شرک کو سمجھیے-11: کرامت کی حقیقت

مذاہب کے بارے میں گفتگو کی جگہ
Post Reply
jawed_deewan
کارکن
کارکن
Posts: 33
Joined: Mon Dec 13, 2010 11:40 am
جنس:: مرد

شرک کو سمجھیے-11: کرامت کی حقیقت

Post by jawed_deewan »

کرامت کی حقیقت
شرک کی ساری بنیاد صرف یہ عقیدہ ہے کہ اللہ کے نیک بندوں کےپاس بھی خدائی معاملات میں تصرف کرنے کے اختیارات ہیں۔ اس عقیدے کی بنیاد بزرگان دین کی کرامتیں بنتی ہیں۔اس لیے ضروری ہے کہ کرامت کی حقیقت کو سمجھ لیا جائے۔

اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں ایک قانون جاری فرما رکھا ہے جسے قانون فطرت کہا جاتا ہے جس کے تحت نظام کائنات چل رہا ہے۔مثلا آگ جلاتی ہے، تلوار کاٹتی ہے وغیرہ۔لیکن اللہ تعالیٰ اس قانون کو جاری فرما کر اس کا پابند نہیں ہو گیا ہے۔بلکہ وہ جب چاہتا ہے اس قانون کو توڑ دیتا ہے۔ اس کو خرق عادت کہتے ہیں جس کے ذریعے وہ اپنی قدرت کا اظہار فرماتا ہے۔یہ خرق عادت اگر انبیا کے لیے ہوئی تو اس کو معجزہ کہتے ہیں اور اگر کسی ولی کے واسطے سے ہوئی تو یہ کرامت کہلاتی ہے۔ اس کا مقصد ان برگزیدہ بندوں کو ایسی نشانی دینا ہے جس سے دوسرے انسان بے بس ہوجائیں اور اس کا مقابلہ نہ کرسکیں۔

معجزہ اور کرامت سے انکار کرنے والا بے دین ہے۔قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں انبیاء علیہم السلام اور اولیا اللہ کے معجزات اور کرامات کا کئی مقامات پر ذکر ہے۔ قرآن پاک میں حضرت عیسی علیہ السلام کے معجزات کا ذکر اس طرح آتا ہے:
انی اخلق لکم من الطین کھیئۃ الطیر فانفخ فیہ فیکون طیرا باذن اللٰہ و ابریٔ الاکمہ و الابرص و احی الموتٰی باذن اللٰہ() (آل عمران -49)
ترجمہ: میں تمہارے لیے مٹی سے پرندوں کی مانند صورت بنا دیتا ہوں پھر اس میں دم کر دیتا ہوں تو وہ اللہ کے حکم سے پرندہ بن جاتا ہے اور میں اللہ کے حکم سے پیدائشی اندھے اور برص کے مریض کو اچھا کر دیتا ہوں اور میں اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کر دیتا ہوں۔

اولیائے کرام کی کرامت کا ذکر یوں آتا ہے:
کلما دخل علیھا زکریا المحراب وجد عندھا رزقا قال یٰمریم انٰی لک ھٰذا قالت ھو من عند اللٰہ()ان اللٰہ یرزق من یشآئ بغیر حساب(آل عمران- 37)
ترجمہ: جب بھی زکریا(علیہ السلام) حضرت مریم کے حجرے میں آتے تو ان کے پاس کھانے کی چیزیں پاتے،انہوں نے پوچھا،اے مریم ! یہ تیرے پاس کہاں سے آئیں ؟ انہوں نے کہا اللہ کے پاس سے،بے شک اللہ تعالیٰ جس کو چاہے بے حساب روزی دیتا ہے۔

