میاں عبدالرشید کا مضمون اور اسکا جواب

اپنے مذہبی مسائل یہاں بتایئے اور انکے حل مستند علماء سے تجویز کروائیں
Post Reply
محمد شعیب
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 6565
Joined: Thu Jul 15, 2010 7:11 pm
جنس:: مرد
Location: پاکستان
Contact:

میاں عبدالرشید کا مضمون اور اسکا جواب

Post by محمد شعیب »

حضرت مولانا یوسف لدھیانوی رح کو اللہ رب العزت نے تصنیف میں جو کمال عطا فرمایا تھا وہ کسی سے مخفی نہیں. آپ کے مسائل اور انکا حل سے حضرت کی تصنیف کی ایک جھلک پیش خدمت ہے.
س… آپ کو زحمت دے رہا ہوں، روزنامہ “نوائے وقت” اتوار ۱۰/جون ۱۹۹۰ء میں “نورِ بصیرت” کے مستقل عنوان کے ذیل میں میاں عبدالرشید صاحب نے “باز اور بڑھیا” کے عنوان سے ایک اقتباس تحریر کیا (تراشہ ارسالِ خدمت ہے)، جس میں احقر کے علم کے مطابق مصنف نے حدیثِ نبوی کی نفی، جہاد بالسیف اور جہاد باللسان کے بارے میں اپنی آراء اور مسواک (سنتِ رسول) کے بارے میں ہرزہ سرائی سے کام لیا ہے۔ آپ سے استدعا ہے کہ میاں عبدالرشید صاحب کی کوتاہ علمی اور ہرزہ سرائی کا مدلل جواب عنایت فرمائیں تاکہ احقر اسے روزنامہ ہذا میں چھپواکر بہت سارے مسلمانوں کے شکوک، جو کہ مصنف نے تحریر ہذا کے ذریعے پیدا کئے ہیں، دُور کرسکے، اللہ تعالیٰ آپ کو اجرِ عظیم عنایت فرمائیں۔

“نورِ بصیرت” کے عنوان سے لکھا ہوا میاں عبدالرشید کا متذکرہ بالا مضمون یہ ہے:

“باز اور بڑھیا”

“رومی نے ایک حکایت لکھی ہے، کسی بڑھیا کے مکان کی چھت پر ایک باز آکے بیٹھ گیا اور اتفاق سے بڑھیا کے ہاتھ آگیا، بڑھیا نے اسے پیار کرتے کرتے اس کی چونچ کو دیکھا تو بولی: ہائے افسوس! چونچ اتنی بڑھ گئی ہے اور آگے سے ٹیڑھی بھی ہوگئی ہے۔ پھر اس کے پنجے دیکھے تو اسے اور افسوس ہوا کہ ناخن اتنے بڑھ گئے ہیں۔ بڑھیا نے قینچی لی، پہلے باز کی بڑھی ہوئی چونچ کاٹی، پھر اس کے پنجے ٹھیک کئے، پھر اس کے پَر کاٹ کر دُرست کئے، اس کے بعد خوشی سے بولی: اب یہ کتنا پیارا لگتا ہے!

رومی اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ بعض لوگ اچھی بھلی چیزوں کو نکما اور بے کار بنادیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اس کی اصلاح کردی ہے۔ یہی کچھ ہمارے اسلام سے کیا جارہا ہے۔ ایک طرف، اس کے اندر سے جہاد اور شوقِ شہادت نکالنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ دُوسری طرف، رسوم پر زور دے کر اعمال کو رُوح سے بے گانہ بنایا جارہا ہے، جس سے مسلمانوں میں تنگ نظری، تعصب اور فرقہ پرستی پھیل رہی ہے۔ تیسری طرف، مسلمانوں کو قصے کہانیوں میں اُلجھایا جارہا ہے، جس کے نتیجے میں وہ حقیقت پسندی سے دُور ہو رہے ہیں۔

