نظم قرآن

مذاہب کے بارے میں گفتگو کی جگہ
Post Reply
مشعل
کارکن
کارکن
Posts: 41
Joined: Sun Jan 22, 2017 12:06 am
جنس:: مرد
Location: کوئٹہ
Contact:

نظم قرآن

Post by مشعل »

السلام علیکم
نظم قرآن کے متعلق معلومات درکار ہیں
دوستوں سے مواد
یا اس موضوع پر کسی اچھی کتاب کی رھنمائی کی ضرورت ہے

ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کی اقات
محمد شعیب
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 6565
Joined: Thu Jul 15, 2010 7:11 pm
جنس:: مرد
Location: پاکستان
Contact:

Re: نظم قرآن

Post by محمد شعیب »

کتاب اس لنک سے ڈاؤن کر سکتے ہیں

https://archive.org/details/usooletafseemainnazmequran

اور ایک مضمون فیس بک سے یہاں شئر کر رہا ہوں

نظم کا اِعجاز:
قرآن کریم کا ایک دقیق اعجاز اس کی آیات کے باہمی ربط و تعلق، اور نظم و ترتیب میں ہے۔ آپ سرسری نظر سے قرآنِ کریم کی تلاوت فرمائیں تو بظاہر یہ محسوس ہوگا کہ اس کی ہر آیت جدا مضمون کی حامل ہے او ر ان کے درمیان کوئی ربط نہیں ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہےکہ قرآن کریم کی آیات کے درمیان نہایت لطیف ربط پایا جاتا ہے ا ور اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا، ورنہ اگر کوئی ترتیب ملحوظ نہ ہوتی تو ترتیبِ نزول اور ترتیبِ کتابت میں فرق رکھنے کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ جس ترتیب سے قرآنِ کریم نازل ہوا تھا ، اُسی ترتیب سے لکھ لیا جاتا۔ یہ جو کتابت میں حضورﷺ نے ایک الگ ترتیب قائم فرمائی وہ اس بات کی بڑی دلیل ہے کہ قرآنی آیات میں ربط موجود ہے، البتہ یہ ربط قدرے دقیق ہوتا ہے اور اس تک پہنچنے کےلیے بڑے غوروفکر کی ضرورت ہے۔
اس ربط کو اتنا دقیق اور غامض رکھنے کی حکمت بظاہر یہ معلوم ہوتی ہے (واللہ اعلم) کہ ہر آیت کی ایک مستقل حیثیت باقی رہے، اور اس کے الفاظ کا عموم ختم نہ ہونے پائے تاکہ العبرۃ بعموم اللفظ پر عمل کرنا آسان ہو۔ اِس کے علاوہ اُس زمانے میں اہلِ عرب کے خطبات وقصائد کا اسلوب عموماً یہی ہوتا تھا کہ اُن کے مضامین مرتب اور مربوط ہونے کے بجائے مستقل حیثیت رکھتے تھے، لٰہذا یہ طریقہ اُس دور کے ادبی ذوق کے عین مطابق تھا ۔ چنانچہ اگر سرسری نظر سے دیکھا جائے، قرآن کریم کی ہر آیت مستقل معلوم ہوگی، لیکن جب آپ ذرا غور کی نظر سےدیکھیں گے تو معلوم ہوگا کہ یہ پورا کلام مسلسل اور مربوط ہے۔