کرامت کو حق ماننا ضروری ہے لیکن اس سلسلے میں یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ معجزہ اور کرامت براہ راست اللہ تعالیٰ کا فعل ہے جو نبی یا ولی کے واسطے سے ظاہر ہوتا ہے۔ نبی یا ولی کو اس کے وجود میں لانے کا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ اپنی مرضی سے تو کوئی نبی بھی معجزہ پیش نہیں کرسکتا۔ قرآن پاک میں صاف لکھا ہے:
و ان کان کبر علیک اعراضھم فان استطعت ان تبتغی نفقا فی الارض او سلما فی السمآئ فتاتیھم باٰیۃ() (الانعام آیت- 35)
ترجمہ: اور (اے حبیب ﷺ ) اگر ان کی روگردانی تم پر شاق گزرتی ہے تو اگر بس چلے تو زمین میں کوئی سرنگ ڈھونڈ نکالو یا آسمان میں سیڑھی (تلاش کرو) پھر ان کے پاس کوئی معجزہ لے آؤ۔
نبی کا معجزہ ہو یا ولی کی کرامت اصل حکم تو اللہ تعالیٰ کا ہوتا ہے۔کام کرنے والی ذات وہی ہے۔ اگر یہ اہم اصول واضح نہ ہو تو نبی کے معجزے یا ولی کی کرامت کو ان کا ذاتی فعل سمجھ کر انسان ٹھوکر کھا جاتا ہے۔جن لوگوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کے معجزات کو ان کا ذاتی فعل سمجھا وہ شرک میں مبتلا ہوگئے۔ حالانکہ وہ تو اللہ کے حکم سے تھا۔فرمایا :
و ابریٔ الاکمہ و الابرص و احی الموتٰی باذن اللٰہ
میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے مادرزاد اندھے اور برص کے مریض کو ٹھیک کرتا ہوں اور مردے میں جان ڈال دیتا ہوں
سورہ انفال میں جہاں رسول اکرم ﷺ کے اس معجزے کا ذکر ہے جس میں آپ ﷺ نے دشمن کے لشکر کی طرف ایک مٹھی کنکریو ں کی پھینکی اور اللہ کی قدرت سے وہ سارے لشکر کی آنکھوں میں جا لگیں اس کے متعلق اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
و ما رمیت اذ رمیت ولٰکن اللہ رمٰی() (الانفال-17 )
ترجمہ: اور (اے محمد ﷺ ) جس وقت تم نے کنکریاں پھینکی تھیں تو وہ تم نے نہیں پھینکی تھیں بلکہ اللہ نے پھینکی تھیں۔
یعنی فعل تو اللہ تعالیٰ کا تھا لیکن رسول اللہ ﷺ کے دست مبارک پر ظاہر فرما دیا۔
اسی طرح اولیا کرام کی جو کرامات صحیح طریقے سے ثابت ہوں وہ بھی اللہ تعالیٰ کا فعل ہوتا ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ عزت بخشتے ہیں اس کے ہاتھ پر کرامت ظاہر ہوجاتی ہے۔
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ فتوح الغیب وعظ نمبر 6 میں فرماتے ہیں:
’’جب تم اپنی مرضی مولا کی مرضی میں مٹا دو گے تو پھر تم بشری کدورتوں سے پاک ہوجاؤ گے تمہارا باطن ارادہ الہی کے سوا کسی چیز کو قبول نہیں کرے گا اس وقت تکوین (کن فیکون ،تصرفات)اور خرق عادت (کرامات) کی نسبت تمہاری طرف کردی جائے گی۔ تو وہ فعل و تصرف ظاہر عقل وحکم کے اعتبار سے تم سے دکھائی دے گا حالانکہ وہ تکوین اور خرق عادت حقیقت میں اللہ کے فعل اور ارادے ہوں گے۔‘‘
معجزے یا کرامات بذات خود مقصود نہیں ہیں۔انبیا اور اولیا کا اصلی کام مادی چیزوں پر تصرفات کرنا نہیں ہے۔ ان کا اصلی کام دلوں کو تبدیل کرنا ہے۔معجزوں یا کرامتوں کی حیثیت بس ایک ذریعہ کی ہے کہ لوگوں کے دلوں کو اللہ کی طرف موڑنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔اس لیے معجزہ اور کرامت اس بات کی تو دلیل ہوتی ہے کہ یہ حضرات اللہ کی بارگاہ میں خاص مقام رکھتے ہیں لیکن اس سے یہ سمجھنا کہ ان مقدس ہستیوں کے پاس کائنات میں تصرف کرنے کا اختیار ہے یا وہ مالک و مختار ہیں ایک ایسا خیال ہے جو انسان کو توحید کی حدوں سے نکال دیتا ہے کیونکہ اس کائنات میں تصرف محض اللہ رب العزت ہی کو حاصل ہے۔
میرا پاکستان
کارکن
کارکن
Posts: 51
Joined: Tue Jul 26, 2011 1:41 pm
جنس:: مرد

Re: شرک کو سمجھیے-11: کرامت کی حقیقت

Post by میرا پاکستان »

جزاک اللہ بہت خوبصورت وضاحت کی آپ نے۔
[center]یو تو سیّد بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو[/center]
[center]تم سبھی کچھ ہو، بتائو تو مسلمان بھی ہو؟[/center]
Post Reply

Return to “مذہبی گفتگو”