کی دنیا ہی بدل گئی۔
ریاضت اور مجاہدہ اس قدر بڑھا ہوا تھا کہ کسی مرید یا خادم نے مولانا رومؒ کو شب خوابی کے لباس میں نہیں دیکھا۔ یہاں تک کہ تکیہ اور بستر بھی نہیں ہوتا۔ اگر نیند غالب آ جاتی تو بیٹھے بیٹھے سو جاتے۔ اکثر روزہ رکھتے ۔تھے آج کوئی شخص مشکل سے اس بات پر یقین کرے گا کہ مولانا رومؒ پانی سے افطار کیا کرتے تھے اور مسلسل دس دس، بیس بیس دن، تک کچھ نہیں کھاتے تھے۔ اذان ہوتی تو فوراً قبلے کی طرف مڑ جاتے اور چہرۂ مبارک کا رنگ بدل جاتا۔
نماز میں اتنا استغراق ہوتا کہ گرد و پیش کی خبر نہ رہتی۔ خادموں نے بار ہا اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھا کہ عشاء کے بعد نماز کی نیت باندھی تو دو رکعتوں میں صبح ہو گئی۔ ایک بار جاڑوں کا موسم تھا۔ مولانا رومؒ نماز کے دوران رونے لگے اور یہاں تک روئے کہ داڑھی اور سینہ آنسوؤں سے تر ہو گیا۔ خادم سپہ سالار کا بیان ہے کہ سردی کی شدت کے باعثآنسو رخساروں پر جمنے لگے۔ مگر مولانا کی محویت میں کوئی فرق نہیں آیا۔
آپ کا مزاجانتہائی قناعت پسندانہ تھا۔ سلاطین و امراء جس قدر تحائف بھیجتے، مولانا رومؒ اپنے مریدانِ خاص صلاح الدین زوکوبؒ یا حسام الدین چلپیؒ کے پاس یہ ہدایت دے کر بھیج دیتے کہ انہیں فوری طور پر ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیا جائے کبھی کبھی ایسا ہوتا کہ گھر میں بہت زیادہ تنگی ہوتی اور مولانا کے صاحب زادے سلطان ولد اصرار کرتے تو حسبِ ضرورت تھوڑی بہت رقم رکھ لیتے۔ جس دن گھر میں کھانے کا سامان نہ ہوتا اس روز مولانا رومؒ بہت خوش ہوتے اور بڑے والہانہ انداز میں فرماتے۔
"آج ہمارے گھر سے درویشی کی بو آتی ہے۔"
مولانا رومؒ کی فیاضی کا یہ عالم تھا کہ جب کوئی مانگنے والا سوال کرتا اور مولانا کے پاس دینے کے لئے کچھ نہ ہوتا تو اپنی عبا یا پیرہن اتار کر دے دیتے۔
٭٭………٭٭………٭٭

مولانا جلال الدین رومیؒ کی رفیق القلبی اور شدتِ احساس کا یہ عالم تھا کہ کسی شخص کی ذرا سی تکلیف بھی برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ اس کے برعکس اپنی ذات پر آفات و مصائب کے پہاڑ بھی ٹوٹ پڑے تو حرفِ شکایت زبان تک نہ لاتے۔ ایک بار شدید سردی پڑ رہی تھی۔ مولانا رومؒ کسی کام سے اپنے خلیفہ حسام الدین چپلیؒ کے مکان پر تشریف لے گئے رات بہت زیادہ گزر چکی تھی۔ مولانا جب وہاں پہنچے تو حسام الدینؒ کے گھر کے تمام دروازے بند ہو چکے تھے اگر مولانا چاہتے تو نصف شب بھی اس مکان پر دستک دے کر اہل خانہ کو بیدار کر سکتے تھے اور آپ کا یہ عمل حسام الدین چلپیؒ کے لئے باعث شرف ہوتا۔۔۔