بے لگام گھوڑے

اردونامہ پر نیا دھاگہ بنانا، پوسٹ کرنا، اقتباس، اٹیچمنٹ ایڈ کرنا،اوتار ایڈ کرنا، دستحط ایڈ کرنے کا طریقہ یہاں سیکھئے۔ یہاں بغیر رجسٹر ہوئے آپ لکھ سکتے ہیں۔
Post Reply
احمر اکبر
کارکن
کارکن
Posts: 28
Joined: Sat Sep 10, 2016 9:08 am
جنس:: مرد

بے لگام گھوڑے

Post by احمر اکبر »

:bismillah:; a.a ہمارےملک میں اور کوئی آزاد ہو یا نہ ہو ہمارا میڈیا آزاد ہے c;om;pu;te;r;beat اس کی مثال آے پر ملتی رہتی ہے آزاد میڈیا جس کو چاہے جیسے چاہے چاہے پرموٹ کرتا ہے اور جس کی چاہے مخالفت کرتا ہے ۔
پہلے ملالہ یوسف زئی کو پرموٹ کیا گیا اس کو کہاں سے کہں پہنچا دیا گیا وہ اب ایک ستارہ بن چکی ہے اس کا کریڈٹ میڈیا کو جاتا ہے پھر قندیل بلوچ کی باری آئی اس کو بھی ایک دو ہفتوں میں ایک سپر سٹار بنا دیا گیا پھر اس کو ایک آوارہ اور بدنام لڑکی بنا کر پیش کیا گیا اس کے گھر والوں سے پوچھا گیا آپ کو غیرت کیوں نہیں آتی پھر قندیل کے پیسوں سے نشہ کرنے والے بھائی نے اپنی سوئی ہوئی غیرت جگا کر اسے قتل کر دیاپھر میڈیا کا ماتم یورپ تک سنا گیا بدنامی پاکستان کی ہوئی نہ کہ میڈیا کی۔ ;( آج کل ایک غریب چاے والہ میڈیا کی آنکھ کا تارہ بن چکا ہے انجام ہونا ابھی باقی ہےکیونکہ پکچر ابھی باقی ہے اللہ کریم چاے والے کے حال پر رحم کرے ویسے چاے والہ سر پر کفن باندھ کر نکلا ہے اب دیکھتے ہیں میں میڈیا کی ریٹنگ میں اضافہ ہوتا ہے یا چاے والے کے نخروں میں مگر ایک بات طے ہے ہمارا میڈیا آزاد اور طاقتور ہے جس کو چاہے ذلیل کر دے جس کو چاہیے ایک دن میں ھیرو بنا دے۔کل ہی کی بات ہے ایک رپوٹرکو نادرا آفس میں ایک عدد تھپٹرپڑا جس کی گونج پورے پاکستان میں سنی گئی سارے کا سارا میڈیا اس گن مین کے پیچھے پڑھ گیا حقیقت جان لینا بھی ضروری نہیں سمجھا جاتا کوئی تحقیقات کیے بنا ایک شخص کو قصور وار کہنا ظلم ہے اب اس کا انجام آپ سب کے سامنے ہو گا عام انسان بھی اگر اس واقعہ کی ویڈیو دیکھے تو آرام سے بتا سکتا ہے کہ رپوٹر نے ایسے حالات پیدا کر دیے جس سے تنگ آکر وہ انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہوا وجہ وہی اپنی ریٹنگ اور کسی کی ماں بہن کو نامزد کرنےکی اجازت کوئی بھی تہذیب نہیں دیتی پھر میڈیا کے کچھ قواعدو ضوابط ہیں ان کو کوئی کیسے نظر انداز کر سکتا ہے آپ جب اپنے میڈیا آفس کے باہر ایک سیکیورٹی گارڈ رکھیں گیے تو اس کو کیا ٹاسک دیا جاے گا یہی نا کہ کوئی بھی شرارتی یا جذباتی انسان اندر نہ آنے پاے اسے باہر ہی روک لو ہم سےاجازت لو اگر اجازت ملے تو اندر آنے دو ان کا کام عورتوں کو تھپٹر مارنا تھوڑی ہوتا ہے وہ بس اپنی ڈیوٹی کرے گا وہ گن مین بھی اپنی ڈیوٹی ہی کر رہا تھا اس کو بلاوجہ غصہ دلایا گیا جو ہر کوئی دیکھ سکتا ہے ویڈیو میں۔۔۔۔۔۔ اب قصور تو سارا اس مرد کا ہے جس نے عورت کو تھپٹر مار دیا اس معاشرے میں تو بیگم کو بھی مارنے پر پرچہ کاٹا جاتا ہے پرچہ تو بنتا تھا میڈیا کو چاہیے کسی کو بھی اپنا نمائندہ بنانے سے پہلے ان کی تربیت کی جاے ان کو بتایا جاے کہ ہمارا کام عوام کی خدمت کرنا ہے ان سے دشمنی مول لینا نہیں سچ اور جھوٹ ثابت کرنا اب میڈیا کا کام تو نہیں ہے پھر کیوں دس ہزار روپے دے کر رپوٹر بن جانے والے لوگوں کو میڈیا کارڈ بنا کر دیا جاتا ہے پھر وہ اس میڈیا کے زور پر کبھی ریاستی اداروں سے بدتمیزی کرتے ہیں اور کبھی گلی محلوں میں لوگوں کو بلیک میل کرتے ہیں میری التجا ہے تمام ٹی وی چینل سے کہ پروپر ٹریننگ دے کر ہاتھ میں مائک دیا جاے اور ان کو بتایا جاے ہم بھی عوام کی آواز ہیں ہمارا کام عوامی مسائل کا حل ہے ہم عوام کے کیس کے وکیل ہیں ہم سب بھی عام لوگ ہیں میڈیا میں کام کرنے والی لڑکی کے علاوہ بھی روز اتنی عورتوں کو مارا جاتا ہے تیزاب ڈالا جاتا ہے اس وقت ہمارا میڈیا کہاں ہوتا ہے اس وقت برکنگ نیوز کیوں نہیں آتی ۔خدا کے لیے انصاف کرنے میں مددگار ہی بنے رہو ۔خود انصاف نہ کرو ورنہ یہی سب ہو گا۔ چینل بے شک زیادہ اہمیت کا حامل بن جاے مگر عالمی میڈیا میں ہمارے ملک کی بدنامی بھی ہوتی ہے لوگ ہستے ہیں کبھی ملالہ کبھی قندیل کبھی چاے والا اور کبھی یہ سیکیورٹی گارڈ ۔۔۔۔۔ہم کیوں لوگوں کو ہسنے کا موقع فرہم کرتے ہیں یہ کام سیاستدان کر تو رہے ہیں ان کی وجہ سے کم جگ ہسائی ہوئی ہے جو میڈیا کو بھی اپنا حصہ ڈالنا ہے ۔ہر معاملے کا حل ہم خود نہیں کر سکتے کاش یہ بات سمجھ آجاے ہمارے میڈیا اور گن مین جیسے لوگوں کو جو عالمی سطح پر ہماری ساکھ کو متاثر کرتے ہیں اور اپنے ساتھ ملک کی بدنامی کا سبب بھی بنتے ہیں میری التجا ہے میڈیا اپنے بےلگام گھوڑوں کو تربیت دے کر میدان میں اتاریں اور تاکہ ریٹنگ کے ساتھ پاکستان کا نام بھی روشن ہو j;a;t;d;a;an;c;e
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: بے لگام گھوڑے