ایک فوجی افسر نے مجھے بتایا کہ ان کے دفتر کے ساتھ جو مسجد ہے، وہاں نمازِ ظہر کے بعد ایک کتاب پڑھ کر سنائی جاتی ہے، ایک دن ابنِ ماجہ کے حوالے سے یہ “حدیث” بیان کی گئی کہ دو اشخاص تھے، ان میں سے ایک نے شہادت کی موت پائی، دُوسرا طبعی موت مرا، کسی نے خواب میں دیکھا کہ طبعی موت مرنے والا شہید سے کئی برس پہلے جنت میں داخل ہوا۔ پوچھا گیا تو معلوم ہوا کہ چونکہ طبعی موت مرنے والے نے نمازیں زیادہ پڑھی تھیں، اس لئے اسے شہید پر فوقیت ملی۔ ہے ماننے والی بات؟ کیا یہ بات اسلام کی تعلیم کے سراسر منافی نہیں؟ متفقہ مسئلہ ہے کہ شہادت کی موت افضل ترین موت ہے، شہید بغیر کسی حساب کتاب کے سیدھا جنت میں جاتا ہے، کیا یہ فوجیوں کے اندر سے شہادت کا شوق ختم کرنے کی کوشش تو نہیں؟

سورة الصف کی چوتھی آیت ہے (ترجمہ): “اللہ تعالیٰ فی الواقع انہیں محبوب رکھتے ہیں جو ان کی راہ میں صف بستہ لڑیں، جیسے وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہوں۔”

یہ واضح طور پر لڑائی کے بارے میں ہے۔

لیکن اسی افسر نے مجھے بتایا کہ وہاں اس آیت کو چھوڑ کر آیہ:۱۱ کی تفسیر یوں بیان کی گئی ہے: “جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں (جہاد نہیں بلکہ) کوشش کرتے ہیں اپنے اموال سے اپنی جانوں سے۔” ظاہر ہے کہ کوشش سے مراد تبلیغی دوروں پر جانا ہے۔

ایک اور فوجی افسر نے واقعہ سنایا کہ بہاول پور کی طرف ان کے تین ٹینک بڑی نہر میں گرگئے جوانوں نے تلاش کی، دو مل گئے، تیسرا نہ ملا۔ شام کو کرنل نے جو ماشاء اللہ اسی پرہیزگار جماعت سے تعلق رکھتے ہیں، جوانوں کا اکٹھا کیا اور کہا: معلوم ہوتا ہے کہ آج تم نے مسواک ٹھیک طرح سے نہیں کی تھی، اس وجہ سے ٹینک نہیں ملا، کل صبح مسواک اچھی طرح سے کرکے آنا۔ دُوسرے دن جوان اچھی طرح سے مسواک کرکے نہر میں اُترے تو تیسرا ٹینک بھی مل گیا۔”

ج… میاں صاحب نے پیر رُومی کے حوالے سے “باز اور بڑھیا” کی جو تمثیلی حکایت نقل کی ہے وہ بھی بجا، اور اس کو نقل کرکے میاں صاحب کا یہ ارشاد بھی سر آنکھوں پر کہ:

“یہی کچھ ہمارے اسلام کے ساتھ کیا جارہا ہے۔”

چنانچہ میاں صاحب کا زیرِ نظر مضمون بھی اسی کی اچھی مثال ہے، جس میں متعدّد پہلووٴں سے “روایتی بڑھیا” کا کردار ادا کیا گیا ہے۔

اوّل:… ایک اُمتی کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جو تعلق ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی سنتے ہی اس کا سر جھک جائے، اور اس کے لئے کسی چوں و چرا کی گنجائش نہ رہ جائے، اس لئے کہ ایک اُمتی کے لئے، اگر وہ واقعتا اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اُمتی سمجھتا ہے، سب سے آخری فیصلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا فیصلہ ہوسکتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم و ارشاد کے بعد نہ کسی چوں و چرا کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے خلاف اپیل ہوسکتی ہے، قرآنِ کریم کا ارشاد ہے:

“فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُوٴْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْٓ أَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا۔” (النساء:۶۵)

ترجمہ:… “پھر قسم ہے آپ کے رَبّ کی! یہ لوگ ایمان دار نہ ہوں گے جب تک یہ بات نہ ہو کہ ان کے آپس میں جو جھگڑا واقع ہو اس میں یہ لوگ آپ سے تصفیہ کروالیں، پھر آپ کے اس تصفیے سے اپنے دِلوں میں تنگی نہ پاویں اور پورے طور پر تسلیم کرلیں۔” (ترجمہ حضرت تھانوی)