لیکن مولانا رومؒ نے دروازہ کھٹکھٹایا اور نہ کسی کو آواز دی۔ رات بھر کھلے آسمان کے نیچے کھڑے رہے اور برف گر کر سر پر جمتی رہی۔ صبح جب حسام الدین چلپیؒ کے ایک خادم نے دروازہ کھولا اور مولانا کو اس حالت میں کھڑے دیکھا تو اس کے ہوش اڑ گئے۔وہ بدحواسی کے عالم میں مکان کے اندر گیا اور حسام الدین چلپیؒ کو خبر دی۔ مولانا رومؒ کے خلیفہ دیوانہ وار ننگے پاؤں بابگتے ہوئے آئے اور پیر و مرشد کے قدموں میں سر رکھ کر رونے لگے۔ مولانا نے انہیں اٹھا کر گلے سے لگایا اور بہت دیر تک تسلی دیتے رہے۔ جب حسام الدینؒ کے آنسو رک گئے تو فرمایا۔
"میں نے مناسب نہیں سمجھا کہ تمہاری نیند میں خلل پڑے اور میری وجہ سے دوسرے مکینوں کو زحمت ہو۔"
یہ واقعہ اس قدر اثر انگیز تھا کہحسام الدین چلپیؒ آخری سانس تک اس رات کو فراموش نہ کر سکے۔ اکثر اپنے مریدوں کو درس دیتے ہوئے فرمایا کرتے تھے۔
"پیر و مرشد کا یہ عمل اس لئے تھا کہ ہم درویشی کا مفہوم سمجھ سکیں اور اپنی آنکھوں سے خدمتِ خلق کی زندہ تصویر دیکھ سکیں۔"
٭٭………٭٭………٭٭

شہر قونیہ میں گرم پانی کا ا یک چشمہ تھا۔ مولانا رومؒ کبھی کبھی وہاں غسل کے لئے تشریف لے جایا کرتے تھے۔ ایک بار مولانا نے اس چشمے پر جانے کا ارادہ ظاہر کیا۔ کچھ مریدوں اور خادموں نے ایک دن پہلے وہاں جا کر آپ کے غسل کے لئے مخصوص جگہ کا انتظام کر دیا دوسرے روز جب مولانا رومؒ وہاں تشریف لے گئے تو آپ کی آمد سے چند لمحے قبل کچھ جذامی (کوڑھی)اس مقام پر نہانے لگے خادموں نے خوفناک مرض میں مبتلا انسانوں کو ڈانٹ کر اس جگہ سے ہٹانا چاہا تو مولانا رومؒ نے سختی کے ساتھ منع کر دیا جب وہ جذامی نہا کر چلے گئے تو آپ نے اسی جگہ کا پانی لے کر غسل کیا اور پھر اپنے خادم سے فرمایا۔
"احتیاط اچھی چیز ہے مگر ایسے بیماروں سے نفرت نہیں کرنی چاہئے یہ لوگ بھی کل تک تمہاری طرح خوبصورت جسموں کے مالک تھے۔"
٭٭………٭٭………٭٭

ایک بار محفل سماع آراستہ تھا۔مولانا رومؒ نہایت سکون سے عارفانہ کلام سن رہے تھے۔۔۔ مگر دوسرے لوگوں کا یہ حال تھا کہ کوئی فرش پر تڑپ رہا ہے اور کوئی اپنا گریبان چاک کر رہا ہے۔ اتفاق سے ایک شخص نے سماع کا کچھ زیادہ ہی اثر قبول کر لیا اور وہ اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا۔ بے خودی حد سے بڑھ گئی تو وہ کسی بسمل کی طرح لوٹنے لگا۔ تڑپتے تڑپتے اس پر ایک شدید کیفیت طاری ہوتی کہ وہ مولانا سے آ کر ٹکرا جاتا اور لوگ اسے پکڑ کر دور کر دیتے۔ کچھ دیر تک تو حاضرین نے اس پر کوئی دھیان نہیں دیا لیکن جب اس شخص سے کئی مرتبہ یہی حرکت سرزد ہوئی تو مولانا کے خادموں نے اسے پکڑا اور محفل میں دور لے جا کر بٹھا دیا۔ مولانا رومؒ کو یہ بات بہت ناگوار گزری۔ آپ نے اپنے خدمت گاروں سے تلخ لہجے میں فرمایا۔