اس طرح قرآ ن کریم نے اپنے نظم میں جو اسلوب اختیار فرمایا ہے وہ اس کا دقیق ترین اعجاز ہے اور اس کی تقلید بشری طاقت سے بالکل باہر ہے۔ بہت سے علماء نے قرآن کریم کے نظم کی توضیح کے لیے مستقل کتابیں لکھی ہیں اور بعض مفسرین نے اپنی تفسیروں کے ضمن میں اسے بیان کرنے کا خاص اہتمام کیا ہے۔ اس معاملے میں امام فخرالدین رازیؒ کی تفسیرِ کبیر شاید سب سے زیادہ قابلِ تعریف کاوش ہے۔ انھیں اللہ نے نظمِ قرآن کی تشریح کا خاص سلیقہ اور خاص توفیق عطا فرمائی ہے۔ ان کے بعد قاضی ابوالسعودؒ نے بھی نظم قرآن کی خصوصیات کو بیان فرمانے کا خاص اہتمام فرمایا ہے۔ بعد کے بیشتر مفسرین اس معاملے میں انہی دو حضرات کے خوشہ چیں ہیں۔
اس مسئلے میں صحیح رویہ یہ ہے کہ قرآن میں نظم کو تسلیم کرتے ہوئے وجوہ ربط کی تلاش کی جائے البتہ تکلف سے گریز کیا جائے کہ یہ قرآنی مذاق کے خلاف ہے۔ ”الاتقان“ میں علامہ عزالدین کا قول صاف طور سے یہ ہے کہ : علم مناسبت ایک بہترین علم ہے لیکن اگر آیتیں مختلف اسباب کے تحت نازل ہوئی ہیں تو ان کے اندر وجہ ارتباط کی تلاش نہیں کی جائے گی اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اس کا یہ عمل تکلف سے خالی نہیں۔
(محاضرات قرانی/الاتقان108 /کتاب الفائد 224/ العان النظر فی نظام الآی والسورص:25-40 )
چندہ وجوہ ارتباط:
آیتوں اورسورتوں کے مابین اظہار ترتیب کا جو سسٹم ہے وہ دو قسم کا ہے۔ ایک قسم ایسی ہے کہ ہم اسے کسی خاص نام کے ذریعے متعارف نہیں کرواسکتے ہیں اس میں دراصل مفسر کی دقیقہ رسی، سنت پر عبور، لغت کی پختہ معرفت اور قرآنی ذوق کام کرتا ہے اور ایک قسم وہ ہے جسے بہ آسانی چند اصطلاحات کے سہارے متعارف کرایا جاسکتا ہے۔ ہم اسی دوسری قسم کا ذکر کرنا چاہیں گے۔
(1) جملہ کبھی اپنے ماقبل کی تاکید ہو یا بیان ہو یا تفسیر ہو یا پھر کوئی ذیلی اعتراض ہو۔
(2) مقابلہ: یعنی ایک جماعت کی صفات کے مقابلے میں دوسری جماعت کی صفات کا ذکر
(3) ضد: مثلاً وعدہ کے بعد وعید، آیات عذاب کے بعد آیات رحمت
(4) مضادہ یا تضاد: جیسے قرآن کی یہ آیت دیکھیں(یعلم ما یلج فی الارض ویخرج منھا وماینزل من السماء ومایعرج فیھا)
(5) تنظیر: جیسے (کنا اخرجک ربک من بیتک بالحق) کے بعد (اولئک ھم الموٴمنون حقا)
(6) استطراد: جیسے (یا بنی آدم قد انزلنا علیکم لباسا یواری سواٰتکم ورےئا ولباس التقوی ذلک خیر)
(7) حسن تلخص: جیسے سورہ شعراء میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قول نقل ہوا اور پھر بطور تلخص ”معاد“ کی صفات کا تذکرہ ہوا۔
کیا ہیں تلخص اور استطراد؟:
تلخص میں جس امر کا بیان ہوتا ہے اسے کلی طور پر ترک کر دیا جاتا ہے اور متکلم تلخص کردہ معنی کی جانب متوجہ ہوجاتا ہے لیکن استطراد میں امر مذکور کو ترک نہیں کیا جاتا بلکہ متکلم امر مستطرد کو بڑی تیزی سے سبک انداز میں بیان کرتے ہوئے آغاز کلام کی طرف لوٹ جاتا ہے ایسا لگتا ہے کہ اس نے اس امر کا ارادہ ہی نہیں کیا ہے بلکہ بات یونہی آگئی ہے۔ (الاتقان11)
