داستان ایمان فروشوں کی ۔۔جلد اول مکمل

اردو زبان میں لکھی جانے والی اسلامی کتابیں، آن لائن پڑھئے اور ڈاونلوڈ کیجئے
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: داستان ایمان فروشوں کی ۔۔جلد اول مکمل

Post by ایکسٹو »

"دوسری بیوی"

قاہرہ سے ڈیڑھ دومیل دور جہاں ایک طرفٍ ریت کے ٹیلے اور باقی ہر طرف صحراریت کے سمندر کی مانند اُفق تک پھیلا ہواتھا، انسانوں کے سمندر تلے دب گیا تھا۔ یہ لاکھوں انسانوں کا ہجوم تھا۔ ان میں شتر سوار بھی تھے اور گھوڑا سوار بھی ۔ بہت سے لوگ گدھوں پر بھی سوار تھے ۔ تعداد ان کی زیادہ تھی ،جن کے پاس کوئی سواری نہیں تھی ۔ لاتعداد ہجوم چار پانچ دنوں سے صحرا کی اس وسعت میں جمع ہونا شروع ہوگیا تھا۔ قاہرہ کے بازاروں میں بھیڑ اور رونق زیادہ ہوگئی تھی ۔ سرائے بھر گئی تھی ۔ یہ لوگ دور دور سے اس سرکاری منادی پر آئے تھے کہ چھ سات روز بعد قاہرہ کے مضافاتی ریگستان میں مصر ی فوج گھوڑ سواری ، شتر سواری، دوڑتے گھوڑوں اور اونٹوں سے تیر اندازی اور بہت سے جنگی کمالات کا مظاہرہ کرے گی ۔منادی میں یہ اعلان بھی کیاگیاتھا کہ غیرفوجی لوگ بھی ان مظاہروں میں جس کسی کو چاہیں تیغ زنی ، کُشتی ، دوڑتے گھوڑوں کی لڑائی اور تیر اندازی وغیرہ کے لیے للکار کر مقابلہ کرسکتے ہیں ۔

یہ منادی صلاح الدین ایوبی نے کرائی تھی ۔ اس کے دومقاصد تھے ۔ ایک یہ کہ لوگوں کو فوج میں بھرتی ہونے کی ترغیب ملے گی اور دوسرے یہ کہ جولوگ ابھی تک سلطان کو فوجی لحاظ سے کمزور سمجھتے ہیں ،ان کے شکوک رفع ہوجائیں ۔ سلطان ایوبی کو جب یہ اطلاعیں ملنے لگیں کہ لوگ چھ روز پہلے ہی تماشہ گاہ میں جمع ہونا شروع ہوگئے ہیں تو وہ بہت خوش ہوا مگر علی بن سفیان پریشان سا نظر آتاتھا۔ اس نے سلطان کے آگے اس پریشانی کا اظہار کربھی دیاتھا۔ سلطان ایوبی نے مسرت سے اُسے کہاتھا……''اگر تماشائیوں کی تعداد لاکھ ہوجائے تو ہمیں پانچ ہزار سپاہی تو مل ہی جائیں گے ''۔

''محترم امیر!''علی بن سفیان نے کہا…''میں تماشائیوں کے ہجوم کو کسی اور زاویے سے دیکھ رہاہوں ۔ میرے اندازے کے مطابق اگر تماشائیوں کی تعداد ایک لاکھ ہوئی تو اس میں ایک ہزار جاسوس ہوں گے ۔ دیہات سے عورتیں بھی آرہی ہیں ۔ان میں زیادہ تر سوڈانی ہیں ۔ان میں اکثر کا رنگ اتنا گوراہے کہ عیسائی عورت ان میں چھپ سکتی ہے ''۔

''میں تمہاری اس مشکل کو اچھی طرح سمجھتا ہوں علی ! ''سلطان نے کہا……''لیکن تم جانتے ہوکہ میں نے جس میلے کا انتظام کیاہے ، وہ کیوں ضروری ہے۔ تم اپنے محکمے کو اور زیادہ ہوشیار کردو''۔

''میں اس کے حق میں ہوں !'' ……علی بن سفیان نے کہا……''یہ میلہ بہت ہی ضروری ہے ۔ میں نے اپنی پریشانی آپ کو پریشان کرنے کے لیے نہیں بتائی ، صرف یہ اطلاع پیش کی ہے کہ یہ میلہ اپنے سات کیا خطرہ لارہاہے ۔ قاہرہ میں عارضی قحبہ خانے کھل گئے ہیں جو ساری رات شائقین سے بھرے رہتے ہیں ۔تماشائیوں میں سے بعض نے شہر کے باہر خیمے نصب کر لیے ہیں ۔میرے گروہ نے مجھے اطلاع دی ہے کہ ان میں بھی قمار بازوں اور عصمت فروشوں کے خیمے موجود ہیں ۔کل میلے کا دن ہے ۔ ناچنے گانے والیوں نے تماشائیوں سے دولت کے ڈھیر اکٹھے کر لیے ہیں ''۔

''میلہ ختم ہوجائے گا تو یہ غلات بھی ہجوم کے ساتھ ہی صاف ہوجائے گی ''۔سلطان ایوبی نے کہا……''میںاس پر پابندی عائد نہیں کرنا چاہتا ۔ مصر کی اخلاقی حالات اچھی نہیں ۔ رقص اور عصمت فروشی ایک دو دنوں میں ختم نہیں کی جاسکتی ۔ ابھی مجھے زیادہ سے زیادہ تماشائیوں کی ضرورت ہے ۔مجھے فوج تیار کرنی ہے اور تم جانتے ہو علی ! ہمیں بہت زیادہ فوج کی ضرورت ہے ۔ میں نے فوج اور انتظامیہ کے سربراہوں کے افلاس میں یہ ضرورت وضاحت سے بیان کردی تھی ''۔

''میں آپ کو اس وضاحت سے روک نہیں سکاتھا، امیر محترم !''……علی بن سفیان نے کہا……''میری سراغ رساں نگاہوں میں ان سربراہوں میں نصف ایسے ہیں جو ہمارے وفادار نہیں ۔آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان میں کچھ ایسے ہیں جو آپ کو اس گدّی پر نہیں دیکھنا چاہتے اور باقی جو ہیں اُن کی دل چسپیاں سوڈانیوں کے ساتھ ہیں ۔میں نے ان میں سے ہر ایک کے پیچھے ایک ایک آدمی چھوڑ رکھاہے ۔ میرے آدمی مجھے ان کی سرگرمیوں سے آگاہ کرتے رہتے ہیں ''۔

''کسی کی کوئی خطرناک سرگرمی سامنے آئی ہے ؟سلطان ایوبی نے پوچھا۔

''نہیں ۔ ''علی بن سفیان نے جواب دیا……''سوائے اس کے ، کہ یہ لوگ اپنی حیثیت اور رتبوں کو فراموش کرکے راتوں کو مشکوک خیموں میں اور اُن مکانوں میں جاتے ہیں جو عارضی قحبہ خانے اور رقص گاہیں بن گئے ہیں ۔دونے تو ناچنے والی لڑکیوں کو گھروں میں بھی بلایا ہے …… ان سے زیادہ میرا دماغ اُن دوبادبانی کشتیوں پر گھوم رہاہے جو دس روز گزرے ، بحیرۂ روم کے ساحل کے ساتھ دیکھی گئی تھیں''۔

''اُن میں کیاخاص بات تھی ؟''…… سلطان ایوبی نے پوچھا ۔

اس وقت تک بحیرۂ روم کے ساحل سے فوج کو واپس بلالیاگیاتھا، وہاں ڈھکی چھپی جگہوں پر دودو فوجی سمندر پر نظر رکھنے کے لیے بٹھا دئیے گئے تھے ۔علی بن سفیان نے ماہی گیروں اور صحرائی خانہ بدوشوں کے لباس میں ساحلی پر انٹیلی جنس کے چند آدمی مقرر کردئیے تھے ۔ یہ اہتمام ایک تو اس لیے کیاگیا تھا کہ صلیبی اچانک حملہ نہ کردیں اور دوسرے اس لیے کہ ادھر سے صلیبیوں کے جاسوس نہ آسکیں ، مگر ساحل بہت لمبا تھا۔ کہیں کہیں چٹانیں بھی تھیں ، جہاں سمند ر اند آجاتاتھا۔ سارے ساحل پر نظر نہیں رکھی جاسکتی تھی ۔دس روز گزرے ایسی ہی ایک جگہ سے جہاں سمندر چٹانوں کے اندر آیاہوا تھا، دو بادبانی کشتیاں نکلتی دیکھی تھیں ۔ وہ شاید رات کو آئی تھیں۔

انہیں جاتا دیکھ کر سلطان کے دو سوار سر پٹ گھوڑے دوڑاتے اس جگہ پہنچے ، جہاں سے کشتیاں نکل کر گئی تھیں ۔ وہاں کچھ بھی نہ تھا۔کوئی انسان نہیں تھا اور کشتیاں سمندر میں دور چلی گئی تھی کشتیوں اور بادبانوں کی ساخت بتاتی تھی کہ یہ مصر کے ماہی گیروں کی نہیں ۔ سمندر پار معلوم ہوتی تھیں۔ سوار تھوڑی دُور تک صحرا میں گئے ۔ انہیں کسی انسان کا سراغ نہیں ملا۔انہوں نے قاہرہ اطلاع بھجوادی تھی کہ ساحل کے ساتھ دو مشکوک کشتیاں دیکھی گئی ہیں ۔ علی بن سفیان کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ ریگزار میں انہیں ڈھونڈ لیتا جو کشتیوں میں سے اُترے تھے ۔ اطلاع پہنچتے پہنچتے تین دِن گزرگئے تھے ۔یہ بھی یقین نہیں تھا کہ کشتیوں سے کون اُترا ہے ۔

علی بن سفیان نے سلطان ایوبی کے اس سوال کے جواب میں کہ ان کشتیوں میں کیا خاص بات تھی،یہ وضاحت کردی اور کہا……''ہم میلے کی منادی ڈیڑھ مہینے سے کرارہے ہیں۔ ڈیڑھ مہینے میں خبریورپ کے وسط تک پہنچ سکتی ہے اور وہاں سے جاسوس آسکتے ہیں ۔ مجھے یقین کی حد تک شک ہے کہ تماشائیوں کے ساتھ صلیبیوں کے جاسوس میلے میں آگئے ہیں ۔قاہرہ میں اس وقت لڑکیاں عارضی طور پر نہیں ، مستقل طور پر فروخت ہورہی ہیں ۔ سلطان سمجھ سکتے ہیں کہ ان کے خریدار معمولی حیثیت کے لوگ نہیں ہوسکتے ۔ ان خریداروں میں قاہرہ کے تاجر، ہماری انتظامیہ اور فوج کے سربراہ اور نامی گرامی بردہ فروش شامل ہیں ۔بکنے والی لڑکیوں میں صلیبیوں کی جاسوس لڑکیاں ہوسکتی ہیں اور یقینا ہوں گی''۔

سلطان ایوبی ان اطلاعوں سے پریشان نہ ہوا۔ بحیرۂ روم میں صلیبیوں کو شکست دئیے تقریباًایک سال گزر گیاتھا۔ علی بن سفیان نے سمندر پار جاسوسی کا انتظام کررکھاتھا جو مضبوط اور سوفیصد قابلِ اعتماد نہیں تھا۔ تاہم یہ اطلاع مل گئی تھی کہ صلیبیوں نے مصر میں جاسوس اور تخریب کار بھیج رکھے ہیں ۔ ابھی یہ معلوم نہیں ہوسکا تھا کہ مصر کے متعلق ان کے منصوبے کیا ہیں ۔ بغداد اور دمشق سے آنے ولی اطلاعوں سے پتہ چلاتھا کہ صلیبیوں نے زیادہ تر دبائو ادھر ہی رکھا ہواہے ۔ وہاں خصوصاً شام میں ، وہ مسلمان اُمرا کو عیاشیوں اور شراب میں ڈبوتے چلے جارہے تھے ۔سلطان نور الدین زنگی کی موجود گی میں صلیبی ابھی براہِ راست ٹکرلینے کی جرأت نہیں کررہے تھے ۔بحیرۂ روم میں جب صلاح الدین ایوبی نے اُن کا بیڑہ بمع لشکر غرق کردیاتھا ، اُدھر عرب میں سلطان زنگی نے صلیبیوں کی مملکت پر حملہ کرکے انہیں صلح پر مجبور کیا اور جزیہ وصول کرلیاتھا۔ اس معرکے میں بہت سے صلیبی سلطان زنگی کی قید میں آئے تھے ۔جن میں رینالٹ نام کا ایک صلیبی سالار بھی تھا۔ سلطان زنگی نے ان قیدیوں کو رہا نہیں کیا تھا، کیونکہ صلیبیوں نے مسلمان جنگی قیدیوں کو شہید کردیاتھا۔ اس کے علاوہ صلیبی عہد شکنی بھی کرتے تھے ۔

سلطان ایوبی کو اطمینان تھا کہ اُدھر سلطان زنگی سلطنتِ اسلامیہ کی پاسبانی کررہاہے ، پھر بھی وہ فوج تیار کررہاتھا تاکہ صلیبیوں سے فلسطین لیاجائے اور عرب کی سر زمین کو کفار سے پاک کیا جائے ۔ اس کے ساتھ ہی وہ مصر کا دفاع مضبوط کرنا چاہتاتھا۔ بیک وقت حملے اور دفاع کے لیے بے شمار فوج کی ضرورت تھی ۔ مصر میں بھرتی کی رفتار سلطان ایوبی کے عزائم کے مطابق سست تھی ۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ سوڈانیوں کی جو فوج توڑ دی گئی تھی ، اس کے کماندار اور عہدے دار دیہات میں سلطان ایوبی کے خلاف پروپیگنڈا کرتے پھر رہے تھے ۔ اس فوج میں سے تھوڑی سی تعداد سلطان کی فوج میں وفاداری کا حلف اُٹھا کر شامل ہوگئی تھی۔ کچھ فوج مصر سے تیار کرلی گئی تھی اور کچھ سلطان زنگی نے بھیج دی تھی ۔ مصر کے لوگوں نے ابھی یہ فوج نہیں دیکھی تھی، نہ ہی انہوں نے سلطان ایوبی کو دیکھا تھا ۔سلطان ایوبی نے اس میلے کا علان کرکے اپنے فوجی سربراہوں اور اُن کے ماتحت کمان داروں وغیرہ کو ہدایت دی تھی کہ وہ باہر سے آئے ہوئے لوگوں سے ملیں اور پیار و محبت سے ان کا اعتماد حاصل کریں ۔ انہیں باور کرائیں کہ وہ انہی میں سے ہیں اور ہم سب کا مقصد یہ ہے کہ خدا اور رسول ۖ کی سلطنت کو دُور دُور تک پھیلا نا اور ا سے صلیبی فتنے سے پاک کرنا ہے ۔

میلے سے ایک روز پہلے علی بن سفیان ،سلطان کو جاسوسوں کے خطرے سے آگاہ کررہاتھا۔اس نے کہا…… ''امیرِ محترم ! مجھے جاسوسوں کا کوئی ڈر نہیں ، دراصل خطرہ اپنے ان کلمہ گو بھائیوں سے ہے جو کفار کے اس زمین دوز حملے کو کامیاب بناتے ہیں ۔اگر ان کا ایمان مضبوط ہوتو جاسوسوں کا پورا لشکر بھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ میلے کے تماشائیوں میں جو ناچنے والی لڑکیا ں نظر آرہی ہیں ۔وہ صلیبیوں کا جال ہیں، تاہم میرا گروہ دِن رات مصروف ہے''۔

''اپنے آدمیوں سے یہ کہہ دو کہ کسی جاسوس کو جان سے نہ ماریں ''……سلطان ایوبی نے کہا…''زندہ پکڑو ۔ جاسوس دشمن کے لیے آنکھ اور کان ہوتاہے ،لیکن ہمارے لیے وہ زبان ہے ۔وہ تمہیں اُن کی خبریں دے گا، جنہوں نے اُسے بھیجاہے ''۔

٭ ٭ ٭
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: داستان ایمان فروشوں کی ۔۔جلد اول مکمل

Post by ایکسٹو »

میلے کی صبح طلوع ہوئی ۔ وہ میدان بہت ہی وسیع تھا جس کے تین اطراف تماشائیوں کا ہجوم تھا،جس طرف ریت کے ٹیلے تھے ادھر کسی کو نہیں جانے دیاگیاتھا۔ جنگی دف بجنے لگے ۔گھوڑوں کے ٹاپوں کی آوازیں اس طرح سنائی دیں ، جیسے سیلابی دریا آرہاہو۔ گرد آسمان کی طرف اُٹھ رہی تھی ۔ یہ دو ہزار سے زیادہ گھوڑے تھے۔ پہلا گھوڑا سوار میدان میں داخل ہوا۔یہ صلاح الدین ایوبی تھا ۔ اس کے دونوں طرف علم بردار تھے اور پیچھے سواروں کا دستہ تھا ۔ گھوڑوں پر پھول دار چادری ڈالی گئی تھیں ۔ہر سوار کے ہاتھ میں برچھی تھی ۔ بر چھی کے چمکتے ہوئے پھل کے ساتھ رنگین کپڑے کی چھوٹی سی جھنڈی تھی۔ ہر سوار کی کمر سے تلوار لٹک رہی تھی ۔ گھوڑے دُلکی چال آرہے تھے ۔ سوار گردنیں تانے اور سینے پھیلائے بیٹھے تھے ۔ اُن کے چہروں پر جلالی تاثر تھا۔ یوں معلوم ہوتاتھاجیسے یہ تماشائیوں کے دم بخو د ہجوم سے ا علیٰ و برتر ہوں ۔اُن کی آن بان دیکھ کر تماشائیوں پر خاموشی طاری ہوگئی تھی ۔ ان پر رعب چھا گیا تھا ۔

تماشائی نیم دائرے میں کھڑئے تھے ۔ ان کے پیچھے تماشائی گھوڑوں پر بیٹھے تھے اور ان کے پیچھے کے تماشائی اونٹوں پر بیٹھے تھے۔ ایک ایک گھوڑے اور ایک ایک اونٹ پر دودو تین تین آدمی بیٹھے تھے ۔ ان کے آگے ایک جگہ شامیانہ لگایا گیا تھا، جس کے نیچے کر سیاں رکھی تھی۔ یہاں اونچی حیثیت والے تماشائی بیٹھے تھے۔ ان میں تاجر بھی تھے ۔ سلطان کی حکومت کے افسر اور شہر کے معززین بھی ۔ان میں قاہرہ کی مسجدوں کے امام بھی بیٹھے تھے۔ انہیں سب سے آگے بٹھایا گیا تھا،کیونکہ سلطان ایوبی مذہبی پیشوائوں اور علماء کا اس قدر احترام کرتاتھا کہ ان کی موجودگی میں ان کی اجازت کے بغیر بیٹھتا نہیں تھا۔ ان میں سلطان کے وہ افسر بھی بیٹھے تھے جو انتظامیہ کے تھے ، لیکن ان کا تعلق فوج سے تھا۔سلطان نے انہیں خاص طور پر کہا تھا کہ ان زعماء میں بیٹھ کر ان کے ساتھ دوستی پیدا کریں ۔ان میں خادم الدین البرق تھا ۔علی بن سفیان کے بعد یہ دوسرا آدمی تھا جو سلطان ایوبی کے خفیہ منصوبوں ، مملکت اور فوج کے ہر راز سے واقف تھا۔ اس کاکام ہی ایسا تھا اور اس کا عہدہ سالار جتنا تھا۔ جنگ کے منصوبے اور نقشے اسی کے پاس ہوتے تھے ۔ اس کی عمر چالیس سال کے قریب تھی۔ وہ عرب کے مردانہ حسن اور جلال کا پیکر تھا۔ جسم توا نا اور چہرہ ہشاش بشاش تھا۔

البرق کے ساتھ ایک لڑکی بیٹھی تھی ۔ بہت ہی خوب صورت لڑکی تھی۔ وہ نوجوان تھی ۔لڑکی کے ساتھ ایک آدمی بیٹھا تھا جس کی عمر ساٹھ سال سے کچھ زیادہ تھی۔ وہ کوئی امیر کبیر لگتاتھا۔البرق کئی بار اس لڑکی کی طرف دیکھ چکاتھا۔ ایک بار لڑکی نے بھی اسے دیکھا تو مسکرادی ۔ پھر اس نے بوڑھے کی طرف دیکھا تو اس کی مُسکراہٹ غائب ہوگئی۔
گھوڑے تماشائیوں کے سامنے سے گزرگئے تو شتر سوار آگئے ۔ اونٹوں کو گھوڑوں کی طرف رنگ دار چادروں سے سجایا گیا تھا۔ ہر سوار کے ہاتھ میں ایک لمبا نیزہ اور اس کے پھل سے ذرانیچے تین تین انچ چوڑے اور ڈیڑ ھ ڈیڑھ فٹ لمبے دورنگے کپڑے جھنڈیوں کی طرف بندھے ہوئے تھے۔ ہوا میں وہ پھڑ پھڑ اتے بہت ہی خوب صورت لگتے تھے ۔ہر سوار کے کندھوں سے ایک کمان آویزاں اور اقونٹ کی زین کے ساتھ رنگین ترکش بندھی تھی۔ اونٹوں کی گردنیں خم کھا کر اوپر کو اُٹھی ہوئیں اور سر جیسے فخر سے اونچے ہوگئے تھے ۔ سواروں کی شان نرالی تھی ۔گھوڑ سواروں کی طرح ہر شتر سوار سامنے دیکھ رہاتھا۔ اُن کی آنگیں بھی دائیں بائیں نہیں دیکھتی تھیں۔ یہ اونٹ انہی اونٹوں جیسے تھے جن پر تماشائی بیٹھے ہوئے تھے، لیکن فوجی ترتیب ،فوجی چال اور فوجی سواروں کے نیچے وہ کسی اور جہان کے لگتے تھے۔

البرق نے اپنے پاس بیٹھی ہوئی لڑکی کو ایک بار پھر دیکھا ۔اب کے لڑکی نے اسے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا ۔اس کی آنکھوں میں ایسا جادو تھاکہ البر ق نے اپنے آپ میں بجلی کا جھٹکا محسوس کیا۔

لڑکی کے ہونٹوں پر شرم و حیا کا تبسم آگیا اور اس نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے بوڑھے کو دیکھا تو اس کا تبسم نفرت میں بدل گیا۔ البرق کی ایک بیوی تھی، جس میں سے اُس کے چار بچے تھے۔ وہ شاید اس بیوی کو بھول گیاتھا۔ وہ لڑکی کے اس قدر قریب بیٹھا تھا کہ لڑکی کا اُٹھا ہوا ریشمی نقاب ہوا سے اُڑ کر کئی بار البرق کے سینے سے لگا۔ ایک بار ا س نے نقاب ہاتھ سے پرے کیا تو لڑکی نے شرما کر معذرت کی ۔البرق مسکرایا ، منہ سے کچھ نہ کہا۔

شتر سواروں کے پیچھے پیادہ فوج آرہی تھی۔ ان میں تیر اندازوں اور تیغ زنوں کے دستے تھے۔اُ ن کی ایک ہی جیس چال ، ایک ہی جیسے ہتھیار اور ایک ہی جیسا لباس تماشائیوں پر وہی تاثر طاری کررہاتھا۔ جو سلطان ایوبی کرنا چاہتا تھا۔ سپاہیوں کے چہروں پر تندرستی اور توانائی کی رونق تھی اور وہ خوش و خرم اور مطمئن نظر آتے تھے ۔یہ ساری فوج نہیں ، صرف منتخب دستے تھے ۔ ان کے پیچھے منجنیقیں آرہی تھیں، جنہیں گھوڑے گھسیٹ رہے تھے ۔ ہر منجنیق دستے کے پیچھے ایک ایک گھوڑ اگاڑی تھی جس میں بڑے بڑے پتھر اور ہانڈیوں کی قسم کے برتن رکھے تھے ۔ ان میں تیل جیسی کوئی چیز بھری ہوئی تھی جو منجنیقوں سے پھینکی جاتی تھی ۔ جہاں یہ برتن گرتاتھا وہ کئی ٹکڑوں میں ٹوٹ کر سیال مادے کو بہت سی جگہ پر بکھیر دیتا تھا۔ اس پر آتشیں تیر چلائے جاتے تو سیال مادہ شعلے بن جاتاتھا ۔

سلطان ایوبی کی قیادت میں یہ سوار اور پیادہ دستے ، نیم دائرے میں کھڑے اور بیٹھے ہوئے تماشائیوں کے آگے سے دُور آگے نکل گئے ۔ صلاح الدین ایوبی راستے میں سے واپس آگیا۔ اُس کے گھوڑے کے آگے علم برداروں کے گھوڑے ، دائیں ، بائیں اور پیچھے محافظو ںکے گھوڑے اور اُن کے پیچھے نائب سالاروں کے گھوڑے تھے۔ سلطان نے گھوڑا روک لیا، کود کر اُترا اور تماشائیوں کو ہاتھ ہوا میں لہرالہرا کر سلام کرتا شامیا نے کے نیچے چلاگیا،وہاں بیٹھے ہوئے تمام لوگ اُٹھ کھڑے ہوئے ۔سلطان ایوبی نے سب کو سلام کیا اور اپنی نشست پر بیٹھ گیا۔

سوار اور پیادہ دستے دُور آگے جاکر ٹیلوں کے عقب میں چلے گئے ۔ میدان خالی ہوگیا۔ ایک گھوڑا سوار سرپٹ گھوڑا دوڑ اتا آیا۔ اس کے ایک ہاتھ میں گھوڑے کی لگام اور دوسرے میں اونٹ کی رسی تھی ۔ اونٹ گھوڑے کی رفتار کے ساتھ دوڑتا آرہاتھا۔میدان کے وسط میں آکر گھوڑسوار گھوڑے پر کھڑا ہوگیا۔ اس نے باگیں چھوڑدیں ۔ وہ اُچھل کر اونٹ کی پیٹھ پر کھڑا ہوگیا، وہاں سے کود کر گھوڑے پر سوار ہوا۔گھوڑے اور اونٹ کی رفتار میں کوئی فرق نہیں آیاتھا۔ گھوڑے کی پیٹھ سے وہ اونٹ کی پیٹھ پر چلا گیااور دُور آگے جاکر غائب ہوگیا۔

خادم الدین البرق دائیں کو ذراساجھکا۔ اُس کے منہ اور لڑکی کے سر کے درمیان دو تین انچ کا فاصلہ رہ گیاتھا۔ لڑکی نے اسے دیکھا ۔البرق مُسکرایا۔ لڑکی شرماگئی ۔بوڑھے نے دونوں کو دیکھا۔ اس کے بوڑھے ماتھے کے شِکن گہرے ہوگئے ۔

اچانک ٹیلوں کے پیچھے سے ہانڈ یوں کی طرح کے مٹی کے وہ برتن جو گھوڑا گاڑیوں پر لدے ہوئے تھے ،اوپر کو جاتے ، آگے آتے اور میدان میں گرتے نظر آئے ۔بر تن ٹوٹتے تھے تو تیل اچھل کر بکھر جاتاتھا۔کم و بیش ایک سو برتن گرے اور اُن سے نکلا ہوا مادہ تقریباٍ ایک سو گز لمبائی اور اسی قدر چوڑائی میں بکھر گیا۔ایک ٹیلے پر چھ تیر انداز نمودار ہوئے ۔انہوں نے جلتے ہوئے فلیتوں والے تیر چلائے جو سیال مادے والی جگہ گڑگئے ۔ فوراً وہ تمام جگہ ایک ایسا شعلہ بن گئی جو گھوڑے کی پیٹھ تک بلند اور کوئی ایک سو گز تک پھیلا ہواتھا۔ ایک طرف سے چار گھوڑ سوار گھوڑے پوری رفتار سے دوڑتے آئے ۔ شعلے کے قریب آکر وہ رُکے نہیں ۔رفتار کم بھی نہ کی ۔ چاروں شعلے میں چلے گئے ۔ تماشائی دم بخود تھے کہ وہ جل جائیں گے مگر وہ اتنے وسیع شعلے میں دوڑتے نظر آرہے تھے ۔آخر وہ چاروں شعلے میں سے نکل گئے ۔تماشائیوں نے داد و تحسین کا وہ شور بلند کیا کہ آسمان پھٹنے لگا۔ دوسواروں کے کپڑوں کو آگ لگی ہوئی تھی ۔ دونوں بھاگتے گھوڑوں سے ریت پر گرے اور تھوڑی دور لڑھکنیاں کھاتے گئے ۔ان کے کپڑوں کی آگ بجھ گئی۔

البرق اس شور و غل اور سواروں کے کمالات سے نظریں پھیرے ہوئے لڑکی کودیکھ رہاتھا۔لڑکی اس کی طرف دیکھتی اور ذراسا مسکراکر بوڑھے کو دیکھنے لگتی تھی۔ بوڑھا اُٹھ کر جانے کیوں چلاگیا۔ لڑکی اسے جاتا دیکھتی رہی ۔البر ق کو معلوم تھاکہ لڑکی بوڑھے کے ساتھ آئی ہے ۔ اس نے لڑکی سے پوچھا۔

''تمہارے والد صاحب کہاں چلے گئے ہیں؟''

''یہ میرا باپ نہیں ''……لڑکی نے جواب دیا……''میرا خاوند ہے ''۔

''خاوند؟''……البرق نے حیرت سے پوچھا……''کیا یہ شادی تمہارے والدین نے کرائی ہے ؟''

''اس نے مجھے خریداہے ''……لڑکی نے اُداس لہجے میں کہا۔

''وہ کہاں گیاہے ؟''……البرق نے پوچھا۔

''ناراض ہوکر چلاگیاہے ''…لڑکی نے جواب دیا…''اسے شک ہوگیاہے کہ میں آپ کو دلچسپی سے دیکھتی ہوں ''

''کیا تم واقعی مجھے دلچسپی سے دیکھتی ہو؟''……البر ق نے رومانی انداز سے پوچھا۔

لڑکی کے ہونٹوں پر شرمیلی سی مُسکراہٹ آگئی ۔دھیمی سی آواز میں بولی ۔ ''میں اس بوڑھے سے تنگ آگئی ہوں۔اگر کسی نے مجھے اس سے نجات نہ دلائی تو میں خود کشی کرلوں گی''۔

میدان میں سوار اور پیادہ فوجی حیران کن کرتب دکھارہے تھے اور حرب و ضرب کے مظاہرے کرہے تھے ۔ تماشائیوں نے جنگی مظاہرے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ انہوں نے صرف سوڈانی فوج دیکھی تھی جو خزانے کے لیے سفید ہاتھی بنی ہوئی تھی ۔ اس کے کمان دار بادشاہوں کی طرف باہر نکلتے تھے ۔ ان کے ساتھ اگر فوج کا دستہ ہوتو وہ دیہات کے لیے مصیبت بن جاتے تھے۔ مویشی تک کھول کر لے جاتے تھے ۔ کسی کے پاس اچھی نسل کا اونٹ ، گھوڑا دیکھتے تو زبردستی لے جاتے تھے۔ لوگوں کے دِل میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ فوج رعایا پر ظلم و تشدد کرنے کے لیے رکھی جاتی ہے ،لیکن سلطان کی فوج بہت مختلف تھی ۔ایک تو وہ دستے تھے جو مظاہرے میں شریک تھے ۔باقی فوج کو سلطان کی ہدایات کے مطابق تماشائیوں میں پھیلادیاگیا تاکہ وہ لوگوں کے ساتھ گھل مل کر ان پر یہ تاثر پیدا کریں کہ فوجی ان کے بھائی ہیں اور انہی میں سے ہیں ۔بد تمیزی یا بد اخلاقی کرنے والے فوجی کے لیے بڑی سخت سزا مقرر کی گئی تھی۔

خادم الدین البرق جو سلطان ایوبی کی جنگی مشاورتی محکمے کا سربراہ اور راز داں تھا، سلطان کی ہدایات اور میلے کے شور و غل سے بالکل ہی لاتعلق ہوگیاتھا۔ لڑی ایک جادو بن کر اس کی عقل پر غالب آگئی تھی ۔اس نے لڑکی میں دلچسپی کا ظہار کیا، اسے لڑکی نے قبول کرلیاتھا۔ اس سے دونوں کے لیے سہولت پیدا ہوگئی ۔ البرق نے کہیںملنے کو کہا تو لڑکی نے جواب دیا کہ وہ خریدی ہوئی لونڈی ہے اور بوڑھے نے اسے قید میں رکھا ہواہے ۔وہ اس پر ہر وقت نظر رکھتا ہے ۔لڑکی نے یہ بھی بتایا کہ بوڑھے کے گھر چار بیویاں ہیں … البرق نے اپنے رُتبے کو فراموش کردیا۔ عشق باز نوجوان کی طرح اُس نے ملاقات کی وہ جگہیں بتانی شروع کردیں جہاں آوارہ آدمیوں کے سوا کوئی نہیں جاتا تھا۔ ان جگہوں میں ایک جگہ لڑکی کو پسند آگئی۔ یہ شہر سے باہر قدیم زمانے کاکوئی کھنڈر تھا۔ البرق نے لڑکی سے یہ وعدہ بھی کیا کہ وہ اسے بوڑھے سے آزاد کرانے کی کوشش کرے گی..
تیسری رات البرق گھر سے نکلا وہ حاکموں کی شان سے گھر سے نکلاکرتاتھا،مگراس رات وہ چوروں کی طرح باہر نکلا۔ اِدھر اُدھر دیکھا اور ایک طرف چل پڑا ۔ قاہرہ پر سکوت طاری تھا۔ فوجی میلہ ختم ہوئے دو دِن گزرگئے تھے ۔ باہر سے آئے ہوئے تماشائی جاچکے تھے۔ سرکاری حکم کے تحت عارضی قحبہ خانے اٹھا دئیے گئے تھے۔ علی بن سفیان کا محکمہ اب یہ سراغ لگاتا پھر رہاتھا کہ باہر سے آئی ہوئی کتنی لڑکیا ں اور کتنے مشکوک لوگ شہر یا مضافاتی دیہات میں رہ گئے ہیں ۔میلے کا مقصد پورا ہوگیا تھا۔ دوہی دنوں میں چار ہزار جوان فوج میں بھرتی ہوگئے تھے اور مزید بھرتی کی توقع تھی۔

البرق شہر سے نکل گیا اور اس نے اُس کھنڈر کا رُخ کیا جہاں لڑکی کو آناتھا۔ صحرائی گیدڑوں کے سوا زمین و آسمان گہری نیند سوگئے تھے ۔ لڑکی نے البرق سے کہاتھا کہ وہ بوڑھے کی قیدی ہے اورو ہ اُس پر ہر وقت نظررکھتا ہے ، پھر بھی البرق اس اُمید پر جارہاتھا کہ لڑکی ضرور آئے گی ۔ممکنہ خطروں سے نمٹنے کے لیے اس کے پاس ایک خنجر تھا۔ عورت ایسا جادو ہے کہ جس پر طاری ہوجائے وہ کسی کی پرواہ ہیں کیا کرتا ۔عقل و دانش اس کا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں ۔ البرق پختہ عمر کا آدمی تھا مگر وہ نادان نوجوان بن گیا تھا،اسے اندھیرے میں کھنڈر کے قریب ایک تاریک سایہ، سر سے پائوں تک لبادے میں لپٹا ہوا نظر آیا اور کھنڈر کے کھڑے سیاہ بھوت میں جذب ہوگیا تو وہ تیز تیز چلتا کھنڈر میں پہنچا گری ہوئی دیوار کے شگاف سے وہ اندر آگیا۔ آگے اندھیرہ کمرہ تھا۔ چھت میں بڑی زور سے کوئی بہت بڑا پرندہ پھڑ پھڑا یا۔ البرق نے ہوا کے تیز جھونکے محسوس کیے اور اچانک اس کے منہ پر تھپڑ پڑا اس کے ساتھ ہی اسے ''چی چی''کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ وہ جان گیا کہ یہ بڑے چمگادڑ ہیں جن کے پنجے اس کا منہ نوچ ڈالیں گے۔ وہ بیٹھ گیا اور پائوں پر سر کتا کمرے سے نل گیا ۔ کمرہ اڑتے چمگادڑوں سے بھر گیا تھا۔

آگے صحن تھا، جس کے ارد گرد گول برآمدہ تھا۔ البرق نے یہ بھی نہ سوچا کہ ایک خریدی ہوئی قیدی لڑکی جس پر ہر وقت نظر رکھی جاتی ہے،اس ہیبت ناک کھنڈر میں کیسے آئے گی، مگر برآمدے میں اس کے قدموں کی دبی دبی آہٹ نے اسے بتادیاکہ یہاں کوئی موجود ہے ۔اس نے کمر سے خنجر نکال کر ہاتھ میں لے لیا۔ اس کے سر پر چمگادڑ اُڑ رہے تھے، پھڑ پھڑانے کی آوازیں ڈرائونی تھیں ۔ البرق نے آہستہ سے پکارا……''آصفہ!''…… لڑکی نے اُسے اپنانام بتادیا تھا اور میلے میں یہ بھی بتادیاتھا کہ وہ کس طرح فروخت ہوئی ہے ۔

''آپ آگئے ؟''……اسے آصفہ کی آواز سنائی دی۔ وہ برآمدے میں سے دوڑتی آئی اور البرق کے ساتھ چپک گئی ۔کہنے لگی…… ''آپ کی خاطر جان کو خطرے میں ڈال کر آئی ہوں ۔مجھے جلدی واپس جانا ہے ۔بوڑھے کو شراب میں نیند کا سفوف پلاآئی ہوں ۔وہ جاگ نہ اُٹھے ''۔

''کیا تم اُسے شراب میں زہر نہیں پلاسکتی ؟''……البرق نے پوچھا۔

''میں نے کبھی قتل نہیں کیا''…… آصفہ نے کہا……''میں نے تو کبھی یہ بھی نہیں سوچاتھا کہ اس طرح کسی غیر مرد سے ملنے اس ڈرائونے کھنڈر میں آئوں گی۔''

البرق نے اسے بازوئوں میں جکڑ لیا…اچانک ان کے پیچھے برآمدہ روشن ہوگیا، جس کمرے میں سے البرق گزر کر آیاتھا، اس میں سے دومشعلیں نکلیں ۔یہ لکڑیوں کے سروں پر تیل بھیگے ہوئے کپڑے لپیٹ کر بنائی گئی تھیں۔ اُن کے شعلے خاصے بڑے تھے۔ البرق نے آصفہ کو اپنے پیچھے کرلیا۔ اس کے ہاتھ میں خنجر تھا۔ کیا یہ کھنڈر میں رہنے والی بدروحیں تھیں ؟یا لڑکی کے تعاقب میں اس کا خاوند آگیاتھا؟… البرق ابھی سوچ ہی رہاتھا کہ ایک آواز گرجی …''دونوں کو قتل کردو''۔

مشعلیں قریب آئیں تو اُن کے ناچتے شعلوں میں البرق اور آصفہ کو چار آدمی نظر آئے ۔ایک کے ہاتھ میں برچھی اور تین کے پاس تلواریں تھیں ۔ انہوں نے مشعلیں زمین میں گاڑ دیں۔ کھنڈر کا صحن روشن ہوگیا۔ چاروں آدمی البرق کے گرد بھوکے بھیڑیوں کی طرح آہستہ آہستہ چکر میں چلنے لگے۔ آصفہ اس کے پیچھے تھی۔ برآمدے میں سے ایک اور آواز آئی…… ''مل گئے ؟زندہ نہ چھوڑنا''……یہ لڑکی کے بوڑھے خاوند کی آواز تھی۔

آصفہ البرق کے عقب سے آگے آگئی ۔ اس نے حقارت اور غصے بوڑھے سے کہا……''آگے آئو اور مجھے قتل کردو۔ میں تم پر لعنت بھیجتی ہون ۔میں اپنی مرضی سے یہاں آئی ہوں ''

چاروں مسلح آدمی اِن کے گرد کھڑے تھے ۔برچھی والے نے برچھی آہستہ آہستہ آصفہ کی طرف کی اور اس کی نوک اس کے پہلو لگا کر کہا……''مرنے سے پہلے برچھی کی نوک دیکھ لو،لیکن تم سے پہلے یہ شخص تڑپ تڑپ کر تمہارے سامنے مرے گا، جس کی خاطر تم یہاں آئی ہو''۔

آصفہ نے جھپٹا مار کر برچھی پکڑلی اور جھٹکادے کر برچھی چھین لی۔ آصفہ البرق سے الگ ہوگئی اور للکار کر کہا……''آئو، آگے آئو۔ میں دیکھتی ہوں کہ تم مجھ سے پہلے اس آدمی کو کس طرح قتل کرتے ہو''۔

البرق خنجر آگے کیے اس کے سامنے آگیا۔ لڑکی نے برچھی سے اس پروار کیا جس سے اس نے برچھی چھینی تھی۔وہ آدمی پیچھے کو بھاگا۔ اس کے ساتھیوں نے البرق پر حملہ کرنے کی بجائے صرف پینترے بدلے ۔وہ البرق کو آسانی سے قتل کر سکتے تھے، مگر وہ بڑھ کر حملہ نہیں کررہے تھے ۔آصفہ کی للکار گرج رہی تھی ۔ وہ بڑھ کروار کرتی تھی ، مگر وار خالی جاتاتھا۔ البرق نے ایک آدمی پر خنجر سے حملہ کیا تو دو آدمی اس کے پیچھے آئے ۔آصفہ ایک ہی جست میں اس کے پیچھے ہوگئی ۔اُس کے ہاتھ میں لمبی برچھی تھی جو تلوار کا مقابلہ کر سکتی تھی ۔ خنجر تلوار کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں تھا۔ بوڑھا ایک طرف کھڑا اپنے آدمیوں کو للکاررہاتھا۔ تھوڑی سی دیر انہوں نے البر ق اور آصفہ پر حملے کیے۔ آصفہ اُن پر ٹوٹ پڑتی تھی ۔ البرق وار بچاتا تھا اور خنجر سے وار کرنے کی کوشش کرتاتھا، مگر عجیب امر یہ تھا کہ لڑکی کے حملوں کے باوجود کوئی زخمی نہیں ہوا۔ بوڑھے کے آدمیوں نے بھی تیغ زنی کے جوہر دکھائے ، مگر البرق اور آصفہ کو خراش تک نہ آئی ۔ اتنے میں بوڑھ نے کہا ''رُک جائو''……اور لڑائی بند ہوگئی ۔

''میں ایسی بے وفا لڑکی کو گھر میں نہیں رکھنا چاہتا''……بوڑھے نے کہا……''مجھے معلوم نہیں تھاکہ یہ اتنی دلیر اور بہادر ہے، اگر اسے میں زبردستی لے بھی گیا تو یہ مجھے قتل کردے گی''۔

''میں تمہیں اس کی پوری قیمت دوں گا''……البرق نے کہا……''کہو، تم نے اسے کتنے میں خریدا تھا''۔

بوڑھا ہاتھ بڑھا کر آگے بڑھا اور البرق سے ہاتھ ملا کر بولا……''میرے پاس دولت کی کمی نہیں ۔ میں یہ لڑکی تمہیں بخش دیتا ہوں ۔اسے تمہارے ساتھ اتنی محبت ہے کہ تمہاری خاطر اتنے سارے آدمیون کے مقابلے میں آگئی ہے ۔ میں اسے اس لیے بھی تمہارے حوالے کرتاہوں کہ یہ جنگجو نسل کی لڑکی ہے ۔ میں تاجر اور سودا گرہوں ۔یہ کسی تم جیسے جنگجو کے گھر میں اچھی لگے گی ۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ تم سلطان صلاح الدین ایوبی کی حکومت کے حاکم ہو۔ میں سلطان کا وفادار اور مرید ہوں ۔ میں تمہیں ناراض نہیں کرناچاہتا، جائو۔ میں نے اسے طلاق دی اور اسے تم پر حلال کردیا……چلو، دوستو! انہیں اکیلا چھوڑ دو''……وہ مشعلیں اُٹھا کر چلے گئے ۔

البرق کی حیرت کی انتہا یہ تھی کہ اس کے پائوں تلے زمین ہلنے لگی ۔اسے یقین نہیں آرہاتھا ۔وہ اسے بوڑھے کا فریب سمجھ رہاتھا۔ اسے یہ خطرہ نظر آرہاتھا کہ یہ لوگ راستے میں گھات لگاکر ان دونوں کو قتل کریں گے ۔ آصفہ کے ہاتھ میں برچھی تھی ، وہ البرق نے لے لی اور کچھ دیر بعدکھنڈر سے نکلے ۔ وہ دائیں بائیں اور پیچھے دیکھتے تیز تیز چلنے لگے۔ذراسی آہٹ سنائی دیتی تو وہ چونک کر رُک جاتے ۔ ہر طرف اندھیرے میں دیکھنے کی کوشش کرتے اور آہستہ آہستہ چل پڑتے ۔ شہر میں داخل ہوئے تو ان کی جان میں جان آئی ۔ آصفہ نے رک کر بازو البرق کے گلے میں ڈال دئیے اور پوچھا۔''آپ کو مجھ پر اعتماد ہے یا نہیں ؟……البرق نے اسے سینے سے لگالیا۔ اس پر جذبات کا اتنا غلبہ تھا کہ کچھ بول نہ سکا۔ لڑکی نے اسے بے دام خرید لیاتھا۔اسے یہ تو اب پتہ چلا تھا کہ لڑکی اسے کیسی دیوانگی سے چاہتی ہے اور کتنی بہادر ہے ۔دراصل وہ لڑکی کے حسن پر مر مٹا تھا۔اُس کی بیوی اس کی ہم عمر تھی ۔آصفہ کو دیکھ کر اس نے محسوس کیا کہ وہ بیوی اس کے کام کی نہیں رہی ۔

اُس دور میں جب عورت فروخت ہوتی تھی ، گھر میں بیوی کی کوئی حیثیت نہیں تھی ۔ بیک وقت چار بیویاں تو خاوند اپنا حق سمجھتا تھا، لیکن جو پیسے والے تھے ، وہ دو دو چار خوب صورت لڑکیا ں بغیر نکاح کے رکھ لیتے تھے ۔ مسلمان اُمراء کو عورت نے ہی تباہ کیاتھا۔ ان کے ہاںیہ بھی رواج تھا کہ ایک آدمی کی بیویاں خاوند کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ڈھونڈ ڈھونڈ کر خوب صورت لڑکیاں خاوند کو بطور تحفہ پیش کرتی تھیں ۔

البرقی جب آصفہ کو ساتھ لیے گھر میں داخل ہواتو سب سوئے ہوئے تھے ۔صبح اس کی بیوی نے اپنے خاوند کے پلنگ پر اتنی حسین لڑکی دیکھی تو اسے ذرہ بھر محسوس نہ ہوا کہ اس کا سہاگ اُجڑ گیاہے ،بلکہ وہ خوش ہوئی کہ اس کے اتنے اچھے خاوند کو اتنی خوب صورت لڑکی مل گئی ہے ۔ اسکے آجانے سے وہ کچھ فرائض سے سبکدوش ہوئی تھی ۔البرق کی حیثیت ایسی تھی کہ وہ ایسی ایک اور بیوی یا داشتہ رکھ سکتا تھا۔

صلاح الدین ایوبی مسلمانوں کو عورت سے اور عورت کو مسلمانوں سے آزاد کرناچاہتا تھا۔ وہ ایک خاوند ایک بیوی کا حکم نافذ کرنا چاہتاتھا ، مگر ابھی وہ ہر اُس امیر اور وزیر کو دشمن بنانے سے ڈرتاتھا جس نے کئی کئی لڑکیوں کوگھروں میں رکھاہوا تھا۔عورت کے خریدار یہی لوگ تھے۔ انہی کی دولت سے عورت کھلی منڈی میں نیلام ہوتی تھی ۔اغوا کی وارداتیں ہوتی تھیں ۔قتل اور خون خرابے ہوتے تھے اور اُمراء اور حاکموں کی زن پرستی کا ہی نتیجہ تھا کہ عیسائیوںاور یہودیوں نے لڑکیون کی وساطت سے سلطنتِ اسلامیہ کی جڑوں میں زہر بھردیاتھا۔ اس کے علاوہ سلطان ایوبی کو یہ احساس بھی پریشان کیے رکھتا تھا کہ یہی عورت مردوں کے دوش بدوش کفار کے خلاف لڑاکرتی تھی ، مگر اب یہ عورت جہاد میں مرد کے لیے آدھی قوت تھی ، مرد کی تفریح اور عیاشی کا ذریعہ بن گئی ہے ۔ اس سے صرف یہ نہیں ہوا کہ قوم کی آدھی جنگی قوت ختم ہوگئی ہے ، بلکہ عورت ایک ایسا نشہ بن گئی ہے جس نے قوم کی مرادنگی کو بیکار کردیاہے ۔

سلطان ایوبی عورت کی عظمت بحال کرنا چاہتا تھا ۔اُس نے ایک منصوبہ تیار کررکھا تھا جس کے تحت وہ غیر شادی شدہ لڑکیوں کو باقاعدہ فوج میں بھرتی کرنا چاہتا تھا۔ اسی کے تحت حرم بھی خالی کرنے تھے ، مگر ایسے احکام وہ اسی صورت میں نافذ کرسکتاتھا کہ سلطنت کی خلافت یا امارت اس کے ہاتھ آجائے ۔ یہ مہم بڑی دشوار تھی ۔ اس کے دشمنوں میں اپنو ں کی تعداد زیادہ تھی اور وہ جانتا تھا کہ قوم میں ایمان فروشوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے ۔ اسے یہ معلوم نہیں ہواتھا کہ اس کا ایک معتمد خاص اور حکومت کے رازو ں کا رکھوالا ،خادم الدین البرق بھی ایک نوجوان حسینہ کو گھر لے آیاہے اور یہ لڑکی اس کے اعصاب پر ایسی بُری طرح چھا گئی ہے کہ وہ اب فرائض سلطنت سے بے پرواہوسکتاہے ۔

فوجی میلے میں مصر کے لوگ سلطان ایوبی کی فوجی طاقت سے مرعوت نہیں ہوئے ،بلکہ اسے اسلامی اور مصری فوج سمجھ کر اس سے متاثر ہوئے تھے ۔سلطان ایوبی تقریر یں کرنے والا حاکم نہیں تھا، لیکن اس دن اتنے بڑے اجتماع سے اس نے خطاب کرنا ضروری سمجھا۔ اس نے کہا کہ یہ فوج قوم کی عصمت کی محافظ اور اسلام کی پاسبان ہے ۔ اس نے صلیبیوں کے عزائم تفصیل سے بیان کیے اور مصریوں کو بتایا کہ عرب میں مسلمان اُمراء اور حاکمون کی تعیش پرستی کی وجہ سے صلیبیوں نے وہاں مسلمان کا جینا حرام کررکھا ہے ۔ وہ قافلوں کو لوٹ لیتے ہیں ، مسلمان لڑکیون کو اغوا کرکے بے آبرو کرتے ،پھر انہیں بیچ ڈالتے ہیں ……سلطان ایوبی نے لوگوں کو قومی جذبے سے آگاہ کرکے انہیں کہا کہ وہ فوج میں بھرتی ہوکر اپنی بیٹیوں کی عصمت اور اسلام کی عظمت کی پاسبانی کریں۔ سلطان کی تقریر میں جوش تھا اور ایسا تاثر کہ تماشائیوں کے دلوں میں ہلچل مچ گئی اور اسی روز جوان آدمی فوج میں بھرتی ہونے لگے۔

دس روز تک بھرتی ہونے والوں کی تعداد چھ ہزار ہوگئی ۔اس میں کم و بیش ڈیڑھ ہزار جوان اپنے اونٹ ساتھ لائے اور ایک ہزار کے قریب گھوڑوں اور خچروں سمیت آئے ۔ سلطان نے انہیں جانوروں کا معاوضہ فوری طور پر اداکردیا اور فوج نے ان کی ٹریننگ شروع کردی ۔

میلے کے تین ماہ بعد……

سلطان کی فوج میں تین جرائم کی رفتار بڑھنے لگی ……چوری ، جواء بازی اور رات کی غیر حاضری……یہ جرائم اس سے پہلے بھی ہوتے تھے ، لیکن نہ ہونے کے برابر تھے ۔ فوجی میلے کے بعد یہ وبا کی صورت اختیار کرنے لگے۔ ان تینوں کی بنیاد جواء بازی تھی ۔چوری کی وارداتیں اسی تک محدود تھیں کہ سپاہی سپاہی کی کوئی ذاتی چیز چرا کر بازار میں بیچ ڈالتا تھا، مگر ایک رات فوج کے تین گھوڑے غائب ہوگئے ۔سواروں اور سپاہیوں کی تعداد پوری تھی ۔کوئی بھی غیر حاضر نہیں تھا، اگر اس نقصان کو نظر انداز کردیاجاتا تو اگلی بار دس گھوڑے چوری ہوجاتے ۔ اعلیٰ حکام تک رپورٹ پہنچی ۔انہوں نے فوجوں کو تنبیہ کی ، سزاسے ڈرایا ، خدا سے ڈرایا مگر یہ تینوں جرائم بڑھتے گئے۔

ایک رات ایک سپاہی پکڑا گیا۔ وہ کہیں سے کیمپ میں آرہاتھا۔ اس سے پہلے رات کو غیر حاضر ہونے والے سپاہی چوری چھپے سنتریوں سے بچ کر نکل جاتے اور بچتے بچاتے آجاتے تھے، لیکن یہ سپاہی لڑکھڑاتا آرہاتھا ۔ سنتری نے اسے دیکھ لیا اور اُسے پکارا ۔ سپاہی رُک گیا اور گر پڑا ۔ سنتری نے دیکھا کہ یہ خون میں نہایا ہواتھا۔ اسے اُٹھا کر اپنے عہدے دار کے پاس لے گیا۔ اس کی مرہم پٹی کی گئی ، مگر وہ زندہ نہ رہ سکا۔ مرنے سے پہلے اس نے بتایا کہ وہ اپنے ایک ساتھی سپاہی کو قتل کر آیا ہے اور اس کی لاش کیمپ سے نصف کوس دور ایک خیمے میں پڑی ہے ۔اس کے بیان کے مطابق وہاں تین خیمے تھے ۔وہ لوگ خانہ بدوش تھے ۔ان کے پاس خوب صورت عورتیں تھیں ۔ وہ ان عورتوں کی نمائش فوجیوں میں کرتے تھے ۔ رات کو سپاہی وہاں تک پہنچ جاتے تھے ، وہ دوسروں کو بتاتے تو وہ بھی چلے جاتے ۔

وہ خانہ بدوش صرف عصمت فروش نہیں تھے ۔ ان کی ہر عورت اپنے ہر فوجی گاہک کو یہ تاثر دیتی تھی کہ وہ اس پر فدا ہے اور اس کے ساتھ شادی کر لے گی ۔بعد کی تحقیقات سے پتہ چلا کہ انہوں نے سپاہیوںمیں رقابت پیدا کردی تھی۔اسی کا نتیجہ تھا کہ یہ دوسپاہی خانہ بدوشوں کے خیمے میں لڑپڑے ۔ ایک مارا گیا اور دوسرا زخمی ہوکر آیا اور بیان دے کر مرگیا۔
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: داستان ایمان فروشوں کی ۔۔جلد اول مکمل

Post by ایکسٹو »

دوسرے سپاہی کی لاش لانے کے لیے آدمی روانہ کردئیے گئے ۔ ان کے ساتھ ایک کمان دار بھی تھا۔ مرنے والے سپاہی نے راستہ اور جگہ بتادی تھی ۔ وہاں گئے تو دیکھا کہ سپاہی کی لاش پڑی ہے ۔ خیمے نہیں ہیں ، وہاں کے نشان بتارہے تھے کہ یہاں سے خیمے اُکھاڑے گئے ہیں ۔ رات کے وقت اُن کی تلاش ممکن نہیں تھی ۔ سپاہی کی لاش اُٹھالائے ۔اس حادثے کی رپورٹ سلطان ایوبی کو دی گئی اور یہ بھی بتایا گیا کہ فوج میں جرائم بڑھ گئے ہیں اور تین گھوڑے بھی چوری ہوچکے ہیں ۔سلطان نے علی بن سفیان کو بلا کر کہا کہ وہ سپاہیوں کے بھیس میں اپنے سراغ رساں فوج میں شامل کرکے معلوم کرے کہ یہ جرائم کیوں بڑھ گئے ہیں ۔سلطان نے اس سلسلے میں البرق کو بھی حکم دیا۔

اس ''کیوں ''کا جواب شہر کے اندر موجود تھا، جہاں تک علی بن سفیان کے سراغ رساں کی رسائی محال تھی ۔ یہ ایک بہت بڑا قلعہ نما مکان تھا۔ مصریوں کا ایک کنبہ نہیں ،بلکہ پورا خاندان اس میں رہتاتھا۔ اس مکان اور مکینوں کو شہر میں عزت حاصل تھی ، کیونکہ یہاں خیرات بہت تقسیم ہوتی تھی ۔ناداروں کو یہاں سے مالی مدد ملتی تھی ۔فوجی میلے میں اس خاندان نے سلطان ایوبی کو اشرفیوں کی دو تھیلیاں فوج کے لیے پیش کی تھی ۔ یہ سودا گر خاندان تھا۔ مصرمیں سلطان ایوبی کے آنے سے پہلے یہ مکان سوڈانی فوج کے بڑے رتبے والوں اور انتظامیہ کے حاکموں کی مہمان گاہ بنارہاتھا۔ سوڈانیوں کو سلطان ایوبی نے آکر ختم کردیا تو اس خاندان کی وفاداریاں حکومت کے ساتھ رہیں اور یہ سلطان ایوبی کا وفادار ہوگیا۔

جس روز سلطان ایوبی نے البرق اور علی بن سفیان کو حکم دیا کہ وہ فوج میں جرائم کی وبا کی وجوہات معلوم کریں ، اس سے اگلی رات اس مکان کے ایک کمرے میں دس بارہ آدمی بیٹھے تھے ۔شراب کا دور چل رہاتھا۔ کمرے میں ایک بوڑھا آڈمی داخل ہوا۔اسے دیکھ کر سب اُٹھ کھڑے ہوئے ۔ا سکے ساتھ ایک بڑی خوب صورت لڑکی تھی جس کا آدھا چہرہ نقاب میں تھا۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی دروازہ بند کردیاگیا اور لڑکی نے نقاب اُٹھادیا ۔وہ بوڑھے کے ساتھ بیٹھ گئی ۔

''کل امیرِ مصر تک اطلاع پہنچ گئی ہے کہ فوج میں جوئے بازی اور بدکاری بڑھ گئی ہے ''۔ بوڑھے نے کہا……''ہماری آج کی یہ نشست بہت اہم ہے ۔امیرے نے سپاہیوں کے بھیس میں فوج میں سراغ رساں شامل کرنے کا حکم دے دیاہے ۔ ہمیں ان سراغ رسانوں کو ناکام کرنا ہے ۔تازہ اطلاع بڑی ہی اُمید افزاہے ۔ دومصری سپاہیوں نے ایک عورت پر لڑ کر ایک دوسرے کو قتل کردیاہے ،یہ ہمای کامیابی کی ابتدا ہے ۔''

''تین مہینون میں صرف ایک مسلمان سپاہی نے دوسرے کو قتل کیا اور خود بھی قتل ہواہے ''۔ ایک آدمی نے بوڑھے کی بات کاٹ کر کہا……''کامیابی کی یہ رفتار بہت سست ہے۔ کامیابی ہم اسے کہیںگے جب ایوبی کا کوئی نائب سالار اپنے سالار کو قتل کردے گا''۔

'' میں کامیابی اسے کہوں گا کہ جب کو ئی سالار یا نائب سالار صلاح الدین ایوبی کو قتل کرد ے گا ''۔ بوڑھے نے کہا ……''مجھے معلوم ہے کہ ایک ہزار سپاہی قتل ہوجائیں تو بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمارامطمعِ نظر ایوبی کا قتل ہے ۔آپ سب کو پچھلے سال کے دونوں واقعات یاد ہوں گے۔ساحل پر سلطان ایوبی پر تیر چلایا گیا اور وہ خطا گیا۔ روم سے آدمی آئے ، وہ ایسے ناکام ہوئے کہ سب کے سب مارے گئے اور ایک بد بخت مسلمان ہوگیا۔ اس سے کیا ظاہر ہوتاہے ؟……یہ کہ سلطان کو قتل کرنا آسان نہیں جتنا آپ لوگ سمجھتے ہیں ۔یہ بھی ہوسکتاہے کہ ایوبی قتل ہوجائے تو اس کا جانشین اس سے زیادہ سخت اور کٹر مسلمان ثابت ہو۔ اس لیے یہ طریقہ زیادہ بہتر ہے کہ اس کی فوجوں کو اس خوب صورت تباہی کے راستے پر ڈال دو ، جس پر صلیب کے پرستاروں نے بغداد اور دمشق کے مسلمان اُمراء اور حاکموں کو ڈال دیاہے ''۔

''صلیب کے پرستاروں اور سوڈا نیوں کو شکست کھائے ایک سال گزر گیاہے ''۔ ایک نے کہا……''اس ایک سال میں آپ نے کیاکیاہے؟……محترم !آپ بڑا لمبا راستہ اختیار کررہے ہیں ۔دو آدمیوں کا قتل بے حد لازمی ہے ۔ایک صلاح الدین ایوبی ، دوسرا علی بن سفیان ''۔

''اگر علی بن سفیان کو ختم کردیاجائے تو ایوبی اندھا اور بہرہ ہوجائے گا''۔ ایک اور نے کہا۔

''میں نے وہ آنکھیں حاصل کرلی ہیں جو سلطان ایوبی کے سینے کے ہر ایک راز کو دیکھ سکتی ہیں''۔ بوڑھے نے کہااور اس لڑکی کی پیٹھ پر ہاتھ رکھا جو اس کے ساتھ آئی تھی ۔بوڑھے نے کہا……''یہ ہیں وہ آنکھیں ۔دیکھ لو اِن آنکھوں میں کیا جادو ہے ۔تم سب نے صلاح الدین ایوبی کے ایک حاکم خادم الدین البرق کانام سنا ہوگا۔تم میں سے بعض نے اسے دیکھا بھی ہوگا۔ صرف دو آدمی ہیں جو صلاح الدین ایوبی کے سینے میں دیکھ سکتے ہیں ۔ایک علی ، دوسرا البرق ۔علی بن سفیان کو قتل کرنا حماقت ہوگیا، میں نے جس طرح البرق پر قبضہ کر لیاہے ،اسی طرح علی پر بھی کرلوں گا''۔

''البرق آپ کے قبضے میں آچکاہے ؟……ایک نے پوچھا ۔

''ہاں! ''بوڑھے نے لڑکی کے ریشمی بالوں کو ہاتھ سے چھیڑ کر کہا……''میں نے اسے اِن زنجیروں میں جکڑ لیاہے ۔ میں نے آج آپ سب کو چند اور باتیں بتانے کے علاوہ یہ خوش خبری بھی سنانے کے لیے بلایاہے ۔ہمیں جلدی برخاست ہوناہے ،کیونکہ ہم سب کا ایک جگہ اکٹھا ہونا ٹھیک نہیں ۔اس لڑکی کو تم سب شاید جانتے ہو۔ مجھے بالکل اُمید نہیں تھی کہ یہ اتنی اُستادی سے یہ ڈرامہ کھیل لے گی۔اس کی عمر دیکھئے ،پختہ نہیں ہے ۔ میںنے پورے ایک سال ایسے موقع کی تلاش میں مارا مارا پھر تارہا کہ علی بن سفیان یا البرق کو یادونوں کو پھانس سکوں ۔میں ان سے ملا کبھی نہیں ،کیونکہ میں ان کی شناخت میں نہیں آنا چاہتاتھا تھا۔ فوجی حکام کو سلطان شہریوں سے دور رکھتا تھا۔آخر اس نے فوجی میلے کا علان کیا اور مجھے پتہ چل گیا کہ اس نے اپنے فوجی کمان داروں ، سالاروں اور عہدے داروں سے کہاہے کہ میلے میں وہ شہریوں میں بیٹھیں اور ان سے باتیں کریں اور ان پر اپنا رعب نہیں ، بلکہ اعتماد پیدا کریں ۔ مجھے علی بن سفیان کہیں نظر نہیں آیا۔ اس لڑکی کو میں ساتھ لے گیا تھا، البرق نظر آگیا۔ اس کے ساتھ دوکرسیاں خالی تھیں ۔ میں نے لڑکی کو اس کے پاس بٹھادیا۔ اسے میں آٹھ مہینوں سے استادی طریقے سکھارہاتھا۔ مجھے اپنا بوڑھا خاوند اور اپنے آپ کو خرید ی ہوئی مظلوم لڑکی بتاکر اس نے البرق جیسے مومن کو اپنی خوب صورتی میں گرفتار کرلیا۔ ملاقات کا وقت اور جگہ طے کرلی ۔ میں نے اسے بتایا کہ اسے کھنڈر میں کیاناٹک کھیلناہے ۔لڑکی کھنڈر میں چلی گئی ۔میں چار آدمیوں کے ساتھ وہاں موجود تھا۔ دوآدمی اس وقت یہاں موجود ہیں ۔دوکو آپ سب نہیں جانتے ۔ وہ ہمارے گروہ کے آدمی ہیں۔اس نے البرق پر ثابت کردیا کہ یہ اس کی خاطر جان دے دے گی۔ ہمارے چاروں ساتھیوں نے البرق پر اور اس پر تلواروں سے حملے کیے ۔ اس نے برچھی کے وار کیے ۔یہ ناٹک اس قدر حقیقی معلوم ہوتاتھا کہ البرق کو شک تک نہ ہوا۔ کم بخت کے دماغ میں یہ بھی نہ آئی کہ تلواروں کے اور برچھی کے اتنے وار ہوئے ، مگر کوئی زخمی تک نہ ہوا۔میں نے یہ کہہ کر یہ کھیل ختم کیا کہ یہ لڑکی اتنی بہادر ہے کہ کسی بہادر کے پاس ہی اچھی لگتی ہے ۔ میں نے اسے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے البرق کے حوالے کردیا''۔

''میں نے اسے اپنا نام آصفہ بتارکھاہے ''۔ لڑکی نے کہا……''میں حیران ہوں کہ اتنی پختہ عمر کا حاکم اتنی آسانی سے میرے جال میں پھنس گیاہے ۔میں نے اسے شراب کا عادی بنادیاہے ۔اس نے کبھی نہیں پی تھی ۔ پہلی بیوی اسی گھر میں رہتی ہے ۔ا سکے بچے بھی ہیں ، لیکن وہ سب کو جیسے بھول گیاہے ''……لڑکی نے محفل کو تفصیل سے بتایا کہ اس نے کیسے کیسے طریقوں سے سلطان ایوبی کے اس معتمد خاص کی عقل کو اپنی مٹھی میں لے رکھا ہے ۔

''ان تین مہینوں میں یہ لڑکی مجھے صلاح الدین ایوبی کے کئی قیمتی راز دے چکی ہے ''۔بوڑھے نے کہا…… ''سلطان ایوبی بہت زیادہ فوج تیار کررہاہے ۔ اس میں سے وہ آدھی مصر میں رکھے گا اور باقی نصف کو اپنی کمان میں عیسائی باد شاہوں کے خلاف لڑانے کے لیے جائے گا۔ اس کی نظر یروشلم پر ہے ، لیکن البرق سے اس لڑکی نے جو راز لیے ہیں ، وہ یہ ہیں کہ سلطان سب سے پہلے اپنے مسلمان حکمرانوں اور قلعہ داروں کو متحد کرے گا ۔ ان کے اتحاد کو صلیب کے پرستاروں نے بالکل اسی طرح بکھیر دیاہے جس طریقے سے ہم نے البرق کو اپنے قبضے میں لیاہے ''۔

''تو کیا ہم یہ سمجھیں کہ البرق اب ہمارے گروہ کافرد ہے؟''……ایک آدمی نے پوچھا۔

''نہیں ''۔بوڑھے نے جواب دیا۔ ''وہ سچے دِل سے ایوبی کا وفادار ہے ۔ وہ اتناہی وفادار اس لڑکی کا بھی ہے۔یہ لڑکی سلطان ، قوم اور اسلام کی وفاداری کا اظہار ایسے والہانہ طریقے سے کرتی ہے کہ البرق اسے ، قوم کی جانباز بیٹی سمجھتا ہے ۔ا س لڑکی کے حسن و جوانی اور محبت کے عملی اظہار کا جادو الگ ہے ۔ البرق کو ہم اپنے ساتھ نہیں ملاسکتے ۔ ضرورت ہی کیا ہے ۔وہ پوری طرح ہمارے ہاتھوں میں کھیل رہاہے ''۔

''سلطان ایوبی اور کیا کرنا چاہتاہے؟''۔اس گروہ کے ایک رُکن نے پوچھا۔

''اس کے ذہن میںسلطنتِ اسلامیہ ہے ''۔ بوڑھے نے کہا۔''وہ صلیب کی سلطنت میں اسلام کا جھنڈا گاڑنے کا منصوبہ بناچکاہے ۔ہمارے ان جاسوسوں کو جو سمند رپار سے آئے ہیں ،ایوبی نے گرفتار اور بے کار کرنے کے لیے علی بن سفیان کی نگرانی میں ایک بہت بڑا گروہ تیار کیاہے۔ البرق سے حاصل کی ہوئی اطلاعات کے مطابق اس نے جانبازوں کی ایک الگ فوج تیار کی ہے ، جسے وہ صلیبی ملکوں میں بھیج کر جاسوسی اور تباہی کرائے گا۔ اس فوج کی ٹریننگ شروع ہوچکی ہے ۔صلاح الدین ایوبی کے منصوبے بہت خطرناک ہیں ۔ انہی کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اس نے فوجی میلے کا ڈھونگ رچایا اور چھ سات ہزار جوان بھرتی کر لیے ہیں ۔لوگ ابھی تک بھرتی ہورہے ہیں ۔بھرتی ہونے والوں میں سوڈانی بھی ہیں ۔مجھے اوپر سے جو ہدایات ملی ہیں ،وہ یہ ہیں کہ ایوبی کی فوج میں بدکاری کے بیج بونے ہیں ۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ ان کے دلوں میں عورت اور جواء داخل کردو''۔

بوڑھے نے بتایا کہ اس نے فوجی میلے کے فوراً بعد اپنے آدمی بھرتی کرادئیے تھے ۔انہوں نے بڑی خوبی سے فوج میں جواء شروع کرادیاہے ۔جواء اور عورت ایسی چیزیں ہیں جو انسان کو چوری اور قتل تک لے جاتی ہیں ۔اس نے دوسرا طریقہ یہ بتایا کہ عصمت فروش عورتوں کو ٹریننگ دے کر فوجی کیمپوں کے ارد گرد چھوڑدیاگیاہے ، جو یہ ظاہرنہیں ہونے دیتیں کہ وہ پیشہ ور ہیں ۔انہوں نے سلطان کے فوجیوں کو بدی کے راستے پر ڈالنے کے ساتھ ساتھ ان میں رقابت بھی پیدا کردی ہے ۔بوڑھے نے کہا……''اس کی کامیابی پر سوں سامنے آئی ہے۔دوسپاہی ایک عورت کے خیمے میں بیک وقت پہنچ گئے ۔دونوں لڑپڑے اور ایک دوسرے کو بُری طرح زخمی کردیا۔ایک تو خیمے میں ہی مرگیا۔ دوسرے کے متعلق پتہ چلا کہ کیمپ میں جاکر مرگیاہے ……یہ رپورٹ سلطان ایوبی تک پہنچ گئی ہے۔ اس نے علی بن سفیان اور البرق کو حکم دیاہے کہ فوجوں میں اپنے سراغ رساں بھیج کر معلوم کریں کہ جواء بازی ، چوری چکاری اور بدکاری کیوں بڑھتی جارہی ہے۔لہٰذا آپ سب ان تمام عورتوں سے جو اسی کام میں مصروف ہیں ،کہہ دیں کہ کیمپوں کے قریب نہ جائیں ''۔

اسی مجلس میں یہ بھی بتایا گیا کہ آصفہ جس کا اصلی نام کچھ اور تھا، پانچویں ، چھٹی رات اس بوڑھے کو اطلاعیں دینے جاتی ہے جو وہ البرق سے حاصل کرتی ہے ، جس رات اُسے باہر نکلنا ہوتاہے ،وہ البرق کو شراب میں ایک خاص سفوف گھول کر پلادیتی ہے۔ا سکے اثر سے صبح تک اس کی آنکھ نہیں کھل سکتی ۔ مجلس میں یہ انکشاف بھی ہوا کہ مصرکے شہریوں اور قصبوں میں خفیہ قحبہ خانے اور قمار خانے قائم کردئیے گئے ہیں ۔ان کے اثرات اُمید افزا ہیں ۔تربیت یافتہ عورتیں اچھے اچھے گھرانوں کے نوجوانوں کو بدکاری کے راستے پر ڈالتی جارہی ہیں ۔اب کوشش یہ کی جائے گی کہ مسلمان لڑکیون میں بھی بے حیائی کا رجحان پیدا کیا جائے۔

یہ محفل جو جاسوسوں کا ایک خفیہ اجلاس تھا، برخاست ہوئی ۔ وہ سب اکٹھے باہر نہ نکلے ۔ایک آدمی باہر جاتاتھا۔ دس پندرہ منٹ بعد دوسرا آدمی نکلتاتھا۔ بوڑھا بھی چلاگیاتھا۔ صرف آصفہ اور ایک آدمی رہ گیا ۔آصفہ نے نقاب میں چہرہ چھپایا اور اس آدمی کے ساتھ نکل گئی ۔
البرق نے آصفہ کو ایک راز بناکے رکھا ہواتھا۔ اس نے ابھی کسی کونہیں بتایا تھا کہ اس نے دوسری شادی کرلی ہے ۔دوسری شادی معیوب نہیں تھی ،لیکن وہ ڈرتاتھا کہ دوست مذاق کریں گے کہ اتنا عرصہ ایک بیوی کے ساتھ گزار کر چالیس سال کی عمر میں نوجوان لڑکی کے ساتھ شادی کرلی ،مگر یہ بھید چھپ نہ سکا۔ علی بن سفیان نے شہر میں اور فوجی کیمپوں کے ارد گرد اپنے جاسوس پھیلارکھے تھے ۔اسے یہ اطلاعیں مل رہی تھی کہ فوجی میلے کے بعد شہر میں بھی جواء اور بدکاری بڑھ رہی ہے۔ ایک روز ایک سراغ رساں نے علی بن سفیان کو یہ رپورٹ دی کہ گزشتہ تین مہینوں میں اس نے چار بار دیکھا ہے کہ خادم الدین البرق کے گھر سے رات اُس وقت جب سب سوجاتے ہیں ،ایک عورت سیاہ لبادے میں لپٹی ہوئی نکلتی ہے۔وہ تھوڑی دور جاتی ہے تو ایک آدمی اس کے ساتھ ہوجاتاہے ۔سراغ رساں نے بتایا کہ دوبار اس نے یہیں تک دیکھا، تیسری بار اس نے اس عورت کا پیچھا کیا، وہ اس آدمی کے ساتھ ایک مکان میں چلی گئی ۔وہاں سے کچھ دیر بعد نکلی اور اُس آدمی کے ساتھ واپس چلی گئی۔

اس سراغ رساں نے بتایا کہ اس نے اس عورت کو گزشتہ رات گھر سے نکلتے ،ایک آدمی کے ساتھ جاتے دیکھا تو تعاقب کیا۔وہ اسی مکان میں داخل ہوگئی ۔ذراسی دیر بعد وہ ایک آدمی کے ساتھ مکان سے نکلی ۔وہ دونوں شہر کے ایک بہت بڑے مکان میں داخل ہوگئے ۔سراغ رساں مکان سے دُور دُور رہا۔بہت ساوقت گزرجان کے بعد اس مکان سے ایک ایک کرکے گیارہ آدمی نکلے ۔ آخر میں ہ عورت ایک آدمی کے ساتھ نکلی ۔سراغ رساں اندھیرے سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ان کے تعاقب میں گیا۔ البرق کے مکان سے کچھ دُور آدمی ایک اور طرف چلا گیااور عورت البرق کے مکان میں داخل ہوگئی۔

سراغ رساں البرق جیسے حاکم کے گھر کے متعلق کوئی بات کہنے کی جرأت نہیں کرسکتاتھا، لیکن علی بن سفیان کی ہدایات اور احکام بڑے ہی سخت تھے۔ اس نے اپنے جاسوسوں ، مخبروں اور سراغ رسانوں سے کہہ رکھاتھا کہ وہ سلطان ایوبی کی کسی حرکت کو شک سے دیکھیں تو بھی اسے بتائیں اور وہ کسی کے رتبے کا لحاظ نہ کریں ،جہاں انہیں کسی قسم کا شک ہو،خواہ کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو،وہ علی بن سفیان کو تفصیل سے بتائیں ۔یہ سبق جاسوسی کی ٹریننگ میں شامل تھا کہ جاسوسی کی کامیابی کا دارومدار ایسی ہی حرکتوں اور با توں سے ہوتاہے ،جنہیں بے معنی سمجھ کر نظر انداز کردیاجاتاہے۔

اس سراغ رساں نے چار مرتبہ جو مشاہدہ کیاتھا، وہ علی بن سفیان کے لیے اہم تھا، وہ البرق کی بیوی ک اچھی طرح جانتاتھا، وہ ایسی عورت نہیں تھی کہ راتوں کو کسی غیر مرد کے ساتھ باہر جائے ۔البرق کی کوئی جوان بیٹی بھی نہیں تھی۔ یہ تو کسی کو بھی علم نہ تھا کہ البرق نے ایک نوجوان لڑکی کے ساتھ شاد کر لی ہے ۔اس نے اس مسئلے پر بہت غور کیا، اُسے یہ خیال بھی آگیا کہ البرق اس کا دوست بھی ہے ۔اُسے حق پہنچتا تھاکہ اس کے دوست کے گھر میں کوئی گڑبڑہے اس کے لیے کچھ کرے ،مگر اس کے ذہن میں جوسوچ غالب تھی ،وہ یہ تھی کہ شہر میں مشکوک عورتوں کا ریلا سا آگیاتھا۔ کہیں ایسا تونہیں کہ البرق کسی بدکار عورت کے چکر میں میں آگیاہو؟ایک طریقہ اس کے دماغ میں آگیا۔ اس نے اپنے محکمے کی ایک عورت کو اس روپ میں البرق کے گھر میں بھیجا کہ وہ ایک مظلوم عورت ہے ۔ا س کا خاوند مرگیاہے اور اس کے بیٹے آوارہ ہوگئے ہیں ، لہٰذا اس کی اعانت کی جائے ۔

ہدایت کے مطابق یہ عورت اُس وقت البرق کے گھر میں گئی جب وہ گھر میں نہیں تھا۔ دوسری ہدایت کے مطابق و ہ سارے گھر میں پھری تو اُسے آصفہ نظر آگئی۔ یہ عورت البرق کی پہلی بیوی سے ملی ۔اپنی ''فریاد'' پیش کی اور کہا کہ وہ ) البرق کی پہلی بیوی( البرق سے اس کی سفارش کرے ۔باتوں باتوں میں اس نے کہا ……''آپ کی بیٹی کی شادی ہوگئی ہے یا ابھی کنواری ہے؟'' ……اسے جواب ملا ……''یہ میری بیٹی نہیں ، میرے خاوند کی دوسری بیوی ہے ۔تین مہینے ہوئے انہوں نے شادی کی ہے''۔

علی بن سفیان کے لیے یہ اطلاع حیران کن تھی۔اس کے دل میں یہی شک پیدا ہوگیا کہ رات کو باہر جانے والی اس کی نئی بیوی ہوسکتی ہے ۔علی نے ایک اور عورت کے ہاتھ البرق کی پہلی بیوی کو پیغام بھیجاکہ وہ اُسے کہیں باہر ملنا چاہتا ہے ، مگر البرق کو پتہ نہ چلے ، اس نے یہ بھی کہلا بھیجا کہ ان کے گھر کے متعلق کوئی بہت ہی ضروری بات کرنی ہے۔ علی نے ملاقات کے لیے ایک جگہ بھی بتادی اور وقت وہ بتا دیا جب البر ق دفتر میں مصروف ہوتاتھا…… وہ آگئی ۔علی بن سفیان کے دل میں اس معزز عورت کا بہت ہی احترام تھا ۔اس نے البرق کی بیوی سے کہا کہ اسے معلوم ہوا ہے کہ البرق نے دوسری شادی کرلی ہے ۔بیوی نے جواب دیا……''خدا کا شکر ہے کہ اس نے دوسری شادی کی ہے ۔چوتھی اور پانچویں نہیں کی''۔

باتیں کرتے کرتے علی بن سفیان نے پوچھا ۔''وہ کیسی ہے؟''

''بہت خوب صورت ہے ''۔بیوی نے جوا ب دیا۔

''شریف بھی ہے ؟''…… علی بن سفیان نے پوچھا ……''آپ کو اس پر کسی قسم کا شک تو نہیں؟…… کچھ دیر تک وہ گہری سوچ میں پڑی رہی ۔علی نے کہا……''اگر میں یہ کہوں کہ وہ کبھی کبھی رات کو باہر چلی جاتی ہے تو آپ بُرا تو نہ جانیں گی ؟''

وہ مُسکرائی اور کہنے لگی……''میں خود پریشان تھی کہ یہ بات کس سے کروں ۔ میرے خاوند کا یہ حال ہے کہ اس کا غلام ہوگیاہے ۔ مجھ سے تو اب بات بھی نہیں کرتا۔ میں اس لڑکی کے خلاف خاوند کے ساتھ بات کروں تو وہ مجھے گھر سے نکال دے ۔وہ سمجھے گا کہ میں حسد سے شکایت کررہی ہوں ۔یہ لڑکی صاف نہیں ۔ ہمارے گھر میں شراب کی بو بھی کبھی نہیں آئی تھی ۔ اب وہاں مٹکے خالی ہوتے ہیں ''۔

''شراب ؟'' علی بن سفیان نے چونک کر پوچھا……''البرق شراب بھی پینے لگاہے ؟''

''صرف پیتا نہیں ''۔بیوی نے کہا ……''بد مست اور مدہوش ہوجاتا ہے۔میں نے چھ بار اس لڑکی کو رات کے وقت باہر جاتے اور بہت دیر بعد آتے دیکھا ہے ۔میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ جس رات لڑکی کو باہر جاناہوتا ہے ،ا س رات البرق بے ہوش ہوتاہے ۔صبح بہت دیر سے اُٹھتا ہے ۔ لڑکی بدمعاش ہے ۔اسے دھوکہ دے رہی ہے''۔

''لڑکی بدمعاش نہیں''۔ علی بن سفیان نے کہا…''وہ جاسوس ہے۔و ہ البرق کو نہیں ، قوم کو دھوکہ دے رہی ہے''۔

''جاسوس ؟'' بیوی نے چونک کر کہا……''میرے گھر میں جاسوس ؟'' وہ اُٹھ کھڑی ہوئی ۔دانت پیس کر بولی……''آپ جانتے ہیں کہ میں شہید کی بیٹی ہوں ۔البرق پکا مسلمان تھا ۔ اس نے زندگی اسلام کے نام پر وقف کررکھی تھی۔میں بچوں کو جہاد کے لیے تیار کرہی ہوں اور آپ کہتے ہیں کہ میرے بچوں کا باپ ایک جاسوس لڑکی کے قبضے میں آگیا ہے۔ میں اپنے بچوں کے باپ کو قربان کرسکتی ہوں ، قوم اور اسلام کو قربان ہوتا نہیں دیکھ سکتی ۔ میں دونوں کو قتل کردوں گی''۔