"شراب اس نے پی ہے اور مستی تم کر رہے ہو۔"
٭٭………٭٭………٭٭

ایک بار مولانا رومؒ کی شریکِ حیات نے اپنی ملازمہ کو سخت سزا دی۔ اتفاقاً مولانا بھی اس وقت تشریف لے آئے۔ بیوی کی یہ حرکت دیکھ کر بہت ناراض ہوئے اور غم زدہ لہجے میں فرمانے لگے۔ "تم نے خدا کی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کیا۔ یہ اسی کی ذات پاک ہے جو غلاموں کو آقا اور آقاؤں کو غلام بنا دیتی ہے۔ ایک لمحے کے لئے اس وقت کا تصور کرو جب تم کنیز ہوتیں اور یہ عورت مالکہ کی حیثیت رکھتی، پھر تمہارا کیا حال ہوتا۔؟" مولانا کی یہ اثر انگیز گفتگو سن کر شریک حیات نے اس ملازمہ کو آزاد کر دیا اور پھر جب تک زندہ رہیں، خادماؤں کو اپنے جیسا کھلاتیں اور پہناتیں یہاں تک کہ ہر معاملے میں محبت سے پیش آتیں۔
مولانا رومؒ کا یہ سلوک انسانوں ہی کے لئے مخصوص نہیں تھا۔ آپ تو اس بارش کی طرح تھے جو سبزۂ گل کے ساتھ پتھر کی چٹانوں پر بھی برستی ہے۔ ایک بار امیرِ شہر معین الدین پروانہ کے یہاں محفل سماع جاری تھی۔ کسی معزز خاتون نے شرکائے مجلس کی تواضع کے لئے مٹھائی کے دو بڑے طباق بھیجے۔ بیشتر حاضرین کلامِ معرفت میں کھوئے ہوئے تھے۔ اتفاق سے ایک کتا محفل میں گھس آیا اور اس نے آتے ہی طباق میں منہ ڈال دیا۔اہل محفل میں سے کسی کی نظر پری تو اس نے بلند آواز میں کتے کو ڈانٹ کر بھگانا چاہا۔ مولانا رومؒ جو بہت دیرسے آنکھیں بند کئے سماع کی کیفیت میں گم تھے۔ چیخ سن کر چونک پڑے اور جب یہ منظر دیکھا تو اس شخص کو ہاتھ کے اشارے سے روک دیا جو کتے کو بھگانے کی کوشش کر رہا تھا۔کتے نے گھبرا کر شیرینی کھانی شروع کر دی اور پھر کچھ مٹھائی کے دانے منہ میں دبا کر محفل سے چلا گیا کتے کے جانے کے بعد مولانا رومؒ نے فرمایا۔ "اس کی بھوک تم لوگوں کے مقابلے میں تیز تھی اس لئے مٹھائی پر بھی اس کا حق زیادہ تھا۔"
ایک بار مولانا اپنے مریدوں کے ہمراہ ایک تنگ گلی سے گزر رہے تھے۔ اتفاق سے وہاں ایک کتا اس طرح سو رہا تھا کہ راستہ بند ہو گیا تھا۔ مولانا چلتے چلتے رک گئے۔ اچانک ایک شخص جو مولانا رومؒ کو جانتا تھا گلی کی دوسری جانب سے آ رہا تھا۔ اس نے مولانا کو کھڑے دیکھ کر کتے کے پتھر مارا۔ وہ چیختا ہوا بھاگ گیا۔۔۔ راستہ تو صاف ہو گیا لیکن مولانا کے چہرے پر دلی تکلیف کے آثار صاف نظر آ رہے تھے۔ جب وہ شخص قریب آیا تو آپ نے اس سے فرمایا۔ "اے بندۂ خدا! تو نے ایک جانور کی دل آزاری کر کے کیا پایا؟ میں کچھ دیر اس کے جاگنے کا انتظار کر لیتا۔"