لیکن ارشادِ ربانی کے مطابق، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ سن کر میاں صاحب کا سر اس کے سامنے نہیں جھکتا، بلکہ وہ اس کو: “جوشِ جہاد اور شوقِ شہادت نکالنے کی کوشش اور رسوم پر زور دے کر اعمال کو رُوح سے بے گانہ بنانے کی غلطی” سے تعبیر کرتے ہیں، وہ اس حدیثِ نبوی اور ارشادِ مصطفوی (علیٰ صاحبہا الف الف صلوٰة وسلام) کو “اسلام کی بڑھتی ہوئی چونچ” سمجھ کر روایتی بڑھیا کی طرح فوراً اسے مقراضِ قلم سے کاٹ ڈالتے ہیں، اور اسلام کی قطع و برید کا یہ عمل ان کے خیال میں “نورِ بصیرت” کہلاتا ہے۔ حالانکہ روایتی بڑھیا کی طرح نہ انہیں یہ معلوم ہے کہ اس حدیث شریف کا مدعا کیا ہے؟ نہ وہ یہ جانتے ہیں کہ جذبہٴ جہاد اور شوقِ شہادت کا صحیح مفہوم کیا ہے؟ وہ اس حدیث شریف کو جذبہٴ جہاد اور شوقِ شہادت کے منافی سمجھتے ہیں، اور انہیں یہ حدیث شریف اسی طرح فالتو نظر آتی ہے، جس طرح بڑھیا کو باز کی چونچ اور بڑھے ہوئے ناخن فالتو نظر آئے تھے۔

دوم:… میاں صاحب ایک فوجی افسر کے حوالے سے ہمیں بتاتے ہیں کہ: “ان کی مسجد میں ظہر کے بعد ایک کتاب پڑھ کر سنائی جاتی ہے، ایک دن وہاں “ابنِ ماجہ” کے حوالے سے یہ حدیث بیان کی گئی۔”

یہ کتاب جو ظہر کے بعد پڑھ کر سنائی جارہی تھی، حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا مہاجرِ مدنی نوّر اللہ مرقدہ کی کتاب “فضائلِ نماز” ہے، اور اس میں یہ “حدیث” صرف ابنِ ماجہ کے حوالے سے نہیں ذکر کی گئی، بلکہ اس کے حوالے کے لئے مندرجہ ذیل کتابوں کا نام درج ہے:

۱:… موٴطا امام مالک ۲:… مسندِ احمد ۳:…ابوداوٴد

۴:… نسائی ۵:…ابنِ ماجہ ۶:… صحیح ابنِ خزیمہ

۷:… صحیح ابنِ حبان ۸:… مستدرک حاکم ۹:…بیہقی

۱۰:… ترغیب و ترہیب منذری ۱۱:…درِ منثور

لیکن ان کے فوجی افسر نے بتایا کہ ابنِ ماجہ کے حوالے سے یہ “حدیث” بیان کی گئی اور میاں صاحب نے بغیر تحقیق اس کو اپنے کالم میں گھسیٹ دیا۔ شاید میاں صاحب نے روایتی بڑھیا کی طرح قرآنِ کریم کی درج ذیل آیت کو بھی (نعوذ باللہ) فالتو سمجھا:

“یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْٓا اِنْ جَآئکُمْ فَاسِقٌم بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْٓا أَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًا مبِجَھَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ۔”

(الحجرات:۶)

ترجمہ:… “اے ایمان والو! اگر کوئی شریر آدمی تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو خوب تحقیق کرلیا کرو، کبھی کسی قوم کو نادانی سے ضرر نہ پہنچادو، پھر اپنے کئے پر پچھتانا پڑے۔”

(ترجمہ حضرت تھانوی)

چنانچہ میاں صاحب نے بغیر تحقیق کے اس خبر پر اعتماد کرلیا اور حدیثِ نبوی کو اپنی ناروا تنقید کے نشانے پر رکھ لیا۔

سوم:… یہ “حدیث” جو میاں صاحب کے فوجی افسر کے بقول ابنِ ماجہ کے حوالے سے پڑھی جارہی تھی، مندرجہ ذیل صحابہ کرام سے مروی ہے:

۱:… حضرت سعد بن ابی وقاص:

موٴطا امام مالک ص:۱۶۱، مسندِ احمد ج:۱ ص:۱۷۰، صحیح ابنِ خزیمہ ج:۱ ص:۱۶۰، مستدرک حاکم ج:۱ ص:۲۰۰۔

