بدعت اور نئے امور ايجاد كرنے كى ممانعت والى حديث كى شرح

اپنے مذہبی مسائل یہاں بتایئے اور انکے حل مستند علماء سے تجویز کروائیں
Post Reply
اضواء
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 40424
Joined: Sun Aug 15, 2010 4:26 am
جنس:: عورت
Location: {الدمام}المملكةالعربيةالسعوديه

بدعت اور نئے امور ايجاد كرنے كى ممانعت والى حديث كى شرح

Post by اضواء »

[center]بدعت اور نئے امور ايجاد كرنے كى ممانعت والى حديث كى شرح

1 - عرباض بن ساريہ رضى اللہ تعالى عنہ
كى حديث جس ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تم نئے نئے كام ايجاد كرنے سے بچو؛ كيونكہ
ہر نيا كام بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہى ہے "

سنن ابو داود



2 - جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما كى حديث

جس ميں ہے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے
خطبہ ميں يہ فرمايا كرتے تھے:



" يقينا سب سے زيادہ سچى بات كتاب اللہ ہے، اور سب سے
احسن اور بہتر طريقہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم كا ہے،
اور سب سے برے امور اس كے نئے ايجاد كردہ ہيں،
اور ہر نيا ايجاد كردہ كام بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہى ہے،
اور ہر گمراہى آگ ميں ہے "

ان الفاظ كے ساتھ اسے نسائى نے سنن
نسائى ميں روايت كيا ہے.



3 - عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى حديث جس
ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس كسى نے بھى ہمارے اس امر ( دين ) ميں كوئى
نئى چيز ايجاد كى جو اس ميں سے نہ ہو تو وہ مردود ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر صحيح مسلم حديث نمبر



4 - اور ايك روايت ميں يہ الفاظ ہيں:

" جس كسى نے بھى كوئى ايسا عمل كيا
جس پر ہمارا امر نہيں تو وہ مردود ہے "

صحيح مسلم




"""""""""""""""""""""""""""""""[/center]
[center]یہ بھی انداز ہمارے ہے تمہیں کیا معلوم
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
رضی الدین قاضی
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 13369
Joined: Sat Mar 08, 2008 8:36 pm
جنس:: مرد
Location: نیو ممبئی (انڈیا)

Re: بدعت اور نئے امور ايجاد كرنے كى ممانعت والى حديث كى شرح

Post by رضی الدین قاضی »

جزاک اللہ

اللہ سبحانہ و تعالٰی ہمیں صحیح راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے. آمین
[center]Image[/center]
اضواء
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 40424
Joined: Sun Aug 15, 2010 4:26 am
جنس:: عورت
Location: {الدمام}المملكةالعربيةالسعوديه

Re: بدعت اور نئے امور ايجاد كرنے كى ممانعت والى حديث كى شرح

Post by اضواء »

رضی الدین قاضی wrote:جزاک اللہ

اللہ سبحانہ و تعالٰی ہمیں صحیح راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے. آمین

أحسنت .. بارك الله فيك .
[center]یہ بھی انداز ہمارے ہے تمہیں کیا معلوم
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
بلال احمد
ناظم ویڈیو سیکشن
ناظم ویڈیو سیکشن
Posts: 11973
Joined: Sun Jun 27, 2010 7:28 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: بدعت اور نئے امور ايجاد كرنے كى ممانعت والى حديث كى شرح

Post by بلال احمد »

جزاک اللہ،

یااللہ ہمیں حق پر چلنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطافرماآمین
بڑی بے چین رہتی ہے طبیعت اب میری محسن
مجھے اب قتل ہونا ہے، مگر قاتل نہیں ملتا
اضواء
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 40424
Joined: Sun Aug 15, 2010 4:26 am
جنس:: عورت
Location: {الدمام}المملكةالعربيةالسعوديه

Re: بدعت اور نئے امور ايجاد كرنے كى ممانعت والى حديث كى شرح

Post by اضواء »

بلال احمد wrote:جزاک اللہ،

یااللہ ہمیں حق پر چلنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطافرماآمین

اللھم آمین ....
زادك الله علماً ونوراً
[center]یہ بھی انداز ہمارے ہے تمہیں کیا معلوم
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: بدعت اور نئے امور ايجاد كرنے كى ممانعت والى حديث كى شرح

Post by چاند بابو »

جزاک اللہ.
اللہ تعالٰی ہمیں اس طرح کی گمراہی سے بچنے اور اصل اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائیں آمین.
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
اضواء
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 40424
Joined: Sun Aug 15, 2010 4:26 am
جنس:: عورت
Location: {الدمام}المملكةالعربيةالسعوديه

Re: بدعت اور نئے امور ايجاد كرنے كى ممانعت والى حديث كى شرح

Post by اضواء »

چاند بابو wrote:جزاک اللہ.
اللہ تعالٰی ہمیں اس طرح کی گمراہی سے بچنے اور اصل اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائیں آمین.
اللھم آمین یارب العالمین....