مولانا رومؒ کے مسلک میں دل آزاری گناہِ عظیم تھی۔ اگر کوئی چیونٹی بھی آپ کے پیروں کے نیچے آ کر کچلی جاتی تو مولانا کو بہت دکھ ہوتا۔ اکثر اوقات لوگوں کا دل رکھنے کے لئے بڑے سے بڑا نقصان برداشت کر لیتے۔ ایک مرتبہ مولانا رومؒ بازار سے گزر رہے تھے۔ لوگوں نے آپ کو آتا دیکھا تو اپنی اپنی دکانوں پر احتراماً کھڑے ہو گئے۔ جب کچھ لڑکوں کی آپ پر نظر پڑی تو وہ بھاگتے ہوئے آئے اور مولانا کے ہاتھوں کو بوسہ دینے لگے۔ مولانا بچوں کو خوش کرنے کے لئے جواباً ان کے ہاتھ چوم لیتے۔ ایک لڑکا کسی کام میں مشغول تھا اس نے چلا کر کہا۔ "مولانا ابھی جائیے گا نہیں میں ذرا کام سے فارغ ہو جاؤں۔" مولانا نے اس کی آواز سنی اور مسکرانے لگے۔ پھر آپ بہت دیر تک اس لڑکے کے انتظار میں کھڑے رہے جب وہ اپنے کام سے فارغ ہو کر آیا تو اس نے مولانا کے ہاتھوں کو بوسہ دیا تب آپ تشریف لے گئے۔
اسی طرح ایک دن بھرے بازار میں دو آدمی لڑ رہے تھے اور ایک دوسرے کو فحش گالیاں دے رہے تھے ان میں سے ایک کہہ رہا تھا۔ "او شیطان! اگر تو ایک کہے گا تو دس سنے گا۔۔۔"
مولانا رومؒ اس طرف سے گزر رہے تھے آپ اس شخص کے قریب آ گئے اور فرمایا۔ "بھائی تمہیں جو کچھ کہنا ہے مجھے کہہ ڈالو۔ اگر تم ہزار کہو گے تو جواب میں ایک بھی نہ سنو گے۔" مولانا کے حسنِ کلام نے دونوں کو شرمندہ کر دیا یہاں تک کہ وہ باہمی رنجش کو ختم کر کے آپس میں دوست ہو گئے۔
یہ تھے مولانا جلال الدین رومیؒ جو نصف صدی تک بے شمار بندگانِ خدا کا روحانی علاج کرتے رہے مگر یہ قدرت کا ایک عجیب نظام ہے کہ وقت معلوم پر بیماروں کی طرح مسیحا کو بھی دنیا سے رخصت ہونا پڑتا ہے۔۔۔ اور اب وہی سنگین وقت نزدیک آ پہنچا تھا۔ یہ670ھ کا واقعہ ہے۔ ایک دن قونیہ میں زبردست زلزلہ آیا۔ لوگ خوف و دہشت سے چیخنے لگے پھر مسلسل چار دن تک زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کئے جاتے رہے۔ شہر میں ایک قیامت سی برپا تھی۔ قونیہ کے کسی باشندے کو اپنی زندگی کا بھروسہ نہیں تھا کہ کب زمین میں شگاف پڑے اور وہ اپنے سازو سامان کے ساتھ ملکِ عدم روانہ ہو جائے۔ اس مسلسل اذیت ناک صورتحال سے گھبرا کر اہل شہر مولانا رومؒ کی خانقاہ میں حاضر ہوئے اور آپ سے دعا کی درخواست کرنے لگے۔