Post by چاند بابو »

جہاں عوام کی تربیت کی ضرورت ہے وہیں پر میڈیا کی تربیت کی اشد ضرورت ہے۔
میں یہ نہیں کہتا کہ حالیہ سیکورٹی گارڈ والے معاملے میں جو ہوا درست ہوا مگر جب آپ ایک بندے کو زچ کر دیں گے۔
لائیو اس کی تذلیل کریں گے تو ہر بندے کی برداشت کی حد برابر نہیں ہوتی۔
یہ ردعمل غیرفطری نہیں بلکہ بالکل فطری تھا اکسائے جانے پر لوگ جان لے لیتے ہیں یہ تو صرف ایک تھپڑ تھا۔

میڈیا پرسن کی ٹریننگ بے حد ضروری ہے اسے پتہ ہونا چاہئے کہ ہیومن رائیٹس کہاں‌ تک ہیں اور ان کے رائیٹس کہاں تک ہیں۔
کس حد تک جانا ہے اور کس حد تک نہیں جانا۔
کہاں سے پرسنل لائف کی حد شروع ہو جاتی ہے اور کہاں تک کمیونٹی کا تعلق بنتا ہے۔
مخاطب کو کس طرح پکارنا ہے اور زبان کیا استعمال کرنا ہے۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: بے لگام گھوڑے

Post by چاند بابو »

کراچی میں خاتون میڈیا پرسن کے ساتھ پیش آنے والے افسوسناک واقعہ پر سینئر صحافی سید بدر سعید بھائی کی تحریر اور صحافتی تنظیموں کی ذمہ داریاں