علی بن سفیان نے اسے بڑی مشکل سے ٹھنڈا کیا اور اسے سمجھا یا کہ ابھی یہ یقین کرنا ہے کہ یہ لڑکی جاسوس ہے اور یہ بھی دیکھنا ہے کہ البرق بھی جاسوسوں کے گروہ میں شامل ہوگیاہے یا اسے شراب پلا کر صرف استعمال کیاجارہاہے ۔ اس عورت کو یہ بھی بتایا گیا کہ جاسوسوں کو قتل نہیں ، گرفتار کیا جاتاہے اور ان کے دوسرے ساتھیوں کے متعلق پوچھا جاتاہے ۔ علی بن سفیان نے اسے کچھ ہدایات دیں اور اُسے کہا کہ وہ لڑکی کی ہر حرکت پر نظر رکھے ……یہ عورت چلی گئی ۔یوں معلوم ہوتاتھا جیسے علی بن سفیان کی ہدایات پر ٹھنڈے دل سے عمل کرے گی ، مگر اس کی چال اور اسکے انداز سے یہ بھی معلوم ہوتاتھا کہ کسی بھی وقت بے قابوہوجائے گی ۔ وہ حرم کی عورت نہیں تھی، وہ خاوند کی وفادار بیوی اور ملک و ملت پر جان نثار کرنیوالی قوم کی بیٹی تھی۔

٭ ٭ ٭

خادم الدین البرق اور علی بن سفیان صرف رفیق کار ہی نہیں تھے۔ ان کی گہری دوستی بھی تھی۔وہ ہم عمر تھے ۔ انہوں نے اکٹھے معرکے لڑے تھے۔ دونوں سلطان ایوبی کے پرانے ساتھی تھے ۔ اتنی گہری دوستی کے باوجود البرق نے علی بن سفیان سے دوسری شادی چھپا رکھی تھی ۔علی کو معلوم ہواتو اس نے البرق کے ساتھ اس ضمن میں کوئی بات نہیں کی۔ وہ اس کی بیوی کی وساطت سے اس کے گھر کا معمہ حل کرنے کی کوششوں میں لگا ہواتھا۔ اس نے البر ق کے مکان اور اُس مکان کے درمیان اپنے جاسوسوں میں اضافہ کردیا تھا، جہاں البرق کی نئی بیوی رات کو جایا کرتی تھی ۔البرق کی پہلی بیوی کے ساتھ باتیں کیے دو راتیںگزر گئی تھیں ۔ لڑکی باہر نہیں نکلی تھی۔ جاسوس پوری پوری رات بیدار رہے تھے۔

تیسری رات، نصف شب سے ذرا پہلے علی بن سفیان گہری نیند سویا ہوا تھا۔ اس نے اپنے عملے اور اپنے ملازموں سے کہہ رکھا تھا کہ وہ جب چاہیں اسے جگا سکتے ہیں۔وہ ان حاکموں سے مختلف تھا جو کسی کو آرام میں مخل ہونے کی اجازت نہیں دیتے تھے ۔اُس رات علی کو ملازم نے گہری نیند سے بیدار کیا اور کہا……''عمرآیا ہے،گھبرایا ہواہے''۔

علی بن سفیان کمان سے نکلے ہوئے تیر کی طرح کمرے سے نکلا ،صحن دوتین چھلانگوں میں عبور کیا اور ڈیوڑھی سے باہر نکل گیا۔ اس کے عملے کا ایک آدمی باہر کھڑا تھا۔اس نے کہا …… ''ملا زم کو دوڑائیں ۔دس بارہ سوار فوراً منگوائیں۔ اپنا گھوڑا جلدی تیار کریں،پھر آپ کو بتاتا ہوں کہ کیا ہواہے''۔

علی بن سفیان نے ملاز کو چودہ مسلح سوار اور اپنا گھوڑا اور تلوار لانے کو دوڑا یا اور عمر سے پوچھا…''کہو کیا بات ہے''۔

عمر اور آذر نام کے دوجاسوس آصفہ کو دیکھنے کے لیے متعین تھے۔ علی بن سفیان نے انہیں حکم دے رکھا تھا کہ لڑکی گھر سے نکل کر کہیں جائے تو اسے فوراً اطلاع دی جائے ۔ عمر بڑی خطرناک اطلاع لے کر آیا۔ اس نے بتایا کہ تھوڑی دیر گزری ، البرق کے گھر سے سیاہ چادر میں سر سے پائوں تک لپٹی ہوئی ایک عورت نکلی ۔پچاس ساٹھ گز آگے گئی تو البرق کے گھر سے اسی لباس میں ایک اور عورت نکلی ۔وہ بہت تیز تیز اگلی عورت کے پیچھے چلی گئی۔جب اُس سے ذرا دُور رہ گئی تو اگلی عورت رُک گئی۔ دونوں جاسوس چھپے ہوئے تھے۔ انہیں کوئی دیکھ نہ سکا۔ وہ تعاقب بھی چھپ کر کرتے تھے دونوں عورتوں میں نہ جانے کیا بات ہوئی۔ ان میں سے ایک نے تالی بجائی، کہیں قریب سے ایک آدمی نکلا ۔اس نے بعد میں آنے والی عورت کو پکڑنا چاہا۔ عورت نے اس پر کسی ہتھیار کا وار کیا جو اندھیرے میں نظر نہیں آتا تھا۔ا س آدمی نے بھی اس پر کسی ہتھیار سے وار کیا۔

جو عورت پہلے آئی تھی، اس کی آواز سنائی دی……''اِسے اُٹھا کر لے چلو''……دوسری عورت نے اس پر وار کیا۔ اس کی چیخ سنائی دی۔ دوسری عورت نے اس پر ایک اور وار کیا اور آدمی کا وار بچایا بھی ۔ دونوں عورتیں زخمی ہوگئیں تھیں ۔عمر علی بن سفیان کو اطلاع دینے دوڑ پڑا۔آذر وہیں چھپا رہا۔اُسے یہ دیکھنا تھا کہ یہ لوگ کہاں جاتے ہیں۔

علی بن سفیان نے اس قسم کے ہنگامی حالات کے لیے تیز رفتار اور تجربہ کار لڑا کا سواروں کا ایک دستہ تیار رکھا ہوا تھا۔ یہ سوار اپنے گھوڑوں کے قریب سوتے تھے ۔ زینیں اور ہتھیار اُن کے پاس رہتے تھے ۔ انہیں یہ مشق کرائی جاتی تھی کہ رات کے وقت ضرورت پڑنے پر وہ چند منٹوں میں تیار ہوکر ضرورت کی جگہ پہنچیں ۔وہ اس قدر تیز ہوگئے تھے کہ علی بن سفیان کے ملازم نے دستے کے کمان دار کو اطلاع دی کہ چودہ سوار بھیج دو تو وہ علی بن سفیان کے کپڑے بدلنے اور اس کا گھوڑا تیار ہونے تک پہنچ گئے ۔

علی بن سفیان کی قیادت اور عمر کی راہنمائی میں وہ واردات کی جگہ پہنچے ۔دوسواروں کے ہاتھوں میں ڈنڈوں کے ساتھ تیل میں بھیگے ہوئے کپڑوں کی مشعلیں تھی، وہاں دو لاشیں پڑی تھیں ۔علی بن سفیان نے گھوڑے سے اُتر کر دیکھا، ایک البرق کی پہلی بیوی تھی ،دوسرآ ذر تھا، عمر کا ساتھی۔دونوں زندہ تھے اور خون میں ڈوبے ہوئے تھے ۔آذر نے بتایا کہ وہ البرق کی بیوی کو پھینک کر چلے گئے تو وہ اس کے پاس گیا۔ اچانک پیچھے سے کسی نے اُس پر خنجر کے تین وار کیے۔ وہ سنبھل نہ سکا،حملہ آور بھاگ گیا۔ آذر نے بتایا کہ دوسری عورت البرق کے گھر کی طرف نہیں گئی، بلکہ اُدھر گئی ہے، جہاں وہ پہلے جایا کرتی تھی ۔عمر کو اس گھر کا علم تھا۔

علی بن سفیان نے دو سواروں سے کہا کہ وہ دونوں زخمیوں کو فوراً جراح کے پاس لے جائیں اور ان کا خون روکنے کی کوشش کریں ۔ باقی سواروں کو وہ عمر کی راہنمائی میں اُس مکان کی طرف لے گیا ،جہاں آصفہ پہلے کئی بار جاتے دیکھی گئی تھی ۔ وہ پرانے زمانے کا بڑا مکان تھا۔ اس سے ملحق کئی اور مکان تھے۔ پچھواڑے سے گھوڑے کے ہنہنانے کی آواز آئی ۔علی نے اپنے سواروں کو مکان کے دونوں طرف سے پیچھے بھیجا۔دوسواروں کو مکان کے سامنے کھڑا کردیا اور کہا کہ کوئی بھی اندر سے نکلے تو اسے پکڑ لو، بھاگنے کی کوشش کرے تو پیچھے سے تیر مارو اور ختم کردو۔

سوار ابھی چکر کاٹ کر پچھواڑے کی طرف جاہی رہے تھے کہ دوڑتے گھوڑوں کے ٹاپو سنائی دینے لگے۔ علی بن سفیان نے ایک سوار سے کہا…''سر پٹ جائو، اپنے کمان دار سے کہو کہ اس مکان کو گھیرے میں لے کر اندر داخل ہو جائیں ، اندر کے تمام افراد کو گرفتار کرلے''… سوار کیمپ کی طرف روانہ ہوگیا۔علی بن سفیان نے بلند آواز سے اپنے جاسوسوں کو حکم دیا…''ایڑ لگائو، تعاقب کرو۔ ایک دوسرے کو نظر میں رکھو''۔…اور اس نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی ۔یہ رسالے کے چنے ہوئے گھوڑے تھے اور ان کے سوار سلطان ایوبی سے کئی بار خراجِ تحسین حاصل کرچکے تھے ۔مفرور بھی شاہ سوار معلوم ہوتے تھے ۔اُن کے گھوڑوں کے ٹاپو بتاتے تھے کہ اچھی نسل کے بہت تیز دوڑنے والے گھوڑے ہیں۔یہ شہر کا علاقہ تھا، جہاں مکان کی رکاوٹیں تھیں ۔گلیاں تھیں ،جو گھوڑوں کی دوڑ کے لیے کشادہ نہیں تھیں ،اِن سے آگے کھلا میدان تھا۔

اندھیرے میں گھوڑے نظر نہیں آتے تھے ۔ اُن کی آوازوں پر تعاقب ہورہاتھا۔ وہ جب کھلے میدان میں گئے تو اُن کا چھپنا مشکل ہوگیا ۔اُفق کے پس منظر میں وہ سایوں کی طرح صاف نظر آنے لگے۔وہ چار تھے۔ انہوں نے کم و بیش ایک سو گز کا فاصلہ حاصل کرلیاتھا۔ وہ پہلو بہ پہلو جارہے تھے ۔علی بن سفیان کے حکم پر دوسواروں نے اسی رفتار سے گھوڑے دوڑآتے ہوئے تیر چلائے ۔تیر شاید خطا گئے تھے ، بھاگنے والے دانش مند معلوم ہوتے تھے ۔تیر ان کے قریب سے یا درمیان سے گر ے تو انہوں نے گھوڑے پھیلادئیے۔وہ اکٹھے جارہے تھے ۔ان کے گھوڑے کھلنے لگے۔ نہایت اچھے طریقے سے گھوڑے ایک دوسرے سے خاصے دور ہٹ گئے ۔ علی بن سفیان کا دستہ بہت تیز تھا، فاصلہ کم ہوتا جارہاتھا،مگر بھاگنے والوں کے گھوڑے اور زیادہ ایک دوسرے سے ہٹتے جارہے تھے۔ آگے کھجور کے پیڑو ں کا جھنڈ آگیا۔اُن کے گھوڑے وہاں اس طرح ایک دوسرے سے دورہٹ گئے کہ دو دائیں طرف اور دو کھجوروں کے بائیں طرف ہوگئے ۔یہ جگہ اونچی تھی، گھوڑے اوپر اُٹھے اور غائب ہوگئے ۔

تعاقب کرنے والے بلند ی پر گئے تو انہیں آگے جو بھاگتے سائے نظر آئے ،وہ ایک دوسرے سے بہت ہی دُور ہوگئے تھے ۔پھر وہ اتنی دور دور ہوگئے کہ ان کے رُخ ہی بدل گئے ۔علی بن سفیان جان گیا کہ وہ اس کے سواروں کو منتشر کرنا چاہتے ہیں ۔ علی نے بلند آواز سے کہا…''ہر سوار کے پیچھے تقسیم ہوجائو۔ ایک دوسرے کو بتادو۔ ایڑ لگائو، فاصلہ کم کرو، کمانوں میں تیر ڈال لو''۔

سوار تقسیم ہوگئے ۔سب نے کندھوں سے کمانیں اُتار کر تیر ڈال لیے اور تقسیم ہوکر ایک ایک گھوڑے کے پیچھے گئے ۔ ان کے گھوڑوں کی رفتار اور تیز ہوگئی ۔ٹاپوئوں کے شور و غل میں کمانوں سے تیر نکلنے کی آوازیں سنائی دیں ۔ کسی نے للکار کر کہا……''ایک کو مارلیا، گھوڑا بے قابو ہوگیاہے ''……ادھر علی بن سفیان کے ساتھ جو دوسوار تھے ،انہوں نے بیک وقت تیر چلائے ۔ اندھیرے میں تیر خطاجانے کاڈر تھا اور تیر خطا جابھی رہے تھے ۔ پھر بھی انہوں نے ایک اور گھوڑے کو نشانہ بنالیا۔ یہ گھوڑا بے قابو ہوکر اور گھوم کر پیچھے کو آیا ۔ ایک سوار نے اس کی گردن میں برچھی ماری ۔ دوسرے نے اپنے گھوڑے سے جھک کر اس کے پیٹ میں برچھی داخل کردی ،مگر گھوڑا توانا تھا، گرانہیں۔سوار زندہ پکڑ ناتھا۔ علی کے ایک سوار نے بازو بڑھا کر ایک سوار کی گردن جکڑ لی نیچے گھوڑا زخمی تھا۔ وہ رُکتے رُکتے رک گیا۔ اس پر ایک آدمی سوار تھااور ایک لڑکی جسے سوار نے آگے بٹھا رکھا تھا۔ لڑکی شاید بے ہوش تھی۔

صحرا کی تاریک رات میں اب کسی سر پٹ دوڑ تے گھوڑے کے ٹاپو نہیں سنائی دیتے تھے ۔سواروں کی آوازیں اور دُلکی چلتے گھوڑوں کے ٹاپو سنائی دیتے تھے۔ سوار ایک دوسرے کو پکار رہے تھے ۔ان کی آوازوں سے پتہ چلتاتھا کہ انہوں نے بھاگنے والوں کو پکڑ لیاہے۔ علی بن سفیان نے سب کو اکٹھا کرلیا۔ بھاگنے والے پکڑے گئے تھے۔ ان کے دوگھوڑے زخمی تھے۔ ان گھوڑوں کو مرنے کے لیے صحرامیں چھوڑدیاگیا۔ بھاگنے والے پانچ تھے۔ چار آدمی اور ایک لڑکی۔ لڑکی گر پڑی تھی ۔ بھاگنے والوں میں سے ایک نے کہا……''ہمارے ساتھ تم لوگ جو سلوک کرنا چاہوکر لو ، مگر یہ لڑکی زخمی ہے۔ہم اُمید رکھیں گے کہ تم اسے پریشان نہیں کروگے''َ

ایک گھوڑے کی زین کے ساتھ مشعل بندھی ہوئی تھی ۔کھول کر جلائی گئی ۔لڑکی کو دیکھا گیا۔ بہت ہی خوب صورت اور نوجوان لڑکی تھی ۔اس کے کپڑے خون سے سرخ ہوگئے تھے۔ اس کے کندھے پر، گردن کے قریب ،خنجر کا گہرا زخم تھا۔ اس سے اتناخون نکل گیا تھا کہ لڑکی کا چہرہ لاش کی طرح سفید اور آنکھیں بند ہوگئی تھیں۔ علی بن سفیان نے زخم میں ایک کپڑا ٹھونس کر اوپر ایک اور کپڑا باندھ دیا اور اُسے ایک گھوڑے پر ڈال کر سوار سے کہا کہ جلدی جرّاح تک پہنچے ۔ وہاں جلدی کا تو سوال ہی نہیں تھا،وہ شہر سے میلوں دُور نکل گئے تھے ۔قیدیوں میں ایک بوڑھا تھا۔

یہ قافلہ جب قاہرہ پہنچا تو صبح طلوع ہورہی تھی ۔ سلطان کو رات کے واقعہ کی اطلاع مل گئی تھی ۔علی بن سفیان ہسپتال گیا ۔جراح اور طبیب قیدی لڑکی کی مرہم پٹی میں اور ہوش میں لانے میں مصروف تھے ۔سوار نے اسے تھوڑی دیر پہلے پہنچا دیاتھا۔ البرق کی پہلی بیوی اور آذر ہوش میں آگئے تھے،مگر اُن کی حالت تسلی بخش نہیں تھی۔سلطان ایوبی ہسپتال میں موجود تھا۔ اس نے علی بن سفیان کو الگ کرکے کہا۔''میں بہت دیر سے یہاں ہوں۔میں نے البرق کو بلانے کے لیے دو آدمی بھیجے تو اس نے عجیب بات بتائی ہے۔وہ کہتاہے کہ البرق ہوش میں نہیں ۔اس کے کمرے میں شراب کے پیالے اور صراحی پڑی ہے ۔کیا وہ شراب بھی پینے لگاہے؟اُسے اتنا بھی ہوش نہیں کہ اس کی بیوی گھر سے باہر زخمی پڑی ہے۔میں نے اس کی بیوی سے ابھی کوئی بات نہیں کی ۔طبیب نے منع کردیاہے''۔

''اس کی ایک نہیں، دوبیویاں زخمی ہیں''……علی بن سفیان نے کہا ……''یہ لڑکی جسے ہم نے صحرا سے جا کر پکڑا ہے، البرق کی دوسری بیوی ہے۔ذرازخمیوں کو بولنے کے قابل ہونے دیں۔ہم نے بہت بڑا شکار ماراہے''۔

البرق سورج نکلنے کے بعد جاگا۔ ملازم کے بتانے پر وہ دوڑتا آیا۔اس کی دونوں بیویاں زخمی پڑی تھیں ۔ اسے چاروں جاسوس دکھائے گئے۔ وہ بوڑھے کو دیکھ کر بہت حیران ہوا۔ اسے وہ آصفہ کا بوڑھا خاوند سمجھتارہاتھا۔ سلطان ایوبی نے یہ واردات اپنی تحویل میں لے لی، کیونکہ یہ جاسوسوں کے پورے گروہ کی واردات تھی اور اس میں اس کا معتمد ملوث تھا جسے فوج کے تمام راز اور آئندہ منصوبے معلوم تھے۔

جوں ہی زخمی بیان دینے کے قابل ہوئے ، ان سے بیان لیے گئے ۔ان سے یہ کہانی یوں بنی کہ البرق کی پہلی بیوی کو جب علی بن سفیان نے بتایا کہ اس کے خاوند کی دوسری بیوی مشتبہ چال چلن کی ہے اور وہ جاسوس معلوم ہوتی ہے تو وہ سخت غصے کے عالم میں گھر چلی گئی۔ وہ اپنے خاوند کو اور آصفہ کو قتل کردینا چاہتی تھی، لیکن علی بن سفیان نے اُسے کہاتھا کہ جاسوسوں کو زندہ پکڑا جاتاہے،تاکہ ان کے چھپے ہوئے ساتھیوں کا سراغ لیاجاسکے۔ اس نے اپنے آپ پر قابو پایا اور آصفہ پر گہری نظر رکھنے لگی۔ اس نے رات کا سونا بھی ترک کردیا تھا

موقع دیکھ کر اس نے ان کے سونے والے کمرے کے اس دروازے میں چھوٹا سا سوراخ کرلیا جو دوسرے کمرے میں کھلتاتھا۔ رات کو اس سوراخ میں سے انہیں دیکھتی رہتی تھی۔دو راتیں تو اس نے یہی دیکھا کہ لڑکی البرق کو شراب پلاتی تھی اور عریانی کا پورا مظاہرہ کرتی تھی ۔ وہ سلطان ایوبی کی باتیں ایسے انداز سے کرتی تھی جیسے وہ اس کا پیر اور مرشد ہو۔ صلیبیوں کو بُرا بھلا کہتی اور وہی باتیں کرتی جو سلطان ایوبی کے جنگی منصوبے میں شامل تھیں۔البرق اسے بتاتا تھا کہ سلطان کیا کررہاہے اور کیا سوچ رہاہے ۔

البرق کی پہلی بیوی نے دوراتیں یہی کچھ دیکھا اور سنا ۔تیسری رات وہ ناٹک کھیلاگیا جس کا البرق کی پہلی بیوی کو بے تابی سے انتظار تھا۔ آصفہ نے البرق کو شراب پلانی شروع کی اور اسے بالکل حیوان بنادیا۔ آصفہ دونوں پیالے اُٹھا کر اور یہ کہہ کر دوسرے کمرے میں چلی گئی…''دوسری لاتی ہوں''…وہ واپس آئی تو پیالوں میں شراب تھی۔اس نے ایک پیالہ البرق کودے دیا ۔ دوسرا خود منہ سے لگا لیا۔ اس کے بعد اس نے بے حد ننگی حرکتیں کیں اور البرق بے سدھ لیٹ گیا ۔ آصفہ نے کپڑے پہنے اور البرق کو آہستہ آہستہ بلایا۔ وہ نہ بولا، پھر اسے ہلایا۔ ہاتھ سے اس کے پپوٹے اوپر کیے،مگر ااس کی آنکھیں نہ کھلیں ۔اس نے پیالے دوسرے کمرے میں لے جا کر شراب میں بے ہوش کرنے والی کوئی چیز البرق کے پیالے میں ملادی تھی۔

آصفہ نے کپڑے پہنے ۔اوپر سیاہ چادر اس طرح لے لی کہ سر سے پائوں تک چھپ گئی ۔ آدھی رات ہونے کوتھی۔ اس نے قندیل بجھائی اور باہر نکل گئی۔پہلی بیوی آگ بگولہ ہوگئی۔ اس نے خنجر اُٹھایا۔ اوپر لباد اوڑھا، وہ کمرے سے نکلنے لگی تو دیکھا کہ آصفہ ایک ملازمہ کے ساتھ کُھسر پُھسر کررہی تھی۔ اس سے پتہ چلا کہ ملازمہ کو اس نے ساتھ ملارکھاتھا۔ آصفہ باہر نکل گئی ۔ملازمہ اپنے کمرے میں چلی گئی۔پہلی بیوی بڑے دروازے سے باہر نکل گئی ۔ وہ تیزتیز چلتی آصفہ کے تعاقب میں گئی۔وہ اس کے قدموں کی آہٹ پر جارہی تھی۔وہ صرف یہ دیکھنا چاہتی تھی کہ وہ کہاں جارہی ہے۔آصفہ کو شاید اس کے قدموں کی آہٹ سنائی دی تھی۔ وہ رُک گئی۔پہلی بیوی اندھیرے میں اچھی طرح دیکھ نہ سکی ۔وہ آصفہ کے قریب چلی گئی اور رُک گئی۔ اچانک آمنے سامنے آجانے سے پہلی بیوی فیصلہ نہ کر سکی کہ کیا کرے ۔ اس کے منہ سے نکل گیا…''کہاں جارہی ہوآصفہ؟

پہلی بیوی کو معلوم نہ تھا کہ لڑکی کی حفاظت کے لیے آدمی چھپ چھپ کر اس کے ساتھ جاتاہے جو کسی کو نظر نہیں آتا۔ آصفہ نے اپنے ہاتھ پر پاتھ مارا اور البرق کی پہلی بیوی سے ہنس کر کہا…'' آپ میرے پیچھے آئی ہیں یا کہیں جارہی ہیں؟''…اتنے میں پیچھے سے کسی نے پہلی بیوی کو بازوئوں میں جکڑ لیا، مگر اس عورت نے گرفت مضبوط ہونے سے پہلے ہی جسم کو زور سے جھٹکادیا اور آزاد ہوگئی ۔اس نے تیزی سے خنجر نکال لیا۔ اس کے سامنے ایک آدمی تھا۔ عورت نے اس پر وار کیا جو وہ بچاگیا۔ آدمی نے ایسا وار کیا کہ خنجر عورت کے پہلو میں اُترگیا۔ اس آدمی نے دیکھ لیاتھا کہ عورت کے پاس خنجر ہے۔وہ فوراً پیچھے ہٹ گیا۔ پہلی بیوی نے آصفہ پر حملہ کیا اور خنجر اس کی گردن اور کندھے کے درمیان اُتاردیا۔لڑکی نے زور سے چیخ ماری۔ آدمی نے پہلی بیوی پر وار کیا جو یہ عورت پھرتی سے بچاگئی ۔ اس نے وار کیاتو اس آدمی نے اس کابازو اپنے بازو سے روک لیا ۔

آصفہ گرپڑی تھی ۔البرق کی پہلی بیوی کوبھی گہرا زخم آیاتھا جو پہلو سے پیٹ تک چلاگیا تھا۔ وہ ڈگمگانے لگی ۔وہ آدمی آصفہ کو اُٹھا کر کہیں چلا گیا۔ علی بن سفیان کے دوجاسوس عمر اور آذر چھپ کر دیکھ رہے تھے ۔انہیں معلوم نہیں تھا کہ دوسری عورت کون ہے ۔عمر اس آدمی کے پیچھے چھپ چھپ کر گیا جو آصفہ کو اُٹھالے گیاتھا۔ وہ اسی مکان میں لے گیا جہاں وہ جایا کرتی تھی ۔وہاں سے عمر علی بن سفیان کو اطلاع دینے چلاگیا۔آذر نے بتایا کہ وہ وہیں چھپا رہا۔ زخمی عورت وہیں پڑی تھی وہاں اور کوئی نہ تھا۔ آذر اس عورت کے پاس جاکر بیٹھ گیاپیچھے سے کسی نے اس پر خنجر سے تین وار کیے اور حملہ آور بھاگ گیا۔ آذر وہیں بے ہوش ہوگیا۔

شام تک البرق کی پہلی بیوی آذر کی حالت بگڑ گئی ۔جراحوںاور طبیبوں نے بہت کوشش کی ،مگر وہ زندہ نہ رہ سکے۔ البرق کی بیوی نے علی بن سفیان سے کہاتھا کہ میں اپنے خاوند کو قربان کرسکتی ہوں اسلام اورقوم کی عزت کو قربان ہوتا نہیں دیکھ سکتی ۔اس نے قوم کے نام پر جان دے دی۔

سلطان ایوبی کے حکم سے خادم الدین البرق کو قید خانے میں ڈال دیاگیا ۔اس نے یقین دلانے کی ہر ممکن کوشش کی کہ اس نے یہ جرم دانستہ نہیں یا۔وہ ان لوگوں کے ہاتھوں میں بے وقوف بن گیاتھا، مگر یہ ثابت ہوچکاتھا کہ اس نے حکومت اور فوج کے راز شراب اور حسین لڑکی نشے میں دشمن کے جاسوسوں تک پہنچائے ہیں ۔سلطان ایوبی قتل کا جرم بخش سکتاتھا ۔شراب خوری اور عیاشی کا اور دشمن کو راز دینے کے رائم نہیں بخشا کرتاتھا۔

آصفہ سے اس روز کوئی بیان نہ لیاگیا۔ اس پر زخم کا اتنا اثر نہیں تھا، جتنا خوف کا تھا۔وہ جاسوس لڑکی تھی ۔ سپاہی نہیں تھی ۔ا سے شہزادی کے کے روپ میں شہزادوں سے بھید لینے کی ٹریننگ دی گئی تھی ۔ اس نے سو٢چا بھی نہ تھا کہ اس کا یہ حشر بھی ہوسکتاہے ۔اس پر زیادہ خوف اس کا تھا کہ وہ مسلمانوں کی قیدی ہے اور مسلمان اسے بہت خراب کریں گے۔ ایک خطرہ یہ بھی اسے نظر آیاتھا کہ مسلمان اس کے زخم کا علاج نہیں کریں گے۔ا س نے اس خطرے کا اظہار ہر اُس آدمی سے کیا جو س کے قریب گیا۔ وہ ڈرے ہوئے بچے کی طرح روتی تھی ۔ علی بن سفیان نے اسے بہت تسلی دی کہ اس کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے گا جو کسی مسلمان زخمی عورت کے ساتھ کیاجاتاہے ، مگر وہ سلطان ایوبی سے ملنا چاہتی تھی ۔ آخر سلطان کو بتایا گیا۔

سلطان ایوبی اس کے پاس اور اس کے سر پر ساتھ رکھ کر کہا کہ اس حالت میں وہ اسے اپنی بیٹھی سمجھتا ہے ۔

''میں نے سناتھا کہ سلطان ایوبی تلوار کا نہیں ،دل کا بادشاہ ہے''……آصفہ نے روتے ہوئے کہا……''اتنا بڑا بادشاہ جسے شکست دینے کے لیے عیسائیوں کے سارے بادشاہ اکٹھے ہوگئے ہیں ۔ایک مجبور لڑکی کو دھوکا دیتے اچھا نہیں لگتا ……ان لوگوں سے کہو کہ مجھے فور اً زہر دے دیں۔ میں اس حالت میں کوئی اذیت برداشت نہیں کرسکوں گی''۔

''کہو تو میں ہروقت تمہارے پاس موجود رہوں گا''…… سلطان ایوبی نے کہا۔''میں تمہیں دھوکہ بھی نہیں دوں گا، اذیت بھی نہیں دوں گا، مگر وعدہ کرو کہ تم بھی مجھے دھوکہ نہیں دوگی، تم ذرا اور بہتر ہولو، طبیب نے کہاہے کہ تم ٹھیک ہو جائوگی۔ اگر تمہیں اذیت دینی ہوتی تو میں اسی حالت میں قید خانے میں ڈال دیتا ۔تمہارے زخم پر نمک ڈالا جاتا۔ تم چیخ چیخ اور چلاچلا کر اپنے جرم اور اپنے ساتھیوں سے پردے اُٹھاتی، مگر ہم کسی عورت کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کیاکرتے۔البرق کی بیوی مرگئی ہے،لیکن تمہیں زندہ رکھنے کی پوری کوشش کی جارہی ہے''۔

''میں ٹھیک ہوجائوں گی تو میرے ساتھ کیا سلوک کروگے؟''اس نے پوچھا۔

''یہاں تمہیں کوئی مرد اس نظر سے نہیں دیکھے گا کہ تم ایک نوجوان اور خوب صورت لڑکی ہو''……سلطان ایوبی نے کہا……''تم یہ خدشہ دل سے نکال دو۔ تمہارے ساتھ وہی سلوک ہوگا جو اسلامی قانون میں لکھاہے''۔

اس مکان کی تلاشی لی گئی تھی جہاں آصفہ جایا کرتی تھی ۔ وہ کسی کا گھر نہیں تھا۔ جاسوسوں کا اڈہ تھا۔ اندر اصطبل بناہواتھا ۔ اندر سے پانچ آدمی برآمد ہوئے تھے ،انہیں گرفتار کرلیاگیا تھا۔ان پانچ نے ان چاروں نے جنہیں تعاقب میں پکڑا گیاتھا، جرم کا اعتراف کرنے سے انکار کردیا۔ آخر انہیں اس تہہ خانے میں لے گئے جہاں پتھر بھی بول پڑتے تھے۔بوڑھے نے تسلیم کرلیا کہ اس نے اس لڑکی کو دانے کے طور پر پھینک کر البرق کو پھانسا تھا۔ اس نے سارا ناٹک سنادیا۔دوسروں نے بھی بہت سے پردے اُٹھائے ا ور اس مکان کا راز فاش کیا، جسے شہر کے لوگ احترام کی نگاہوں سے دیکھتے تھے ۔اس مکان میں بہت سی لڑکیاں رکھی گئی تھیں جو دومقاصد کے لیے استعمال ہوتیں۔ایک جاسوسی لیے اور حاکموں اور اونچے گھرانے کے مسلمان نوجوانوں کے اخلاق تباہکرنے کے لیے وہ جاسوسوں اور تخریب کاروں کا اڈہ تھا۔

ان جاسوسوں نے یہ بھی بتایا کہ سلطان ایوبی کی فوج میں انہوں نے اپنے آدمی بھرتی کرادئیے ہیں ،جنہوں نے سپاہیوں میں جوئے بازی کی عادت پیدا کردی ہے ۔وہ ہاری ہوئی بازی جیتنے کے لیے ایک دوسرے کے پیسے چراتے اور چور بنتے جارہے ہیں ۔ شہر میں انہوں نے پانچ سو سے کچھ زیادہ فاحشہ عورتیں پھیلادی ہیں جو نوجوانوں کو پھانس کر انہیں عیاشی کی راہ پر ڈال رہی ہیں ۔خفیہ قمار خانے بھی کھول دئیے گئے ہیں ۔ان لوگوں نے یہ بھی بتایا کہ اُن سوڈانیوں کو سلطان کے خلاف بھڑ کایا جارہاہے، جنہیں فوج سے نکال دیاگیاتھا۔ سب سے اہم انکشاف یہ تھا کہ انہوں نے چھ ایسے مسلمان افسروں کے نام بتائے جو سلطان ایوبی کی حکومت میں اہم حیثیت رکھتے تھے مگر سلطان ایوبی کے خلاف کام کررہے تھے ۔ آصفہ عیسائی لڑکی تھی اس کانام فلیمنگو بتایا گیا۔ وہ یونانی تھی ۔اسے تیرہ سال کی عمر سے اس کام کی ٹریننگ دی جارہی تھی۔ اسے مصر کی زبان سیکھائی گئی ۔ایسی سینکڑوں لڑکیاں مسلمان علاقوں میں استعمال کرنے کے لیے تیار کی گئی تھیں، جنہیں چوری چھپے اِدھر بھیجا گیاتھا۔

اس لڑکی نے بھی کچھ نہ چھپایا۔ پندرہ روز بعد اس کا زخم ٹھیک ہوگیا۔اسے جب بتایا گیا کہ اُسے سزائے موت دی جارہی ہے تو اس نے کہا……''میںخوشی سے یہ سزاقبول کرتی ہوں ۔میں نے صلیب کا مشن پورا کردیا ہے''……اسے جلاد کے حوالے کردیاگیا۔

دوسروں کی ابھی ضرورت تھی ۔ان کی نشاند ہی پر چند اور لوگ پکڑے گئے ، جن میں چند ایک مسلمان بھی تھے۔ان سب کو سزائے موت دی گئی ۔البرق کو ایک سو بید کی سزادی گئی جو وہ برداشت نہ کرسکا اور مرگیا۔ا سکے بچوں کو سلطان ایوبی نے سرکاری تحویل میں لے لیا۔ ان کے لیے سرکاری خرچ پر ملازہ اور اتالیق مقرر کیے گئے ۔وہ البرق کے بچے نہیں ، ایک مجاہدہ کے بچے تھے ۔ان کی ماں شہید ہوگئی تھی۔

دوسری بیوی کا قصہ یہیں تمام ہوتا ہے.
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: داستان ایمان فروشوں کی ۔۔جلد اول مکمل

Post by ایکسٹو »

"ام عرارہ کا اغواہ"

جون ١١٧١ء کا وہ دن مصر کی گرمی سے جل رہاتھا، جس دن خلیفہ العاضد کے قاصد نے آکر صلاح الدین ایوبی کوپیغام دیا کہ خلیفہ یاد ّفرمارہے ہیں۔ سلطان ایوبی کے تیور بدل گئے۔اس نے قاصد سے کہا……''خلیفہ کو بعد از سلام کہنا کہ کوئی بہت ضروری کام ہے توبتادیں میں آجائوں گا۔اس وقت مجھے ذراسی بھی فرصت نہیں۔ انہیں یہ بھی کہنا کہ میرے سامنے جو کام پڑے ہیں ،وہ حضور کے دربار میں حاضری دینے کی نسبت زیادہ ضروری اور اہم ہیں''۔

قاصد چلاگیا اور سلطان ایوبی بے چینی سے کمرے میں ٹہلنے لگا۔ وہ فاطمی خلافت کا دورہ تھا۔ مصر میں اس خلافت کا خلیفہ العاضد تھا۔ اُس دور کا خلیفہ بادشاہ ہوتاتھا۔ جمعہ کے خطبے میں ہر مسجد میں خدا اور رسول ۖ کے بعد خلیفہ کانام لیاجاتا تھا۔ عیش و عشرت کے سوا ان لوگوں کے پاس کوئی کام نہ تھا۔ اگر نورالدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی نہ ہوتے یاوہ بھی دوسرے امراء وزراء کی طرح خوشامدی اور ایمان فروش ہوتے تو اس دور کے خلیفوں نے تو سلطنتِ اسلامیہ کو بیچ کھایا تھا۔العاضد ایسا ہی ایک خلیفہ تھا۔صلاح الدین ایوبی مصر میں گور نر بن کر آیا تو ابتداء میں خلیفہ نے اسے کئی بار بلایاتھا۔سلطان ایوبی سمجھ گیا کہ خلیفہ اسے صرف اس لیے بلاتا ہے کہ اُسے یہ احساس رہے کہ حاکم ایوبی نہیں ، خلیفہ ہے۔وہ سلطان ایوبی کا احترام کرتاتھا۔اسے اپنے ساتھ بٹھاتاتھا،مگر اس کا انداز شاہانہ اور لب و لہجہ آمرانہ ہوتاتھا۔۔اس نے سلطان ایوبی کو جب بھی بلایا،بلامقصد بلایا اور رخصت کردیا۔ صلیبیوں کو بحیرۂ روم میں شکست دے کر اور سوڈانی فوج کی بغاوت کو ختم کرکے صلاح الدین ایوبی نے خلیفہ کو ٹالنا شروع کردیاتھا۔

اس نے خلیفہ کے محل میں جو شان و شوکت دیکھی تھی ،اس نے اس کے سینے میں آگ لگارکھی تھی۔محل میں زر و جواہرات کا یہ عالم تھا کہ کھانے پینے کے برتن سونے کے تھے۔ شراب کی صراحی اور پیالوں میں ہیرے جڑے ہوئے تھے۔حرم لڑکیوں سے بھراپڑاتھا۔ ان میں عربی، مصری ، مراکشی ،سوڈانی اور تُرک لڑکیوں کے ساتھ ساتھ عیسائی اور یہودی لڑکیاں بھی تھیں ۔یہ اس قوم کا خلیفہ تھا جسے ساری دُنیا میں اللہ کا پیغام پھیلانا تھا اور جسے دُنیائے کفر کی مہیب جنگی قوت کا سامنا تھا۔ سلطان ایوبی کو خلیفہ کی کچھ اور باتیں بھی کھائے جارہی تھیں ۔ایک یہ کہ خلیفہ کا ذاتی حفاظتی دستہ سوڈانی حبشیوں اور قبائلیوں کاتھا جن کی وفاداری مشکوک تھی۔دوسرے یہ کہ خلیفہ کے دربار میں سو ڈان کی باغی اور برطرف کی ہوئی فوج کے کمان دار اور نائب سالار خصوصی حیثیت کے مالک تھے۔

صلاح الدین ایوبی کی ہدایت پر علی بن سفیان نے قصرِ خلافت میں نوکروں ااور اندر کے دیگر کام کرنے والوں کے بھیس میں اپنے جاسوس بھیج دئیے تھے۔ خلیفہ کے حرم کی دو عورتوں کو بھی اعتماد میں لے کر جاسوسی کے فرائض سونپے گئے تھے۔ ان جاسوسوں کی اطلاعوں کے مطابق ،خلیفہ سوڈانی کماند داروں کے زیر اثر تھا۔ وہ ساٹھ پینسٹھ سال کی عمر کا بوڑھا تھا، لیکن خوب صورت عورتوں کی محفل میں خوش رہتاتھا۔ اس کی اسی کمزوری سے صلاح الدین ایوبی کے مخالفین فائدہ اُٹھا رہے تھے۔١١٧١ء کے دوسرے تیسرے مہینے میں خلیفہ کے حرم میں ایک جوان اور غیر معمولی طور پر حسین لڑکی کا اضافہ ہواتھا۔ حرم کی جاسوس عورتوں نے علی بن سفیان کو بتایا تھا کہ تین چار آدمی آئے تھے جو عربی لباس میں تھے۔وہ اس لڑکی کو لائے تھے۔ان کے پاس بہت سے تحفے بھی تھے۔ لڑکی بھی تحفے کے طور پر آئی تھی۔ اس کانام اُمِ عرارہ بتایا گیا تھا۔ اس میں خوبی یہ تھی کہ خلیفہ العاضد پر اس نے جادو ساکر دیاتھا۔ بہت ہی چالاک اور ہوشیار لڑکی تھی ۔

سلطان ایوبی کو قصرِ خلافت کی ان تمام خرافات کا علم تھا مگر حکومت پر اس کی گرفت ابھی اتنی مضبوط نہیں ہوتی تھی……کہ وہ خلیفہ کے خلاف کو ئی کاروائی کرسکتا۔ اس سے پہلے کے گورنر اور امیر خلیفہ کے آگے جھکے رہتے تھے ۔اسی لیے مصر بغاوتوں کی سرزمین بن گیا تھا۔ وہاں اسلامی خلافت تو تھی ، مگر اسلام کا پر چم سرنگوں ہوتاجارہاتھا۔ فوج سلطنتِ اسلامیہ کی تھی، مگر سوڈانی جرنیل شہر ی حکومت کی باگ ڈور ہاتھ میں لیے ہوئے تھے۔ اور ان کا رابطہ صلیبیوں کے ساتھ تھا۔ انہی کی بدولت قاہرہ اور اسکندریہ میں عیسائی کنبے آباد ہونے لگے تھے۔ ان میں جاسوس بھی تھے۔ صلاح الدین ایوبی نے سوڈانی فوج کو تو ٹھکانے لگادیاتھا، لیکن ابھی چند ایک سوڈانی جرنیل موجود تھے جو کسی بھی وقت خطرہ بن کر اُبھر سکتے تھے۔ انہوں نے قصرِ خلافت میں اثر و رسوخ پیدا کررکھا تھا۔

سلطان ایوبی خلافت کی تعیش پر ست گدّی کو اس ڈر سے نہیں چھیڑ نا چاہتاتھا کہ خلافت کے متعلق کچھ لوگ جذباتی تھے اور کچھ حامی تھے۔ ان میں خوشامدیوں کے ٹولے کی اکثریت تھی۔اس اکثریت میں وہ اعلیٰ حکام بھی تھے جو مصر کی امارت کی توقع لگائے بیٹھے تھے مگر یہ حیثیت صلاح الدین ایوبی کو مل گئی ۔ سلطان ایوبی ان حالات میں جہاں ملک جاسوسوں اور غداروں سے بھرا پڑا تھا اور صلیبیوں کے جوابی حملے کا خطرہ بھی تھا،ان اعلیٰ اور ادنیٰ حکام کو اپنا دشمن نہیں بنانا چاہتا تھا جو خلافت کے پروردہ تھے، مگر جون ١١٧١ء کے ایک روز جب خلیفہ نے اسے بلایا تو اس نے اسے صاف انکار کردیا۔

اس نے دربان سے کہا……''علی بن سفیان ، بہائوالدین شداد، عیسٰی الہکاری فقہیہ اور الناصر کو میرے پاس جلدی بھیج دو''۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

یہ چاروں سلطان ایوبی کے خصوصی مشیر اور معتمد تھے ۔ سلطان ایوبی نے انہیں کہا……''ابھی ابھی خلیفہ کا قاصد مجھے بلانے آیاتھا۔ میں نے جانے سے انکار کردیاہے ۔میں نے آپ کو یہ بتانے اور رائے لینے کے لیے بلایا ہے کہ میں جمعہ کے خطبہ سے خلیفہ کانام نکلوارہاہوں ''۔

''یہ اقدام ابھی قبل ازوقت ہوگا''……شداد نے کہا……''خلیفہ کو لوگ پیغمبر سمجھتے ہیں ۔رائے عامہ ہمارے خلاف ہوجائے گی''۔

''ابھی تو لوگ اسے پیغمبر سمجھتے ہیں ''……سلطان ایوبی نے کہا……''تھوڑے ہی عرصے بعد وہ اسے خدا سمجھنے لگیں گے۔ اسے پیغمبری اور خدائی دینے والے ہم لوگ ہیں ، جو خطے میں اس کانام خدا اور رسول اکرم ۖ کے ساتھ لیتے ہیں ۔کیوں عیسٰی فقیہہ !آپ کیا مشورہ دیتے ہیں؟''

''میں آپ کی تائید کرتاہوں''……عیسٰی الہکاری فقہیہ نے جواب دیا……''کوئی بھی مسلمان خطبے میں کسی انسان کانام برداشت نہیں کرسکتا۔انسان بھی ایسا جو شراب ، عورت اور ہر طرح کے گناہ کا شیدائی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ صدیوں سے خلیفہ کو پیغمبر وں کا درجہ دیاجارہاہے ، میں چونکہ شہری اور مذہبی امور کا ذمہ دار ہوں ۔اس لیے یہ نہیں بتا سکتاکہ سیاسی اور فوجی لحاظ سے آپ کے فیصلے کاردّعمل کیا ہوگا''۔

''ردّ عمل شدید ہوگا''……بہائوالدین شداد نے کہا……''اور ہمارے خلاف ہوگا۔ اسکے باوجود میں یہی مشورہ دوں گا کہ یہ بدعت ختم ہونی چاہیے یا خلیفہ کو پکا مسلمان بناکر لوگوں کے سامنے لایا جائے جو مجھے ممکن نظر نہیں آتا''۔

''رائے عامہ کو مجھ سے بہتر اور کون جان سکتاہے ''……علی بن سفیان نے کہا جو جاسوسی اور سراغ رسانی کے شعبے کا سربراہ تھا۔ اس نے ملک کے اندر جاسوسوں اور مخبروں کا جال بچھا رکھا تھا۔ اس نے کہا……''عام لوگوں نے خلیفہ کی کبھی صورت نہیں دیکھی ۔وہ العاضد کے نام سے نہیں صلاح الدین ایوبی کے نام سے واقف ہیں ۔میرے محکمے کی مصدقہ اطلاعات نے مجھے یقین دلایا ہے کہ آپ کے دو سالہ دورِ امارت میں لوگوں کی ایسی ضروریات پوری ہوگئی ہیں جن کے متعلق انہوں نے کبھی سو چا بھی نہ تھا۔ شہروں میں ایسے مطب نہیں تھے ،جہاں مریضوں کو داخل کرکے علاج کیاجاسکتا ۔ لوگ معمولی معمولی بیماریوں سے مرجاتے تھے۔اب سرکاری مطب کھول دئیے گئے ہیں ،درس گاہیں بھی کھولی گئی ہیں، تاجروں اور دکان داروں کی لوٹ کھسوٹ ختم ہوگئی ہے ،جرائم بھی کم ہوگئے ہیں اور اب لوگ اپنی مشکلات اور فریادیں آپ تک براہِ راست پہنچا سکتے ہیں ۔آپ کے یہاں آنے سے پہلے لوگ سرکاری اہل کاروں اور فوجیوں سے خوف زدہ رہتے تھے ۔ آپ نے ان کے حقوق بتا دئیے ہیں اور وہ اپنے آپ کو ملک و ملت کا حصہ سمجھنے لگے ہیں ۔خلافت سے انہیں بے انصافی اور بے رحمی کے سوا کچھ نہیں ملا۔ آپ نے انہیں عدل و انصافاور وقار دیاہے ۔میں وثوق سے کہہ سکتاہوں کہ قوم خلافت کی بجائے امارت کے فیصلے کو قبول کرے گی''۔

''میں نے قوم کو عدل و انصاف اور وقار دیاہے یا نہیں ''……سلطان ایوبی نے کہا……''میں نے قوم کے حقوق اسے دئیے ہیں یا نہیں ، میں نہیں جانتا ۔میں قوم کو ایک انتہائی بیہودہ روایت نہیں دینا چاہتا۔ میں قوم کو شرک اور کفر نہیں دینا چاہتا ۔ضروری ہوگیاہے کہ اس روایت کو توڑ کر ماضی کے کوڑے کرکٹ میں پھینک دیاجائے جو مذہب کا حصہ بن گئی ہے ۔اگر یہ روایت قائم رہی تو یہ بھی ہوسکتاہے کہ کل پرسوں میں بھی اپنانام خطبے میں شامل کردوں ۔ دئیے سے دیا جلتا ہے ،لیکن میں اس دئیے کو بجھادینا چاہتاہوں جو شرک کی روشنی کو آگے چلارہاہے۔ قصرِ خلافت بدکاری کا اڈہ بناہواہے۔ خلیفہ اُس رات بھی شراب پئے ہوئے حرم کے حسن میں بدمست پڑا تھا جس رات سوڈانی فوج نے ہم پر حملہ کیاتھا، اگر میری چال ناکام ہوجاتی تو مصر سے اسلام کا پرچم اُتر جاتا۔جب اللہ کے سپاہی شہید ہو رہے تھے ، اس وقت بھی خلیفہ شراب پئے ہوئے تھا۔میں اسے احکام کے مطابق یہ بتانے گیا کہ سلطنت پر کیا طوفان آیاتھااور ہماری فوج نے اس کا دم خم کس طرح توڑ اہے تو اس نے مست سانڈکی طرح جھوم کر کہا تھا……''شاباش !ہم بہت خوش ہوئے ۔ہم تمہارے باپ کو خصوصی قاصد کے ہاتھ مبارک باد اور انعام بھیجیں گے''……میں نے اسے کہا کہ یا خلیفة المسلمین!میں نے اپنا فرض اداکیاہے ۔ میں نے یہ فرض اپنے باپ کی خوشنودی کے لیے نہیں، اللہ اور اس کے رسولۖ کی خوشنودی کے لیے اد اکیاہے ۔

اس بڈھے خلیفہ نے کہا……''صلاح الدین ایوبی !تم ابھی بچے ہو، مگر کام تم نے بڑوں والا کردکھایاہے''۔
''اس نے میرے ساتھ اس طرح بات کی تھی جیسے وہ مجھے اپنا غلام اور اپنے حکم کا پابند سمجھتا ہے ۔یہ بے دین انسان قومی خزانے کے لیے سفید ہاتھی بناہواہے ''……سلطان ایوبی نے ایک خط نکال کر سب کو دکھایا اور کہا……چھ سات دن گزرے نور الدین زنگی نے مجھے یہ پیغام بھیجا ہے ۔انہوں نے لکھا ہے کہ خلافت تین حصوں میں بٹ گئی ہے ۔بغداد کی مرکزی خلافت کا دونوں ماتحت خلیفوں پر اثر ختم ہوچکاہے۔ آپ یہ خیال رکھیں کہ مصر کا خلیفہ خود مختار حاکم نہ بن جائے۔وہ سوڈانیوں اور صلیبیوں سے بھی ساز باز کرنے سے گریز نہیں کرے گا۔ میں سوچ رہاہوں کہ خلافت صرف بغداد میں رہے اور ذیلی خلیفے ختم کردئیے جائیں ،لیکن میں ڈرتاہوں کہ ان لوگوں نے ہمارے خلاف سازشیں تیار کررکھی ہیں ۔اگر آپ مصر کے خلیفہ کی بادشاہی اس کے محل کے اندر ہی محدود رکھنے کی کوشش کریں گے تو میں آ پ کو فوجی اور مالی امداد دوں گا ۔احتیاط کی بھی ضرورت ہے کیونکہ مصر کے اندرونی حالات ٹھک نہیں ۔مصر میں ایک بغاوت اور بھی ہوگی۔سوڈانیوں پر کڑی نظر رکھیں''۔

سلطان ایوبی نے خط پڑھ کر کہا……''اس میں کیا شک ہے کہ خلافت سفید ہاتھی ہے۔کیا آپ دیکھتے نہیں کہ خلیفہ العاضد دورے پر نکلتا ہے تو آپ کی آدھی فوج اس کی حفاظت کے لیے ہر طرف پھیلادی جاتی ہے؟لوگوں کو مجبور کیا جاتاہے کہ وہ خلیفہ کے راستے میں چادریں اور قالین بچھائیں۔خلیفہ کا حفاظتی دستہ دورے سے پہلے لوگوں کو دھمکیاں دے کر مجبور کردیتا ہے کہ ان کی عورتیں اور جوان بیٹیاں خلیفہ پر پھولوں کی پتیاں پھینکیں ۔اس کے دوروں پر خزانے کی وہ رقم تباہ کی جاتی ہے جو ہمیں سلطنتِ اسلامیہ کے دفاع اور توسیع کے لیے اور قوم کی فلاح و بہبود کے لیے درکار ہے۔اس کے علاوہ اس پہلو پر بھی غور کروکہ ہمیں مصری عوام پر،یہاں کے عیسایویں اور دیگر غیر مسلموں پر یہ ثابت کرنا ہے کہ اسلام شہنشاہوں کا مذہب نہیں۔ یہ عرب کے صحرائوں کے گڈریوں، کسانوں اور شتر بانوں کا سچامذہب ہے اور یہ انسان کو انسانیت کا وہ درجہ دینے والا مذہب ہے جو خدا کو عزیزہے''۔

''یہ بھی ہوسکتاہے کہ خلیفہ کے خلاف کا روائی کرنے سے آپ کے خلاف یہ بہتان تراشی ہونے لگے کہ خلیفہ کی جگہ آپ خود حا کم بننا چاہتے ہیں ''شداد نے کہا……''آج جھوٹ اور باطل کی جڑیں صرف اس لیے مضبوط ہوگئی ہیں کہ مخالفت اور مخالفانہ ردّعمل سے ڈر کر لوگوں نے سچ بولنا چھوڑ دیاہے ۔حق کی آواز سینوں میں دب کررہ گئی ہے۔ شاہانہ دوروں نے اور شہنشاہیت کے اظہار کے اوچھے طریقوں نے رعایا کے دلوں سے وہ وقار ختم کردیاہے جو قوم کا طرزِ امتیاز تھا۔ عوام کو بھوکا رکھ کر اور ان پر زبردستی اپنی حکمرانی ٹھونس کر انہیں غلامی کی ان زنگیروں میں باندھا جارہاہے ،جنہیں ہمارے رسول اکرم ۖ نے توڑ اتھا۔ ہمارے بادشاہوں نے قوم کو اس پستی تک پہنچا دیاہے کہ یہ بادشاہ اپنی عیاشیوں کی خاطر صلیبیوں سے دوستانہ کررہے ہیں، ان سے پیسے مانگتے ہیں اور صلیبی آہستہ آہستہ سلطنتِ اسلامیہ پر قابض ہوتے چلے جارہے ہیں آپ نے شداد ! مخالفت کی بات کی ہے ۔ہمیں مخالفت سے نہیں ڈرناچاہیے''۔

''قابلِ احترامِ امیر!'' سلطان ایوبی کے نائب سالار الناصر نے کہا''ہم مخالفت سے نہیں ڈرتے ۔آپ نے ہمیں میدانِ جنگ میں دیکھا ہے۔ہم اس وقت بھی نہیں ڈرے تھے ، جب ہم محاصرے میں لڑے تھے۔ ہم بھوکے اور پیاسے بھی لڑے تھے ۔صلیبیوںکے طوفان ہم نے اس حالت میں بھی روکے تھے، جب ہماری تعداد کچھ بھی نہیں تھی، مگر میں آپ کو آپ کی ہی کہی ہوئی ایک بات یاد دلاچاہتاہوں ۔آپ نے ایک بار کہاتھا کہ حملہ جو باہر سے آتا ہے اُسے ہم قلیل تعداد میں بھی روک سکتے ہیں ،لیکن حملہ جو اندر سے ہوتاہے اور جب حملہ آور اپنی قوم کے افراد ہوتے ہیں تو ہم ایک بار چونک اُٹھتے اور سُن ہوجاتے ہیں کہ یا خدائے ذو الجلال یہ کیاہوا۔ قابلِ احترام امیرِ مصر ! جب ملک کے حاکم ملک کے دشمن ہوجائیں تو آ پ کی تلوار نیام کے اندر تڑپتی رہے گی، باہر نہیں آئے گی''۔

''آپ نے درست کہا الناصر!''…… سلطان ایوبی نے کہا……''میری تلوار نیام میں تڑپ رہی ہے۔ یہ اپنے حاکموں کے خلاف باہر نہیں آنا چاہتی ۔میرے دل میں قوم کے حکمرانوں کا ہمیشہ احترام رہاہے ۔ملک کا حکمران قوم کی عظمت کا نشان ہوتاہے ،قوم کے وقار کی علامت ہوتاہے ،لیکن آپ سب غور کریں کہ ہمارے حکمرانوں میں کتنی کچھ عظمت اور کتنا کچھ وقار رہ گیاہے۔میں صرف خلیفہ العاضد کی بات نہیں کررہا۔علی بن سفیان سے پوچھو ۔اس کا محکمہ موصل، حلب ، دمشق ، مکہ اور مدینہ منورہ کی جو خبریں لایا ہے وہ یہ ہیں کہ خلافت کی تعیش پرستی کی وجہ سے جہاں جہاں کوئی امیرحاکم ہے، وہ وہاں کا مختارِ کُل بن گیا ہے۔ سلطنتِ اسلامیہ ٹکڑوں میں بٹتی جارہی ہے۔خلافت اس قدر کمزور ہوگئی ہے کہ اس نے اُمرا اور حکام کو ذاتی سیاست بازیوں کے لیے استعمال کرنا شروع کردیاہے۔ میں اس خطرے سے بے خبر نہیں کہ قوم کے بکھرے ہوئے شیرازے کو ہم جب یکجا کرنے کی کوشش کریں گے تو یہ اور بکھرے گا۔ ہمارے سامنے پہاڑ کھڑے ہو جائیں گے، لیکن میں گھبرائوں گا نہیں اور مجھے اُمید ہے کہ آپ بھی نہیں گھبرائیں گے۔ میں آپ کے مشوروں کا احترام کروں گا،لیکن میں آئندہ خلیفہ کے بلاوے پر صرف اس صورت میں جائوں گا ، جب کوئی ضروری کام ہوگا۔ فوری طور پر میں خطبے سے خلیفہ کا نام اور ذکر نکلوارہاہوں''۔

سب نے سلطان ایوبی کے اس اقدام کی حمایت کی اور اسے اپنی پوری مدد اور ہرطرح کی قربانی دینے کا یقین دلایا۔ خلیفہ العاضد اس وقت اپنے ایک خصوصی کمرے میں تھا ۔ جب قاصد نے اسے بتایا کہ صلاح الدین ایوبی نے کہا ہے کہ اگر کوئی ضروری کام ہے تو میں آسکتاہوں،ورنہ میں بہت مصروف ہوں۔ خلیفہ آگ بگولہ ہوگیا۔اس نے قاصد سے کہا کہ رجب کو میرے پاس بھیج دو۔ رجب اس کے حفاظتی دستے کا کمان دار تھا جس کا عہدہ نائب سالار جتنا تھا۔ وہ مصر ی فوج کا افسر تھا۔ اسے خلیفہ کے باڈی گارڈز کی کمان دی گئی تھی۔ اس نے قصرِ خلافت اور خلیفہ کے حفاظتی دستوں میں چُن چُن کر سوڈانی حبشیوں کو رکھا تھا۔ وہ سلطان ایوبی کے مخالفین میں سے اور خلیفہ کے خوشامدیوں میں سے تھا۔

اُس وقت خلیفہ کے اس خصوصی کمرے میں اُمِ عرارہ موجود تھی جب قاصد صلاح الدین ایوبی کا جواب لے کے آیاتھا۔ اس نے خلیفہ سے کہا……''صلاح الدین ایوبی آپ کا نوکر ہے، آپ نے اسے سر پر چڑھا رکھاہے،آپ کیوں نہیں اسے معزول کردیتے ہیں ؟کیوں نہیں اپنے سپاہی بھیج کر اسے حراست میں یہاں بلوالیتے ؟''

''اس لیے کہ اس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے''……خلیفہ نے غصے کے عالم میں کہا……''فوج اس کی کمان میں ہے ، وہ میرے خلاف فوج استعمال کرسکتاہے''……اتنے میں رجب آگیا۔اس نے جھک کر فرشی سلام کیا۔ العاضد نے غصے سے کانپتی ہوئی آواز میں اسے کہا……''میں پہلے ہی جانتاتھا کہ یہ کم بخت خود سر اور سرکش آدمی ہے……یہ صلاح الدین ایوبی ……میں نے اسے بلایا تو یہ کہہ کر آنے سے انکار کردیاہے کہ کوئی ضروری کام ہے تو آئوں گا، ورنہ آپ کا بلاوا میرے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا ، کیونکہ میرے سامنے ضروری کام پڑے ہیں ''۔

غصے میں بولتے بولتے اسے ہچکی آئی ، پھر کھانسی اُٹھی اور اس نے دل پر ہاتھ رکھ لیا ۔اس کا رنگ زرد ہوگیا۔اس حالت میں کمزور سی آواز میں کہا ……''بد بخت کو یہ بھی احساس نہیں کہ میں بیمار ہوں ۔میرا دل مجھے لے بیٹھے گا۔ میرے لیے غصہ ٹھیک نہیں ۔مجھے اپنی صحت کا غم کھائے جارہاہے اور اسے اپنے کا موں کی پڑی ہے''۔

''آپ نے اسے کیوں بلایا تھا؟''……رجب نے پوچھا ……''مجھے حکم دیجئے''۔

''میں نے اسے صرف اس لیے بلایا تھا کہ اسے احساس رہے کہ اس کے سر پر ایک حاکم بھی ہے''……خلیفہ نے دِل پر ہاتھ رکھے ہوئے کراہتی ہوئی آواز میں کہا……''تم ہی نے مجھے بتایا تھا کہ کہ صلاح الدین خود مختار ہوتا جارہا ہے۔میں اسے بار بار یہاں بلانا چاہتا ہوں،تاکہ اسے اپنے پائوں کے نیچے رکھوں ۔یہ ضروری اُم عرارہ نے شراب کا پیالہ اس کے ہونٹوں سے لگا کر کہا……''آپ کو سوبار کہاہے کہ غصے میں نہ آجایا کریں۔آپ کے دِل اور اعصاب کے لیے غصہ ٹھیک نہیں''…… اس نے سونے کی ایک ڈبیہ میں سے نسواری رنگ کے سفوف میں سے ذراسا خلیفہ کے منہ میں ڈالا اور پانی پلادیا۔ خلیفہ نے اس کے بکھرے ہوئے ریشمی بالوں میں انگلیاں اُلجھا کر کہا……''اگر تم نہ ہوتی تو میرا کیا ہوتا۔ سب کو میری دولت اور رتبے سے دلچسپی ہے ۔میری ایک بھی بیوی ایسی نہیں جسے میری ذات کے ساتھ دلچسپی ہو ۔ تم تو میرے لیے فرشتہ ہو'' ……اس نے لڑکی کو اپنے قریب بٹھا کر بازو اس کی کمر میں ڈال دیا۔

''خلیفة المسلمین ''!…… رجب نے کہا……''آپ بڑے ہی نرم دل اور نیک انسان ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ صلاح الدین ایوبی نے یہ گستاخی کی ہے ۔ آپ نے یہ بھی فراموش کردیاہے کہ وہ عربی نسل سے نہیں۔ وہ آپ کی نسل سے نہیں۔ وہ کُردہے، میں حیران ہوں کہ اسے اتنی بڑی حیثیت کس نے دے دی ہے، اگر اس میں کچھ خوبی ہے تو صرف یہ ہے کہ وہ اچھا عسکری ہے۔ میدانِ جنگ کا استاد ہے ،لڑنا بھی جانتاہے اور لڑانا بھی جانتا ہے مگر یہ وصف اتنا اہم نہیں کہ اسے مصر کی امارت سونپ دی جاتی ……اُس نے سوڈان کی اتنی بڑی اور اتنی تجربہ کار فوج یوں توڑ کر ختم کردی ہے،جس طرح بچہ کوئی کھلونہ توڑدیتاہے ۔آپ ذرا غور فرمائیں کہ کہ جب یہاں سوڈانی باشندوں کی فوج تھی، ناجی اور ادروش جیسے سالار تھے تو رعایا آپ کے کتوں کے آگے بھی سجدے کرتی تھی۔ سوڈانی لشکر کے سالار آپ کی دہلیز پر حاضر رہتے تھے۔ اب یہ حال ہے کہ آپ اپنے ایک ماتحت کو بلاتے ہیںتو وہ آنے سے انکار کردیتا ہے''۔

''رجب!'' خلیفہ نے اچانک گرج کر کہا…… ''تم ایک مجرم ہو''۔

رجب کا رنگ پیلا پڑگیا۔اُم عرارہ بدک کر العاضد سے الگ ہوگئی ۔العاضد نے اسے پھر بازو کے گھیرے میں لے کر اپنے ساتھ لگالیا اور پیار سے بولا……''کیا میں نے تمہیں ڈرادیاہے؟میں رجب سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ آج دوسال بعد مجھے بتارہاہے کہ ہماری پرانی فوج اور اسکے سالار اچھے تھے اور صلاح الدین ایوبی کی بنائی ہوئی فوج خلافت کے حق میں اچھی نہیں ۔کیوں رجب! تم یہ بات پہلے بھی جانتے تھے؟چپ کیوں رہے؟اب جب کہ یہ امیرِ مصر اپنی جڑیں مضبوط کر چکاہے ،مجھے بتارہے ہوکہ وہ خلافت کا باغی اور سرکش ہے''۔

''میں حضورکے عتاب سے ڈرتاتھا''……رجب نے کہا……'سلطان ایوبی کا انتخاب بغداد کی خلافت نے کیا تھا۔ یہ آپ کے مشورے سے ہی ہواہوگا۔ میں خلافت کے انتخاب کے خلاف زبان کھولنے کی جرأت نہیں کرسکتا تھا۔ آج امیرِ مصر کی گستاخی اور اس کے زیرِ اثر آپ کے دل کے دورے نے مجھے مجبور کردیاہے کہ زبان کھولوں۔ میں کب سے دیکھ رہاہوں کہ صلاح الدین ایوبی کئی بار آپ کے حضور گستاخی کر چکاہے۔ میرا فرض ہے کہ آپ کو خطروں سے آگاہ کروں اور بچائوں ''۔

اس دوران اُم عرارہ خلیفہ کے گالوں سے گال رگڑتی رہی اور اس کے انگلیوں میں اُنگلیاں اُلجھا کر بچوں کی طرح کھیلتی رہی ۔ ایک بار اس نے خلیفہ کے گالوں کو ہاتھوں میں تھا کر پوچھا……''طبیعت بحال ہوئی ؟''

خلیفہ نے اس کی ٹھوڑی کو چھیڑ تے ہوئے کہا……''دوائی نے اتنا اثر نہیں کیا، جتنا تیرے پیار نے کیا ہے۔ خدانے تجھے وہ حسن اور وہ جذبہ دیاہے جو میرے ہر روگ کے لیے اکسیر ہے''……اس نے اُمِ عرارہ کا سر اپنے سینے پرڈال کر رجب سے کہا……''روزِ قیامت جب مجھے جنت میں بھیجیں گے تو میں خدا سے کہوں گا کہ مجھے کوئی حور نہیں چاہیے، مجھے اُمِ عرارہ دے دو''۔

''اُمِ عرارہ صرف حسین ہی نہیں ''……رجب نے کہا……''یہ بہت ہوشیار اور ذہین بھی ہے۔حضور کا حرم سازشوں کا گھر بناہوا تھا۔ اس نے آکر سب کو لگام ڈال دی ہے۔اب کسی کی جرأ ت نہیں کہ کوئی عورت کسی عورت کے خلاف یا کوئی اہل کار قصرِ خلافت میں ذراسی بھی گڑ بڑکرے''۔

''جب صلاح الدین ایوبی کے متعلق بات کررہے تھے''…… اُمّ عرارہ نے کہا۔''ان کی باتیں غور سے سنیں اور صلاح الدین ایوبی کو لگام ڈالیں ''۔

''تم کیا کہہ رہے تھے رجب!'' ……خلیفہ نے پوچھا ۔

''میں یہ عرض کررہاتھا کہ میں نے اس ڈر سے زبان بندرکھی کہ امیرِ مصر کے خلاف کوئی بات خلافت کو گوارہ نہ ہوگی''……رجب نے کہا……''صلاح الدین ایوبی قابل سالار ہوسکتاہے ''۔

''مجھے اس کا صرف یہی وصف پسند ہے کہ میدانِ جنگ میں وہ اسلام کا پرچم سرنگوں نہیں ہونے دیتا''خلیفہ نے کہا ……''ہمیں سلطان ایوبی جیسے ہی سالاروں کی ضرورت ہے جو خلافتِ اسلامیہ کا وقار میدانِ جنگ میں قائم رکھیں''۔

''میں گستاخی کی معافی چاہتاہوں خلیفة المسلمین !''…… رجب نے کہا……''خلافت نے ہمیں میدان ِ جنگ میں نہیں آزمایا ۔ صلاح الدین ایوبی کے متعلق میں یہ کہنے کی جرأت کروں گا کہ وہ خلافتِ اسلامیہ کے وقار کے لیے نہیں لڑتا، بلکہ اپنے وقار کے لیے لڑتا ہے ۔آپ فوج کے سالار سے ہی تک پوچھ لیں۔ صلاح الدین ایوبی انہیں یہ سبق دیتا رہتاہے کہ وہ ایسی سلطنتِ اسلامیہ کے قیام کے لیے لڑیں، جس کی سرحدیں لامحدودہوں۔ صاف ظاہر ہے کہ وہ ایسی سلطنت کے خواب دیکھ رہاہے،جس کا بادشاہ وہ خود ہوگا۔نور الدین زنگی اس کی پشت پناہی کرہاہے ۔اس نے صلاح الدین ایوبی کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لیے دوہزار سواروں اور اتنے ہی پیادہ عسکریوں کی فوج بھیجی تھی۔ کیا اس نے خلیفۂ بغداد کی اجازت سے یہ فوج بھیجی تھی؟کیا خلافت کا کوئی ایلچی آپ سے مشورہ لینے آیاتھا کہ مصر میں فوج کی ضرورت ہے یا نہیں ؟جو کچھ ہوا خلافت سے بالاتر ہوا''۔

''تم ٹھیک کہتے ہو''……خلیفہ نے کہا……''مجھ سے نہیں پوچھا گیا تھا اور مجھے خیال آیاہے کہ اُدھر سے آئی ہوئی اتنی زیادہ کمک واپس نہیں بھیجی گئی''۔

''واپس اس لیے نہیں بھیجی گئی کہ یہ کمک مصر پر گرفت مضبوط کرنے کے لیے بھیجی گئی تھی اور اسی لیے یہاں رکھی گئی ہے''……رجب نے کہا……''مصر کی پرانی فوج کے سپاہیوں کو کسان اور بھکاری بنانے کے لیے یہ کمک آئی تھی۔ ناجی، ادروش ، کاکیش ،عبدیزدان، ابی آذر اور اُن جیسے آٹھ اور سالار کہاں ہیں؟حضور نے کبھی سوچانہیں ۔ان سب کو صلاح الدین ایوبی نے خفیہ طور پر قتل کرادیاتھا۔ ان کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ صلاح الدین ایوبی سے زیادہ قابل سالار تھے۔یہ قتل کس کی گردن پر ہے؟صلاح الدین ایوبی نے حاکموں کی مجلس میں کہاتھا کہ خلیفۂ مصر نے ان سب کو غداری اور بغاوت کے جرم میں سزائے موت دے دی ہے''۔

'' جھوٹ ''……خلیفہ نے بھڑک کر کہا……''سفید جھوٹ ۔مجھے صلاح الدین ایوبی نے بتایاتھا کہ یہ سب غدا ر ہیں ۔میں نے اسے کہاتھا کہ گواہ لائو اور مقدمہ چلائو۔

''اس نے مقدمہ چلائے بغیر وہ فیصلہ خود کیا جو خلافت کی مُہر کے بغیر بے کار ہوتاہے ''……رجب نے کہا……''ان بد قسمت سالاروں کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے صلیبی بادشاہ سے رابطہ قائم کیاتھا۔ان کا مقصد کچھ اور تھا ، وہ یہ تھا کہ صلیبیوں سے بات چیت کرکے جنگ و جدل ختم کیا جائے اور ہم اپنے ملک اور رعایا کی خوشحالی اور فلاح و بہبود کی طرف توجہ دے سکیں ۔ آپ شاید تسلیم نہ کریں، مگر یہ حقیقت ہے کہ صلیبی ہمیں اپنا دشمن نہیں سمجھتے ۔ وہ ہمارے خلاف جنگی طاقت صرف اس لیے تیار رکھتے ہیں کہ نور الدین زنگی اور شیر کوہ جیسے مسلمانوں سے انہیں حملے کا خطرہ رہتاہے ۔ شیر کوہ مرگیا تو صلاح الدین ایوبی کو اپنی جگہ چھوڑ گیا۔ یہ شخص شیر کوہ کا پروردہ ہے۔اس نے ساری عمر عیسائی قوم سے لڑتے اور اسلام کے دشمن پیدا کرتے اور دشمنوں میں اضافہ کرتے گزاری ہے۔ اگرصلاح الدین ایوبی کی جگہ مصر کا امیر کسی اور کو مقرر کیاجاتا تو آج عیسائی بادشاہ آپ کے دربار میں دوستوں کی طرح آتے،قتل و غارت نہ ہوتی، اتنے پرانے اور تجربہ کار سالار قتل ہوکر گمنام نہ ہوجاتے ''۔

'' مگر رجب!'' …… خلیفہ نے کہا……'' صلیبیوں نے بحیرۂ روم سے حملہ جو کیا تھا ؟''

'' صلاح الدین ایوبی نے ایسے حالات پیداکیے تھے کہ صلیبی اپنے دفاع کے لیے حملے میں پہل کرنے پر مجبور ہوگئے''……رجب نے کہا……''صلاح الدین ایوبی کو معلوم تھا کہ حملہ آرہاہے،کیونکہ حالات اسی نے پیدا کیے تھے۔اس لیے اس نے حملہ روکنے یعنی دفاع کا انتظام پہلے ہی کررکھاتھا۔ یہ شخص فرشتہ تو نہیں تھا کہ اسے غیب کا حال معلوم ہوگیاتھا۔ اس نے ایک ایسا ناٹک کھیلاتھا جس میں ہزار ہا بچے یتیم اور ہزار ہا عورتیں بیوہ ہوگئیں۔اس پر آپ نے اسے میری موجود گی میں خراجِ تحسین پیش کیا۔پھر اس نے سوڈانی فوج کو جو آپ کی وفادار تھی،جنگی مشق کے بہانے رات کو باہر نکالا اور اندھیرے میں اس پر اپنی نئی فوج سے حملہ کردیا۔مشہور یہ کیا کہ ناجی کی فوج نے بغاوت کردی تھی۔اس پر بھی آپ نے اسے خراجِ تحسین پیش کیا ۔آپ اتنے سادہ دِل اور مخلص ہیں کہ آپ اس چال اور اس دھوکے کو سمجھ نہ سکے''۔

اس دوران اُمِ عرارہ جو عرب کے حسن کا شاہکار تھی ۔خلیفہ العاضدکے ساتھ ''بڑی معصومیت'' سے کچھ ایسی فحش حرکتیں کرتی رہی کہ العاضد پر شراب کا نشہ دُگناہوگیا۔ اس کی ذہنی کیفیت اس لڑکی کے قبضے میں تھی ۔رجب کی باتیں اور دلیلیں اُس کے دماغ میں اُترتی جارہی تھیں۔اُس کی زیادہ تر توجہ اُمِ عرارہ پر مرکوز تھی۔ رجب کی باتیں تو وہ ضمنی طور پر سُن رہاتھا۔ رجب نے صلاح الدین ایوبی پر ایک انتہائی بے ہودہ وار کیا ۔ اس نے کہا……''اُس نے ایک اور فریب کاری شروع کررکھی ہے۔کسی خوب صورت اور جوان لڑکی کو پکڑ کر اس کی آبرو ریزی کرتاہے اور چند دن عیش کرکے اسے یہ کہہ کر مروادیتا ہے کہ یہ جاسوس ہے۔عیسائیوںکے خلاف قوم میں نفرت پیدا کرنے کے لیے اس نے فوج اور عوام میں یہ مشہور کر رکھاہے کہ صلیبی اپنی لڑکیوں کو مصر میں جاسوسی کے لیے بھیجتے ہیں اور وہ بدکار عورتوں کو بھی یہاں بھیجتے ہیں جو قوم کا اخلاق تباہ کرتی ہیں۔میں اسی ملک کا باشندہ ہوں۔یہاں جتنے قحبہ خانے ہیں،وہاں مصری اور سوڈانی عورتیں ہیں، اگر کوئی عیسائی عورت ہے تو وہ کسی کی جاسوس نہیں ،یہ اس کا پیشہ ہے''۔

''مجھے حرم کی تین چار لڑکیوں نے بتایا ہے کہ سلطان ایوبی نے انہیں اپنے گھر بلایا اور خراب کیاتھا''…اُمِ عرارہ نے کہا۔

خلیفہ بھڑک اُٹھا اور کہا……''میرے حرم کی لڑکیاں ؟تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا''۔

''اس لیے کہ آپ کی بیماری میں یہ خبر آپ کے لیے اچھی نہیں تھی''……اُمِ عرارہ نے کہا……''اب بھی یہ بات میرے منہ سے بے اختیار نکل گئی ہے۔ میں نے ایسا انتظام کردیاہے کہ اب کوئی لڑکی کسی کے بلانے پر باہر نہیں جاسکتی''۔

''میں اُ سے ابھی بلاکر دُرّ ے لگوائوں گا''…… خلیفہ نے کہا……''میں انتقام لوں گا''۔

''انتقام لینے کے طریقے اور بھی ہیں ''……رجب نے کہا……''اس وقت عوام صلاح الدین ایوبی کے ساتھ ہیں ۔یہ لوگ آپ کے خلاف ہوجائیں گے''۔

''تو کیا میں اپنی یہ توہین برداشت کرلوں ؟''……خلیفہ نے کہا۔

''نہیں ''……رجب نے کہا……''اگر آپ مجھے اجازت دیں اور میری مدد کریں تو میں صلاح الدین ایوبی کو اسی طرح غائب کردوں گا جس طرح اس نے مصر کی پرانی فوج کے سالاروں کو گُم کردیاہے''۔

''تم یہ کام کس طرح کروگے ؟''……خلیفہ نے پوچھا۔

''حشیشین یہ کام کردکھائیں گے '' ……رجب نے کہا……''وہ رقم بہت زیادہ طلب کرتے ہیں ''۔

''رقم کا مطالبہ جس قدر ہوگا، وہ میں دوں گا''……خلیفہ نے کہا……''تم انتظام کرو''۔ *****
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: داستان ایمان فروشوں کی ۔۔جلد اول مکمل

Post by ایکسٹو »

دو روزبعد جمعہ تھا۔قاہرہ کی جامعہ مسجد کے خطیب کو عیسٰی الہکاری فقہیہ نے کہہ دیا تھا کہ خطبے میں خلیفہ کانام نہ لیا جائے ۔ یہ خطیب تُرک تھے، جن کاپورا نام تاریخ میں محفوظ نہیں ۔وہ امیر العالم کے نام سے مشہور تھے ۔اس دور کے دستاویزی ثبوت ایسے بھی ملے ہیں جن کے مطابق خطیب امیر العالم نے کئی بار اس بدعت کو ختم کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا اوریہ انہی کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ خلیفہ کا نام خطبے سے حذف کیاگیا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ صلاح الدین ایوبی کو امیر العالم نے ہی مشورہ دیا تھا کہ اس بدعت کے خاتمے کے احکام جاری کریں اور دو وقارع نگار اس کا سہرا عیسٰی الہکاری فقہیہ کے سر باندھتے ہیں ۔ہوسکتاہے یہ منصوبہ خطیب امیر العالم اور مذہبی امور کے مشیر عیسٰی الہکاری فقہیہ کے پیشِ نظر بھی ہو، لیکن صلاح الدین ایوبی کی گفتگو کی جو دستاویر ات مل سکی ہیں،اُن سے پتہ چلتاہے کہ یہ دلیرانہ اقدام سلطان ایوبی کا ہی تھا۔ بہر حال اس میں کوئی شک نہیں رہتا کہ اُس وقت سچے مسلمان موجود تھے۔

خطیب امیر العالم نے خطبے میں خلیفہ کانام نہ لیا۔ جامع مسجد میںصلاح الدین ایو بی درمیانی صفوں میں موجود تھا۔علی بن سفیان اس سے تھوڑی دُور کسی صف میں بیٹھا تھا۔سلطان ایوبی کے متعدد دیگر مشیر اور معتمد بکھر کر عوام میں بیٹھے تھے تاکہ ان کا رد عمل بھانپ سکیں ۔علی بن سفیان کے مخبروں کی بہت بڑی تعداد مسجد میں موجود تھی۔ خلیفہ کانام خطبے میں سے غائب کرنا ایک سنگین اقدام نہیں ،بلکہ خلافت کے احکام کے مطابق سنگین جرم تھا ۔اس کا ارتکاب کردیاگیا۔ سربراہوں میں سے اگر کوئی مسجد میں نہیں تھا تو وہ خلیفہ العاضد تھا۔

نماز کے بعد سلطان ایوبی اُٹھا ۔ خطیب کے پاس گیا۔ ان سے مصافحہ کیا ۔ان کے چغے کا بوسہ لیا اور کہا……''اللہ آپ کا حامی و ناصر ہے''۔ خطیب امیر العالم نے جواب دیا……''یہ حکم صادر فرماکر آپ نے جنت میں گھر بنالیا ہے''……واپس چند قدم چل کر سلطان ایوبی رُک گیا اور خطیب کے قریب جاکر کہا……''اگر آپ کو خلیفہ کا بلاوا آجائے تو اس کے پاس جانے کے بجائے میرے پاس آجانا۔ میں آپ کے ساتھ چلوں گا''۔

''اگر امیرِمصر گستاخی نہ سمجھیں ''……امیر العالم نے کہا……''تو عرض کروں کہ باطل اور شرک کے خلاف عمل اور حق گوئی اگر جرم ہے تو اس کی سزامیں اکیلا بھگتوں گا۔میں آپ کا سہارا نہیں ڈھونڈوں گا۔ خلیفہ نے بلایا تو اکیلا جائوں گا۔ میں نے خلیفہ کے نام کو آپ کے حکم سے نہیں ، خدا کے حکم سے حذف کیا ہے ۔ میں آپ کو مبارک باد پیش کرتاہوں ''۔