أحسنت .. بارك الله فيك .
[center]یہ بھی انداز ہمارے ہے تمہیں کیا معلوم
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
Nasir A Muhammad
کارکن
کارکن
Posts: 2
Joined: Sun Apr 06, 2014 2:20 pm
جنس:: مرد

Re: بدعت اور نئے امور ايجاد كرنے كى ممانعت والى حديث كى شرح

Post by Nasir A Muhammad »

کتاب البدعۃ - ڈاکٹرمحمدطاہرالقادری

ہر وہ نیا کام جس کی کوئی شرعی دلیل، شرعی اصل مثال یا نظیر پہلے سے کتاب و سنت اور آثارِ صحابہ میں موجود نہ ہو وہ ’’بدعت‘‘ ہے لیکن ہر بدعت غیر پسندیدہ یا ناجائز و حرام نہیں ہوتی بلکہ صرف وہی بدعت ناجائز ہوگی جو کتاب و سنت کے واضح احکامات سے متعارض و متناقص (contradictory) ہو۔دوسرے لفظوں میں بدعتِ سیئہ یا بدعتِ ضلالہ صرف اُس عمل کو کہیں گے جو واضح طور پر کسی متعین سنت کے ترک کا باعث بنے اور جس عمل سے کوئی سنت متروک نہ ہو وہ نا جائز نہیں بلکہ مباح ہے۔ اِسی مؤقف کی تائید کرتے ہوئے معروف غیر مقلد عالم نواب صدیق حسن خان بھوپالی (1307ھ) لکھتے ہیں کہ ہر نئے کام کو بدعت کہہ کرمطعون نہیں کیا جائے گا بلکہ بدعت صرف اس کام کو کہا جائے گا جس سے کوئی سنت متروک ہو۔ جو نیا کام کسی امرِ شریعت سے متناقص نہ ہو وہ بدعت نہیں بلکہ مباح اور جائز ہے۔ شیخ وحید الزماں اپنی کتاب ’’ہدیۃ المہدی‘‘ کے صفحہ نمبر 117 پر بدعت کے حوالے سے علامہ بھوپالی کا یہ قول نقل کرتے ہیں :
البدعة الضّلالة المحرّمة هی التی ترفع السّنة مثلها والتی لا ترفع شيئا منها فليست هی من البدعة بل هی مباح الاصل.
’’بدعت وہ ہے جس سے اس کے بدلہ میں کوئی سنت متروک ہو جائے اور جس بدعت سے کسی سنت کا ترک نہ ہو وہ بدعت نہیں ہے بلکہ وہ اپنی اصل میں مباح ہے۔‘‘
رہی وہ بدعت جو مستحسن اُمور کے تحت داخل ہے اور وہ قرآن و حدیث کے کسی حکم سے ٹکراتی بھی نہیں تو وہ مشروع، مباح اور جائز ہے، اسے محض بدعت یعنی نیا کام ہونے کی بنا پر مکروہ یا حرام قرار دینا کتاب و سنت کے ساتھ نا اِنصافی ہے۔
بدعت کا لغوی مفہوم
’’بدعت‘‘ کا لفظ بَدَعَ سے مشتق ہے۔ اس کا لغوی معنی ہے :
’’کسی سابقہ مثال کے بغیر کوئی نئی چیز ایجاد کرنا اور بنانا۔‘‘
1۔ ابن منظور افریقی (630۔711ھ) لفظِ بدعت کے تحت لکھتے ہیں :
اَبدعت الشيئ : اخترعته لا علی مثال.
ابن منظور، لسان العرب، 8 : 6
’’میں نے فلاں شے کو پیدا کیا یعنی اُسے بغیر کسی مثال کے ایجاد کیا۔‘‘
2۔ حافظ ابن حجرعسقلانی (773۔852ھ) بدعت کا لُغوی مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
البدعة أصلها ما أحدث علی غير مثال سابق.
1. عسقلانی، فتح الباری، 4 : 253
2. شوکانی، نيل الأوطار شرح منتقی الأخبار، 3 : 63
’’اَصلِ بدعت یہ ہے کہ اُسے بغیر کسی سابقہ نمونہ کے ایجاد کیا گیا ہو۔‘‘
معنی بدعت کی قرآن حکیم سے توثیق
قرآنِ مجید میں مختلف مقامات پر لفظِ بدعت کے مشتقات بیان ہوئے ہیں جن سے مذکورہ معنی کی توثیق ہوتی ہے۔ صرف دو مقامات درج ذیل ہیں :
1۔ اللہ تعاليٰ نے زمین و آسمان بغیر کسی مثالِ سابق کے پیدا فرمائے، اس لیے خود کو بدیع کہا۔ فرمایا :
بَدِيْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط وَاِذَا قَضٰی اَمْراً فَاِنَّمَا يَقُوْلُ لَهُ کُنْ فَيَکُوْنُo
البقرة، 2 : 117
’’وہی آسمانوں اور زمین کو عدم سے وجود میں لانے والا ہے، اور جب وہ کسی چیز (کے ایجاد) کا فیصلہ فرما لیتا ہے تو پھر اس کو صرف یہی فرماتا ہے : تو ہو جا، پس وہ ہوجاتی ہےo‘‘
2۔ ایک دوسرے مقام پر فرمایا :
بَدِيْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ.
الانعام، 6 : 101
’’وہی آسمانوں اور زمین کا مُوجد ہے۔‘‘