امام حاکم اس کو اپنی سند کے ساتھ نقل کرکے فرماتے ہیں: صحیح الاسناد۔ امام ذہبی تلخیص مستدرک میں فرماتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔ امام نورالدین ہیثمی اس کو مسند امام احمد اور طبرانی کے حوالے سے نقل کرکے فرماتے ہیں: مسندِ احمد کے تمام راوی صحیح کے راوی ہیں۔

۲:… حضرت عبید بن خالد:

مسندِ احمد ج:۳ ص:۵۰۰، ج:۴ ص:۲۱۹، ابوداوٴد ج:۱ ص:۳۴۲، نسائی ج:۱ ص:۲۸۱، سننِ کبریٰ بیہقی ج:۳ ص:۳۷۱، مصباح السنة ج:۳ ص:۴۴۲، مشکوٰة ص:۴۵۱۔ یہ حدیث بھی صحیح ہے اور اس کے تمام راوی ثقہ ہیں۔

۳:… حضرت طلحہ بن عبیداللہ:

مسندِ احمد ج:۱ ص:۱۶۳، ابنِ ماجہ ص:۲۸۱، سننِ کبریٰ بیہقی ج:۳ ص:۳۷۲، مسندِ ابویعلیٰ ج:۲ ص:۹، صحیح ابنِ حبان ج:۵ ص:۲۷۷، مسندِ بزار (کشف الاستار عن زوائد البزار ج:۴ ص:۲۲۷)۔

امام نورالدین ہیثمی اس حدیث کو مسندِ احمد، مسندِ ابویعلیٰ اور مسندِ بزار کے حوالے سے نقل کرکے فرماتے ہیں: ان تمام کے راوی صحیح کے راوی ہیں۔

(مجمع الزوائد ج:۱۰ ص:۲۰۴)

۴:… حضرت ابوہریرہ:

مسندِ احمد ج:۲ ص:۳۳۳۔

امام ہیثمی فرماتے ہیں: باسناد حسن۔ (مجمع الزوائد ج:۱۰ ص:۲۰۴) اور یہی بات شیخ نے امام منذری سے بھی نقل کی۔

۵:… حضرت عبداللہ بن شداد:

مسندِ احمد ج:۱ ص:۱۶۳، مشکوٰة ص:۴۵۱، مجمع الزوائد ج:۱۰ ص:۲۰۴ (حضرت شیخ نے بھی ان تمام احادیث کی طرف اشارہ فرمایا ہے)۔



آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ حدیث متعدّد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے مروی ہے، ائمہٴ حدیث نے اس کی تخریج فرمائی ہے اور اس کے راویوں کی توثیق و تعدیل فرمائی ہے۔ لیکن ہمارے میاں صاحب کے نزدیک شاید حضراتِ محدثین کی جرح و تعدیل اور تصحیح و تحسین بھی ایک فالتو چیز ہے اور وہ اسے روایتی بڑھیا کی طرح کاٹ دینا چاہتے ہیں۔

چہارم:… صحابہ کرام کے دور سے آج تک اہلِ علم اس حدیث کو سنتے سناتے اور پڑھتے پڑھاتے آئے ہیں، لیکن کسی کے گوشہٴ خیال میں بھی یہ بات نہیں آئی کہ اس سے جذبہٴ جہاد اور شوقِ شہادت کی نفی ہوتی ہے، البتہ اس حدیث سے نماز کی فضیلت اور طاعت و عبادت کے ساتھ طویل عمر ملنے کی سعادت پر ضرور استدلال کیا گیا، چنانچہ صاحبِ مصابیح السنة اور صاحبِ مشکوٰة نے اس حدیث کو “باب استحباب المال والعمر للطاعة” کے تحت ذکر کیا ہے، امام نورالدین ہیثمی نے اسے ایک بار “نماز کی فضیلت” کے بیان میں اور دُوسری بار “باب فیمن طال عمرہ من المسلمین” کے ذیل میں ذکر کیا ہے، صحیح ابنِ حبان میں یہ حدیث درج ذیل عنوان کے تحت ذکر کی گئی ہے:

“ذکر البیان بأن من طال عمرہ وحسن عملہ قد یفوق الشھید فی سبیل الله تبارک وتعالیٰ۔”