شام کے بعد صلاح الدین ایوبی علی بن سفیان ، بہائوالدین شداد اور چند ایک اور مشیروں سے دن کی رپورٹ لے رہاتھا۔ سارے شہر میں شہریوں کے بھیس میں مخبر اور جاسوس پھیلادئیے گئے تھے ،جنہوں نے لوگوں کی رائے معلوم کر لی تھی ۔علی بن سفیان نے سلطان ایوبی کو بتایا کہ کہیں سے بھی اسے ایسی اطلاع نہیں ملی ،جہاں کسی نے یہ کہا ہو کہ خطبے میںخلیفہ کانام نہیں لیاگیا تھا۔علی بن سفیان کے بعض آدمیوں نے دو تین جگہوں پر یہ بھی کہا کہ جامع مسجد کے خطیب نے آج خطبے میں خلیفہ کانام نہیں لیا تھا، یہ اُس نے بہت بُرا کیا ہے ۔اس پر کچھ آدمی اس طرح حیران ہوئے جیسے انہیں معلوم ہی نہیں کہ خطبے میں خلیفہ کانام لیاگیا تھا یا نہیں ۔ ان میں سے چار پانچ نے اس قسم کے خیالات کا اظہار کیا کہ اس سے کیا فرق پڑ تا ہے ۔خلیفہ خدایا پیغمبر تو نہیں ۔ ان اطلاعات سے سلطان ایوبی کو اطمینان ہوگیا کہ عوام کے جس ردِّعمل سے اسے ڈرایاگیا تھا، اس کا کہیں بھی اظہار نہیں ہوا۔

صلاح الدین ایوبی نے اسی وقت سلطان نو رالدین زنگی کے نام پیغام لکھا ، جس میں اسے اطلاع دی کہ اس نے جمعے کے خطبے میں سے خلیفہ کانام نکلوادیا ہے۔عوام کی طرف سے اچھے ردِّ عمل کا اظہار ہواہے۔لہٰذا آپ بھی مرکزی خلافت کو خطبے سے خارج کردیں ۔ اب لُبِ لباب کا طویل پیغام لکھ کر اُس نے حکم دیا کہ قاصد کو علی الصبح روانہ کردیاجائے جو یہ پیغام نور الدین زنگی کو دے کر واپس آجائے ۔اس کے بعد اس نے علی بن سفیان سے کہا کہ خلیفہ کے محل میں جاسوسوں کو چوکنا کردیاجائے۔وہاں ذراسی بھی مشکوک حرکت ہوتو فوراً اطلاع دیں ۔رجب کو سلطان ایوبی جانتاتھا۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ رجب خلیفہ کا منہ چڑھانائب سالار ہے ۔سلطان ایوبی نے علی بن سفیان سے کہا……''رجب کے ساتھ ایک آدمی سائے کی طرح لگا رہنا چاہیے ''۔

اُس رات خلیفہ کی محفل عیش و طرب میں رجب نہیں تھا۔ وہ سلطان ایوبی کے قتل کا انتظام کرنے چلاگیا تھا۔ اسے حسن بن صباح کے حشیشین سے ملنا تھا۔ خلیفہ روز مرہ کی طرح باہر کی دُنیا سے بے خبر اور اُمِ عرارہ کے طلسماتی حسن اور ناز و ادا میں گم تھا۔ اسے کسی نے بتایا ہی نہیں تھا کہ خطبے میں سے اس کا نام حذف ہوچکا ہے ۔وہ خوش تھاکہ صلاح الدین ایوبی کے قتل کا انتظام ہونے والا ہے ۔ اُمِ عرارہ نے اسے جلدی سلا نے اور بے ہوش کرنے کے لیے زیادہ شراب پلادی اور شراب میں خواب آور سفوف بھی ملادیا ۔ اس بوڑھے سے جلدی چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے وہ یہی نسخہ استعمال کیا کرتی تھی۔اُسے سلا کر اور قندیلیں بجھاکر وہ کمرے سے نکل گئی ۔وہ اپنے مخصوص کمرے کی طرف جارہی تھی جس میں رجب رات کو چوری چھپے اس کے پاس آیا کر تاتھا۔

وہ کمرے میں داخل ہوئی ہی تھی کہ کواڑوںکے پیچھے سے کسی نے اس پر کمبل پھینکا ۔اس کی آواز بھی نہ نکلنے پائی تھی کہ اس کے منہ پر جہاں پہلے ہی کمبل لپٹ گیاتھا، ایک اور کپڑا باندھ دیاگیا ۔ اسے کسی نے کندھوں پر ڈال لیا اور کمرے سے نکل گیا۔ یہ دو آدمی تھے ۔وہ محل کی بھول بھلیوں اور چور راستوں سے واقف معلوم ہوتے تھے ۔ وہ اندھیری سیڑھیوں پرچڑھ گئے ۔اوپر سے انہوں نے رسہ باندھ کر نیچے لٹکا یا۔ لڑکی کو کندھوں پر ڈالے ہوئے وہ آدمی رسے سے نیچے اُتر گیا ۔اس کے پیچھے دوسرا اُترا اور دونوں اندھیرے میں غائب ہوگئے ۔ کچھ دور چار گھوڑے کھڑے تھے اور ان کے پاس دوآدمی بیٹھے ہوئے تھے۔انہوں نے اپنے ساتھیوں کو اندھیرے میں آتے دیکھا اور یہ بھی دیکھ لیا کہ ایک نے کندھے پر کچھ اُٹھا رکھاہے۔وہ گھوڑوں کو آگے لے گئے ۔سب گھوڑوں پر سوار ہوگئے ایک سوار نے لڑکی کو اپنے آگے ڈال لیا۔ ان میں سے کسی نے کہا……''گھوڑوں کو ابھی دوڑانا نہیں ۔ٹاپو سارے شہر کو جگادیں گے''……گھوڑے آہستہ آہستہ چلتے گئے اور شہر سے نکل گئے ۔

''یہ صلاح الدین ایوبی کاکام ہے''۔

''امیرِ مصر کے سو ا ایسی جرأت اور کوئی نہیں کرسکتا''۔

''اس کے سوا اور ہو ہی کون سکتا ہے''۔

قصرِ خلافت میں یہی شور و غوغا بپاتھا کہ اُمِّ عرارہ کو صلاح الدین ایوبی نے اغوا کرایا ہے۔ رجب واپس آگیا تھا۔ محل کے کونے کونے کی تلاشی لی جاچکی تھی۔ محافظ دستہ کمان داروں کے عتاب کا نشانہ بناہواتھا۔ خود کمان دار بھی سپاہیوں کی طرح تھر تھر کانپ رہے تھے۔ ایک لڑکی کا اغوا معمولی واردات نہیں تھی اور لڑکی بھی ایسی جسے خلیفہ حرم کا ہیرا سمجھتاتھا ۔ محل کے پچھواڑے سے ایک رسّہ لٹک رہاتھا۔ زمین پر پائوں کے نشان تھے ۔ جو تھوڑی دُور جا کر گھوڑوں کے نشانات میں ختم ہوگئے تھے ۔ان سے یہ ثبوت مل گیاتھا کہ لڑکی کو رسّے سے اُتارا گیا ہے ۔ اس شک کا اظہار بھی کیاگیا کہ لڑکی اپنی مرضی سے کسی کے ساتھ گئی ہے۔خلیفہ نے اس شک کو مسترد کردیاتھا ۔ وہ کہتاتھا کہ اُمِّ عرارہ اس پر جان چھر کتی تھی۔

''یہ صلاح الدین ایوبی کاکام ہے ''……رجب نے العاضد سے کہا……'' قصرِ خلافت میں ہر کسی کی زبان پر یہی الفاظ ہیں کہ اس کے سوا اور کوئی بھی ایسی جرأت نہیں کرسکتا''۔

ہر کسی کے کانوں میں یہ الفاظ رجب نے ہی ڈالے تھے۔اسے جونہی اُمِّ عرارہ کی گمشدگی کی اطلاع ملی تھی، اس نے سارے محل میں گھوم پھر کر ہر کسی سے لڑکی کے متعلق پوچھا اور ہر کسی سے کہاتھا……''یہ سلطان ایوبی کاکام ہے ''……قصرِ صدارت کے اعلیٰ حاکم سے ادنیٰ ملازم تک انہی الفاظ کو دہرائے چلے جارہے تھے اور رجب یہ الفاظ خلیفہ العاضد کے کانوں میں پڑے تو اُس نے ذرہ بھر سوچنے کی ضرورت نہ سمجھی کہ یہ الزام بے بنیاد ہوسکتاہے ۔اس کے کانوں میں یہ تو پہلے ہی ڈالا جاچکاتھا کہ سلطان ایوبی عورتوں کا شیدائی ہے۔ اُمِّ عرارہ نے اسے یہ بتایاتھا کہ صلاح الدین ایوبی حرم کی چار لڑکیوں کو خراب کر چکاہے۔خلیفہ نے اسی وقت اپنے خصوصی قاصد کو بلایا اور اُسے کہا کہ امیرِ مصر کے پاس جائو اور اسے کہوکہ پردے میں لڑکی واپس کردو،میں کوئی کاروائ نہیں کرونگا
جس وقت خلیفۂ قاصد کو یہ پیغام دے رہاتھا، اس وقت قاہرہ سے دس بارہ میل دُور تین شتر سوار قاہرہ کی طرف خراماں خراماں آرہے تھے ۔ وہ مصرکی فوج کے گشتی سنتری تھے۔مصر کے سیاسی حالات چونکہ اچھے نہیں تھے۔جاسوسوں اور تخریب کاروں کی سرگرمیاں رُکنے کی بجائے بڑھتی جارہی تھیں ۔سلطان ایوبی کو اچھی طرح معلوم تھا کہ ملک میں غداری اور بغاوت کی چنگاریاں بھی سلگ رہی ہیں ۔ اُس سوڈانی فوج کی طرف سے جسے اُس نے بر طرف کردیاتھا، خطرہ پوری طرح ٹلانہیں تھا۔ اس فوج کے کمان دار ، عہدے دار اور سپاہی تجربہ کار عسکری تھے۔کسی بھی وقت ملک کے لیے خطرہ بن سکتے تھے ۔ سب سے بڑا خطرہ تو یہ تھا کہ سلطان ایوبی کے مخالفین نے صلیبیوں سے دوستانہ کر رکھاتھا۔ان کے جاسوسوں کو وہ پناہ ، اڈہ اور مدد مہیا کرتے تھے ۔ان خطرات کے پیشِ نظر دار الحکومت سے بہت دُور دُور اور ہر طرف فوج کے چند ایک دستے رکھے گئے تھے۔ان کے گشتی سنتری دن رات صحرائوں اور ٹیلوں ٹیکریوں کے علاقوں میں گھوڑوں اور اونٹوں پر گشت کرتے رہتے تھے ،تاکہ آنے والے خطرے کی اطلاع قبل ازوقت دی جاسکے۔

وہ تین شتر سوار انہی دستوں کے گشتی سنتری تھے جو اپنی ذمہ داری کے علاقے میں گشت کرکے واپس آرہے تھے۔آگے مٹی اور پتھروںکی پہاڑیوں اور چٹانوں کا وسیع علاقہ تھا۔وہ ایک وادی میں سے گزررہے تھے ،انہیں کسی عورت کی آہ و زار سنائی دی۔ مردانہ آوازیں بھی سنائی دیں ۔ان سے صاف پتہ چلتاتھا کہ لڑکی پر زبردستی کی جارہی ہے۔ ایک شتر سوار اُترا اور اس چٹان پر چڑھ گیا ، جس کی دوسری طرف آوازیں آرہی تھی اس نے چھپ کر دیکھا،اُدھر چار گھوڑے کھڑے تھے اور چار آدمی بھی تھے۔ چاروں سوڈانی حبشی تھے……ایک بڑی ہی خوب صورت لڑکی تھی، جو دوڑی جارہی تھی۔ ایک حبشی نے اسے پکڑلیا اور اسے بازوئوں میں دبوچ کر اُٹھا لیا اور اُسے اپنے ساتھیوں کے درمیان کھڑا کرکے اس کے سامنے گھٹنوں کے بل ہوگیا۔ اس نے اپنے سینے پر ہاتھ باندھ کرکہا''تم مقدس لڑکی ہو۔اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال کر ہمیں گناہ گار نہ کرو۔ دیوتائوں کا قہر ہمیں جلا ڈالے گا یا ہمیں پتھر بنادے گا''۔

''میں مسلمان ہوں''……لڑکی نے چلا کر کہا……''تمہارے دیوتائوں پر لعنت بھیجتی ہوں، مجھے چھوڑ دو ورنہ میں تم سب کو خلیفہ کے کتوں سے بوٹی بوٹی کرادوں گی''۔

''تم اب خلیفہ کی ملکیت نہیں ''……ایک حبشی نے اسے کہا……''اب تم اس دیوتا کی ملکیت ہو جس کے ہاتھ میں آسمان کی بجلیوں کا قہر، ناگوں کا زہر اور شیروں کی طاقت ہے ۔اس نے تمہیں پسند کرلیاہے۔ اب جوکوئی تمہیں اس سے چھیننے کی کوشش کرے گا، اسے صحرا کی ریت جلا کر راکھ کردے گی''۔

ایک حبشی نے دوسرے سے کہا……''میں نے تمہیں کہاتھا کہ یہاں نہ رکو، مگر تم آرام کرنا چاہتے تھے۔ اسے بندھا ہوا چلے چلتے اور شام سے پہلے پہلے منزل پر پہنچ جاتے''۔

''کیا ہمارے گھوڑے تھک نہیں گئے تھے؟''……حبشی نے جواب دیا……''ہم ساری رات کے جاگے ہوئے نہیں تھے؟اسے پھر باندھ لو اور چلو''۔

اس نے لڑکی کو دبوچ لیا۔اچانک اس کی پیٹھ میں ایک تیر اُتر گیا۔اُس کی گرفت لڑکی سے ڈھیلی ہوگئی ۔لڑکی اُسے دھکادے کر بھاگنے لگی تو دوسرے آدمی نے اسے پکڑ کر گھسیٹا اور گھوڑوں کی اوٹ میں ہوگیا۔ ایک اور تیر آیا جو ایک آدمی کی گردن میں لگا۔ وہ آدمی بُری طرح تڑپنے لگا،جس آدمی نے لڑکی کو پکڑا تھا، و ہ گھوڑے کی باگ پکڑ کر لڑکی اور گھوڑے کو نشیبی جگہ لے گیا، جو بالکل قریب تھی۔ایک حبشی اور بھی رہ گیاتھا، وہ بھی دوڑ کر نشیب میں اُترگیا……یہ تیر اُس شتر سوار سنتری نے چلائے تھے جو چٹان پر چڑھ گیا تھا ۔اس نے بعد میں جو بیان دیا، اس میں اس نے کہاتھا کہ وہ دیوتائوں کے نام سے ڈر گیا تھا، لیکن لڑکی نے جب یہ کہا کہ میں مسلمان ہوں اور میں دیوتائوں پر لعنت بھیجتی ہوں تو سنتری کا ایمان بیدار ہوگیا۔ لڑکی نے جب خلیفہ کانام لیا تو سنتری سمجھ گیا کہ یہ حرم کی لڑکی ہے۔اس کالباس ، اس کی شکل و صورت اور اس کی ڈیل ڈول بتارہی تھی کہ یہ معمولی درجے کی لڑکی نہیں ،اسے اغوا کیا جارہاہے اور اسے سوڈان میں لے جاکر فروخت کیاجائے گا۔ سنتری کو یہ معلوم تھا کہ تھوڑے دنوں بعد سوڈانی حبشیوں کا ایک میلہ لگنے والا ہے ،جس میں لڑکیوں کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔

فوج کو سلطان ایوبی نے یہ حکم دے رکھا تھا کہ عورت کی عزت کی حفاظت کی جائے گی ۔ایک عورت کی عزت کو بچانے کے لیے ایک درجن آدمیوں کے قتل کی بھی اجازت تھی۔ سنتری نے یہ ساری باتیں سامنے رکھ کر فیصلہ کرلیا کہ اس لڑکی کو بچانا ہے۔اس نے دو تیر چلائے اور دو حبشی مار ڈالے ۔اس نے غلطی یہ کی کہ باقی دو حبشیوں کو پکڑنے کے لیے نیچے اُتر آیا۔اپنے اونٹ پر سوار ہوا، اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ بردہ فروشوں کا تعاقب کرنا ہے۔وہ تینوں اونٹوں کو دوڑاتے دوسری طرف گئے مگر انہیں چٹان کا چکر کاٹ کر جانا پڑا۔ اس نے یہ بھی نہ سوچا کہ اونٹ گھوڑے کا تعاقب کر سکتاہے یا نہیں۔ان تینوں میں سے تیر کمان صرف اسی سنتری کے پاس تھا ۔باقی دو کے پاس برچھیا ں اور تلواریں تھیں ۔

وہ اس جگہ پہنچے جہاں لڑکی اور حبشیوں کو دیکھا گیا تھا تو وہاں دو لاشوں کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔ سوڈانی حبشی لڑکی کو بھی لے گئے اور اپنے مرے ہوئے ساتھیوں کے گھوڑوں کو بھی ۔شتر سواروں نے تعاقب میں اونٹ دوڑائے لیکن وہ ٹیلوں اور چٹانوں کا علاقہ تھا۔راستہ گھومتا اور مڑتا تھا۔ انہیں بھاگئے گھوڑوں کے ٹاپو سنائی دے رہے تھے جو دورہوتے گئے اور خاموش ہوگئے ۔شتر سواروں نے دونوں لاشیں اونٹوں پر لادیں اور واپس آگئے ۔انہیں معلوم تھا کہ یہ لاشیں کس کی ہیں۔یہ عام قسم کے بردہ فروشوں کی بھی ہوسکتی تھیں،انہیں اُٹھا لانا ضروری نہ تھا،لیکن لڑکی خلیفہ کی معلوم ہوتی تھی۔ اس لیے لاشیں اُٹھانا ضروری سمجھا گیا تا کہ یہ معلوم ہوسکے کہ اغو ا کرنے والے کون ہیں.
صلاح الدین ایوبی پریشانی اور غصے کے عالم میں ٹہل رہاتھا۔کمرے میں اس کے مشیر اور معتمد بیٹھے تھے۔یہ اس کے دوست بھی تھے ۔وہ سرجھکائے بیٹھے تھے۔ سلطان ایوبی اپنے آپ کو ہمیشہ قابو میں رکھتاتھا۔ وہ کبھی جذباتی نہیں ہواتھا،وہ غصہ پی جایا کرتاتھا اور ذہن کو پوری طرح قابو میں رکھ کر سوچا اور فیصلہ کیا کرتاتھا۔ایسے حالات نے بھی اسے آزمایاتھا، جن میں جابر جنگجو بھی ہتھیار ڈال دیا کرتے تھے ۔ وہ محاصروں میں بھی لڑا تھا اور اس حال میں بھی محاصرے میں رہاتھا کہ اس کے سپاہیوں کے حوصلے ٹوٹ گئے تھے ،قلعے میں کھانے پینے کے لیے بھی کچھ نہ رہاتھااور سپاہیوں کے ترکش بھی خالی ہوگئے تھے۔ اس کے سپاہی اس انتظار میں تھے کہ وہ ہتھیار ڈال کر انہیں اس اذیت اور موت سے بچالے گا، لیکن سلطان ایوبی نے صرف اپنا حوصلہ ہی مضبوط نہ رکھابلکہ سپاہیوں میں بھی نئی روح پھونک دی ، مگر اس روز سلطان ایوبی کو اپنے اوپر قابو نہیں رہاتھا، چہرے پر غصہ بھی تھا اور گھبراہٹ بھی ۔ یہی وجہ تھی کہ سب خاموش بیٹھے تھے ۔

''آج پہلی بار میرا دماغ میرا ساتھ چھوڑ گیا ہے ''…… اس نے کہا۔

''کیا یہ ممکن نہیں کہ آپ خلیفہ کے اس پیغام کو نظر انداز کردیں ؟''…… اس کے نائب سالار الناصر نے کہا۔

''میں اسی کوشش میں مصروف ہوں ''……سلطان ایوبی نے کہا……''لیکن الزام کی نوعیت دیکھو جو مجھ پر عائد کیاگیاہے ۔ میں نے اس کے حرم کی ایک لڑکی اغوا کروائی ہے۔ استغفر اللہ ۔اللہ مجھے معاف کرے۔اس نے میری توہین میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔پیغام بلکہ دھمکی قاصد کی زبانی بھیجی ہے،وہ مجھے بلا لیتا ،میرے ساتھ براہِ راست بات کرتا''۔

''میں پھر بھی یہی مشورہ دوں گا کہ اپنے آپ کو ٹھنڈا کیجئے ''……بہائوالدین شداد نے کہا۔

''میں سوچ یہ رہاہوں کہ کیا واقعی حرم سے کوئی لڑکی اغوا ہوئی ہے''……سلطان ایوبی نے کہا……''یہ جھوٹ معلوم ہوتاہے ،اسے پتہ چل گیا ہوگا کہ میں نے خطبے سے اس کانام نکلوادیاہے۔اس کے جواب میں اس نے مجھ پر یہ الزام لگایا کر کہ میں نے اس کے حرم کی ایک لڑکی اغواکرائی ہے،انتقام لینے کی کوشش کی ہے''……سلطان ایوبی نے عیسٰی الہکاری فقیہہ سے کہا ……''ایک حکم نامہ مصرکی تمام مسجدوں کے نام جاری کردو کہ آئندہ کسی مسجد میں خطبے میں خلیفہ کا ذکر نہیں کیا جائے گا۔

''آپ اس کے ہاں چلے جائیں اور اس سے بات کریں''……الناصر نے کہا……''اسے صاف الفاظ میں بتادیں کہ خلیفہ قوم کی عزت کا نشان ہوتاہے ،لیکن اس کا حکم نہیں چل سکتا، خصوصاً اس صورتِ حال میں جب حالات جنگی ہیں اور دشمن کا خطرہ باہر سے بھی ہے اور اندر سے بھی موجود ہے ۔میں تو یہاں تک مشورہ دوں گا کہ اس کے محافظ دستے کی نفری کم کردیں ۔سوڈانی حبشیوں کی جگہ مصری دستہ رکھیں اور اس کے محل کے اخراجات کم کردیں ۔ میں اس کے نتائج سے آگاہ ہوں ، ہمیں مقابلہ کرنا ہی پڑے گا، ہمیں اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے''۔

''میں نے ہمیشہ اپنے اللہ پر بھروسہ کیاہے''……سلطان ایوبی نے کہا……''خدائے ذوالجلال مجھے اس ذلت سے بھی بچالے گا''۔

دربان اندر آیا، سب نے اس کی طرف دیکھا ۔اس نے کہا۔ ''صحرا کے گشتی دستے کا کمان دار اپنے تین سپاہیوں کے ساتھ آیاہے ۔وہ سوڈانیوں کی لاشیں لائے ہیں ''۔

سب نے دربان کی مداخلت کو اچھی نظر سے نہ دیکھا ۔اس وقت سلطان ایوبی بڑے ہی اہم اور خفیہ اجلاس میں مصروف تھا، لیکن سلطان نے دربان سے کہا۔''انہیں اندر بھیج دو''……سلطان ایوبی نے اپنے دربان سے کہہ رکھا تھا کہ جب بھی اسے کوئی ملنے آئے ،وہ اسے اطلاع دے اور اگر رات اسے جگانے کی ضرورت محسوس ہوتو فوراً جگا لے۔ سلطان کوئی بات اور کوئی ملاقات التوا میں نہیں ڈالا کرتاتھا۔

عہدے دار اندر آیا۔ اس کا چہرہ گرد سے اٹا ہوا اور تھکا تھکا نظر آتاتھا۔سلطان ایوبی نے اسے بٹھایا اور دربان سے کہاکہ اس کے لیے پینے کے لیے کچھ لے آئو۔عہدے دار نے سلطان کو بتایا کہ اس کے گشتی سنتریوں نے چار سوڈانی حبشیوں سے ایک مغویہ لڑکی کو چھڑانے کی کوشش میں دو کو تیروں سے مار ڈالا ہے اور وہ لڑکی کو اُٹھا کر بھاگ گئے ہیں۔عہدے دار نے بتایا کہ سنتریوں کے بیان کے مطابق لڑکی خانہ بدوش یا کسی عام گھرانے کی نہیں تھی۔ وہ بہت ہی امیر لگتی تھی اور اس نے کہاتھا کہ وہ خلیفہ کی ملکیت ہے۔

''معلوم ہوتاہے ''……سلطان ایوبی نے کہا……''خدائے ذوالجلال میری مدد کو آگیاہے''……وہ باہر نکل گئے ۔کمرے میں بیٹھے ہوئے سب حاکم اس کے پیچھے چلے گئے ۔

باہر زمین پر دو لاشیں پڑی تھیں ۔ایک لاش پیٹ کے بل تھی۔اس کی پیٹھ میں تیر اُترا ہواتھا۔ دوسری لاش کی گردن میں تیر پیوست تھا۔ پاس تین سپاہی کھڑے تھے۔انہوں نے امیرِ مصرکو جو اُن کا سالار اعلیٰ بھی تھا، شاید پہلی بار دیکھا تھا۔وہ فوجی انداز سے سلام کرکے پرے ہٹ گیا۔ سلطان ایوبی نے ان کے سلام کا صرف جواب ہی نہیں دیا، بلکہ ان سے ہاتھ ملایا اور کہا……''یہ شکار کہاں سے مار لائے ہو مومنو؟'' ……اس سنتری نے جس نے چٹان سے تیر چلا کر دو آدمیوں کو مارا تھا ۔سلطان ایوبی کو سارا واقعہ پوری تفصیل سے سنادیا۔

''کیا یہ ممکن ہوسکتاہے کہ وہ لڑکی خلیفہ کی ہی داشتہ ہو؟''……سلطان ایوبی نے اپنے مشیروں سے پوچھا۔

معلوم یہی ہوتاہے ''……علی بن سفیان نے کہا……''ان کے خنجر دیکھئے ''۔ اس نے دو خنجر سلطان ایوبی کو دکھائے ،جس وقت سپاہی واقعہ سنارہاتھا۔ علی بن سفیان لاشوں کی تلاشی لے رہاتھا۔ انہوں نے سوڈان کا قبائلی لباس پہن رکھاتھا۔ کپڑوں کے اندر ان کے کمربندتھے ،جن کے ساتھ ایک ایک خنجر تھا۔یہ خلیفہ کے حفاظتی دستے کے خاص ساخت کے خنجر تھے ۔ ان کے دستوں پر قصرِ خلافت کی مہریں لگی ہوئی تھی۔ علی بن سفیان نے کہا……''اگر انہوں نے یہ خنجر چوری نہیں کیے تو یہ دونوں قصرِ خلافت کے حفاظتی دستے کے سپاہی ہیں۔ یہ کہاجاسکتاہے کہ لڑکی وہی ہے جو خلیفہ کے حرم سے اغواہوئی ہے اور اغوا کرنے والے خلیفہ کے محافظوں میں سے ہیں ''۔

''لاشیں اُٹھوائو اور خلیفہ کے پاس لے چلو''……سلطان ایوبی نے کہا ۔

''پہلے یقین کرلیاجائے کہ یہ واقعی خلیفہ کے محافظوں میں سے ہیں ''۔علی بن سفیان نے کہا اور وہاں سے چلاگیا۔

زیادہ وقت نہیں گزراتھا کہ علی بن سفیان کے ساتھ قصرِ خلافت کا ایک کمان دار آگیا۔ اسے دونوں لاشیں دکھائی گئیں۔ اس نے فوراً پہچان لیا اور کہا……''یہ دونوں محافظ دستے کے سپاہی ہیں ، گزشتہ تین روز سے چُھٹی پر تھے ۔ ان کی چُھٹی سات دن رہتی تھی''۔

''کو ئی اور سپاہی بھی چُھٹی پر ہے ؟''……سلطان ایوبی نے پوچھا۔

''دو اور ہیں ''۔

''کیا وہ اِن کے ساتھ چُھٹی پر گئے تھے؟''

''اکٹھے گئے تھے''۔کمان دار نے جواب دیا اور ایک ایسا انکشاف کیا جس نے سب کو چونکادیا۔اس نے کہا……''یہ سوڈان کے قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جو خون خواری میں مشہور ہے۔ ان میں فرعونوں کے وقت کی کچھ رسمیں چلی آرہی ہیں ۔یہ قبیلہ ہر تین سال بعد ایک جشن مناتا ہے ۔یہ ایک میلہ ہوتاہے جو تین دن اور تین راتیں رہتاہے۔دن ایسے مقرر کرتے ہیں کہ چوتھی رات چاند پوراہوتاہے ۔میلے میں وہ لوگ بھی جاتے ہیں جن کا اس قبیلے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا۔وہ صرف عیاشی کے لیے جاتے ہیں ۔میلے میں لڑکیوں کی خرید و فروخت کے لیے باقاعدہ منڈی لگتی ہے ۔اس میلے سے ایک ماہ پہلے ہی اِرد گرد ،بلکہ قاہرہ تک کے لوگ جن کی بیٹیاں جوان ہوگئی ہیں ،ہوشیار اور چوکس ہوجاتے ہیں ۔ وہ لڑکیوں کو باہر نہیں جانے دیتے ۔ ان دنوںخانہ بدوش بھی اس علاقے سے دور چلے جاتے ہیں۔ لڑکیاں اغواہوتی ہیں اور اس میلے میں فروخت ہوجاتی ہیں ۔ یہ چاروں سوڈانی اسی میلے کیلئے چُھٹی پر گئے تھے ۔ میلہ تین روز بعد شروع ہورہاہے ''۔

''کیا ان کے متعلق یہ کہاجاسکتاہے کہ خلیفہ کے حرم کی لڑکی انہوں نے اغوا کی ہوگی؟''……علی بن سفیان نے پوچھا۔

''میں یقین سے نہیں کہہ سکتا ''۔ کمان دار نے جواب دیا ……''یہ کہہ سکتا ہوں کہ ان دنوں میں اس قبیلے کے لوگ جان کا خطرہ مول لے کر بھی لڑکیا ں اغوا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ خون خوار اتنے ہیں کہ اگر کسی لڑکی کے وارث میلے میں چلے جائیں اور اپنی لڑکی لینے کی کوشش کریں تو انہیں قتل کردیاجاتا ہے۔لڑکیوں کے گاہکوں میں مصرکے امیر، وزیر اور حاکم بھی ہوتے ہیں ۔ میلے میں ایسے قحبہ خانے بھی کھل جاتے ہیں ،جہاں جواء ، شراب اور عورت کے شدائی دولت لُٹاتے ہیں ۔ اس جشن کی آخری رات بڑی پُر اسرار ہوتی ہے۔ کسی خفیہ جگہ ایک نوجوان اور غیر معمولی طور پر حسین لڑکی کو قربان کیا جاتاہے ۔ یہ کسی کو بھی معلوم نہیں کہ لڑکی کو کہاں اور کس طرح قربان کیاجاتاہے ۔یہ کام ان کا ایک مذہبی پیشوا ، جسے حبشی خدابھی کہتے ہیں ،کرتاہے ۔ اس کے ساتھ بہت تھوڑے سے خاص آدمی اور چار پانچ لڑکیاں ہوتی ہیں ۔ لوگوں کو لڑکی کا کٹاہوا سر اور خون دکھایا جاتاہے ، جسے دیکھ کر یہ قبیلہ پاگلوں کی طرح ناچتا اور شراب پیتاہے ۔

٭ ٭ ٭
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: داستان ایمان فروشوں کی ۔۔جلد اول مکمل

Post by ایکسٹو »

خلیفہ نے محافظ دستے کے ناک میں دم کررکھا تھا۔تمام تر محافظ دستہ دھوپ میں کھڑا تھا۔ سورج غروب ہونے میں کچھ دیر باقی تھی ۔ اس دستے کو صبح کھڑا کیا گیاتھا۔ کمان داروں اور عہدے داروں کو بھی کھانے کی اجازت دی گئی تھی،نہ پانی پینے کی ۔رجب بار بار آتا اور اعلان کرتا تھا کہ لڑکی محافظوں کی مدد کے بغیر اغواء نہیں کی جاسکتی تھی۔جس کسی نے اغوا میں مدددی ہے، وہ سامنے آجائے ،ورنہ تمہیں یہیں بھوکا اور پیاسا مار دیاجائے گا۔ اگر لڑکی خود باہر گئی ہوتی تو تم میں سے کسی نہ کسی نے ضرور دیکھی ہوتی ……ان دھمکیوں کا کچھ اثر نہیں ہورہاتھا۔ سب کہتے تھے کہ وہ بے گناہ ہیں ۔

خلیفہ رجب کو ٹکنے نہیں دے رہاتھا۔ اس نے رجب سے کہاتھا۔ ''مجھے لڑکی کا افسوس نہیں ، پریشانی یہ ہے کہ جو اتنے کڑے پہرے سے لڑکی کو اغوا کر سکتے ہیں ،وہ مجھے بھی قتل کرسکتے ہیں ۔مجھے یہ ثبوت چاہیے کہ لڑکی کو صلاح الدین ایوبی نے اغوا کرایا ہے ''۔

رجب نے ہی اغواکا بہتان سلطان ایوبی کے سر تھوپا تھا، مگر خلیفہ اسے کہہ رہاتھا کہ ثبوت لائو،رجب ثبوت کہاں سے لاتا،اس کی جان پر بن گئی تھی۔وہ ایک بار پھر محافظ دستے کے سامنے گیا، غصے سے وہ بائولا ہوا جارہاتھا۔ وہ کئی بار دی ہوئی دھمکی ایک بار پھر دینے ہی لگا تھا کہ دروازے پر کھڑے سنتریوں نے دروازے کھول دئیے اور اعلان کیا……''امیرِ مصر تشریف لارہے ہیں''۔

بڑے دروازے میں سلطان ایوبی کا گھوڑا داخل ہوا۔ اس کے آگے وہ محافظ سواروں کے گھوڑے تھے۔آٹھ سوار پیچھے تھے ۔ ایک دائیں اور بائیں تھا۔ ان کے پیچھے سلطان ایوبی کے حاکم اور مشیر تھے ۔ ان میں علی بن سفیان بھی تھا۔ رجب نے خلیفہ کو اطلاع بھیج دی کہ صلاح الدین ایوبی آیاہے ۔ سب نے دیکھا کہ سلطان ایوبی کے اس جلوس کے پیچھے چار پہیوں والی ایک گاڑی تھی۔جس کے آگے دو گھوڑے جُتے ہوئے تھے ۔گاڑی پر دولاشیں پڑی تھیں ۔ ایک سیدھی اور دوسری اُلٹی ۔تیر ابھی تک لاشوں میں اُترے ہوئے تھے ۔ ان لاشوں کے ساتھ وہ تین شترسوار تھے، جنہوں نے ان حبشیوں کا مارا تھا۔

خلیفہ باہر آگیا۔ سلطان ایوبی اور اس کے تمام سوار گھوڑوں سے اُترے ۔ سلطان ایوبی نے اسی احترام سے خلیفہ کو سلام کیا جس احترام کا وہ حق دار تھا۔ جھک کر اس سے مصافحہ کیا اور ہاتھ چوما۔

''مجھے آپ کا پیغام مل گیاتھا کہ میں آپ کے حرم کی لڑکی واپس کردوں ''۔ سلطان ایوبی نے کہا……''میں آپ کے دو محافظوں کی لاشیں لایاہوں ۔یہ لاشیں مجھے بے گناہ ثابت کردیں گی اور میں حضور اقدس میں یہ گزارش کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ صلاح الدین ایوبی آپ کی فوج کا سپاہی نہیں ہے، جس خلافت کی آپ نمائندگی کررہے ہیں ،وہ اس کا بھیجا ہواہے''۔

خلیفہ نے صلاح الدین ایوبی کے تیور بھانپ لیے۔اس فاطمی خلیفہ کا ضمیر گناہوں کے بوجھ سے کراہ رہاتھا۔ وہ سلطان ایوبی کی بارعب اور پُر جلال شخصیت کا سامنا کرنے کے قابل نہیں تھا۔اس نے سلطان ایوبی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا……''میں تمہیں اپنے بیٹوں سے زیادہ عزیز سمجھتا ہوں ،صلاح الدین ایوبی اندر آئو''۔

''میری حیثیت ابھی ملزم کی ہے ''۔سلطان ایوبی نے کہا……''مجھے ابھی صفائی پیش کرنی ہے کہ میں اغوا کا ملزم نہیں ہوں ۔ خدائے ذوالجلال نے میری مددفرمائی ہے اور دولاشیں بھیجی ہیں ۔یہ لاشیں بولیں گی نہیں ، ان کی خاموشی اور ان میں اُترے ہوئے تیر گواہی دیں گے کہ صلاح الدین ایوبی اس جرم کا مجرم نہیں ہے ، جو قصرِ خلافت میں سرزد ہوا ہے۔میں جب تک اپنے آپ کو بے گناہ ثابت نہ کرلوں گا، اندر نہیں جائوں گا''……وہ لاشوں کی طرف چل پڑا۔

خلیفہ کھچا ہوا اُس کے پیچھے پیچھے گیا۔ تھوڑی دُور چار ساڑھے چار سو نفری کا محافظ دستہ کھڑا تھا ۔سلطان ایوبی نے لاشیں اُٹھوا کر اس دستے کے سامنے رکھ دیں اور بلند آواز سے کہا …… ''آٹھ آٹھ سپاہی آگے آئو اور لاشوں کو دیکھ کر بتائوکہ یہ کون ہیں ؟'' …… پہلے کمان دار اور عہدے دار آئے ۔انہوں نے لاشیں دیکھ کر ان کے نام بتائے اور کہا…… ''یہ ہمارے دستے کے سپاہی تھے''……ان کے بعد آٹھ سپاہی آئے ، انہوں نے بھی لاشوں کو دیکھ کر کہا کہ یہ ان کے ساتھی تھے ۔آٹھ اور سپاہی آئے ، پھر آٹھ اور آئے ۔اسی طرح آٹھ آٹھ سپاہی آتے رہے اور بتاتے رہے کہ یہ لاشیں ان کے فلاں فلاں ساتھیوں کی ہیں ۔

''صلاح الدین ایوبی !'' ……خلیفہ نے کہا……''میں نے مان لیاہے کہ یہ لاشیں قصرِ خلافت کے دو محافظوں کی ہیں ۔میں اس سے آگے سننا چاہتاہوں کہ انہیں کس نے ہلاک کیا ہے ''۔

صلاح الدین ایوبی نے اس گشتی سنتری سے ، جس نے انہیں ہلاک کیا تھا ،کہا کہ اپنا بیان دہرائے ۔اُس نے سارا واقعہ خلیفہ کو سنادیا۔ وہ ختم کرچکا تو سلطان ایوبی نے خلیفہ سے کہا……''لڑکی میرے پاس نہیں لائی گئی ۔وہ سوڈانی حبشیوں کے میلے میں فروخت ہونے کے لیے گئی ہے''۔

خلیفہ کھسیانہ ہوا جارہاتھا۔ اس نے سلطان ایوبی سے کہا کہ وہ اندر چلے ۔سلطان ایوبی نے اندر جانے سے انکار کردیا اور کہا……''میں اس لڑکی کو زندہ یا مردہ بر آمد کرکے آپ کے حضور حاضری دوںگا ۔ابھی میں اتنا ہی کہوں گا کہ حرم کی ایک ایسی لڑکی اغوا جو تحفے کے طور پر آئی تھی اور جو آپ کی منکوحہ بیوی نہیں داشتہ تھی ، میرے لیے ذرہ بھر اہمیت نہیں رکھتی ۔خداوند تعالیٰ نے مجھے اس سے اہم فرائض سونپے ہیں ''۔

''میری پریشانی یہ نہیں کہ ایک لڑکی اغواہوگئی ہے ''۔ خلیفہ نے کہا……''اصل پریشانی یہ ہے کہ اس طرح لڑکیاں اغوا ہونے لگیں تو ملک میں قانون کا کیا حشر ہوگا''۔

''اور میری پریشانی یہ ہے کہ سلطنتِ اسلامیہ اغواہورہی ہے ''۔۔سلطان ایوبی نے کہا……''آپ زیادہ پریشان نہ ہوں ۔میرا شعبہ سراغ رسانی لڑکی کو برآمد کرنے کی پوری کوشش کرے گا''۔

خلیفہ سلطان ایوبی کو ذراپرے لے گیا اور کہا……''صلاح الدین ! میں ایک عرصے سے دیکھ رہاہوں کہ تم مجھ سے کھچے کھچے رہتے ہو۔ میں نجم الدین ایوب )سلطان صلاح الدین ایوبی کے والد محترم (کا بہت احترام کرتاہوں ،مگر تمہارے دل میں میرے لیے ذرہ بھر احترام نہیں ہے اور مجھے آج بتایا گیا ہے کہ جامع مسجد کے خطیب امیر العالم نے یہ گستاخی کی ہے کہ خطبے سے میرا نام ہٹادیاہے ۔مجھے رجب نے بتایا ہے کہ میں اسے اس گستاخی کی سزا دے سکتاہوں ۔ میں تم سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ اس نے تمہای شہ پر تو ایسا نہیں کیا؟''

''میری شہہ پر نہیں ، میرے حکم پر اس نے خلیفہ کانام خطبہ سے حذف کیاہے ''۔ سلطان ایوبی نے کہا……''صرف آپ کانام نہیں ،بلکہ ہر اس خلیفہ کانام خطبے سے ہٹادیاگیاہے جو آپ کے بعد آئے گا اور جو اُس کے بعد آئے گا''۔

''کیا یہ حکم فاطمی خلافت کمزور کرنے کے لیے جاری کیاگیاہے ؟''خلیفہ نے پوچھا……''مجھے شک ہے کہ یہاں عباسی خلافت لائی جارہی ہے''۔

''حضور بہت بوڑھے ہوگئے ہیں ''۔سلطان ایوبی نے کہا ……''قرآن نے شراب کو اسی لیے حرام کہاہے کہ اس سے دماغ مائوف ہوجاتاہے ''……سلطان نے ذرا سوچ کر کہا……''میں نے فیصلہ کیا ہے کہ کل سے آپ کے محافظ دستے میں ردوبدل ہوگا اور رجب کو میں واپس لے کر آپ کو نیا کمان داردوں گا''۔

''لیکن میںرجب کویہاں رکھنا چاہتا ہوں '' خلیفہ نے کہا۔

''میں حضور سے درخواست کرتاہوں کہ فوجی معاملات میں دخل دینے کی کوشش نہ کریں ۔ سلطان ایوبی نے کہا اور علی بن سفیان کی طرف متوجہ ہوا جو پانچ حبشی محافظو کو ساتھ لیے آرہاتھا۔

'' یہ پانچوں اُسی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں '' علی بن سفیان نے کہا…… ''میں نے اس دستے سے مخاطب ہو کر کہا کہ اس قبیلے کے کوئی آدمی یہاں ہوں تو باہر آجائیں ۔یہ پانچ صفوں سے باہر آگئے ۔ ان کے متعلق مجھے ان کے کمان دار نے بتایا ہے کہ پرسوں سے چُھٹی پر جا رہے تھے ۔ میں انہیں اپنے ساتھ لے جارہاہوں ۔لڑکی کے اغوا میں ان کا ہاتھ ہوسکتاہے ''۔

صلاح الدین ایوبی نے رجب کو بلا کر کہا…… ''کل یہاں دوسرا کمان دار آرہاہے ، آپ میرے پاس آجائیں گے ۔ میں آپ کو منجنیقوں کی کمان دینا چاہتا ہوں۔

رجب کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔

اُمِّ عرارہ کو گھوڑے پر ڈالئے ہوئے جب وہ دو حبشی اتنی دُور نکل گئے ،جہاں انہیں تعاقب کا خطرہ نہ رہاتو انہوں نے نے گھوڑے روک لیے ۔لڑکی ایک بار پھر آزاد ہونے کو تڑپنے لگی۔ حبشیوں نے اسے کہا کہ اس کا تڑپنا بے کار ہے۔اب اگر اُسے وہ آزاد بھی کردیں تو وہ اس ریگستان سے زندہ نہیں نکل سکے گی۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اسے بے آبرو نہیں کرنا چاہتے ۔ اگر اُن کی نیت ایسی ہوتی تو وہ اس کے ساتھ وحشیوں جیسا سلوک کر چکے ہوتے۔ اُمِّ عرارہ حیران تھی کہ انہوں نے اسے چھیڑا تک نہیں تھا۔ انہیں تو جیسے احساس ہی نہیں تھا کہ اتنی دلکش لڑکی ان کے رحم و کرم پر ہے۔ ان میں سے ایک نے جو مارا جا چکاتھا، مرنے سے پہلے اس کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر التجا کی تھی کہ وہ تڑپ تڑپ کر اپنے آپ کو اذیت میں نہ ڈالے۔اُمِّ عرارہ نے ان سے پوچھا کہ اسے کہاں لے جایا جارہاہے تو اسے جواب دیاگیا کہ وہ اسے آسمان کے دیوتاکی ملکہ بنانے کے لیے لے جارہے ہیں۔

انہوں نے لڑکی کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی اور اُٹھا کر گھوڑے پر بٹھا دیا ۔اس نے آزاد ہونے کی کوشش ترک کر دی۔ اس نے دیکھ لیا تھا کہ یہ کوشش بے سود ہے ۔گھوڑے چل پڑے اوراُمِّ عرارہ ایک حبشی کے آگے گھوڑے پر بیٹھی محسوس کیا کہ رات ہوگئی ہے ۔گھوڑے رُک گئے ۔اس وقت تک اس نازک لڑکی کا جسم مسلسل گھوڑ سواری سے ٹوٹ چکا تھا۔ دہشت سے اس کا دماغ بے کار ہوگیاتھا۔ اسے گھوڑے رُکتے ہی اپنے ارد گرد تین چار مردوں اور تین عورتوں کی ملی جلی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ یہ زبان اس کی سمجھ سے بالا تھی۔ یہی حبشی راستے میں اس کے ساتھ عربی زبان میں باتیں کرتے تھے۔ ان کا لہجہ عربی نہیں تھا۔

ابھی اس کی آنکھوں سے پٹی نہیں کھولی گئی تھی۔ اس کی تو جیسے زبان بھی بند ہوگئی تھی۔ اُسے کسی نے اُٹھا کر کسی نرم چیز پر بٹھا دیا۔ یہ پالکی تھی ۔پالکی اوپر کو اُٹھی اور اس کا ایک اور سفر شروع ہوگیا۔ اس کے ساتھ ہی دف کی ہلکی ہلکی گونج دار تھاپ سنائی دینے لگی اور عورتیں گانے لگیں۔اس گانے کے الفاظ تو وہ نہ سمجھ سکتی تھی، اس کی لَے میں جادو کا اثر تھا ۔یہ اثر ایسا تھا، جس نے اُمِّ عرارہ کے خوف میں اضافہ کردیا، لیکن اس خوف میں ایسا تاثر بھی پیدا ہونے لگا جیسے اس پر نشہ یا خمار طاری ہورہاہو۔ رات کی خنکی خمار میں لذت سی پیدا کررہی تھی۔ اُمِّ عرارہ نے یہ چاہتے ہوئے کہ وہ پالکی سے کود جائے اور بھاگ اُٹھے اور یہ لوگ اُسے جان سے ماردیں،اس نے ایسی جرأت نہ کی ۔وہ محسوس کررہی تھی کہ وہ ان انسانوں کے قبضے میں نہیں بلکہ کوئی اور ہی طاقت ہے جس نے اس پر قابو پالیا ہے اور اب وہ اپنی مرضی سے کوئی حرکت نہیں کر سکے گی۔

وہ محسوس کرنے لگی کہ پالکی بردار سیڑھیاں چڑھ رہے ہیں ، وہ چڑھتے گئے ۔کم و بیش تیس سیڑھیاں چڑھ کر وہ ہموار چلنے لگے اور چند قدم چل کر رُک گئے ۔پالکی زمین پر رکھ دی گئی۔اُمِّ عرارہ کی آنکھوں سے پٹی کھول کر کسی نے اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے۔تھوڑی دیر بعد ان ہاتھوں کی انگلیاں کھلنے لگی اور لڑکی کو روشنیاں دکھائی دینے لگی۔ آہستہ آہستہ ہاتھ اُس کی آنکھوں سے ہٹ گئے ۔ وہ ایک ایسی عمارت میں کھڑی تھی جو ہزاروں سال پرانی نظر آتی تھی۔ گول ستون اوپر تک چلے گئے تھے ۔ایک وسیع ہال تھا جس پر فرش روشنیوں میں چمک رہاتھا ۔دیواروں کے ساتھ ڈنڈے سے لگے ہوئے تھے اور ڈنڈوں کے سروں پر مشعلو ں کے شعلے تھے ۔اندر کی فضا میں ایسی خوشبو تھی جس کی مہک اس کے لیے نئی تھی۔ دف کی ہلکی ہلکی تھاپ اور عورتوں کا گیت اسے سنائی دے رہاتھا۔ یہ تھاپ اور یہ لَے ہال میں ایسی گونج پیدا کررہی تھی، جس میں خواب کا تاثر تھا۔

اُس نے سامنے دیکھا ۔ایک چبوترہ تھا جس کی آٹھ دس سیڑھیاں تھیں ۔چبوترے پر پتھر کے بُت کا منہ اور سر تھا۔اس کی ٹھوڑی کے نیچے تھوڑی سی گردن تھی۔ٹھوڑی سے ماتھے تک یہ پتھر کا چہرہ قد آور انسان سے بھی ڈیڑھ دو فٹ اونچا تھا۔منہ کھلاہوا تھا جو اتنا چوڑا تھا کہ ایک آدمی ذراسا جھک کر اس میں داخل ہوسکتا تھا۔ منہ میں سفید دانت بھی تھے۔یوں لگتا تھا جیسے یہ چہرہ قہقہے لگا رہاہو۔ اس کے دونوں کانوں سے ڈنڈے نکلے ہوئے تھے،جن کے باہر والے سروں پر مشعلیں جل رہی تھی۔اچانک اس کی آنکھیں جو کم و بیش گز گز بھر چوڑی تھیں ،چمکنے لگیں ۔ان سے روشنی پھوٹنے لگی ۔ عورتوں کے گیت کی لَے بدل گئی ۔ دف کی تھاپ میں جوش پیدا ہوگیا ۔ پتھر کے منہ کے اندر روشنی ہوگئی ۔لمبے لمبے سفید چغے پہنے ہوئے دو آدمی جھک کر منہ سے باہر آئے۔منہ سے باہر آکر ایک دائیں طرف اور ایک بائیں طرف کھڑا ہوگیا۔

اس کے بعد پتھر کے منہ میںسے ایک اور آدمی نمودار ہوا۔وہ بھی جھک کر باہر آیا۔وہ ذرا بوڑھا لگتا تھا۔ اس کا چغہ سرخ رنگ کاتھا اور اس کے سر پر تاج تھا۔ ایک سانپ جو مصنوعی تھا اسکے دائیں کندھے پر کنڈلی مارے اور پھن پھیلائے بیٹھا تھا اور ایک بائیں کندھے پر ۔ دونوں سانپوں کے رنگ سیاہ تھے۔ اُمِّ عرارہ پر ایسا رعب طار ی ہوا کہ وہ سُن ہوکے کھڑی رہی ۔یہ آدمی جو اس قبیلے کا مذہبی پیشوا یا پروہت تھا، چبوترے کی سیڑھیاں اُتر آیا۔ وہ آہستہ آہستہ اُمِّ عرارہ تک آیا اور دونوں گھٹنے فرش پر رکھ کر اس نے لڑکی کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر چوم لیے۔ اس نے لڑکی سے عربی زبان میں کہا……''تم ہو وہ خوش نصیب لڑکی جسے میرے دیوتا نے پسند کیا ہے۔ہم تمہیں مبارک باد پیش کرتے ہیں ''۔

اُمِّ عرارہ بیدار ہوگئی ۔اس نے روتے ہوئے کہا……''میں کسی دیوتا کو نہیں مانتی ،اگر تم دیوتائوں کو مانتے ہوتو میں تمہیں انہی کا واسطہ دے کر کہتی ہوں کہ مجھے چھوڑ دو ۔مجھے یہاں کیوں لائے ہو''۔

''یہاں جو بھی آتی ہے ،یہی کہتی ہے ''۔ پروہت نے کہا……''لیکن اُس پر اس مقدس جگہ کا راز کھلتا ہے تو کہتی ہے کہ میں یہاں سے جانا نہیں چاہتی ۔میں جانتاہوں تم مسلمانوں کے خلیفہ کی محبوبہ ہو، مگر جس نے تمہیں پسند کیا ہے،،اس کے آگے دنیا کے خلیفے اور آسمانوں کے فرشتے سجدے کرتے ہیں ۔تم جنت میں آگئی ہو''۔ اس نے چغے کے اندرسے ایک پھول نکالا اور اُمِّ عرارہ کی ناک کے ساتھ لگادیا۔ اُمِّ عرارہ حرم کی شہزادی تھی۔اس نے ایسے ایسے عطر سونگے تھے جو اس جیسی شہزادیوں کے سوا اور کوئی خواب میں بھی نہیں سونگ سکتاتھا، مگر اس پھول کی بو اس کے لیے انوکھی تھی۔یہ بو اسکی روح تک اُتر گئی ۔اس کی سوچوں کا رنگ ہی بدل گیا۔اس کی نظروں کے زاویے ہی بدل گئے ۔پروہت نے کہا……''یہ دیوتا کا تحفہ ہے''…… اور اس نے پھول اس کی ناک سے ہٹالیا۔

اُمِّ عرارہ نے ہاتھ آہستہ آہستہ آگے کیا اور پروہت کا پھول والا ہاتھ پکڑ کر اپنی ناک کے قریب لے آئی۔پھول سونگھ کر خمار آلود آواز میں بولی۔''کتنا دل نشین تحفہ ہے۔آپ یہ مجھے دیں گے نہیں ؟''

''کیا تم نے تحفہ قبول کرلیاہے؟'' ۔پروہت نے پوچھا ۔اس کے ہونٹوں پر مُسکراہٹ تھی۔''ہاں اُمِّ عرارہ نے جواب دیا……''میں نے یہ تحفہ قبول کرلیاہے ''……اس نے پھول کو ایک بار پھر سونگھا اور اس نے آنکھیں بند کرلیںجیسے مہک کو ا پنے وجود میں جذب کرنے کی کوشش کررہی ہو۔

''دیوتانے بھی تمہیں قبول کرلیاہے''۔ پروہت نے کہا اور پوچھا……''تم اب تک کہاں تھیں ؟''

لڑکی سوچ میں پڑگئی جیسے کچھ یاد کرنے کی کوشش کررہی ہو۔سر ہلا کر بولی……''میں یہیں تھی……نہیں ۔میں ایک اورجگہ تھی ……مجھے یاد نہیں کہ میں کہاں تھی''۔

''تمہیں یہاں کون لایاہے؟''

''کوئی بھی نہیں ''……اُمِّ عرارہ نے جواب دیا……''میں خود آئی ہوں''

''تم گھوڑے پر نہیں آئی تھیں؟''

''نہیں ''۔لڑکی نے جواب دیا……''میں اُڑتی ہوئی آئی ہوں''۔

''کیا راستے میں صحرا اور پہاڑ اور جنگل اور ویرانے نہیں تھے؟''

''نہیں تو!''۔ لڑکی نے جواب دیا……''ہر طرف سبزہ زار اور پھول تھے''۔

''تمہای آنکھوں پر کسی نے پٹی نہیں باندھی تھی؟''
''پٹی ؟……نہیں تو''۔لڑکی نے جواب دیا……''میری آنکھیں کھلی ہوئی تھیں اور میں نے رنگ برنگ پرندے دیکھے تھے،پیارے پیارے پرندے۔''

پروہت نے اپنی زبان میں بلند آواز سے کھچ کہا۔اُمِّ عرارہ کے عقب سے چار لڑکیاں آئیں ۔انہوں نے اس کے کپڑے اُتار دئیے۔وہ مادر زاد ننگی ہوگئی ۔اُس نے مُسکراکر پوچھا ……''دیوتا مجھے اس حالت میں پسند کریں گے؟''پروہت نے کہا……''نہیں تمہیں دیوتا کے پسند کے کپڑے پہنا ئے جائیں گے''……لڑکیوں نے اس کے کندھوں پر چادر سی ڈال دی جو اتنی چوڑی تھی کہ کندھوں سے پائوں تک اس کا جسم مستور ہوگیا۔اس چادر کے کناروں پر رنگ دار رسیوں کے ٹکڑے تھے۔چادر آگے کرکے ان ٹکڑوں کا گانٹھیں دے دی گئیں اور چادر نہایت موزوں چغہ بن گئی۔ اُمِّ عرارہ کے بال ریشم جیسے ملائم اور سیاہی مائل بھور ے تھے۔ایک لڑکی نے اس کے بالوں میں کنگھی کرکے اس کے شانوں پر پھیلا دئیے ۔اسکا حسن اور زیادہ بڑھ گیا۔

پروہت نے اسے مُسکراکر دیکھا اور گھوم کر پتھر کے مہیب چہرے کی طرف چل پڑا۔دولڑکیوں نے اُمِّ عرارہ کے ہاتھ تھام لیے اور پروہت کے پیچھے پیچھے چل پڑیں ۔اُمِّ عرارہ شہزادیوں کی طرح چل پڑی ۔ اس نے اِدھر اُدھر نہیں دیکھاکہ ماحول کیسا ہے۔اس کی چال میں اور ہی شان تھی۔عورتوں کاراگ اسے پہلے سے زیادہ طلسماتی اور پُر سوز معلوم ہونے لگا۔وہ پروہت کے پیچھے ،ہاتھ لڑکیوںکے ہاتھوں پر رکھے چبوترے کی سیڑھیاں چڑھنے لگی۔ پروہت پتھر کے پہاڑ جیسے چہرے کے منہ میں داخل ہوگیا۔ اُمِّ عرارہ بھی تین سیڑھیاں چڑھ کر بُت کے منہ میں جھک کر داخل ہوگئی۔ دونوں لڑکیاں وہیں کھڑی رہیں ۔اُمِّ عرارہ کا ہاتھ پروہت نے تھام لیا۔ منہ کی چھت اتنی اونچی تھی کہ وہ سیدھے چل رہے تھے ۔ حلق میں پہنچے تو آگے سیڑھیاں تھیں۔ وہ سیڑھیاں اُتر گئے۔یہ ایک تہہ خانہ تھا جہاں قندیلیں روشن تھیں۔ایک کمرے میں بھی مہک تھی۔یہ کمرہ کشادہ نہیں تھا،چھت اونچی نہیں تھی۔اس کی دیوار یں اور چھت درختوں کے پتوں اور پھولوں سے ڈھکی ہوئی تھی۔ فرش پر ملائم گھاس اور گھاس پر پھول بچھے ہوئے تھے۔ایک کونے میں خوشمنا صراحی اور پیالے رکھے تھے۔ پروہت نے صراحی سے دو پیالے بھرے ۔ایک اُمِّ عرارہ کو دیا ،دونوں نے پیالے ہونٹوں سے لگائے اور خالی کردئیے۔

''دیوتا کب آئے گا؟'' اُمِّ عرارہ نے پوچھا۔

''تم نے ابھی اسے پہچانا نہیں ؟'' پروہت نے کہا……''تمہارے سامنے کون کھڑ اہے ؟''

اُمِّ عرارہ اس کے پائوں میں بیٹھ گئی اور بولی……''ہاں ! میں نے اسے پہچان لیا ہے۔تم وہ نہیں ہو جسے میں نے اوپر دیکھا تھا۔ تم نے مجھے قبول کرلیا ہے؟''

''ہاں !'' پروہت نے کہا ……''آج سے تم میری دلہن ہو''۔

٭ ٭ ٭
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: داستان ایمان فروشوں کی ۔۔جلد اول مکمل

Post by ایکسٹو »

''میں آپ کو اور کچھ نہیں بتاسکتا ۔میرے باپ نے مجھے بتایا تھا کہ پروہت لڑکی کو پھول سونگھاتا ہے جس کی خوشبو سے لڑکی کے ذہن سے نکل جاتاہے کہ وہ کیا تھی، کہاں سے آئی ہے اور کس طرح لائی گئی ہے۔وہ پروہت کی لونڈی بن جاتی ہے اور اسے دُنیا کی گندی چیز یں بھی خوب صورت دکھائی دیتی ہیں ۔پروہت تین راتیں اسے اپنے ساتھ تہہ خانے میں رکھتا ہے''۔

یہ انکشاف ان پانچ سوڈانی حبشیوں میں سے ایک نے علی بن سفیان کے سامنے بیان کررہاتھا ،جنہیں اس نے خلیفہ کے محافظ دستے میں سے نکالاتھا۔ یہ پانچوں اسی قبیلے میں سے تھے، جس قبیلے کے وہ چاروں تھے،جنہوں نے اُمِّ عرارہ کو اغوا کیاتھا۔ اپنے ساتھ لے جاکر علی بن سفیان نے ان پانچوں سے کہاتھا کہ چونکہ وہ اسی قبیلے کے ہیں جو تیسرے سال کے آخر میں جشن مناتاہے اور وہ چُھٹی پر جارہے تھے۔ اس لیے انہیں معلوم ہوگا کہ لڑکی کس طرح اغوا ہوئی ہے۔ ان پانچوں نے کہا کہ انہیں اغوا کا علم ہی نہیں ۔علی بن سفیان نے انہیں یہ لالچ بھی دیا کہ وہ سچ بتادیں گے تو انہیں کوئی سزانہیں دی جائے گی، پھر بھی وہ لاعلمی کا اظہار کرتے رہے ۔یہ قبیلہ وحشیانہ مزاج اور خون خواری کی وجہ سے مشہور تھا۔ا نہیں سزا کا ذرّہ بھر ڈرنہ تھا۔ پانچوں بہت دلیری سے انکار کررہے تھے۔ آخر علی بن سفیان کو وہ ریقے آزمانے پڑے جو پتھر کو بھی پگھلادیتے ہیں ۔

پانچوں کو الگ الگ کرکے علی بن سفیان انہیں اس جگہ لے گیا جہاں چیخیں اور آہ و بکا کوئی نہیں سنتاتھا۔ مسلسل اذیت اور تشدد سے کوئی ملزم مرجائے تو کسی کو پروانہیں ہوتی تھی۔ یہ پانچوں سوڈانی بڑے ہی سخت جان معلوم ہوتے تھے۔ وہ رات بھر اذیت سہتے رہے۔علی بن سفیان رات بھر جاگتا رہا ۔آخر انہیں اس امتحان میں ڈالا گیا جو آخری حربہ سمجھا جاتا تھا، یہ تھا''چکر شکنجہ ''۔ رہٹ کی طرح چوڑے اور بہت بڑے پہئے پر ملزم کو اُلٹا لُٹا کر ہاتھ رسیوں سے چکر کے ساتھ باندھ دئیے جاتے اور پائوں ٹخنوں سے رسیاں ڈال کر فرش میں گاڑے ہوئے کیلو ں سے کس دئیے جاتے تھے۔ پہئے کو ذراسا آگے چلایا جاتا تو ملزم کے بازو کندھوں سے اور ٹانگیں کولہوں سے الگ ہونے لگتی تھیں۔ بعض اوقات ملزم کو کھینچ کر پہئے کو ایک جگہ روک لیاجاتاتھا۔ اذیت کا یہ طریقہ ملزموں کو بے ہوش کر دیتا تھا۔

سحر کے وقت ایک ادھیڑ عمر حبشی نے علی بن سفیان سے کہا……''میں سب کچھ جانتاہوں ، لیکن دیوتا کے ڈر سے نہیں بتایا۔ دیوتا مجھے بہت بُری موت ماریں گے''۔

''کیا اس سے بڑھ کر کوئی بُری موت ہوسکتی ہے ،جو میں تمہیں دے رہاہوں؟''علی بن سفیان نے کہا……''اگر تمہارے دیوتا سچے ہوتے تو وہ تمہیں اس شکنجے سے نکال نہ لیتے ؟تم اگر مرنے سے ڈرتے ہوتو موت یہاں بھی موجود ہے ۔تم بات کرو۔ میرے ہاتھ میں ایک ایسا دیوتا ہے جو تمہیں تمہارے دیوتا سے بچالے گا''۔

یہ سوڈانی حبشی کئی باربے ہوش ہوچکاتھا۔ اسے دیوتا نہیں موت صاف نظر آرہی تھی۔علی بن سفیان نے اس کی زبان کھول لی۔ اسے شکنجے سے کھول کر کھلایا اور پلایا اور آرام سے لٹا دیا۔اس نے اعتراف کیا کہ اُمِّ عرارہ کو اُ ن کے قبیلے کے چار آدمیوں نے اغوا کیا تھا۔ وہ چاروں چُھٹی پر چلے گئے تھے۔انہوں نے اغوا کی رات اور وقت بتادیاتھا ۔یہ پانچ حبشی جو علی بن سفیان کے قبضے میں ،اُس رات پہرے پر تھے۔اغوا کرنے والوں میں سے دو کو اندر آناتھا۔انہیں بڑے دروازے سے داخل کرنے کا انتظام انہوں نے کیا تھا اور انہیں اغوا اور فرار میں پوری مدد دی تھی ۔اس حبشی نے بتایا کہ اس لڑکی کو دیوتا کی قربان گاہ پر قربان کیا جائے گا۔ہر تین سال بعد ان کا قبیلہ چار روزہ جشن مناتا
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: داستان ایمان فروشوں کی ۔۔جلد اول مکمل

Post by ایکسٹو »

ہے ،لیکن لڑکی اپنے قبیلے کی نہیں ہوتی۔شرط یہ ہے کہ لڑکی غیر ملکی ہو، سفید رنگ کی ہو،اونچے درجے کے خاندان کی اور اتنی خوب صورت ہو کہ لوگ دیکھ کر ٹھٹھک جائیں ''۔

''تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر تین سال بعد تمہارا قبیلہ باہر سے ایک خوب صورت لڑکی اغوا کرکے لاتاہے''۔ علی بن سفیان نے پوچھا۔

''نہیں ۔یہ غلط ہے''۔ سوڈانی حبشی نے جواب دیا……''تین سال بعد صرف میلہ لگتا ہے ۔لڑکی کی قربانی پانچ میلوں کے بعد یعنی ہر پندرہ سال بعد دی جاتی ہے۔مشہور یہی ہے کہ ہر تین سال بعد لڑکی قربان کی جاتی ہے''۔

اس نے اپنے باپ کے حوالے سے وہ جگہ بتائی جہاں قربانی دی جاتی تھی۔ پروہت کو وہ دیوتا کا بیٹا کہتاتھا،جہاں میلہ لگتا تھا ، اس سے ڈیڑ ھ ایک میل جتنی دُور ایک پہاڑی علاقہ تھا ،جہاں جنگل بھی تھا۔یہ علاقہ زیادہ وسیع اور عریض نہیں تھا۔اس کے متعلق مشہور تھا کہ وہاں دیوتا رہتے ہیں اور ان کی خدمت کے لیے جن اور پریاں بھی رہتی ہیں۔لوگ اس لیے یہ باتیں مانتے تھے کہ ہر طرف صحرا اور اس میں جزیرے کی طرح کچھ علاقہ پہاڑی اور سر سبز تھاجو قدرت کا ایک عجوبہ تھا۔یہ دیوتائوں کا مسکن ہی ہوسکتا تھا۔ اس علاقے میں فرعونوں کے وقتوںکے کھنڈر تھے،وہاں ایک جھیل بھی تھی جس میں چھوٹے مگر مچھ رہتے تھے۔

قبیلے کا کوئی آدمی سنگین جرم کرے تو اسے پروہت کے حوالے کردیاجاتاتھا۔ پروہت اسے زندہ جھیل میں پھینک دیتا ،جہاں مگر مجھ اسے کھاجاتے تھے۔پروہت انہی کھنڈروں میں رہتا تھا۔وہاں ایک بہت بڑا پتھر کا سر اور منہ تھا جس میں دیوتا رہتا تھا۔ ہر پندرھویں سال کے آخری دنوں میں باہر سے ایک لڑکی اغوا کرکے لائی جاتی جو پروہت کے حوالے کردی جاتی تھی پروہت لڑکی کو ایک پھول سونگھاتاتھا جس کی خوشبو سے لڑکی کے ذہن سے نکل جاتاتھاکہ وہ کیا تھی،کہاں سے آئی تھی اور اسے کون لایا تھا۔اس پھول میں کوئی نشہ آور بوڈالی جاتی تھی ،جس کے اثر سے وہ پروہت کو دیوتا اور اپنا خاوند سمجھ لیتی تھی۔اسے وہاں کی گندی چیزیں بھی خوب صورت دکھائی دیتی تھیں۔

لڑکی کی قربانی انہی کھنڈرات میں دی جاتی تھی۔لڑکی کو پروہت تہہ کانے میں اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ اس جگہ چار مرد اور چار خوب صورت لڑکیاں رہتی تھیں۔ ان کے سوا اور کسی کو پہاڑوں کے اندر جانے کی اجازت نہیں تھی۔لڑکی کو جب قربان گاہ پر ل جایا جاتا تو اسے احساس ہی نہیں ہوتا تھا کہ اس کی گردن کاٹ دی جائے گی۔وہ فخر اور خوشی سے مرتی تھی۔ اس کا دھڑ مگر مچھوں کی جھیل میں پھینک دیاجاتا اور بال کاٹ کر قبیلے کے ہر گھر میں تقسیم کر دئیے جاتے تھے۔ ان بالوں کو مقدس سمجھا جاتا تھا۔لڑکی کا سر خشک ہونے کے لیے رکھ دیاجاتا تھا، جب گوشت ختم ہوکر صرف کھوپڑی رہ جاتی تو اُسے ایک غار میں رکھ دیاجاتاتھا۔ لڑکی کسی کو دکھائی نہیں جاتی تھی۔

''پندرہ سال پورے ہورہے ہیں ۔اب کے لڑکی کی قربانی دی جائے گی''……اس حبشی نے کہا……''ہم نو آدمی مصرکی فوج میں بھرتی ہوئے تھے۔ہمیں چونکہ نڈر اور وحشی سمجھا جاتاہے۔اس لیے ہمیں خلیفہ کے محافظ دستے کے لیے منتخب کرلیاگیا۔دو مہینے گزرے ہم نے اس لڑکی کو دیکھا۔ایسی خوب صورت لڑکی ہم نے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ہم سب نے فیصلہ کر لیا کہ اس لڑکی کو اُٹھالے جائیں گیاور قربانی کے لیے پیش کریں گے۔ہمارے ایک ساتھی نے جو کل ماراگیاہے۔اپنے گائوں جاکر قبیلے کے بزرگ کو بتادیاتھاکہ اس بار قربانی کے لیے ہم لڑکی لائیں گے۔ ہم نے لڑکی کو اغوا کرلیاہے''۔

یہ قصہ صلاح الدین ایوبی کو سنایا گیا تو وہ گہری سوچ میں کھوگیا۔علی بن سفیان اس کے حکم کا منتظر تھا۔سلطان ایوبی نے نقشہ دیکھا اور کہا……''اگر جگہ یہ ہے تو یہ ہماری عمل داری سے باہر ہے۔تم نے شہر کے پرانے لوگوں سے جو معلومات حاصل کی ہیں ،ان سے یہ ثابت ہوتاہے کہ فرعون تو صد یاں گزریں مرگئے ہیں ،لیکن فرعونیت ابھی باقی ہے۔ بحیثیت مسلمان ہم پر فرض عائد ہوتاہے کہ ہم اگر دُور نہ پہنچ سکیں تو قریبی پڑوس سے تو کفر اور شرک کا خاتمہ کریں۔آج تک معلوم نہیں کتنے والدین کی معصوم بیٹیاں قربان کی جاچکی ہیں اور اس میلے میں کتنی بیٹیاں اغوا ہوکر فروخت ہوجاتی ہیں۔ہمیں دیوتائوں کا تصور ختم کرنا ہے ۔لوگوں کو دیوتائوں کا تصور دے کر نام نہاد مذہبی پیشوا لڑکیا اغوا کرواکے بدکاری اور عیاشی کرتے ہیں''۔

''میرے مخبروں کی اطلاعوں نے یہ بے ہودہ انکشاف کیا ہے کہ ہماری فوج کے کئی کمان دار اور مصر کے پیسے والے لوگ اس میلے میں جاتے اور لڑکیاں خریدتے یا چند دنوں کے لیے کرائے پر لاتے ہیں''……علی بن سفیان نے کہا……''کردار کی تباہی کے علاوہ یہ خطرہ بھی ہے کہ سوڈانیوں کی برطرف فوج کے عسکری اس میلے میں زیادہ تعداد میں جاتے ہیں۔ہماری فوج اور ہمارے دوسرے لوگوں کا سوڈانی سابقہ فوجیوں کے ساتھ ملنا جلنا اور جشن منانا ٹھیک نہیں۔یہ مشترکہ تفریح ملک کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے''……علی بن سفیان نے ذراجھجک کر کہا……''اور لڑکی کو قربان ہونے سے پہلے بچانا اور خلیفہ کے حوالے کرنا، اس لیے بھی ضروری ہے کہ اسے معلوم ہوجائے کہ اس نے آپ پر اغوا کا جو الزام عائد کیاہے،وہ کتنا بے بنیاد اور لغو ہے''۔

''مجھے اس کی کوئی پروانہیں علی!''……سلطان ایوبی نے کہا……''میری توجہ اپنی ذات پر نہیں ۔مجھے کوئی کتنا ہی حقیر کہے،میں اسلام کی عظمت کے فروغ اور تحفظ کو نہیں بھول سکتا ۔میری ذات کچھ بھی نہیں اور تم بھی یاد رکھو علی!اپنی ذات سے توجہ ہٹا کر سلطنت کے استحکام اور فلاح و بہبود پر مرکوز کردو۔اسلام کی عظمت کا امین خلیفہ ہوا کرتاتھا، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خلیفہ اپنی ذات میں گم ہوتے گئے اور اپنے نفس کا شکار ہوگئے ۔اب ہماری خلافت اسلام کی بہت بڑی کمزوری بن گئی ہے۔صلیبی ہماری اس کمزوری کو استعمال کررہے ہیں ۔اگر تم کامیابی سے اپنے فرائض نبھانا چاہتے ہوتو اپنی ذات اور اپنے نفس سے دست بردار ہوجائو…… خلیفہ نے مجھ پر جو الزام عائد کیاہے ،اسے میں نے بڑی مشکل سے برداشت کیاہے ۔میں اوچھے وار کا جواب دے سکتاتھا، مگر میرا وار بھی اوچھا ہوتا۔پھر میں ذاتی سیاست بازی میں اُلجھ جاتا ۔مجھے خطرہ یہی نظر آرہاتھا کہ ملتِ اسلامیہ کسی دور میں جاکر اپنے ہی حکمرانوں کی ذاتی سیاست بازیوں،خود پسندی ، نفس پرستی اور اقتدار کی ہوس کی نذر ہوجائے گی''۔

''گستاخی کی معافی چاہتاہوں محترم امیر!''……علی بن سفیان نے کہا……''اگر آپ اس لڑکی کو قربان ہونے سے بچانا چاہتے ہیں تو حکم صادر فر مائیے۔وقت بہت تھوڑا ہے ۔ پرسوں سے میلہ شروع ہورہاہے ''۔

''فوج میں یہ حکم فوراً پہنچا دو کہ اس میلے میں کسی فوجی کو شریک ہونے کی اجازت نہیں ''……سلطان ایوبی نے نائب سالار کو بلاکر کہا……''خلاف ورزی کرنے والے کو اس کے عہدے اور رتبے سے قطع نظر پچاس کوڑے سر عام لگائے جائیں گے''۔

اس حکم کے بعد سکیم بننے لگی۔متعلقہ حکام کو سلطان ایوبی نے بلالیاتھا۔ اس نے سب سے کہاتھا کہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ اس طلسم کو توڑنا ہے ۔ یہ جگہ فرعونیت کی آخری نشانی معلوم ہوتی ہے……پہلے فوج کشی زیرِ بحث آئی جو اس وجہ سے خارج از بحث کردی گئی کہ اسے اس قبیلے کے لوگ اپنے اوپر باقاعدہ حملہ سمجھیں گے۔لڑائی ہوگی جس میں میلہ دیکھنے والے بے گناہ لوگ بھی مارے جائیں گے اور عورتوں اور بچوں کے مارے جانے کا خطرہ بھی ہے۔یہ حل بھی پیش کیاگیا کہ اس سوڈانی حبشی کو ساتھ لے جانا پسند نہیں کیا، کیونکہ دھوکے کا خطرہ تھا۔اس وقت تک سلطان ایوبی کے حکم کے مطابق چھاپہ ماروں اور شب خون مارنے والوں کا ایک دستہ تیار کیاجاچکاتھا۔ اسے مسلسل جنگی مشقوں سے تجربہ کار بنادیا گیاتھا کہ وہ جانبازوں کا دستہ تھا، جنہیں جذبے کے لحاظ سے اس قدر پختہ بنادیاگیا تھا کہ وہ اس پر فخر محسوس کرنے لگے کہ انہیں جس مہم پر بھیجاجائے گا، اس زندہ واپس نہیں آئیں گے۔

نائب سالار الناصر اور علی بن سفیان کے مشوروں سے یہ طے ہوا کہ صرف بارہ چھاپہ مار اس پہاڑی جگہ کے اندر جائیں گے ،جہاں پروہت رہتاہے اور لڑکی قربان کی جاتی ہے ۔حبشی کی دی ہوئی معلومات کے مطابق اس رات میلے میں زیادہ رونق ہوتی ہے،کیونکہ وہ میلے کی آخری رات ہوتی ہے ۔قبیلے کے لوگوں کے سوا کسی اور کو معلوم نہیں ہوتاکہ لڑکی قربان کی جارہی ہے، جسے معلوم ہوتاہے وہ یہ نہیں جانتا کہ قربان گاہ کہاں ہے ۔ان معلومات کی روشنی میں یہ طے کیاگیا کہ پانچ سو سپاہی میلہ دیکھنے والوں کے بھیس میں تلواروں وغیر ہ سے مسلح ہوکر اس رات میلے میں موجود ہوں گے۔ان میں سے دوسو کے پاس تیر کمان ہوں گے۔اُس زمانے میں ان ہتھیاروں پر پابندی نہیں تھی۔چھاپہ ماروںکے ذہنوں میں واضح تصور کی صورت میں جگہ نقش کردی جائے گی۔ وہ براہِ راست حملہ نہیں کریں گے۔ چھاپہ ماروں کی طرح پہاڑی علاقے میں داخل ہوں گے ۔پہرہ داروں کو خاموشی سے ختم کریں گے اور اصل جگہ پہنچ کر اس وقت حملہ کریں گے جب لڑکی قربان گاہ میں لائی جائے گی۔ اس سے قبل حملے کا یہ نقصان ہوسکتاہے کہ لڑکی کو تہہ خانے میں ہی غائب یا ختم کردیاجائے گا۔

یہ معلوم ہوگیا تھا کہ قربانی آدھی رات کے وقت پورے چاند میں ہی دی جاتی ہے۔پانچ سوسپاہیوں کو اس وقت سے پہلے قربان گاہ والی پہاڑیوںکے اِرد گرد پہنچنا تھا۔چھاپہ ماروں کے لیے گھیرے میں آجانے یا مہم ناکام ہونے کی صورت میں یہ ہدایت دی گئی کہ وہ فلیتے والا ایک آتشیں تیراوپر کو چلائیں گے۔اس تیر کا شعلہ دیکھ کر یہ پانچ سو نفری حملہ کردے گی ۔

اسی وقت بارہ جانباز منتخب کر لیے گئے اور اس فوج میں سے جو دوسال پہلے نور الدین زنگی نے سلطان ایوبی کی مدد کے لیے بھیجی تھی،پانچ سوذہین اور بے خوف سپاہی ،عہدے دار اور کمان دار منتخب کر لیے گئے ۔یہ لوگ عرب سے آئے تھے ،مصر اور سوڈان کی سیاست بازیوں اور عقائد کا ان پر کچھ اثر نہ تھا۔وہ صرف اسلام سے آگاہ تھے اور یہی ان کا عقیدہ تھا۔وہ ہر اس عقیدے کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوتے تھے، جسے وہ غیر اسلامی سمجھتے تھے۔انہیں بتایا گیا کہ وہ ایک باطل عقیدے کے خلاف لڑنے جارے ہیں اور ہوسکتاہے کہ انہیں اپنے سے زیادہ نفری سے مقابلہ کرنا پڑے اور لڑائی خونریز ہو اور یہ بھی ہوسکتاہے کہ اُن کے سامنے کوئی ٹھہر ہی نہ سکے اور بغیر لڑائی کے مہم سر ہوجائے ۔انہیں سکیم سمجھادی گئی اور ان کے ذہنوں میں پہاڑی علاقے کا اور ان پہاڑویوں کی بلندی، جو زیادہ نہیں تھی اور ان میں گھر ی ہوئی قربان گاہ کا تصور بٹھادیا گیا۔بارہ جانبازوں کو بھی ان کے ہدف کا تصور دیاگیا۔انہیں ٹریننگ بڑی سختی سے دی گئی تھی۔پہاڑیوں پر چڑھنا اور ریگستانوں میں دوڑنا،بھوک اور پیاس اونٹ کی طرح برداشت کرنا ،اُن کے لیے مشکل نہیں تھا۔

قربانی کی رات کو چھ روز باقی تھے ۔تین دن اور تین راتیں چھاپہ ماروں اور پانچ سوسپاہیوں کو مشق کرائی گئی۔ چوتھے روز چھاپہ ماروں کو اونٹوں پر روانہ کردیاگیا۔اونٹوںکی میانہ چال سے ایک دن اور آدھی رات کا سفر تھا۔شتر بانوں کی حکم دیاگیا تھا کہ چھاپہ ماروں کو پہاڑی علاقے سے دُور جہاں وہ کہیں اُتار کر واپس آجائیں ۔پانچ سوکے دستے کو تماشائیوں کے بھیس میں دو دو چارچار ٹولیوں میں گھوڑوں اور اونٹوں پر روانہ کیا گیا۔ انہیں جانور اپنے ساتھ رکھنے تھے۔ ان کے ساتھ ان کے کمان دار بھی اسی بھیس میں چلے گئے ۔

٭ ٭ ٭
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: داستان ایمان فروشوں کی ۔۔جلد اول مکمل

Post by ایکسٹو »

میلے کی آخری رات تھی۔

پورا چاند اُبھر تا آرہاتھا ۔صحرا کی فضا شیشے کی طرح شفاف تھی ۔میلے میں انسانوںکے ہجوم کا کوئی شمار نہ تھا۔کہیں نیم برہنہ لڑکیاں رقص کررہی تھیں اور کہیں گانے والیوں نے مجمع لگارکھا تھا۔سب سے زیادہ بھیڑ اس چبوترے کے اِردگرد تھی ،جہاں لڑکیاں نیلام ہورہی تھیں ۔ایک لڑکی کو چبوترے پر لایا جاتا ۔گاہک اسے ہر طرف سے دیکھتے ۔اس کا منہ کھول کر دانت دیکھتے ،بالوں کو اُلٹا پلٹا کر دیکھتے ،جسم کی سختی اور نرمی محسوس کرتے اور بولی شروع ہوجاتی ۔وہاں جواء بھی تھا، شراب بھی تھی ،اگر وہاں نہیں تھا تو قانون نہیںتھا۔پوری آزادی تھی ۔دُور دُور سے آئے ہوئے لوگوں کے خیمے میلے کے اِرد گرد نصب تھے ۔تماشائی مذہب اور اخلاق کی پابندیوں سے آزاد تھے ۔انہیں معلوم نہیں تھا کہ ان سے تھوڑی ہی دُور جو پہاڑیاں ہیں ، ان میں ایک خوب صورت لڑکی کو ذبح کرنے کے لیے تیار کیاجارہاہے اور وہاں ایک انسان دیوتا بناہواہے۔وہ اتناہی جانتے تھے کہ ان پہاڑیوں میں گھراہوا علاقہ دیوتائوں کا پایۂ تخت ہے،جہاں جن اور بھوت پہرہ دیتے ہیں اور کوئی انسان وہاں جانے کی سوچ بھی نہیں سکتا۔

انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ ان کے درمیان اللہ کے پانچ سو سپاہی گھوم پھر رہے ہیں اور بارہ انسان دیوتائوں کے پایۂ تخت کی حدود میں داخل ہوچکے ہیں ……صلاح الدین ایوبی کے بارہ چھاپہ ماروں کو بتایا گیا تھا کہ پہاڑیوں کے اندرونی علاقے میں داخل ہونے کا راستہ کہاں ہے ،لیکن وہاں سے وہ داخل نہیں ہوسکتے تھے ،کیونکہ وہاں پہرے کا خطرہ تھا۔انہیں بہت دشوار راستے سے اندر جاناتھا۔انہیں بتایا گیا تھا کہ پہاڑوں کے اِرد گرد کوئی انسان نہیں ہوگا، مگر وہاں انسان موجود تھے ،جس کا مطلب یہ تھا کہ اس حبشی نے علی بن سفیان کو غلط بتایاتھا کہ اس علاقے کے گرد کوئی پہرہ نہیں ہوتا۔ پہاڑیوں کا خطہ ایک میل بھی لمبا نہیں تھا اور اسی قدر چوڑا تھا۔وہ چونکہ تربیت یافتہ چھاپہ مارتھے ۔ اس لیے وہ بکھر کر اور احتیاط سے آگے گئے تھے ۔ایک چھاپہ مار کو اتفاق سے ایک درخت کے قریب ایک متحرک سایہ نظر آیا۔چھاپہ مار چھپتا اور رینگتا اس کے عقب میں چلاگیا۔ قریب جاکر اس پر جھپٹ پڑا۔ اس کی گردن بازو کے شکنجے میں لے کر خنجر کی نوک اس کے دِل پر رکھ دی ۔ گردن ڈھیلی چھوڑ کر اس سے پوچھا کہ تم یہاںکیا کررہے ہو اور یہاں کس قسم کا پہرہ ہے؟

وہ حبشی تھا۔چھاپہ مار عربی بول رہاتھا جو حبشی سمجھ نہیں سکتا تھا۔اتنے میں ایک اور چھاپہ مار آگیا۔اس نے بھی خنجر حبشی کے سینے پر رکھ دیا،انہوں نے اشاروں سے پوچھا تو حبشی نے اشاروں میں جواب دیا، جس سے شک ہوتاتھا کہ یہاں پہرہ موجود ہے ۔اس حبشی کی شہ رگ کاٹ دی گئی اور چھاپہ مار اور زیادہ محتاط ہوکر آگے بڑھے ۔یکلخت جنگل آگیا۔ آگے پہاڑی تھی۔چاند اوپر اُٹھتا آرہاتھا ،لیکن درختوں اور پہاڑیوں نے اندھیرا کررکھا تھا۔وہ پہاڑی پر ایک دوسرے سے ذرا دُور اوپر چڑھتے گئے ۔

اندر کے علاقے میںجہاں لڑکی کو پروہت کے حوالے کیاگیا تھااور ہی سرگرمی تھی۔ پتھر کے چہرے کے سامنے چبوترے پر ایک قالین بچھا ہواتھا۔ اس پر چوڑے پھل والی تلوار رکھی تھی ۔ اس کے قریب ایک چوڑا برتن رکھاتھا اور قالین پر بھول بکھرے ہوئے تھے ۔اس کے قریب آگ جل رہی تھی ۔ چبوترے کے چاروں کناروں پر دئیے جلا کر چراغاں کیاگیا تھا۔وہاں چار لڑکیاں گھوم پھر رہی تھیں ، ان کا لباس دودو چوڑے پتے تھے اور باقی جسم برہنہ ۔چار حبشی تھے ، جنہوں نے کندھوں سے ٹخنوں تک سفید چادریں لپیٹ رکھی تھی۔ اُمِّ عرارہ تہہ خانے میں پروہت کے ساتھ تھی ۔پروہت اس کے بالوں سے کھیل رہاتھا اور وہ مخمور آواز میں کہہ رہی تھی ……''میں انگوک کی ماں ہو، تم انگوک کے باپ ہو،میرے بیٹے مصر اور سوڈان کے بادشاہ بنیں گے۔میرا خون انہیں پلادو۔میرے لمبے لمبے سنہری بال ان کے گھروں میں رکھ دو ۔تم مجھ سے دور کیوں ہٹ گئے ہو، میرے قریب آئو''……پروہت اس کے جسم پر تیل کی طرح کوئی چیز مَلنے لگا ۔

انگوک غالباً اس قبیلے کانام تھا۔ایک عربی لڑکی کونشے کے خمار نے اس قبیلے کی ماں اور پروہت کی بیوی بنادیاتھا۔ وہ قربان ہونے کے لیے تیار ہوگئی تھی ۔ پروہت آخری رسوم پوری کررہاتھا۔

بارہ چھاپہ مار رات کے کیڑوں کی طرح رینگتے ہوئے پہاڑیوں پر چڑھتے ،اُترتے اور ٹھوکریں کھاتے آرہے تھے ۔بہت ہی دشوار گزار علاقہ تھا۔بیشتر جھاڑیاں خاردار تھیں ۔چاند سر پر آگیاتھا۔انہیں درختوں میں سے روشنی کی کرنیں دکھائی دینے لگیں ۔ان کرنوں میں انہیں ایک حبشی کھڑا نظر آیا ، جس کے ایک ہاتھ میں برچھی اور دوسرے میں لمبوتری ڈھال تھی ۔وہ بھی دیوتائوں کے پایۂ تخت کا پہرہ دار تھا۔اسے خاموشی سے مارنا ضروری تھا ۔وہ ایسی جگہ کھڑا تھا،جہاں اس پر عقب سے حملہ نہیں کیا جاسکتاتھا۔ آمنے سامنے کا مقابلہ موزوں نہیں تھا۔ ایک چھاپہ مار جھاڑیوں میں چھپ کر بیٹھ گیا ۔ دوسرے نے اس کے سامنے ایک پتھر پھینکا ، جس نے گر کر اور لڑھک کر آواز پیدا کی ۔حبشی بدکا اور اس طرف آیا۔وہ جوں ہی جھاڑی میں چھپے ہوئے چھاپہ مار کے سامنے آیا، اُس کی گردن ایک بازو کے شکنجے میں آگئی اور ایک خنجر اس کے دِل میں اُترگیا۔ چھاپہ مار کچھ دیر وہاں رُکے اور احتیاط سے آگے چل پڑے ۔

اُمِّ عرارہ قربانی کے لیے تیار ہوچکی تھی۔پروہت نے آخری بار اسے اپنے سینے سے لگایا اور اس کا ہاتھ تھام کر سیڑھیوں کی طرف چل پڑا ۔باہر کے چار حبشی مردوں اور لڑکیوں کو پتھر کے سر اور چہرے کے منہ میں روشنی نظر آئی تو وہ منہ کے سامنے سجدے میں گرگئے ۔پروہت نے اپنی زبان میں ایک اعلان کیا اور منہ سے اُترآیا ۔اُمِّ عرارہ اس کے ساتھ تھی۔ اسے وہ قالین پر لے گیا۔مرد اور لڑکیا ں اس کے اِرد گرد کھڑی ہوگئیں ۔اُمِّ عرارہ نے عربی زبان میں کہا……''میں انگوک کے بیٹوں اور بیٹیوں کے لیے اپنی گردن کٹوارہی ہوں ۔ میں ان کے گناہوں کا کفارہ ادا کررہی ہوں ۔میری گردن کاٹ دو۔ میرا سر انگوک کے دیوتا کے قدموں میں رکھ دو۔ دیوتا اس سر پر مصر اور سوڈان کا تاج رکھیں گے''……چاروں آدمی اور لڑکیاں ایک بار پھر سجدے میں گر گئیں ۔پروہت نے اُمِّ عرارہ کو قالین پر دوزانو بٹھا کر اس کا سر آگے جُھکا دیا او روہ تلوار اُٹھالی ،جس کا پھل پورے ہاتھ جتنا چوڑا تھا۔

ایک چھاپہ مار جو سب سے آگے تھا ، رُک گیا۔اس نے سر گوشی کرکے پیچھے آنے والے کو روک لیا۔پہاڑی کی بلندی سے انہیں چبوترہ اور پتھر کا سر نظر آیا……چبوترے پر ایک لڑکی دو زانو بیٹھی تھی ۔جس کا سر جھکاہواتھا۔شفافچاندنی ، چراغاں اور بڑی مشعلوں نے سورج کی روشنی کا سماں بنارکھاتھا۔ لڑکی کے پاس کھڑے آدمی کے ہاتھ میں تلوار تھی۔ دوزانو بیٹھی ہوئی لڑکی برہنہ تھی۔اس کے جسم کا رنگ بتارہاتھا کہ حبشی قبیلے کی لڑکی نہیں ۔چھاپہ ماردُور تھے اور بلندی پر بھی تھے، وہاں سے تیر خطاجانے کا خطرہ تھا، مگر وہ جس پہاڑی پر تھے ۔اس کے آگے ڈھلان نہیں تھی ، بلکہ سیدھی دیوار تھی ، جس سے اُتر ناناممکن تھا۔وہ جان گئے کہ لڑکی قربان کی جارہی ہے اور اسے بچانے کے لیے وقت اتنا تھوڑاہے کہ وہ اُڑ کر نہ پہنچے تو اسے بچانہیں سکیںگے ۔ انہوں نے چوٹی سے نیچے دیکھا۔چاندنی میں انہیں ایک جھیل نظر آئی ۔انہیں بتایاگیا تھا کہ وہاں ایک جھیل ہے جس میں مگر مجھ رہتے ہیں ۔

دائیں طرف ڈھلان تھی ،لیکن وہ بھی تقریباً دیوار کی طرح تھی ۔وہاں جھاڑیاں اور درخت تھے ۔ انہیں پکڑ پکڑ کر اور ایک دوسرے کے ہاتھ تھام کر دوہ ڈھلان اُترنے لگے ۔ان میں سے آخری جانباز نے اتفاق سے سامنے دیکھا۔چاندنی میں سامنے کی چوٹی پر اسے ایک حبشی کھڑا نظر آیا۔اس کے ایک ہاتھ میں ڈھال تھی اور دوسرے ہاتھ میں برچھی ، جو اس نے تیر کی طرح پھینکنے کے لیے تان رکھی تھی۔چھاپہ ماروں پر چاندنی نہیں پڑرہی تھی ۔حبشی ابھی شک میں تھا۔آخری چھاپہ مارنے کمان میں تیر ڈالا ۔رات کی خاموشی میں کمان کی آواز سنائی دی ۔تیر حبشی کی شہ رگ میں لگا او روہ لڑھکتا ہوا،نیچے آرہا۔چھاپہ مار ڈھلان اُترتے گئے ۔گرنے کاخطرہ ہر قدم پر تھا۔

٭ ٭ ٭
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: داستان ایمان فروشوں کی ۔۔جلد اول مکمل

Post by ایکسٹو »

پروہت نے تلوار کی دھار اُمِّ عرارہ کی گردن پر رکھی اور اوپر اُٹھائی۔لڑکیوں اور مردوں نے سجدے سے اُٹھ کردو زانوں بیٹھتے ہوئے پُر سوز اور دھیمی آواز میں کوئی گانا شروع کردیا۔یہ ایک گونج تھی جو اس دُنیا کی نہیں لگتی تھی ۔ پہاڑیوں میں گھری ہوئی اس تنگ سی وادی میں ایسا طلسم طاری ہوا جارہاتھا جو باہر کے کسی بھی انسان کو یقین دِلا سکتا تھا کہ یہ انسانوں کی نہیں ،دیوتائوں کی سرزمین ہے ……پروہت تلوار کو اوپر لے گیا۔اب تو ایک دوسانسوں کی دیر تھی ۔تلوار نیچے کو آنے ہی لگی تھی کہ ایک تیر پروہت کی بغل میں دھنس گیا۔اس کا تلوا روالا ہاتھ ابھی نیچے نہیں گراتھا کہ تین تیر بیک وقت اس کے پہلو میں اُتر گئے ۔لڑکیوں کی چیخیں سنائی دیں ۔مرد کسی کو آواز دینے لگے ۔تیروں کی ایک اور باڑ آئی جس نے دو مردوں کو گرادیا۔لڑکیاں جدھر منہ آیا، دوڑ پڑیں ۔ اُمِّ عرارہ اس شور و غل اور اپنے ارد گرد تڑپتے ہوئے اور خون میں ڈوبے ہوئے جسموں سے بے نیاز سر جھکائے بیٹھی تھی۔

چھاپہ مار بہت تیز دوڑتے آئے ۔چبوترے پر چڑھے اوراُمِّ عرارہ کو ایک نے اُٹھا لیا۔وہ ابھی تک نشے کی حالت میں باتیں کررہی تھی۔ایک جانباز نے اپنا کرتہ اُتا ر کر اسے پہنا دیا ۔اسے لے کر چلے ہی تھے کہ ایک طرف سے بارہ حبشی برچھیاں اور ڈھالیں اُٹھائے دوڑتے آئے ۔چھاپہ مار بکھرگئے ۔ان میں چار کے پاس تیر کمانیں تھیں ۔انہوں نے تیر برسائے ۔باقی چھاپہ مار ایک طرف چھپ گئے اور جب حبشی آگے آئے تو عقب سے ان پر حملہ کردیا۔ایک تیر انداز نے کمان میں فلیتے والا تیر نکالا ۔فلیتے کو آگ لگائی اور کمان میں ڈال کر اوپر کو چھوڑدیا۔تیر دُور اوپر جاکر رُکا تو اس کا شعلہ جو رفتا ر کی وجہ سے دب گیاتھا، رفتار ختم ہوتے ہی بھڑکا اور نیچے آنے لگا۔

میلے کی رونق ابھی ماند نہیں پڑی تھی ۔تماشایوں میں سے پانچ سو تماشائی میلے سے الگ ہوکر اس پہاڑی خطے کی طرف دیکھ رہے تھے۔ انہیں دُور فضا میں ایک شعلہ سا نظر اآیا جو بھڑک کر نیچے کو جانے لگا۔ وہ گھوڑوں اور اونٹوں پر سوار ہوئے ۔ان کے کمان دار ساتھ تھے ۔پہلے تو وہ آہستہ آہستہ چلے تاکہ کسی کو شک نہ ہو ۔ذرا دُور جاکر انہوں نے گھوڑے دوڑادئیے ۔ تماشائی میلے میں شراب ، جوئے اور ناچنے گانے والی لڑکیوں اور عصمت فروش عورتوں میں اتنے مگن تھے کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی کہ ان کے دیوتائوں پر کیا قیامت ٹو ٹ پڑی ہے ۔

چھاپہ مارنے اس خطرے کی وجہ سے آتشیں تیر چلادیاتھا کہ حبشیوں کی تعداد زیادہ ہوگئی ،مگر فوج وہاں پہنچی تو وہاں بارہ تیرہ لاشیں حبشیوں کی اور دو لاشیں چھاپہ مار شہیدوں کی پڑی تھیں ۔وہ برچھیوں سے شہید ہوئے تھے۔کمان داروں نے وہاں کاجائزہ لیا ۔پتھر کے منہ میں گئے اور تہہ خانے میںجاپہنچے ،وہاں انہیں جو چیزیں ہاتھ لگیں ،وہ اُٹھالیں۔اُن میں ایک پھول بھی تھا جو قدرتی نہیں ، بلکہ کپڑے سے بنایا گیا تھا۔احکام کے مطابق فوج کووہیں رہنا تھا،لیکن پہاڑیوں میں چھپ کر ۔چھاپہ ماروں نے اُمِّ عرارہ کو گھوڑے پر ڈالا اور قاہرہ کی طرف روانہ ہوگئے۔

صبح طلوع ہوئی ۔

میلے کی رونق ختم ہوگئی تھی ۔بیشتر تماشائی رات شراب پی پی کر ابھی تک مدہوش پڑے تھے ۔دوکان دار جانے کے لیے مال اسباب باندھ رہے تھے ۔لڑکیوں کے بیوپاری بھی جارہے تھے ۔صحرا میں روانہ ہونے والوں کی قطاریں لگی ہوئی تھیں ۔ میلے کے قریب جو گائوں تھا وہاں کے لوگ بے تابی سے اس لڑکی کے بالوں کا انتظار کررہے تھے ،جسے رات قربان کیاگیاتھا۔اس قبیلے کے لوگ جودُور دراز دیہات کے رہنے والے تھے ،پہاڑی جگہ سے دور کھڑ ے دیوتائوں کے مسکن کی طرف دیکھ رہے تھے۔ ان کے بڑے بوڑھے انہیں بتارہے تھے کہ ابھی پروہت آئے گا۔ وہ دیوتائوں کی خوشنودی کا پیغام دے گا اور ان میں بال تقسیم کرے گا، مگر ابھی تک کوئی نہیں آیا تھا۔ دیوتائوں کے مسکن پر سکوت طاری تھا۔ اس منتظر ہجوم کو معلوم نہ تھا کہ وہاں فوج مقیم ہے اور اب وہاںسے دیوتائوں کا کوئی پیغام نہیں آئے گا……دن گزرتاگیا۔قبیلے کے جن نوجوانوں نے قربانی کی باتیں سنی تھیں ،انہیں شک ہونے لگا کہ یہ سب جھوٹ ہے ۔دِن گزر گیا۔ سورج انہی پہاڑیوں کے پیچھے جا کر ڈوب گیا۔کسی میں اتنی جرأت نہیںتھی کہ وہ وہاں جاکر دیکھتا کہ پروہت کیوں نہیں آیا۔

٭ ٭ ٭

''طبیب کو بلالائو''……سلطان ایوبی نے کہا……''لڑکی پر نشے کا اثر ہے ''۔

اُمِّ عرارہ اس کے سامنے بیٹھی تھی اور کہہ رہی تھی ……''میں انگوک کی ماں ہوں ۔تم کون ہو؟تم دیوتا نہیں ہو۔ میرا شوہر کہاں ہے ۔میرا سرکا ٹو اور دیوتا کو دے دو۔مجھے میرے بیٹوں پر قربان کردو''……وہ بولے جارہی تھی ،مگر اب اس پر غنودگی بھی طاری ہورہی تھی ۔اس کا سرڈول رہاتھا۔

''طبیب کو بلالائو''……سلطان ایوبی نے کہا……''لڑکی پر نشے کا اثر ہے ''۔

اُمِّ عرارہ اس کے سامنے بیٹھی تھی اور کہہ رہی تھی ……''میں انگوک کی ماں ہوں ۔تم کون ہو؟تم دیوتا نہیں ہو۔ میرا شوہر کہاں ہے ۔میرا سرکا ٹو اور دیوتا کو دے دو۔مجھے میرے بیٹوں پر قربان کردو''……وہ بولے جارہی تھی ،مگر اب اس پر غنودگی بھی طاری ہورہی تھی ۔اس کا سرڈول رہاتھا۔

طبیب نے آتے ہی اس کی کیفیت دیکھی اور اسے کوئی دوائی دے دی ۔ذراسی دیر میں اس کی آنکھیں بند ہوگئیں ۔ اسے لٹا دیاگیااور وہ گہری نیند سوگئی ۔سلطان ایوبی کو تفصیل سے بتایا گیا کہ پہاڑی خطے میں کیا ہوا اور وہاں سے کیا ملاہے ۔اس نے اپنے نائب سالا الناصر اور بہائوالدین شداد کو حکم دیا کہ پانچ سوسوارلے جائیں ،ضروری سامان لے جائیںاور اس بُت کو مسمار کردیں ، مگر اس جگہ کو فوج کے گھیرے میں رکھیں ۔حملے کی صورت میں مقابلہ کریں ۔اگر وہ لوگ دب جائیں اور لڑنہ سکیں تو انہیں وہ جگہ دکھا کر پیار اور محبت سے سمجھائیں کہ یہ محض ایک فریب تھا۔

شداد نے اپنی ڈائری میں جو عربی زبان میں لکھی گئی تھی،اس واقعہ کو یوں بیان کیا ہے کہ وہ پانچ سو سواروں کے ساتھ وہاں پہنچا ۔راہنمائی اس فوج کے کمان دار نے کی جو پہلے ہی وہان موجود تھا۔سینکڑوں سوڈانی حبشی دُور دُور کھڑے تھے۔ان میں سے بعض گھوڑوں اور اونٹوں پر سوار تھے ۔ان کے پاس برچھیاں ،تلواریں اور کمانیں تھیں ۔ہم نے اپنے تمام تر سواروں کو اس پہاڑی جگہ کے اِرد گرد اس طرح کھڑا کردیا کہ ان کے منہ باہر کی طرف اور ان کی کمانون میں تیر تھے اور جن کے پاس کمانیں نہیں تھیں ، ان کے ہاتھوں میں برچھیاں تھیں ۔خطرہ خون ریز لڑائی کاتھا۔ میں الناصر کے ساتھ اندر گیا۔بُت کودیکھ کر میں نے کہا کہ فرعونوں کی یاد گار ہے ۔حبشیوں کی لاشیں پڑی تھیں ۔ہر جگہ گھوم پھر کر دیکھا، دو پہاڑیوں کے درمیان ایک کھنڈر تھا ،جوفرعونوں کے وقتوں کی خوشنما عمارت تھی ۔دیواروں پر اُس زمانے کی تحریریں تھیں ۔ الفاظ لکیروں والی تصویروں کی مانند تھے ۔کوئی شبہہ نہ رہاکہ یہ فرعونوں کی جگہ تھی ……دیوار جیسی ایک پہاڑی کے دامن میں جھیل تھی ، جس کے اندر اور باہر دو دو قدم لمبے مگر مچھ تھے ۔جھیل کا پانی پہاڑی کے دامن کو کاٹ کر پہاڑی کے نیچے چلاگیاتھا۔ پانی کے اوپر پہاڑی کی چھت تھی ۔جگہ خوف ناک تھی ۔ہمیں دیکھ کر بہت سارے مگر مچھ کنارے پر آگئے اور ہمیں دیکھنے لگے۔

میں نے سپاہیوں سے کہا،حبشیوں کی لاشیں جھیل میں پھینک دو، یہ بھوکے ہیں ۔وہ لاشیں گھسیٹ کر لائے اور جھیل میں پھینک دیں ،مگر مچھوں کی تعداد اکا اندازہ نہیں ،پوری فوج تھی ۔لاشوں کے سر باہر رہے اور یہ سر پانی میں دوڑتے پہاڑی کے اندر چلے گئے ۔پھر پروہت کی لاش آئی ۔اس نے دوسرے انسانوں کو مگر مچھوں کے آگے پھینکا تھا، ہم نے اسے بھی جھیل میں پھینک دیا……وہ سپاہی چار سوڈانی لڑکیوں کو لائے ۔وہ کہیں چھپی ہوئی اور عریاں تھیں۔کمرکے ساتھ ایک پتہ آگے اور پیچھے بندھاہواتھا۔میںنے اور الناصر نے منہ پھیر لیے ۔سپاہیوںسے کہاکہ انہیں مستور کرو۔ جب ان کے جسم کپڑون میں چھپ گئے تو دیکھا کہ وہ بہت خوب صورت تھیں ۔روتی تھیں ،ڈرتی تھیں۔ہمارے ترجمان کو انہوں نے وہاں کاحال اپنی زبان میں بیان کیا جو بہت شرم ناک تھا۔مسلمان کو عورت ذات کا یہ حال برداشت نہیں کرنا چاہیے۔ عورت اپنی ہو،کسی اور کی ہو،کافر ہو ،اسلام اسے بیٹی کہتاہے ۔ان چار لڑکیوں کا بیان ظاہر کرتاتھا کہ وہ فرعونوں کو خدامانتی ہیں ۔ان کا قبیلہ انسان کو خدامانتا ہے ۔

یہ جگہ خوش نما تھی ۔سارے صحرا میں سر سبز تھی ۔اندر پانی کا چشمہ تھا،جس نے جھیل بنائی ،درخت تھے،جنہوں نے سایہ دیا۔کسی فرعون کو یہ مقام پسند آیا تو اسے تفریح کا مقام بنایا ۔اپنی خدائی کے ثبوت میں یہ بُت بنایا۔ اس میں تہہ خانہ رکھا اور یہاں عیش کی ۔آسمان نے کوئی اور رنگ دکھایا۔ سورج اُدھر سے اِدھر ہوگیا۔فرعونوں کے ستارے ٹوٹ گئے اور مصر میں دوسرے باطل مذہب آئے ۔ آخر میں حق کی فتح ہوئی اور مصرنے کلمہ ''لا الٰہ الااللہ '' سُنا اور خدا کے حضور سرخرو ہوا،لیکن کسی نے نہ جاناکہ باطل ان پہاڑیوں میں زندہ رہا۔الحمد للہ ،ہم نے خدائے عز وجل سے راہنمائی لی ۔ باطل کا یہ نقش بھی اُکھاڑا اور اس ریگزار کو پاک کیا۔

اس جگہ کو سواروں کے گھیرے میں لے کر فوج نے پتھر کے اس ہیبت ناک بُت کو مسمار کردیا، چبوترہ بھی گرادیا، تہہ خانہ ملبے سے بھر دیا۔باہر سینکڑوں حبشی حیران اور خوف زدہ کھڑے تھے کہ یہ کیا ماجرہ ہے ۔ان سب کو بلاکر اندر لے جایا گیا کہ یہاں کچھ بھی نہیں تھا۔چاروں لڑکیاںاُن کے حوالے کی گئیں ۔چاروں کے باپ اور بھائی وہاں موجود تھے۔ انہوں نے اپنی اپنی لڑکی لے لی ۔انہیں بتایا گیا کہ یہاں ایک بد کار آدمی رہتاتھا، وہ مگر مچھوں کو کھلادیاگیاہے ۔ان سینکڑوں حبشیوں کو اکٹھا بٹھا کر ان کی زبان میں وعظ دیاگیا۔ وہ سب خاموش رہے ۔انہیں اسلام کی دعوت دی گئی ۔وہ پھر بھی خاموش رہے ۔ کبھی کبھی شک ہوتاتھا، جیسے ان کی آنکھوں میں خون اُتر آیاہے ۔ انہیں یہ الفاظ دھمکی کے لہجے میں کہے گئے……''اگر تم سچے خدا کو دیکھنا چاہتے ہوتو ہم تمہیں دکھائیں گے ۔اگر تم اسی جگہ کو جہاں تم بیٹھے ہو،اپنے جھوٹے خدائوں کا گھر کہتے رہو گے تو ہم ان پہاڑوں کو بھی ریزہ ریزہ کرکے ریت کے ساتھ ملادیں گے ،پھر تم دیکھو گے کہ کون سا خدا سچاہے''۔

اُ دھر قاہرہ میں اُمِّ عرارہ ہوش میں آچکی تھی ۔وہ اپنی داستان سناچکی تھی ،جو اوپر بیان کی گئی ہے ۔کبھی وہ کہتی تھی کہ اس نے کوئی خواب دیکھا ہے ۔اُسے ساری باتیں یاد آگئیں تھیں ۔اس نے بتایا کہ پروہت اسے دِن رات بے آبرو کرتا تھا اور پھول کئی بار اس کی ناک کے ساتھ لگاتاتھا۔ اُمِّ عرارہ کو بتایا گیا کہ اس کی گردن کٹنے والی تھی ، اگر چھاپہ مار بروقت نہ پہنچ جاتے تو اس کا سر غار میں اور جسم مگر مچھوں کے پیٹ میں ہوتا۔نازک سی ، یہ حسین لڑک خوف سے کانپنے لگی۔ اس کے آنسو نکل آئے اس نے سلطان ایوبی کے ہاتھ چوم لیے اور کہا……''خدانے مجھے گناہوں کی سزادی ہے ،میں اپنے گناہوں کا اعتراف کرنا چاہتی ہوں ۔خدا کے لیے مجھے پناہ میں لے لیں ''……اس کی ذہنی کیفیت بہت ہی بُری تھی ۔

اس نے شام کے ایک دولت مند تاجر کانام لے کر کہا کہ وہ اس کی بیٹی ہے ۔یہ مسلمان تاجر تھا ۔اس کا دوستانہ شام کے امیروں کے ساتھ تھا۔اُس وقت کے امیر ایک ایک شہر یا تھوڑے تھوڑے رقبے کے خطوں کے حکمران ہواکرتے تھے ،جو مرکزی امارت کے ماتحت تھے ۔مرکزی امارت ، مرکزی وزارت اور خلافت کے ماتحت ہوتی تھی ۔یہ امراء دسویں صدی کے بعد پوری طرح عیاشیوں میں ڈوب گئے تھے ۔بڑے تاجروں سے دوستی رکھتے تھے ، ان کے ساتھ کاروبار بھی کرتے اور رشوت بھی لیتے تھے ۔ ان کے حرموں میں لڑکیوں کی افراط رہتی اور شراب بھی چلتی تھی ۔ اُمِّ عرارہ ایسے ہی ایک دولت مند تاجر کی بیٹی تھی جو اپنے باپ کے ساتھ بارہ تیرہ سال کی عمر میں امراء کی رقص و سرور کی محفلوں میں جانے لگی تھی۔ باپ غالباً دیکھ رہاتھا کہ لڑکی خوب صورت ہے ،اس لیے وہ اسے لڑکپن میں ہی امراء کی سوسائٹی کا عادی بنانے لگاتھا۔ اُمِّ عرارہ نے بتایا کہ وہ چودہ سال کی ہوئی تو امراء نے اس میں دلچسپی لینی شروع کردی تھی ۔دونے اسے بڑے قیمتی تحفے بھی دئیے ۔وہ گناہوں کی اسی دُنیا کی ہوکے رہ گئی۔

عمر کے سولہویں سال وہ باپ کو بتائے بغیر ایک امیر کی در پردہ داشتہ بن گئی ،مگر رہتی اپنے گھر میں تھی ۔ وہ دولت میں جنی پلی تھی ،شرم و حیا سے آشنا نہیں تھی۔ دو تین سال بعد وہ باپ کے ہاتھ سے نکل گئی اور آزادی سے دو اور امراء سے تعلقات پیدا کر لیے ۔ اس نے خوب صورتی ، چرب زبانی اور مردوں کو انگلیوں پر نچانے میں نام پیدا کرلیا ۔باپ نے اس کے ساتھ سمجھوتہ کرلیا۔گذشتہ چھ سال سے اسے ایک اور ہی قسم کی ٹریننگ ملنے لگی تھی ۔ یہ تین امراء نے مل کر سازش کی تھی،جس میں اس کا باپ بھی شریک تھا۔اسے خلافت کی جڑیں کھوکھلی کرنے کی ٹریننگ دی جارہی تھی ۔آگے چل کر اس سازش میں ایک صلیبی بھی شامل ہوگیا۔یہ امراء خود مختار حاکم بننے کے خواب دیکھ رہے تھے ۔صلیبیو ںکی مدد کے بغیر یہ ممکن نہ تھا۔ اُمِّ عرارہ کو نورالدین زنگی اور خلافت کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کے لیے بھی استعمال کیاگیا تھا۔ صلیبیوں نے اس مہم میں تین عیسائی لڑکیاں شامل کرکے ایک زمین دو زمحاذ بنالیا۔

انہوں نے جب دیکھا کہ مصر میں صلاح الدین ایوبی نے نام پیدا کرلیاہے اور اس نے دو ایسے کارنامے کر دکھائے ہیں، جس نے اسے مصر کا وزیر اور امیر نہیں ،بلکہ بادشاہ بنادیاہے تو اُمِّ عرارہ کو خلیفہ العاضدکی خدمت میں تحفے کے طور پر بھیجاگیا۔اسے مہم یہ دی گئی کہ خلیفہ کے دِل میں صلاح الدین ایوبی کے خلاف دشمنی پیدا کرے اور سابق سوڈانی فوج کے جو چند ایک حکام فوج میں رہ گئے ہیں ،انہیں العاضد کے قریب کرکے سوڈانیوں کو ایک اور بغاوت پر آمادہ کرے۔اسے دوسری مہم یہ دی گئی تھی کہ خلیفہ العاضد کو آمادہ کرے کہ سوڈانی جب بغاوت کریں تو انہیں ہتھیاروں اور ساز و سامان سے مدد دے اور اگر ممکن ہوسکے تو صلاح الدین ایوبی کی فوج کا کچھ حصہ باغی کرکے سوڈانیوں سے ملادے ۔خلیفہ اور کچھ نہ کرسکے تو اپنا محافظ دستہ سوڈانیوں کے حوالے کرکے خود سلطان ایوبی کے پاس جاپناہ لے اور اسے کہے کہ اس کے محافظ باغی ہوگئے ہیں ۔مختصر یہ کہ صلاح الدین ایوبی کے خلاف ایسا محاذ قائم کرنا تھا جو اُسے مصر سے بھاگنے پر مجبور کردے اور باقی عمر گمنامی میں گزاردے ۔

اُمِّ عرارہ نے سلطان ایوبی کو بتایا کہ وہ مسلمان کے گھر پیدا ہوئی تھی ،لیکن باپ نے اسے مسلمانون کی ہی جڑیں کاٹنے کی تربیت دی اور سلطنتِ اسلامیہ کے اُمراء نے اپنے دشمنوں کے ساتھ مل کر اپنی ہی سلطنت کو تباہ کرنے کی کوشش کی ۔اس لڑکی نے خلیفہ العاضد کا دماغ اپنے قبضہ میں لے لیااور سلطان ایوبی کے خلاف کردیاتھا۔ رجب کو وہ سازش میں شریک کرچکی تھی ۔رجب نے دو اور فوجی حکام کو اپنے ساتھ ملالیاتھا۔ رجب نے اس سلسلے میں یہ کام کیا کہ خلیفہ کے محافظ دستے میں وہ مصریوں کی جگہ سوڈانی رکھتا جارہاتھا۔ اُمِّ عرارہ کو خلیفہ کے پاس لائے ابھی دو اڑھائی مہینے ہوئے تھے ،وہ قصرِ خلافت پر غالب آگئی تھی اور حرم کی ملکہ بن گئی تھی ۔اس نے یہ انکشاف بھی کیا کہ خلیفہ سلطان ایوبی کو قتل کرانا چاہتا ہے اور رجب نے حشیشین سے مل کر قتل کا انتظام کردیاہے ۔

یہ محض اتفاق کی بات ہے کہ سلطان ایوبی نے خلیفہ کے بے کار وجود اور عیش پرستی سے تنگ آکر اس کے خلاف کاروائی شروع کردی تھی اور یہ بھی اتفاق تھا کہ اُمِّ عرارہ کو وہی لوگ اغوا کرکے لے گئے ،جنہیں وہ سلطان ایوبی کے خلاف لڑا نا چاہتی تھی اور یہ اتفاق تو بڑاہی اچھا تھا کہ سلطان ایوبی نے رجب سے محافظ دستے کی کمان لے لی اور وہان اپنی پسند کا ایک نائب سالار بھیج دیا تھا، مگر ان اتفاقات نے حالات کا دھارا موڑ کر سلطان ایوبی کے لیے ایک خطرہ پیدا کردیا۔سلطان ایوبی نے اُمِّ عرارہ کو اپنی پناہ میں رکھا۔لڑکی بُری طرح پچھتا رہی تھی اور گناہوں کا کفارہ ادا کرنا چاہتی تھی۔ قدرت نے ایک ایسا دھچکہ دے کر اس کا دماغ درست کردیاتھا۔ سلطان ایوبی ٹھنڈے دِل سے سوچنے لگا کہ اس سازش میں جو حکام شامل ہیں ، ان کے ساتھ وہ کیا سلوک کرے۔

دوسرے دن النا صر اور بہائوالدین شداد فرعونوں کا آخری نشان مٹاکر فوج واپس لے آئے

.

آٹھ دِنوں بعد……

رات کا پچھلا پہر تھا۔سلطان ایوبی کے جاگنے میں ابھی کچھ دیر باقی تھی ۔ اُسے ملازم نے جگادیااور کہا کہ الناصر،علی بن سفیان اور دو اور نائب آئے ہیں ۔سلطان اُچھل کر اُٹھا اور ملاقات کے کمرے میں چلاگیا۔ان حکام کے ساتھ ان دستوں میں سے ایک کا کمان دار بھی تھا، جو شہر سے دُور گشت کرتے رہتے تھے ۔ سلطان ایوبی کو بتایاگیا کہ کم و بیش چھ ہزار سوڈانی جن میں برطرف سوڈانی فوج کے افراد ہیں اور اس وحشی قبیلے کے بھی جس کے عقیدے کو ملیا میٹ کیاگیا تھا۔مصرکی سرحد میں داخل ہوکر ایک جگہ پڑائو کیے ہوئے ہیں ۔اس کمان دار نے یہ عقل مندی کی کہ عام لباس میں دوشتر سوار یہ معلوم کرنے کے لیے بھیجے کہ اس لشکر کا کیا ارادہ ہے ۔ان شتر سواروں نے اپنے آپ کو مسافر ظاہر کیا اور معلوم کرلیا کہ یہ لشکر قاہرہ پر حملہ کرنے جارہاہے۔ شتر سواروں نے لشکر کے سربراہوں سے مل کر صلاح الدین ایوبی کے خلاف باتیں کیں اور کہا کہ وہ بہت سے آدمیوں کو اس لشکر میں شامل کرنے کے لیے لائیں گے۔ یہ کہہ کر وہ رخصت ہوآئے ۔ ان کی اطلاع کے مطابق یہ لشکر اِدھر اُدھر سے مزید نفری کا منتظر تھا اور اسے اگلے روز وہاں سے کوچ کرناتھا۔

سلطان ایوبی نے پہلا حکم یہ دیا کہ خلیفہ کے محافظ دستے میں صرف پچاس سپاہی اور ایک کمان دار رہنے دو۔باقی تمام دستے کو چھائونی میں بلالو۔ اگر خلیفہ احتجاج کرے تو کہہ دینا کہ یہ میرا حکم ہے ۔سلطان نے علی بن سفیان سے کہاکہ اپنے شعبے کے کم از کم سو آدمی جو سوڈانی زبان اچھی طرح بول سکتے ہیں ۔ سوڈانی باغیوں کے بھیس میں اس کمان دار کے ساتھ ابھی روانہ کردو۔ کمان دار سے کہا کہ یہ سوآدمی ان دو شتر سواروں کے ساتھ سوڈانیوں کے لشکر میں شامل ہوں گے ۔یہ دو شتر سوار سنتری بتائیں گے کہ وہ وعدے کے مطابق مدد لائے ہیں ۔ان کے لیے ہدایات یہ دیں کہ وہ لشکر کی پیش قدمی کے متعلق اطلاع دیں گے اور یہ دیکھیں گے کہ رات کے وقت اس لشکر کے جانور اور رسد کہاں ہوتی ہے۔ سلطان ایوبی نے الناصر سے کہا کہ تیز رفتار گھوڑ سوا چھاپہ ماروں اور چھوڑی منجنیقوں کے دستے تیار رکھو۔

''میں نے سوچاتھا کہ سیدھی ٹکر لے کر سوڈانیوں کو شہر سے دور ہی ختم کیاجائے ''۔الناصر نے کہا۔

''نہیں !'' ۔سلطان ایوبی نے کہا……''یاد رکھنا الناصر !اگر دشمن کو پہلو سے لو ۔عقب سے لو، ضرب لگائواور بھاگو، دشمن کی رسد تباہ کرو، جانور تباہ کرو، دشمن کو پریشان کرو، اس کے دستے بکھیر دو، اُسے آگے آنے کی مہلت نہ دو، اسے دائیں بائیں پھیل جانے پر مجبور کردو،اگر سامنے سے ٹکر لینا چاہتے ہوتو یہ نہ بھولوکہ یہ صحرا ہے ۔سب سے پہلے پانی کی جگہ پر قبضہ کو۔ سورج اور ہوا کے رُخ کو دشمن کے خلاف رکھو ۔اسے پریشان کرکے اپنی پسند کے میدان میں لائو۔میں تمہیں عملی سبق دوںگا ۔اس لشکر کی یہ خواہش میں پوری نہیں ہونے دوں گا کہ وہ قاہرہ تک پہنچے یا میری فوج اس کے آمنے سامنے جا کر لڑے ''……اس نے علی بن سفیان سے کہا……''تم جن ایک سو آدمیوں کو لشکر میں شامل ہونے کے لیے بھیجو گے،انہیں کہنا کہ وہ سوڈانیوں میں یہ افواہ پھیلادیں کہ چھ ساتھ دنوں تک صلاح الدین ایوبی فلسطین پر حملہ کرنے کے لیے جارہاہے ۔ اس لیے قاہرہ پر حملہ ، اس کی غیر حاضری میں کیاجائے گا''۔

ایسی بہت سی ہدایات اور احکام دے کر سلطان ایوبی نے انہیں بتایا کہ وہ آج شام سے قاہرہ میں نہیں ہوگا۔اس نے انہیں قاہرہ سے بہت دُور ایک جگہ بتائی ۔وہ اپنا ہیڈکوار ٹر دشمن کے قریب رکھنا چاہتا تھاتاکہ جنگ اپنی نگرانی میں لڑا سکے۔ سب نے ملاقات کے کمرے میں ہی صبح کی نماز پڑھی اور سلطان ایوبی کے احکام پر کاروائی شروع ہوگئی۔

سلطان ایوبی تیاری کے لیے اپنے کمرے میں چلاگیا۔

٭ ٭ ٭

سوڈانیوں کے لشکر میں اضافہ ہوتا جارہاتھا۔ دوسال گزرے ،ان کی ایک بغاوت بُری طرح ناکام ہوچکی تھی۔ دوسری کوشش کی تیاریاں اسی وقت شروع ہوگئی تھیں ۔صلیبیوں نے مدد کا وعدہ کررکھاتھا اور جاسوسوں کی بہت بڑی تعداد مصر میں داخل کردی تھی۔سوڈانیوں کا حملہ ایک نہ ایک روز آنا ہی تھا،لیکن یہ اچانک آگیا۔وجہ یہ تھی کہ سلطان ایوبی نے ایک سوڈانی قبیلے کے مذہب پر فوجی حملہ کیااور اس کے دیوتائوں کا مسکن تباہ کردیاتھا۔یہ وجہ معمولی نہیں تھی۔مصر میں جو سلطان صلاح الدین ایوبی کے مخالفین تھے، انہوں نے اس کے اس اقدام کو اس کے خلاف استعمال کیا ۔سوڈانی فوج کے برطرف کیے ہوئے باغی کمان داروں کو بھی موقع مل گیا۔یہ فوراً حرکت میں آگئے ۔ان میں مصری مسلمان بھی تھے ۔انہوں نے اُس قبیلے کے مذہبی جذبات کو بھڑکایا اور انہیں کہاکہ ان کا مذہب سچاہے اور اگر وہ سلطان ایوبی کے خلاف اُٹھیں گے تو ان کے دیوتا اپنی توہین کا انتقام لینے کے لیے ان کی مدد کریں گے۔انہوں نے پانچ سات دنوں میں لشکر جمع کرلیاور قاہرہ پر حملے کے لیے چل پڑے ۔جوں جوں اِدھر اُدھر کے لوگوں کو پتہ چلتاتھا، وہ اس لشکر میں شامل ہوتے جاتے تھے ۔

دوشتر سواروں کے ساتھ جب ایک سو مسلح آدمی اس لشکر میں شامل ہوئے ،یہ لشکر سرحد سے آگے آگیاتھااور ایک جگہ پڑائو کیے ہوئے تھے۔ سلطان ایوبی رات کے وقت اتنا آگے چلاگیا، جاں اسے اس لشکر کی نقل و حرکت کی اطلاع جلدی مل سکتی تھی ۔ ان سو آدمیوں نے حملہ آوروں کے سربراہوں کو بتایا کہ صلاح الدین ایوبی چند دنوں تک فلسطین کی طرف کوچ کررہاہے۔ سربراہ بہت خوش ہوئے ۔انہوں نے یہ پڑائو دو دن اور بڑھادیا۔ اگلی رات سلطان ایوبی کو اس لشکر کی پہلی اطلاعیں ملیں ۔

اس سے اگلی رات اس نے پچاس سوار اور پانچ منجنیقیں بھیجیں ،جن کے ساتھ آتش گیر مادے والی ہانڈیاں تھیں۔ انہیں ایک گھوڑا کھینچتا تھا۔آدھی رات کے وقت جب سوڈانی لشکر سویا ہوا تھا،ان کے اناج کے ذخیرے پر ہانڈیاں گرنے لگیں ۔ معاً بعد آتشیں تیر اآئے اور مہیب شعلے اُٹھنے لگے ۔لشکر میں بھگدڑ مچ گئی ۔منجنیقوں کو وہاں سے فوراً پیچھے بھیج دیا گیا۔ پچاس سواروں نے تین چار حصوں میں تقسیم ہوکر گھوڑے سرپٹ دوڑائے اور لشکر کے پہلوئوں کے آدمیوں کو کچلتے اور برچھیوں سے زخمی کرتے غائب ہوگئے ۔ لشکریوں کو سنبھلنے کا موقعہ نہ ملا۔آگ کے شعلوں سے جہاں اناج کا ذخیرہ جل رہاتھا، وہاں اونٹ اور گھوڑے بدک کر اِدھر اُدھر بھاگنے لگے۔سلطان ایوبی کے سوار ایک بار پھر آئے اور تیر برساتے گزر گئے ۔ وہ اس کے بعد نہیں آئے۔

دوسرے دن اطلاع ملی کہ سوڈانیوںکے کم و بیش چار سو آدمی آگ سے ،گھوڑوں اور اونٹوں کی بھگدڑ سے اور چھاپہ مار سواروں کے حملوں سے مارے گئے ہیں ۔تمام تر اناج جل گیا اور تیروں کا ذخیرہ بھی نذر آتش ہوگیاتھا۔ لشکر نے وہاںسے کوچ کیا اور رات ایسی جگہ پڑائو کیا،جہاں اِدھر اُدھر مٹی کے ٹیلے تھے ۔اس جگہ شب خون کا خطرہ نہیں تھا۔اب رات کو گشتی دستے بھی پڑائوسے دُور دُور گشت کرتے رہے ،مگر حملہ پھر بھی ہوا۔اس کا انداز بھی گزشتہ رات جیسا تھا۔لشکر کے سربراہوں کو معلوم نہیں تھا کہ ان کے دوگشتی دستے سلطان ایوبی کے چھاپہ ماروں کی گھات میں آگئے تھے اور مارے گئے ہیں ۔تیر اندازوں نے ٹیلوں سے آتشیں تیر چلائے اور غائب ہوگئے ۔سحر کا دھند لکہ نکھر نے تک یہ شب خون جاری رہے۔ ان سے گزشتہ رات کی نسبت زیادہ نقصان ہوا۔

شام کو علی بن سفیان نے سلطان ایوبی کو اپنے جاسوسوں کی لائی ہوئی یہ اطلاع دی کہ کل دن کے وقت سوڈانی لشکر اس انداز سے پیش قدمی کرے گا کہ شب خون مارنے والوں کا ٹھکانہ معلوم کرکے اسے ختم کیاجائے ۔ سلطان ایوبی نے اپنے قریب کچھ فوج رکھی تھی ۔اس نے رات کے وقت حملہ نہ کرایا۔ اسے معلوم تھا کہ اب دشمن چوکنا ہوگا۔ اگلے روز اس نے چار سو پیادہ سپاہی سوڈانیوں کے لشکر کے دائیں طرف نصف میل دور بھیج دئیے اور چار سو بائیں طرف ۔انہیں یہ ہدایت دی کہ وہ آگے کو چلتے جائیں ۔دونوں دستے جنگی ترتیب میں سوڈانیوں کے پہلو سے گزرے تو سوڈانیوں نے اس خطرے کے پیش نظر اپنے پہول پھیلادئیے کہ یہ دستے پہلو پر یا عقب سے حملہ کریں گے ۔ سلطان ایوبی کی ہدایت کے مطابق اُس کے کماندار اپنے دستوں کو پرے ہٹاتے گئے ۔سوڈانی دھوکے میں آگئے ۔ انہوں نے اپنے لشکر کو دائیںبائیں پھیلادیا۔اچانک سلطان ایوبی کے پانچ سو سواروں نے ٹیلوں کی اوٹ سے نکل کر سوڈانیوں کے وسط میں ہلہ بول دیا۔یہاں ان کی اعلیٰ کمان تھی۔ گھوڑ سواروں کا یہ حملہ اچانک اور بے حد شدید تھا۔سارے لشکر میں بھگدڑ مچ گئی۔پہلوئوں سے پیادہ تیر اندازوں نے تیر برسانے شروع کردئیے ۔اس طرح صرف تیرہ سو نفری کی فوج نے کم و بیش چھ ہزار لشکر کو بھگدڑ میں مبتلا کرکے ایسی شکست دی کہ صحرا لاشوں سے اَٹ گیا اور سوڈانی قید میں بھی آئے اور بھاگے بھی۔بھاگنے والوں کی تعداد تھوڑی تھی۔

یہ سوڈانیوں کی دوسری بغاوت تھی جو سلطان ایوبی نے انہی کے خون میں ڈبو دی۔ اب کے سلطان ایوبی نے ڈپلومیسی سے کام نہیں لیا۔ اس نے جنگی قیدیوں سے معلومات حاصل کرکے ان تمام کمان داروں اور دیگر حکام کو قید میں ڈال دیا جو در پردہ بغاوت کی سازش میں شریک تھے۔ تخریب کاروں کی بھی نشاندہی ہوگئی ۔انہیں سزائے موت دی گئی۔رجب جیسے نائب سالاروں کو ہمیشہ کے لیے قید خانے میں ڈال دیاگیا۔ سلطان ایوبی حیران اس پر ہوا کہ بعض ایسے حکام اس سازش میں شریک تھے،جنہیں وہ اپنا وفادار سمجھتاتھا۔ اس نے اپنے معتمد سالاروں اور دیگر حکام سے کہہ دیا کہ مصر کے دفاع اور سلطنت کے استحکام کے لیے سوڈان پر حملہ اور قبضہ ضروری ہوگیاہے۔

اس نے خلیفہ العاضد سے محافظ دستہ واپس لے کر اسے معزول کردیا اور اعلان کر دیا کہ اب مصر خلافتِ عباسیہ کے تحت ہے اور یہ بھی کے خلافت کی گدی بغداد میں ہوگی۔ سلطان ایوبی نے اُمِّ عرارہ کو آٹھ محافظوں کے ساتھ نورالدین زنگی کے حوالے کرنے کے لیے روانہ کردیا۔

٭ ٭ ٭

ام عرارہ کا اغوا کا قصہ بھی یہی ختم ھوا.!
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: داستان ایمان فروشوں کی ۔۔جلد اول مکمل

Post by ایکسٹو »

"لڑکی جو فلسطین سے آئ تهی"


سلطان صلاح الدین ایوبی نے کمرے ٹہلتے ہوئے آہ بھری اورکہا ……''قوم متحد ہو سکتی ہے اور ہو بھی جاتی ہے ۔ قوم کا شیرازہ امراء اور حکام بکھیرا کرتے ہیں یا وہ خود ساختہ قائد جو امیر، وزیر یا حاکم بننا چاہتے ہیں ۔ تم نے دیکھ لیا ہے علی ! مصر کے لوگوں کی زبان پر ہمارے خلاف کوئی شکایت نہیں ۔ غداری اور تخریب کاری صرف بڑے لوگ کر رہے ہیں ۔ ان بڑے لوگوں کو میری ذات کے ساتھ کوئی عداوت نہیں ۔ میں انہیں اس لیے برا لگتا ہوں کہ میں اسی گدی پر بیٹھ گیا ہوں جس کے وہ خواب دیکھ رہے تھے ''۔

سلطان ایوبی اپنے کمرے میں ٹہل رہا تھا ۔ علی بن سفیان اور بہائو الدین شداد بیٹھے سُن رہے تھے ۔ وہ ستمبر کے پہلے ہفتے کی ایک شام تھی ۔جون اور جولائی میں سلطان ایوبی نے سوڈانیوں کی بغاوت کو کچلا اور اس کے فوراً بعد العاضد کو خلافت کی گدی سے ہٹایا تھا ۔ اس سے پہلے اس نے سوڈانیوں کی بغاوت کو نہایت اچھی جنگی حکمت عملی سے دبا کر سوڈانی فوج توڑ دی تھی ۔ مگر بغاوت کرنے والے کسی بھی قائد، کمانڈر یا عسکری کو سزا نہیں دی تھی ۔ ڈپلومیسی سے کام لیاتھا ۔اس طرح اس کی جنگی اہمیت کی بھی دھاک بیٹھ گئی تھی اور ڈپلومیسی کی بھی ۔اب کے سوڈانیوں نے پھر سر اُٹھایا تو سلطان ایوبی نے اس سر کو ہمیشہ کے لیے کچل دینے کے لیے پہلے تو میدانِ جنگ میں سوڈانیوں کی لاشوں کے انبار لگا ئے، پھر جو بھی پکڑا گیا ، اس کے عہدے اور رُتبے کا لحاظ کیے بغیر اسے انتہائی سزا دی ۔ اکثریت کو تو جلاد کے حوالے کیا، باقی جو بچے انہیں لمبی قید میں ڈال دیا یا ملک بدر کر کے سوڈان کی طرف نکال دیا ۔

''آج دو مہینے ہو گئے ''……سلطان ایوبی نے کہا ……''میں سلطنت کے انتظام اورقوم کی فلاح و بہبود کی طرف توجہ نہیں دے سکا ۔ مجرم لائے جا رہے ہیں اور میں سوچ بچار کے بعد انہیںسزائے موت دیتا چلا جا رہا ہوں ۔ یوں دل کو تکلیف ہو رہی ہے جیسے میں قتل عام کررہاہوں ۔ میرے ہاتھوں مرنے والوں کی اکثریت مسلمانوں کی ہے ''۔

''محترم امیر!''…… بہائو الدین شداد نے کہا ۔ '' ایک کافر اور ایک مسلمان ایک ہی قسم کے گناہ کریں تو زیادہ سزامسلمان کو ملنی چاہیے کیو نکہ اس تک اللہ کے سچے دین کی روشنی پہنچی پھر بھی اس نے گناہ گیا ۔ کافر تو عقل کا بھی اندھا ہے ، مذہب کا بھی اندھا۔ آپ اس پر غم نہ کریں کہ آپ نے مسلمانوں کو سزا دی ہے۔ وہ غدار تھے۔ سلطنت اسلامیہ کے باغی تھے، انہوں نے اسلام کا نام مٹی میں ملانے کے لیے کافروں سے اتحاد کیا ''۔

'' میرا اصل غم یہ ہے شداد !''…… سلطان ایوبی نے کہا ……''کہ میں حکمران بن کے مصر نہیں آیا ۔ اگر مجھے حکومت کرنے کا نشہ ہوتا تو مصر کی موجودہ فضا میرے لیے سازگار تھی ۔ جنہیں صرف امارت کی گدی سے پیار ہوتا ہے ، وہ سازشی ذہن کے حاکموں کو زیادہ پسند کرتے ہیں ۔ وہ قوم کو کچھ دئیے بغیر لوگوں کو دلکش مگر جھوٹے رنگوں کی تصویریں دکھاتے رہتے ہیں ۔ اپنے ذاتی عملے میں شیطانی خصلت افراد کو رکھتے ہیں ۔ وہ اپنے ماتحت حاکموں کو شہزادوں کا درجہ دئیے رکھتے ہیں۔اورخود شہنشاہ بن جاتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ مجھ سے یہ گدی لے لو لیکن مجھ سے وعدہ کرو کہ میرے راستے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہ ہو ۔ میں جو مقصد لے کر گھر سے نکلا ہوں وہ مجھے پورا کر لینے دو ۔ نورالدین زنگی نے ہزاروں جانوں کی قربانی دے کر اور دریائے نیل کوعرب کے مجاہدوں کے خون سے سرخ کرکے شام اور مصر کا اتحاد قائم کیا ہے ۔ مجھے اس متحد سلطنت کو وسعت دینی ہے ۔ سوڈان کو مصر میں شامل کرنا ہے ۔ فلسطین کو صلیبیوں سے چھڑانا ہے ۔صلیبیوں کو یورپ کے وسط میں لے جا کر کسی گوشے میں گھنٹوں بٹھانا ہے اور مجھے یہ فتوحات اپنی حکمرانی کے لیے نہیں اللہ کی حکمرانی کے لیے حاصل کرنی ہیں مگر مصر میرے لیے دلدل بن گیا ہے ۔ وہ کون سا گوشہ ہے جہاں سازش، بغاوت اور غداری نہیں ''۔

'' ان تمام سازشوں کے پیچھے صلیبی ہیں ''……سلطان ایوبی نے کہا ……'' میں حیران ہوں کہ وہ کس بے دردی سے اپنی جوان لڑکیوںکو بے حیائی کی تربیت دے کر ہمارے خلاف استعمال کر رہے ہیں ۔ان لڑکیوں کی خوبصورتی کا اپنا جادو ہے ، ان کا طلسم ان کی زبان میں ہے ''۔

'' زبان کا وار تلوار کے وار سے گہرا ہوتا ہے ''……سلطان ایوبی نے کہا ……'' وہ عقل جو تمہاری کمزوریوں کو بھانپ سکتی ہے علی ! وہ اپنی زبان سے ایسے انداز سے اور ایسے موقع پر ایسے الفاظ کہلوائے گی کہ تم اپنی تلوار نیام میں ڈال کر دشمن کے قدموں میں رکھ دو گے۔ صلیبیوں کے پاس دو ہی تو ہتھیار ہیں ، الفاظ اور حیوانی جذبہ جسے انسانی جذبے پر غالب کرنے کے لیے وہ اپنی جوان اور خوبصورت لڑکیوں کو استعمال کر رہے ہیں ۔ انہوں نے مسلمان امراء اور حکام کے دلوں سے مذہب تک نکال دیا ہے ''۔

'' صرف حکام نہیں امیر محترم !''…… علی بنی سفیان نے کہا ……'' مصر کے عام لوگوں میں بدکاری عام ہوگی ہے ۔ یہ صلیبیوں کاکمال ہے۔ دولت مند مسلمانوں کے گھروں میں بھی بے حیائی شروع ہوگئی ہے ''۔

'' یہی سب سے بڑا خطرہ ہے '' …… علی بن سفیان نے کہا ……''میں صلیبیوں کے سارے لشکر کا مقابلہ کر سکتا ہوں اور کیا ہے مگر میں ڈرتا ہوں کہ صلیبیوں کے اس وار کو نہیں روک سکوں گا اور جب میری نظریں مستقبل میں جھانکتی ہیں ، تو میں کانپ اُٹھتا ہوں۔مسلمان برائے نام مسلمان رہ جائیں گے ۔ ان میں بے حیائی صلیبیوں والی ہوگی اور ان کے تہذیب و تمدان پر صلیبی رنگ چڑھا ہوا ہوگا ۔میں مسلمانوں کی کمزوریاں جانتا ہوں ۔ مسلمان اپنے دشمن کو نہیں پہچانتے ۔ اس کے بچھائے ہوئے خوبصورت جال میں پھنس جاتے ہیں ۔میں صلیبیوں کی کمزوریاں بھی جانتا ہوں وہ بے شک مسلمان کے خلاف متحد ہو گئے ہیں لیکن ان کے اندر سے دل پھٹے ہوئے ہیں ۔ فرانسیسی اور جرمن ایک دوسرے کے خلاف ہیں ۔ برطانوی اور اطالوی ایک دوسرے کو پسند نہیں کرتے ۔وہ مسلمان کو مشترک دشمن سمجھ کر اکھٹے ہیں لیکن ان میں عداوت کی حد تک اختلاف ہیں ۔ ان کا شاہ آگسٹس دوغلا بادشاہ ہے ۔ باقی بھی ایسے ہی ہیں مگر انہوں نے مسلمان امراء کو عورت کے حسن اور زرو جواہرات کی چمک دمک سے اندھا کر رکھا ہے ۔ اگر مسلمان امراء متحد ہو جائیں تو صلیبی چند دنوں میں بکھر جائیں۔ اب فاطمی خلافت کو ختم کر کے میں نے اپنے دشمنوں میں اضافہ کر لیا ہے ۔ فاطمی اپنی گدی کی بحالی کے لیے سوڈانیوں اور صلیبیوں کے ساتھ ساز باز کر رہے ہیں ''۔

'' ان کے شاعر کو کل سزائے موت دے دی گئی ہے '' …… علی بن سفیان نے کہا ۔

'' جس کا مجھے بہت افسوس ہے ''…… سلطان ایوبی نے کہا ……'' عمارتہ المینی کی شاعری نے میرے دل پر بھی گہرا اثر کیاتھا۔ مگر اس نے الفاظ اور ترنم کو چنگاریاں بنا کر اسلام کے خرمن کو جلانے کی کوشش کی ہے ''۔

عمارةالمینی اس دور کامشہور شاعر تھا۔اس دور میںاور اس سے پہلے بھی لوگ شاعروں کو پیروں اور پیغمبروں جتنا درجہ دیتے تھے ۔ شاعر الفاظ اور ترنم سے فوجوں میں جذبے کی نئی روح پھونک دیا کرتے تھے ۔یہی درجہ اس مسلمان شاعر کو حاصل تھا ۔ اس نے لوگوں جو مقام پیدا کر رکھا تھا ، اسے اس نے اس طرح استعمال کرنا شروع کر دیا تھا کہ ایک طرف وہ لوگوں میں جہاد کا جذبہ پختہ کرتا تھا اور ساتھ ہی فاطمی خلافت کی غظمت کی دھاک لوگوں کے دلوں میں بٹھاتا تھا ۔ اسے فاطمی خلافت کی اتنی پشت پناہی حاصل تھی کہ اس نے سلطان ایوبی کے خلاف زہر اگلنا شروع کر دیا تھا۔ اس کے آخری اشعار یہ تھے ……'' مجھے فاطمی خلافت کی محبت کا طعنہ دینے والو ! مجھ پر لعنت بھیجو ۔ میں تمہیں لعنت کے لائق سمجھتا ہوں …… فاطمی محلات کی ویرانی پر آنسو بہائو ۔ ان میں رہنے والوں کو میرا پیغام دو کہ میں نے تمہارے لیے جو زخم کھائے ہیں وہ کبھی مندمل نہ ہوں گے ''۔

اس کے گھر اچانک چھاپہ مارا گیا تھا۔ وہاںسے دستاویزی ثبوت ملا تھا کہ وہ صرف فاطمی خلافت کا ہی خیر خواہ نہیں بلکہ صلیبیوں کا وظیفہ خوار بھی ہے ۔ صلیبی اسے اس مقصد کے لیے وظیفہ دیتے تھے کہ وہ مصریوں کے دلوں پر فاطمی خلافت کوغالب کرے اور سلطان ایوبی کے خلاف نفرت پیدا کرتارہے۔ اسے سزائے موت دے دی گئی تھی ۔

'' جس قوم کے شاعر بھی دشمن کے وظیفہ خوار ہوں ، اس قوم کے لیے ذلت و رسوائی ہے ''…… سلطان ایوبی نے کہا۔

دربان اندر آیا اور کہا کہ معزول خلیفہ العاضد کا قاصد آیا ہے ۔ سلطان ایوبی کے ماتھے کے شکن گہرے ہو گئے ۔ اس نے کہا ……'' خلافت کے سوا یہ بوڑھا مجھ سے اور کیا مانگ سکتا ہے '' …… دربان سے کہا ……'' اسے اندر بھیج دو ''۔

العاضد کا قاصد اندر آیا اور کہا ……''خلیفہ کا سلام پیش کرتا ہوں ''۔

''وہ خلیفہ نہیں ہے ''…… سلطان ایوبی نے کہا……'' دو مہینے ہو گئے ہیں اسے معزول ہوئے ۔ وہ اپنے محل میں قید ہے ''۔

'' معافی چاہتاہوں قابل صد احترام امیر !''…… قاصد نے کہا …… ''عادت کے تحت منہ سے نکل گیا ہے ۔ العاضد نے بعد از سلام کہا ہے کہ بیماری نے بستر پر ڈال دیا ہے اٹھنا محال ہے ۔ ملنے کی خواہش ہے ۔ اگر امیر محترم تشریف لا سکیں تو احسان ہوگا ''۔

سلطان ایوبی نے بے قراری سے کہا اپنی ران پر ہاتھ مارا اور کہا ……'' وہ مجھے بلا رہاہے کیونکہ وہ ابھی تک اپنے آپ کو خلیفہ سمجھتا ہے ''۔

''نہیں امیر مصر !''…… قاصد نے کہا ……'' ان کی حالت بہت خراب ہے ۔ محل کے طبیب نے خطرے کااظہار کیاہے ۔ یہ ان کا دیرینہ مر ض ہے جو غم اور غصے میں تیز ہو جاتا ہے ، اب تو وہ اٹھنے سے معذور ہوگئے ہیں '' …… قاصد نے ذرا جھجک کر کہا ۔……''انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ آپ اکیلے تشریف لائیں ۔ راز کی در چار باتیں ہیں جو کسی دوسرے کی سامنے نہیں کی جاستکیں ''۔

'' انہیں بعد از سلام کہنا صلا ح الدین ایوبی راز کی سب باتیں جانتا ہے '' …… سلطان ایوبی نے کہا ……''اب راز کی باتیں خدا سے کہنا ۔ اللہ آپ کو معاف کرے ''۔

قاصد مایوس ہو کر چلا گیا ۔ سلطان ایوبی نے دربان کو بلا کر کہا کہ طبیب کو بلائو ۔ اس نے علی بن سفیان اور بہائو الدین شداد سے کہا ……'' اس نے مجھے اکیلا آنے کو کہا ہے ۔ کیا اس میں کوئی چال نہیں ؟ کیا میرا خدشہ غلط ہے کہ مجھے محل میں بلا کر میرا کام تمام کرنا چاہتاہے ؟ اسے مجھ پر اوچھا وار کرنا چاہیے ۔ اسے حق حاصل ہے ''۔

''آپ نے اچھا کیا نہیں گئے ''…… شداد نے کہا اور علی بنی سفیان نے تائید کی ۔

طبیب آگیا تو سلطان ایوبی نے اسے کہا ……''آپ العاضد کے پاس چلے جائیں۔ میں جانتا ہوں وہ بہت مدت سے بیمار ہے۔ معلوم ہوتاہے کہ اس کا طبیب مایوس ہوگیا ہے۔ آپ جاکر دیکھیں اور اس کا علاج کریں ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ بیمار نہ ہو ، اگر ایسا ہے تو مجھے بتائیں ''۔

سابق خلیفہ العاضدکو اسی محل میں رہنے کی اجازت دے دی گئی تھی جو اس کی خلافت کی گدی تھی ۔ اس محل کو اس نے جنت بنا رکھا تھا۔ حرم دیس دیس کی خوبصورت عورتوں سے پُر رونق تھا ۔ لونڈیوں کا ہجوم الگ تھا ۔ سینکڑوں محافظوں کا دستہ مستعد رہتا تھا ۔ فوجی کماندار حاضری میں کھڑے رہتے تھے ۔ سلطان ایوبی کے لائے ہوئے انقلاب نے اس محل کی دنیا ہی بدل ڈالی تھی ۔ خلیفہ اب خلیفہ نہیں تھا۔ محل میں عیش و عشرت کاتمام سامان جوں کا توں رہنے دیا گیا، فوجی کمانداروں اور محافظ دستے کو وہاں سے ہٹا دیا گیا تھا ۔ فوج کاایک دستہ اب بھی وہاں نظر آتا تھا ۔ مگر یہ العاضد کا محافظ نہیں پہرہ دار تھا ۔ خلافت کامحل چونکہ سازشوں کامرکز تھا ، اس لیے وہاں اب پہرہ لگا دیا گیا تھا ۔ العاضد اب اپنے محل میں قید ی تھا ۔ وہ بوڑھا تھا اور دل کے مرض کا مریض تھا۔ خلافت چھن جانے کا غم، بڑھاپا، شراب اور عیش و عشرت نے اسے بستر پر ڈال دیا تھا ۔

چند دنوں میں وہ لاش کی مانند ہوگیا تھا ۔ اس کی تیماداری کے لیے دو ادھیڑ عمر عورتیں اور ایک خادم اس کے کمرے میں موجود تھا ۔ العاضد آنکھیں کھولتا ، انہیں دیکھتا اور آنکھیں بند کر لیتا تھا ۔ محل کا طبیب اسے دوائی پلا گیاتھا ۔ دو جوان لڑکیاںکمرے میں آئیں ۔ یہ العاضدکے حرم کی رونق تھیں ۔ ان میں سے ایک نے خلیفہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور اس پر جھک کر صحت کا حال احوال پوچھا ۔ دوسری نے العاضد کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں تھام کر اسے صحت یابی کی دعا دی ۔ دونوںلڑکیوں نے ایک دوسری کی آنکھوں میں دیکھا اور ایک نے کہا ……'' آپ آرام فرمائیں ۔ ہم آپ کو بے آرام نہیں کریں گی ''……دوسری نے کہا ……'' ہم ہر وقت ساتھ والے کمرے میں موجود رہتی ہیں ۔ بلا لیا کریں ''۔ اور دونوں کمرے سے نکل گئیں ۔

العاضد نے کراہ کر لمبی آہ بھری اور اپنے پاس کھڑی ادھیڑ عمر عورتوں سے کہا ……''یہ دونوں لڑکیاں میری تیماداری کے لیے نہیں آئی تھیں ۔ یہ دیکھنے آئی تھیں کہ میں کب مر رہاہوں ۔ میں جانتا ہوں انہوں نے اپنی دوستیاں لگا رکھی ہیں ۔ یہ گدھ ہیں ۔ میرے مرنے کا انتظار کر رہی ہیں ۔ ان کی نظر میرے مال اور دولت پرہے۔ تم تینوں کے سوا یہاں میرا ہمدرد کون ہے ؟ …… کوئی نہیں ۔کوئی بھی نہیں ۔ فاطمی خلافت کے نعرے لگانے والے کہاں گئے !'' ۔ اس نے دل پر ہاتھ رکھ لیا اور کروٹ بدل لی ۔ وہ تکلیف میں تھا ۔

اتنے میں قاصد کمرے میں آیا اورکہا ……''امیر مصر نے آنے سے انکار کر دیا ہے ''۔

''اوہ بد نصیب صلاح الدین !''…… العاضد نے کراہنے والے لہجے میںکہا ……'' میرے مرنے سے پہلے ایک بار تو آجاتا ''…… صدمے نے اس کی تکلیف میں اضافہ کر دیا ۔ اس نے نحیف آواز میں رُک رُک کر کہا ……''اب تو میری لونڈیاں بھی میرے بلانے پر نہیں آتیں ۔ امیر مصر کیوں آئے گا …… مجھے گناہوں کی سزا مل رہی ہے۔ میرے خون کے رشتے بھی ٹوٹ گئے ہیں ۔ ان میں سے بھی کوئی نہیں آیا ۔ وہ میرے جنازے پر آئیں گے اور محل میں جو ہاتھ لگا اُٹھا کر چلے جائیں گے ''۔

وہ کچھ دیر کراہتا رہا ۔ دونوں تیمادار عورتیں پریشانی کے عالم میں اس کی باتیں سنتی رہیں ۔ ان کے پاس تسلی اور حوصلہ افزائی کے لیے بھی جیسے کوئی الفاظ نہیں رہے تھے ۔ ان کے چہروں پر خوف سا طاری تھا ، جیسے وہ خدا کے اس قہر سے ڈر رہی تھیں ۔ جو بادشاہ کو گدا اور امیر کو فقیر بنا دیتا ہے۔

دونوں نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا۔ ایک سفید ریش بزرگ کھڑا تھا ۔ وہ ذرا رُک کر اندر آیا اور العاضد کی نبض پر ہاتھ رکھ کر کہا ……'' السلام و علیکم ۔ میں امیر مصر کا طبیب خاص ہوں ۔ انہوں نے مجھے آپ کے علاج کے لیے بھیجا ہے ''۔

'' کیا امیر مصر میں اتنی سی بھی مروت نہیں رہی کہ آکے مجھے دیکھ جاتا ؟'' …… العاضد نے کہا ……''میرے بلانے پر بھی نہ آیا ''۔

'' اس کے متعلق میں کچھ نہیں کہہ سکتا ''۔ طبیب نے کہا …… ''انہوں نے مجھے آپ کے علاج کے لیے بھیجا ہے ۔ میں یہ کہنے کی جرأت نہیں کروں گا کہ اتنے بڑے واقعہ کے بعد جس میں باقاعدہ جنگ ہوئی اور ہزاروں جانیں ضائع ہوگئیں ، امیر مصر شاید یہاں نہیں آئیں گے ۔ انہیں آپ کی صحت کا فکرضرور ہے ۔ ایسا نہ ہوتا تو وہ مجھے آپ کے علاج کا حکم دہ دیتے ۔ اس حالت میں آپ ایسی کوئی بات ذہن میں نہ لائیں جو آپ کے دل کو تکلیف دیتی ہے ورنہ علاج نہیں ہوسکے گا ''۔

''میرا علاج ہوچکا ''…… العاضد نے کہا ……''میرا ایک پیغام غور سے سن لو ۔ صلاح الدین کو لفظ بہ لفظ پہنچا دینا ۔ میری نبض سے ہاتھ ہٹا لو ۔ میںاب دنیا کی حکمت اور تمہاری دوائیوں سے بے نیاز ہوچکا ہوں ۔ سنو طبیب ! صلاح الدین نے کہنا کہ میںتمہارا دشمن نہ تھا ۔ میں تمہارے دشمنوںکے جال میں آگیاتھا ۔ یہ بدقسمتی میر ی ہے یا صلاح الدین کی کہ میں اپنے گناہوں کا اعتراف اس وقت کر رہا ہوں ۔ جب میں ایک گھڑی کا مہمان ہوں …… صلاح الدین سے کہنا کہ میرے دل میں ہمیشہ تمہاری محبت رہی ہے اور تمہاری محبت کو ہی دل میں لیے دنیا سے رخصت ہو رہا ہوں ۔ میرا جرم یہ ہے کہ میں زرو جواہرات اور حکمرانی کی محبت بھی اپنے دل میں پیدا کرلی ۔ جو اسلام کے احترام پر غالب آگئی۔ آج سب نشے اُتر گئے ہیں۔ وہ لوگ جو میرے پائوں میں بیٹھا کرتے تھے ، وہ بیگانے ہوگئے ہیں ۔ وہ لونڈیاں بھی میرے مرنے کی منتظر ہیں جو میرے اشاروں پر ناچا کرتی تھیں ۔ میرے دربار میں عریاں رقص کرنے والی لڑکیاں مجھے نفرت کی نگاہوں سے دیکھتی ہیں …… انسان کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ انسان کسی انسان کے گناہوں کابوجھ اُٹھا سکتا ۔ ان کم بختوں نے مجھے خدا بنا ڈالا مگر آج جب حقیقی خدا کا بلاواآیا ہے تو مجھ پر یہ حقیقت روشن ہوئی ہے ''۔

''میں نے اس کو نجات کاذریعہ سمجھا ہے کہ اپنے گناہوںکااعتراف کر لوں اور صلاح الدین کو ایسے خطروں سے خبردار کرتاجائوں جن سے شاید وہ واق نہیں ۔ اسے کہنا کہ میرے محافظ دستے کا سالار رجب زندہ ہے اور سوڈان میں کہیں روپوش ہے ۔ وہ مجھے بتا کر گیا تھا کہ فاطمی خلافت کی بحالی کے لیے سوڈانیوں اور قابل اعتماد مصریوں کی فوج تیار کرے گا اور وو صلیبیوں سے جنگی اور مالی امداد لے گا …… صلاح الدین سے کہنا کہ اپنے محافظ دستے پر نظر رکھے ۔ اکیلا باہر نہ جائے ۔ رات کو زیادہ محتاط رہے کیونکہ رجب نے فدائیوں کے ساتھ ایوبی کے قتل کا منصوبہ بنالیاہے ۔ اسے کہنا کہ مصر تمہارے لیے آگ اُگلنے والا پہاڑ ہے۔ تم جنہیں دوست سمجھتے ہو وہ بھی تمہارے دشمن ہیںاور وہ جو تمہاری آواز کے ساتھ آواز ملا کر وسیع سلطنت اسلامیہ کے نعرے لگاتے ہیں ، میں صلیبیوں کے پالے ہوئے سانپ موجود ہیں ''۔
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: داستان ایمان فروشوں کی ۔۔جلد اول مکمل

Post by ایکسٹو »


''تمہارے جنگی شعبے میں فیض الفاطمی بڑا حاکم ہے مگر تم نہیں جانتے کہ وہ تمہارے مخالفین میں سے ہے۔ وہ رجب کا دست راست ہے۔ تمہاری فوج میں ترک، شامی اور دوسرے عربی نسل کے جو کماندار اور سپاہی ہیں ان کے سوا کسی پر بھررسہ نہ کرنا ۔ یہ سب تمہارے وفادار اور اسلام کے محافظ ہیں ۔ مصری فوجیوں میں قابل اعتماد بھی ہیں اور بے وفا بھی ۔ تم نہیں جانتے کہ تم نے جب سوڈانی لشکر پر فیصلہ کن حملہ کیاتھا تو حملہ آور دستوں میں دو دستوں کے کماندار تمہاری چال کو ناکام کرنے کرنے لیے تمہاری ہدایات اور احکام پر غلط عمل کرنا چاہتے تھے لیکن تمہارے ترک اور عرب سپاہیوں میں جوش اور جذبہ ایسا تھا کہ اپنے کماندار کے حکم کا انتظار کیے بغیر وہ سوڈانیوں پر قہر بن کر ٹوٹے ، ورنہ یہ دو کماندار جگن کا پانسہ پلٹ کر تمہیں ناکام کردیتے ''۔

العاضد مری مری آواز میں رُک رُک کر بولتا رہا۔ طبیب نے اسے ایک دو مرتبہ بولنے سے روکا تو اس نے ہاتھ کے اشارے سے اسے چپ کرادیا ۔ اس کے چہرے پر پسینہ اس طرح آگیا تھاجیسے کسی نے پانی چھڑک دیا ہو۔ دونوں عورتوں نے اس کا پسینہ پونچھا لیکن پسینہ چشمے کی طرح پھوٹتا آرہا تھا۔اس نے چند ایک اور انتظامیہ اور فوج کے حکام کے نام بتائے جو سلطان ایوبی کے خلاف سازشوں میں مصروف تھے۔ ان میں سے زیادہ خطرناک فدائی تھے جن کا پیشہ پُر اسرار قتل تھا ۔ وہ اس فن کے ماہر تھے۔ العاضد نے مصر میں صلیبیوں کے اثر و رسوخ کی بھی تفصیل سنائی اور کہا ……''انہیںمسلماننہ سمجھنا ۔ یہ ایمان فروخت کر چکے ہیں …… صلاح الدین سے کہنا کہ اللہ تمہیں کامیاب کرے اور سرخرو کرے ، لیکن یہ یاد رکھنا کہ ایک تو وہ لوگ ہیں جو چوری چھپے تمہیں دھوکہ دے رہے ہیں اور دوسرے وہ لگو ہیں جو خوشامد سے تمہیں خدا کے بعد کا درجہ دے دیں گ۔ یہ ان لوگوں سے زیادہ خطرناک ہیں جو چوری چھپے دھوکو دیتے ہیں …… سے کہنا کہ دشمنوں کو زیر کر کے جب تم اطمینان سے حکومت کی گدی پر بیٹھو گے تو میری طرح دونوں جہاں کے بادشاہ نہ بن جانا ۔ سدا بادشاہی اللہ کی ہے۔ اسی مصر میں فرعونوں کے کھنڈر دیکھ لو ۔ میرا انجام دیکھ لو ۔ اپنے آپ کو اس انجام سے بچانا ''۔

اس کی زبان لڑکھڑانے لگی ۔ اس کے چہرے پر جہاں کاکرب کاتاثر تھا ۔ وہاں سکون سا بھی نظر آنے لگا ۔ اس نے بولنے کی کوشش کی مگر حلق سے خراٹے سے نکلے ۔ اس کا سر ایک طرف لڑھک گیا اور وہ ہمیشہ کے لیے خاموش گیا۔ واقعہ ستمبر ١١٧١ء کا ہے ۔

طبیب نے سلطان ایوبی کو اطلاع بجھوائی ۔ محل میں العاضد کی موت کی خبر پھیل گئی ۔ محل کے کسی گوشے سے رونا تو دورکی بات ہے ہلکی سی سسکی بھی نہ سنائی دی ۔ صرف ان دو عورتوں کے آنسو بہہ رہے تھے ۔ جو آخری وقت اس کے پاس تھیں …… سلطان ایوبی چند ایک حکام کے ساتھ فوراً محل میں آگیا۔ اس نے دیکھا کہ وہاں برآمدوںاور غلام گردشوں میںکچھ سرگرمی سی تھی ۔ اسے شک ہوا۔ اس نے محافظ دستے کے کماندار کو بلا کر حکم دیاکہ محل کے تمام کمروں میں گھوم جائو۔ تمام مردوں ، عورتوں اور لڑکیوں کوکمروں سے نکا ل کر باہر صحن میںبٹھا دو اور کسی کو باہر نہ جانے دو ۔ کسی کو کیسی ہی ضرورت کیوں نہ ہو ، اصطبل سے کوئی گھوڑا نہ کھولے ۔سلطان ایوبی نے محل پر قبضہ کرنے کا حکم دیا ۔ اس نے عجیب چیز یہ دیکھی کہ العاضد جو اپنے آپ کو بادشاہ بنائے بیٹھا تھا اور جس نے شراب اور عورت کو ہی زندگی جانا تھا ، اس کی میت پر رونے والا کوئی نہ تھا۔ محل مردوں اور عورتوں سے بھراپڑا تھا ۔ مگر کسی کے چہرے پر اداسی کا تاثر بھی نہیں تھا۔

طبیب سلطان ایوبی کو الگ لے گیا اور اسے العاضد کی آخری باتیں سنائیں۔ اس نے اپنی رائے ان الفاظ میں دی کہ آپ کو آخری وقت میںاس کے بلاوے پر آجانا چاہیے تھا ۔ سلطان ایوبی نے اسے بتایا کہ وہ اس خدشے کے پیشِ نظر نہیں آیاکہ اس شخص کا کچھ بھروسہ نہ تھا اوردوسری وجہ یہ تھی کہ اسے ایمان فروشوں سے نفرت تھی مگر اب طبیب کی زبانی العاضد کا آخری پیغام سن کر سلطان ایوبی کو سخت پچھتاوا ہونے لگا تھا ۔ وہ بہت بے چین ہوگیا تھا اور اس نے کہا ……''اگر میں آجاتا تو اس کے منہ سے کچھ اور راز کی باتیں نکلوا لیتا ۔ وہ کوئی راز سینے میں نہ لے گیا ہو ''۔

متعدد مورخین نے اپنی تحریروں میں لکھا ہے کہ العاضد بے شک عیاش اور گمراہ تھا ، اس نے سلطان ایوبی کے خلاف سازشوںکی پشت پناہی بھی کی لیکن اس کے دل میں سلطان ایوبی کی محبت بہت تھی ۔ دو مورخین نے یہ بھی لکھا ہے کہ اگر سلطان ایوبی العاضد کے بلاوے پرچلا جاتا تو العاضد اسے اوربھی بہت سی باتیں بتاتا۔ بہرحال تاریخ ثابت کرتی ہے کہ العاضد کے بلاوے میںکوئی فریب نہ تھا ۔ اس نے اپنی روح کی نجات کے لیے اور سلطان ایوبی کی محبت کے لیے گناہوں کی بخشش مانگنے کا یہ طریقہ اختیار کیا تھا ۔ بہت مدت تک سلطان ایوبی تاسف میںرہ گیا کہہ وہ آخری وقت العاضد کی باتیں نہ سن سکا ۔بعد میں ان تمام افراد کے خلاف الزامات صحیح ثابت ہوئے تھے جن کی العاضد نے نشاندہی کی تھی ۔