تھپڑ کھانے والی خاتون صحافی سے تمام تر ہمدردیوں کے باوجود سچ یہ ہے کہ اس رپورٹنگ میں وہ بطور صحافی کہیں نظر نہیں آئیں ۔ برا نہ مانیں تو کہوں کہ ہمارے کئی صحافیوں کو بھی تربیت کی ضرورت ہے لیکن جہاں تنخواہیں ہی تاخیر سے ملتی ہوں وہاں تربیت پر کون دھیان دے گا ؟ "تمہیں شرم نہیں آتی ؟ " جیسے عامیانہ جملے اور گفتگو نہ کرنے والے کا بار بار راستہ روک کر اس کے سامنے بدمعاشوں کی طرح کھڑے ہو کر ذاتی حملے صحافیوں کے شایان شان نہیں ہیں ۔ کسی کا بازو کھینچ کر اس کو موقف دینے پر مجبور کرنا صحافتی ضابطہ اخلاق کے خلاف ہے ۔ خاتون یہ حق رکھتی تھیں کہ گفتگو نہ کرنے پر رپورٹ کرتیں کہ فلاں گارڈ نے ہم سے گفتگو کرنے یا اپنا موقف دینے سے انکار کر دیا ۔ جس طرح جدید کیمرہ اٹھا لینے سے ہر شخص کیمرہ مین نہیں بن جاتا اسی طرح مائیک تھام لینے سے انسان رپورٹر نہیں بن جاتا۔ خاتون لبرل ہوں گی کہ ان کے نزدیک کسی مرد کا بازو تھامنا معیوب نہیں لیکن ممکن ہے وہ گارڈ اتنا لبرل نہ ہو کہ کسی بھی خاتون کو اپنے جسم پر ہاتھ لگانے کی اجازت دے دیتا۔ ہمارے گھر کی خواتین کا کوئی بازو تھامے تو شاید ہم اسے جان سے مارنے کی کوشش کریں تو کیا یہی کلیہ ان خاتون اور گارڈ پر لاگو نہیں ہوتا ۔ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں کا کلچر اور تہذیب ہماری رپورٹنگ کا حصہ ہوتی ہے اور صحافتی اقدار ہمارا سرمایا ہے ۔ ہم ان اقدار کے پابند ہوتے ہیں کیونکہ ہم صحافی ہیں بدمعاش نہیں۔ یاد آتا ہے پشاور میں ایک بم دھماکے کے بعد ایک خاتون رپورٹر نے ہسپتال کی ایمرجنسی کے باہر ایک سٹریچر کو زبردستی روک کر زخمی کی ویڈیو بنانے کی کوشش کی تو ہمارے ایک سینئر صحافی نے خاتون کو تھپڑ رسید کرکے سٹریچر کو ایمرجنسی کی جانب دھکیل دیا تھا ۔ اور غصہ سے سرخ چہرے کے ساتھ کہا تھا تمہارے ایک پیکج کے چکر میں یہ شخص مر جاتا تو ذمہ دار کون ہوتا ؟ اسی طرح بم دھماکے میں شہید ہونے والے ایک نوجوان کی ماں نے ہم صحافیوں کو جو تھپڑ رسید کیا تھا اس کا نشان آج بھی محسوس ہوتا ہے ۔ ایک رپورٹر نے بیٹے کی میت کے سامنے بین کرتی ماں کے سامنے مائیک کرتے ہوئے کہا : ظالموں نے آپ کا بیٹا چھین لیا آپ کے کیا جذبات ہیں ، کیسا محسوس کر رہی ہیں ۔ اس ماں نے غصہ سے کہا کاش تمہارا بیٹا اسی طرح مرا ہوتا تو سوال کرتی اب کیسا محسوس کر رہے ہو ۔ سانحہ پشاور میں شہید ہونے والے ایک بچے کی ماں نے بھی یونہی تھپڑ رسید کیا تھا ۔ ان سے رپورٹر نے کہا آپ کو اپنے بچے کی شہادت پر فخر ہو گا ؟ ماں کہنے لگی ۔ میں نے بچہ میدان جنگ میں نہیں بھیجا تھا ۔ اسے سکول پڑھنے بھیجا تھا۔ ہمارے غم کا تمہیں اندازہ بھی نہیں ہے ۔ جذبات ، کلچر اور احساست سے عاری اس صحافت نے ہی ہمیں بدنام کیا ہے ۔ ریٹنگ ہی سب کچھ نہیں ہوتی ۔ تہذیب اور اقدار کے ساتھ کی گئی رپورٹنگ افضل ہے اور سچ کہوں تو ہم سب کو تربیت کی ضرورت ہے ۔ یہاں باوقار رپورٹنگ کی اکیڈمیز اور شارٹ کورسسز کا رحجان پیدا کرنا ضروری ہے (سید بدر سعید)
Copied
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Post Reply

Return to “شعبہ تدریس”