(8) مخاطبین کے حالات کی رعایت میں غور کرکے ربط تلاشنا (افلا ینظرون الی الابل کیف خلقت والی السماء کیف رفعت والی الارض کیف سطحت)… (الاتقان110-108)
علم المناسبة کے حوالے سے قرآن حکیم پر ایک اعتراض یوں ہے کہ :
”قرآن واقعی ایک امی کی کتاب نظر آتی ہے کیونکہ اس کے اندر کوئی ربط اور تسلسل نہیں ہے اور ایسی بے ربط کتاب آسمانی کتاب کیونکر ہوسکتی ہے؟“
جواب:
”محاضرات قرآنی“ میں ڈاکٹر محمود غازی رحمہ اللہ نے مستشرقین کے اس اعتراض کا جواب دیا ہے ,خلاصہ پیش خدمت ہے:
(1)بلا کسی تشبیہ کے عرض ہے کہ اردو اور فارسی کی ایک صنف ”غزل مسلسل“ ہوا کرتی ہے کہ اس کے اشعار بظاہر الگ الگ محسوس ہوتے ہیں مگر ذراسی توجہ سے ان کا آپسی ربط واضح ہوجاتا ہے ۔ اس مثال سے اندازہ کریں کہ غزل جس میں اصلاً بعد ہوتا ہے پھر وہ بھی شعری صنف! تونثر میں کیونکر ربط نہیں ڈھونڈا جاسکتا۔
(۲) قرآن کا اسلوب تقریری اور خطابی ہے۔ اسے پڑھ کے سنایا جاتاتھا لکھ کے دیا نہیں جاتا تھا لہٰذا تحریری اسلوب کا مزاج اسے سمجھنے میں دشواری محسوس کرے گا۔ مثلاً کوئی تقریرکرتے ہوئے کہے:” آج اسلام اور مسلمانوں پر برا وقت آیا ہے۔ ہر طرف سے اسلام دشمن طاقتیں انھیں کچل دینے کے درپے ہیں۔"پھر ذرا لہجہ بدل کر اداة وصل کا استعمال کیے بغیر کہے: ”ہم نے سر پہ کفن باندھ لیا ہے۔ سنو! ہم اس جارحیت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔“ظاہر ہے اس عبارت کے اندر ربط ہے اور وہ تقریری ربط ہے۔
(۳) قرآن میں رہ رہ کر مضامین کی جو تبدیلی دیکھنے کو ملتی ہے اس سے عدم ترتیب پر استدلال درست نہیں ہے۔اس کی مثال ایک ڈیزائن کی ہے۔ جیسے آرٹ کا ایک ڈیزائن جس کے خطوط اس انداز کے ہوں کہ وہ پیچیدہ اور لائق معلوم ہوں مگر غور کرنے پر اس کا پورا سسٹم معلوم ہوجائے کہ یہ ایک گرافک ڈیزائن ہے۔اور یہ ڈیزائن پر ہی منحصر نہیں ہے بلکہ کوئی بھی علم یا کوئی بھی فن اس کے اصولوں کی معرفت کے بغیر نہیں سمجھا جاسکتا۔ علم الحساب کی لکیریں حساب سے نابلد شخص کو دیوانوں کی حرکت ہی کا احساس دلائیں گی۔ قرآن کی اپنی انفرادی شان ہے۔ اور اس کو مکمل سمجھنے کے لیے ایمانی علم اور فطری فنی ذوق در کار ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ دل بینا اسے سمجھ سکتا ہے، اندھا دل جو تعصب کی تاریکیوں کا مارا ہوقرآن کی ترتیبی ساخت کو نہیں سمجھ سکتا۔
(۴)قرآن چونکہ ہر فرد بشر کا ہادی ہے۔ وہ اور اس کا فیض دونوں قیامت تک کے لیے ہیں اسی لیے اس کا انداز ترتیب ہر طرز ترتیب سے مختلف اور الگ ہے۔ جس طرح قرآن کی دیگر چیزوں میں اعجاز ہے اسی طرح اس کی ترتیب بھی معجزانہ ہے۔اب جبکہ لوگ اپنے معیار ترتیب سے خدائی معیار ترتیب کو مختلف پاتے ہیں تو غور وتدبر کرنے کے بجائے اعتراض پیدا کرنے لگتے ہیں۔