سلطان ایوبی نے ان تمام افراد کے نام علی بن سفیان کو دے کرحکم دیا کہ ان سب کے ساتھ اپنے جاسوس اور سراغرساں لگا دو لیکن کسی کم مکمل شہادت اور ثبوت کے بغیر گرفتار نہ کرنا ۔ ایسے طریقے اختیار کرو کہ وہ عین موقعہ پر پکڑے جائیں ، کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی کے ساتھ بے انصافی ہوجائے ۔ یہ احکام دے کر اس نے تہجیز و تکفن کے انتظامات کرائے۔ اسی شام العاضد عام قبرستا ن میں دفن کر دیا گیا جہاںتھوڑے ہی عرصے بعد قبر کا نام و نشان مٹ گیا ۔ سلطان ایوبی نے محل کی تلاشی لی ۔ وہاںسے اس قدر سونا ، جواہرت اور بیش قیمت تحائف نکلے کہ سلطان ایوبی حیران رہ گیا ۔ اس نے حرم کی تمام عورتوں اور جوان لڑکیوں کوعلی بن سفیان کے حوالے کر دیا اور حکم دیا کہ معلوم کروکون کہاں کی رہنے والی ہے۔ ان میں سے جو اپنے گھروں کو جانا چاہتی ہیں انہیں اپنی نگرانی میں گھروں تک پہنچا دو اور ان میں جو غیر مسلم اور فرنگی ہیں ان کے متعلق پوری طرح چھان بین کرکے معلوم کرو کو وہ کہاں سے آئی تھیں اور ان میں مشتبہ کون کون سی ہیں ۔ مشتبہ کو آزاد نہ کیاجائے بلکہ اس سے معلومات حاصل کی جائیں۔

سلطان ایوبی نے محل سے برآمد ہونے والا مال و دولت ان تعلیمی اداروں ، مدرسوں اور ہسپتالوں میں تقسیم کر دیا جو اس نے مصر میں کھولے تھے ۔

٭ ٭ ٭

العاضد نے مرنے سے پہلے اپنے محافظ دستے کے سالار رجب کے متعلق بتایا تھا کہ وہ سوڈان میں روپوش ہے جہاں وہ سلطان ایوبی کے خلاف فوج تیار کر رہا ہے اور وہ صلیبیوں سے بھی مدد لے گا۔ علی بن سفیان نے چھ ایسے جانباز منتخب کیے جو لڑاکا جاسوس تھے ۔ ان کا کماندار رجب کو پہچانتا تھا ۔ انہیں تاجروں کے بھیس میں سوڈان روانہ کر دیا گیا ۔ انہیں یہ حکم دیا گیا تھا کہ ممکن ہو سکے تو اسے زندہ پکڑ لائیں ورنہ وہیں قتل کر دیں ۔

جس وقت یہ پارٹی سوڈان کو روانہ ہوئی اس وقت رجب سوڈان میں نہیں بلکہ فلسطین کے ایک مشہور اور مضبوط قلعے شوبک میں تھا ۔ فلسطین پر صلیبیوں کا قبضہ تھا ۔ انہوں نے اس خطے کو اڈہ بنا لیا تھا ۔ مسلمانوں پر انہوں نے عرصہ حیات تنگ کر رکھا تھا ۔ مسلمان وہاں سے کنبہ در کنبہ بھاگ رہے تھے ۔ وہاں کسی مسلمان کی عزت محفوظ نہیں تھی ۔ صلیبی ڈاکوئوں کی صورت بھی اختیار کرتے جا رہے تھے ۔ وہ مسلمانوں کے قافلوں کو لوٹ کر فلسطین میں آجاتے تھے ۔ لڑکیوں کو بھی اغواکر کے لاتے تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ سلطان ایوبی سب سے پہلے فلسطین کو تہ تیغ کرنا چاہتا تھاتا کہ مسلمانوں کے جان و مال اور آبرو کو محفوظ کیا جا سکے ۔ اس سے بھی بڑی وجہ یہ تھی کہ قبلہ اول پر صلیبی قابض تھے ، مگر مسلمان امراء کا یہ عالم تھا کہ و ہ صلیبیوں کے ساتھ دوستی کرتے پھرتے تھے ۔ رجب بھی ایک مسلمان فوجی سربراہ تھا ۔ وہ سلطان کے خلاف مدد حاصل کرنے کے لیے صلیبیوں کے پاس پہنچ گیا تھا ۔

اس کے اعزاز میں قلعے میں رقص کی محفل گرم کی گئی تھی ۔ رجب نے یہ دیکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی کہ برہنہ ناچنے والیوں میں زیادہ تعداد مسلمان لڑکیوں کی تھی جنہیں صلیبیوں نے کمسنی میں اغوا کر لیا اور رقص کی تربیت دی تھی ۔ اپنی قوم کی بیٹیوں کو وہ کافر کے قبضے میں ناچتا دیکھتا رہا اور ان کے ہاتھوں شراب پیتا رہا تھا ۔ اس کے ساتھ وہ مسلمان کماندار بھی تھے ۔ رات بھر وہ شراب اور رقص میں بدمست رہے اور صبح صلیبیوں کے ساتھ بات چیت کے لیے بیٹھے ۔ اس اجلاس میں صلیبیوں کے مشہور بادشاہ گائی لوزینان اور کونارڈ موجود تھے ۔ ان کے علاوہ چند ایک صلیبی فوج کے کمانڈر بھی تھے ۔ رات کو رجب انہیں بتا چکا تھا کہ سلطان ایوبی نے سوڈانیوں کے حبشی قبیلے کے مبعد کو مسمار کر کے ان کے پروہت کو ہلاک کر دیا ہے ۔ اس پر سوڈانیوں نے حملہ کیا جسے سلطان ایوبی نے پسپا کیا اور اسن نے خلیفہ العاضد کی خلافت ختم کر کے عباسی کا اعلان کر دیا مگر مصر میں کوئی خلیفہ نہیں رہے گا۔ رجب نے انہیں بتایا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ سلطان ایوبی مصر کا خود مختار حکمران بننا چاہتا ہے ۔ رجب نے صلیبیوں کو اس اجلاس میں بتایا کہ وہ ان سے جنگی اور مالی مدد لینے آیا ہے اور وہ سوڈان جا کر فوج تیا ر کرے گا ۔ مصر میں بد نظمی او ابتری پھیلانے کے لیے بھی اس نے صلیبیوں سے مدد مانگی ۔

''فوری طور پر دو پہلو سامنے آتے ہیں جن پر ہمیں توجہ مرکوز کرنی چاہیے ''…… کونارڈ نے کہا ……''جس حبشی قبیلے کے مذہب میں صلاح الدین ایوبی نے ظالمانہ دخل اندازی کی ہے اسے انتقام کے لیے بھڑکایا جائے ۔ اس کے ساتھ سارے سوڈان میں جتنے بھی عقیدے اور مذہب ہیں ان کے پیرو کاروں کو صلاح الدین کے خلاف یہ کہہ کو مسلح کیا جائے کہ یہ مسلمان بادشاہ لوگوں کی عبادت گاہیں اور اور ان کے دیوتائوں کے بت توڑتاپھر رہا ہے۔ پیشتر اس کے کہ وہ کسی اور عقیدے پر حملہ آور ہو اسے مصر میں ہی ختم کردیا جائے ۔ اس طرح لوگوں کے مذہبی جذبات مشتعل کر کے انہیں مصر پر حملے کے لیے آسانی سے تیار کیا جاسکتا ہے ''۔

''ہم مصر کے مسلمانوں تک کو صلاح الدین کے خلاف کھڑا کر سکتے ہیں ۔ ''……ایک صلیبی کمانڈر نے کہا ……''اگر محترم رجب برا نہ مانیں تو میں انہی کے فائدے کی بات کہہ دوں ۔مسلمان میں مذہبی جنون پیدا کر کے مسلمان کو مسلمان کے ہاتھوں مروا دینا کوئی مشکل نہیں ۔ جس طرح ہمارے مذہب میں بعض پادریوں نے اپنے آپ کو گرجوں کا حکم بنا کر اپنا وجود انسان اور خدا کے درمیان کھڑا کر دیا ہے ، بالکل اسی طرح اسلام میں بھی بعض اماموں نے مسجد پر قبضہ کر کے اپنے آپ کو خدا کا ایجنٹ بنا لیاہے ۔ ہمارے پاس دولت ہے جس کے ذور پر ہم مسلمان مولوی تیار کرکے مصر کی مسجدوںمیں بٹھا سکتے ہیں ۔ ہمارے پاس ایسے عیسائی بھی موجود ہیں جو اسلام اور قرآن سے بڑی اچھی طرح واقف ہیں ۔ انہیں ہم مسلمان اماموں کے روپ میں استعمال کریں گے ۔ صلاح الدین کے خلاف کسی مسجد میں کوئی کہنے کی ضرورت نہیں ۔ ان مولویوں کی زبان سے ہم مسلمانوں میں ایسی توہم پرستی پیدا کریں گے کہ ان کے دلو ں میں صلاح الدین کی وہ عظمت مٹ جائے گی جو اس نے پیدا کر رکھی ہے ''

'' یہ مہم فوراً شرع کردینی چاہیے ''…… رجب نے کہا ……''سلطان ایوبی نے مصر میں مدرسے کھول دئیے ہیں جہاں بچوں اور نوجوانوں کو مذہب کے صحیح رُخ سے روشناس کیا جارہاہے ۔ اس سے پہلے وہاں کوئی ایسا مدرسہ نہیں تھا ۔ لوگ مسجد میں خطبے سنتے تھے ، جن میں خلیفہ کی مدح سرائی زیادہ ہوتی تھی ۔ صلاح الدین نے خطبوں سے خلیفہ کاذکر ختم کرادیاہے۔ اگر لوگوں میں علم کی روشنی اور مذہبی بیداری پیدا ہوگئی تو ہمارا کام مشکل ہو جائے گا ۔ آپ جانتے ہیںکہ حکومت کے استحکام کے لیے لوگوں کو ذہنی طور پر پسماندہ اور جسمانی طور پر محتاج رکھنا لازمی ہے ''۔

''محترم رجب !''…… ایک صلیبی کمانڈر مُسکرا کربولا ……''آپ کو اپنے ملک کے متعلق بھی علم نہیں کہ وہاں درپردہ کیاہو رہاہے ۔ ہم نے یہ مہم اسی روز شروع کردی تھی جس روز صلاح الدین نے ہمیں بحیرئہ روم میں شکست دی تھی ۔ ہم کھلی تخریب کاری کے قائل نہیں ۔ ہم ذہنوں میں تخریب کاری کیا کرتے ہیں ۔ ذرا غور فرمائیں محترم! دو سال پہلے قاہرہ میں کتنے قحبہ خانے تھے اور اب کتنے ہیں ؟ کیا ان میں بے پناہ اضافہ نہیں ہوگیا ؟ کیا دولت مند مسلمان گھرانوں میں لڑکوں اور لڑکیوں میں قابل اعتراض معاشقے شروع نہیں ہوگئے ؟ ہم نے وہاں جو عیسائی لڑکیاں بھیجی تھیں وہ مسلمان لڑکیوں کے روپ میں مسلمان مردوں کے درمیان رقابت پیدا کرکے خون خرابے کراچکی ہیں ۔ قاہرہ میں ہم نے نہایت دلکش جواء بازی رائج کردی ہے دو مسجدوں میں ہمارے بھیجے ہوئے آدمی امام ہیں ۔ وہ نہایت خوبی سے اسلام کی شکل و صورت بگاڑ رہے ہیں ۔ وہ جہاد کے معنی بگاڑ رہے ہیں ۔ ہم نے وہاں عالموں اور فاضلوں کے بھیس میں بھی کچھ آدمی بھیج رکھے ہیں جو مسلمانوں کو جنگ و جدل کے خلاف تیار کر رہے ہیں ۔ وہ دوست اور دشمن کا تصور بھی بدل رہے ہیں ۔ مجھے ذاتی طور پر یہ توقع ہے کہ مسلمان چند برسوں تک اس ذہنی کیفیت میں داخل ہو جائیں گے جہاں وہ اپنے آپ کو بڑے فخر سے مسلمان کہیں گے مگران کے ذہنوں پر ان کے تہذیب و تمدن پر صلیب کا اثر ہوگا ''۔

''صلاح الدین کا جاسوسی کا نظا مبہت ہوشیار ہے ''…… رجب نے کہا …… ''اگر اس کے شعبہ جاسوس اور سراغرسانی کے سربراہ علی بن سفیان کو قتل کر دیا جائے تو صلاح الدین اندھااور بہرہ ہوجائے ''۔

''اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ خود کچھ بھی نہیں کر سکتے ''…… کونارڈ نے کہا …… ''آپ ایک حاکم کو قتل بھی نہیں کرا سکتے ۔ اگر آپ عقل کے لحاظ سے اتنے کمزور ہیں تو آپ ہمارے آدمیوں کو بھی پکڑوا کر مروائیں گے اور ہماری دولت بھی برباد کر دیں گے ''۔

''یہ کام میں خودکر الوں گا ''…… رجب نے کہا ……''میں نے فدائیوں سے بات کرلی ہے ۔ وہ تو صلاح الدین ایوبی کے قتل کے لیے بھی تیا ر ہیں ''۔

٭ ٭ ٭

''آپ سوڈان کی طرف سے مصر کی سرحد پر بد امنی پیدا کرتے رہیں '' ۔ کونارڈ نے کہا ……''ملک کے اندر ہم ذہنی اورء دیگر اقسام کی تخریب کاری کر تے رہیں گے۔ ادھر عرب میں کئی ایک مسلمان امراء ہمارے قبضے میںآگئے ہیں ۔ ان میں سے بعض کو ہم نے اس قدر بے بس کر دیا ہے کہ ان سے ہم جزیہ وصول کرتے ہیں ۔ ہم چھوٹے چھوٹے حملے کر کے ان کی تھوڑی تھوڑی زمین پر قبضہ کرتے چلے جارہے ہیں ۔ آپ سوڈان کی طرف سے یہی چال چلیں ۔ مسلمانوں میں صرف دو شخص رہ گئے ہیں ۔ نورالدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی ۔ان کے ختم ہوتے ہی اسلامی دنیا کا سورج غروب ہوجائے گا۔ بشرطیکہ آپ لوگ ثابت قدم رہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ مصر آپ کا ہوگا '' ۔

اس قسم کی بنیادی گفت و شنید کے بعد بہت دیر تک ان میں طریقہ کار اور لائحہ عمل پر بحث ہوتی رہی ۔ آخر کار رجب کو تین بڑی ہی دلکش اور بے حد چالاک لڑکیاں او سونے کے ہزار ہا سکے دئیے گئے ۔ اسے قاہرہ کے دو آدمیوں کے پتے دئیے گئے ۔ ان میں کسی ایک تک ان لڑکیوں کو خفیہ طریقے سے پہنچانا تھا ۔ ان دو آدمیوں میں سے ایک سلطان ایوبی کے جنگی شعبے کا ایک حاکم فیض الفاطمی تھا ۔ رجب کو یہ نہیں بتایا گیا کہ لڑکیوں کو کس طرح استعمال کیا جائے گا ۔ اسے اتنا ہی بتایا گیا کہ فیض الفاطمی کے ساتھ ان کا رابطہ ہے ۔ وہ لڑکیوں کا استعمال جانتا ہے اور لڑکیوں کو بھی معلوم ہے کہ انہیں کیا کرنا ہے ۔یہ تینوں عرب اور مصر کی زبان روانی سے بول سکتی تھیں ۔

اسی روز تینوں لڑکیاںاور دس محافظ رجب کے ساتھ کرکے اسے روانہ کر دیا گیا۔ اسے سب سے پہلے سوڈان کے اسی پہاڑی خطے میں جانا تھا جہاں لڑکی کی قربانی دی جاتی تھی اور جہاں سلطان ایوبی کے جانبازوں نے اُمِّ عرارہ کو حبشیوں سے چھڑا کر پروہت کو ہلاک کیا اور فرعونوں کے وقتوں کی عمارتیں تباہ کی تھیں ۔ رجب نے سوڈانیوں کی شکست اور العاضد کی خلافت سے معزولی کے بعد بھاگ کر اسی جگہ پناہ لی اور اسی جگہ کو اپنا اڈہ بنا لیا تھا ۔ اسے نے اپنے گرد حبشیوں کا وہ قبیلہ جمع کر لیا تھا جس کے پروہت کو سلطان ایوبی نے ہلاک کرایا تھا ۔ یہ لوگ ابھی تک اس جگہ کو دیوتائوں کا مسکن کہتے تھے اور پہاڑیوںکے اندر نہیںجاتے تھے ۔ اندر صرف چار بوڑھے حبشی جاتے تھے ۔ ان میں ایک اس قبیلے کا مذہبی پیشوا تھا ۔ اس نے اپنے آپ کو مرے ہوئے پروہت کا جانشیں بنالیا تھا ۔اس نے تین آدمی اپنے محاظوں کے طور پر منتخب کر لیے تھے ۔ جو اس کے ساتھ پہاڑیوں کے اندر جاتے تھے ۔ رجب نے اسی چھوٹے سے خطبے کے ایک ڈھکے چھپے گوشے کو اپنا گھر بنا لیا تھا ۔فرار ہو کر وہاں گیا اور پھر مصر میں مقیم کسی صلیبی ایجنٹ کے ساتھ فلسطین چلا گیا تھا ۔

٭ ٭ ٭
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: داستان ایمان فروشوں کی ۔۔جلد اول مکمل

Post by ایکسٹو »


حبشیوں کا یہ قبیلہ جو انگوک کہلاتا تھا ، خوفزدہ تھا ۔ ایک تو ان کے دیوتا کی قربانی پوری نہیں ہوئی ، دوسرے ان کا پروہت مارا گیا ، تیسرے ان کے دیوتاکا بت اور مسکن ہی تباہ کر دیا گیا اور چوتھی مصیبت یہ نازل ہوئی کہ قبیلے کے سینکڑوں جوان دیوتا کی توہین کا انتقام لینے گئے تو انہیں شکست ہوئی اور زیادہ تر مارے گئے ۔ اس قبیلے کے گھر گھر میں ماتم ہورہا تھا ۔ان میں سے بعض لوگ یہ بھی سوچنے لگے تھے کہ جس نے ان کا دیوتا کا بت توڑا ہے وہ کوئی بہت ہی بڑا دیوتا ہوگا ۔ مرے ہوئے پروہت کے جانشیں نے جب اپنے قبیلے کا یہ حال دیکھا تو اس نے پہلے یہ کہا کہ دیوتا کے مگر مچھ بھوکے ہیں ، ان کے پیٹ بھرو۔ حبشیوں نے کئی ایک بکریاں مگر مچھوں کے لیے بھیج دیں ۔ ایک نے تو اونٹ پروہت کے حوالے کر دیا ۔یہ جانور کئی دن تک مگر مچھوں کی جھیل میں پھینکے جاتے رہے مگر قبیلے سے خوف کم نہ ہوا ۔

ایک رات نئے پروہت نے قبیلے کو پہاڑی جگہ سے باہر جمع کیا اور اس نے دیوتائوں تک رسائی حاصل کی ہے ۔ دیوتائوں نے یہ اشارہ دیا ہے کہ چونکہ وقت پر لڑکی کی قربانی نہیں ہوئی اس لیے قبیلے پر یہ مصیبت نازل ہوئی ہے ۔ دیوتائوں نے کہا کہ اب بیک وقت دو لڑکیوں کی قربانی دی جائے گی تو مصیبت ٹل سکتی ہے ۔ ورنہ دیوتاسارے قبیلے کو چین نہیں لینے دیں گے ۔ پروہت نے یہ بھی کہا کہ لڑکیاں انگوک نہ ہوں اور سوڈان کی بھی نہ ہوں ۔ ان کا سفید فام ہونا ضروری ہے ……اتنا سننا تھا کہ قبیلے کے بہت سے دلیر اور نڈر آدمی اٹھ کھڑے ہوئے ۔ انہوں نے کہا کہ وہ مصر سے دو فرنگی یا مسلمان لڑکیاں اٹھا لائیں گے ۔

ادھر سے رجب فلسطین سے تین صلیبی لڑکیاں دس محافظوں کے ساتھ لا رہا تھا ۔ اس کا سفر بہت لمبا تھا اور یہ سفر خطرناک بھی تھا ۔ وہ سلطان ایوبی کی فوج کا بھگوڑا اور باغی سالار تھا ۔ اسے معلوم تھا کہ سرحد کے ساتھ ساتھ سلطان ایوبی نے کشتی پہرے کا انتظام کر رکھا ہے ، اس لیے وہ اپنے قافلے کو دور کا چکر کاٹ کر لا رہا تھا ۔ اس کے قافلے میں تین اونٹ تھے جن پر پانی ، خوراک اور صلیبیوں کا دیا ہوا بہت سارا سامان لدا ہوا تھا ۔ باقی سب گھوڑوں پر سوار تھے ۔ کئی دنوں کی مسافت کے بعد وہ دیوتائوں کے پہاڑی مسکن میں پہنچ گئے ۔ اس سے ایک ہی روز پہلے قبیلے کے پروہت نے کہا تھا کہ وہ سفید فام اور سوڈان کے باہر کی لڑکیوں کی قربانی دینی ہے ۔ رجب سب سے پہلے پروہت سے ملا۔ پروہت نے اس کے ساتھ تین سفید فام اور بہت ہی حسین لڑکیاں دیکھیں تو اس کی آنکھیں چمک اُٹھیں ۔ یہ لڑکیاں قربانی کے لیے موزوں تھیں ۔ اس نے رجب سے لڑکیوں کے متعلق پوچھا تو رجب نے اسے بتایا کہ انہیں وہ خاص مقصد کے لیے اپنے ساتھ لایا ہے ۔

رجب لڑکیوں کو پہاڑیوں کے اندر ایک ایسی جگہ لے گیا جو سر سبز اور خوشنما تھی او ر تین اطراف سے پہاڑیوں میں گھری ہوئی تھی ۔ وہاں رجب نے خیمے گاڑ دئیے تھے ۔ لڑکیوں کو چوری چھپے موقع محل دیکھ کر قاہرہ میں ان دو آدمیوں کے حوالے کرنا تھا ۔ جن کے اتے پتے اسے صلیبیوں نے دئیے تھے ۔ لڑکیوں کے آرام و آسائش کا پورا انتظام تھا ۔ رجب نے وہاں شراب کا بھی انتظام کر رکھا تھا ۔ رات اس نے سفر سے کامیاب لوٹنے کی خوشی میں جشن منایا ۔ صلیبی محافظوں کو بھی شراب پلائی ۔ لڑکیوں نے بھی پی ۔

آدھی رات کے بعد جب محافظ اور اس کے چند ایک ساتھی جو پہلے ہی وہاںموجود تھے سوگئے تو رجب نے ایک لڑکی کو بازو سے پکڑکر اپنے خیمے میں جانے لگا ۔ لڑکی اس کی نیت پھانپ گئی ۔ اس نے اسے کہا ……'' میں طوائف نہیں ہوں ۔ میں یہاں صلیب کا فرض لے کر آئی ہوں ۔ میں آپ کے ساتھ شراب پی سکتی ہوں مگر بدی قبول نہیں کروںگی ''۔

رجب نے اسے ہنستے ہوئے اپنے خیمے کی طرف گھسیٹا تو لڑکی نے اپنا بازو چھڑا لیا ۔ رجب نے دست درازی کی تو الڑکی دوڑ کر اپنی ساتھی لڑکیوں کے پاس چلی گئی ۔ وہ دونوں بھی باہر آگئیں ۔ انہوں نے رجب کو سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ انہیں غلط نہ سمجھے ۔

رجب کو غصہ آگیا ۔اس نے کہا …… '' میں جانتا ہوں تم کتنی پاک بازہو۔ بے حیائی تمہارا پیشہ ہے ''۔

''اس پیشے کا استعمال ہم وہاںکرتی ہیں جہاں اپنے فرض کے لیے ضروری ہوتاہے ''۔ لڑکی نے کہا ……''ہم عیاشی کی خاطر عیاشی نہیں کیا کرتیں ''۔

رجب ان کی کوئی بات نہیں سمجھنا چاہتاتھا ۔ آخر لڑکیوں نے اسے کہا ……''ہمارے ساتھ دس محافظ ہیں ۔ وہ ہماری حفاظت کے لیے ساتھ آئے ہیں ۔ انہیں کل واپس چلے جانا ہے ۔اگر ہم نے ان کی ضرورت محسوس کی تو ہم انہیں یہاں روک سکتی ہیں یا خود یہاںسے جاسکتی ہیں ''۔

جب چپ ہوگیا مگر اس کے تیور بتا رہے تھے کہ وہ لڑکیوں کو بخشے گا نہیں۔ وہ رات گزر گئی ۔ دوسرے دن رجب نے فلسطین سے ساتھ لائے ہوئے محافظوں کو رخصت کر دیا …… دن گزر گیا۔ شام کے وقت رجب لڑکیوں کے ساتھ بیٹھا ادھر ادھر کی باتیں کر رہا تھا کہ پروہت اپنے چارحبشیوں کے ساتھ آگیا۔اس نے سوڈانی زبان میں رجب سے کہا ……''ہمارے دیوتاہم سے ناراض ہیں ۔ انہوں نے دو فرنگی یامسلمان لڑکیوں کی قربانی مانگی ہے۔ یہ لڑکیاں قربانی کے لیے موزوں ہیں ۔ ان میں سے دو لڑکیاں ہمارے حوالے کر دو ''۔

رجب چکر اگیا ۔ اس نے جواب دیا ……''یہ لڑکیاں قربانی کے لیے نہیں ہیں ۔ ان سے ہمیں بہت کام لینا ہے اور انہی کے ہاتھوں ہمیں تمہارے دیوتائوں کے دشمن کو مروانا ہے ''۔

''تم جھوٹ بولتے ہو ''…… پروہت نے کہا …… ''تم ان لڑکیوں کو تفریح کے لیے لائے ہو ''۔ ہم ان میں سے دو لڑکیوں کو قربان کریں گے ''۔

رجب نے بہت دلیلیں دیں مگر پروہت نے کسی ایک بھی دلیل کو قبول نہ کیا ۔ اس کے دماغ پر دیوتا سوار تھے۔ اس نے اُٹھ کر دو لڑکیوں کے سروں پر باری باری ہاتھ رکھے اور کہا …… ''یہ دونوں دیوتا کے لیے ہیں ۔ انگوک کی نجات ان دو لڑکیوں کے ہاتھ میں ہے ''…… یہ کہہ کر وہ چلا گیا ۔ رُک کر رجب سے کہا ……''لڑکیوں کو ساتھ لے کر بھاگنے کی کوشش نہ کرنا ۔ تم جانتے ہو کہ ہم تمہیں فوراً ڈھونڈ لائیں گے ''۔

لڑکیاں سوڈان کی زبان نہیں سمجھتی تھیں ۔حبشی پروہت نے ان کے سروں پر ہاتھ رکھا ۔ رجب کو پریشان دیکھا تو انہوں نے رجب سے پوچھا کہ یہ حبشی کیا کہہ رہا تھا۔ رجب نے انہیں صاف صاف بتا دیا کہ وہ انہیں قربانی کے لیے مانگتا ہے ۔ لڑکیوں کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ تمہارے سر کاٹ کر خشک ہونے کے لیے رکھ دیں گے اور جسم جھیل میں پھینک دیں گے مگر مچھ جسموں کو کھا جائیں گے ۔ لڑکیوں کے رنگ فق ہوگئے ۔ انہوں نے رجب سے پوچھا کہ اس نے انہیں بچانے کے لیے کیا سوچا ہے۔ رجب نے جوا ب دیا ……''میں نے اسے سمجھانے کی ساری دلیلیں دے ڈالی ہیں مگر اس نے ایک بھی نہیں سنی ۔ میں ان لوگوں کے رحم و کرم پر ہوں ۔ میں تو انہیں ساتھ ملانا چاہتا ہوں ۔ یہ میری فوج میں شامل ہونے کے لیے تیا ر ہیں ۔ لیکن اپنے عقیدے کے اتنے پکے ہیں کہ پہلے دیوتائوں کو خوش کریں گے ، پھر میری بات سنیں گے ''۔

رجب کی باتوں اور انداز سے لڑکیوں کو شک ہو گیا کہ وہ انہیں بچا نہیں سکے گا ۔ یا انہیں خوش کرنے کے لیے بچانے کی کوشش نہیں کرے گا ۔ انہوں نے گزشتہ رات رجب کی نیت کی ایک جھلک دیکھ بھی لی تھی ۔ اس لیے وہ اس سے مایوس ہوگئی تھیں ۔ رجب نے انہیں رسمی طور پر بھی تسلی نہ دی کہ وہ انہیں بچا لے گا ۔ لڑکیاں خیمے میں چلی گئیں ۔ انہوں نے صورتِ حال پر غور کیا اور اس نتیجے پر پہنچیں کہ وہ یہاں رجب کی عیاشی کا ذریعہ بننے یا حبشیوں کے دیوتا کی بھینٹ چڑھنے کے لیے نہیں آئیں ۔ وہ بے مقصد موت نہیں مرنا چاہتی تھیں ۔ انہوں نے وہاں سے فرار کا ارادا کیا ۔ فرار ہو کر فلسطین خیریت سے پہنچنا آسان کام نہ تھا مگر کوئی چارہ کار بھی نہ تھا ۔ یہ لڑکیاں صرف خوبصورت اور دلکش ہی نہیں تھیں ،گھوڑ سواری اور سپاہ گری کی بھی انہیں تربیت دی گئی تھی تا کہ ضرورت پڑے تو اپنا بچائو خود کر سکیں ۔ انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ وہ یہاں سے بھاگ کر فلسطین چلی جائیں گی ۔

وہ رات خیریت سے گزر گئی ۔ دوسرے دن لڑکیوں نے اچھی طرح دیکھا کہ رات کو گھوڑے کہاں بندھے ہوتے ہیں اور وہاں سے نکلنے کا راستہ کون سا ہے۔ حبشی پروہت دن کے وقت بھی آیا او رجب کے ساتھ باتیں کر کے چلا گیا ۔ لڑکیوں نے اس سے پوچھا کہ و کیا کہہ گیا ہے۔ رجب نے انہیں بتایا کہ وہ کل رات تمہیں یہاں سے لے جائیں گے ۔ وہ مجھے دھمکی دے گیا ہے کہ میں نے انہیں روکنے کی کوشش کی تو وہ مجھے قتل کر کے مگر مچھوں کی جھیل میں پھینک دیں گے ۔ لڑکیوں نے اسے یہ نہیں بتایا کہ وہ فرار کا فیصلہ کر چکی ہیں کیونکہ انہیں رجب کی نیت پر شک ہوگیا تھا ۔ وہ غیر معمولی طور ذہین لڑکیاں تھیں ۔ انہوں نے رجب کے ساتھ ایسی باتیں کیں اور ایسی باتیں اس کے منہ سے کہلوائیں جن سے پتہ چلتا تھا جیسے وہ انہیں بچانے کی بجائے حبشیوں کو خوش کرنا چاہتا ہے تا وہ اسے وہیں چھپائے رکھیں اور اسے سلطان ایوبی کے خلاف فوج تیار کرنے میں مدد دیں ۔ لڑکیوں کہ یہ بھی شک ہوا کہ رجب انہیں ایسی قیمت کے عوض بچانے کی کوشش کرے گا جو وہ اسے دینا نہیں چاہتیں تھیں ۔

سارا دن اسی شش و پنچ میں گزر گیا ۔ رجب کو شک نہ ہواکہ لڑکیاں بھاگ جائیں گی ۔ اسے اس وقت بھی شک نہ ہوا ۔ جب لڑکیوں نے اسے کہا کہ ایسے جہنم نما صحرا میں ایسا سر سبز خطہ قدرت کا عجوجہ ہے ، آئو ذرا اس کی سیر کرا دو ۔ رجب انہیں گھمانے پھرانے لگا ۔ آگے وہ بھیانک جھیل آگئی جس کے کنارے پر پانچ چھ مگر مچھ بیٹھے تھے۔ جھیل کا پانی غلیظ اور بدبودار تھا ۔ایک لڑکی نے کا کہ یو معلوم ہوتا ہے جیسے پہاڑی کے اندر چشمہ ہے ۔ سب سے جب پہاڑی کی اندر دیکھا تو ایک لڑکی کی چیخ نکل گئی ۔ پانی پہاڑی کے اندر ایک وسیع غار بنا چلا گیا تھا ۔ رجب نے کہا …… ''یہ ہیں وہ مگر مچھ جو یہاں کے مجرموں کو اور قربان کی ہوئی لڑکیوں کے جسموں کو کھاتے ہیں ''……ایسا ہولناک منظر دیکھ کر لڑکیوں کے دلوں میں فرار کا ارادہ اور زیادہ پختہ ہوگیا ۔ انہوں نے سیر کے بہانے فرار کا راستہ اچھی طرح دیکھ لیا اور ایسی نرم زمین دیکھ لی جس پر گھوڑوں کے قدموں کی آواز پیدا نہ ہو ۔ ان کی سیر کی خواہش کے پیچھے یہی مقصد تھا ۔

ادھر حبشی پروہت قریبی بستی میں بیٹھا قبیلے کو یہ خوش خبری سنا رہا تھا کہ قربانی کے لیے لڑکیاں مل گئی ہیں اور قربانی آج سے چوتھی رات دی جائے گی جو پورے چاند کی رات ہوگی ۔ اس نے کہا کہ قربانی دیوتائوں کے مسکن اور معبد کے کھنڈروں پر دی جائے گی ۔ اس کے بعد ہم یہ معبد خود تعمیر کریں گے اور جب یہ معبد تعمیر ہوجائے گا تو ہم اس قوم سے انتقام لیں گے جنہوں نے ہمارے دیوتا کی توہین کی ہے ۔


نصف شب کا عمل تھا ۔ رجب اور اس کے ساتھیوں کو لڑکیوں نے اپنے خصوصی فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اتنی شراب پلادی تھی کہ ان کی بیداری کا خطرہ ہی ختم ہوگیا تھا۔ وہ بے ہوش پڑے تھے۔ لڑکیوں نے سفر کے لیے سامان باندھ لیا ۔تین گھوڑوں پر زینیں کسیں ، سوار ہوئیں اور اس نرم زمین پر گھوڑوں کو ڈال دیا جو انہوں نے دن کے وقت دیکھی تھی ۔ اس خطے کے ایک حصے میں چار حبشی موجو د تھے لیکن وہ سوئے ہوئے تھے اور دور تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ یہاں سے کوئی بھاگنے کی جرأت نہیں کر سکتا ۔ اگر بھاگے گا تو صحرا اسے راستے میں ہی ختم کردے گا ،مگر لڑکیاں اس سرسبز، خوشنما اور ہولناک قید خانے سے نکل گئیں ۔ وہ اسی راستے سے فلسطین جانا چاہتی تھیں جس راستے سے رجب انہیں لایا تھا ۔ وہ تھیں تو غیر معمولی طور پر ذہین اور انہیں عسکری تربیت بھی دی گئی تھی مگر انہیں یہ علم نہیں تھا کہ صحرا میں اس قدر فریب چھپے ہوئے ہیں جو دانش مندوں کو بھی عقل کا اندھا کردیا کرتے ہیں ۔ اتنے طویل صحرائی سفر پر لوگ قافلوں کی صورت میں نکلا کرتے تھے اور ان کے پاس صحراکی ہر آفت کا مقابلہ کرنے کا اہتمام ہوتا تھا ۔

رات کے وقت سو صحرا سرد تھا ۔ تینوں لڑکیوں نے اس جگہ سے کچھ دور تک گھوڑوں کو آہستہ آہستہ چلایا،پھر ایڑ لگا دی ۔ گھوڑے سرپت دوڑنے لگے۔ بہت دور جا کر انہوں نے گھوڑوں کی رفتار کم کر دی ۔ باقی رات گھوڑے اسی رفتار پر چلتے رہے ۔ صبح طلوع ہوئی اور جب سورج اوپر آیا تو لڑکیوں کے اردگرد ری کے گول گول ٹیلے تھے اور ان سے آگے ریتلی مٹی کی اونچی اونچی پہاڑیاں کھڑی تھیں ۔ کوئی راستہ نہ تھا ۔ انہوں نے سورج سے اپنی سمت کا اندازہ کیا اور ٹیلوں کی بھول بھلیوں میں داخل ہوگئیں ۔ گھوڑے پیاسے تھے۔ ہر گھوڑے پر پانی کا ایک ایک چھوٹا مشکیزہ تھا جو ایک دن کے لیے بھی کافی نہیں تھا۔ گھوڑوں کو کہاں سے پانی پلایا جاتا ۔ لڑکیاں کسی نخلستان کی تلاش میں چلتی چلی گئیں۔ سورج اوپر اُٹھتا گیا اور صحرا کو دوزخ بناتا گیا ۔ نخلستان کا کہیں نشان اور تصور بھی نظر نہیں آتاتھا۔

رجب اور اس کے ساتھی سورج طلوع ہونے پر بھی نہ جاگے ۔ وہ تو بیہوشی کی نیند سوئے ہوئے تھے۔ پروہت اپنے تین حبشیوں کے ساتھ آیا۔ اس نے سب سے پہلے لڑکیوں کے خیمے دیکھے ۔ خیمہ خالی تھا ۔ اس نے رجب کو جگایا اورکہا ''دونوں لڑکیاں میرے حوالے کر دو ''…… رجب ہڑبڑا کر اُٹھا اور پروہت کو قائل کرنے کی کوشش کرنے لگا کہ وہ ان لڑکیوں کو ضائع نہ کرے۔ اس نے اسے تفصیل سے بتایا کہ ان لڑکیوں سے کیا کام لینا ہے مگر پروہت نے اس کی ایک بھی نہ مانی ۔ رجب نے اپنے ساتھیوں کو جگانا چاہا تو حبشیوں نے اسے پکڑ لیا ۔ پروہت نے پوچھا ……''لڑکیاں کہا ں ہیں ؟''

رجب نے وہیں سے لڑکیوں کو پکارا تو اسے کوئی جواب نہ ملا ۔ خیمے میں جا کر دیکھا۔ انہیں ادھر ادھر دیکھا ۔ وہ کہیں نظر نہ آئیں ۔ اچانک نظر زینوں پر پڑی ۔ تین زینیں غائب تھیں۔ گھوڑے دیکھے تو تین گھوڑے غائب تھے۔ رجب نے پروہت سے کہا …… ''وہ تمہارے ڈر سے بھاگ گئی ہیں ۔ تم نے بڑے کام کی لڑکیاںکو بھگا دیا ہے ''۔

''انہیں تم نے بھگایا ہے ''…… پروہت نے کہا اور اپنے تین حبشیوں سے رجب کے متعلق کہا ……'' اسے لے جا کر باندھ دو ۔ اس نے انگوک کے دیوتا کو پھر ناراض کر دیا ہے ۔ اچھے سواروں کو بلائو اور لڑکیوں کا پیچھا کرو ۔ وہ دور نہیں جا سکتیں ''۔

رجب کے احتجاج اور منت سماجت کو نظر انداز کرتے ہوئے حبشی اسے اپنے ساتھ لے گئے اور ایک درخت کے ساتھ اس طرح باندھ دیا کہ اس کے ہاتھ پیٹھ پیچھے بندھے ہوئے تھے ۔ اس کے سوئے ہوئے ساتھیوں کے ہتھیار اُٹھا لیے گئے ، پھر انہیں جگا کر دھمکی دی گئی کہ وہ یہاں سے ہلے تو قتل ہوجائیں گے …… تھوڑی دیر بعد چھ گھوڑ سوار اور شتر سوار آگئے ۔ انہیں لڑکیوں کے تعاقب میں روانہ کر دیا گیا ۔ریت پر تین گھوڑوں کے قدموں کے نشان صاف تھے۔ اسی سمت کو یہ حبشی سوار انتہائی رفتار سے روانہ ہوگئے ۔ لڑکیوں کو پکڑنا آسان نہیں تھا کیونکہ فرار اور تعاقب میں آٹھ دس گھنٹوں کا فرق تھا ۔ حبشی سواروں کہ یہ سہولت حاصل تھی کہ و ہ صحرا کے بھیدی تھے اور مرد تھے۔ سختیاں جھیل سکتے تھے ۔ آگے جا کر انہیں یہ مشل پیش آئی کہ ہوا چل رہی تھی جس نے ریت اُڑاُڑا کر گھوڑوں کے قدموں کے نشان غائب کر دئیے تھے ۔ پھر بھی وہ اندازے پر چلتے گئے ۔

تین چار گھنٹوں کے تعاقب کے بعد انہیں ایک طرف سے آسمان پر اُفق کے کچھ اُوپر تک مٹیالی سرخی دکھائی دی جو اُوپر کو اُٹھتی اور آگے بڑھتی آرہی تھی ۔ سواروں نے گھبرا کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا ، گھوڑوں اور اونٹوں کو پیچھے کی طرف موڑ کر سرپٹ دوڑا دیا ۔ یہ صحرا کی وہ آندھی تھی جو بڑے بڑے ٹیلوں کو ریت کے ذروں میں بدل کر اُڑا لے جاتی ہے۔ کوئی انسان یا جانور کہیں رُک کر کھڑا رہے یا بیٹھ جائے تو ریت اس کے جسم کے ساتھ رُک رُک کر اسے زندہ دفن کر دیتی ہے اور اس پر ٹیلا کھڑا ہو جاتا ہے ۔ وہاں آندھی سے بچنے کے لیے کوئی مضبوط ٹیلا نہیں تھا ۔ وہ بھاگ کر اپنے پہاڑی خطے تک پہنچنا چاہتے تھے جو بہت ہی دور تھا ……وہاں تک آندھی پہنچ گئی تھی ۔ اسے خطے کے درخت دوہرے ہو ہو کر چیخ رہے تھے۔ جھیل کے مگر مچھ پہاڑی کے آبی غار میں جا چھپے تھے۔ پروہت ایک جگہ زمین پر گھٹنے ٹیکے ہوئے ہاتھ ہوا میں بلند کرتا اور زور زور سے زمین پر مارتا تھا ۔ ہر بار بلند آواز سے کہتا تھا ……''انگوک کے دیوتا ! اپنے قہر کو سمیٹ لے ۔ ہم دو بہت ہی خوبصورت لڑکیاں تیرے قدموں میں پیش کر رہے ہیں ''…… وہ اس آندھی کو دیوتا کا قہر سمجھ رہا تھا ۔ صحرا اور آندھی کا چولی دامن کا ساتھ تھا ، لیکن سرخ اور ایسی تیز و تند آندھی کبھی کبھی چلا کرتی تھی ۔ و ہ حبشیوں کے خطرے سے تو بہت دور نکل گئی تھیں مگر صحرا کے ایسے خطرے میں آگئیں جو ان کے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتا تھا ۔ ان کے لیے دوسری مصیبت یہ آئی کہ ریت کے بوچھاڑوں اور آندھی کے زناٹوں سے گھبرا کر تینوں گھوڑے منہ زور اور بے لگام ہو کر دوڑ پڑے۔ وہ چوں کہ اکھٹے بدکے تھے ، اسے لیے اکھٹے ہی دوڑتے جا رہے تھے۔ اس سے یہ فائدہ تو ہوا کہ ریت میں دب جانے کا خطرہ نہ رہا مگر یہ معلوم نہیں تھا کہ بے لگا م گھوڑے کہاں جا رکیں گے اور وہ جگہ اصل راستے سے کتنی دور ہوگی ۔ لڑکیوں میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ گھوڑوں کو قابومیں کر لیتیں اور گھوڑوں میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ زیادہ دوڑ سکتے۔ وہ پیاسے تھے اور آدھی رات سے مسلسل چل رہے تھے۔

تھکن اور پیاس گھوڑوں کے بے حال کرنے لگی۔ ایک گھوڑا منہ کے بل گرا ۔ اس کی سوار لڑکی ایسی گری کہ گھوڑا اُٹھا اور جب پھر گرا تو لڑکی اس کے نیچے آگئی۔ اسے مرنا ہی تھا ۔ کچھ اور آگے گئے تو ایک گھوڑے کا تنگ ڈھیلا ہوگیا …… زین ایک طرف لڑھک گئی اس کی سوار اسی پہلو پر گری مگر بایاں پائوں رکاب میں پھنس گیا ۔ لڑکی زمین پر گھسیٹی جانے لگی۔ تیسری لڑکی اس کی کوئی مدد نہیں کر سکتی تھی ۔ اس کا اپنا گھوڑا بے قابو تھا ۔ وہ اپنی ساتھی کی چیخیں سنتی رہی۔ پھر چیخیں خاموش ہوگئیں اور وہ لڑکی کی لاش کو گھوڑے کے ساتھ زمین پر جاتا دیکھتی رہی ۔ اس پر دہشت طاری ہوگئی ۔ وہ کتنی ہی دلیر کیوں نہ تھی ، آخر لڑکی تھی ۔ زور سے رونے لگی۔ ڈھیلی زین والا گھوڑا یکلخت رُک گیا ۔ تیسری لڑکی اپنا گھوڑا نہ روک سکی ۔ اس نے پیچھے دیکھا ۔ آندھی میں اسے کچھ نظر نہ آیا کہ اس گھوڑے کا کیا حشر ہوا۔ لڑکی تو یقینا مر چکی تھی ۔

تیسری لڑکی اکیلی رہ گئی۔ اس نے رکابوں سے پائوں پیچھے کر لیے۔ اس کی دہشت زدگی کا یہ عالم تھا کہ اس نے گھوڑے کی لگام چھوڑ کر ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھا کرجوڑ دئیے اور گلا پھاڑ کر خدا کر پُکارنے لگی ……''میرے عظیم خدا! آسمانوں کے خدا! میرے گناہ معاف کردے۔ میں گناہگار ہوں ۔ میرا بال بال گناہگار ہے ۔ میں گناہ کرنے آئی تھی ۔ میں نے گناہوں میں پرورش پائی ہے۔ میرے خدا! میں اس وقت بہت چھوٹی تھی جب مجھے بڑوں نے گناہوں کے راستے پر ڈالا تھا۔ انہوں نے مجھے گناہوں کے سبق دیتے جوان کیا اور کہا کہ جائو مردوں کو اپنے حُسن اور اپنے جسم سے گمراہ کرو۔ ان کے ہاتھوں انسانوں کو قتل کروائو۔ جھوٹ بولو۔ فریب دو اور بدکار بن جائو۔ انہوں نے بتایا تھا کہ یہ صلیب کا فرض ہے۔ تم پورا کرو گی تو جنت میں جائو گی ''……وہ پاگلوں کی طرح چلا رہی تھی اور اس کے گھوڑے کی رفتار گھٹتی جا رہی تھی ۔ زارو قطار روتے ہوئے اس نے خدا سے کہا ۔ ''تیرا جو مذہب سچا ہے ، مجھے اسی کا معجزہ دکھا ''۔

اس کے عقیدے متز لزل ہوگئے تھے ۔گناہوں کے احساس نے اس کے دماغ پر قابوپالیا تھا ۔ موت کے خوف نے اسے فراموش کرادیا تھا کہ اس کا مذہب کیا ہے ۔ اسے اپنا ماضی گناہوں میں ڈوبا ہوا نظر آرہا تھا او اس کے دل میں یہ احساس بیدار ہوتا جا رہا تھا کہ وہ مردوں کے استعمال کی چیز ہے اور اسے دھوکے اور فریب کے لیے استعمال کیا جارہا ہے اور اب سزا صرف اس اکیلی کو مل رہی ہے ۔

اسے غشی کی لہر آئی اور گزر گئی۔ اس نے دھاڑ ماری اور سر کو جھٹک کر بلند آواز سے کہا …… ''میری مدد کرو میرے خدا! میں ابھی مرنا نہیں چاہتی ''……اور اس کے ساتھ ہی اسے یاد آگیا کہ وہ یتیم بچی ہے ۔ موت کے سامنے انسان ماضی کی طرف بھاگتا ہے جو انسانی فطرت کا قدرتی عمل ہے۔ اس جوان لڑکی نے بھی ماضی میں پناہ لینے کی کوشش کی مگروہاں کچھ بھی نہ تھا ۔ ماں نہیں تھی ، باپ نہیں تھا ، کوئی بہن بھائی نہیں تھا ، اسے کچھ یادآیا کہ صلیبیوں نے اسے پالا اس راہ پہ ڈالا ہے جہاں وہ ایک بڑاہی حسین دھوکہ بن گئی تھی ۔ اسے اپنے آپ سے نفرت ہونے لگی۔ وہ اب بخشش چاہتی تھی ، اسے غشی آنے لگی ، گھوڑے کی رفتار سست ہو گئی تھی کہ وہ بمشکل چل رہا تھا اور اس کے ساتھ آندھی بھی تھمنے لگی تھی ۔ لڑکی ہوش کھو بیٹھی تھی .

صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: داستان ایمان فروشوں کی ۔۔جلد اول مکمل

Post by ایکسٹو »


سلطان ایوبی نے سرحد کے ساتھ ساتھ گشتی پہرے کا انتظام کر رکھا تھا۔ ان میں سے تین دستوں کا ہیڈ کواٹر سوڈان اور مصر کی سرحد سے چار پانچ میل اندر کی طرف تھا ۔ ہیڈ کواٹر کے خیمے ایسی جگہ نصب کیے گیے تھے جہاں آندھیوں سے بچنے اوٹ تھی مگر اس آندھی نے ان کے خیمے اُکھاڑ پھینکے تھے ۔ گھوڑوں اور اونٹوں کو سنبھالنا مشکل ہوگیا تھا ۔ آندھی رُکی تو سپاہی خیمے وغیرہ سنبھالنے میں مصروف گئے ۔ ان تین دستوں کا کمانڈر ایک تُرک احمد کمال تھا ۔ وہ ایک خربرو اور گورے رنگ کا تنو مند مرد تھا ۔ وہ بھی آندھی رُکتے ہی باہر آگیا اور ساز و سامان اور جانوروں کا جائزہ لے رہا تھا۔ فضا گرد سے صاف ہوگئی تھی ۔ ایک سپاہی نے ایک طرف اشارہ کر کے اسے کہا …… ''کماندار! وہ گھوڑا اور سوار ہمارا تو نہیں ؟''……

''ہم نے ابھی لڑکیوں کو فوج میں شامل نہیں کیا''۔ احمد کمال نے جواب دیا …… وہ لڑکی معلوم ہوتی ہے۔ بال بکھرے ہوئے صاف نظر آرہے تھے ۔

وہ اسی سپاہی کو ساتھ لے کر دوڑ پڑا ۔ ایک گھوڑا سر نیچے کیے نہایت ہی آہستی آہستی آرہا تھا ۔ اسے چارے کی بو آئی تو ہیڈ کواٹر کے گھوڑوں کی طرف چل پڑا۔ گھوڑے پر ایک لڑکی اس طرح سوار تھی کہ اس کے بازو گھوڑے کی گردن کے ادھر ادھر تھے اور لڑکی آگے کو اس طرح جھکی ہوئی تھی کہ اس کاسر گھوڑے کی گردن سے ذرا پیچھے تھا ۔ لڑکی کے بال بکھر کر آگے گئے تھے۔ احمد کمال کے پہنچنے تک گھوڑا وہاں بندھے ہوئے گھوڑوں کے پاس جا کر ان کا چارہ کھانے لگا تھا ۔ احمد کمال نے لڑکی کے پائوں رکابوں سے نکا لے اور اسے گھوڑے سے اتار کر بازوئوںپر اُٹھا لیا ۔ سپاہی نے کہا ……''زندہ ہے ۔ فرنگی معلوم ہوتی ہے ۔ اس کے گھوڑے کو پانی پلائو ''…… وہ لڑکی کو اپنے خیمے میں لے گیا۔ لڑکی کے بال ریت سے اٹے ہوئے تھے۔ احمد کمال نے اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے پھر منہ میں پانی کے قطرے ٹپکانے لگا ۔

لڑکی نے آنکھیں کھول دیں ۔ دو چار لمحے احمد کمال کو حیرت سے دیکھتی رہی اور اچانک اُٹھ کر بیٹھ گئی ۔ احمد کمال کا رنگ گورا دیکھ کر اس نے انگریز ی میں پوچھا …… ''میں فلسطین سے ہوں ؟''…… احمد کمال نے سر ہلا کر اسے سمجھانا چاہا کہ میں یہ زبان نہیں سمجھتا ۔ لڑکی نے عربی زبان میں پوچھا …… ''تم کون ہو ؟ میں کہا ں ہوں ؟''

''میں اسلامی فوج کا معمولی سا کماندار ہوں ''۔ احمد کمال نے جواب دیا ……''اور تم مصر میں ہو ''۔

لڑکی کی آنکھیں اُبل پڑیں اور وہ اس قدر گھبرائی جیسے پھر بے ہوش ہوجائے گی ۔ احمد کمال نے کہا …… '' ڈرو نہیں ۔ سنبھالو اپنے آپ کو ''…… اس نے اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا اور کہا ……''میں جان گیا ہوں کہ تم فرنگی ہو ۔ میری مہمان ہو ۔ ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں ''…… اس نے ایک سپاہی کو بلایا اور لڑکی کے لیے پانی اور کھانا منگوایا۔

لڑکی نے لپک کر پانی کا پیالہ اُٹھا لیا اور منہ سے لگا کر بے صبری سے پینے لگی۔ احمد کمال نے پیالہ اس کے ہونٹوں سے ہٹا کر کہا ……''آہستہ ۔ پہلے کھانا کھا لو ۔ پانی بعد میں پینا ''…… لڑکی نے گوشت کا ایک ٹکڑا اُٹھالیا۔ پھر وہ کھانا کھاتی رہی او پانی پیتی رہی ۔ ا س کے چہرے پر رونق واپس آگئی ۔

احمد کمال نے ایک خیمہ الگ لگوا رکھا تھا جو اس کا غسل خانہ تھا ۔ وہاں پانی کی کمی نہیں تھی ۔ خیمہ گاہ ایک نخلستان کے قریب تھی ۔ احمد کمال نے کھانے کے بعد لڑکی کو غسل والے خیمے میں داخل کر کے پردے باندھ دئیے۔ لڑکی نے غسل کرلی لیکن وہ بہت ہی خوف زدہ تھی کیونکہ وہ اپنے دشمن کی پناہ میں آگئی تھی جہاں اسے اچھے سلوک کی توقع نہیں تھی ۔ اس کے ذہن میں بچپن سے یہ ڈالا جاتا رہا تھا کہ مسلمان وحشی ہوتے ہیں اور عورت کے لیے تو وہ درندے ہیں ۔ اس خوف کے ساتھ اس پر حبشیوں کا ، مگر مچھوں کا اور صحرائی آندھی کا خوف طاری تھا۔ اپنے ساتھ کی دونوں لڑکیوں کی موت اور و ہ بھی ایسی بھیانک موت ، اس کے رونگٹے کھڑے کر رہی تھی۔ اس نے غسل کرتے ہوئے بڑی شدت سے محسوس کیا تھا کہ وہ اپنے ناپاک وجود کو دھونے کی کوشش کر رہی ہے جسے دنیا کا پانی پاک نہیں کر سکتا ۔ اس نے کسمپرسی کی حالت میں تنگ آ کر اپنے آپ کو صورت حال کے حوالے کر دیا ۔

احمد کمال نے دیکھ لیا تھا کہ ایسے حسن اور ایسے دلگداز جسم والی لڑکی معمولی لڑکی ۔ مصر کے اس حصے میں ایسی فرنگی لڑکی کیسے آسکتی تھی ؟ اس نے لڑکی سے پوچھا تو لڑکی نے جواب دیا کہ وہ قافلے سے بچھڑ گئی ہے۔ آندھی میں گھوڑا بے لگام ہوگیا تھا۔ احمد کمال ایسے جواب سے مطمئن نہیں ہوسکتا تھا ۔اس نے تین چار اور سوال کیے تو لڑکی کے ہونٹ کانپنے لگے ۔ احمد کمال نے کہا ……''اگر تم یہ کہتی کہ تم اغوا کی ہوئی لڑکی ہو اور آندھی نے تمہیں چھڑا دیا ہے تو شاید میں مان جاتا ۔ تمہیں جھوٹ بولنا نہیں آتا ''۔

اتنے میں اس سپاہی نے جو احمد کمال کے ساتھ تھا ۔ خیمے کا پردہ اُٹھایا اور ایک تھیلا اور ایک مشکیزہ احمد کمال کو دے کر کہا کہ یہ اس لڑکی کے گھوڑے کے ساتھ بندھے ہوئے تھے۔ احمد کمال تھیلا کھولنے لگا تو لڑکی نے گھبرا کر تھیلے پر ہاتھ رکھ لیا ۔ اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا ۔ احمد کمال نے تھیلا اسے دے کر کہا …… ''لو اسے خود کھول کر دکھائو''۔

لڑکی کی زبان جیسے گنگ ہوگئی تھی ۔ اس نے بچوں کے انداز سے تھیلا پیٹھ پیچھے کر لیا ۔ احمد کمال نے کہا ''یہ تو ہو نہیں سکتا کہ میں تمہیں کہہ دوں کہ جائو چلی جائو ۔ مجھے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ تمہیں روکوں، لیکن ایک ایسی لڑکی کو آبادیوں سے دور اکیلی گھوڑے پر بے ہوشی کی حالت میں بھٹکتی ہوئی پائی گئی ہے اسے میں اکیلا نہیں چھوڑ سکتا ۔ یہ میرا انسانی فرض ہے ۔ مجھے اپنا ٹھکانہ بتادو۔ میں تمہیں اپنے سپاہیوں کے ساتھ حفاظت سے پہنچادوں گا ۔ اگر نہیں بتائو گے تو تمہیں متشبہ لڑکی سمجھ کر قاہرہ اپنی حکومت کے پاس بھیج دوں گا۔ تم مصر ی نہیں ہو۔ تم سوڈانی بھی نہیں ہو ''۔

لڑکی کے آنسو بہنے لگے۔ وہ جس مصیبت سے گزر کر آئی تھی اس کی دہشت اور ہولناکی اس پر پہلے ہی غالب تھی ۔ اس نے تھیلا احمد کمال کے آگے پھینک دیا ۔ احمد نے تھیلا کھولا تو اس میں سے کچھ کھجوریں ، دو چار چھوٹی موٹی عام سی چیزیں نکلیں اور ایک تھیلی نکلی۔ یہ کھولی تو اس میں سے سونے کے بہت سے سکے اور ان میں سونے کی باریک سی زنجیر کے ساتھ چھوٹی سی سیاہ لکڑی کی صلیب نکلی ۔ احمدکمال اس سے یہی سمجھ سکا کہ لڑکی عیسائی ہے ۔ اسے غالباً معلوم نہیں تھا کہ جو عیسائی مسلمانوں کے خلاف لڑنے کے لیے صلیبی لشکر میں شامل ہوتا ہے وہ ایک صلیب پر حلف اُٹھاتا ہے اور چھوٹی سی ایک صلیب ہر وقت اپنے پاس رکھتا ہے ۔ احمد کمال نے اسے کہا کہ اس تھیلے میں میرے سوال کا جواب نہیں ہے ۔

''اگر میں یہ سارا سونا تمہیں دے دوں تو میری مدد کرو گے ؟''لڑکی نے پوچھا ۔ کیسی مدد ؟

''مجھے فلسطین پہنچا دو ''۔ لڑکی نے جواب دیا ……''اور مجھ سے کوئی سوال نہ پوچھو''۔

''میں فلسطین تک بھی پہنچا دوں گا لیکن سوال ضرور پوچھوں گا ''۔

''اگر مجھ سے کچھ بھی نہ پوچھو تو اس کا الگ انعام دوں گی ''۔

''وہ کیا ہوگا ؟''

''گھوڑا تمہیں دے دوںگی ''۔ لڑکی نے جواب دیا…… ''اور تین دنوں کے لیے مجھے اپنی لونڈی سمجھ لو ''۔

احمد کمال نے اس سے پہلے ہاتھ میں کبھی اتنا سونا نہیں اُٹھایا تھا اور اس نے ایسا حیران کن حسن اور جسم بھی نہیں دیکھا تھا ۔ اس نے اپنے سامنے پڑے ہوئے سونے کے چمکتے ہوئے ٹکڑوں کو دیکھا پھر لڑکی کے ریشمی بالوں کو دیکھا جو سونے کی تاروں کی طرح چمک رہے تھے ، پھر اس کی آنکھوں کو دیکھا جن میں وہ طلسماتی چمک تھی جو بادشاہوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنادیا کر تی ہے ۔ وہ تنو مند مرد تھا کماندار تھا۔ ان دستوں کا حاکم تھا جو سرحد پر پہرہ دے رہے تھے۔ اسے روکنے، پوچھنے اور پکڑنے والا کوئی نہ تھا مگر اس نے سکے تھیلی میں ڈالے، صلیب بھی تھیلی میں رکھی اور تھیلی لڑکی کی گود میں رکھ دی ۔

''کیوں ؟''لڑکی نے پوچھا ……''یہ قیمت تھوڑی ہے؟''

''بہت تھوڑی ''۔ احمد کمال نے کہا ……''ایمان کی قیمت خدا کے سوا کوئی نہیں دے سکتا ''……لڑکی نے کچھ کہنا چاہا لیکن احمد کمال نے اسے بولنے نہ دیا اور کہا …… ''میں اپنا فرض اور اپنا ایمان فروخت نہیں کر سکتا ۔ سارا مصر میرے اعتماد پر آرام کی نیند سوتا ہے ۔ تین مہینے گزرے سوڈانیوں نے قاہرہ پر حملہ کرنے کی کوشش کی تھی ۔ اگر میں یہاں نہ ہوتا اور اگر میں ان کے ہاتھ اپنا ایمان فروخت کر دیتا تو یہ لشکر قاہرہ میں داخل ہو کر تباہی برپا کر دیتا ۔ تم مجھے اس لشکر سے زیادہ خطرناک نظر آتی ہو ۔ کیا تم جاسوس نہیں ہو ؟''

''نہیں !''

''تم یہی بتا دو کہ تمہیں آندھی نے کسی ظالم کے پنجے سے بچایا ہے یا تم آندھی سے بچ کر نکلی ہو ؟''……لڑکی نے بے معنی سا جواب دیا تو احمد کمال نے کہا ……''مجھے تمہارے متعلق یہ جاننے کی ضرورت نہیں کہ کون ہو اور کہاں سے آئی ہو ۔ میں تمہیں کل قاہرہ کے لیے روانہ کر دوں گا ۔ وہاں ہمارا جاسوسی اور سراغرسانی کا ایک محکمہ ہے وہ جانے اور تم جانو ۔ میرا فرض پورا ہوجائے گا ''۔

''اگر اجازت دو تو میں اس وقت ذرا آرام کرلوں ''۔ لڑکی نے کہا ……''کل جب قاہرہ کے لیے مجھے روانہ کرو گے تو شاید تمہارے سوالوں کا جواب دے دوں''۔

لڑکی رات بھر کی جاگی ہوئی اور دن کے ایسے خوفناک سفر کی تھکی ہوئی تھی ۔ لیٹی اور سو گئی ۔ احمد کمال نے دیکھا کہ وہ نیند میں بڑبڑاتی تھی۔ بے چینی میں سر ادھر ادھر مارتی تھی اور ایسے پتہ چلتا تھا جیسے خواب میں رو رہی ہو ۔ احمد کمال نے اپنے ساتھیوں کو بتادیا کہ ایک مشکوک فرنگی لڑکی پکڑی گئی ہے جسے کل قاہرہ بھیجا جائے گا۔ اس کے ساتھی احمد کمال کے کردار سے واقف تھے ۔ کوئی بھی ایسا شک نہیں کر سکتا تھا کہ اس نے لڑکی کو بد نیتی سے اپنے خیمے میں رکھا ہے۔ اس نے لڑکی کا گھوڑا دیکھا تو وہ حیران رہ گیا کیونکہ گھوڑا اعلیٰ نسل کا تھا اور جب نے زین دیکھی تو اس کے شکوک رفع ہوگئے ۔ زین کے نیچے مصر کی فوج کا نشان تھا ۔ یہ گھوڑا احمد کمال کی اپنی فوج کا تھا ۔

حبشیوں نے آندھی کی وجہ سے تعاقب ترک کردیا تھا ۔ وہ واپس زندہ پہنچ گئے تھے۔ پروہت نے فیصلہ دے دیا تھا کہ لڑکیاں آندھی میں ماری گئی ہوں گی ۔ لہٰذا تعاقب میں کسی بھیجنا بیکار ہے۔ وقت بھی بہت گزر گیا تھا ۔ لیکن رجب پر آفت نازل ہو رہی تھی ۔ اس سے حبشی بار بار یہی ایک سوال پوچھتے تھے ۔ ''لڑکیاں کہاں ہیں ؟''…… اور قسمیں کھا کھا کر کہتا تھا کہ مجھے معلوم نہیں ۔ حبشیوں نے اسے اذیتیں دینی شروع کردیں ۔ تلوار کی نوک سے اس کے جسم میں زخم کرتے اور اپنا سوال دہراتے تھے۔ حبشیوں نے اس کے ساتھیوں کو بھی درختوں کے ساتھ باندھ دیا اور ان کے ساتھ بھی یہی ظالمانہ سلوک کر نے لگے۔ رجب کو خدا اپنی قوم اور ملک سے سے غداری کی سزا دے رہا تھا ۔رات کو بھی اسے نہ کھولا گیا ۔ اس کا جسم چھلنی ہوگیا تھا ۔

احمد کمال کے خیمے میں لڑکی سوئی ہوئی تھی ۔ وہ سورج غروب وہنے سے پہلے جاگی تھی ۔ احمد کمال نے اسے کھانا کھلایا تھا ۔ اس کے بعد وہ پھر سو گئی تھی ۔ اس سے دو تین قدم دور احمد کمال سویا ہوا تھا۔ رات گزرتی جا رہی تھی ۔ خیمے میں دیا جل رہا تھا ۔ اچانک لڑکی کی چیخ نکل گئی ۔ احمد کمال کی آنکھ کھل گئی۔ لڑکی بیٹھ گئی تھی ۔ اس کا جسم کانپ رہا تھا ۔ چہرے پر گھبراہٹ تھی ۔ احمد کمال اس کے قریب ہوگیا ۔ لڑکی تیزی سے سرک کر اس کے ساتھ لگ گئی اور روتے ہوئے بولی ……''ان سے بچائو ۔ وہ مجھے مگر مچھوں کے آگے پھینک رہے ہیں ۔ وہ میرا سر کاٹنے لگے ہیں ''۔

''کون؟''

''وہ بھدے حبشی ''۔لڑکی نے ڈرے ہوئے لہجے میں کہا ……''وہ یہاں آئے تھے''۔ احمد کمال کو حبشیوں کی قربانی کا علم تھا ۔اسے شک ہوا کہ اسے شاید قربانی کے لیے لے جایا جا رہا تھا۔ اس نے لڑکی سے پوچھا تو لڑکی نے بازو احمد کمال کے گلے میں ڈال دئیے ۔ کہنے لگی۔ '' مت پوچھو ۔ میں خواب دیکھ رہی تھی '' …… احمد کمال دیکھ رہا تھا کہ وہ تو بہت ہی ڈری ہوئی تھی ۔اس نے اسے تسلیاں دیں اور یقین دلایا کہ یہاں سے اسے اُٹھانے کے لیے کوئی نہیں آئے گا ۔ لڑکی نے کہا …… '' میں سو نہیں سکوں گی ۔ تم میرے ساتھ باتیں کرسکتے ہو ؟ میں اکیلی جاگ نہیں سکوں گی ۔ میں پاگل ہو جائوں گی ''۔

احمد کمال نے کہا …… ''میں تمہارے ساتھ جاگتا رہوں گا ''…… اس نے لڑکی کے سر پر ہاتھ پھیر کر کہا ……''جب تک میرے پاس ہو تمہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں ''۔ اس نے اس پر عمل بھی کر کے دکھا دیا ۔ لڑکی کے ساتھ اس نے حبشیوں کے معتلق یا اس کے متعلق کوئی بات نہ کی نہ پوچھی ۔ اس ترکی اور مصر کی باتیں سناتا رہا ۔ لڑکی اس کے ساتھ لگی بیٹھی تھی ۔ احمد کمال کا لب و لہجہ شگفتہ تھا ے اس نے لڑکی کا خوف دور کر دیا اور لڑکی سو گئی۔

لڑکی کی آنکھ کھلی تو صبح طلوع ہو رہی تھی ۔ ان نے دیکھا کہ احمد کمال نماز پڑھ رہا تھا۔ وہ اسے دیکھتی رہی احمد کمال نے دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے اور آنکھیں بند کرلیں ۔ لڑکی اس کے چہرے پر نظریں جمائے بیٹھی رہی ۔ احمد کمال فارغ ہوا تو لڑکی نے پوچھا ……''تم نے خدا سے کیا مانگا تھا ؟''

''بدی کے مقابلے کی ہمت!''احمد کمال نے جواب دیا ۔

''تم نے خدا سے کبھی سونا اور خوبصورت بیوی نہیں مانگی ؟''

'' یہ دونوں چیزیں خدا نے مانگے بغیر مجھے دے دی تھیں ''…… احمد کمال نے کہا ''لیکن ان پر میرا کوئی حق نہیں ۔ شاید خدا نے میرا امتحان لینا چاہا تھا ''۔

''تمہیں یقین ہے کہ خدا نے تمہیں بدی کا مقابلہ کرنے کی ہمت دے دی ہے ؟''

''تم نے نہیں دیکھا ؟''…… احمد کمال نے جواب دیا ۔ ''تمہارا سونا اور تمہارا حسن مجھے اپنی راہ سے ہٹا نہیں سکے ۔ یہ میری کوشش اور اللہ کی دین ہے ''۔

''کیا خدا گناہ معاف کردیا کرتا ہے ؟''لڑکی نے پوچھا ۔

''ہاں !ہمارا خدا گناہ معاف کر دیا کرتا ہے ''۔ احمد کمال نے جواب دیا ……''شرط یہ ہے کہ گناہ بار بار نہ کیا جائے ''۔

لڑکی نے سر جھکا لیا ۔ احمد کمال نے اس کی سسکیاں سنیں تو اس کا چہرہ اوپر اُٹھایا ۔ وہ رو رہی تھی ۔ لڑکی نے احمد کمال کا ہاتھ پکڑ لیا اور اسے کئی بار چوما۔ احمد کمال نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا ۔ لڑکی نے کہا…… ''آج ہم جدا ہوجائیں گے ۔ تم مجھے قاہرہ بھیج دو گے ۔ میں اب آزادنہیں ہو سکوں گی ۔ میرا دل مجبور کر رہا ہے کہ تمہیں بتا دوں کہ میں کون ہوں اور کہاں سے آئی ہوں ۔ پھر تمہیں بتائوں گی کہ اب میں کیا ہوں ''۔

''ہماری روانگی کا وقت ہوگیا ہے ''۔ احمد کمال نے کہا ……'' میں خود تمہارے ساتھ چلوں گا ۔ میں اتنی نازک اور اتنی خطرناک ذمہ داری کسی اور کو نہیں سونپ سکتا ''۔

''یہ نہیں سنو گے کہ میں کون ہوں اور کہاں سے آئی ہوں ''۔

''اُٹھو !''احمد کمال نے کہا ……''یہ سننا میرا کام نہیں''……وہ خیمے سے باہر نکل گیا ۔

٭ ٭ ٭

کچھ دیر بعد قاہرہ کی سمت چھ گھوڑے جارہے تھے ۔ ایک پر احمد کمال تھا ۔ اس کے پیچھے دوسرے گھوڑے پر لڑکی تھی ۔ اس کے پیچھے پہلو بہ پہلو چار گھوڑے محافظوں کے تھے اور ان کے پیچھے ایک اونٹ جس پر سفر کا سامان ، پانی اور خوراک وغیرہ جارہاتھا ۔ قاہرہ تک کم و بیش چھتیس گھنٹوں کا سفر تھا ۔ لڑکی نے دو مرتبہ اپنا گھوڑا اس کے پہلو میں کر لیا اور دونوں مرتبہ احمد کمال نے اسے کہا کہ وہ اپنا گھوڑا اس کے اور محافظوں کے درمیان رکھے۔ اس کے سوا اس نے لڑکی کے ساتھ کوئی بات نہ کی ۔ سورج غروب ہونے بعد احمد کمال نے قافلے کو روک لیا اور پڑائوکا حکم دیا ۔

رات لڑکی کو احمدکمال نے اپنے خیمے میں سلایا ۔ اس نے دیا جلتا رکھا ۔ وہ گہری نیند سویا ہوا تھا ۔ ا س کی آنکھ کھل گئی ۔ کسی نے اس کے ماتھے پر ہاتھ پھیرا تھا ۔ اس نے لڑکی کو اپنے پاس بیٹھے دیکھا ۔ لڑکی کا ہاتھ اس کے ماتھے پر تھا۔ احمد کمال تیزی سے اُٹھ کر بیٹھ گیا ۔ اس نے دیکھا کہ لڑکی کے آنسو بہہ رہے تھے۔ اس نے احمد کمال کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لیا اور اسے چوم کر بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگی۔ احمد کمال اسے دیکھتا رہا۔ لڑکی نے آنسو پونچھ کر کہا ……''میں تمہاری دشمن ہوں ۔ تمہارے ملک میں جاسوسی کے لیے اور تمہارے بڑے بڑے حاکموں کو آپس میں ٹکڑانے کے لیے اور صلاح الدین ایوبی کے قتل کا انتظام کرنے کے لیے فلسطین سے آئی ہوں ، لیکن اب میرے دل سے دشمنی نکل گئی ہے ''۔

''کیوں ؟''احمد کمال نے کہا …… ''تم بزدل لڑکی ہو ۔ اپنی قوم سے غداری کر رہی ہو ۔ سولی پر کھڑے ہو کر بھی کہو کہ میں صلیب پر قربان ہو رہی ہوں ''۔

''اس کی وجہ سن لو ''۔ اس نے کہا …… ''تم پہلے مرد ہو جس نے میرے حسن اور میری جوانی کو قابل نفرت چیز سمجھ کر ٹھکرایا ہے ۔ ورنہ کیا اپنے کیا بیگانے ، مجھے کھلونہ سمجھتے رہے ۔ میں نے بھی اسی کو زندگی کا مقصد سمجھا کہ مردوں کے ساتھ کھیلو، دھوکے دو اور عیش کرو۔ میری تربیت ہی اسی مقصد کے تحت ہوئی تھی۔ جسے تم لوگ بے حیائی کہتے ہو وہ میرے لیے ایک فن ہے ، ایک ہتھیار ہے ۔ مجھے نہیں معلوم کہ مذہب کیا ہے اور خدا کے کیا احکام ہیں ۔ صرف صلیب ہے جس کے متعلق مجھے بچپن میں ذہن نشین کرایا گیا تھا کہ یہ خدا کی دی ہوئی نشانی ہے اور یہ عیسائیت کی عظمت کی علامت ہے اور یہ کہ ساری دنیا پر حکمرانی کا حق صرف صلیب کے پجاریوں کو حاصل ہے اور یہ مسلمان صلیب کے دشمن ہیں ۔ انہیں اگر زندہ رہنا ہے تو صلیبیوں کے قدموں میں رہ کر زندہ رہیں ……ورنہ انہی چند ایک باتوں کو مذہب کے بنیادی اصول سمجھتی رہی ۔ مجھے مسلمانوں کی جڑیں کاٹنے کی تربیت دی گئی تو اسے بھی مذہبی فریضہ کہا گیا ''۔

''کیا تم اپنے سالار رجب کو جانتے ہو ؟'' لڑکی نے پوچھا ۔

''وہ خلیفہ کے محافظ دستوں کا سالار ہے ''۔ احمد کمال نے کہا ۔ ''وہ بھی سوڈانیوں کے حملے والی سازش میں شامل تھا ''۔

''اب کہاں ہے؟''

''معلوم نہیں ''۔ احمد کمال نے کہا …… ''مجھے صرف یہ حکم ملا ہے کہ رجب فوج سے بھگوڑا ہوگیا ہے ۔ جہاں کہیں نظر آئے اسے پکڑ لو اور بھاگے تو تیر مارو اور اسے ختم کر دو ''۔

''میں بتائوں وہ کہا ں ہے ؟''لڑکی نے کہا …… ''وہ سوڈان میں حبشیوں کے پاس ہے ۔ وہاں ایک خوشنما جگہ ہے ۔ جہاں حبشی ،لڑکیوں کو دیوتا کے آگے قربان کرتے ہیں۔ رجب وہاں ہے۔ میں جانتی ہوں وہ فوج کا بھگوڑا ہے۔ ہم تین لڑکیاں اس کے ساتھ فلسطین سے آئی تھیں ''۔

''باقی دو کہاں ہیں ؟''

لڑکی نے آہ بھری اور کہا …… ''وہ مر گئی ہیں ۔ انہی کی موت نے مجھے بدل ڈالا ہے ''…… لڑکی نے احمد کمال کو ایک لمبی کہانی کی طرح سنایا کہ وہ کس طرح فلسطین سے رجب کے ساتھ آئی تھیں ۔ کس طرح حبشیوں نے ان میں سے دو لڑکیوں کو دیوتا کے نام پر ذبح کرنا چاہا ، رجب انہیں بچا نہ سکا ، کس طرح وہ وہاں سے بھاگیں اور راستے میں دو لڑکیاں کس طرح آندھی میں ماری گئیں ۔ اس نے کہا ……''میں اپنے آپ کو شہزادی سمجھتی تھی ۔ میں نے بادشاہوں کے دلوں پر حکمرانی کی ہے ۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ خدا بھی ہے اور موت بھی ہے ۔ مجھے گناہوں میں ڈبویا گیا اور میں ڈوبتی چلی گئی ۔ عجیب لذت تھی اس ڈوبنے میں ، مگر مجھے وہ مگر مچھ دکھائے گئے جن کے آگے ذبح کی ہوئی لڑکیوں کے جسم پھینکے جاتے ہیں ۔ مگر مچھ پانی کے کنارے سوئے ہوئے تھے ۔ ان کے بھدے اور مروہ جسم دیکھ کر میں کانپ گئی ۔ وہ میر ے اس جسم کو جس نے بادشاہوں کے سرجھکائے تھے ، ان مگر مچھوں کی خوراک بنانا چاہتے تھے ۔ میں نے وہ بدصورت ، سیاہ کالے حبشی دیکھے جو میرا سر میرے جسم سے الگ کرنے کے لیے آگئے تھے ۔ موت کے پروں کی آواز مجھے سنائی دینے لگی تھی ۔ میری رگ رگ بیدار ہوگئی ۔ میرے اندر سے مجھے آواز سنائی دی ۔ اپنے حسن اور اتنے دل نشین جسم کا انجام دیکھ …… ہم جان کی بازی لگاکر اپنے گھر سے نکلی تھیں ۔ ہمیں یہ کہہ کر رجب کے ساتھ فلسطین سے بھیجا گیا تھا کہ یہ شخص ہماری حفاظت کرے گا لیکن اس شخص نے میرے ساتھ دست درازی کی ''……

''ہم وہاں سے بھاگیں ۔ آندھی میں گھوڑے بے قابو ہوکر بھاگ اُٹھے ۔ ہمارے لیے صحرا میں کوئی پناہ نہیں تھی ۔ ہم آندھی اور گھوڑوں کے رحم و کرم پر تھیں ۔ پہلے ایک لڑکی گری ۔ میں نے اسے گھوڑے کے نیچے آتے دیکھا۔ پھر دوسری لڑکی گھوڑے سے گری تو پائوں رکاب میں پھنس جانے کی وجہ سے گھوڑے نے اسے دو میل سے زیادہ فاصلے تک گھسیٹا ۔ اس کی چیخیں میرا جگر چاک کر رہی تھیں ۔ میں اب بھی اس کی چیخیں سن رہی ہوں ۔جب تک زندہ رہوں گی ، یہ چیخیں سنتی رہوں گی۔ پھر وہ لڑکی لاش بن گئی ۔ میرا گھوڑا ساتھ ساتھ دوڑ تا آرہا تھا ۔ مگر میرے قابومیںنہیں تھا ۔وہ لڑکی بھی اپنے گھوڑے کے ساتھ پیچھے رہ گئی ۔ میں اب اکیلی تھی ۔ مجھے خدا نے ان دو لڑکیوں کو مار کر بتا دیا تھا کہ میرا انجام کیا ہوگا ۔ وہ مجھ سے بھی زیادہ خوبصورت اور شوخ تھیں۔ ان میں حسن کا غرور بھی تھا ۔ انہوں نے بھی بادشاہوں کو انگلیوں پر نچایا تھا مگر ایسی بھیانک موت مریں کہ کسی کو خبر تک نہیں ہوئی ۔ اب وہ ریت کی گمنام قبروں میں دفن ہو گئی ہیں ۔ میں اکیلی رہ گئی ۔ آندھی کے زناٹے موت کے قہقہے بن گئے ۔ مجھے اپنے سر کے اوپر ، آگے ، پیچھے ، دائیں اور بائیں چڑیلیں، بدروحیں، بھوت اور موت کے قہقہے سنائی دے رہے تھے ۔ میں بدھو اور بیوقوف لڑکی نہیں ہوں ۔ دماغ روشن ہے۔ میں نے جان لیاکہ خدا مجھے گناہوں کی سزا دے رہا ہے۔ ایسی ہیبت ناک موت اور ہولناک آندھی ۔ وہ تم نے بھی دیکھی ہے۔ مجھے خدا یاد آگیا ۔میں نے خدا کو بلندآواز سے پکارا۔ رو رو کر گناہوں سے توبہ کی اور معافی مانگی، پھر میں بے ہوش ہوگئی ''……

''اور جب ہوش میں آئی تو میں تمہارے قبضے میں تھی ۔ تمہاری گوری رنگت دیکھ کر خوش ہوئی ہوں کہ تم یورپی ہو اور میںفلسطین میں ہوں ۔اسی دھوکے میں میں نے اپنی زبان میں پوچھا تھا کہ کیا میں فلسطین میں ہوں ۔ جب مجھے پتہ چلا کہ میں مسلمانوں کے قبضے میں ہوں تو میرا دل بیٹھ گیا ۔ میں آندھی سے بچ کر اپنے دشمن کے قبضے میں آگئی تھی ۔ مسلمانوں کے متعلق مجھے بتا دیا گیا تھا کہ عورتوں کے ساتھ درندوں جیسا سلوک کرتے ہیں لیکن تم نے میرے ساتھ وہ سلوک کیا جس کی مجھے توقع نہیں تھی ۔ تم نے سونا ٹھکرادیا اور تم نے مجھے بھی ٹھکرادیا ۔ میں اس قدر خوف زدہ تھی کہ میں کہتی تھی کہ خواہ کوئی مل جائے ، وہ مجھے پناہ دے دے اور مجھے سینے سے لگا لے ۔ تمہارے متعلق مجھے ابھی تک یقین نہیں آیا تھا کہ تمہارا کردار پاک ہے ۔ مجھے یہ توقع تھی کہ رات کو تم مجھے پریشان کرو گے ۔ میں خواب میں بھی مگر مچھوں، حبشیوں اور آندھی کی دہشت دیکھتی رہی ۔ میں ڈر کر اٹھی تو تم نے مجھے سینے سے لگا لیا اور بچوں کی طرح مجھے کہانیاں سنا کر میرا خوف دور کر دیا اور جب رات گزر گئی تو میں نے جاگتے ہی تمہیں خدا کے آگے سجدے میں دیکھا۔ تم نے جب دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے اور آنکھیں بند کر لی تھیں اس وقت تمہارے چہرے پر مسرت ، سکون اور نور تھا ۔ میں اس شک میں پڑ گئی کہ تم انسان نہیں فرشتہ ہو، کوئی انسان سونے اور مجھ جیسی لڑکی سے منہ نہیں موڑ سکتا ……