درج بالا آیات سے ثابت ہوا کہ کائناتِ اَرضی و سماوی کی تخلیق کا ہر نیا مرحلہ بدعت ہے اور اِسے عدم سے وجود میں لانی والی ذاتِ باری تعاليٰ ’’بدیع‘‘ہے۔
بدعت کا اِصطلاحی مفہوم
اہلِ علم کے نزدیک بدعت کی اِصطلاحی تعریف درج ذیل ہے :
1۔ اِمام نووی (631۔ 677ھ) بدعت کی تعریف اِن الفاظ میں کرتے ہیں :
البدعة هی إحداث مالم يکن فی عهد رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم .
نووی، تهذيب الأسماء واللغات، 3 : 22
’’بدعت سے مراد ایسے نئے کام کی ایجاد ہے جو عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نہ ہو۔‘‘
2۔ شیخ ابن رجب حنبلی (736۔795ھ) بدعت کی اِصطلاحی تعریف درج ذیل الفاظ میں کرتے ہیں :
المراد بالبدعة ما أحدث مما لا أصل له فی الشريعة يدل عليه، وأما ما کان له أصل من الشّرع يدل عليه فليس ببدعة شرعاً، وإن کان بدعة لغة.
1. ابن رجب، جامع العلوم والحکم فی شرح خمسين حديثاً من جوامع الکلم : 252
2. عظيم آبادی، عون المعبود شرح سنن أبی داود، 12 : 235
3. مبارک پوری، تحفة الأخوذی شرح جامع الترمذی، 7 : 366
’’بدعت سے مراد ہر وہ نیا کام ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل موجود نہ ہو جو اس پر دلالت کرے، لیکن ہر وہ معاملہ جس کی اصل شریعت میں موجود ہو وہ شرعاً بدعت نہیں اگرچہ وہ لغوی اعتبار سے بدعت ہوگا۔‘‘
حافظ ابنِ حجر عسقلانی (773۔852ھ) بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیّئہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
والتحقيق أنها إن کانت مما تندرج تحت مستحسن فی الشّرع فهی حسنة، وإن کانت مما تندرج تحت مستقبح فی الشّرع فهی مستقبحة.
1. عسقلانی، فتح الباری، 4 : 253
2. شوکانی، نيل الأوطار شرح منتقی الأخبار، 3 : 63
’’تحقیق یہ ہے کہ اگر بدعت کوئی ایسا کام ہو جو شریعت میں مستحسن اُمور میں شمار ہو تو وہ حسنہ ہے اور اگر وہ شریعت میں ناپسندیدہ اُمور میں شمار ہو تو وہ قبیحہ ہوگی۔‘‘
اِن تعریفات سے واضح ہوتا ہے کہ ہر نئے کام یعنی بدعت کو محض نیا کام ہونے کی وجہ سے مطلقاً حرام یا ممنوع قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ اُس کے جواز یا عدمِ جواز کو پرکھنے کا پیمانہ یہ ہے کہ اگر وہ نیا کام شریعت میں مستحسن و مباح ہے تو اُسے بدعتِ حسنہ کہیں گے اور اگر وہ نیا کام شریعت میں غیر مقبول و ناپسندیدہ ہو تو اُسے بدعتِ سیئہ یا بدعتِ قبیحہ کہیں گے۔
اِس اُصولی بحث کے بعد یہ اَمر واضح ہو گیا کہ جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگرچہ قرونِ اُوليٰ میں اِس شکل میں موجود نہیں تھا جس ہیئت میں آج موجود ہے،لیکن چوں کہ قرآن حکیم کی تلاوت، ذِکرِ اِلٰہی، تذکارِ رسالت، ثنا خوانی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، صدقہ و خیرات کرنا، فقراء و مساکین کو کھانا کھلانا جیسے اَعمال اِس جشن کے مشتملات ہیں، اور اِن میں سے کوئی اَمر بھی شریعت میں ممنوع نہیں، لہٰذا یہ ایک جائز، مشروع اور مستحسن عمل ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ سابقہ اَدوار کے لوگ اپنے رسوم و رواج اور ثقافت کے مطابق نعمتِ عظميٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ملنے کے دن شکرِ اِلٰہی بجا لاتے تھے، جب کہ موجودہ دور میں جس طرح زندگی کے ہر گوشہ میں تبدیلی رُونما ہوئی ہے اُسی طرح جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کے اَطوار بھی تبدیل ہوئے ہیں۔ ذیل میں ہم اِس اَمر کی وضاحت کرتے ہیں :
User avatar
Akbarbarvi
کارکن
کارکن
Posts: 7
Joined: Thu Feb 20, 2014 10:49 pm
جنس:: مرد