نظم قرآن کی ایک ہلکی سی جھلک اس مثال میں دیکھی جاسکتی ہے، سورہ حجر میں ایک جگہ ارشاد ہے: نَبِّیء عِبَادِی اَنِّی اَنَاالغَفُورُالرَّحِیمُ ۔ وَاَنَّ عَذَابِی ھُوَالعَذَابُ الاَلِیمُ ۔ (الحجر : 49، 50) "میرے بندوں کو خبر دیدو کہ میں غفور اور رحیم ہوں، اور میرا عذاب (بھی) بڑا درد ناک ہے۔"
اس کے فوراً بعد ارشاد ہے:
وَنَبِّئھُم عَن ضَیفِ اِبرٰھِیمِ ۔ (الحجر: 51) اور انھیں ابراہیمؑ کے مہمانوں کی خبر دے دو۔"
اور اس کے بعد فرشتوں کے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آنے کا مشہور واقعہ بیان کیا گیا ہے، بظاہر ان دونوں باتوں میں کوئی جوڑ معلوم نہیں ہوتا ،لیکن ذرا غور سے دیکھئے تو درحقیقت حضرت ابراہیمؑ کا واقعہ پہلے جملے کی تائید ہے۔ اس لیے کہ جو فرشتے حضرت ابراہیم ؑ کے پاس آئے تھے، انھوں نے دو کام کئے، ایک یہ کہ حضرت ابراہیم ؑ کو حضرت اسحٰق ؑ جیسے صالح بیٹے کی خوش خبری دی، دوسرے انہی فرشتوں نے حضرت لوط ؑ کی بستی پرجاکر عذاب نازل کیا، پہلاکام"اَنَاالغَفُورُ الرَّحِیمُ" کا مظاہرہ تھا اور دوسرا کام " عَذََابِی ھُوَالعَذَابُ الاَلِیمُ" کا۔ اس طرح یہ دونوں جملے باہم نہایت گہرا تعلق رکھتے ہیں، لیکن الگ الگ دیکھئے تو ان کی مستقل حیثیت بھی ہے۔
ترکیب کا اعجاز:
نظم کےاعجاز کے بعد جملوں کی ترکیب ، ساخت اور نشست کا نمبر آتا ہے، اس معاملے میں بھی قرآن کریم کا اعجاز اوجِ کمال پر ہے۔قرآن کریم کے جملوں کے در وبست میں وہ شوکت ، سلاست اور شیرینی ہے کہ اس کی نظیر پیش نہیں کی جاسکتی ، اس حوالے سے اتنا ہی کہنا کافی ہوگا کہ پڑھنے والا محسوس کرتا ہے کہ زبان از خود ایک جملے سے دوسرے جملے کی طرف پھسلتی جارہی ہے، کہیں اٹکاؤ نہیں. یوں لگتا ہے کہ ہموار زمین ہے یا پھر ٹھہرے سمندر کی سطح آب۔
یہاں میں صرف ایک مثال پر اکتفاء کرتا ہوں:
قاتل سے قصاص لینا اہلِ عرب میں بڑی قابلِ تعریف بات تھی، اور اس کے فوائد ظاہر کرنے کے لیے عربی میں کئی مقولے مشہور تھے، مثلاً اَلقَتلُ اِحیَاء لِلجَمِیعِ(قتل اجتماعی زندگی ہے) اور اَلقَتلُ اَلقٰی لِلقَتلِ (قتل سے قتل کی روک تھام ہوتی ہے)اور (اَکثَرُواالقَتلَ لِیَقِلَّ المقَتلَ) "قتل زیادہ کرو تا کہ قتل کم ہوجائے"۔ ان جملوں کو اتنی مقبولیت حاصل تھی کہ یہ زباں زدِ عام تھے اور فصیح سمجھے جاتے تھے۔ قرآن کریم نے بھی اسی مفہوم کو ادا فرمایالیکن کس شان سے؟ ارشاد ہے:۔
وَلَکُم فِی القِصَاصِ حَیٰوۃ "اور تمھارے لیے قصاص میں زندگی ہے"
اس جملے کے اختصار ، جامعیت ، سلاست، شوکت اور معنویت کو جس پہلو سے دیکھیے بلاغت کا معجز شاہکار معلوم ہوتا ہے اور پہلے کے تمام جملے اس کے آگے سجدہ ریز دکھائی دیتے ہیں۔

https://www.facebook.com/Religion.philo ... 83506556:0
Post Reply

Return to “مذہبی گفتگو”