''میں نے تمہارے چہرے پر جو سکون اور مسرت دیکھی تھی اس نے میرے آنسو نکال دئیے ۔ میں تم سے پوچھنا چاہتی تھی کہ یہ سکون تمہیں کس نے دیا ہے ۔ میں تمہارے وجود سے اتنی متاثر ہوئی کہ میں نے تمہیں دھوکے میں رکھنا بہت بڑا گناہ سمجھا۔ میں تمہیں یہ کہنا چاہتی تھی کہ میں تمہیں اپنے متعلق ہر ایک بات بتا دوں گی ۔ اس کے عوض مجھے یہ کردار اور یہ سکون دے دو اور میرے دل سے وہ دہشت اُتار دو جو مجھے بڑی ہی تلخ اذیت دے رہی ہے مگر تم نے میری بات نہ سنی ، تمہیں فرض عزیز تھا ''…… اس نے احمد کمال کے دونوں ہاتھ پکڑ لیے اور کہا ……''تم شاید اسے بھی دھوکہ سمجھو ، لیکن میرے دل کی بات سن لو ۔ میں تم سے جدا نہیں ہو سکوں گی ۔ میں نے کل تمہیں گناہ کی دعوت دیتے ہوئے کہا تھا کہ مجھے اپنی لونڈی سمجھو، مگر اب میں ساری عمر کے لیے تمہارے قدموں میں بیٹھی رہوں گی ۔ مجھے اپنی لونڈی بنا لو اور س کے عوض مجھے وہ سکون دے دو جو میں نے نماز کے وقت تمہارے چہرے پر دیکھا تھا ''۔

''میں تمہیں بالکل نہیں کہوں گا کہ تم مجھے دھوکہ دے رہی ہو''۔ احمد کمال نے کہا ۔ ''میری مجبوری یہ ہے کہ میں اپنی قوم کو اور اپنی فوج کو دھوکہ نہیں دے سکتا ۔ تم میرے پاس امانت ہو ، میں خیانت نہیں کر سکتا ۔ میں نے تمہارے ساتھ جو سلوک کیا وہ میرا فرض تھا ۔ یہ فرض اس وقت ختم ہوگا جب میں تمہیں متعلقہ محکمے کے حوالے کر دوں گا اور وہ مجھے حکم دے گا کہ احمد کمال تم واپس چلے جائو ''۔

وہ اسے دھوکہ نہیں دے رہی تھی ۔ اس نے روتے ہوئے کہا ……''تمہارے حاکم جب مجھے سزائے موت دیں گے تو تم میرا ہاتھ پکڑے رکھنا ۔ اب یہی ایک خواہش ہے ۔ میں تمہیں ایسی بات نہیں کہوں گی کہ مجھے فلسطین پہنچا دو ۔ میں تمہارے فرض کے راستے میں رکاوٹ نہیں بنوں گی ۔ مجھے صرف اتنا کہہ دو کہ میں نے تمہارا پیار قبول کر لیا ہے ، میں یہ بھی نہیں کہوں گی کہ مجھے اپنی بیوی بنا لو کیونکہ میں ایک ناپاک لڑکی ہو ں۔ مجھے تربیت دینے والوں نے پتھر بنا دیا تھا ۔ میں یہ بھی سمجھتی تھی کہ میرے اندر انسانی جذبات نہیں رہے لیکن خدا نے مجھے بڑے ہی پُر ہول طریقے سے سمجھا دیا کہ انسان پتھر نہیں بن سکتا اور وہ ایک نہ ایک دن مجبور ہو کر کسی سے پوچھتا ہے کہ سیدھا راستہ کون سا ہے ''۔

رات گزرتی جا رہی تھی اور وہ دونوں باتیں کر رہے تھے ۔ احمد کمال نے اس سے پوچھا ……''تم جیسی لڑکیوں کو ہمارے ملک میں بھیج کر ان سے کیا کام لیا جاتا ہے ''۔

''بہت سے کام کرائے جاتے ہیں ''۔ لڑکی نے جواب دیا ۔ ''بعض کو مسلمان امراء کے حرموں میں مسلمان کے روپ میں داخل کر دیا جاتا ہے جہاں وہ تربیت کے مطابق امراء اور وزراء پر غالب آجاتی ہیں ۔ ان سے صلیبیوں کی پسند کے افراد کو عہدے دلاتی ہیں ۔ جو حاکم صلیبیوں کے خلاف ہو اس کے خلاف کروائیاں کراتی ہیں ۔ مسلمان لڑکیاں اتنی چالاک نہیں ہوتیں۔ انہیں خوبصورتی پر ناز ہوتا ہے ۔ وہ حرموں کے لیے منتخب تو ہوجاتی ہیں لیکن ایک عیسائی یا یہودی لڑکی انہیں بیکار کر کے اپنا غلام بنا لیتی ہے ۔ اس وقت تک اسلامی حکومت کے امیروں اور وزیروں اور قلعہ داروں کی آدمی تعداد کے فیصلے میری قوم کے حق میں ہوتے ہیں …… لڑکیوں کا ایک گروہ اوربھی ہے۔ یہ لڑکیاں اسلامی نام سے مسلمانوں کی بیویاں بن جاتی ہیں ۔ ان کا کام یہ ہے کہ اچھے درجے کے مسلمان گھرانوں کی لڑکیوں کے دماغ اور کردار خراب کرتی ہیں ۔ ان کے لڑکوں کو بدی کے راستے پر ڈالتی اور شریف گھرانوں کی لڑکیوں اور لڑکوں کے معاشقے کراتی ہیں ۔ مجھ جیسی صلیبی لڑکیاں چوری چھپے تمہارے ایسے حاکموں کے پاس آتی ہیں جو ہمارے ہاتھ میں کھیل رہے ہوتے ہیں ۔ ان حاکموں کو سونے کے سکے کی صورت میں معاوضہ ملتا رہتا ہے۔ وہ مجھ جیسی لڑکیوں کو حفاظت میں ایسے طریقے سے رکھتے ہیں ، جن سے ان پر ذرا سا شک نہیں ہوتا ۔ یہ لڑکیاں اعلیٰ درجے کے حاکموں کے درمیان رقابت اور غلط فہمیاں پیدا کرتی اور صلاح الدین ایوبی اور نورالدین زنگی کے خلاف نا پسند یدگی پیدا کرتی ہیں ۔ مجھے دو لڑکیوں کے ساتھ اسی کام کے لیے رجب کے حوالے کیا گیا تھا ''۔
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: داستان ایمان فروشوں کی ۔۔جلد اول مکمل

Post by ایکسٹو »


وہ اس صلیبیوں کی درپردہ کاروائیوں اور مسلمانوں کی ایمان فروشی کی تفصیل سناتی رہی ۔ احمد کمال سنتا رہا ۔



دوسرے دن سورج غروب ہونے سے بہت پہلے یہ قافلہ قاہرہ پہنچ گیا ۔ احمد کمال علی بن سفیان کے پاس گیا اور اسے لڑکی کے متعلق تمام رپورٹ دے کر لڑکی اس کے حوالے کر دی ۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ رجب حبشیو ں کے پاس ہے اور اس نے اس جگہ کو اڈہ بنا رکھا ہے ۔جہاں حبشی لڑکی کی قربانی دیا کرتے تھے ۔ احمد کمال نے یہ بھی کہا کہ اگر اسے حکم دیا جائے تووہ رجب کو زندہ یامردہ وہاں سے لا سکتا ہے ۔ علی بن سفیان نے ایسا حکم نہ دیا کیونکہ اس مقصد کے لیے اس کے پاس تربیت یافتہ فوجی تھے ۔ احمد کمال نے وہ طریقہ بتا دیا جس سے رجب تک پہنچا جا سکتا تھا ۔ اس نے یہ طریقہ لڑکی کی سنائی ہوئی باتوں کے مطابق سوچا تھا ۔ علی بن سفیان پہلے ہی ایک پارٹی سوڈانی بھیج چکا تھا ۔ اس نے لڑکی سے تفتیش کرنے سے پہلے چار نہایت ذہین کماندار بلائے اور انہیں احمد کمال کے حوالے کرکے حکم دیا کہ اس کے مطابق وہ فوراً سوڈان چلے جائیں اور رجب کو لانے کی کوشش کریں ۔ اس نے احمد کمال کو واپسی سے پہلے آرام کے لیے بھیج دیا اور لڑکی کو اپنے پاس بلا یا۔

لڑکی سے اس نے پہلا سوال کیا تو لڑکی نے جواب دیا ۔ ''احمد کمال میرے سامنے بیٹھا رہے گا تو جو پوچھو گے بتا دوں گی ورنہ زبان نہیں کھولوں گی خواہ جلاد کے حوالے کر دو ''۔

علی بن سفیان نے احمد کمال کو بلا کر اس کے سامنے بٹھا دیا ۔ لڑکی نے مسکرا کر بولنا شروع کر دیا ۔ اس نے کچھ بھی نہ چھپایا اور آخر میں کہا ۔''مجھے سزا دینی ہے تو میری ایک آخری خواہش پوری کر دو ۔ میں احمد کمال کے ہاتھ سے مرنا چاہتی ہوں ''۔ اس نے تفصیل سے سنا دیا کہ وہ احمد کمال کی مرید کیوں بن گئی ہے ۔

علی بن سفیان نے لڑکی کو قید میں ڈالنے کی بجائے احمد کمال کی تحویل میں رہنے دیا اور سلطان ایوبی کے پاس چلا گیا ۔ سے لڑکی کا سارا بیان سنایا ۔ ا س نے کہا ……''آپ کا معتمد فیض الفاطمی ہمارا دشمن ہے ۔ لڑکیوں کو اس کے پاس آنا تھا ''…… سلطان ایوبی کا فوری رد عمل یہ تھا ……''وہ جھوٹ بکتی ہے ۔ تمہیں گمراہ کر رہی ہے ۔ فیض الفاطمی ایسا حاکم نہیں ''۔

''امیر محترم !'' آپ بھول گئے ہیں کہ وہ فاطمی ہے ؟…… علی بن سفیان نے کہا ……''آپ شاید یہ بھی بھول گئے ہیں کہ فاطمی اور فدائیوں کا گہرا رشتہ ہے ۔ یہ لوگ آپ کے وفادار ہو ہی نہیں سکتے ''۔

سلطان ایوبی گہری سوچ میں کھو گیا ۔ وہ غالباً سوچ رہا تھا کہ کس پر بھروسہ کرے ۔ کچھ دیر بعد اس نے کہا ……''علی !میں تمہیں یہ اجازت نہیں دوں گا کہ فیض الفاطمی کو گرفتار کر لو ۔ کوئی ایسی ترکیب کرو کہ وہ جرم کرتا ہوا پکڑا جائے ۔ میں اسے موقع پر پکڑنا چاہتا ہوں اور یہ موقع پیدا کرنا تمہارا کام ہے ۔ وہ جنگ جیسے اہم شعبے کا حاکم ہے ۔ سلطنت کے جنگی راز اس کے پاس ہیں ۔ مجھے بہت جلدی یہ ثبوت چاہیے کہ وہ ایسے گھنائونے جرم کا مجرم ہے یا نہیں ''۔

علی بن سفیان سراغرسانی کا ماہر تھا ۔ خدا نے اسے دماغ ہی ایسا دیا تھا ۔ اس نے ایک ترکیب سوچ لی اور سلطان ایوبی سے کہا ……''لڑکی جن مراحل سے گزر کر آئی ہے ان کی دہشت نے اس کا دماغ مائوف کر دیا ہے اور وہ احمد کمال کے لیے جذباتی ہو گئی ہے کیونکہ اس شخص نے اسے دہشت سے بچایا اور ایسا سلوک کیا ہے کہ لڑکی اس کے بغیر بات ہی نہیں کرتی۔ مجھے امید ہے کہ میں اس لڑکی کو استعمال کر سکوں گا ''۔

''کوشش کر دیکھو ''۔سلطان ایوبی نے کہا …… ''لیکن یاد رکھو ، میں واضح ثبوت اور شہادت کے بغیر اجازت نہیں دوں گا کہ فیض الفاطمی کو گرفتار کر لو ۔ مجھے ابھی تک یقین نہیں آرہا کہ وہ بھی دشمن کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے ''۔

علی بن سفیان لڑکی کے پاس گیا اور اسے اپنا مدعا بتایا ۔ لڑکی نے کہا ……''احمد کمال کہے تو میں آ گ میں بھی

کود جائوں گی ''…… احمد کمال نے اسے کہا ……''جیسے یہ کہتے ہیں ویسے کردو ۔ اس کی بات سمجھ لو ''۔

''اس کا مجھے کیا انعام ملے گا ؟''…… لڑکی نے پوچھا ۔

'' تمہیں پوری حفاظت کے ساتھ فلسطین کے قلعہ شوبک میں پہنچا دیا جائے گا ''…… علی بن سفیان نے کہا …… ''اور یہاں تمہیں پوری حفاظت سے رکھا جائے گا ''۔

''نہیں !'' ……لڑکی نے کہا ……''یہ انعام بہت تھوڑا ہے ۔ مجھے منہ مانگا انعام دو ۔ میں اسلام قبول کرلوں گی اور احمد کمال میرے ساتھ شادی کر لے ''۔

احمدکمال نے صاف انکار کر دیا ۔ علی بن سفیان اسے باہر لے گیا ۔ احمد کمال نے اسے کہا کہ یہ بے شک اسلام قبول کر لے لیکن میں اسے پھر بھی اسلام کا دشمن ہی سمجھوں گا ۔ علی بن سفیان نے اسے کہا …… ''ملک اورقوم کی سلامتی کی خاطر تمہیں یہ قربانی دینی ہوگی ''……احمد کمال مان گیا ۔ اس نے اندر جا کر لڑکی سے کہا ……''میں تمہیں چونکہ ابھی تک بے اعتبار لڑکی سمجھ رہا ہوں اس لیے شادی سے انکار کیا ہے ۔ اگر تم ثابت کر دو کہ تمہارے دل میں میرے مذہب کے لیے قربانی کا جذبہ ہے تو میں تمام عمر تمہارا غلام رہوں گا ''۔

لڑکی نے علی بن سفیان سے کہا …… ''کہو مجھے کیا کرنا ہے ۔ میں بھی دیکھ لوں گی کہ مسلمان اپنے وعدے کے کتنے پکے ہوتے ہیں ۔ میری ایک شرط یہ بھی ہے کہ احمد کمال میرے ساتھ رہے گا ''۔

علی بن سفیان نے اس کی یہ شرط بھی مان لی اور اپنے ایک اہلکار کو بلا کر احمد کمال اور لڑکی کے لیے رہائش کے انتظام کا حکم دے دیا ۔ اس نے دروازہ بند کر لیا اور لڑکی کو احمد کمال کی موجودگی میں بتانے لگا کہ اسے کیا کرنا ہے ۔

٭ ٭ ٭

تیسرے دن علی بن سفیان کے بھیجے ہوئے آدمی حبشیوں کی اس مقدس جگہ پہنچ گئے جہاں سے لڑکیاں بھاگی تھیں اور جہاں رجب حبشیوں کا قیدی تھا۔ یہ چھ آدمی تھے اور سب اونٹوں پر سوار تھے۔ انہوں نے بھیس نہیں بدلا تھا ۔ وہ مصری فوج کے لباس میں تھے ۔ ان کے پاس برچھیاں ، تیر و کمان اور تلواریں تھیں ۔ انہیں احمد کمال نے لڑکیوں کی روئیداد سنادی تھی ۔ اس کے مطابق علی بن سفیان نے انہیں طریقہ کار سمجھا دیا تھا ۔ وہ پہاڑی خطے کے اندر گئے جسے پہاڑیوں نے قلعہ بنا رکھا تھا ۔ ایک برچھی نہ جانے کہاں سے آئی اور مین میں گڑ گئی ۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ رُک جائو ، تم گھیرے میں ہو ۔ وہ رُک گئے ۔ حبشی پروہت سامنے آیا ۔ اس کے ساتھ تین حبشی تھے جن کے پاس برچھیاں تھیں ۔ حبشی نے انہیں خبردار کیا کہ وہ اس کے چھپے ہوئے تیر اندازوں کی زد میں ہیں ۔ اگر انہوں نے کوئی غلط حرکت کی تو ان میں سے کوئی بھی زندہ نہیں رہے گا ۔

سب نے اپنے ہتھیار حبشیوں کے آگے پھینک دئیے اور اونٹوں سے اُتر آئے ۔ ان کے قائد نے حبشی پروہت سے ہاتھ ملا کر کہا ……''ہم تمہارے دوست ہیں ۔ محبت لے کر آئے ہیں ، تمہاری محبت لے کے جائیں گے …… کیا تم نے تینوں لڑکیوں کی قربانی دے دی ہے ؟''……

''ہم مصری فوج کے باغی ہیں ''…… جماعت کے قائد نے جواب دیا ……''ہم تمہاری اس فوج کے سپاہی ہیں جو مسلمانوں سے تمہارے دیوتا کی توہین کا انتقام لے گی ۔ ہمیں تمہارے آدمیوں نے بتایا تھا کہ انہیں شکست اس لیے ہوئی ہے کہ لڑکی کی قربانی نہیں دی جا سکی ۔ ہم رجب کے ساتھ تھے ۔ ہم نے اسے کہا کہ ہم تین فرنگی لڑکیاں اغوا کر کے لے آئیں گے اور ایک کی بجائے تین لڑکیاں قربان کریں گے اور دیوتا کے مگر مچھوں کو کھلائیں گے۔ ہم بڑی دور سے تین لڑکیاں ورغلا کر اور بہت سے لالچ دے کر لے آئے اور رجب کے حوالے کر دی تھیں ۔ وہ انہیں یہاں لے آیا تھا ۔ ہم یہ دیکھنے آئے ہیں کہ لڑکیوں کی قربانی دی جاچکی ہے یا نہیں ''۔

حبشی پروہت دھوکے میں آگیا ۔ اس نے کہا ……''رجب نے ہمارے ساتھ کمینگی کی ہے ۔ وہ لڑکیاں لے آیا تھا مگر اس کی نیت خراب ہو گئی تھی ۔ اس نے لڑکیوں کو یہاں سے بھگا دیا لیکن ہم نے اسے بھاگنے نہیں دیا ۔ اسے پوری سزا دی ہے ۔ لڑکیاں ہمارے ہاتھ سے نکل گئی ہیں ۔ کیا تم دو لڑکیوں کا بندوبست کر سکتے ہو؟ دیوتائوں کا قہر سخت ہوتا جا رہا ہے ''۔

''ہم ضرور بندوبست کریں گے ''……قائد نے کہا …… ''تھوڑے دنوں تک ہم دو لڑکیاں لے آئیں گے ۔ہمیں رجب کے پاس لے چلو ۔ ہم اس سے پوچھیں گے وہ لڑکیاں کہاں ہیں ؟''

حبشی پروہت سب کو اپنے ساتھ لے گیا ۔ ایک جگہ مٹی کا ایک چوڑا اور گول برتن رکھا تھا جو ایسے ہی ایک برتن سے ڈھکا ہوا تھا ۔ پروہت نے اوپر والا برتن اُٹھا کر نیچے والے برتن میں ہاتھ ڈالا۔ جب اس نے ہاتھ باہر نکالا تو اس کے ہاتھ میں رجب کا سر تھا ۔ چہرے کا ہر ایک نقش بالکل صحیح اور سلامت تھا ۔ آنکھیں آدھی کھلی ہوئی تھیں ۔ منہ بند تھا۔ یہ سر اور چہرہ گردن سے کاٹ کر جسم سے الگ کر دیاگیا تھا ۔ اس سے پانی ٹپک رہاتھا۔ یہ کوئی دوائی تھی جس میں حبشیوں نے سر ڈالا ہواتھا تا کہ خراب نہ ہو ۔پروہت نے کہا …… ''اس کا جسم مگر مچھوں کو کھلا دیا گیا ہے ۔ اس کے ساتھیوں کو ہم نے زندہ جھیل میں پھینک دیا تھا ۔ مگر مچھ بھوکے تھے ''۔

''اگر ہمیں یہ سر دے دو تو ہم اپنے ساتھیوں کو دکھائیں گے ''۔ایک نے کہا …… ''اور انہیں بتائیں گے کہ جو انگوک کے دیوتا کی توہین کرے گا اس کا یہ انجام ہوگا ''۔

''تم اس شرط پر لے جا سکتے ہو کہ کل سورج غروب ہونے سے پہلے واپس لے آئو گے ''……پروہت نے کہا ……''یہ انگوک کے دیوتا کی ملکیت ہے ۔ اگر واپس نہیں لائوگے تو تمہارا سر جسم سے جدا ہوجائے گا ''۔

٭ ٭ ٭

تیسرے روز رجب کا سر سلطان صلاح الدین ایوبی کے قدموں میں پڑا تھا اور سلطان ایوبی گہری سوچ میں کھویا ہوا تھا ۔

اسی رات کا واقعہ ہے …… احمد کمال اور لڑکی اس مکان کے برآمدے میں سوئے ہوئے تھے جو انہیں رہائش کے لیے دیا گیا تھا ۔ اس مکان میں رہتے ہوئے انہیں چھ روز گزر گئے تھے ۔ اس دوران لڑکی احمد کمال سے کہتی رہی تھی کہ وہ فوراً مسلمان ہونے کو تیار ہے اور احمد کمال اس کے ساتھ شادی کر لے ، لیکن احمد کمال ایک ہی جواب دیتاتھا …… ''پہلے فرض پورا کریں گے ''……لڑکی نے دو تین بار اس خدشے کا اظہار بھی کیا تھا کہ اس کے ساتھ دھوکہ ہوگا ۔ احمد کمال اسے ابھی ایک ہاتھ دور ہی رکھنے کی کوشش کر رہا تھا ۔ اس دوران لڑکی کے دل سے دہشت اُتر گئی تھی اور اب وہ ہوشمندی سے سوچنے کے قابل ہو گئی تھی ۔

اس رات وہ اور احمد کمال برآمدے میں سوئے ہوئے تھے ۔ باہر ایک سپاہی پہرے پر کھڑا تھا ۔ آدھی رات سے کچھ دیر پہلے پہرہ دار مکان کے اردگرد گھومنے کے لیے آہستہ آہستہ چلا تو کسی نے پیچھے سے اس کی گردن بازو میں جکڑ لی ۔ فوراً بعد اس کے منہ پر کپڑا باندھ دیا گا۔ ہاتھ اور پائوں بھی رسیوں میں جکڑے گئے۔ وہ چار آدمی تھے ۔ مکان کا دروازہ اندر سے بند تھا ۔ ایک آدمی دیوار سے پیٹھ لگا کر کھڑا ہوگیا دوسرا اس کے کندھوں پر چڑھ کر دیوار پھلانگ گیا ۔ اندر سے اس نے دروازہ کھول دیا ۔ باقی تین آدمی بھی اندر چلے گئے ۔ ایک جو سب سے زیادہ قوی ہیکل تھا ، اس نے لڑکی کے منہ پر کپڑا باندھ دیا ۔ لڑکی کے جاگنے تک اس نے لڑکی کو دبوچ لیا اور اُٹھا کر کندھے پر ڈال لیا ۔ تین آدمیوں نے احمد کمال کو رسیوں سے جکڑ کر اور منہ پر پکڑا باندھ کر پلنگ پر ہی پڑا رہنے دیا ۔ اسے مزاحمت کی مہلت ہی نہ ملی ۔ باہر جا کر انہوں نے لڑکی پر کمبل ڈال دیا تا کہ کوئی دیکھ لے تو اسے پتہ نہ چل سکے کہ اس آدمی کے کندھوں پر لڑکی ہے ۔

شہر سے چار میل دور فرعونوں کے وقتوں کی ایک وسیع و عریض اور بھول بھلیوں جیسی عمارت کے کھنڈر تھے۔ ان کے متعلق لوگ بہت سی ڈرائونی باتیں کیا کرتے تھے کہ عمارت کے اندر ایک بلند چٹان ہے ۔ اس چٹان کو کاٹ کر بہت سے کمرے اور ان کمروں کے نیچے بھی کمرے بنے ہوئے تھے ۔ان کے اندر وہی جا کر واپس آ سکتا تھا جو ان سے واقف تھا ۔ بہت مدت سے کسی نے ان کھنڈروں کے اندر جانے کی جرأت نہیں کی تھی ۔ مشہور ہو گیا تھا کہ اندر جنوںبھوتوں کا بسیرا ہے۔ اندر سانپوں کا بسیرا تو ضرور ہی تھا ۔ سانپوں کے ڈر سے کوئی اس کھنڈر کے قریب سے بھی نہیں گزرتا تھا ۔ بڑی خوفناک کہانیاں سنائی جاتی تھیں۔ اس کے باوجود یہ چار آدمی جو لڑکی کو اغوا کر کے لے گئے تھے ۔ ان کھنڈروں میں داخل ہوگئے اور داخل بھی اس طرح ہوئے جیسے یہی ان کا گھر ہے ۔

وہ غار نما کمروں گردشوں او ر اندھیری گلیوں میں سے بغیر رکے گزرتے گئے ۔ آگے مشعلوں کی روشنی تھی ۔ ان کے قدموں کی آہٹوں سے چمگاڈر اُڑتے اور پھڑ پھڑاتے تھے ۔ چھپکلیاں اور رینگنے والی کئی چیزیں ادھر ادھر بھاگتی پھر رہی تھیں ۔ اندر مکڑیوں کے جالے اور کائی بھی تھی ……وہ چٹان میں بنے ہوئے ایک کمرے میں داخل ہوگئے۔ وہاں ایک آدمی مشعل لیے کھڑا رہا تھا جو ان کے آگے آگے چل پڑا ۔ آگے سیڑھیاں تھیں جو نیچے اُترتی تھیں۔ وہ سب نیچے اُتر گئے اور ایک طرف مڑ کر ایک وسیع کمرے میں داخل ہوگئے ۔ وہاں فرش پر بستر بچھا تھا ۔ اس کے ساتھ بڑی خوشنما دری تھی ۔ کمرہ سجا ہوا تھا ۔ لڑکی کو بستر پر ڈال کر اس کے منہ سے کپڑا کھول دیا گیا ……لڑکی غصے سے بولی ……''میرے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا گیا ہے ؟ میں مرجائوں گی کسی کو اپنے قریب نہیں آنے دوں گی ''۔

''اگر تمہیں وہاں سے اُٹھوا نہ لیا جاتا تو کل صبح تمہیں جلاد کے حوالے کر دیا جاتا ''۔ ایک آدمی نے کہا ……''میرا نام فیض الفاطمی ہے ۔ تمہیں میرے پاس آنا تھا ۔ باقی دو کہاں ہیں ؟ تم اکیلی کیسے پکڑی گئی ہو ؟ رجب کہاں ہے ؟''۔

لڑکی مطمئن ہوگئی اور بولی …… '' میں خدا کا شکر بجا لاتی ہوں جس نے مجھے بڑی بڑی خوفناک مصیبتوں سے بچا لیا ۔ میں منزل پر پہنچ گئی ہوں'' …… اس نے فیض الفاطمی کو رجب ، حبشیوں ، آندھی ، دولڑکیوں کی موت اور احمد کمال کے ہتھے چڑھ جانے کی ساری روئیداد سنا دی ۔ فیض الفاطمی نے اسے تسلی دی اور ان چار آدمیوں کو جو لڑکی کو اُٹھا لائے تھے ، سونے کے چھ چھ ٹکڑے دئیے اور کہا …… ''تم اب اپنی اپنی جگہ سنبھال لو ۔ میں تھوڑی دیر بعد چلا جائوں گا ۔ یہ لڑکی تین چار روز یہیں رہے گی ۔ میں رات کو آیا کروں گا ۔باہر جب اس کی تلاش ختم ہو جائے گی تو میں اسے لے جائوں گا ''۔



چاروں آدمی چلے گئے اور کھنڈر کے چاروں طرف ایسی جگہوں پر بیٹھ گئے جہاں سے باہر نظر رکھی جا سکتی تھی ۔ فیض الفاطمی کے ساتھ ایک ہی آدمی اندر رہ گیا جو مصری فوج کا کماندار تھا ۔ اندر فیض الفاطمی اپنی کامیابی پر بہت خوش تھا اور دو لڑکیوں کی موت کا اسے غم بھی تھا ۔ اسے جب کے انجام کا بھی علم نہیں تھا ۔ اس نے کہا ……''رجب کو وہاں سے نکالنا ضروری ہے ۔ اس نے علی بن سفیان اور صلاح الدین ایوبی کے قتل کا کچھ انتظام کیا تھا جس کا مجھے علم نہیں کہ کیا تھا ۔ اس نے غالباً فدائیوں سے معاملہ طے کیا ہے ۔ یہ دونوں قتل اب بہت ضروری ہوگئے ہیں ۔ اب ہمیں کوئی نیا منصوبہ بنانا ہے ۔ میں دوسرے ساتھیوں سے بات کر کے تمہیں کل بتائوں گا ۔ ابھی آرام کرو۔ مجھے واپس جانا ہے ''۔

''صلاح الدین ایوبی کو آپ پر اعتماد ہے ؟'' ……لڑکی نے پوچھا ۔

''اتنا زیادہ کہ اپنی ذاتی باتوں میں بھی مجھ سے مشورہ لیتا ہے ''……فیض الفاطمی نے جواب دیا ۔

''مجھے پتہ چلا ہے کہ اعلیٰ حکام میں صلاح الدین ایوبی کے وفاداروں کی تعداد بہت زیادہ ہے ''…… لڑکی نے کہا ……''اور فوج بھی اس کی وفادار ہے ''۔

''یہ صحیح ہے ''……کماندار جووہاں موجود تھا بولا ……''اس کا سراغرسانی کا محکمہ بہت ہوشیار ہے جہاں کوئی سر اُٹھاتا ہے ۔ اس کی نشاندہی ہوجاتی ہے ۔ اعلیٰ حکام میں دو اور ہیں جو صلاح الدین ایوبی کے خلاف کام کر رہے ہیں ۔ ان کے نام آپ کو محترم فیض الفاطمی بتا سکیں گے ''۔

فیض الفاطمی نے دونوںنام بتا دئیے اور مسکرا کر لڑکی سے کہا ……''تمہیں اعلیٰ سطح پر ہی کام کرنا ہے ۔ صرف دو حکام کے درمیان چپقلس پیدا کرنی ہے اور دو کو زہر دینا ہے جو تم آسانی سے دے سکو گی مگر اب مشکل یہ پیدا ہوگئی ہے کہ تمہیں کسی محفل میں نہیں لے جاسکیں گے۔ تم پر دہ نشین مسلمان لڑکی کے بھیس میں کام کرو گی ، ورنہ پکڑ جائو گی۔ ہو سکتا ہے میں تمہیں واپس فلسطین بھیج دوں اور کسی اور لڑکی کو بلا لوں جسے یہاں کوئی پہچان نہ سکے۔ میرا گروہ بہت ذہین اور سرگرم ہیں ۔ یہ سالاروں سے نیچے کمانداروں کی سطح کا گروہ ہے ۔ یہ چار آدمی جو تمہیں اتنی دلیری سے اُٹھا لائے ہیں ، اسی گروہ کے افراد ہیں ۔ ہم نے ایوبی کی فوج میں بے اطمینانی پھیلانی شروع کر دی ہے ۔ قوم اور فوج کو ایک دوسرے سے منتظر کرنا ضروری ہے ۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ شامی اور ترک فوجی مصری عوام میں اپنے اچھے سلوک ، کردار اور لڑنے کے جذبے کی بدولت بہت مقبول ہیں اور عزت کی نگا ہ سے دیکھے جاتے ہیں ۔ سوڈانیوں کو شکست دے کر انہوں نے شہریوں کے دلوں میں عزت کا اضافہ کر لیا ہے ۔ ہمیں فوج کی اس عزت کو مجروح کرنا ہے۔ سالاروں اور دیگر فوج حکام کو رسوا کرنا ہے ۔ اس کے بغیر ہم صلیبیوں اور سوڈانیوں کی کوئی مدد نہیں کر سکتے ۔ باہر کا حملہ ناکام رہے گا ۔ فوج اسے کامیاب نہیں ہونے دے گی ۔قوم فوج کا ساتھ دے گی ۔ اگر اس وقت ایک طرف سے صلیبی اور دوسری طرف سے سوڈانی حملہ کردیں تو قوم اور فوج مل کر قاہرہ کو ایسا قلعہ بنا دے گی جسے فتح کرنانا ممکن ہوگا ۔ قاہرہ کو فتح کرنے کے لیے ہمیں زمین ہموار کرنی ہوگی ۔ لوگوں کے ذہنوں میں وہم اور وسوسے اور نوجوانوں کے کردار میں جنس پرستی اور آوارگی پیدا کرنی ہوگی ''۔

''مجھے بتایا گیا تھا کہ یہ کام دو سال سے ہورہا ہے ''……لڑکی نے کہا ۔

''خاصی کامیابی بھی ہوئی ہے ''……فیض الفاطمی نے کہا ……''بدکاری میں اضافہ ہوگیا ہے مگر صلاح الدین ایوبی نے ایک تو نئے مدرسے کھول دئیے ہیں ، دوسرے مسجدوں میں خطبے سے خلیفہ کا نام نکال کر کوئی اور ہی رنگ پیدا کر دیا ہے اور لڑکوں کو عسکری تعلیم دینی شروع کر دی ہے ''۔

٭ ٭ ٭

بات یہی تک پہنچی تھی کہ ان چار آدمیوں میں سے ایک آیا اور فیض الفاطمی سے کہا …… ''ابھی باہر نہ جانا کچھ گڑبڑ ہے ''۔

فیض الفاطمی گھبرایا ۔ اس آدمی کے ساتھ باہر چلا گیا ۔ ایک اونچی جگہ چھپ کر دیکھا ۔ آدھی رات کے پورے چاند نے باہر کے ماحول کو روشن کر رکھا تھا۔ اس نے کہا ……''تم لوگوں نے بے احتیاطی کی ہے ۔ یہ تو فوجی معلوم ہوتے ہیں ۔ گھوڑے بھی ہیں ۔ تم چاروں طرف سے دیکھو ، میں کدھر سے نکل جائوں ''۔

''میں دیکھ چکا ہوں''……اس آدمی نے جواب دیا …… ''یوں نظر آتا ہے جیسے ہم مکمل گھیرے میں ہیں ۔ آپ وہیں چلے جائیں ۔مشعلیں بجھا دیں ۔ وہاں سے نکلنے کی غلطی نہ کریں ۔ وہاں تک کوئی نہیں پہنچ سکے گا ''۔

فیض الفاطمی کھنڈروں میں غائب ہوگیا اور یہ آدمی جو پہرہ دے رہا تھا ۔ بلند جگہ سے اُتر کر اندر کو جانے کی بجائے دیواروں کے ساتھ ساتھ چھپتا باہر نکل گیا ۔ باہر کا یہ عالم تھا کہ پچاس کے قریب پیادہ فوجی تھے اور بیس پچیس گھوڑوں پر سوار تھے ۔ انہوں نے سارے گھنڈر کو گھیرے میں لے لیا تھا ۔ یہ پہرہ دار ان تک گیا اور ایک فوجی سے پوچھا ……''علی بن سفیان کہاں ہیں ؟''……اسے بتایا گیا تو وہ دوڑتا ہوا گیا ۔ اس دستے کی کمان علی بن سفیان خود کر رہا تھا ۔ اس کے ساتھ احمد کمال تھا ۔ پہرہ دا ر نے انہیں کہا ……''اندر کوئی ایسا خطرہ نہیں۔ آپ کے ساتھ دو آدمی بھی کافی ہیں ۔ میرے ساتھ آئیں ''……یہ پہرہ دار ان چار آدمیوں میں سے تھا جنہوں نے لڑکی کو اغوا کیا تھا ۔

علی بن سفیان نے دو مشعلیں روشن کرائیں۔ احمد کمال اور چار عسکریوںکو ساتھ لیا۔ دو کے ہاتھوں میں مشعلیں دیں ۔ سب نے تلواریں نکال لیں اور اس آدمی کے ساتھ کھنڈر میں داخل ہوگئے ۔ انہوں نے دیکھا کہ کوئی آدمی کسی طرف سے آیا اور دوڑتا ہوا اندر کی طرف چلا گیا ہے …… علی بن سفیان کے راہنما نے کہا ……''یہ ان کا آدمی ہے وہ اندروالوں کو خبردار کرنے چلا گیاہے ۔ آپ تیز چلیں ''……وہ سب دوڑ پڑے ۔ اگر یہ لوگ راہنما کے بغیر ہوتے تو ان بھول بھلیوں میں بھٹک جاتے یا ڈر کر وہاں سے بھاگ آتے ۔ راہنما کے ساتھ وہ بڑی اچھی رفتار سے جارہے تھے ۔ کسی طرف سے ایک اور آدمی دوڑتا آیا ۔ اس کی انہیں یہ آواز سنائی دی ……''میں ادھر جارہا ہوں۔ تیز چلو ''……یہ راہنما کا ساتھی تھا ۔

وہ اس چٹانی کمرے میں پہنچ گئے جس سے سیڑھیاں نیجے اُترتی تھیں ۔ نیچے سے انہیں آوازیں سنائی دیں ۔ ''ہمارے ساتھ دھوکہ ہوا ہے ۔ یہ دونوں ان کے آدمی ہیں ''……پھر تلواریں ٹکڑانے کی آوازیں سنائی دیں اور یہ بھی آواز آئی …… ''اسے بھی ختم کر دو ۔ یہ گواہی نہ دے سکے ''۔

علی بن سفیان اور احمدکمال مشعل برداروں کے پیچھے دوڑتے پھلانگتے نیچے اُترے۔ اس کمرے میں پہنچے تو وہاں خون بہہ رہا تھا ۔ لڑکی پیٹ پر دونوں ہاتھ رکھے ہوئے بیٹھی ہوئی تھی۔ فیض الفاطمی کے ساتھی جو کماندار تھا وہ اور ایک اور آدمی فیض الفاطمی اور ایک پہرہ دار سے لڑ رہے تھے ۔ علی بن سفیان نے فیض الفاطمی کو للکارا ۔ فیض الفاطمی نے جب اپنے خلاف بہت سی تلواریں دیکھیں تو اس نے تلوار پھینک دی ۔ احمد کمال نے دوڑ کر لڑکی کو سنبھالا ۔ اس کا پیٹ چاک ہو چکا تھا ۔ احمد کمال نے فرش پر بچھے ہوئے بستر سے چادر اُٹھا کر لڑکی کے پیٹ پرکس کر باندھ دی اور علی بنی سفیان سے کہا ……''مجھے اجازت ہو تو اسے باہر لے جائوں ؟''…… علی بن سفیان نے اسے اجازت دے دی۔ احمد کمال نے لڑکی کو بازوئوں پر اُٹھا لیا ۔ وہ سخت تکلیف میں تھی ۔ پھر بھی اس نے مسکرا کر احمد کمال سے کہا ……''میں نے فرض پورا کر دیا ہے ۔ تمہارے مجرم پکڑوا دئیے ہیں ''۔

فیض الفاطمی اور لڑکی کو اغوا کرنے والے چار میں سے دو آدمیوں کو گرفتار کر لیا گیا باقی دو آدمی اور ایک کماندار جو فیض الفاطمی کے ساتھ تھے ،علی بن سفیان کے آدمی تھے ۔ یہ ایک ڈرامہ تھا جو فیض الفاطمی کو موقعہ پر گرفتار کرنے کے لیے کھیلا گیا تھا ۔ لڑکی نے پورا پورا تعاون کیا لیکن زخمی ہو گئی ۔ یہ ڈرامہ اس طرح تیار کیا گیا تھا کہ لڑکی سے وہ خفیہ الفاظ معلوم کیے گئے جو اس کے گروہ کو ایک دوسرے کو پہچاننے کے لیے استعمال کرنے تھے ۔ لڑکی نے یہ بھی بتا دیا کہ اسے فیض الفاطمی کے پاس جانا تھا ۔ علی بن سفیان نے اپنے تین ذہین جاسوس استعما ل کیے جن میں ایک کماندار کے عہدے کا تھا ۔ انہیں خفیہ الفاظ بتائے اور کہا کہ وہ فیض الفاطمی تک رسائی حاصل کریں اور اسے بتائیں کہ تین میں سے ایک لڑکی یہاں آگئی ہے لیکن وہ فلاں مکان میں قید ہے جہاں سے اس نکالا جا سکتا ہے ۔ انہیں یہ بھی بتایا گیا کہ وہ فیض الفاطمی کو رجب کا جھوٹا پیغام دیں کہ اس لڑکی کو بچائو اور اپنی کاروائیاں تیز کردو۔

ان جاسوسوں نے تین دنوں کے اندر فیض الفاطمی تک رسائی حاصل کر لی اور اس پر ثابت کر دیا کہ وہ اس کے زمین دوز گروہ کے افراد ہیں ۔ فیض الفاطمی کو یہ خطرہ بھی تھا کہ لڑکی چونکہ قیدمیں ہے اس لیے اذیت کے زیر اثر بتا دے گی کہ وہ بھی اس کے ساتھ ہے ۔ فیض الفاطمی کے لیے اپنا تحفظ ضروری تھا ۔ لہٰذا اس نے لڑکی کے اغوا کا منصوبہ بنایا۔ اس میں اس نے کماندر کو اپنے ساتھ رکھا ۔دو آدمی علی بن سفیان کے بھیجے ہوئے اور دو اپنے ملا کر ان کے سپرد یہ کام دیا کہ وہ لڑکی کو اُٹھا لائیں گے اور کھنڈر میں پہنچا دیں ۔ اس کھنڈر کو انہوں نے کچھ عرصے سے اپنا خفیہ اڈہ بنا رکھا تھا۔ منصوبہ بن گیا تو علی بن سفیان تک پہنچ گیا ۔ پانچ چھ مردوں میں احمدکمال اورلڑکی کو بتایا گیا کہ وہ برآمدے میں سوئیں گے اور رات کے وقت لڑکی اغوا ہوگی جس کے خلاف وہ مزاحمت نہیں کریں گے۔ مکان کے باہر ہر وقت ایک سپاہی پہرے پر رہتاتھا ۔ اس رات جو آدمی پہرے پر تھا وہ سپاہی نہیں بلکہ علی بن سفیان کے محکمے کا جاسوس تھا ۔ اسے معلوم تھا کہ رات کو اس پر حملہ ہوگا اور حملہ کس طرح کا ہوگا ، حملہ کرنے والا علی بن سفیان کا آدمی تھا ۔ اگر فیض الفاطمی کا آدمی ہوتا تو وہ اسے خنجر مار کر ہلاک کردیتا ۔

اس رات فیض الفاطمی اور کماندار کھنڈر میں چلے گئے ۔ مقررہ وقت پر پہرے دار پرحملہ ہوا ۔ دیوار پھلانگی گئی۔ اس وقت احمد کمال جاگ رہا تھا ۔ اس نے دیکھا کہ لڑکی کو اُٹھا لیا گیا ہے لیکن وہ آنکھیں بند کر کے لیٹا رہا ۔ اس نے تڑپنا اس وقت شروع کیا جب وہ رسیوں میں بندھ چکا تھا ۔ لڑکی کو کھنڈر میں پہنچا دیا گیا ۔ یہ ڈرامہ اس لیے کھیلا گیا تھا کہ فیض الفاطمی نے اغوا کا منصوبہ بنایا اور اس میں اپنے دو آدمی شامل ر دئیے تھے۔ ان پر یہ ظاہرکرنا تھا کہ یہ حقیقی اغواز ہے اور اس میں کوئی دھوکہ فریب نہیں ۔ آخر دم تک شک نہ ہوا ۔ اغوام کے بعد علی بن سفیان نے پہرہ دار اور احمد کمال کی رسیاں کھولیں ۔ پیادہ سپاہی اور سوار تیا رتھے ۔ تھوڑے سے وقفے کے بعدوہ کھنڈر کی طرف روانہ ہوگئے اور کھنڈر کو گھیرے میں لے لیا ۔

انہیں سب سے پہلے علی بن سفیان کے ہی ایک آدمی نے دیکھا جس نے فیض الفاطمی کو جا کر اطلاع دی ۔ اسے باہر لا کر گھیرا دکھایا اور یہ مشورہ دیا کہ وہ اسی کمرے میں چلا جائے ۔ اس ادھر بھیج کر یہ آدمی باہر نکل گیا اور علی بن سفیان اور احمد کمال کو اندر لے گیا ۔ یہ اس آدمی کی دانشمندی تھی کہ اس نے فیض الفاطمی کو اسی کمرے میں چھپے رہنے پر قائل کر لیا تھا۔ اگر وہ کھنڈر کے بھول بھلیوں جیسے کمروں ، برآمدوں ، گلیوں اور تہہ خانوں میں نکل جاتا تو اسے پکڑنا آسان نہ ہوتا ۔ کھنڈربہت وسیع اور پیچیدہ تھا ۔ باہر تو چاندنی تھی لیکن اندر تاریکی تھی جس میں تعاقب کیا جاتا تو اپنے آدمیوں کے مارے جانے کا بھی خطرہ تھا ۔ بالکل آخری وقت فیض الفاطمی کو پتہ چلا کہ کماندار اور دو آدمی اس کے ساتھی نہیں بلکہ اسے دھوکے میں یہاں لائے ہیں۔ لڑکی سے یہ غلطی ہوئی کہ اس کے منہ سے کچھ ایسے الفاظ نکل گئے جس سے ظاہر ہوگیا کہ یہ بھی اس دھوکے میں شریک ہے ۔ فیض الفاطمی کے دو ساتھی اس کے پاس پہنچ گئے ۔دھوکہ بے نقاب ہوگیا اورلڑائی شروع ہوگئی۔ فیض الفاطمی نے لڑکی کے پیت میں نوک کی طرف سے تلوار ماری اور اس کا پیٹ چاک کر دیا۔ اس نے لڑکی کو غالباً اس لیے بھی قتل کرناضروری سمجھا تھا کہ وہ اس کے خلاف گواہی دینے کے لیے بھی زندہ نہ رہے۔

فیض الفاطمی اور اس کے ساتھیوں کو قید میں ڈال دیا گیا۔ علی بن سفیان نے تینوں کو الگ الگ قید میں رکھا اور تینوں کو رجب کا سر دکھا کر کہا ……'' اپنے دوست کا انجام دیکھ لو ۔ اگر تمہیں یہ توقع ہے کہ تمہیں فوراً سزا دے دی جائے گی تو یہ خیال دماغوں سے نکال دو۔ جب تک اپنے پورے گروہ کو سامنے نہیں لائو گے تمہیں چکر شکنجے میں باندھے رکھوں گا ۔ جینے بھی نہیں دوں گا مرنے بھی نہیں دوں گا ''۔

لڑکی کی حالت اچھی نہیں تھی ۔ طبیبوں اور جراحوں نے اسے بچانے کی پوری کوشش کر ڈالی مگر کٹی ہوئی انتڑیوں کا کوئی علاج نہ ہو سکا۔ وہ پھر بھی مطمئن تھی جیسے اسے پیٹ کے مہلک زخم کی پروا ہی نہیں تھی ۔ اس کا ایک ہی مطالبہتھا کہ احمد کمال کو میرے پاس بیٹھا رہنے دو۔ سلطان ایوبی بھی اس کی عیادت کے لیے آیا ۔ احمد کمال امیر مصر اور اپنی فوج کے سالار اعلیٰ کو دیکھ کر تعظیم کے لیے اُٹھا تو لڑکی نے اسے ہاتھ سے پکڑ کر اپنے پاس بٹھا لیا۔ احمد کمال سلطان ایوبی کی موجودگی میں بیٹھ نہیں سکتا تھا ۔ آخر سلطان نے اسے لڑکی کے پاس بیٹھنے کی اجازت دے دی ۔ سلطان ایوبی نے لڑکی کے سر پر ہاتھ پھیرا اور شفقت سے صحت یابی کی دعا دی ۔

تیسری رات احمد کمال لڑکی کے سرہانے بیٹھا ہوا تھا ۔ لڑکی نے انوکھے سے لہجے میں پوچھا …… ''احمد! تم نے میرے ساتھ شادی کر لی ہے نا! …… میں نے اپنا وعدہ پورا کیا ، تم نے اپنا وعدہ پورا کر دیا ہے ۔ خدا نے میرے گناہ بخش دئیے ہیں ''…… اس کی زبان لڑکھڑانے لگی ۔ اس نے احمد کمال کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں مظبوطی سے پکڑ لیا مگر گرفت فوراً ڈھیلی پڑگئی ۔احمد کمال نے کلمہ شریف پڑھا اور لڑکی کوخدا کے سپرد کر دیا ۔ دوسرے دن سلطان ایوبی کے حکم کے مطابق لڑکی کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر دیا گیا۔

فیض الفاطمی نے اور اس کے ساتھیوں نے صرف دو دن اذیتیں سہیں اور اپنے گروہ کی نشاندہی کر دی ۔ ان لوگوں کو بھی پکڑ گیا ۔ مراکشی وقائع نگار اسد الا سدی نے سلطان ایوبی کے وقت کے ایک کاتب کے حوالے سے لکھاہے کہ سلطان ایوبی نے جب فیض الفاطمی کی سزائے موت پر دستخط کیے تو سلطان زار و قطار رونے لگے تھے ۔

اس کے ساتهہ ہی قصہ"لڑکی جو فلسطین سے آئ تهی" یہیں تمام ہوتا ہے.

صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: داستان ایمان فروشوں کی ۔۔جلد اول مکمل

Post by ایکسٹو »

"جب زہر نے زہر کو کاٹا"




یہ واقعہ ١١٧١ء کا ہے۔

قاہرہ میں ایک مسجد تھی جو اتنی بڑی نہیں تھی کہ لوگ وہاں جمعہ کی نماز پڑھتے اور اتنی چھوٹی بھی نہیں تھی کہ نمازیوں کی کمی ہوتی ۔ یہ قاہرہ کے اس علاقے میں تھی جو شہر کا قریبی مضافات یا شہر کے باہر کا علاقہ تھا جہاں درمیانے اور اس سے کم درجے کے لوگ رہتے تھے ۔ مذہب کا احترام انہی لوگوں کے دلوں میں رہ گیا تھا مگر ان کی بد نصیبی یہ تھی کہ تعلیم سے بے بہرہ تھے ۔ جذباتی استدلال اور دلکش الفاظ سے فوراً متاثر ہوتے اور انہیں قبول کرلیتے تھے ۔صلاح الدین ایوبی نے مصر میں آکر جو نئی فوج تیار کی تھی اس میں ان کنبوں کے افراد زیادہ بھرتی ہوئے تھے جس کی دو وجوہات تھیں ۔ ایک تو یہ ذریعہ معاش تھا ۔ سلطان ایوبی نے فوج کی تنخواہ میں کشش پیدا کی تھی اور متعدد سہولتیں بھی تھیں ۔ دوسری وجہ یہ کہ یہ لوگ جہاد کو فرض سمجھتے تھے ۔وہ اسلام کے نام پرجان اور مال قربان کرنے کو تیار رہتے تھے ۔اس دور میں اس جذبے کی شدید ضرورت تھی ۔ سرکاری طور پر انہیں بتایا گیاتھا کہ صلیبی دنیا عالم اسلام کا نام و نشان مٹانے کے لیے اپنے تمام تر ذرائع اور ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے ۔

چھ سات مہینوں سے یہ گمنام سی مسجد مشہور ہوگئی تھی ۔ یہ شہرت نئے امام کی بدولت تھی جو عشاء کی نماز کے بعد درس دیا کرتا تھا ۔ پہلا پیش امام صرف تین روز پہلے ایسی بیماری سے مر گیا تھا جسے کوئی حکیم اور سیانا سمجھ ہی نہیں سکا ۔ وہ پیش کے درد اور آنتوں کی سوزش کی شکایت کرتا تھا ۔ اسی روگ سے مر گیا۔ وہ عام سا ایک مولوی تھا جو صرف نماز باجماعت پڑھاتا تھا ۔ اس کی وفات کے اگلے ہی روز سرخ و سفید چہرے اور بھوری داڑھی والا ایک مولوی آیا جس نے امامت کے فرائض اپنے ذمے لینے کی پیشکش کی ۔لوگوں نے اسے قبول کر لیا ۔ و ہ کہیں جھونپڑے میں رہتا تھا ۔ اس کی دو بیویاں تھیں ۔ اس نے لوگوں کو بتایا تھا کہ وہ علم کا شیدائی اور مذہب کے سمندر کا غوطہ خور ہے۔ وہ خاطر و مدارت کا لوگوں سے نذرانے وصول کرنے کا قائل نہیں تھا ۔ اس کی ضرورت صرف یہ تھی کہ اسے کشادہ اور اچھا مکان مل جائے جہاں وہ دو بیویوں کے ساتھ عزت سے اور پردے میں رہ سکے۔

لوگوں نے مسجد کے قریب ہی اسے ایک مکان خالی کر ادیا جس کے کئی ایک کمرے تھے ۔ لوگوں نے دیکھا ک وہ دونوں بیویوں کے ساتھ اس مکان میں آیا۔ بیویاں سیاں برقعوں میں مستور تھیں ۔ ان کے ہاتھ بھی نظر نہیں آتے تھے۔ پاپوش تک چھپے ہوئے تھے ۔ اسے لوگوں نے ضروری سامان وغیرہ دے کر آباد کر دیا ۔ لوگ ایک تو اس کی ظاہری شخصیت سے متاثر ہوئے لیکن جس جادو نے انہیں اس کا گرویدہ کیا وہ اس کی آواز کا جادو تھا۔ اس مسجد میں اس نے پہلی اذان دی تو جہاں جہاں تک اس کی آواز پہنچی سناٹا سا طاری ہوگیا ۔ ایک مقدس ترنم زمین و آسمان پر وجد طاری کر رہا تھا ۔ یہ ایک طلسم تھا جو ان لوگوں کو بھی مسجد میں لے گیا جو گھروں میں نماز پڑھتے یا پڑھتے ہی نہیں تھے ۔ اسی رات اس نے عشاء کی نماز کے بعد نمازیوں کو پہلا درس دیا اور انہیں کہا کہ وہ ہر رات درس دیا کرے گا ۔ چھ سات مہینوں میں اس نے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنالیا۔ بعض لوگ تو اس کے مریدبن گئے ۔اس مسجد میں جمعہ کی نماز نہیں پڑھی جاتی تھی۔ اس پیش امام نے جو دراصل عالم تھا ۔ وہاں جمعہ کی نماز بھی شروع کر دی ۔

چھ سات مہینوں بعد اس مسجد اور اس پیش امام کی شہرت دور دور تک پہنچ گئی۔ شہرکے بھی کچھ لوگ اس کے درس میں جانے لگے ۔ وہ اسلام کے جن بنیادی اصولوں پر زیادہ زور دیتا تھا وہ تھے عبادت اور محبت ۔ وہ لڑائی جھگڑے اور جنگ و جدل کے خلاف سبق دیتا تھا ۔ اس نے لوگوں کے ذہنوں میں یہ عقیدہ پختہ کر دیا تھا کہ انسان اپنی تقدیر خود نہیں بنا سکتا ۔ جو کچھ ہے وہ خدا کے ہاتھ میں ہے ۔ انسان کمزور سا ایک کیڑہ ہے ۔ اس عالم کا انداز بیان بڑا ہی پر اثر ہوتا تھا ۔ وہ قرآن ہاتھ میںلے کر ہر بات قرآن کی کسی نہ کسی آیت سے واضح کرتا تھا ۔ صلاح الدین ایوبی کی وہ بے حد تعریف کیا کرتا اور اکثر کہا کرتا ھا کہ یہ مصر کی خوش بختی ہے کہ اس ملک کی امارت اسلام کے ایسے شیدائی کے ہاتھ میں ہے ۔ اس نے جہاد کا فلسفہ اور مفہوم بھی پیش کیا تھا جو لوگوں کے لیے نیا تھا لیکن انہوں نے بلا حیل و حجت اسے تسلیم کر لیا۔

ایک رات عشاء کی نماز کے بعد وہ اپنا درس شروع کرنے لگا تو ایک آدمی نیاُٹھ کر عرض کی ……''عالم عالی مقام ! خدا آپ کے علم کی روشنی جنات تک اور اس مخلوق تک بھی پہنچائے جو ہمیں نظر نہیں آتی ۔ میں اپنے آٹھ دوستوں کے ساتھ بہت دور سے آیا ہوں۔ ہم آپ کے علم کی شہرت سن کر آئے ہیں ۔ اگر گستاخی نہ ہو اور عالم عالی مقام کی خفگی کا باعث نہ بنے تو ہمیں جہاد کے متعلق کچھ بتائیں ۔ ہم شک میں ہیں ۔ لوگوں نے بتایا ہے کہ ہمیں جہاد کا مطلب غلط بتایا جا رہا ہے ''۔

سات آٹھ آوازیں سنائی دیں …… ''ہم نے یہ درس نہیں سنا تھا ''۔

ایک نے کہا …… ''یہ وقت کی آواز ہے جو ہمارے کانوں میں بگاڑ کر ڈالی گئی ہے ۔ ہم صحیح بات سننا چاہتے ہیں ''۔

عالم نے کہا …… ''یہ قرآن کی آواز ہے جسے کوئی نہیں بگاڑ سکتا ۔ میرا فرض ہے کہ صحیح آواز کو ایک ہزار بار دہراؤںتا کہ یہ ہر ایک کان میں پہنچ جائے …… جہاد کا مطلب یہ نہیں کہ دوسروں کی زمین پر قبضہ کرنے کے لیے ان کی گردنیں کاٹو ۔ جہاد کا مطلب قتل و غارت نہیں ، خون خرابہ نہیں ''۔ اس نے قرآن میں سے ایک آیت پڑھی اور اس کی تفسیر یوں بیان کی ۔ ''یہ میرا علم نہیں ، یہ فرمان خداوندی ے کہ تم بدی اور گناہ کے خلاف لڑتے ہو تو اسے جہاد کہتے ہیںجو ہم سب پر فرض کر دیا گیا ہے ۔ کیا تم نے نہیں سنا کہ اسلام تلوار کے زور سے نہیں بلکہ پیار کے زور سے پھیلا ہے ؟ جہاد کی شکل بعد میں آکر بگڑی ہے اور یہ انہوں نے بگاڑی ہے جو بادشاہی کے دلدادہ ہیں۔ عیسائی بھی دوسروں کے ملکوں کو اپنی سلطنت بنانے کے لیے جنگ و جدل کو مقدس جنگ کہتے ہیں اور مسلمان بھی اسی ارادے سے قتل و غارت کو جہاد کہتے ہیں ۔ یہ صرف حکومتیں اور بادشاہیاں قائم کرنے کے ڈھنگ ہیں ۔ لوگوں کو مذہب کے نام بھڑکاکر لڑایا جاتا ہے اور اس طرح بادشاہوں کی بنیادیں مضبوط کی جاتی ہیں ''۔

''تو کیا امیر مصر صلاح الدین ایوبی ہمیں گمراہ کرکے لڑا رہا ہے ؟''اس آدمی نے پوچھا جس نے جہاد کا صحیح مطلب سمجھنا چاہا تھا ۔

''نہیں !''عالم نے جوا ب دیا ۔ ''صلاح الدین ایوبی پر اللہ کی رحمت ہو ۔ ا سے بڑوں نے جو بتایا ہے وہ سچے مسلمان کی حیثیت سے پوری نیک نیتی سے اس پر عمل کر رہاہے۔ اس کے دل میں عیسائیوں کے خلاف نفرت ڈالی گئی ہے ۔ وہ اس کے مطابق عمل کر رہاہے ذرا غور کروکہ عیسائی اور مسلمان میں کیا فرق ہے۔ دونوں کانبی مشترک ہے۔ آگے آکر ذرا اختلاف پیدا ہوگیا ہے ۔ حضرت موسیٰ محبت اور امن کا پیغام لائے تھے۔ ہمارے رسول صلی اللہ علی وسلم بھی محبت کا پیغام دے گئے ہیں۔ پھر تلوار اور زرہ بکتر کہاں سے آگئی ؟ یہ ان لوگوں کی لائی ہوئی چیزیں ہیں جو خدا کی اتنی پیاری زمین پر جس پر صرف اسی کی ذات باری کی حکمرانی ہے ، وہ اپنی حکومت قائم کرتے اور خدا کے بندوں کو اپناغلام بناتے ہیں ……میںامیر مصر کے دربار میں حاضری دوں گا اور اس کی خدمت اقدس میں جہاد کا صحیح نقطہ واضح کروں گا ۔ امیر مصر صلاح الدین ایوبی نے صحیح جہاد شروع کر رکھا ہے جو جہالت اور بے علمی کے خلاف ہے ۔اس نے خطبے سے خلیفہ کا نام نکال کر بہت بڑاجہاد کیا ہے۔ اس نے مدرسے کھول کر بھی جہاد کیا ہے لیکن مدرسوں میں یہ خرابی ہے کہ جہاں مذہب اور معاشرت کی تعلیم دی جاتی ہے وہاں عسکری تربیت بھی دی جاتی ہے ۔ بچوں کو خدا کے نام پر غارت گری کے سبق دئیے جاتے ہیں ۔ انہیں تیغ زنی اور تیر اندازی سکھائی جاتی ہے ۔ جب تم اپنے بچوں کے ہاتھوں میں تلوار اور تیر کمان دو گے تو انہیں یہ بھی بتائو گے کہ ان سے وہ کیسے ہلاک کریں ۔ ظاہر ہے کہ تم انہیں کچھ انسان دکھائو گے اور کہو گے کہ وہ تمہارے دشمن ہیں انہیں ہلاک کردو ''۔

عالم کی آواز میں ایسا تاثر تھا اور اس کے دلائل میں اتنی کشش تھی کہ سننے والے مسحور ہوتے جارہے تھے ۔ اس نے کہا ……''اپنے بچوں کو دوزخ کی آگ سے بچائو۔ ان کے ساتھ تم بھی دوزخ میںجائو گے کیونکہ اپنے بچوں کو غلط راستے میںڈالنے والے تم تھے ۔ تمہیں جنت میں اپنے بادشاہ اورفوجوں کے سالارنہیں لے جائیں گے، پیش امام اور وہ عالم دین لے جائیں گے جن کے ہاتھ میں مذہب اور علم کی قندیل تھی ۔ تم دنیا میں ان کے پیچھے چلو گے تو وہ روز قیامت بھی تمہیں اپنے پیچھے جنت میں لے جائیں گے۔ روز قیامت جس کے ہاتھ انسان کے خون سے لال ہوں گے اسے ساری عمر کے اچھے اعمال اور ساری عمر کی نمازوں کے باوجود دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔ ایک نقطہ اور سمجھ لو ۔ تم زکوٰ ة کو بیت المال کو دیتے ہو۔ بیت المال وقت کا حاکم ہوتا ہے۔ زکوٰ ة غریبوں اور ناداروں کا حق ہے ۔ حاکم وقت غریب اورنادار نہیں ہوتا۔ تمہاری زکوٰة جو بیت المال میں جاتی ہے اس سے گھوڑے اور ہتھیار خریدے جاتے ہیں جو انسانوں کو ہلاک کرنے کے کام آتے ہیں ۔لہٰذا جو فرض ادا کر کے تم جنت میں جاسکتے ہو وہ فرض اداکرکے بھی تم دوزخ میں ٹھکانا بناتے ہو۔ لہٰذا زکوٰة بیت المال میں نہ دو ''۔

عالم نے موضوع بدلا اورکہا ……''بہت سی باتیں عام ذہن کے انسانوں کی سمجھ میں نہیں آتیں ۔ انہیں بتاتا بھی کوئی نہیں ۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ تمہارے اندرایک حیوانی جذبہ ہے؟ کیا تم عورت کی ضرورت محسوس نہیں کرتے؟ کیا یہی جذبہ نہیں جو تمہیں بدکاری کے اڈوں پر لے جاتا ہے ؟……یہ جذبہ خدا نے خود پیدا کیا ہے ۔ یہ کسی انسان کا پیدا کردہ نہیں ۔ تم اس تسکین کر سکتے ہو۔ اسی لیے تمہیں خدا نے حکم دیا ہے کہ بیک وقت گھر میں چار بیویاں رکھو۔ اگر تم غریب ہو اور ایک بیوی بھی نہیں لا سکتے تو کسی عورت کو اجرت دے کر اس حیوانی جذبے کی تسکین کر سکتے ہو جو تم میں خدانے پیدا کیا ہے اور انسان اسی جذبے کی پیداوار ہے ،مگر بدی سے بچو۔ایک ایک دو دو، تین تین ، چار چار بیویاں گھر میں رکھو۔ ان بیویوں کو اور اپنی بیٹیوں کو گھروں میں چھپا کر رکھو۔ میں دیکھ رہاہوں کہ جوان لڑکیوں کو بھی عسکری تربیت دی جارہی ہے اور انہیں بھی گھوڑ سواری اور شتری سواری سکھائی جا رہی ہے۔ زنانہ مدرسوں میں انہیں زخمیوں کی مرہم پٹی اور انہیں سنبھالنے کے طریقے سکھائے جارہے ہیں تا کہ وہ میدانِ جنگ کے زخمیوں کو سنبھالیں اور اگر ضرورت پڑے تو لڑیں بھی ……یہ ایک بدعت ہے۔ اپنی لڑکیوں کو اس بدعت سے بچائو ۔ یہ باتیں اپنے ان دوستوں اور پڑوسیوں کو بھی سنائو جو مسجد میں نہیں آتے ۔ خدا کے احکام اور کارناموں میں مت دخل دو۔ یہ بہت بڑا گناہ ہے.عالم نے درس ختم کیا تو مامعین جن کی تعداد اتنی ہو گئی تھی کہ بہت سے لوگ پیچھے کھڑے تھے ، مسجد میں بیٹھنے کو جگہ نہ تھی ، اُٹھ کر عالم سے ہاتھ ملانے اور جانے لگے۔ بعض نے اس کے ہاتھ چومے ۔ جھک کر مصافحہ تو ہر کسی نے کیا ۔ ایک ایک کر کے سب لوگ چلے گئے۔ صرف دو آدمی عالم کے سامنے بیٹھے رہے۔ ان میں سے ایک وہ آدمی تھا جس نے کہا تھا کہ مجھے جہاد کے متعلق بتائیے ۔ اس آدمی نے لمبا چغہ پہن رکھا تھا ۔ سر پر چھوٹی سی پگڑی اور اس پر چوڑا پھولدار رومال پڑا ہواتھا ۔ اس کی داڑھی لمبی اور سیاہ اور مونچھیں گھنی تھیں۔ لباس سے وہ درمیانہ درجے کا آدمی معلوم ہوتا تھا ۔ اس کی ایک آنکھ پر ہرے رنگ کا پٹی نماکپڑا تھا جو دودھاگوں کی مدد سیاس کے سر کے ساتھ بندھا تھا ۔ اس کپڑے نے اس کی ایک آنکھ ڈھانپ رکھی تھی ۔ عالم کے پوچھنے پر اس نے بتایا تھا کہ اس کی یہ آنکھ خراب ہے ۔ دوسرے آدمی کا لباس بھی معمولی سا تھا۔ اس کی بھی داڑھی لمبی اور گھنی تھی ۔ مسجد میں عالم کے پاس یہی دو آدمی رہ گئے تھے۔ ان کے ساتھ چھ اور آدمی تھے جوجہاد کا درس لینے آئے تھے ۔ وہ مسجد کے دروازے کے باہر کھڑے تھے ۔ شاید اپنے ساتھیوں کے انتظار میں تھے ۔

''کیوں تمہارا شک ابھی رفع نہیں ہوا؟''……عالم نے مسکرا کر ان دونوں سے پوچھا ۔

''میرا خیال ہے شک رفع ہوگیا ہے ''۔ آنکھ کی ہری پٹی والے نے جوا ب دیا ۔ ''ہم شاید آپ ہی کی تلاش میں ہیں ۔ ہم نے آدھا مصر چھان مارا ہے ۔ ہمیں مسجد کا محل و قوع اور نشانیاں غلط بتائی گئی تھیں''۔

''کیا آدھے مصر میں تمہیں مجھ سے بہتر کوئی عالم نہیں ملا ؟''

''تلاش جو صرف آپ کی تھی ''۔اس آدمی نے جواب دیا ……''کیا ہم صحیح جگہ آگئے ہیں ؟ آپ کا درس بتاتا ہے کہ ہم آپ کی ہی تلاش میں تھے ''۔

عالم نے باہرکی طرف دیکھا اور بے توجہی کے اندازسے بولا ……''معلوم نہیں موسم کیسا رہے گا !''

''بارش آئے گی ''۔ہری پٹی والے نے جواب دیا ۔

''آسمان بالکل صاف ہے ''عالم نے کہا ۔

''ہم گھٹائیں لائیں گے ''۔ہری پٹی والے نے کہا اور قہقہہ لگایا ۔

عالم مسکرایا اور رازداری سے پوچھا ۔''کہاں سے آئے ہو؟''

''ایک مہینے سے ہم سکندریہ میں تھے ''۔اس آدمی نے جواب دیا ۔ ''اس سے پہلے شوبک میں تھے ''۔

''مسلمان ہو ؟''

''فدائی ''۔ہری پٹی والے نے کہا ……''ابھی مسلمان ہی سمجھو ''…… اور وہ اپنے ساتھی کے ساتھ بڑی زور سے ہنسا ۔

''میں آپ کو اس فن کا استاد مانتا ہوں ''۔دوسرے نے عالم سے کہا ……''مجھے بالکل یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ آپ ہیں ۔ آپ ناکام نہیں ہو سکتے ''۔

''اور کامیابی آسان بھی نہیں ''۔ عالم نے کہا ۔ ''صلاح الدین ایوبی کوشاید تم نہیں جانتے ۔ بے شک میں نے ان تمام لوگوں کے دلوں میں جہاد اور اس کے متعلق اسلامی نظریات کے خلاف شکوک پیدا کر دئیے ہیںلیکن صلاح الدین ایوبی نے جو مدرسے کھولے ہیں وہ شاید ہماری کوششوں کو آسانی سے کامیاب نہ ہونے دیں ۔

اس نے پوچھا۔ ''تم نے مجھے یہ کیوں کہاں تھا کہ میں جہاد پر درس دوں ؟''

''شوبک میں ہمیں یہ بتایا گیا تھا کہ آپ کی سب سے بڑی نشانی یہی ہے ''…… ہری پٹی والے نے جواب دیا ……''یہ تمام الفاظ جو آپ نے درس میں بولے ہیں ہمیں وہاں بتائے گئے تھے ۔ ہمیں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ آپ جہاد کے بعد جنسی جذبے کا ذکر ضرور کریں گے۔ آپ نے اپنا سبق بڑی محنت سے یاد کیا ہے .

عالم نے درس ختم کیا تو مامعین جن کی تعداد اتنی ہو گئی تھی کہ بہت سے لوگ پیچھے کھڑے تھے ، مسجد میں بیٹھنے کو جگہ نہ تھی ، اُٹھ کر عالم سے ہاتھ ملانے اور جانے لگے۔ بعض نے اس کے ہاتھ چومے ۔ جھک کر مصافحہ تو ہر کسی نے کیا ۔ ایک ایک کر کے سب لوگ چلے گئے۔ صرف دو آدمی عالم کے سامنے بیٹھے رہے۔ ان میں سے ایک وہ آدمی تھا جس نے کہا تھا کہ مجھے جہاد کے متعلق بتائیے ۔ اس آدمی نے لمبا چغہ پہن رکھا تھا ۔ سر پر چھوٹی سی پگڑی اور اس پر چوڑا پھولدار رومال پڑا ہواتھا ۔ اس کی داڑھی لمبی اور سیاہ اور مونچھیں گھنی تھیں۔ لباس سے وہ درمیانہ درجے کا آدمی معلوم ہوتا تھا ۔ اس کی ایک آنکھ پر ہرے رنگ کا پٹی نماکپڑا تھا جو دودھاگوں کی مدد سیاس کے سر کے ساتھ بندھا تھا ۔ اس کپڑے نے اس کی ایک آنکھ ڈھانپ رکھی تھی ۔ عالم کے پوچھنے پر اس نے بتایا تھا کہ اس کی یہ آنکھ خراب ہے ۔ دوسرے آدمی کا لباس بھی معمولی سا تھا۔ اس کی بھی داڑھی لمبی اور گھنی تھی ۔ مسجد میں عالم کے پاس یہی دو آدمی رہ گئے تھے۔ ان کے ساتھ چھ اور آدمی تھے جوجہاد کا درس لینے آئے تھے ۔ وہ مسجد کے دروازے کے باہر کھڑے تھے ۔ شاید اپنے ساتھیوں کے انتظار میں تھے ۔

''کیوں تمہارا شک ابھی رفع نہیں ہوا؟''……عالم نے مسکرا کر ان دونوں سے پوچھا ۔

''میرا خیال ہے شک رفع ہوگیا ہے ''۔ آنکھ کی ہری پٹی والے نے جوا ب دیا ۔ ''ہم شاید آپ ہی کی تلاش میں ہیں ۔ ہم نے آدھا مصر چھان مارا ہے ۔ ہمیں مسجد کا محل و قوع اور نشانیاں غلط بتائی گئی تھیں''۔

''کیا آدھے مصر میں تمہیں مجھ سے بہتر کوئی عالم نہیں ملا ؟''

''تلاش جو صرف آپ کی تھی ''۔اس آدمی نے جواب دیا ……''کیا ہم صحیح جگہ آگئے ہیں ؟ آپ کا درس بتاتا ہے کہ ہم آپ کی ہی تلاش میں تھے ''۔

عالم نے باہرکی طرف دیکھا اور بے توجہی کے اندازسے بولا ……''معلوم نہیں موسم کیسا رہے گا !''