ترجمہ:… “اس اَمر کا بیان کہ جس شخص کی طویل عمر ہو اور عمل اچھا ہو، وہ کبھی شہید فی سبیل اللہ سے بھی فوقیت لے جاتا ہے۔”

الغرض! جہاد فی سبیل اللہ اور شہادت فی سبیل اللہ کے بے شمار فضائل ہیں، لیکن یہ کون نہیں جانتا کہ جہاد فرضِ کفایہ ہے اور نماز فرضِ عین ہے، نماز کے تارک پر کفر کا اطلاق کیا گیا ہے، اور نماز ہی کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ دین کا ستون ہے، جس نے اس کو قائم کیا اس نے دین کو قائم کیا، اور جس نے اس کو گرایا اس نے دین کو ڈھادیا۔ چنانچہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد دین کا سب سے بڑا اور سب سے اہم رُکن نماز ہے، نماز کے ان فضائل کو ذکر کرنے سے یہ کیسے لازم آیا کہ جذبہٴ جہاد اور شوقِ شہادت کو ختم کیا جارہا ہے؟ اور جو شخص نماز ہی نہیں پڑھتا (جیسا کہ ہمارے معاشرے کی اکثریت کا حال ہے، جن میں فوجی افسر اور جوان بھی شامل ہیں) وہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں کیا جہاد کرے گا؟ اور اس کے دِل میں کیا شوقِ شہادت ہوگا؟ لیکن میاں صاحب کے خیال میں شاید جذبہٴ جہاد اور شوقِ شہادت کے مقابلے میں نماز، روزہ اور دین کے دیگر اعمال و شعائر بھی فالتو چیز ہیں۔ اس لئے اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی کسی چیز کی فضیلت کو شہادت فی سبیل اللہ سے بڑھ کر فرمائیں تو میاں صاحب اس کو بھی ماننے کے لئے تیار نہیں، اب انصاف فرمائیے کہ اسلام کے ساتھی روایتی بڑھیا کا کردار کون ادا کر رہا ہے․․․؟

میاں صاحب سورة الصف کی چوتھی آیت کا ذکر کرتے ہوئے اسے فوجی افسر کے حوالے سے ہمیں بتاتے ہیں کہ:

“وہاں اس آیت کو چھوڑ کر آیت نمبر۱۱ کی تفسیر یوں بیان کی گئی کہ: جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں (جہاد نہیں بلکہ) کوشش کرتے ہیں اپنے اموال سے، اپنی جانوں سے۔

ظاہر ہے کوشش سے مراد تبلیغی دوروں پر جانا ہے۔”

میں پہلے قرآنی آیت کا حوالہ دے چکا ہوں کہ بغیر تحقیق کے سنی سنائی بات پر اعتماد کرکے کوئی کاروائی نہیں کرنی چاہئے، اور میاں صاحب کے فوجی افسر کی روایت کا حال بھی اُوپر معلوم ہوچکا ہے کہ حضرتِ شیخ ایک حدیث کے لئے ایک درجن کتابوں کا حوالہ دیتے ہیں کہ ان “فوجی افسر” کا حافظہ صرف “ابنِ ماجہ” کے نام کا بوجھ بمشکل اُٹھاسکا، اسی سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ بات کیا کہی جارہی ہوگی اور میاں صاحب کے راوی نے اس کو کیا سے کیا سمجھا ہوگا؟

جو بات کہی جارہی ہوگی وہ یہ ہوگی کہ دین کی دعوت و تبلیغ اور مسلمانوں میں اسلامی شعائر قائم کرنے کی جو محنت بھی ہو اس پر “فی سبیل اللہ” کا اطلاق ہوتا ہے، خود جہاد فی سبیل اللہ بھی اسی محنت کی ایک شکل ہے، چنانچہ سب جانتے ہیں کہ جہاد سے پہلے مسلمانوں کے اَمیرِ لشکر کی طرف سے کافروں کو یہ دعوت دی جاتی ہے:

Y:… تم اسلام قبول کرلو، تمہارے حقوق بھی وہی ہوں گے جو ہمارے ہیں، اور تمہاری ذمہ داریاں بھی وہی ہوں گی جو ہماری ذمہ داریاں ہیں۔

Y:… اگر تم اسلام لانا نہیں چاہتے تو ہم نے جو اسلام کے قانون کا نظام قائم کر رکھا ہے، اس کے ماتحت رہنے کو قبول کرلو، اور اس کے لئے جزیہ ادا کرو۔