مولانا رومؒ نے حسبِ عادت دلنواز تبسم کے ساتھ فرمایا۔ "زمین بھوکی ہے، لقمہ تر چاہتی ہے۔ ان شاء اللہ اسے اپنے مقصد میں کامیابی حاصل ہو گی۔" پھر لوگوں کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔ "کوئی شخص ہراساں نہ ہو۔ جس پر گزرنا ہے، گزر جائے گی۔" انسانی ہجوم مطمئن ہو کر اپنے گھروں کو چلا گیا۔ مولانا کے اس ارشاد کے بعد ہی زلزلہ تھم گیا تھا۔ شہر قونیہ کی گم شدہ رونق لوٹ آئی تھی۔۔۔ مگر دوسرےدن ایک خبر نے لوگوں سے یہ ساری خوشیاں چھین لیں۔ مولانا رومؒ اچانک شدید بیماری کا شکار ہو گئے تھے۔ پورا شہر عیادت کے لئے امڈ آیا۔ بہترین طبیبوں نے علاج کیا لیکن مرض لحظہ بہ لحظہ بڑھتا گیا۔ مریدوں اور خادموں نے رو رو کر کہا۔ "آپ کی دعاؤں سے بے شمار مریضوں نے صحت پائی ہے۔ آج آپ ہماری خاطر اپنی صحت کے لئے دعا فرما دیجئے۔" مولانا نے عقیدت مندوں کی گفتگو سن کر دوسری طرف منہ پھیر لیا۔ حاضرین سمجھ گئے کہ وقتِ آخر قریب آ پہنچا ہے۔۔۔ اور پھر ایسا ہی ہوا، دوسرے دن غروبِ آفتاب سے ذرا پہلے مولانا رومؒ اپنے خدا کی وحدانیت اور خاتم النبیینﷺ کی رسالت پر گواہی دیتے ہوئے رخصت ہو گئے۔
قونیہ میں گھر گھر صف ماتم بچھ گئی۔ ہزاروں انسانوں نے شدتِ غم میں اپنے گریبان پھاڑ ڈالے۔ جنازہ اٹھا تو ایک سیل رواں تھا جو اپنے روحانی پیشوا کو آہوں اور اشکوں کی آخری نظر پیش کرتا ہوا قبرستان کی طرف جا رہا تھا۔ بادشاہِ وقت بھی جنازے میں شریک تھا۔ میت کے آگے سیکڑکوں عیسائی اور یہودی بھی انجیل اور توریت مقدس کی آیات پڑھتے ہوئے چل رہے تھے۔ ان غیر مسلموں کی آنکھیں اشکبار تھیں۔ اور ہونٹوں پر جانگداز نوحے تھے۔
بادشاہِ وقت نے ان عیسائیوں اور یہودیوں کی یہ حالت زار دیکھ کر پوچھا۔ "تمہیں مولانا سے کیا نسبت ہے۔"
جواب میں عیسائی اور یہودی علماء نے کہا۔ " یہ تمہاری طرح ہمارا بھی محبوب ہے۔"
مولانا رومؒ کی عظمت کی یہ ایک ایسی روشن دلیل تھی، جسے جھٹلایا نہیں جا ستاے تھا۔ انہیں زیرِ زمین سوئے ہوئے صدیاں گزر گئیں۔ مگر آج بھی یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ زندہ ہیں۔۔۔ جب ریڈیو پاکستان کے مستقلپروگرام میں کوئی خوش الحان قاری مثنوی مولانا رومؒ کے اشعار پڑھتا ہے تو اہل دل یہی سمجھتے ہیں کہ مولانا ہمارے درمیان موجود ہیں۔
شاعرِ مشرق علامہ اقبالؒ ذہنی اور روحانی اعتبار سے آخری سانس تک مولانا کے زیرِ اثر رہے۔ یہاں تک کہ علامہ نے اس مردِ جلیل کو "پیرِ روم" کہہ کر پکارا اور ہمیشہ اس کی روحانی شاگردی پر نازاں تھے ؎
صحبت پیر روم سے مجھ پر ہوا یہ راز فاش
لاکھ حکیم سر بہ حبیب ایک کلیم سر بکف
٭٭٭
اچھے اچھے اسلامی واقعات اور ناولز پڑھنے کیلے ہمیشہ سرفروش پیج پر ایکٹو رہیۓ‎ ‎اور اپنے‎ ‎دوستوں‎ ‎کو بھی یہاں انوائیٹ کیجۓ۔۔۔

صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
Post Reply

Return to “اسلامی کتب”