''بارش آئے گی ''۔ہری پٹی والے نے جواب دیا ۔

''آسمان بالکل صاف ہے ''عالم نے کہا ۔

''ہم گھٹائیں لائیں گے ''۔ہری پٹی والے نے کہا اور قہقہہ لگایا ۔

عالم مسکرایا اور رازداری سے پوچھا ۔''کہاں سے آئے ہو؟''

''ایک مہینے سے ہم سکندریہ میں تھے ''۔اس آدمی نے جواب دیا ۔ ''اس سے پہلے شوبک میں تھے ''۔

''مسلمان ہو ؟''

''فدائی ''۔ہری پٹی والے نے کہا ……''ابھی مسلمان ہی سمجھو ''…… اور وہ اپنے ساتھی کے ساتھ بڑی زور سے ہنسا ۔

''میں آپ کو اس فن کا استاد مانتا ہوں ''۔دوسرے نے عالم سے کہا ……''مجھے بالکل یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ آپ ہیں ۔ آپ ناکام نہیں ہو سکتے ''۔

''اور کامیابی آسان بھی نہیں ''۔ عالم نے کہا ۔ ''صلاح الدین ایوبی کوشاید تم نہیں جانتے ۔ بے شک میں نے ان تمام لوگوں کے دلوں میں جہاد اور اس کے متعلق اسلامی نظریات کے خلاف شکوک پیدا کر دئیے ہیںلیکن صلاح الدین ایوبی نے جو مدرسے کھولے ہیں وہ شاید ہماری کوششوں کو آسانی سے کامیاب نہ ہونے دیں ۔

اس نے پوچھا۔ ''تم نے مجھے یہ کیوں کہاں تھا کہ میں جہاد پر درس دوں ؟''

''شوبک میں ہمیں یہ بتایا گیا تھا کہ آپ کی سب سے بڑی نشانی یہی ہے ''…… ہری پٹی والے نے جواب دیا ……''یہ تمام الفاظ جو آپ نے درس میں بولے ہیں ہمیں وہاں بتائے گئے تھے ۔ ہمیں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ آپ جہاد کے بعد جنسی جذبے کا ذکر ضرور کریں گے۔ آپ نے اپنا سبق بڑی محنت سے یاد کیا ہے ''۔

''میرا نام کیا ہے''؟عالم نے پوچھا۔

''کیا آپ ہمارا امتحان لینا چاہتے ہیں ؟…… اس آدمی نے جواب دیا ۔''کیا آپ کو ہم پر شک ہے؟ہمیں ایک دوسرے کا نام نہیں صرف نشانیاں بتائی جاتی ہیں ''۔

''تم کس کام سے آئے ہو ؟''……عالم نے پوچھا ۔

''فدائی کس کام سے آیا کرتے ہیں ؟''……ہری پٹی والے نے پوچھا ۔

''تمہیں میرے پاس کیوں بھیجا گیا ہے ؟''……عالم نے کہا ۔

''ایک اونٹنی کے لیے ''۔اس آدمی نے جواب دیا……''آپ کے پاس دو ہیں ۔ ہمیں آپ کے پاس نہ بھیجا جاتا مگر آپ کو اطلاع مل گئی ہو گی کہ صلاح الدین ایوبی کے ایک نائب سالار رجب کے ساتھ شوبک سے تین اونٹنیاں روانہ کی گئی تھیں ۔ ان میں سے ایک ہمارے مقصد کے لیے تھی مگر معلوم نہیں کہ کیا ہوا کہ تینوں ماری گئی ہیں ۔ رجب کی کھوپڑی اور ایک سب سے زیادہ خوبصورت اونٹنی صلاح الدین کے پاس پہنچ گئی اوروہ بھی ختم ہوگئی ''۔

''ہاں ''……عالم نے آہ بھر کر کہا ……''ہمیں بہت بڑا نقصان ہوا ہے …… صلاح الدین ایوبی کا ایک بڑا ہی کارآمد سالار جو ہمارے قبضے میں تھا ، جلاد کی نذر ہوگیا …… اندر چلو …… یہ جگہ محفوظ نہیں ہے ''۔

وہ دونوں عالم کے ساتھ اُٹھے اور باہر نکل گئے ۔ باہر جو چھ آدمی کھڑے تھے وہ اندھیرے میں بکھر گئے ۔

٭ ٭ ٭
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: داستان ایمان فروشوں کی ۔۔جلد اول مکمل

Post by ایکسٹو »



وہ اب عالم کے گھر میں داخل ہوئے ۔ صاف ستھرا گھر تھا ۔ کئی کمرے تھے ۔ دو تین کمروں میں سے گزر کر وہ ایسے کمرے میں چلے گئے جو زمین پر ہی تھا لیکن زیر زمین معلوم ہوتا تھا ۔ اس کے سامنے کوڑا کباڑ بکھرا ہوا تھا ۔ دروازے کے باہر تالا لگا ہوا تھا ۔ صاف پتہ چلتا تھا کہ یہ دروازہ برسوں سے نہیں کھولا گیا اور کھولا بھی نہیں جائے گا ۔ ایغ پہلو میں کھڑکی تھی ۔ اسے ہاتھ لگایا تو کھل گئی ۔ عالم اندر گیا ۔ اس کے پیچھے یہ دونوں آدمی اندر چلے گئے ۔ اندر سے کمرہ خوب سجا ہوا تھا ۔ دیوار کے ساتھ سنہری صلیب لٹک رہی تھی ۔ اس کے ایک طرف حضرت عیسٰی کی دستی تصویر اور دوسری طرف حضرت مریم کی تصویر تھی ۔ عالم نے کہا ……''یہ میرا گرجا ہے اور پناہ گا ہ بھی ''۔

''خطرے کی صورت میں آپ کے پاس کیا انتظام ہے ؟''آنکھ کی ہری پٹی والے نے پوچھا اور مشورہ دیا ……''آپ کو صلیب اور یہ تصویریں اس طرح سامنے نہیں رکھنی چاہیے ''۔

''یہاں تک کسی کے آنے کا خطرہ نہیں ''۔ عالم نے جواب دیا اور ہنس کر کہا …… ''مسلمان بڑی سیدھی اور جذباتی قوم ہے ۔ یہ قوم جذباتی الفاظ اور سنسنی خیز دلائل پر مرتی ہے ۔ جنس انسان کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔ میں ان لوگوں میں یہ کمزوری اُبھار رہا ہوں ۔ انہیں یہ سبق دے رہا ہوں کہ چار شادیاں فرض ہیں ۔ آہستہ آہستہ انہیں بدکاری کی طرف راغب کر رہا ہوں ۔ مذہب کے نام پر تم مسلمان سے بدی بھی کرا سکتے ہو نیکی بھی ۔ ہاتھ میں قرآن رکھ کر بات کرو تو یہ لوگ احمقانہ باتوں کے بھی قائل ہو جاتے ہیں اور جھوٹ کو بھی سچ مان لیتے ہیں ۔ میرا تجربہ کامیاب ہے۔ میں یہاں اپنے جیسا ایک گروہ پیدا کر لوں گا جو مسجد میں بیٹھ کر اور قرآن مجید ہاتھ میں لے کر ان لوگوں کے جذبہ جہاد کو اور کردار کو قتل کردے گا ۔ عورت کے متعلق میں ان لوگوں کے نظریات بدل رہا ہوں ۔ صلاح الدین ایوبی نے عورتوں کو بھی عسکری تربیت دینی شروع کر دی ہے ۔ میں انہیں بتا رہا ہوں کہ عورت کو گھر میں قید رکھو ۔ میں اس قوم کی نصف آبادی کو بیکار کردوں گا ''۔

''فوج کے خلاف نفرت پیدا کرنا ضروری ہے ''۔ہری پٹی والے کے ساتھی نے کہا …… ''صلاح الدین ایوبی نے یہی کمال کر دکھایا ہے کہ قوم اور فوج کو ایک کر دیا ہے ۔ وہ اس وقت اعلان کر دے کہ یروشلم فتح کرنا ہے تو مصر کی ساری آبادی اس کے ساتھ چل پڑے گی ''۔

''لیکن وہ ایسا اعلان نہیں کرے گا ''۔عالم نے کہا ……وہ دانشمند ہے ۔ وہ جذباتی لوگوں کو پسند نہیں کرتا۔ وہ صرف ایک تربیت یافتہ سپاہی کو ایک سو غیر تربیت یافتہ جوشیلے آدمیوں پر ترجیح دیتا ہے ۔ وہ کھوکھلے نعروں سے قوم کو بھڑکاتا نہیں ۔ حقیقت کی بات کرتا ہے ۔ یہ ہمارا کام ہے کہ اس کی قوم کو حقیقت اور تربیت سے دور رکھیں اور اسے جذباتی بنادیں ۔ اس قوم میں شعور کی بجائے جوش رہ جائے ۔ وہ جو ش جس میں حقیقت پسندی اور دانشمندی نہ ہو ، دشمن کے پہلے تیر سے ہی ٹھنڈا پڑ جاتا ہے ۔ خواہ تیر قریب سے گزر جائے ۔ ہم ان میں صرف جوش رہنے دیں گے ۔ تم نے سنا ہے کہ میں اپنے درس میں صلا ح الدین ایوبی کی بہت تعریفیں کر رہا تھا ''۔

''یہ باتیں تو ہم بعد میں کر لیں گے ''۔اس آدمی نے جواب دیا …… ''دونوں اونٹنیاں دکھا دیں اور یہ بتائیں کہ ہمیں یہاں کس وقت اور کس طرح پناہ مل سکتی ہے اور یہاں اپنا کوئی اور آدمی رہتا ہے یانہیں ''۔

''نہیں !''……عالم نے جواب دیا …… ''یہاں اورکوئی نہیں رہتا ''۔

ان کے درمیان کوئی شک و شبہ نہیں رہا تھا ۔ وہ خفیہ الفاظ میں ایک دوسرے کو پہچان چکے تھے ۔ عالم کمرے سے نکل گیا ۔ واپس آیا تو اس کے ساتھ دو بڑی ہی خوبصورت اور جوان لڑکیاں تھیں ۔ یہی وہ دو لڑکیاں تھیں جن کے متعلق اس نے لوگوں کو بتایا تھا کہ اس کی بیویاں ہیں۔ انہیں وہ سر سے پائوں تک برقعے میں چھپا کر لایا تھا ۔ مگر ان دو آدمیوں کے سامنے وہ بے پردہ آئیں ۔ عالم نے ان کا تعارف دونوں آدمیوں سے کرایا اور الماری میں سے شراب کی بوتل نکا لی ۔ ایک لڑکی گلاس لے آئی ۔ شراب گلاسوں میں ڈالی گئی ۔ ان دونوں آدمیوں نے شراب ہاتھ کو نہ لگایا۔

''پہلے کام کی باتیں کر لیں ''۔ ہری پٹی والے نے کہا ۔

''ہمیں دو آدمیوں کو قتل کرنا ہے ''۔ دوسرے نے کہا ……''صلاح الدین ایوبی کو اور علی بن سفیان کو ۔ ہماری مجبوری یہ ہے کہ ہم نے دونوں آدمیوں کو نہیں دیکھا ہمیں دونوں آدمی دکھا دیں ۔ کیا آپ نے انہیں دیکھا ہے ؟''

''اتنا دیکھا ہے کہ دونوں کو اندھیرے میں بھی پہچان سکتا ہوں ''۔عالم نے کہا …… ''میں نے جو مہم شروع کر رکھی ہے اس کے لیے ضروری تھا کو دونوں کو اچھی طرح پہچان لوں ۔ علی بن سفیان اتنا ذہین اور گھاگ ہے کہ اپنے کسی جاسوس کو یہاں بھیجنے کی بجائے خود یہاں آ سکتا ہے ۔ اگر وہ بھیس بدل کر میرے سامنے آئے تو بھی اسے پہچان لوں گا ''۔

''اور صلاح الدین ایوبی کے متعلق کیا خیال ہے ؟''…… ہری پٹی والے نے کہا ۔

''اسے بھی خوب پہچانتا ہوں ''۔عالم نے جواب دیا۔

ہری پٹی والے نے اپنے دونوں ہاتھ اپنی کنپٹیوں پر رکھے۔ داڑھی کو پکڑا اور ہاتھوں کو نیچے کو جھٹکا دیا ۔ اس لمبی داڑھی اور گھنی مونچھیں اس کے چہرے سے الگ ہوگئیں ۔ پیچھے چھوٹی سی داڑھی رہ گئی جو نہایت اچھی طرح تراشی ہوئی تھی ۔ مونچھیں بھی تراشیدہ تھیں ۔ لمبی داڑھی اور گھنی مونچھیں مصنوعی تھیں ۔جو اب اس نے ہاتھ میں لے رکھی تھیں۔ اس نے آنکھ سے ہری پٹی بھی نوچ کرپرے پھینک دی ۔ عالم جہاں تھا وہیں بت بن گیا ۔ اس کی آنکھیں ٹھہر گئیں اور اس کا منہ کھل گیا ۔ دونوں لڑکیاں حیران و ششدر کبھی اس آدمی کو دیکھتیں جس نے اپنا بہروپ اتار دیا تھا ، کبھی عالم کو دیکھتیں جس کا رنگ لاش کی طرح کا ہو گیا تھا ۔ عالم کے منہ سے حیرت اور گھبراہٹ میں ڈوبی ہوئی سرگوشی نکلی …… ''صلاح الد ین ایوبی ؟''

''ہاں دوست !''اسے جواب ملا …… ''میں صلاح الدین ایوبی ہوں ۔ تمہاری شہرت سن کر تمہارا درست سننے آیا تھا ''…… سلطان ایوبی نے اپنے ساتھی کی داڑھی کو مٹھی میں لے کر جھٹکا دیا تواس کی داڑھی چہرے سے الگ ہوگئی ۔ اس نے عالم سے کہا …… ''آپ اسے بھی پہچانتے ہوں گے ؟''

''پہچانتا ہوں ''عالم نے ہارے ہوئے لہجے میں کہا …… ''علی بن سفیان ''۔

علی بن سفیان کی صرف تھوڑی پر داڑھی تھی ۔ اچانک لڑکیاں اور عالم پیچھے کو دوڑے اور الماری میں سے چھرا نما تلواریں نکال لیں ۔ مگر ادھر کو گھومے تو ان کی تلواریں جھک گئیں کیونکہ صلاح الدین ایوبی اور علی بن سفیان نے چغوں کے اندر سے اسی قسم کی تلواریں نکال لیں تھیں ۔ لڑکیوں کو تیغ زنی کی مشق تو کرائی گئی تھی لیکن دو پشہ ور تیغ زنوں کے مقابلے میں نہ آسکیں ۔ ان سے تلواریں رکھوا لی گئیں ۔ علی بن سفیان باہر نکل گیا۔ ذرا سی دیر میںچھ آدمی جو باہر کھڑے تھے اسی سائز کی تلواریں سونتے کھڑکی میں سے کود کر آگئے ۔

دوسرے دن مسجد کے سامنے اس علاقے کے لوگوں کا ہجوم تھا۔ وہاں چند ایک سرکاری اہل کار بھی تھے جو لوگوں کو باری باری عالم کے اس خفیہ کمرے میں لے جا رہے تھے جہاں صلیب ، حضرت عیسٰی اور حضرت مریم کی تصویریں آویزاں تھیں ۔ لوگوں کو شراب کی بوتلیں بھی دکھائی گئیں ۔ اہل کار لوگوں کو عالم کی اصلیت بتا رہے تھے اور وہ جہاد کا جو نظریہ پیش کرتا رہتاتھا ، اس کی وضاحت کر رہے تھے

سلطان ایوبی کی ہدایت پر علی بن سفیان نے سارے ملک میں جاسوسوں کا جا بچھا دیا تھا کیونکہ یہ ثابت ہوگیا تھا کہ ملک میں ، خصوصاً قاہر ہ میں صلیبیوں نے بہت سے جاسوس اور تخریب کار بھیج دئیے ہیں ۔ صلیبیوں نے مسلمانوں کے کردار کشی کی جو زمین دوز مہم چلائی تھی وہ سلطان ایوبی کو زیادہ پریشان کر رہی تھی۔ اسے جب علی بن سفیان نے اطلاع دی تھی کہ ایک مسجد کا پیش امام ہر رات درس دیتا ہے اور اسلامی نظریات کا بگاڑ کر پیش کر رہا ہے تو سلطان ایوبی نے فوراً ہی یہ حکم نہیں دیا تھا کہ اس عالم کو گرفتار کر لو ۔ اس نے کہا تھا …… ''علی ! مذہب میں فرقہ بندی شروع ہوگئی ہے ۔ یہ پیش امام کسی فرقے کا ہوگا ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ قرآن کی اپنی تفسیریں پیش کر رہا ہو۔ میں مذہب میں دخل نہیں دینا چاہتا ۔ میں حاکم ہوں عالم نہیں ہوں۔ اگر تم سمجھتے ہو کہ وہ کوئی تخریب کار ہے ، تو گرفتاری سے پہلے اچھی طرح چھان بین کر لو ۔ پیش امام کا درجہ مجھ سے بہت زیادہ بلندہے ''۔

علی بن سفیان خود اس مسجد میں درس سننے نہیں گیا تھا کیونکہ اسے شک تھا کہ اگر یہ پیش امام واقعی دشمن کا بھیجا ہوا تخریب کا ر ہے تو اسے پہچانتا ہوگا۔ اس نے اپنے ذہین سراغرساں مسجد میں بھیجے تھے ۔ جو دس بارہ مرتبہ وہاں گئے اور انہوں نے جو درس سنے وہ من وعن علی بن سفیان کو سنادئیے۔ آخر ایک رات اس صلیبی ''عالم'' نے جہاد پر درس دیا اور تاویل یہ پیش کی جو صلاح الدین ایوبی نے بھی سنی ۔ سراغرسانوں نے یہ درس علی بن سفیان کو سنایا تو کوئی شک نہ رہا ۔ علی نے سلطان ایوبی کو بتایا اور یہ رائے دی کہ اگر یہ شخص صلیبیوں کا جاسوس اور تخریب کار نہیں تو بھی اسے پکڑنا یا روکنا ضروری ہے کیونکہ وہ جہاد کا ایسا نظریہ پیش کر رہا ہے جو صرف وہ آدمی پیش کر سکتا ہے جو دشمن کا آدمی ہو یا اس کا دماغ چل گیا ہو ۔

سلطان ایوبی نے یہ رپورٹ بڑی ہی غور سے سنی اور کہا کہ معاملہ بہر حال مذہب، مسجد اور پیش امام کا ہے ۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ علی بن سفیان کے ساتھ خود بہروپ میں درس سننے جائے گا اور خود یقین کرے گا کہ پیش امام کی نیت اور اصلیت کیا ہے ۔ جہاد کے ساتھ حیوانی جذبے کے ذکر نے سلطان ایوبی کے کان کھڑے کر دئیے تھے ۔ اس نے علی بن سفیان سے ساتھ صلاح مشورہ کر کے یہ بہروپ تیار کرایا تھا جس میں رو مسجد میں گئے تھے ۔

علی بن سفیان جاسوسی اور جاسوسی کے خلاف دفاع کے فن کا ماہر تھا ۔ اس نے سلطان ایوبی کو اپنی ایک اور کامیابی سے آگاہ کر دیا تھا ۔ وہ یہ تھی کہ فیض الفاطمی کو جس صلیبی لڑکی نے موقعہ پر گرفتار کرایا اور احمد کمال کے نام کے ایک کماندار کی خاطر اسلام قبول کرنے اور اس کے ساتھ شادی کرنے کی خواہش ظاہر کی مگر ماری گئی تھی ۔ اس نے وہ خفیہ الفاظ اور اشارے بتائے تھے جو صلیبی جاسوس ایک دوسرے کو پہچاننے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ اس کی نشاندہی پر چند یک مسلمان بھی پکڑے گئے تھے جو صلیبیوں سے زر و جواہرات اور خوبصورت لڑکیاں لے کر ان کے لیے جاسوسی کرتے تھے ۔ انہوں نے بھی علی بن سفیان کے تہہ خانے میں تصدیق کی تھی کہ یہ الفاظ اور اشارے استعمال ہوتے ہیں ۔ اشارے یہ تھے کہ جاسوس جو ایک دوسرے سے پہلی بار ملتے اور ایک دوسرے کے متعلق یقین کرنا چاہتے تھے ان میں سے ایک آسمان کی طرف دیکھ کر کہتا تھا ……''معلوم نہیں موسم کیسا رہے گا ''…… وہ ایسی بے پروائی کے سے لہجے میں کہتا تھا جیسے یونہی اسے موسم کا خیا ل آگیا ہو۔

دوسرا کہتا تھا ……''بارش آئے گی''…… اسے جواب ملتا تھا ۔ ''آسمان بالکل صاف ہے ''…… دوسرا کہتا تھا ……''ہم گھٹائیں لائیں گے''……اور وہ قہقہہ لگاتا تھا ۔ قہقہے کی ضرورت یہ ہوتی تھی کہ یہ مکالمہ کوئی اور سن لے یا دوسرا آدمی جاسوس نہ ہو تو وہ سمجھے کہ اس آدمی نے مذاق کیا ہے ۔ علی بن سفیان کو بتایا گیا تھا کہ یہ خفیہ مکالمہ اس وقت بولا جائے گا جب یہ ظاہر ہوجائے گا ۔دوسری بات جو علی بن سفیان نے معلوم کی تھی وہ یہی تھی کہ جاسوس ایک دوسرے کو اپنا نام نہیں بتاتے تھے ۔ ان کا ہیڈ کوارٹر فلسطین کا ایک قصبہ شوبک تھا جو ایک قلعہ تھا ۔ یہ صلیبیوں کا جاسوسی کا مرکز تھا ۔

ان انکشافات کے سہارے سلطان ایوبی اور علی بن سفیان بہروپ میں مسجد میں چلے گئے ۔ انہوں نے جہاد کے درس کی خواہش ظاہر کی تو عالم نے خواہش پوری کر دی ۔ پھر وہ اس کے پاس اکیلے رہ گئے اور ان خفیہ مکالموں کو بے نقاب کر دیا ۔ اس نے بعد میں بیان دیا تھا کہ وہ اتنا کچا جاسوس نہیں تھا کہ وہ اجنبی آدمیوں کے آگے اپنا آپ ظاہر کر دیتا۔ اسے نے ان خفیہ الفاظ نے پھنسایا ، کیونکہ یہ مکالمہ ہر ایک جاسوس کو بھی معلوم نہیں ہوتا ۔ یہ جاسوسوں کے اعلیٰ درجے کا مکاملہ ہے ۔ اس سے نیچے اس سے کوئی جاسوس واقف نہیں ہوتا ۔ اس مکالمے کے بعد کا قہقہہ خاص طور پر قابل ذکر تھا ۔ اس کے بغیر ایک دوسرے پر اپنا راز فاش نہیں کیا جاتا تھا ۔ سلطان ایوبی نے قہقہہ لگایا تھا ۔ وہ اپنے ساتھ چھ جانبازوں کو بھی لے

گیا تھا کہ بوقت ضرورت مدد دیں۔

علی بن سفیان نے اس جاسوس کو اور دونوں لڑکیوں کو اپنے تہہ خانے میں بند کر دیا اور سب سے پہلے اس علاقے میں جا کر تفتیش کی کہ یہ شخص اس مسجد پر قابض کس طرح ہوا اور اسے سے پہلے وہ جس جھونپڑے میں رہتا تھا وہ اسے کس نے دیا تھا ۔ وہاں کے مختلف لوگوں نے جو بیان دئیے ان سے پتہ چلا کر یہ شخص دو بیویوں کے ساتھ اس آبادی میں آیا ۔ پہلے ایک آدمی کے گھر مہمان رہا ۔ جب لوگوں نے دیکھا کہ یہ تو کوئی عالم فاضل ہے تو انہوں نے اسے جھونپڑا دے دیا ۔ وہ اس میں مسجد میں نماز پڑھنے جایا کرتا تھا۔ وہاں بہت مدت سے ایک پیش امام تھا ۔ یہ شخص پیش امام کا مرید بن گیا ۔ پندرہ سولہ روز بعد پیش امام نے مسجد میں پیٹ درد کی شکایت کی۔ یہ شکایت اتنی تیزی سے بڑھی کہ اس کے بعد پیش امام مسجد میں نہ آسکا ۔ حکیموں نے گھر جا کر دیکھا۔ دوائیاں دیں مگر و ہ تیسرے روز مر گیا ۔اس کے بعد اس عالم نے لوگوں سے بات کر کے مسجد سنبھال لی۔ اس نے ایسا تاثر پیدا کیا کہ لوگ اس کے عقیدت مند ہوگئے اور اس کی ضرورت کے مطابق اسے مکان دے دیا ۔

علی بن سفیان کے پوچھنے پر لوگوں نے اسے بتا یا کہ انہوں نے کئی بار اس شخص کو پیش امام کے لیے کھانا لے جاتے دیکھا تھا ۔ علی بن سفیان جان گیا کہ پیش امام کو اس آدمی نے زہر دیا ہے اور اسے راستے سے ہٹا کر مسجد پر قبضہ کیا تھا ۔ اس جاسوس کے گھر کی تلاشی میں بہت سے ہتھیار برآمد ہوئے تھے۔ جو مختلف جگہوں میں چھپائے ہوئے تھے۔ وہاں زہر بھی برآمد ہوا ۔ وہ ایک کتے کو دیا گیا تو کتا تین دن بے چین رہا اور گرتا رہا اور اُٹھتا رہا ۔تیسرے دن شام کے بعد کتا مر گیا ۔

علی بن سفیان نے اپنی تفتیش سلطان ایوبی کے آگے رکھی تو سلطان نے اسے کہا ……''ان تینوں کو قید میں خوب پریشان کرو اور انہیں خوفزدہ کیے رکھو ، لیکن میں انہیں جلاد کے حوالے نہیں کروں گا اور انہیں قید میں بھی نہیں ڈالوں گا ''۔

''پھر آپ کیا کریں گے ؟''…… علی بن سفیان نے پوچھا ۔

''میں انہیں حفاظت اور عزت سے واپس بھیج دوں گا ''۔ علی بن سفیان نے حیرت زدہ ہو کر سلطان ایوبی کے منہ کی طرف دیکھا ۔ سلطان نے کہا …… ''میں ایک جوا کھیلنا چاہتا ہوں علی ! ابھی مجھ سے کچھ نہ پوچھنا ۔ میں سوچ رہا ہوں کہ یہ بازی لگائوں یا نہیں '' …… اس نے ذرا توقف سے کہا …… ''کل دوپہر کے کھانے کے بعد نائب سالاروں، مشیروں ، اعلیٰ کمانداروں اور انتظامیہ کے ہر شعبے کے سربراہ کو میرے پاس لے آنا۔ تمہاری موجودگی بھی ضروری ہے '
علی بن سفیان نے اس رات پہلی بار اس ''عالم '' سے تفتیش کی لیکن وہ بڑا سخت آدمی نکلا ۔ اس نے کہا …… ''غور سے میری بات سن لو علی بن سفیان ! ہم دونوں ایک ہی میدان کے سپاہی ہیں ۔ تم میرے ملک میں کبھی پکڑے گئے تو مجھے امید ہے کہ تم جان دے دو گے ، اپنے ملک اور اپنی قوم کو دھوکہ نہیں دوگے ۔ تم یہی توقع مجھ سے رکھو ۔ مجھے معلوم ہے میرا انجام کیا ہوگا ۔ اگر میں تمہیں وہ ساری باتیں بتادوں جو تم مجھ سے پوچھنا چاہتے ہو تو بھی تم لوگ مجھے بخشو گے نہیں۔ مجھے اس تہہ خانے میں مرنا ہے خواہ تم جلاد سے مروادو خواہ اذیت میں ڈال کر مار دو ۔ پھر میں کیوں اپنی قوم کو دھوکہ دوں ''۔

'''مجھے امید ہے تم اپنا ارادہ بدل دو گے ' '…… علی بن سفیان نے کا …… ''کیا تم ان دو لڑکیوں کی عزت بچانے کی خاطر یہ پسند نہیں کرو گے کہ میں جو پوچھوں وہ مجھے بتا دو ؟''

تم ''کیسی عزت؟''…… اس نے جوا ب دیا …… ''ان لڑکیوں کے پاس صرف حسن اور ناز نخرے ہیں یا وہ استادی ہے جس سے وہ پتھر کو بھی موم کر لیتی ہیں ۔ ان کے پاس عزت نام کی کوئی چیز نہیں ۔ یہی تو انہیں سکھلایا جا تا ہے کہ اپنی عزت سے دستبردار ہوجائو۔ ہم لوگ اپنی جان اور عزت بہت دور پھینک آتے ہیں۔ تم ان لڑکیوں کے ساتھ جیسا بھی سلوک کرنا چاہو کرلو ۔ انہیں میرے سامنے ذلیل کرلو، میں تمہیں کچھ نہیں بتائوں گا ۔ لڑکیاں بھی تمہیں کچھ نہیں بتائیں گی ''۔

''جاسوس لڑکیوں کو ہم سزائے موت د ے دیا کرتے ہیں انہیں ذلیل کبھی نہیں کیا ''۔ علی بن سفیان نے کہا ……''ہمارا مذہب عورت کواذیت میں ڈالنے کی ہمیں اجازت نہیں دیتا ''۔

''میرے دوست !'' جاسوس نے کہا ……''تم پیار کا حربہ استعمال کرو یا اذیت کا ہم میں سے کوئی بھی اپنے اس ساتھیوں کی نشاندہی نہیں کرے گا جو تمہاری سلطنت کی جڑوں میں بیٹھے ہوئے ہیں ۔ تم نے لڑکیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا وعدہ کیا ہے ۔ میں اس کے عوض تمہیں یہ بتا دیتا ہوں کہ یہ میری اور تمہاری جنگ نہیں صلیب اور چاند تارے کی جنگ ہے ۔ میں ان معمولی جاسوسوں میں سے نہیں ہوں جو ادھر کی خبریں ادھر بھیجتے اور تمہارے آئندہ کے ارادے معلوم کرتے رہتے ہیں ۔ اس شعبے میں میرا رُتبہ بہت اونچا ہے ۔میں عالم ہوں ۔ اپنے مذہب کا مطالعہ اتنا ہی گہرا کیا جتنا تمہارے مذہب کا ۔ انجیل اور قرآن کی تہہ تک پہنچا ہوں۔میں اعتراف کرتا ہوں کہ تمہار امذہب بہتر اور سادہ ہے ۔ یہ ہر انسان کا مذہب ہے جس میں کوئی پیچیدگی نہیں۔ اس کی مقبولیت کی وجہ بھی یہی ہے ، مگر میں تمہیں بتا دینا چاہتا ہوں کہ تمہارے دشمنوں نے تمہارے مذہب کی اصلیت کو بگاڑ دیا ہے تا کہ اس کی مقبولیت ختم ہوجائے ۔ یہودیوں نے مسلمان علماء کے بھیس میں اس میں بے شمار بے بنیاد روایات شامل کر دی ہیں ۔اسلام توہمات کے خلاف تھا مگر اس وقت سب سے زیادہ توہم پرست مسلمان ہیں ۔ میں نے چاند گرہن اور سورج گرہن کے وقت مسلمانوں کو سجدے کرتے اور نذرانے دیتے دیکھا ہے اور ایسی کئی ایک بدعتیں تمہارے مذہب میں شامل کر دی گئی ہیں ''……

''ہم ایک لمبی مدت سے تمہارے اصل نظریات کو بگاڑ رہے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ دنیا میں صرف دو مذہب رہ جائیں گے ۔ ایک عیسائیت، دوسرا اسلام ،اور یہ دونوں اس وقت تک معرکہ آراء رہیں گے جب تک دونوں میں سے ایک ختم نہیں ہو جاتا ۔ کسی بھی مذہب کو تیروں اور تلواروں سے ختم نہیں کیا جا سکتا ۔ کسی مذہب کو تبلیغ سے بھی ختم نہیں کیا جا سکتا ۔ اس کایہی ایک طریقہ ہے جو میں نے اختیار کیا تھا ۔ میں تمہیں یہ بتا دیتا ہوں کہ اس مہم میں ، میں اکیلا نہیں ۔ پورا ایک گروہ تمہارے نظریات پر حملہ آور ہوا ہے ''۔

علی بن سفیان اس کے سامنے ٹہل رہا تھا اور اس کی باتیں غور سے سن رہا تھا ۔ اس نے عالم جاسوس کے پائوں میں بیڑیاں اور ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال رکھی تھیں ۔ اس کا ارادہ تو یہ تھا کہ اس جاسوس کو بھی ہر جاسوس کی طرح اذیتوں کے اسی مرحلے میں سے گزارے گا جہاں کسی بھی لمحے جاسوس سارے راز اُگل دیتے ہیں لیکن اس نے قید خانے کے ایک محافظ کو بلا کر اس آدمی کی بیڑیاں اور ہتھکڑیاں کھلوادیں اور اس کے لیے پانی اور کھانا منگوایا۔ اس نے کہا ……''میرے اس سلوک کو اُگلوانے کا حربہ نہ سمجھنا ۔ ہم عالموں کی قدر کیا کرتے ہیں خواہ وہ کسی بھی مذہب کے ہوں۔ میں تم سے کچھ نہیں پوچھوں گا ۔ جو کچھ بتانا پسند کرتے ہو بتا دو ''۔

''اور میں تمہاری قدر کرتا ہوں علی !''…… عالم جاسوس نے کہا …… ''میں نے تمہاری بہت تعریف سنی ہے ۔ تم میں فن کاکمال بھی ہے اور جذبے کی حرارت بھی ۔ تمہارے لیے سب سے بڑا اعزاز اور کیا ہو سکتا ہے کہ صلیبی بادشاہ تمہیں قتل کرانا چاہتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم صلاح الدین ایوبی اور نورالدین زنگی کے ہم پلہ ہو …… میں تمہیں بتا رہا تھا کہ میں نے علم سے یہ حاصل کیا ہے کہ کسی قوم کے تہذیب و تمدن اور مذہب کو بگاڑ دو تو فوجوں کے حملے اور جنگ و جدل کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ کسی قوم کو مارنا ہو تو ا میں جنسی آگ بھڑکادو ۔ یقین نہ آئے تو اپنے مسلمان حکمرانوں کی حالت دیکھ لو ۔ تمہارے رسول ۖ نے کہا تھا کہ نفس کو مارو کہ یہی تباہی کی جڑ ہے ۔ تمہاری قوم نے اس پر کب تک عمل کیا ؟ رسول ۖ کی زندگی تک۔ یہودیوں نے اپنی حسین لڑکیوں سے تمہاری قوم کو بھڑکایا۔ آج تمہاری قوم نفس کی غلام ہو گئی ہے۔ تم میںجس کے پاس دولت آجاتی ہے تو وہ سب سے پہلے حرم کو عورتوں سے بھرتا ہے ۔ ہر مسلمان خواہ وہ غریب ہی ہو، چار بیویاں ضرور رکھنا چاہتا ہے ۔یہودیوں کے روپ میں تمہارے نظریات میں جنست ڈال دی ۔ اگر اپنے رسول ۖ کی ہدایت پر مسلمان عمل پیرا رہتے تو میں یہ یقین سے کہتا ہوں کہ آج دنیا کا تین چوتھائی حصہ مسلمان ہوتا ، مگر اب یہ حال ہے کہ تین چوتھائی مسلمان برائے نام مسلمان ہیں اور تمہاری سلطنت سکڑتی سمتی چلی جا رہی ہے ۔ تم نہیں سمجھتے کہ یہ اس حملے کا نتیجہ ہے جو مجھ جیسے عالموں نے تمہارے مذہب اور تہذیب و تمدن پر کیا ہے ''۔

''میرے دوست !یہ حملے جاری رہیں گے۔ میں پیشین گوئی کر سکتا ہوں کہ روز اسلام اس دنیا میں نہیں رہے گا ۔ اگر ہوگا تو ایک فرسودہ نظریے کی شکل میں موجود رہے گا اور اس کے پیروکار جنسی لذت میں مست ہوں گے۔ ہر کوئی صلاح الدین ایوبی اور نورالدین زنگی نہیں بن سکتا ۔ انہیں کل پرسوں مر جانا ہے۔ ان کے بعد جو آئیں گے ، انہیں ہم نفس پرستی میں مبتلا کر دیں گے۔ مجھے قتل کر دو ۔میری مہم کو قتل نہیں کر سکوگے ۔ انسانوں کے مر جانے سے مقاصد نہیں مر جا یا کرتے ۔ میر جگہ کوئی اور آئے گا ۔ ہم اسلام کو ختم کر کے اپنا غلام بنا کر دم لیں گے …… اب چاہو تو مجھے جلاد کے حوالے کر سکتے ہو ۔ میں اور کچھ نہیں بتائوں گا ''۔

علی بن سفیان نے اس سے اور پوچھا بھی کچھ نہیں ۔ وہ غالباً سوچ رہا تھا کہ اس کا کام کس قدر دشوار اور کتنا نازک ہے۔ اس صلیبی تخریب کار نے جو کچھ کہا ۔ سچ تھا ۔ وہ دیکھ رہا تھا کہ قوم میں اخلاقی تباہی کے جراثیم پیدا ہوچکے تھے۔ عرب کے امراء وزراء تو پوری طرح تباہ ہوچکے تھے۔ صلاح الدین ایوبی میدان جنگ میں صلیبیوں کو شکست دے کر سلطنت اسلامیہ کو وسیع تر کرنے کے خواب دیکھ رہا تھا مگر صلیبیوں نے ایسے پہلو سے حملہ کیا تھا جسے روکنا سلطان ایوبی کے بس سے باہر نظر آتا تھا …… علی بن سفیان عالم جاسوس کی کوٹھری بند کراکے ان کوٹھڑیوں کے سامنے جا کھڑا ہوا جن میں لڑکیاں قید تھیں ۔ وہ ایک کوٹھڑی کے اندر چلا گیا ۔ لڑکی فرش پر بیٹھی تھی ۔ اسے دیکھ کر اُٹھ کھڑی ہوئی ۔ عالی اسے خاموشی سے دیکھتا رہا اور کچھ کہے بغیر باہر نکل آیا ۔

٭ ٭ ٭
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: داستان ایمان فروشوں کی ۔۔جلد اول مکمل

Post by ایکسٹو »



اگلے روز دوپہر کے کھانے کے بعد فوج اور انتظامیہ کے تمام حاکم اور عہد یدار اس کمرے میں جمع تھے جہاں صلاح الدین ایوبی انہیں احکامات اور ہدایات دیا کرتا تھا ۔ اس سب کو پتہ چل چکا تھا کہ ایک جاسوس اور دو لڑکیوں کے ہمراہ پکڑا گیا ہے۔ وہ آپس میں چہ میگو ئیاں کر رہے تھے کہ سلطان ایوبی آگیا ۔ اس نے سب کو گہری نظر سے یو ں دیکھا جیسے ان میں سے کسی کو تلاش کر رہا ہو۔

''میرے عزیز ساتھیو !''اس نے کہا ……''آپ نے سن لیا ہوگا کہ ہم نے ایک مسجد سے ایک صلیبی کو پکڑا ہے جو وہاں باقاعدہ امام بنا ہوا تھا ''۔ اس نے تفصیل سے بتایا کہ اسے کس طرح پکڑا گیا ہے ۔ پھر انہیں وہ باتیں سنائیں جو جاسوس نے علی بن سفیان کے ساتھ قید خانے میں کی تھیں ۔علی بن سفیان یہ باتیں سلطان ایوبی کو سنا چکا تھا ۔

صلاح الدین ایوبی نے کہا ……''میں نے آپ کو یہ وعظ سنانے کے لیے نہیں بلایا کہ جاسوسوں اور تخریب کاروں سے بچو۔ میں آپ کو یہ بھی نہیں کہوں گا کہ اسلام دشمنوں کے ساتھ دوستی کرنے والا جہنم میں جائے گا ۔ میں صرف یہ کہوں گا کہ کفار کے ساتھ دوستی کرنے والے کے لیے میں یہ دنیا جہنم بنا دوں گا ۔ میں اب کسی غدار کو سزائے موت نہیں دوں گا ۔ موت نجات کاذریعہ ہے ۔میں نے اب غدار کی یہ سز امقررکی ہے کہ اس کے گلے میں رسی ڈال کر ایک تختی آگے اور ایک پیچھے لٹکا کر اسے ہر روز بازاروں میں گھما پھرا کر چوک میں کھڑا کر دیا جائے گا ۔ تختیوں پر لکھا ہوگا ……'میں غدار ہوں ' …… اسے ہر روز صبح سے شام کھڑا رکھا جائے گا تا کہ وہ بھوکا پیاسا مر جائے گا اور اس کی لاش شہر سے باہر پھینک دی جائے گی۔ اس کے لواحقین کو اجازت نہیں دی جائے گی کہ اس کا جنازہ پڑھیں یا اسے دفن کریں ''۔

''لیکن میرے عزیز دوستو! اس سے دشمن کا کچھ نہیں بگڑ جائے گا ۔ وہ ایک اور غدار پیدا کرلے گا ۔جب تک اس کے پاس عورت کے بے حیائی اور زروجواہرات کی فروانی اور ہمارے پاس ایمان کی کمی ہے ، وہ غدار پیدا کرتے رہے گا ۔ کیا یہ آپ کی غیرت کے لیے چیلنج نہیں کہ آپ کا دشمن آپ کی مسجد میں بیٹھ کر آپ کا قرآن ہاتھ میں لے کر آپ کے رسولۖ کے فرمان کو مسخ کرے؟ اس پہلو پر بھی غور کریں کہ صلیبی جو لڑکیاں یہاں جاسوسی کے لیے اور ہماری قوم کی کردار کشی کے لیے بھیج رہے ہیں ، ان میں بہت سی لڑکیاں مسلمانوں کی بچیاں ہیں جنہیں ان کفار نے قافلوں سے اغوا کیا اور انہیں بدکاری کے شرمناک تربیت دے کر جاسوسی کے لیے تیا ر کیا ہے ۔ فلسطین کفار کے قبضے میں ہے ۔ وہاں مسلمانوں پر جو ظلم و تشدد ہو رہا ہے ۔وہ مختصراً یہ ہے کہ صلیبی ان کے گھروں کو لوٹتے رہتے ہیں۔ وہ فریاد کرتے ہیں تو قید خانوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔ ان کی کمسن بچیوں کو غائب کر دیا جاتا ہے ۔ ان میں جو غیر معمولی طور پر خوبصورت ہوتی ہیں ان کے ذہنوں سے مذہب اور قومیت نکا ل دی جاتی ہے اور انہیں بے حیائی کی تربیت دے کر مردوں کو انگلیوں پر نچانا سکھا کر انہیں مسلمانوں کے علاقوں میں جاسوسی اور تخریب کاری کے لیے بھیج دیا جاتا ہے ۔ اس گروہ میں ان کی اپنی لڑکیاں بھی ہوتی ہیں۔ ان میں تو شرم و حجاب اور عصمت کی کوئی قدر ہی نہیں ۔ وہ مسلمان بچیوں کو بھی بدی کے لیے استعمال کرتے ہیں ''……

''انہوں نے جب فلسطین پر قبضہ کیا تو وہ وہاں سب سے بڑا جو انقلاب لائے وہ یہ تھا کہ انہوں نے مسلمانوں کے لیے جینا حرام کر دیا ۔ ان کا قتل عام کیا ، ان کے گھروں کو لوٹ لیا ، مسجدوں کو اصطبلوں اور گرجوں میں بدل دیا، مسلمان بچیوں کا اغوا کر کے انہیں قحبہ خانوں میں بٹھا دیا گی ، جو خوبصورت نکلیں انہیں تخریب کاری اور بدکاری کی تربیت دے کر ہمارے امیروں اور وزیروں کے حرموں میں داخل کر دیا اور انہیں ہمارے خلاف بھی استعمال کیا ۔ مسلمان گھرانوں کی بچیوں کے گلوں میں انہوں نے صلیب لٹکا دی ۔ مسلمان جو فلسطین سے بھاگے اور ہمارے پاس پناہ لینے کے لیے قافلہ در قافلہ چلے انہیں راستے میں شہیدکر دیا گیا۔ ہماری بہنوں اور بیٹیوں کی آبروریزی سرعام ہوئی اور میرے کلمہ گو بھائیو ! یہ سلسلہ رکا نہیں۔ ابھی تک جاری ہے۔ صلیبیوں کا مقصد صرف یہ ہے کہ اسلام کا کوئی نام لیوا زندہ نہ رہے اور مسلمان لڑکیاں عیسائیوں کو جنم دیں ۔ ہم سب پر اللہ کی لعنت برس رہی ہے کہ ہم اپنے ان مسلمان بھائیوں اور ان کی بچیوں کو فراموش کیے بیٹھے ہیں جو وہاں ذلت اور مظلومیت کی زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ اس سے بڑا گناہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ ہم ان شہیدوں کو بھی فراموش کیے بیٹھے ہیں جو صلیبیوں کی بربریت کا شکا ر ہوئے …… میں آپ کو کوئی حکم دینے سے پہلے آپ سے پوچھتا ہوں کہ اس صورت حال میں ہمیں کیا کرنا چاہیے ۔ آپ میں تجربہ کاری فوجی ہیں اور انتظامیہ کے حاکم بھی ''۔

پرانی عمر کا ایک کماندار اُٹھا ۔ اس نے کہا ……''امیر مصر ! ہمیں آپ کے حکم کی ضرورت ہی کیا ہے ۔ یہ حکم خداوندی ہے کہ تمہارے پڑوس میں مسلمان نسل پر ظلم ہو رہا ہو اور وہاں کے مسلمان خدا کو مدد کے لیے پکا ر رہے ہوں تو ہم پر فرض عائد ہوتا ہے کہ اس ملک پر فوج کشی کر کے اپنے کلمہ گو بھائیوں کو نجات دلائیں۔ ہمیں فلسطین پر فوج کشی کرنی چاہیے ''۔

نائب سالار کے رتبے کا ایک اور شخص نے اُٹھ کر جوش سے کہا ……''کفار پر فوج کشی سے پہلے آپ ن مسلمان حاکموں اور امراء پر فوج کشی کریں جو در پردہ کفار کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں ۔ ہمارے لیے یہ صورت حال باعث شرم ہے کہ ہماری صفوں میں غدار بھی ہیں ۔ فیض الفاطمی کے رتبے کا آدمی غدار ہو سکتا ہے تو چھوٹے عہدوں پر کیا بھروسہ کیا جا سکتا ہے ۔ ایک مسلمان بچی کی آبروریزی کا انتقام لینے کے لیے ساری قوم کو فنا ہو جانا چاہیے مگر یہاں ہماری ایک پوری نسل کی آبروریزی ہو رہی ہے اور ہم سوچ رہے ہیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ صلیبیوں نے ہماری بچیوں کو بدکاری کے لیے تیار کیا اور ہم سے ان کے ساتھ بداکری کرا رہے ہیں۔ محترم امیر ! اگر میں جذباتی نہیں ہو گیا تو مجھے یہ تجویز پیش کرنے کی اجا زت دیں کہ ہمیں فلسطین لینا ہے ۔ صلیبیوں نے ہمارے قبلہ اول کو بدی کا مرکز بنا رکھا ہے ''۔

ایک اور آدمی اُٹھا لیکن سلطان ایوبی نے ہاتھ کے اشارے سے اسے بٹھا دیا اور کہا ……''میں یہی سننا چاہتا تھا ۔ آپ میں سے جو میرے قریب رہتے ہیںجانتے ہیں کہ میرا اولین ہدف فلسطین ہے ۔ میں مصر کی امارت کے فرائض سنبھالتے ہی فلسطین پر حملہ کرنا چاہتا تھا مگر دو سال سے زیادہ عرصہ گزرگیا ہے ، ایمان فروشوں نے مجھے مصر میں ایسا اُلجھایا ہے جیسے میں دلدل میں پھنس گیا ہوں۔ ذرا ان دو سالوں کے واقعات پر غور کریں۔ آپ صلیبی تخریب کاروں اور غداروں کے خلاف لڑ رہے ہیں ۔ سوڈانیوں کہ ہمارے خلاف لڑانے والے ہم میں سے ہی ہیں۔ سوڈانی حبشیوں سے مصر پر حملہ کرانے والے ہمارے اپنے سالار اور کماندار تھے ۔ وہ اس قومی خزانے سے تنخواہ لیتے تھے جس میں قوم کا پیسہ ہے اور جس میں خدا کے نام پر دی ہوئی زکوٰة کا پیسہ ہے۔ میں نے اس امید پر دو سال گزار دئیے ہیں کہ میں جاسوسوں، انہیں پناہ اور مدد دینے والوں اور ایمان فروشوں کو ختم کر کے فلسطین پر حملہ کروں گا ، لیکن میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ تخریب کاری کا یہ سلسلہ کبھی ختم نہ ہوگا ۔ کیوں نہ اس چشمے کو جا کر بند کیا جائے جہاں اسلام دشمنی کے سامان پیدا کیے جاتے ہیں ۔ ہم صلیبیوں کو خود موقع دے رہے ہیں کہ وہ ہماری صفوں میں غدار پیدا کریں ''……

''میں نے آج آپ کو اس لیے بلایا ہے کہ فلسطین پر حملے میں اب زیادہ تاخیر نہیں ہوگی۔ فوج کی جنگی مشقیں اور تربیت تیز کردو۔ مجاہدین کو لمبے عرصے کا محاصرہ کرنے کی مشق کرائو۔ مجھے ترک اور شامی دستوں پر پورا اعتماد ہے ۔ مصریوں اور وفادار سوڈانیوں میں جذبہ اور پختہ کرو اور انہیں بتائو کہ وہ تمہاری ہی بہنیں اور بیٹیاں ہیں جو صلیبیوں کی درندگی کا شکا ر ہو رہی ہیں ……آ

مصریوں اور وفادار سوڈانیوں میں جذبہ اور پختہ کرو اور انہیں بتائو کہ وہ تمہاری ہی بہنیں اور بیٹیاں ہیں جو صلیبیوں کی درندگی کا شکا ر ہو رہی ہیں ……آپ میں انتظامیہ کے جو حضرات ہیں ان کے ذمے یہ فرض ہے کہ وہ مسجدوں کے پیش اماموں سے کہیں کہ لوگوں کو جہاد کی غرض و غائیت واضح کریں اور نو عمر لڑکوں میں عسکری خیالات پیدا کریں۔ کوئی بھی پیش امام یا خطیب اسلامی نظریات کو غلطی سے یا دانستہ غلط رنگ میں پیش کرتا ہے تو اسے امامت کے فرائض سے سبکدوش کر دیں ۔ اگر کردار مضبوط ہو تو کوئی کشش اور کوئی اینگیخت گمراہ نہیں کر سکتی۔ ذہنوں کو فارغ نہ رہنے دیں ، کھلا نہ چھوڑیں۔ ورنہ دشمن انہیں استعمال کرے گا …… فوجوں کے کوچ کے احکامات آپ کو جلدی مل جائیں گے ۔ اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو

عالم جاسوس اور دونوں لڑکیوں کو سلطان ایوبی نے ملاقات کے لیے بلایا ۔ انہیں لایا گیا تو سلطان ایوبی نے کہا انہیں دوسرے کمرے میں بٹھا دو۔ ان کے پائو ں میں بیڑیاں اور ہاتھوں میں زنجیر یں تھیں۔انہیں جس کمرے میں بٹھایا گیا وہ سلطان ایوبی کے خاص کمرے کے ساتھ تھا ۔ دونوں کا ایک دروازہ تھا ، جس کا ایک کواٹر کھلا ہوا تھا ۔ سلطان ایوبی کمرے میں ٹہل رہا تھا ۔ اس نے ٹہلتے ٹہلتے کہا ……''میں فوری طور پر کرک پر حملہ کرنے کا فیصلہ کر چکا ہوں ''۔

کرک فلسطین کا ایک قلعہ نما قصبہ تھا ۔ دوسرا مشہورقلعہ شوبک تھا ۔یہ بھی ایک مضبوط قلعہ تھا ۔ شوبک کو صلیبیوں نے مرکز بنا رکھا تھا۔ صلیبی بادشاہ اور اعلیٰ کمانڈرشوبک میں ہی اکھٹے ہوا کرتے تھے۔ یہیں صلیبیوں کی انٹیلی جنس کا ہیڈ کوارٹر تھا اور یہ جاسوسوں کا ٹریننگ کیمپ تھا ۔ سلطان ایوبی کے فوجی اور شہری انتظامیہ کے حلقوں میں خیال یقین کی حد تک تھا کہ سلطان ایوبی سب سے پہلے شوبک پر حملہ کرے گا کیونکہ اس جگہ کی اہمیت ہی ایسی تھی ۔ اگر اس مضبوط اڈے کو سر کر لیا جاتا تو صلیبیوں کی کمر توڑی جا سکتی تھی ۔ مگر سلطان ایوبی کہہ رہا تھا کہ پہلے کرک پر حملہ کیا جائے گا ۔ یہ تو ثانوی اہمیت کی جگہ تھی ۔ایک نائب سالار نے کہا ……''محترم ! آپ کا حکم سر آنکھوں پر ، میری ناقص رائے یہ ہے کہ پہلے شوبک سر کر لیا جائے۔ دشمن کی مرکزی کمان ختم کرنا ضروری ہے۔ اگر ہم نے شوبک لے لیا تو کرک لینا کوئی مشکل نہ ہوگا اور اگر ہم نے کرک پر طاقت ضائع کردی تو شوبک لینا نا ممکن ہوجائے گا ''۔

دوسرے کمرے میں جاسوس بیٹھے تھے۔ درمیانی دروازے کا ایک کواڑ کھلا تھا ۔ سلطان ایوبی کے کمرے کی آوازیں اس کمرے میں صاف سنائی دے رہی تھیں ۔ عالم جاسوس کے کان کھڑے ہوئے ۔ وہ آہستہ آہستہ سرک کر دروازے کے ساتھ ہوگیا ۔ اس وقت سلطان ایوبی کہہ رہاتھا ……''میں درجہ بدرجہ پیش قدمی کرنا چاہتا ہوں۔ کرک شوبک کی نسبت آسان شکار ہے ۔ میں اس پر قبضہ کرکے اسے اڈہ بنا لوںگا ۔ کمک منگوا کر اور فوج کو کچھ عرصہ آرام دے کر پوری تیاری کے بعد شوبک پر حملہ کروں گا ۔اس قصبے کا دفاع ہمارے جاسوسوں کے کہنے کے مطابق، اتنا مضبوط ہے کہ ہمیں لمبے عرصے تک اسے محاصرے میں رکھنا پڑے گا ۔ میرا خیال ہے کہ کرک پر ہماری زیادہ طاقت ضائع نہیں ہوگی۔ ہمیں پہلے ایک اڈا چاہیے اور اایسی رسد گاہ جہاں سے ہمیں فوری طور پر رسد ملتی رہے ''۔

عالم جاسوس دروازے کے ساتھ بیٹھا سن رہا تھا ۔ دونوں لڑکیاں بھی اس کے پاس آ بیٹھیں۔ علی بن سفیان نے بھی دھیان نہ دیا کہ ایسی راز کی باتیں جاسوسوں کے کانوں میں پہنچ رہی ہیں ۔ ہو سکتا ہے سلطان ایوبی اور علی بن سفیان نے اس لیے احتیاط نہ کی ہو کہ ان جاسوسوں کو شوبک واپس تھوڑی ہی جانا تھا۔انہیں تو ساری عمر قید میں گزارنی تھی یا جلاد کے ہاتھوں مرنا تھا۔ عالم جاسوس نے لڑکیوں سے سرگوشی میں کہا ……'' کاش، ہم میں سے کوئی ایک یہاں سے نکل سکے اور صلاح الدین ایوبی کے اس ارادے کی اطلاع شوبک اور کرک تک پہنچا دے۔ یہ کتنا قیمتی راز ہے ، اگر پہلے ہی وہاں پہنچا دیا جائے تو مسلمان کی فوج کو کرک کے راستے میں ہی لڑائی میں اُلجھا کر اس کی طاقت ختم کی جاسکتی ہے۔ ان کا حملہ کرک سے دور ہی پسپائی میں بدلا جا سکتا ہے ''۔

''ہمیں مکمل رازداری کی ضرورت ہے ''…… سلطان ایوبی اپنے کمرے میں ٹہلتے ہوئے کہہ رہا تھا ……''اگر صلیبیوں کو ہمارے حملے کی خبر قبل از وقت ہوگئی تو ہم کرک تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ وہ ہمیں راستے میں ہی روک لیں گے ۔ ہمارے لیے خطرہ یہ ہے کہ صلیبیوں کے مقابلے میں ہماری فوج بہت کم ہے۔ صلیبیوں کی نفری زیادہ ہونے کے علاوہ ان کے گھوڑے اور ہتھیار ہم سے بہتر ہیں ۔ان کے خول لوہے کے ہیں او وہ زرہ بکتر بھی پہنتے ہیں ۔ اس سے ہمارے تیر انداز بیکار ثابت ہوئے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ صلیبیوں کو بے خبری میں جالوں تا کہ انہیں کھلے میدان میں لڑنے کا موقعہ نہ ملے۔ اگر وہ کھلے میدان میں لڑے تو ہمارے عقب میں آکر وہ ہماری رسد کا نظام روک دیں گے ۔ اس کا نتیجہ پسپائی اور شکست کے سوا کچھ نہ ہوگا ۔ میں وہ راستہ اختیار کروں گا جو جاریب کے ٹیلوں میں سے گزرتا ہے۔ یہ بڑا وسیع اور عریض علاقہ ہے ۔ مجھے خطرف صرف یہ نظر آرہا ہے کہ صلیبی راسے میں آکر لڑے تو ہمیں شکست کے لیے تیار رہنا چاہیے ''۔

''اس کا علاج یہ ہے کہ فوج کو تین چار حصوں میں تقسیم کر کے صرف رات کے وقت کوچ کرایا جائے ۔ دن کے وقت کوئی حرکت نہ کی جائے ''… علی بن سفیان نے کہا …… ''''راستے میں کوئی بھی اجنبی آدمی یا قافلہ نظر آئے تو اسے روک کیا جائے اور کرک تک پہنچنے تک اسے اپنے ساتھ رکھا جائے ۔ جاسوسی کے خلاف یہی اقدام کارگر ہوسکتا ہے ''۔

اس وقت جب عالم جاسوس اور دو لڑکیاں سلطان ایوبی کی زبان سے اس قدر نازک اور اہم منصوبہ سن رہی تھیں ، شوبک کے قلعے میں صلیبیوں کی اہم شخصیتوں اور کمانڈروں کی کانفرنس بیٹھی ہوئی تھی ۔ وہ لوگ پریشان سے تھے۔ ان میں حاتم الاکبر نام کا ایک مصری مسلمان بھی بیٹھا تھا ۔ وہ انہیں یہ خبریں تفصیل سے سنا چکا تھا کہ خلیفہ العاضد معزولی کے بعد مر چکا تھا ۔ مصر اب بغداد کے خلیفہ کے تحت آگیا تھا ۔ صلیبیوں کا وفادار مسلمان نائب سالار رجب پر اسرار طریقے سے مارا جا چکا تھا ۔ وہ جن تین لڑکیوں کو شوبک سے لے گیا تھا وہ ماری جا چکی ہیں اور صلیبیوں کا ایک اور وفادار مسلمان فوجی حاکم فیض الفاطمی بھی جلاد کے ہاتھوں مروا دیا گیا ہے۔ اب حاتم الاکبر نے انہیں یہ خبر بدسنائی کہ جس عالم جاسوس کو دو لڑکیوں کے ساتھ قاہرہ بھیجا گیا تھا وہ عین اس وقت لڑکیوں سمیت گرفتار ہوگیا ہے جس اس کا مشن کامیاب ہو رہا تھا ۔

''یہ ثبوت ہے کہ صلاح الدین ایوبی کا سراغرسانی کا نظام بہت ہوشیار ہے '' …… کونارڈ نے کہا …… کونارڈ صلیبیوں کا مشہور حکمران اور فوجی کمانڈر تھا ۔ اس نے کہا ……''ان لڑکیوں کو وہاں سے آزاد کرانا ممکن نہیں ۔ نہایت اچھی لڑکیاں ضائع ہوتی جا رہی ہیں ''۔

''صلیب کی خاطر ہمیں یہ قربانی دینی پڑے گی ''…… صلیبیوں کے ایک اور بادشاہ اور فوجی کمانڈر گے آف لوزینان نے کہا ……''ہمیں بھی مرنا ہے ۔ ہمارے جو آدمی پکڑے گئے ہیں انہیں بھول جائو۔ ان کی جگہ اور آدمی بھیجو۔ یہ دو لڑکیاں کہاں سے آئی تھیں ؟''…… اس نے پوچھا ……''اور وہ تین لڑکیاں کون تھیں جو رجب کے ساتھ ماری گی تھیں ؟''

''ان میں دو عیسائی تھیں ''…… ان کے انٹیلی جنس کے سربراہ نے جواب دیا ……''دونوں اطالوی تھیں اور تین مسلمان تھیں ۔ انہیں بچپن میں اڑایا گیا تھا ۔ بہت خوبصورت تھیں ، جوانی تک انہیں یاد نہیں رہا تھا کہ وہ مسلمان

تھیں۔ ہم نے انہیں بچپن میں ہی اس فن کی تربیت دینی شروع کر دی تھی ۔ یہ شک نہیں کیا جا سکتا ہے انہیں چونکہ معلوم تھا کہ وہ مسلمان ہیں اس لیے انہوں نے ہمیں دھوکہ دیا ''۔

''مسلمان تھیں تو کیا ؟''……کونارڈ نے کہا اور حاتم الاکبر کی طرف اشارہ کر کے کہا ……''ہمارا پیارا دوست حاتم بھی تو مسلمان ہے۔ کیا اسے اپنے مذہب کا پاس نہیں ؟''…… اس نے شراب کا گلاس حاتم کے ہاتھ میں دے کر کہا ……''حاتم جانتا ہے کہ صلاح الدین ایوبی مصر کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنا چاہتا ہے اور وہ اسلام کے نام پر کھیل رہا ہے۔ ہم مصر کو آزاد کرانا چاہتے تھے۔ اس کا طریقہ یہی ہے کہ صلاح الدین ایوبی کو مصر میں چین سے بیٹھنے نہ دیا جائے ''۔

حاتم الاکبر صلیبیوں کی شراب میں بدمست اس کی تائید میں سر ہلا رہا تھا ۔ اس نے کہا …… ''میں اب وہاں ایسا انتظام کروں گا کہ آپ کا کوئی آدمی وہاں پکڑا نہیں جائیگا ''۔

''اگر ہم مصر میں یہ زمین دوز گڑبڑ جاری نہ رکھتے تو صلاح الدین ایوبی ہم پر کبھی کا حملہ کر چکا ہوتا ''…… ایک صلیبی کمانڈر نے کہا ……''یہ ہماری کامیابی ہے کہ ہم اس کی طاقت اس کے آپنے آدمیوں پر ضائع کر رہے ہیں''۔

''کیا اس کے اور علی بن سفیان کے خاتمے کا ابھی کوئی انتظام نہیں ہوا؟''…… کونارڈ نے پوچھا ۔

''کئی بار ہوچکا ہے ''…… انٹیلی جنس کے سربراہ نے کہا ……''لیکن کامیابی نہیں ہوئی ۔ناکامی کی وجہ یہ ہے دونوں پتھر قسم کے انسان ہیں ۔ نہ وہ شراب پیتے ہیں جو عورت کو پسند کرتے ہیں ۔ اس لیے نہ انہیں شراب میں کچھ دیا جا سکتا ہے نہ عورت کے ہاتھوں مروایا جا سکتا ہے ۔اب کامیابی کی توقع ہے۔ ایوبی کے باڈی گارڈز میں چار آدمی فدائی ہیں ۔ انہیں میں نے بڑی چابکدستی سے وہاں تک پہنچایا ہے ۔ جب بھی موقع ملا وہ دونوں کو یا ایک کو ختم کر دیں گے''۔

''کیا ہمارے ہاں ایوبی کے بھیجے ہوئے جاسوس ہیں ؟''…… گے آف لوزینان نے پوچھا ۔

''یقینا ہیں ''……انٹیلی جنس کے سربراہ نے جوا ب دیا……''جب ہم نے مصر میں اور ادھر شام میں جاسوسی اور تباہ کاری کا سلسلہ شروع کیا ہے صلاح الدین نے بھی اپنے جاسوس ہمارے ہاں بھیج دئیے ہیں۔ ان میں سے دو پکڑے گئے ہیں ۔ وہ اذیتوں سے مر گئے ہیں مگر اپنے کسی تیسرے ساتھی کی نشاندہی نہیں کی ''۔

''ان کی کامیابی کس حد تک ہے ؟''

''بہت حد تک ''……دوسرے نے جواب دیا……''کرک میں ہماری رسد کو جو آگ لگی تھی جس میں آدھی رسد جل گئی اور گیارہ گھوڑے زندہ جل گئے تھے وہ ایوبی کے تباہ کار جاسوسوں کا کام تھا۔ میں آپ کو یہ بھی بتا سکتا ہوں کہ ہماری جنگی کیفیت اور اہلیت کی پوری معلومات صلاح الدین ایوبی کو ملتی رہتی ہے۔ اس کے جاسوسوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ جان پر کھیل جاتے ہیں اور کام پوری دیانت داری سے کرتے ہیں ''۔

ان میں بہت دیر اس مسئلے پر بحث ہوتی رہی کہ مصر اور شام میں تخریبی کاروائیوں کو کس طرح تیز اور مزید تباہ کن کیا جا سکتا ہے۔ حاتم الا کبر انہیں سلطان ایوبی کی حکومت کی کمزور رگیں اور مضبوط پہلو دکھا رہا تھا ۔ آخر فیصلہ ہوا کہ حاتم الاکبر کو کچھ آدمی اور ذو تین لڑکیاں دی جائیں ۔

**********************

اس وقت سلطان ایوبی اپنے دو نائبین اور علی بن سفیان کے اپنے اس منصوبے سے آگاہ کر رہا تھا کہ وہ کرک پر حملہ کرے گا ۔ اس نے بیس روز بعد کا دن بتایا جب اسے فوجوں کو کوچ کرانا تھا ۔ یہ تمام تر منصوبہ عالم جاسوس اور لڑکیاں ساتھ والے کمرے میں سن رہی تھیں۔ عالم نے ایک بار پھر لڑکیوں کے ساتھ افسوس کا اظہار کیا کہ انہیں ایک راز معلوم ہوگیا ہے مگر وہ اسے شوبک تک نہیں پہنچا سکتے ۔ ایک لڑکی نے کہا ۔ ''میں کوشش کروں گی کہ صلاح الدین ایوبی مجھے پسند کر لے۔ اگر تھوڑی سی دیر کے لیے بھی وہ مجھے اپنے ساتھ تنہائی میں رکھ لے تو میں اس سے رہا ئی پالوں گی۔ مجھے امید یہ ہے کہ میں اس کی عقل پر قبضہ کر لوں گی''۔

''معلوم نہیں اس نے ہمیں کیوں بلایا ہے ؟''…… عالم جاسوس نے کہا …… ''تم دونوں یاد رکھو۔ اگر وہ تمہیں اکیلے اکیلے بلائے تو دونوں یہ کوشش کرنا کہ اسے حیوان بنا سکو ۔ اگر وہ شراب پیئے تو تم جانتی ہو کہ اسے کتنی پلا کر بے ہوش کیا جاسکتا ہے۔ وہ بیہوش ہوجائے تو فرار کا طریقہ تم جانتی ہو اور دونوں کو معلوم ہے تمہیں کس کے پاس پہنچنا ہے۔ اس کا گھر مسجد کے با لمقابل ہے ''۔

''میں جانتی ہوں ''……ایک لڑکی نے کہا …… ''مہدی ابادان''۔

''ہاں !''…عالم جاسوس نے کہا ……''اگر تم مہدی تک پہنچ گئیں تو وہ تمہیں شوبک تک پہنچا دے گا۔ میرے فرار تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ تم نے ایوبی کا منصوبہ سن لیا ہے ۔ کوچ کی تاریخ یاد رکھو۔ راستہ یاد کرلو۔ کوچ رات کے وقت ہوا کرے گا۔ دن کے وقت اس کی فوج کوئی حرکت نہیں کرے گی ۔ حملہ کر ک پر ہوگا ۔ مجھے اُمید ہے کہ یہ اطلاع قبل از وقت پہنچ گئی تو ہماری فوج ایوبی کو راستے میں روک لے گی۔ ایوبی اسی صورت حال سے ڈرتا ہے ۔ شوبک میں جا کر یہ خاص طور پر بتانا کہ ایوبی کھلے میدان میں آمنے سامنے نہیں لڑنا چاہتا کیونکہ اس کے پاس فوج کم ہے''۔

سلطان ایوبی کے کمرے سے ایسی آوازیں آئیں جیسے اجلاس ختم ہوگا ہو اور نائبین باہر جارہے ہیں ۔ عالم اور لڑکیاں فوراً اس جگہ سرک گئیں جہاں انہیں بٹھایا گیا تھا ۔ عالم کے کہنے پر انہوں نے سر گھٹنوں میں دے لیے جیسے انہوں نے کچھ بھی نہیں سنا اور گردو بیش کا کوئی ہوش نہیں ۔ انہیں اپنے کمرے میں قدموں کی آوازیں سنائی دی تو بھی انہوں نے اوپر نہ دیکھا۔ عالم نے اس وقت اوپر دیکھا جب کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا ……''اُٹھو۔ میرے ساتھ آئو ''……وہ علی بن سفیان تھا ۔ علی نے لڑکیوں کو بھی اُٹھایا اور انہیں سلطان ایوبی کے کمرے میں لے گیا ۔

''میں تمہارے علم اور تمہاری ذہانت کی داد دیتا ہوں''…… سلطان ایوبی نے عالم جاسوس سے کہا ……''ان کی زنجیریں کھول دو …… تم تینوں بیٹھ جائو ''۔ علی بن سفیان باہر نکل گیا ۔ سلطان ایوبی نے عالم سے کہا ……''لیکن تم علم کو کس شیطانی کام میں استعال کر رہے ہو۔ اس کی بجائے تم یہاں آکر اپنے مذہب کی تبلیغ کرتے تو میں تمہاری قدر دل کی گہرائیوں سے کرتا کہ تم اپنے مذہب اور اپنے نبی کی خدمت کر رہے ہو۔ کیا تمہارے مذہب میں یہ روا ہے کہ تم دوسرے مذہب کی عبادت گاہ میں اس کے مذہب میں جھوٹ شامل کرو ؟ کیا تمہارے دل میں اپنی مقدس صلیب کا ، حضرت عیسٰی کا اور کنواری مریم کا یہ احترام ہے کہ جھوٹ اور ابلسیت جیسے کبیرہ گناہ کرکے تم ان کی عبادت کرتے ہو؟''

''یہ جھوٹ میرے فرائض میں شامل ہے ''…… عالم نے کہا …… ''میں نے جو کچھ کیا مقدس صلیب کے لیے کیا ''۔

''تم کہتے ہو کہ تم نے انجیل اور قرآن کا گہرا مطالعہ کیا ہے''…… سلطان ایوبی نے کا ۔ ''کیا ان دونوں میں سے کسی ایک کتاب میں بھی انسان کو اس کی اجازت دی گئی ہے کہ اس قسم کی نوخیز لڑکیوں کو بدکاری کی راہ پر ڈالو اور غیر مردوں کے پاس بھیج کر اپنی مطلب براری کرو؟ کیا انجیل نے تمہیں کہا ہے کہ صلیب کی خاطر اپنی قوم کی بیٹیوں کی عظمت دوسروں کے حوالے کر دو ؟ کیا تم نے کسی مسلمان لڑکی کو قرآن اور اسلام کے نام پر اپنی عصمت غیر مردوں کے حوالے کرتے کبھی دیکھا ہے ؟''

''اسلام کو میں عیسائیت کا دشمن سمجھتا ہوں''…… عالم نے کہا …… ''مجھے جو زہر ہاتھ آئے گا اسلام کی رگوں میں ڈالوں گا''۔

''تم اتنے میٹھے زہر سے چند ایک مسلمانوں کے کردار کو ہلاک کرسکتے ہو''……سلطان ایوبی نے کہا …… ''اسلام کاتم کچھ نہیں بگاڑ سکو گے ''……اس نے لڑکیوں سے کہا ……''تم کس خاندان کی بیٹیاں ہو ؟ معلوم ہے تمہیں ؟ اپنی اصلیت جانتی ہو تو مجھے بتائو ؟ ''…… دونوں خاموش رہیں ۔سلطان ایوبی نے کہا ……''تم نے اپنی پاکیزگی ختم کرالی ہے ۔ اب بھی تم کسی باعزت گھر کی قابل احترام بیویاں بن سکتی ہو؟''

''میں قابل احترام بیوی بننا چاہتی ہوں ''……ایک لڑکی نے کہا ……''کیا آپ مجھے قبول کریں گے ؟ اگر نہیں تو مجھے کوئی باعزت خاوند دے دیں ۔ میں اسلام قبول کرکے گناہوں سے توبہ کر لوں گی''۔

سلطان ایوبی مسکرایا اور ذرا سوچ کر کہا ……''میں نہیں چاہتا کہ اس عالم کا علم جلاد کی تلوار سے خون میں ڈوب جائے اور میں نہیں چاہتا کہ تم دونوں کی جوانی اور حسن میرے قید خانے میں گلتا سڑتا رہے …… سنو لڑکی ! تم اگر واقعی گناہوں سے توبہ کرنا چاہتی ہو تو میں تمہیں تمہارے ملک بھیج دیتا ہوں ، لیکن وہ تمہارا نہیں ، ہمارا ملک ہے ۔ میں ایک نہ ایک دن اپنا ملک تمہارے بادشاہوں سے لے لوں گا۔ تم جائو اورکسی کی بیوی بن جائو …… میں تم تینوں کو رہا کرتاہوں ''۔

تینوں یوں بدکے جیسے انہیں سوئیاں چبھودی گئی ہوں۔ اتنے میں علی بن سفیان لوہار کے ساتھ کمرے میں آیا اور تینوں کی زنجیریں کھول دی گئیں۔ سلطان نے کہا ……''علی! میں نے انہیں رہا کر دیا ہے''…… علی بن سفیان کا رد عمل بھی وہی تھا ۔ وہ کتنی ہی دیر سلطان ایوبی کے منہ کی طرف دیکھتا رہا …… سلطان نے کہا ……''انہیں تین اونٹ دو اور چار مسلح محافظ ساتھ بھیجو جو گھوڑ سوار ہوں۔ نہایت ذہین اور دلیر محافظ جو انہیں شوبک کے قلعے میں چھوڑ کر واپس آجائیں ۔ راستے کے لیے سامان ساتھ دو اور آج ہی انہیں روانہ کر دو ''…… اس نے عالم سے کہا ……''وہاں جا کر یہ غلط فہمی نہ پھیلا دینا کہ صلاح الدین ایوبی جاسوسوں کو بخش دیا کرتا تھا ۔ میں انہیں دانے کی طرح چکی میں پیس پیس کر مارا کرتا ہوں۔ تمہیں صرف اس لیے رہا کر رہا ہوں کہ تم عالم ہو ۔ تمہیں موقع دے رہا ہوں کہ علم کا روشن پہلو دیکھو۔ تمہاری نجات اسی میں ہے ''۔

سورج ابھی غروب نہیں ہوا تھا جب انہیں انٹوں پر سوار کرکے چار محافظوں کے ساتھ روانہ کر دیا گیا ۔ محافظ خاص طور پر منتخب کیے گئے تھے ۔ اس انتخاب کی دو وجوہات تھیں ۔ ایک یہ کہ راستے میں ڈاکوئوں کا خطرہ تھا ۔ دوسری وجہ یہ کہ انہیں صلیبی کمانڈروں کے سامنے جانا تھا ۔ وہ خوبرواور وجیہہ تھے ۔ اونٹ اور گھوڑے بھی نہایت اچھی قسم کے بھیجے گئے تھے ، مگر سب حیران تھے کہ سلطان ایوبی نے یہ فیاضی کیوں کی ہے ۔ دشمن کو بخش دینا اس کا شیوہ نہیں تھا ۔ علی بن سفیان نے اس سے پوچھا تو اس نے اتنا ہی کہا …… ''علی ! میں نے تمہیں کہا تھا کہ میں ایک جواء کھیلنا چاہتا ہوں ۔ اگر میں بازی ہارگیا تو صرف اتنا ہی نقصان ہوگا جو میں پہلے ہی اُٹھا چکا ہوں کہ دشمن کے تین جاسوس میرے ہاتھ سے نکل گئے ہیں۔ اس سے زیادہ کوئی نقصان نہیں ہوگا ''……علی بن سفیان نے اس جوئے کی وضاحت چاہی لیکن سلطان ایوبی نے اسی پر بات ختم کردی کہ وقت آنے پر بتائوں گا ۔

باقی سب تو حیران تھے مگر رہا ہونے والے خوشی سے بائولے ہوئے جا رہے تھے ۔خوشی صرف رہائی کی نہیں تھی ۔ اصل خوشی اس راز کی تھی جو وہ اپنے ساتھ لے جا رہے تھے۔ وہ قاہرہ شہر سے دورنکل گئے تھے ۔ ان کے اونٹ پہلو بہ پہلو جا رہے تھے ۔ دو محافظ آگے تھے اور دو پیچھے ۔ عالم نے ان سے پوچھا تھا کہ وہ ان کی زبان سمجھتے ہیں ؟چاروں اپنی زبان کے سوا اور کوئی زبان نہیں جانتے تھے ۔ عالم اور لڑکیاں ان کی زبان بڑی روانی سے بولتی تھیں ۔ یہ انہیں خاص طور پر سکھائی گئی تھی۔

عالم نے لڑکیوں سے اپنی زبان میں کہا ……''خدائے یسوع مسیح نے معجزہ دکھایا تھا ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسے ہمارے ساتھ پیار ہے اور اسے ہماری فتح منظور ہے ۔ یہ سچے مذہب کی نشانی ہے ۔ صلاح الدین ایوبی اور علی بن سفیان جیسے دانائوں کو خدا نے عقل کا ایسا اندھا کیا ہے کہ انتہائی خطرناک راز ہمارے کانوں میں دال کر ہمیں رہا کر دیا ہے ۔ ہم اپنی فوج کو ان کا سارا منصوبہ سنائیں گے اور ہماری فوج ایوبی کو صحرا میں گھیر کر ختم کردے گی ۔ اسے کرک تک پہنچنے کی مہلت ہی نہیںملے گی ۔ مجھے اُمید ہے کہ ہمارے کمانڈر جنگ کو حملے تک محدود نہیں رکھیں گے۔ وہ مصر پر ضرور چڑھائی کریں گے ۔ مصر فوجوں سے خالی ہوگا ۔ یہ فتح بڑی آسان ہوگی ''۔

''آپ عالم ہیں ، تجربہ کار ہیں ''…… ایک لڑکی نے کہا ……''مگر آپ جسے معجزہ کہہ رہے ہیں وہ مجھے ایک خطرہ دکھائی دے رہا ہے …… خطرہ یہ چار محافظ ہیں ۔ کہیں آگے جا کر یہ ہمیں قتل کر کے واپس چلے جائیں گے ۔ صلاح الدین ایوبی نے ہمارے ساتھ مذاق کیا ہے ۔ جلاد کے حوالے کرنے کی بجائے ہمیں ان کے حوالے کر دیا ہے ۔ یہ ہمیں جی بھر کے خراب کریں گے اور قتل کر دیں گے''۔

''اور ہم نہتے ہیں ''…… عالم نے یوں کہا جیسے اس کے ذہن سے خوش فہمیاں نکل گئی ہوں ۔ اس نے کہا …… ''تم نے جو کہا ہے وہ درست ہو سکتا ہے ۔ کوئی حکمران اپنے دشمن کے جاسوس کو بحش نہیں سکتا اور مسلمان اس قدر جنس پرست ہیں کہ تم جیسی حسین لڑکیوں کو چھوڑ نہیں سکتے ''۔

''ہمیں راتوں کو چوکنا رہنا پڑ ے گا ''…… دوسری لڑکی نے کہا ……''رات کو یہ سوجائیں تو انہیں انہی کے ہتھیاروں سے ختم کر دیا جائے ۔ ذرا ہمت کی ضرورت ہے ''۔

''ہمیں یہ ہمت کرنی پڑے گی ''……عالم نے کہا ……''یہ کام آج ہی رات ہوجائے تو اچھا ہے۔ صبح تک ہم بہت دور نکل جائیں گے ''۔

دو محافظ آگے اور دو پیچھے اپنی گپ شپ لگاتے چلے جارہے تھے ۔ ان کے انداز سے ظاہر ہوتا تھا جیسے انہیں معلوم ہی نہیں کہ دو اتنی دلکش لڑکیاںان کی تحویل میں ہیں ۔ سورج غروب ہو رہا تھا ۔ ایک نے عالم سے کہا کہ ہم ابھی رُکیں گے نہیں۔رات کا پہلا پہر چلتے گزاریں گے …… وہ چلتے گئے اور صحرا کی رات تاریک ہوتی گئی۔ عالم اور لڑکیاں اونٹوں کو قریب کر کے محافظوں کے قتل کا منصوبہ بنا رہی تھیں۔ بہت دیر بعد ایک سر سبز جگہ آگئی۔ محافظ رُک گئے اور وہیں پڑائو کیا ۔ انہوں نے دیکھا کہ تین محافظ لیٹ گئے تھے اور ایک ٹہل رہا تھا ۔ عالم لڑکیوں کے ساتھ محافظوں سے کچھ دور لیٹا رہا ۔ ان تینوں کی نظریں محافظوں پر تھی۔ وہ چوتھے محافظ کو دیکھتے رہے۔ وہ پڑائو کے اردگرد ٹہلتا رہا ۔ ایک کھٹکا سا ہوا ۔ وہ دوڑ کر ادھر گیا اور اچھی طرح دیکھ بھال کرکے آگیا ۔

تقریباً دو گھنٹے گزر گئے ۔ اس نے اپنے ایک اور ساتھی کو جگایا اور خود اس کی جگہ لیٹ گیا ۔ جو جاگا تھا وہ پڑائو کے اردگرد ٹہلنے لگا ۔ کبھی جانوروں کے پاس جاکر انہیں دیکھتا اور کبھی سوئے ہوئے انسانوں کو دیکھتا ۔ عالم نے لڑکیوں سے کہا …… ''ہم کامیاب نہیں ہو سکیں گے ۔ یہ کمبخت پہرہ دے رہے ہیں ، جو ہوگا ہو کے رہے گا ، سو جائو ''۔

رات گزر گئی ۔ صبح ابھی دھندلی تھی جب محافظوں نے انہیں جگایا اور روانہ ہونے کے لیے کہا ۔ تھوڑی دیر بعد وہ پھر اسی ترتیب میں چلے جا رہے تھے ۔ جس میں ایک روز پہلے تھے ۔ تین اونٹ پہلو بہ پہلو ، دو محافظ آگے اور دو اونٹوں کے پیچھے ۔ وہ ایک بار پھر لڑکیوں سے لا تعلق ہوگئے ۔ انہوں نے کوئی ایسی بات بھی نہیں کی تھی جس سے شک ہوتا کہ یہ لوگ اوباش یا بدمعاش ہیں۔ سورج اُبھرتا آیا ۔ پھر یہ قافلہ ٹیلوں کے علاقے میں داخل ہوگیا ۔ مٹی اور ریت کی پہاڑیاں منحنی سی دیواروں کی طرح کھڑی تھیں ۔ ان میں گلیاں سی تھیں اور ان پر پہاڑیوں کا سایہ تھا ۔ لڑکیاں ڈرنے لگیں ۔ ڈر ان کے چہرے سے ظاہر ہو رہا تھا ۔ ان کی نگا ہ میں یہ جگہ جرم اور قتل وغیرہ کے لیے موزوں تھی مگر محافظ ان کی طرف دیکھ نہیں رہے تھے ۔

''اس سے کہو کہ ہمارے ساتھ باتیں کریں ''…… ایک لڑکی نے عالم سے کہا …… ''ان کی خاموشی اور لا تعلقی مجھے ڈرا رہی ہے ۔ انہیں کہو کہ ہمیں مارنا چاہتے ہیں توفوراً مار دیں ۔ میں موت کا انتظار نہیں کر سکتی ''۔

عالم خاموش کہا ۔ وہ لڑکیوں کی کوئی مدد نہیں کر سکتا تھا ۔ وہ تینوں ان محافظوں کے رحم و کرم پر تھے …… سورج سر پر آگیا تو وہ ان ٹیلوں کے اندر ایسی جگہ رُک گئے جہاں ریت کے سلوں والے ٹیلے تھے اور اُوپر جا کر آگے کو جھکے ہوئے تھے ۔ ان کے سائے میں انہوں نے قیام کیا ۔ کھانے کے دوران عالم نے محافظوں سے پوچھا ……''تم لوگ ہمارے ساتھ باتیں کیوں نہیں کرتے ؟''

''جو باتیں ہمارے فرض میں شامل نہیں وہ ہم نہیں کیا کرتے ''…… محافظوں کے کمانڈر نے جواب دیا اور پوچھا ……''اگر تم لوگ کوئی خاص بات کرنا چاہتے ہو تو ہم سنیں گے اور جواب دیں گے ''۔

''کیا تمہیں معلوم ہے کہ ہم کون ہیں ؟'' عالم نے پوچھا ۔

''تم تینوں جاسوس ہو''……محافظ نے جواب دیا …… ''یہ لڑکیاں بدکار ہیں ۔ یہ ان آدمیوں کے استعمال کے لیے ہیں جنہیں تم لوگ ہمارے خلاف استعمال کرنا چاہتے ہو۔ امیر مصر ، اللہ اس کے نیک ارادوں میں برکت دے ، نے تمہیں معلوم نہیں کیوں بخش دیا ہے ۔ ہمیں حکم ملا ہے کہ تمہیں قلعہ شوبک میں چھوڑ آئیں ۔ تم امانت ہو …… تم نے یہ بات مجھ سے کیوں پوچھی ہے؟''

''تمہارے ساتھ باتیں کرنے کو جی چاہ رہا تھا ''……عالم نے جواب دیا …… ''اتنا لمبا سفر اس لاتعلق اور بیگانگی سے بڑا کھٹن ہو رہا ہے ۔ ہمارے ساتھ باتیں کرتے چلو''۔

''ہم ہمسفر ہیں ''……محافظ نے کہا …… ''لیکن ہماری منزلیں جدا ہیں ۔ دو روز بعد ہم جدا ہوجائیں گے ''۔

عالم جاسوس نے جیسے محافظ کا جواب سنا ہی نہ ہو ۔ اس کی آنکھیں کسی دور کی چیز کو دیکھ رہی تھیں ۔ وہ صحرا سے اچھی طرح واقف تھا ۔ صحرا کے خطروں سے واقف تھا ۔ اس کی آنکھیں حیرت اور اورغالباً ڈر سے پھٹی جا رہی تھیں ۔ محافظ نے اس طرف دیکھا جس طرف عالم دیکھ رہا تھا ۔ محافظ کی بھی آنکھیں کھل گئیں …… کوئی دو سو گز دور ایک بلند جگہ دو اونٹ کھڑے تھے۔ ان پر دو آدمی سوار تھے جن کے چہروں اور سروں پر پگڑیاں لپٹی ہوئی تھیں ۔ اونٹوں کی ٹانگیں نظر نہیں آرہی تھیں ۔ وہ بلندی کے پیچھے تھیں۔ سوار خاموشی سے کھڑے محافظوں اور جاسوسوں کے قافلے کو دیکھ رہے تھے ۔ ان کا انداز اور لباس بتا رہا تھا کہ وہ کون ہیں ۔

''جانتے ہو یہ کون ہیں ''…… محافظوں کے کمانڈر نے عالم سے پوچھا ۔

''صحرائی ڈاکو ''……عالم نے جواب دیا ۔ ''معلوم نہیں کتنے ہوں گے ''۔

''دیکھا جائے گا''……محافظ نے کہا ۔ اس نے اُٹھتے ہوئے اپنے ایک ساتھی سے کہا ……''میرے ساتھ آئو ''۔

وہ دونوں گھوڑوں پر سوار ہو کر ڈاکوئوں کی طرف چلے گئے ۔ ان کے پاس تلواروں کے علاوہ برچھیاں بھی تھیں ۔ انہیں اپنی طرف آتا دیکھ کر شتر سوار بلندی کے پیچھے غائب ہوگئے ۔دومحافظ جو پیچھے رہ گئے تھے ۔ قریب کے ٹیلے پر چڑھ گئے ۔ عالم نے لڑکیوں سے کہا……''میرا خیال ہے تمہارا خدشہ صحیح ثابت ہورہا ہے ۔ یہ ڈاکو نہیں ۔ یہ صلاح الدین ایوبی کے بھیجے ہوئے آدمی معلوم ہوتے ہیں ورنہ یہ محافظ اتنی دلیری سے ان کی طرف نہ چلے جاتے ۔ ایوبی تم دونوں کو بہت زیادہ ذلیل کرانا چاہتا ہے ۔ میرے لیے تو موت لکھی ہوئی ہے۔ تمہیں بڑی خوفناک سزا دی جائے گی ''۔

''اس کامطلب یہ ہے کہ ہم آزاد نہیں''…… ایک لڑکی نے کہا …… ''ہم ابھی تک قیدی ہیں ''۔

''یہی معلوم ہوتاہے ''……دوسری لڑکی نے کہا۔

دونوں محافظ واپس آگئے تھے ۔ ان کے ساتھی اور جاسوس ان کے گرد جمع ہوگئے ۔ محافظ کے کمانڈر جس کا نام حدید تھا نہیں بتانے لگا……''وہ صحرائی قزاق ہیں ۔ ہم ان سے مل آئے ہیں ۔ انہوں نے مجھے کہا ہے کہ تم فوج کے آدمی اور مسلمان معلوم ہوتے ہو لیکن یہ لڑکیاں مسلمان نہیں ۔ یہ دونوں لڑکیاں ہمارے حوالے کردو ، ہم تمہیں پریشان نہیں کریں گے ۔ میں نے انہیں کہا ہے کہ یہ لڑکیاں کسی بھی مذہب کی ہوں، ہمارے پاس امانت ہیں۔ ہم جیتے جی تمہارے حوالے نہیں کریں گے ۔ وہ مجھے سمجھانے کی کوشش کرتے رہے کہ ہم اپنی جانیں ضائع نہ کریں ۔ میں انہیں کہہ آیا ہوں کہ پہلے ہماری جانیں ضائع کرو پھر لڑکیوں کو لے جانا ''…… اس نے عالم اور لڑکیوں سے پوچھا ……''تم کوئی ہتھیار استعمال کر سکتے ہو؟''۔

''ان لڑکیوں کو ہر ایک ہتھیار چلانے کی تربیت دی گئی ہے ''۔عالم نے کہا ……''تمہارے پاس برچھیاں ہیں ، تلواریں بھی ہیں اور تیر کمان بھی ہیں ۔ ان میں سے ایک ایک ہتھیار ہمیںدے دو ''۔

''ابھی نہیں ''……حدید نے سوچ کرکہا ……''میں قبل ازوقت تمہیں ہتھیار نہیں دے سکتا ۔ اگر ڈاکوئوں سے ٹکر ہوگئی تو اس وقت دے دوں گا ……ہمیں اس علاقے سے فوراً نکل جانا چاہیے ۔ ان سے گھوڑوں ساوراونٹوں پر لڑائی ہوگئی تو یہ علاقہ موزوں نہیں گھوڑے گھما پھرا کر لڑنے کے لیے یہ جگہ خراب ہے ''۔
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: داستان ایمان فروشوں کی ۔۔جلد اول مکمل

Post by ایکسٹو »


وہ فوراً وہاں سے چل پڑے۔ محافظوں نے کمانیں ہاتھوں میں لے لیں اور ترکش کھول لیے۔ حدید آگے تھا ۔ اسے اس کے ساتھی نے کہا …… ''ان جاسوسوں کو ہتھیار دینا ٹھیک نہیں ۔ آخر ہمارے دشمن ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ ڈاکوئوں کے ساتھ مل کر ہمیں مار ڈالیں ''۔

عالم لڑکیوں سے کہہ رہا تھا ……''ان لوگوں کی نیت ٹھیک نہیں ، انہوں نے ہمیں ہتھیار دینے سے انکار کر دیا ہے۔ ڈاکوئوں ان کے اپنے آدمی ہیں۔ یہ تم دونوں کو ان کے حوالے کر دیں گے اور مجھے مروا دیں گے ''۔

دونوں کو ایک دوسرے پربھروسہ نہیں تھا اور دونوں پر ڈاکوئوں کا ڈر سوار ہوگیا تھا ۔ حدید نے اپنے محافظوں سے کہہ دیا تھا کہ کوئی نقاب پوش نظر آئے تو مجھے بتائے بغیر اس پرتیر چلا دو۔ ان کے ساتھ ضرور ٹکر ہوگی۔ دیکھنا یہ ہے کہ کب ہوگی اور کہاں ہوگی …… وہ تیز رفتاری سے چلتے گئے ۔ گھوڑوں اور اونٹوں کو آرام، چارہ اور پانی ملتا رہا تھا ، اس لیے تھکن کا ان پر کوئی اثر نہیں تھا ۔ ٹیلوں کا علاقہ بہت دور چلا گیاتھا ۔ کئی جگہوں پر قافلہ اونچے ٹیلوں کے درمیان آجاتا تھا ۔ حدید کو ڈریہ تھا کہ ڈاکو اوپر سے تیرنہ برسا دیں ۔ اس نے گھوڑوں کو ایڑ لگانے کو کہا اور جاسوسوں سے کہا کہ وہ بھی اونٹوں کو گھوڑوں کی رفتار پر کر لیں اور اوپرکودیکھتے رہیں ۔

وہ اس علاقے سے نگل گئے ۔ کوئی ڈاکو نظر نہیں آیا ۔سورج نیچے جانے لگا تھا ۔ ایک بار دو اونٹ اسی سمت پر جاتے نظر آئے ، جدھر یہ قافلہ چلتارہا ۔ راستے میں ایک جگہ پانی مل گیا ۔ انہوں نے جانوروں کو پانی پلایا، خود بھی پیا اورپل پڑے۔ سورج نیچے جاتا رہا اور اُفق کے پیچھے چلاگیا ۔ شام تاریک ہوئی تو حدید نے قافلے کو روک لیا ۔ کہنے لگا ……''یہ جگہ لڑائی کے لیے اچھی ہے کیونکہ اردگرد کوئی رکاوٹ نہیں ''…… اس نے گھوڑوں کی زینیں کھولی نہیں، تاکہ ضرورت کے وقت گھوڑے تیارملیں۔ اونٹوں کو بٹھا دیاگیا۔ کھانا کھا کر حدید نے لڑکیوں کو اپنے درمیان لٹایا اور انہیں کہا کہ وہ ہوشیار رہیں ۔ محافظوں سے کہا کہ وہ کمانیں تیار رکھیں۔ سوئیں نہیں، لیٹے رہیں ۔ اسے یقین تھا کہ رات کوحملہ ضرور ہوگا.