Y:… اگر جزیہ دے کر اسلامی نظام کے ماتحت رہنا بھی قبول نہیں کرتے ہو تو مقابلے کے لئے تیار ہوجاوٴ، تلوار ہمارا اور تمہارا فیصلہ کرے گی۔

اسلامی جہاد کی یہ دفعات ہر طالبِ علم کو معلوم ہیں، جس سے واضح ہے کہ جہاد بھی دعوت الی اللہ اور اعلائے کلمة اللہ کے لئے ہے۔ اس کے بعد دعوت و تبلیغ کے “فی سبیل اللہ” ہونے میں کیا شبہ رہ جاتا ہے؟ حضراتِ مفسرین نے “فی سبیل اللہ” کی تفسیر میں جو کچھ لکھا ہے اس کو ملاحظہ فرمالیا جائے جس سے معلوم ہوگا کہ علمِ دین حاصل کرنے کے لئے سفر کرنا بھی “فی سبیل اللہ” میں داخل ہے، اور حج و عمرہ بھی “فی سبیل اللہ” میں شامل ہے، اب کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ دین کی سربلندی اور احیائے اسلام کے لئے جو کوشش بھی کی جائے وہ “فی سبیل اللہ” میں داخل ہے، اور اس پر وہی اَجر و ثواب مرتب ہوگا جو “فی سبیل اللہ” کے لئے موعود ہے تو اس کی یہ بات کیا بے جا ہے؟

میں میاں صاحب سے یہ پوچھتا ہوں کہ تبلیغی سفروں پر جانا تو آپ کے خیال میں “فی سبیل اللہ” میں داخل نہیں، لیکن “جہاد فی سبیل اللہ” کی وہ تین دفعات جو میں نے ذکر کی ہیں، کیا آپ نے ان کو پورا کرلیا ہے․․․؟

کیا ہمارے فوجی افسران کافروں کو یہ دعوت دیتے ہیں کہ تم بھی ہمارے دین میں داخل ہوکر ہمارے بھائی بن جاوٴ․․․؟

کیا یہ دعوت دی جاتی ہے کہ اگر اسلام قبول نہیں کرتے تو اسلامی نظام جو ہم نے قائم کر رکھا ہے، جزیہ دے کر اس کی ماتحتی قبول کرلو؟ اور کیا ہمارے ملک میں واقعتا اسلامی نظام نافذ بھی ہے جس کی ماتحتی کی کسی کافر قوم کو دعوت دے جائے․․․؟ جب تک آپ اسلامی نظام نہ قائم کرلیں، اس کی دعوت کیسے دیں گے؟ اور جب تک اس کی دعوت نہ دی جائے، اسلامی جہاد کیسے ہوگا؟ اور اس پر اسلامی جہاد کے فضائل کیسے مرتب ہوں گے؟ کیا میاں صاحب اس معمے کو حل فرمائیں گے․․․؟

اور مسواک کے بارے میں میاں صاحب نے جو گل افشانی فرمائی ہے، اس کا جواب خود ان کی تحریر کے آخر میں موجود ہے کہ:

“دُوسرے دن جوان اچھی طرح مسواک کرکے نہر میں اُترے تو تیسرا ٹینک بھی مل گیا۔”

اگر سنتِ نبوی (علیٰ صاحبہا الف الف صلوٰة وسلام) پر عمل کرنے سے مددِ خداوندی شاملِ حال ہوجائے تو اس پر ذرا بھی تعجب نہیں، اور جب تک مجاہدینِ اسلام سنتِ نبوی کے پابند نہ ہوں ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی نصرت و مدد نہیں ہوسکتی۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حالات اس کے شاہد ہیں، اور خود میاں صاحب نے جو واقعہ نقل کیا ہے وہ بھی اس کی روشن دلیل ہے، لیکن شاید میاں صاحب کے دِل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی کوئی اہمیت نہیں، اس لئے وہ اس صحیح واقعہ کو مذاق میں اُڑانا چاہتے ہیں، اور روایتی بڑھیا کی طرح باز کے پَر کاٹ دینا چاہتے ہیں، حق تعالیٰ شانہ فہمِ سلیم عطا فرمائیں۔
Post Reply

Return to “مذہبی مسائل اور انکے حل”