Re: بدعت اور نئے امور ايجاد كرنے كى ممانعت والى حديث كى شرح

Post by Akbarbarvi »

ماشاءاللہ، بہت عمدہ طریقے سے وضاحت کرنے کا شکریہ، جزاک اللہ خیرا
اضواء
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 40424
Joined: Sun Aug 15, 2010 4:26 am
جنس:: عورت
Location: {الدمام}المملكةالعربيةالسعوديه

Re: بدعت اور نئے امور ايجاد كرنے كى ممانعت والى حديث كى شرح

Post by اضواء »

الله يجزاك خير والله يجعلها في موازين حسنات.
[center]یہ بھی انداز ہمارے ہے تمہیں کیا معلوم
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
mfdarvesh
کارکن
کارکن
Posts: 11
Joined: Fri Apr 15, 2011 3:47 pm
جنس:: مرد

Re: بدعت اور نئے امور ايجاد كرنے كى ممانعت والى حديث كى شرح

Post by mfdarvesh »

1 - عرباض بن ساريہ رضى اللہ تعالى عنہ
كى حديث جس ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تم نئے نئے كام ايجاد كرنے سے بچو؛ كيونكہ
ہر نيا كام بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہى ہے "

سنن ابو داود

میری تو سمجھ سے باہر ہے، اوپر بہت ساری احادیث لکھی ہوئی ہیں میں نے صرف ایک کاپی کی ہے، اس میں ہر نئے کام کا ذکر ہے کہیں‌یہ نہیں‌لکھا کہ وہ سنت کو ترک کررہا ہو، اب اس حدیث کی تشریح کون کرے گا ؟؟
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: بدعت اور نئے امور ايجاد كرنے كى ممانعت والى حديث كى شرح

Post by چاند بابو »

محترم اس حدیث کی تشریح تو قرآن میں بھی موجود ہے.

[center]Image[/center]

یقینا یہاں نئے نئے کاموں سے مراد دین میں نئے کام ہی ہے.

ایک دوسری حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے.

[center]Image[/center]
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
mfdarvesh
کارکن
کارکن
Posts: 11
Joined: Fri Apr 15, 2011 3:47 pm
جنس:: مرد

Re: بدعت اور نئے امور ايجاد كرنے كى ممانعت والى حديث كى شرح

Post by mfdarvesh »

پھر حدیث تو یہی کہہ رہی ہے نا کہ نیا کام بدعت ہے، صرف سنت رسول اور صحابہ کی پیروی کا حکم ہے، اس میں بدعت حسنہ کہاں ہے ؟؟
Post Reply

Return to “مذہبی مسائل اور انکے حل”