رات آدھی گزر گئی تھی ۔ صحرا پر سکون اور خاموش رہا ۔ پھر اچانک ان کے گرد سیاہ بھوتوں جیسے بڑے بڑے ساء دوڑنے لگے ۔ اونٹوں کے قدموں کی دھمک دھمک سنائی دے رہی تھی اور زمین دہل رہی تھی۔ اونٹوں کی تعداد دس سے زیادہ معلوم ہوتی تھی ۔ ان پر ایک ایک سوا رتھا ۔ وہ محافظوں وغیرہ کو دہشت زدہ کرنے کے لیے ان کے اردگرد اونٹوں کو دوڑا رہے تھے ۔ تین چا ر چکر پورے کرکے ایک نے للکارا ……'' لڑکیاں ہمارے حوالے کردو۔ تم سے کچھ اور لیے بغیر ہم چلے جائیں گے ''۔

اس کے جواب میں حدید نے لیٹے لیٹے پہلا تیر چلایا۔ جسے تیر لگا اس کی بڑی زور کی آواز سنائی دی ۔ دوسرے محافظوں نے بھی لیٹے لیٹے ایک ایک تیر چلایا ۔ دو اونٹ بلبلا کر بولے اوربے قابو ہوگئے ۔ حدید نے لڑکیوں سے کہا …… ''بھاگنا نہیں ہمارے ساتھ رہنا''۔

شتر سواروں میںسے کسی نے کہا ……''ٹوٹ پڑو ۔ کسی کو زندہ نہ چھوڑو۔ لڑکیوں کو اُٹھالو''۔

صحرا کی رات اتنی شفاف ہوتی ہے کہ چاندنی نہ ہو تو بھی کچھ دور تک نظر آجاتا ہے۔ شتر سوار اونٹوں سے کود آئے ۔ پھر تلواریں اور برچھیاں ٹکرانے کااور دونوں فریقوں کی للکار کا شور رات کا جگر چاک کرنے لگا ۔ کسی کو ایک دوسرے کا ہوش نہ رہا۔ حدید اورمحافظ نے لڑکیوں کو اس طرح اپنے درمیان کر لیا تھا کہ محافظوں کی پیٹھیں لڑکیوں کی طرف تھیں ۔ لڑکیوں نے کئی بار کہا کہ ہمیں بھی کچھ دو ۔ حدید نے کہا ……''میر ی تلوار نکال لو '' …… وہ خود برچھی سے لڑ رہا تھا ۔ ایک لڑکی نے اس کی نیام سے تلوار نکال لی اور دونوں محافظوں کے درمیان سے نکل گئی۔ حدید نے اسے کہا …… ''ہم سے جدا نہ ہونا لڑکی ''…… ڈاکوئوں کا زیادہ ہلہ لڑکیوں پر تھا۔ عالم کی کوئی آواز سنائی نہ دی ۔

یہ معرکہ بہت دیر لڑاجاتا رہا ۔ آدمی بکھرتے چلے گئے ۔ محافظ ایک دوسرے کو پکارتے رہے پھر ان کی پکار ختم ہوگئی۔ معرکے کا شور بھی کم ہوتا گیا۔ حدید نے اپنے ساتھیوں کو پکارا لیکن اسے کوئی جواب نہیں مل رہا تھا ۔ اسے ایک لڑکی کی آواز سنائی دی ۔ وہ اسے پکار رہی تھی ۔ اس کے ساتھ ہی ایک گھوڑے کے سرپٹ دوڑنے کی آواز سنائی دی ۔ حدید سمجھ گیا کہ کوئی ڈاکو ایک لڑکی کو اونٹ کی بجائے کسی محافظ کے گھوڑے پر ڈال کر لے گیا ہے ۔ وہ دوڑ کر ایک گھوڑے تک پہنچا ۔ زین کسی ہوئی تھی۔ وہ گھوڑے پر سوار ہوا اور بھاگنے والے گھوڑے کے پاپوئوںکی آواز پرتعاقب میں گیا ۔ دوسری لڑکی کے متعلق اسے معلوم نہیں تھا کہ کہاں ہے۔ اس نے گھوڑے کو ایڑ لگائی۔ صحرا میں کوئی رکاوٹ ، کوئی ندی نالہ نہیں تھا۔ گھوڑا ہوا سے باتیں کرنے لگا ۔ اگلا گھوڑا بھی اچھی نسل کا تھا ۔ فرق یہ کہ اس گھوڑے پر دو سوا رتھے ۔

کوئی ایک میل بعد حدید کو اگلے گھوڑے کا سایہ نظر آنے لگا ۔ اس نے تعاقب جاری رکھا ۔ فاصلہ کم ہو رہا تھا۔ حدید نے محسوس کیا کہ اس کے پیچھے بھی ایک گھوڑا آرہا ہے جس کا سوار محافظ بھی ہو سکتا تھا اور ڈاکوبھی ۔ اس نے گھوم کر دیکھا ۔ پچھلا گھوڑا قریب آگیا تھا ۔ حدید نے پکارا ……''کون ہو ؟''…… اسے جواب نہ ملا۔ اسنے تعاقب جاری رکھا اور گھوڑے کو اور زیادہ تیز کرنے کی کوشش کرنے لگا ۔ اگلا گھوڑا سیدھا جا رہا تھا ۔ اس کی باگ شاید لڑکی کے ہاتھ میں آگئی تھی کیونکہ حدید دیکھ رہا تھا کہ وہ گھوڑا دائیں بائیں ہو رہا تھا اور اس کی رفتار بھی گھٹتی جا رہی تھی …… وہ اس تک پہنچ گیا ۔ اس کے پاس برچھی تھی ۔ اس نے اگلے سوار کو پہلو پر جاکر برچھی کا وار کیا لیکن وہ گھوڑا ایک طرف ہوگیا۔ سوار تو بچ گیا برچھی گھوڑے کو لگی۔ حدید نے گھوڑا روکا اور گھمایا ۔ دوسرا سوار بھی گھوڑنے کو گھمانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن لڑکی جو اس کے آگے بیٹھی تھی ، باگیں ادھر ادھر کرکے گھوڑے کا رخ صحیح نہیں ہونے دیتی تھی۔ حدید نے لڑکی کو پکارا تو لڑکی اورزیادہ دلیر ہوگئی۔

سوار لڑکی کو ساتھ لیے گھوڑے سے اُتر آیا اور اس نے اپنے گھوڑے کو ڈھال بنا لیا ۔ حدید اپنے گھوڑے کوگھما گھما کر لاتا مگر جدھر سے بھی وار کرنے آتا ڈاکو لڑکی کو ساتھ لیے اپنے گھوڑے کی اوٹ میں ہوجاتا ۔ آخر حدید گھوڑے سے اُتر آیا۔ اتنے میں دوسرا سوار بھی آگیا۔ وہ محافظ نہیں ڈاکو تھا۔ وہ بھی گھوڑے سے اُتر آیا ۔ حدید نے انہیں للکارا۔ ''لڑکی کو نہیں لے جاسکو گے ''…… ایک ڈاکو نے لڑکی کو دبوچے رکھا اور دوسرا حدید سے لڑنے لگا ۔ لڑکی کے پاس اب تلوار نہیں تھی ۔ دوسرے ڈاکو نے لڑکی کو چھوڑ دیا اور وہ حدید پر ٹوٹ پڑا ۔ حدید نے لڑکی کو پکار کرکہا …… ''تم گھوڑے پر بیٹھو اور شوبک کی طرف نکل جائو ۔ میں ان دونوں کو تمہارے پیچھے نہیں آنے دوں گا ''…… مگر لڑکی وہیں کھڑی رہی ۔

حدید نے دونوں کا خوب مقابلہ کیا ۔ ڈاکوئوں نے اسے بار بار کہا ……''ایک لڑکی کے لیے اپنی جان مت گنوائو '' …… حدید نے ہر بار یہی جواب دیا …… ''پہلے میری جان لو پھر لڑکی کو لے جا نا''…… اور اس نے کئی بار لڑکی سے کہا……''تم یہاںکیوںکھڑی ہو ۔ بھاگو یہاں سے ''آخر لڑکی نے کہا ……''میں تمہیں چھوڑ کر نہیں جائوں گی ''…… حدید زخمی ہونے لگا ۔ اس نے ایک بار پھر لڑکی سے کہا ……''میں زخمی ہو گیا ہوں ۔ میرے مرنے سے پہلے نکل جائو ''۔

ایک ڈاکو لڑکی کی طرف گھوما ۔ حدید کو موقع مل گیا۔ اس نے برچھی اس کے پہلو میں اُتار دی ، لیکن اس وقت دوسرے ڈاکو کی تلوار اس کے کندھے پرلگی۔ لڑکی نے ایک ڈاکو کو گرتے دیکھ لیا تھا ۔ اس نے دوڑکر اس کی تلوار لے لی اور پیچھے سے آکر دوسرے ڈاکو کی پیٹھ میں برچھی کی طرح اُتار دی ۔ وہ سنبھلنے لگا تو آگے سے حدید کی برچھی اس کے سینے میں اُتر گئی۔ وہ ڈاکو بھی ختم ہوگیا مگر اس کے ساتھہی حدید بھی کھڑا رہنے کے قابل نہ رہا۔ لڑکی نے اسے سہارا دیا تواس نے کہا …… ''تم ٹھیک ہونا ؟مجھے چھودو۔ گھوڑے پر بیٹھو اور فوراً شوبک کو روانہ ہوجائو ۔ اللہ تمہیںخیریت سے پہنچا دے گا ۔ شوبک دور نہیں ۔ اپنے ساتھیوں کی طرف نہ جانا ۔ وہاں شاید کوئی زندہ نہیں ہوگا ''۔

''زخم کہا ہیں؟''لڑکی نے اس سے پوچھا ۔

''مجھے مرنے دو لڑکی !''حدید نے کہا …… ''تم نکل جائو ۔ خداکے لیے میرا فرض تم خود ہی پورا کردو ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی اور قزاق ادھر آنکلے ''۔

لڑکی کی غلط فہمی اور شکوک رفع ہوچکے تھے۔ وہ سمجھ گئی تھی کہ اس شخص نے اس کی خاطر جان خطرے میں ڈالی ہے۔ اس نے اسے اکیلا چھوڑنے سے صاف انکار کر دیا ۔ دوڑ کرگئی۔ گھوڑے کی زین کے ساتھ بندھی ہوئی پانی کی چھاگل کھول لائی اور حدید کے منہ سے ساتھ لگا دی ۔ اسے پانی پلا کر چھاگل گھوڑے کے ساتھ باندھ دی اور اس سے پوچھنے لگی کہ

اس کے زخم کہا ںہیں ۔ حدید نے اسے زخم بتائے تواس نے اپنے پکڑے پھاڑے اور کچھ ٹکڑے حدید کے لباس سے پھاڑے۔ انہیں پانی میں بھگوکر اس نے حدید کے زخموں پرباندھ دیا۔ اسے اس کام کی ٹریننگ دی گئی تھی ۔ اس نے حدید کو سہارا دے کر اُٹھایا اور گھوڑے تک لے گئی۔ بڑی مشکل سے اسے گھوڑے پر بٹھایا ۔ خود دوسرے گھوڑے پر بیٹھنے لگی تو حدید نے کہا ۔ ''میں اکیلا گھوڑے پر نہیں بیٹھ سکوں گا ''۔وہاں تین گھوڑے تھے۔ لڑکی نے یہ دانشمندی کی کہ گھوڑے ضائع کرنے مناسب نہ سمجھے۔ دو گھوڑوں کی باگیں ایک گھوڑے کی زین کے پیچھے باندھ دیں اور خود حدید کے پیچھے سوار ہوگئی۔ اس نے حدید کی پیٹھ اپنے سینے سے لگالی اور اس کا سر اپنے کندھے پر ڈال لیا۔

''شوبک کی سمت بتاسکتے ہو؟ ''…… لڑکی نے پوچھا۔

حدید نے آسمان کی طرف دیکھا۔ ستارے دیکھے اور ایک طرف اشارہ کرکے کہا ……اس رخ کو چلو …… پھر اس نے لڑکی سے کہا ……''میں شاید زندہ نہیں رہ سکوں گا ۔ خون نکل رہا ہے۔ جہاںکہیں میری جان نکل جائے مجھے وہیں دفن کر دینا اور اگر تمہیں میری نیت پر کوئی شبہ تھا تو وہ دل سے نکل کر مجھے بخش دینا۔ میں نے امانت میں خیانت نہیں کی ۔ خدا تمہیں زندہ و سلامت اپنے ٹھکانے پر پہنچا دے''۔

گھوڑا چلا جا رہا تھا اور رات گزرتی جا رہی تھی ۔

٭ ٭

قسط 60

صبح طلوع ہوئی تو حدید بے ہوشی کی حالت میں تھا اور اپنے آپ کوہوش میں رکھنے کی سرتوڑ کوشش کر رہا تھا ۔ اس کا خون رُک گیا تھا لیکن زیادہ ترخون بہہ جانے سے اس کا جسم بے جان ہوگیا تھا ۔ لڑکی نے اسے چھوٹے سے نخلستان میں اُتارا، اسے پانی پلایا۔ گھوڑوں کے ساتھ کچھ کھانے کی چیزیں بندھی ہوئی تھیں ، وہ حدید کوکھلائیں ۔ اس سے اس کا دماغ صاف ہونے لگا۔ اسے پہلا خیال یہ آیا کہ وہ اس لڑکی کامحافظ تھا اب اس کا قیدی ہے۔ لڑکی نے اسے لٹادیا ۔ وہ رات بھر گھوڑے پر سوار رہے تھے۔ کچھ دیر کے آرام سے حدید کا جسم ٹھکانے آگیا۔ اس نے لڑکی سے کہا …… ''شوبک دور نہیں شاید ایک دن کی مسافت ہے۔ تم ایک گھوڑا لو اور اسے بھگاتی لے جائو، جلدی پہنچ جائو گی۔ میں واپس چلا جائوں گا ''

''تم زندہ واپس نہیں پہنچ سکو گے ''۔ لڑکی نے کہا…… ''اگر یہیں سے واپس جانا ہے تو مجھے ساتھ لے چلو ۔ تم نے مجھے اکیلا نہیں چھوڑا، میں تمہیں اکیلا نہیں چھوڑوں گی''۔

''میںمرد ہوں ''۔ حدید نے کہا …… ''میرادل نہیں مان رہا کہ ایک لڑکی نے میری حفاظت کرے اس سے بہتر ہے کہ میں مر جائوں ''۔

''میں ان معمولی سی لڑکیوں میں سے نہیں ہوں جو گھروں میں پڑی رہتی ہیں ''…… لڑکی نے کہا …… ''اورء جو مرد کی حفاظت کے بغیر ایک قدم نہیںچل سکتیں ۔مجھے ایک فوجی مرد سمجھو ۔ فرق صرف یہ ہے کہ میرا ہتھیار میری خوبصورتی ، میری جوانی اور میری چرب زبانی ہے ۔ میں تمہاری طرح سختیاں برداشت کر سکتی ہوں ۔ میںشوبک تک پیدل پہنچ سکتی ہوں ''۔

''میں تمہارے جذبے کی قدر کرتا ہوں ''…… حدید نے کہا …… ''ڈاکو ہم دونوں کو کتنا قریب لے آئے ہیں مگر ہم ایک دوسرے کے دشمن ہیں ۔ تم میرے ملک کی بنیادیں ہلانے کی کوشش کر رہی ہو اور ایک دین میں تمہارے ملک پر حملہ کرنے آئوں گا ''۔

''لیکن اس وقت میری دوستی قبول کر لو ''۔ لڑکی نے کہا …… ''دشمنی کی باتیں اس وقت سوچیں گے ۔ جب تم تندرست ہو کر اپنے ملک چلے جائو گے''۔ اس نے حدید کی گردن کے نیچے بازو کر کے اسے اُٹھایا۔ حدید اب اُٹھ سکتا تھا ۔ وہ اُٹھا اور آہستہ آہستہ چلتا گھوڑے تک پہنچ گیا ۔ لڑکی نے اس کا پائوں اُٹھا کر رکاب میں رکھا اور اُسے سہارا دے کر گھوڑے پر سوار کر دیا ۔ لڑکی بھی اسی گھوڑے پر سوارہونے لگی تو حدید نے ہاتھ آگے کر کے اسے روک دیا اور کہا …… ''تم اب دوسرے گھوڑے پر بیٹھو میں اکیلا سواری کر سکوں گا ''۔

''اس کے باوجود میں اسی گھوڑے پر بیٹھوں گی ''……لڑکی نے کہا …… ''تمہیں اپنے ساتھ لگائے رکھوں گی ''۔

حدید کی ضد کے باوجود لڑکی اس کے پیچھے سوار ہوگئی اور جب ایک بازو اس کے سینے پر رکھ کر اسے اپنے ساتھ لگانے لگی تو حدید نے مزاحمت کرتے ہوئے کہا ……''مجھے ذرا اپنے سہارے بیٹھنے دو ''…… لڑکی نے اسے زبردستی اپنے ساتھ لگا کر اس کا سر اپنے کندھے پر ڈال دیا ۔ اس نے حدید سے پوچھا …… ''میں جانتی ہوں تم مجھے بدکار لڑکی سمجھ کر مجھ سے دور رہنے کی کوشش کر رہے ہو ''۔

''نہیں ''۔ حدید نے کہا …… ''میں تمہیں صرف لڑکی سمجھ کر دور رہنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ اگر تمہیں اپنے قریب کرنے کر خواہش ہوتی تو دو راتیں تم بے بسی کی حالت میں میری قید میں رہی ہو۔ میں تمہیں اپنی لونڈی بنا سکتا تھا لیکن میں نے اپنے اوپر شیطان کا غلبہ نہیں ہونے دیا تھاتو ۔ اب تو مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے میں امانت میں خیانت کر رہا ہوں۔ میرے اندر گناہ کا احساس پیدا ہو رہا ہے ''۔

''تم پتھر تو نہیں ہو؟'' لڑکی نے اس سے پوچھا ……''مجھے تو جس مرد نے بھی دیکھا ہے بھوکی نظروں سے دیکھا ہے ۔ میں نے صرف اتنی سی قیمت دے کر تمہاری قوم کے دو مومنوں کے ایمان خرید لیے تھے ''۔

''کتنی قیمت؟ ''…… حدید نے پوچھا ۔

''صرف اتنی سی کہ انہیں پاس بٹھایا اور سر اپنے کندھے پر رکھ لیا تھا ''۔

''ان کے پاس ایمان تھا ہی نہیں ''۔ حدید نے کہا ۔

''جو کچھ بھی تھا ''۔ لڑکی نے کہا …… ''وہ میں نے ان سے لے لیا تھا ۔ اس کی جگہ ان کے دلوں میں اپنی قوم کے خلاف غداری ڈال دی تھی ''۔

''وہ کون ہیں ؟…… حدید نے پوچھا ۔

''ابھی نہیں بتائوں گی ''۔ لڑکی نے جواب دیا ……''جس طرح تم اپنے فرض کے پکے ہو اسی طرح مجھے بھی اپنا فرض عزیز ہے ''۔

حدید خاموش ہوگیا ۔ وہ لڑکی کے جسم کی حرارت اور ہلکی ہلکی بو محسوس کر رہا تھا ۔ لڑکی کے کھلے ہوئے ریشمی سے بال ہوا سے لہرا کر اس کے گالوں پر پڑ رہے تھے اور گالوں کو سہلا رہے تھے ۔ اسے اونگھ آگئی۔ گھوڑا چلتا رہا ۔ بہت دور جا کر حدید کی آنکھ کھلی تو سورج سر پر آچکا تھا ۔ اس نے کہا …… ''گھوڑے کو ایڑ لگائو ۔ مجھے اُمید ہے کہ ہم سورج غروب ہونے کے بعد شوبک پہنچ جائیں گے ۔''

لڑکی نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور صحرا تیزی سے پیچھے ہٹنے لگا ۔

٭ ٭ ٭

سورج غروب ہو چکا تھا۔ شوبک کے قلعے کے اس کمرے میں جہاں صلیبی حاکموں اور کمانڈروں کے اجلاس ہوا کرتے تھے ، وہاں حاکم اور کمانڈر بیٹھے تھے ۔ ان میں عالم جاسوس بھی بیٹھا تھا ۔ وہ کہہ رہا تھا ……''میں یہ نہیں بتا سکتا کہ دونوں لڑکیوں کا کیا حشر ہوا یا ہورہا ہے ۔ میں نے انہیں بچانے بلکہ انہیں دیکھنے کی بھی کوشش نہیں کی کیونکہ ان سے زیادہ قیمتی یہ راز تھا جو مجھے آپ تک پہنچانا تھا ۔ جیسا کہ میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ ڈاکوئوں نے حملہ کیا تو میں موقع دیکھ کر ایک طرف ہوگیا اور گھوڑے تک پہنچ گیا ۔ ایک تو میری رہائی معجزہ ہے۔ دوسرا معجزہ یہ ہوا کہ میں اتنے خونریز معرکے میں سے صاف بچ کرنکل آیا ۔ کوئی بھی میرے پیچھے نہیں آیا ۔ میرا خیال ہے کہ وہ ڈاکو نہیں تھے ، سلطان صلاح الدین ایوبی کے بھیجے ہوئے آدمی تھے ۔ یہ نہیں بتا سکتا تھا کہ اس نے ہم تینوں کو خود سزائے موت کیوں نہ دی اور لڑکیوں کو خراب کرانے کا یہ طریقہ کیوں اختیار کیا ۔ یہ ایک ڈھونگ تھا ۔ لڑکیاں اب ان لوگوں کے قبضے میں ہوں گی اور ظالمانہ اذیتیں برداشت کر رہی ہوں گی''۔

''انہیں چھڑانے کا ہم کوئی طریقہ نہیں سوچ سکتے''۔ایک صلیبی حاکم نے کہا ۔ ''یہ قربانیاں تو دینی پڑتی ہیں ۔ ہمارے پاس لڑکیوں کی کمی نہیں ۔ ہمارا یہ طریقہ کامیاب ہے۔ اسے جاری رکھنے کے لیے اور لڑکیاں تیار کرو …… سب آگئے ہیں ۔اب وہ راز بتائو جو تم اپنے ساتھ لائے ہو ''۔

عالم جاسوس انہیں سنا چکا تھا کہ وہ قاہرہ کی ایک مسجد سے کس طرح گرفتار ہوا تھا ۔ قید خانے میں اس کے ساتھ اور لڑکیوں کے ساتھ کیا سلوک ہوا اور سلطان ایوبی نے انہیں کس طرح خلاف توقع رہا کیا۔ اس نے یہ بھی سنایا کہ یہ راز سلطان ایوبی نے اسے کس طرح دیا ہے۔ اس نے تاریخ بتا کر کہا ……''صلاح الدین ایوبی اس روز اپنی فوج کو کوچ کرائے گا ۔ وہ کرک پر حملہ کرے گا۔ نائب سالار کہہ رہے تھے کہ شوبک کو پہلے لینا چاہیے کیونکہ یہ مضبوط قلعہ ہے لیکن صلاح الدین شوبک پر اپنی طاقت نہیں ضائع کرنا چاہتا ۔وہ کرک کو کمزور سمجھ پر پہلے اسے لیناچاہتا ہے۔ وہاں وہ اپنی فوج اور رسد وغیرہ کا اڈہ بنائے گا ۔ رسد جمع کر کے وہ کمک بلائے گا اور فوج کو کافی آرام دے کر شوبک پر حملہ کرے گا ۔ اس نے یہ خاص طور پر کہا تھا کہ وہ ہمیں بے خبری میں لینا چاہتاہے۔ اس کی وجہ اس نے یہ بتائی ہے کہ اس کی فوج کم ہے اور ہماری فوج زیادہ بھی ہے اور ہمارے پاس گھوڑے بھی بہتر ہیں اور ہمارے پاس خود اور زرہ بکتر ہیں ۔ اس نے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ اگر صلیبی فوج نے اسے راستے میں روک لیا تواسے شکست کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا ۔ وہ کھلے میدان میں لڑنے سے ڈرتا ہے ''…… عالم جاسوس نے وہ تمام باتیں بتائیں جو اس نے سلطان ایوبی کی زبان سے سنی تھیں ۔

اتنے قیمتی اور اہم راز کی تفصیل سن کر لڑکیوں کو سب بھول گئے اور اس مسئلے پر تبادلہ خیالات کرنے لگے۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے کر سلطان ایوبی غیرمعمولی طور پر دانشمند جنگجو ہے۔ اس نے کرک پر حملے کا جو پلان بنایا ہے اس میں اس کی جنگی فہم و فراست کا پتہ ملتاہے۔ راستے میں نہ لڑنے کا فیصلہ بھی اس کی دانائی کی دلیل ہے۔ وہ راستے میں طاقت ضائع نہیں کرنا چاہتا ۔ یہ خدائے یسوع مسیح کا خاص کرم ہے کہ اس کے پلان کاعلم ہوگیا ہے، ورنہ وہ کرک کو لے کر شوبک جیسے مضبوط دفاع کے لیے خطرہ بن سکتا تھا …… انہوں نے اسی وقت سلطان ایوبی کے پلان کے مطابق اپنی فوجوں کی نقل و حرکت اور اوردفاع کا پلان بنانا شروع کر دیا ۔ پلان میں یہ اقدامات طے پائے۔

صلیبی افواج کی متحدہ مرکزی کمان شوبک میں ہی رہے گی۔ رسد گاہ بھی وہیں رکھی جائے گی۔ جنگ کو شوبک سے ہی کنٹرول کیا جائے گا۔

کرک کی قلعہ بندی کواور زیادہ مضبوط کیا جائے گا ۔ کچھ اور فوج کرک منتقل کردی جائے گی۔

ایوبی کو کرک سے دور اس کی اپنی سرحد کیاندر کسی دشورا گزار علاقے میں روکا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے زیادہ سے زیادہ فوج بھیجی جائے گی۔ اس فوج میں گھوڑ سوار اور شتر سوار زیادہ ہوں گے۔ کوشش کی جائے گی کہ ایوبی کی فوج کو گھیرے میں لے لیا جائے۔ پانی کے چشموں پر پہلے سے قبضہ کر لیا جائے۔

ان اقدامات پر فوری طور پر عمل درآمد کے احکامات نافد کردئیے گئے۔ ہر کوئی خوش تھا۔ یہ پہلا موقعہ تھا کہ سلطان ایوبی کا کوئی راز قبل از وقت معلوم ہوگیا تھا ورنہ اس نے صلیبیوں کو ہمیشہ آڑے ہاتھوں لیا تھا ۔ اس پر حیرت کا بھی اظہار کیا گیا کہ سلطان ایوبی جیسے آدمی سے یہ لغزش سردز ہوئی کہ ان جاسوسوں کو دوسرے کمرے میں بٹھا کر جنہیں وہ رہاکرنے کا فیصلہ کر چکا تھا ایسی نازک باتیں بلند آواز سے کیں جو اسے شکست فاش سے دو چار کر سکتیں تھیں۔ انہوں نے ایک اہتمام یہ بھی کیا کہ فرانس کی فوج جو وہاں سے بہت دور تھی ۔ یہ پیغام بھیج دیا کہ فلاں دن سے پہلے پہلے ایسے مقام پرپہنچ جائے جہاں نورالدین زنگی کی بھیجی ہوئی کمک کو روکاجا سکے۔

اتنے میں ایک صلیبی افسر اندر آیا اور انٹیلی جنس کے سربراہ کے کان میں کچھ کہا ۔ اس سربراہ نے سب کو بتایا کہ ان دو میں سے ایک لڑکی جو ڈاکوئوں کے گھیرے میں آگئی تھی ابھی ابھی آئی ہے۔ اطلاع ملی ہے کہ اس کے ساتھ ایک زخمی مسلمان محافظ ہے۔ عالم جاسوس سب سے پہلے کمرے سے نکل گیا۔ اس کے پیچھے دوسرے لوگ بھی باہر چلے گئے۔ حدید کو لڑکی نے برآمدے میں لٹادیا تھا اور خود اس کے پاس بیٹھی تھی ، گھوڑے کی اتنی لمبی سواری اور تیز رفتاری نے حدید کے زخم کھول دئیے تھے۔ اس کا خون جو صبح بند ہو گیا تھا پھر بہنے لگا تھا اور اس پر غشی طاری ہوئی جا رہی تھی ۔ صلیبی کمانڈروں نے حدید کی طرف کوئی توجہ نہ دی کیونکہ انہیں بتایا گیاتھا کہ ڈاکوئوں کاحملہ ایک ڈھونگ تھا ۔ انہوں نے لڑکی کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور اسے اندر چلنے کو کہا۔ وہ بڑی قیمتی لڑکی تھی لیکن اس نے اس وقت تک اندر جانے کاارادہ ملتوی کر دیا۔ جب تک حدید کی مرہم پٹی نہیں ہوجاتی ۔

انٹیلی جنس کا سرابراہ ہرمن نام کا جرمن تھا ۔ اس نے لڑکی کو پرے لے جاکر کہا …… ''کس سانپ کے بچے کی تم مرہم پٹی کرانا چاہتی ہو۔ یہ تو تمہاری قسمت اچھی تھی کہ بچ کر آگئی ہو ، ورنہ ر درندے تمہیں ان وحشیوں کے حوالے کرنا چاہتے تھے جو ڈاکو بن کر آئے تھے ''۔

''یہ جھوٹ ہے ''۔لڑکی نے جھنجھلا کر کہا ۔ ''پہلے ہمیں بھی یہی شک تھا لیکن اس شخص نے میرے سارے شکوک رفع کر دئیے ہیں۔ اس نے دو ڈاکوئوں کو ہلاک کرکے مجھے بچایا ہے ''۔ اس نے ہرمن کو ساراواقعہ سنادیا اور یہ بھی بتایا کہ یہ شخص اسے بار بار کہتاتھا کہ مجھے یہیں مرنے دو اور تم چلی جائو ۔

صلیبیوں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اتنی گہری اُتری ہوئی تھی کے اتنے زیادہ افسروں میں سے کسی ایک نے بھی نہیں کہا کہ اس زخمی کی مرہم پٹی کرو۔ عالم جاسوس تک نے اس کی طرف توجہ نہ دی۔ لڑکی ان کے ساتھ اندر نہیں جارہی تھی ۔ آخر کسی نے کہا کہ زخمی کو کمرے میں لے چلو اور فوراً مرہم پٹی کرو۔ اسے اُٹھوا کر لے گئے اور لڑکی اپنے افسروں کے ساتھ چلی گئی۔ اسے کہا گیا کہ وہ بیان کرے کہ کس طرح زندہ بچی ہے۔ اس نے پوری تفصیل سے سنا دیا ۔ اس دوران اس کے وہیں کھانا اور شراب آگئی۔ اس نے کہا ……''اگر زخمی کو کھاناکھلایا جا چکا ہے تو میں کھائوں گی ۔ میں ذرا اسے دیکھ آئوں ''……وہ جانے کے لیے اُٹھی ۔

''ٹھہرو لوزینا!''……ہرمننے اسے بڑے رعب سے کہا …… ''تم دوسری بار صلیب کی فوج کے احکامات کی خلاف ورزی کر رہی ہو۔ پہلے تمہیں اندر چلنے کو کہا گیا تو تم نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ پہلے زخمی کو اُٹھائو ۔ اب تو بلااجازت اور بدتمیزی سے باہر جارہی ہو۔ یہ سب صلیبی فوج کے اعلیٰ احکام ہیں اور یہاں دو صلیبی حکمران بھی بیٹھے ہیں۔جانتی ہوںاس حکم عدولی اور بدتمیزی کی سزاکیا ہے ؟…… دس سال سزائے قید …… اور جب تم یہ حکم عدولی دشمن کے ایک معمولی سے عہدیدار کی خاطر کر رہی ہو، تم تمہیں سزائے موت بھی دی جاسکتی ہے''۔

''کیا صلیبی حکمران اور کانڈر اس انسان کو اس کا صلہ نہیں دیں گے کہ اس نے ان کی ایک تجربہ کار جاسوسہ کی جان اپنی جان خطرے میں ڈال کر بچائی ہے ؟'' لڑکی نے کہا …… ''میں جانتی ہوں کہ وہ میرے دشمن کی فوج کا عہدیدار ہے لیکن میں اسے دشمن اس وقت کہوں گی جب وہ اپنی فوج میں واپس چلا جائے گیا ''۔

''دشمن ہر حال میں اور ہر جگہ دشمن ہے ''……ایک صلیبی کمانڈر نے چلا کر کہا ……''فلسطین میں ہم نے کتنے مسلمانوں کو زندہ رہنے دیا ہے؟ اس کی نسل ہم کیوں ختم کر ہے ہیں ؟ اس لیے کہ وہ ہمارے دشمن ہیں بلکہ اس لیے کہ وہ ہمارے مذہب کے دشمن ہیں ۔ دنیا پر صرف صلیب کی حکمرانی ہوگی۔ ایک زخمی مسلمان ہمارے لیے کوئی حیثیت نہیں رکھتا ۔ بیٹھ جائو ''۔ لڑکی بیٹھ گئی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
اگلی صبح سے شوبک میں ایک نئی سرگرمی شروع ہوگئی۔ یہ فوجی نوعیت کی سرگرمی تھی شوبک کے شہر کے لوگ اس سرگرمی سے بے نیاز اپنے کام کاج میں مصروف ہوتے جا رہے تھے۔ قلعے سے فوجیں نکل رہی تھیں۔ سامان بھی ادھر ادھر کیا جا رہا تھا ۔ باہر سے آنی والی فوج کی عارضی خیمہ گاہ کے لیے جگہ خالی کی جا رہی تھی ۔ رسد اکٹھی کرنے کے لیے اونٹوں کی قطاریں آرہی تھیں۔ فوجی ہیڈ کوارٹر میں بھی بھاگ دوڑ تھی۔ یہ ساری تیاری صلاح الدین ایوبی کا حملہ روکنے کے لیے کی جا رہی تھی اور ان احکامات پر عمل درآمد شروع ہوگیا تھا جو گزشتہ رات کے پلان کے مطابق دئیے گئے تھے ۔ ہر ایک افسر اس افراتفری میں مصروف تھا۔ چند ایک بڑے افسر کرک روانہ ہوگئے تھے۔

صرف ایک لڑکی تھی جو اس سرگرمی اور بھاگ دوڑ سے لا تعلق تھی۔ یہ وہی لڑکی تھی جو زخمی حدید کو لائی تھی ۔ اس کے افسر نے اسے لوزینا کے نام سے پکارا تھا ۔ رات اسے کانفرنس کے کمرے سے آدھی رات کے بعد فراغت ملی تھی ۔ وہ جاسوسی کے خصوصی شعبے سے تعلق رکھتی تھی اس لیے کانفرنس میں اس کی ضرورت تھی ۔ اس سے قاہرہ کے ان افراد کے متعلق رپورٹیں لینی تھیں جن کے پاس وہ جاتی رہی تھی ۔ آدھی رات کے بعد نیند اور گھوڑ سواری کی تھکن نے اسے نڈھال کر دیا تھا ۔ کانفرنس کے بعد ایک افسر نے اسے کہا تھا …… ''اسے ڈاکٹر کے حوالے کر دیا گیا ہے ۔ تمہیں اس کی اتنی زیادہ پریشانی نہیں ہونی چاہیے۔ تمہاری ڈیوٹی ایسی ہے جس میں ایسے جذبات کامیاب نہیں ہونے دیا کرتے ''…… اور اس کے اپنے شعبے کے بڑے افسر، ہرمن نے اسے کہا تھا ……''اگر آج رات میں نہ ہوتا تو نارڈ اور گے آف لوزینان جیسے بادشاہ کسی کو بخشا نہیں کرتے تمہیں قید میں ڈال دیتے ۔ تمہارے محافظ کا انتظام کر دیا گیاہے اور تمہارے لیے یہ حکم ہے کہ اسے تم نہیں ملو گی ''۔

''کیوں؟ '' …… لوزینا نے حیرت اور مایوسی سے پوچھا …… ''کیا میں اس کا شکریہ بھی ادا نہ کر سکوں گی؟''
صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
ایکسٹو
کارکن
کارکن
Posts: 125
Joined: Mon Dec 08, 2014 11:53 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: داستان ایمان فروشوں کی ۔۔جلد اول مکمل

Post by ایکسٹو »


''نہیں ''۔ہرمن نے کہا …… ''کیونکہ وہ دشمن کا فوجی ہے۔ تم اپنا شعبہ جانتی ہو کیا ہے۔ ہم تمہیں اس سے ملنے کی اجازت نہیں دے سکتے ۔ تمہیں دشمن کے ساتھ ایسی وابستگی کی اجازت نہیں دی جا سکتی ''۔

''آپ مجھے صرف اتنا سا یقین دلا دیں کہ اس کی مرہم پٹی ہوگئی ہے ''۔ لوزینا نے کہا ……''اور اسے صحیح و سلامت واپس بھیج دیا جائے گا ''۔

''لوزینا !'' ہرمن نے جھنجھلا کر کہا …… ''میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ تمہاری یہ خواہش پوری کر دی جائے گی اور سنو۔ تم بڑے مشکل اور خطرناک مشن سے واپس آئی ہو اور تمہارا سفر زیادہ خطرناک تھا ۔ تمہیں آرام کے لیے دس دن چھٹی دی جاتی ہے۔ مکمل آرام کرو ''۔

یہ باتیں رات کو ہوئی تھیں۔ وہ اپنے کمرے میں چلی گئی تھی۔ جاسوس لڑکیوں کی رہائش ہائی کمان کے مین کوارٹر سے بہت دور تھی۔ اس جیسی اعلیٰ درجے کی جاسوس لڑکیاں نہایت اچھے کمروں میں رہتی تھیں۔ جہاں انہیں شہزادیوں جیسی سہولتیں اور عیاشی میسر تھی۔ ان کی ڈیوٹی ایسی تھی کہ انہیں مسلمان ملکوں میں بھیجا جاتا تھا ۔جہاں پکڑے جانے کی صورت میں انہیں ہر قسم کے اذیت اورذلت میں ڈالا جا سکتا تھا ۔ موت یا سزائے موت تو یقینی تھی ۔ ایسی ڈیوٹی کا تقاضا تھا کہ ان لڑکیوں کو دنیا کی ہر آسائش مہیا کی جائے۔ لوزینا کمرے میں جاتے ہی سو گئی تھی۔ دوسرے دن اس کا جسم ٹوٹ رہا تھا ۔ وہ اُٹھنا نہیں چاہتی تھی لیکن وہ اُٹھی او ر ناشتہ کرکے باہر نکل گئی۔ اس کے ساتھ والے کمرے میں لڑکیاں آگئیں ۔ وہ اس سے قاہرہ کی باتیں سننا چاہتی تھیں۔ اس نے بہت ہی مختصر سی بات سنا کر انہیں ٹال دیا اور ہسپتال کی طرف چل پڑی۔

٭ ٭ ٭

وہ تھوڑی ہی دور گئی تھی کہ اس کی ایک ساتھی لڑکی جو اس کی ہمراز سہیلی تھی پیچھے سے جا ملی اور پوچھا …… ''لوزینا !کہاں جارہی ہو ؟ اور تم پریشان ہو۔ یہ تھکن کا اثر ہے یا کو ئی خاص واقعہ ہوگیا ہے ؟ تمہیں چھٹی نہیں ملی؟''

''چھٹی مل گئی ہے ''۔اس نے جواب دیا …… ''ایک خاص واقعہ ہوگیا ہے جس نے مجھے پریشان کر دیا ہے''…… وہ سہیلی کو ساتھ لیے ایک درخت کے نیچے جا بیٹھی اور اسے تمام واقعہ سنادیا ۔ اسے اپنے افسروںنے جو دھمکیاں دی تھیں وہ بھی سنائیں اور اس نے کہا …… ''میں حدید سے ملنا چاہتی ہوں ۔ مجھے ڈر ہے کہ اس کی مرہم پٹی نہیں ہوئی اورشہر سے نکال دیا گیا ہے یا اسے مرنے کے لیے کسی کوٹھری میں بند کر دیا گیا ہے ''۔

''تم نے بتایا ہے کہ تمہیں اس سے ملنے سے منع کر دیا گیا ہے''۔ سہیلی نے اسے مشورہ دیا …… ''یہ خطرہ مول نہ لو ۔ تم اگر پکڑی گئیں تو جانتی ہو کہ کیا سزا ہے ؟''

''اس شخص کے لیے میں سزائے موت بھی قبول کر لوں گی''۔لوزینا نے کہا …… ''میں تمہیں سنا چکی ہوں کہ اس نے میری خاطر اپنی جان خطرے میں ڈالی ہے ۔میری جان کو تو کوئی خطرہ نہ تھا۔ ڈاکو مجھے لے بھی جاتے تو چند دن مجھے خراب کرکے کسی امیر کبیر کے ہاتھ فروخت کردیتے ۔ حدید میرے اس انجام سے آگاہ تھا ۔ ا س نے میری عزت کی خاطر اپنی جان کی بازی لگا دی تھی۔ ڈاکوئوں نے کہا بھی تھا کہ لڑکیاں ہمیں دے دو اور چلے جائو۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ میں پاکباز لڑکی نہیں مگر اس نے مجھے امانت سمجھا ''۔

''تم اس کے لیے جذباتی ہوگئی ہو؟''

''ہاں !''لوزینا نے جواب دیا …… ''میں جذبات کااظہار ہرمن کے آگے نہیں کر سکتی تھی ، اپنا دل تمہارے آگے رکھ سکتی ہوں۔ تم میری سہیلی ہو اور عورت کا دل رکھتی ہو۔ ہماری زندگی کیا ہے ؟ ہم ایک خوبصورت خنجر اور بیٹھا زہر ہیں ۔ ہمارا جسم مرد کی تفریح اورفریب کے لیے استعمال ہوتاہے۔ میںنے یہ باتیں پہلے کبھی نہیں سوچی تھیں۔ اپنے وجود کو جذبات سے خالی سمجھا تھا مگر اس آدمی کے جسم کو میں نے اپنے جسم کے ساتھ لگایا تو میرے وجود میں وہ سارے جذبات بیدار ہوگئے۔ جو میں سمجھتی تھی مجھ میں نہیںہیں۔ میں ایک ہی بارماں ، بہن ، بیٹی اور کسی کو چاہنے والی لڑکی بن گئی۔ یہ شاید اس کااثر تھا کہ اپنے آپ کومیں بادشاہوں کے دلوں پر حکمرانی کرنے والی شہزادی سمجھتی تھی ''……

''مجھ میں اتنی تخریب کاری ڈالی گئی ہے کر جابر حکمرانوں کو بھی انگلیوں پر نچا سکتی ہوں۔مگر ڈاکوئوں نے مجھے بکنے والی چیز بنا دیا۔ مجھے اس سطح پر لے آئے جہاں مجھ جیسی لڑکیاں ہررات نئے گاہک کے ہاتھ فروخت ہوتی ہیں یا کسی مسلمان امیر یا حاکم کے ہاتھ فروخت ہو کر اس کے حرم کی لونڈیاں بن جاتی ہیں۔اس آدمی جس کا نام حدید ہے، مجھے اس سطح سے اُوپر اُٹھالیا۔ اس سے پہلے میں اس کی قیدی تھی۔ ا س نے مجھے قابل نہیں سمجھا کہ مجھے تفریح کا ذریعہ بناتا۔ وہ ایسا کرسکتا تھا۔ اس نے مجھے نظر انداز کیا پھر اس نے میری عزت بچانے کے لیے اپنا جسم کٹوالیا تو میں نے بے قابول ہو کر اسے اپنے سینے سے لگا لیا اور اس سطح کی لڑکی بن گئی جس سے مجھے گرا دیا گیا ہے۔ مجھے صلاح الدین ایوبی کی بات یاد آئی۔ اس نے مجھے کہا کہ تم کسی باعزت آدمی کے ساتھ شادی کیوں نہیں کر لیتی؟ میں نے دل میں کہا تھا کہ یہ مسلمان احمق ہے۔ میں اب محسوس کر رہی ہوں کہ ہمارے دشمن نے کتنی عظیم بات کہی تھی …… میں تمہیں صاف بتا دیتی ہوں کہ میں اب جاسوسی نہیں کر سکوں گی۔ میرے دماغ میں بچپن سے جو سبق ڈالے گئے تھے وہ صحرا کی خوفناک رات نے ڈاکوئوں کے خطرے نے اور حدید کے جسم کی حرارت اور اس کے خون کی بو نے زائل کر دئیے ہیں ''۔

''تم اتنی لمبی بات نہ کرتی تو بھی جان گئی تھی کہ تم کیا محسوس کر رہی ہو ''۔ اس کی سہیلی نے کہا ……''لیکن میں حقیقت سے آگاہ کرنا ضروری سمجھتی ہوں ۔ اسے چلے جانا ہے۔ تم اس کے ساتھ نہیں جا سکو گی۔ وہ اگر یہاں تکلیف میں ہے تو حکم ہے کہ تم اسے نہیں مل سکتیں۔ اگر پکڑی گئیں تو اپنے ساتھ اسے بھی مروائو گی''۔

''تو تم میری مدد کرو''۔لوزینا نے منت کی ۔ ''یہ معلوم کروکہ وہ کہاں ہے۔ مجھے صرف یہ معلوم ہوجائے کہ وہ ٹھیک ہوگیا ہے اور تندرستی کی حالت میں چلاگیا ہے تو میرے دل کو چین آجائے گا ''۔

''ہاں!'' سہیلی نے کہا …… ''میں یہ کام کر سکتی ہوں ۔ تم کمرے میں چلی جائو ۔ وہ کمرے میں چلی گئی اور اس کی سہیلی کسی اور طرف نکل گئی ''۔

٭ ٭ ٭

قاہرہ میں بھی فوجوںمیں بہت سرگرمی تھی ۔ فوج کی جنگی مشقیں کرائی جا رہی تھیں۔ چند ایک دستے الگ کر لیے گئے تھے۔ انہیں شبخون مارنے ، تھوڑی تعداد میں دشمن کی کوئی گنا زیادہ نفری پرحملہ کرنے اور ''ضرب لگائواور بھاگو'' کی مشقین اس طرح کرائی جارہی تھیں کہ رات کو بھی دستے چھاونی سے باہررہتے تے۔ سلطان ایوبی ذاتی طور پر یہ مشقیں دیکھتا تھا ۔ وہ تیسرے چوتھے روز اعلیٰ کمانڈروں اور دستوں کے کمانداروں تک کو لکچر دیتا اورانہیں نقشوں اور خاکوں کی مدد سے جنگی چالیں سکھاتا تھا ۔ اس نے اس ٹریننگ کا بنیادی اصول یہ رکھا تھا …… ''کم تعداد سے دشمن کا زیادہ نقصان کرنا۔ ہتھیار سے زیادہ عقل کو استعمال کرنا۔ آمنے سامنے کے معرکے سے گریز کرنا۔ سامنے سے حملہ نہ کرنا۔دس بارہ آدمیوں کے شبخون سے اتنا نقصان کرنا جتنا ایک سو آدمی دن کے وقت دُو بدو معرکے میں کر سکتے ہیں ''۔

اس کے علاوہ دشمن کے کسی قلعے یا شہر کو لمبے محاصرے میں رکھنے کے طریقے بتاتا اور قلعوں کی دیواروں میں نقب لگانے کے سبق دیتا تھا ۔ اس نے تمام اونٹوں ، گھوڑوں اور خچروں کا معائنہ کر لیا تھا ۔ کمزور یا عمر خورد جانوروں کو اس نے الگ کر دیا تھا …… حملے کی تاریخ طے ہوچکی تھی ۔ سلطان ایوبی نے فلسطین کی فتح کا جو منصوبہ بنایا تھا اس کے پہلے مرحلے میں کامیابی سے داخل ہونے کی تیاری زور و شور سے کر رہا تھا ۔ ادھر اسے راستے میں ہی روکنے کے اہتمام ہو رہے تھے۔

دونوں فوجوں کی تیاریاں ایسی تھیں جیسے ایک دوسرے کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیں گے۔ صلیبیوں کی تیاری کا دائرہ شوبک سے کرک تک اور مصر کی سرحدوں تک تھا ۔ وہ اس وسیع دائرے کو سلطان ایوبی کے لیے ایسا پھندہ بنا رہے تھے جس میں سے اس کے لیے ساری عمر نکلنے کا کوئی امکان نظر نہ آتا تھا ۔ ان کی تیاریاں سلطان ایوبی کے اس منصوبے کی اس روشنی میں ہو رہی تھیں جو ان تک قبل از وقت پہنچ گیا تھا ۔

ان وسیع تیاریوں کے اندر شوبک میں ایک سرگرمی اور بھی تھی ، جس کا تعلق جنگ سے نہیں جذبات سے تھا اور یہ ایک خفیہ سرگرمی تھی۔ لوزینا اپنے کمرے میں پڑی حدید کے لیے بے قرار ہو رہی تھی اور اس کی سہیلی دو روز سے حدید کو ڈھونڈ رہی تھی ۔ وہ افسروں کے ہسپتال میں بھی نہیں تھا او و سپاہیوں کے ہسپتا ل میں بھی نہیں تھا ۔ وہ جاسوس لڑکی تھی ۔ بڑے بڑے افسر بھی اس کی عزت کرتے تھے۔ لوزینا کو اور ہر جاسوس لڑکی کو وہاں اہمیت حاصل تھی ۔ اس کے باوجود یہ سہیلی جس سے بھی پوچھتی کہ لوزینا کے ساتھ جو زخمی مسلمان آیا تھا وہ کہاں ہے تو اسے یہی ایک جواب ملتا …… ''میں نے تو اسے نہیں دیکھا ''……تیسرے دن ایک افسر نے اسے رازداری سے بتایا کہ اس کی مرہم پٹی کر دی گئی تھی اور اسے مسلمانوں کے کیمپ میں بھیج دیا گیا تھا ۔

سہیلی نے جب یہ خبر لوزینا کو سنائی تو اس پر سکتہ طاری ہوگیا …… ''مسلمانوں کا کیمپ ''ایک خوفناک جگہ تھی ۔ اس میں پہلی جنگوں کے مسلمان قیدی بھی تھے اور وہ مسلمان بچے بھی جنہیں کسی جرم کے بغیر صلیبیوں نے اپنے مقبوضہ علاقے سے پکڑا تھا ۔ یہ مسلمان زیادہ تر ان قافلوں میں سے پکڑے جاتے تھے جنہیں صلیبی لوٹتے تھے۔ یہ کیمپ قیدخانہ نہیں تھا ، یہ جنگی قیدی کیمپ کہلاتا تھا ۔ یہ ایک بیگار کیمپ تھا جس پر کوئی ایسا کڑہ پہرا نہ تھا جیسا قید خانوں میں ہوتا ہے۔ ان بد نصیب قیدیوں کا کوئی باقاعدہ ریکارڈبھی نہ تھا ۔ یہ لوگ مویشی بنا دئیے گئے تھے ۔ جہاں ضرورت ہوتی ان میں سے بہت سے آدمی ہانک کر لے جائے جاتے اور ان سے کام لیا جاتا تھا ۔ انہیں خوراک صرف اتنی سی دی جاتی جس سے وہ زندہ رہ سکتے تھے۔ وہ خیموں میں رہتے تھے ۔ ان میں جو بیمار پڑ جاتا اس کا علاج اسی صورت میں کیا جاتا تھا کہ بیماری معمولی ہو۔ اگر بیماری فوراً زور پکڑلے تو اسے زہر دے کر مار دیا جاتا تھا ۔ یہ بد نصیب مسلمانوں کا ایک گروہ تھا جو صرف اس جرم کی سزا بھگت رہے تھے کہ وہ مسلمان ہیں۔ سلطان ایوبی کو اس کے جاسوسوں نے اس بیگار کیمپ کے متعلق خبریں دے رکھی تھیں ۔

حدید کو بھی کیمپ میں بھیج دیا گیا تھا ۔ لوزینا کے لیے حکم تھا کہ اسے نہ ملے ۔ ہرمن کو شک ہوگیا تھا کہ ایک جذباتی وابستگی ہے ، لیکن لوزینا نے اس حکم کو قبول نہیں کیا تھا ۔ اس نے جب سنا کہ حدید ''مسلمانوں کے کیمپ'' میں ہے تو اس نے سہیلی سے کہا کہ وہ اسے آزاد کرائے گی۔ سہیلی نے اس کی جذباتی حالت دیکھ کر مدد کا وعدہ کیا اور دونوں نے پلان بنالیا ۔

وہ اسی شہر میں گئی اور ایک پرائیویٹ ڈاکٹر سے ملی ۔ اسے کہا کہ وہ ایک زخمی کو لا رہی ہے جس کا علاج اسے اس شرط پر کرنا پڑے گا کہ اس کے متعلق کسی کو کچھ نہ بتائے۔ ڈاکٹر نے اس رازداری کی وجہ پوچھی تو لوزینا نے کہا …… ''وہ ایک غریب سا مسلمان ہے جس نے میرے خاندان کی بہت خدمت کی ہے ۔ وہ کہیں لڑائی جگڑے میں زخمی ہوگیا ہے ۔ اس کے پلے کچھ بھی نہیں اس لیے کوئی ڈاکٹر اس کا علاج نہیں کرتا ۔ چونکہ یہاں تمام ڈاکٹر عیسائی ہیں اس لیے وہ کسی مسلمان کا علاج بلا اجرت نہیں کرتے ۔ رازداری کی دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر شہر کے منتظم تک یہ خبر پہنچ گئی کہ ان مسلمانوں میں لڑائی جھگڑا ہوا ہے تو وہ اسی کو بہانہ بنا کر انہیں مسلمانوں کے کیمپ میں بھیج دے گا ۔ انہیں تو بہانہ چاہیے ۔ میں اس آدمی کو اس خدمت اور ایثار کا صلہ دینا چاہتی ہوں۔ جو اس نے میرے خاندان کے لیے کیا ہے ۔ میں اسے رات کے وقت لائوں گی ۔

آپ کتنی اُجرت لیں گے۔ میں رازداری کی بھی اُجرت دوں گی ''۔

اس دوران ڈاکٹر اسے سر سے پائوں تک دیکھتا رہا ۔ لوزینا نے اسے یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ کون ہے۔ یہی بتایا تھا کہ وہ ایک معزز گھرانے کی لڑکی ہے۔ لڑکی کا غیر معمولی حسن دیکھ کر ڈاکٹر جو اُجرت لینا چاہتا تھا ، اسے وہ زبان پر نہیں لا رہا تھا ۔ لوزینا اس میدان اور اس فن کی ماہر تھی ۔ و ہ مردوں کی نظریں پہنچانتی تھی ۔ اس نے اپنے فن کو استعمال کیا تو ڈاکٹر موم ہوگیا ۔ لوزینا نے سونے کے چار سکے اس کے آگے رکھ دئیے اور جب ڈاکٹر نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا کہ تم سے زیادہ قیمتی سکہ نہیں تو لوزینا نے مخصوص مسکراہٹ سے کہا …… ''آپ جو قیمت مانگیں گے دوں گی۔ میرا کام کردیں ''۔

ڈاکٹر یہ سمجھ گیا کہ معاملہ خطرناک اور پر اسرار معلوم ہوتا ہے لیکن لوزینا کو دیکھ کر اس نے خطرہ قبول کر لیا اور کہا …… ''لے آئو ۔ آج رات، کل رات، جب چاہو لے آئو۔ اگر میں سویا ہوا ملوں تو جگا لینا ''…… اس نے ایک ہاتھ میں سونے کے سکے اور دوسرے ہاتھ میں لوزینا کا ہاتھ پکڑ لیا ۔

٭ ٭ ٭

اس مہم کا سب سے زیادہ نازک اور پر خطرہ مسئلہ تو یہ تھا کہ حدید کو کیمپ سے نکالا کس طرح جائے ۔ رات کو وہاں پہرہ برائے نام ہوتا تھا ۔ ان بدنصیب قیدیوں میں بھاگنے کی سکت ہی نہیں تھی ۔ صبح سورج نکلنے سے پہلے انہیں مشقت پر لگایا جاتا اور سورج غروب ہونے کے بعد کیمپ میں لایا جاتا ۔ان کی تعداد ڈیڑھ ہزار کے لگ بھگ تھی۔ لوزینا کی سہیلی نے کیمپ کے متعلق کچھ معلومات حاصل کرلیں جن میں ایک یہ بھی تھی کہ زخمی اور بیمار قیدیوں کو معمولی سی ایک ڈسپنسری میں ہر روز بھیجا جاتا ہے۔ ان کے ساتھ صرف ایک پہرہ دار ہوتا ہے ۔ دوسرے دن لوزینا اپنی سہیلی کے ساتھ وہاں پہنچ گئی جہاں مریض قیدیوں کو لے جایا جا تا تھا۔ اسے زیادہ انتظار نہ کرنا پڑا۔ پچیس تیس مریضوں کی ایک پارٹی نہایت آہستہ آہستہ چلتی آرہی تھی اور پہرہ دار ہاتھ میں لاٹھی لیے انہیں مویشیوں کی طرح ہانکتا لا رہا تھا ۔ جو تیز نہیں چل سکتے تھے انہیں وہ لاٹھی سے دھکیل دھکیل کر لارہا تھا ۔

دونوں لڑکیاں آگے چلی گئیں۔ ان کا انداز ایسا تھا جیسے تماشہ دیکھ رہی ہوں۔ جب مریضوں کا ٹولہ ان کے قریب سے گزر رہا تھا تو وہ ہر ایک کو دیکھنے لگتیں۔ اچانک لوزینا کو دھچکا لگا۔ حدید اسے قہر بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔ اس کے اچھی طرح چلا نہیںجا رہا تھا ۔ اس کے چہرے سے وہ رونق اور رمق بجھ گئی تھی جو لوزینا نے زخمی ہونے سے پہلے دیکھی تھی ۔ حدید کے کندھے جھک گئے تھے۔ اس کے کپڑے خون سے لال تھے۔ خون خشک ہو چکا تھا ۔ لوزینا کی آنکھوں میں آنسو آگئے مگر حدید کی آنکھوں میں نفرت تھی ۔ اس نے منہ پھیر لیا …… یہ مریض ٹولہ آگے نکل گیا تو لوزینا اور اس کی سہیلی پہرہ دار سے باتیں کرنے لگیں جن میں ان مسلمان مریضوں کے خلاف نفرت تھی ۔ انہوں نے زبان کے جادو سے پہرہ دار کواپنا گرویدہ کرلیا اور کہا کہ وہ ازراہ مذاق ان قیدیوں کے ساتھ باتیں کرنا چاہتی ہیں ۔

ڈسپنسری میںدوسرے مریض بھی تھے۔ خاصا ہجوم تھا۔ قیدیوں کو ایک طرف بٹھادیا گیا ۔ لوزینا ان کے قریب چلی گئی اور اس کی سہیلی نے پہرہ دار کوباتوں میں اُلجھا لیا۔ حدید دیوار کے سہارے بیٹھ گیا تھا ۔ اس کی حالت اچھی نہیںتھی ۔ لوزینا نے آنکھ کے اشارے سے اسے پرے بلایا ۔ وہ جب اس کے قریب گیا تو لوزینا نے آہستہ سے کہا …… ''مجھے حکم ملا ہے کہ تم سے کبھی نہ ملوں۔ بیٹھ جائو ۔ ہم یہ ظاہر نہیں ہونے دیں گے کہ ہم باتیںکر رہے ہیں ''۔

''میں لعنت بھیجتا ہوں تم پر اور تمہارے حکم دینے والوں پر ''۔ حدید نے نحیف مگر غضبناک آواز میں کہا …… ''میں نے تمہیں کسی صلے کے لالچ میں ڈاکوئوں سے نہیں بچایا تھا ۔ وہ میرا فرض تھا۔ کیا تم فرض ادا کرنے والوں کے ساتھ یہ سلوک کرتے ہو ؟''

''چپ رہو حدید !''……لوزینا نے رندھیائی ہوئی آواز میں کہا …… ''یہ باتیں بعد میں ہوں گی ۔ مجھے بتائو کہ رات تم کس جگہ ہوتے ہو۔ آج رات تمہیں وہاں سے نکالنا ہے ''۔

حدید اس سے بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔ لوزینا نے اسے آنسوئوں سے اور بڑی مشکل سے یقین دلایا کہ وہ اسے دھوکہ نہیں دے رہی ۔ حدید نے بتایا کہ وہ رات کو کہاں سوتا ہے ،وہاں سے نکلنا مشکل نہیں لیکن نکل کر وہ جائے گا کہاں ؟…… انہوں نے جلدی جلدی فرار کا منصوبہ بنالیا۔

٭ ٭ ٭

''مسلمانوں کا کیمپ'' ایسی نیند سویاہوا تھا جیسے یہ لاشوں کی بستی ہو۔ پہرہ دار بھی سو گئے تھے۔ یہاں سے کبھی کوئی بھاگا نہیں تھا ۔ بھاگ کر کوئی جاتا بھی کہاں ! اس کے علاوہ پہرہ داروں کو یہ بھی معلوم تھا کو کوئی ایک آدھا بھاگ بھی گیا تو کون جواب طلبی کرے گا۔ رات پہلا پہر ختم ہورہا تھا کہ پھٹے پرانے ایک خیمے سے ایک آدمی پیٹ کے بل رینگتا ہوا خیموں کی اوٹ میں وہاں تک چلا گیا۔ جہاں اسے کوئی پہرہ دار نہیں دیکھ سکتا تھا ۔ آگے اسے اندھیرے میں بھی کھجور کا درخت نظر آنے لگا جہاں تک اسے پہنچنا تھا ۔ ایک سایہ سر سے پائوں تک موٹے کپڑوں میں لپٹا ہوا کھڑا تھا۔ رینگنے والا اُٹھ کھڑا ہوا اور کھجور کے تنے تک پہنچ گیا۔ وہ حدید تھا ۔ لوزینا اس کی منتظر تھی ۔

''تیز چل سکو گے''…… لوزینا نے پوچھا۔

''کوشش کروںگا''…… حدید نے جواب دیا ۔

وہ کیمپ سے دور نکل گئے۔ آگے وسیع علاقہ غیر آباد تھا ۔ مشکل یہ تھی کہ حدید تیز نہیں چل سکتا تھا ۔ لوزینا نے اسے سہارا دے کر تیز چلانے کی کوشش کی اور اسے بتاتی گئی کہ اسے کیسے کیسے حکم اوردھمکیاں ملی ہیں۔ اس نے حدید کی غلط فہمی رفع کردی ۔ آگے شہر کی گلیاں آگئیں اور پھر ڈاکٹر کا گھر آگیا۔ تین چار بار دستک دینے سے ڈاکٹر باہر آگیا اور انہیں فوراً اندر لے گیا۔ اس نے حدید کے زخم کھول کر دیکھے تو کہا کہ کم از کم بیس روز مرہم پٹی ہوگی۔ یہ سن کر لوزینا کے سامنے ایک بہت ہی پیچیدہ مسئلہ آگیا ۔ و ہ یہ تھا کہ اتنے دن حدید کو چھپائے گی کہاں؟ اسے بیگار کیمپ میں واپس تو نہیں لے جانا تھا ۔ اس کی عقل جواب دے گئی۔ ڈاکٹر مرہم پٹی کر چکا تھا ، اس نے کہا کہ اسے نہایت اچھی اور مقوی غزا کی ضرورت ہے۔

لوزینا اسے پرے لے گئی اورکہا …… ''یہ جہاں رہتا ہے وہاں اسے اچھی غذا نہیں مل سکتی ۔ میں گھر میں اسے اپنے پاس نہیں رکھ سکتی۔ آپ اسے یہیں رکھیں اورجو چیز اس کے لیے فائدہ مند ہو و ہ کھلائیں۔ مجھ سے آپ جتنی قیمت اور اُجرت مانگیں گے دوں گی ''۔

ڈاکٹر نے جو اُجرت بتائی وہ بہت ہی زیادہ تھی ۔ لوزینا نے کم کرنے کو کہا تو ڈاکٹر نے کہا ……''تم مجھ سے بہت ہی خطرناک کام کرا رہی ہو۔ میں جانتا ہوں کہ یہ شخص مسلمانوں کے کیمپ سے لایاگیا ہ۔ اور یہ مصری فوج کا سپاہی ہے ۔ تمہارا اس کے ساتھ کیا تعلق ہے ؟ مجھے منہ مانگی اُجرت دو گی تو تہارا یہ راز میرے گھر سے باہر نہیںجائے گا ''۔

''مجھے منظور ہے''……لوزینا نے کہا …… ''اور یہ بھی سن لو ڈاکٹر! اگر یہ راز فاش ہوگیا تو آپ زندہ نہیں رہیں گے''۔

ڈاکٹر نے حدید کو ایک کمرے میں لٹا دیا اور اسے بتایا کہ وہ ٹھیک ہونے تک یہیں رہے گا ۔ اس نے اندر سے اسے دودھ اور پھل لادئیے اور لوزینا کوایک اور کمرے میں لے گیا …… دوسرے دن لوزینا اور اس کی سہیلی نے کیمپ کی جاسوسی کی ۔ ڈسپنسری میں گئیں۔ مریض قیدی وہاں لے جائے گئے ۔ دونوں لڑکیوں نے پہرہ دار کے ساتھ گپ شپ لگا ئی اور اپنے خصوصی دھنگ سے باتیں کرکے معلوم کرلیا کہ حدید کی گمشدگی سے کیمپ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور وہاں کوئی ہلچل نہیں ۔

دن گزرتے گئے۔ ڈاکٹر کو چونکہ منہ مانگی قیمت اور اُجرت مل رہی تھی ، اس لیے اس نے حدید کو چھپائے بھی رکھا اور اس کا علاج پوری توجہ سے کرتا رہا۔ اسے مقوی غذا بھی دیتا رہا ۔ لوزینا شام کے بعد وہاں جاتی۔ کچھ دیر حدید کے ساتھ بیٹھتی اور بہت دیر ڈاکٹر کے کمرے میں گزارتی ۔ اس روز مرہ کے معمول میں بیس روز گزر گئے اور حدید کے زخم مل گئے۔ اس کی صحت بحا ہوگئی۔ لوزینا نے ڈاکٹر سے کہا کہ وہ کل رات کسی بھی وقت حدید کے لے جائے گی۔

دوسرے دن اس نے اپنی سہیلی کو استعمال کیا۔ چھوٹے عہدے کا ایک افسراس کی سہیلی کے پیچھے پڑا رہتا تھا۔ سہیلی نے اس افسر کو جھانسہ دیا اور لوزینا نے اس کے ٹرنک سے اس کی وردی نکال لی جو اس نے حدید کو پہنادی۔گھوڑے کا انتظام مشکل نہ تھا ۔ وہ بھی ہوگیا۔ یہ اہتمام اس لیے کیا جا رہا تھا کہ شہر کے اردگرد مٹی کی بہت اونچی دیوار تھی ۔ اس کے چار دروازے تھے جو رات بند رہتے تھے۔ ان دنوں دن کے وقت یہ دروازے کھلے رکھے جاتے تھے کیونکہ سلطان ایوبی کے آنے والے حملے کے لیے فوجوں اور ان کے سامان کی آمدو روفت جاری رہتی تھی ۔

سورج غروب ہونے سے کچھ دیر پہلے قلعے کے ایک بڑے دروازے کی طرف ایک صلیبی افسر گھوڑے پر جا رہا تھا ۔ اس کی کمر سے لٹکی ہوئی تلوار مسلمانوں کی طرح ٹیڑھی نہیں سیدھی تھی اور اس کا دستہ صلیب کی شکل کا تھا۔ و ہ ہر لحاظ سے صلیبی تھا۔ دروازہ کھلا ہوا تھا جس سے اونٹوں کا ایک کارواں رسد سے لدا ہوا باہر جارہا تھا۔ ظاہر یہی ہو تا تھا جیسے یہ گھوڑ سوار افسر اس کارواں کے ساتھ جارہا ہو۔ وہ کہیں باہر سے آرہا تھا ۔ اس نے افسر کو دیکھا اور مسکرایا ، مگر اس افسر نے مسکراہٹ کا جواب مسکراہٹ سے نہ دیا۔ ہرمن چند قدم اندر کو آیا تو اس نے گھوڑا روک لیا۔ اسے دو تین سو قدم دور لوزینا کھڑی نظر آئی جس نے ہرمن کو دیکھا تو وہاں سے تیز ی سے اپنے ٹھکانے کی طرف چلی گی۔

علی بن سفیان ک طرح ہرمن بھی جاسوس اور سراغرساں تھا۔ اس نے فوراً گھوڑا دروازے کی طرف گھمایا اور ایڑ لگادی ۔ وہ اپنا شک رفع کرنا چاہتاتھا۔ اس نے گھوڑے کوایڑ لگائی تو گھوڑا دوڑ پڑا۔ باہر جا کر ہرمن نے دیکھا کہ جو افسر اس کے پاس سے گزرا تھا وہ اتنی دور نکل گیا تھا کہ اس کے تعاقب میں جانا بیکار تھا۔ اس گھوڑ سوار نے دروازے سے نکلتے ہی گھوڑے کو ایڑ لگادی تھی ۔ گھوڑا بہت تیز رفتار تھا۔ ہرمن اسے دیکھتا رہا اور صحرا کی وسعت میں گم ہو گیا …… لوزینا نے حدید کو آزاد کراکے صلہ دے دیا تھا ۔

٭ ٭ ٭

ہرمن نے اپنا گھوڑا موڑا اور تیزی سے اندر گیا ۔ وہ سب سے پہلے مسلمانوں کے کیمپ میں گیا اور وہاں کے انچارج سے حدید کی نشانیاں بتا کر پوچھا کہ وہ کہاں ہے۔ کچھ پتہ نہ چلا۔ جس خیمے میں حدید کو رکھا گیا تھا وہاں کے رہنے والوں نے بتایا کہ ایک صبح وہ یہاں سے غائب تھا۔ وہ سمجھے کہ اسے ادھر ادھرکر دیا گیا ہے۔ ہرمن کا شک یقین میں بدل گیا۔ وہ حدید ہی تھا جسے اس نے صلیبی فوج کی وردی میں دروازے سے نکلتے دیکھا تھا ۔ وہ مزیدتفتیش سے پہلے لوزینا کے کمرے میں گیا ۔ وہ سر ہاتھوں میں تھامے رو رہی تھی ۔

''کیا تم نے اسے بھگایا ہے''……ہرمن نے گرج کر کہا۔ لوزینا نے آہستہ سے سر اُٹھایا۔ ہرمن نے کہا …… ''جھوٹ بولو گی تو میں تفتیش کرکے ثابت کردوںگا کہ اسے تم نے فرار میں مدد دی ہے ''۔

''نہ آپ کو تفتیش کی ضرورت ہے نہ مجھے جھوٹ بولنے کی ضرورت''…… لوزینا نے کہا …… ''میری زندگی ایک شاہانہ جھوٹ اور میرا وجود ایک خوبصورت دھوکہ ہے۔ اپنی روح کی نجات کے لیے میںسچ بول کر مر رہی ہوں ''۔ اس کی آواز میں غنودگی تھی جو بڑھتی چلی جارہی تھی ۔ وہ اُٹھی تو اس کی ٹانگیں لڑکھڑا ئیں۔ اس کے قریب ایک گلاس پڑا تھا جس میں چند قطرے پانی تھا۔ اس نے گلاس اُٹھا کر ہرمن کی طرف بڑھا کر کہا …… ''میں اپنے آپ کو سزائے موت دے رہی ہوں ۔ اس گلاس میں پانی کے چند قطرے گواہی دیں گے کہ میں نے اپنے ناپاک جسم کو سزائے موت اس لیے نہیں دی کہ اپنی قوم سے غداری کی اور دشمن کو قید سے بھگادیا ہے بلکہ میرا جرم یہ تھا کہ میں ان انسانوں کو دھوکے دینے گئی تھی جن کے ہاں کوئی دھوکہ اور فریب نہیں ۔ ان میں چار انسانوں نے میری عزت بچانے کے لیے جو میرے پاس تھی ہی نہیں ، دس ڈاکوئوں کامقابلہ کیا۔ پھر ایک انسان نے مجھے اپنا جسم کٹوا کر ڈاکوئوں سے چھینا۔ مجھے نیکی اور بدی ، محبت اور نفرت کا فرق معلوم ہوگیا تھا۔ میں سچ بول کر مر رہی ہوں ۔ یہ پر سکون موت ہے۔ ''

وہ گرنے لگی تو ہرمن نے اس کے ہاتھ سے گلاس لے کر اسے تھام لیا۔ لوزینا نے اپنے جسم کو جھٹکا دیا اور ہرمن کے بازوئوں سے نکل کر پر ے ہوگئی۔ اونگھتی ہوئی آواز میں بولی …… ''میرے جسم کو ہاتھ نہ لگائو۔ یہ اب تمہارے کام کا نہیں رہا۔ اس زہر نے اس میں سچ داخل کر دیا ہے۔ تمہیں ناپاک جسموں کی ضرورت ہے…… میں نے اسے بھگا یاہے۔ اسے میں نے بیس روز چھپائے رکھا تھا۔ اسے میں نے فرنینڈس کی وردی چرا کر پہنائی تھی ۔ اسے میں نے گھوڑا دیا تھا۔ میں اس کے ساتھ نہیں جا سکتی تھی۔ میں اس کے بغیر رہ بھی نہیں سکتی تھی، اس لیے میں نے زہر پی لیا ۔ اگر تم مجھے پکڑ نہ لیتے تو بھی میں زہر پی لیتی ''…… وہ پلنگ پر لڑھک گئی ۔ ہرمن کو اس کی آخری سرگوشی سنائی دی …… ''سچ بول کر مرنے میں کتنا سکون ہے ''…… اس نے آخری سانس اس طرح لی جیسے سکون سے آہ بھری ہو۔

اسے جب دفن کرچکے تو اک افسر نے پوچھا …… ''اس کا کوئی خاندان تھا تو انہیں اس کی موت کی اطلاع دے دو ''۔

''اس کا خاندان ہم ہی تھے'' …… ہرمن نے جواب دیا …… ''اسے دس گیارہ سال کی عمر میں کسی قافلے سے اغوا کرکے لائے تھے''۔

صلاح الدین ایوبی کی فوج کو کوچ کیے تیسرا دن تھا۔ صلیبیوں نے اسے راستے میں روکنے کے لیے فوج بھیج دی تھی ۔ حملہ چونکہ کرک پر آرہا تھا ، اس لیے صلیبیوں نے شوبک سے زیادہ تر فوج کرک بھیج دی تھی ۔ اس کا ایک حصہ شام کی طرف بھیج دیا گیا تھا تا کہ نورالدین زنگی مدد کے لیے آئے تو اسے کرک سے کچھ دور روکا جا سکے اور اس فوج کا کچھ حصہ سلطان ایوبی کو راستے میں روکنے والی فو ج کو دیا گیا تھا ۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے اپنی فوج کو تین حصوں میں تقسیم کرکے کوچ کرایا تھا اور تینوں کو دوردور کھا تھا ۔ وہ جب اس مقام پر پہنچ گیا جہاں صلیبیوں سے ٹکر ہونی چاہیے تھی ، اس نے تینوں حصوں کے کمانڈروں اور ان کے ماتحت کمانڈروں کو اپنے خیمے میں بلایا۔

''ہم اس مقام پر آگئے ہیں جہاں راز فاش کردینا چاہیے ''…… سلطان ایوبی نے کہا …… ''تم شاید حیران ہور ہے ہوگے کہ میں تمہیں یہ بتاتا رہا ہوں کہ میں کرک پر حملہ کروں گا مگر میں تمہیں کسی اور طرف لے آیا ہوں ۔ میں کرک پر حملہ نہیں کر رہا ۔ ہماری منزل شوبک ہے۔ ایک سوال تم سب کو پریشان کر رہاہے کہ میںنے ان تین جاسوسوں کو جن میں ایک عالم تھا اور دو لڑکیاں ، کیوں رہا کر دیا تھا اور انہیں محافظ کیوں دئیے تھے۔ اس سوال کا جواب سن لو ۔ میں نے انہیں اپنے ساتھ والے کمرے میں بٹھا کر درمیان کا دروازہ کھلا رکھا اور علی بن سفیان اوردو نائبین کو یہ بتانا شروع کردیا کہ میں فلاں تاریخ کو کرک پر حملہ کررہا ہوں۔ میں جانتا تھا کہ جاسوس سن رہے تھے۔ میں نے ان کے کانوں میں یہ بھی ڈالا کہ میں صلیبیوں سے کھلے میدان کی جنگ سے ڈرتا ہوں ''……

''اس قسم کی باتیں ان کے کانوں میں ڈال کر انہیں رہا کردیا اور انہیں محافظ دئیے تا کہ وہ صحیح و سلامت شوبک پہنچ جائیں۔ مجھے اطلاع ملی ہے کہ راستے میں ایک حادثہ ہوگیا ہے۔ ڈاکوئوں نے تین محافظوں اور ایک لڑکی کو مار ڈالا ہے۔ چوتھا محافظ کل رات شوبک سے واپس آگیا ہے۔ وہاں ہمارے جو جاسوس ہیں انہوں نے اطلاع دی ہے کہ عالم جاسوس زندہ شوبک پہنچ گیا تھا جس نے میرا دھوکہ کامیاب کردیا ہے۔ صلیبیوں نے اپنی فوج میری مرضی کے مطابق تقسیم کردی ہے۔ اس وقت تمہاری فوج کا بائیں والا حصہ صلیبیوںکی بہت بڑی فوج کے بائیں پہلو سے چار میل دور ہے ''۔

اس نے بائیں حصے کے کمانڈر سے کہا …… ''آج سورج غروب ہونے کے بعد تم اپنے تمام گھوڑ سوار دستے سیدھے آگے دو میل لے جائو گے۔ وہاں سے اپنے بائیں کو ہوجانا۔ چار میل سیدھا جانا پھر بائیں کو جانا اور دو میل پر تمہیں دشمن آرام کی حالت میں ملے گا۔ حملہ کرنا تم جانتے ہو۔ یہ تیز ہلہ ہوگا۔ راستے میں جو کچھ آئے اسے کچلتے ہوئے نکل آئو اور اپنی اسی جگہ پر آجائو جہاں سے چلے تھے۔ دوسرا حصہ شام کے بعد سیدھا آگے بڑھے گا۔ آٹھ نو میل جاکر بائیں کو ہوجائے گا۔ تمہیں دشمن کی رسد اور قافلے ملیں گے۔ اس کے علاوہ تم دشمن کے عقب میں ہوگے۔ دن کے وقت دشمن بائیں والے کے تعاقب میں آئے گا لیکن تم سامنے کی ٹکر نہیں لو گے ۔ دن کو بہت پیچھے آجائو گے۔ رات کو پھر حملہ کرو گے اور رکو گے نہیں۔ صلیبی آگے بڑھیںگے تو درمیان والا حصہ عقب سے حملہ کرے گا اور دشمن کے سنبھلنے تک بکھر جائے گا ۔ تیسرا حصہ جو میرے ساتھ ہے، آج رات کوچ کر رہا ہے۔ ہم کل دوپہر تک شوبک کا محاصرہ کر چکے ہوںگے۔ باقی دو حصے صلیبیوں کو ان طریقوں سے جن میں تمہیں مشق کراتا رہا ہوں ، دشمن کو صحرا میں پریشان کیے رکھیں گے۔ اس تک رسد نہیں پہنچنے دیں گے ۔وہ جوں ہی پانی کے چشمے سے ہٹے گا تم چشموں پر قبضہ کرلوگے۔ حملہ ہمیشہ پہلو سے کروگے اور لڑنے کے لیے رکو گے نہیں ۔ جانباز دستے ہر رات دشمن کے مویشیوں پر آگ پھینکیں گے ''۔

یہ ١١٧١ء کے آخری دن تھے جب کرک والوں کو سلطان ایویب کے لیے انتظار کے بعدپتہ چلا کہ شوبک جیسا اہم قلعہ سلطان ایوبی کے محاصرہ میں آگیا ہے جب کہ زیادہ ترفوج کرک میں اکھٹی کرلی گئی ہے اور صحرا میں بھیج دی گئی ہے۔ شوبک کو وہ کوئی مدد نہیںدے سکتے تھے۔ صحرا میں جو فوج گئی تھی ، مسلمان اس کا برا حشر کر رہے تھے۔ صلیبیوں کی پریشانی یہ تھی کہ مسلمان سامنے آکر نہیں لڑتے تھے۔ وہ گوریلا اور کمانڈو طرز کے حملے سے ان کا نقصان کر رہے تھے۔ انہوں نے رسد روک لی تھی ۔ پانی پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا تھا۔ صلیبیوں کی یہ فوج نہ لڑنے کے قبل رہی تھی نہ پیچھے ہٹ کر شوبک کو بچانے کے لیے پہنچ سکتی تھی۔

شوبک میں صلیبیوں نے قلعے اور شہر کی دیواروں سے تیروں اور برچھیوں سے بہت مقابلہ کیا لیکن سلطان ایوبی کے نقب زن دستوں نے دیواریں توڑ لیں۔ یہ محاصرہ تقریباً ڈیڑھ مہینہ جاری رہا ۔ آخر سلطان ایوبی شوبک میں داخل ہوگیا۔ وہ سب سے پہلے بیگار کیمپ میں گیا، جہاں کے بدنصیب قیدیوں نے شکرکے سجدے کیے۔ صلیبیوں کی صحرا والی فوج بے ترتیبی میں پسپا ہو کر کرک کے قلعے میں چلی گئی جہاں بہت سی فوج بیکار بیٹھی صلاح الدین ایوبی کا انتظار کر رہی تھی ۔


صلی الله علیہ وآله وسلم
‎ میرا بلاگ دیکھیں
Post Reply

Return to “اسلامی کتب”